Print Friendly, PDF & Email

غالب کا سفر اور ان کی تخلیقی زندگی

پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی

غالب کا ایک شعر ہے:
مری تعمیر میں مُضمر ہے،اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برقِ خَرمن کا ہے خونِ گرمِ دہقاں کا
یہ شعر پورے انسانی وجود کا ارشاد ہے۔تفصیل میں جائیے تو فلسفیانہ موشگافیوں کے گورکھ دھندے میں پھنستے چلے جائیں گے لیکن جس شاعرانہ حسن کے ساتھ زندگی کے تجربات کے بارے میں غالب نے اپنے احساس کی شدت کا اظہار کیا ہے۔تعمیر اور خرابی کو برقِ خرمن اور دہقاں کے خون گرم کے استعارے کے ذریعے تاثرات کی ایک وسیع دنیا سامنے آجاتی ہے اور وہیں کہیں ہمیں وہ غالب ملتے ہیں جن کے اردو فارسی خطوط میں خارجی دنیا سے ان کے رشتے اور ان میں کئی مقامات پر ان کی انا کے ساتھ تصادم نظر آتا ہے۔
کسی شاعر کی ز ندگی کے اصل واقعات اور اس کے تخلیقی مزاج کے درمیان رشتہ تلاش کرنا کس حد تک مناسب ہے اور اس کی تخلیقات کو سمجھنے میں کہاں تک کار آمد ہو سکتا ہے۔یہ ایک مستقل سوال ہے جس کا کوئی سیدھا جواب شاید ممکن نہیں۔اس کا ایک عام سبب تو یہی ہو سکتا ہے کہ شاعروں کی اصل زندگی اور ان کی اُس شاعرانہ شخصیت میں جوان کی تخلیقات میں نظر آتی ہے اکثر تضاد ہوتا ہے۔فرائڈ کے مطابق تو زندگی کی نا آسودگیوں کو ہی دراصل اپنے اظہار کی راہ اس کے فن میں مل جاتی ہے۔گویا اس طرح وہ اپنی شخصیت کی تکمیل کرتا ہے۔بہر حال یہ بحث بڑی طویل ہو سکتی ہے مگر سب باتوں کے باوجود کسی جواب سے پورے طور پر تشفی اس لئے نہیں ہوتی کہ اگر کسی شاعر کی زندگی اور شخصیت کے بارے میں بیشتر حقائق سامنے آجائیں تو ان کے اور ان کی تخلیقات کے درمیان کسی نہ کسی قسم کا سلسلہ بھی نظر آتا ہے،خواں وہ کتنا ہی موہوم کیوں نہ ہو اور پھر زندگی کے بہت سے واقعات وحادثات ایسے ہوتے ہیں جنہیں خود شاعر شعوری طور سے فنی روپ دیتا ہے ایسے فن پاروں کا داخلی تجزیہ کیا جائے تو اس میں بہت کچھ ایسا بھی مل سکتا ہے جس کا خاموش محرک وہ واقعہ ضرور تھا،مگر جو اس واقعے سے الگ ہوکر بھی پڑھنے والوں کے ذہن کو دوسری سمتوں میں لے جاتا ہے۔
غالب اتفاق سے ہمارے کلاسیکی شاعروں میں اکیلے شاعر ہیں جن کی زندگی اور شخصیت سے متعلق بہت کچھ معلومات آج فراہم ہو چکی ہیں۔جن میں سے زیادہ تر تو انہوں نے خود اپنے خطوط یا دوسرے بیانات کی شکل میں چھوڑی ہیں۔چنانچہ غالب کا کلام پڑھتے وقت اکثر ذہن ان سمتوں میں سفر کرتا ہے جدھر خود غالب اشارہ کرتے ہیں۔غالب کا وہ سفر جس کی ایک منزل بنارس تھا وہ کلکتہ پر بظاہر تو ختم ہوا مگر دراصل اس کے بعد بھی جاری رہا اور اس طویل سفر میں جوزادِراہ انہوں نے کانپور،باندہ،الہٰ آباد،لکھنؤ اور بھر بنارس میں حاصل کیا وہ آئندہ کے لیے محفوظ ہوتا رہا۔اس زادِ راہ میں دوسروں سے لیا ہوا قرض،لڑھیا، گھوڑا،چھکڑا،اور”بخیل کی طبیعت جیسا مکان“وغیرہ شامل تو ہیں دلچسپ بھی ہیں مگر وہ باہر کی دنیا کے ہیں۔ان سب کے نتیجے میں غالب کے اندروں میں جو کچھ واقع ہو رہا تھا۔وہ ہمارے لیے زیادہ معنی خیز ہے۔
