Print Friendly, PDF & Email

عہدِ جدید میں غالب

نیر مسعود

عہدِ جدید میں غالب

1969 
میں غالب صدی تقریبات عالمی پیمانے پر منائی گئیں جن کے نتیجے میں غالب کی شہرت کا دائرہ دیکھتے دیکھتے نہایت وسیع ہوگیا۔اسی کے ساتھ غالب اور اُن کے فن سے ہماری واقفیت کا دائرہ بھی وسیع ہوا۔ اِن تقریبات کے دوران غالب کی شخصیت اور فن کے اُن گوشوں پربھی روشنی پڑی جن پر ابھی تک زیادہ بالکل غور نہیں ہواتھا۔ اب یہ غالب کے فن کی قوت اور اُن کی شخصیت کے پیچ و خم کا کرشمہ تھاکہ سیکڑوں کتابیںاور ہزاروں مضمون مل کربھی اُن کو کسی دائرے میں گھیر نہیں سکے، البتہ ان مطالعوں نے غالب کوہمارے ذہنوں سے قریب تر کردیااور انہیںبہت سے ایسے ذہنوں تک بھی پہنچا دیاجن کو عام حالات میں غالب سے مانوس ہونے کا موقع شاید نہ ملتا۔ یہ غالب کی تازہ مقبولیت کی ایک صورت تھی جو غالب صدی کے ذریعے انہیں حاصل ہونے والی شہرت کی آوردہ تھی۔ لیکن شہرت بالعموم دیرپا مقبولیت کی ضمانت نہیں ہواکرتی۔غالب کی یہ تازہ مقبولیت بھی ایک حد تک عارضی تھی اور اس کا بڑا حصہ غالب صدی کی ہماہمی ختم ہونے کے بعد زائل ہوگیا۔
اس ہنگامی مقبولیت کے متوازی غالب کی وہ استمراری مقبولیت ہے جو اُن کے دورانِ حیات سے لے کر آج تک چلی آرہی ہے، اگرچہ یہ خیال آج بھی بعض ذہنوں میں راسخ ہے کہ غالب کے اپنے عہدنے اُن کی قدر نہیں کی۔یہ غلط فہمی (غالب کے بارے میں بیشتر دوسری غلط فہمیوں کی طرح خود غالب کی پھیلائی ہوی ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اُن کو اپنی زندگی ہی میں جتنی مقبولیت حاصل ہوگئی تھی اتنی اقبال کے سواشاید کسی اور اُردو شاعرکو جیتے جی ہاتھ نہ آسکی۔
ظاہر ہے اس استمراری مقبولیت کی بنیاد غالب کی شاعری پر قائم ہے جس کی مختلف خصوصیتیں مختلف زمانوں اور مختلف حلقوں میںان کو اردوکاصفِ اوّل کا شاعر تسلیم کراتی رہیںاور ایک مدت تک غالب کویہ امتیاز حاصل رہاکہ اردوکے کسی اہلِ قلم پر اُن سے زیادہ کتابیں اور مضامین نہیں لکھے گئے(اب اس خصوص میں اقبال غالب سے آگے ہیں)۔
لیکن غالب کی شاعری میں کچھ عناصر ایسے بھی ہیں جن کی موجودگی میں یہ شاعری مجموعہ¿ اضداد نظر آنے لگتی ہے اوریہ ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ جو شاعرایسے شعرکہہ سکتا ہو:

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ توکیا ہے
تمھیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے

زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی
کیوں ترا راہ گزر یاد آیا

تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پُرزے
دیکھنے ہم بھی بھی گئے تھے، پہ تماشا نہ ہوا

میں نے کہا کہ ”بزمِ ناز چاہےے غیر سے تہی“
سُن کے ستم ظریف نے مجھ کو اُٹھا دیا کہ یوں!

