محمد عبدالرحمن چغتائی
مرقع چغتائی
غالب کے مصور نسخہ کی داستان تخلیق
غالب کے مصور ایڈیشن، مرقع چغتائی کی تخلیق کے سلسلے میں اس سے قبل بھی کچھ گزارشات پیش کرچکا ہوں اور اس موقع پر بھی چند نئے اضافوں اور وضاحتوں کے بعد یہی داستان دہراتا ہوں۔ اس عظیم اور فنی پیش کش کی اہمیت پر اس بیان سے بھی کافی روشنی پڑے گی۔
میری زندگی اورمیرے فن کی داستان میں 1919 بہت اہم سال ہے۔ یہ سال وہ ہے جب میرے فن کی ابتدا ہوئی۔ یہی زمانہ ہے جب مجھے اپنے مستقبل سے روشناس ہونے کا موقع ملااور یہ احساس زندگی کاجزو بن گیا۔ احساس یہ تھا کہ مجھے آئندہ ایک بڑا فنکار بننا ہے اور اسی کے لیے جینا ہے۔ یہ خودی کی بیداری تھی۔ اس سے قبل میں کچھ افسانے اور کہانیاں بھی لکھتا تھا اور اب بھی لکھتا ہوں، لیکن یہ محض ایک شوقیہ مشغلہ تھا اور ہے۔
1924 میرے امتحان اور خود اعتمادی کی آزمائش کا سال تھا اور اس کے اظہار کاموقع بھی پیدا ہوا۔ میں ان دنوں میو اسکول آف آرٹ لاہورمیں ایک انچارج کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ اس عہدہ سے جب گلوخلاصی کی نوبت آئی تو اس وقت میں رخصت پر تھا۔ چھٹیاں گزار کر جب ادارے میں واپس آیاتو کالج کے پرنسپل سے آمنا سامنا ہوا۔ یہ ایک انگریز افسر تھا۔ فنکار اور منتظم بھی بہت اچھا تھا۔ اس نے مجھ پر ظاہرکیا کہ چھٹیوں کے دوران میں سنیما دیکھتا رہاہوں!۔ یہ ایک چغل خور کی حرکت تھی۔ چغل خور کون تھا، میں اس کو اچھی طرح جانتا تھا۔ یہ شخص میری فنی کامیابی اور ہردلعزیزی کو دیکھ دیکھ کر جلتا تھا اور میرے پیچھے پڑا ہوا تھا اورایسے موقع کی تلاش میں تھا کہ میرے خلاف کان بھرسکے۔ بلکہ مجھے نقصان پہنچنے کا امکان بھی پیدا ہوا۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ میری بنائی ہوئی تصاویر کی نمائش ہو رہی تھی۔”پنجاب فائن آرٹ سوسائٹی“ کی پہلی نمائش ہوئی تو اس میں کام کی غیر معمولی قدر کی گئی۔ کئی تصاویر کم وبیش چھ سات ہزار میں فروخت بھی ہوئیں۔ ان کا بیشتر حصہ ہزہائینس میر صادق عباسی بہاول پورنے خرید فرمایا تھا۔ یہ پہلا فاتحانہ معرکہ تھا۔ جس وجہ سے قدرتاً حاسدوں کابھی ایک گروہ پیدا ہوگیا۔ میں نے موقع پراپنے آپ کو ایسے حاسدوں کے بیچ میں کھڑا ہوا پایا۔ مگر حاسدانہ کوششوں اور کشاکش کے ساتھ حقیقی قدر افزائی نے بھی میری ذات، فن اور مستقبل پر گہرا اثرڈالا۔
ذکر انگریز پرنسپل کا تھا میں نے اس کے سامنے کہا کہ اطلاع غلط ہے۔ میرے اس انکار پروہ تن گیا کہنے لگا۔ بڑے قابل اعتماد آدمی نے مجھے باوثوق طریقہ پر بتایا ہے اس کی اطلاع غلط نہیں ہے میں نے دہرایا وہ مجھ سے زیادہ تو نہیں ہوسکتا۔ میں اپنے آپ پرکامل اعتماد رکھتا ہوں اور ذمہ دار بھی سمجھتا ہوں۔
ممکن ہے گفتگو طول پکڑ جاتی لیکن میں بات کو ادھورا چھوڑ کر واپس چلا آیا اور راستے ہی میں اس بات کا فیصلہ کیا کہ ان حالات میں مجھے اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوجانا چاہیے۔ اس خود اعتمادی کی بنا پر ہی میں نے استعفیٰ دے دیا۔ انگریز پرنسپل کے لیے یہ پہلا موقع تھا کہ کسی نے ایسی جرات سے کام لیا۔ میرا استعفیٰ دیکھ کر وہ کچھ پریشان بھی ہوا۔ کالج کے اساتذہ کوبلا لیا اور بڑے خلوص سے سمجھانے لگا کہ میں استعفیٰ واپس لوں۔
