قاضی عبدالودود

غالب نے اردو میں خط و کتابت کب سے شروع کی؟

       غالب نے اردو میں خط و کتابت کب سے شروع کی؟ اس سوال کاجواب سب سے پہلے حالی کی یادگار غالب میں تلاش :کرناچاہیے۔ حالی لکھتے ہیں

”معلوم ہوتاہے کہ مرزا1850  تک ہمیشہ فارسی میں خط و کتابت کرتے تھے مگر سنہ مذکور میں جب کہ وہ تاریخ نویسی کی خدمت پر مامور کیے گئے اور ہمہ تن مہر نیم روز کے لکھنے میں مصروف ہوگئے۔اس وقت بہ ضرورت ان کو اردو میں خط وکتابت کرنی پڑی ہوگی۔ وہ فارسی نثریں اور اکثر فارسی خطوط جن میں قوت متخیلہ کا عمل اور شاعری کاعنصر نظم سے بھی کسی قدر غالب معلوم ہوتاہے، نہایت کاوش سے لکھتے تھے۔ پس جب ان کی ہمت مہر نیم روز کی ترتیب و انشا میں مصروف تھی، ضرورہے کہ اس وقت ان کو فارسی زبان میں خط و کتابت کرنی اور وہ یہی اپنی طرز خاص میں شاق ہوئی ہوگی۔ اس لیے قیاس چاہتا ہے کہ انہوں نے غالباً 50 ءکے بعد سے اردو زبان میں خط لکھنے شروع کیے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ”زبان فارسی میں خطوں کا لکھنا پہلے سے متروک ہے۔پیرانہ سری اور ضعف کے صدموں سے منت پژوہی اور جگرکاوی کی قوت مجھ میں نہ رہی۔”

       حالی نے غالب(۱) کا جو قول نقل کیاوہ غدر کے بعدکاہے اور اس سے صرف اسی قدر ثابت ہوتاہے کہ ضعف پیری کی وجہ سے غالب نے فارسی میں خط لکھنا ترک کردیاتھا۔ اردومیں پہلے پہل کب خط لکھااور کیوں لکھااس کے متعلق کسی نتیجے پرپہنچنے میں اس سے مطلق مدد نہیں ملتی۔ حالی کایہ دعویٰ کہ اردومیں خط لکھناشروع کیا،جب مہرنیم روز کی تصنیف میں مصروف تھے، محض قیاس پر مبنی ہے اور کوئی ایسی روایت اس کے موید ہو، موجود نہیں۔ اس سے قطع نظر یہ سمجھ میں نہیں آتاکہ جب بہ ظاہر مہر نیم روز کی تصنیف اواسط(۲) 50 ءسے شروع ہوئی تو حالی نے یہ کیوں لکھاکہ غالب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ 50 ءتک غالب نے کبھی اردو میں خط لکھا ہی نہیں۔یا  ان کا یہ مطلب ہے کہ عموماً فارسی میں لیکن کبھی کبھی اردومیں بھی لکھا کرتے تھے۔ حالی نے یادگار غالب  میں ایک جگہ ہمیشہ کو عموماً(۳) کے معنی میں استعمال کیاہے لیکن اس سے لازمی طورپر نتیجہ نہیں نکلتاکہ اس موقع پربھی ان کایہی مطلب ہے۔ایک بات اور بھی قابل توجہ ہے۔اقتباس بالا میں شاید ہی کوئی بات حالی نے قطعی طورپر کہی ہو۔ معلوم ہوتاہے کہ غالباً قیاس چاہتاہے اور اس قسم کے دوسرے الفاظ جابجا ملتے ہیں۔

       غلام رسول صاحب مہر کی رائے (۵) میں ”غالب 1850 سے قبل اردو میں خط و کتابت شروع کرچکے تھے۔لیکن چونکہ اس زمانہ میں اردونثر کو اہل قلم بلند پایہ نہیں دیتے تھے اس لیے وہ خطوط محفوظ نہ رہ سکے لیکن جیسے جیسے اردو کا رواج بڑھتاگیااور فارسی کا رواج کم ہوتاگیا، غالب کی خط و کتابت فارسی کے بجائے اردومیں زیادہ ہوگئی۔ (غالب طبع اول صفحہ 308)۔ انہوں نے اردو کے ایک خط کا بھی ذکرکیاہے جو ان کے نزدیک یکم دسمبر 1845 کے کچھ بعد لکھا گیاہے۔ مہر صاحب حالی کے اس نظریے کو مہر نیم روز کی تصنیف میں مصروفیت اور خط و کتابت شروع کرنے کا باعث ہو کوئی تسلیم نہیں کرتے۔مہرنیم روز کوئی ضخیم کتاب نہیں اور کئی سال کی مدت میں لکھی گئی ہے۔ غالب کے فارسی خطوط اردو کے خطوط کی طرح تکلفات سے عموماً  آزاد ہیں اور ان کے لکھنے میں زیادہ کاوش نہیں کی گئی۔ اس کتاب کی تصنیف غالب سے ”قادرالکلام اور مشاق نثر نگار“کو فارسی خط لکھنے سے مانع نہیں ہوسکتی۔صفحہ 307(308)

       امتیاز علی خاں صاحب عرشی اسے ناممکن نہیں سمجھتے کہ غالب نے 50ءسے قبل بھی اردو میں مراسلت کی ہو،لیکن وہ اس کے قائل نہیں کہ اس سنہ سے قبل کاکئی اردو خط موجود ہے۔ یہ امکان بھی محض فلسفیانہ امکان ہے، ورنہ اس کا اصلی خیال(۶) یہ معلوم ہوتاہے کہ غالب نے 50ءسے پہلے اردو میں کوئی خط لکھاہی نہیں۔ مہر نیم روز کے معاملہ میں وہ حالی کے ہمنوا ہیں۔ (دیباچہ مکاتب غالب طبع ثانی صفحہ 138و145)

       مہیش پرشاد صاحب نے کوئی رائے ظاہر نہیں کی لیکن غالب کی زندگی کو تین ادوا رمیں تقسیم کرنا مناسب ہوگا۔

        1۔ تقریباً 1850 تک

       غالب نے دوجگہ(۷) فخریہ یہ لکھ دیاہے کہ میری زبان فارسی ہے مگر یہ ان کا اصلی خیال نہیں، فارسی سے ان کا تعلق کس قسم کا ہے اس کے بارے میں ان کی حقیقی رائے قاطع برہان میں ملتی ہے

