غلام رسول مہر
غالب کی شاعری
(غوروفکر کے بعض نئے پہلو)
شعرِغالب نبود وحی و نگوئیم ولے
تو ویزداں نتواں گفت کہ الہامے ہست
مرزاغالب کی زندگی اور شاعری کے متعلق اتنی کتابیں، رسالے اور مقالے لکھے جاچکے ہیں کہ اردو اور فارسی کے شاعروں میں سے شاید ہی کسی کے ساتھ اتنا اعتنا کیا گیا ہو، ایک علامہ اقبال کو غالباً مستثنیٰ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم میں سمجھتاہوں کہ اب بھی مرزا کی شاعری کے بعض پہلو مزید غوروتوجہ کے محتاج ہیں اور جس حد تک مجھے علم ہے بے تکلّف اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ بہت محدود ہے۔ کہہ سکتا ہوں کہ ان پر اگر کچھ لکھا گیا ہے تو وہ بہت کم ہے۔
ان میں سے ایک پہلو کا ذکر میں نے”ماہِ نو“ کے گزشتہ ”غالب نمبر“ میں سرسری طورپر کیا تھا۔ یعنی مرزا غالب کے جو شعر پیشتر کے اساتذہ سے استفادے یا ”توارد“ کے تحت آتے ہیں، ان کی چھان بین کی جائے اور جائزہ لیا جائے کہ آیا مرزا نے سابقہ مضامین میں کوئی خاص اضافہ کیا، جس سے ان کا حسن پوری طرح نکھر گیا؟ خواہ وہ اضافہ نفسِ مضمون میں ہو یا بیان میں۔ میں نے چند مثالیں بھی دی تھیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اصل معاملے کا دامن زیادہ وسیع ہے اور مرزا کے کلام سے شغف رکھنے والوں کی خدمت میں مودبانہ التماس ہے کہ وہ اس سلسلے میں غوروتحقیق کا قدم آگے بڑھائیں۔
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جومضامین و مطالب کلیاتِ فارسی اور دیوانِ اردو دونوں میں موجود ہیں، ان کاموازنہ کیا جائے اور دیکھا جائے کہ کیا فارسی کے مضامین اردو میں یا اردو کے مضامین فارسی میں بعینہ لے لئے یا ان میںکچھ اضافہ کیا؟ ایک دوسرے کا ترجمہ ہے یا کسی ایک میں زیادہ وضاحت،زیادہ حسن اور زیادہ دل آویزی پیدا کردی ہے؟ اس ضمن میں یہ اندازہ بھی کیا جاسکتاہے کہ اصل مضمون کے لئے فارسی کا قالب زیادہ موزوں رہا یا اردو کا؟
خود اردو میں بعض اشعار بہ لحاظِ نفس مضمون مترادف ہیں، اگرچہ اسلوب بیان ایک نہیں۔ ان پر الگ غور کرنا چاہیے۔ مثلاً:
۱۔
دریائے معاصی تنگ آبی سے ہوا خشک
میرا سرِ دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا
۲۔
بقدر حسرت دل چاہیے ذوقِ معاصی بھی
بھروں یک گوشہ دامن گر آبِ ہفت دریا ہو
یا
۱۔
وارستہ اس سے ہیں کہ محبت ہی کیوں نہ ہو
کیجے ہمارے ساتھ عداوت ہی کیوں نہ ہو
۲۔
قطع کیجے نہ تعلق ہم سے
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی
۳۔
لاگ ہو تو اس کو ہم سمجھیں لگاؤ
جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا
مرزاکی شاعری کے اس پہلو پرغور وتدبّر یقینی منفعت بخش ہوگا۔