اس نے میرے روشن مستقبل پربھی روشنی ڈالی اور کہنے لگا ہو سکتا ہے تم ایک دن اس انسٹی ٹیوشن کے پرنسپل ہوجاو مگر زیادہ حجت نہ کی اور ایک ماہ کی تنخواہ چھوڑ کر گھر بیٹھ گیا۔ یہ مالی قربانی اس وقت میرے اور میرے خاندان کے لیے معنی رکھتی تھی، بالخصوص اس وجہ سے کہ یہاں تک پہنچنے کے لیے جتنے پاپڑ بیلے تھے، بہت فاصلے طے کیے تھے، بڑی ریاضت اور انتھک کوششیں کرنے کے بعد ہی یہاں تک پہنچا تھا۔
اس کے بعد میں ملازمت کے پھندے میں کبھی نہ پھنسا ہمیشہ اس جال سے بچ کر نکل گیا۔ خدا کے فضل سے کامیاب، مجھے اس وقت مدراس، حیدرآباد دکن اور میواسکول آرٹ (موجودہ نیشنل آرٹ کالج) کے پرنسپل کی اسامی کے لیے پیش کش کی گئی۔ مگر میں ملازمت کوکبھی ترجیح نہ دے سکتا تھا۔ اس لیے اس طرف سے نفور رہا۔
ملازمت سے سبکدوشی کے بعد میرے کانوں میں عجیب قسم کی طرح کی پیشنگوئیاں بلکہ بدگوئیاں پڑتی رہیں۔ مگر میں سنی ان سنی کر دیتا تھا۔ صحیح تھا کہ اس وقت میری گھریلو زندگی ان جرات مندانہ اقدام کی اجازت نہ دیتی تھی۔ صرف اس ملازمت واحد کا سلسلہ تھا جس سے زندگی کو سہارا مل رہا تھا۔ مگر آفریں ہے میری محترمہ والدہ کو کہ انہوں نے میری ڈھارس بندھائی اور اس جرات کو میرے حق میں فال نیک قرار دیا اور دعا دی کہ اللہ ہمیں کسی کا محتاج نہ کرے گا۔
ہم تین بھائی ہیں۔میں بڑاہوں ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی منجھلے اور عبدالرحیم چغتائی سب سے چھوٹے ہیں۔ ڈاکٹر عبداللہ میری اس جرات پر مشوّش تھے۔ ایک طرح عبداللہ کا سوچنا بھی ٹھیک تھا۔ اس کا تعلق حالات کی سفاکی، غربت اور ضروریات زندگی سے تھا۔ بعض اور ذہنی عوامل بھی تھے اور یہ مزاجوں، نیز اقدار زندگی کے باب میں زاویہ نظر کے فرق سے بھی تعلق رکھتا ہے۔
بہرکیف یہ ان دنوں کی بات ہے جب ویمبلے، انگلستان میں سرکاری اہتمام سے ایک بہت بڑی نمائش فن منعقد ہورہی تھی اور برطانوی نوآبادیات کے فنکار اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔ یہ 1923 کا واقعہ ہے۔ میرے کام کے نمونے بھی اس نمائش میں شریک تھے، بلکہ حصہ لینے والے فنکاروں کی تصاویر میں سب سے زیادہ میری ہی تصویریں تھیں۔ میرے فن کی شہرت اور قدردانی اب اس منزل پر پہنچ چکی تھی کہ کوئی بھی فنکار اس پر فخر کرسکتا ہے۔ خود میرے پرنسپل نے جس سے بعد کو میرا جھگڑا بھی ہوا، میرے فن کا قدردان تھا اور بڑے خوش آہنگ الفاظ میں میرے ہنر پر اظہار خیال بھی کرچکا تھا۔ اس نے سچ کہا تھا کہ میں ایک نئے دبستان فن کا خالق بنوں گا اور اس طرح جدید ہندستانی فن میں ایک نئے ردعمل کی پیشینگوئی کی جاسکتی ہے۔ ان واقعات نے میرے دل پر گہرا اثر ڈالا میں سوچتا تھا مجھے فن کی عظمت کو اونچا لے جانا چاہیے۔ میرے معاشرے میں صدیوں سے جو فنی اقدار نظر انداز کی جارہی ہیں ان کی حفاظت کی ضرورت ہے۔ 1924 میں جب میں نے استعفیٰ دیا تو یہی رجحانات اور محرکات ذہنی تھے جو مجھے اکسا رہے تھے اور میں نے سود و زیاں کے چکروں میں پڑے بغیر مستقبل سے اپنا رشتہ جوڑ لیا۔ عقل محو تماشائے لب بام ہی رہی اور میرا عشق فن سفاک حالات کی آتش نمرود میں بے جھجک کود پڑا۔