پُر ہوں میںشکوے سے یوں راگ سے جیسے باجا
اک ذرا چھیڑےے پھر دیکھےے کیا ہوتاہے
اُسی شاعر نے ایسے شعر بھی کہے ہیں:
عشق بے ربطیِ شیرازہ¿ اجزاے حواس
وصل زنگارِ رُخِ آئنہ¿ حسنِ یقیں

بے خونِ دل ہے چشم میں موجِ نگہہ غبار
یہ مے کدہ خراب ہے مے کے سراغ کا

بے خودی بسترِ تمہیدِ فراغت ہو جو
پُر ہے سائے کی طرح میرا شبستاں مجھ سے

ہے کُشادِ خاطرِ وابستہ در رہنِ سخن
تھا طلسمِ قفلِ ابجد خانہ¿ مکتب مجھے

معلوم ہوا حالِ شہیدانِ گزشتہ
تیغِ ستم آئینہ تصویر نما ہے
بلکہ یہی شاعر ایسے شعربھی کہہ چکاتھا:
کرتی ہے عاجزی سفرِ سوختن تمام
پیراہنِ خَسَک میں غُبارِ شرر ہے آج

جوہرِ آئینہ فکرِ سخن موے دماغ
عرضِ حسرت پسِ زانوے تامّل تاچند

کرے ہے لطفِ اندازِ برہنہ گوئی خوباں
بہ تقریبِ نگارش ہاے سطرِ شعلہ یاد آتش

چشمِ پرواز و نفس خفتہ، مگر ضعفِ امید
شہپرِ کاہ پےِ مُژدہ رسانی مانگے

نگہہ معمارِ حسرت ہاچہ آبادی چہ ویرانی
کہ مژگاں جس طرف وا ہو بہ کف دامانِ صحرا ہے
عرصے تک اُردو کا تنقیدی مزاج اور ہمارا ادبی مذاق غالب کے اس کلام سے ہم آہنگ نہ ہوسکا۔ یہاں غالب نے نامانوس ،خلافِ محاورہ اور فارسی نمااُردو میں پیچ در پیچ استعاروں کے ذریعے ایسے غریب مضامین باندھے اور ایسے انوکھے شعری پیکر خلق کےے تھے جن کا ہماری مانوس دنیاکی حقیقتوں سے بہ ظاہر کوئی تعلق نہ تھااوراسی وجہ سے ان شعروں کو مشکل اور مبہم ہی نہیں، مہمل کہہ کربھی مستردکیا جاتاتھا۔ خود غالب نے معذرت کے انداز میں اِن ’مضامینِ خیالی‘ سے ا پنی وقتی دل بستگی کا اعتراف کیااو ریہ اعلان بھی کیاکہ بعدمیں وہ راہ راست پر آگئے۔ اپنے شعری روےے میں تبدیلی کامزیداور مستحکم تر ثبوت انھوں نے اس طرح فراہم کیاکہ اپنابہت سا کلام خود مسترد کردیااور کہاکہ انھوں نے اپنے اس قسم کے شعروں والے ابتدائی ”دیوان کو دور کیا،اوراق یک قلم چاک کےے، د س پندرہ شعر واسطے نمونے کے دیوانِ حال میں رہنے دےے“۔ اپنے اس منتخب اور متداول دیوانِ حال کے دیباچے میں غالب نے یہ بھی اعلان کردیاکہ جو شعراس دیوان میں شامل نہیں ہیں انہیںمیرے ”آثارِ تراوشِ رگِ کلک“ میں نہ سمجھا جائے اور مجھ کو ان شعروں کی تحسین سے ممنون اور تنقیص میں ماخوذ نہ کیا جائے۔
اس طرح غالب نے وقتی طورپر ادبی دنیاکوایک بہت بڑے مغالطے میں ڈال دیا۔ وہ یہ کہ اُن کا وہ مشکل کلام، جسے سہولت کی خاطر ’بیدلانہ‘ کلام کہا جاسکتاہے، عمدہ اور اصلی شاعری کے معیار پر پورانہیں اُترتا، اور خود غالب کے اعلانِ برا¿ت کے بعد قابل اعتنا نہیں رہ جاتا۔ یہ سراسر آوردکی شاعری ہے جس کے پسِ پُشت شاعرکے حقیقی جذبات و خیالات کارفرما نہیں ہیں اوریہاں غالب مناسب پیرایہ¿ اظہار میں عام انسانی واردات کی عکاسی کرنے کے بجاے اپنے غیر معتدل اور پیچیدہ ذہن کی بھول بھلیاں میں بھٹکنے لگے ہیںاور کم عمری کی وجہ سے عجزِ بیان کاشکارہوئے ہیں۔
