Print Friendly, PDF & Email

غالب اور وفاکا تصوّر

ظ۔انصاری

غالب اور وفاکا تصوّر

دہر میں نقش وفا وجہِ تسلّی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ، جو شرمندہ معنی نہ ہوا
دیوان اردو کے شروع کی غزلوں میں یہ شعر آتاہے اور یہ اس قدر مشہور ہے کہ پڑھنے والے اس پر سے سرسری گزر جاتے ہیں، حالاں کہ اگر غالب کی پوری زندگی، پورے کلام اور گہری سوچ کے پورے اُتار چڑھاو¿ کو اوّل تاآخر غور سے دیکھا اور جانچا جائے تو اس شعرکوبھی شروع سے آخر تک پھیلایا جاسکتاہے؛ یہاں تک کہ ہم اِسے اُن کاآخری شعربھی کہہ سکتے ہیں۔ ’نقشِ وفا“ ”شرمندہ¿ معنی“ ضرورہوا،لیکن ہر سطح اورہر ایک صورتِ حال میں اس کے معانی بدلتے گئے۔اِس درجہ بدلتے گئے کہ عام فہوم میں وہ اپنے مقررّہ معانی سے محروم ہوگیااوربالآخر پتاچلاکہ سوالیہ علامتوں کے درمیان اور اُن کے ساتھ بسر کرنے والا ہمارایہ عظیم شاعر ”وفا“ کے طے شدہ تصوّر کو ”وجہِ تسلّی “ نہیں سمجھتا۔
آگے کی غلط فہمی سے بچاو کی خاطر،اور راے عامّہ کی رعاتی کرتے ہوئے، یہیں اتنا کہتے چلیں کہ ”وفا“ کوفی الحال نہ Loyaltyکالفظ پورا پڑتاہے، نہ Faithfulnessکا، Devotionکا، اور نہ Total Commitmentکا، البتّہ یہ تینوں پرحاوری ہے۔ بے وفائی کا مطلب غدّاری یابے ایمانی بھی نہیںہے۔ نہ یہ فکری سطح پربے ایمانی کے مرادف ہے۔بلکہ یہ ایک رویّہ ہے فرماں برداری اور سعادت مندی کے برعکس۔ مان لینے اور تسلّی پانے کے برخلاف؛ اس میں خیال اور برتاو کا مسلسل تغیّر، لگاتار اَدَل بدل، ترمیم اور ردّوقبول کی پے در پے کشمکش شامل ہے۔
یوں دیکھےے تو بلاخوفِ تردید کہا جاسکتاہے کہ غالب بے وفاشخص، ایک بے وفا شاعر، بے وفا فنکار ہے۔ زندگی کی آزمائش میں پورااترنے کے سوااس کے نزدیک ”وفا“ کا کوئی تصور نہیں؛ وفاداری کووہ آدمی کے زندہ، توانااور داناوجودکے لےے بے معنی قرار دیتاہے۔
آگرے میں آنکھ کھولی توباپ، چچااور نانا سب کے سب فوجی افسر تھے۔ باپ شاہ عالم کی نکمّی فوج میں رسالداری کر رہے ہیں، کل حیدرآباد جاکر نظام الملک کے ہاں تین سو سواروں کے افسر، تین برس بعدمہاراجہ الورکی فوج میں اور وہیں مارے گئے۔
”در خاک راج گڑھ پدرم را بود مزار“ (قصیدہ ۵۸۵)
چچاکاحال بھی معلوم ہے۔ مراٹھا راج کی طرف سے آگرے کے صوبیدارہیں، اور جیسے ہی دیکھتے ہیں کہ جنرل لارڈلیک کافوجی پلّہ بھاریہے،وہ شہرکو دشمن کے حوالے کرکے پنا منصب بچا لیتے ہیں۔
آگرے پرلارڈلیک کے طوفانی حملے سے پہلے کشمیری رئیس غلام حسین اپنی بیٹی مراٹھوں کے مغل صوبیدارنصراللہ بیگ کے بھائی سے بیاہ دیتے ہیں اور خودبھی پہلے مغلوںسے، پھر مراٹھوں سے اورپھر فوراً انگریزوں سے معاملہ کرلیتے ہیں۔ پہلے وہ مراٹھوں کی طرف سے کمیدان Commandantتھے؛ بعدمیں انگریزوں نے ان کی جاگیر بحال رکھی۔ یہ وہ نانا ہیں جن کے گھرمیں تبداللہ بیگ کا یتیم پلابڑھا۔
جن لڑوں کے ساتھ غالب کااٹھنابیٹھنا، پتنگیں لڑانا، پینگیں بڑھانا معمول تھاان میں مہاراجہ بنارس، چیت سنگھ کے جلاوطن وارث کنور بلوان سنگھ شامل ہیں۔جن کے بزرگوں نے شاہِ اودھکے زیرسایہ رہتے ہوئے اندرخانہ ایسٹ انڈیا کمپنی سے معاملہ کرلیاتھا،یہاں تک کہ آگے چل کر، جب وارن ہیسٹٹنگز کے چھوٹے سے لشکرکواہلِ بنارس نے مارپیٹ کرختم کردیاتو ہیسٹٹنگزکوبمشکل زندہ سلامت رکھابلکہ ایک بڑی رقم سے خفیہ طورپر مدد بھی کی۔
