پروفیسر خالد محمود
دارالمصنفین سے میری غائبانہ واقفیت کاآغاز طالب علمی کے زمانے میں ہوا تھا۔ آغاز میں نے اس لیے کہا کہ دارالمصنفین ایسا ادارہ نہیں جسے کوئی طالب علم یا استاد
بھی ایک ہی مرحلے میں سمجھنے کا دعویٰ کر سکے۔دوران تعلیم ہم طلبا آہستہ آہستہ اس سے واقف ہوتے گئے اور جس رفتار سے واقف ہوتے گئے اسی رفتار سے ہل من مزید کی صدا ہمارے سمند شوق کو مہمیز کرتی رہی۔ میری خوش بختی کہیے کہ بھوپال کے جس کالج میں نے اعلیٰ تعلیم کی ابتدا کی تھی اور جس کا نام نامی سیفیہ کالج ہے اس میں اقبال ، سرسید، آزاد ، حالی اور شبلی کے عاشق زار اور سید سلیمان ندوی کے ہم وطن استاد محترم پروفیسر عبدالقوی دسنوی صاحب اردو طلبا کے لیے روشنی کا مینار بنے ہوئے تھے انھیں اردو اور اردو کے طلبا سے عشق تھا انھیں سے میں نے دارالمصنفین اور ارباب دارالمصنفین کی کہانیاں سنی تھیں۔ استاد محترم ان ہستیوں کا جن میں شبلی اور سید سلیمان ندوی کے علاوہ مولانا عبدالماجد دریاآبادی، مولانا حمید الدین فراہی، شاہ معین الدین ندوی، سید صباح الدین عبدالرحمن، مولانا مسعود علی ندوی، مولانا عبدالسلام ندوی، پروفیسر نجیب اشرف ندوی، سید ابو ظفر ندوی، مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانی، مولانا ضیاالدین اصلاحی، سید شہاب الدین دسنوی، مولانا مجیب اللہ ندوی، مولانا ضیاالدین اصلاحی اور مولانا ابوالکلام وغیرہ کے اسمائے گرامی شامل تھے موقع و محل کی مناسبت سے اور کبھی اس کے برخلاف بھی اتنی محبت سے ذکر کرتے کہ ہم سبھی کو ان سے محبت ہوگئی تھی۔ دارالمصنفین کے توسط سے ہم اعظم گڑھ سے واقف ہوئے ۔ انھیں دنوں سیفیہ کالج کے شعبۂ اردو کی لائبیریری میںرسالہ ’’معارف‘‘ سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ ملاقات کیا دیدار و درشن کہہ لیجیے۔ مگر اس کے سادے سے سرورق نے کچھ زیادہ متاثر نہیں کیا۔ میں نے اسے دیکھا ، اٹھایا، ورق گردانی کی اور احترام سے رکھ دیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہم طلبااختر شیرانی کی ریشمی نظموں اور جوش ملیح آبادی کی گرج دار رومانی شاعری کے حصار میں تھے۔ تعجب ہوتا ہے کہ غالب نے اس نوعمری میں نسخۂ حمیدیہ جیسی بالائے فہم غزلیں جنھوں نے بہت سے عالموں اور فاضلوں کو خوف زدہ اور غضب ناک کرکے رکھ دیا کیسے کہی ہوں گیکچھ عرصے کے بعد معارف کو دوبارہ دیکھا تو اندر سے بھی دیکھا اس وقت میں ایم۔اے کر رہا تھا اور شاید اس کو سمجھنے کے لائق ہوچکا تھا۔ چنانچہ جب میں نے اس کو پڑھا تو اس نے مجھے شیشے میں اتار لیا۔ مجھے اعتراف ہے کہ علم و ادب کی جو تھوڑی بہت سوجھ بوجھ میرے حصے میںآئی اس میں اور تاریخ اسلام کی شُد بُد کے حصول میں دارالمصنفین کی تصانیف و رسالہ معارف نے میری بڑی رہنمائی کی ہے ۔ دارالمصنفین کی علمی اور ادبی خدمات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ فلسفۂ تاریخ و تحقیق کے قدیم وسائل اور عصری مسائل کے حوالے سے اس نے جو معرکے سر کیے ہیں ان پر اب بہت کام ہوچکا ہے اور ساری علمی دنیا اس کا اعتراف کرچکی ہے۔ اس کی دو سو سے زیادہ گراں قدر تصنیفات اور تالیفات اردو دوستوں خصوصاً اہل ایمان کے قلوب کی روشنی، حافظے کی دولت اور آنکھوں کا سرمہ ہیں۔ مولانا کلیم صفات اصلاحی نے اپنی کتاب ’’دارالمصنفین کے سو سال‘‘ میں بالکل صحیح لکھا ہے کہ :
’’دارالمصنفین علامہ شبلی نعمانی کی سب سے آخری اور مہتم بالشان یادگار ہے اور یسا عظیم کارنامہ ہے جس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ اپنی علمی شناخت اور منفرد طرز و انداز کے سبب یہ ملک وملت کے لیے مایۂ ناز علمی و تحقیقی ادارے کی حیثیت سے نہ صرف برصغیر پاک و ہند میں مشہور معروف ہے بلکہ اپنی بلند پایہ علمی خدمات کی وجہ سے اس کی شہرت و ناموری کا دائرہ دنیائے مغرب کے بیشتر ممالک تک وسیع ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جنوبی افریقہ، اسکاٹ لینڈ، آسٹریلیا، ترکی وغیرہ جیسے ممالک میں بھی اس ادارے سے واقف ہونے والوں کی اچھی خاصی تعداد موجود اور اس کے اہم کارناموں کی معروف و قدرداں ہے۔‘‘
دارالمصنفین کے اشاعتی سرمائے میں کتابوں کی محض تعداد ہی قابلِ ذکر نہیں ۔ تعداد کے لحاظ سے تو دوسرے ادارے بھی اس کی ہمسری کا دعوا کرسکتے ہیں۔ بعض مطابع اور اداروں نے اس سے زیادہ کتب شائع کی ہوں گی۔ دارالمصنفین کی اشاعتی سرگرمیوں کا امتیاز یہ ہے کہ اس ادارے نے جو کتابیں شائع کی ہیں وہ موضوع، مواد، معیار، اہمیت ، افادیت اور تحقیق و تدوین کے مستند حوالوں کی روشنی میں اس پائے کی ہیں کہ اگر کسی اور نے اس معیار کی دس بیس کتابیں بھی شائع کی ہوں تو اسے بھی اپنے اس کارنامے پر فخر کرنے کا حق حاصل ہوگا۔
اسلامی نقطۂ نظر سے دارالمصنفین کی مطبوعات اور معارف کے مشمولات کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لیے مولانا سید سلیمان ندوی نے ایک دلچپ واقعہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’میں نے سفر افغانستان کے دوران ایک دن علامہ اقبال سے کہا کہ جب تک آپ کی شاعری زندہ رہے گی ہندوستان میں اسلام باقی رہے گا۔ علامہ نے فرمایا نہیں جب تک دارالمصنفین کی تصنیفات باقی رہیں گی ہندوستان میں اسلام باقی رہے گا۔ سرراس مسعود بھی شریک بزم تھے انھوں نے کہا کہ اسے یوں کہہ لیجیے کہ جب تک اقبال کی شاعری اور دارالمصنفین باقی ہیں ہندوستان میں اسلام باقی رہے گا۔ اسی طرح علامہ نے ایک دوسرے موقع پر معارف کے تعلق سے فرمایا تھا کہ یہی ایک رسالہ ہے جس کے پڑھنے سے حرارت ایمانی میں ترقی ہوتی ہے۔‘‘ ۱؎
یہی رسالہ ’معارف‘اور غالب ہے جو گزشتہ سو سال سے دارالمصنفین کی ترجمانی کا حق ادا کررہا ہے۔ دارالمصنفین کی طرح اس کے ترجمان ’’معارف ‘‘نے بھی اردو رسائل کی دنیا میں جو سر بلندی اور نیک نامی حاصل کی ہے وہ کسی اور کے حصے میں نہ آسکی۔ یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ اردو جیسی مظلوم زبان میں جسے خود اردو والوں کی اکثریت عرصہ ہوا کہ اپنے گھروں میں ممنوع قرار دے چکی ہے ۔ کسی بیرونی امداد کے بغیر یہ رسالہ سو سال تک نہ صرف زندہ رہا (الحمداللہ آج بھی زندہ ہے) بلکہ اس نے بحیثیت مجموعی اپنی پالیسی اور معیار و مقاصد سے بھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔
معارف کے آغاز پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر شباب الدین لکھتے ہیں:
’’۱۸؍نومبر ۱۹۱۴ کو علامہ شبلی اپنے بہت سے کاموں کو ادھورا چھوڑ کر اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے ان کے انتقال کے بعد ان کے شاگردوں نے ’’اخوان الصفا‘‘ کے نام سے ایک جماعت بنائی جس کے ارکان حسب ذیل تھے:
۱۔ مولانا حمیدالدین فراہی (صدر) (م ۱۹۳۰)
۲۔ مولانا سید سلیمان ندوی(ناظم) (م ۱۹۵۳)
۳۔ مولانا عبدالسلام ندوی (رکن) (م ۱۹۵۶)
۴۔ مولوی مسعود علی ندوی (رکن) (م ۱۹۶۷)
۵۔ مولوی شبلی متکلم ندوی (رکن) (م ۱۹۷۳)