معاش کا چکر، ایک کبھی نہ ختم ہونے والا چکر، اپنے محور پر گھوم رہا تھا اور کئی سوتے پھوٹ رہے تھے۔ گھریلو مشکلات اور خاندانی مسائل میرے لیے آزمائش و امتحان کے مرحلے تھے میں سوچتا تھا یہ ذاتی انسانی فرائض بھی کچھ کم اہم نہیں۔ مگر صرف ملازمت بھی کوئی بڑا شرف و مرتبہ نہ تھا میں سوچتا فن کے فرائض بھی تو ہیں۔ وہ بھی تو میرا دامن کھینچتے ہیں۔
وہ جب میرا دامن کھینچتے تومیں پنسل پکڑ لیتا، سامنے سفید کاغذ ہوتا، تصور ابھرتے، اپنا پیکر ڈھونڈتے اور فن کے پیکر و پیراہن وجود میں آتے چلے جاتے۔ اس دور آزمائش میں قناعت سب سے بڑا سہارا ثابت ہوئی۔ میں ضمیر کی آواز کو لبیک کہتا رہا اور جذبے روشن سے روشن تر ہوتے چلے گئے۔ میں محسوس کرتا یہ گھاٹیاں طے کرنا اور یہ فراز عبور کرجانا کچھ بھی مشکل نہیں۔ مجھے یقین تھاکہ بہت جلد اس منزل تک پہنچ جاوں گا جہاں زندگی فراواں چشموں سے عبارت ہوگی۔ ہرشے شاداب و شادکام ہوگی، جہاں مدوجزرتو ہوں گے مگر الجھنوں کی یہ کیفیت نہ ہوگی۔
ڈاکٹر تاثیر سے میرا رابطہ بہت شروع سے تھا اور یہ زندگی کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہا۔ اس میں زندگی کی امنگیں اور بلند نظری کے اتنے امکانات کروٹیں لیتے تھے کہ ہم دیکھتے ہی دیکھتے ایک دوسرے کے قریب آگئے، دھندلے نقوش ابھرابھر کر پختگی اور انفرادیت پاتے چلے گئے پھر ان روابط نے معین اشکال اختیار کرنی شروع کیں، انفرادیت اور افادیت کے پہلووں پر روشنی کی چھوٹ پڑنے لگی۔ ہم ان امکانات کو شناخت بھی کرنے لگے ایسے نشانات زندگی جس سے آشنا ہوئے بغیر انسان ان کے قریب نہیں آسکتا۔
تاثیر بجائے خود ایک انجمن تھا اپنی ذات میں اور ایک انجمن وہ تھی جواس کے دائیں بائیں جلو میں رہتی۔ میرے چھوٹے بھائی عبدالرحیم جن کا ابھی ذکر آیا، ایک دن غالب کا کوئی شعر پڑھ رہے تھے۔ تاثیر بھی بیٹھے تھے۔ رحیم کہنے لگے، تاثیر صاحب یہ تصویر ”سیاہ پوش“ غالب کے شعرکی مفسر ہے۔ اس تصور کی ترجمانی اس تصویر میں دیکھیے۔ اپنی عادت کے موافق تاثیر نے پہلے تو کچھ تامل کیا، پھر نقش کو دیکھا اور ایک دم تائید میں کلمات ادا کیے۔ کہنے لگے! رحیم صاحب آپ نے بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ چغتائی صاحب کو غالب کے اشعار اپنی مخصوص طرزنگارش میں مصور کرنے چاہئیں۔ یہ بڑا کام ہوگا۔
بات کافی آگے بڑھی اور کچھ ہیولی بننے لگا۔ اس سے قبل میں علامہ اقبال کے بعض اشعار کومصور کرنے کی کوشش کربھی چکا تھا مگر غالب کے باب میں میں نے عرض کیا کہ اس کا مطالعہ نہیں، اس لیے بہتر ہوگا کہ پہلے اقبال کے کلام کو مصور صورت میں پیش کروں۔
مگر کسی نے میری ایک نہ سنی۔ میں تصویریں برابر بناتا رہا اور یہ تصویریں جب وجود میں آجاتیں تو ڈاکٹر تاثیر اور رحیم غالب کے اشعار پر ان تصویروں کو منطبق کرتے۔ ان کی برجستگی و ابلاغ پر گفتگو کرتے اور بہت سے فیصلے کیے جاتے، خیالات کا تبادلہ بہت سے نئے نکتے سمجھاتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ گزرا ہوا دن آنے والے دن کے لیے بہت سے نئے گلہائے شگفتہ دے جاتا عملی سرگرمی کا دور برابر قائم رہا۔ یہ وہ دن تھے جب اردو صحافت بالخصوص ہمارے رسائل، نئی زندگی سے روشناس ہو رہے تھے، بڑی سرگرمی اور گہماگہمی تھی۔ میرا گھر، ادب کے ادا شناسوں اور احباب کے لیے ایک مرکزی جگہ بن چکا تھا، عجیب حیات پرور ماحول تھا، جدھر نظر اٹھتی زندگی نئی کروٹ لیتی اور مچلتی نظر آتی، ہرایک کچھ نہ کچھ کر رہا تھا اور ادب و فن نئی نئی راہیں ڈھونڈ رہے تھے۔