ننھیال اور ددھیال اور ہم عمر عزیوں کی حویلیوں میں یتیم، مگر نازپروردہ اسداللہ یہ سب دیکھتا، سنتااور سوچتاہوگا،اثر لیتاہوگا۔ جس خاندان میں شادی ہوئی، وہاں بزرگ خاندان مغل شاہی منصبدار فخرالدولہ نواب احمد بخش خاں اپنی چھوٹی سی میواتی ریاست سنبھالنے کی خاطر انگریز کمپنی کے جنگ جو مہم پسندوں سے معاملہ کرلیتاہے اورحملہ آوروں کے اشارے بلکہ سپورٹ سے بھرت پورریاست پراچانک حملہ کردیتاہے۔ بھرت پور کی لوٹ اور حصّے بخرے میں اُسے بھی جاگیر انعام ملتی ہے۔ کمپنی دہلی کے نواح میںاپنے ایک طاقتور مخالف، راجہ بھرتپورکو کچل ڈالتی ہے۔
سسرال کاسب سے باعزت امیرخوداپنے قریبی رشتہ دار عبداللہ بیگ اور نصراللہ بیگ کے وارثوں کے نام کی جاگیر صاحب ایجنٹ سے مل کراپنی جاگیرمیں ملالیتاہے۔ اور لڑکوں لڑکیوں کاحق مارنے میں دریغ نہیں کرتا۔ وہ بھی جب اسداللہ کااس کی بھتیجی سے رشتہ طے ہوچکاہے۔
چودہ پندرہ برس کی عمر سے،شادی کے بعد غالب کا مستقل ٹھکانا سسرالی عزیزوں، یا لوہارو والوں میں ہوگیا۔ ان کا منچلا برادرِ نسبتی، جوبیوی کا سوتیلابھائی تھا،نواب شمس الدین، ظاہر ہے کہ یوں ہی دوسرے بھائیوں سے بگڑا ہواتھا، مرزا نوشہ کو کیا خاطر میں لاتاجو باپ دادا کے گھرسے کوئی جاگیر بھی نہ رکھتے تھے اوراپنا حق جتاتے تھے۔ سسرال میں اوّلین دشمن انہیں وہی نظر آیا۔ او ریہ ذاتی دشمن ایسا تھاکہ ایک طرف سپرنٹنڈنٹ ولیم فریزرکواپنے باپ فخرالدولہ کے رشتے سے چچا کہتاتھا، دوسری طرف اس کے قتل کی سازش کی اور قتل کرادیا۔ جس کی سرگوشیاں قریب کے عزیزوں میںہوتی ہوں گی۔غالب کے کان تک بھی ضرور پہنچی ہوں گی اور پھر انہیں دنوں انگریز سٹی مجسٹریٹ کا لوہارو والوں کے داماد مرزانوشہ کے گھر آنا جانا۔ عجب نہیں کہ دلّی والوں میں جو افواہ غالب کے مخبرہونے کی پھیلی، اس میں کسی قدر سچائی بھی ہو۔وہ اپنے حصے کی جاگیر کا روپیہ کمپنی کے سرکاری خزانے سے طلب کر رہے تھے۔
اسی وسیع اور پے چیدہ منظر میں نوعمراسداللہ، اور بعدکے مرزانوشہ کی اٹھان کازمانہ اور ماحول بٹی ہوئی وفاداریوں، بدلتی ہوئی وفاداریوں سے پارہ پارہ ہے۔ جوان امیرزادے کے پاو¿ں تلے ریتیلی زمین ہے،اور جدھر نظر اٹھتی ہے اُدھر باربار بدلتاہوا منظر۔ اوروں کی طرح، اپنی پائدار حیثیت اور ہم چشمو ںمیں عزت آبرو بنائے رکھن کی خاطر مرزانوشہ کو وفاداری کے تصوّر میں ضرور جھول نظر آتا ہوگا۔
”وفا“ پہلے قبائلی اور پھر جاگیرداری نظا کا کلیدی لفظ رہا ہے۔ وفاکس سے؟ خاندان سے، قبیلے سے، جس کا نمک کھایااُس سے، جس ذات یا برادری، یا جاتی میںجنم لیا، پَلے بڑھے، اُس سے۔ جس دھرتی کو بویا جوتااُس سے۔ جو مذہب، عقیدہ یا سنسکار اوپرسے ملااُس سے؟ رہن سہن، پیشہ و توشہ، طور رطریقے سے وفا؟ ایک حال پر صدیوں چلنے والے سماج کے لےے یہ وفاداری بیچ کی کیلی تھی جس نے اپنے بندھن پکّے پکڑے تھے۔ لیکن وقت کی رفتار نے جب چال بڑھائی، ہندسستانی بھی وسطی دَور سے نکل کر مَرکنٹائل رشتوں کی طرف پہلے بڑھا،پھر لپکااور اس نے بوژوازی کے اقتدار کے لےے راہ بنانی شروع کی تو ذات برادری، گاو¿ں گراو¿ں کے رشتے ڈھیلے پڑے رعیت اور مزارع شہری کاروبار کی جانب بڑھنے کو آزادہوئے۔ پچھلی دو صدیوں کی معاشی سماجی سرگرمیوں کاچارٹ دیکھتے چلے جائےے تو یہ عقدہ کھلے گاکہ وفاداریوں کی گڑھیاں ڈھیتی چلتی گئیں اور کمرشیل دولت اندوزی کے اِنڈسٹریل پیداوار میں لگنے سے وفاکا تصورایسا بدلاکہ ٹھیک ایسے وقت جب ۷۵۸۱ءمیں ہندوستانی زبان کاعلاقہ جنگ آزادی کے شعلوں میں لپٹا ہواتھا، بمبئی، کلکتہ اور مدراس کی پری سی ڈینسیوں میں کارخانے اور کالج کھولے جارہے تھے اور یونیورسٹیاںقائم ہورہی تھیں۔ ہندوستانی سرمایہ کھلے بندوں ایسٹ انڈیا کمپنی کے سرمائے اور سرگرمی سے ہم آغوش ہورہاتھااوراس بالکل شروع کی Multinational سرمایہ کاری میں کوئی شرم کی بات بھی نہ تھی۔یہ صرف موٹی سی مثال ہے وفا کے مقررہ اور قدیم تصور کی ہولناک شکست کی۔ ۷۵ءکے بعدکے چالیس پچاس برس بعد تک جو ہوتارہاوہ کل کی سی بات ہے۔ بزرگوں کی نظراور کالج کے دَرنے ہمیں اس کا علم دے رکھاہے اسے بھی نظر میں رکھےے۔