اس ’’اخوان الصفا‘‘ نے علامہ شبلی کے خوابوں کے مطابق اعظم گڑھ میں دارالمصنفین کے باقاعدہ کاموں کا بیڑا اٹھایا اور جولائی ۱۹۱۵ئ میں اس کی رجسٹری بھی کرائی گئی۔ جب دارالمصنیفن کا کام ذرا چل نکلا تو اس کے ترجمان کی ضرورت محسوس ہوئی چنانچہ یہ طے پایا کہ ’’معارف‘‘ کے نام سے اس کا ماہانہ ترجمان شائع کیا جائے۔ جب دارالمصنفین کے اپنے پریس نے معارف پریس کے نام سے کام کرنا شروع کیا تو جولائی ۱۹۱۶ میں معارف کا پہلا شمارہ منظر عام پر آیا۔‘‘ پہلے مدیر اعلیٰ سید سلیمان ندوی تھے۔‘‘
یہاں یہ بتانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ شبلی نے دارالمصنفین اور معارف کا محض خواب ہی نہیں دیکھا تھا بلکہ اپنے خواب کو روبہ عمل لانے کا آغاز کرتے ہوئے اپنی زندگی ہی میں ایک خاکہ بھی تیار کرلیا تھا جس میں ایک علمی رسالے کا اجرا شامل تھا اور انھوں نے خود اس کا نام معارف تجویز کیا تھا۔ علامہ شبلی کی ایک قلمی یادداشت کے مطابق:
’’ رسالے کا نام معارف چیف ایڈیٹر شبلی، اسٹاف: مولوی سیدسلیمان (یعنی سید سلیمان ندوی ) مولوی عبدالماجد دریابادی، مسٹر حفیظ، مولوی عبدالسلام، تعداد صفحات تقطیع و کاغذ ۲۰x۲۹ ضخامت ۴۰صفحے، قیمت ۳ ؍روپے ، تنوعات مضامین فلسفۂ تاریخ و قدیم و جدید، سائنس، ادبیات، شعر ، اردو شاعری کی تاریخ اور اسالیب ، اقتباسات ، مجلات علمیہ یوروپ ، مصر وبیروت ، فن تعلیم کتب نادرہ کا ذکر اور ان کے اقتباسات یا ان پر اظہار رائے۔کتب یا معلوم قدیمہ پر تنقید۔‘‘ ۲؎
افسوس کہ شبلی کی حیات میں ان کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ ان کے انتقال کے تقریباً دو برس بعد جولائی ۱۹۱۶ میں معارف کا پہلا شمارہ منظر عام پر آیا۔معارف کی اشاعت سے قبل متعدد رسائل شائع ہوچکے تھے مگر معارف نے اپنی پالیسی الگ بنائی اور منزل مقصود بھی علیحدہ متعین کی۔ دراصل معارف کو اس کے موسسین جدید و قدیم علوم کا سنگم اور فلسفۂ تاریخ و تحقیق کا مستحکم رسالہ بنانا چاہتے تھے اور انھوں نے اپنے ان مقاصد کی وضاحت ابتدا ہی میں کردی تھی ۔ چنانچہ معارف جولائی ۱۹۱۶ میں سید سلیمان ندوی رقم طراز ہیں:
’’فلسفۂ حال کے اصول اور اس کا معتد بہ حصہ پبلک میں لایا جائے۔ عقائد اسلام کو دلائل عقلی سے ثابت کیا جائے۔ علوم قدیمہ کو جدید طرز پر از سرنو ترتیب دیا جائے۔ علوم اسلامی کی تاریخ لکھی جائے اور بتایا جائے کہ اصل حصہ کہاں تک تھا اور مسلمانوں نے اس پر کیا اضافہ کیا۔ علوم مذہبی کی تدوین اور اس کے عہد بہ عہد ترقیوں کی تاریخ تریب دی جائے۔ اکابر سلف کی سوانح عمریاں لکھی جائیں جن میں زیادہ تر ان کے مجتہدات اور ایجادات سے بحث ہو۔ عربی زبان کی نادر الفن اور کمیاب کتابوں پرریویو لکھا جائے اور دیکھا جائے کہ ان خزانوں میں ہمارے اسلاف نے کیا کیا زرو جواہر امانت رکھے ہیں اور سب سے آخر لیکن سب سے اول قرآن مجید کے متعلق عقلی، ادبی، تاریخی ، تمدنی اور اخلاقی مباحث جو پیدا ہوگئے ہیں ان پر محققانہ مضامین شائع کیے جائیں۔ ‘‘
ڈاکٹر شباب الدین کے مطابق سید سلیمان ندوی کے زمانۂ ادارت میں معارف اپنے قائم کردہ معیار پر قائم رہا ان کے بعد آنے والے مدیران تھوڑی بہت کتر بیونت کرتے رہے مگر معارف کے بنیادی مزاج اور عقائد میں کوئی بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ کلیم صفات اصلاحی نے اپنی کتاب ’’دارالمصنفین کے سو سال‘‘ میں صفحہ نمبر ۴۰۴ پر یہ معلومات بھی فراہم کی ہیں :
’’رسائل کی دنیا میں معارف پہلا رسالہ ہے جس نے مضامین کو مختلف ابواب ، کالم، عناوین کے تحت شائع کرنے کا آغاز کیا۔ شروع کے ابواب میں شذرات، مقالات، تقریظ و انتقاد، آثار علمیہ وتاریخیہ و ادبیہ مسائل فتاوی اور ادبیات اور مطبوعات تھے۔‘‘
کلیم صفات اصلاحی نے معارف کے مستقل کالموں کا تعارف بھی پیش کیا ہے یہاں اشارتاً ان کے صرف عنوانات نقل کیے جاتے ہیں تاکہ معارف کی ندرت و انفرادیت کا علم ہوسکے۔
۱۔ اخبار علمیہ: اس کالم کا آغاز ۱۹۱۹ سے کیا گیا ۔
۲۔ ادبیات: یہ کالم اولین شمارے سے جاری ہے۔
۳۔ استفسار: اس کی ابتدا ۱۹۳۱ سے ہوئی اس کے تحت علمی سوالوں کے
جوابات دیے جاتے تھے۔
۴۔ باب المراسلہ والمناظرہ: اس عنوان کے تحت مطبوعہ مقالوں کی خامیوں کی نشاندہی کی
جاتی ہے۔
۵۔ تلخیص و تبصرہ: اس کے تحت انگریزی اور عربی کے اہم علمی و ادبی مقالوں
کی تلخیص کی جاتی ہے۔
۶۔ شذرات: یہ مدیر کا کالم ہے۔ اس کی ابتدا اولین شمارے سے ہوئی اور اس میں کبھی ناغہ نہیں ہوا۔
۷۔ ترجمات: اس کے تحت مقالات کی تلخیص یا ترجمے کیے جاتے ہیں۔
یہ کالم ۱۹۱۷ میں شروع ہوااور ۱۹۲۴ میں بند ہوگیا۔
۸۔ معارف کی ڈاک: اس کے تحت معارف کے نام وہ خطوط شائع کیے جاتے ہیں
جن میں کسی غلطی کی جانب توجہ دلائی گئی ہو۔
۹۔ مطبوعات جدیدہ: اس کالم کے تحت مختلف کتابوں یا رسالوں کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے۔
۱۰۔ وفیات: اس عنوان کے تحت عالم وادیب و شاعر کی وفات کی تاریخ و تعارف پیش کیاجاتا ہے۔
ان عناوین کے توسط سے ہمیں معارف کے ادبی سروکار سے آگاہی حاصل ہوتی ہے اور یہ سمجھنے میں آسانی ہوجاتی ہے کہ معارف کے پالیسی سازوں نے اصناف ادب کی اشاعت کے سلسلے میں رد و قبول کے کون سے معیارات قائم کیے ہیں اور ادب کے تعلق سے ان کی ترجیحات کیا ہیں۔ اس پہلو سے معارف کا مطالعہ کرنے اور اس کے اراکین کے بیانات سے اشاعتوں کا تقابل و تجزیہ کرنے کے بعد ڈاکٹر عتیق احمد جیلانی کے ان نتائج سے پورا اتفاق کرنا ہوگا:
’’معارف کا تصور ادب اسلامی، اخلاقی اور افادی ہے۔ تخلیقی نثر اور نقد و نظر کے جدید رجحانات کی اس میں کوئی گنجائش نہیں یہی وجہ ہے کہ ناول افسانہ اور ڈراموں وغیرہ کی شمولیت سے گریز کیا گیا ہے۔شعر و سخن کے اسی حصے کو اس کی اشاعتوں میں جگہ ملی ہے جس میں اسلامی اخلاقی اور افادی اصولوں کی پاسداری کی گئی ہو۔ معارف کا بنیادی مزاج تحقیقی ہے اس لیے اس میں شامل درجنوں تحقیقی مقالے تازہ انکشافات پر مبنی ہیں ان مقالات سے محققین برابر استفادہ کرتے رہے۔ چنانچہ سیکڑوں مضامین و کتب میں ان کے حوالے ملتے ہیں۔ اس جریدے نے اپنے مقصد سے کبھی روگردانی نہیں کی۔ نظری تنقید کے شعبے میں معارف کا کوئی قابل ذکر حصہ نہیں البتہ شعرا کے حوالے سے عملی تنقید کے چند نمونے موجود ہیں۔ اس کی ادبی جہتیںوحدت تاثر کی حامل ہیں۔ خالص ادبی جریدہ نہ ہونے کے باوجود معارف نے ایک تسلسل اور استقامت کے ساتھ اپنی جہت کو قائم رکھا اور کبھی اپنے بنیادی مقاصد سے انحراف نہیں کیا۔ سادگی اس کی ایک اہم خصوصیت ہے اور یہ رسالہ آج بھی اپنی قدیم وضع پر قائم ہے۔‘‘
معارف کو جن اہم لکھنے والوں کا قلمی تعاون حاصل رہا ان میں سے چند نام یہ ہیں۔
