Print Friendly, PDF & Email

’’بلراج مَین را: ایک ناتمام سفر‘‘ پر مذاکرہ منعقد

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام ’’شامِ شہریاراں‘‘ کے موقع پر نوجوان اسکالر اور شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اُستاد ڈاکٹر سرورالہدیٰ کی تازہ ترین کتاب’’بلراج مَین را: ایک ناتمام سفر‘‘ پرایک مذاکرے کا اہتمام ۲۹؍مئی ۲۰۱۵ ایوانِ غالب میں کیاگیا۔ اس جلسے کی صدارت پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کی اور اورمہمانِ خصوصی کی حیثیت سے جناب بلراج مین رانے شرکت کی۔ڈاکٹررضاحیدر نے ابتدا میں کتاب کا تعارف پیش کرتے ہوئے اس خیال کااظہارکیاکہ ’’بلراج مین راایک ناتمام سفر‘‘مین را پر پہلی باضابطہ کتاب ہے۔ اس طرح کی کوئی کتاب کسی عہدِحاضر کے کسی اہم افسانہ نگار پر نہیں لکھی گئی۔ڈاکٹر خالد جاوید نے بلراج مین را کی افسانہ نگاری کاتخلیقی انداز میں ذکرکیا اور اس خیال کااظہارکیاکہ جدیدیت کی کہانی بلراج مین را کی کہانیوں کے بغیر اپنا کوئی اختصاص قائم نہیں کرسکتی۔ سرورالہدی نے مین را کی کہانیوں کوایک سنجیدہ قاری کے طورپر سمجھنے اور تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے،انہوں نے تجزیہ میں اُن تمام امکانات کو کنگھالنے کی کوشش کی ہے جو عموماً تنقیدی اناکے سبب اوجھل رہے ہیں۔ریسرچ اسکالر عبدالسمیع نے دواقتباسات پڑھ کر سنائے۔فرحت احساس نے مین را اور اُن کے عہد کواُردو کاایک تخلیقی عہد قرار دیتے ہوئے مین را کے امتیازات کی نشاندہی کی،انہوں نے اس خیال کااظہارکیاکہ سرورالہدی نے مین را کے افسانوی متن کا جس انداز سے تجزیہ کیا ہے اس سے مصنف اور عہدکی مکمل نفی نہیں ہوتی،اس انداز نظرکوکسی متن اور خصوصاً مین را کے متن کوپڑھنے کاسب سے اچھازاویہ قرار دیا جاسکتا ہے۔اس مطالعہ سے مین را کا پورا عہد سامنے آجاتاہے اور مین را ایک ذہانت وبغاوت اور بے پناہ تخلیقیت کا استعارہ بن کر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ پروفیسر شمس الحق عثمانی نے مین را اور اُن کے عہد کو یاد کرتے ہوئے اس دُکھ کااظہارکیاکہ وہ عہد شاید دوبارہ واپس نہ آسکے۔انہوں نے مین راکی کہانیوں کومنفردقرار دیتے ہوئے اُس عہد کی کہانیوں کے ساتھ بھی رکھ کر دیکھنے پر زور دیا۔انہوں نے بلراج مین را ایک ناتمام سفر کومین را اورنئی کہانی کاایک اہم تجزیاتی مطالعہ قرار دیا اور اس بات سرورالہدی کو مبارک باد پیش کی۔ پروفیسر شمیم حنفی نے بلراج مین را ایک ناتمام سفر کی اشاعت، مذاکرے اور مین را کی شرکت کو ایک اہم واقعہ قرار دیا۔انہوں نے اس خیال کا اظہارکیاکہ سرورالہدی کی اس کتاب کی اشاعت سے نہ صرف مین را بلکہ جدیدیت کے افسانوی سفر کاراز بھی کھلتانظر آتاہے۔ سرورالہدی نے مطالعہ کا جو رُخ اختیار کیاہے اُسے ہم متن کے گہرے مطالعے کا نام دے سکتے ہیں۔اس کی ایک مثال کتاب کاایک مضمون ’’کرشن چندر اور بلراج مین را کی سڑک‘‘ ہے۔ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنی صدارتی تقریر میں بلراج مین را ایک ناتمام سفر کی اشاعت کو نئے افسانہ کی تنقید میں ایک اہم اضافہ قرار دیا اور اس خیال کااظہارکیاکہ سرورالہدی نے ایک ایسی کتاب لکھ دی ہے جس کو پڑھ کر یہ امید بندھتی ہے کہ تنقیدی سرگرمی میں متن بنیادی حوالے کے طور پر استعمال ہوگا۔سرورالہدی نے متن سے جس طرح کا مکالمہ کیا ہے وہ نقاد سے زیادہ ایک قاری کا مکالمہ ہے۔مجھے خوشی ہے کہ بلراج مین را پر ایک ایسی کتاب آگئی جوحوالے کے طورپر استعمال ہوگی۔ لکھنؤ سے تشریف لائے اُردو کے استاد ڈاکٹر شفیق حسین شفق نے بھی اس موقع پراپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ بلراج مین را کانام جدید اُردو افسانہ میں اتنا اہم ہے کہ اُن کے تذکرے کے بغیر جدید اردو افسانہ کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔ اس مذاکرے میں مختلف علوم و فنون کے افراد اور یونیورسٹیوں کے طلبا کی تعداد موجود تھی۔

English Hindi Urdu