Print Friendly, PDF & Email

بنارسی کی دوستی

قاضی عبد الودودکے بعد جن محققین نے اردو تحقیق کی روایت کو مستحکم کیا اور اپنی نگارشات سے نئے حقائق کی نقاب کشائی کی ان میں پروفیسر حنیف نقوی کا نام سر فہرست ہے۔ حنیف نقوی کی پیدائش اکتوبر 1936 سہسوان ضلع بدایوں (اتر پردیش، بھارت) میں ہوئی۔ 1970 سے 2000 تک وہ بنارس ہندو یونیورسٹی (بنارس)کے شعبۂ اردو میں درس و تدریس کےفرائض انجام دیتے رہے۔   انھوں نے غالب اور دیگر اہم موضوعات پر تحقیقی  مقالات لکھ کرنئے ھقائق کو پیش کیا  جن سے ان کی تحقیقی بصیرت اور وسعت مطالعہ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ عام طور پر یہ باور کیا جاتا ہے کہ قاضی عبدالودود کی تحریر پرکوئی اضافہ تقریباً ناممکن ہے لیکن حنیف نقوی کے تحقیقی مقالات نے اس رائے کو کلیہ بننے سے روک دیا۔ انھوں نے قاضی عبدالودود کی ‘مآثر غالب’ پر نہایت عالمانہ حواشی لکھے جس سے ان کتاب کی افادیت دہ چند ہو گئی۔ یہاں حنیف نقوی کا ایک ایسا ہی تحقیقی  مقالہ پیش کیا جا رہا ہے۔ در اصل قاضی عبد الودود نے 1969 میں غالب تقریبات کے صدارتی خطاب میں کہا تھا کہ غالب کے بعض بیانات مجمل ہیں مثلاً ایک خط میں انھوں نے ‘بنارسی’ کا ذکر کیا ہے لیکن یہ واضح نہیں ہوتا کہ یہ بنارسی کون ہے۔ خود قاضی عبدالودود بھی اس سوال کا جواب نہیں تلاش سکےتھے۔ حنیف نقوی نے اس مقالے میں بدلیل یہ ثابت کیا ہے کہ ‘بنارسی’ سے مراد مرزا یوسف علی خاں عزیز ہیں۔ یہ مقالہ پہلی مرتبہ غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے منعقدہ سمینار ‘غالب اور بنارس’میں پیش کیا گیا تھا بعد میں حنیف نقوی کی کتاب ‘غالب اور جہان غالب’ شائع کردہ غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی 2012 میں شامل ہوا۔ 

پروفیسر حنیف نقوی

بنارسی کی دوستی

مرحوم قاضی عبدالودود نے 1969 کے غالب صدی سمینار کے غالب صدی سمینار کے خطبۂ افتتاحیہ  میں غالب کی بعض تحریروں کے ابہام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا :

”بہت سی باتیں محض اشاروں میں ہیں ۔مثلاً علائی کے نام سے ایک خط میں ہے کہ میں نے بنارسی کی حمایت میں گالیاں کھائیں۔ علائی کسی شخص کو سائیسوں سے پٹوانا چاہتے تھے۔غالب مانع ہیں ۔خبر نہیں وہ شخص کون تھا اور علائی کی ناراضی کا سبب کیا تھا؟“

          اس کے تقریباً تیس سال کے بعد شمس الرحمن فاروقی نے ماہنامہ”شب خون“الہ آباد کے اکتوبر1998 کے شمارے میں بینی مادھو رسوا کے فرضی نام سے اپنی ایک نہایت دلچسپ تحریر  ”غالب افسانہ “شائع کی۔اس سوانحی افسانے میں رسوااور غالب کی ملاقات کے دوران ملا محمد عمر سابق بنارسی کے بارے میں غالب کا ایک مکالمہ ان الفاظ میں نقل ہوا ہے :

”ملا سابق علیہ الرحمہ کے نام سے واقف ہوں۔ان کی مثنوی ”تاثیرِ محبت“میں نے اپنے بنارس کے قیام میں دیکھی تھی۔بڑے جیّد آدمی تھے “۔(2)

          رسالے کے مئی جون 1999 کے مشترک شمارے میں ”کہتی ہے خلقِ خدا “کے مستقل عنوان کے تحت ڈاکٹر گیان چند جین کا ایک طویل خط شائع ہوا ہے ۔اس میں انہوں نے منقولۂ بالا دونوں تحریروں کے حوالے سے اپنے مشاہدات وتاثرات سپردِ قلم کرتے ہوئے فرمایا ہے :

