غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام بین الاقوامی غالب سمینار کی افتتاحی تقریب۱۹ دسمبر کوشام چھ بجے منعقدکی گئی جس میں محترمہ محسنہ قدوائی(ایم پی، راجیہ سبھا )کے دستِ مبارک سے غالب انعامات کی تقسیم عمل میں آئی۔ اس موقع پر شعبۂ اردو، لکھنؤ یونیورسٹی کے سابق صدر پروفیسر انیس اشفاق کو فخرالدین علی احمدغالب انعام برائے تحقیق و تنقید اور فارسی کے نامور اسکالر اورذاکر حسین کالج دہلی یونیورسٹی کے فارسی کے سابق اُستاد ڈاکٹرمحمد مرسلین کو فخرالدین علی احمد غالب انعام برائے فارسی تحقیق و تنقید ، جناب شفیع جاویدکو غالب ایوارڈ برائے اردو نثر ،جناب سلطان اختر کو غالب انعام برائے اردو شاعری، ہم سب غالب انعام برائے اردو ڈرامہ جناب اسلم پرویزاور بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعرپروفیسر ملک زادہ منظوراحمد کومجموعی ادبی خدمات کے لیے ایوارڈ سے سرفرازکیا گیا۔ ہرایوارڈ یافتگان کی خدمت میں غالب انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے ۷۵ہزار روپے اورمومنٹوپیش کیاگیا۔اس موقع پر راجیہ سبھا کی ممبر اور سابق مرکزی وزیر محترمہ محسنہ قدوائی نے فرمایاکہ مجھے آج ادیبوں اور شاعروں کو انعامات دیتے ہوئے خوشی ہورہی ہے۔ میں اس سمینار کے انعقاد پرغالب انسٹی ٹیوٹ کو مبارک باد پیش کرتی ہوں۔ قرۃ العین حیدر کے تعلق سے آپ نے فرمایاکہ انہوں نے ملک کی تہذیب کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا۔ہردورمیں کچھ لوگ ایسے پیدا ہوتے ہیں جواپنا نقش چھوڑ جاتے ہیں ایسی شخصیت قرۃ العین حیدرکی تھی جنہوں نے کئی نقش چھوڑے۔
جسٹس آفتاب عالم جو اس پروقار جلسہ کی صدارت فرمارہے تھے آپ نے اپنی صدارتی گفتگو میں کہاکہ قرۃ العین حیدر کوایک قاری کی حیثیت سے میں نے پڑھااور سمجھا ان کی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے قاری سے بے حد قریب تھیں اُن کو پڑھنے سے اس بات کابھی اندازہ ہوتاہے کہ وہ زندگی کا المیہ پیش کررہی ہیں، تہذیبوں کاتصادم، اور اقدارکی پائمالی اُن کا تحریر کاخاص پہلو تھا۔آپ نے اپنی گفتگو میں قرۃ العین حیدر کی کئی کتابوں کاذکر کرتے ہوئے کہاکہ آپ کی تمام تحریریں ہماری ذہنی تربیت میں کام آتی رہیں۔ممتازادیب و دانشور پروفیسرگوپی چند نارنگ نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ بیسویں صدی فکشن کے حوالے سے قرۃ العین حیدر کی صدی تھی۔ خصوصاً آپ کا ناول آگ کا دریاہماری تاریخ اور ہماری مشترکہ تہذیب کاایک خوبصورت دستاویز ہے۔ آپ کی تخلیقات کی ایک خوبصورتی یہ بھی ہے کہ ہر تخلیق کاکرداراپنی جگہ پر اہمیت کاحامل ہوتاہے۔اس موقع پر آپ نے قرۃ العین حیدر کے ناولوں اور افسانو ں کے کچھ اقتباسات بھی پیش کیے جس میں انہو ں نے زندگی میں معنویت پر روشنی ڈالی۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے مہمانوں کااستقبال کرتے ہوئے کہا کہ قرۃ العین حیدر ہماری بیسویں صدی کی اہم فکشن نگار تھیں، وہ عہد جس عہد میں قرۃ العین حیدر زندگی گزار رہی تھیں وہ اہم ترین عہد تھا۔انہوں نے جتنی بھی تخلیقات پیش کی اُس میں فلسفہ، تاریخ کی نمایاں جھلک نظر آتی ہے۔ ہمیں پوری امید ہے کہ اس سمینارمیں جو مقالے پیش کیے جائیں گے اس سے ہم قرۃ العین حیدرکی زندگی اور اُن کے فن کوبخوبی سمجھ سکیں گے۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر سید رضاحیدر نے افتتاحی تقریب کی نظامت کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کی سالانہ کارکردگی و ادبی سرگرمیوں کی تفصیلات اور مہمانان کا تعارف پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ اس غالب تقریبات کی خصوصیت یہ ہے کہ ۱۹۶۹ سے مسلسل ہم ان ہی تواریخ میں بین الاقوامی سمینار، مشاعرہ، شام غزل اور دیگر ثقافتی جلسوں کا اہتمام کرتے ہیں، آج کایہ جلسہ قرۃ العین حیدر کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں کیا جارہاہے جن کی تمام تخلیقات میں ملک کی تہذیب، تاریخ، ثقافت اور گنگا جمنی کلچرکی خوبصورت جھلک ملتی ہے۔اس اہم موقع پرمحترمہ محسنہ قدوائی(ایم پی، راجیہ سبھا )کے دستِ مبارک سے غالب انسٹی ٹیوٹ کی جن چند مطبوعات کی رسم رونمائی ہوئی اُن میں مرحوم پروفیسر حنیف نقوی کے مقالات کا مجموعہ’’غالب کے فارسی خطوط‘‘،ڈاکٹر شمس بدایونی کی کتاب ’’تفہیم غالب کے مدارج‘‘، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کی کتاب ’’ترقی پسند شعری روایت اور علی سردار جعفری‘‘ ، غالب نامہ کے دونوں شمارے(جولائی۲۰۱۵،جنوری ۲۰۱۶) کے علاوہ غالب انسٹی ٹیوٹ کی سال۲۰۱۶ء کی ڈائری،کلینڈر کارسمِ اجراء عمل میں آیا۔
آخر میں ادارے کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سید رضاحیدر نے تمام سامعین کااور مہمانان کا شکریہ ادا کیا۔سمینار کی افتتاحی تقریب کے اختتام پر مشہور و معروف غزل سنگر جناب امریش مشرانے غالب کی غزلیں پیش کیں۔ اس موقع پر دہلی وبیرونِ دہلی کے یونیورسٹی کے اساتذہ، طلبا، ریسرچ اسکالرز، مہمان مقالہ نگار،شعرا،ادبا کے علاوہ مختلف علوم و فنون کے افراد کثیر تعداد میں موجود تھے۔
سمینار کے دوسرے دن کے پہلے اجلاس میں پانچ مقالے پڑھے گئے ۔پہلا مقالہ جوڈاکٹر کشمیری لال ذاکر کا تھاجس میں مقالہ نگار نے قرۃ العین حیدرسے اپنی ملاقات کی روداد بیان کی ہے۔اس مقالہ کو ڈاکٹر سہیل انور نے پڑھا۔دوسرا مقالہ ڈاکٹر مشتاق صدف نے ’’ مشترکہ تہذیب اور رواداری کی علامت اور عینی آپا‘‘ کے عنوان سے پیش کیا جس میں آپ نے ہندستان کی موجودہ صورت حال کو قرۃ العین حیدرکی تحریروں اور اقتباسات کے سیاق و سباق میں دیکھنے کی کوشش کی۔اس اجلاس کے تیسرے مقالہ نگار جامیہ ملیہ اسلامیہ شعبہ ہندی کے استاد ڈاکٹررحمان مصورنے پیش کیا۔ آپ نے اپنے مقالے میں اس بات پر زور دیاکہ وہ کون سے محرکات تھے جس کی بنیاد پر قرۃ العین حیدرنے ’’آگ کا دریا‘‘ جیسا شاہکار ناول تحریر کیا۔معروف فکشن نقاد ڈاکٹر خالد اشرف نے اپنا مقالہ قرۃ العین حیدرکے ناول ’’گردشِ رنگِ چمن‘‘ کے تعلق سے پیش کیا۔ اس اجلاس کے آخری مقالہ نگارعہد حاضر کے ممتاز نقاد پروفیسر عتیق اللہ تھے۔ آپ نے اپنے مقالے میں اس بات پر زور دیاکہ قرۃ العین حیدر اپنی تخلیقات میں کم از کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ باتیں پیش کرتی تھیں۔ اور انہوں نے جو کچھ بھی لکھاعام روایات سے ہٹ کر لکھا۔ اس اجلاس میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے ڈاکٹر اطہرفاروقی نے بھی اپنے خیالات کااظہار کیا۔