غالب کی نا آسودگی جو اشعار میں ڈھل کر ایک تہ بہ تہ مغنیاتی نظام کو ساتھ لے کر آئی اس کا ایک سبب خارجی دنیا میں ہونے والے واقعات سے ان کی انا کا وہ تصادم تھا جس میں بار بار ان کا احساس مجروح ہوتا مگر جس دولت سے اندر ہی اندر ان کے ذہن ودل کو بے چین رکھ کر ان کی تخلیقی جبلت بھی متحرک ہوتی تھی۔پنشن کے معاملات،جیل کی اذیت ناک اور ذلت آمیز زندگی،قرض خواہوں کے معاملات ہوں۔کلکتہ کا معرکہ پھر فارسی دانوں کی طرف سے ان کی لیاقت پر لعن طعن۔ذوق اور اپنے دوسرے ہم عصروں سے چشمکیں ہوں۔ان سب میں غلطی ان کی ہو یا نہ ہو اُن کی ذاتی زندگی کے دکھوں کا سبب یہی سب باتیں نہیں۔اس نے ان کے اندر اندر ایک حشر برپا کر رکھا تھا جو کبھی انہیں ذلت کے اس احساس پر پہنچا دیتا تھا جس میں شدید طنز بھی تھا۔
سو پشت سے ہے پیشہئ آبا سپہ گرمی
کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے
یہ کیفیت ان کے خطوط میں بارہا آتی ہے۔مگر پھر ان کی انایوں بھی کار فرما تھی:
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخیِ فرشتہ ہماری جناب میں
جس شخص کو اپنے حسب نسب پر اتنا فخر ہو جو غالب کو تھا اورجسے شاعرانہ کمال پر ان جیسا اعتماد ہو،اسے ہر ہر قدم پر ان دونوں پہلوؤں کو نظر انداز ہوتا دیکھے۔پھر بھی اُن پر بار بار اصرار کرے اور اس کے باوجود شکست کھاتا رہے اس کی شخصیت کی اندرونی کیفیت جو آن بان کے ساتھ زندہ رہنے پر بھی مصر ہے۔فقدانِ راحت کی شکوہ گزار رہتی ہے۔وہ جس رئیس سے سرپرستی اور مالی مدد کی اُمید کرتا ہے اس کو نو دولتیہ قرار دے کر اس لیے نظر انداز کر دیتا ہے کہ وہ اُن سے کھڑے ہو کر معانقہ کرنے اور نذرانہ کی رسم معاف کرنے پر تیار نہیں ہوتا ہے۔اسے فاقہ مستی گوارا ہے لکھنؤ کو چھوڑ کر چلا جانا منظو ر ہے مگر وہ پیسہ قبول

کرنا گوارا نہیں جس کی خاطر اُسے اپنا نسلی وقار اور شاعرانہ کمال کم ترہوتا ہوا محسوس ہو۔غالب کے یہ الفاظ ان کے اس مزاج کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں خارجی دنیا میں ان کی انا متصادم ہے مگر اندر اندر وہ اسے سینہ سے لگائے رکھتے ہیں