ایک پہلویہ بھی ہے کہ مرزا کے بعض اشعار پرایک سرسری سی نظر ڈالتے ہوئے ایسا تاثر قبول کرلیا گیا جو صحیح نہ تھا یا کم از کم اس کا دوسرا پہلو بالکل نظرانداز کردیا گیا۔ مثلاً مرزا کا ایک مشہور شعرہے:
خوشی کیا کھیت پر میرے اگر سوبار ابر آئے
سمجھتا ہوں کہ ڈھونڈے ہے ابھی سے برق خرمن کو
یہ شعر عموماً مرزاکی قنوطیت کے ثبوت میں پیش کیا جاتاہے۔ اگرمزیدغور کیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ مرزانے اس میں قنوطیت کااظہارنہیں کیا، بلکہ ایک معاملے کے دو پہلو پیش کیے ہیں تاکہ اہلِ نظر دونوں کوسامنے رکھیں۔ ابرکے دامن میں وہ پانی بھی ہوتا ہے جو کھیتوں، فصلوں اور باغوں کے لئے آبِ حیات ہے، بجلی بھی ہوتی ہے، جو سب کچھ جلا کر راکھ بنا دیتی ہے۔ اسی طرح یہاں کی مختلف چیزوں کے دوہی پہلو ہیں، جو متضاد نظر آتے ہیں۔ حقیقت شناس وہ ہے، جو دونوں پہلووں کویکساں پیشِ نظر رکھے۔ نہ ابرکی آب رسانی کے جوشِ شادمانی میں بجلی کی تباہ کاری سے اعراض کرے اور نہ بجلی کی دہشت انگیزی سے ہراس زدہ ہوکر ابرکے فیضان سے استفادے کا رشتہ کاٹ دے۔ اسے چاہیے کہ خیرسے فائدہ اٹھائے اور شر سے محفوظ رہنے کے لئے تمام ممکن تدبیروں پر عمل پیرا رہے۔
ہم کیوں سمجھیں کہ مرزا نے یہاں قنوطیت کا اظہار کیا ہے اور ان کی نظراچھی چیزوں میں بھی بُرے پہلو ہی پررہتی ہے؟ کیوں یہ نہ سمجھیں کہ انہوں نے دنیا کو بصیرت کی دعوت دی ہے؟ یعنی انسانوں کوصرف اچھے پہلو ہی پر قانع نہ رہنا چاہیے، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس اچھی چیز سے برائی ظہورکرےگی تو امیدو رجائیت کی پوری متاع برباد ہوجائے گی۔ ضروری ہے کہ بُراپہلو بھی نگاہوں سے اوجھل نہ ہوتاکہ پہلے ہی اس کا انسداد کرلیا جائے۔
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مرزا نے ”رشک“ کی طرح بعض دوسرے مضامین میںبھی حیرت انگیز نکتہ آفرینیاں کی ہیں،مثلاً ”شراب“۔ میرے اندازے کے مطابق ”شراب“ کے متعلق سیکڑوں شعرکہے۔ہر شعر میںاس موضوع کے متعلق نئی بات کہی اور کوئی بھی بات ایسی نہ کہی جو اس دائرے میں حقیقت و واقعیت کی صحیح تصویر نہ ہو۔ مضامین شراب میں اتنا تنوع حافظ اور خیام کے ہاں بھی نہ ملے گا،جو خمریات، میں امام مانے جاتے ہیں۔ ایسے مضامین بھی بے شمارہیں، ن کے متعلق بے تکلف کہا جاسکتاہے کہ:
ہرچند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
بعض اور پہلو بھی ہیں، لیکن میں اس گفتگو کو پھیلانا نہیں چاہتا اور جو کچھ اور پیش کرچکا ہوں، اس کی چند ملی جلی مثالیں عرض کروں گا۔
مرزا کا ایک فارسی شعر ہے:
تا نیفتد ہرکہ تن پرور بود
خوش بود گر دانہ نبود دام را