اجلاس کے صدر پروفیسر شریف حسین قاسمی نے اپنی صدارتی گفتگو میں قرۃ العین حیدرکے ناولوں میں جو تاریخی حقائق ہیں اُس پر گفتگو کی۔ سمینار کا دوسرا اجلاس جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر سید شاہد مہدی کی صدارت میں ہوا اس جلاس میں پاکستان کے اہم دانشور ڈاکٹر مرزاحامدبیگ مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے موجود تھے۔ دوسرے اجلاس میں جامعہ ملیہ اسلامیہ شعبہ اردو کے صدرپروفیسر وہاج الدین علوی نے اپنے مقالے میں قرۃ العین حیدرکے رپورتاژاور دیگر تخلیقات پرتفصیل کے ساتھ اپنے خیالات کااظہارکیا۔دوسرے مقالہ نگار پروفیسر صادق نے اپنی گفتگو میں قرۃ العین حیدر سے جو ان کے علمی روابط تھے اس پر گفتگوکی۔آپ نے اپنی گفتگو میں اس بات پرزوردیاکہ قرۃ العین حیدرکے قارئین کی تعداد اردوکے علاوہ دوسرے ادب میں بھی بڑی تعداد میں موجود ہے۔ معروف افسانہ نگار رتن سنگھ نے بھی اپنے مقالہ میں قرۃ العین حیدر کی تخلیقات کے کرداروں پربحث کی۔اس اجلاس میں پروفیسر مرزاحامد بیگ اور سید شاہد مہدی نے بھی قرۃ العین حیدر کے فن اوران کی زندگی کے تعلق سے اہم نکات پر روشنی ڈالی۔
تیسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر قاضی افضال حسین نے کی اور اس اجلاس میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے جرمنی سے تشریف لائے مہمان ادیب و شاعرعارف نقوی موجود تھے اس اجلاس میں ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری، ڈاکٹرخالد علوی، پروفیسر غضنفر علی اور پروفیسر حسین الحق نے پُرمغز مقالات پیش کیے۔ سمینار کے دوسرے دن کے آخری اجلاس میں موریشس کی اسکالر نازیہ بیگم جافو،ڈاکٹر جمیل اختر،اور پروفیسر ابنِ کنول نے مقالات پیش کیے۔ اس اجلاس کی صدارت پروفیسر قاضی جمال حسین نے کی اور مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین موجود تھے۔ان چاروں اجلاس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں قرۃ العین حیدر کی زندگی کے کچھ ایسے پہلوؤں پربھی ہمارے مقالہ نگار حضرات نے روشنی ڈالی جواب تک پوشیدہ تھے۔ اور ساتھ ہی ان کی تخلیقات کے تعلق سے بھی چند نئے مباحث بھی وجود میں آئے۔ سمینار کے بعد ایک عالمی مشاعرہ کااہتمام کیا گیا جس کی صدارت عہد حاضر کے نامور شاعر ملک زادہ منظور نے کی اور نظامت کا فریضہ معین شاداب نے انجام دیا۔ اس مشاعرہ میں ملک کے ممتاز شعرانے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔
بین الاقوامی غالب سمینار کے تیسرے دن کے پہلے اجلاس میں پانچ مقالے پڑھے گئے ۔پہلا مقالہ اُدے پور سے تشریف لائی مہمان اسکالر ڈاکٹر ثروت خان کاتھا۔جنہوں نے اپنے مقالہ میں حالاتِ حاضرہ کے تعلق سے قرۃ العین حیدرکی تحریروں کو سمجھنے کی کوشش کی۔ڈاکٹر ترنم ریاض نے اپنے مقالہ میں قرۃ العین حیدر کا شاہکارناول ’’آگ کا دریا‘‘ کے تعلق سے اپنی گفتگو میں اس بات کااظہارکیاکہ قرۃ العین حیدرکی تحریروں کوموجودہ منظرنامہ میں ہمیں دیکھنے کی سخت ضرورت ہے۔ پروفیسر شافع قدوائی نے قرۃ العین حیدرکے افسانے ’’ایک شام‘‘ کے تعلق سے اپنی گفتگو میں ان کی تخلیقات کا فنی جائزہ پیش کرتے ہوئے اُس افسانے کے امتیازات پر تبصرہ کیا۔اجلاس کے آخری مقالہ نگار پروفیسر قاضی جمال حسین نے قرۃ العین حیدرکے ناولٹ ’’سیتاہرن‘‘کاخوبصورت تجزیہ پیش کرتے ہوئے اس بات پر زور دیاکہ اُن کی اس تخلیق میں بالادستی اورزیردستی کے جنگ کی کشمکش ہے۔