”……خدا گواہ ہے وہ قصیدہ جو میں نے آغا میر کی مدح میں لکھا ہے،میرے خاندان کے لیے باعثِ رسوائی ہے۔اب لطف یہ ہے کہ قصیدے کے ان اشعار کو کاغذ سے مٹا نہیں سکتا۔نواب مرشد آباد بھی سیّد زادے ہیں۔اس قصیدے کو اُن کے نام سے مشہور کر رہا ہوں۔اگرچہ اُن کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع نہیں ملا لیکن ہمایوں جاہ کی مدح مجھے ناگوار نہیں ہے۔جب تک اس قصیدے کے ممدوح سے مختص اشعار شامل نہ کرلوں۔یہ اشعار کسی کو نہ دکھائیں اور بزرگوں کی طرح چھوٹوں کے عیب پوشیدہ رکھیں۔“
”معانقے کے سلسلے میں ملاقات کے لیے اُن (معتمدالدولہ) کی طرف سے کچھ ایسی باتیں ہوئیں کہ ذہنی معاملے نے عملی صورت اختیار نہیں کی۔چوں کہ اُن معاملات کی وجہ سے جن کا میں نے ذکر کیا ہے۔میرا دل زخمی تھا،نیز طویل اور دشوار مقصد درپیش تھے۔میں نے پاسِ ناموسِ خاکساری کی وجہ سے استغنیٰ سے کام لیا تھا اور اُن نو دولتیوں کے اختلاط سے اپنا دامن بچا لیا۔اگرچہ اُس خواہش کا نقش دل پر باقی نہیں،لیکن وہ تحریر کاغذ پر محفوظ ہے۔چناں چہ ہزیاں نگار قلم سے وہ (عرض داشت) نقل کر رہا ہوں“۔(فارسی سے ترجمہ)
اس طرح خود کو دربار میں پاکر بھی وہ خود کو اس کے حاشیہ نشینوں سے الگ اور دوسروں سے ممتاز قرار دیتے ہیں
نوابوں اور رئیسوں سے اُن کو ہمیشہ اُمید رہتی تھی کہ ان کے اس مرتبے کے مطابق پیش آئیں جس کا شدید احساس خود ان کے مزاج میں اتنا ڈھل گیا تھا کہ اگر اس میں کہیں کوئی کسر دیکھتے تو اس سے ذلت کا احساس اور زیادہ ہوتا۔ان کی مفلسی اس دکھ کو اور بڑھا دیتی ہوگی۔حالات ان کو مجبور کرتے تھے۔کہ وہ ان ہی لوگوں کے پاس جائیں۔اُن سے قصاید کے ذریعے رابطہ بھی قائم کریں اور داد خواہی بھی۔اپنے مرتبے کی بلندی کا احساس اور بھر دنیا کے رواج کے مطابق سرکار دربار سے لے کر کو چہ وبازار تک خود کو رسوا ہوتا محسوس کرنا معمولی حادثہ نہیں تھا۔بار بار انہیں اپنے دل ودماغ کے اندر کی دنیا میں سمٹ کر ان کو بہت سے سوالات سے روبرو کرتا ہوگا۔مثال کے طور پر ان کا میرولایت علی شرف الدولہ کو لکھا ہوا یہ مکتوب دیکھیے:
بنام میر ولایت علی صاحب مخاطب بہ شرف الدولہ
خط۔۱
خدا کی لعنت مجھ پر کہ (میں نے) شاہزادہ ماہ لقا(نصیر الدین حیدرولی عہد شاہ اودھ) کے حضور زمین بوسی کی آرزو کی اور وہ بھی آپ کی وساطت سے مجھے بہر طور یقین ہے کہ اہل عقل کو اس کا علم ہے کہ میرے گوہر تاباں کی تابانی میں کہ جس کی چمک دمک ایک عطیہ الٰہی ہے اس تقصیر کے باعثکہ جو قدر ناشناسوں کی جانب سے ہوئی،کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔لیکن وہ ادا کہ جو طور طریقے کے مطابق نہ ہو بھلا (میری) طبیعت کو کس طرح گوارا ہو سکتی ہے۔اس ہی دفعہ شاہزادے سے نہیں ملا ہوں بلکہ اس سے پہلے بھی دوبار اس نشیمن باسعادت میں گیا ہوں۔اور ہر دوبار (انہوں نے مجھے) فوراً باریابی بخشی ہے اور دیر تک بٹھایا ہے اور میری عزت افزائی کی ہے لیکن اس بار شاہزادے کے رویے کو فطری نہیں کہا جا سکتا۔