فراق گورکھپوری
غالب کی شاعری میں محبوب کا تصور
کہتے ہیں کہ پاربتی جی نے ایک بار شیوجی سے پوچھا کہ میں تمہیں کیسی لگتی ہوں۔ شیوجی نے جواب دیا کہ ”تم مجھے ایسی لگتی ہوجیسے آدھا سنا گانا یا وہ راگ جو کچھ سنائی پڑے اور کچھ نہ سنائی پڑے“، انگریزی شاعر کیٹس نے اپنی محبوبہ کوایک خط میں لکھا کہ میں تمہیں ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے آنکھ اوجھل پاتاہوں، کتنے حسین، لطیف اور نازک تصوّر ان روایتوں میں پیش کےے گئے ہیں۔ مخصوص انفرادی لذّات یا احساسات کی مصوری الفاظ میں ناممکن ہے۔ ہر تجربے میںایک نرالاپن ہوتاہے۔ ہراحساس میں ایک اچھوتاپن ہوتاہے۔ ہر تصورکی ایک انفرادیت ہوتی ہے۔ الفاظ کے ذریعہ سے شاعر یا ادیب ہمیں اس نرالے پن، اچھوتے پن اور انفرادیت کے قریب کردیتاہے لیکن بات جہاں کی تہاں رہ جاتی ہے، اگر وہ شخص ایک ہی معشوق کے عاشق ہوں تو بھی اس کے حسن وجمال کا جو عکس دونوں کے دلوں میں پڑے گاوہ یکساں نہیں ہوگا۔ انفرادیت دنیا کے اہم ترین رازوں میں سے ایک رازہے لیکن انفرادیت میں ایک آفاقی اور عالمگیر صفت بھی ہوتی ہے، جب ہی تو ہم شاعروں کے مخصوص اور اچھوتے تصورات سے مانوس اور ہم آہنگ ہوسکتے ہیں۔
غالب کی عشقیہ شاعری میں محبوب کے تصور کا اندازہ لگاتے وقت ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ غالب کا یہ تصور مسلسل نظموں میں نہیں پیش کیا گیاہے بلکہ غزلوں میں پیش کیا گیاہے اور غالب کی غزلوں میں، جن سے کہیں زیادہ عشق اور زندگی اور کائنات کی مصوری کی گئی ہے۔ بجائے اس کے حُسن کیا ہے اور کیسا ہے ہمیں زیادہ تریہ بتایا گیا ہے کہ حسن نے عشق کے ساتھ کیا کیا اور حسن کے ہاتھوں عشق پر کیا گزری، بقول اصغرگونڈوی’کچھ فتنے اُٹھے حُسن سے کچھ حُسن نظر سے‘ لیکن پھر بھی جب ہم دیوان غالب کی سیر کرتے ہیں تو حُسن کی متعدد جھلکیاں اورمعشوق کے مزاج اور کردار کی کئی تصویریں ہمارے سامنے سے گزرتی ہیں۔ ان اشعار سے ہم کافی حد تک اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ غالب کی شاعری میں حسن کا تصور کیا ہے اور کیسا ہے، پہلے معشوق کے قد کو لیجیے۔ لمبے قد کا آدمی کس قد و قامت پر عاشق ہوگا؟ اس کے معشوق کا قد بوٹا سا ہو گا یا لمبا اور چھریرا تو اسے ماہر حسنیات ہی بتائیں۔ لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ اُردو شاعروں میں غالب خود بہت لمبے قد کے آدمی تھے۔ ایک شعر میں غالب نے معشوق کے درازی قدکاذکرکیاہے،کہتے ہیں:
بھرم کھُل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرہ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
غالب کا معشوق ،یاغالب کے معشوق، میانہ قدر، بوٹا سا قد یا لمبے قد کے تھے۔ ہمیں اس کا کوئی تاریخی علم نہیں لیکن جو شعر ابھی آپ نے سُنا ہے اس سے یہ پتا ضرور چلتا ہے کہ سرو قد معشوق کے حُسن کا احساس اور شدید احساس غالب کو تھا۔
غالب کا معشوق نرم گام یا آہستہ خرام نہیں ہے۔ معشوق کی چال کی تصویر غالب نے یوں کھینچی ہے:
چال جیسے کڑی کمان کا تیر
دل میں ایسے کے جا کرے کوئی
بجلی کی تیزی اور تیر کی جست محبوب غالب کی چال میں ہے،ایک جگہ اور کہتے ہیں:
ثابت ہوا ہے گردنِ مینا پر خونِ خلق
لرزے ہے موج مَے تری رفتار دیکھ کر
یہاں بھی چال کے جمالی پہلو کو جلالی شان و انداز سے پیش کیا گیا ہے۔ معشوق کی شوخ چال کی ایک اور تصویر دیکھیے:
دیکھو تو دل فریبی انداز نقشِ پا
