محمدضیاء الدین احمد شکیب
غالب کی ایک غزل کا ممکنہ محرک
:غالب نے ایک غزل
“غنچہ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
بوسے کو پوچھتاہوں میں، منھ سے مجھے بتا کہ یوں”
1816 اور 1821 کے درمیانی زمانے میں کہی ہے(1)۔ گویا جب ان کی عمر کم از کم انیس سال اور زیادہ سے زیادہ چوبیس سال تھی۔ گمانِ غالب یہی کہتا ہے کہ انیس، بیس یا اکیس سال کے ہوں گے کہ ابھی فارسی کی طرف ان کا میلان نہیں ہوا تھا اور وہ اردو ہی میں کمالِ فن کے حصول کے لیے کوشاں تھے۔ اس زمانے میں وہ اسد تخلص کیا کرتے تھے۔ چناں چہ اس غزل کا مقطع پہلے یوں تھا:
جو یہ کہے کہ ریختہ کیوں کہ ہو رشکِ فارسی
شعر اسد کے ایک دو پڑھ کے اسے سنا کہ یوں(2)
بعد میں انہوں نے مقطع کا دوسرا مصرع بدل دیا اور اس میں اسد کی جگہ غالب تخلص رکھ کر شعر کو یوں کردیا؎
جو یہ کہے کہ ریختہ کیوں کہ ہو رشکِ فارسی
گفتہ غالب اک بار پڑھ کے اسے سنا کہ یوں(3)
اس تبدیلی سے پہلے والا مصرع شاعر کی ناپختگی کا غماز ہے۔ ساتھ ہی یہ وہ زمانہ تھاجب وہ بیدل کی پیروی میں دقیق مضامین کو اردو غزل میں باندھتے اور ریختے میں اظہا رکی نئی راہیں نکالنے اور گنجائش پیدا کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ اگرچہ اس وقت تک ولی، سراج، میر تقی میر اور سودا نے ریختے کو کہیں کا کہیں پہنچا دیاتھا اور ان سب کے یہاں یہ ادعا ملتا ہے کہ ان لوگوں نے ریختہ جیسی چیز پر توجہ دے کر اس کا مرتبہ اونچا کیا۔ ان کایہ ادعا غلط بھی نہیں تھا۔ لیکن غالب نے ریختے میں نئے امکانات محسوس کیے۔ یعنی اظہار کے ایسے امکانات جو فارسی کی نسبت اردو میں زیادہ ہیں۔ چناں چہ ریختے میں کہی ہوئی اس غزل کو انہوں نے رشکِ فارسی کے طور پر پیش کیا۔ ہر باصلاحیت شاعر اپنے لیے ایک نیا راستہ نکالنے کی کوشش کرتاہے۔
اس غزل سے ایک اور بات ظاہر ہوتی ہے کہ غالب نے یہ غزل کسی فارسی غزل کے ردِّ عمل میں کہی۔ مقطع کے تیور یہ بھی بتاتے ہیں کہ جیسے کسی نے ان کو کوئی فارسی غزل سنائی ہو اور کہا ہو کہ ”دیکھو ریختے میں یہ بات کہاں آسکتی ہے“۔ اس بات کو غالب نے ایک چیلنج کے طور پر لیا۔ خاص طورپر اس زمانے میں جب وہ ریختے ہی کو اپنا وسیلہ اظہار بنائے ہوئے تھے۔ وہ فارسی کے توڑ پر اردو میں غزل کہنے بیٹھ گئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سی فارسی غزل تھی جس کے ردِّ عمل میں یہ سب کچھ ہوا۔