”آج کل میں قاضی عبد الودود کی تحریروں میں مستغرق ہوں،بالخصوص ان کی غالبیات میں ۔(اس سلسلے میں ) آپ سے جو مدد ملی ہے ،اس کا ذکر کرتا ہوں۔قاضی صاحب نے دہلی میں غالب انٹر نیشنل سمینار 1969میں اپنا طویل افتتاحی خطبہ پڑھا۔اس میں کہا کہ غالب نے علائی کے نام کے ایک خط میں کہا ہے کہ میں نے بنارسی کی حمایت میں گالیاں کھائیں ۔انہوں نے خط کی تفصیل نہیں دی ۔ بہر حال میں نے تلاش کیا ۔خلیق انجم کے مرتبہ ”غالب کے خطوط“جلد اول ،خط ۳۵ میں لکھا ہے :”ایک بار میں نے دکنی کی دشمنی میں گالیاں کھائیں ،ایک بار بنارسی کی دوستی میں گالیاں کھاؤں گا ۔“یہاں دکنی سے مراد فارسی کی لغت ”برہانِ قاطع“ کا مولف محمد حسین برہان ہے۔بنارسی کون ہے ؟ قاضی عبدالودود کو معلوم نہ تھا ۔جاننا چاہتے تھے۔میں بھی واقف نہ تھا ۔نومبر ”شب خون“کے ”سوانحی گوشے“میں آپ نے خان آرزو کے شاگرد ملاسابق بنارسی (1730۔1810)  کا ذکر کیا ہے ۔اب بات صاف ہوگئی۔جنوری کے ”شب خون“  میں قاضی افضال حسین نے اپنے مراسلے میں لکھا ہے :

          ”….ملا سابق بنارسی شمس الرحمن فاروقی کے نانہالی جِدّ اعلیٰ تھے ،اور اگرچہ مشہور آدمی تھے مگر غالباً مرزا غالب سے ان کا کوئی معاملہ نہ تھا ۔“

          معاملہ تو تھا ۔غالب نے علائی کے نام کے خط میں بنارسی کا ذکر کیا ہے ۔آپ نے رسوا کے نام کے ”غالب افسانہ“میں غالب کی زبانی کہلایا ہے :

          ”ملا سابق علیہ الرحمہ کے نام سے واقف ہوں ۔ان کی مثنوی ”تاثیرِ محبت“میں نے اپنے بنار س کے قیام میں دیکھی تھی۔ بڑے جیّد آدمی تھے ۔“

          لکھیے کہ یہ سب آپ نے کہاں سے لیا ہے ؟یہ حوالہ بنارسی کی شناخت اور غالب سے ان کی دوستی کے ثبوت کے لیے مفید ہوگا ۔قاضی عبدالودود  فارسی ادبیات کے بڑے عالم تھے ۔آپ نے تو انہیں بھی زک دے دی ۔“(3)

          جین صاحب کے ان ارشادات پر اظہار خیال سے پہلے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ علائی کے نام غالب کے اس خط پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے جس کے حوالے سے ”بنارسی “کی شناخت کا یہ مسئلہ زیرِ بحث آیا ہے ۔مرزا غالب نے اس خط میں لکھا ہے :

”ضمناً ذکر ایک مدبر کا لکھا جاتا ہے ۔جو تم نے اس مدبر کے صفات لکھے،سب سچ ہیں ۔احمق ،خبیث النفس،حاسد،طبیعت بری،سمجھ بری،قسمت بری۔ایک بار میں نے دکنی کی دشمنی میں گالیاں کھائیں ،ایک بار بنارسی کی دوستی میں گالیاں کھاؤں گا۔میں نے جو تمہیں اس کے باب میں لکھا تھا ، وجہ اس کی یہ تھی کہ میں نے سنا تھا کہ تم نے اپنے سائیسوں سے کہہ دیا ہے یا کہا چاہتے ہو کہ اس کو بازار میں بے حرمت کریں۔یہ خلافِ ِشیوۂ مومنین ہے۔خلاصہ یہ کہ یہ قصد نہ کرنا ۔یہ مویّد اُس قول کا ہے جو میں نے تم سے پہلے کہا تھا کہ تم یوں تصور کرو کہ اس نام کا آدمی اس  محلّے میں بلکہ اس شہر میں کوئی نہیں ۔“(4)

          اس خط میں تین اہم باتیں معلوم ہوتی ہیں ،پہلی یہ کہ اس میں جس ”بنارسی “کی دوستی میں گالیاں کھانے کا ذکر آیا ہے، وہ اس وقت بہ قیدِحیات تھا اور دہلی میں موجود تھا۔دوسری یہ کہ غالب اور علائی کی طرح عقائد کے اعتبار سے وہ بھی اثنا عشری تھا۔ اس کی سرکوبی کو”خلاف ِ شیوۂ مومنین“ قرار دینا اسی جانب اشارہ کرتا ہے ۔تیسری یہ کہ وہ دہلی میں غالب اور علائی کا ہم محلہ یعنی بلّی ماران کا باشندہ تھا ۔اس پس منظر میں غور کیا جائے تو جین صاحب کے فرمودات سے اتفاق کی مطلقاً کوئی گنجائش نظر نہیں آتی ۔ کیوں کہ ملا محمد عمر سابق بنارسی نہ تو غالب کے ہم محلّہ تھے اور نہ ہم عصر۔وہ1810  میں یعنی اس خط کی تحریر سے تقریباً ساٹھ سال پہلے وفات پا چکے تھے ۔ علاوہ بریں وہ سنّی العقیدہ تھے اور اہلِ علم ان کی کسی ایسی کار گزاری سے واقف نہیں جس کی تائید یا حمایت کا خمیازہ ان کے کسی دوست کو گالیوں کی صورت میں بھگتنا پڑا ہو۔ اس وصاحت کے بعد جین صاحب کے یہ مزعومات از خود بے معنی ہو جاتے ہیں کہ فاروقی صاحب نے ملا محمد عمر سابق بنارسی کی شخصیت سے پردہ اٹھا کر بنارسی کی شناخت اور غالب سے ان کی دوستی کا مسئلہ بڑی حد تک حل کر دیا ہے اور اپنی اس دریافت کے ذریعے انہوں نے قاضی عبدالودود کو بھی جو فارسی ادبیات کے بڑے عالم تھے،زک دے دی ہے ۔