موجِ خرام یار بھی کیا گل کتر گئی
اس شعرمیں بجلی کی سی چال کا ذکرنہیں پھر بھی چال ہے نہایت شوخ
زلف سے متعلق بھی غالب نے دو تین ہی شعر کہے ہیں لیکن کیا شعر ہیں:
نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہوگئیں
زلف کی درازی کا کچھ اندازہ تو غالب کے اس شعر سے ہم کو ہوجاتا ہے جسے قامت کی درازی کے سلسلے میں پیش کرچکے ہیں:
اگر اس طرہ پُر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
زلف کی رمزیت پر ایک شعر کہہ کے غالب نے کیا کچھ نہیں کہہ دیا
کٹے تو شب کہیں، کاٹے تو سانپ کہلاوے
کوئی بتاو
¿ کہ وہ زلف خم بہ خم کیا ہے
اوریہ شعر تونہ جانے ہمیں کہاں لےے جارہاہے:
تو اور آرائش خم کا کل
میں اور اندیشہ ہائے دور و دراز
گورا دمکتا ہوا چہرہ دیکھ کر کبھی نگاہیں تڑپ جاتی ہیں اور کبھی شاداب ہوجاتی ہیں۔ معشوق کے چہرے کا تصور غالب یوں کرتے ہیں اور اسے یوں دیکھنا چاہتے ہیں:
اک نو بہار ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ
چہرہ فروغ مے سے گلستاں کےے ہوئے
اس شعر میں بھی معشوق کے چہرے کی جگمگاہٹ دیکھےے:
کیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے
کرے جو پرتوِ خورشید عالم شبنمستاں کا
معشوق کی نگاہ کا کتنا لطیف احساس و تصوّر غالب کو تھا۔
بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی
وہ اک نگہ جو بظاہر نگاہ سے کم ہے
غالب کے ہاں محبوب کا جوتصور ہمیں ملتاہے وہ نہایت دھاردار،نوک دار، چنچل اور شوخ ہے۔ اس تصورمیں ایرانی کلچرکی رنگینیاں،لطافتیں اور نزاکتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں، غالب کے تصورکا کوئی خط دھندلایا مبہم نہیںہے۔ اس کے تصورکی ہر سنہری لکیر میں اُپی ہوئی تلوار کی دھار ہے۔اس کے احساس حُسن میں ایک ارتکاز وہم آہنگی ہے۔ اس کا معشوق بہت شوخ اور طرار ہے، ا س کی باتیں تک برق رفتاری کی مثالیں ہیں۔ ٹھہراوتو کہیں ہے ہی نہیں۔ معشوق کیسے باتیں کرتا ہے؟
بجلی اک کوند گئی آنکھوں کے آگے تو کیا
بات کرتے کہ میں لبِ تشنہ تقریر بھی تھا
معشوق کی بے پناہ شوخیاں ان اشعار میں دیکھیے:
نکتہ چیں ہے غمِ دل اس کو سُنائے نہ بنے
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
میں نے کہا کہ بزم ناز چاہیے غیر سے تہی
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اُٹھا دیا کہ یوں
معشوق کا نہ آنا ہی نہیں بلکہ اس کا آنا اور ملنا بھی فتنوں سے خالی نہیں
وہ آئیں گے مرے گھر، وعدہ کیسا، دیکھنا غالب
نئے فتنوں میں اب چرخِ کہن کی آزمائش ہے
خوش ہوتے ہیں پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے
آئی شب ہجراں کی تمنّا میرے آگے
میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر مرے مرنے پہ راضی نہ ہوا
عموماً شوخ و شنگ معشوق عاشِق کو مٹاتا اور رقیب کو نوازتا رہتاہے، لیکن غالب کے معشوق میں نہ عاشق کے لیے سپردگی و ہمدردی ہے نہ رقیب کے لیے۔ بہت نازک اور حسّاس لہجے میں غالب نے اس تکلیف دہ حقیقت کا اظہار کیا ہے۔
تو دوست کسی کا بھی ستمگر نہ ہوا تھا
اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا
معشوق کی جفا کاری اور ستم گاری، اس کی شرارتیں اور چھیڑیں، اس کی حیا میں بھی جھلک رہی ہیں۔
کبھی نیکی بھی اُس کے دل میں گرآجائے ہے مجھ سے
جفائیں کرکے اپنی یاد شرما جائے ہے مجھ سے
جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا
کہتے ہیں ہم تجھ کو منہہ دکھلائیں کیا