فارسی میں”کہ یوں“ کی ردیف کے لیے ”ہم چناں“ یا ”ہم چنیں“ کی ردیف ہوسکتی ہے۔ چناں چہ حضرت امیر خسروؒ کے یہاں اس ردیف میں کئی غزلیں ہیں، مگر ایک غزل اسی بحر اور اسی مزاج کی ہے۔ اس کے اشعار یہاں نقل کیے جاتے ہیں:
تنگ نبات چوں بود لب بہ کشا کہ ہم چنیں
آبِ حیات چوں رود خیز و بیا کہ ہم چنیں
ہر کہ بگویدت کہ تو دل بچہ شکل میں بری
از سرِ کوی ناگہاں مست برآ کہ ہم چنیں
ہر کہ بہ گویدت کہ جان چوں بود اندرونِ تن
یک نفسے بیا نشین در برما کہ ہم چنیں
ہر کہ بگویدت کہ گل خندہ چگونہ می زند
غنچہ شکرینِ خود باز کشا کہ ہم چنیں
ور بہ تو گویم ای پسرکت بہ کنار چون کشم
تنگ ببند برمیاں بندِ قبا کہ ہم چنیں
ہر کہ پری طلب کند چہرہ خود بد و نمای
ہر کہ ز زلف دم زند زلف کشا کہ ہم چنیں
لاف وفا زنی ولے نیست براے نام را
در تو نشان از وفا ہم بہ وفا کہ ہم چنیں
ہر کہ نخواند ہیچ گہ نامہ عشق چون بود
قصہ حالِ خسروش باز نما کہ ہم چنیں
پروفیسر انامیری شمل نے مرزا غالب کے اپنے جرمن ترجمے میں یہی خیال ظاہر کیا ہے کہ غالب نے یہ غزل خسروؒ کی اس غزل سے متاثر ہو کر کہی ہے۔ لیکن یہ بات قرینِ قیاس نہیں ہے کہ غالب خسرو کی غزل کے مقابل اردو غزل پیش کرکے یہ کہیں کہ یہ ریختہ رشکِ فارسی ہے۔ ایسا دعویٰ وہ اپنے کسی معاصر یا ہم چشم کے کلام کے حوالے سے ہی کرسکتے تھے۔ ہمارا خیال ہے کہ غالب نے یہ غزل اپنے ایک معاصر نواب وجیہہ الدین خاں معنی کی ایک غزل کے جواب میں کہی تھی۔
نواب وجیہہ الدین خاں معنی نواب تاج الدین خاں کے پڑ پوتے تھے۔ نواب تاج الدین خاں عمدة الامراء معین الملک اسدالدولہ خان بہادر ذوالفقار جنگ والا جاہ دوم، نواب آف آرکاٹ (وفات 15 جولائی 1810) کے ہم جد اور داماد تھے۔ یہ خاندان فاروقی الاصل اور حضرت فرید الدین گنج شکرؒ کی اولاد سے تھا اور یوپی کے قصبہ گوپامﺅ میں بس گیا تھا۔ والا جاہ اول کے والد نواب سراج الدولہ انورالدین خاں بہادر شہامت جنگ تھے جو نواب میر قمرالدین خاں آصف جاہ اول، بانیِ ریاستِ حیدرآباد کی دعوت پر گوپامﺅ سے دکن گئے اور ناظم ارکاٹ کے عہدے پر فائز ہوئے۔(4)
وجیہہ الدین خاں معنی کی صحیح تاریخِ پیدائش تو معلوم نہیں ہوسکی تاہم قرائن سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ اٹھارویں صدی کے آخری دہے میں پیدا ہوئے۔ اور عمر میں غالب سے کسی قدر بڑے ہوں گے۔ وجیہہ الدین خاں معنی کا انتقال 27 ربیع الاول 1286ھ مطابق 2 دسمبر 1869ء کو گویا غالب کے انتقال کے کوئی دس مہینے بعد ہوا۔(5) حیدرآباد میں حضرت آغا داودؒ کی درگاہ میں تدفین ہوئیں۔ سنگِ سیاہ کی بنی ہوئی قبر ابھی موجود ہے۔