اکبر الہ آبادی، علامہ اقبال، حامد حسن قادری، اثر لکھنوی، ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں ، احمد میاں اختر جونا گڑھی، پروفیسر محمد دین تاثیر، پیر حسام الدین راشدی، حبیب الرحمن خاں شیروانی، جگن ناتھ آزاد، محمد ابراہیم ڈار، ابوالحسن علی ندوی، ابواللیث صدیقی، خواجہ احمد فاروقی، احمد علی شوق، پروفیسر اکبر حیدری کشمیری، پروفیسر اکبر حمانی ، امتیاز علی خاں عرشی، امیر حسن عابدی، پروفیسر نذیر احمد، ڈاکٹر ایوب قادری، تحسین سروری، تمکین کاظمی، حامد اللہ ندوی، سید حسن، ڈاکٹر محمد حمید اللہ، خلیق احمد نظامی، رشید احمد صدیقی، رفیع الدین ہاشمی، سخاوت مرزا، پروفیسر محمد سلیم، شاد عظیم آبادی، شبیر احمد خاں غوری، شرف الدین اصلاحی، ڈاکٹر شریف حسین قاسمی، ڈاکٹر محمد حمید، ڈاکٹر شوکت سبزواری، ضیا الدین احمد، ضیا الدین برنی، عابد رضا بیدار، ڈاکٹر عبدالمغنی، عبدالباری ندوی، خواجہ عبدالحمید یزدانی، عبدالحئی ندوی، عبدالرحمن ندوی نگرامی، عبداللہ چغتائی، عبدالماجد دریاآبادی، ڈاکٹر عطش درانی، علی جواد زیدی، غلام رسول مہر، خواجہ غلام السیدین، صوفی غلام مصطفی تبسم، کالی داس گپتا رضا، کبیر احمد جائسی، کلب علی خاں، گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر لطیف حسین ادیب، مالک رام، مولوی محفوظ الحق، حافظ نجیب اللہ ندوی، محمد علی اثر رامپوری، مختار الدین احمد آرزو، پروفیسرمسعود احمد، پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب، مسعود عالم ندوی، ڈاکٹر معین الدین عقیل، سید مقبول احمد ہمدانی، مولانا مناظر حسن گیلانی، مولانا عبدالعزیز میمنی، نجیف اشرف ندوی، حافظ نذیر احمد ، نصیر الدین ہاشمی، ڈاکٹرنورالحسن ہاشمی، سید وحیداشرف ندوی، سید وقار عظیم، سید ہاشمی فرید آبادی۔
دارالمصنفین اور معارف کے خصوصی مقاصد عمومی تعارف کے ساتھ جب ہم ادب اور معارف کے رشتوں کی نوعیت پر غور کرتے ہیں تو اس کے پہلے ہی شمارے جولائی ۱۹۱۶ میں مدیر اوّل سید سلیمان ندوی کی یہ تحریری وضاحت ہماری بڑی رہنمائی کرتی ہے۔ سید صاحب معارف کے علمی مقاصد بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’اگر صرف انھیں پیش نظر مقاصد کی تکمیل پر قناعت کرلیں تو بھی ہمارے نزدیک بہت بڑا کام ہے۔ لیکن چوں کہ یہ مضامین قدرتاً روکھے پھیکے اور بے مزہ ہوں گے اس لیے مذاق عام کی رعایت کے خیال سے ادبیات، مباحث حاضرہ، انتقادو تقریظ ، استفسارات علمیہ، مطبوعات جدیدہ وغیرہ کے دلچسپ عنوانات کے تحت مضامین شائع کر کے ان کی تلخی دور کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
اس اقتباس سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ معارف میں ادب کی حیثیت ثانوی ہے اور چوں کہ معارف دارالمصنفین کا ترجمان ہے، جس کی پالیسی اظہر من الشمس ہے۔ اس لیے فطری طور پر اسلامی اقدار و روایات کا حامل ادب ہی اس کے مشمولات میں جگہ پانے کا حقدار ہوگا۔اس حقیقت کے باوجود کہ معارف میں ادب بنیادی حیثیت کا حامل نہیں۔ معارف نے اردو ادب کو روز اوّل سے اپنا رفیق سفر بنایا ہے اور شعر و ادب کے تعلق سے کئی تحقیقی انکشافات بھی کیے ہیں۔ ڈاکٹر عتیق احمد جیلانی نے اپنے تحقیقی مقالے رسالہ معارف کی اردو ادبی خدمات میں اولیات معارف کے تحت ان مضامین کو قدرے تفصیل سے متعارف کرایا ہے۔یہاں بطور نمونہ چند کا ذکر مختصراً کیا جاتا ہے۔
۱۔ کلیات بالک جی نایک ذرہ ۔ ایک گمنام شاعر کا غیر مطبوعہ کلام مکتوبہ ۱۱۹۲ (معارف جلد۔۱، شمارہ۔۲۲)
۲۔ کلات عشق عظیم آبادی ، سودا کے معاصر کا غیر مطبوعہ کلام (معارف ، جلد۔۵، شمارہ ۔۳۳)
۳۔ غلام ہمدانی مصحفی کے دیوان پنجم کے حوالے سے قاضی عبدالودود کی تحریر (معارف، جلد۔ ۱،شمارہ ۔۴۰)
۴۔ حبیب گنج میں موجود قلمی دیوان خاکی کا تعارف بقلم ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں اولاً معارف، جلد۔۳، شمارہ۔۴۹ میں شائع ہوا۔
۵۔ اشرف علی خاں فغاں کا قلمی دیوان (معارف، جلد۔ ۳۔۲۔۱، شمارہ۔۶۱)
۶۔ مولانا حالی کی غیر مطبوعہ خودنوشت سوانح عمری (معارف جلد۔ ۵، شمارہ۔۱۹)
۷۔ محمد حسین آزاد اور علامہ شبلی کی دو نادر تحریریں (معارف، جلد۔۶، شمارہ۔ ۸۹)
۸۔ روہیلکھنڈ کے نواب حافظ رحمت خاں کے فرزند محبت خاں کی زندگی اور شاعری پر مقالہ (معارف، جلد۔۶۔۵، شمارہ۔۹۳)
۹۔ مرزا محمد رفیع سودا اور مرزا فاخرمکیں کی معرکہ آرائیوں کے بارے میں اہم انکشافات (معارف، جلد۔ ۲، شمارہ۔۱۳۱)
۱۰۔ قلمی تذکرۂ ریخۃ گویاں مکتوبہ ۱۱۷۳ھ پر مقالہ (معارف، جلد۔ ۲، شمارہ۔۲۱)
معارف میں تقریباً پچاس سے زائد مقالے ہیں جو اس کی تحقیقی ترجیحات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ ان مقالوں میں نادر و نایاب مطبوعات ، مخطوطات ، ادیبوں اور شاعروں کے احوال اور اردو شعرا کے تذکروں سے متعلق مضامین کا طویل سلسلہ ہے جو معارف کے اوراق کی زینت بنا۔ ان مختلف النوع تحقیقی مقالوں کے علاوہ غالب اور اقبال دو ایسی ادبی شخصیات ہیں جن پر معارف نے خصوصی توجہ صرف کی ہے۔ اقبال چوں کہ معارف اور دبستان شبلی سے فکری وابستگی رکھتے تھے اس لیے معارف کے تحقیقی اور تنقیدی سرمائے کا بڑا حصہ اقبالیات پر مشتمل ہے۔ یہ ذخیرہ علمی اور ادبی لحاظ سے نہایت قابل قدر اور اردو ادب کے سرمائے میں اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹرعتیق احمد لکھتے ہیں:
’’معارف نے اقبال کی زندگی ہی مین ان کے فلسفے اور شاعری پر مقالوں کی اشاعت کا آغاز کردیا تھا۔ یہ مضامین و مقالات اقبال کی تفہیم اور اقبالیات کے تشکیل میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ علامہ کی شخصیت اور فنی حیثیت کے مقابلے میں معارف نے ان کی فکر اور فلسفے پر زیادہ توجہ دی ہے۔‘‘
اقبال کے بعد معارف کے سرمایہ ادب میں غالب کا نمبر آتا ہے۔ غالب اردو کے سب سے بڑے شاعر تسلیم کیے جاتے ہیں۔ بااستثنائے چند سبھی نے ان کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ ان کی زندگی خواہ وہ نجی ہو یا ادبی دو انتہائوں کے درمیان گزری اور مرنے کے بعد بھی ان کی عظمت کا سفر دو انتہائوں کے درمیان گزرتا رہا۔ ایک طرف معترفین ہیں ۔ دوسری جانب معترضین اور دونوں سمتوں میں کچھ ایسے افراد ہیں جن کی انتہا پسندانہ طبیعتوں نے غالب کے شعری اور ذاتی کردار کوہمیشہ نزاعی بنا ئے رکھا۔ اردو شعر و ادب کی دنیا میں غالب کے کلام اور کردار پر جس قدر اور جتنے سخت اعتراضات وارد ہوتے رہے ہیں اتنے شاید کسی پر نہیں ہوئے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام اعتراضات کے باوجود ان کی شہرت اور مقبولیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔ اگر شخصی طور پر غالب کو دروغ گو، خود غرض، موقع پرست، خوشامدی، چاپلوس، مے خوار، مفاد پرست، انگریزدوست، مصلحت پسند اور پکا دنیا دار کہا گیا تو ان کے مداحوں نے انھیں وسیع القلب، دوست نواز، انسانیت پرست، خود دار، وضعدار، فیاض، غریب پرور اور صوفی منش ثابت کرنے کی کوشش کی۔ دونوں اپنے اپنے ثبوتوں اور حوالوں سے لیس ہیں۔ کسی نے انھیں صوفی و صافی کہا اور کسی نے شیطانی صفات سے متصف قرار دیا۔ انسان سمجھنے والوں کی تعداد سب سے کم رہی۔ کلام غالب کے نکتہ چینوں کا ذکر کرتے ہوئے نظیر صدیقی اپنے مضمون ’’کلام غالب کے نکتہ چین‘‘ مطبوعہ ’’انتخاب مقالاتِ غالب نامہ ’’تنقیدات‘‘ مرتبہ نذیر احمد غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی میں لکھتے ہیں:
