ابوالکلام قاسمی
مرزاغالب کی شاعری میں نفی و اثبات کی ثنویت دراصل ادبی اور شعری اظہار کی تہہ داری، اجتماع النقیضین اور تضاد کی بوالعجبی پر قائم ہے۔ شاعری میں بالواسطہ اظہار کے بیش تر وسائل تضاد کی صنعت اور پیراڈوکس میں موجود لسانی تناؤ اور استعاراتی کشمکش کے کسی نہ کسی طریق کار پر مبنی ہوا کرتے ہیں۔مرزاغالب کے کلام کا امتیاز یہی ہے کہ غیرشعوری طور پر بھی، وہ برہنہ گفتاری سے اجتناب برتتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ شاعری ان کے یہاں پوری طرح صناعی، ہنرمندی اور حسن آفرینی کا وسیلہ بن جایا کرتی ہے۔ اس لےے بھی غالب کی شاعری میں موضوعاتی پہلو کے مقابلے میں فنی کارکردگی اورپیش کش کے نت نئے اسالیب اور بالواسطہ طرز اظہار کے مختلف وسائل کا استعمال زیادہ حاوی اورنمایاں نظر آتا ہے۔ غالب کی شاعری میں نفی اور اثبات کی نوعیت کا مطالعہ کلام غالب میں موجود مضامین اور موضوعات سے کہیں زیادہ شاعر کے فنی طریق کار کے مطالعہ کا متقاضی بن جاتا ہے۔ اس سے پہلے کہ مرزا کے یہاں نفی و اثبات کی ثنویت کو شعری طریق کار کے طور پر استعمال کرنے کی نوعیت اور اس نوعیت پر مبنی قدرے گہری اور سنجیدہ کارکردگی کی بعض مثالیں پیش کی جائیں، مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ سہل ممتنع کی نمائندگی کرنے والے اور کسی صنّاعانہ ہیبت میں مبتلا نہ کرنے والے دو تین اشعار ملاحظہ کرلیے جائیں:
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
ناامیدی اس کی دیکھا چاہےے
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
ہاں، کھائیو مت فریبِ ہستی
ہرچند کہیں کہ ہے، نہیں ہے
اتفاق سے ان تینوں اشعار کی بنیاد نفی و اثبات کی کشمکش پر قائم ہے، مرنے کو ایک متوقع کیفیت بتاکر اسے نا امیدی کا شاخسانہ ثابت کرنا ہو، یا مرنے کی آرزو میں مرمر کے جینے کو موت کا آنا، لیکن گویا کہ نہ آنا کہناہو،یا فریب ہستی کا احساس دلاکر پوری ہستی کو ایک ایسا التباس ثابت کرنا کہ جوہے بھی اور نہیں بھی ہے— طرزاظہار کی یہ تمام صورتیں مرنا، جینا، موت، زندگی اور ہستی کا وجود اور فریب ہستی کہہ کر اس کا التباس قائم کرنا، ایسے طلسمی بیانیہ کو جنم دیتا ہے جس میں ان اشعار میں بیان کےے گئے مضامین یا شاعرکا مافی الضمیرثانوی ہوکر رہ جاتا ہے اور حاصل جمع کے طور پر قاری کے پاس جو کچھ باقی رہ جاتا ہے وہ شاعر کے بیان کی صناعی ہے یا پھر نفی و اثبات پر قائم متوازن، متقابل اور جدلیاتی لفظیات کے درمیان موجود کشمکش اور تناؤ ہے جو بالآخر مرزاغالب کے شعری لہجے کو تمام اردو اور فارسی کے شعرا سے مختلف او رمنفرد ثابت کرنے کے لےے کافی دکھائی دینے لگتا ہے۔
ان اشعار کے برخلاف مرزا کے ان گنت اشعار ایک طرف کائنات کی لامتناہی عظمت، امکانات اور ناقابل یقین بلندی اور ارتفاع تک پہنچنے کی حسرت اور اس حسرت کو فنی اظہار کے گورکھ دھندھوں میں الجھا کر خود کو مطمئن کرلینے جیسی کیفیات غالب کے متعدد اشعار میں بہ آسانی تلاش کی جاسکتی ہے۔ وجود اور غیب کا معاملہ ہو، ظاہر اور باطن کے اسرار و رموز ہوں، مرکز کی مرکزیت سے انکار اور غیر مرکز میں مرکزیت کی تلاش کا رویہ ہو، یہ تمام روےے غالب کے ذہنی محرکات کا حصہ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ حضرت غالب ہیں تو وہ اپنے احساسات یا ردعمل کا اظہار کچھ ایسے اظہار میں تو کرنے سے رہے جو غیرغالبانہ، تعمیمی، نثری منطق پر مبنی اوراپنے موضوع کو بنیاد بناکر اس کی مختلف الجہاتی کو گرفت میں لینے سے گریز کرنے سے ہو۔ اب ذرا چند اشعار ملاحظہ کیجےے جن میں وجود و عدم، غیب و شہودیا بقا و فنا کے معاملات، نفی و اثبات کو بنیاد بناکر نقیضین والی کیفیت پیداکرنے سے ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ ان تمام اشعار میں حقیقت کو پہلے محلول کردینے اور پھر اس محلول صورت حال کو لسانی، منطقی اور فنی ہنرمندیوں کے نتیجے میں ایک نئی دنیا تخلیق کرلینے کے انداز میں بھی دیکھا جاسکتا ہے:
اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
ہے غیبِ غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں
میں عدم کے بھی پرے ہوں ورنہ غافل بارہا
مری آہِ آتشیں سے بال عنقا جل گیا
لطافت بے کثافت جلوہ پیداکر نہیں سکتی
چمن رنگار ہے آئینۂ باد بہاری کا
پہلے شعر میں شہود کا عمل، شاہد کا زاویہ نظر اور مشہود کے دیکھے جانے کا التباس اس حد تک ایک دوسرے سے مدغم ہوجاتے ہیں کہ فاعل، فعل او رمفہوم کی تثلیث تو تثلیث ثنویت کی طرف بھی قاری کی توجہ مبذول نہیں ہوپاتی کہ تینوں کو الگ الگ اثبات کو نفی کے عمل سے گزار کرایک وجدانی تجربے میں تبدیل کردیا گیا ہے اور پھر شاعر، شاہد اورمشاہدہ کے حوالے سے تمام زاویوں کو ایک دوسرے میں محلول کردیتا ہے۔
دوسرا شعر بہ ظاہر یوں تو شہود اور غیب کی جدلیاتی کشمکش پر مبنی ہے مگر جیسے ہی پہلے مصرعے میں شاعر نے غیب کو غیبِ غیب کہاتو پھر وہ غیب، محض شہود کا متضاد نہیں رہ گیا، بلکہ دونوں کے درمیان کئی مراتب اور مدارج کے پردے حائل ہوگئے۔ تاہم دیکھنے کا نکتہ یہ ہے کہ غیب غیب میں غیب کی نفی اور شہود سے اس کے اشتباہ سے انکار دراصل محض غیب و شہود سے انکار نہیں بلکہ خواب میں کسی چیز کا مشاہدہ کرنے یا خواب میں جاگتی آنکھوں سے دیکھنے کی دونوں کیفیات میں مشاہدہ کے عمل میں کامیاب ہونے کی بھی اس لےے نفی کردی گئی ہے کہ صحیح معنوں میں غیب و شہود کا معاملہ نری بصارت سے زیادہ بصیرت اور انکشاف کا متقاضی ہوا کرتا ہے
مرزاغالب نے یوں تو اپنی شاعری کے بڑے حصے میں وجود و عدم کے تضاد سے الجھنے، اعتراف کرنے اور انکار سے کہیں زیادہ اپنے وجود پر اصرار کرنے کا ثبوت پیش کیا ہے۔ تعلّی، اثبات ذات، ذات و صفات کی نزاکتوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنا، بہ ظاہر غالب کا عام شیوہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ”میں عدم سے بھی پرے ہوں“، تو ایسا لگتا ہے کہ متذکرہ شعر ہی کی طرح غیب غیب کی وہ کیفیت یہاں بھی در آئی ہے جس میں وہ وجود پر اصرار تو دور کی بات ہے وہ اپنے وجود سے بھی خود کو کئی مراتب دور کرلینے کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔اس کے باوجود نفی و اثبات کی ثنویت کو معنوی امکانات کی انتہا کے ساتھ استعمال کا ثبوت مرزاغالب اس وقت نمایاں طور پر دیتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں جب اس شعر کی قرات مکرر کے دوران یہ اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی کی تمام شرائط کے ساتھ اس انسان کی آہ و زاری، نالہ وفریاد اور گرمیِ گفتار کا اندازہ ایسے کیوں کر لگایاجاسکتا ہے جب وہ عدم سے پَرے ہونے کے باوجود اپنی آہِ آتشیں سے بال عنقا کے جلنے کے اندیشے سے دوچارہی نہیں بلکہ اس اندیشے میں شامل منفی احتمالات سے بھی متصادم ہے اور اندیشہ بلکہ اندیشہ کو خبربناکر پیش کرنے کے اس مقام پر فائز ہے۔
