کاظم علی خاں
غالب اور نظیراکبرآبادی
مرزا غالب اور نظیراکبرآبادی پر بات کرتے وقت یہ امر ملحوظ رہنا چاہیے کہ غالب سن و سال میں نظیر سے کم و بیش 62 بانسٹھ سال چھوٹے تھے لیکن ہم سن نہ ہوکر بھی یہ دونوں شاعر اپنے مولد و مدفن کے اعتبار سے ایک خاص ربط رکھتے تھے۔ ان دونوں شاعروں میں سے ایک مولد دوسرے کا مدفن ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ غالب اس دہلی میں دفن ہیں جو نظیر کا مولد ہے اور نظیر اس اکبرآباد یعنی آگرے میں مدفون ہیں جو غالب کا مولد رہا ہے جیسا کہ تذکرہ ماہ و سال کے درجِ ذیل اندراجات سے ظاہر ہوتاہے۔ (1)
غالب: ولادت آگرہ 27 دسمبر 1797۔ وفات دہلی 15 فروری 1869
نظیر:۔ولادت دہلی تقریباً 1735 وفات آگرہ16 اگست1830
غالب اور نظیر کی داستانِ حیات بتاتی ہے کہ غالب جس قدر سرکارودربار سے وابستگی کے شوق بے پایاں کے اسیر تھے نظیر اسی قدر سرکارو دربار سے دوری برقرار رکھنے کے عادی تھے۔ دہلی میں مغل بادشاہ بہادرشاہ ظفر کا دربار ہویا فرماں روایان اودھ و رام پورکی سرکاریں غالب نے ہر جگہ سے جتنا ہوسکاخوب فائدہ اٹھایا۔ نظیر اکبرآبادی نے اس کے برخلاف زندگی میں زیادہ تر یاتو معلّمی کاپیشہ اختیار کیا ہے یا فقیری اور قلندری کی ہے(2)۔
غالب اور نظیر کی داستانِ حیات میں کئی ایسی قابلِ ذکر باتیں ملتی ہیں جن کا بیان دل چسپی سے خالی نہ ہوگا۔ کاروبارِ شعر وسخن میں نظیر اکبرآبادی کے کسی استاد کا نام نہیں ملتا اورغالب کے مستند سوانح نگا ربھی شاعری میں اُن کے کسی استاد کانام نہیں بتاتے۔ تذکرہ گلستان بے خزاں کی یہ روایت کہ شاعری میں غالب نظیر کے شاگرد تھے اب مشکوک مانی جاتی ہے۔(3)
لسانی اعتبارسے غالب فارسی اور اردو صرف دو زبانوں میں نظم و نثر لکھنے پر قادر تھے اس کے برعکس نظیر اکبرآبادی کو جن متعدد زبانوں میں شاعری کرنے کی قدرت حاصل تھی۔ ان کی تفصیل آگے اپنے مقام پر آئے گی۔
یہاں اس با ت کی نشان دہی بھی بے محل نہ ہوگی کہ غالب اور نظیر دونوں کا کلام مقبولیت کے اعتبار سے زمانے کے نشیب و فراز سے دوچار رہ چکا ہے۔ غالب کو تو اپنے کلام کی ناقدری پر جیتے جی یہ کہنا پڑاتھا:
شہرتِ شعرم بہ گیتی بعدِ من خواہشد شدن(4)
اب رہا نظیر اکبرآبادی کا معاملہ تو یہ حقیقت اہلِ نظرسے مخفی نہیں کہ کلامِ نظیربرسوں کسادبازاری سے دوچار رہ کر دورِ حاضر میں شہرت و مقبولیت سے ہم کنار ہوا۔
یہ درست ہے کہ دونوں شاعروں کی موت کا زمانہ و مقام الگ الگ رہا یعنی غالب نے 15 فروری 1869 کو دہلی میں وفات پائی اور نظیر16 اگست 1830 کو آگرے میں فوت ہوئے تھے لیکن یہ بھی غلط
نہیں کہ دونوں شاعرو ںکی وفات بہ عارضہ فالج ہوئی تھی۔ (5)
غالب و نظیر کی اولاد و اخلا ف کے باب میں یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ غالب کے یہاں متعدد بچے ہوئے مگر بدقسمتی سے کوئی نہ بچ سکا اور غالب کو بے اولاد ہی دنیا سے سفرکرناپڑا، البتہ نظیراولاد کی نعمت سے مرحوم نہ رہے۔(6)