اس سلسلے میں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ انیسویں صدی کی پہلی چوتھائی میں غالب کے خاندان کے تعلقات حیدرآباد سے کئی طرح کے رہے ہیں۔ اس زمانے کی ابتدا تک ان کے والد مرزاعبداللہ بیگ تین سو سواروں کی جمعیت سے برسوں حیدرآباد میں ملازم رہے۔ پھر انہوں نے یہ ملازمت چھوڑی۔ پہلے دہلی اور پھر الور چلے گئے جہاں وہ 1802ء میں مارے گئے۔ 1841ء اور 1827ء کی درمیانی مدت میں ان کے بھائی مرزا یوسف حیدرآباد میں نہایت مقتدر عہدے پر سرفراز رہے۔ اسی دوران ان کے بہنوئی مرزا اکبر بیگ حجِ بیت اللہ سے فارغ ہوکر حیدرآباد پہنچے اور مہاراجہ چندولال کے مہمان رہے۔ ظاہر ہے کہ ان روابط کی وجہ سے مرزا غالب کو حیدرآباد کے اور حالات سے واقفیت رہتی ہوگی۔(6)
یہی زمانہ نواب وجیہہ الدین خاں معنی کی جوانی کا تھا۔ معنی کی تعلیم و تربیت اعلیٰ پیمانے پر ہوئی تھی۔ وہ فارسی میں اعلیٰ درجے کے شعر کہتے تھے۔ غالب کی طرح ان کی جوانی کے کلام میں رنگین مضامین ہیں لیکن رفتہ رفتہ ان کے مزاج اور شاعری دونوں میں ایک صوفیانہ رنگ پیدا ہو گیا۔ ان کی غزلیں جیسے:
“من نیم واللہ یاراں من نیم” آج بھی برِصغیر میں جگہ جگہ قوالیوں میں گائی جاتی ہیں۔
معنی کا کلام ان کے پڑپوتے اور میرے رفیق دیرینہ جناب یوسف الدین خاں صاحب، جو اب برطانیہ کے شہری ہیں، کے یہاں محفوظ تھا۔ میرے اصرار پر اب انہوں نے اس کی اشاعت کا اہتمام کیاہے۔ اسی دیوان سے یہاں وہ غزل نقل کی جاتی ہے جو اس گفتگو کی محرک ہے۔ (8)
صبح چگونہ در دمد رو بنما کہ ہم چنیں
شام چگونہ سر زند زلف کشا کہ ہم چنیں
فصلِ بہار یا سمن چوں برسد بہ چمن چمن
خندہ زنان بسوے من زود بیا کہ ہم چنیں
گفتمش ای کرشمہ دان نازِ تو خوں کند چساں
دست نہادہ برمیاں کرد ادا کہ ہم چنیں
دستِ زدین کشیدہ ام کفرِ تو برگزیدہ ام
ہیچ بتے نہ دیدہ ام نامِ خدا کہ ہم چنیں
شد بچہ رنگ غنچہ را دستِ صبا گرہ کشا
از سر ناز وا نما بند قبا کہ ہم چنیں
پیشِ مریضِ سکستہ دم چوں بود آئینہ بہم
بر رخِ من بنہ صنم روے صفا کہ ہم چنیں
پر سد اگر کسی ز تو شیفتہ چوں کنی بگو
برزدہ چشمکے بہ او دل بہ ربا کہ ہم چنیں
بر افقِ فلک چساں مہر بود ضیا فشاں
اے مہ آسمانِ جاں بام برآ کہ ہم چنیں
فتنہ بلند چوں شود حشر بپا چگوں شود
خلق چساں زبوں شود خیز زجاکہ ہم چنیں
گفت کسے زیار مست جاں بہ بدن چگونہ ہست
آمدہ ناگہاں نشست در برِ ماکہ ہم چنیں
