Print Friendly, PDF & Email

میرزا غالب کا سفرِ کلکتہ اور بیدل

عبدالغنی

میرزا غالب کا سفرِ کلکتہ اور بیدل

          میرزاغالب اپریل 1827 میں دہلی سے کلکتے کی طرف روانہ ہوئے۔ انہیں دہلی میں رہتے ہوئے کم و بیش بارہ سال گزر چکے تھے اور یہ قیام ان کے لیے سخت پریشان کن ثابت ہوا تھا۔ دہلی میں ان کی دقت پسندی اور مشکل گوئی پر اعتراضات ہوئے تھے اور پھر انھی سالوں میں ان کی پنشن کا جھگڑا بھی شروع ہوا جس کے ساتھ معیشت کے علاوہ عزت و آبرو کا سوال بھی وابستہ تھا، اس لیے جب وہ قضیہ پنشن کے تصفیے کے لیے رہگرائے کلکتہ ہوئے ہیں تو سخت آزردہ خاطر تھے۔ آغاز شباب میں ان کے دل میں اس بات کا کبھی تصور تک نہیں آیا تھا کہ زندگی ان کے لیے اس قدر زہرہ گداز ثابت ہوگی۔ آگرہ رہتے ہوئے انہیں خیال تھا کہ زندگی ہر طرح عیش و طرب کے مترادف ہے لیکن دہلی پہنچنے پر یہ خیال باطل نکلا۔ اور حزن و یاس کے عالم میں انہوں نے وطن اور ابنائے وطن کے متعلق کہا:

کس از اہلِ وطن غم خوار من نیست

مرا در دہر پنداری وطن نیست

          مرزا غالب کے دل و دماغ کی اِس کیفیت کے ساتھ لکھنو کان پور، باندہ، موڈا، چلہ تارا اور الٰہ آباد ہوتے ہوئے بنارس پہنچے۔ رنج و غم، صعوبتِ راہ، اور اِن پر مستزاد کچھ جسمانی عوارضات۔ بنارس سے ایک خط میں لکھتے ہیں

مغلوبِ سطوتِ غم دلِ غالبِ حزیں

کاندر تنش ز ضعف تواں گفت جاں نبود

گویند زندہ تا بہ بنارس رسیدہ است

“مارا ازیں گیاہِ ضعیف ایں گماں نبود”

          لیکن یہ ’گیاہِ ضعیف“ بالکل پژمردہ اور مضمحل جب بنارس پہنچا تھا وہاں کی حسن پرور فضا نے اُسے تروتازہ کردیا۔ طبیعت شگفتہ ہوگئی، عروقِ مردہ میں خونِ زندگی دوڑنے لگا، تخلیقی قوتیں عروج پر پہنچ گئیں، وجودِ معنوی سرور انگیز لَے کے ساتھ مترنم ہوا۔ ناموافقتِ حالات نے جس شدت کے ساتھ ان پر دباو ڈالا ہوا تھا، حسینانِ بنارس کو دیکھ کر اُن کا تخیل اُتنی جولانی کے ساتھ تخلیقِ شعرکی طرف راغب ہوا اور اس طرح انہوں نے حسنِ خیال اور حُسنِ بیان کا وہ شاہکار پیش کیا جو مثنوی چراغِ دیر کے نام سے موسوم ہے۔

          تحقیق سے متعلق مقالات میں رنگینی بیان کا بہت کم دخل ہوتاہے، لیکن یہاں یہ انداز بالارادہ اختیار کیا گیا ہے تاکہ آئندہ سطورمیں مثنوی چراعِ دیر کی جمال پروری کے متعلق ہم جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، اس کے لیے ذہن تیار ہوجائے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ دہلی والوں نے اُردو شاعری کے مرغوب اور مطبوع رجحانات کی بنا پر میرزاغالب کو جس شد و مد کے ساتھ مطعون کیا تھا کہ تقلیدِ بیدل نے ان کے کلام کوایک معمہ بنا ڈالا ہے، اُسی قدر اصرار کے ساتھ اِس سفرمیں میرزا غالب نے اپنی تخلیقات کے ذریعے بیدل کے ساتھ اپنے فکری اور قلبی اتحاد کا اعلان کیا۔ زیادہ پرلطف بات یہ ہے کہ دہلی والوں کے اعتراضات نے جو گونج پیدا کی تھی، اُس میں ڈوب کر تمام کے تمام اہلِ تحقیق نے غالب کے اس اعلان کی طرف توجہ مبذول نہیں کی۔اور اب جبکہ غالب کے سفر کلکتہ کے بعد پوری ڈیڑھ صدی ہونے میں صرف دس سال باقی ہیں، اس کی ضرور تلافی ہونی چاہیے۔ اس بے توجہی کی وجہ صرف یہ رہی ہے کہ اگرچہ میرزاغالب نے کہا تھا:

فارسی بیں تابہ بینی نقش ہاے رنگ رنگ

بگزر از مجموعہ اردو کہ بے رنگِ من است

سلطنتِ مغلیہ کی بساط کے اُلٹنے، انگریزوں کے تسلط، فارسی زبان کی علمی اور ادبی حیثیت کے خاتمے، اردوکی رواج پذیری اور پھر قیامِ پاکستان کے بعد بھی فارسی ادب کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے ہم نے غالب کے دیوانِ فارسی کو درخورِ اعتنانہ سمجھا۔ اس لیے ہم اُن مثبت اور وقیع اثرات کاجائزہ نہیں لے سکے جو بیدل کے مطالعے نے غالب کی تخلیقی قوتوں کے ارتقا پرڈالے۔ اِس مقالے میں صرف اُن اثرات کو زیرِ بحث لایا جائے گا جنہیں میرزاکے سفرِ کلکتہ نے بے نقاب کیا۔ یہ سفر غالب کوایک نئی دنیا سے متعارف کرانے کا موجب ثابت ہوا تھا۔ کلکتے میں جدید حیرت انگیز ایجادات کو دیکھ کر وہ اس عہد کے نقیب بنے۔ جس میں سے ہم گزر رہے ہیں۔ اسی لیے سرسید احمد خاں کے کہنے پر جب انہوں نے آئینِ اکبری پر تقریظ لکھی توکہا:

مردہ پروردن مبارک کار نیست

علم اور تجربے میں اضافے کے علاوہ یہ سفر اس لیے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اس کے دوران میں انہوں نے جو مثنویاں۱ تصنیف کیں، ان میں واضح طورپر بیدل کا تتبع کیا اور وہ بھی نہایت ہی خوش آیند اور دل پذیر طور پر۔