ادبی آثار کی طباعت کے اعتبار سے بھی دونوں شاعروں کی قسمت ایک سی نہ تھی۔ غالب کے متعدد ادبی آثار اُن کی زندگی ہی میں چھپ گئے تھے اس کے برخلاف نظیر کے ادبی آثار (بیش تر) ان کی موت کے بعد نہ صرف چھپے تھے بلکہ ان کے جمع ہونے کا کام بھی قابلِ لحاظ حد تک اُن کی موت کے بعد ہی انجام دیا گیا تھا۔ نظیر کی وفات اگست 1830 میں ہوئی۔ ظاہر ہے کہ اس زمانے میں اردو کتابوں کے چھپنے کا چلن ہوگا ہی نہیں۔ دیکھئے:1۔ توقیتِ غالب: کاظم علی خاں باب نمبر11 2۔ نظیر اکبرآبادی: ڈاکٹر طلعت نقوی)
غالب اور نظیراپنے دینی عقائد کے اعتبار سے بھی ایک جیسے تھے۔ دونوں شاعروں نے اپنے آبائی عقائد چھوڑکرشیعی مسلک اختیار کرلیاتھا۔ (7)
غالب شناس اس بات سے باخبر ہیں کہ دہلی میں غالب ایک ڈومنی کے عشق میں گرفتار رہے ہیں اور ایک عرصے تک اُس ڈومنی کی یادوں کی کسک غالب کے دل میں باقی رہی ہے(توقیتِ غالب: ڈاکٹر کاظم علی خاں،ص19 ) تلاش کرنے پر پتاچلاکہ نظیر اکبرآبادی کی داستانِ زندگی بھی ان کی حیاتِ معاشقہ سے خالی نہیں اور ہم نظیر کی اُن معشوقہ کے نام سے بھی باخبرہیں۔ اس عورت کانام ”موتی“ ملتا ہے۔ (8)
مال و دولت سے غالب کا غیر معمولی لگاؤ کوئی ڈھکی چھپی
بات نہیں اگر کہیں سے غالب کو کچھ بھی ملنے کی امید ہوتی تو وہ اس کے حصول میں کسی تکلّف سے کام نہ لیتے جب کہ اس سلسلے میں نظیر خاصے محتاط رہتے تھے۔ (نظیر اکبرآبادی طلعت حسین نقوی، ص38۔ تا39) ظرافت غالب ونظیر دونوں کے مزاج کامشترک وصف نظر آتی ہے۔ دونوں شاعروں نے محرومیوں اور مایوسیوں سے گھری اپنی دکھ بھری زندگی کو ہنس کھیل کر گزارنے کا گُر سیکھ لیاتھا۔ دونوں شاعر آلامِ زندگی کو مردانہ وار جھیل جانے کے ہنر سے باخبر تھے۔
غالب کایہ مشہور شعر ان کے اسی وصف کا غمّاز ہے:
قیدِ حیات و بندِ غم، اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے، آدمی غم سے نجات پائے کیوں
نظیر نے بھی نشاطیہ اور رجائی لہجے کو اپنایا۔
تصوف کی جلوہ گری غالب اور نظیر دونوں کے کلام میں ملتی ہے مگر غالب تصوف سے شغف رکھنے کے باوجود خود صوفی نہ تھے جب کہ نظیر کے تصوف میں جابجا توکل کی جھلک ملتی ہے گویا نظیر صحیح معنوں میں فقیری اور قلندری کی راہوں پر گام زن رہنے کے عادی تھے۔
غالب کے مزاج میں قناعت کی کارفرمائی دور دور تک نہیں ملتی، نظیر کے یہاں قناعت کی کمی نہیں۔
کلام غالب و نظیر کے بہ غور مطالعے سے پتا چلتاہے کہ غالب مشکل زبان میں پیچیدہ خیال والے شاعر تھے لیکن نظیر کی شاعری میں عوامی زبان کی کوئی کمی نہیں بلکہ کہیں کہیں وہ بازاری زبان بھی استعمال کرجاتے ہیں۔ شاہی اور درباری دور میں بازاری زبان ان کی شاعری کو عوام سے قریب کرتی ہے۔ شاہی دور کی شاعری میں عوامی لب و لہجہ نظیر کی شاعری کو بے فصل کا میوہ بنا دیتا ہے۔ اور نظیر کا کلام جاڑوں والا ایسا آم معلوم ہوتا ہے جو بے مزہ ہونے کے باوجود قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
