Print Friendly, PDF & Email

غالب ،بنارس اور مثنوی چراغ دیر

(پروفیسر یعقوب یاور جیسی جامع کمالات شخصیت اردو کیا دیگر زبانوں میں کم ہیں۔ وہ شاعر ، ناول نگار، نقاد ، محقق، مترجم اور ایک اچھے استاد کے طور پر اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ ان کی ہر تحریر غور و فکر، زبان و بیان پر قدرت کی وجہ سے اہل علم کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ پرو فیسر یعقوب یاور نے اپنے بین العلومی مطالعے کی بنا پر نہایت فکر انگیز مقالات لکھے ہیں۔ زیر نظر مقالہ اسی دعوے کی دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے 17-18 نومبر 2006 میں بنارس میں ایک قومی سمینار کاانعقاد کیا گیا تھا۔ یہ مقالہ اسی سمینار میں پیش کیا گیا تھا جو بعد میں غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے شائع ہونے والی کتاب ‘غالب اور بنارس’ میں شامل ہوا۔ پروفیسر یعقوب یاور نے اس مضمون میں عہد غالب کے بنارس کی سماجی اور ثقافتی صورت حال کو پیش کرتے ہوئے مثنوی ‘چراغ دیر’ کے فنی اور فکری پہلووں کو واضح کیا ہے۔ )

غالب ،بنارس اور مثنوی چراغ دیر


(1)
28 سال کے جوان العمر مرزا اسد اللہ خاں غالب نے 1825 میں اپنی خاندانی پنشن کی بازیافت کی کاوشوں کے تسلسل میں کلکتہ کا سفر کیا ۔اس دوران وہ بھرت پور،فیروز پور، فرخ آباد،کانپور،لکھنو،باندہ اور الہ آباد کی خاک چھانتے ہوئے 1826 کے اواخر میں بنارس بھی آئے ۔الہ آباد سے بنارس کا سفر انہوں نے بذریعہ کشتی طے کیا ،حالانکہ کچھ محققین کا خیا ل ہے کہ وہ بیل گاڑی سے آئے تھے (یہ شبہہ دراصل گذشتم کے اردو ترجمے کی ستم ظریفی ہے ۔لطیف الزماں خاں اور پر تو روہیلہ جیسے مترجمین نے اس کا ترجمہ ’پار کیا ‘کیا ہے ۔جب کہ اس کا صحیح ترجمہ’گزرے ‘ہونا چاہیے تھا ۔سچ یہ ہے کہ انہوں نے الہ آباد میں صرف قیام گاہ سے گنگا گھاٹ کی دوری بیل گاڑی سے طے کی تھی ۔بہر حال وہ بنارس آئے ،یہاں تقریباً ایک ماہ قیام کیا اور پھر کشتی کا انتظام نہ ہوپانے کے سبب بے دلی سے خشکی کے راستے عظیم آباد (پٹنہ) کے لیے روانہ ہوگئے ،جہاں سے مرشد آباد ہوتے ہوئے وہ فروری 1828 میں کلکتہ پہنچے ۔غالب کا قیام بنارس اپنے اندر کئی اسرار کا امین ہے جس پر سے محققین کی کوششوں کے باوجود ابھی تک پردہ نہیں اٹھایا جا سکا ہے ۔یہاں شاہراہ عام پر نہ چلنے کا عادی غالب اپنے مزاج اور رکھ رکھاؤکے خلاف ایک معمولی سرائے اورنگ آباد (بقول غالب نیرنگ آباد نو رنگ آباد)میں اترتے ہیں اور پانچ دن قیام کرنے کے بعد اسی سراے کی پشت پر ایک ایسی بڑھیا کا معمولی سا مکان کرائے پر لے کر رہتے ہیں جس کے پاس بقول خود غالب کے چراغ کے لیے تیل تک میسر نہ تھا اور جو کسی بخیل کی قبر سے بھی زیادہ تنگ تھا ۔اس وقت ان کے پاس پیسے کی کمی رہی ہو ایسی بات نہیں ہے ۔قرض کے ہی سہی وہ باندہ سے دو ہزار روپے لے کر آگے کے سفر پر روانہ ہوئے تھے ۔اپنے اس بظاہر بے سبب طویل قیام کے دوران وہ یہاں کی کسی قابل ذکر شخصیت سے ملے ہوں اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ قیام بنارس کی واحد شہادت خود مرزا کے خطوط ہیں۔بنارس سے متعلق تاریخ کی کسی بھی کتاب میں ان کی آمد کا نہ تو ذکر ہے نہ دوسری تفصیلات۔ہاں کچھ قصے کہانیاں ضرور ہیں جو بہت بعد میں گڑھی گئی معلوم ہوتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ غالب کی بنارس آمد اور قیام کو کسی مورخ نے لائق توجہ نہیں گردانا۔ وہ یہاں ایک اجنبی کی طرح نہایت خاموشی سے آئے ،رہے اور آگے کے سفر پر روانہ ہوگئے۔ممکن ہے غالب نے شعوری طور پر ایسا کیا ہو کہ لوگ اس شہر میں ان کی آمد اور موجودگی سے بے خبر رہیں۔شاید انہیں یہاں خاطر خواہ پذیر ائی کی امید نہ رہی ہو۔شاید الہ آباد میں رونما ہونے والے واقعات نے انہیں مردم بیزار بنا دیا ہوا ور کسی اجنبی سے ملنا انہیں خوفزدہ کر رہا ہو۔یا کچھ محققین کے خیال کے مطابق نوجوان غالب کسی حسین معشوقہ کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوگئے ہوں ،ایک شبہہ یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ وہ سرے سے اس شہر میں آئے ہی نہ ہوں اور مثنوی اور وہ خطوط جن میں اس شہر کی قصیدہ خوانی ہے وہ غالب کی دروغ بیانی کا ادنیٰ کرشمہ ہو،جسے انہوں نے یہاں سے گذرتے ہوئے غائبانہ قلم بند کر لیا ہو۔لیکن غالب کا یہاں سرے سے نہ آنا قرین عقل نہیں معلوم ہوتا ۔یہ بے حد کمزور شبہ ہے ۔کیونکہ غالب نے بنارس خصو صاً اورنگ آباد سرائے اور اس کے آس پاس کا منظر جس طرح بیان کیا ہے وہ غائبانہ ممکن نہ تھا ۔غالب نے اس شہر کی تعریف میں بڑی فراخ دلی سے کام لیا ہے۔ اس شہر کے تقدس ،قدرتی حسن اور خوش اخلاقی کا قصیدہ تو ان کی مثنوی ‘چراغ دیر’ اور احبا اور اقربا کو لکھے گئے مختلف خطوط ہیں ہی،ادبی اعتبار سے بھی یہ شہر ان کے لیے اہمیت رکھتا تھا۔ یہ ان کے روحانی استاد شیخ علی حزیں کا شہر تھا۔ انہیں یہاں کے عمایدین سے ملنا چاہیے تھا ۔ اس کے علاوہ بھی یہاں اس وقت ایسے لوگو ں کی کمی نہیں تھی جن سے وہ مختلف وجوہ کی بنا پر ملنا پسند کرتے ۔ غالب کی آمد کاز مانہ بنارس میں امن وامان کا زمانہ تھا ۔لوگ اطمینان اور سکون سے اپنے اپنے کاموں میں منہمک تھے ۔انگریزوں کے اقتدار کا عمل مکمل ہوئے یہاں کافی عرصہ ہو چکا تھا ۔اور مقامی مہارا جا اُدِت نارائن سنگھ اس حقیقت کو نہ صرف تسلیم کر چکے تھے بلکہ ایک طرح سے وہ انگریزوں کا ہی انتخاب تھے ۔اسرار کی ان تہوں کو ممکن حد تک کریدنے کے لیے غالب کی نفسیات ،صحت،ہندوستان میں سیاست کا بحرانی دور اور اس وقت کے بنارس کے سماجی،سیاسی،مذہبی اورادبی حالات کی واقفیت ضروری ہے۔اس مختصر مقالے میں ایسی ہی کچھ تفصیلات فراہم کر نے کی کوشش کی گئی ہے جو شاید آنے والے محققین کے لیے چراغ راہ ثابت ہو سکیں۔