اس اجلاس کے صدارتی فریضہ کو انجام دیتے ہوئے پروفیسر صغیرافراہیم نے تمام مقالات پر اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے فرمایاکہ یہ تمام مقالات نہایت ہی پُرمغز اور عالمانہ تھے اور ہمیں اُمید ہے کہ جب یہ کتابی شکل میں شائع ہوں گے تو ہم قرۃ العین حیدر کی زندگی اور فن کو بخوبی سمجھ سکیں گے۔ڈاکٹر علی جاوید نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے اپنی گفتگو میں تمام مقالہ نگار حضرات کو ان کے عمدہ مقالے پر مبارک باد پیش کیا۔ دوسرے اجلاس کا پہلا مقالہ عہد حاضر کے اہم افسانہ نگار ڈاکٹر خالد جاویدکا تھاجنہوں نے قرۃ العین حیدرکی تخلیق ’’کارجہاں دراز ہے‘‘ کے حوالے سے اُن تمام کرداروں پر روشنی ڈالی جو اُن کی اس تخلیق کے مرکزی کردار تھے۔ آپ نے اس بات کا بھی اشارہ کیاکہ قرۃ العین حیدرکی تحریر کوہمیں علامہ اقبال کی تحریروں کے تناظرمیں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔پروفیسر طارق چھتاری نے قرۃ العین حیدرکے افسانوی اُسلوب پر گفتگو کرتے ہوئے اس بات پر زور دیاکہ قرۃ العین حیدرکے اُسلوب میں ہمیں جوروشنی دکھائی دیتی ہے وہ اُن کے اسلوب کاخاصہ ہے۔اس اجلاس میں پاکستان سے تشریف لائے ممتاز فکشن ناقد پروفیسر مرزاحامدبیگ نے بھی قرۃ العین حیدرکی تحریروں میں جووقت کاتصور ہے اس پر نہایت ہی عالمانہ مقالہ پیش کیا۔پروفیسر عبدالصمد نے اپنی گفتگو میں اس بات پر زور دیاکہ قرۃ العین حیدر پرلکھنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم ان کی تحریروں کامطالعہ کریں۔اجلاس کے آخری مقالہ نگار پروفیسر قاضی افضال حسین نے قرۃ العین حیدرکاناول ’’آگ کا دریا‘‘ پرناقدانہ گفتگو کرتے ہوئے اُس ناول کاعلمی تجزیہ پیش کیا۔ اس اجلاس میں پروفیسر شافع قدوائی مہمان خصوصی کی حیثیت سے موجود تھے اور صدارتی کلمات پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے پیش کیا۔ اس بین الاقوامی سمینارکا آخری اجلاس پروفیسر حامدبیگ کی صدارت میں ہوا اور مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر انورپاشاکو زحمت دی گئی تھی۔ اس اجلاس میں پروفیسر صغیرافراہیم، پروفیسر معین الدین جینابڈے اورمشرف عالم ذوقی نے اپنے مقالے پیش کیے۔آج کے تینوں اجلاس میں ڈاکٹر ریحانہ سلطانہ،ڈاکٹر محمد کاظم اورڈاکٹر ممتاز عالم رضوی نے ناظم کی حیثیت سے اپنے فرائض کو انجام دیا۔سمینار کے اختتامی اجلاس کی صدارت پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کی اور مہمان خصوصی کی حیثیت سے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر پروفیسر ارتضیٰ کریم موجود تھے۔ اس اجلاس میں پروفیسر مرزاحامدبیگ، پروفیسر عبدالصمد، پروفیسر حسین الحق اور ڈاکٹر جمیل اخترنے سمینار کے تعلق سے مجموعی طورپر گفتگو کی۔ خصوصاً پروفیسر ارتضیٰ کریم نے اپنی تقریر میں قرۃ العین حیدرکی تمام تخلیقات کا مختصراً جائزہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ قرۃ العین حیدرکا فن، تہذیب، ثقافت اور تاریخ سے عبارت ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ اُن کو ’’قرۃ العین ادیب‘‘ کی مصنّفہ سے موسوم کرنا چاہیے۔ اس سمینار کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ اس میں ۳۵سے زیادہ مقالہ نگاروں نے قرۃ العین حیدرکے ناول، ناولٹ، افسانے، رپورتاژ اور سفرمے پر عالمانہ گفتگو کی۔ سمینار میں دلّی اور بیرونِ دلّی کے اساتذہ، ریسرچ اسکالرز اور مختلف علوم وفنون کے افرادبڑی تعداد میں موجود تھے۔ سمینار کے اختتام کے بعد مشہور ڈرامہ ’’غالب کی واپسی دکھایاگیا۔ اس سمینار میں مختلف یونیورسٹیوں سے موجود ریسرچ اسکالرز کو کتابوں کا تحفہ اور سرٹیفکیٹ پیش کیا گیا۔
تیسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر قاضی افضال حسین نے کی اور اس اجلاس میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے جرمنی سے تشریف لائے مہمان ادیب و شاعرعارف نقوی موجود تھے اس اجلاس میں ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری، ڈاکٹرخالد علوی، پروفیسر غضنفر علی اور پروفیسر حسین الحق نے پُرمغز مقالات پیش کیے۔ سمینار کے دوسرے دن کے آخری اجلاس میں موریشس کی اسکالر نازیہ بیگم جافو،ڈاکٹر جمیل اختر،اور پروفیسر ابنِ کنول نے مقالات پیش کیے۔ اس اجلاس کی صدارت پروفیسر قاضی جمال حسین نے کی اور مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین موجود تھے۔ان چاروں اجلاس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں قرۃ العین حیدر کی زندگی کے کچھ ایسے پہلوؤں پربھی ہمارے مقالہ نگار حضرات نے روشنی ڈالی جواب تک پوشیدہ تھے۔ اور ساتھ ہی ان کی تخلیقات کے تعلق سے بھی چند نئے مباحث بھی وجود میں آئے۔ سمینار کے بعد ایک عالمی مشاعرہ کااہتمام کیا گیا جس کی صدارت عہد حاضر کے نامور شاعر ملک زادہ منظور نے کی اور نظامت کا فریضہ معین شاداب نے انجام دیا۔ اس مشاعرہ میں ملک کے ممتاز شعرانے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔
بین الاقوامی غالب سمینار کے تیسرے دن کے پہلے اجلاس میں پانچ مقالے پڑھے گئے ۔پہلا مقالہ اُدے پور سے تشریف لائی مہمان اسکالر ڈاکٹر ثروت خان کاتھا۔جنہوں نے اپنے مقالہ میں حالاتِ حاضرہ کے تعلق سے قرۃ العین حیدرکی تحریروں کو سمجھنے کی کوشش کی۔ڈاکٹر ترنم ریاض نے اپنے مقالہ میں قرۃ العین حیدر کا شاہکارناول ’’آگ کا دریا‘‘ کے تعلق سے اپنی گفتگو میں اس بات کااظہارکیاکہ قرۃ العین حیدرکی تحریروں کوموجودہ منظرنامہ میں ہمیں دیکھنے کی سخت ضرورت ہے۔ پروفیسر شافع قدوائی نے قرۃ العین حیدرکے افسانے ’’ایک شام‘‘ کے تعلق سے اپنی گفتگو میں ان کی تخلیقات کا فنی جائزہ پیش کرتے ہوئے اُس افسانے کے امتیازات پر تبصرہ کیا۔اجلاس کے آخری مقالہ نگار پروفیسر قاضی جمال حسین نے قرۃ العین حیدرکے ناولٹ ’’سیتاہرن‘‘کاخوبصورت تجزیہ پیش کرتے ہوئے اس بات پر زور دیاکہ اُن کی اس تخلیق میں بالادستی اورزیردستی کے جنگ کی کشمکش ہے۔