۰۳برس کے غالب دہلی سے نکلتے ہیں۔ لکھنو ٹھیرتے ہیں۔ منزل کلکتہ کاگورنر جنرل سکریٹریٹ ہے۔ لیکن تھمتے ہوئے جارہے ہیں۔ لکھنو¿ میں صفات کاوہ مجموعہ جسے ”مشرقی“ کہتے ہیں کن کن صورتوں میں اُن صفات کے مجموعے سے سنگم بنارہاتھا جسے ’مغربی“ کے لیبل سے پہچانا جاتا ہے۔ کمپنی نے نواب سعادت علی خاں کے زمانے سے غالب کی آمدیاغازی الدین اور نصیرالدین حیدرکی براے نام ”شاہی“ حکومت سے کروڑوں روپیہ ہی سودی قرض نہیں لے رکھا تھابلکہ کاری گری دستکاری اور فنکاری کوبھی متاثر کیاتھا۔(اس پہلوپر تفصیل سے لکھا جاچکاہے)
لکھنو¿ کی اس دھوپ چھاو¿ں، فضااور طاقت کی دوعملی نے بھی یقینا غالب کوکافی کچھ سجھایاہوگا۔ پھر بنارس، ”عبادت خانہ ناقوسیاں اور کعبہ¿ ہندوستاں“ کا تفصیلی نظارہ، پھر باندہ کی طرّرار اور سُست رفتار نوابی، جو ۷۵ءمیں باغیوں کی چھاو¿نی بنی]اور نواب کو پھانسی دی گئی[عظیم آباد پٹنہ تو ۱۶۷۱ئ ۵۶۷۱ءکے معاہدوں میں ہی ایسٹ انڈیا کمپنی کے راج دُلاروں کی شکارگاہ بن چکاتھا۔ اور بالآخر کلکتہ جہاں گورنر جنرل کے محل کے سامنے ایران کا سفارت خانہ اور مدرسہ¿ عالیہ براجمان تھے۔ کلکتے سے غالب کے جوان، اثرپذیر اور زودرنج ذہن نے کیاسیکھا، کیا سمجھا،اس پراوروں نے کافی لکھاہے۔ ڈھائی برسکایہ غرضمندانہ بلکہ آرزومندانہ سفر جو”تَن کا سفر“ ہی نہیں، ’مَن“ کا سفر بھی تھا، جسمانی نہیں ،ذہنیسفر بھی ثابت ہوا،اوراس نے نئے قسم کے ایڈمنسٹریشن کی بے دردی اور وفاکے ہرتصورسے ناآشنائی اُن پر روشن کردی۔ یہاں برسبیلِ تذکرہ ان کے د و غیر معروف شعر نقل کرنابے محل نہ ہوگا:
آں کہ جوید از تو شرم و آں کہ خواہد از تو مہر
تقویٰ از مے خانہ و داد از فرنگ آرد ہمی
یا کلکتہ کے تاثرات پر ان کا قطعہ(۰۱)جویوں ختم ہوتاہے:
گفتم از بہرداد آمدہ ام گفت بگریز و سَر بسنگ مزن
غالب ۰۳۸۱ءمیں بکھرے ہوئے اپنے گھر لوٹ ےہیں۔ یہاں انگریزی تعلیم کی شروعات ہے۔ انگریزی علم و دانش کاچرچااوراس کے خلاف علوم قدیمہ سے وفاداری کا محاذ گرم ہے۔ اُدھر سے زمین کے گول ہونے اور زمین کے گھومنے کی خبر گھوم رہی ہے، اِدھر مولوی فضل حق خیرآبادی، غالب کے بزرگ دوست ”ابطال حرکة الارض“ تصنیف فرمارہے ہیں۔ شاہ ولی اللّہی مجاہدین کی جماعت میں فدائیوں کی سروسامان کی اور چندے کی رقموںکی ریل پیل ہے۔وہ تحریک جس کی موجودہ صورت کو آج کل Fundamentalکہا جاتاہے۔ غالب کے کئی ہم عصر اور ہم سَر اس تحریک کے ہمدرد ہیں یااس تحریک کے ہمنوا ہیں، مثلاً حکیم مومن خاں؛اس کے سیاسی پہلو سے ہمدردی، مگر ذہنی اور نظریاتی پہلو سے شدید اختلاف رکھتے ہیں مثلاً مفتی صدرالدین آزردہ، غالب کو مولوی فضل حق اپنے پروپگینڈے کاایک ہتھیار بنانا چاہتے ہیں، مروّت میں غالب پیچھے پیچھے ہولیتے ہیں، لیکن نتیج میں اُلٹی بات کہہ جاتے ہیں۔ ڈانٹ سن کر پھر اسے سیدھا کرتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے ک دانستہ یا نادانستہ ذہن ”غیر مقلدوں“ کی طرف جاتاہے یا نسبتہً آزادانہ بھٹکتا ہے۔