”نیاز مے آرم پوزش مے گسترم تا مردم نہ گویند کہ خود ہندستان زابودن و ہندستان زایان دیگر رامسلم نہ داشت و خود علم پندار زباں دانی افراشن چہ معنی دارد۔ گویم مے گویم کہ نیائے من ازماوراءالنہر بود و پدرم دردہلی پیکر پذیرفت و من در آگرہ منشور ہستی یافتم، حاشا کہ خود را از اہل زبان گیرم زبان دانی من بہ فرہ سہ فروزدہ فدا آفریدوسہ گوہر ازل آوردست۔“ (قاطع طبع ثانی ،ص۱۳۱)

       فارسی غالب کی مادری زبان نہ تھی۔اسے انہوں نے استاد ہی سے سیکھا تھا۔ اپنی تعلیم کے ابتدائی زمانے میں وہ لکھنا پڑھنا جاننے پر بھی فارسی سے ناوقف رہے ہوں گے اور ایسا زمانہ بھی یہی ہوگاجب وہ فارسی اتنی کم جانتے ہوں کہ اس زبان میں خط نہ لکھ سکتے ہوں۔ اس زمانہ کا کوئی خط موجود نہیں اور نہ اس کی شہادت پیش کی جاسکتی ہے کہ کسی کو خط لکھا۔لیکن قیاس چاہتا ہے کہ خود لکھے ہوں اور وہ اردو میں ہوں۔ غالب نے شعر بھی پہلے اردو میں کہے ہیں ، پھر فارسی میں۔

       1۔ اواسط 50ءتک

       اس دور میں غالب نے رفتہ رفتہ فارسی پر قدرت حاصل کی، اور کچھ مدت کی مشق کے بعد صاحب طرز انشاپرداز قرار پائے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہےے کہ اس دورکے آخرمیں غالب کی عمر 50سے اوپر تھی اور ان کے قوائے جسمانی کا انحطاط شروع ہوچکاتھا۔ زمانے کی روش کے مطابق غالب نے عموماً فارسی میں خط لکھے ہوں گے۔لیکن کبھی کبھی اردو میں لکھنے کی بھی ضرورت پیش آئی ہوگی۔ اس کی دو وجہیں ہیں

       (1) غالب سے سروکار رکھنے والوںمیں ایسے لوگ جو لکھنا پڑھنا جاننے کے باوجود فارسی سے بالکل ناواقف ہوں یااس سے کافی واقفیت نہ رکھتے ہوں، ضرور ہوں گے۔ اور وقتاً  فوقتاً  ایسے لوگوں سے مراسلت بھی ہوئی ہوگی۔ انہیں فارسی میں خط لکھنے کے معنی یہ ہوئے کہ خواہ مخواہ ترجمہ کرانے کی زحمت دی جائے۔ناچار اردو ہی میں خط لکھناپڑاہوگا۔ اس طرح کبھی کبھی ناخواندہ لوگوں کو بھی خط لکھنے کی ضرورت پڑی ہوگی اور انہیں بھی فارسی کی جگہ اردومیں خط لکھاہوگا۔ غالب کی زوجہ امراو


بیگم (۸) ، گمان غالب ہے کہ ناخواندہ ہوں، بنارس و کلکتہ سے جو خط غالب نے انہیں بھیجے تھے اور جن کاذکر چھج مل (۹) کے نام کے خطوط  میں ہے،وہ کس زبان میں ہوں گے؟

(۲)   پنج آہنگ کے ڈیڑھ دوسو خطوں میں بہت کم خط ایسے ہیں جن میں غالب نے انشاپردازی کا کمال دکھانے کی کوشش نہ کی ہو۔ایسے خط ”محنت پژوہی اور جگرکاوی“ کے بغیر نہیں لکھے جاسکتے۔ کم از کم غالب کے لیے یہ ممکن نہ تھااور اس کا خود انہیں اعتراف ہے۔ (خط بنام شاکر) ان کی زندگی میں ایسے لمحات جب وہ محنت سے گھبراتے ہوں، ضرور ہوں گے۔ایسی صورت میں اگر مراسلت کی ضرورت پیش آئی ہوتو اس کے سوا چارہ نہ تھاکہ یاتو”سرسری“ اور عامیانہ(10)فارسی میں خط لکھیں یا اردو کو نوازیں۔ پنج آہنگ میں ایسے (۱۱) خط جن میں شاعری کا عنصر کم یا وہی مفقود ہیں ضرور۔لیکن ایسے خط نہیں جو ”قلم سنبھال کر“ نہ لکھے گئے ہوں۔ ”سرسری“ اور عامیانہ فارسی پر غالب کا اردو ترجیح دنیا بالکل قرین قیاس ہے اس لیے کہ معمولی فارسی لکھنا ان کے ادبی شکوہ کے منافی تھااو راردو ایسی زبان ہی نہ تھی جس میں کسی کو یہ امید ہوکہ غالب یا کوئی اور شخص انشاپردازی کا کمال دکھا سکے گا۔ غالب حسام الدین حیدرخاں نامی کو لکھتے ہیں:

“جواب ایں نامہ سرسری باید نہ پہلوی دوری، واگر خواہم کہ روش بہ گردانم ہر آئینہ ناموس سخن دری مرازیاں دارد امید کہ ملازمان(؟)بندہ خود را دریں کشاکش نہ پسندند ”پنج آہنگ“ صفحہ 114و115 )

       اردو خطوں اور اردو زبان کے متعلق غالب کی رائے ”کوئی رقعہ ایسا ہوگاجومیں نے قلم سنبھال کر اور دل لگاکر لکھاہو“ (خطوط غالب صفحہ 30) میں اردومیں اپنا کمال کیاظاہر کرسکتاہوں؟ اس میں گنجائش عبارت آرائی کی کہاں ہے؟ (خطوط ، صفحہ 391)

       اس دور کے اواخرمیں انحطاط قویٰ کی وجہ سے اردو خطوں کی تعداد بڑھ گئی ہوگی۔اس زمانے کے کم از کم دو خط موجود بھی ہیں۔پہلا خط اردوئے معلی میں ہے مگر اس پر تاریخ ثبت نہیں ہے۔ تبصرہ خطوط غالب میں جو معاصر نے شائع کیاتھامیں نے اس کے متعلق لکھا تھا”غالب نے دیوان تفتہ کا دیباچہ تحریر کیاتھا۔ تفتہ کواپنی تعریف امید سے کم نظر آئی۔ غالب سے شکایت کی تو غالب نے دیباچے کاایک فقرہ بدل دیا۔ خط میں اسی کی اطلاع ہے۔اس کا زمانہ مرتب نے اسعدالاخبار آگرہ کے20 اگست کے پرچے سے متعین کیاہے۔“ اس لےے کہ اس میں غالب کی تقریظ 13)کاذکر ہے“ دیل میں اسعدالاخبار کے دواقتباس اور عرشی صاحب کے خط کا ایک ٹکڑا نقل کیا جاتاہے۔ان سے جو نتائج نکلتے ہیں ان سے مرتب کے بتائے ہوئے زمانے کی قطعی طورپر تغلیط ہوتی ہے۔