غالب کے سفر کلکتہ کا یہ عہد جہاں ایک طرف دہلی میں سیاسی طور پر ہنگامہ آرائی اور انقلابی تبدیلیوں کا تھا وہیں بنارس میں ان ہنگاموں کے بعد کا سکوت طاری تھا ۔ بہ الفاظ دیگر یہاں چاروں طرف امن وامان کا دور دورہ تھا ۔جب غالب 18 نومبر 1825 کو دہلی سے نواب احمد بخش کی معیت میں مٹکاف سے ملاقات کی غرض سے ان کی فوج کے ہمراہ بھرت پور کے لیے نکلے تھے ،تو شمالی ہندوستان اور دہلی کے آس پاس کے علاقوں میں انگریزوں کی ریشہ دوانیاں اور غاصبانہ سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔ یہاں کے بیشتر علاقے ان کی تحویل میں آ چکے تھے ۔اور اب ان کی بری نگاہ تخت دہلی پر مرکوز تھی لیکن اس کام میں ابھی ایک آنچ کی کسر باقی تھی اور اس کے لیے انگریز ابھی مناسب وقت اورحالات کے اپنے حق میں ساز گار ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ دوسری طرف دہلی میں ہی نہیں سارے ہندوستان میں اجتماعی دفاعی لائحہ عمل کا فقدان تھا ۔مر کز کمزور تھا اور سارا ہندوستان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم تھا ۔ ہر حکمراں کی نظر میں وطن کی حفاظت کا مفہوم صرف اپنی ریاست کی حفاظت تھااور ہر شخص اس کے لیے کوشاں بھی تھا لیکن یہ چھوٹے چھوٹے راجا مہا راجا اور نواب اپنی چھوٹی چھوٹی فوجوں کی مدد سے انگریزوں کی بے پناہ طاقت کے سامنے بے بس تھے۔جن علاقوں پر انگریزوں کا قبضہ مکمل ہو چکا تھا وہاں تو ان کی حکمرانی تھی ہی لیکن جہاں ابھی یہ کام ہونا باقی تھا وہاں کے صاحب اقتدار لوگ کسی بھی وقت معزول کر دیے جانے کے خوف کے سائے میں مقامی ریزیڈنٹوں کی ناز برداری کرتے ہوئے کسی نہ کسی طرح اپنی حکومت کا نظم چلا رہے تھے ۔انہیں میں دہلی کا بد نصیب بادشاہ اکبر ثانی بھی تھا۔اگرچہ اورنگ زیب کے بعد سب سے زیادہ دنوں تک تخت پر بیٹھے رہنے کی خوش نصیبی انہیں کے حصے میں آئی تھی لیکن ان کے روز مرہ کا کام انگریزوں کی پنشن سے چل رہا تھا۔ ان کی تمام سرگرمیاں اور حکمت عملی اپنے لیے مزید مراعات حاصل کرنے تک محدود تھیں ۔ایسے میں رعایا کی فکر کون کرتا۔چنانچہ دہلی کے دوسرے پریشان حال لوگوں کی طرح غالب بھی اپنے روز مرہ کی ضروریات کی تکمیل میں مصروف تھے ۔ان کاموں میں ان کی اپنی خاندانی پنشن کے حصول کی تگ ودو بھی شامل تھی، جس کے وہ جائز طور پر مستحق تھے لیکن جو بدخواہوں کی بری نظر کا شکار ہو چکی تھی ۔ منظور شدہ دس ہزار روپے سالانہ کی پنشن بد دیانت سرپرستوں کے طفیل پہلے تو پانچ ہزار قرار پائی ۔ بعدہ ٗاس کی تقسیم میں چالیس فیصد یعنی دو ہزار روپے سالانہ پہنچ رہی تھی اس نا انصافی کے ازالے کے لیے وہ دہلی کے ریزیڈنٹ چارلس مٹکاف سے ملاقات کرنا چاہتے تھے ۔وسیلے کے طور پر انہوں نے نواب احمد بخش کی مدد لی جو ان کی سادہ لوحی پر دلالت کرتا ہے ۔ اس کا جو نتیجہ نکلنا تھا وہی نکلا۔نواب احمد بخش غالب کو مٹکاف سے ملوانا نہیں چاہتے تھے ۔ اور جب تک غالب کو یہ بات سمجھ میں آتی مٹکاف کہیں کا کہیں پہنچ چکا تھا ۔اور وہ فیروز پور میں بیٹھے احمد بخش کا انتظار کر رہے تھے ۔
مایوس ہو کر غالب نے خود اپنے طور پر مٹکاف سے ملاقات کا تہیہ کیا ۔انہیں معلوم ہوا کہ وہ جلد ہی کانپور پہنچنے والا ہے ۔انہوں نے بغیر وافرزاد سفر کے کانپور جانے کا ارادہ کر لیا۔ شایددہلی ہوتے ہوئے کانپور جانا ان کے لیے اس لیے ممکن نہ رہا کہ وہ قرض خواہوں سے بچنا چاہتے تھے جو اب اس امید میں تھے کہ غالب کو ان کی پنشن مل جائے اور ان کا قرض وصو ل ہو۔فرخ آباد کے راستے غالب کانپور پہنچے تو سخت علیل ہوگئے ۔اتنے بیمار کہ ان کا اٹھنا بیٹھنا اور چلنا پھرنا دو بھر ہو گیا ۔کانپور میں علاج کی سہولتوں کا فقدان کہیے یا لکھنو سے کچھ یافت کی امید،وہ لشتم پشتم کانپور سے لکھنو پہنچے۔وہاں چنددر چند وجوہ کی بنا پر ان کی مراد تو پوری نہ ہو سکی لیکن انہیں علاج کی سہولت میسر آگئی ۔چارلس مٹکاف کانپور آئے بھی اور گئے بھی لیکن ان سے ملاقات کا سوال ہی پیدا نہ ہوا ۔ اس نا کامی کے بعد غالب کلکتہ جانے کے بارے میں سوچنے لگے تھے ۔تاکہ وہاں براہ راست گورنر جنرل سے ملاقات کرکے اپنی عرض داشت پیش کر سکیں۔یہاں انہیں باندہ کے نواب ذوالفقار علی بہادر کی یاد آئی جن سے ان کے دیرینہ خاندانی مراسم تھے ۔ انہیں یقین تھا کہ نواب باندہ نہ صرف ان کا خاطر خواہ علاج کرا دیں گے بلکہ ان کے کلکتہ جانے کا بندوبست بھی کردیں گے ۔ انہوں نے سوچا کہ وہ کچھ دن باندہ میں آرام کرنے کے بعد سیدھے کلکتہ جاکر اپنی پنشن جاری کرانے کی کوشش کریں گے۔ چنانچہ وہ فوراً کانپور کے لیے روانہ ہوگئے اور وہاں سے فتح پور ہوتے ہوئے باندہ پہنچ گئے ۔یہاں کے طویل قیام میں بہتر علاج اور تیمارداری کا ان کی صحت پر خوشگواراثر پڑا ۔اب وہ اپنے اندر نیا حوصلہ محسوس کر رہے تھے ۔انہو ں نے نواب باندہ کی وساطت سے ایک مہاجن سیٹھ امین چند سے دو ہزار روپے کا قرض لیا اور کلکتہ کے لیے روانہ ہوگئے۔
باندہ سے روانہ ہوتے وقت ان کا ارادہ چلہ تارا کے پاس سے ،جو جمنا کنارے ایک چھوٹا سا گاؤں ہے ،دریائے جمنا عبور کر کے فتح پور جانے کا تھا ۔وہاں سے خشکی کے راستے الہ آباد جانے والے تھے ۔لیکن جس بیل گاڑی سے وہ چلہ تارا کے لیے روانہ ہوئے تھے شاید اس کی سست رفتاری نے ان کو اپنے منصوبے پر نظر ثانی پر مجبور کر دیا تھا ۔یہاں انہوں نے اپنے پروگرام میں دو نمایاں تبدیلیاں کیں۔اول یہ کہ اب ان کا ارادہ فتح پور جا کر خشکی کے راستے سفر کرنے کا نہیں رہا ۔اس کے بجائے انہوں نے دریائے جمنا میں بذریعہ کشتی سفر کو ترجیح دی۔کشتی سے سفر کرنا خشکی کے مقابلے نسبتاً آرام دہ بھی تھا ۔اس کی ایک وجہ برسات کی طغیانی کے بعد دریائے جمنا کے بہاو کا تیز ہو جانا بھی رہا ہوگا ۔کیونکہ اس طرح کم وقت میں زیادہ فاصلہ طے کیا جا سکتا تھا۔ انہوں نے اپنے سابقہ منصوبے میں دوسری تبدیلی یہ کی کہ وہ اب بنارس میں قیام نہیں کریں گے اور بنارس کا وقت الہ آباد میں گزاریں گے۔ جیسا کہ یہاں سے باندہ کے محمد علی خاں کے نام لکھے گئے ان کے خط سے ظاہر ہوتا ہے۔ یعنی کم از کم یہاں پہنچنے تک غالب کی نظر میں بہشت خرم وفردوس معمور،آئینہ گنگ بدست محبوب خوش رنگ ،عبادت خانہ ناقوسیاں وکعبہ ہندوستاں اور ممدوح ومحسوددہلی ،بنارس کی تقدیس ،اہمیت اور وقعت کم اور شہر ملعون،صحن جہنم ،بھوتوں کی ویران بستی ،محبت وحیا سے عاری پیروجواں کا خطہ ،اور وادی ہولناک الہ آباد میں وقت گزارنے کی خواہش زیادہ تھی۔ غالب بنارس کیوں آنا چاہتے تھے؟ اور بعد میں انہوں نے اپنا یہ ارادہ کیوں بدل دیا؟ ارادے کے باوجود وہ الہ آباد میں کیوں نہ رکے اور دوبارہ بنارس آنے اور یہاں ٹھہرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟یہ سب باتیں ابھی تشنہ تحقیق ہیں۔لیکن یہی باتیں ہیں جن کا تجزیہ کر کے ہم غالب کی نفسیات کو سمجھ سکتے ہیں ۔
بہتر ہوگا کہ آگے بڑھنے سے پہلے ہم مرزا غالب کے اس فارسی خط کے اردو ترجمہ کے کچھ ضروری اقتباسات کا مطالعہ کر تے چلیں جو انہوں نے باندہ کے اپنے رفیق محمد علی خاں کو الہ آباد اوربنارس کے بارے میں لکھا تھا ۔لکھتے ہیں:
”الہ آباد بھی کیا واہیات جگہ ہے ۔خدا اس ویران جگہ پر لعنت کرے کہ اس میں نہ کسی بیمار کے لائق دواہے اور نہ کسی مہذب انسان کے لائق کوئی شے ملتی ہے ۔ اس میں نہ مردوزن کا وجود ہے اور نہ اس کے پیرو جوان کے دل میں محبت ومروت ہے۔اس کی آبادی دنیا کے لیے روسیاہی کا باعث ہے ۔اس کی ویران بستی قابل کاشت زمین ہے ….اس ہولناک وادی کو شہر کہنا کتنی نا انصافی ہے اور کتنی بے حیائی ہے کہ انسان اس بھوتوں کی بستی میں رہے ۔صحن جہنم ….چونکہ اس شہر نے یہ سن لیا ہے کہ نیکوں کے صدقے میں بدوں کو بھی بخش دیں گے اس لیے اپنے تئیں ہزاروں امیدوں کے ساتھ بلکہ بصد ہزار خواری بنارس کے پہلو میں ڈال دیا ہے اور دریائے گنگا کو شفاعت کے لیے اس کی طرف روانہ کردیا ہے ۔
ہر چند کہ بنار س کی نازک طبیعت پر اس شہر روسیاہ کی طرف دیکھنا گراں ہے مگر اس اعتماد پر اس کادل قوی ہے کہ گنگا کا واسطہ درمیان میں ہے ۔بخدا اگر کلکتہ سے واپسی الہ آباد کے راستے ہوئی تو میں وطن آنے کا ارادہ ہی ترک کر دوں گا اور کبھی واپس نہ ہوؤں گا ۔بالجملہ ایک رات اور دن اس دیووں(بھوتوں) کی بستی میں ذریعہ بار برداری کے فقدان کے جرم میں قید رہ کر جب دوسرے روز ایک گاڑی مل گئی ،صبح کے وقت گنگا کنارے پہنچ کر بہت جلد ہوا کی طرح دریا پار کر لیا اور پائے شوق سے بنارس کی طرف چل دیا۔”
”بنارس میں ورود کے روز باد جاں فزا اور بہشت آسانسیم مشرق کی طرف سے چلی جس نے میری جاں کو توانائی بخشی اور دل میں ایک تازہ روح پھونک دی ۔اس ہوا کے اعجاز نے میرے غبار کو فتح کے جھنڈوں کی طرح بلند کر دیا اور اس نسیم کی لہروں نے میرے جسم میں ضعف کا اثر نہ چھوڑا۔
کیا کہنے ہیں شہر بنارس کے ۔اگر میں اس کو فرط دل نشینی کی وجہ سے قلب عالم کا سویدائے قلب کہوں تو بجا ہے ۔کیا کہنے ہیں اس آبادی کے اطراف کے ۔اگر جوش سبزو گل کی وجہ سے میں اسے بہشت روے زمین کہوں تو بجا ہے ۔اس کی ہوا مردوں کے بدن میں روح پھونک دیتی ہے ۔ اس کی خاک کے ہر ذرے کا یہ منصب ہے کہ مقناطیس کی طرح راہ روکے پاؤں سے پیکان خار کو کھینچ لے۔اگر دریائے گنگا اس کے قدموںپر اپنی پیشانی نہ ملتا تو وہ ہماری نظر میں اس قدر معزز نہ ہوتا ۔اور اگرخورشید اس کے درودیوار کے اوپر سے نہ گذرتا تو وہ اس طرح روشن اور تابناک نہ ہوتا ۔دریائے گنگا بہ حالت روانی گویا کہ بحر طوفاں خروش ہے۔ دریائے گنگا کا کنارا ملاءاعلیٰ کے ساکنین کا گھر ہے ۔سبزہ رنگ پری چہرہ حسینوں کی جلوہ گاہ کے مقابلے میں (یا اس کا عکس پڑ کر ) قدسیان ماہتابی کے گھر کتان کے ہوگئے ہیں (یہ شاعرانہ مفروضہ ہے کہ کتان کا لباس چاند کی روشنی میں پھٹ جاتا ہے) ۔اگر میں اس شہر کی کثرت عمارات کا ذکر کروں تو وہ سراسر مستوں کے ٹھکانے ہیں اور اگر میں اس کے اطراف کے سبزہ وگل کا ذکر
کروں تو وہ گویا سراسر بہار ستان ہے۔”
”اب ایک بہت بڑا مسئلہ میرے پیش نظر ہے اور اس بارے میں اگر دل شماتت اعدا سے زخمی نہ ہوتا تو بے خوف دین کو ترک کر دیتا ۔تسبیح کو توڑ دیتا،تلک لگا لیتا ۔جنیو پہن لیتا اور اس وضع سے اتنے عرصے گنگا کے کنارے بیٹھا رہتا کہ اپنے آپ سے آلائش ہستی کی گرد دھو ڈالتا اور قطرے کی طرح دریا میں گم ہو جاتا۔اس ارم آباد میں قدم رکھتے ہی کوئی علاج کیے یا کوئی دوا پیے بغیر ہی نئے عوارض کی تکلیف رفع ہوگئی ہے بلکہ میں یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ اصل مرض کا کچھ حصہ بھی کم ہوگیا ہے ۔مرکبات معمول میں سے جتنی بھی میں فراہم کر پاتا ہوں اس کا سبب مستقبل میں مرض سے تحفظ سے بطور حزم واحتیاط ہے ورنہ اب نہ تو تلافی ماضی منظور ہے اور نہ رعایت حال۔”
”ہر چند کہ مجھے اس امر پر سخت اصرار ہے کہ آپ جلد از جلد جواب دیں ،لیکن دل گم نامی اور ہیچ کسی کی شرم سے ہزار چھریوں سے زخمی ہے ،کیونکہ میں جس مکان میں مقیم ہوں وہ ایک ضعیفہ کا ہے جو روغن چراغ سے بھی محتاج ہے ۔اس کے گھر میں جو کا دانہ تک نہیں ہے ۔اس گاؤں کی طرح ویران ہے جس کے ساکنین خراج کے خوف سے گھر چھوڑ بھاگے۔نہ تو اس کے پہلو میں بازار نام کی کوئی چیز ہے اور نہ اس کے قریب کوئی شاندار محل۔لہٰذا خط کے پتے پر کیا لکھا جائے اور خود پیک خیال ہی نامہ بر ہو تو وہ تلاش میں آخر کس دروازہ پر جائے گا ؟میر ے مخدوم !مکتوب کو اس کے مکتوب الیہ کے ساتھ خدا کے سپرد کر کے لفافہ پر پتہ لکھ دیجیے ۔محلّہ نورنگ آباد ،عقب سرائے نورنگ آباد ،قریب حویلی گوسی خانساماں ،درحویلی مٹھالی ومیاں رمضان،اسد اللہ غریب الوطنی تازہ وارد کوملے۔”
(تمام اقتباسات’مکتوبات غالب،نامہ ہائے فارسی غالب مرتبہ سیدا کبر علی ترمذی مترجمہ لطیف الزماں،صفحہ ۵۷ تا ۳۸ سے ماخوذ)
غالب کی نفسیات کو سمجھنے کے لیے مندرجہ بالا حالات اور ان کے فارسی مکتوب کے درج بالااقتباسات کے ساتھ ان کے دل میں ہونے والی کشمکش کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے ۔خود ان کے بقول وہ اس وقت بیس ہزار روپے کے مقروض تھے اور دہلی میں قرض خواہوں کو منھ دکھانے کے لائق نہیں رہ گئے تھے ۔ کم از کم وہ ایسا سمجھ رہے تھے ۔گھر کے حالات بھی دگرگوں تھے ۔ان کے بھائی مرزا یوسف کے جنون اور علاج کا معاملہ ساتھ ساتھ چل ہی رہا تھا اور ایسے نا گفتہ بہ حالات میں ان سب کو چھوڑ کر کلکتہ کے سفر کا ارادہ کرنے کا عمل ان کے لیے سفر کی صعوبتوں سے کم اذیت ناک نہیں تھا ۔انہوں نے یہ سفر کیا تو یہ بات خودبہ خود واضح ہو جاتی ہے کہ وہ پیسوں کی قلت کس شدت سے محسوس کر رہے تھے۔بنارس آنے کے بعد اس طرف سے تو ان کو بے فکری تھی کہ یہاں ان کا کوئی ایسا شناسا نہیں تھا جسے دیکھ کر انہیں شرمندہ ہونا پڑتا ۔پھر قیام بنارس کے دوران ان کا کسی قابل ذکر شخص سے ملاقات نہ کرنا یہ ظاہر کرتاہے کہ نا معلوم وجوہ کی بنا پر وہ یہاں کسی سے ملنا نہیں چاہتے تھے ۔اورنگ آباد سرائے جیسی نامانوس جگہ پر خاموش قیام اسے مزید پر اسرار بنا دیتا ہے ۔ان حالات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے اس وقت کے بنارس پر ایک نظر ڈال لیں تو کم از کم یہ اندازہ ہو کہ کیا اس وقت کچھ ایسے لوگ اس شہر میں تھے جن سے غالب کو ملنا چاہیے تھا؟
انیسویں صدی کا آغاز بنارس کے لیے اچھا ثابت ہوا تھا ۔پہلی دہائی میں ہی یہاں دو بڑے ہندو مسلم فسادات ہو چکے تھے ،جن میں لا تعداد لوگوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتا اور متعددعمارات نذر آتش یا مسمار کر دی گئیں ۔پہلا فساد اس وقت ہوا جب محرم کے جلوس کے دوران لاٹ کی عید گاہ کو امام باڑے کے طور پر استعمال کیے جانے سے روکنے پر وہاں ایستادہ ستون کو مسلمانوں نے ہٹانے کی کوشش کی۔پتھر کا یہ ستون (لاٹ بھیرو) ہندؤں میں بڑا مقدس سمجھا جاتا تھا۔مسلمانوں کی اس کو شش سے ہندو بگڑ گئے اور اس کے نتیجے میں سارے شہر میں مسلمانوں کی اجتماعی مار کاٹ کا سلسلہ شروع ہوا جو اس وقت کے مجسٹریٹ
ڈبلیو ڈبلیو برڈ کی کوشش کے باوجود کافی دنوں تک جاری رہا۔
