Print Friendly, PDF & Email

عہد غالب کے کلکتہ کی اہم ادبی اور سیاسی شخصیات

شمیم طارق

عہد غالب کے کلکتہ کی اہم ادبی اور سیاسی شخصیات

۸۲/ نومبر ۵۲۸۱ء کو نواب احمد بخش خاں کی معیت میں غالب، سر چارلس مٹکاف اور ان کی فوجوں کے ہمراہ دہلی سے بھرت پور کی طرف روانہ ہوئے۔ یہی ان کے سفر کلکتہ کا آغاز ہے کہ اس سفر کو ختم کرکے وہ ۹۲/ نومبر ۹۲۸۱ء کو ہی دہلی پہنچے۔ ان کے کلکتہ پہنچنے کی تاریخ تو اور بعد کی یعنی ۹۱/ یا ۱۲/ فروری ۸۲۸۱ء ہے۔ کالی داس گپتا رضا نے غالب کے سفر کلکتہ کی جو توقیت تیار کی ہے اس میں انھوں نے غالب کے ایک خط کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ ۵۱/ اگست کو کلکتہ سے دہلی کے لیے روانہ ہونے والے تھے مگر وسط اکتوبر تک انھیں یہ سفر ملتوی کرنا پڑا۔ ۱؎ تاریخوں میں اختلاف ہوسکتا ہے مگر یہ تو طے ہے کہ غالب جتنی مدت کلکتہ میں قیام پذیر رہے اس کو ”عہد“ نہیں کہا جاسکتا، عہد تو ایک خاص عرصہ، طویل مدت یا زمانہئ حکومت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اس لیے عہد غالب سے وہ پورا زمانہ مراد لینا ضروری ہے جو غالب کی پیدائش (۷۲/ دسمبر ۷۹۷۱ء) سے موت (۵۱/ فروری ۹۶۸۱ء) تک کو محیط ہے۔

اس عہد کی خاص شخصیتوں کا ذکر کرنے سے پہلے چند اہم باتوں یا خصوصیتوں کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ پہلی یہ کہ ۹۹۷۱ء میں ٹیپو سلطان کو شکست دینے اور ان کی سلطنت کو ختم کردینے کے بعد اول پچیس برسوں میں انگریز اپنے اقتدار کے پائے مستحکم کرتے رہے۔ دوسری یہ کہ ۴۱۸۱ء سے ۷۵۸۱ء کے درمیانی عہد میں انگریزوں کو برما اور سکھ فوجیوں کے علاوہ سیّد احمد شہید کے معتقدین اور افغان مجاہدین سے جنگیں لڑنی پڑیں۔ اس لیے اس کو انگریزوں کے اضطراب و بے چینی کا زمانہ کہا جاسکتا ہے۔

تیسری یہ کہ اس مدت میں تحریک اصلاحِ مذہب اپنا دائرۂ اثر بڑھاتی رہی۔ چوتھی یہ کہ اس دوران بنگلہ زبان کا ادب جو فورٹ ولیم دور، راجہ رام موہن رائے دور، نوجوان بنگال اور سم واد پربھاکر دور اور پھر ودیا ساگرتتوبودھنی دور پر محیط ہے اور جو ۵۱۸۱ء سے ۶۵۸۱ء تک پھیلا ہوا ہے ایک تخلیقی کرب سے گزر رہا تھا جس کے انقلابی نتائج برآمد ہوئے۔ ان چاروں خصوصیتوں کے حوالے سے کلکتہ میں کئی اہم شخصیات کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ مگر ایک مضمون میں سب کی نشاندہی کرنا ممکن نہیں ہے۔