یقینا میرے آنے سے پیشتر ہی اس بات کا فیصلہ کیا جا چکا تھا کہ تھوڑی دیر مجھے پاسبانوں کے ساتھ بٹھایا جائے اور جب تک کہ شہزادہ کو صندوقچے کے مشغلے میں نہ لگا لیا جائے مجھے حضور میں نہ بلایا جائے اور جب سامنے آؤں حضرت صاحب عالم اظہار التفات نہ کریں اور مجھے بیٹھنے کی اجازت نہ دیں۔گویا کہ شاہزادہ ایک ورق سادہ ہے کہ نقاشوں اوررنگ آمیزوں کے ہاتھ میں آپڑا ہے تاکہ رنگ رنگ کے ڈول ڈالیں اور طرح طرح کے نقش بنائیں۔قصہ مختصر تقریب اور چیز ہے اور تخریب اور۔ہم تو آپ سے مقرب (کاکردار)چاہتے تھے نہ کہ مخرب کا۔
ع:خود غلط بود انچہ ماپنداشتیم
ترجمہ: دراصل جو ہم سمجھ رہے تھے وہی غلط تھا۔
افسوس شہزادہ کی زمین بوسی کا ارادہ کرنا اور پھر آپ مروت کی امید رکھنا۔ہم شاہ پرستوں میں ہیں اور کشور کشاؤں کے دست تیغ آزماہی سے اپنا رزق حاصل کرتے ہیں۔(بھلا)زاویہ نشینوں سے ہمارا کیا تعلق اور رشتہ شکستگاں سے کیا علاقہ۔آپ یہ نہ سمجھئے گا کہ میں اس تحریر کے ذریعے آپ سے تلافی کا خواہشمند ہوں۔(نہیں) میرا مقصد تو آپ کو صرف یہ بتانا ہے کہ آپ یہ نہ جانیں کہ میں نہیں جانتا۔والسلام
غالب نے اپنے سفر کے دوران جہاں جہاں قیام کیا اس وقت کے ہندوستان کے اہم ترین شہر تھے۔کلکتہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا صدر مقام ہی نہیں تھا وہ یورپ کی اُن ساری نو آبادیوں میں جو امریکہ سے لے کر ایشیا اور افریقہ تک پھیلی ہوئی تھیں سب سے پر کشش ساحلی شہر تھا۔ہندوستان کی ہی نہیں سارے جنوب ایشیا کے دولت پر یہاں سے قابو رکھا جاتا۔یہاں عیش وعشرت کا جو بازار گرم تھا اس کی بنا پر یورپ کے زیادہ تر مہم باز نو جوانوں کی نظر میں یہی منزل آخر تھی۔ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازموں کی زندگی اُن سب کے لیے قابل رشک تھی۔یہاں وہ عموماً خالی ہاتھ آتے تھے اور لندن واپس جانے کے بعد وہاں کی سیاسی ومعاشی زندگی میں کلیدی حیثیت اختیار کر چکے ہوتے تھے۔کلایواور ہسٹنگز کے بارے میں تو جو حقائق سامنے آئے وہ سب جانتے ہیں۔نوجوان عیسائی انگریزوں کی عام بے راہ روی کے پیش نظر وہاں مسیحی مبلغوں نے بھی آنا شروع کیا کہ وہ نوواردوں کی نگرانی اور اصلاح کریں۔فورٹ ولیم کالج بھی دراصل اس خاص مقصد سے قائم کیا گیا تھا کہ انگریز نوجوانوں کو نا پختہ عمر میں ایک سخت ڈسپلن میں بھی رکھا جائے تاکہ وہ فرانس کے لوگوں کی شہنشاہیت مخالف جمہوری خیالات سے بھی متاثر نہ ہو جائیں۔غالب نے جب مشرقی ہندوستان کے برباد،افلاس زدہ علاقوں سے گزرتے ہوئے زوال کے شکار رئیسوں کے درباروں کو دیکھا ہوگا اور پھر جب کلکتے پہنچے ہوں گے اور وہاں کے قیام کے دوران میں انہیں اچنبھے میں ڈال دینے والے مناظر نظر آئے ہوں گے تو آئین اکبری کی تقریظ اوراور ایک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے‘والی غزل سے کہیں زیادہ اشارات ان کے ذہن ونظر کو متوجہ کرنے کے لیے ملے ہوں گے۔ان کے کلام میں تشکیک،استفہام،بے یقینی،