نظیراکبرآبادی کے کلام میں ہندستانی عناصر کی جلوہ گری بھی نہایت اہم وصف ہے۔ ہندستان کے موسم ہوں یا ہندستان کے میلے ٹھیلے، یہ تمام عناصر عوام میں میل جول بڑھاتے ہیں دور حاضر میں نظیر کی شاعری کایہ پہلو بھی خاصی معنویت رکھتاہے۔ کلام غالب میں بھی یہ تمام پہلو تلاش کرنے پر مل جاتے ہیں۔ مگر انہیں کلام نظیر میں قدم قدم پر پایا جاتاہے۔
وسیع النظری، بے تعصبی اور رواداری نظیر کی شاعری کاوہ جاندار حصہ ہے جو آج بھی ہمارے لیے کام کی شے ثابت ہوسکتی ہے۔ اس لیے دورِ حاضر میں کلامِ نظیرکی معنویت کے منکر نہیں۔ کلامِ نظیرکا اہم ترین پہلو اس ہندومسلم میل ملاپ کی تلقین ہے جس کی ضرورت سے آج بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تلاش کرنے پر ہمیں کلامِ غالب میں بھی یہ پہلو مل سکتے ہیں مگر نظیر کی شاعری میں ان کی ’بہتات‘ہے۔
مذہبی میل ملاپ کے ساتھ ساتھ کلامِ نظیر میں ایک طرح کی لسانی روادری کی بھی جھلکیاں ملتی ہیں۔ نظیر کی شاعری ایک ایسا بوقلموں (رنگ برنگی) نگار خانہ نظر آتی ہے۔ جہاں دوچار نہیں آٹھ آٹھ زبانوں کی جلوہ گری ملتی ہے۔ نظیر کی شاعری میں ہمیں عربی، فارسی، پنجابی، ’بھاشا‘ مارواڑی، پوربی، ہندی اور اردو زبانوں کی جھلکیاں نظر آتی ہیں جبکہ لسانی اعتبار سے غالب صرف اردو اور فارسی نظم و نثر لکھنے پر قادر تھے۔ (بہ حوالہ نظیر اکبرآبادی: ڈاکٹر طلعت حسین،ص24)
کلام نظیر میں آدمی اور دنیا کی بے ثباتی کے بھی سبق آموز حصّے موجود ہیں مگر یہاں اِس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ میاں نظیر کے کلام کی اصل شہرت ان کی غزلوں سے زیادہ نظموں کے باعث ہے اس کے برعکس غالب کے کلام میں نظم سے زیادہ غزلوں پر زور ملتا ہے۔
نظیر نے بہترین شہر آشوب بھی لکھے ہیں جن میں جزئیات نگاری کے اچھے نمونے ملتے ہیں۔ غالب کے یہاں اس صنف کی کمی ہے۔
نظیر کے کلام میں متعدد ایسے موضوعات پر بھی نظمیں ملتی ہیں جو عام طورپر شاعری کے دائرے سے خارج رکھے جاتے ہیں۔ مثلاً کلامِ نظیر میں اژدھے کا بچہ، گلہری کی بچہ، تربوز، تل کے لڈو، کورا برتن جیسے موضوعات پر دل چسپ نظمیں موجود ہیں، غالب کا جو کلام کاٹ چھانٹ سے بچ کر ہم تک آیاہے اس میں اس طرح کی نظمیں نہیں ملتی ہیں۔
