
غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری ،پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کہا کہ آج علی سردار جعفری کویاد کرنا گویااردو کی روشن خیالی کی روایت سے روبرو ہونا ہے۔ اور یہ روایت ہمارے ملک کی سماجی اور تہذیبی زندگی کی ایک پہچان بھی ہے۔ ان کی تمام تحریروں میں اقدارِ آدم کے احترام کاجذبہ موجود ہے۔ وہ پوری زندگی ایک فکر کے ساتھ سرگرم عمل رہے جسے ہم انسانیت کانام دے سکتے ہیں۔
ممتاز ادیب و دانشورپروفیسر شمیم حنفی نے بین الاقوامی غالب سمینارجو’’ترقی پسند شعری روایت اور علی سردار جعفری‘‘ کے موضوع پر منعقد کیااُس کا افتتاح اپنے کلیدی خطبہ سے کیا۔ پروفیسر شمیم حنفی نے فرمایاکہ علی سردار جعفری اُن چند لوگوں میں ہیں جن کی نگاہ اپنی ادبی اور تہذیبی روایت پربہت گہری تھی۔ اُن کے بارے میں یہ بات پوری ذمہ داری سے کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے روایت کے گہرے مطالعے کے بعداپنے لئے اُن عناصر کاانتخاب کیاجو ترقی پسند فکر کواستحکام عطا کرسکتے تھے۔اُن کی نثرکاایک اپنا جادو ہے وہ لوگ بھی جو ان سے اختلاف رکھتے ہیں اُنہیں بھی سردار جعفری کی نثر کی قوت کااحساس ہے اور مجموعی طورپر پورا ادبی معاشرہ اُن کی خدمات کامعترف ہے۔اس بات کا لحاظ بھی رکھا جانا چاہئے کہ علی سردار جعفری کی کئی حیثیتیں ہیں اوراِن حیثیتوں کے درمیان اشتراک کا پہلو بھی ہوسکتا ہے
مگرضرورت اس بات کی ہے کہ اُن کی ہر ادبی حیثیت پرالگ الگ گفتگو کی جائے تاکہ اُن کے امتیازات کی نشاندہی ہوسکے۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر سید رضاحیدر نے افتتاحی تقریب کی نظامت کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کی سالانہ کارکردگی و ادبی سرگرمیوں کی تفصیلات اور مہمانان کا تعارف پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ یہ ادارہ اپنے علمی ،ادبی،تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیوں کی وجہ سے نہ صرف ہندستان میں بلکہ پوری دنیامیں جانا جاتا ہے۔آپ نے موضوع کے تعلق سے علی سردار جعفری کوخراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ علی سردار جعفری نے ہمیشہ اپنی شاعری کے ذریعے سے انصاف اور آزادی پر زور دیا۔وہ سرحدوں کے قائل نہیں تھے۔انہوں نے اپنی شاعری میں اس عالمگیر حسن کو پیش کیا ہے جوتمام اختلافات کے باوجود مشترک بھی ہے۔۔ اس سلسلے میں اُن کی ایک نظم ’مشرق اور مغرب‘ دیکھی جاسکتی ہے۔آج کی دنیاکوشایدپہلے سے کہیں زیادہ علی سردار جعفری کے افکاروخیالات کی ضرورت ہے۔
صدر غالب انسٹی ٹیوٹ، پرویز علی احمد کے دستِ مبارک سے غالب انسٹی ٹیوٹ کی شائع کردہ نئی مطبوعات ’’حسرت موہانی ۔حیات و خدمات‘‘، ’’دیوان امدادامام اثر‘‘مرتبہ ڈاکٹر سرورالہدیٰ،’’غالب اور عہدِ غالب‘‘ مرتبہ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی،شاہد ماہلی اورڈاکٹر رضاحیدر اور غالب نامہ کے دو اہم شمارے کی رسمِ اجراء بھی عمل میں آئی۔
سمینار کی افتتاحی تقریب کے اختتام پرمشہور و معروف غزل سنگر جناب امریش مشرا(ممبئی ) نے غالب کی غزلیں پیش کیں۔
28 December 2013
غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام بین الاقوامی غالب سمینار جو’’ترقی پسند شعری روایت اور علی سردار جعفری‘‘ کے موضوع پر منعقد کیاگیاہے کہ اُس کے دوسرے دن کے پہلے اجلاس میں مشہور شاعر جناب مصحف اقبال توصیفی اور پاکستان کے معروف ادیب و دانشور جناب ڈاکٹر مرزاحامدبیگ نے صدارت کی۔ پہلا پرچہ ڈاکٹرعطاء اللہ سنجری کا تھا۔انہوں نے علی سردارجعفری کی شاعری کا تقابل کیرل کے شاعروں سے کیا۔ان میں موجود مماثلت اور اختلافات کودلائل کے ساتھ اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ دوسرا مقالہ ڈاکٹرصالحہ ذرّین کا تھاانہوں نے سردارجعفری کی غزلیہ شاعری کے اہم پہلوؤں کی جانب اشارہ کیا۔ جس میں زندگی ،عشق،غم اور اجتماعی معاشرتی کی اصطلاحوں کاخوب خوب استعمال کیا۔ تیسرا مقالہ اردو کے معروف نقاد ابوالکلام قاسمی نے پیش کیاانہوں نے سردارجعفری اور مارکسی جمالیات کوایک نئے زاویہ سے دیکھنے کی کوشش کی۔ سردار جعفری کے یہاں جمالیات کاجو تصور رہاہے اُس سے مارکسی جمالیات کتنی مماثلت رکھتاہے اس جانب انہو ں نے کچھ اشارے کیے۔ چوتھامقالہ قاضی عبیدالرحمن ہاشمی کاتھاانہوں نے سردارجعفری کی تنقید نگاری سے بحث کی۔اس جلسہ کی نظامت ڈاکٹر ممتاز عالم نے کی۔اور مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے جناب انیس اعظمی موجود تھے۔
دوسر ااجلاس جناب شاہد مہدی اور ڈاکٹر ضیاء الدین احمد شکیب کی صدارت میں انجام پایا۔ اس جلسہ میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے پاکستان کے مشہور اسکالر ناصر عبّاس نیّر نے شرکت کی۔اس جلسہ میں پانچ مقالے پڑھے گئے۔ پہلا مقالا جاوید رحمانی نے سردار جعفری کی ترقی پسند ادب کے حوالے سے پیش کیا۔انہوں نے سردار جعفری کے یہاں فکری لچک نہ ہونے کی شکایت کی۔کشورناہید نے پاکستان میں ترقی پسند
تحریک کی تاریخ اور وہاں کی سیاست اور ادبی سرگرمیوں سے بحث کی۔
سیاسی جبرکی داستان اورادب پر سنسربورڈ کی مارکاخاص طورسے ذکر کیا۔ تقی عابدی نے ترقی پسند تحریک کوازکارِ رفتہ قرار دیتے ہوئے کہاکہ تحریک توآج بھی قائم ہے لیکن تنظیم ختم ہوچکی ہے۔انہوں نے فیض اور جوش کے حوالے سے ترقی پسند شاعری کامحاکمہ کیا اور اس ضمن میں سردار جعفری کی انفرادیت کواُن کے مرثیہ کے روشنی میں واضح کیا۔ انورمعظم صاحب نے ترقی پسند تحریک ،ترقی پسند شاعری اور ترقی پسندی کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا۔ جس میں انہوں نے ترقی پسند تحریک کو ایک نئے زاویہ سے دیکھنے کی کوشش کی۔خلیق انجم نے اپنا مقالہ علی سردار جعفری کے خطوط کی روشنی میں تحریر کیاتھا۔ انہو ں نے سردار جعفری سے اپنے ذاتی مراسم اورانجمن ترقی اردو کی کارگزاریوں کاذکرخاص طورسے راج بہادرگوڈ کولکھے گئے خطوط کاذکرکیا۔ اپنے صدارتی خطبہ میں ناصر عبّاس نیّر نے ترقی پسند تحریک اورمارکسی تنقید کوالگ الگ کرکے دیکھنے کی سفارش کی۔انہوں نے ترقی پسند جمالیات اور مارکسی جمالیات سے بھی بحث کی۔ شاہد مہدی نے سردار جعفری کے تعلق سے لیے جانے والے کسی بھی فیصلے کوجلد بازی قرار دیا۔ اس جلسہ میں مرزاحامد بیگ کی کتاب ’اردو افسانہ کی روایت‘ کاہندستانی ایڈیشن کی رونمائی ہوئی۔اس جلسہ کی نظامت ڈاکٹر مشتاق صدف نے کی۔ لنچ کے وقفہ کے بعد تیسرا اجلاس پروفیسر معین الدین جینابڑے اور پروفیسر عتیق اللہ کی صدارت میں شروع ہوا۔ اس جلسہ میں مہمانِ خصوصی کے طورپر ڈاکٹر تقی عابدی نے شرکت کی۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر اشفاق عارفی نے انجام دیئے۔پہلا مقالہ ڈاکٹر وسیم بیگم نے سردارجعفری کی تنقید نگاری کے عنوان سے پیش کیا۔اس میں انہوں نے سردار جعفری کی نظریاتی شدت پسندی کوخاص طورسے نشان زد کرنے کی کوشش کی۔ دوسرا مقالہ ڈاکٹر قمرالہدی فریدی نے سردار جعفری کی کتاب لکھنؤ کی پانچ راتیں کی روشنی میں سردار جعفری کی تخلیقی نثراوراسلوب سے بحث کی۔ڈاکٹر علی جاوید نے اپنا مقالہ پیش کرنے کے بجائے اپنے معروضات زبانی طورپرپیش کیے۔اس میں انہو ں نے سردار جعفری سے اپنے اختلافات اوراتفاقات کوپُرزور طریقے سے پیش کیا۔