(۱)دیوان (14)تفتہ جو اس مطبع میں چھپاہے ربع سے زیادہ چھپ چکاہے،وہ بھی اس موسم سرمامیں انشاءاللہ تعالیٰ تمام ہوگا۔ اس کی ضخامت ۵۴جزوکے قریب ہے اور قیمت چار روپے بعد اختتام کے پانچ ہوجائیں گے۔اکثر شائقانِ سخن نے اس کی درخواست مع زرثمن داخلِ مطبع کی ہے کیونکہ وہ دیوان عجب فصاحت خیز اور لطف انگیز ہے۔ اکثر اشخاص اس کے طبع ہونے کی خبرسن کر بہت خوش ہوئے ہیں۔ خصوصاً اسداللہ خاں غالب دہلوی تواس کے بہت ثناخواں ہیں۔ (اسعدالاخبار 20اگست 1849ءمطابق 29رمضان 1265ھ)۔

(۲)ان دنوں میں دیوان تفتہ سکندرآبادی اس مطبع میں چھپنا شروع ہواہے او ریہ وہی دیوان ہے جس کا اشتہار اخبار ہذامیں اواخر 1847ءمیں دیاگیاتھا۔یہ سبب عدیم الفرصتی کے اب تک ملتوی رہا۔اب اس کی تدبیر کی گئی ہے۔ (اسعدالاخبار 18دسمبر1848ءمطابق ۱۲محرم 1265ھ)۔

(۳)تفتہ کے دو دیوان ہیں (15)۔ان میں سے پہلے کے شروع میں میرزا صاحب کی تقریظ ہے۔اس کا چھاپا اواخر 1265ھ میں شروع ہوااور اوائل 1268ھ میں انجام کو پہنچا۔ تقریظ میں تاریخ نہیں دی۔جس صفحے پر یہ ختم ہوتی ہے اس کی باقیماندہ جگہ میں ”حقیر کا قطعہ آغاز طباعت ہے جس سے 1265ھ برآمد ہوتے ہیں۔

       ان اقتباسات سے حسب ذیل نتائج نکلتے ہیں:

       1۔ دیوان اور اس کی تقریظ غالباً اواخر ۷۴ءہی میں صاحب مطبع کے پاس پہنچ گئی تھی۔اگر یہ قیاس صحیح ہے تو تقریظ 47ءیا اس سے بھی قبل کی لکھی ہوئی ہے۔

       2۔ دیوان تفتہ کا چھاپا اوائل 1265ھ (اواخر 48ء ) میں شروع ہوگیاتھا (جناب عرشی(16) نے اواخر سہواً لکھا ہے)

       203۔ اگست1849ءتک 12جز کے قریب چھپ چکاتھا۔

       4۔ تقریظ آغاز دیوان میں ہے اور اس کے آخری صفحے میں حقیرکاقطعہ تاریخ، اس لیے دیوان کایہ حصہ سب سے پہلے چھپا،اور اس کا زمانہ انطباع اواخر 48ءہے۔

       یہ متحقق ہوجانے کے بعد کہ تقریظ کا زمانہ اطباع اواخر48ءہے۔ یہ قطعی طورپر معلوم ہوگیاکہ غالب نے اسے اواخر 48ءسے پیشتر لکھاہوگا۔اس کے بعد یہ تسلیم کرناناممکن ہے کہ خط اگست 49ءمیں تحریر ہوا۔

       عرشی صاحب نے دیباچہ مکاتیب غالب طبع ثانی میں (ص141تاص143میرے بیان پر ناقدانہ نظر ڈالی ہے اور خط زیربحث کے زمانہ کتابت کے متعلق بالکل مختلف رائے ظاہر کی ہے۔ عرشی صاحب کی تنقیدکا خلاصہ یہ ہے:

       1۔ تقریظ سرورق کے دوسرے رخ سے شروع ہوتی ہے اور سرورق پر مہتمم مطبع نے لکھا ہے:

       ایں نسخہ دیوان تفتہ در مطبع اسعد الاخبار بہ اواخر 1265ھ شروع گردیدہ باوصف انواع موانع و عوائق در اوائل 1267ھ بہ اختتام رسید۔

       2۔ 20 اگست کے بعد اسعدالاخبار میں بظاہر تقریظ ہی کی طرف اشارہ ہے۔چونکہ غالب نے پسندیدگی کاذکر پہلی بار اواسط 49ءمیں ہوا، لازماً اس کااظہار اسی زمانہ میں کیاگیاہوگا۔ (یعنی یہ تقریظ اسی زمانے کی لکھی ہوئی ہے۔

3۔ غالب نے 10فروری 49ءاو ر20اگست 50ءمذکور ہی کی درمیانی مدت میں یہ تقریظ لکھی ہے اس لیے کہ 10فروری کو فارسی خط میں غالب نے تفتہ کو لکھاہے:

ازاں دوہزار بیت کہ نوشتہ اند کہ دراکبر آباد گفتہ ام، ماہم دراوراق اخبار اکبر آبادی شاہدہ کردم ایم، خوش گفتہ اندوبہ راہے کہ مامے خواستیم رفتہ اند،

       10فروری تک غالب نے دوہزار اشعار دیکھے تھے۔ غالب اظہار رائے میں بڑے محتاط تھے۔ تفتہ نے ان اشعار کی اصلاح کے بعد تقریظ کی درخواست کی ہوگی۔

       4۔ تقریظ کی ترمیم اواخر 1850ءمیں تقریظ کے چھاپے جانے سے کچھ قبل ہوئی۔ غالب اس زمانہ میں زیادہ تر اردو میں خط لکھنے لگے تھے۔ ترمیم کی اطلاع اردو خط کے ذریعہ دی۔

       میری گزارش حسب ذیل ہے:

       1۔ عرشی صاحب نے دیوان تفتہ کے متعلق جو خط مجھے لکھا تھااس میں سرورق کا حال نہ تھا۔ ورنہ میں کبھی یہ دعویٰ نہ کرتاکہ تقریظ دیوان سے پہلے اواخر 48ءمیں چھپی تھی۔ سرورق کی عبارت سے صرف یہ نتیجہ نکلتاہے کہ تقریظ اواخر 50ءمیں طبع ہوئی اور اس میں ترمیم اس سے قبل ہوچکی تھی۔کس قدر قبل؟ اس پر یہ عبارت مطلق روشنی نہیں ڈالتی۔