          ہمارا خیال یہ ہے کہ اس معاملے میں تحقیق کا دائرہ اگر صرف علائی کے نام غالب کے خط تک محدود رکھا جائے تو زیرِ بحث مسئلے کا حل بہ آسانی دریافت کیا جا سکتا ہے ۔اس خط کے پس منظر میں ہمارا ذہن بار بار جس شخص کی طرف منتقل ہوتا ہے وہ صرف اور صرف مرزا یوسف علی خاں عزیز بنارسی ہیں ۔اس کا پہلا سبب تو یہ ہے کہ غالب کے حلقۂ احباب وتلامذہ میں ان کے علاوہ ایسا کوئی اور شخص نظر نہیں آتا جو بنارس سے وطنی نسبت رکھتا ہو اورجس کی خاطر انہیں بے حد عزیز ہو۔دوسری وجہ یہ ہے کہ دہلی میں ان کا قیام محلّہ بلّی ماران میں غالب کے پڑوس ہی میں تھا ۔تیسری وجہ یہ ہے کہ غالب کی طرح وہ بھی اثنا عشری عقیدے کے پیرو  تھے اور ایاّمِ عزا میں باقاعدہ مرثیہ خوانی کیا کرتے تھے ۔ چوتھا اور سب سے اہم سبب یہ ہے کہ غالب کو زبان ولغت کے بعض مسائل میں ”برہانِ قاطع“ کے مولّف محمد حسین دکنی سے اختلاف کی بنا پر ان کے حامیوں کی مذمّت وملامت کا ہدف بننا پڑا تھا۔ عزیز کو بھی اپنے زمانے کے معروف اساتذۂ سخن اور زبان دانوں پر خواہ مخواہ اعتراض اور ان کی اصلاح کا عارضہ لاحق تھا جس کے نتیجہ میں کبھی کبھی نوبت بحث و تکرار اور منافشے اور معارضے تک پہنچ جاتی تھی۔

          مرزا غالب یوسف علی خاں عزیز کو کس قدر عزیز رکھتے تھے ،اس کا اندازہ ان کے مندرجہ ذیل بیانات سے کیا جا سکتا ہے۔ منشی نبی بخش حقیر کو23  جنوری1852  خط میں لکھتے ہیں :

          ”مرزا نجف علی خاں مرحوم….کے فرزندِ ارجمند مرزا یوسف علی خاں کو میں اپنے فرزند کی جگہ مانتا ہوں ،اور ان کی سعادت مندیاں اور خوبیاں کیا بیان کروں کہ میں ان کا عاشق ہوں۔“

منشی شیو نرائن آرام کے نام 6 نومبر 1859 کے خط میں رقم طراز ہیں:

          ”مرزا یوسف علی خاں عزیز….عالی خاندان اور ناز پروردہ آدمی ہیں۔ان کو جو راحت پہنچاؤ گے اور جو ان کی خدمت بجا لاؤ گے ،اس کا خدا سے اجر پاؤ گے۔“

 مرزا حاتم علی مہر کو 1860  کے ایک خط میں لکھتے ہیں :

”مرزا  یوسف علی خاں آٹھ دس مہینے سے مع عیال واطفال اسی شہر میں مقیم ہیں۔ایک ہندو امیر کے گھر پر مکتب کا ساطور کر لیا ہے۔ میرے مسکن کے پاس ایک مکان کرائے کو لے لیا ہے،اس میں رہتے ہیں ….وہ اب ہر وقت یہیں تشریف رکھتے ہیں۔رات کو تو پہر چھے گھڑی کی نشست روز رہتی ہے ۔“

حبیب اللہ ذکا کے نام 24د سمبر1866 کے خط میں لکھتے ہیں :

”یوسف علی خاں شریف وعالی خاندان ہیں۔بادشاہِ دہلی کی سرکار سے تیس روپے مہینا پاتے تھے ۔جہاں سلطنت گئی ،وہاں تنخواہ بھی گئی ۔ شاعر ہیں ،ریختہ کہتے ہیں ،ہوس پیشہ ہیں ، مضطر ہیں۔ہر مدّعا کے حصول کو آسان سمجھتے ہیں علم اسی قدر ہے کہ لکھ پڑھ لیتے ہیں ۔ ان کا باپ میرا دوست تھا ۔میں ان کو بجاے فرزند سمجھتا ہوں ۔ بہ قدر اپنی دستگاہ کے کچھ مہینا مقرر کر دیا ہے مگر بہ سببِ کثرتِ عیال وہ ان کو مکتفی نہیں ۔“