اردو زبان و تہذیب کے پس منظر میں یہ باور کرایا جاسکتا ہے کہ جنگ پلاسی کے بعد جب انگریزوں نے بنگال کو اپنے مستقر کی حیثیت دی، فورٹ ولیم کالج کا دائرۂ اثر بڑھا، شاعروں اور ادیبوں کے اجتماع نے کلکتہ کو دہلی اور لکھنؤ کے لیے قابل رشک بنایا تو کلکتہ کے علاوہ فرید پور، چاٹگام، ڈھاکا، منشی گنج، ھوگلی، پنڈوہ اور مالدہ وغیرہ میں اردو شاعروں اور ادیبوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ صرف کلکتہ کے اردو شاعروں اور ادیبوں کے حوالے سے جو نام لیے جاسکتے ہیں ان میں مولوی عبدالکریم آشنا، راجہ جنم جی متر ارماں، مولوی عبدالصمد عرف محبوب جانِ اعظم، پنڈت جوالہ ناتھ آگہ، مولوی وجہہ اللہ خاں داغ، منشی اتواری لعل ذرہ، منشی مسیح الدین تمنا، راجہ راج کشن راجہ، سیف اللہ سیف، منشی عبدالسبحان شاکر، مغل جان شور، اسحق یہودی عبری، منشی قادر بخش، بابو کشن چند گھوش، راجہ پورب کشن بہادر کنور، عالم علی خاں مست، سید محمود مسرور، فرزند علی مسلم، میاں محمد حسین مشہور، منشی عبدالرحمن مواج، عباس علی نایاب، مولوی محمد علی وحدت، مولوی محمد عبدالروؤف وحید، راجہ کشن بہادر مشفق وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔

یہاں انقلابیوں اور سماجی مذہبی اصلاح پسندوں کی ایک جماعت بھی ایک زمانہ سے سرگرم تھی۔ مثلاً کلکتہ کے گرد و نواح اور بنگال کے دور دراز علاقوں میں سنیاسیوں کی بغاوت (۰۰۸۱ء – ۳۶۷۱ء) یا چواروں کی شورش (۹۰۸۱ء – ۷۶۷۱ء) اس وقت جاری تھی جب غالب کے پاؤں پالنے میں پڑ چکے تھے۔ ایسے معمر لوگ بھی ان کے زمانے میں موجود تھے جو ان بغاوتوں یا شورشوں کو غلط نہیں سمجھتے تھے۔ سنتھالیوں نے تو ۵۵۸۱ء میں اس وقت بغاوت کی تھی جب غالب کی ’مہر نیم روز‘ (۵ – ۴۵۸۱ء) تین بار شائع ہوچکی تھی۔ سماجی اور مذہبی مصلحین میں راجہ رام موہن رائے (۳۳۸۱ء – ۲۷۷۱ء)، ہنری لوئس ویویان ڈیروزیو (۱۳۸۱ء – ۹۰۸۱ء) دیبیندر ناتھ ٹیگور (۵۰۹۱ء – ۷۱۸۱ء)، ایشور چند ودیا ساگر (۱۹۸۱ء – ۰۲۸۱ء)، بنکم چندر چٹوپادھیائے (۴۹۸۱ء – ۸۳۸۱ء)، مائیکل مدھو سودن دت (۳۷۸۱ء – ۴۲۸۱ء)، دین بندھو مترا (۵۰۹۱ء – ۷۱۸۱ء)، سائنس دانوں میں مہندر لال سرکار (۴۰۹۱ء – ۳۳۸۱ء) کلکتہ کے اس دور کی اہم شخصیات ہیں۔ ان کی طبیعتوں اور سرگرمیوں میں فرق کی نشاندہی کی جاسکتی ہے مگر سب نے غالب کے عہد کا ایک حصہ پایا اور الگ الگ شعبوں میں غیر معمولی ذہانت کے سبب شہرت حاصل کی۔ کوئی تعجب کرسکتا ہے کہ مرزا قتیل یا ان کے شاگردوں کے نام یہاں نہیں لیے گئے مگر اس اعتراض سے پہلے ’نقد غالب‘ مرتبہ مختار الدین احمد میں شامل قاضی عبدالودود کی تحریر کا ذہن میں ہونا ضروری ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر غالب نے صاحب ’برہانِ قاطع‘ کے تعلق سے وہ رویہ نہ اختیار کیا ہوتا جو اختیار کیا تو مرزا قتیل اتنا مشہور نہ ہوتے۔ غالب کلکتہ اس لیے گئے تھے کہ اپنے لاولد چچا کا وارث ہونے کے سبب اس پنشن میں اضافہ کراسکیں جو انھیں نواب احمد بخش خاں کے توسط سے ملا کرتی تھی مگر پوری نہیں۔ پنشن کی پوری رقم نہ ملنے کی وجہ یہ تھی کہ نواب احمد بخش خاں نے پنشن پانے والوں میں مرزا حاجی (خواجہ حاجی) کا نام شامل کروا دیا تھا۔ خواجہ حاجی غالب کے خاندان کے ملازم تھے مگر چونکہ ان کی شادی مرزا جیون بیگ کی بیٹی اور مرزا اکبر بیگ و مرزا افضل بیگ کی بہن امیر النساء بیگم سے ہوئی تھی اس لیے ان کا رتبہ بڑھ گیا تھا مگر غالب کا یہ کہنا درست تھا کہ وہ پنشن کے حصہ دار نہیں۔ پنشن کی رقم کم ملنے کے سبب وہ معاشی تنگی اور بھائی مرزا محمد یوسف کی دیوانگی کے سبب کئی مصیبتوں میں گھرے ہوئے تھے اس لیے وہ کلکتہ میں کچھ لوگوں سے ملے تو ضرور، حتی کہ خواجہ حاجی کے برادرِ نسبتی مرزا افضل بیگ سے بھی ملے، کچھ مشاعروں میں بھی شریک ہوئے مگر ان کی تمام تر توجہ اپنے مقصد پر مرکوز رہی۔ وہ کلکتہ پہنچے تو باندہ کے صدر امین دیوان محمد علی کا ھوگلی کے نواب سید اکبر علی خاں طباطبائی کے نام سفارشی خط ان کے ساتھ تھا نواب نے ہی ان کی مہمانداری اور مدد کی۔