پرندے پکڑنے کے لئے پھندا لگاتے ہیں تو اس پردانے بکھیر دیتے ہیں تاکہ پرندے دانے کے لالچ میں درختوں سے زمین پر اتریں اور پھنس جائیں۔ مرزا کہتے ہیں کہ دانے کی خاطر اترنا ”تن پروری“ ہے۔ کیا اچھا ہوتا کہ جال بچھاتے وقت اس پر دانے نہ بکھیرے جاتے تاکہ تن پروری کاذوق پرندوں کے لئے گرفتاری کا موجب نہ ہوتا۔
یہی مضمون طاعت و عبادت کے سلسلے میں ذرا کھول کربیان کیاتو فرمایا:
طاعت میں تا رہے نہ مے و انگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو
جو لوگ خداکی عبادت کرتے ہیں، اس کے حکموں کے پابند رہتے ہیں، ان میں سے اکثر کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اعمال حسنہ کی جزا پائیں گے اور بہشت میں جائیں گے، جہاں شہد کی نہر بھی ہوگی، شراب طہور بھی ملے گی اور دوسری نعمتوں سے بھی مستفید ہوں گے۔ مرزا فرماتے ہیں کہ یہ طاعت خالصتہً خدا کے لئے نہ رہی بلکہ بہشت اور اس کی نعمتوں کے لئے ہوگئی۔ مرزا کے نزدیک حقیقی اور خالص طاعت وہ ہے، جو غیر اللہ کی تمام خواہشوں سے بالکل پاک ہو۔
پھر فرماے ہیں:
کیا زہد کو مانوں کہ نہ ہو گرچہ ریائی
پاداشِ عمل کی طمع خام بہت ہے
یعنی زہد اگر ریا سے پاک بھی ہوتومیں اس کا معتقد کیوں کر ہوسکتاہوں۔ آخراپنے اعمال کی جزا کا معاملہ توساتھ ساتھ چلاجارہاہے۔ جب تک اس طمع خام سے زہد پاک نہ ہو، وہ ایسا زہد کیوں کر بن سکتا ہے جسے میں قابلِ احترام مانوں؟
اب فارسی اور اردو کے متعدد ہم معنی اشعار پرایک نظر ڈال لیجیے جنہیں میں نے سرسری نظرمیں چُناہے۔ دقتِ نظرسے کام لیا جائے تو اور بہت سے اشعار مل جائیں گے:
۱۔
گریہ کرد از فریب وزارم کُشت
نگہ از تیغ آبدار تراست
کرے ہے قتل لگاوٹ میں تیرا رو دینا
تری طرح کوئی تیغ نگہ کو آب تو دے
۲۔
ہفت آسماں بہ گردش و ما درمیانہ ایم
غالب و گرمپرس کہ برماچہ مے رود
رات دن گردش میں ہیں ہفت آسماں
ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
۳۔
ہر رشحہ بہ اندازہ ہر ہر حوصلہ دادند
مے خانہ توفیق خم و جام نہ دارد
توفیق بہ اندازہ ہمّت ہے ازل سے
آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا
گرتی تھی ہم پہ برقِ تجلی، نہ طورپر
دیتے ہیں بادہ،ظرفِ قدح خوار دیکھ کر
۴۔
لالہ و گل ومداز طرفِ مزارش پسِ مرگ
تا چہا در دلِ غالب ہوسِ روئے تو بود
مشہدِ عاشق سے کوسوں تک جو اگتی ہے حنا
کس قدر یارب ہلاکِ حسرتِ پابوس تھا
۵۔
رمز بشناس کہ ہر نکتہ ادائے دارد
محرم آن است کہ رہ جز بہ اشارت نہ رود
چاک مت کر جیب بے ایّام گُل
کچھ ادھر کا بھی اشارہ چاہےے
۶۔
فغاں کہ نیست سرد برگ دہن افشانی
بہ بند خویش فرد ماندہ ام بہ عریانی
دیکھ کر درپردہ گرمِ دامن افشانی مجھے