انہیں دنوں دیوان غالب کا ایک نیا ایڈیشن جرمنی سے طبع ہوکر آیا۔ لوگ اس کی بہت تعریف کر رہے تھے، اب میں سوچتا ہوں وہ ایڈیشن ہی میری اور تاثیر کی گہری دوستی کا موجب بنا۔ اس میں غالب کی ایک شبیہہ بھی لگی ہوئی تھی۔ تاثیر نے جب مجھے وہ تصویردکھائی تومیں نے اس کی بہت بری طرح مذمت کی اور کہا کہ اس تصویر کا چھپنا شاعر کے دونِ مرتبت ہے۔ اس بات کا تاثیر پر بڑا اثر ہوا اور اس نے گھر پہنچنے سے پہلے اس تصویر کو پھاڑ کر دیوان سے الگ کردیا اور دوسرے دن اپنے اس ردعمل کی کہانی مجھے سنائی۔ اس کے بعد آرٹ سے اس کا لگاو بڑھتا چلاگیا۔ ”بنگال اسکول“ کی تحریک فن اس وقت زوروں پر تھی۔ جدید ہندستانی آرٹ پر اس کا جادو چل رہا تھا۔ ہر جگہ اس کاچرچا تھا۔ فنی نقطہ نظر سے ہم نے بھی اسے پرکھا جانا اور حسب موقع خالص مشرقی نقطہ نگاہ سے اسے سراہا بھی۔
میرے فن میں تاثیر کی دلچسپی برابر بڑھ رہی تھی اور اس نے ”نیرنگ خیال“ ہی کے ذریعے نہیں اور بہت سی جگہوں پربھی اس سلسلے کو بڑھایا۔ ہر موقع پر اس کا وسیع مطالعہ علم و فن اپنا نقش چھوڑ جاتا تھا میرا خیال ہے کہ فن پر لکھنے والوں میں اس جیسی پہنچ اور سوجھ بوجھ کا کسی اور نے ثبوت نہیں دیا۔
میں غالب کے اشعار کی تصویری تفسیر کا ذکر کر رہا تھا یہ تصاویر برابر بن رہی تھیں، اچھی خاصی تعداد جمع ہوگئی۔ مگر میں ابھی تک اس خیال کا ہی موید تھا کہ اگرہمیں کچھ کرنا ہی ہے تو پہلے اقبال کے کلام کو مصور کرنا چاہیے تاکہ وہ روایات جو تین چار سو سال سے نظر انداز کی جارہی تھیں ان میں پھر سے زندگی پیدا ہو۔ مگر اس مرحلہ پر علامہ اقبال کے ایک قریبی محسن و محب نے رائیلٹی کا سوال پیدا کر دیا تھا اور یہاں سے مسئلہ دوسرا رخ اختیار کرتا ہے۔
جیسا کہ عرض کیا میرے فن نے کافی شہرت حاصل کرلی تھی پھر بھی ہم حالات کی تنگنائے میں سے بہت مشکل سے گزر رہے تھے اور ایسے مراحل سے دوچار تھے جن کا علم ہم تینوں بھائیوں کے سوا کسی کونہ تھا۔ زندگی کے تقاضوں نے بری طرح زچ کر رکھاتھا۔ شب و روز ہم اونچی پرواز کے لیے پر تولتے تھے، اڑنے کو بہت جی چاہتا تھا۔ مگر پھر مسکرا کر رہ جاتے تھے۔ زندگی ایسی ہی افتادوں کا نام ہے۔
غالب کا مصور نسخہ مکمل کرنے کا خیال میرے چھوٹے بھائی، رحیم کے دل میں ایسا سمایا کہ وہ برابر اس دھن میں لگا رہا اور اس لگن نے ہی مجھے بھی کام پر لگائے رکھا، غیب سے ”مضامین“ خیال میں آتے رہے اور مرقع کی شکل بنتی چلی گئی۔ ایکا ایکی مدراس کے مشہور نقاد فن، ڈاکٹر جیمز کزنزنے میری کچھ تصویریں حاصل کرنے کا تقاضا کیا۔ وہ یہ تصاویر مہارانی کوچ بہار کے محل کے لیے خریدنا چاہتے تھے۔ میں نے ان کے سامنے ایک پبلیکیشن کا تصور پیش کیا اور کچھ تجویزیں سامنے رکھیں۔ مگر ابھی یہ خط و کتابت آپس میں رہی تھی کہ مہارانی کوچ بہار نے ایک قدرشناس کی حیثیت سے مجھے پانچ ہزار کا چیک روانہ کردیا تا کہ میں اپنے پروگرام پر دلجمعی کے ساتھ کام کرسکوں۔ حالات کے پیش نظر اس وقت کے یہ پانچ ہزار ہمارے لیے گویا پانچ لاکھ سے کم نہ تھے۔ اس کی خبر جب میری والدہ صاحبہ کو پہنچی تو وہ فرمانے لگیں کہ یہی تو میرا وہ سہانا خواب تھاجو میں دیکھ رہی تھی۔