       2۔ دیوان تفتہ کااشتہاراسعدالاخبار میں پہلی بار اواخر 48ءمیں چھپا تھا۔ میری نظر سے ۱۱دسمبر 48ءسے قبل کے پرچے نہیں گزرے۔اس لےے مجھے علم نہیں کہ اشتہار اول میں غالب کے متعلق کچھ تھایانہیں۔ عرشی صاحب 20اگست 49ءپرچہ میں جو اشتہارہے اس کی بنا پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس سے پہلے تقریظ کی طرف اشارہ ہواہی نہیں۔ مزید تحقیق سے ثابت بھی ہوجائے جب بھی یہ لازم نہیں کہ تقریظ کے دیکھتے ہی صاحب مطبع نے اس کا ذکر کردیاہو۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتاہے کہ صاحب مطبع کو تقریظ کا علم 20اگست 49ءکویا اس سے پہلے ہوچکاتھا۔یہ تقریظ اصلی تھی یا ترمیم شدہ، اشتہار اس کے بارے میں ساکت ہے۔ یہ بھی قطعی نہیں کہ تقریظ ہی کی طرف اشارہ ہے مگر قیاس یہی چاہتاہے۔)

3۔ اواخر 47ءمیں دیوان کا اشتہارچھپا تھامگر دیوان اس وقت کس شکل میں تھااس کا مطلق علم نہیں۔ قیاس چاہتا ہے کہ مکمل ہواور اس میں زیادہ(17)ردوبدل کی گنجائش نہ ہو۔ اس صورت میں یہ دوہزار اشعار دیوان دوم میں داخل ہوئے ہوں گے۔اس کے خلاف بھی ہوتو تقریظ ایسی نہیں کہ اس کے لکھنے سے قبل کل کلام کامطالعہ ضروری ہو۔ تفتہ غالب کے شاگرد تھے اور غالب اس سے واقف تھے کہ شاعری میں تفتہ کا کیا پایہ ہے۔ تقریظ کے لےے یہ بالکل کافی تھا۔ذیل میں تقریظ کی وہ عبارت جس کاتعلق کلام تفتہ سے ہے، نقل کی جاتی ہے:

”رہ رو را بہ رہ گزارے مرغزارے در نظر آوردہ و دربیابانے بہ خیابانے در آوردہ اند کہ دراں تماشاگاہ بہ پویہ نیم گام زند موج سبزہ را بیند تا بہ کمر رسیدہ و گوشہ دستار را نگر واز گرانی بار گل خمیدہ ہمانا رہ گزارے کہ بہ سبزہ زارے انگشت نماشدہ و پیا بانے کہ بہ خیابانے روشناس آمدہ ہمیں غالیہ اندودہ سواد مردمک مرادوہمیں ریحاں رقم صحیفہ مشکیں سواد است کہ در نظر داشتہ ایم دنی(؟) بے نوا را بہ دیباچہ نگاری آن گماشتہ یارب ابن سخن پیونددنش مند در فن فرزانگی یگانہ و درآئیں یگانگی فرزانہ آسمان سخن را ماہ دو ہفتہ، منشی ہرگوپال تفتہ کہ ایں فہرست گنج خانہ راز راقم کردہ اوست وایں مجموعہ سوزوگداز فراہم آوردہ او، چہ ماہ دیدہ و دل باہم آمیختہ باشد تا ایں نقش بدیع انگیختہ باشد۔ سخن عشق و عشق سخن کلام حسن و حسن کلام را بہ یک وگر سرشتد تاچار آخیشج ہستی شیوابیانی سرانجام یافت کہ ازگرمی نفس و تشنگی جگر کہ درخسن بہ سخنداشت بہ مناسبت برستگی حسن گفتار تفتہ نام یافت، داد شناساں شناسند و اندازہ داناں وانند کہ باآں کہ خامہ در کف سخن دراز فراوانی آزروزش سخن لاابالی پوئے و بے پرداخرام است، سخن بہ نغزی و خوبی در داتی در نفس خویش تمام است لاجرم با چنیں دم گرم کہ ہیچ گہ دلش را از گفتار سردنہ داروسیہ مست مے سخن تفتہ از خود رفتہ در سخن ہائے آمدہ ہم آوردنہ دارد زیں پس گزاردن حق ستائش خوبی سخن بہ دیدہ وراں مے گزارم۔“ (پنج آہنگ صفحہ 39،40)

       تعریف یاتوبہت عام لفظوں میں ہے یاایسی ہے کہ تفتہ کا کلام اس کا بالکل مستحق نہیں۔ غالب یہی الفاظ ہراس شاعرکے لیے جسے وہ ناراض نہ کرنا چاہتے ہو استعمال کرسکتے تھے۔ اظہار رائے میں بڑے محتاط ہونے سے اگر عرشی صاحب کایہ مطلب ہے کہ غالب جچی تلی، بے لاگ رائے ظاہر کیاکرتے تھے تو اس سے اختلاف کی بہت کچھ گنجائش ہے جہاں تک معاصرین کا تعلق ہے ان کی ناقدانہ رائیں زیادہ تر مصلحت وقت کی تابع نظر آتی ہیں۔مثالیں بہت دی جاسکتی ہیں مگر طوالت کے خوف سے صرف چند پر اکتفاکیا جاتاہے۔

       حیا کے متعلق لکھا ہے:

سخنش رائے زندگی سیمائے کلام الملوک الکلام است وکمرش را از رخشندگی فروغ جوہر الہام’ پنج آہنگ ‘ صفحہ 38)

میر حسن خاں بسمل کو خاقانی پایہ کہہ کر مخاطب کیا ہے، پنج آہنگ صفحہ ۹۹قلق کی شاعری کے متعلق لکھاہے:

امیر خسرووسعدی وجامی کی روش کو سرحد کمال کو پہنچایاہے۔“ (خطوط غالب،صفحہ 152)

       شفق، ہاشمی اور عسکری کی شاعری، متاخرین یعنی صائب و کلیم و قدسی کے انداز کو آسمان پر لے گئے ہیں۔ (خطوط غالب ،صفحہ 152)