لیکن عہدِ جدید میں یہی کلام غالب کی مقبولیت کاتازہ سبب بنااور جن عناصرکی بناپر ابھی تک اسے لائقِ اعتنانہیں سمجھا گیاتھاانہیںعناصر نے اسے جدید ذہن کے لےے سب سے زیادہ قابلِ توجّہ اور قابلِ قبول ٹھہرایا۔ اس انقلاب کا بڑا سبب اُرد ادب میں جدیدیت کا فروغ اور اس سے وابستہ تنقیدی نظریات ہیں۔ ان نظریات کے تحت شعرمیں اظہار و ابلاغ کے مسائل خاص طورپر زیرِ بحث آئے اور جدید نقادوں نے جن امورپر زوردیاوہ مجملاً یہ ہیں:
ضروری نہیں کہ شعرکے جو معنی شاعرکے ذہن میں ہوں وہی قاری کی بھی سمجھ میں آئیں۔ مکمل ابلاغ، یعنی بات کواس طرح کھول کر کہہ دیناکہ وہ فوراً اور پوری کی پوری واضح ہوجائے، شعرکی خوبی نہیں۔ شعرکی خوبی یہ ہے کہ اسے سمجھنے کے بعدبھی اس میں کچھ مفاہیم باقی رہ جانے کااحساس ہو۔کسی بھی کلام کو یقین کے ساتھ مہمل نہیں کہا جاسکتا، علی الخصوص مبہم کلام کو۔ ابہام شعرکا عیب نہیں، حسن ہے۔ مبہم شعر ٹھیک سے سمجھ میں نہ آنے کے باوجود اچھامعلوم ہو سکتا ہے اور مختلف النّوع تاثّر پیدا کرسکتاہے۔ شعرکی زبان کو زیادہ سے زیادہ غیر رسمی اور نثرکی زبان سے زیادہ سے زیادہ دُور ہونا چاہےے۔ بالواسطہ، استعاراتی اور علامتی پیرایہ شعرکابہترین پیرایہ ہے، وغیرہ۔ مثالیں دینے کی ضرورت نہیں، ان کے بغیربھی سمجھا جاسکتاہے کہ یہ سارے تنقیدی خیالات غالب کے بیدلانہ کلام کاجواز فراہم کر رہے ہیں، درحالے کہ اِن کا اصل مقصد جدید شاعری کاجواز فراہم کرنااور اُن الزاموں کارفع کرناتھاجو شروع میں جدید شاعروں پر بہ کثرت وارد ہو رہے تھے اور جن کا لُبِّ لباب یہ ہے کہ ان شاعرو ںکے کلام کا بیشتر حصہ چیستانی، مبہم، بلکہ مہمل ہے، انہیں زبان کے استعمال کا سلیقہ نہیں اور وہ مطابقِ محاورہ فصیح زبان کے بجائے مصنوعی اور نامانوس زبان استعمال کرکے عجزِ بیان کا ثبوت دے رہے ہیں۔ یعنی جدید شاعروں کوبھی انہیں اعتراضوں کا سامنا کرناپڑاجن سے غالب دوچار ہوئے تھے۔اس طرح فطری طورپر غالب جدید شاعروں اور نقادوں کے مزاج کے قریب آگئے اور اُن کی استمراری مقبولیت نے عہدِ جدید میں اپنے لےے تازہ اسباب پیدا کرلےے۔ لیکن اس سے یہ غلط فہمی نہ ہوناچاہےے کہ عہدِ جدید کاذہن غالب کے صرف بیدلانہ شعروں کی بناپر اُن کو پسند کرتاہے۔ یہ ذہن اِن شعروں کو قبول کرتااور لائقِ تحسین مانتاہے اگرچہ اُسے اِن شعروں کی بناپراُن کو پسند کرتاہے۔ یہ ذہن اِن شعروں کو قبول کرتااور لائقِ تحسین مانتاہے اگرچہ اُسے اِن شعروں کے مفاہیم روشن نہ ہونے کا اعتراف بھی ہے، لیکن اِن شعروں سے قطع نظر غالب کے نسبتہً صاف اور سہل شعروں نے بھی عہدِ جدید کے سیاق و سباق میں نئی معنویت پیدا کرلی ہے اور مجموعی حیثیت سے بھی نیاعہد دوسرے تمام کلاسیکی شاعروں سے زیادہ غالب کو اپنے ذہن کے قریب پاتااور غالب کو جدید ذہن کا مالک جانتاہے۔ اس لےے کہ تفکر، تشکیک اور ناآسودگی کے احساس کی وہ صورتیںجو عہدِ جدید کاخاصّہ ہیں، غالب کے یہاں بھی مل جاتی ہیں۔ اسی لےے شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:
”اُردو کے تمام بڑے شاعروں میںغالب سے زیادہ ذاتی اور کائناتی المےے کااحساس کسی کونہیں تھااور بیسویں صدی کے ذہن کی جیسی پیش آمد (Anticipation)غالب کے یہاں ہے ویسی بیسویں صدی کے بھی بہت سے شعراکونصیب نہیںہوی۔“
دوسرے جدید نقادبھی فاروقی کے ہم نوا ہیں۔ اس سلسلے میں غالب کے بہت سے ایسے شعر عہدِ جدید کے ادبی پیش منظرپر روشن ہوئے جن کواس سے قبل زیادہ توجہ کا مستحق نہیں سمجھا گیاتھا،مثلاً:
ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
کوئی آگاہ نہیں باطنِ ہم دیگر سے
ہے ہراک فرد جہاں میں ورقِ ناخواندہ
دیر و حرم آئینہ¿ تکرارِ تمنا
واماندگیِ شوق تراشے ہے پناہیں
ہوں گرمیِ نشاطِ تصوّر سے نغمہ سنج
میں عندلیبِ گلشن ناآفریدہ ہوں
ہجومِ سادہ لوحی پنبہ¿ گوشِ حریفاں ہے
وگر نہ خواب کی مضمر ہیں افسانے میں تعبیریں
آخر میں اس نئی صورتِ حال کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ عہدِ جدید میں غالب نے بیرون ِ ملک بھی ذہنوں کو متاثرکیاہے اور اس اثراندازی کے اسباب غالب کی شخصیت اور شاعری ہی کی طرح مختلف بلکہ متضاد ہیں۔ روسی نقّاد غالب کا مطالعہ کرتے ہیں توانہیں سماجی شعور، عوام دوستی اور سامراج دشمنی میں اپنے معاصروں سے آگے پاتے ہیں۔جدید امریکی شاعرہ ایڈرین رِچ کو جب غالب کی کچھ غزلوں کے انگریزی ترجمے دےے گئے تو اُسے ان غزلو میں خیال کے ارتکازاور ہمہ گیری کی بہ یک وقت موجودگی نے حیران کردیا۔ اُس نے ان اشعار کے مضامین کو انگریزی میں نظم کیااور اعتراف کیاکہ غالب کے شعروں کو انگریزی نظم کے سانچے میں ڈھلنے کے لےے اُسے ایسے واضح نقوش اور پیکر تیار کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی جن کے پیچھے پرچھائیوں، بازگشتوں اور عکس در عکس کاایک سلسلہ موجودہو،اور ان نظموں کااجمال اورچُستی مغربی قارئین کو جاپانی ہائکو، یاالگزنڈرپوپ یایونانی شاعری کی بیتوںکے اجمال اور چستی سے بالکل مختلف ہو۔
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عہدِ جدید میں غالب کی مقبولیت نے اپنے لےے نئے میدان تلاش کرلےے ہیں اور آئندہ زمانوں میں بھی غالب کاانتظار کر رہی ہے۔

English Hindi Urdu