مصنفہ کبیر ناتھ سگل )Down the Ages Varanasi)
چند سال بعد 1809 میں دوسرا اور پہلے سے کچھ زیادہ تباہ کن فساد ہوا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ کچھ راجپوت ہندؤں نے وشوناتھ مندر کے سامنے ،گیان واپی مسجد کی قبلہ رخ دیوار سے ملحق ایک نئے مندر کی تعمیر شروع کر دی تھی جسے مسلمانوں نے گرا دیا۔ دوسرے دن یہاں پر ہندؤں کی بھیڑ جمع ہوئی ۔جسے اس وقت کے مجسٹریٹ نے سمجھا بھجا کر واپس کر دیا ۔اسی دوران یہ افواہ پھیل گئی کہ مسلمانوں نے لاٹ کاستون گرا دیا اور اس مقدس مقام پر ایک گائے کی قربانی دی ہے ۔اس خبر سے گائے گھاٹ پر مسلمانوں اور ہندؤں کے درمیان شدید جھڑپ ہوئی جس میں80 مسلمان مارے گئے ۔یہ تو محض شروعات تھی بعد میں یہ فساد دونوں طرف کے سینکڑوں لوگو ں کی جان لے کرٹلا۔ (کاشی کا اتہاس:مصنفہ ڈاکٹر موتی چندر) ۔اس فساد کے بعد 1852 تک یہاں کسی قسم کا تناؤنہیں رہا ۔یعنی غالب کے یہاں آنے کے وقت بنارس کے حالات معمول پر تھے اور یہاں چاروں طرف امن وامان تھا۔
بنارس میں رونما ہونے والے ان ناگوار واقعات کے اسباب دراصل اٹھارہویں صدی کے اواخر میں پوشیدہ تھے ۔وارن ہیسٹنگز کے دوسرے حملے میں مہار اجا چیت سنگھ کی شکست اور فرار کے بعد انگریز سازش کے تحت شعوری طور پر یہاں کے ہندؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفاق پیدا کرنا چاہتے تھے ۔اس کے لیے انہوں نے مذہب جیسے نازک ہتھیار کا استعمال کیا ۔یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ شاہ عالم کے بیٹے جواں بخت جہاندار شاہ نے بنارس کو اپنا مستقل مسکن بنا لیا تھا ۔اول اول انہیں انگریز حاکم کچھ احترام دے رہے تھے لیکن بعد میں لارڈ کارن والس نے ان سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ وہ اپنی پرانی شان وشوکت بھول جائیں اور انہیں پنشن کی مد میں جو 25000 روپے ماہانہ مل رہے ہیں اسی میں اپنی گزر بسر کریں ۔وہ ان کے بنارس میں رہنے سے بھی خوش نہیں تھا۔لیکن جلد ہی جہاندار شاہ کی موت ہوگئی ۔ان کی موت کے بعد ان کی اولادوں کی پنشن میں مزید تخفیف کرتے ہوئے اسے 25000 ماہانہ سے 18000 کر دیا گیا ۔اس میں سے ان کی بیگم قتلک سلطان کو 11000 روپے ماہانہ ،جس میں مرزا خرم بیگ اور مرزا مظفر بیگ کی پرورش کی رقم بھی شامل تھی ،بڑے بیٹے مرزا شگفتہ بیگ کو 4000 روپے ماہانہ اور بیٹی جہان آبادی بیگم کو 2000 روپے ماہانہ طے ہوئے۔ان تفصیلات سے محض یہ بتانا مقصود ہے کہ غالب کی بنارس آمد کے وقت جہاندار شاہ کے افراد خاندان مرزا شگفتہ بیگ اور مرزا خرم بیگ وغیرہ یہاں موجود تھے ۔جو اگرچہ انگریزوں کے معمولی پنشن خوار اور مالی اعتبار سے کمزور ہو چکے تھے لیکن جن میں اب بھی لارڈ کارن والس جیسوں کو خلعت سے نوازنے کا جذبہ موجود تھا۔ یہ مغل شہزاد گان تخت دہلی اب بھی شہر کے معززین میں شمار کیے جاتے تھے اور غالب کو ان سے ملاقات کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہونا چاہیے تھی ۔
اس وقت بنارس کی دنیائے قرطاس وقلم بھی خاصی آباد تھی ۔ یہاں فارسی وارد وادبیات کے مختلف میدانوں سے تعلق رکھنے والے ایک سے ایک اعلیٰ مرتبہ لوگ موجود تھے۔ممکن ہے غالب اس دوران یہاں کے کچھ سنسکرت علما سے ملے ہوں ۔کیونکہ ان سے ایک عام انسان،ایک عام طالب علم کی حیثیت سے ملنے میں ان کے قیام کے راز کے طشت ازبام ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں ہو سکتا تھا ۔لیکن چونکہ اس کی کوئی شہادت نہ تو غالب کے خطوط سے ملتی ہے اور نہ کسی دوسرے ذریعے سے ۔اس لیے اس شعبے کو نظر انداز کر دینا ہی بہتر ہوگا۔فارسی علم وادب کی دنیا میں یہاں اس وقت سب سے بڑا نام مفتی محمد ابراہیم بنارسی کا ہے جو ملا محمد عمر سابق بنارسی کے صاحبزادے تھے۔یہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ علم ہئیت وہندسہ کے زبردست ماہر تھے ۔ پیشے کے اعتبار سے پہلے لارڈلیک کے میر منشی رہے اور بعد میں عدالت عالیہ کے منصب افتا پر فائز ہوئے۔
اپنے فرائض منصبی کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کے جذبے کے تحت یہ درس وتدریس کا کام بھی کرتے رہے ۔ان کے والد ملا سابق بنارسی شیخ علی حزین کے قریبی دوستوں میں سے تھے ۔اور علم وادب کے میدان میں مختلف زاویوں سے اپنی ایک علاحدہ شناخت رکھتے ہیں۔
محمد ابراہیم کے صاحبزادے مفتی محمد اسمٰعیل المتخلص بہ ثابت بنارسی بھی اس وقت سر گرم عمل تھے ۔جو اپنے والد کے سبکدوش ہونے کے بعد عدالت عالیہ میں منصب افتا پر فائز رہے ۔آگے چل کر سر سید احمد خاں سے بھی ان کے اچھے دوستانہ مراسم استوار ہوئے۔ وہ شاعر تھے اور اپنے کلام پر مصحفی سے اصلاح لیتے تھے ۔ ان کے علاوہ اکرم علی واسطی اور مولانا عنایت علی جیسے لوگ بھی اس وقت بنارس میں موجود تھے جو غالب کی قدرافزائی کر سکتے تھے ۔لیکن وہ ملے کسی سے نہیں ۔ظاہر ہے غالب نے شاید یہ تہیہ کر رکھا تھا کہ وہ بنارس میں کسی سے نہیں ملیں گے ۔
اپنے کچھ خطوط اور’ مثنوی چراغ’ دیر میں غالب نے بنارس کی تعریف کے ساتھ ساتھ یہاں دلکش عمارتوں کی کثرت ،سبزہ زار اور قدرتی حسن کا بھی ذکر کیا ہے ۔غالب جب یہاں آئے تھے تو یہ شہر واقعتاً خوبصورت باغات اور گھنے جنگلات کا شہر تھا ۔شہر میں جگہ جگہ متعدد خوبصورت کنڈ موجود تھے ۔بیشتر کوٹھیوں سے ملحق باغات تھے ۔جن کے گھروں میں یہ سہولت میسر نہ تھی انہوں نے شہر کے باہر اپنے باغات بنا رکھے تھے ،جہاں فرصت کے اوقات جاکر رہائش اختیار کرتے تھے ۔مقامی اصطلاح میں اس عمل کو ’بہری النگ‘ کہا جاتا ہے ۔سارا شہر ہرے بھرے درختوں سے پر تھا۔یہ تمام باتیں ہمیں ان پینٹنگس کو دیکھنے سے
معلوم ہوتی ہیں جو مصور بنارس جیمس پر نسپ(james prinsep ) نے بنائی تھیں۔واضح رہے کہ پرنسپ کا بنارس میں رہائش کا زمانہ وہی ہے جو غالب کے بنارس میں ورود کا زمانہ ہے ۔ اس زمانے میں بنارس کا ایک رائج نام ’آنندکانن‘بھی تھا یعنی گلشن مسرت یا بقول غالب بہشت خرم ۔آنند محض خوشی کا متبادل نہیں ہے بلکہ روحانیت کی ایک اصطلاح بھی ہے ۔معبود برحق کے لیے سچدا نند (ست،چت اور آنند) کا نام اسی مفہوم میں رائج ہے ۔مختلف معاصر انگریز مورخین نے اسے بجا طور پر کہیں،فارسٹ پیراڈئزآف گارڈنز‘(forest paradises)کہیں ’فارسٹ آف بلس(forest of Bliss)‘اور کہیں ’پیراڈائز آف گارڈنز ‘(paradises of gardens)کے نام سے یاد کیا ہے ۔اُس زمانے میں آج کالہرابیر(Lahurabir)اور درگاکنڈ (Durga Kund)جنگلات تھے ۔ بکامحال،چوکھمبااور ٹھٹھیری بازار کے بارے میں تواب بھی بیشتر لوگ جانتے ہیں کہ یہ جنگلوں کو کاٹ کر بسائے گئے محلے ہیں۔ ان کے لیے اب بھی ’بن کٹی ‘کی اصطلاح سننے میں آجاتی ہے ۔