       4۔ عرشی صاحب کی رائے میں تقریظ کی ترمیم اواخر ۰۵ءمیں تقریظ کے چھاپے جانے سے کچھ قبل ہوئی ہے اس کے معنی یہ ہوئے کہ تقریظ اگست 1849ءمیں یا اس سے بھی کچھ پہلے تفتہ کے پاس پہنچ گئی۔ اور باوجود اس کے کہ وہ اس سے مطمئن نہ تھے، انہوں نے اسے بعض اصحاب کو دکھابھی دیا۔ لیکن غالب سے ترمیم کی درخواست برس ڈیڑھ برس کے بعد کی، عرشی صاحب کے پاس اس کا ثبوت اس کے سوااور کچھ نہیں کہ خط جس میں ترمیم کا ذکر ہے،اردو میں ہے۔ یہ رائے کہ غالب 1850ءسے قبل اردو میں خط نہیں لکھتے تھے پہلے ہی قائم کرلی گئی تھی۔خط زیر بحث کا زمانہ تحریر 1850ءسے قبل قرار نہ دینا ناگزیر تھا۔ ترمیم جیسا کہ خود غالب نے لکھا ہے کہ بہت کم تھی۔ غالب نے صرف ایک فقرہ بدل دیاتھا۔میرے لےے یہ باور کرنا بہت مشکل ہے کہ تقریظ کی ترمیم اس کی تصنیف کے برس ڈیڑھ برس بعد ہوئی۔ میری رائے میں تقریظ کی ترمیم اس کی تصنیف کے کچھ ہی بعدہوئی، اوراس زمانہ میں خط بھی لکھا گیا۔ یہ زمانہ 20اگست 49ءسے قبل ہے لیکن یہ فیصلہ نہیں کیا جاسکتاکہ کس قدر قبل ہے۔(18)

       دوسرا خط جواہر سنگھ جوہر خلف لالہ چھج مل کے نام کا ہے۔ خطوط غالب میں جو ہر کے نام سے جو تین خط ہیں ان میں یہ پہلاہے۔خط یہ ہے:

خط تمہارا پہنچا قطعے جو تم کو مطلوب تھے اس (کذا) کے حصول میں جو کوشش ہیراسنگھ نے کی ہے میں تم سے نہیں کہہ سکتا پانچ پانچ اور چار چار روپے اور دو روپے کو قطعے محل لےے اور بنوائے دوڑتاپھرا۔ کلیم صاحب کے پاس کئی بار جاکر حضوروالا کا قطعہ لایا۔ اب دوڑرہاہے۔ ولی عہد بہادر کے قطعے کے واسطے یقین ہے کہ دوچار دن میں وہ بھی ہاتھ آئے اور بعد اس قطعے کے آنے کے وہ سب کو یکجا کرکے تمہارے پاس بھیج دے گا۔ مدد  میں بھی اس کی کررہاہوں لیکن اس نے بڑی مشقت کی کیوں صاحب وہ ہماری لنگی اب تک کیوں نہیں آئی؟ بہت دن ہوئے جب تم نے لکھا تھااسی ہفتے میں بھیجوں گا۔

مہر صاحب نے کے ایک فارسی خط کی مدد سے اس خط کا زمانہ کتابت 1845ءکے لگ بھگ مقررکیاہے۔وہ لکھتے ہیں:

”فارسی مکاتیب میں ایک خط جوہر کے نام ہے جس میں لنگی کی فرمائش کی ہے۔اس خط کے آخرمیں مطبوعہ پنج آہنگ میں یکم دسمبر 1848ءمطابق چہارم محرم 1251ھ ثبت ہے۔ ہجری اور عیسوی تاریخ میں مطابقت نہیں ہوتی کم از کم ایک تاریخ ضرور غلط ہے اگر تاریخ ہجری کو 1251ھ کے بجائے 1261ھ رکھا جائے تو عیسوی تاریخ 1841 ءہونی چاہےے۔ میرا خیال ہے کہ یہی صحیح ہے۔ ان کے اردوئے معلیٰ کے ایک خط میں بھی لنگی کا تقاضہ موجود ہے یہ دونوں خطوط لازماً ایک دوسرے سے قریب کے زمانے میں لکھے گئے ہوں۔“ (غالب طبع اول،صفحہ 308)

       پنج آہنگ غدر سے قبل دوبار طبع ہوئی تھی لیکن غدر کے بعد کلیات نثر میں شامل کرلی گئی۔ کلیات پہلی بارغالب کی زندگی ہی میں شائع ہواتھا۔اس کی پہلی اشاعت میں ”آدینہ یکم دسمبر 1848ءچہارم محرم 1215ھ مرقوم ہے۔ 1215ھ دراصل 1665ھ ہے اور اس طرح عیسوی اور ہجری تاریخوں اور سنین میں مطابقت ہوجاتی ہے۔ مہر صاحب نے 1251ھ کلیات کی تیسری اشاعت میں دیکھا ہوگا۔ دونوں سنین کو بدلنے کی مطلق ضرورت نہ تھی۔ان کا یہ قول کہ فارسی اور اردو خط لازماً ایک دوسرے سے قریب قریب زمانے میں لکھے گئے ہیں البتہ قابل قبول ہے۔

       عرشی صاحب کی رائے میں خط زیربحث کا زمانہ تحریر کیاہے،اس کا ٹھیک پتا نہیں ملتا۔ ان کا بیان حسب  ذیل ہے:

”پنج آہنگ اور اردوئے معلیٰ میں چھ خط جوہر کے نام پائے جاتے ہیں(اس کے بعد خطوں کی فہرست دی ہے) ان میں سے پہلے اور تیسرے خط میں ساڑھے تین سال چوتھے اور پانچویں میں آٹھ مہینے اور پانچویں اور چھٹے میں دس سال سے زیادہ کافرق ہی کم تر مدت تیسرے اور چوتھے مکتوب کے درمیان ہے جو تین ماہ ہوتی ہے۔اب محولہ بالا مکتوب کی اصل عبارت ملاحظہ ہو کیوں صاحب وہ ہماری لنگی اب تک کیوں نہیں آئی؟ بہت دن ہوئے جب تم نے لکھاتھاکہ اس ہفتے بھیجوں گا“ اس عبارت کا جملہ ”بہت دن ہوئے“ غورطلب ہے۔ چونکہ میرزا صاحب کے فارسی خطوط نمبری ۲ اور ۴میں یہ شکایت کی گئی ہے کہ بہت دنوں سے تمہارا خط نہیں آیا؟جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جوہر خطوں کے جواب میں بے حد سست تھے اور ان کے نام کے خطوط کے درمیانی وقفے ہمیں معلوم ہیں۔ لہٰذا کچھ بعید نہیں کہ انہوں نے لنگی بھیجنے میں ڈیڑھ دو برس گزار دےے ہوں۔ یہا ںایک اور امرقابل بیان ہے کہ جہاں تک میں نے جستجو کی ہے بہ استثنائے نواب فردوس مکان ایسا کوئی مکتوب الیہ نہیں ہے جس کو میرزا صاحب فارسی میں خط لکھتے ہوں اور پھر فارسی مراسلت کے درمیان میں کوئی اور خط اسے لکھا ہو۔جب وہ کسی سے اردو میں مراسلت شروع کردیتے ہیں تو اس کے بعد اس کو فارسی خط نہیں لکھتے۔ جوہر کے نام 48ءمیں ایک اور اس کے بعد 52ءدوفارسی خط لکھے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتاکہ یہ درمیان میں اردو کاخط کیوں تحریر کیاگیا۔