رفت چگو نہ زین سرا معنی خاکسارِ ما
مشت غبار، خاک را دہ بہ ہوا کہ ہم چنیں
صاف ظاہر ہے کہ یہ غزل امیر خسروؒ کی زمین اور انہیں کے اتباع میں کہی گئی۔ او ربعض اشعار میں تو خسرو ہی کے مضامین کی الٹ پھیر ہے۔ “مثلاً در برماکہ ہم چنیں” والا شعر۔
معنی نے غزل کو زیادہ شوخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کوشش میں بعض جگہ وہ ابتذال کی حد کو پہنچ گئے۔ جس کو غالب نے محسوس کیا۔ اس سے پہلے کہ ان غزلوں کے بارے میں اور کچھ کہا جائے غالب کی غزل کو بھی سامنے رہنے دیجیے۔ غنچہ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں بوسے کو پوچھتا ہوں میں منھ سے مجھے بتا کہ یوں
پرسشِ طرزِ دل بری کیجیے کیا؟ کہ بن کہے
اس کے ہر ایک اشارے سے نکلے ہے یہ ادا کہ یوں
رات کے وقت مَے پیے، ساتھ رقیب کو لیے
آوے وہ یاں، خدا کرے، پر نہ کرے خدا کہ یوں
غیر سے رات کیا بنی؟ یہ جو کہا، تو دیکھیے
سامنے آن بیٹھا اور یہ دیکھنا کہ یوں
بزم میں اس کے رو بہ رو، کیوں نہ خموش بیٹھیے
اس کی تو خامشی میں بھی، ہے یہی مدعا کہ یوں
میں نے کہا کہ “بزمِ ناز چاہےے غیر سے تہی”
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں
مجھ سے کہا جو یار نے “جاتے ہیں ہوش کس طرح؟”
دیکھ کے میری بیخودی چلنے لگی ہوا کہ یوں
کب مجھے کوئے یار میں رہنے کی وضع یاد تھی؟
آئینہ دار بن گئی حیرت نقش پا کہ یوں
گر ترے دل میں ہو خیال، وصل میں شوق کا زوال
موج محیطِ آب میں مارے ہے دست و پا کہ یوں
جو یہ کہے کہ “ریختہ کیوں کہ ہو رشکِ فارسی؟”
گفتہ غالب ایک با رپڑھ کے اسے سنا کہ یوں
معنی اور غالب دونوں کی غزلیں ایک ہی بحر میں ہیں۔ دونوں کے قافیے اور ردیفیں ایک ہیں۔ ”ہم چنیں“ کاترجمہ ”کہ یوں“ نہایت سلیس اور خالص ریختہ ہے۔ تاہم نثار احمد فاروقی کی اطلاع کے مطابق یہ زمین غالب کے ایک پیش رو شاہ نصیرکی نکالی ہوئی ہے۔ (8) ریختے کی یہی شان ہے کہ اس میں عربی اور فارسی کے الفاظ کم سے کم ہوں۔ دونوں غزلوں میں بہت سے الفاظ مشترک ہیں جیسے:
غنچہ، ادا، ناز، ہوا، آئینہ، خدا، دل، پا۔
کئی الفاظ اور فقرے ایسے ہیں کہ جو اس فارسی غزل میں آئے ہوئے لفظوں یا فقروں کاترجمہ ہیں جیسے:
بنما: دکھا؛ بیا؛آئیں؛ گفتمش: میں نے کہا(جویارسے)؛ کروادا: نکلے ہے یہ ادا۔
چوں بود آئینہ بہم: آئینہ بہم: آئینہ دار بن گئی؛ پرسداگر کسی زتو(جویہ کہے کہ۔۔۔)