نظیراکبرآبادی کی مشہور اور مقبول نظموں کی تعداد اچھی خاصی ہے اور ان سے مثالیں پیش کرنا آسان نہیں، روٹیاں اور آدمی نامہ نظیر کی شاہ کارنظموں میں شامل ہیں۔ غالب کے ادبی آثار میں نظم کے ساتھ ساتھ اردو اور فارسی نثر کے بھی نمونے ملتے ہیں جو چھپ کر مقبول ہوچکے ہیں۔ نظیر کی نثرکا ذکر نظیرشناسوں تک محدود ملتا ہے غالب کی طرح نظیر کی نثر نہ تومشہور ہوسکی ہے اور نہ مقبول ہوئی ہے۔ غالب اور نظیر نے اپنی طویل ادبی زندگی میں کسی استاد کی شاگردی تو نہیں کی مگر یہ دونوں شاعر درجنوں شاگردوں کے استاد ضرور رہے تھے۔ غالب کے شاگردوں کی تعداد تو اتنی زیادہ تھی کہ ان کے ذکرپر مشتمل مالک رام ‘تلامذہ غالب’ کے نام سے ایک اچھی خاصی ضخیم کتاب چھپوا چکے ہیں جو ایک سے زیادہ بار چھپ چکی ہے(تفصیل کے لیے دیکھیے راقم الحروف کی کتاب توقیتِ غالب، ص74 تا 85) نظیر کے شاگردوں کی فہرست بھی تقریباً ایک درجن شاعروں کے نام پر مشتمل ہے۔ (10)
مقالے کے اختتام میں غالب اور نظیر کے مزاروں پر بھی بات کرنا نامناسب نہ ہوگا۔ غالب نے دوشنبہ 15 فروری 1869 کو دوپہر ڈھلے دہلی میں وفات پائی تھی۔ ہجری تقویم کی رو سے ان کی تاریخ وفات ۲ ذی قعدہ 1285ھ ہے سببِ وفات دماغ پر فالج گرنا تھا۔ غالب کی تدفین اسی روز بستی نظام الدین دہلی میں واقع خاندانِ لوہارو کے قبرستان میں ہوئی تھی۔ (توقیتِ غالب،ص55)، گردشِ زمانہ کے باعث مزارغالب کی تعمیر متعدد بار ہوتی رہی ہے۔ ایک عرصے تک مزارکی حفاظت کا نا کافی انتظام رہاہے جس کی وجہ سے جواریوں وغیرہ جیسے ناپسندیدہ عناصر کی بے روک ٹوک آمدورفت کے باعث غالب شناسوں کی پریشانی اور الجھن کا سبب رہاہے۔ مزارِ غالب پر پھولوں کی چادر وغیرہ کو کھانے بکریوں کی بھی آمدورفت رہاکرتی تھی۔ مگر خداکاشکر ہے کہ اب غالب شناسوں کی توجہ سے مزار کی چوحدی میں مقفل دروازے کا انتظام ہوگیا ہے۔
نظیراکبرآبادی 98 سال کی طویل عمرپاکر اگست 1830 مطابق 1246ھ میں بہ مقام آگرہ فوت ہوئے تھے اور آگرہ ہی میں اُن کا مدفن ہے۔ مزارِ نظیر محلہ تاج گنج آگرہ میں واقع ہے۔
حواشی:
1۔ تذکرہ ماہ و سال:مالک رام نئی دہلی،نومبر1991،ص286،نیزص293
2۔ ملاحظہ ہوں:(1)توقیت غالب: ڈاکٹر کاظم علی خاں۔ انجمن ترقی اردو(ہند) نئی دہلی ابواب نمبر15۔16، نیز 17(2) نظیر اکبرآبادی الخ:ڈاکٹر سید طلعت حسین نقوی فیض آباد(ٹانڈہ)طبع فروری 1990، 27، 30 تا 40
3۔ توقیتِ غالب،ص18
4۔ کلیاتِ غالب(فارسی نظم) مطبع نول کشور 1863، 514
5۔ برائے تفصیل؛دیکھےے تذکرہ ماہ و سال:مالک رام طبع نومبر 1991، ص286، نیزص 393
6۔ برائے تفصیل دیکھیے:(1)ذکرغالب:مالک رام(2) نظیر اکبرآبادی: طلعت نقوی،ص30 تا31
7۔ ملاحظہ ہوں:(1)دیوان غالب کامل نسخہ گپتا رضا: کالی داس گپتا رضا۔ ممبئی مطبوعہ 1990، ص26 نیز،ص 445 تا 447
(2) نظیر اکبرآبادیڈاکٹر سید طلعت حسین نقوی،ص46
8۔ دیکھے:(1) نظیر اکبرآبادی کے کلام کا تنقیدی مطالعہ،ص22 (2)زندگانیِ بے نظیر:عبدالغفور شہباز؛نئی دہلی 1981، ص79 تا81
9۔ دیوان غالب(نسخہ عرشی)طبع 1982، نئی دہلی ص241 (نوائے سروش)
10۔ شاگردانِ نظیر کے لےے دیکھیے نظیر اکبرآبادی ڈاکٹر طلعت حسین۔ فروری 1990، ص 48 تا49