اس اجلاس کے صدارتی فریضہ کو انجام دیتے ہوئے پروفیسر صغیرافراہیم نے تمام مقالات پر اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے فرمایاکہ یہ تمام مقالات نہایت ہی پُرمغز اور عالمانہ تھے اور ہمیں اُمید ہے کہ جب یہ کتابی شکل میں شائع ہوں گے تو ہم قرۃ العین حیدر کی زندگی اور فن کو بخوبی سمجھ سکیں گے۔ڈاکٹر علی جاوید نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے اپنی گفتگو میں تمام مقالہ نگار حضرات کو ان کے عمدہ مقالے پر مبارک باد پیش کیا۔ دوسرے اجلاس کا پہلا مقالہ عہد حاضر کے اہم افسانہ نگار ڈاکٹر خالد جاویدکا تھاجنہوں نے قرۃ العین حیدرکی تخلیق ’’کارجہاں دراز ہے‘‘ کے حوالے سے اُن تمام کرداروں پر روشنی ڈالی جو اُن کی اس تخلیق کے مرکزی کردار تھے۔ آپ نے اس بات کا بھی اشارہ کیاکہ قرۃ العین حیدرکی تحریر کوہمیں علامہ اقبال کی تحریروں کے تناظرمیں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔پروفیسر طارق چھتاری نے قرۃ العین حیدرکے افسانوی اُسلوب پر گفتگو کرتے ہوئے اس بات پر زور دیاکہ قرۃ العین حیدرکے اُسلوب میں ہمیں جوروشنی دکھائی دیتی ہے وہ اُن کے اسلوب کاخاصہ ہے۔اس اجلاس میں پاکستان سے تشریف لائے ممتاز فکشن ناقد پروفیسر مرزاحامدبیگ نے بھی قرۃ العین حیدرکی تحریروں میں جووقت کاتصور ہے اس پر نہایت ہی عالمانہ مقالہ پیش کیا۔پروفیسر عبدالصمد نے اپنی گفتگو میں اس بات پر زور دیاکہ قرۃ العین حیدر پرلکھنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم ان کی تحریروں کامطالعہ کریں۔اجلاس کے آخری مقالہ نگار پروفیسر قاضی افضال حسین نے قرۃ العین حیدرکاناول ’’آگ کا دریا‘‘ پرناقدانہ گفتگو کرتے ہوئے اُس ناول کاعلمی تجزیہ پیش کیا۔ اس اجلاس میں پروفیسر شافع قدوائی مہمان خصوصی کی حیثیت سے موجود تھے اور صدارتی کلمات پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے پیش کیا۔ اس بین الاقوامی سمینارکا آخری اجلاس پروفیسر حامدبیگ کی صدارت میں ہوا اور مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر انورپاشاکو زحمت دی گئی تھی۔ اس اجلاس میں پروفیسر صغیرافراہیم، پروفیسر معین الدین جینابڈے اورمشرف عالم ذوقی نے اپنے مقالے پیش کیے۔آج کے تینوں اجلاس میں ڈاکٹر ریحانہ سلطانہ،ڈاکٹر محمد کاظم اورڈاکٹر ممتاز عالم رضوی نے ناظم کی حیثیت سے اپنے فرائض کو انجام دیا۔سمینار کے اختتامی اجلاس کی صدارت پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کی اور مہمان خصوصی کی حیثیت سے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر پروفیسر ارتضیٰ کریم موجود تھے۔ اس اجلاس میں پروفیسر مرزاحامدبیگ، پروفیسر عبدالصمد، پروفیسر حسین الحق اور ڈاکٹر جمیل اخترنے سمینار کے تعلق سے مجموعی طورپر گفتگو کی۔ خصوصاً پروفیسر ارتضیٰ کریم نے اپنی تقریر میں قرۃ العین حیدرکی تمام تخلیقات کا مختصراً جائزہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ قرۃ العین حیدرکا فن، تہذیب، ثقافت اور تاریخ سے عبارت ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ اُن کو ’’قرۃ العین ادیب‘‘ کی مصنّفہ سے موسوم کرنا چاہیے۔ اس سمینار کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ اس میں ۳۵سے زیادہ مقالہ نگاروں نے قرۃ العین حیدرکے ناول، ناولٹ، افسانے، رپورتاژ اور سفرمے پر عالمانہ گفتگو کی۔ سمینار میں دلّی اور بیرونِ دلّی کے اساتذہ، ریسرچ اسکالرز اور مختلف علوم وفنون کے افرادبڑی تعداد میں موجود تھے۔ سمینار کے اختتام کے بعد مشہور ڈرامہ ’’غالب کی واپسی دکھایاگیا۔ اس سمینار میں مختلف یونیورسٹیوں سے موجود ریسرچ اسکالرز کو کتابوں کا تحفہ اور سرٹیفکیٹ پیش کیا گیا۔