’’آغا جان سے لے کر سلیم احمد تک غالب کے نکتہ چینوں کی طویل فہرست ہے۔ جس میں محمد حسین آزاد، نظم طباطبائی، آسی لکھنوی، بیخود موہانی، سہا رام پوری، یگانہ چنگیزی، نیاز فتح پوری، اثر لکھنوی، پروفیسر عبداللطیف، پروفیسر کلیم الدین احمد، ڈاکٹرآفاق احمد، ہنس راج رہبر اور حسن عسکری جیسے ماہرین فن ، سخن شناس اور تنقید نگار آتے ہیں۔‘‘ (اقتباس ختم)
تاہم آغا جان عیش نے غالب کی زندگی میں جو ہجویہ شعر کہا تھا ؎
کلام میر سمجھے اور زبان میرزا سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
وہ بھی غالب کے نام پر شہرت دوام حاصل کرچکا ہے۔
گویا غالب کی شہرت و مقبولیت کے عروج کی انتہا یہ ہے کہ ان پر اعتراضات کے جو تیر چلائے گئے تھے وہ بھی شہرت پاچکے ہیں۔ جس غالب کو عبدالرحمن بجنوری نے ’’رب النوع‘‘ کہا تھا اور جس کے دیوان کو سر تا سر الہام قرار دیاتھا اسی کوکم علم ، سارق اور چٹکلے باز مسخرا تک کہہ دیا گیا۔ نظیر صدیقی نے غالب بیزاروں کی اس ٹولی میں ایک ایسے نکتہ چیں کا ذکر بھی کیا ہے جو غالب کا نام سنتے ہی چیں بہ جبیں ہوگئے تھے۔ نظیر صدیقی کے مطابق پروفیسر مسعود حسن رضوی نے اپنے ایک مضمون ’’غالب تب اور اب‘‘ میں لکھا ہے:
’’جب میں یونیورسٹی میں ملازم ہوا تو ایک دن شعبہ مشرقی علوم کے فاضل استاد مولانا اصغر علی صاحب جو میرے بھی استاد رہ چکے تھے ۔ ان کے دریافت کرنے پرمیں نے اردو کے بڑے بڑے شاعروں کے نام لینا شروع کیے۔ میر،انیس ، غالب ۔ نام سنتے ہی مولانا کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور بگڑ کر بولے یہ میر و انیس کے ساتھ غالب کا کیا جوڑ۔ نہ اس کو اردو پر عبور تھا نہ فارسی پر۔‘‘
اس طرح کی دلچسپ باتیں غالب کے معترضین میں عام ہیں۔ غالب کے بعض مخالفین تو ان کی مخالفت میں اخلاقیات کی سطح سے بھی نیچے اترآتے ہیں۔جیسا کہ ہنس راج رہبرؔ کا یہ جملہ ’’ایسا لگتا ہے غالب نے اپنے جن شعروں میں نمرود ، خضر اور جنت سے آدم کو نکلنے تک کی جو تلمیحات استعمال کی ہیں وہ بھی ان کی خباثت نفس کا نتیجہ ہیں۔‘‘
غالب کو مہمل گو یا مشکل پسند بہت کہا گیا ہے۔ حالاں کہ جرمنی کے جس عظیم شاعر گوئٹے سے غالب کو مماثل کیا جاتا ہے جب اس سے ان مشکلات کی بابت استفسار کیا گیا تو اس کا جواب تھا:
’’یہی تاریکی ہی تو ہے جس پر لوگ فریفتہ ہیں لوگ ان مقامات پر لایخل مسائل کی مثال غور کرتے ہیں اور اپنی ناکامی سے نہیں اکتاتے ۔ انسانی طلب کی انتہا تحیرہے۔ اگر کسی فعل سے حیرت پیدا ہو تو وہ کمال فن ہے۔‘‘
(بحوالہ تفہیم غالب کے مدارج، ڈاکٹر شمس بدایونی)
غالب بھی اپنے کلام سے قاری کو حیران کردیتے ہیں۔ حالی اور بجنوری نے غالب کی مشکل پسندی کو کمال فن قرار دیا ہے اور بے شمار لوگ ان کے ہم خیال ہیں۔ پروفیسر مسعود حسین خاں اپنے مضمون ’’غالب کے نکتہ چیں۔ نظم طباطبائی ‘‘میں دوٹوک کہتے ہیں :
’’ہر چند غالب اپنے سہل ممتنع کا ذکر کرتے ہیں لیکن یہ ان کے انداز بیان کا طرۂ امتیاز نہیں مشکل گوئی اور مشکل پسندی سے ان کا کلام تہ دار بنتا ہے۔ اس سے ان کا وہ منفرد اسلوب شعر ترتیب پاتا ہے جس کی وجہ سے اردو غزل میں غلبۂ غالب آج تک قائم ہے۔‘‘
لطف کی بات یہ ہے کہ صرف ان مخالفین کوچھوڑ کر جنھیں غالب سے للّہی بغض ہے تقریباً تمام نکتہ چیں غالب کی شعری عظمت کے قائل ہیں یا کم از کم ان کو بڑا شاعر ضرور مانتے ہیں۔ ان میں یگانہ چنگیزی بھی شامل ہیں۔ جو اپنے آپ کو غالب شکن کہتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں :
’’ایشیائی شاعری میں غزل گوئی کی صنف سب سے مشکل ، سب سے زیادہ آسان، سب سے زیادہ بکار آمد، سب سے زیادہ فضول بھی ہے۔ اب یہ شاعر کی استعدا د پر موقوف ہے کہ وہ غزل کو ذلیل کردے یا معراج پر پہنچا دے ۔ غالب نے غزل کو ذلیل بھی کیا ہے اور اس کے معیار کو بلند بھی کیا ہے۔‘‘
یہی وہ غالب ہیں جنھیں معارف نے اپنے تحقیقی حصے میں اقبال کے بعد سب سے نمایاں جگہ دی ہے اور اس باب میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہوسکتا کہ غالب اس کے مستحق بھی تھے۔ غالب سے متعلق معارف میں جو تحقیقی اور تنقیدی مضامین و مقالے شائع ہوئے ہیں ان میں غالب کی سوانح، شاعری، ان کے تلامذہ اور غالب پر شائع ہونے والی کتابوں پر تبصرے سبھی کچھ شامل ہے۔ مضامین کے علاوہ شذرات میں بھی غالب کا ذکر آیا ہے۔ چنانچہ معارف کی ابتدا (جولائی ۱۹۱۶) کے صرف دو برس بعد ستمبر ۱۹۱۸ کے شذرات میں سید سلیمان ندوی نسخۂ حمیدیہ کی بابت یہ اہم اطلاع فراہم کرتے ہیں :
’’ہمارے دوست مولانا عبدالسلام ندوی شعرالہند کی خاطر آج کل کتب خانوں کی خاک چھان رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں وہ بھوپال بھی پہنچے۔ وہاں کے کتب خانۂ حمیدیہ میں انھیں ایک انمول جواہر ملا یعنی مرزا غالب کا ایک مکمل اردو دیوان بلاحذف و انتخاب جو موجودہ دیوان سے ضخامت میں دونا ہے۔ نہایت عمدہ مطلّا نسخہ ہے کسی خوش خط کے ہاتھ وہ پڑا تھا اس نے ان غزلوں کا مطبوعہ غزلوں سے مقابلہ کر کے اختلاف نسخ بھی لکھ دیا ہے۔ یہ نسخہ ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری مشیر تعلیمات بھوپال کے مطالعہ میں ہے۔ موصوف آج کل دیوان غالب کی خدمت گزاری میں مصروف ہیں اور عنقریب ان کے نتائج فکر ترقیٔ اردو کے ذریعے سے منظر عام پر آئیں گے۔‘‘
واضح ہو کہ یہ وہی نسخۂ حمیدیہ ہے جس نے اردو تحقیق و تنقید کی دنیا میں ایک ہنگامہ برپا کردیا تھا۔ جو کئی برس جاری رہا۔ نسخۂ حمیدیہ کی اس ہنگامہ خیز دریافت کے بعد اردو کے تقریباً سبھی صف اول کے محققین اور ناقدین نے بقدر توفیق و استعداد اس کے مباحث میں حصہ لیا۔ معارف کی مذکورہ تحریر کے دوماہ بعد ہی ۷؍نومبر ۱۹۱۸ کو عبدالرحمن بجنوری کا انتقال ہوگیا اور یہ پروجیکٹ ادھورا رہ گیا۔ عبدالرحمن بجنوری کے مقدمہ ’’محاسن کلام غالب‘ ‘کی اولین اشاعت کا قضیہ بعد از خوابیٔ بسیار ڈاکٹر حدیقہ بیگم کی کتاب ’’نقد بجنوری‘‘ کے حوالے سے ان نتائج کے ساتھ اختتام پذیر ہوا کہ بجنوری کا زیربحث مقدمہ ’’محاسن کلام غالب‘‘ کے عنوان سے پہلے پہل ’’رسالہ اردو‘‘ اورنگ آباد کے پہلے شمارے جنوری ۱۹۲۱ کی اشاعت میں شامل ہوا۔ بعد میں انجمن ترقی اردو نے اسے کتابی صورت میں اسی نام سے شائع کیا۔ اور اسی سال یعنی ۱۹۲۱ میں مفتی محمد انوار الحق کے مرتبہ دیوان غالب جدید المعروف بہ نسخۂ حمیدیہ مطبوعہ مفید عام اسٹیم پریس آگرہ میں شائع ہوا۔
کتب خانۂ بھوپال کے بارے میں دسمبر ۱۹۳۶ کے معارف میں ایک مقالہ شائع ہوا ہے جس میں مفتی انوارالحق کے مرتبہ ’’دیوان غالب جدید پر تبصرہ کرتے ہوئے سید صباح الدین عبدالرحمن نے اس کی اشاعت کے جواز پر سوال اٹھائے تھے لکھتے ہیں:
’’غالب نے جن اشعار کو منتشر اور پراگندہ سمجھ کر اپنے دیوان سے نکال دیا تھا اور ان کو ان کی طرف منسوب نہ کرنے کی التجا بھی کی تھی تو پھران کو ان کے کلام کے ساتھ شائع کرنا کہاں تک درست ہے۔ ممکن ہے آگے چل کر اہل نظر ان کو یا تو ایک غلط قسم کی ذہنی عیاشی قرار دیں یا نہیں تو کار بے کاراں‘‘