کم و بیش تضاد و تناقض کی اسی صورت حال سے ہمارا سامنا ع ”لطافت بے کثافت جلوہ پیداکر نہیں سکتی“ میں ہوتا ہے۔ لطافت کے بعد کثافت، چمن کے بعد زنگار اور اگر پورا چمن زنگار ہے تو اس کے متقابل آئینہ بادِبہاری، ایک بار پھر ہمیں جدلیاتی کیفیت سے دوچار کرتا ہے اور اس طرح شاعر جس نکتے یعنی لطافت اور آئینہ بادبہاری کے حسی اور ارتفاعی عمل سے گزارنا چاہتا ہے اس میں وہ پوری طرح کامیاب نظر آتا ہے۔ اس طریق کار کے برخلاف اگر محض لطافت اور بادبہاری کو چمن کے حوالے سے بیان کیاجاتا تو اس کے اندر تضاد وتناقض کا وہ دریچہ وا نہیں ہوپاتا جس کے وسیلے سے لطافت اور بادبہاری کی کیفیات غیرمعمولی طور پر نمایاں اور قابل وثوق بن گئی ہیں۔
تاہم مرزاغالب کے شعری طریق کار کے سلسلے میں ہمیں اس بات کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہےے کہ نفی و اثبات، یا تضاد یا لفظوں کی جدلیاتی کشمکش کو باہم متصادم کرکے اپنے مدعا کو نمایاں اور روشن کرنے کا عمل غالب کے مختلف اورمتنوع شعری طریق کار میں سے ایک ایسا طریقہ ہے جو ان کی ایجاد کردہ شعری منطق میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر ایسا بالکل نہیں کہ مرزا اپنے تخلیق عمل میں اس طرح کی پیچیدہ منطق کے ساتھ سادہ، روایتی اورخالص بیانیہ اسالیب سے خود کو کم آہنگ رکھا ہو۔ محض سپاٹ، سادہ بیانی یا صرف روزمرہ اور محاورہ پر مبنی لسانی روایت پر قائم رہتے ہوئے بھی غالب نے اپنے لہجے او راندازِ بیان کی مدد سے اپنے اشعار میں مختلف جہات پیدا کرنے کی جیسی اورجتنی کوششیں کی ہیں ان کی تفصیل تحصیل حاصل کے علاوہ اور کچھ نہیں۔(اس ضمن میں راقم الحروف کے ایک مضمون ”غالب کا شعری لہجہ“ سے رجوع کیاجاسکتا ہے) مگر غالب کی اصل شناخت بالواسطہ اندازبیان، استعارے، کناےے اورعلامتوں کے استعمال کے ساتھ ان گنت مروج اورکثرت استعمال سے پامال لفظیات تک کو گنجینۂ معنی کا طلسم بنانے اور اس طلسم کاری کے لےے نت نئے اسالیب اور صناعانہ طریقے ایجادکرنے میںمضمر ہیں جن کے مطالعے اور دریافت کی کاوش غالب تنقید آج تک کرتی رہی ہے اور شاید اس کی ضرورت تفہیم غالب کے ہر طالب علم کو عرصہ دراز تک محسوس ہوتی رہے گی۔اس موقع پر اس اعتراف میں ہمیں کسی تکلف سے کام نہیں لیناچاہےے کہ معاملہ نفی و اثبات کا ہو، تحت البیان کا ہو، بالواسطہ طرزاظہار اختیارکرنے کی خاطر استعارہ سازی یا کسی دوسری صنعت کاری کا، ان نکات اور شعری طریق کار پر مبنی ہماری تنقیدی کاوشیں غالب کی مکمل تفہیم کا حق ادا کرتی نظر نہیں آتیں۔
مرزاغالب نے علیٰ ہٰذالقیاس اپنے ایک عارفانہ او ربعض لوگوں کے لےے محض جمالیاتی تجربے کے شعر میں جمال حقیقی یا وجود مطلق کی قوت تخلیق کے تسلسل اور ارتقا کا جو نقشہ:
آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں
میں کھینچا ہے اس میں ’نہیں‘ کا لفظ نہ تو نفی کے لےے استعمال ہوا ہے او رنہ اس میں کسی طرح کا استفہامِ انکاری کا انداز پایا جاتا ہے۔ پورا شعر جمالِ مطلق کے عدم فراغت یا لگاتار مصروف عمل رہنے اور داخلی طور پر غیرمتحرک نظر آنے کے باوجود بننے، سنورنے، نکھرنے، ارتقاپذیر رہنے پر دال ہے یا بہ صورت دیگر کائنات کے پس منظر میںحرکت و عمل کا محرک بنے رہنے یا ذات حقیقی کے ننانوے صفاتی ناموں میں شامل تمام صفات کو عملی طور پر انجام پذیر کرنے کے کام کو بالقوہ سے بالفعل تک کے عمل میں تبدیل کردینے کا احاطہ کرلیتا ہے۔ شاید اس بات کا اندازہ کرلینا مشکل نہیں کہ اگر وضاحت کے ساتھ ’آرائش جمال میں مصروف رہنے‘ کے الفاظ استعمال کےے جاتے تو بیان میں وہ شدت تاکید اور تسلسل کی کیفیت پیدا نہ ہوپاتی جو ’آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز‘ کے استعمال سے روبہ عمل آئی ہے۔ذراغور کرنے سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ زیربحث شعر کا یہ پس منظر بھی کسی نہ کسی روپ میں نفی و اثبات کا مرہون منت ہے۔اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ زیربحث شعر کے مقابلے میں نفی کی نوعیت مرزا کے ایک اور شعر:
جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی مشکل کہ تجھ سے راہ سخن وا کرے کوئی
میں ’نہ‘ کے لفظ سے اور اس سے بھی کہیں زیادہ ’مشکل‘ کے لفظ سے نفی کی شدت میں مزید اضافہ کردیا گیا ہے۔ اس شعر میں زخم، دہان زخم، راہ سخن اور اس کو وا کرنے میں جس قسم کی مناسبت موجود ہے اس کو کلاسیکی اردو اورفارسی غزل میں مستعمل دہان زخم کی معنویت یا اس ترحم آمیز صورت حال میں محبوب سے راہ سخن کے وا ہونے کی امید بارآور ہونے کے امکان کی ایک الگ جہت تو پید اہوتی ہی ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ محبوب سے توجہ یا تکلم کا امکان پوری طرح ”جب تک دہان زخم نہ پیداکرے“ میں موجود ’نہ‘ کے لفظ پر مبنی ہوکر رہ گیا ہے اور جب غیرمتوقع طورپر اس نفی آمیز اثبات کا مترادف دوسرے مصرعے میں ’مشکل‘ کے لفظ کو بنایاجاتا ہے تو مترادف نہ ہوتے ہوئے بھی ’نہ‘ اور ’مشکل‘ کے جزوی طور پر مترادف الفاظ اس شعر کے تاثر کو قدرے زیادہ کارآمد اور دور رس بنادیتے ہیں۔
ان اشعار کے بعد اگر دو ایسے اشعار کو آمنے سامنے رکھاجائے تونفی و اثبات کے استعمال کا ایک دوسرا ہی منظرنامہ سامنے آتا ہے۔ غالب کاایک مشہور شعر ہے:
محبت میںنہیں ہے فرق جینے اورمرنے کا اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
یہ شعر اپنی لسانی منطق کے اعتبار سے ایک روزمرہ اور ایک محاورے پرمبنی ہے۔ روزمرہ میں لفظوں کے بنیادی معنوں سے سرموانحراف نہیں ہوتا۔ اس لےے محبوب کو دیکھ کے عاشق جیتا ہے اور نہ دیکھے تو اس کے لےے جینا دشوار ہوتا ہے۔ مگر ’دم نکلنے‘ کا فقرہ لفظی معنوں میں تو جان نکلنے کے معنی کی ترسیل کرتا ہے۔ مگر محاورتاً یا استعارتاً، جان دینے، قربان جانے اورعاشق ہونے کے معنی کو ظاہر کرتا ہے…. مگر شاعر نے روزمرہ اور محاورہ کی آمیزش کو ایک قول محال یا پیراڈوکس بناکر تضاد یا تناقض کی صورت پیدا کردی ہے۔ یعنی کسی شخص کو دیکھ کے جینا اور اس پر د م نکلنا بمعنی عشق کرنا جینے اورمرنے کے متضادمعنی کے بجائے لسانی اعتبار سے بھی قابل اعتبار معنی کی ترسیل کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جیسا کہ شعر کی لفظیات سے ظاہر ہے کہ دونوں مصرعوں میں نہیں بھی نفی یا نفی کا مترادف کوئی لفظ موجودنہیں، اورنہ نفی و اثبات کی کسی کشمکش کو آسانی سے محسوس کیاجاسکتا ہے۔ مگر شاعرنے تناقص اور جینے کے ساتھ مرنے (دم نکلنے) کی ثنویت، روزمرہ اورمحاورہ پر قائم کرکے بالآخر نفی واثبات کی صورت حال بھی پیدا کردی ہے اور ایک سادہ سی بات کو حددرجہ قابل توجہ بھی بنادیا ہے۔