موجودہ ’گودولیا ‘(Godowlia)اور’لکسا‘(Laxa)اس عہد میں رئیسوں کے اسطبلوں کے لیے مخصوص تھا۔ جب وہ گنگا کے دشاشومیدہ گھاٹ پر آتے تھے تو یہاں ان کے گھوڑے باندھے جاتے تھے ۔سارے بنارس میں چاروں طرف روحانیت کا دور دورہ تھا۔دریائے گنگا کے کنارے دور دراز سے آئے ہوے تارک الدنیا سنیاسی دھونی رمائے دکھائی دیتے تھے۔ گھاٹوں پر صفائی کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا ۔ فرصت کے اوقات میں لوگ دریا کنارے بیٹھ کر لوگوں کو غسل کرتے ،ورزش کرتے ،سوریہ نمسکار کرتے ،گنگا پوجا کرتے،طلوع وغروب آفتاب کا نظارہ کرتے ،بجڑوں ،ناؤں کو دریا میں آتے جاتے ،رقص وسرود کی ثقافتی محافل آراستہ کرتے دیکھا کرتے تھے ۔غالب نے یہی بنارس دیکھا ہوگا۔عین ممکن ہے کہ ایسا بنارس دیکھ کر غالب کا روحانیت پسند دل مبہوت ہوگیا ہو اور یہاں حاصل ہونے والے ’آنند ‘ میں وہ کسی کو مخل ہونے دینا نہ چاہتا ہو ۔ اسی لیے اس نے یہاں گوشہ نشینی اختیار کر لی ہو ،کہ لوگ تو آئندہ بھی ملتے رہیں گے لیکن روحانیت کا یہ مرکز پھر کہاں ملے گا ۔
یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ1801 میں بنارس کے کلکٹر مسٹرڈین نے شہر کو توال ذوالفقار علی خاں کے ذریعے بنارس کی مردم شماری کروائی تھی ۔ اس کے رو سے اس وقت بنارس میں کل انتیس ہزار نو سو پنیتیس(29،935)مکانات تھے ،جن میں بارہ ہزار ایک سو پچپن (12155) پختہ تھے اور سترہ ہزار سات سواسی (17780) کھپر یل والے۔ان میں پختہ مکانوں کو مزید تفصیل اس طرح درج ہے ۔پہلے درجے کے ایک منزلہ مکان پانچ سو (500)،دوسرے درجے کے دوتلے مکان پانچ ہزار پانچ سو (5500) تیسرے درجے کے سہ تلے مکان تین ہزار چھ سو(3600) ،چوتھے درجے کے چوتلے مکان ایک ہزار پانچ سو (1500)،پانچویں درجے کے پانچ تلے مکان سات سو پچپن (755) اور چھٹے درجے کے چھ تلے مکان تین سو (300) تھے ۔کچے اور کھپر یل والے مکانوں کی مزید تفصیل اس طرح ہے ۔پہلے درجے کے ایک تلے مکان دس ہزار دوسو (10200)،دوسرے درجے کے دوتلے مکان چھ ہزار چھتیر (6076)،کچی مڑیاں ایک ہزار تین سو پچیس ،باغیچے کے ساتھ مکان اٹھتر (78)، صرف کھپریل والے ایک سو ایک (101)۔ اس وقت یہاں کی آبادی کل پانچ لاکھ چھ سو پچیس (500625) نفوس پر مشتمل تھی۔ اس مردم شماری میں شرفا،روسا،مختلف دیسی ریاستوں کے نو واردشہزادگان،ہتھیاربند سپاہیوں، مہاجنوں،تاجروں، چوبداروں، خدمتگاروں، مانجھیوں، حکیموں، ویدوں، کہاروں، دھوبیوں، نائیوں، رنڈیوں، طالب علموں،فقیروں وغیرہ کی بھی الگ الگ گنتی کی گئی تھی ۔ اور ان سب میں ہندؤں اور مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی بنیاد پر ہر ایک کی الگ الگ تعداد درج کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ جعل سازوں(40) جھوٹی گواہی دینے والوں (400) چوری کا سامان خریدنی والوں (50) صرف چوری کرنے والوں (200) جواریوں (40) عدالت سے چوری کے جرم میں سزا پانے والوں(100) اور غنڈوں (200) کی بھی مردم شماری کی گئی تھی۔ اس مردم شماری میں دوسرے امرا و روسا کے علاوہ مرزا جواں بخت جہاندا رکی اولاد میں مرزا خرم بیگ اور ان کے افراد خاندان اور ملازمین کی تعداد ایک ہزار، مرزاشگفتہ بیگ اور ان کے افراد خاندان معہ ملازمان تین سو بتائی گئی ہے ۔ اس مردم شماری کی نوعیت نہ تو سرکاری تھی اور نہ ہی اس کے ذریعہ فراہم کردہ اعداد وشمارپر مورخین اعتبار کرتے ہیں ۔اس کا سبب غالباً یہ ہے کہ یہ کام فرمان کے جاری ہونے کے بعد اتنے کم وقت میں تکمیل کو پہنچا کہ اس بات پر یقین کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ اس میں ذہین کوتوال ذوالفقار علی خان کا اندازہ زیادہ کام کر رہا ہے ، حقیقی مردم شماری کا عمل کم۔ اس میں مردم شماری کے مروجہ اصول وضوابط کا بھی کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا تھا ۔ البتہ آگے چل کر عظیم مصورومو رخ جیمس پرنسپ نے ، جو بنارس کی تاریخ نویسی کے عمل میں غالباً سب سے اہم شخصیت ہے29 – 1828 میں جو مردم شماری کرائی گئی تھی اسے مورخین کی اکثریت اعتبار کی نظر سے دیکھتی ہے ۔اور یہ غالب کے قیام بنارس کے عہد سے بالکل قریب کا زمانہ بھی ہے۔ پرنسپ کے مطابق اس وقت بنارس کی آبادی ایک لاکھ اکیاسی ہزار چار سو بیاسی (1,81,482) تھی،جس میں مسلمانوں کی تعداد اکتیس ہزار دو سو اڑتالیس (31,248) برہمن بتیس ہزار تین سوا کیاسی (32381) راجپوت ،بھومیہاراور کھتری ملا کر چودہ ہزار چوارنوے (14094)، بنیے آٹھ ہزار تین سو (8300) اور شودر ساٹھ ہزار تین سو دو(60302) تھے ۔ اس مردم شماری میں بچوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا ۔ (بہ حوالہ کاشی کا اتہاس مصنفہ ڈاکٹر موتی چندر)
‘مثنوی چراغ’ دیر پر گفتگو شروع کرنے سے پہلے یہ جان لینا مفید ہوگا کہ اس مثنوی کی تخلیق کے دوران غالب کے جذبات کیا رہے ہوں گے ۔ عام طور پر شاعر کسی موضوع کا انتخاب کرنے کے بعد اس میں خالصتاً شاعرانہ انداز میں حسن وجمال کی تلاش کرتا ہے اور پھر اپنی مہارت کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے جمالیات کے جملہ لوازم کو برتتے ہوئے شعر کہتا ہے ۔اس ضمن میں وہ تمام اشعار بھی آجاتے ہیں جو کسی کی فرمائش پر یا کسی کو کسی خاص مقصد کے لیے خوش کرنے کے لیے کہے جاتے ہیں ۔ایسے اشعار میں شاعر کی مشاقی اور استادانہ کمال کے وافر ثبوت تو مل جاتے ہیں لیکن اس کے دل کی ترجمانی یا حقیقت حال کا شائبہ نظر نہیں آتا ۔ لیکن یہ بھی ہوتا ہے کہ شاعری کسی شے کے جمال سے متاثر ہو جائے اور اپنے کو شعر کہنے پر مجبور پائے۔ ایسی شاعری کی مثالیں بھی ہمارے شعری ذخائر میں وافر تعداد میں موجود ہیں ۔اول الذ کر شاعری لفاظی ہوتی ہے۔اور آخر الذ کر دلی جذبات وکیفیات کی ترجمان ۔ دونوں کی تاثر پذیری میں بھی فرق ہوتا ہے ۔ عام طور پر جب شاعر کسی شخص یا جگہ کی تعریف کرتا ہے تو اس کی کچھ غرض ہوتی ہے ۔یا تواسے اس شخص یا جگہ سے کچھ حاصل کرنا ہوتا ہے ، یا وہ کسی مصلحت کی بنا پر اس شخص یا اس جگہ کے لوگوں کو خوش کرنا چاہتا ہے ۔اس مثنوی کے مطالعے اور غالب کی اس وقت کی داخلی کیفیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس تخلیق کے پس پشت ان دونوں میں سے کوئی سبب نہیں ہے۔ یہاں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس مثنوی کا خالق شہر بنارس کے حسن اور یہاں سے باشندوں کے سلوک سے بے حد متاثر ہوا ہے ۔