اتنی بڑی مذہبی سماجی تحریک جو دینی عقائدکی اصلاح کے ساتھ ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی کی اَندادُھند معاشی لوٹ کا توڑ کرنے کے لےے اٹھی تھی، پنجاب کی سکھ حکومت کے خلاف کس ہوشیاری سے موڑ دی گئی وار پھر دوتین سال میں خود ٹوٹ پھوٹ کربرابر ہوگئی۔ یہ غالب کی جوانی کے زمانے کا، اُن کی دہلی کا، ان کے طبقے کااور ماحول کااتنا زبردست ہیجان انگیز واقعہ تھاجو کہ کم و بیش دس برس دہلی سے کلکتہ تک گونجتارہامگر ان کے ہاں اس سے نہ وابستگی ملتی ہے،نہ نابستگی۔ دو راز کارچنداشارے ہیں، مثلاً:
عشرتِ قتل گہِ اہلِ تمنّا مت پوچھ
عید نظّارہ ہے شمشیر کا عُریاں ہونا
اُن دنوں ،اپنے بیان کے مطابق، وہ پچاس ہزارکے مقروض ہیں۔ گھر بیچا، زیور بیچا،اور کیا بیچا، کیسے قرض اداکیا،کیابھی یانہیں، ہمیں نہیں معلوم، صرف یہ معلوم ہے کہ ایک بار مقروض ہونے کی بناپر گرفتار ہوئے، دوسری بار خلافِ قانون جُوا کھیلنے اور جُوا کھلانے کی علّت میں قید خانے پہنچے۔اس حالت میں وہ ایک طرف اُس دربارِ بے بہار سے چلتے چلاتے کچھ نچوڑ لینے کی فکر میں ہیں جہاں ان کے ذوقِ سخن کی سچی داد دینے والاکوی نہیں، دوسری طرف ہرایک آیندوروند انگریز عہدہ دار سے رشتہ جوڑنے میں، جس کے متعلق کچھ امید ہے کہ اگر شاعری کی نہیں توث کم از کم رئیسی شان کی ہی قدر کرے گا۔ قصیدے اور قطعے لکھ لکھ کر دونوں سمتوں میں رَواں کرتے ہیں، اس خیال سے کہ ایک دربار دار شاعرکے پاس کلام منظوم کے علاوہ نذر کرنے کو اور ہے بھی کیا! وہ ”رَسن تابیِ آواز“ کو قید حیات کی ایک مشقت اور وفاداری کے اظہار کو محض ایک سلسلہ جنبانی شمار کرتے ہیں۔
یہی بیس برس ہیں۔ (۰۳۸۱ءسے ۰۵۸۱ءتک) جب وہ تمام وفاو¿ں اور وفاداریوں سے قطعی بدگمان اور اگلے پچھلے تمام بندھنوں سے بدعہدہوکر محض اپنی تکمیل میں لگ جاتے ہیں(”ترکِ صحبت کردم و دربند تکمیل خودم“) عین پختگی کے ززانے میں وہ اب اس مقام پر کھڑے ہیں، جہاں کعبہ اُن کے پیچھے ہے اور کلیسا اُن کے آگے۔ دونوں سے رشتہ ہے اور دونوں سے آزادگی۔ چناں چہ بے قراری اور بے یقینی کے بخشے ہوئے اِس قرار نے انہیں فارسی شعر گوئی میںاوراپنے کلام کی ترمیم و تصحیح میں لگارکھاہے۔ یہاں تک کہ اتفاق سے اُن پر شاہِ اودھ اور لال قلعے کی نظرالتفات پڑتی ہے۔ اور وہ زمانے کی اس شوخی کا مجبوراً استقبال کرتے ہیں۔ نتیجہ ان کے اردو خطوط اور اردو کلام میں ظاہر ہے۔ جو یقینا تب تک کے روےّے سے ہٹی ہوئی بات تھی۔
غالب اپنے گھرمیںہیں۔ ملنا جلنا، آنا جانا، محفلیں اور چُہلیں کرناموقوف۔ اخبار اور کتاب سے سروکار ہے۔ محل سرامیں صرف ایک برا دم بھرکو کھانا کھانے جاتے ہیں۔ دن بھر مردانے میں رہتے ہیں۔ یہ کون سی ازدواجی زندگی ہے؟
نوجوانی تک، جب انہیں ننھیالی اور ددھیالی عزیزوں کی شفقت میسر تھی، جیسی بھی لااُبالی زندگی گزاری ہو، لیکن گھر بار سنبھالنے کے بعدسے انہیں نئی ذمّہ داریوں کااحساس ہوگیااور جہاں تک بن پڑااِدھر سے غفلت نہیں برتی۔ غفلت تو نہیں، البتہ ”بے وفائی“ ضرور کرتے رہے۔ شادی شدہ زندگی میں ازدواجی بے وفائی کے دوواقعے ایسے ہیں جن کا اقرار خود غالب نے کیاہے اور چوں کہ دونوں کا انجام جان لیوا حادثوں پر ہوا۔ غالب کی بیوی اُمراو¿ بیگم کو ضرور ان کی خب تھی۔ (ملاحظہ ہوچراغِ دیر مثنوی میں”زتونالاں ولے درپدہ¿ تو“)