       اس خط میں میرزا صاحب نے یہ بھی لکھاہے کہ ہیراسنگھ نے بڑی کوشش سے بادشاہ کے ہاتھ کے قطعے مہیا کرلےے ہیں۔اب ولی عہد کے دستحظی قطعا ت کی فکر میں ہے۔ میں بھی اس کی مدد کر رہاہوں۔میرے نزدیک ولی عہد سے مراد میرزافتح الملک ہیں جو1849ءمیں دارابخت کے انتقال کے بعد ولی عہد اور 1845ءمیں میرزاصاحب کے شاگرد ہوئے تھے۔ اس لےے ان کے دستحظی قطعوں کی تحصیل میں مرزاصاحب نے مدد دی ہے۔ان وجوہ کی بناپر لنگی کے تقاضے والے اردو خط کو فارسی کے خط مورخہ اگست 1852ءکے بعدکا مانتاہوں اور ایک دواور تقاضائی خطوں کو گمشدہ تصور کرتاہوں۔“(دیباچہ صفحہ 138 تا صفحہ 140)

       میں عرض کرچکاہوں کہ خط زیربحث کے زمانہ تحریرکے متعلق عرشی صاحب کی اصلی رائے کاپتا نہیں ملتا۔اس اجمال کی تفصیل ملاحظہ ہو:

       عرشی صاحب فرماتے ہیں کہ جوہرنے لنگی بھیجنے میں ڈیڑھ دوبرس گزار دےے ہوں گے۔ فارسی خط کی تاریخ تحریر یکم دسمبر 48ءہے۔عرشی صاحب کے بتائے ہوئے حساب سے اردو خط کی آخری تاریخ تحریر 21مئی 50ءہوسکتی ہے۔ گواس کابھی امکان رہتاہے کہ اس سے مہینوں قبل لکھا گیاہو۔ان کے اس قول سے کہ غالب اردو خط لکھنے کے بعد فارسی خط نہیں لکھتے۔یہ نتیجہ نکلتاہے اور خودانہوں نے نکالا بھی ہے کہ اردو خط اگست 53ءوالے فارسی خط کے بعدکاہے۔ آخرمیں انہوں نے بتایاہے کہ خط اس زمانہ کاہے جب غالب میرزا فتح الملک کے نوکر ہوچکے تھے۔یہ مسلم ہے کہ ملازمت کا زمانہ 1854ءتا 1856ءہے۔ خط کے زمانہ کتابت کے متعلق اس سے جو نتیجہ نکلتاہے، ظاہر ہے۔ گوخود انہوں نے صراحتاً لکھاکہ اس حساب سے خط کا زمانہ تحریر کیاہے۔

       خطوں کے درمیانی وقفے اور جوہر کی کاہل قلمی کی نسبت عرشی صاحب نے لکھاہے کہ اس کے متعلق میں یہ کہنا چاہتاہوںکہ خطوں کے درمیانی وقفے محض مطبوعہ خطوں کی مدد سے ثابت نہیں کےے جاسکتے۔مطبوعہ مجموعوںمیں جو خط ملتے ہیں، وہ ان خطوط کے مقابلے میں جوشائع نہ ہوسکے بہت کم ہیں۔ جوہرکے والد غالب کے دوست، خود جوہر(19) ان کے ”عزیز شاگرد“ اور مخصوصین میں تھے (یادگار صفحہ 107،113) اور مدتوں دلی سے باہر بھی رہے۔ غالب نے انہیں ۶سے بہت زیادہ خط لکھے ہوں گے۔ 1848ءتا 1846ءکے کل خط ہیں کہاں کے خطوں کے درمیانی وقفوں کا صحیح علم ہوسکے،اور اس سے کوئی نتیجہ نکالا جاسکے؟ عرشی صاحب کا قول ہے کہ دو خطوں میں بہت دنوں سے خط نہ آنے کی شکایت ہے۔ذیل میں دونوں خطوں کی ضروری عبارتیںدرج کی جاتی ہیں:

1۔ دریراست کہ مارا یاد نہ کردہ اند و ماجگر تشنہ خود را بہ زلال خیرے کہ از کنا رنامہ موسومہ رائے چھج مل ترا دو تسکین مے دہیم (پنج آہنگ،صفحہ 120)

       2۔ نامہ شما دیر است تا بہ من رسیدہ است، پاسخ جونہ بود، ورنہ دریں روز سیاہ نیز بنشستن نامہ دریغ نہ داشتمے (ہنج آہنگ صفحہ 120،121)

       پہلے خط میں جوہرکی شکایت ہے لیکن دوسرے میں معاملہ برعکس ہے۔ غالب نے خود جواب نہ دینے کی معذرت پیش کی ہے۔ صرف اس بناپر کہ ایک خط میں غالب نے دیرسے یاد نہ کرنے کی شکایت کی ہے۔عرشی صاحب یہ کہنے میں حق بجانب نہیں کہ ”جوہر جواب میں بے حد سست تھے“ غالب نے اپنے لےے بھی وہی دیرکا لفظ استعمال کیاہے،کیایہی حکم غالب پر بھی لگایا جاسکتاہے؟غالب اس کے زیادہ مستحق ہیں اس لےے کہ غالب جواب نہ دینے کے معترف ہیں اور جوہر کے بارے میں صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ خط لکھنے میں سبقت نہ کی۔ مزید یہ کہ اگر ایک خط میں یاد نہ کرنے کی شکایت ہے تو ایک میں جوہرکے متواتر خطوں کاذکر ہے:

“نامہ ہائے شما پیہم رسیدہ، پاسخ آں ہا(20) نیز پے ہم بہ پدر بزرگوار شماسپردہ شد۔ ایں نامہ کہ امروزمی نگارم ومے خواہم کہ بہ سبیل ڈاک رواں دارم بہ پاسخ دو صحیفہ بازپشین است نگاشتہ، 22نومبر و رقم زدہ 26نومبرکہ ہردوبہ ہنگام خویش بہ من رسیدہ نحستین چوں شوقیہ بود جواب نہ خواہد دو میں را پاسخ ازیں است (پنج آہنگ صفحہ 120)

       بہت دن ہوئے چند دنوں کے لےے بھی مستعمل ہوسکتاہے، چند مہینو ں کے لےے بھی۔ اور چند برسوں کے لےے بھی مجروح کے نام ایک خط ہے جس میں غالب نے اپنااور میرن صاحب کااصلی یا فرضی مکالمہ نقل کیاہے، اس میں یہ الفاظ محض چند دنو ں کے لےے آئے ہیں“ اس کے (مجروح کے) خط کو آئے ہوئے بہت دن ہوئے ہیں وہ خفا ہواہوگاجواب لکھنا ضرور ہے‘ حضرت،وہ آپ کے فرزند ہیں، خفاکیا ہوں گے؟ (خطوط صفحہ 269)