اس شعر کے بالمقابل اگر ایک اور شعر کو ملاحظہ کیاجائے جو نہ توموضوع کے اعتبار سے زیربحث شعر سے کوئی تعلق رکھتا ہے،نہ شعری منطق کے اعتبار سے اس سے کوئی خاص مناسبت رکھتا ہے اورنہ زیربحث نقطۂ نظر یعنی نفی واثبات کی کشمکش سے کوئی خاص علاقہ رکھتا دکھائی دیتا ہے۔ شعر ہے:
ہے خیالِ حسن میں حسن عمل کا ساخیال خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا
جیسا کہ عرض کیا گیا ہے دونوں مصرعوں میں کہیں نفی کا کوئی شائبہ نظر آتا ہے اورنہ اثبات کا امکان،مگر حیرت انگیزبات یہ ہے کہ ’خیالِ حسن‘ کے متبادل کے طور پر ’حسنِ عمل کا سا خیال‘ کا فقرہ اپنے آپ میں ایک دوسرے کی تقلیب اور تقلیب کے حوالے سے نفی کواثبات سے بدلنے یا اثبات کو نفی سے بدلنے کی صورت حال پیدا کردیتا ہے۔ خیال حسن، یا احساس جمال فنی اورجمالیاتی سرگرمی کااصل الاصول ہے اس لےے خیال حسن کا معاملہ ایک ہمہ گیر اور آفاقی قدر کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ جب اس آفاقی اورجمالیاتی تجربے کی سرحدیں دنیا اور آخرت، دونوں سے جاکر مل جاتی ہیں اور دارالعمل اوردارالجزا دونوں کا تجربہ ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔ تو اس کے ثبوت کے طورپر دوسرے مصرعے ’خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا‘ کے علاوہ کسی اورداخلی شہادت کو پیش کرنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی۔
مرزاغالب کے استفہامیہ مزاج کے مظاہر کبھی استعجاب کے اظہار میں، کبھی نفی اور اثبات کے مابین کشاکش کو برقراررکھنے میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اکثر اثبات اور اعتراف کو بھی پہلے انکار اورنفی کے حوالے سے بیان کرنے اور اس لسانی تناو ¿ میں اپنے بیان کی شدت میں اضافہ کرنے کا اسلوب مرزاغالب کے لےے اتنا پسندیدہ ہے کہ وہ اپنے مشہور منقبتی قصیدے کی تشبیب کے مطلع تک کی بنیاد نفی اور انکارپر قائم کرتے ہیں:
دہرجز جلوۂ یکتائیِ معشوق نہیں ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خودبیں
یہ غالب کی مشکل پسندی کی انتہا نہیں تو اورکیا ہے کہ ان کا ہر اثبات، نفی کا روپ لے کر نمودار ہوتا ہے۔اسی طرح اپنے ایک شعر میں محبوب سے ملنے کی دشواری کو بیان کی حد تک آسان اور سہل کے لفظوں سے تعبیر کرنے کے ساتھ ہی وہ اسے ایک ایسی دشواری بتادیتے ہیں جس کو پوری طرح دشواری کا نام بھی نہیں دیاجاسکتا۔ شاید یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ غالب کے اس نوع کے بیش تر بہ ظاہر منفی انداز فکر کی نمائندگی کرنے والے اشعار دراصل اپنی ذات پر اصرار کا متبادل ہیں جن میں نفی و اثبات کی کشمکش کے سبب حیرت و استعجاب کی بھی افراط ہے اور کثرت معنی کے امکانات بھی مضمر ہیں۔ چنانچہ مرزاغالب کی اس شخصیت میں جو شعری اظہار میں ظاہر ہوتی ہے، ظرافت، بذلہ سنجی، زندہ دلی اور غمِ روزگار کوشکست دینے کا حوصلہ بھی نفی و اثبات کی کشمکش سے کسب فیض کرنے کا سراغ دیتا ہے۔