آمدہ ناگہاں نشست: سامنے آن بیٹھنا؛ رفت چگونہ: جاتے ہیں(ہوش) کس طرح؛وہ بہ ہوا: (چلے لگی ہوا) لفظوں سے کہیں زیادہ تلازمات اور محاکات میں مماثلتیں ہیں۔ کہیں کہیں تو شعر کے جواب میں شعر کہا گیا ہے۔ الغرض غالب کی غزل میں معنی کی غزل کی گونج صاف سنائی دیتی ہے۔
زیرِ نظر غزلوں میں وہ خسرو کی غزل ہو کہ غالب کی یا معنی کی سب میں جو بات مشترک ہے وہ مضامین کی شوخی ہے۔ شوخ مضامین کی ادایگی میں اس بات کا بڑا اندیشہ ہوتاہے کہ شوخی حدِ ابتذال میں نہ چلی جائے۔ یعنی بات صرف طریقہ اظہار کی ہے۔ ورنہ عریاں سے عریاں مضمون اس طرح ادا کیا جا سکتا ہے کہ اس سے اظہار پر ابتذال کا الزام نہ آئے۔ کم از کم اس زمانے کا معیارِ فکر و فن یہی تھا۔ غالب نے اپنے ریختے میں مضامین کو شوخ سے شوخ تر کردیا۔ لیکن انہیں اس طرح بیان کیاہے کہ وہ فارسی سے زیادہ شائستہ ہیں۔ یہ ایک نہایت مشکل کام تھا لیکن نوجوان غالب اس مہم سے بہ حسن و خوبی عہدہ برآ ہوا۔ معنی کایہ شعر لیجیے:
شد بچہ رنگ غنچہ را دستِ صبا گرہ کشا
از سرِ ناز وا نما بند قبا کہ ہم چنیں
مطلب یہ ہواکہ جب معشوق کو یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ اگر اس سے کوئی یہ پوچھے کہ صبا کا ہاتھ کلی کی گرہ کس طرح کھولتا ہے تو معشوق کو چاہےے کہ ناز کے ساتھ اپنی قبا کے بند کھول کر دکھلائے کہ اس طرح۔ غالب نے مضمون کو زیادہ شوخ کر دیا لیکن ابتذال ایک دل کش معاملہ بندی میں چھپ کر رہ گیا۔
غنچہ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
بوسے کو پوچھتا ہوں میں منھ سے مجھے بتا کہ یوں
یقینا غالب کے شعر میں اشارات کی جو زبان ہے اس میں ایک پوری تہذیب اور شائستگی ہے۔
اسی طرح معنی کا ایک شعر ہے:
پرسد اگر کسی زتو شیفتہ چوں کنی بگو
بر زدہ چشمکی بہ او دل بربا کہ ہم چنیں
مطلب یہ ہوا کہ معشوق کو پھر مشورہ دیا جا رہا کہ اگر کوئی اس سے پوچھے کہ ”کہو“ تم کسی کو عاشق کس طرح بناتے ہو؟ تو معشوق کو چاہیے کہ آنکھ مار کر اس کا دل اڑالے اور کہے کہ ”اس طرح“ یا ”یوں“۔ اس مضمون میں کئی طرح کا ابتذال ہے۔ معشوق کو اس طرح کے مشورے دینا حد درجہ گری ہوئی بات ہے۔ دوسرے یہ کہ آنکھ مارنا بجائے خود اک مبتذل فعل ہے۔ اس شعر میں ابتذال نے شوخی کی لطافت کو غارت کردیا۔ اس بات کا اندازہ اس وقت ہوتاہے جب اس کے مقابل غالب کایہ اردو شعر پڑھاجائے:
غیر سے رات کیا بنی؟ جو یہ کہا، تو دیکھیے
سامنے آن بیٹھنا اور یہ دیکھنا کہ یوں
اب اس شعر میں آنکھ مارنے کی بات ہے تو سہی لیکن لفظوں میں کہی نہیں گئی۔ مضمون میں شوخی بلاکی آگئی ہے۔ لیکن یہ شوخی، شوخی سے زیادہ شرارت لگتی ہے۔ اس لیے اس میں ابتذال کا احساس نہیں ہوتا بلکہ ہنسی آتی ہے۔