۸۲/ اپریل ۸۲۸۱ء کو انھوں نے گورنر جنرل کو مفصل عرضی پیش کی۔ مختلف انگریز افسروں سے ملاقات کی جدوجہد کی اور ان کی مدح میں اشعار بھی کہے مگر وہ مقصد پورا نہ ہوا جس کے لیے وہ کلکتہ پہنچے تھے۔ غالب کو کلکتہ تو بہت پسند آیا، اس کا انھوں نے جابجا شعروں اور خطوں میں ذکر بھی کیا ہے مثلاً

• غالب نے اپنے ایک قطعہ میں جس کا پہلا مصرع ”کلکتے کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں“ ہے کلکتہ کے ’سبزہ زار‘، ’نازنیں بتانِ خود آرا‘، ’میوہ ہائے تازۂ شیریں‘ اور ’بادہ ہائے نابِ گوارا‘ کا ذکر تو اہتمام سے کیا ہے مگر اس اہتمام سے کسی شخصیت کا ذکر نہیں کیا ہے۔

• غالب نے وہ قطعہ جس کا پہلا مصرع

ہے جو صاحب کے کف دست پہ یہ چکنی ڈلی

ہے، کے بارے میں حاتم علی مہر کو اواخر نومبر ۸۵۸۱ء میں خود ہی لکھا تھا کہ

”…. میں نے کلکتے میں کہا تھا۔ تقریب یہ کہ مولوی کرم حسین صاحب میرے ایک دوست تھے انھوں نے ایک مجلس میں چکنی ڈلی بہت پاکیزہ اور بے ریشہ اپنے کف دست پر رکھ کر مجھ سے کہا کہ اس کی تشبیہات نظم کیجیے۔ میں نے وہاں بیٹھے بیٹھے نو دس شعر کا قطعہ لکھ کر ان کو دیا اور صلے میں ڈلی ان سے لی۔“ ۲؎