کر گئی وابستہ تن میری عریانی مجھے
۷۔
ناکس زتنومندی ظاہر نہ شود کس
چوں سنگِ سرِ رہ کہ گران است و گراں نیست
قدر سنگِ سرِ رہ رکھتا ہوں
سخت ارزاں ہے گرانی میری
۸۔
ناداں حریف مستیِ غالب مشوکہ او
دردی کش پیالہ جمشید بودہ است
صاف دُردی کشِ پیمانہ جم ہیں ہم لوگ
وائے وہ بادہ کہ افشردہ انگور نہیں
۹۔
از جوئے شیر و عشرتِ خسرو نشاں نہ ماند
غیرت ہنوز طعنہ بہ فرہاد می زند
عشق و مزدوریِ عشرت گہ خسرو؟ کیا خوب
ہم کو تسلیم نکو نامیِ فرہاد نہیں
10۔
فرصت از کف مدہ و وقت غنیمت پندار
نیست گر صبح بہارے، شب ماہے دریاب
غالب چھٹی شراب،پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روز ابر و شبِ ماہتاب میں
پی جس قدر ملے شبِ مہتاب میں شراب
اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے
مرزاکاایک خاص مضمون یہ ہے کہ گناہوں کی پرسش میں انہیں اپنی حسرتیں یادآجاتی ہیں۔ اس سلسلے میں فارسی کاایک نہایت عمدہ شعرہے:
اندر آں روز کہ پرسشش رود ام ہرچہ گزشت
کاش باما سخن از حسرت ما نیز کنند
پھر یہی مضمون ایک رباعی میں یوں پیش کیا ہے:
اے آنکہ وہی مایہ کم و خواہش بیش
آں روز کہ وقت باز پرس آید پیش
بگزار مرا کہ من خیالے دارم
با حسرت عیشہائے ناکردہ خویش
مثنوی ”ابرگہربار“ کی مناجات کے آخرمیں کم و بیش اَسّی شعر صرف اس موضوع پر کہے ہیں اور ایسا انداز اختیار کیاہے کہ وہ شعر پڑھتے وقت دل ہل جاتاہے۔
دیوان اردو میں بھی دو شعر اس مضمون کے موجود ہیں:
۱۔
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یارب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے
۳۔
آتا ہے داغ حسرتِ دل کا شمار یاد
مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ
آخر میں اتنااور عرض کرنا چاہتاہوں کہ مختلف اصحاب نے مرزاکے بعض اردو اشعار کو کسی نہ کسی فارسی شعر کے ہم مطلب قرار دے لیااور اس حقیقت پر غور نہ کیاکہ دونوں میں حقیقتہً کتنافر ق ہے۔ مثلاً بیگی دختر علی حیدرکایہ شعر ملاحظہ فرمائیے:
من اگر توبہ زمے کردہ ام اے سردِ سہی
تو خود ایں توبہ نہ کردی کہ مرا مے نہ دہی
یعنی اے سروِ سہی! اگر میں نے شراب سے توبہ کرلی تو تونے کب توبہ کی تھی کہ مجھے شراب نہ دے گا؟ کہا گیاہے کہ مرزاکا مندرجہ ذیل شعراسی سے ماخوذ ہے:
میں اور بزمِ مے سے یوں تشنہ کام آوں؟
گر میں نے کی تھی توبہ، ساقی کو کیا ہوا تھا؟
بلاشبہ شراب سے توبہ کرنے اور ساقی کی طرف سے شراب نہ ملنے کاذکر دونوں میں موجود ہے، مگر بیتی کا شعر محض ذکر پر ختم ہوگیااور شراب کے سلسلے میں ساقی یا محبوب کو ”سروِ سہی“ کہنا کچھ لطف نہیں رکھتا۔اورآپ مرزا کے شعرکی معنویت پر غور فرمائیے:
۱۔”میں اور“ سے ظاہرہوتاہے،میکش اتنا پینے والاہے کہ ساقی اور رند سب اس سے بخوبی آگا ہیں۔ اسی لئے”میں“ پرخاص زور دیااور صرف ”میں“ کہہ کریہ پوری حقیقت واضح کردی۔
۲۔ پھر شراب نہ ملنے سے جو تکلیف ہوئی، وہ محتاج بیان نہیں۔ علاوہ بریں میکش کو اس بات پربھی سخت غصّہ ہے کہ عرق نوشی میں درجہ کمال حاصل کرلینے کے باوصف ساقی نے قدرنہ پہچانی۔
۳۔ بے شک شراب سے توبہ کرلی تھی،مگر بزم مے میں جانے سے صاف ظاہرہوگیاتھاکہ توبہ کچھ ایسی پختہ واستوارنہیں کہ ٹوٹنے نہ پائے یا شراب پیش کردی جائے تو اسے قبول کرنے میں ہچکچاہٹ ہو۔
۴۔”بزم مے“ سے روشن ہے کہ شراب نہ ملنے کاواقعہ خلوت میں پیش نہ آیا،جسے طوراً و کرہاً برداشت کیا جاسکتاتھا،بلکہ بھری محفل میں پیش آیا، جہاں حریفوں کا پورا گروہ موجود تھا۔ گویا سبکی اور بے عزتی رندوں کے مجمع میں ہوئی جس سے میکش کے غصّے کی آگ برابر تیز ہورہی ہے۔
۵۔ ”یوں تشنہ کام آوں“ سے پتا چلتاہے کہ رفعِ خمار کی بڑی امیدیں اور آرزوئیں لے کر بزمِ مے میں شریک ہواتھا،مگر ساقی نے آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھااور دور شروع ہواتو اسے تشنہ کام و نامراد لوٹا دیا۔
۶۔پھر کہتے ہیں اچھا بھئی مانا، میں نے توبہ کرلی تھی۔آخر ساقی کو تو خیال ہونا چاہےے تھاکہ توبہ محض نمائشی اور ریائی ہے، کیونکہ وہ تو عمربھرسے میکشی کو دیکھ رہاتھا، توبہ کامعاملہ تو ایک معمولی معاملہ تھا، یہ معمولی معاملہ یاد رکھااوراسی کو معیار سلوک بنالیا۔عمر بھر کی ہم مشربی یک قلم فراموش کردی۔
۷۔ سب سے آخر میں کہتے ہیں کہ”ساقی کو کیاہواتھا؟“ یعنی میں نے توبہ کرلی تھی تو اس نے کیوں یہ ناقابلِ تصوّر و تیرہ اختیار کرلیا؟
پھر لطف یہ کہ کوئی معین بات نہیںبتاتے،”کیاہواتھا“ کہہ کر معاملہ ختم کردیا،جس کی بیسیوں تعبیریں ہوسکتی ہیں۔ مثلاً:
ا۔ کیاوہ اس پر ناراض تھاکہ میں نے توبہ کیوں کی؟
ب۔ کیاحریفوں نے اسے مختلف باتیں کہہ کہہ کر میرے خلاف برانگیختہ کردیاتھا؟
ج۔کیاوہ ہوش میں نہ تھااور اس نے مجھے پہچانا نہیں تھا؟
د۔ کیاوہ چاہتاتھاکہ یوں مجھ سے بھری محفل میں توبہ کابدلہ لے؟
ہ۔ کیااس کے سے دیرینہ رند کے ساتھ ایسا برتاو مناسب تھا۔
و۔ کیابیگی کے قول کے مطابق اس نے مجھے شراب دینے سے توبہ کرلی تھی؟
غرض سوچتے جائےے اور مختلف پہلو نکلتے آئیں گے،بیگی کے شعر میں معنویت کے اتنے پہلو کہاں موجود ہیں؟
غرض میری گزارشات کامدّعایہ ہے کہ مرزاغالب کی شاعری کے ان پہلووں پربھی اربابِ ذوق کو خاص توجہ فرمانی چاہےے اور مجھے یقین ہے کہ یہ توجہ بہرحال سودمند ہوگی، اغلب ہے کئی ایسے نکتے روشنی میں آجائیں جواب تک عام نظروں کی گرفت سے باہر رہے۔