”نیرنگ خیال“ کی مقبولیت حکیم یوسف حسن کے تعاون اور ڈاکٹر تاثیر کی کاوشوں نے بڑی مدد کی اور ہرموڑ پر اپنی ہمدردی، خلوص اور پاک طینتی کا ثبوت دیا۔ ان دنوں ڈاکٹر تاثیر، بدرالدین بدر، ڈاکٹر نذیراور غلام عباس تقریباً ہر وقت میرے گھر پرموجود رہتے کبھی کبھار حفیظ جالندھری، ہری چند اختر، مجید ملک، پطرس بخاری اور سید امتیاز علی تاج بھی رونق بزم بنتے اور غالب کی اشاعت کے سلسلے میں اپنی دلچسپی کا اظہار فرماتے۔ اکثر کوئی نہ کوئی نئی بات ہاتھ آتی وہ ہمدردیاں، خلوص، وہ ہنگامہ پرور فضائیں جن کی طرف ایک دنیا کی نظریں لگی رہتی تھیں جب یاد آتی ہیں تو دل کہتا ہے کاش وہ ماضی واپس آسکتا۔ مگر ماضی کبھی واپس نہیں آتا۔ کسی قیمت پر یہ جنس حاصل نہیں ہوسکتی۔ میں ان دوستوں کی بلند نگاہی کے طفیل اپنی دھن میں لگارہا اور ایسا ڈول ڈالتا رہا کہ مرقع چغتائی اپنا معیار آپ ہو، اس کی مقبولیت کاعالم یہ ہو کہ اک خلق ”اس کے گرد آوے“ پورا برصغیر یک زباں ہوکر اس کی داد دے اور باہر بھی وہ قدرومنزلت ہو کہ فن کی لاج رہے اور یہ کہا جا سکے کہ اب تک اس بلند معیار اور ذوق کی کوئی دوسری کتاب اس برصغیر سے پیش نہ ہوئی تھی۔
میری تصاویر کا چرچا اب کافی دور دور پہنچ چکا تھا مہاراجہ پٹیالہ کوبھی میرے فن نے اپنی طرف متوجہ کیا اور میرے ارادوں کا علم ہونے پر انہوں نے میری تصویریں خریدیں اور اچھی خاصی رقم عنایت کی جس کی وجہ سے یہ قطعی ہو گیا کہ ”مرقع چغتائی“ شائع ہو سکے گا۔
”نیرنگ خیال“ کی سرگرمیاں تو اس سلسلے میں جاری تھیں کہ ”انقلاب“، ”احسان“، ”زمیندار“، ”ہمایوں“، ”عالمگیر“ ”مخزن“۔ نیز دہلی اور حیدرآباد دکن کے اخبارات و رسائل نے بھی میری تحریک فن کا پر جوش خیرمقدم کیا اور ان سب نے اپنا تعاون بھی دیا۔ پھر یہ تحریک و تصور اس قدر آگے بڑھ گیا کہ اگر ہم چاہتے بھی کہ مرقع چغتائی طبع نہ ہو، تو ایسا نہ کرسکتے تھے! اس کے بعد ایسے حالات خود بخود ظہور میں آئے کہ سوائے دیوان غالب مصور کی تکمیل کے اور کوئی کام میرے لیے نہ رہا میں جو کبھی مصروفیتوں کی تلاش میں رہتا تھا،اب اتنامصروف تھا اور کام میں ایسا گھراہوامحسوس کرنے لگا کہ سارے فرائض کو سرانجام دینے میں دشواری معلوم ہوئی۔
تصویروں کے بلاک، تصویروں کی حفاظت، دیوان کی تصحیح۔ دیوان کو کسی اعلیٰ خطاط سے لکھوانا پھر اس کتابت سے بلاک بنوانا، آرائش و حسن کاری کے لیے نئے نئے ڈیزائن تیار ہونا ایک دوسرا درد سر تھا۔ پھر کتاب کی جلد بندی کا کام تھا۔ طباعت کے لیے خاص الخاص قسم کے کاغذ کی فراہمی راہ کا ایک اور سنگ گراں تھا۔ غرض ہر قدم توجہ اور کوششوں کا محتاج تھا۔ ذوق نظر اور کدوکاوش کے علاوہ بے دریغ خرچ کا بھی سوال تھا۔ واقعات و ضرورت نے مل کر حسب ضرورت روپیہ بھی فراہم کردیا۔ غالب کے مصور ایڈیشن کے سلسلے میں زر تبادلہ کا مسئلہ رائیلٹی کا قصہ بھی نہ تھا۔ غرض کلام اقبال کے سلسلے میں جو حائیلات تھے وہ اگر غالب کے سلسلے پیش آتے تو بھلایہ مرقع کیسے منصہ شہود پر آتا۔
رحیم نے اگرمرقع چغتائی شائع کرنے کے لیے مجھے اکسایا تھا تو اس نے اس کا سارا بار خود اٹھایا اور بڑے سلیقے سے ان کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے کہ مرقع چغتائی جیسی کتاب اس وقت اردو کی سفیر بنی ہوئی ہے اور دنیا کے ہراہم مرکز علم، ادب و فن نیز لائبریریوں، عجائب خانوں اور فنی نگارخانوں میں موجود ہے اس کے معیار نے مشرق کے آرٹ اور اردو کو پہلو بہ پہلو پیش کیا ہے اور اس کی اہمیت نے اردوکو بین الاقوامی مرتبہ پر پہنچا دیا ہے۔