       خط زیربحث میں کس مدت کے واسطے استعمال ہواہے اس کے فیصلے میں وہ خط جس میں لنگی کی فرمائش کی تھی مدد دے سکتاہے۔ضروری عبارت یہ ہے:

کلمے از پوست برہ داشتنم، حالیا آں راکرم خود سرم بے کلاہ ماند۔اگرچہ کلہ نہ مے جویم اتالنگ ابریشمی چناں کہ در پشاور و ملتان سازند داعیان آں قلم روبہ سر پچند و غالب کہ دراں و یار ایں چنیں متاع زودو و آساں بہ دست آیدبہ جویند و بہم رسانند و سوئے من در ڈاک رواں دارند و قیمت آں برنگارند۔ تابہانہ خواہند نوشت نہ خوافرست درفرستادن لنگ و رنگ و نگاشتن قیمت تکلف نہ کنند ۰پنج آہنگ صفحہ 120)

       غالب کو لنگی کی ضرورت فوری استعمال کے لےے ہے،اسی لےے وہ ایک جگہ یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ جلد مل جائے گی اور دوسری جگہ جلد بھیجنے کی تاکید کرتے ہیں۔ لنگی کوئی نایاب چیز نہیں۔ غالب قیمت ادا کرنے کو تیار بلکہ اس پرمصر،غالب اور جوہر کے تعلقات بزرگانہ اور خودارانہ۔ یقین ہے کہ غالب کا خط ملتے ہی جوہر نے لکھاہوگاکہ اسی ہفتے بھیجوں گا۔ کسی سبب سے وعدہ وفانہ ہواتو غالب نے یاد دہانی کی۔ میرے لےے یہ باور کرنابہت مشکل ہے کہ فرمائش اور یاددہانی کے درمیان، برس ڈیڑھ برس کا وقفہ ہے، چند ہفتے بہت ہیں۔

       عرشی صاحب کایہ نظریہ کہ غالب کسی شخص سے اردو میں خط و کتابت شروع کرنے کے بعد اسے فارسی خط نہیں لکھتے تھے، غالب کی طبیعت کو دیکھتے ہوئے قابل قبول نہیں۔ اس قسم کے خودساختہ قاعدوں کی سختی کے ساتھ پابندی ان سے بعید ہے۔ یوں بھی بے شمار فارسی خط غائب ہیں۔ غالب کے عمل کا پتا کیونکر چلے؟ اس کا اعتراف خود عرشی صاحب کو ہے کہ اس کلےے کااستثنا موجود ہے۔ جہاں ایک مستثنی ہے وہاں ایک اور سہی! غالب جب یوسف علی خاں کو اردو میں خط لکھنے کے بعد فارسی خط لکھ سکتے تھے تو جوہر سے اس طرح مراسلت میں کونسا امر مانع ہوسکتاتھا؟

       اب رہا معا ملہ قطعوں کا،عرشی صاحب کے پاس کون سا ثبوت اس دعوے کاہے کہ ولی عہدسے مرزافتح الملک ہی مراد ہیں۔ دارابخت دارا بھی خطاط تھے (خم خانہ جاوید جلد ۳ صفحہ ۱۰۱) ممکن ہے کہ انہی کے قطعے کی تلاش ہو۔ مرزا فتح الملک ہوں جب بھی، یہ کیونکر معلوم ہوسکتاہے کہ قطعے کی تلاش غالب کی نوکری کے بعد کا واقعہ ہے۔ میرے نزدیک تو غالب کی اعانت کو کسی خاص قطعے کی تلاش پر محدود کردیناہی صحیح نہیں۔ غالب نے اپنی مدد کاذکرکیاہے،اس کی تصریح نہیں کی کہ کسی خاص قطعے کے حصول میں مدد دے رہے ہیں۔

       میری رائے میں جوہرکے نام کا اردوخط ان کے نام کے فارسی خط مورخہ یکم دسمبر 1848ءکے چند ہفتے بعدکاہے۔اس کا امکان ہے کہ چند مہینے بعدکاہو،لیکن میرے لےے یہ باور کرناکہ لنگی کی فرمائش یاجوہرکے وعدے اور غالب کی یاددہانی میں پانچ چھ (21) برس کاو قفہ ہے،مشکل نہیں، ناممکن ہے۔

3۔تیسرا دور بادشاہ کی ملازمت

       یعنی جولائی 50ءسے شروع ہوتاہے۔مہرنیمروزکی تصنیف کاآغازاس کے بعدہی ہواہوگا۔ اس کی عبارت میں ”قوت متخیلہ“ کاعمل بہت زیادہ ہے اور اس کی تصنیف میں مصروفیت ضرور ہے کہ اردو خطوں کی تعداد میں معتدبہ اضافے کاباعث ہوئی ہو۔رفتہ رفتہ کس طرح فارسی کم اور اردو زیادہ ہوتی گئی اورآخر میں صرف اردو پر انحصار رہ گیا۔اس کی تفصیلات کے لےے مکاتیب غالب طبع ثانی کا دیباچہ (ص143تا صفحہ 145) ملاحظہ ہو۔اس مبحث پر اس بہتر بیان میری نظر سے نہیں گزرا۔خلاصہ بحث یہ ہے:

       1۔ قیاس چاہتا ہے کہ غالب نے فارسی سے پہلے اردو میں خط لکھے ہوں۔

       2۔ غالب جس زمانے میں بالعموم فارسی میں مراسلت کرتے تھے، کبھی کبھی اردو میں بھی خط لکھا کرتے تھے۔

       3۔ کم از کم دوخط 1850ءسے قبل کے موجود ہیں۔

حواشی:

۱۔غالب کا قول ایک خط سے ماخوذ ہے جوشاکر کے نام عودہندی میں ہے۔اس خط پرکوئی تاریخ ثبت نہیں لیکن شاکر غالباً غدرکے بعد غالب کے شاگرد ہوئے ہیں۔ ”شدت نسیاں“ اور جان کنی کے خیالات کاذکرہے۔ یہ باتیں غدر کے بعدکی ہیں۔

۲۔مہرنیم روز۔کلیات نثر غالب،طبع اول صفحہ 132

۳۔ان کے گھرمیں کتاب کا کہیں نشان نہ تھا۔ ہمیشہ کرائے کی کتابیں منگوالیتے تھے اور ان کو دیکھ کر واپس کردیتے تھے۔ ”یادگار غالب،شائع کردہ دائرہ ادبیہ صفحہ 68، اسی کتاب میں صفحہ 19پر ”کبھی کوئی کتاب نہیں خریدتے تھے۔الاماشاءاللہ)۔