وہ شخصیت یعنی مولوی کرم حسین جنھوں نے غالب سے چکنی ڈلی پہ اشعار کہلوائے کوئی غیر اہم شخصیت نہیں ہوسکتی۔ بعد میں یعنی غالب کے کلکتہ سے واپس آنے کے بعد شاہِ اودھ واجد علی شاہ اختر یہاں جلا وطن کرکے لائے گئے۔ اس واقعہ کی تاریخی حیثیت سے انکار ممکن نہیں۔ مولانا عبدالحلیم شرر نے اس دور کے ’مٹیا برج‘ کو جب شاہِ اودھ واجد علی شاہ اختر وہاں مقیم تھے دوسرا لکھنؤ کہا ہے۔ یہ قیام دو چار روز کا نہیں ۲۳، ۳۳ سال کا تھا۔ یہاں انھیں اس شک کی بنیاد پر گرفتار بھی کیا گیا کہ کہیں ۷۵۸۱ء کے مجاہدین انھیں اپنی تحریک میں شامل نہ کرلیں۔ واجد علی شاہ نے یہ تفصیلات اپنی مثنوی ”حزنِ اختر“ میں خود بیان کردی ہیں۔ فورٹ ولیم کے قید خانے میں وہ ۵۱/ جون ۷۵۸۱ء سے ۹/ جولائی ۹۵۸۱ء تک رہے۔ اس دوران ان کے اپنوں نے بھی کئی زخم دیے۔ ۱۲/ ستمبر ۷۸۸۱ء کی شب میں آخری سانس لی۔

عبدالغفور نساخ (۹۸۸۱ء – ۴۳۸۱ء) کا شمار ان شخصیات میں ہے غالب نے جن کے نام چند خطوط لکھے تھے مگر نساخ کی حیثیت محض غالب کے ایک مکتوب الیہ کی نہیں۔ وہ شاعر بھی تھے اور تذکرہ نویس بھی، نقاد بھی تھے اور نصاب کی کتابوں کے مؤلف بھی، اس کے علاوہ وہ ایک خود نوشت کے مصنف بھی ہیں۔ جمیل الدین عالی کے اس تعارف میں مبالغہ نہیں کہ

”مولوی عبدالغفور نساخ نہ دہلوی تھے نہ لکھنؤی، نہ دکنی نہ لاہوری، وہ مستند اور خاندانی بنگالی تھے مگر اردو کے اہم ستونوں میں شمار ہوتے ہیں۔“ ۳؎

سخن شعراء قطعہئ منتخب، تذکرۃ المعاصرین، قند پارسی اور زبان ریختہ کے نام سے نساخ نے پانچ تذکرے مرتب کیے تھے۔ نساخ نواب عبداللطیف کے چھوٹے بھائی تھے، وہ بھی اپنے بڑے بھائی کی طرح مجسٹریٹ ہونے کے علاوہ دوسرے عہدوں پر فائز ہوئے۔ ان کی شادی مغل شاہزادے مرزا ہمایوں بخت کی صاحبزادی سے ہوئی تھی۔ شادی سے تقریباً ایک سال پہلے ہی ان کا دیوان ’دفتر بے مثال‘ کلکتہ کے ’مظہر العجائب پریس‘ سے شائع ہوچکا تھا۔ انھوں نے یہ دیوان غالب کو بھیجا بھی تھا جس کی رسید کے طور پر غالب نے جو تعریفی خط لکھا تھا نساخ اس کو اپنے لیے سند سمجھتے تھے۔ ۸۶۸۱ء میں تپ دق کے علاج کے لیے جب وہ دہلی گئے تو غالب سے بھی ملاقات کی۔ جنوری ۰۷۸۱ء میں جب غالب کا انتقال ہوچکا تھا، علاج کی غرض سے ہی وہ دوبارہ دہلی آئے تو غالب کی سونی پڑی ڈیوڑھی کا دیدار کیا۔ نساخ کے معاصر اور دوستوں میں سید محمد عصمت اللہ انسخ کا نام بھی آتا ہے۔ ۳۶۸۱ء میں مٹیا برج کے ایک مشاعرے میں دونوں کی شرکت کی روایت موجود ہے۔ یہاں کے لکھنوی شعراء سے ان کی نوک جھونک بھی ہوئی تھی۔