          قشقہ جبین پریزادگانِ بنارس کو دیکھ کر جو سرور انگیز کیفیت میرزا غالب کے دل پر طاری ہوئی اس نے ان کی زبان پر بے اختیار بیدل کی مثنوی ”طور معرفت“ کے اشعار وارد کردیے۔ بیدل نے یہ مثنوی وسط ہند میں لکھی تھی اور اُس میں کوہِ بیراٹ (بندھیاچل کی شاخ) کے حسن پرور مناظر بیان کیے تھے جو انہوں نے وہاں ساون کی موسلادھار بارشوں میں دیکھے۔ جس پُرشور تجربہ تخلیقی سے بنارس میں میرزا غالب دوچار ہوئے تھے، کوہِ بیراٹ میں میرزابیدل کو بھی اُسی سے گزرنا پڑاتھا۔ میرزابیدل نے جامی کی مثنوی یوسف زلیخا اور نظامی کی شیریں خسرو والی بحر ہزج مسدس محذوف اختیار کی تھی۔ لغت میں ہزج کامعنی باترنم خوش آیند آواز ہے۔ چوں کہ کیف و سرور کے لہجے کو ادا کرنے کے لیے یہ بحر فطرتاً نہایت ہی مناسب آہنگ رکھتی ہے، اہل عرب سرود و نغمہ کے وقت بیشتر اسی کواختیار کیا کرتے تھے۔ جامی اور نظامی نے بھی اپنی رومان پرور مثنویوں کے لیے اِسے اسی لیے منتخب کیا تھا۔ اِس بحر کو گویا رومان آفرینی اور تخیل پروری کے ساتھ فطری مناسبت اور موافقت حاصل ہے۔ اس بحر کے انھی ممکنات کے زیرِ نظر میرزا بیدل ایسے بالغ نظر شاعرنے بھی اسے پسند کیا۔ یہ بحر حسن پرور تخیل اور رومان سے متعلق جذبات کا قدرتی ذریعہ اظہار ہے۔ بیدل کی مثنوی گیارہ سو اشعار پر مشتمل ہے جو انہوں نے صرف دو روز میں لکھی تھی۔ وفورِ جذبات، حسنِ تصورات، لطافتِ بیان اور معانیِ نغز کے اعتبار سے یہ مثنوی فارسی ادب کا بے نظیر شاہکارہے۔ مناظر قدرت کو لے کر اتنی رومان پروری کے ساتھ دنیابھر کے شایدہی کسی شاعر نے ایسا عظیم شاہکار پیش کیا ہوگا۔

          بیدل کی یہ مثنوی ایک محبوب سرمایے کی حیثیت سے غالب کے قبضے میں رہی تھی۔ اور پنجاب یونیورسٹی لائبریری کو یہ فخر حاصل ہے کہ اِس مثنوی کا جو۲ مخطوطہ غالب کے قبضے میں رہاتھا، وہ اس کی الماریوں میں محفوظ ہے۔ اِس مخطوطے پر غالب نے 1231ھ (مطابق1815)

 کی مہر ثبت کی ہے اور اپنے قلم سے شکستہ خوبصورت نستعلیق میں مثنوی کے متعلق یہ شعر۳ لکھا ہے:

ازیں صحیفہ بنوعی ظہورِ معرفت است

کہ ذرّہ ذرّہ چراغانِ نورِ معرفت است

          1815ءیا 1817ء میں میرزا غالب مستقل طور پر آگرے سے شاہجہان آباد آگئے تھے۔  معلوم نہیں انہوں نے یہ مخطوطہ آگرے ہی سے حاصل کیا تھا یا شاہجہان آباد پہنچ کر کہیں سے لیا تھا۔ انہوں نے دس گیارہ سال کی عمرمیں شعرکہنا شروع کر دیا تھا۔ گلاب خانہ آگرہ کا ماحول بھی علمی تھا اور جیسا کہ نسخہ حمیدیہ سے ظاہرہوتا ہے، انہوں نے شاعری کا آغازہی اتباع۴ بیدل سے کیا تھا۔ ظاہر ہے غالب آگرہ ہی میں بیدل سے متعارف ہوچکے تھے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ نفسیاتی اور معنوی اعتبار سے بیدل کے ساتھ عقیدت کے کیا اسباب تھے۔ یہاں صرف یہی کہہ دینا کافی ہے کہ غالب آگرے سے بیدل کے ساتھ لگاو لے کر آئے تھے۔

          اور اگرانہیں آگرے میں رہتے ہوئے مثنوی”طورِ معرفت“ کا مخطوطہ نہیں ملاتھاتو ’مہرکی تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ شاہجہان آباد پہنچتے ہی مل گیا ہوگا۔ یہ امر بعید از قیاس نہیں۔ میرزا بیدل شاہجہان آباد میں اپنی زندگی کے آخری پینتیس سال بڑے احترام کے ساتھ گزار کر دسمبر 1720ء میں فوت ہوئے تھے۔ اور پھر ان کی وفات کے بعد کم و بیش اکیاون باون سال تک مزارِ بیدل پرہر سال بڑے اہتمام سے عرس منایا جاتا تھا۔ شاہجہان آبادکی یہ ایک خاص سالانہ تقریب ہوا کرتی تھی۔ جس میں تقریباً تمام فارسی اور اردو گو شعرا شامل ہوا کرتے تھے۔ مرزا محمد رفیع سودا (وفات:1781 ئ) اور مولانا ندرت کشمیری کی چپقلش نے عرسِ بیدل کا تذکرہ اردو ادب میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب میرزا غالب شاہجہان آباد جاکر سکونت پذیر ہوئے ہیں تو میرزا بیدل کی تقریباتِ عرس کی بات صرف بیالیس چوالیس سال اُدھر کی تھی۔ اور پھر میرزا غالب کے زمانے میں بھی جہان آباد(شاہجہان آباد) میں علمی اور ادبی چرچے باقاعدہ موجود تھے۔ ممکن ہے زندہ۵ بزرگوں میں سے کوئی عرسِ بیدل میں شامل بھی ہوا ہو۔ ویسے بھی روایات جاری رہتی ہیں۔ بیدل بھی مغلوں کی عظمت کا ایک مظہرِ جلیل تھے۔ جہاں آباد والے انہیں کب بھلا سکتے تھے۔ اور معلوم ہوتا ہے میرزا غالب جب وہاں گئے ہیں تو ان کے دل میں مزارِ بیدل دیکھنے کی شدید آرزو تھی۔ کہتے ہیں:

گر ملے حضرتِ بیدل کا خطِ لوحِ مزار

اسد آئینہ پروازِ معانی مانگے

          دستبردِ زمانہ سے مزارِ بیدل ناپید ہوچکا تھا اور ان کا موجودہ مزار خواجہ حسن نظامی مرحوم نے 1914ء میں تعمیرکرایا تھا۔ بنابریں جہاں بیدل کی شہرت کایہ غلغلہ تھا اور ان سے میرزاغالب کو اس قدر عقیدت تھی،1815ء میں اگر انہیں آگرہ پہنچتے ہی مثنوی طورِ معرفت کا نسخہ مل گیا اور انہوں نے اسے حرزِ جاں بنا لیاتو قطعاً تعجب کا مقام نہیں۔ ہمیں اس بات کابھی قطعی طورپر علم نہیں کہ مثنوی طورِ معرفت کا نسخہ کب تک میرزا غالب کے زیرِ مطالعہ رہا۔مگر ان کی مثنوی چراغ دیرکے سال تصنیف (1827) اور اس مثنوی پر طورِ معرفت کے واضح اثرات کے زیر نظر کہا جا سکتا ہے کہ یہ مثنوی کافی دیر تک میرزا غالب کے پاس رہی ہوگی اور یہ بھی عین ممکن ہے زندگی بھر رہی ہو۔ اسی لیے آثارِ غالب۶ کے طور پر ضائع ہونے سے بچ گئی اور کسی نہ کسی طرح پنجاب یونی ورسٹی لائبریری میں پہنچ گئی۔

          اب ذراغور فرمائیے؛ اٹھارہ سال کا نوخیز شاعر، جس کی امنگوں اور آرزووں کی کوئی انتہا نہیں، ایک رومان پرور مثنوی حاصل کرتاہے جس میں دیگر مطالب و معانی اور جذبات انگیز اقوال کے علاوہ کہا گیا ہے:

بہارِ زندگی مفت است دریاب

          جو بات اس نوخیز شاعر کی فطرت سے بالکل مطابقت رکھتی ہے۔ وہ تو زندگی کے رس کا آخری قطرہ تک نچوڑ کر پی جانا چاہتا ہے۔ زندگی میں جو حسن اور دل کشی ہے، زندگی جن جن اسرار و رموز سے لب ریز ہے، تخیل اور جذبہ زندگی میں جس طرح رنگینی پیدا کرسکتے ہیں، یہ سب کچھ اس مثنوی میں بافراط موجود تھا۔ اب آپ ہی اندازہ لگائیے ’برآرزو غالب نے اس مثنوی کا مطالعہ کس ذوق و شوق کے ساتھ کیا ہوگا اور کس طرح اس کے اشعار، اس کی ترکیبات، اس کے تصورات اور اس کے معانی غالب کے شعور کا مستقل جزو بن گئے ہوں گے۔ مبدہ فیاض نے شاعرانہ عظمت کے عناصر شعورِ غالب میں بدرجہ اتم موجود کردیے تھے۔ ان عناصر کی نشو و نما میں طورِ معرفت کے اثرات نے کیا حصہ لیا ہوگا؟ اس کا کچھ اندازہ تو غالب کے محولہ بالا شعرسے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کھلے دل سے تسلیم کیا ہے کہ اس صحیفے کی برکت سے ذرہ ذرہ چراغانِ طورِ معرفت بن چکا ہے۔ سطورِ آیندہ کے مطالعے سے آپ بھی اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ طورِ معرفت کے اشعار نے غالب کے شعورِ تخلیقی میں ایک مستقل گونج پیدا کردی تھی۔ انہوں نے بنارس کا بہشتِ خرم اور فردوس معمور دیکھا تو سرور و کیف کے پرشور جذبات کے ساتھ طورِ معرفت کی بحر اور اس کے اشعار ان کے شعور میںبڑی شدت کے ساتھ گونجنے لگ گئے اور جب اُن پر جذبہ تخلیقی طاری ہواتو وہ بھول گئے کہ وہ خود کچھ کہہ رہے ہیں یا بیدل گویا ہیں۔ معنوی اتحاد کا یہ عالم تھا۔

          میرزا غالب ایک نابغہ تھے۔ اُن کی شاعرانہ عظمت کے ہم روز بروز زیادہ قائل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ وہ ہماری ثقافت کا مایہ ناز مظہر ہیں۔ ان کی اپنی انفرادیت بڑی عظیم اور رنگین ہے۔ وہ بیدل سے استفادے اور استفاضے کے باوجود غالب رہتے ہیں، اس لیے مثنوی چراغ دیر میں سے پہلے ہم اُن چیزوں کو پیش کریں گے جو خالصةً غالب اور بنارس سے تعلق رکھتی ہیں تاکہ کوئی اس گمانِ باطل میں مبتلانہ ہوجائے کہ چراغ دیر تو طورِ معرفت کی محض صداے بازگشت ہے۔ غالب جیسے یگانہ روزگار نبوغِ ذاتی رکھنے والے شاعرسے یہ توقع کبھی نہیں ہوسکتی کہ وہ اپنی تخلیقات میں اپنی انفرادیت کو چھوڑ کرمحض نقالی اپنا شعار بنالے۔ یہ تو ان کی فطرت کے بالکل خلاف تھا۔ خود کہتے ہیں:

بامن میاویز اے پدر فرزندِ آذر را نگر

ہرکس کہ شد صاحب نظر دینِ بزرگاں خوش نکرد

          پہلے ہم غالب کی انفرادیت کا ذکر کرتے ہیں:

          مناظر فطرت کی رنگینیاں اور رعنائیاں بیان کرتے ہوئے بھی میرزا بیدل کی مثنوی کا مرکزی خیال یہ ہے:

معمّائی معمّائی معمّا

اگر خواہی کشودن چشم بکشا

          وہ انسان کو مصدرِ اسرار قرار دے کر تمام کائنات کو بھی ایک معمّا کہتے ہیں۔ اس لیے کوہستان بیراٹ انہیں نارستانِ اسرار نظر آتا ہے اور اس کے ایک ایک سنگریزے میں انہیں پری زادِ حسن محوِ خواب دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی جولانیِ تخیل میں بھی بنیادی طورپر فکر پرستی ہے، بصیرت افروزی ہے، عرفان پروری ہے۔ لیکن میرزا غالب اتنے نیرنگیِ قدرت سے متاثر نہیں جتنے صنفِ لطیف کی گل اندامی سے مسحور ہو جاتے ہیں۔ بلکہ وہ تو لالہ و گل کو بھی دیکھتے ہیں تو خیال کرتے ہیں کسی کے لب و رخسار کی رنگینی ہے جو اس صورت میں نمایاں ہوگئی ہے۔ اُن کی ساری شاعری میں ارضی قسم کی لذت پروری ہے۔ وہ حکیمِ فرزانہ ہوتے ہوئے بھی اپنے اس بنیادی جذبے سے علیحدہ نہیں ہوتے۔ مثنوی چراغ دیر میں بھی یہی جذبہ کارفرماہے۔ کاشی (بنارس کا دوسرانام ہے) کے بتانِ بت پرست اور برہمن سوز کی تبسم ریزی اور مشک بیزی کا ذکر کرتے ہوئے فکرِ غالب اپنے معراج پر اُس وقت پہنچتا ہے جب وہ ان کے متعلق کہتے ہیں:

بہارِ بستر و نوروز آغوش

          میرزا بیدل اور میرزا غالب کی طبائع میں یہی بنیادی اختلاف ہے اور مجموعی حیثیت سے ان دونوں مثنویوں میں بھی بنیادی طورپر یہی فرق ہے۔ طورِ معرفت کے گیارہ سو اشعار عرفان نوازی کے اردگرد گھومتے نظر آتے ہیں۔ چراغ دیر کے یک صد و ہشت (108) اشعار کا محور صنفِ لطیف ہے۔ اس میں اگر غمِ دوراں یا معرفت کوشی کاذکر موجود ہے تو اس کی حیثیت محض ضمنی ہے۔

          یہ تو اس امر کا ذکر تھا کہ چراغِ دیر فطرتِ غالب کی آئینہ داری کرتی ہے۔ اب یہ بتایا جاتا ہے کہ اس مثنوی میں خصوصیت کے ساتھ صرف اُن چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے جو کاشی کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور جن کے مطالعے سے صرف کاشی کا نقشہ نگاہوں کے سامنے ابھرتا ہے۔ صرف دو ایک باتوں پر اکتفا کیا جائے گا۔ حسینانِ کاشی چونکہ بت پرست ہیں، اپنی رسم مذہبی کے مطابق صندل کا قشقہ اُن کی جبینوں پر ہے۔ چونکہ ہر طرف قشقہ جبیں حسین نظر آتے ہیں، غالب کے تخیل نے انہیں بتایا کہ ان کو دیکھ کر فلک نے بھی اپنی جبین کو شفق کے ذریعے اسی طرح رنگین بنا لیا ہے:

فلک را قشقہ اش گر بر جبین نیست

پس ایں رنگینی موج شفق چیست

          پھر اپنے شعارِ مذہبی کی بنا پر تمام حسینوں نے اپنے رنگین و رعنا بدن کے اردگرد زنار باندھ رکھا ہے۔ غالب کہتے ہیں اس چمن زار میں بہار آتی ہے تو اسی لیے موجِ گل سے زنار بدوش ہوتی ہے:

بہ تسلیم ہواے آن چمن زار

زِ موجِ گل بہاراں بستہ زنار

          ان مہوشوں کے دمکتے ہوئے چہرے شام کے وقت گنگا کے کنارے نظر آتے ہیں تو چراغاں ہوجاتی ہے:

بہ سامانِ دو عالم گلستاں رنگ

ز تابِ رخ چراغانِ لبِ گنگ

          گنگا انہیں دیکھتی ہے تو بہ صد شوق ان کے لیے اپنی آغوش واکر دیتی ہے۔ یہ گل رخسار اپنے وجود رنگین کے ساتھ بہ غرضِ شست و شوپانی میں داخل ہوتے ہیں تو گنگا کی امواج کھلی باہوں سے استقبال اور معانقہ کرتی ہیں:

ز بس عرضِ تمنّا می کند گنگ

ز موج آغوشہا وا می کند گنگ

          الغرض پڑھنے والے پر تمام اشعار کا مجموعی تاثریہ ہوتاہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے کاشی کے مناظر دیکھ درہاہے۔

          ان دوپاروں کا مقصد صرف یہ تھا کہ پتا چل جائے، مثنوی چراعِ دیر میں میرزا غالب کی انفرادیت بدرجہ اتم موجود ہے، اوراس کو پڑھتے ہوئے ہم”طورِ معرفت“ کے کوہ بیراٹ کی سیر نہیں کرتے بلکہ کاشی میں گلگشت کر رہے ہوتے ہیں۔ ”چراغِ دیر“ اپنے اندر تازگی اور جدت رکھتی ہے،طورِ معرفت کی نقالی نہیں۔ یہ سب کچھ برسبیل احتیاط تھا۔ ہمارا اصل مقصد یہ تھا کہ اس حقیقت کا علم ہوجائے کہ مثنوی چراغ دیر لکھتے وقت غالب کے شعورِ تخلیقی میں میرزابیدل کی مثنوی طورِ معرفت کے اثرات اس طرح رچے ہوئے تھے کہ اپنا انفرادی رنگ قائم رکھتے ہوئے بھی وہ اس کے تصورات اور اس کے اسلوبِ نگارش سے باہر نہ جاسکے۔ بنابریں یہ بات بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ سفرِ کلکتہ میں معنوی طورپر بیدل، غالب کے ساتھ رہے۔

          بحرتوظاہر ہے وہی”طورِ معرفت“ والی ہے۔ نظامی، جامی اور ان کے بعد ناصر علی سرہندی نے بھی اپنی مثنویوں میں تواجد و سرور کے اظہار کے لیے یہی بحر اختیار کی تھی۔ جذبات میں ایک تلاطم بپاہوا تھا۔ دیکھیے غالب اور بیدل اس کا اظہار اپنی اپنی مثنویوں کے آغازمیں بالکل یکساں انداز میں کرتے ہیں:

غالب

بیدل

نفس با صور دمساز است امروز

طپش فرسود شوقِ نالہ تمثال

خموشی محشرِ راز است امروز

زِ تحریکِ نفس وا می کند بال

رگِ سنگم شراری می نویسم

کہ خاموشی نوا ساز است امروز

کفِ خاکم غباری می نویسم

غبارِ سرمہ آواز است امروز

          یہ دونوں شاعروں کے پہلے دو دو شعر ہیں۔ الفاظ، قافیہ، ردیف اور تصورِ طپش کی یکسانیت دیکھیے۔ دونوں کے ہاں لفظِ ”امروز“ کی نشست جذبہ تخلیقی کی اُس کد و کاوش کی طرف اشارہ کر رہی ہے جوایک خاص ”آن“ کو مسخر کرکے اسے ابدیت کا معنی خیز جز و بنا دینا چاہتی ہے۔

          میرزاغالب کے دوسرے شعرمیں”شرار نوشتن“ کا محاورہ بالکل اندازِ بیدل سے مطابقت رکھتاہے۔اسی طورِ معرفت کاایک شعر ہے:

بہر عضوم تبِ سودا شرر کاشت

ز ہر مویم دلِ فریاد برداشت

          میرزابیدل نے شرر کاشتن محاورہ استعمال کیا ہے۔ اب نوشتن اور کاشتن میں وہی فرق ہے جو منشی اور مجاہدمیں ہوتاہے۔ایک جگہ انفعالیت ہے، دوسری جگہ فعالیت، علامہ اقبال مرحوم کی مجلس میں ایک باربیدل کے محاورہ ”خرام کاشتن“ کاذکر چھڑ گیا۔انہوں نے فرمایاکہ ا س سے ظاہر ہوتاہے کہ بیدل کا فلسفہ حیات حرکی (Dynamic)ہے اور ان کے مقابلے میں میرزا غالب کامائل بہ سکون۔ بہرحال ترکیب کی مطابقت ظاہر ہے۔ میرزا غالب نے اپنے اس شعرمیں سوزاور طیش کے لیے شرار کے استعارے سے کام لیاہے۔ ان کے اُردوکلام میں بھی اس غرض کے لیے شرار کئی بار استعمال ہواہے۔ مثلاً:

رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا

جسے غم سمجھ رہے ہو وہ اگر شرار ہوتا

          لیکن ان کے فارسی کلام میں یہ لفظ ایک انوکھے معنی کو بیان کرنے کے لیے بھی استعمال ہواہے۔ مندرجہ ذیل شعر پر غور کیجیے جو دیدہ وروں کی تعریف میں کہا گیا ہے:

زخمہ کردار بتارِ رگِ خارا بینند

          اس شعرمیں بتایا گیا ہے کہ اہل بصیرت کی حقیقت بیں نگاہیں زمان و مکان کے پوشیدہ امکانات سے پوری طرح باخبرہوتی ہیں۔ اس شعرکے مطالعے کے بعد مثنوی طور معرفت سے صنعتِ سنگ کے متعلق مندرجہ ذیل اشعار پڑھیے:

بود ہر جزوش از جوش شرر ہا

نگہ پروردہ چشمِ تماشا

چو اہل شرم ازو نتواں نمودن

بچندیں چشم یک مژگاں کشودن

دریں خلوت چو شاہد آرمیداست

کہ دیوار و درش آئینہ چیداست

۔۔

شرارش گر کند چشم تو روشن

سراپایش چو غربال است روشن

ولی کس را بریں روزن نظر نیست

نگاہ سنگ بین بابِ شرر نیست

شفقہائے کزیں کوہ آشکار است

ہماں عکسِ چراغانِ شرار است

          ان اشعار میں شراراور دیدہ وری کا تعلق موجود ہے، بلکہ بیدل توکہتے ہیں کہ یہ جوش شرر بچندیں چشم کسی کے حسن کا تماشا کررہاہے۔ علاوہ بریں تخیلِ بیدل نے تصور شرار میں وہ اشتعال پیدا کردیاہے کہ یہ کہنا بے جانہ ہوگاغالب کا شرار کے ساتھ مستقل والہانہ تعلق بڑی حد تک مثنوی ”طور معرفت“ کا مرہون منت ہے۔ شرار کا تصور ان کے ذہن میں اس طرح جاگزیں ہوچکاتھاکہ اپنی اس مختصر مثنوی میں بھی انہوں نے اس لفظ کو دوبار استعال کیاہے۔ دوسرا شعر اختتام پر ہے:

شرار آسا فنا آمادہ برخیز

بیفشاں دامن و آزادہ برخیز

          اور فنا پذیری میرزا غالب کے ہاں تصورِ شرار کاتیسرا پہلو ہے۔

          شرار کے متعلق ان تمام امور کو ذہن میں رکھ کر ”طورمعرفت“ سے یہ قطعہ ”درصفت شرار“ پڑھا جائے:

بیا تا وحشتی درپیش گیریم

مبادا چوں شرر در سنگ میریم

دو روزی تیشہ فرہاد باشیم

ازیں کہسار معنی ہا تراشیم

براہ انتظار ماست دلتنگ

پریزاد شرر در شیشہ سنگ

شویم آتش زنِ شوق شرارش

بر آریم از طلسمِ انتظارش

ہماں برتی کہ از جوشِ لطافت

بہ گل رنگ است و در آئینہ حیرت

برنگِ قطرہ از ابر آشکار است

بطبع سنگ نامِ او شرار است

ز افسون لطافت کردہ منزل

بہر سنگی چو راز عشق در دل

بہ آہنگِ پر افشانی مہیسّا

درونِ بیضہ طاوسانِ رعنا

          عالمی ادب پر نگاہ رکھنے والے اپنے دوستوں سے کہوں گا کہ دنیا بھر کے کسی شاعر کے کلام سے اس قطعے کاجواب تلاش کریں۔

          شرار کے سلسلے میں بیدل اور غالب کے تقابلی جائزے سے اس امر کا احساس دل میں پیدا ہوتا ہے کہ مثنوی طور معرفت نے میرزا غالب کو جس تصور سے بخوبی متعارف کرایا تھا، اس کااظہار انہوں نے نہ صرف مثنوی ”چراغ دیر“ میں کیا بلکہ ان کے تمام کلام میں ہم اس تصور سے دوچار ہوتے ہیں۔ اپنے اس دعوے کی تائید میں ہم ان کی ایک مشہور فارسی غزل کایہ مطلع درج کرتے ہیں:

دیدہ ور آں کہ تانہد دل بہ شمارِ دلبری

در دلِ سنگ بنگرد رقصِ بتانِ آذری

کس قدر بولتا ہوا مطلع ہے، تصور کس قدر واضح ہے۔ کائنات کے بے ترتیب اور بے رنگ عناصرمیں نگہِ بصیرت کا حسن کی جلوہ گری دیکھنا کیسا دلاویز خیال ہے۔ اسی خیال کی صحیح قدر وقیمت سے صرف ایک اعلیٰ درجے کا ذہین و فطین اور بالغ نظر سنگ تراش ہی آشنا ہو سکتا ہے جس کا تیشہ جمال افروزی کی اداوں کو بخوبی جانتا ہے۔ اس توضیح کے بعد مثنوی طورِ معرفت کے مندرجہ ذیل اشعار پڑھے جائیں جو لاریب بیدل کا شاہکار ہیں:

شبی بر تیغِ کوہی بود جایم

ز بیتابی بہ سنگی خورد پایم

ندا آمد کہ ای محروم اسرار

خراباتِ نزاکتہاست کہسار

مباد ایں جا زنی برسنگ دستی

کہ مینا در بغل خفتست مستی

          بداعتِ تخیل، طراوتِ احساس اور حسنِ بیان کا یہاں اتحاد ملاحظہ کرنے کے بعد آپ ایک بار پھر میرزا غالب کا مندرجہ بالا مطلع پڑھیں اور موازنہ کریں۔ لیکن بیدل یہ شعر کہنے کے بعد آگے جاکرنزہتِ فکری کاایک اور عالم دکھاتے ہیں:

سبک تر راں دریں کہسار محمل

مبادا شیشہ را بشکنی دل

نزاکت بسکہ این جا ریشہ دارد

صداے پا شکستِ شیشہ دارد

تو جسم اندیش وایں جا غیر جاں نیست

ہمہ میناست، سنگی درمیاں نیست

تیسرے شعرکاپہلامصرع گنگاتے ہوئے اب مثنوی چراغِ دیر سے میرزا غالب کے ان اشعار کا مطالعہ کیا جائے:

شگفتی نیست از آب و ہوایش

کہ تنہا جاں شود اندر فضایش

ہمہ جانہای بی تن کن تماشا

ندارد آب و خاک ایں جلوہ حاشا

نہادِ شاں چوبوی گل گراں نیست

ہمہ جانند جسمی درمیاں نیست

          میرزاغالب بے شک لطافتِ فکرواحساس کا پیکر ہیں لیکن خود فیصلہ فرمائیے اس خیال کاماخذ کہاہے؟

          سنگ و شرار کا تذکرہ ختم کرتے ہوئے یہاں ہم مثنوی طورِ معرفت میں سے بیدل کا ایک شعر درج کرتے ہیں جس میں ”رگِ سنگ“ کی ترکیب استعمال ہوئی ہے، اور وہ اس غرض کے لیے کہ پتاچل جائے یہ تین الفاظ۔ رگ، سنگ، شرار۔اگر غالب یک جا، دو دو کرکے یا تنہا استعمال کرتے ہیںتو یہ فیضِ۷ بیدل ہے:

رگِ سنگی بہ نیش نالہ خوں ریخت

خروشی سر بر آورد و جنوں ریخت

          بیدل کی طورِ معرفت اور غالب کی چراغِ دیر کاباہمی تعلق اب اچھی طرح واضح ہوچکاہے۔ تاہم مماثلت اور مطابقت کے بعض مزید عناصر موجود ہیں۔ ان کاذکربھی ضروری ہے تاکہ بحث سیر حاصل ہوجائے۔ اس ضمن میں پہلے دونوں شعرا کے ترکیبات، تصورات یا معانی کے لحاظ سے مزید ایک جیسے اشعار پیش کیے جاتے ہیں:

غالب

بیدل

بہ لطف از موجِ گوہر نرم رو تر

ہمہ از موجِ گلشن خوش عناں تر

بناز از خونِ عاشق گرم دو تر

زِ آبِ زندگانی ہم رواں تر

۔۔

تعالی اللہ بنارس چشم بد دور

بہشتِ اتفاقِ آرزوہا

بہشتِ خرم و فردوسِ معمور

فرنگستانِ حسنِ رنگ و بو ہا

۔۔

بہارستانِ حسنِ لا اُبالیست

رگِ ابرِ بہارستانِ نیرنگ

بہ کشورہا سمر در بی مثالیست

طلسمِ ریشہ فردوس در چنگ

۔۔

کفِ بر خاکش از مستی کنشتی

بنِ ہر خار صد گلشن در آغوش

سرِ ہر خارش از سبزی بہشتی

کفِ ہر خاک صد آئینہ بر دوش

۔۔

بسامانِ دو عالم گلستاں رنگ

دو عالم رنگ و بوی خفتہ یک بار

زِ تابِ رخ چراغانِ لبِ گنگ

زِ شورِ خندہ گل گشت بیدار

۔۔

شکایت گونہ دارم ز احباب

تماشائی جمالِ شستہ آب

کتانِ خویش می شویم بہ مہتاب

کتانم می زند بر روئی مہتاب

۔۔

بود در عرضِ بال افشانی ناز

نگہ تا باغبارش آشنا بود

خزانش صندل پیشانی ناز

مژہ عرضِ دکان توتیا بود

          چراغِ دیرکا وحدت پرور حسین تاروپود تیار کرنے کے لیے میرزا غالب نے متعدد رنگ استعمال کیے ہیں۔ پہلا رنگ ان کے دردوغم سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا اظہار بالکل قدرتی طورپر ہوا۔ احباب کی بے مہری کا ذکر کرتے ہیں تو مولٰنا فضل حق خیرآبادی، حسا م الدین حیدرخاں اور امین احمد خاں کی وفا شعاری اور ساتھ ہی فراموش کاری کی طرف اشارہ کرکے غم کے تاریک سایے میں روشنی کی خوشگوار کرنیں داخل کرتے ہیں۔ یہاں سے رنگ و نور کی نظرپرور سرزمین یعنی کاشی کی رعنائیوں کاذکر چھڑ جاتاہے۔ غم سے مسرت کی طرف گریز تضاد کے عنصر کی وجہ سے بڑا موثر ثابت ہوتا ہے اور پھر وہ اس حسن خیز خطے کاذکر کرکے گویا دادِ عیش دیتے ہیں۔ جب جذبہ مسرت اپنے عروج پر ہوتاہے تو خیال آتاہے کجا یہ عیش کوشی اور کجا میری فرزانگی:

چہ جوئی جلوہ زیں رنگیں چمنہا

بہشتِ خویش شو از خوں شدنہا

یہاں سے پھر گریز کرتے ہیں اور سوچتے ہیں (دراصل پچھلی عیش کوشی کا تاثر ابھی موجود ہے) ”میں نے تو اپنے روح و رواں کو آسودگی سے لبریز کیا لیکن حِس اور ذہن کی لذت کوشی میں اہلِ خانہ کو بالکل فراموش کردیاہے جو سچی بات ہے:

بہ شہر از بیکسی صحرا نشیناں

بروی آتشِ دل جاگزیناں

اُن سے تغافل روانہیں۔“ مختلف قسم کے احساسات کا اسی طرح تانا بانا تیار کرتے ہوئے میرزا غالب عرفانِ نفس سے عرفان الٰہی کی طرف رجوع کرتے ہیں جو میرزا بیدل کے طریقِ کارسے نہ صرف فکری لحاظ سے مشابہ ہے بلکہ معلوم ہوتاہے اسلوبِ بیان بھی مثنوی طور معرفت سے مستعار لیا گیا ہے:

غالب

ترا اے بی خبر کاریست در پیش

بیدل

چہ صحرا و چہ دریا و چہ کہسار

بیابانی و کہساریست در پیش

ہمہ مشتاقِ تست ای غافل از کار

چو سیلابت شتاباں میتواں رفت

اگر صحراست در راہست خرابست

بیاباں در بیاباں میتواں رفت

وگر دریاست از شوق تو آبست

ترا زاندوہ مجنوں بود باید

نہ کوہت سنگِ رہ، نے در، نہ دیوار

خرابِ کوہ و ہاموں بود باید

دو عالم بر صدا راہست ہموار

          ان اشعار میں بنیادی فکر کے ساتھ ساتھ تصورات کی مماثلت اور مشابہت دیکھیں۔ ہاں ساری کائنات حقیقی انسان کے ظہور کا جس بیتابی سے انتظار کرتی ہوئی طور معرفت کے ان اشعار میں نظر آتی ہے، وہ بیدل کی اپنی چیز ہے۔

          ان دونوں مثنویوں میں احساس جمال کی نزہت میں لطافت عجیب لذت پرور طریقے سے موجود ہے۔ میرزا غالب کے متعلق ہم جانتے ہیں کہ وہ حسّی لذتوں کے بڑے دل دادہ تھے۔ لاسہ، باصرہ، سامعہ خاص طورپر ان تین حسّوں کی لذت آفرینی سے وہ خوب لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ اُن کی بہت سی حسین تراکیب اسی لطف اندوزی کی مرہونِ منت ہیں۔ اس مثنوی میں زیادہ تر اول الذکر دو حسّوں کی ساحرانہ کیف پروری پائی جاتی ہے۔یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:

زہے آسودگی بخش روانہا

کہ داغِ جسم می شوید زِ جانہا

۔۔

ادائی یک گلستاں جلوہ سرشار

خرامی ’صد قیامت فتنہ دربار

بہ لطف از موجِ گوہر نرم رو تر

بناز از خونِ عاشق گرم دو تر

۔۔

بہ تن سرمایہ افزائشِ دل

سراپا مژدہ آسائشِ دل

          میرزابیدل کے ہاں باصرہ سے لذت آفرینی زیادہ ہے۔ لیکن چوں کہ اُن کے حسّی مشاہدے کی اساس عام طورپر تعقّل پر ہوتی ہے ،اُن کے تصورات میں نزہت زیادہ ہے۔ مثلاً قوسِ قزح کے متعلق اُن کایہ شعر پڑھا جائے:

پرِ طاوس صرفِ رشتہ دام

خیالِ لعلِ نو خط بر لبِ جام

اسی طرح ان کے مندرجہ ذیل تین شعروں پر نگاہ ڈالی جائے:

زِ طوفانِ بہارِ انبساطش

زمیں تا آسمان موجِ نشاطش

۔۔

شگفتن بسکہ لبریز است اینجا

زمیں تا چرخ گل خیز است اینجا

۔۔

تصور بر طرف می بندد احرام

ہماں بر خندہ گل می زند گام

          میرزاغالب کے سامنے طورِ معرف کی یہی جمال پروری تھی جب انہوں نے کاشی کے متعلق یہ شعر کہا:

فلک را قشقہ اش گر برجبیں نیست

پس ایں رنگینی موجِ شفق چیست

          صرف مندرجہ بالا قسم کے اشعار ہی نہیں بلکہ ”طورِ معرفت“ میں شفق کا دیاہوا یہ نقشہ بھی میرزا غالب کے تصورمیں موجود تھا۔میرزابیدل کہتے ہیں:

چہ گویم زیں شفقہای جہان تاب

کہ آتش ہم نمی باشد بایں آب

کدامیں نالہ بر اوجِ فلک تاخت

کہ ایں آتش بجانِ عالم انداخت

بیاں در وصفِ او ناقص کمنداست

عبث دامن مزن آتش بلند است

کدا میں بسمل ایں جا پرفشاں شد

کہ خونش رفتہ رفتہ آسماں شد

نمی دانم بایں شوخی کہ زد چنگ

کہ شد بی پردہ حسنِ عالمِ رنگ

کہ وا کردست بر آئینہ آغوش

کہ عکسش کرد عالم را چمن پوش

تصورہا بیادش جنت احرام

خیال از رنگ تصویرش گل اندام

نشستہ عالمی زیں موج نیرنگ

چو برگِ گل بزیرِ خیمہ رنگ

ہمیں جوشِ بہار انبساط است

ہمیں گلگونہ حسنِ نشاط است

لطافتِ احساس اور رعنائیِ خیال دیکھیں۔ تخیل کے زور سے رومان پروری کا عالم ملاحظہ کریں۔ کون سا شعر ہے جو رنگینیوں کے ایک نئے بہشت میں نہیں پہنچا دیتا۔ یہی چیزیں میرزا غالب کو پسند تھیں۔ اُن کی شیفتگیِ بیدل کا راز انھی چیزوں میں پنہاں ہے۔ ہم احساسِ حسن کی اسی لطافت میں میرزاغالب اور میرزابیدل کی مماثلت دیکھتے ہیں۔ یہی مماثلت تھی جو بتانِ کاشی کو دیکھ کر بے ساختہ گویا ہوگئی اوراپنے خدوخال ہمیشہ کے لیے اہل عالم کے سامنے واضح کرگئی۔

