انجمن ترقی اردو دہلی شاخ کے زیر اہتمام بہ اشتراک غالب انسٹی ٹیوٹ، غالب اکیڈمی، اور انجمن ترقی اردو ہند ’یوم غالب‘ کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر چاروں اداروں کے سربراہان و اراکین اور محبان غالب نے غالب کے مزار پر گل پوشی اور فاتحہ خوانی کی۔ گل پوشی اور فاتحہ خوانی کے بعد غالب اکڈمی بستی حضرت نظام الدین میں ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا گیا ۔ جناب عبدالرحمن ایڈوکیٹ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ غالب اردو شاعری کا تابندہ ستارہ ہے اردو شاعری پر ان کا سب سے زیادہ اثر پڑا ہے۔غالب کی شاعری ایک لازوال اثر رکھتی ہے اور اسے جب بھی پڑھو ایک نیا تاثر ابھرتا ہے۔ استقبالیہ کلمات اقبال مسعود فاروق نے ادا کیے انھوں نے کہا کہ ہم ہر سال یوم غالب کا اہتمام کرتے ہیں اور اس موقع پر ان مفکرین کو مدعو کرتے ہیں جن کے افکار و خیالات علمی دنیا میں وقار رکھتے ہیں۔ جناب متین امروہوی نے مرزا غالب اور بیگم حمیدہ سلطان کے لیے منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔ غالب اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد نے کہا کہ غالب کا کلام ہماری آزمائش بھی کرتا ہے میری خواہش ہے کہ نئی نسل غالب کا نام صرف فیشن کے طور پر نہ لے بلکہ اس کے اصل جوہر سے بھی واقف ہو۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے کہا کہ میں لمبے عرصے سے غالب کے مزار پر حاضر ہوتا رہا ہوں میں تمام مقررین اور حاضرین کا دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت ہمیں دیا اور اس پروگرام کو کامیاب بنایا۔ اس موقع پر جناب جگمیت نوربو خیال لداخی کے مجموعہ کلام کی رسم رونمائی عمل میں آئی۔ اس کے بعد ایک طرحی مشاعرہ ہوا جس کی صدرات جناب وقار مانوی اور نظامت جناب معین شاداب صاحب نے فرمائی۔ مشاعرے میں جناب وقار مانوی، جناب ظفر مرادآبادی، جناب متن امروہوی، جناب اسد رضا، جناب سید راشد حامدی، جناب صہیب احمد فاروقی، جناب اقبال فردوسی، جناب شاہد انور، محترمہ آشکارا خانم کشف، محترمہ چشمہ فاروقی، جناب اقبال مسعودی ہنر، جناب نعمان جمال نے اپنا خوبصورت طرحی کلام پیش کیا۔