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے۔

حیراں ہوں پر مشاہدہ ہے کس حساب میں
جیسے سوالات کہیں اندر اندر پروان چڑھ رہے ہوں گے۔جو اُن کی شاعری کا بہترین حصہ قرار پائے۔
غالب کا بنارس میں قیام ان کے اس سفر کے دوسرے مقامات کے قیام سے اس اعتبار سے زیادہ اہم ہے کہ اور مقامات پر تو انہیں وہ ساری باتیں ملی ہوں گی جو اجنبی بستیوں اور راستوں میں عموماً ملتی ہیں اور ہر نئے مسافر کو حیرت میں ڈالتی ہے مگر بنارس دہلی کی طرح اس ملک کا ایک تاریخی شہر ہونے کے باوجود اس پوری تہذہبی روایت سے بہت کچھ مختلف بھی تھا جس کے درمیان غالب دہلی اور آگرہ میں پلے تھے۔خصوصاً اس علاقے کے اشرافیہ کا اپنا ایک الگ طرز کی زندگی تھا۔بنارس ہندوستان کی قدیم ویدک تہذیب اور ہندو عقاید کے مطابق ایک مقدس ترین شہر تھا۔یہاں اس ملک کے قدیم علوم کے مراکز تھے۔ گنگا کا گھاٹ دہلی میں جمنا کے گھاٹ سے ہی لیں ساری دنیا کے دیاروں کے ساحل سے کتنا مختلف ہوگا۔اور وہ صرف گھاٹ نہیں ہوگا۔اس کے پیچھے ہزاروں سال کی جیتی جاگتی تہذیب ہوگی۔اس کا اندازہ بنارس آئے بغیر کیسے ہوسکتا تھا۔پھر دہلی کی طرح یہاں بھی ایک طرح کی ہموار تہذیبی زندگی بھی تھی جو تاریخ کے تمام نشیب وفراز گزرنے کے باوجود ہر بار پھر اپنی وضع پر واپس آجاتی تھی۔چنانچہ غالب کے لیے حیرتوں کا ایک نیا سماں تھا جو بنارس میں اُنہیں ملا۔جیسا کہ اُن کی اس دور کی تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے۔شہر کے حسُن،اس کے حسینوں کی ادائیں،گنگا کے گھاٹ کے مناظر اور ان سب سے زیادہ وہاں کے عالموں،سادھوؤں اور سنتوں کی گفتگو کی گہرائی،غرض کہ ایک ایسی زندگی ملی جس سے وہ آشنا توتھے کہ ہندوستان میں کون اس نا آشنا ہوگا مگر جس کے درمیان رہ کر اس سے اس قدر ہم کنار ہوئے کہ اُن کی شاعری میں ”ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہوگئیں“یا”نہیں کچھ سبحہ وزنّا ر کے پھندے میں گیرائی“جیسی باتیں آگئیں چنانچہ ان کے ہاں تصوف اور ویدانت کے اثرات محض روایتی اور ”برائے شعر گفتن“ہی نہیں آئے ہوں گے۔
ان سب باتوں پر اور غالب کی زندگی کے اس اہم دور پرزیادہ گہرائی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ان کی شاعری کی خوبصورتی اور ان کے افکار پر بہت سے اثرات کو اس وقت تک نہ پورے طور پر سمجھا جا سکتا ہے نہ لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے جب تک ان متعدد عناثر کو ہم رشتہ کر کے نہ دیکھا جائے۔

English Hindi Urdu