          ان کے علاوہ مختلف دوستوں اور شاگردوں کے نام کے اور بھی کئی خطوط میں عزیز کا ذکر موجود ہے ،جس سے ان کی بے روز گاری اور پریشاں حالی پر غالب کی فکرمندی کا اظہار ہوتا ہے ۔خود عزیز کے نام غالب کے خطوط کی مجموعی تعداد کل تین ہے۔ ان میں دو خطوں میں صرف زبان اور لغت کے مسائل زیرِ بحث آئے ہیں۔دوسرے خط میں ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ”پورب کے ملک میں جہاں تک چلے جاؤ گے، تذکیر وتانیث کا جھگڑا بہت پاؤگے۔“اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عزیز اس وقت بنارس آئے ہوئے تھے اور حسب ِعادت کسی لفظ کی تذکیروتانیث پر اپنے کسی شناسا یا بزرگ سے جھگڑا کر بیٹھے تھے ۔چناں چہ اس خط کے آخر میں مرزا صاحب نے انہیں یہ نصیحت بھی فرمائی ہے کہ :

”تم اپنی تکمیل کی فکر میں رہا کرو۔زنہار کسی پر اعتراض نہ کیا کرو۔“

          لیکن انہوں نے اس نصیحت یا مشورے پر کبھی سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور تا عمر اپنی اسی مخصوص روش پر قائم رہے ۔عبدالغفورنسّاخ ا ن کی اس سلسلے کی ایک کار گزاری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

          ”انیس و دبیر کے مرثیوں میں بہت سی غلطیاں نکالی ہیں اور ان کے بہت سے مرثیوں کا جواب لکھا ہے ۔“(5)

          لالہ سری رام نے یہی بات ان الفاظ میں دوہرائی ہے :

”مرثیہ گوئی کا بڑا شوق تھا ۔انیس ودبیر کے مرثیوں میں اکثر جگہ جاوبے جا غلطیاں نکالی ہیں ۔“(6)

اسی قسم کا ایک اور واقعہ انہوں نے کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ،لکھتے ہیں :

”قصۂ شہزادہ ممتاز کو فارسی سے زبانِ سلیس ِ اردو سید ظہیر الدین حسین صاحب ظہیردہلوی نے بہ فرمائش حکیم صاحب موصوف (حکیم احسن اللہ خاں)ترجمہ کیا تھا ،جس کے صلے میں بادشاہِ دہلی نے خطاب وخلعت عنایت فرمایا تھا ۔اتفاق سے وہ قصّہ حکیم صاحب سے بندامل عطاّر چھانپے کے لیے لے آئے اورمرزا صاحب کے حوالے کیا کہ روز مرّہ درست کردیں۔پنیتیس روپے اجرت کے ٹھہرے ۔حضرت نے قصۂ مذکورکو گھر لے جا کر جا و بے جا خوب اصلاح کی۔ جب اپنے زعم میں عیوب ونقائض سے پاک کر چکے، لالہ صاحب کو دے آئے۔ان سے لے کر جنابِ ظہیر نے بھی ملاحظہ کیا اور ایک کاغذ پر جو غلطیاں سمجھ کر مرزا صاحب نے اصلاح دی تھی ،اس کو اور اپنے ترجمے کو بہ طور محضر لکھ کر فصحا وبلغاے دہلی کو دکھایا ۔ازراہِ اتفاق سب نے میر صاحب کے محاورات کو درست و صحیح قرار دیا۔اب میر صاحب کا ارادہ ہوا کہ بہ ذریعہ اخبار وخطوط اہلِ لکھنؤ سے اس کی تصدیق کرائیں ۔ مرزا عزیز نے جو سنا ،فوراً ان کے پاس آئے اور بہ منّت کہا کہ میں غریب آدمی ہوں۔ جو کچھ ہوا ،ازراہِ ضرورت ہوا۔ آپ معاف فرمائیں۔ میر صاحب نے مروّت کی رو سے در گزر کی اور وہ محضر چاک کر ڈالا۔ قصّہ مختصر ان کے مزاج میں کسی قدر مراق تھا ۔“(7)

          لالہ سری رام کے اس بیان کے ساتھ یہ دیکھ لینا بھی مناسب ہوگا کہ ظہیر کے اس ترجمے کی اصلاح کے سلسلے میں خود مرزا  یوسف علی خاں عزیز نے کن خیالات کا اظہار کیا ہے۔”قصۂ ممتاز“کے دیباچے میں ”نواسنجیِ بلبلِ خوش صفیرِ کلک بہ اضطراب معِ باعثِ تصحیح ِ اغلاطِ فقراتِ کتاب“کے زیرِ عنوان اپنے حسنِ بیان ولطفِ زبان کی ستائش کے بعد رقم طراز ہیں:

”قدر افزاے اہلِ ہنر ،سخن شناسِ نکتہ پرور….احترام الدولہ، عمدةالملک ،حاذق الزماں،حکیم محمد احسن اللہ خاں بہادر ثابت جنگ کہ انہوں نے بہ متقضاے عنایت وبہ راہِ عاطفت،بادشاہِ جم جاہ،ولیِ نعمت،حضرت ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہِ غازی سے مجھ ننگِ خاندان ،عار دودمان کو بہ نذر مرثیہ وقصیدہ خلعتِ فاخرۂ چار پار چہ وسہ رقم جواہر جیغہ وسرپیچ وگوشوارہ بہ خطابِ باصوابِ سلطان الذا کرین و سراج الشعر انامِ نامی حضرت سے دلوایا۔نا گاہ بہ ذریعہ رقصۂ فیض مرقعہ وقتِ تشریف بری سمتِ قصبۂ کرولی مجھ ہیچ مداں ضعیف البنیان کو خدمتِ عالی درجت میں بلا کر واسطے تصحیح وتبدیل الفاظِ غیر مانوس اور فقراتِ نامربوطِ قصۂ عجیب وفسانۂ غریب ممتاز شاہِ انجم سپاہ کے کہ اس کو زبانِ فارسی سے زبانِ اردو میں بہ موجبِ فرمانِ واجب الاذعان جناب حکمت مآب ممدوح کے اور بہ نظر حصولِ صلۂ موعود کے سید ظہیر الدین حسین متخلص بہ ظہیر نے بہ فصاحتِ تمام وملاحتِ مالا کلام ترجمہ کیا ہے ،اکثر وبیشتر سخن فہموں کو بہ سبب بے محاورہ ہونے عبارت کے پسند نہ آیا اور موعودِ مفّوضہ رائگاں گیا،اس نظر سے فرمایا ۔چناں چہ حسب الارشاد ان کے اور موافقِ استعداداپنی بہ ہزاردقت وخرابی وبسیار محنت واضطرابی جو کچھ میرے فہمِ ناقص میں آیا ،دیباچہ براعت الاستہلال میں،سببِ تصحیح حزن وملال میں لکھ کر تصرف کیا اور جا بہ جا بنایا۔ ہر چند وہ ترجمہ بادی النظر میں بہ ہمہ صفت موصوف اور عیوب ونقصِ ظاہری سے پاک وصاف تھا ولیکن ہر گاہ بہ نظر امتحان دیکھا تو محاورۂ اردو کے بر خلاف تھا ۔واضح ہوا کہ اکثر مقامات میں حاجتِ اصلاح تھی اور اس میں تصحیح کرنے والے کی فلاح تھی ۔لاجرم اس بے نام ونشاں نے بنابرِ امتثالِ امرِجلیل القدر مجبور ،غلطیوں کو دور کیا اور حتی المقدور صحتِ کاملہ ہے معمور کیا۔“(8)

          مثنوی ”حقیقتِ حال“(9) میں بھی عزیزنے اپنے اس بیان کو دوہرایا ہے کہ ظہیردہلوی کے ترجمے کی اصلاح کا یہ کام بہ ذاتِ خود حکیم احسن اللہ خاں نے ان کے سپرد کیا تھا ۔لکھتے ہیں :

حسن اللہ خانِ با اعزاز

دے گئے مجھ کو قصۂ ممتاز

تامیں اغلاط اس کی دور کروں

نورِ معنی سے رشکِ طور کروں

          ان بیانات سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ تصحیح ِ اغلاط واصلاحِ عبارات کے اس کام میں لالہ سری رام کی روایت کے بر خلاف لالہ بنداصل عطاّر کی فرمائش کا کوئی دخل نہ تھا ۔عزیز نے یہ خدمت اپنے مربی وسرپرست حکیم احسن اللہ خاں کے حسبِ خواہش انجام دی تھی ۔البتہ ”قصۂ ممتاز“کے میورپریس ،دہلی سے1883  میں شائع شدہ ایک ایڈیشن کے خاتمتہ الطبع میں یہ صراحت موجود ہے کہ یہ ”قصۂ لاجواب ….حسبِ اجازتِ محب ِ بے بدل ،جناب حکیم بندا مل صاحب، شاگردِ رشیدِ احترام الدولہ ….حکیم محمد احسن اللہ خاں بہادر مرحوم….رونقِ انطباع پاکر فائدہ بخشِ خاص وعام ہوا ہے “  اس بنا پر ہمارا خیال یہ ہے کہ حکیم صاحب نے ازراہِ شاگرد نوازی لالہ بند امل کو اس قصّے کی اشاعت کی اجازت عطا فرمادی ہوگی اور اس پر نظر ثانی کی خدمت عزیز کے سپرد کر کے لالہ صاحب کو پابند کر دیا ہوگا کہ وہ انہیں اس کا مناسب حق المحنت ادا کردیں۔

          ”قصۂ ممتاز“ کی اصلاح اور طباعت کے اس کام میں لالہ بند امل عطاّر کی اعانت میں حکیم صاحب کی توجہ خاص کا ذکر مجملا ً مثنوی ”حقیقتِ حال“میں بھی موجود ہے۔کرلی میں مختصر قیام کے بعد جب عزیز وہاں سے دہلی واپس آرہے تھے تو حکیم صاحب نے انہیں رات کے کھانے پر مدعو کیا تھا ۔اس دعوت کا حال بیان کرنے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں :

ہاتھ دھو،پان کھا،پیا حقّہ

بندامل کے لیے لیا شقّہ

ہے  یہ دلّی میں نامور عطّار

اس سے اس نسخے کا  مجھے تھا  کار

          ”قصۂ ممتاز“کے تین مختلف ایڈیشن اس وقت ہمارے پیش ِ نظر ہیں ۔ان میں سے ایک تو وہی 1883 کا ایڈیشن ہے جس کا ابھی ذکر کیا جا چکا ہے۔ایک اور ایڈیشن اسی مطبع میورپریس ،دہلی سے ”قصۂ ممتاز باتصویر“کے نام سے شائع ہوا تھا ۔اس میں کسی جگہ اس کا سالِ طباعت درج نہیں اور کسی غلط فہمی کے باعث سرورق پر کتاب کو ”من تصنیفِ جناب حکیم احسن اللہ خاں صاحب، وزیر اعظم بہادر شاہ مرحوم شاہِ دہلی“ لکھ دیا گیا ہے ۔اس بیان سے ضمناً یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اشاعت بہادر شاہ ظفر کی وفات (7نومبر 1862) کے بعد لیکن حکیم احسن اللہ خان کے انتقال (ستمبر 1873) سے قبل منظرِ عام پر آچکی تھی۔تیسرا ایڈیشن 1891 کا مطبوعہ ہے۔اسے مطبعِ جیون پر کا ش ،دہلی نے شائع کیا تھا ۔ثانی الذکر ایڈیشن کی طرح یہ بھی ”قصۂ ممتاز با تصویر “ہی کے نام سے شائع ہوا ہے ۔اس کا سر ورق”شبیہِ مبارک حضرت ابو ظفر محمد سراج الدین ،بہادر شاہ، بادشاہ دہلی،نوراللہ مضجعہ“سے مزیّن ہے۔ان تینوں ایڈیشنوں میں عزیز کے دیباچے کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ لالہ سری رام کا یہ بیان بھی پوری طرح درست نہیں کہ ”جب عزیز اس قصے کو عیوب ونقائص سے پاک کر کے لالہ (بندامل) صاحب کو دے آئے تو ان سے لے کر جناب ظہیر نے بھی دیکھا۔“قیاس یہ کہتا ہے کہ ظہیر کو عزیز کی اس کار گزاری کا علم اصلاح شدہ مسودہ لالہ بندامل کے حوالے کرنے کے فوراً بعد نہیں ،کتاب کی اشاعت کے بعد ہوا ہوگا ورنہ عزیز کے معافی مانگ لینے کی صورت میں اس کا علی حالہ شائع ہو جانا ممکن نہ ہوتا۔

          قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ لالہ سری رام نے اپنے بیان میں ظہیر دہلوی کے تیار کیے ہوئے جس محضر کا ذکر کیا ہے، غالباً وہی اس فساد کا اصل محرک تھا جو ایک طرف علائی کی برافروختگی کا سبب بنا اور دوسری طرف معاندینِ غالب کو ان کے خلافِ طنز وتعریض کا ایک حربہ فراہم کر گیا ۔اس محضر پر جن ”فصحاوبلغاے دہلی“سے استصوابِ راے کیا گیا تھا،یقین ہے کہ ان میں غالب بھی شامل ہوں گے اور علائی بھی۔قیاس یہ کہتا ہے کہ غالب نے ذوق کے شاگرد ظہیر کے مقابلے میں کھل کر اپنے شاگرد کا ساتھ دیا ہوگا یا کم ازکم تاویلات سے کام لے کر بالواسطہ ان کی تائید کی ہوگی ۔اس کے بر خلاف علائی نے جو عزیز کی کج طبعی اور کج بحثی سے بہ خوبی واقف تھے ،صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے ظہیر کی حمایت کی ہوگی ۔عزیز کو اپنے خواجہ تاش کا یہ طرزِ عمل یقیناً شاق گزرا ہوگا ۔ممکن ہے کہ انہوں نے حسبِ عادت ادھر ادھر ان کے خلاف دو چار جملے بھی کہہ دیے ہوں،جن کاردِّعمل اس برہمی کی صورت میں ظاہر ہوا ہو جس کی طرف غالب نے اپنے خط میں اشارہ کیا ہے۔

          علائی کے نام غالب کے اس خط کے تمام مندرجات کا مصداق صرف یوسف علی خاں عزیز کی ذات ہے ،اس خیال کی تائید کا ایک اور قرینہ بھی موجود ہے ۔غالب نے”بنارسی کی دوستی“کے اس قضیے کی ابتدا ان جملوں سے کی ہے :

          ”ضمناً ذکر ایک مُدبِر“کا کیا جاتا ہے ۔جو تم نے اس مُدبِرکے صفات لکھے ہیں،سب سچ ہیں۔“

          ان دو  جملوں میں لفظ ”مُدبِر“ (بہ سکونِ دال و کسرِ با) دوبار آیا ہے ۔پڑھنے والے اسے عام طور پر ”مُدبّر“(بہ فتحِ دال وتشدیِد باے مکسور)پڑھتے ہیں اور یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ اس کا اشارہ کس شخص کی طرف ہے ۔چنانچہ قاضی عبدالودود نے بھی 1969 کے خطبۂ افتتاحیہ کے علاوہ ایک اور تحریر میں جہاں اس خط کے حوالے سے اپنے اس قول کا اعادہ کیا ہے کہ ”معلوم نہیں کہ بنارسی کون ہے اور اس کے ساتھ علائی کے کیا معاملات تھے“،وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ ”مدبر کے متعلق (اس خط میں ) جو کچھ ہے ،بنارسی سے یا کسی اور شخص سے اس کا تعلق ہے،میں اس کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔“(10) واقعہ یہ ہے کہ یہ لفظ حتمی طور پر مُدَبّر (بہ فتحِ دال وتشدیِد باے مکسور) نہیں ، ”مُدبِر“ (بہ سکونِ دال کسرِبا) ہے اور یہ اس شخص کی صفت کے طور پر استعمال ہوا ہے جس کا مفصل ذکر آئندہ سطور میں آیا ہے ۔لغت کے مطابق مُدبِراُس شخص کو کہتے ہیں جسے اقبال مندی پیٹھ دکھا چکی ہو،یعنی جو شخص جاہ وثروت اور عیش وآسائش کے دن دیکھنے کے بعد افلاس وتنگ دستی کی زندگی گزار رہا ہو ۔گذشتہ سطور میں غالب کے خطوط کے جو اقتباسات پیش کیے گئے ہیں ،ان سے جہاں عزیز کی مفلوک الحال کلا اندازہ ہوتا ہے ،وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ”عالی خاندان اور ناز پروردہ آدمی “تھے مثنوی”حقیقت حال“میں خود عزیز نے”شکایت ازسپہرِ بے مہر“کے زیرِ عنوان اپنی اس برگشتہ طالعی پر اس طرح خون کے آنسو بہائے ہیں :