معشوق ظلم و ستم سے توبہ بھی کرتاہے تو کب کرتا ہے۔
کی مرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
کبھی کبھی معشوق کی ستمگاری سے غالب کو فائدہ بھی پہنچ جاتاہے۔
ذکر میرا بہ بدی بھی اسے منظور نہیں
غیر کی بات بگڑ جائے تو کچھ دور نہیں
گرچہ ہے کس کس بُرائی سے ولے بہ ایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
غالب اپنے معشوق میں پاتے تو ہیں انتہائی شوخی لیکن چاہتے ہیں اس میں سادگی۔
سادگی پر اس کی مر جانے ک حسرت دل میں ہے
بس نہیں چلتا، کہ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے
لیکن معشوق کی سادگی بھی قیامت ڈھاتی ہے:
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوا ر بھی نہیں
اور جب معشوق ایک ہی ساتھ سادگی و شوخی کاملاطفہ ہے تو اور بھی جان پر بن جاتی ہے:
سادگی و پُرکاری، بے خودی و ہُشیاری
حُسن کو تغافل میں جرات آزما پایا
معشوق کی شوخی کا شکایت آمیز بیان جیسا غالب کے ہاں ملتا ہے اس کی مثالیں کسی اور شاعر کے ہاں نظر نہیں آتیں اس بیان اور اس شکایت میں نہ تو میر کی دل گرفتگی و خستگی ہے نہ بہت سے اور شاعروں کی طرح سطحیت ور چھچھوراپن، غالب معشوق کی شوخیوں سے تنگ آکر بھی بالکل مٹ نہیں جاتا وہ اپنی آن بان قائم رکھتاہے اور اسی خودداری کے سبب سے وہ معشوق کی شوخی اور جفا کاری کو بہت رچا کے اور سنوار کے پیش کرتاہے۔ مثلاً معشوق عاشق کے خطوں کا جواب نہیں دیتا یا نہایت بے حسی او ربے دردی سے جواب لکھتا ہے، غالب نے کسی طنزیہ لہجے میں اس کا ذکر کیا ہے۔
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
یہ جانتا ہوں کہ تو،اور پاسخ مکتوب
مگر ستم زدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا
لیکن ان تمام اشعار سے غالب کے تصور محبوب کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ نامکمل ہوگی،اگر ہم غالب کے کچھ اور اشعار پربھی نظرنہ ڈالیں جن میں معشوق کی فطرت کی نرمی یا اس کی عاشِق نوازی دکھائی گئی ہے۔ معشوق خطوں میں ہمیشہ جلی کٹی نہیں لکھتا، پیاربھرے خط بھی لکھتا ہے۔
پھر چاہتا ہوں نامہ دلدار کھولنا
جان نذرِ دلفریبی عنواں کیے ہوئے
معشوق محض رُلاتا ہی نہیں، کبھی کبھی اس کی آنکھیں بھی ڈبڈبا آتی ہیں، کیا شعر کہا ہے:
نہیں معلوم کِس کِس کا لہو پانی ہوا ہوگا
قیامت ہے سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا
غالب کے ہاں محبوب کے تصور میں بلکہ حُسن و عشق اور زندگی ہی کے تصور میں رشک کا عنصر بہت تیز ہے، غالب کے مزاج میں خود غرضی تھی، کِس کے مزاج میں نہیں ہوتی اور یہ خودغرضی بہت تیز تھی۔ لیکن ان کی فطری مصلحت شناسی، رشک کے جذبے کوبھی بہت حسین بنا دیتی ہے۔
رات کے وقت مے پیئے، ساتھ رقیب کو لیے
آئے وہ یوں خدا کرے، پر نہ خدا کرے کہ یوں
رقیب تو درکنار غالب کو خود اپنے آپ پر رشک آجاتاہے۔
دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آجائے ہے
میں اُسے دیکھوں بھلاکب مجھ سے دیکھا جائے ہے
لیکن مجبوری سب کچھ کراتی ہے، باوجود رشک کے غالب یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو
لیکن اگر کسی ایک غزل میں غالب نے محبوب کا معیاری تصور پیش کیا ہے تو اُس غزل میں جویوں شروع ہوتی ہے:
درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے
کیا ہوئی ظالم تِری غفلت شعاری ہائے ہائے
یہ پوری غزل معشوق کا مرثیہ ہے اور غالب کے مغموم تصور کا مرقع۔