ایک وہ تعلق جو رئیسانہ شان میں شامل تھا۔ خوش مذاق مگر پابند قسم کی طواف مغل جان کے مکان پر حاضری، دل لگی اور خوش وقتی۔ ایک اور خوب رو خوشحال حاتم علی مہر پہلے وہیںآتے جاتے رہے ہوں گے۔ اس خاتون نے مہر کاذکر تعریفی لفظوں میں غالب سے بھی کیاجس سے اُن میں رقابت نہ سلگی۔ تعلق کی نوعیت ظاہر ہے۔ مغل جان کے انتقال پر حاتم علی مہر نے دردِ دل غالب کو لکھاتو وہ تسلی دے رہے ہیں، درد میں شریک ہیں مگر اس واقعے کو دل پر نہیں لیتے۔ بلکہ اُلٹاسمجھاتے ہیں کہ ان کاتوشروع سے کسی بزرگ کی نصیحت پر عمل رہاے کہ ”زہدووَرَع ہمیں منظور نہیں، ہم مانعِ فِسق و فجور نہیں، مصری کی مکھی بنو، شہدکی مکھی نہ بنو“ یہ بات غالب نے گھُماپھراکر کئی بار کہی ہے،مثلاً:
در دَہر فرو رفتہ¿ لذّت نتواں بود
برقند، نہ بر شہد نشیند مگسِ ما
مغل جان کے واقعے کو افسانوی حیثیت مل گئی۔ غالب ویسے ہی بے وفائی میں بدنام تھے، اس واقعے نے کچھ کمی بیشی نہ کی ہوگی۔
دوسرا واقعہ کسی خاندانی خاتون کاہے۔ جن کی وپری تصویر، غالب کے ایسے اشعار میں ملتی ہے جنہیں محفل تخیلی تجربہ یا دورکا جلوہ نہیں کہا جاسکتا۔ ہم سب یکساں طورپر جانتے ہیں کہ کسی بھی فنکارکاہرایک نقش اس کے ذاتی تجربے کا نشان مندنہیںہوا کرتا۔ لیکن ایسے اشعرااور اشاروں سے کہاں تک نظرچُرائےے جو صاف صاف چلتی پھرتی تصویریں دکھاتے اور غالب کی ذہنی کیفیت سمجھنے میںہماری مدد کرتے ہیں۔ مثلاً بیوی سے بے وفائی کا یہ دوسرا واقعہ۔جوسایہ¿ دیوارمیں ایک زمانے تک چلتارہا،سُلگتا رہا۔
کشیدہ قامت، تیکھے نقوش، گورے رنگ، بَرق چشم، دراز گیسواور نازک مزاج کوئی ہم قبیلہ نوجوان خاتون تھیں جنہیں ذوقِ سخن بی میسر تھااور غالب کواپناکلام بغرض اصلاح بھیجا کرتی تھی۔ حمیدہ سلطان نے اپنی نانی کی زبانی اس خاتون کا تخلص ”ترک“ بتایاہے۔ موصوفہ نے اس خاتون کو دیکھابھی ہوگا۔اگر انہوں نے نہیں دیکھا،صرف سنا تو ہم نے غالب کی زبانی سنااور اس کے کلام میں ”تُرک“ کودیکھابھی کیوں کہ ہم نے غالب کے زخمِ جگر کو دیکھا۔
”تُرک“نام یا تخلص کی کسی شاعرہ کا کلم آج تک دیکھنے میں نہیں آیا، عین ممکن ہے یہ استادی شاگردی شاعرانہ اور برے بیت ہواور اس پردے میں غالب خاندان کی کسی معزّز خاتون سے ایسے ٹوٹ کر ملے ہوں، ملتے رہے ہوں کہ گھر والوں کو خبر ہوگئی۔ نہ صرف اِس اختلاط کی خبر، بلکہ اس کے نتیجے کی بھی۔ خود غالب کے دےے ہوئے اشاروں سے ، ایک مدّت بعد جب افواہ سرد ہوچکی، وہ غزل، جس میں واقعی شاعر نے پورے حادثے کا ماتم کیا ہے ۔
”ہاے ہاے“ کی ردیف کے ساتھ انجام سنادیتی ہے۔ اردو فارسی کے کوئی چودہ ہزار اشعار میں یہ واحد غزل ہے جس میں محبوبہ کی موت کاانہوں نے ایک Monumantمونومنٹ نصب کیا ہے اور وہ بھی اپنے مزاج کے خلاف”ہاے ہاے“ کی صداپر۔
اس غزل اور اس سے رشتہ رکھن والے چندفارسی اشعار کو غور سے پڑھنے والوں پر یہ جتانا کچھ ضرور نہیں کہ غالب سے اس خاتون کے تعلقات یہاں تک پڑھنے والوں پر یہ جتانا کچھ ضرور نہیں کہ غالب سے اس خاتون کے تعلقات یہاں تک بڑھے کہ بالآخر وہ حاملہ ہوگئی اور چوں کہ معاملہ ایک معزز خاندان کی بیٹی کاتھا،اور غالب نے اپنی ذمہ داری میں اضافہ قبول کرنے سے پہلوتہی کی۔اُس نے خاموشی سے جان دے دی اور اس جواں مرگی پر معاملہ دب گیا۔ حمیدہ سلطان لکھتی ہیں کہ جب اس شاعرہ کا انقال ہوا، غالب بیمارپڑگئے تھے۔ ہاں ایساہی ہوگا۔ غالب کو البتہ اس بیماری سے کبھی شفا نہ ہوئی کیوں کہ سالہاسال اُن کے ضمیر میں اُس کی وفااراپنی بے وفائی کاکانٹا کھٹکتارہا،ورنہ اِن اشعار کاکیا مطلب؟
شرم رسوائی سے جا چھپنا نقابِ خاک میں