ڈاکٹر علی جاوید کی تقریر میں نظریاتی جبراورسماجی سروکارخاص طورپر زیربحث رہی۔ اس اجلاس کاآخری مقالہ پروفیسر ارتضیٰ کریم نے مجاز کے شعری مجموعہ آہنگ کے مختلف اشاعتوں کے تعلق سے پیش کیا۔ آہنگ کی مختلف اشاعتوں میں متن کی گڑبڑی کی طرف بھی اشارہ کیا۔ پروفیسر معین الدین جینابڑے نے اپنی صدارتی تقریر میں آہنگ کی مختلف اشاعتوں اور اس کی تدوین کے تعلق سے پڑھے گئے پرچے کوتدوین متن کے سیاق میں اہم قرار دیا۔ انہو ں نے سردار جعفری کی سماجی زندگی اور تخلیقی زندگی کوالگ الگ دیکھنے کی کوشش کی۔ پروفیسر عتیق اللہ نے ترقی پسند تنقید کواردوتنقید کا دماغ قرار دیا۔دوسرے دن کا آخری اجلاس جناب انور معظم اور ڈاکٹر توقیر احمدخاں کی صدارت میں شروع ہوا۔ اس میں جناب آصف اعظمی، ڈاکٹر عمیر منظر،ڈاکٹر احمدمحفوظ، جناب زبیر رضوی اور ڈاکٹر کشمیری لال ذاکرنے مقالے پیش کیے۔ اس جلسہ کی نظامت کے فرائض ڈاکٹراحمدمتیاز نے انجام دیے۔ اجلاس کے آخرمیں شرکاء نے پیش کئے گئے پرچوں پر اپنے خیالات کااظہار کیا۔ چوتھے اجلاس کے اختتام کے بعدایوانِ غالب کے پُرشکوہ آڈیٹوریم میں پاکستان کی مشہور شاعرہ کشورناہیدکی صدارت میں عالمی مشاعرہ کا انعقاد ہوا۔جس میں ملک اور بیرونِ ملک کے معروف شعراء نے شرکت کی۔مشاعرہ کی نظامت کے فرائض معین شاداب نے انجام دیئے۔او رمہمانِ خصوصی کی حیثیت سے جناب اسد رضااور جناب شکیل حسن شمسی موجود تھے۔
29 December 2013
اختتامی اجلاس کے بعدایوانِ غالب کے پُرشکوہ آڈیٹوریم میں کرشن چندر کا مشہور ڈرامہ ’ایک قلم سڑک کنارے‘ راجیش سنگھ کی ہدایت میں ہم سب ڈرامہ گروپ اور بہروپ آرٹس گروپ نے اسٹیج کیا۔اس سمینار میں ملک اور بیرون ملک کی معزز ہستیاں موجود تھیں خاص طور پر دہلی یونیورسٹی، جواہر لال نہرویونیورسٹی،جامعہ ملیہ اسلامیہ، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی اور علی گڑھ یونیورسٹی کے طلباء اور ریسرچ اسکالر بڑی تعداد میں موجود تھے۔انسٹی ٹیوٹ نے یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرس کواپنی مطبوعات اور سرٹیفیکیٹ سے سرفراز کیا۔
گذشتہ سال کی طرح امسال بھی ۲۹ دسمبر۲۰۱۳ شام سات بجے بین الاقوامی غالب تقریبات کے موقع غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام عالمی مشاعرہ کاانعقاد ایوانِ غالب میں کیاگیا۔ جس میں ملک اور بیرونِ ملک کے اہم شعرا نے اپنے کلام سے سامعین کو نوازا۔ اس عالمی مشاعرے کی صدارت پاکستان کی ممتاز شاعرہ کشورناہید نے انجام دی۔اور مہمانانِ خصوصی کی حیثیت سے ملک کے دواہم اخبارات کے ایڈیٹرجناب اسد رضا اور جناب شکیل حسن شمسی موجود تھے۔ نظامت کا فریضہ جناب معین شاداب نے انجام دیا۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر سیدرضاحیدرنے اپنی افتتاحی تقریر میں اس مشاعرے کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ کایہ مشاعرہ ہندستان کے تمام مشاعروں سے اس لیے منفرد ہے کہ ہم اس مشاعرے میں اُن ہی شعراکو مدعو کرتے ہیں جن کے کلام ملک کے معیاری رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں اوراِن شعراء کے کلام کو علمی و ادبی دنیا میں عزت کی نظروں سے دیکھا جاتاہے۔ اس مشاعرے میں طلبہ، اساتذہ، اسکالرز، شعراکے علاوہ مختلف علوم و فنون کے افراد بڑی تعداد میں موجود تھے۔ پیش ہیں کچھ شعرا کرام کے منتخب کلام:
دل ایک ہے تو کئی بار کیوں لگایا جائے
بس ایک عشق بہت ہے اگر نبھایا جائے
تم سے مل کر سب سے ناطے توڑ لیے تھے
ہم نے بادل دیکھ کے مٹکے پھوڑ لیے تھے
معین شاداب
یہ رات دن جو ابھی بھی بہت وبال کے ہیں
انہیں گذار لو ایام یہ زوال کے ہیں
شمس تبریزی
میں اُس کی بزم ناز میں ہوکر بھی آگیا!