کیوں فلک! جس کا جد ہو صوبے دار

وہ پھرے تیرے دور میں ناچار

کیوں فلک !جس کے جد کو ہو جاگیر

ہو وہ زندانِ حزن وغم میں اسیر

کیوں فلک ! جس کا جد عطا کرے راج

ہو وہ نانِ شبینہ کو محتاج

کیوں فلک! جو کہ خاندانی ہو

اس پہ خلقت کی ظلم رانی ہو

کیوں فلک! جو رہا ہو خود حاکم

ظلم اس پر روا رکھیں ظالم

کیوں فلک!عقلِ کل پڑھائے جسے

خلق ”خود سر معلّم“اس کو کہے

          ”غالب نے ایک لفظ کے پردے میں اجمالاً کیفیت کی طرف اشارہ کیا ہے ،ان اشعار میں اس کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے ۔یہ ایک اور ثبوت ہے اس با ت کا کہ اس خط میں عزیز کے علاوہ کوئی اور شخص غالب کا مشارٌالیہ نہیں۔

          غالب کے زیرِ بحث خط پر کوئی تاریخ درج نہیں۔ڈاکٹر خلیق انجم نے اسے مجملاً 28 جولائی 1865 کے بعد کی تحریر قرار دیا ہے ۔ان کی دلیل یہ ہے کہ اس خط میں غالب نے ”کمیٹی “کا ذکر کیا ہے اور اس سے غالباً دہلی سوسائٹی مراد ہے جس کا پہلا جلسہ 28جولائی 1865  کو ہوا تھا ۔ (11) اس سلسلے میں غالب کا اپنا بیان حسبِ ذیل ہے:

”مدّعا اصلی ان سطور کی تحریر سے یہ ہے کہ اگر کل کمیٹی میں گئے ہو تو میرے سوال کے پڑھے جانے کا حال لکھو۔“

          کمیٹی میں علائی کی شرکت اور غالب کا سوال پڑھے جانے کے پس منظر میں سوسائٹی کی مختلف کارروائیوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ استفسار  21 جولائی 1868 کے جلسے سے متعلق ہے اور یہ خط اس کے دوسرے دن یعنی 22 جولائی 1868  کو لکھا گیا تھا۔اس جلسے کی روداد میں کہا گیا ہے کہ:

”سکریٹری نے روبکار محکمۂ ڈائرکٹر ی مورخہ 17  اپریل دربابِ راے کتاب”مَفرَ غَةُ العَمَلَہ“اور کیفیت ِ جناب مرزا نوشہ صاحب ونواب علاءالدین احمد خاں صاحب پڑ ھ کر سنائی۔جناب مرزا صاحب کی راے کو سب نے پسند کیا اور جملہ ممبروں کی راے سے طے ہوا کہ ممبرانِ سوسائٹی میں سے جو صاحب اور اپنی راے اس باب میں لکھیں ،وہ اور نیز یہ جو اب پڑھی گئی ہیں ،ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں بعدِ ترمیم مرسل ہوں۔“(12)

          غالب نے اپنے خط میں جس سوال کے پڑھے جانے کے متعلق دریافت کیا ہے،اس سے بہ ظاہر کتاب”مَفرَ غَةُ العَمَلَہ“ کے بارے میں ان کی تحریر کردہ یہی ”کیفیت “یا ”راے “مراد ہے ،جو 21 جولائی1868 کے جلسے میں پڑھی گئی تھی ۔خیال رہے کہ برطانوی دور میں ہر اس تحریر کو جو کسی حاکم کے حضور میں پیش کی جاتی تھی،”سوال“کہا جاتا تھا۔یہاں یہ وضاحت بھی بے محل نہ ہوگی کہ 28  جولائی 1868 کو سوسائٹی کی تاسیس کے بعد اس کا پہلا باقاعدہ جلسہ 11 اگست 1865 کو ہوا تھا ۔غالب نے اس جلسے میں شرکت کی تھی اور ایک مضمون بھی پڑھا تھا،لیکن اسی جلسے کے دوران انہوں نے اپنی ضعیف العمری اور ناتوانی کا عذر پیش کر کے اس وعدے کے ساتھ آئندہ جلسوں میں شرکت سے معذرت کر لی تھی کہ”اگرکسی امر میں بہ ذریعہ خط مجھ سے کچھ پوچھا جائے تو وہ لکھ سکتا ہوں جو میری راے میں آئے۔“(13) اس کے بعد سوسائٹی کے صرف تین جلسوں کی روداد میں ان کا نام آیا ہے ۔21 جولائی 1868 کے مذکورۂ بالا جلسے کے علاوہ باقی دو جلسے 22  اکتوبر 1867 اور 12 مارچ 1869 کو منعقد ہوئے تھے ۔22  اکتوبر1867 کے جلسے میں ”سبدچیں “کی چھے جلدیں سوسائٹی کو پیش کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا گیا تھا اور12 مارچ 1869 کو انجمنِ تہذیب ،لکھنؤ کی طرف سے موصول شدہ خط”دربابِ تعزیتِ مرزا نوشہ صاحب مرحوم“ ان کے فرزنِد متبنّٰی مرزا حسین علی خاں کے روبرو جلسۂ عام میں پڑھ کر سنایا گیا تھا ۔