ختم ہے اُلفت کی تجھ پر پردہ داری ہاے ہاے
خاک میں ناموسِ پیمان محبت مل گئی
اُٹھ گئی دنیا سے راہ رسمِ یاری ہاے ہاے
بہتر ہوگاکہ ہم وفااور بے وفائی کے اصل مفہوم کی جڑ تک پہنچنے یااپنے طورپر اس کو Defineکرنے میں کسی قدر غالب کے اشعار سے بھی کام لیتے چلیں۔
اُن کی ایک فارسی غزل ہے جسے قریب ک لوگ بھی پوری طرح نہ سمجھ پائے تھے اور خود شاعرکو مطلع کامفہوم بیان کرناپڑا:
من بَوفا مُردم و رقیب بَدَر زد
نیمہ لبَش اَنگبین و نیم تَبرزَد
وفااور رقیب کے ساتھ شہد اور مصری کے تلازمے یہاں بھی دہرائے گئے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ شاعر نے وفامیں جان دینااپنے لےے اور مصری کی ڈلی چکھ کر اُڑ جانا رقیب کے لےے فرض کرلیاہے۔ یہ بات انہوں نے دوسرے طریقے ایک آدھ بار کہی ضرور ہے:
جو منکرِ وفا ہو فریب اس پہ کیا چلے
کیوں بدگماں ہوں دوست سے دشمن کے باب میں
یہاں رقیب وفانہیں کرتا،وفاکافریب دیتاہے اور محبوب وفاکے ہر دعوے سے منکر ہے اس لےے وہ رقیب کے فریب میں بھی نہیں آنے والا۔ رقیب اور وفاکے سارے تلازمے اور متعلقات کوایک ساتھ رکھ کر دیکھےے تو کھُلے گاکہ یہ خود غالب ہیں جن سے وفا کی اُمید نہیں کی جاتی اور ان کے ہردعوای وفاکو فریبِ وفا شمار کیا جاتاہے۔ یہاں تک کہ وہ خود وفاکی اصلیت سے بدگماں ہوجاتے ہیں۔
وفا، محبوب اور رقیب کے مثلّث کوانہوں نے روشنی اور تاریکی کے زاوےے بدل بدل کردیکھاہے،کوئی گوشہ چھوڑا نہیں۔
۷۴۹۱ ءمیں دہلی دروازے کے باہر جیل میں ہیں اور عام مجرموں کے ساتھ رکھے گئے ہیں۔ جان عذاب میں ہے۔ عزیزوں نے بدنامی کے خوف سے منھ پھیر لیاہے، کوئی خبرگیری تک کا روادار نہیں (رواے مصطفٰے خاں شیفتہ کے)غضب کا ”حبسیّہ“لکھاہے جوپہلے ہی بندمیں شکایت سے شروع ہوتاہے:
ہلہ دُزدانِ گرفتار وفا نیست بشہر
خویشتن را بہ شمار ہمدم و ہمراز کنم
قصیدہ (۹۴)در مدح فرماں رواے اوَدھ میں تشبیب ہی میں وفاکی جنسِ ناروا کا روناہے:
ناروا بود بہ بازار جہاں جنسِ وفا
رونقے گشتم و از طالع دُکاں رفتم
مشہور و مقبول غزل ہے جسے ایرانی موسیقار نے بھی گایا ہے:
زماگسستی و با دیگراں گرو بستی
بیا کہ عہدِ وفا نیست اُستوار بیا
اور اس کایہ ضرب المثل شعر:
وداع و وصل جدگانہ لذّتے دارد
ہزار بار برو صد ہزار بار بیا
رفتہ رفتہ ایسا وقت آگیاہے کہ غالب نہ محبوب سے وفاکے طالبہیں، نہ احباب سے، نہ زمانے سے:
نہ آں بودکہ وفا خواہد از جہاں غالب
بدیںکہ پُرسد و گویند ہست، خُرسندست
”جومنکرِ وفاہو“والاخیال ایک بارسے زیادہ دہرایاگیاہے اور وفاکے مثلث میں خود شاعرکارویّہ یا تصوّر ہم پر روشن ہوتاہے:
خوشم کہ دوست خود و¿ں مایہ بے وفا باشد
کہ در گماں نسگالم اُمیدگاہِ کسش
حدہوگئی کہا یک غزل میں ”غلط بود غلط“ کی ردیف رکھ کر وفاکے ہرایک تصور کو اس تار میں پرودیاہے:
تکیہ بر عہد زبان تو غلط بود علط
کایں خود از طرزِ بیانِ تو غلط بود غلط
دل نہادن بہ پیامِ تو خطا بود خطا
کام جُستن زلبان تو غلط بود غلط
آخر اے بوقلموں جلوہ کجائی؟ کا ینجا
ہرچہ دادند نشانِ تو غلط بود غلط
وفا کا مقررّہ مفہوم غالب کے لےے زدگی کے ہرحال، ہرمرحلے، ہر ماحول میں جگہ چھوڑتاچلا جاتاہے۔ حسن محبوب کی وفاسے بھی ان کی تسلی نہیں ہوتی، کیوں کہ وہ ان کا مقصود نہیں:
تیری وفاسے کیا ہو تسلّی کہ دہر میں
تیرے سوا بھی ہم پہ ہزاروں ستم ہوئے بہت سے؟
اور خوداپنی وفا سے دست بردار ہوتے ہیں:
وفا کیسی، کہاں کاع شق، جب سر پھوڑنا ٹھیرا
تو پھر اسے سنگ دل تیر ہی سنگ آستاں کیوں ہو!
