Print Friendly, PDF & Email

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام بین الاقوامی غالب سمینار

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام بین الاقوامی

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام سالانہ بین الاقوامی غالب سمینار بعنوان”ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے“ کا آج نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ ایوان غالب میں افتتاح عمل میں آیا۔ ان تقریبات کے تحت تین دنوں تک شام غزل،عالمی مشاعرہ اور داستان سرائی کا اہتمام کیا رہا ہے۔ افتتاحی اجلاس کا باضابطہ آغاز مہمانوں کی خدمت میں گلدستہ پیش کرکے ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔

سمینار کا افتتاح کرتے ہوئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصورنے کہاکہ ہمیں اور لوگوں سے سیکھنا چاہئے کہ زبان کو کیسے فروغ دیں۔ اردوصرف  بولنے سے نہیں آتی ہے بلکہ آپ کو اردو لکھنی اور پڑھنی بھی آنی چاہئے۔ ہمیں اپنے زبان کی تعلیم دینے کے لیے کسی انتظامیہ اور حکومت پرمنحصر نہیں رہنا چاہئے۔اردو اتنی خوبصورت زبان ہے کہ اس سے ہر انسان متاثر ہے، ہم مل کر کام کریں گے تو اردو اسی طریقے سے ترقی کرتی رہے گی۔اس اجلاس کی صدارت انگریزی کے معروف دانشور پروفیسر ہریش ترویدی نے کی۔ انہوں نے غالب انسٹی ٹیوٹ کی ستائش کرتے ہوئے کہاکہ مجھے بہت خوشی ہے کہ غالب کے حوالے سے اس عظیم الشان پروگرام کا انعقاد کیا گیا ہے، ہم غالب کو اسکول کے زمانے سے پڑھتے چلے آئے ہیں۔ غالب اردواور ہندی سمیت متعدد زبانوں کے شاعر ہیں۔ انہوں نے غالب کا موازنہ اہم مغربی شعراء سے کیا۔

سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ غالب ایک شاعر تھے یا فلسفی۔ ان کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر فلسفی تھے۔ اردو کو نظر انداز کیے جانے کے معاملے میں ہم لوگوں کا قصور ہے، دراصل ہم لوگوں نے اپنے بچوں کو اردو نہیں پڑھائی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اردوکے رسائل اور اخبارات ضرور خریدیں تاکہ ہمارے بچوں میں اردو کے تئیں بیداری اور شوق پیدا ہو۔ سمینار کا کلیدی خطبہ غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے پیش کیا۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ غالب کی شاعری کاجب ذکر آتاہے تو یہی سوال اٹھتا ہے کہ وہ وجود میں آنے اور وقت گزرنے کے بعد زندہ کیوں ہے اور اس کی زندگی میں اضافہ کیوں ہوتاجاتاہے۔ اُن کے بہت سارے اشعار جنہیں خود انہوں نے یااُن کے معتقدین نے کبھی دیوانِ غالب سے نکال دیا تھاوہ اچانک کسی مخطوطے یا مسودے کے ساتھ نئے سرے سے وارد ہوتے ہیں تو وہ اچانک چونکا دیتے ہیں اور ان کا اثر نئے حالات میں کچھ نیااور کچھ مختلف لگتا ہے۔ 

اس موقع پر ادبی دنیا میں نمایاں خدمات انجام دینے کے لیے 6 شخصیات کی خدمت میں غالب انعامات پیش کیے گیے ان میں: پروفیسر قدوس جاوید کو ’برائے اردو تحقیق و تنقید‘، پروفیسرسید احسن الظفر کو’برائے فارسی تحقیق و تنقید‘، پروفیسر ابن کنول کو’برائے اردو نثر‘، ڈاکٹر بشیر بدر کو’برائے اردو شاعری‘، جناب محمود فاروقی کو’برائے اردو ڈرامہ‘، پروفیسر سید ظل الرحمٰن کو’برائے مجموعی خدمات‘ کا نام شامل ہیں۔اس موقع پر غالب انسٹی ٹیوٹ کی نئی مطبوعات، دیوان غالب پنجابی، معاصر اردو ادب میں نئے تخلیقی رویے مرتبہ پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی، غالب اور عالمی انسانی قدریں مرتبہ ڈاکٹر ادریس احمد،غالب کا خود منتخب کردہ فارسی کلام اور اس کا طالب علمانہ مطالعہ، مصنفہ جناب بیدار بخت، غالب:دنیائے معانی کا مطالعہ مصنفہ پروفیسر انیس اشفاق، گم شدہ معنی کی تلاش، مصنفہ پروفیسر سرورالہدیٰ، غالب نامہ کے دو شمارے، ڈائری کلنڈر کی رسم رونمائی بھی کی گئی۔