یہ تو محض چند نام بلکہ اشارے ہیں۔ عہد غالب کے کلکتہ کی مشہور ادبی اور سیاسی شخصیات کی فہرست بہت طویل ہے۔ سوامی وویکانند (۲۰۹۱ء – ۳۶۸۱ء)، رابندر ناتھ ٹیگور (۱۴۹۱ء – ۱۶۸۱ء) اور جگدیش چندر بوس (۷۳۹۱ء – ۸۵۸۱ء) اگرچہ کلکتہ میں ہی پیدا ہوئے تھے اور کلکتہ کے علاوہ عالمی سطح پر بھی ناموری حاصل کی تھی مگر جب غالب نے دارِ فانی سے کوچ کیا (۹۶۸۱ء) تو ان کی عمر بہت کم تھی اس لیے یہاں کلکتہ کی مشہور ادبی سیاسی شخصیات میں ان ہی کا ذکر کیا گیا ہے جن کی عمر غالب کے انتقال کے وقت کم سے کم ۵۲ برس کو پہنچ چکی تھی یا اس سے زیادہ تھی یا وہ دنیا سے کوچ کرچکے تھے۔ ان میں پہلا نام راجہ رام موہن رائے (۸۳۸۱ء – ۲۷۷۱ء) کا ہے جنھوں نے رسالے لکھے، ویدانت کا ترجمہ کیا، مذہبی مباحثے کیے، دس سال تک کمپنی کی ملازمت کرنے کے بعد ۴۱۸۱ء میں ’آتمیہ سبھا‘ قائم کی۔ ستی، توہم پرستی اور مورتی پوجا کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ عوامی فلاح کے کئی کام کیے۔ وحدانیت کے حامی راجہ رام موہن رائے نے ۸۲۸۱ء میں برہمو سماج کی بنیاد ڈالی۔

ہنری لوئس ویویان ڈیروزیو (۱۳۸۱ء – ۰۹۸۱ء) آپ کی پیدائش ایک یوریشین خاندان میں ہوئی تھی۔ کلکتہ میں تعلیم پائی اور ذہین طالب علم ہونے کا ثبوت دیا۔ وہ صرف ۲۲ سال کی عمر میں انتقال کرگئے مگر بنگال کے نوجوان طبقے کو اس طرح بیدار کرگئے کہ آج بھی ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ انھوں نے تقلید اور سماجی نا انصافی کے خلاف آواز بلند کی جس سے نوجوان طلبا کی ایک جماعت بن گئی جو ’ڈیروزی‘ کہلاتے تھے۔ وہ سنسکرت کالج میں مدرس ہوئے، صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔ ’ایسٹ انڈین‘ نامی اخبار جاری کیا۔ ان پر نوجوان طلبا کا اخلاق بگاڑنے کا الزام عائد کرکے استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا گیا۔

ایشور چندر ودیا ساگر (۱۹۸۱ء – ۰۲۸۱ء) غریبوں اور بے کسوں کے دوست تھے اور ملک میں ایسی تعلیم کے فروغ کے لیے جدوجہد کررہے تھے جو یورپ کی عقل پرستی پر مبنی ہو حالانکہ وہ سنسکرت کالج کے فارغ التحصیل اور اپنشدوں کے ایسے شارح تھے جس میں مسلک انسانیت کو مقدم رکھا گیا تھا۔ انھوں نے بھی کئی فلاحی کام بلکہ کارنامے انجام دیے۔