          ”قصۂ ممتاز“سے متعلق یہ معاوضہ21 جولائی 1868 سے کچھ ہی دن پہلے کا واقعہ ہے ،اس کی تائید مثنوی ”حقیقتِ حال“کے بعض بیانات سے بھی ہوتی ہے۔اس کے ایک بیت کے مطابق عزیز ”آٹھویں جنوری کی ،سنہ سٹسٹھ “کے بعد کر ولی گئے تھے اور 18  ذی الحجہ 1283  ھ مطابق 23 اپریل 1867 کو مثنوی کی تکمیل سے قبل وہاں سے دہلی واپس آچکے تھے ۔کرولی کے اس قیام کے زمانے میں وہ برابر اس قصّے کی تصحیح واصلاح کے کام میں مصروف رہے تھے اور وہاں سے واپس آتے وقت لالہ بند امل عطّار کے نام حکیم احسن اللہ خاں کا خط اپنے ساتھ لائے تھے ۔ظاہر ہے کہ بندامل کے زیرِ اہتمام اس کی کتابت وطباعت کا  کام اس کے بعد ہی شروع ہوا ہوگا۔

          ان قرائن وشواہد کی روشنی میں جو باتیں شکوک وشبہات سے ماورایا تقریباً طے شدہ معلوم ہوتی ہیں ،وہ حسبِ ذیل ہیں:

(1)     قصۂ ممتاز کا پہلا ایڈیشن اپریل1867 اور جولائی1868 کے درمیان کسی وقت شائع ہوا تھا۔

(2)     اس قصے کی تصحیح اغلاط اور اصلاحِ زبان کا کام مرزا یوسف علی خاں عزیز بنارسی نے انجام دیا تھا ،جس پر اس کے مترجم ظہیر دہلوی کو سخت اعتراضات تھے اور انہوں نے ایک محضر کے ذریعے دہلی کے مشاہیر اہلِ علم سے اس باب میں ان کی رائیں بھی طلب کی تھیں۔

(3)     علائی کے نام کے جس خط میں بنارسی کی دوستی میں گالیاں کھانے کا ذکر آیا ہے ،وہ 22 جولائی 1868 کو لکھا گیا تھا۔ حالات و واقعات کی اس ترتیب اور تسلسل کے پیشِ نظر یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ غالب کے متذکرہ خط میں ”بنارسی “سے مرزا یوسف علی خاں عزیز کے علاوہ اور کوئی شخص مراد نہیں۔غالب کے شاگردوں اور دوستوں میں وہی تنہا ایسے شخص تھے جو بنارس وطنی نسبت رکھتے تھے اور جن کے ساتھ غالب کا غیر معمولی تعلقِ خاطر ان کی مختلف تحریروں سے ظاہر ہے ۔

حواشی:

1۔ مقالاتِ بین الاقوامی غالب سمینار ،مرتبہ ڈاکٹر یوسف حسین خاں ،شائع کردہ یاد گارِ غالب کمیٹی ،نئی دہلی ،1969، ص 47

2۔ ماہ نامہ شب خون،الہ آباد ،شمارہ نمبر220،اکتوبر 1998 ءص15

3۔ ایضاً ،ماہ شب خون،الہ آباد،شمارہ نمبر 226،مئی جون 1999،ص74

4۔ غالب کے خطوط ،جلد ِاول ،مرتبہ ڈاکٹر خلیق انجم ،شائع کردہ غالب انسٹی ٹیوٹ ،نئی دہلی، 1984 ،ص 424

5۔ سخنِ شعرا، مطبعِ نول کشور ،لکھنؤ، 1874 ،ص329

6و 7۔  خم خانۂ جاوید،جلد پنجم ،مرتبہ پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی ،دہلی ،1940 ،ص577

8۔  قصۂ ممتازو قصۂ ممتاز باتصویر،میورپریس ،دہلی ،ص4 و3

9۔ مثنوی ”حقیقت حال“کا واحد قلمی نسخہ رضا لائبریری ،رام پور میں محفوظ ہے ۔یہ خود عزیز کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے ۔

10۔ جہانِ غالب،از قاضی عبد الودود ،شائع کردہ خدا بخش اور ینٹل پبلک لائبریری،پٹنہ،1995 ، ص 168

11۔      غالب کے خطوط ،جلد ِاول ،ص481

12۔ احوالِ غالب ،مرتبہ پروفیسر مختار الدین احمد،شائع کردہ انجمن ترقی ِ اردو(ہند)،نئی دہلی،1986،ص 180

13۔ ایضاً ،احوالِ غالب ،ص 174

English Hindi Urdu