ہمیں اس سلسلے میں صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ ممکن ہے کوئی ایسا برا وقت آجائے جب مذکورہ بالا خدشات درست ثابت ہوں فی الحال تو غالب کے قلم زدہ اشعار کی ایک بڑی تعداد کو اہل نظر نے حرز جاں بنا لیا ہے۔ ہمارے خیال میں اگر غالب نے غیر متداول کلام کے صرف یہی اشعار کہے ہوتے جنھیں سخن شناسوں نے دوبارہ متداول دیوان میں بطور ضمیمہ شامل کرلیا ہے تو بھی غالب بڑے شاعر تسلیم کیے جاتے۔ غالب ہمیشہ اپنے کلام میں وحشت کی باتیں کرتے رہے۔ نہ جانے ان کی وحشت کا وہ کون سا لمحہ تھا جس میں انھوں نے خس و خاشاک کے ساتھ ہیرے جواہرات بھی خاک دان کی نذر کر دیے۔ ذرا یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے۔ کیا انھیں کوئی نظر انداز کرسکتا ہے۔
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
تماشائے گلشن تمنائے چیدن
بہار آفرینا! گنہگار ہیں ہم
مرا شمول ہر اک دل کے پیچ و تاب میں ہے
میں مدعا ہوں طپش نامۂ تمنا کا
ملی نہ وسعتِ جولانِ یک جنوں ہم کو
عدم کو لے گئے دل میں غبار صحرا کا
کس کا خیال آئینۂ انتظار تھا
ہر برگِ گل کے پردے میں دل بے قرار تھا
ربط یک شہرازۂ وحشت ہیں اجزائے بہار
سبزہ بے گانہ، صبا آوارہ، گل نا آشنا
اسدؔ سودائے سر سبزی سے ہے تسلیم رنگیں تر
کہ کشتِ خشک اس کا ابرِ بے پروا خرام اس کا
عشق میں ہم نے ہی ابرام سے پرہیز کیا
ورنہ جو چاہیے اسبابِ تمنا سب تھا
دیوانگی اسدؔ کی حسرتِ کش طرب ہے
سر میں ہوائے گلشن دل میں غبارِ صحرا
پھر وہ سوئے چمن آتا ہے خدا خیر کرے
رنگ اڑتا ہے گلستاں کے ہوا داروں کا
ان دل فریبیوں سے نہ کیوں اس پہ پیار آئے
روٹھا جو بے گناہ تو بے عذر من گیا
ہم نے سو زخمِ جگر پر بھی زباں پیدا نہ کی
گل ہوا ہے ایک زخم سینہ پر خواہان داد
تیغ در کف، کف بہ لب آتا ہے قاتل اس طرف
مژدہ باد اے آرزوئے مرگِ غالب مژدہ باد
تو پست فطرت اور خیالِ بسا بلند
اے طفلِ خود معاملہ قد سے عصا بلند
اے اسد ہم خود اسیرِ رنگ و بوئے باغ ہیں
ظاہرا صیادِ ناداں ہے گرفتارِ ہوس
گل کھلے غنچے چٹکنے لگے اور صبح ہوئی
سر خوشِ خواب ہے وہ نرگسِ مخمور ہنوز
کون آیا جو چمن بے تابِ استقبال ہے
جنبشِ موج صبا ہے شوخیٔ رفتارِ باغ
دیر و حرم آئینۂ تکرارِ تمنا
داماندگیٔ شوق تراشے ہے پناہیں
ہوں گرمئی نشاط تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ ہوں
ہے تماشا گاہِ سوزِ ناز ہریک عضوِ تن
جوں چراغانِ دوالی صف بہ صف چلتا ہوں میں
جنون فرقتِ یارانِ رفتہ ہے غالب
بسان دشت دلِ پر غبار رکھتے ہیں
فلکِ سفلہ بے محابہ ہے
اس ستم گر کو انفعال کہاں
کوئی آگاہ نہیں باطن ہم دیگر سے
ہے ہر اک فرد جہاں میں ورق ناخواندہ
بے چشم دل نہ کر ہوس سیر لالہ زار
یعنی یہ ہر ورق، ورقِ انتخاب ہے
اسد اٹھنا قیامت قامتوں کا وقتِ آرائش
لباسِ نظم میں بالیدنِ مضمونِ عالی ہے
اسد بند قبائے یار ہے فردوس کا غنچہ
اگر وا ہو تو دکھلادوں کہ یک عالم گلستاں ہے
تمثالِ جلوہ عرض کراے حسن کب تلک
آئینۂ خیال کو دیکھا کرے کوئی
یارب ہمیں تو خواب میں بھی مت دکھائیو!
یہ محشرِ خیال کہ دنیا کہیں جسے
رشک ہے آسائشِ اربابِ غفلت پر اسدؔ
پیچ و تابِ دل نصیبِ خاطرِ آگاہ ہے
توڑ بیٹھے جب کہ ہم جام و سبو پھر ہم کو کیا
آسماں سے بادۂ گلفام گر برسا کرے
کثرتِ انشائے مضمونِ تحیّر سے اسد
ہر سرِ انگشت نوکِ خامۂ فرسودہ ہے
عجز و نیاز سے تو نہ آیا وہ راہ پر
دامن کو اس کے آج حریفانہ کھینچیے
لالہ و گل بہم آئینۂ اخلاقِ بہار
ہوں میں وہ داغ کے پھولوں میں بسایا ہے مجھے
جامِ ہر ذرہ ہے سرشارِ تمنا مجھ سے
کس کا دل ہوں کہ دو عالم سے لگایا ہے مجھے
کمال حسن اگر موقوفِ انداز تغافل ہو
تکلف بر طرف تجھ سے تری تصویر بہتر ہے
جو چاہیے نہیں وہ مری قدر و منزلت
میں یوسفِ بہ قیمتِ اول خریدہ ہوں
نہ حشر و نشر کا قائل نہ کیش و ملت کا
خدا کے واسطے ایسے کی پھر قسم کیا ہے
مسجد کے زیر سایہ اک گھر بنا لیا ہے
یہ بندۂ کمینہ ہم سایۂ خدا ہے
غیر سے دیکھیے کیا خوب نبھائی اس نے
نہ سہی ہم سے پر اس بت میں وفا ہے تو سہی
غالب کے ساتھ تنازعات کا بڑا گہر ا تعلق رہا ہے کچھ تو وہ خود بھی لوگوں کو اپنے خلاف کرنے میںکم نہ تھے کچھ ان کے حاسدوں کی کرم فرمائیاں تھیں اور کچھ ایسی مجبوریاں جن میں ان کی مروت ، وضع داری، شرافت نفسی کا دخل ہوتا ۔ کبھی معاش و مذہب اور مقام و مرتبے کے معاملات بھی انھیں کسی نہ کسی قضیے میں گرفتار کردیتے ۔ سہرے کا مقطع ہو یا کوتوال دہلی سے رنجش، قمار بازی کے شوق میں سیر زنداں ہو یا مختلف مقدمات میں ہزیمت کا سامنا، سب کا دامن ان کی زندگی کے کیل کانٹوں میں الجھا ہوا ہے۔ اسی قسم کے ایک اور معاملے میں غالب کا پیر پھنسا ہوا نظر آتا ہے۔ اس معاملے کا تعلق ایک مثنوی سے ہے جو بہادر شاہ ظفر نے غالب سے لکھوائی تھی۔ معارف اپریل ۱۹۲۲ئ اور مئی ۱۹۲۲ئ میں حافظ احمد علی خاں، ناظر کتب خانۂ رام پور کا ایک مقالہ بعنوان ’’سراج الدین ظفر شاہ دہلی اور مرزا غالب کی زندگی کا ایک گم شدہ ورق‘‘دو قسطوں میں شائع ہوا ہے۔اس مقالے کے ذریعے انھوں نے غالب کی زندگی کے ایک اہم اور نازک پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ معلومات فراہم کی ہیں ۔
’’دلی کے انحطاط اور لکھنؤ کے دور عروج میں دلی کے چند شہزادوں نے لکھنؤ پہنچ کر مشہور کردیا تھا کہ بہادر شاہ ظفر نے شیعہ مذہب اختیار کرلیا ہے۔ یہ خبر جب دہلی پہنچی تو دہلی کے اعیان وا کابرین میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ بادشاہ نے اس افواہ کی اعلانیہ تردید کی اور غالب سے اس کی تردید میں ایک فارسی مثنوی لکھوائی۔ اہل لکھنؤ کو جب اس مثنوی کے مصنف کا علم ہوا تو وہ غالب سے خفا ہو بیٹھے۔اس واقعے کے تقریباً نو ماہ بعد غالب نے بطور تلافی اپنا ایک قصیدہ دربار لکھنؤ بھیجا۔‘‘
غالب کی الجھن یہ تھی کہ وہ ایک کوخوش کرتے ہیں تو دوسرا خفا ہوجاتا ہے اور غالب کے لیے دونوں کو خوش رکھنا ضروری، لیکن خاصا مشکل کام تھا۔ معارف نے غالب کی اہمیت کے خیال سے اس واقعے کو اپنے دوشماروں میں جگہ دی ہے۔
غالب سے متعلق معارف کے تحقیقی مضامین میں جو نئے انکشافات ہوئے ہیںاور بعد میں جن کے حوالے سے ماہرین غالب نے اپنی تحقیق کو وسعت دی ہے ان میں سے چند یہ ہیں۔
۱۔ ڈاکٹر خلیق انجم کے مرتب کردہ خطوط غالب (جلد اول) مطبوعہ غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی کے صفحہ ۲۴۵ پر غالب کا ایک خط علائوالدین خاں علائی کے نام ہے۔ یہ خط معارف کے شمارہ نمبر ۴، جلد۔۱۰ مورخہ دسمبر ۱۹۲۲ میں ’’آثار علمیہ‘‘ کے تحت پہلی مرتبہ شائع ہوا تھا۔ ڈاکٹر خلیق انجم مرحوم نے اسے معارف ہی کے حوالے سے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔
غالب کے دوسرے خطوط کی طرح یہ بھی ایک دلچسپ خط ہے۔ اس میں نواب علاوالدین خاں علائی کی لوہارو آنے کی دعوت کے جواب میں غالب یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ وہاں آم کہاں ملیں گے جو میرے سفر کا سبب بن سکیںجواباً علائی نے بھی انھیں منظوم خط لکھا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ وہاں غالب کی ہر فرمائش پوری کی جائے گی۔ غالب کے قطعات دو ہیں ایک اردو میں دوسرا فارسی میں۔ یہاں اردو قطعہ پیش ہے:
خوشی ہے یہ آنے کی برسات کی
پیئں بادۂ ناب اور آم کھائیں
سر آغازِ موسم میں اندھے ہیں ہم
کے دلی کو چھوڑیں لوہارو کو جائیں
سوا ناج کے جو ہے مقلوب جاں
نہ واں آم پائیں نہ انگور پائیں
ہوا حکم باورچیوں کو کہ ہاں
ابھی جا کے پوچھو کہ کل کیا پکائیں
وہ کھٹے کہاں پائیں املی کے پھول
وہ کڑوے کریلے کہاں سے منگائیں
فقط گوشت سو بھیڑ کا ریشے دار
کہو، اس کو کیا، کھا کے ہم حظ اٹھائیں
۲۔ معارف مئی ۱۹۲۶ میں حافظ نذیر احمد کا ایک مضمون بعنوان ’’مرزا غالب کے بچپن کی ایک تحریر‘‘ موجود ہے۔ اس مضمون کے مطابق:
’’یہ تحریر مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی کے کتب خانۂ حبیب گنج (علی گڑھ) میں محفوظ ہے۔ یہ ایک قسم کی دستاویز ہے جس کو ۱۲۹۱ھ مطابق ۱۸۰۴ میں غالب مرحوم نے خدا داد خاں ولی داد خاں کے پاس اپنا مکان گروی رکھ کر جو روپیہ لیا تھا اس کے عوض میں لکھ کر ان کے حوالے کیا۔‘‘
معارف کے اس مضمون کی اہمیت یہ ہے کہ ہم اس کے ذریعے نہ صرف غالب کی ایک نو دریافت تحریر سے واقف ہوتے ہیںبلکہ اسی خط کے ذریعے ہمیں پہلی بار علم ہواکہ غالب کی والدہ کا نام عزت النسا بیگم تھا۔
۳۔ معارف مارچ ۱۹۲۸ئ میں مولوی ضیاالدین احمد برنی کاایک مضمون ’’غالب و صہبائی کے خطوط‘‘ شائع ہوا۔ اس مضمون میں تمہید و تعارف کے ساتھ غالب اور امام بخش صہبائی کاایک ایک خط نقل کیا گیا ہے۔ غالب کا خط مولوی ضیالدین خاں کے نام ہے۔ اس خط میں غالب نے فارسی اور عربی زبان کی وسعت کا تقابل کیا ہے اور فارسی کی بہ نسبت عربی زبان کو زیادہ وسیع قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’مولوی صاحب جمیل المناقب ۔ مولوی ضیاالدین احمد خاں کی خدمت میں بعد سلام عرض کیا جاتا ہے کہ میں عالم نہیں مگر شرف اور فضیلت علما میرے دل میں نقش ہے اور علم کو زبان عربی میں منحصر جانتا ہوں۔ اللہ اللہ علم عربی کی وسعت، صرف ، نحو، منطق ، فلسفہ، تفسیر، حدیث ، فقہ پانچ سات برس تک آدمی اس کو تحصیل کرسکتا ہے۔یعنی طب و نجوم و ہیئت و ہندسہ و ریاضی اور اس کے سوا اور علوم سب عربی زبان میں ہیں ۔ فارسی زبان بعد تباہ ہونے یزدجرد کی سلطنت کے مٹتی گئی یہاں تک کہ بہ قدر ایک بولی کے رہ گئی۔‘‘
مولوی ضیا الدین احمد خاں کے نام غالب کے جو دوسرے خطوط ہیں جن کا ذکر اس مضمون میں نہیں ان میں غالب نے اردو فارسی کی لغت و قواعد کی بحث اٹھائی ہے اور مرزا قتیل، غیاث الدین رام پوری اور روشن جونپوری پر چھینٹا کشی کی ہے۔ دراصل یہ ’’برہان قاطع ‘‘ کے قضیہ کا تسلسل ہے۔
۴۔ معارف جلد ۔۲۹، شمارہ۔۳ مورخہ ۱۹۳۲ میں پروفیسر شیخ عبدالقادر سرفراز کے انگریزی مضمون برائے انگلش میگزین ’’رائل ایشیاٹک سوسائٹی‘‘ بمبئی جنوری ۱۹۲۸ئ کا اردو ترجمہ بعنوان ’’بمبئی یونیورسٹی کے چند فارسی مخطوطات‘‘ مترجم محمد علی شائع ہوا ہے۔ اس مضمون کے مطابق گجرات کے ریختہ گویوں کا ایک فارسی تذکرہ ’’مخزن الشعرا‘‘ مصنفہ قاضی نورالدین فائق کی تصنیف ہے۔ یہ تذکرہ بغرض تصحیح وتبصرہ غالب کی خدمت میں ارسال کیا گیا تھا ۔ غالب نے کلمات خیر اور ان الفاظ کے ساتھ کہ ’’مجھ کو یہ پایہ نہیں کہ آپ کی نثر میں دخل دوں۔‘‘ مرحبا اور آفریں سے نوازا ہے غالب کی اس رائے پر جولائی ۱۸۷۲ئ کی تاریخ رقم ہے۔ تذکرے کے صفحۂ آخر کے حاشیے پر غالب کی رائے کے ساتھ یہ نوٹ بھی شامل کیا گیا ہے :
’’عبارت کہ جناب مرزا اسد اللہ خاں غالب صاحب بعد مطالعۂ این اوراق و اصلاح آن تحریر فرمود برائے یادگار تحریر نمود۔‘‘
معارف جلد۔ ۷۷، شمارہ۔ ۳ ا مارچ ۱۹۵۶ میں خواجہ احمد فاروقی کا مقالہ بعنوان ’’خوب چند ذکا اور مرزا غالب‘‘ شائع ہوا۔ مقالہ نگار نے خوب چند ذکا کے تذکرے ’’عیار الشعرا‘‘ کی عبارت سے یہ نتائج اخذ کیے ہیں کہ ’’عیارالشعرا ‘‘ کی تالیف کے وقت غالب آگرہ ہی میں تھے اور ذکا نے جو اشعار نمونتاً نقل کیے ہیں وہ بھی آگرہ ہی کی تخلیق ہیں۔ ان میں چار ایسے شعر بھی شامل ہیں جو نسخہ حمیدیہ سمیت دیگر مروجہ دواوین میں نہیں تھے۔
۶۔ معارف جلد۔ ۸۲، شمارہ۔ ۵،نومبر ۱۹۵۸، جلد۔ ۸۳، شمارہ۔۲، فروری ۱۹۵۹ئ، جلد۔ ۸۳، شمارہ۔۵، مئی ۱۹۵۲ اور جلد۔ ۸۴، شمارہ۔۲، اگست ۱۹۵۹ئ کی چار اشاعتوں میں ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کے بعد بہادر شاہ ظفر کی شنہشاہی کے اعلان کے ساتھ سکّۂ شعرکے تنازعہ پر اردو کے دونامور ادیبوں خواجہ احمد فاروقی اور مالک رام کے دو دو معرکۃ الآرا مقالے شائع ہوئے۔ مذکورہ بحث کا آغاز خواجہ احمد فاروقی کے مقالے ’’غالب کا سکّۂ شعر‘‘ سے ہوتا ہے۔ اس میں انھوں نے غالب کے ایک مکتوب بنام حسین مرزا جون ۱۹۵۹ کے حوالے سے یہ ثابت کر نے کی کوشش کی ہے کہ ایک سرکاری جاسوس گوری شنکر کی مخبری سے غالب پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ بادشاہ کا یہ سکہ غالب کی تصنیف ہے۔
بہ زر زد سکۂ کشور ستانی
سراج الدیں بہادر شاہ ثانی
جب کہ غالب اس الزام سے اپنی برات کا اظہار کرتے رہے۔ خواجہ احمد فاروقی غالب کے اس خیال کی تائید کرتے ہیں کہ مذکورہ سکہ غالب کا نہیں مگر وہ ایک دوسرے سکے کو فکر غالب کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جو یہ ہے ؎
بر زر آفتاب و نقرۂ ماہ
سکہ زد درجہاں بہادر شاہ
اور کہتے ہیں:
’’یہ شعر پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ اس کا مصنف غالب کے سوا دوسرا نہیں۔‘‘
اپنے اس خیال کو تقویت پہنچانے کی غرض سے وہ معین الدین حسن خاں کی تصنیف ’’خدنگ غدر‘‘ اور جیون لال کے روزنامچے کا حوالہ دیتے ہیں:
اس مضمون کے جواب میں مالک رام کا مقالہ ’’ غالب پر سکہ کا الزام اور اس کی حقیقت‘‘ شا ئع ہوا۔ مالک رام کی تحقیق کے مطابق گوری شنکر نے جوسکہ غالب سے منسوب کیا تھا اور جسے غالب، ذوق کا سمجھ رہے تھے ۔ وہ دراصل ذوق کے شاگرد حافظ غلام رسول ویراں کا تھا۔ غالب اس الزام کی تردید کے لیے ’’اردو اخبار‘‘کے متلاشی رہے ۔ مگر یہ سکہ ’’صادق الاخبار‘‘ دہلی ۱۳؍ ذی قعدہ ۱۲۷۳ھ کے صفحۂ اول پر شائع ہوا تھا۔
خواجہ احمد فاروقی نے دوسرا مضمون لکھا اور اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ جس سکہ کو وہ غالب کا سمجھتے ہیں ان کے نزدیک وہ غالب ہی کا ہے اور وہ اس بابت اب بھی اپنی رائے پر قائم ہیں۔ خواجہ احمد فاروقی کے اس مضمون کے تین ماہ بعد مالک رام کا ایک اور مضمون ’’غالب سے منسوب دوسرا سکہ اور اس کی حقیقت‘‘ شائع ہوا۔ اپنے اس مضمون میں مالک رام نے دوسرے سکے کے راوی منشی جیون لعل کو ناقابل اعتبار ثابت کیا اور ان کے بیان کی صحت سے صاف انکار کردیا۔
۷۔ معارف دسمبر ۱۹۵۶ میں ’’نگارستان سخن‘‘ از عطاالرحمن کاکوی کے ایک نایاب نسخے کا تعارف شامل ہے۔ یہ کتاب مطبع احمدی شاہدرہ دہلی سے شائع ہوئی۔ اس میں ذوق مومن اور غالب کا انتخاب یکجا کیا گیا ہے۔ ۱۷۶ صفحات پر مشتمل اس مجموعے کا ہر صفحہ تین کالمی ہے۔ ہر کالم میں علی الترتیب ذوق غالب اور مومن کا کلام شامل کیا گیا ہے۔ ذوق اور مومن کا کلام تو انتخاب ہے مگر غالب کا کلام جو متداول نسخوں میں پایا جاتا ہے سب کا سب اس میں موجود ہیں۔ عطا کاکوی لکھتے ہیں:
’’اب تک جو یہ سمجھا جاتا تھاکہ غالب کے اردو دیوان کے کل پانچ ایڈیشن خود ان کی حیات میں چھپے ، یہ غلط ہے۔ ان میں ایک اوراضافہ ہوا اور اب ان کی ترتیب بھی بدل گئی جو پانچواں ایڈیشن تھا وہ چھٹا ہوگیا اور پانچویں کی جگہ ’’نگارستان سخن‘‘ نے لے لی۔ اب ان کی ترتیب یہ ہے
پہلا ایڈیشن مطبوعہ چھاپا خانہ سید محمد خان، دہلی، اکتوبر ۱۸۴۱
دوسرا ایڈیشن مطبوعہ دارالسلام حوض قاضی ،دہلی، ۱۸۴۷
تیسرا یڈیشن مطبوعہ مطبع احمدی شاہدرہ ،دہلی، جولائی ۱۸۱۶
چوتھا ایڈیشن مطبوعہ نظامی پریس، کانپور، ۱۸۶۲
پانچواں ایڈیشن مطبوعہ مطبع احمدی شاہدرہ، دہلی بہ نام ’’نگارستان سخن‘‘ بہ شمول کلام ذوق و مومن اگست ۱۸۶۲
چھٹا ایڈیشن مطبوعہ مطبع مفید خلائق، آگرہ، ۱۸۶۳
۸۔ معارف مئی ۱۹۶۱ئ میں پروفیسر محمد مسعود احمد کا ایک مقالہ بعنوان ’’حضرت غمگین اور مرزا غالب کے جواب میں ان کا ایک غیر مطبوعہ مکتوب‘‘ شامل ہے۔ اس مقالے میں میر سید علی غمگین کے حالات زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے اور مرزا غالب سے ان کے تعلق خاطر اور دونوں کے درمیان فارسی مراسلت کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ غمگین غالب کے محسنوں میں تھے۔ غالب ان کی بہت عزت کرتے اور غمگین غالب پر شفقت فرماتے تھے۔
۹۔ معارف نومبر ۲۰۰۴ئ میں اکبر حیدری کشمیری کی ایک دلچسپ تحریر بعنوان ’’بیاض غالب بخط غالب‘‘ شائع ہوئی تھی جس میں کلام غالب میں جعل سازی اورا لحاق کی پوری تاریخ یک جا کردی گئی ہے ۔ ڈاکٹر عتیق احمد جیلانی نے اپنے مقالے ’’رسالہ معارف کی اردو ادبی خدمات‘‘میں جن پہلوئوں کی نشاندہی کی ہے وہ یہ ہیں:
الف۔ ’’بیاض غالب بخط غالب‘‘ (غالب نمبر دو) مرتبہ نثار احمد فاروقی نسخہ لاہور ، مطبوعہ اکتوبر
۱۹۲۹جعلی ہے۔
ب۔ مذکورہ بالا نسخہ ’’دیوان غالب بخط غالب‘‘ (نسخۂ عرشی زادہ) کے نام سے بھی شائع ہوا۔
مولانا امتیاز علی خاں عرشی اور پروفسیر آل احمد سرور نے اپنے مضامین میں اسے مستند قرار دیا۔
ج۔ مجمع الاشعار (کان پور نولکشور ۱۸۷۲) میں صفحہ ۴۴ اور صفحہ۸۳ پر غالب کی دو غزلیں ہیں۔ پہلی غزل مکرم الدولہ غالب کی ہے اور دوسری بھی الحاقی ہے۔
د۔ ’’چمن بے نظیر‘‘ (بمبئی مطبع محمدی فروری ۱۸۹۲ میں صفحہ ۵۶ اور صفحہ ۲۴۶ پر شائع شدہ دونوں غزلیں جعلی ہیں۔
ہ۔ ’’مخزن‘‘ لاہور کے ابتدائی پرچوں میں غالب کا الحاقی کلام شامل کیا گیا ہے۔
و۔ ’’الہلال‘‘ کلکتہ یکم جولائی اور ۲۲؍جولائی ۱۹۴۱ میں غالب کا الحاقی کلام موجود ہے۔
ز۔ مولانا عبدالباری آسی نے غالب کا کلام ’’بنانا‘‘ شروع کردیا جسے نیاز فتح پوری نے
’’نگار‘‘ لکھنؤ،(فروری ۱۹۳۱ ، شمارہ ۔۲۰) میں اپنے مضمون کے ساتھ شائع کیا۔ مجنوں گورکھپوری بھی یہ غزلیں دیکھ کر دھوکا کھا گئے۔
ح۔ آسی نے مکمل شرح غالب اور غالب کا غیر مطبوعہ کلام ، غالب کی ایک رنگین فرضی تصویر کے ساتھ۱۹۳۱ میں صدیق بک ڈپو لکھنؤ سے شائع کیا۔ اس کام میں انھیں نیاز فتح پوری اور وصل بلگرامی کا تعاون حاصل تھا۔
ط۔ مذکورہ جعلی کلام دیوان غالب نسخہ عرشی (دہلی انجمن ترقی اردو ۱۹۵۸) میں بعنوان ’’یادگار نالہ‘‘
شامل ہے۔
ی۔ محمد ابراہیم خلیل کی ’’اپریل فول‘‘ والی غزل جو پہلے گوہر تعلیم بھوپال (اپریل ۱۹۳۷) اور پھر ’’ہمایوں‘‘ لاہور (اپریل ۱۹۳۹) میں چھپی تھی دیوان غالب نسخۂ عرشی اور نسخۂ مالک رام میں شامل ہے۔
ک۔ صاحب مضمون کی نظر میں نسخۂ حمیدیہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
میرے خیال سے مذکورہ باتیں غالب کی عظمت کی دلیل ہیں اور ان کے غیر معمولی اعتراف کے ذیل میں آتی ہیں۔ اس طرح کے واقعات جن کا ذکر کیا گیا ہے ایک ایسے شخص یا شخصیت کے وجود کا احساس دلاتے ہیں جو شعوری اور غیر شعوری طور پر لوگوں کے دل و دماغ پر چھا گیا ہو اور جس نے کائنات ادب کو تسخیر کرلیا ہو۔ غالب کے جعلی کلام کے شرارت آمیز ادبی کھیل اور اس کے نتیجے میں بعض سنجیدہ نقادوں کے دھوکا کھا جانے کا اثر یہ ہوا کہ بعض محقق اور نقاد اس حد تک محتاط بلکہ خوف زدہ ہوگئے کہ انھیں سچ پر بھی جھوٹ کا گمان گزرنے لگا۔ نسخۂ حمیدیہ کو جعلی قرار دینا خوف کی اسی نفسیات کا نتیجہ ہے۔
ل۔ معارف جنوری ۱۹۲۲ میں مولوی عبدالماجد دریاآبادی کا ایک مضمون بعنوان ’’مرزا غالب کا ایک فرنگی شاگرد آزاد فرانسیسی‘‘ شائع ہوا ہے۔ اس مقالے میں عبدالماجد دریابادی نے الیگزینڈر ہیدرلے آزاد (Elexender Heatherly Azad) کا تعارف ان کے مطبوعہ دیوان کے حوالے سے کرا یا ہے۔ ان کی فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق یہ نسخہ رام پور کے سرکاری کتب خانے میں موجود ہے۔
م۔ معارف اپریل ۱۹۵۶ میں محمد علی خاں اثر رامپوری کا مضمون فتح یاب خاں اخگر مینائی شاگرد غالب شامل اشاعت ہے۔ امیر مینائی کے تذکرہ ’’انتخاب یادگار‘‘ میں ان کے حالات کے تحت صرف دو سطریں اور چار شعر شامل کیے گئے ہیں۔ البتہ اثر رام پوری کے مضمون میں شخصی تعارف کے بعد یہ اطلاع بہم پہنچتی ہے کہ اخگر کا بیشتر کلام تلف ہوچکا ہے بطور یادگار غزلوں کے بیس شعر ایک رباعی اور مرثیے کے چھ بند شامل مضمون ہیں۔ رہوار امام عالی مقام کی تعریف میں اخگر کے دو بندوں کا تقابل میر انیس سے کیا گیا ہے اور حق یہ ہے کہ تشبیہات کی ندرت ، خیال کی بہجت، ذہن شاعری کی بلند پروازی میں یہ بند ہندی کے مقولے ’’جہاں نہ پہنچے روی وہاں پہنچے کوی‘‘ کی یاد تازہ کردیتے ہیں۔ بند یہ ہیں جن کے ایک مصرع پر عجب نہیں کفر کا فتویٰ بھی صادر کردیا گیا ہو۔ خود شاعر بھی اپنی اس جسارت پر معذرت خواہ ہے۔
رکھیں معاف طعن سے گر مجھ کو اہل دیں
لکھوں میں اس کے حق میں یہ مضمون دلنشیں
ممکن اگرچہ روئے عقیدت سے یہ نہیں
پر اس کی جست و خیز سے ہوتا ہے یہ یقیں
اک جست میں احاطۂ علم خدا سے وہ
جاتا نکل احاطۂ علم خدا سے وہ
کس سے بیاں ہو تیز روی اس سمند کی
کیا اصل برق و باد و چرند و پرند کی
چستی پہ دال وضع ہوئی بند بند کی
چال اس کی دشمنوں نے بھی دل سے پسند کی
جس وقت کوئی جلد خدا اس سے کام لے
سرعت کو اس سے شہپر جبریل وام لے
ن۔ معارف فروری ۱۹۶۹ میں ڈاکٹر سید لطیف حسین ادیب کامقالہ ’’بریلی میں غالب کے تلامذہ‘‘ شائع ہوا ہے۔ اس مقالے کے مطابق ۱۸۵۷کے آس پاس بریلی کے دو خاندانوں کو شعر و ادب سے گہری وابستگی تھی ان میں سے ایک خاندان نوابین روہیلہ کا تھا اور دوسرا مفتیان کا۔ روہیلہ، دبستانِ لکھنؤ سے زیادہ متاثر تھے اور خاندان مفتیان کے شعرا غالب کے شاگرد ہوئے۔ اس مقالے میں غالب کے چھ بریلوی تلامذہ کا احوال درج ہے۔ جن کے اسمائے گرامی ہیں : (۱) مفتی سلطان خاں احسن (۲) مفتی سید احمد خاں سید (۳) قاضی عبدالجیل جنوں (۴) قاضی عبدالرحمن وحشی (۵)غلام بسم اللہ سجل (۶) محمد حسین حاجب۔ ان تلامذہ میں اولین چار شعرا کا تعلق خاندان مفتیان سے ہے۔