اُلجھا رہا زمانہ عذاب و ثواب میں
افضل منگلوری
جو میرے شانوں روشن ہے میرا اپنا ہے
یہ چہرہ میں نے کسی اور سے خریدا نہیں
شہباز ندیم ضیائی
پوچھئے دِل سے عشق میں ایسے قدم اُٹھائے کیوں
خود ہے بنائے دردِ دل کرتا ہے ہائے ہائے کیوں
متین امروہوی
فنکار ہم ہیں ذہن کی اونچی اڑان ہے
دنیا یہ جانتی ہے ہماری جو شان ہے
بیگم کہو گی ہم کو کہاں تک بُرا بھلا
بس چپ رہو ہمارے بھی منہ میں زبان ہے
ڈاکٹر اعجاز پاپولر
دل میں جب جستجو کے شرارے چلے
میری اُنگلی پکڑ کر ستارے چلے
میرے آگے نہ تھا راستہ کوئی بھی
میرے پیچھے مگر لوگ سارے چلے
چندربھان خیال
اتنے خود ساختہ دیکھے ہیں خدا دنیا میں
’’ ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے‘‘
اسد رضا
ایک لمحے کو سہی ہم بھی کبھی سیراب ہوتے
یہ جو صحرا ہیں مرے اطراف کچھ شاداب ہوتے
کچھ ہمارے دم سے آسودہ ہوئی ہوتی یہ دنیا
ہم کتابِ زندگی میں عافیت کا باب ہوتے
راشد جمال فاروقی(رشی کیش)
بد دعا اُس نے مجھے دی تھی، دعا دی میں نے
اس نے دیوار کھڑی کی تھی، گرادی میں نے
شہپر رسول
سحر و اعجاز میں لازم ہے ذرا فرق رہے
یعنی معصوم نگاہی کو نہ وحشت سے ملا
سراج اجملی
سارے موسم فریب دیتے ہیں
رت کوئی معتبر نہیں آتی
کوئی پوچھے ٹھٹھرتے لوگوں سے
نیند کیوں رات بھرنہیں آتی
شکیل
وہ دونوں خوب عشق کہانی میں کرچکے
اک چہرہ اُن کے بیچ رقیبانہ چاہیے
زبیر رضوی
کچھ یونہی زرد زرد سی ناہید آج تھی
کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کھِلتا ہوا نہ تھا
کشورناہید
ہمیں تو اپنا فسانہ سُنانا ہوتا ہے
تمہارا ذِکر تو بس اِک بہانہ ہوتا ہے
کشمیری لال ذاکر
اپنا شہکار ابھی اے مرے بت گر نہ بنا
دل دھڑکتا ہے مرا تو مجھے پتھر نہ بنا
مصحف اقبال توصیفی
اب ساکینانِ شیش محل کی نہیں خیر
آئینۂ گرہے ہاتھ میں پتھر لئے ہوئے
قیصراعظمی
کسے بتائیں کہ ہم نے تمام عمر عزیز
گذار دی ہے فقط ایک تیری ہاں کے لئے
مہتاب حیدرنقوی
رہے نادان کے نادان ہشیاری نہیں آئی
اداکاروں میں رہ کر بھی اداکاری نہیں آئی
(راشد انورراشد)
صحرا کے سنگین سفر میں آب رسانی کم نہ پڑے
ساری آنکھیں بھرکر رکھنا دیکھو پانی کم نہ پڑے
فرحت احساس
کسی طرح نہ مری نبھ سکی زمانے سے
تمام عمر رہی بات بات پر اَن بَن
شاہد ماہلی
جناب شاہد ماہلی کے اظہارِ تشکّر کے ساتھ مشاعرہ کااختتام ہوا۔