یہ ان کا عملی نقطہ نظر ہے، زندگی اور فن کے بارے میں ایک سوچا سمجھا، نپا تفلا رویّہ۔ایک مستحکم، قائم بالذّات
مجبوری و دعواے گرفتاریِ الفت
دستِ تہِ سنگ آمدہ پیمانِ وفا ہے
عین ممکن ہے کہ یہاں،ہمارے خیال کو رَد کرنے کے لےے غالب کا کوئی پرستاراس قسم کے اشعار یاد دلائے جو پہلے سے کافی مشہور ہیں وار وفاکی عظمت جتاتے ہیں،مثلاً
وفاداری بشرطِ اُستواری اصل ایماں ہے
مرے بُت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
نہیں کچھ سبحہ و زُنّارکے پھندے میں گیرائی
وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے
غور کیجےے تو یہاں بھی انہوںنے وفاکے اس تصورکو، اس کے انتہاسے کمال کو شیخ و برہمن کے سپرد کرکے پنی جان چھڑائی ہے۔برہمن اگر اپنی وفامیں اُستوارہے تو اسے صلہ دیجے۔ اول تو برہمن گاڑانہیں، جلایا جاتاہے، پھر کعبے میں کسی کو دفن نہیں کرتے۔ برہمن کووہاں دفن کیجےے کیوں کہ وہ اپنی آزمائش میں ”زنّارکے پھندے کی گرفتاری“ میں سارا جیون بِتاگیاہے یعنی وہ عمل اس سے سرزد ہواہے جسے لوگ وفاکی استواری کا آئڈیل سمجھتے ہیں۔جو لوگ وفاکی عظمت کے ایسے ہی قائل ہیں اب وہ برہمن کی ارتھی چتاکے لےے نہیں دفنانے کے لےے تیار کریں۔ اور وہ بھی کہاں؟ توپھر غالب اپنے لےے کیا پسند کرتے ہیں؟ بے وفائی؟ بد عہدی؟مصری کی مکّھی بن کر لذّت چکھنااو راڑ جانا؟ نہیں۔ وہ زندگی کو اس سے زیادہ گہرائی کے ساتھ، جدلیاتی تجزےے کے ساتھ دیکھتے ہیں اور رنگارنگ تقاضوں کی ملک میں دیکھتے ہیں۔ ہم یہاں وفاکے اس پہلو کواشارةً عرض کریں گے۔
(صاحبو،سمی نارکے معزز حاضرین! آپ جو فلسفے اور عمرانیات کا سُتھراذوق رکھتے ہیں، آپ کے سامنے خیال اور عمل کے دیرینہ اور باہمی تعلق پر روشنی ڈالنا کچھ ضرور نہیں) خیال اور عمل میں کون اول ہے،یہ وہی مسئلہ ہے کہ Being(وجود) اور (Thinking)(شعور) میں کون فیصلہ کن ہے۔ سائنسی مادیت کانظریہ ماننے والے عمل وک، خارجی حالات (پیداواری طرز و تعلقات) یا ماحول کے عمل کو انسان کے ذہن و شعورپر حاوی بلکہ اُن کا راہنمامانتے ہیں۔ اسی سبب سے ہم نے غالب اور وفاکے تصور میں خارجی حالات کو پس منظرکے طورپر پیش کیا۔ اب خود خیال اور عمل کے رشتے سے دانش وَر فنکارکا وطیرہ بھی دیکھےے۔
اوّل یہ کہ ”رِچا“ (fjpk)اور Rifnalمیں دونوں دست و گریباں ہیں۔”رِچا“ یا خیال، بلکہ دستوئیفسکی کے طرز فکری نظام میں Ideaہے جو کسی شحص اور سماج کی روح میں رواں رہتاہے۔ آئڈیااپنی شناخت کے ساتھ عملی رسوم کی شاخت طلب کرتاہے اوراسے جنم دیتاہے۔ جب کوئی ”رچا“ بڑھ کر ”ری چوئل“ میں نشوونما پاتاہے تو نظریہ سماجی عمل بن جاتاہے۔ اب سنےے کہ خیال وفا بیزار ہےا ور ایکشن وفا طلب۔ خیال یا آئیڈیاکوایکشن میں، انفرادیاور اجتماعی عمل میں ڈھلنے، فرداور جماعت کوہم آہنگ کرنے اور ہمنوا رکھنے کے لےے وفاپرزور دنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ وفاکے مشروط تصورکے بغیر کوئی ”رِچا“ پھیل کر ”رِچوئل“ نہیں بنتا، نہیں بن سکتا۔اور جو نظرےّے کسی سماجی نظام کو جنم دے کریہ اضرار کرتے ہیں کہ پارٹییا سوسائٹی ان کا مقصود ہے، وہ فرد کو ثانوی حقیقت دے دیتے ہیں،جو اقبال کے لفظوں میں:
فرد قائم ربط ملّت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
آپ نے دیکھابرتاہوگاکہ خیال کی لچک یا عقیدے کی آوارگی سے بے مروَتی برتنے والے سماجی نظام مُرتدکو سنگسارDissenterاور کو Exoellکر دیتے ہیں۔ عمل کی اجتماعی نوعیت کی خاطر انہیں اصرار ہوتاہے کہ خیال کے سوتے سے پھوٹاہوااور زمانے بھرکی آلائشیں لپیٹے ہوئے جو عقیدہ طے شدہ ہے اسے جوں کا توں قبول یا تمامتر رد کردیا جائے۔ اسے وہ ”وفاداری بشرطِ استوار“ یعنی مشروط و وفاقرار دیتے ہیں۔ جب کہ خیال بجاے خود غیر مشروط ہے اور بے وفائی کی روح لےے بغیر توانااور تازہ دم نہیں رہتا۔