افتتاحی اجلاس کے اختتام پر اظہار تشکر ادا کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے بتایا کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی بین الاقوامی غالب تقریبات اسی شان سے منعقد کیا گیا ہے۔غالب انسٹی ٹیوٹ ہر برس غالب کے یوم پیدائش کے موقع پر دسمبر میں غالب تقریبات کا اہتمام کرتا ہے اور یہ تقریبات محض رسمی نہیں ہوتیں بلکہ ہم نے پورے سال کیا کیا اس کی ایک رپورٹ بھی ہوتی ہے، یہ رپورٹ کتابوں کی رونمائی کی شکل میں پیش کی جاتی ہے۔ ہم نے اس سال کئی اہم مذاکرے اور خطبات کا اہتمام کیا جس کے آپ میں سے بیشتر لوگ گواہ بھی ہیں۔ اپنی فعالیت کی بنیاد پر یہ ادارہ بین الاقوامی شہرت یافتہ ادارے کی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔ افتتاحی اجلاس کے بعد شام غزل کا اہتمام کیا گیا، جس میں معروف غزل سنگر محترمہ رشمی اگروال نے غزل پیش کی۔

اختتام سمینار کے پہلے اجلاس کی صدارت دہلی یونیورسٹی کے استاذ پروفیسر محمد کاظم نے کی جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر جاوید عالم نے انجام دیے۔ پروفیسر سید احسن الظفر، ڈاکٹر فاضل احسن ہاشمی اور ڈاکٹر نوشاد منظر نے مقالات پیش کیے۔ جب کہ بنگلہ دیش سے تشریف لائے ڈاکٹر پولاک دیوناگ نے بنگلہ دیش میں اردو اور غالب کے تعلق سے اظہار خیال کیا۔ اس موقع پر صدر اجلاس پروفیسر کاظم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا غالب سمینار کے یہ اجلاس تربیت گاہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس کے ذریعہ مستقل نئی نسل استفادہ حاصل کر رہی ہے۔ انہوں نے مرزا غالب کی شخصیت پر اپنی رائے رکھتے ہوئے کہاکہ غالب کی مانویت کل بھی تھی اور آج بھی برقرار ہے۔ شاعر صرف شاعر نہیں بلکہ انسان بھی ہوتا ہے اور اس کی نفسیات اس کی شاعری میں نمایاں نظر آتی ہے۔

وقفے کے بعد دوسرے سیشن کا آغاز ہوا، جس میں کل چار مقالات پیش کیے گئے۔ اس اجلاس کی صدارت جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے استاذ پروفیسر انور پاشا اور دہلی یونیورسٹی کے سابق ڈین اور سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر ارتضی کریم نے کی۔ جب کہ نظامت کے فرائض سعدیہ صدیقی نے انجام دیے۔ اس اجلاس میں پروفیسر محمد زماں آزردہ، ڈاکٹر شمس بدایونی، ڈاکٹر خالد علوی اور پروفیسر سرور الہدی نے”ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے“ موضوع کے تحت اپنے اپنے مقالات پیش کیے۔پروفیسر ارتضی کریم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ غالب کے یہاں الفاظ اور تراکیب کا استعمال عام مفہوم میں ہر گز نہیں ہوتا ہے۔ ان کا ہر لفظ گنجینہئ معنی کا طلسم ہوتا ہے۔ناقدین غالب، شارحین غالب کے اشعار اور ان میں استعمال ہونے والے الفاظ اور تراکیب کی نیرنگنیوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ بظاہر یہ مصرع ’ہوتا ہے شب و روزتماشا مرے آگے‘۔ میں ہم لفظ تماشا اور شب و روز کو عام مفہوم میں اگر لیں گے تو غالب نے جو معنی آفرینی کی ہے وہاں تک ہم پہنچ نہیں سکتے۔ خوشی کی بات ہے کہ مقالہ نگار حضرات نے اس موضوع کے ساتھ انصاف کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں غالب انسٹی ٹیوٹ کو اس خوبصورت بین الاقوامی سمینار کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ پروفیسر انور پاشا نے صدارتی گفتگو میں کہاکہ غالب کو جو اہمیت حاصل ہے اس میں آج بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ غالب اسی طرح سے آج بھی مقبول ہے جس طرح اپنے عہد میں تھا۔ بہت سی باتیں ہیں جو غالب کو ممتاز بناتی ہیں۔ تفہیم غالب کا جو سلسلہ عہد غالب میں شروع ہوا تھا۔ اور آج تک تکمیل کلام غالب کا دعویٰ آج تک کوئی نہیں کرسکتا ہے۔ آخر یہ صفت کون سی ہے غالب کے یہاں۔ عہد جدید کے حوالے سے غالب آج بھی اسی طرح سے 20ویں صدی میں جدید لگتا ہے۔غالب کا جو انداز بیان ہے وہ انداز فکر کو بھی اپنے اندر شامل کرتا ہے۔ مختلف جہات جو فکر کی ہے، مختلف آواز جو ہے فکر کی وہ غالب کی شاعر ی میں موجود ہے۔ غالب کی شاعری میں جو تنوع ہے،جو تصادم ہے اور جو تضاد ہے وہ شاید دوسرے شاعر کے یہاں نہیں دیکھیں گے۔ غالب کے یہاں تضاد ہے،تصادم ہے اور تنوع ہے اور یہی غالب کو امتیاز عطاکرتا ہے۔ 