اب مراحل تیاری کی داستان بھی سن لیجیے۔ سب سے پہلے کاتب کی تلاش ہوئی۔ ڈاکٹر تاثیر اور میں نے لاہور کے کئی مشہور خطاطوں کواس کام کی اہمیت جتلائی اور منہ مانگی رقم دینے کابھی یقین دلایا مگر ہوا یہ کہ ہمارے الفاظ یہاں آکر بے اثر ہو گئے، جب ایسا نظر آیا تو بھائی عبدالرحیم نے خود ہی قدیم طرز خط کے استاد منشی اسد اللہ کا انتخاب کیا اور یہ بیل منڈھے چڑھی۔ انہوں نے ہماری ضرورت کو سمجھا، کام کی نوعیت کوجانا اور پھر ایسی جانفشانی و محبت سے اس کام میں شریک ہوئے کہ آخری لفظ لکھنے تک ان کاوہی شوق و جذبہ کارفرمارہا۔ بحمداللہ آج بھی دنیا ان کے اس کام سے مطمئن ہے۔ اس وقت مرقع چغتائی کے ان کاتب، بابا اسداللہ صاحب کی عمر 65 سال کے لگ بھگ تھی۔
آج بلاک بنوانے اور ایسی کتابیں چھاپنے کے لیے کافی سہولتیں موجود ہیں۔ ایسے پریس اور بلاک ساز وصناع بھی ہیں جن پر پورا بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ مگرمیں جن دنوں کی بات کررہا ہوں وہ اور وقت تھا اس وقت اپنی نوعیت کا یہ کام اکیلا ہی تھا اور اتنا مشکل اور پیچیدہ کہ اس کا حل سوائے اس کے اور کچھ نہ تھا کہ بلاک سازی اور چھپائی کی اعلیٰ مشینیں خود فراہم کریں اور یہ سارا فنی کام بھی خود سنبھالیں اس ضمن میں جو جوپریشانیاں، تکلیفیں اور سنگ گراں حائل ہوئے ان کا آج تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مگر ہم نے ہمت نہ ہاری اور مشکلوں کے حل تلاش کرتے رہے۔ میرے ماموں زاد بھائی معراج الدین صاحب اور میرے چھوٹے بھائی عبدالرحیم چغتائی نے جس تندہی اور حق شناسی کا ثبوت دیا وہ میری انتہائی عزیز یاد ہے۔ یہ علمی ادبی اور فنی نوعیت کی خدمت تھی، کوئی خزانہ ہاتھ نہیں آرہا تھا۔
اس کام کے سلسلے میں جب پر وقار الفاظ اور وقیع آوازوں نے فضا میں ارتعاش پیدا کیا تو اس وقت کی انگریز حکومت بھی کچھ متوجہ ہوئی۔ لارڈ لن لتھ گواورلارڈ پیلی فوکس وائسراوں نے جہاں سر فضل حسین اور سرسکندرحیات خاں جیسے مشیروں سے میری بابت مشورہ کیا اور ان بزرگوں نے حکومت انگلشیہ سے میرے لیے ”نائٹ ہڈ“ کی سفارش بھی کی مگر لطیفہ یہ ہوا کہ فن کی منزلت تو دھری رہ گئی اور میری ناداری اور پرانے لاہور کی چاردیواری میں رہائش کی قید سامنے آگئی۔ چنانچہ ”سر“ بدل کر خان بہادر کی شکل اختیار کر گیا! مگراس پر بھی علمی حلقوں نے یہ احساس دلایا کہ فن کی کچھ توپوچھ ہوئی مثلاً ”ٹائمز آف انڈیا“ نے ہی لکھا کہ اس ایک صدی کے عرصہ میں یہ تیسرا خطاب ہے جو علم و فن کے سلسلے میں حکومت ہند نے جدید ہندستانی آرٹ کے ایک نامور فنکار کو دیا ہے۔ یہ اعزاز تو خیر تھا ہی مگر میں جسے عزیز تر سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ میرے مخلص دوستوں اور رفقائے کارنے آخری دم تک میرا ساتھ نہ چھوڑا اور جو بھی برگ و بار آئے انہیں کی مساعی خلوص کا نتیجہ تھا۔