بعض اشعار کے نفسِ مضمون میں کسی نہ کسی طرح مناسبت ہے۔ جیسے معنی نے کہا:
پیش مریضِ سکتہ دم چوں بود آئینہ بہم
بر رخِ من بنہ صنم روے صفا کہ ہم چنیں
اس شعر میں ایک مضمون”حیرت“ کابھی مضمر ہے جو شعر کے ظاہری مضمون سے کہیں زیادہ لطیف ہے۔ گمان ہوتاہے کہ غالب کا ذہن حیرت کے لطیف مضمون کی طرف گیا اور انہو ںنے یہ شعر کہا:
کب مجھے کوے یار میں رہنے کی وضع یاد تھی
آئینہ دار بن گئی حیرتِ نقشِ پا کہ یوں
ان چند باتوں کے علاوہ غالب کی اس غزل میں او رکئی ایسی باتیں ہیں جن سے اندازہ ہوتاہے کہ جب وہ یہ غزل کہہ رہے تھے، ان کے سامنے معنی کی یہ غزل تھی۔
اس غزل سے غالب کا سارا ادعایہ رہاہے کہ ریختہ رشکِ فارسی ہوسکتاہے۔ یہ بات غالب اس زمانے میں کہہ رہے ہیں جب ایسا سوچنا بھی محال تھا۔ اچھے ریختے کے لےے یہ بھی ضروری تھاکہ اس میں ہندی زیادہ ہو اور عربی و فارسی کے الفاظ کم ہوں۔ اس غزل میں غالب نے ہندی روز مرہ اور محاوروں کو جس کثرت سے برتاہے وہ اس دور میں کہے ہوئے ان کے اور اشعار کے لفظوں کی نسبت بہت زیادہ ہیں۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے مضامین کو مقابلے کی فارسی غزل کے مضامین سے زیادہ بلند اور لطیف کردیا اور تیسرے شوخ سے شوخ مضمون کو اردو میں اس چابک دستی اور خوب صورتی سے پیش کیا ہے کہ فارسی اس کے سامنے مبتذل محسوس ہونے لگی۔
حواشی:
1۔ دیوانِ غالب کامل، تاریخی ترتیب سے، مرتبہ کالی داس گپتا رضا،اشاعت سوم، ممبئی۔ 1995
2۔ دیوانِ غالب، نسخہ حمیدیہ، مرتبہ حمید احمد خان، مجلس ترقی ادب، لاہور۔1983
3۔ کلیاتِ خسرو جلد سوم، مرتبہ اقبال صلاح الدین و سید وزیرالحسن عابدی، پیکیجز لمیٹڈ، لاہور، 1974
4۔ تواریخِ والاجاہی، مرتبہ چندر شیکھرن، گورنمنٹ پریس، مدراس۔ 1957، و نیز تزکِ والاجاہی مترجمہ ایس محمد حسین نینار۔ یونیورسٹی آف مدراس، مدراس۔ 1934
5۔ دیوانِ معنی، انسٹی ٹیوٹ آف انڈین پرشین اسٹڈیز، اقبال اکیڈمی، ماں صاحب ٹینک، حیدرآباد
6۔ غالب او رحیدرآباد از محمد ضیاءالدین احمد شکیب، ادبی ٹرسٹ، حیدرآباد۔ 1969
7۔ دیوانِ معنی محولہ بالا۔
8۔ نثار احمد فاروقی نے بہ حوالہ تذکرہ بے جگراز خیراتی لعل بے جگر لکھاہے کہ ”ایک بار شاہ نصیر میرٹھ آئے اور یہاں کے شاعروں کو یہ مصرعہِ طرح دیاکہ غزلیں کہیں۔ ع”کردے سخن میں تو ذرا بندِ قبا کو وا کہ یوں“ دیکھیے ماہ نامہ نگار، لکھنو ستمبر 1959