ایلن آکٹیون ہیوم (۲۱۹۱ء – ۹۲۸۱ء) اگرچہ اسکاٹ لینڈ میں پیدا ہوئے تھے مگر ۹۴۸۱ء میں بنگال سول سرورس میں لے لیے گئے تھے اور سماجی برائیوں کو دور کرنے کی طرف خصوصی توجہ دے رہے تھے۔ ۲۸۸۱ء میں انھوں نے کلکتہ یونیورسٹی کے گریجویٹس کو جمع کرکے انھیں تحریک دلائی تھی کہ وہ اپنے ملک کو آزادی دلائیں۔ ۵۸۸۱ء میں جب کانگریس کا قیام عمل میں آیا تو وہ خود لندن گئے اور انگریزوں میں کانگریس کو مقبول بنانے کی کوشش کی۔ وہ کانگریس کے جنرل سیکریٹری بھی ہوئے اور آخری سانس تک ہندوستان کی آزادی اور ہندوستانیوں کی فلاح کے لیے سرگرم رہے۔

رام کرشن پرم ہنس (۶۸۸۱ء – ۸۳۸۱ء) ھوگلی کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے اور ۱۲ سال کی عمر میں ۴۲ پرگنہ میں کالی مندر کے پروہت ہوگئے۔ آپ کے معتقدین میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعداد زیادہ تھی۔ آپ نے ان میں خود داری و خود اعتمادی کا احساس پیدا کیا۔ وہ تمام مذاہب کی سچائی کو تسلیم کرتے تھے۔ ان کو یقین تھا کہ مخلوق کی بے غرض خدمت خدا کی بے غرض خدمت ہے۔

بنکم چندر چٹوپادھیائے (۴۹۸۱ء – ۸۳۸۱ء) نے بنگلہ میں نثر نگاری کا معیار قائم کرنے کے ساتھ کئی تاریخی اور سماجی ناول لکھے اور قوم پرستی کے ایک خاص مزاج کی ترویج و اشاعت کی۔ ’بندے ماترم‘ ان ہی کی تخلیق ہے۔ انھوں نے یورپ کے سوشلسٹ مفکرین سے متاثر ہوکر معاشی اور معاشرتی مساوات کے لیے بھی جدوجہد کی۔ ومیش چندر بنرجی (۶۰۹۱ – ۴۴۸۱ء)، راش بہاری گھوش (۱۲۹۱ء – ۵۴۸۱ء)، دیبیندر ناتھ ٹیگور (۵۰۹۱ء – ۷۱۸۱ء)، موتی لال گھوش (۲۲۹۱ء – ۷۴۸۱ء)، مہندر لال سرکار (۴۰۹۱ء – ۳۸۸۱ء) کے علاوہ کئی اور نام بھی اس فہرست میں شامل کیے جاسکتے ہیں مگر یہاں جتنے نام لیے گئے ہیں یا اشارے کیے گئے ان سے بھی واضح ہوجاتا ہے کہ عہد غالب کے کلکتہ میں مختلف شعبہئ حیات سے تعلق رکھنے والی ایسی شخصیات کی پوری کہکشاں موجود تھی جنھوں نے مستقبل کے ہندوستان کی تعمیر کے تصور کو عمل میں ڈھالنے کی راہ استوار کی۔ غالب کے عہد میں کلکتہ صنعتی اور تمدنی ترقی کی اس راہ پر گامزن ہوچکا تھا جس راہ پر بعد میں پورے ہندوستان کو خاص طور پر آزاد ہندوستان کو گامزن ہونا تھا۔

حواشی

۱۔ کالی داس گپتا رضا غالب درون خانہ ممبئی ۹۸۹۱ء ص ۰۹

۲۔ کالی داس گپتا رضا دیوان غالب کامل نسخہئ رضا ممبئی ۵۹۹۱ء، ص ۸۷۳

۳۔ جمیل الدین عالی حرف چند مشمولہ ’نساخ – حیات و تصانیف‘ ڈاکٹر محمد صدر الحق کراچی ۹۷۹۱ء، ص ۱

English Hindi Urdu