جن دنوں غالب کا مصور ایڈیشن ارتقا کی منزلیں طے کررہا تھا میں تاثیر کو باربار یاد دلا رہا تھا کہ وہ وقت کے تقاضے کے مطابق اس پروگرام کو عملی شکل دیں جو ان کے ذہن میں تھی۔ عبدالرحمن بجنوری کی بعض ابتدائی کوششوں کے پیش نظر وہ کچھ اور کام سوچ رہے تھے۔ وہ بعض ایسی باتوں کو سامنے لانے والے تھے جن پر پہلے عمل نہ ہوا تھا مگر افسوس کہ آرزووں کی بلندی کے باوجود انہیں سرانجام نہ دے سکے۔ علم و ادب کا توخیر نقصان ہوا ہی مگر مجھے اس کابڑا افسوس رہا۔ مگر ان کی ذات سے مجھے یہ فائدہ برابر ہوتا رہا کہ کام کے سلسلے میں وہ مہمیز ثابت ہوئے میں نے ضرورت کا لحاظ کرتے ہوئے اس مرقع کے لیے سخن ہائے گفتنی خود تحریر کیا تھا۔ یہ ایک تعارف ہے اس تعارف کا مقصد یہ تھاکہ ایک خاص طبقہ اہل ذوق و نظر اس نہج فن کی طرف کھنچے اور اس میں وہ فنی شعورو ادراک پیدا ہو جو میرا زاویہ فکر تھا اس میں شک نہیں کہ یہ سخن ہائے گفتنی اس بارہ خاص میں کامیاب ہوا یعنی یہ کہ ترقی پسند عناصر فن اور ذوق جمال کی تسکین و تلاش کرنے والوں میں احساس پیدا ہوگیا۔
میرے بھائی عبدالرحیم اور ڈاکٹر تاثیر نے مصور نسخہ غالب کی جو داغ بیل ڈالی تھی وہ چھ سات روپے کا ایک مصور ایڈیشن تھا مگر کتاب پر پچیس ہزار کے قریب خرچ آچکاتھا۔ جب نوبت یہ پہنچی توپھر قیمت کا سوال ایک اور ہی طرف ذہن میں آیا میرے سامنے یورپ کی بعض فنی مطبوعات تھیں۔ مگر میں نے فیصلہ کیا کہ اگر اپنے ملک میں بدذوقی یا کم مائیگی کے باعث پوری طرح خیر مقدم نہ ہوا اور یہ ایڈیشن یونہی پڑا رہاتب بھی وہ ایک یادگار چیز ضرور ہوگا، ایک ناقابل فراموش یادگار۔ اس بات پر کافی سوچتا رہا اور آخرالامر یہ تجویز پیش کی کہ اس کا ایک خاص الخاص (ڈی لکس) ایڈیشن الگ تیار ہو جس کی قیمت ایک سو دس روپے مقرر کی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ اس کی صرف دوسودس کاپیاں شائع ہوں گی۔ بعض دوستوں نے اس پر مجھے آنکھیں دکھائیں، کسی نے ہنسی اڑائی اور بعض نے کہا اردو پڑھنے والے ابھی چھ سات روپے کی کتاب پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ ایسا گراں قیمت نسخہ کیسے خریدیں گے؟ میں نے جواب دیا یہ سب ٹھیک، مگر میں نے اپنے فن کے بل بوتے پر اتنا بڑا حوصلہ کیا ہے اور اسے ایسا ہی بنا رہا ہوں اب یہ مرقع ایسے سانچے میں ڈھل چکا ہے کہ اردو نہ جاننے والے بھی اس کی طرف متوجہ ہوں گے اور خلوص کے ہاتھ اس کی طرف پھیلیں گے۔ غالب کے پرستاروں کی دنیا بھی ایسی گئی گزری نہیں ہے وہ بھی شعروفن سے اپنے لگاو کاعملی ثبوت دیں گے۔
بہرکیف غالب کے مرقع چغتائی خاص ایڈیشن کا اعلان کردیا گیا۔ آرڈر آنے شروع ہوگئے ہر مذہب و ملت کے لوگوں، غریبوں اور امیروں نے سب نے ہی آرڈر بھیجے۔ یہ خاص ایڈیشن شائع ہونے سے پہلے ہی فروخت ہوچکا تھا۔ ایک تاجر کو اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانے کا پورا حق بھی تھا اور موقع بھی۔ مگر ہم کاروباری ہتھکنڈوں سے قطعی ناواقف اور تجارت کے فن میں کورے تھے اس لیے یہ موقع بھی ہمیں کچھ نہ دے سکا۔
میں اپنے قدردانوں اور ان ذی شعور لوگوں کا ذکر کیا کروں جن میں سے ہر ایک کا خلوص، دیدہ وری اور فن آگاہی میرے لیے معاون ثابت ہوئی اور میرا آرٹ پنپا، بہر نوع یہ ضرور ہے کہ میرے خاندان کے مسائل اور بے اطمینانی ایک حد تک ضرور ختم ہو گئی۔ غالب کی شاعرانہ عظمت کے ساتھ میرے فن کے تقاضے مجھے برابر یہی کہتے رہے کہ ان دیانت دارانہ کوششوں میں ایسی کوئی بات نہ آنے پائے جو انتشار حالات کا باعث ہواور میں پھر ایسی جرات ہی نہ کرسکوں یوں تو ہرایک خواہاں تھا کہ میری یہ تخلیقی کوششیں ایک مرتب کتاب کی شکل میں آجائیں اور یہی عوامی تقاضے میرے لیے بہت بڑی ڈھارس تھی۔ مرقع چغتائی جیسی کوئی کتاب اردو میں نہ تھی مگر جب اس کا غلغلہ بلند ہوا تو اس جنس کے خریدار بھی نہ جانے کہاں کہاں سے پیدا ہوگئے۔ فن کاعالم یہ تھا کہ میری تکنیک بالکل نئی اور جدا تھی، نگارش کا انداز اجنبی پراسرار خطوں کی کشش اپنا انفرادی اپیل رکھتی تھی۔ یہ سب باتیں چونکانے والی تھیں۔ انہوں نے اپنی جگہ خود بنائی اور جدید ہندستانی آرٹ میں ایک نئے تجربہ کااضافہ ہوا۔ فن میں وہ قنوطیت جوبدھ اور بدھ کی سمادھی سے آگے نہ بڑھ سکی تھی، اس سے گریز شروع ہوا۔ ہم عصر مصوروں کے سامنے یہ انوکھی چیز لاکر کچھ کام کر دکھانا ویسے بھی کوئی آسان مرحلہ نہ تھا مگر ایرانی، مغل اور اجنتا روایات کے سہارے میں نے اپنے فنی موقف کے لیے وہ جگہ ضرور نکالی جوایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوئی یہ تحسین فن کی ایک نئی کاوش تھی، اس نے رمزنگاری اور رمز شناسی کا چلن پیدا کیا اور آرٹ نے نیا مرتبہ پایا۔
اپنے فن کے سلسلے میں چند باتیں عرض کروں۔ میرے بعض نقوش بالکل انفرادی ہیں۔ میں نے اپنے نقوش میں مشرق رموز بھی پیدا کیے ہیں۔ نیز علامتیں ہیں جو ہماری ثقافتی ثروت کی نشانیاں ہیں۔ میں نے بعد میں بھی کچھ تجربے کیے اور انہیں نیاپن دیا۔ لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو نئی نئی تحریکوں، نئی باتوں، رجحانوں اور انکشافات سے دلچسپی لیتے ہیں۔ وہ فن اور ثقافت کے دائرہ کار کو وسیع کرنا چاہتے ہیں اور اس ضمن میں وہ کبھی کوتاہی نہیں کرتے۔ ذوق نظر نے ہمیشہ روح حیات کا ساتھ دیاہے اور دیتا رہے گا مگر کام کرنے کا وہ زمانہ شاید اب مشکل ہی سے ہاتھ آئے جیسا کہ عرض کیا میں سب قدر دانوں اور مداحوں کے خلوص دل کا معترف ہوں۔ خواص بھی اور عوام بھی۔ انہیں نے اس مرقع کو پیش کرنے کے اسباب پیدا کیے۔ خواص کے ذکر میں میں مہارانی کوچ بہارکا نام لے چکا ہوں، جو سرفہرست ہے پھر ان کی والدہ محترمہ مہارانی بڑودہ ہیں۔ مہاراجہ پٹیالہ، سراکبرحیدری وزیراعظم حیدرآباد دکن، مہارانا شمشیر جنگ بہادر نیپال وغیرہ۔ ان لوگوں کی قدردانی سے مرقع کو وجود بخشنے میں مدد ملی بعض وہ نام بھی ہیں جن کا ذکر بصد احترام کرنا ضروری ہے۔ مثلاً سرتیج بہادر سپرو، سرسالار جنگ بہادر، سرعبدالقادر، نواب احمد یار خاں دولتانہ، سرکرشن پرشاد شاد، میاں نظام الدین بارود خانہ لاہور وغیرہ ان سب نے میری کوششوں کوسراہا۔
جب مرقع چغتائی پہلی بار تیار ہواتواس کی ایک جلد دربار غالب میں اس طرح پیش کی گئی کہ حضرت نظام الدین اولیاؒ کے پائیں شاعر کے مرقد پر نذرانہ عقیدت رکھ دیا گیا یہ ان کی خدمت میں خراج تھا ایک فنکار کا اور یہ امانت ان تک پہنچادی گئی۔ مگرمعلوم نہیں وہ کون بے باک تھاجواس خراج عقیدت کوبیتا بیٹھا۔ معلوم نہیں اس وقت یہ امانت کس کے پاس ہے؟
یہ سب توہوا۔ امیدوں سے بڑھ کر قدرافزائی ہوئی مگر تجارتی چکر سمجھ میں نہیں آیا اور دیدے پھاڑ پھاڑ کر ہم ان باتوں کی طرف دیکھتے رہے اور عجب احوال رہا۔ عام ایڈیشن سے بڑے بڑے امکانات وابستہ تھے۔ مگر ہوا وہی کہ سرمایہ دارتاجر اپنا کام کر گیا اور ان باتوں کی نافہمی سب کچھ چٹ کرگئی، جمالیاتی قدریں اور امنگیں ترستی رہیں۔