          میرزاغالب کاشی سے گھوڑے پر عازم کلکتہ ہوئے۔ دریاکے راستے جانے کا ارادہ تھا مگر کشتی کے اخراجات برداشت نہ کرسکے۔ عظیم آبادپٹنہ اور مرشدآباد ہوتے ہوئے 20 فروری 1828ء کو بروز منگلوار کلکتہ وارد ہوئے۔اور شملہ بازار میں مرزا علی سوادگرکی حویلی میں ایک کھلا مکان دس روپے ماہوار کرائے پر لیا۔ اُن کا اصل مقصد پنشن کے حصول کے لیے جد وجہد کرنا تھا۔ مگر وہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کے مدرسے میں ہرانگریزی مہینے کے پہلے اتوار کو مشاعرہ ہوتا تھا۔ میرزا غالب نے اس میں حصہ لینا شروع کردیا۔میرزا نے ایک غزل پڑھی جس کے اس شعر پر اعتراض ہوا:

جزوی از عالمم و از ہمہ عالم بیشم

ہمچو موی کہ بتاں را ز میاں برخیزد

          اعتراض یہ تھاکہ ’عالم‘مفرد ہے اور قتیل کے قول کے مطابق اس سے پہلے ’ہمہ‘ نہیں آسکتا۔ مشاعرے میں کفایت خاں ایرانی سفیر بھی موجود تھے۔ انہوں نے سعدی اور حافظ کے کلام سے سند پیش کردی مگر معترضین مطمئن نہ ہوئے۔ مرزا غالب کے مندرجہ ذیل شعر پر بھی اعتراض کیا گیا:

شورِ اشکی بہ فشارِ بنِ مژگاں دارم

طعنہ بر بی سروسامانیِ طوفاں زدہ

          معترضین کہتے تھے کہ اس میں ’زدہ کا استعمال غلط ہے۔

          میرزا غالب کو اپنی فارسی دانی پرنازتھا، اس لیے انہوں نے وہاں (کلکتے میں) اہل ایران سے روابط بڑھائے جو اہل زباں ہونے کی بنا پر زیادہ قابل اعتماد تھے۔ انہوں نے میرزا کی کھلے دل سے تعریف کی۔ محمدعلی حزیں کوبھی اہل زبان ہونے کی وجہ سے میرزا غالب قابل اعتماد سمجھتے تھے۔ حزیں نے برصغیر میںآکریہاں کے فارسی گوشعرا کو ”پوچ گو“ کہا تھااور سراج الدین علی خاں آرزو سے نزاع شروع کی تھی جو استعمال بند کے حامی تھے۔ اب غالب کے کلکتہ پہنچنے پر پرانی ایرانی ہندی نزاع کا ازسرنوآغازہوگیا۔ اب آرزوکی بجائے قتیل اور واقف اہل ہند کے نمائندے تھے اور کلکتہ میں ان کے طرف دار مولوی نعمت علی عظیم آبادی، مولوی کرم حسین بلگرامی اور مولوی عبد القادر وغیرہ تھے جو فارسی کے مستند اُستاد شمار ہوتے تھے۔ مرزا غالب کی حمایت ایرانی سفیر کے علاوہ نواب اکبرعلی متولی امام باڑہ اور مولوی محمد حسن کر رہے تھے۔

          میرزا غالب عجیب مخمصے میں گرفتار ہوگئے۔ اُن کے لیے پنشن کا جھگڑا دردِ جگر کاموجب بناہواتھا۔وہ کوئی اور درد سر مول نہیں لینا چاہتے تھے۔ دہلی میں محاورہ بندی، روزمرہ نگاری اور قافیہ پیمائی کے دلدادہ ادب دوستوں نے ان کے جدید اسلوب نگارش اور پیچیدہ افکارپر اعتراض کیا تھا۔ یہاں ایرانی ہندی جھگڑا اُن کے سرپر مسلط کردیاگیا، اور لطف کی بات یہ ہے کہ دہلی میں بھی بیدل کے اتباع پر اعتراض تھا اور یہاں بھی لفظ ’زدہ‘ کے جس استعمال کو محل نظر قرار دیا گیا تھاوہ بھی میرزا غالب کے ذہن میں بیدل کی وجہ سے جاگزیں ہواتھا۔ میرزاغالب، میرزا بیدل کی فارسی دانی کے قائل تھے اور کہتے تھے اس برصغیر سے تعلق کے باوجود میرزا بیدل قتیل کی طرح نادان نہیں۔وہ انہیں ایک عظیم سرچشمہ فیض خیال کرتے تھے۔اس لےے جب انہو ںنے احباب کے کہنے پربطریقِ معذرت مثنوی باد مخالف لکھی توجہاں میرزابیدل کی اس حیثیت کا اعلان کیا،وہاں ’زدہ‘ کے متعلق سندبھی انہیں کے شعرکی پیش کی:

می زدہ، غم زدہ کہ ترکیب است

بقیاس فقیر تقلیب است

ہمچناں آں محیطِ بی ساحل

قلزمِ فیض میرزا بیدل

از محبت حکایتی دارد

کہ بدینساں بدایتی دارد

”عاشقی بیدلی جنوں زدہ

قدحِ آرزو بخوں زدہ

واوین والاشعر میرزا بیدل کاہے اور ان کی مثنوی ”عرفان“ میں موجود ہے۸۔ معلوم ہوتا ہے جوں جوں اعتراضات کا واویلا بلند ہوتاتھا،غالب کے شعور میں میزا بیدل کا یہ شعر پے درپے گونج پیدا کرتاتھا۔ اس لےے کون کہہ سکتا ہے کہ میرزا غالب نے مثنوی باد مخالف کی بحر (فاعلاتن مفاعلن فعلان)اس شعر کا حوالہ دینے کی خاطر اختیار نہیں کی تھی، یایہ کہ ’زدہ  کے جس استعمال پر لوگوں نے اعتراض کیا تھا،وہ انہوں نے میرزا بیدل سے اخذ نہیں کیا تھا؟

          اور یہ بھی دیکھیے، دہلی اور کلکتہ والوں کے اعتراضات کے علی الرغم (قربِ زمانی اور جذباتی فضاخاص طورپر معنی خیز ہے) نہ صرف یہ کہ بنارس میں بیدل کے اتباع میں مثنوی لکھ کر میرزا غالب نے واضح کردیاکہ بیدل کا تخیل ان کے مزاجِ شعری کا جزولاینفک بن چکاہے بلکہ کلکتہ میں علی الاعلان بیدل کو محیطِ بے ساحل اور قلزم فیض کہا۔ گویا اُن سے فیض حاصل کرنے کے بزبان حال و قال معترف ہونے کے علاوہ میرزا غالب یہ بھی کہتے تھے کہ اُن کا فیض کبھی ختم ہونے ولانہیں۔ ”محیط بے ساحل“ محض مبالغہ آرائی نہیں اور نہ ضرورتِ شعری کی بناپریہ ترکیب استعمال ہوئی ہے۔ یہ ایک شاگرد کی انتہاے عقیدت ہے۔ اسی لےے اُستاد کے اشعار کو اپنی ذاتی جائداد سمجھ کر حسب ضرورت یہ ادنیٰ تصرف اپنے کلام میں لے آئے ہیں۔ مثنوی باد مخالفت کے ایک شعر کا موازنہ آپ خوداس نقطہ نگاہ سے عرفانِ بیدل کے ایک شعر سے کریں:

غالب

بیدل

من کف خاک و اَو سپہرِ بلند

خاک را کی رسد بچرخ کمند

من کفِ خاک و اُو سپہر بلند

نبرد خاک بر سپہر کمند

          یہ شعر اسی حکایت کاہے جس کا حوالہ مندرجہ بالا اشعار میں میرزا غالب نے خود دیاہے۔

          اب مذکورہ بالا تمام مطالب کو زیرنظر رکھ کر آپ غور فرمائیں۔ سفرِ کلکتہ میں میرزا غالب نے دو مثنویاں چراغ دیر اور باد مخالف تصنیف کریں۔ دونوں بیدل کی دو مثنویوں طور معرفت اور عرفان کی بحروں میں ہیں اور دونوں میں بیدل سے غالب کا استفادہ اور استفاضہ ظاہر ہے۔ مثنوی باد مخالف کاسال تصنیف ۸۲۸۱ءہے جب میرزا غالب کی عمر شمسی تقویم کے حساب سے پورے اکتیس سال تھی۔ اس لےے یہ کہنا کہ میرزا غالب نے بیدل کا تتبع عمر کے پچیس سال تک کیا، غلط ہے۔ ہم نے جو داخلی ثبوت پیش کیاہے، اس سے الم نشرح ہوجاتاہے کہ جب میرزا غالب نے دس گیارہ سال کی عمر سے بیدل کے رنگ میں شعر کہناشروع کردیاتھا، باد مخالف کے سال تصنیف تک انہوں نے بلاشبہ بیس سال کے طویل عرصے تک بیدل سے اکتساب فیض کیا۔ اور سطوربالانے پوری طرح واضح کردیاہے کہ ایک نابغہ کاایک عظیم شاعرسے اتنے طویل عرصہ تک اکتساب فیض کس قدر مثبت اثرات پر منتج ہوا۔اس طرح نظر آتاہے کہ غالب کے مرکزی نظامِ عصبی پر بیدل کے لطیف اور منزہ احساسِ حسن اور تخیل افروز اسلوب کا ایسا اثرتھاکہ اس کے خیال سے وہ مدہوش سے ہوجاتے تھے اور پھر عجیب لطف وسرور کے ساتھ تخلیق شعر کیاکرتے تھے۔ میرزا غالب کے مزاجِ شعری کا جوں جوں تجزیہ کیا جائے گا، واضح ہوتاجائے گاکہ اگر اس میں سے بیدل کے اثرات کو ختم کردیاجائے تو بہت سے ایسے عناصر باقی نہیںرہیں گے جن کی بناپر وہ (یعنی میرزا غالب) ہمیں اس قدر پسند ہیں۔

۔۔۔

حواشی:

۱۔کلکتے میں میرزاغالب نے اُردو زبان میں چکنی ڈلی کے متعلق ایک قطعہ بھی لکھا۔ ان کے دوست مولوی کریم حسین نے ایک مجلس میں بہت پاکیزہ چکنی ڈلی اپنے کفِ دست پر رکھ کر انہیں اس کے متعلق نظم لکھنے کوکہاتو انہوں نے وہیں بیٹھے بیٹھے نودس اشعار پر مشتمل ایک قطعہ کہا۔ جس میں تشبیہات کاحسن دید کے قابل ہے۔ اس قطعے سے ظاہر ہوتاہے کہ اُن ایام میں میرزاغالب کی طبیعت کا رجحان تخلیق حسن کی طرف بہت زیادہ تھا۔علاوہ بریں اگرچہ اس قطعے میں ان کی ابتدائی اُردو شاعری کی طرح اغلاق نہیں لیکن فارسی ترکیبات کی وہ بہتات ہے کہ اکثر اشعار کے افعال اگر فارسی میں تبدیل ہوجائیں تواشعار یکسر فارسی کے بن جاتے ہیں۔ یہ اس امرکاثبوت ہے کہ وہ میرزاکی فارسی گوئی کادور تھا۔

۲۔اِس مخطوطے کا نمبر 1526 ہے۔ اس میں بیدل کی ایک اور مثنوی محیطِ اعظم بھی شامل ہے۔ لیکن سفرِ کلکتہ سے اس دوسری مثنوی کے اثرات کاکوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ البتہ باقی کلامِ غالب میں اِس کے اثرات موجود ہیں۔

۳۔ہم نے اِس مہراور شعر کا عکس اپنی تصنیف سیرتِ بیدل (انگریزی) میں دے دیا ہے۔ اسی طرح بیدل کی دوسری مثنوی ”محیطِ اعظم“ سے متعلق شعر اور مہرکاعکس بھی دے دیا گیاہے۔ ”محیطِ اعظم“ کی تعریف میں میرزاغالب نے یہ شعر لکھاہے:

ہر حبابی را کہ موجش گل کند جامِ جم است

آبِ حیوان آب جوئے از محیطِ اعظم است

          (دیکھےے Life and Works of Bedilمطبوعہ پبلشرز یونائٹڈ لاہور، 1961صفحہ ۳۲۱)

۴۔ بیدل کے متعلق مرزا غالب کے ان ایام میں کہے ہوئے مندرجہ ذیل اردو کے اشعار کا مطالعہ بھی کیجےے۔ عقیدت اور استفادے کا جذبہ عمیق و پُرشور قابلِ دید ہے:

اسد ہر جا سخن نے طرحِ باغ تازہ ڈالی ہے

مجھے رنگِ بہار ایجادیِ بیدل پسند آیا۔

۔۔

مطربِ دل نے مرے تارِ نفس سے غالب

ساز پر رشتہ پَے نغمہ بیدل باندھا

۔۔

مجھے راہِ سخن میں خوفِ گمراہی نہیں غالب

عصاے خضر صحراے سخن ہے خامہ بیدل کا

۔۔

اسد قربانِ لطفِ جورِ بیدل

خبر لیتے ہیں لیکن بے دلی سے

۔۔

گر ملے حضرتِ بیدل کا خطِ لوحِ مزار

اسد آئینہ پروازِ معانی مانگے

۔۔

طرزِ بیدل میں ریختہ لکھنا

اسداللہ خاں قیامت ہے

۔۔

۵۔ میرزا غالب کا معاصرِ بزرگ غلام ہمدانی مصحفی (متوفی:۴۲۸۱ئ) ایک واسطے سے ان بزرگوں میں شامل ہوجاتاہے۔ سنہ ۱۷۷۱ءکے لگ بھگ مصحفی نے میرزا رفیع سوداسے لکھنو  (فیض آباد؟) میں ملاقات کی، اور میرزا سودا جب شاہجہان آباد میں رہتے تھے تو عرسِ بیدل منایا جاتاتھا۔ مصحفی ان لوگوں میں ہیں جنہوں نے بیدل کے اتباع کو آخری دم تک مستحسن سمجھا۔ مصحفی نے 1199ھ (85- 1886 ئ) میں تذکرہ ”عقدِ ثریا“ تصنیف کیا تو لکھا کہ اب بیدل کی ”قبرخانہ ویران“ میں واقع ہے۔ دیکھیے عقدِ ثریا، مطبوعہ دہلی، 1934ئ، صفحہ 160۔

۶۔اہل نظر کے نزدیک کلام بیدل اس قدر وقیع ہے کہ علامہ اقبال مرحوم نے اپنی وصیّت میں ایک قلمی دیوانِ بیدل کااپنی جائداد کے سلسلے میں ذکرکیاتھا۔ بحوالہ روزگار فقیر، جلد۲، صفحہ ۸۵۔ اور طورِ معرفت کے اس نسحے کو تو میرزا غالب کے خصوصی تعلق نے بھی گراں مایہ بنا دیا تھا۔

۷۔یہ ترکیب اُس بات کا پیش خیمہ ہے جو ہم میرزا غالب کے قیامِ کلکتہ کے سلسلے میں کہیں گے۔

۸۔دیکھیے کلیات بیدل، جلد سوم، مطبع دپو ہنی کابل۔ مثنوی عرفان صفحہ ۱۸۱

English Hindi Urdu