اس مثنوی میں کل ایک سو آٹھ شعر ہیں ۔یہ عدد ہندؤں یا باشندگان بنارس کی اکثریت کے عقاید کی روسے بے حد مقدس سمجھا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ انسان کی روحانی دولت ’آٹھ سدھیوں ،نوندھیوں اور متعددردھیوں،کی کل جمع بھی ایک سوآٹھ ہوتی ہے۔عموماً کسی مقدس شخصیت کے نام کے پہلے بھی شری شری ایک سو آٹھ کا سابقہ لگا دیا جاتا ہے ۔ یہاں شری کا مفہوم اس شخص کے تقدس کے اظہار کے ساتھ ساتھ یہ تاثر دینا بھی ہے کہ اس پر خدا کی بے پنا ہ رحمتوں کا نزول ہوا ہے ۔ غالب نے شعوری طورپر اس مثنوی میں اشعار تعداد ایک سو آٹھ رکھ کر اس شہر کے تقدس کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یہی تاثر دینے کی کوشش کی ہے ۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ غالب بھلے ہی بنارس میں اردو اور فارسی کے اکابرین سے نہ ملے ہوں لیکن ایک اجنبی کی حیثیت سے ہی سہی یہاں کے ہندو علما سے ضرور ملے تھے اور ان سے ہندو مذہب کا کچھ درس بھی لیا تھا ۔اس مذہب سے ان کا تعلق محض دلچسپی تک محدود نظر نہیں آتا بلکہ اگر محمد علی خاں کو مرسلہ ان کے خط کی بات کو مبالغہ نہ مانیں تو وہ بنارس اور یہاں کے عقاید سے اس حد تک متاثر ہوگئے تھے کہ اگر کلکتہ کا سفر در پیش نہ ہوتا تو وہ اپنا مذہب ترک کر کے مستقلاً یہاں رہنے پر بھی آمادہ تھے ۔ غالب کے مزاج کو دیکھتے ہوے اس میں کوئی حیرت کی بات بھی نہیں ہے ۔ وہ مذہبی مساوات، صلح کل اور رواداری کے مبلغ اور انسانیت کے قدر دان تھے۔ انہیں جہاں بھی انسانیت کے قدر شناس نظر آجاتے تھے وہ ان کے گرویدہ ہو جاتے تھے ۔ بنارس میں شاید کچھ ایسا ہی ہوا تھا جس نے ان کے دل کی گہرائیوں میں اپنی جگہ بنالی تھی ۔ غالب نے کبھی کسی دوسرے شہر کے بارے ایسے جذباتی لگاو اور اس طرح کے دالہانہ خیالات کا اظہار نہیں کیا۔ دہلی جیسے شہر کے بارے میں بھی نہیں ،جو بہ وجوہ غالب کو پسند تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بنارس نے غالب کے دل ودماغ پر کتنے گہرے اثرات مرتب کیے ہوں گے ۔ اور اس کے نتیجے میں غالب کا یہ شاہکار ’مثنوی چراغ دیر‘ وجود میں آیا ہوگا۔
یہ مثنوی شدت آلام میں دل کے اندر برپا آتش فشاں کے پھوٹ پڑنے اور اس میں پوشیدہ اسرار کے طشت ازبام کر دینے پر آمادگی کے ذکر سے شروع ہوتی ہے ۔ ظاہر ہے غالب جس امیدوبیم کی حالت میں دہلی سے کلکتہ کے لیے رونہ ہوے تھے اس نے تذبذب کی ایسی شکل اختیار کر لی تھی کہ ناکامی کا خوف اور کامیابی کی مبہم سی امید میں باہم ٹکراو ہو رہا تھا ۔دہلی میں قرض خواہوں نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا اور اب یہی واحد امید رہ گئی تھی کہ کلکتہ میں ان کی داد خواہی کسی مثبت نتیجے تک پہنچے گی اور ان کے ساتھ ہوئی نا انصافی کا ازالہ ہو جائے گا ۔ نتیجے میں ان کے سارے مسائل پلک جھپکتے حل ہو جائیں گے ۔ اس مہم میں ناکامی کا تصور ہی غالب کے لیے سوہان روح رہا ہوگا ۔ مثنوی کا پہلا شعر غالب کی اسی کیفیت کی بھر پور ترجمانی کرتا ہے ۔ تاثرات کایہ سلسلہ پانچویں شعر تک گیا ہے جس میں غالب نے مختلف تشبیہات کا سہارا لیا ہے اور ہر شعر ان کی جدت پسندی اور تلاش ترکیب کا ثبوت ہے ۔ پتھر کی رگو ں سے چنگاریوں کا نکلنا،مٹھی بھر خاک سے غبار کا اٹھنا،شکایتوں کی زیادتی سے دل میں ابال، ایک حقیر بلبلے میں سمندری طوفان کی شدت ۔ دل کا لبوں تک آنا،سانسوں کو خون میں ڈبو دینے والی فریاد کا نکلنا، کیونکہ اس میں جگر کی قاشیں ہیں،ذہنی الجھنوں کو زلف سے زیادہ الجھی ہوئی داستان قرار دینا ، ایک ایک بال کے زباں بن جانے کا ذکر کرنے جیسی تشبیہات ظاہر ہے غالب کے اندر برپا طوفان تلاطم خیز کا بخوبی اظہار کرتی ہیں ۔ غالب کے ان اشعار س ان کے دل کی ہلچل کو محسوس کیا جا سکتا ہے ۔
غالب مثنوی کے چھٹے سے انیسویں شعر تک دوستوں کی بے التفاتی کے شاکی ہیں یہ شکایات ان اخلاقی روایات کی پابند ہیں جو اس عہد کا طرہ امتیاز رہیں ہیں ۔صاف جھلکتا ہے کہ غالب کچھ اور کہنا چاہتے ہیں لیکن ان کی شرافت نفس ہر ہر قدم پر ان کی دامن کش ہے ۔ اسی مجبوری نے ان کے ان اشعار میں شعریت اور ان کی تاثیر میں اضافہ کر دیا ہے ۔ دوستوں سے شکایت کرنے کو کتاں کو چاندنی میں دھونے کا عمل قرار دے کر خود اس کی بے معنویت کا اعتراف کیا ہے۔ یہ کہنا کہ میں اپنے ہی ساز کے سوز میں جل کر کباب ہو گیا ہوں، اپنی فریاد کو ساز قرار دینا اور سانسوں کو اس کا تار بتانا اور کہنا کہ اس کی ہڈیوں میں بانسری کی طرح آنچ بھری ہے، دہلی کی شکایت کرتے ہوے کہنا کہ اس سمندر نے مجھ جیسے موتی کو نکال کر پھینک دیا ہے اور اس آہن نے مجھے گردکی طرح جھاڑ دیا ہے ،تقدیر پر الزام کہ اس نے جب سے اسے دہلی سے نکالا ہے اس کا سرو سامان طوفان کے حوالے کر دیا ہے، دہلی کی اس وقت کی صورت حال اور خود غالب کی کیفیات کی جانب بڑا بلیغ اشارہ ہے۔ یہ کہنا کہ اب وہاں کوئی میرا ہمدرد نہیں رہا یا یہ کہ اب دنیا میں کہیں میرا وطن ہی نہیں ہے۔ پھر تین لوگوں ،فضل حق خیر آبادی،حسام الدین حیدر خاں اور امین الدین احمد خاں کو نام بہ نام یاد کرنا جو انہیں عزیز تھے۔ایسے وقت اپنے ان ہمدردوں کو اتنی شدت سے یاد کرنا اشارے کرتا ہے کہ غالب اس دوران ذہنی طور پر کتنی پریشانی محسوس کر رہے تھے ۔ غالب کو شکایت ہے کہ مانا کہ میں دہلی سے چلاآیا لیکن یہ تینوں دوست مجھے کیسے بھو ل گئے ۔ وہ کہتا ہے کہ وطن کی جدائی سے پریشان نہیں، دوستوں کی بے مروتی اور عدم التفات کا مارا ہوا ہوں۔ کیونکہ اگر دہلی نہیں ہے توکوئی غم نہیں ، دنیا سلامت جگہ کی کیا کمی ہے ۔ چاہے جس باغ میں کسی درخت کی ٹہنی میں آشیانہ بنایا جا سکتا ہے ۔ یہ اشعار توجہ طلب ہیں ۔ جس شخص یا جگہ سے محبت میں شدت ہو اس سے امیدوں کی وابستگی بھی بڑ ھ جاتی ہے ۔ اور ان کے پورا نہ ہونے پر شاید ان لوگوں کو غیرت دلانے کے لیے شکایت کچھ زیادہ پیدا ہو جاتی ہے ۔ اس بات کو وہ شخص زیادہ بہتر طورپر سمجھ سکتا ہے جو خود ان حالات سے گزرا ہو۔ شاید غالب جب بنار س کی تعریف میں رطب اللسان تھے ، اس وقت اہل دہلی با لخصوص ان تین احباب کو غیرت دلانے کا یہ عمل بھی کار فرما رہا ہو۔
اس کے بعد شعر20تا 81 وہ باسٹھ اشعار ہیں جن میں غالب نے بنارس کی تعریف کی ہے۔ چونکہ مثنوی کا اصل موضوع یہی ہے اس لیے ان پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔کہتے ہیں :