س۔ معارف اکتوبر ۱۹۳۰ میں سید مقبول حسین احمد پوری کا تنقیدی مضمون ’’عیش مایوسی‘‘ شریک اشاعت ہے۔ اس میں فکر غالب کے ان اساسی پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے جنھیں ان کے تصورات شعر میں بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔ مضمون نگار کے خیال میں:
’’مرزا صاحب ناکامی میں کامیابی کے جویا ہیں۔ شکست میں ان کو فتح نظرآتا ہے۔ رنج وغم سے ان کو فرح حاصل ہوتی ہے اور منتہائے مایوسی ان کے نزدیک عیش و عشرت کی منزل ہے۔ یہی وہ فلسفہ ہے جس کو افادیت کے تحت ’’عیش مایوسی‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہے۔‘‘
ع۔ معارف اکتوبر ۱۹۶۳ میں جنا ب عبدالمغنی کا مضمون ’’موازنۂ اقبال و غالب‘‘ شامل ہے۔ اس میں صاحب مضمون نے یہ تاثر پیش کیا ہے کہ اقبال اردو کے شعرا میں سب سے زیادہ غالب سے متاثر ہیں۔ اس تاثر کو ثابت کرنے کے لیے انھوں نے دونوں کے درمیان شوخیٔ اندیشہ ، رفعت خیال، ندرت فکر، شوکت اسلوب اور آتش نوائی جیسی مماثلتوں کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔ مگر جب وہ دونوں کا فکری موازنہ کرتے ہیں تو انھیں اقبال کی فکر میں تسلسل اور فکر غالب میں انتشار ، رطب و یابس اور تضاد کا احساس ہوتا ہے ۔ چنانچہ ان کا خیال ہے کہ:
’’غالب اپنی فکری توانائیوں کے باوجود زندگی کا کوئی واضح تصور نہیں رکھتے ان کا شعور اجتماعی درد سے خالی تھا۔ سنجیدہ اور ہموار تفکر ان کے یہاں نہیں ملتا ۔ ان کے کلام میں تحریک عمل مفقود ہے۔‘‘
مضمون نگار کے خیال میں فکر وفلسفہ کی مختلف جہتوں اور شعری محاسن کے لحاظ سے غالب پر اقبال کو فوقیت حاصل ہے۔صاحب مضمون کی ان دونوں آرا پر کہ غالب کے کلام میں تحریک عمل مفقود ہے اور شعری محاسن کے حوالے سے اقبال کو فوقیت حاصل ہے خاصی گفتگو ہوچکی ہے اور ماہرین نے عموماً ان خیالات سے اختلاف کیا ہے۔
ف۔ معارف اکتوبر ۱۹۹۴ میں ڈاکٹر محمدحسین فطرت کا مضمون ’’غالب کا مذاق اجتہاد‘‘ خاصے کی چیز ہے۔ اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ :
’’غالب کے اجتہادی ذہن کو لکیرکا فقیر بننا گوارہ نہ تھا۔ ان کی پرواز تخیل نے شاعری کے ہر موڑ پر فکر و استدلال اور بصیرت و فراست کے رنگ برنگ پھول کھلائے ہیں روایتی مضامین کا اعادہ غالب کے مجتہدانہ ذہن کے شایان شان نہ تھا ۔ ان کی پوری شاعری مروجہ روایتی شاعری کے خلاف ایک صدائے احتجاج کے مترادف ہے۔‘‘
ص۔ معارف: ۱۵/۱۲۱۔ مئی ۱۹۷۸ میں صوفی نذیر احمد کاشمیری کا ایک مضمون بعنوان ’’اقبال کے مداح اور نقاد‘‘ شائع ہوا ہے۔ یہ مضمون بظاہر تو اقبال پر ہے مگر اس میں دل کا غبار غالب پر نکالا گیاہے اور طنز و تعریض کے جتنے تیر تھے بلکہ طنز و تعریض ہی کیوں؟ لعنت ، ملامت، تلخی، ترشی اور حقارت کے بھی جتنے تیر تھے ان سب کا نشانہ غالب بنے ہیں۔ غالب کے بارے میں ان کے خیالات انھیں کی زبانی سنیے ۔ فرماتے ہیں:
’’ساری دنیا کے اباحیت پسندوں کے محبوب ترین شاعر غالب کے دیوان کو اخلاق کی کسوٹی پرپرکھیں تو انھیں نشااللہ ندامت سے سرجھکا دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہے گا۔ غالب کی شاعری کا بہت بڑا حصہ تمسخر اور عوامی واہ واہ حاصل کرنے کے چٹکلوں کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اس شخص کی شاعری کا بڑا حصہ اسی مسخرہ پن پر مشتمل ہے۔‘‘
صوفی صاحب نے اسی پربس نہیں کیا ابھی شاید ان کے دل کا غبارپوری طرح نہیں نکلا تھا یا شاید غالب کی شان میں اپنے سابقہ الفاظ انھیں ہلکے او رکم مایہ محسوس ہوئے تھے ۔ اس لیے مضمون کے آخر میں رومی، ٹیگور اور غالب کا اقبال سے موازنہ کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر وہ غالب پر حملہ آور ہونے کا موقع نکال لیتے ہیں اور غالب کی شاعری اور شخصیت پر یوں اظہار خیال کرتے ہیں:
’’غالب ایک بڑی بھاری اور نہایت ٹوٹی ہوئی تہذیب کے کھنڈرات کا نام ہے جہاں سانپ، بچھو، چوہے، چھپکلی، الّو، شہباز، چڑیا، کبوتر سبھی نے اپنے اپنے گھونسلے بنا رکھے ہیں۔ مگران کھنڈرات کی اور وہاں رہائش کرنے والوں کی انسانی دنیا کے لیے کوئی افادیت نہیں۔ غالب کے یہاں زندگی کے کردار و گفتگو کو کسی آئین و ضبط کا پابند کرنا بے جا رکھ رکھائو اور رسوم پر ستی ہے۔ وہ تو ایک پاگل کی سڑی ہوئی لاش ہے جو کھلے ہوئے میدان میں پڑی ہے اور جس میں ابھی کچھ رمق حیات موجود ہے۔ لہٰذا کبھی تو اس سے مجنونانہ ہنسی اور کبھی تکلیف دہ کراہنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ مگر زیادہ بے معنی ہوں ہاں کا سماں رہتا ہے۔ بے مقصد یاس اور لا اخلاقیت کے تین حیات کش عناصر سے غالب خستہ تن کی لاش بنی ہے اور یہ تینوں چیزیں انسانی معاشرے کے لیے پیام مرگ کا حکم رکھتی ہیں۔‘‘
مدیر معارف سید صباح الدین عبدالرحمن کا ایک وضاحتی نوٹ بھی اس مضمون کے ساتھ شامل اشاعت ہے جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ :
’’اس مقالے میں فاضل مقالہ نگار کا لہجہ ان کااپنا ہے جو معارف کے روایتی لب ولہجے سے مختلف ہے ۔ مگرا ن کے احترام میں اس میں تبدیلی نہیں کی گئی۔ غالب کے متعلق انھوں نے جو کچھ فرمایا ہے اس سے معارف کو پورا اتفاق نہیں مگر غالب کی مدح کے ساتھ ان کی قدح بھی بہت کی گئی ہے۔ ان کی قدح کا ایک نمونہ اور بھی سامنے آئے گا۔‘‘
ہمارے نزدیک یہ وضاحتی نوٹ عذر گناہ بدتراز گناہ کے مترادف ہے۔ اگر یہ مضمون اور اس کا لب و لہجہ معارف کے مزاج سے مختلف بلکہ متصادم تھا تو کسی دوسرے کے احترام پر معارف کے احترام کو قربان کرنا کسی طرح مناسب نہ تھا۔ معلوم نہیں کہ مدیر معارف کو قدح کا یہ نمونہ اتنا کیوں پسند آیا۔
ق۔ معارف جلد ۱۰۳ ، شمارہ۔۲،۳،۴ اور ۵ (فروری، مارچ، اپریل، مئی ۱۹۶۹) کے چار شماروں میں مدیر معارف سید صباح الدین عبدالرحمن کا ایک طویل مقالہ ’’غالب مدح و قدح کی روشنی میں‘‘ قسط وار شائع ہوا۔ بعد ازاں ترمیمات و اضافوں کے ساتھ یہی مقالہ ۱۹۷۷ میں بصورتِ کتاب منظر عام پرآیا۔ یہ کتاب دارالمصنفین کے سلسلہ مطبوعات کے تحت معارف پریس سے شائع ہوئی۔ اس کتاب میں غالب پر لکھی جانے والی مخالفانہ اور موافقانہ تحریروں کا ذاتی اور انفرادی نقطۂ نظر سے جائزہ لیا گیا ہے۔ بطور نمونہ ’’محاسن کلام غالب‘‘ پر ان کا نظریہ اور طرز استدلال پیش ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’ تحریر کی اس قسم کی آن بان سے پڑھنے والا دبتا چلا جاتا ہے اور اس کو غور کرنے کا موقع نہیں ملتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں بلکہ وہ اسی میں کھو یا رہتا ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں کس شان و شکوہ سے کہہ رہے ہیں ، لیکن جب وہ ٹھہر کر غور کرتا ہے تو پھران کی پرشکوہ تحریروں کے بار سے ہلکا ہوکر یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ان کی بعض باتوں میں حقیقت سے زیادہ عقیدت کو دخل ہے۔‘‘
ان بلند پایہ تحقیقی اور تنقیدی مقالات کے علاوہ معارف نے غالبیات سے متعلق تقریباً سو سے زیادہ کتابوں پر تبصرے اور جائزے شائع کیے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