تیسرا اجلاس آن لائن منعقد ہوا۔ جس کی صدارت نوید مسعود نے کی جب کہ ڈاکٹر شعیب رضاخان وارثی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ پروفیسر تحسین فراقی، پروفیسر نجیبہ عارف، ڈاکٹر نوید عباس اور ڈاکٹر جاوید رحمانی نے مقالات پیش کیے۔ آج کے آخری اجلاس کی صدارت کے فرائض پروفیسر زماں آزردہ نے انجام دیے جب کہ نظامت صنہیب اظہار نے کی۔ قدآور نقاد پروفیسر عتیق اللہ، پروفیسر قاضی جمال حسین اور پروفیسر نسیم احمد نے طے شدہ موضوع کے تحت اپنے پرمغز مقالات پیش کیے۔ 

اجلاس کے اختتام پر صدر اجلاس پروفیسر زماں آزردہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ پڑھے گیے مقالات پڑھے گیے۔غالب ایسا شخص ہے جو خود پر ہنستا ہے اور مختلف صورتیں دیکھتا ہے۔دیکھنے کے لیے صرف نظر نہیں چاہئے اس کے لیے روشنی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ پروفیسر آزردہ نے فرداً فرداً تمام مقالات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ مقالات کے اجلاس کے بعد عالمی مشاعرے کا انعقاد عمل میں آیا۔ مشاعرے کی صدارت ڈاکٹر ایس فاروق نے کی جب کہ نظامت کے فرائض منصور عثمانی نے انجام دیے۔ اس موقع پر بطور مہمان خصوصی محمد محمود احمد(مصر) نے شرکت کی۔ مدعوع شعراء کرام میں  ڈاکٹرسید تقی عابدی(کینیڈا)،محمد محمود احمد(مصر)، اظہر عنایتی، منظر بھوپالی،  پاپولر میرٹھی، حسن کاظمی، شکیل اعظمی، ڈاکٹر نصرت مہدی، حنا تیموری، سہیل لکھنوی، میکش امروہوی، سریندر شجر، سلیم شیرازی، جاوید مُشیری، ماجد دیوبندی،ملک زادہ جاوید،سلیم امروہوی، معین شاداب، صہیب احمد فاروقی۔

 سمینار کے پہلے اجلاس کی صدارت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے استاذ پروفیسر ندیم احمد نے کی۔ جب کہ نظامت کے فرائض رئیس احمد فراہی نے انجام دیے۔ سیشن میں قدآور ماہر اقبالیات پروفیسر عبد الحق ’غالب کا شعری احساس تفاعل‘، پروفیسر قمرالہدی فریدی’غالب کی داخلیت‘، اور پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی ’غالب کی تخلیقی توانائی‘،عنوانات کے تحت مقالات پیش کیے۔صدارتی گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ندیم احمد نے کہاکہ غالب ایک دور اندیش شاعر تھا، جس کے سبب آج بھی عہد جدید کا شاعر معلوم ہوتا ہے۔ غالب کے اشعار جتنی بار پڑھے جائیں معنی کی نئی جہتیں سامنے آتی ہیں۔

دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کی جب کہ ڈاکٹر علام الدین نظامت کر رہے تھے۔ اس اجلاس میں بطور مقالہ نگار پروفیسر کوثر مظہری، پروفیسر نجمہ رحمانی، پروفیسر اخلاق آہن، ڈاکٹر ضیاء اللہ انور اور فاطمہ سادات میر حبیبی(ایران) نے اپنے اپنے مقالات پیش کیے۔ پروفیسر شریف حسین قاسمی نے صدارتی گفتگو میں کہاکہ غالب نے لفظ تماشا مختلف مفاہیم میں استعمال کیے ہیں، یہ مفہوم میں اور آپ محسوس کرسکتے ہیں۔ لیکن ایرانی اس مفہوم کو بیان نہیں کرسکتے۔ پروفیسر قاسمی نے غالب کے مختلف اشعار پیش کرکے مثالیں بھی پیش کیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ غالب کے یہاں جب ان کا اردو کلام پڑھتے ہیں تو بعض اشعار میں آخر میں صرف ہے ہوتا ہے، اس سے ہی پتہ چلتا ہے کہ یہ شعر اردو کا ہے ورنہ اس کے پورے مصرعے فارسی ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ غالب پڑھتے فارسی تھے اور لکھتے اردو میں تھے۔ یہاں پیش کیے گیے تمام مقالات بہت اچھے تھے اور سبھی نے ان مقالات سے استفادہ کیا۔تیسرے اجلاس کی صدارت کے فرائض پروفیسر وہاج الدین علوی اور پروفیسر قاضی عبیدالرحمن ہاشمی نے انجام دیے۔ جب کہ نظامت ڈاکٹر خوشتر زریں ملک نے کی۔پروفیسر ہربنس مکھیا، پروفیسر انیس اشفاق، پروفیسر شافع قدوائی اور پروفیسر احمد محفوظ نے مقالے پیش کیے۔ پروفیسر وہاج الدین علوی نے صدارتی گفتگو میں کہاکہ پیش کیے گئے تمام مقالات بے حد عمدہ تھے اور کافی تیاریوں کے ساتھ لکھے گیے۔ غالب کو ہم سمجھتے ہیں فلسفیانہ گفتگو کرتے ہیں جب کہ ان کے یہاں زبان کے جو چٹخارے ملتے ہیں، اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ غالب کے تماشے جو ہیں وہ تاریخ سے لیکر تصوف تک ہیں۔طرح طرح کے تماشے وہ دکھاتا ہے۔غالب کی چکلس کی پرواز دیکھئے کہ وہ معرفت تک لے جاتا ہے۔آج کا یہ سمینار اور اب تک جتنے سمینار اور جتنے ہوں گے وہ غالب کے ہی تماشے پہ ہوں گے۔ کیا وہ تماشا دکھاتا ہے یا وہ کرتا ہے۔ غالب وہ شاعر ہے جو کبھی بھی تماشا بنتا نہیں ہے۔ 

 اس اجلاس کے بعد اختتامیہ اجلاس کی صدارت پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کی جب کہ پروفیسرعتیق اللہ،پروفیسر ہربنس مکھیا اور پروفیسر انیس اشفاق  اور پروفیسر قاضی جمال حسین نے اظہار خیال کیا۔ اس اجلاس کی نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر ندیم احمد نے ادا کی۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ میں ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد اور اپنے تمام ساتھیوں کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے محنت و مشقت اور سلیقے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کیں۔ غالب انسٹی ٹیوٹ اس قسم کے سمینار منعقد کرتا رہتا ہے اور ہماری ٹیم کی یہ انتظامی صلاحیت ہے کہ وہ ایک روز میں تمام انتظامات بخوبی انجام دے سکتی ہے۔ پروگرام کے اختتام پر غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد اظہار تشکر ادا کرتے ہوئے کہاکہ میں اور میری ٹیم نے بہت ہی خوشی کے ساتھ تمام انتظامات کیے۔آپ تمام حضرات سے میں التماس کرتا ہوں کہ آپ اپنے مفید مشوروں سے ہمیشہ نوازتے رہیں اور تجاویز بھی پیش کریں۔ میں آپ سبھی کی شرکت کا ممنون و مشکور ہوں۔

آخری پروگرام’ہم سب ڈرامہ گروپ‘، غالب انسٹی ٹیوٹ ’کے زیر اہتمام ’داستانِ غالب“ کا انعقاد عمل میں آیا۔ جسے تحریر کیا تھا پروفیسر دانش اقبال نے جب کہ پیش کش فوزیہ داستان گو اور فیروز خان (معروف داستان گو)، کی تھی۔

English Hindi Urdu