’پھولوں کی اس سر زمین پر میرا دل آیا ہے ۔کیا اچھی آبادی ہے جہاں بہار کا چلن ہے ۔ یہ وہ مقام ہے کہ مقام تفاخر میں دہلی اس کا طواف کرنے آتا ہے ۔ اس مبارک اور عزیز بہار سے نگا ہ کو ادائے گلشن کا دعویٰ ہے ۔ کاشی کی تعریف میں خوش بیانی کی بدولت کلام کو یہ فخر ہوتا ہے کہ فردوس ساماں ہوگیا ۔ سبحان اللہ،بنارس کو خدا نظر بد سے بچائے، یہ ایک مبار ک جنت ہے، بھرا پرا فردوس ہے ۔ کسی نے کہہ دیا کہ بنارس حسن میں چین کے مثل ہے تو یہ تشبیہ بنارس کو ایسی ناگوار گزری کہ آج تک گنگا کی موج اس کے ماتھے کابل بنی ہوئی ہے ۔ اس کے وجود کا اندازہ ایسا خوش گوار ہے کہ دہلی ہمیشہ اس پر درود بھیجتا رہتا ہے۔ شاید دہلی نے بنارس کو خواب میں دیکھ لیا ، تبھی تو دہلی کے منھ میں نہر (سعادت خاں) کا پانی بھر آیا ہے ۔ دہلی کو حاسد کہنا بے ادبی ہے تاہم اگر بنارس پر رشک آتا ہو تعجب نہیں۔ آوا گون کا عقیدہ رکھنے والے لب کھولتے ہیں تو اپنے مذہب کے مطابق کاشی کی تعریف یوں کرتے ہیں ۔ کہ جو شخص اس باغ پر ان چھوڑے اس کی آتما نروان حاصل کر لیتی ہے ۔ پھر سے جسم مادیت سے میل نہیں کھاتی ۔ اُس کی امید (نجات) کا سرمایہ چمن بن جاتا ہے کہ وہ مر کر زندہ جاوید ہو جائے گا ۔ روح کو راحت بخشنے والے اس مقام کے کیا کہنے جو روحوں سے نظر بد کا اثر بھی دھوڈالتا ہے ۔
بنارس کی آب وہوا کو دیکھتے ہوئے کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اس کی فضا میں صرف آتما رہے۔ اے شخص جو ناز کی کیفیت سے غافل ہے،ذرا بنارس کے پریزادوں پر نگاہ ڈال ۔اُن آتماؤں کو دیکھو جن پر تن کا خول نہیں ہے ، وہ روپ ہے جسے پانی مٹی سے کوئی تعلق نہیں ۔ اُن کی فطرت ہلکی پھلکی ہے، پھول کی باس کی طرح یہ لوگ جان ہی جان ہیں،جسم حائل نہیں۔ اس شہر کا گھاس پھوس بھی گویا باغ ہے اور اس کا گردوغبار بھی روح کا لطیف غبار ہے ۔ دنیا کے اس پرانے بت کدے میں جو ہمیشہ رنگ بدلتا رہتا ہے بنارس کی بہار رنگ کی تبدیلی سے محفوظ ہے۔ چاہے بہار کا موسم ہو،خزاں کا ہو یا گرمی کا ، ہر موسم میں یہاں کی فضا جنت بنی رہتی ہے ۔ سخت سردی اور سخت گرمی کے موسم میں دنیا بھر سے بہار اپنا سامان لپیٹ کر سردی وگرمی گزارنے بنارس آجاتی ہے ۔ خزاں کا موسم جب یہاں ظہور کرتا ہے تو وہ بنارس کے لیے چندن کا ٹیکہ ہوتا ہے ۔ اس چمن زار کی ہوا کے آگے سر جھکاتے ہوئے بہار موج گل کا جنیوباندھ لیتی ہے۔ اگر آسمان نے ماتھے پر اس کا تلک نہیں لگایا تو پھر یہ شفق کی لہروں کی رنگینی کیا ہے؟ اس شہر کی ہر مٹھی خاک مستی کی وجہ سے عبادت گاہ ہے اور اس کا ہر ایک کانٹا سبزی میں بہشت ہے۔ اس شہر کی آزادی بت پرستوں کی راجدھانی ہے، اور شروع سے آخر تک وہ مستوں کاتیرتھ ہے، سنکھ پھونکنے والوں کا عبادت خانہ ،اور واقعی ہندوستان کا کعبہ ہے ۔
اس کے حسینوں کا بدن جلوہ طور سے بنا ہے ، سر سے پاؤں تک خدا کا ہی نور ہے ، اسے نظر نہ لگے ۔ اُن کی کمر یں نازک اور دل مضبوط ، الھڑ پن ہوتے ہوئے بھی اپنے معاملے میں ہوشیار۔ چونکہ ان کے لبوں پر آپ سے آپ مسکراہٹ رہتی ہے، اس لیے ان کے منھ بہار کے پھولوں سے زیادہ پر بہار ہیں۔ ان کی ادا ایک پورے باغ کا جلوہ ہے اور ان کی چال میں سوقیا متوں کے فتنے جاگتے ہیں ۔ لطافت میں وہ موج گوہر سے زیادہ نرم رفتار اور بانکپن میں وہ عاشق کے لہو سے زیادہ تیز رو۔ قد کی اٹھان سے چال کا وہ البیلا انداز ہے کہ گویا پھولوں کے تھالے میں جال بچھا ہو۔ اپنے رنگین جلووں سے وہ ہوش اڑا لے جائیں ، بستر کے لیے بہار اور گود کے لیے نوروز ہیں ۔ اپنے جلوے کی دمک سے شعلہ اٹھا دینے والی ایسی مورتیاں جو خود مورتی پوجا کریں لیکن برہمن کو جلائیں۔
دونوں دنیاؤں کے سروسامان کے ساتھ وہ باغ کی رنگینی ہیں ،ایسی کہ ان کے چہروں کی روشنی سے گنگا کے کنارے چراغاں ہوتا ہے ۔اشنان کرنے کی وہ ادا کہ ہر ایک موج دریا کوآبرو کی نوید پہنچ جائے۔اس کے قدوقامت کیا ہیں،قیامت ہیں ،لمبی لمبی پلکیں، جن پلکوں سے دل کی صف پر برچھیاں لگیں۔بدن ایسے کہ دل کو بڑھا واملے اور سر سے پاؤں تک دل کی راحت کی خوش خبری۔ اپنی مستی سے موج کو آرام عطا کرنے اور حسن ولطافت سے پانی کو جسم وجسمانیت دینے والی، یعنی ان کا عالم مستی دیکھ کر موج ساکن ہو جاتی ہے اور ان کی خوش بدنی سے پانی مجسم ہو جاتا ہے ۔ پانی کے بدن میں ان کے اتر آنے سے آفت برپا ہو جائے اور سینے میں مچھلیوں کے سے سو دل تڑپیں۔ دریائے گنگا چونکہ اپنی تمنا کے اظہار کو بے تاب ہے اس لیے موج کی صورت میں ایک نہیں کئی آغوشیں کھول دیتا ہے۔حسینوں کے جلوے دیکھ کر موتی ایسے بے قرار ہوتے ہیں کہ سیپ کے اندر ہی پانی پانی ہو جاتے ہیں ۔ یوں کہو کہ بنارس اک دل ربا حسین ہے ،جس کے ہاتھ میں صبح وشام سنگار کے لیے گنگا کا آئینہ رہتا ہے ۔ اس پری چہرہ شہر کے چہرے کا عکس اتانے کے لیے آسمان نے سورج کا آئینہ سونے سے بنایا ہے۔ نام خدا،کیااس کا حسن وجمال ہے کہ آئینے میں اس کا عکس رقص کرتا ہے ۔ یہ شہر حسن بے پروا کا بہارستان ہے ، اور لاجواب ہونے میں ملکوں ملکوں اس کی کہانیاں مشہور ہیں ۔ جب دریائے گنگا میں شہر نے اپنا عکس ڈالا تو بنارس آپ ہی بے نظیر ہوگیا۔ جب پانی کے آئینے میں اس کی صورت دکھا دی تو یہ شکون پورا ہوگیا کہ نظر بد لگنے کا اندیشہ نہیں رہا۔ چین کے ملک میں بنارس جیسا نگار ستان نہیں ہوگا اور چین کیا ساری دنیا میں اس جیسی عمارتوں کا شہر نایاب ہے ۔ اس کے لالہ زار جنگل جنگل بھرے ہیں اور اس کے بسنت چمن در چمن پھولتے ہیں۔
’میں نے ایک رات کسی روشن ضمیر شخص سے جو زمانے کی گردشوں کا راز جانتا تھا ، سوال کیا کہ آپ دیکھ رہے ہیں ، دنیا سے نیکی غائب ہوگئی، وفا، محبت اور دل جوئی کا پتہ نہیں۔ ایمان کا صرف نام ہی نام رہ گی ہے ،جعل وفریب کے سوا کام نہیں چلتا۔ باپ بیٹوں کے خون کے پیاسے ہیں اور بیٹے باپ کی جان کے دشمن ۔ بھائی بھائی سے الجھا ہوا ہے ۔ میل محبت ساری دنیا سے فرار ہوا جاتا ہے۔ قیامت کی ایسی کھلی نشانیاں موجود ہیں پھر قیامت کیوں نہیں آجاتی؟ صور پھونکنے میں اب کا ہے کی دیر ہے؟ قیامت کو راہ میں کون روکے ہوئے ہے ؟ وہ کاشی کی طرف اشارہ کر کے مسکرا دیا اور بولا ۔ یہ آبادی قیامت کو روکے ہوئے ہے۔ صانع عالم کو در حقیقت یہ گوارا نہیں کہ ایسی رنگین آبادی ویران ہوجائے۔ بنارس کا وقار اتنا بلند ہے کہ قوت خیال اس کی چوٹی تک نہیں پہنچتی۔
(نثر میں یہ اردو ترجمہ ظ انصاری کا ہے)
درج بالاسطور میں غالب نے بنارس کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اور اس کے لیے جیسی مخصوص اسلامی اصطلاحات کا استعمال روا رکھا ہے ، یہ محض ان کی ہمت یا مذہب سے بغاوت کا ثبوت نہیں ہے بلکہ کئی اور زاویوں سے بھی توجہ طلب ہیں ۔ ان پر غور کر کے یہ سراغ لگایا جا سکتا ہے کہ ان دگرگوں حالات میں بھی غالب بنارس کے حسن سے کیوں اتنے مسحور ہیں ۔ان اشعار میں ہی ان اسباب کی طرح بھی اشارہ ملتا ہے ،جو غالب کی بنارس میں پوشیدہ رہائش کا سبب بنے ہوں گے۔