۴۔نادر خطوط غالب مرتبہ جناب رساہمدانی میں مرتب کے پردادا کرامت کے نام کاایک خط ہے۔جناب رسامقدمہ نادر خطوط صفحہ 13تا15میں مدعی ہیں کہ یہ پہلا خط اردوکاہے (یہ اور کرامت کے نام کے دوسرے خط جعلی ہیں۔ تبصرہ نادر خطوط نوشتہ راقم جنوری 1943ء) کے معاصر ”ندیم“ میں ملاحظہ ہو)بعد کواپنے ایک مضمون میں جواپریل ۴۴ءکے ”ندیم‘ میں چھپاہے، بغیرکسی ثبوت کے انہوں نے یہ لکھاہے کہ یہ خط جویکم جنوری 1851ءکاہے۔ حالی کی نظر سے گزراتھا،اور حالی نے اسی کودیکھ کر یادگار غالب میں تحریرکیاتھاکہ اردو خط میں خط و کتابت 50ءکے بعد سے شروع ہوئی۔

۵۔طبع ثانی میں مہرصاحب نے اپنی رائے میں ترمیم کی ہے۔

۶۔دیباچہ صفحہ 145۔1850ءتک میرزا صاحب تقریباً اسی زبان (یعنی فارسی) میں خامہ فرسائی کرتے رہے۔ ”تقریباً سے عرشی صاحب کی کیا مراد ہے؟

۷۔تقریظ گلشن بے خار و نامہ غالب۔

۸۔ایسی شریف خواتین جوبالکل پڑھی لکھی نہیں یاصرف قرآن مجید پڑھ سکتی ہیں اب بھی موجود ہیں اور غالب کے زمانے میں آج کل کی بہ نسبت بہت زیادہ ہوں گی۔ غالب رامپور سے غلام نجف خاں کو لکھتے ہیں”یہ تم کیا لکھتے ہوکہ گھرمیں خط جلد جلد لکھاکرو تم کو جو خط لکھتاہوں گویا تمہاری استانی جی کو لکھتاہوں۔ کیا تم سے اتنا نہیں ہوتاکہ جاو


 اور پڑھ کر سناؤ (خط نمبر13) خط پڑھ کر سنادینے کی ہدایت خط نمبر۱۱،۹۱ میں بھی ہے، ثاقب کے نام کے خط ۹ میں بھی یہی لکھا ہے۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ غالب کا یہ عام انداز تھا۔ خط 18بنام غلام نجف خاں میں یہ عبارت ہے”لڑکے بہ خیروعافیت ہیں۔ اپنی استانی سے کہہ دینا۔ میرزاشہاب الدین خاں کو دعا۔نواب ضیاءالدین خاں کو سلام۔ میرا رقعہ ان دونوں صاحبوں کو پڑھا دینا۔ ”امراوبیگم اگر خط پڑھ سکتیں توان کے بارے میں بھی یہ ہوتاکہ خط پڑھوا دیتا۔ امراو


 بیگم کے خطوط بنام کلب علی خاں خود امراو


 بیگم کے لکھے ہوئے نہیں۔ (عرشی صاحب کا خط بنام راقم)۔

9۔پنج آہنگ صفحہ 74

10۔ عود ہندی، الہ آباد۔

11۔شفاءالملک حکیم حبیب الرحمن صاحب کے ایک خط سے معلوم ہوتاہے کہ ان کے پا س غالب کے چند غیر مطبوعہ فارسی خطوط ہیں جن کی عبارت بالکل معمولی ہے۔

12۔نامی غالب سے فارسی میں ایک خط کا جواب لکھوانا چاہتے تھے۔ غالب کی طبیعت شاعرانہ نثر لکھنے پراس وقت مائل نہ تھی۔ انہوں نے بہانہ کردیاکہ خط اس کا مستحق نہیں کہ اس کا جواب ”پہلوی و دری میں دیاجائے نثرکے بدلے ۴ رباعیاں بھیجتاہوں۔اپنی طرز خاص نثرلکھنے سے رباعیاں لکھنے میں زیادہ سہولت نظر آئی ہوگی۔(عود ہندی،صفحہ 223)

13۔خط میں دیباچے کاذکر ہے اور پنج آہنگ میںبھی دیباچہ لکھا ہے۔دیوان میں یہ دیباچہ تقریظ کے نام سے چھپاہے۔اس طرف اشارہ کردیا جاتا تو بہتر تھا۔

14۔اقتباس مرتب نے نقل نہیں کےا۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس میں تقریظ کاذکر ہی نہیں۔

15۔دونہیں،تین دیوان ہیں۔

16۔سہو دراصل کارپردازان مطبع کاہے، رمضان 65ھ تک ایک ربع چھپ چکاتھا۔یہ کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ اس کا چھاپا اواخر 65ھ میں شروع ہوا؟ تقطیع بڑی تھی، ۴ صفحوں سے زیادہ ایک پتھر میں نہیں آتے ہوں گے۔ایک ربع ۱ ۱جزہی ہوں تو ۴۴پتھر کی ضرورت ہوئی ہوگی۔

17۔متفرقات سے بحث نہیں۔

18۔تفتہ کے نام کے خط ۲(خطوط صفحہ 302) کازمانہ تحریر مہیش پرشاد صاحب نے اگست 50ءلکھا ہے۔میں نے غالب کے ان الفاظ کی بناپر کہ ”جب تمہارا دیوان چھاپاجائے گایہ قطعہ بھی چھپ جائے گا“ یہ رائے ظاہر کی تھی کہ عجب نہیں یہ خط 50ءسے پہلے کا ہو۔ عرشی صاحب لکھتے ہیں کہ وہ قطعہ جس کاذکراس خط میں ہے دیوان تفتہ موجود ہے اور 50ءکا لکھاہواہے۔ ظاہر ہے کہ مہیش پرشاد صاحب کے قول صحت میں مشتبہ میں نے ظاہر کیاتھا،اس کے لیے کوئی سبب نہیں۔

19۔جوہر اور مے کش کے حق میں غالب کی رباعی کلیات نظم میں ہے، یادگا رمیں بھی نقل ہوئی ہے

تانے کش و جوہر دو سخن در داریم

شان دگر و شوکت دیگر داریم

در میکدہ پیریم کہ مے کش ام ماست

در معرکہ تیغیم کہ جوہر داریم

20۔یہ خط پنج آہنگ میں کہاں ہیں۔

21۔ بہ شرط ضرورت معاصرین کی شہادت پیش کی جاسکتی ہے۔