اب ذراغالب کاوہ مشہور زمانہ شعر پڑھ کر سوچےے کہ وہ کیا کہہ رہاہے:
”ترکِ رسوم“ دراصل ایک معنی میں ترکِ وفاہے۔کیوں کہ رسوم ہی تو ہی ںجو عمل میںوفا کا اظہار کرتی ہیں یہ ”رِچا“ نہیں ”ری چوئل‘ کا مجموعہ ہیں۔ فنکار اور وفادار نظریہ ساز اور نظریہ پرست میں یہیں آکے انترپڑتا ہے۔ فنکار اپنے عہداور ماحول میں سانس لے کر، ”ہر رنگ میں بہارکے اثبات“ پر زوردیتاہے۔وہ ایسا دانش ور ہے جو پوری دیانت داری کے باوجود، بلکہ دیانت داری کے ساتھ کسی بھی مسلمہ عقیدے، طے شدہ سانچے، یا طاقتِ فرماں رواسے، وقت کے عام چلن سے، یا بستگیِ رسم و رہِ عام“ سے جزوی یا کلّی، عارضی یا مستقل بے وفائی کرنے پر مجبور ہے۔ وہ خود اپنے سودوزیاں سے غافل یا بے نیاز بلکہ ذاتی مفادکا کھلا دشمن ہوکر بھی وفاکے معمول سے بگڑ بیٹھتا ہے اور راہِ صواب کے بجاے بھٹکنے اور تلاش کرتے رہنے کو ترجیح دیتاہے۔ وہ خود کو بالآخر اپنا غیر فرض کرلیتاہے۔ جیساکہ غالب نے اپنے بارے میں ایک آٹوبائیگرفیکل (سوانحی) بے تکلف خط میں لکھاہے۔وہ جب کہتاہے:
عیش و غم در دل نمی اِستد خوشا آزادگی
بادہ و خونابہ یکسانست در غربالِ ما
یا
ایماں بہ غیب تفرقہ ہا رُفت از ضمیر
ز اسما گمشتہ ایم و مفسمّی نوشتہ ایم
تو اَس ”آزادگی“ کے خدوخال اُبھارتاہے جوخیال کے بدلتے ہوئے بھاو¿ (Hkko)کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔وہ ”اسما“ یا Ritualsکی پوٹلی دریاکنارے چھوڑ کر خیال کے گرداب میں اُترتا ہے اور مسمّی کی تلاش جاری رکھتاہے۔ اس کی وفا صرف اپنی فکرکے تقاضوں سے ہوتی ہے۔ جو گلوب کی طرح گردش کرتی اور روشنی و تاریکی کے عالم میں مبتلا رہتی ہے۔
فنکار اپنی عصری سطح سے بلند تبھی ہوگاجب وہ دانش وری میں قدم رکھے اور اپنے وقت کے وانش وَر ہوتے ہیں جن کی وفااپنی دانش کے تقاضوں سے برقرار رہے۔ ان تقاضوں سے جوہر عہد، ہرایک دَور اور سماجی ارتقاکے ہر ایک مرحلے میں تغیر پسنداور ”بے وفا“ رہے ہیں۔ جسے غالب کے متعلق اس سلسلے میں کچھ کلام ہو وہ ان کے قصیدوں کی تشبیبیں دیکھے، بعض مثنویاں دیکھے جہںا اس دانش ور فنکارنے اپنا سوچا سمجھا رویّہ یا Atitudeایک تسلسل کے ساتھ بیان کردیاہے،مثلاً بینند“ کی ردیف والا قصیدہ(نمبر۶۲)
دل نہ بندند بہ نیرنگ و دریں دیرِ دو رنگ
ہرچہ بینند بہ عنوان تماشا بینند
خود تصوف کا نظریہ ،جس میں غالب نے فقیہوںکی بحثابحثی سے بچنے کے لےے پناہ لی تھی، ان کے ہاں ایک مکمل عقیدہ یا اعتقادی نظام نہیں، بلکہ ایک اخلاقی برتاو ہے۔ اپنے خطوں میں یہ راز افشابھی کردیاہے۔ کسی کوکبھی مشورہ نہ دیاکہ تم تصوف اختیار کرو، کھل کرکہہد یاکہ تصوف و نجوم، انہوں نے بس یوں ہی لگارکھاہے۔ ورنہ ان باتوںم یںکیا رکھاہے۔
”بے وفائی“ کے اس برتاو میں ہمارا دانش ور فنکار اس مقام کو پہنچ جاتاہے جہاں فرانس کے روسو اور بالزاک جیسے انسائیکلوپیڈسٹ اپنے وقتوں میں پہنچے تھے۔ وہ صرف قافیہ پیمائی کی خاطر نہیں کہتاکہ:
بامن میا ویز اے پدر، فرزند آزر رانگر
ہرکس کہ شد صاحب نظر، دینِ بزرگاں خوش نکرد
یہاں پدر سچ مچ کاپدرنہیں بلکہ رسوم اور سکّہ بند عقائد کے پاسبان یا کوتوال ہیں جو پہلے رسمی مذاہب کی تقدیر میں لکھے تھے اب ”اِزموں“ کے حصے میںآرہے ہیں۔
کفر و دیں چیست، ُز آلائشِ پندارِ وجود
پاک شو پاک کہ ہم کفرِ تو دینِ تو شود
غالب کے اس ”بے وفایانہ، تصوراور برتاو میں کفر و دیں کے تمام مروجہ تصورات کی دیواریں دھنس گئی ہیں اور مادرپدر آزاد انسانی تفکر سربلندہوجاتاہے:
محفلیں برہم کرے ہے گنجفہ بازِ خیال
ہیں وَرَق گردانیِ نیرنگِ یک بت خانہ ہم

English Hindi Urdu