شعر82تا 102، غالب نے بنارس کی خوش حالی کے مقابلے میں اپنی بد حالی کا ماتم کیا ہے کہ تم ایک نا کارہ انسان ہو جو اپنوں اور بے گانوں کی نظر سے گر چکے ہو۔ وہ اسے اپنی دیوانگی قرار دیتا ہے کہ وہ خود بھی دوستوں اور احباب کو بھول بیٹھا ہے ۔ یہ امر خاص طور پر لائق توجہ ہے کہ بنارس کی تعریف کے فوراً بعد انہیں احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے دہلی اور اہل دہلی کے ساتھ ناانصافی ہی نہیں ، غداری کی ہے ۔ وہ اسے اپنی دیوانگی قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تمہارے خمیر سے یہ کس قیامت نے سر اٹھایا ہے۔ وہ اپنے اور اپنے دل پر اظہار افسوس کرتے ہیں ۔ شاید اس لیے کہ انہوں نے اپنے وطن عزیز کے مقابلے دوسرے شہر کی تعریف ضرورت سے زیادہ کر دی ہے ۔ پھر کہتا ہے کہ بنارس کی ان رنگینیوں سے تمھیں کیا لینا دینا ۔ تم تو غم کھاؤ اوراپنا خون پیو اور اسی میں اپنی جنت تلاش کرو۔ ظاہر ہے یہ ان کی مایوسی کی جانب ایک بلیغ اشارہ ہے ۔ وہ پھول کی خوشبو کی طرح لباس ظاہری سے باہر آنا چاہتے ہیں جہاں جسم کی قید سے رہائی ملے اور آزادی نصیب ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ کاشی میں رہ پڑنا کم ہمتی اور کافرانہ حرکت ہے ۔ انہیں یہ بھی یاد آتا ہے کہ دہلی میں ان کے اہل خانہ ان کے آنے کے منتظر ہیں جن سے ان کے مستقبل کی خوشیاں وابستہ ہیں ۔ یہ خیال آتے ہی وہ اپنے پر لعنت ملامت کرنے لگتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ افسوس وطن میں لوگ مصیبت میں مبتلا ہیں اور تم آنکھوں کے لہو میں کشتی کھے رہے ہو یعنی فرضی باتوں کی جانب توجہ دے رہے ہو۔ تم سے متعلق لوگ اپنی دل کی خواہشوں کو مار کر بیٹھے ہیں اور تم نے ان کی طرف سے آنکھیں بند کر لی ہیں۔ ان کی تمام پریشانیوں کا سبب تم ہو۔ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں اور حرف شکایت زبان تک نہیں لاتے ۔ تم سے وہ بیزار سہی لیکن تمہارا بھرم وہ رکھنا چاہتے ہیں ۔ان کے دلوں کو زخمی کر کے تم پھولوں کے متمنی ہو یہ جائز نہیں ہے ۔ پھر انہیں یاد آتا ہے کہ وہ عازم کلکتہ ہیں جہاں سب کچھ ابھی مبہم اور پریشان کن ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ان حالات میں تم کو دیوانہ ہی ہو جانا چاہیے تھا ۔ ظاہر ہے وہ اپنی دیوانگی کی یاد دلاکر اپنی کہی گئی باتوں کا کفارہ ادا کرنا چاہتے ہیں ۔
یہاں تک پہنچنے کے بعد غالب اشعار 103تا 108 ایک صوفی کی طرح ’فنا‘کی بات کرنے لگتے ہیں ۔کہ اپنے جسم کو مصائب کے ہاتھوں میں سونپ دو اورمصائب پر اپنی جان نچھاور کردو۔ اپنی ہوس کو فنا کے حوالے کردو یعنی خواہشات سے دست بردار ہو جاؤ اور اگر یہ سب عقل کے ساتھ ممکن نہیں ہوتا تو دیوانگی قبول کر لو۔ جب تک دم میں دم ہے محترک رہو، چلتے رہو اور لمحہ بھر کے لیے بھی تھک کر آرام کے لیے نہ رکو۔ چنگاری کی طرح فنا ہو جانے پر کمر بستہ رہو اور دامن جھاڑ کر آزاد ہوجاؤ۔ ’لا‘ یعنی نفی کو مان لو،تسلیم کر لو اور ’الا‘ یعنی اثبات کا نعرہ لگاؤ۔ اللہ اللہ کرو اور اس کے سوا جو کچھ ہے اسے پھونک دو۔ اور اس کے ساتھ ہی مثنوی اپنے اختتام کو پہنچ جاتی ہے۔
اگر ہم بنارس کی تہذیب اور یہاں کی مذہبی اور اخلاقی صورت حال کے پس منظر میں غالب کی اس مثنوی کا مطالعہ کریں تو عقدہ کشائی کی کچھ سبیل بنتی ہے۔ کچھ اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں آنے کے بعد غالب کا قیام طویل کیوں ہو ا اور اپنے مزاج کے بر خلاف غالب نے یہاں کسی سے ملاقات کی زحمت کیوں نہ کی ۔ ہم جانتے ہیں کہ غالب کو دوستوں سے ملنا اچھا لگتا تھا ، ان کی معیت سے انہیں مسرت کا احساس ہوتا تھا۔ ان کی بے التفاتی،بے مروتی اور ان کا فراق ان کے لیے سوہان روح بن جاتا تھا۔ پھر بنارس میں ایسا کیا ہوا کہ ایسا دوست دار انسان ان تمام لوگوں سے دور رہا جن سے ملاقات کر کے اسے خوشی ہو سکتی تھی۔ اگر ہم مثنوی کے اس حصے پر توجہ دیں جہاں غالب نے بنارس کی روحانیت اور اس کی تقدیس کا بیان کیا ہے تو یہ چیز بہ خوبی واضح ہوتی ہے کہ غالب جو بھی کہہ رہے ہیں وہ رسمی نہیں ہے ۔ وہ واقعی بنارس کی روحانیت سے متاثر ہوئے تھے ۔ وہی بنارس جس کے بارے میں پرانوں میں درج ہے کہ ’یہاں شب باشی یوگ ہے ، شہر میں چہل قدمی کرنا یگیہ ہے ، جو مل جائے اسی پر قانع ہو کر خوش رہنا دیوتاؤں کو دیا گیا تحفہ ہے اور کھیل کھیل میں کچھ کرنا دان دینا ہے اور روزمرہ کی گفتگو ایشور کا نام لینا ہے اور بستر پر دراز ہو جانا خدا کے لیے روانہ ہو جانا ہے لیکن کرائے کا مکان لے کر ایک ماہ تک یہاں رکے رہنا اسی علم کا نتیجہ تھا ،جو یقینا یہاں کے کسی عالم کے ذریعے اسے حاصل ہوا تھا ۔ بنارس کی اس عظمت کا احساس انہیں بنارس آنے کے پہلے نہیں تھا ۔ یہ یقینااس پہلے ہفتے کا کرشمہ تھا جو غالب نے سرائے میں رہ کر تفریح میں گزارا تھا ۔
دراصل بنارس کے تناظر میں ہمیں غالب کو ایک عظیم شاعر کی حیثیت سے نہیں ایک ایسے انسان کی حیثیت سے دیکھناچاہیے جو تصوف اور روحانیت کا دلدادہ ہو۔ جو ہم جانتے ہیں کہ غالب تھے۔تو ہمیں یہ بہ آسانی دکھائی دینے لگے گا کہ معاشی تنگی میں مبتلا، پریشان حال غالب جب بنارس آتا ہے تو اسے یہاں کی روحانی فضا میں اپنا درد واقعی کچھ کم ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ ’چنا،چبینا، گنگ جل، کے شیدائی بنارس اور ’رنگ لائے لگی ہماری فاقہ مستی ایک دن’والے غالب کے اندر قناعت پسندی کی ایک قدر مشترک تو تھی ہی۔ جب وہ تسبیح توڑ کر زنار اور قشقہ لگا کر گنگا کے کنارے بیٹھنے کی بات کرتے ہیں تو یہ بات رسمی نہیں، حقیقی ہے۔ وہ واقعی ایسا ہی چاہتے تھے۔ جب وہ دریائے گنگا میں غسل کرتے حسین معشوقوں کو بدن سے عاری روح کی شکل میں دیکھتے ہیں تو غالب کی روحانیت پسندی میں شبہ نہیں رہ جاتا۔ دراصل ماضی کا بنارس آج کی طرح پتھروں اور اینٹوں کا جنگل نہیں تھا بلکہ سچ مچ یہ گھنے جنگلات اور سروربخش دلکش باغات سے پر روحانیت کا ایک عظیم مرکز تھا۔ حقیقتاً بہشت خرم۔ غالب بنارس کی تعریف جس والہانہ اندازمیں کرتا ہے، اس سے یہ بات واضح ہے کہ وہ واقعی یہاں روحانیت کے دریائے حسن میں غرق ہو گئے تھے ۔ اُس ’دویہ آنند‘یا روحانی مسرت کے سامنے اسے ساری دنیا ہیچ معلوم ہو رہی تھی ۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان جیسے لوگوں سے جن سے وہ ہمیشہ ہی ملتے رہے ہیں ، مل کر اِس ’آنندمے‘ اور پر مسرت وقت کو ضائع کردیں۔ غالب واقعی یہاں کسی سے ملنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ وہ یہاں کی روحانیت سے فیضیاب ہونا چاہتا تھا ۔ اور یہ فیض اسے حاصل بھی ہوا۔

English Hindi Urdu