Print Friendly, PDF & Email

غالب کی شاعری میں ہمہ زمانی معانی

انیس اشفاق 

 غالب کی شاعری میں ہمہ زمانی معانی

بڑا شاعر زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتا ہے۔ اس کی نگاہ میں اپنا زمانہ ہی نہیں آنے والا زمانہ بھی ہوتا ہے، اسی لیے اس کے شعروں میں یک عہدی نہیں، ہمہ زمانی معنویت ہوتی ہے۔ میر اور غالب ایسے ہی شاعر ہیں اور غالب تو ایک ایسا نابغہ لے کر پیدا ہوئے تھے جس کی آنکھ وہاں تک جارہی تھی جہاں تک کسی اور کی آنکھ کا جانا آسان نہ تھا۔ غالب نے کہا تو یہ تھا:

ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا رب

ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا

لیکن ان کی شاعری میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے اس شعر کے مفہوم پر نظر کیجیے: ‘دشت’ یہاں وسعت کے باوجود تنگی کا مفہوم ادا کررہا ہے اور ‘تمنّا’ اسرارِ وجود کو حل کرنے یعنی خدا اور کائنات کو سمجھنے کی تمنّا ہے۔ اس تمنّا میں ہم محوِ سفر ہیں اور اس سفر میں یہ پورا دشتِ امکاں ہمارا صرف ایک نقشِ قدم ہے۔ اصلاً یہ شعر علم اور لاعلمی کا مرکب ہے یعنی ہمارا سارا علم اس کائنات تک محدود ہے اور ماورائے کائنات کے بارے میں ہم کچھ بھی نہیں جانتے۔ یہاں ماورائے کائنات کے بارے میں کچھ نہ جاننے کی بات کہہ کر غالب دراصل ہم کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ ان کی شاعری میں عدم یعنی ماورائے کائنات کا ذکر اتنی بار آیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ معدوم زمانوں اور مکانوں کا بھی گہرا علم رکھتے ہیں۔

نقل کیے ہوئے شعر میں ہم سے مراد دراصل ہم اور آپ ہیں، غالب نہیں۔ اپنے غیر معمولی وجدان و ادراک کی بنا پر غالب کی نگاہ اِس دشتِ امکاں کے دوسرے نقشِ پا کو بھی دیکھ رہی تھی اور ’غیب‘ سے جو مضامین ان پر نازل ہورہے تھے وہ اسی دوسرے نقشِ پا کے الگ الگ جادوں کو روشن کررہے تھے جنہیں دیکھ کر ہمارا مبتلائے حیرت ہوجانا یقینی ہے۔ غالب کے معاملے میں ہمیں دو طرح کی حیرتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک حیرت تو وہ ہے جو ان کے بند شعروں کے معنی نہ کھل پانے کی وجہ سے ہم پر طاری ہوتی ہے۔ معنی خواہی کی خواہش میں جب ہم ان کے شعر کے سب دروازوں پر دستک دے کر کسی جواب کے بغیر لوٹتے ہیں تو جھنجھلاہٹ میں یہ سوچنے لگتے ہیں کہ آخر یہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ اور جب ہمارے بار بار کے سر ٹکرانے کے بعد اُن دروازوں کی درزوں سے معنی کی کوئی کرن پھوٹتی ہے تو دیر تک ہم اس حیرت میں مبتلا رہتے ہیں کہ اِس نے کیا کہہ دیا۔ یہ معنی تو دور دور تک ہمارے ذہن میں نہیں تھے۔ لائقِ رشک نابغے کے ساتھ ساتھ خلاّقی بھی غالب کو ایسی ملی جو کسی اور کے حصے میں نہ آئی۔ مشکل سے مشکل موضوع کو ذہن میں لانا اور پھر اسے ایسے پیرائے میں بیان کرنا کہ جتنی بار شعر کو پڑھیے اس کی نئی پرتیں کھلتی چلی جائیں۔

یہ تو ہم شروع سے سنتے آرہے ہیں کہ غالب کا ذہن عام شاعروں کا سا ذہن نہیں تھا۔ ازحالی تا شمس الرحمن فاروقی ہمارے غالب شناسوں نے غالب کو مشکل بتانے میں بہت زیادہ وقت صرف کیا۔ یعنی ہمیں ان سے ملایا کم گیا ڈرایا زیادہ گیا۔ اور یہی خوف غالب اور ہمارے درمیان دوری کا سبب بننے لگا۔ غالب کے مشکل ہونے کا سبب دراصل ان کی نگاہ کی وہ تیزی اور نیرنگی ہے جو اشیا و مظاہر کے ایک رخ کو دیکھنے کے بجائے سب رخوں کو دیکھ لیتی ہے۔ یعنی ہماری اور آپ کی آنکھ سےچھپی رہنے والی اشیا کی ماہیتیں اور معنویتیں غالب کے حلقۂ

 نگاہ میں خورشیدِ جہاںتاب کی مانند روشن رہتی ہیں۔ یہ جو انہوں نے اپنے بارے میں کہا ہے:

گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھئے

جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے

اس شعر میں ہر لفظ کے گنجینۂ معنی کے طلسم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ شعرِ غالب کے خزینے میں داخل ہوں گے تو ہر لفظ آپ کو اس طلسم کی طرف لے جائے گا جہاں کائنات اور ماورائے کائنات کی مختلف صورتیں اپنے مختلف رنگوں میں نظر آئیں گی۔ اپنی فارسی شاعری میں غالب نے اپنے ذہن کی پیچیدگی، اپنی فکر کی بلندی، اپنے معانی کی نیرنگی اور اپنے حلقۂ نگاہ کی وسعت کا بار بار ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ میں ایک پیچیدہ، حیرت آور اور طلسم آسا ذہن لے کر پیدا ہوا ہوں، اسی لیے میں ان زمانوں پر بھی حاوی ہوں جو ظاہری زمانوں سے پرے ہیں اور وہ معانی بھی میری گرفت میں ہیں جن تک کسی نگاہ کا پہنچنا محال ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:

ما ہمائے گرم پروازیم فیض از ما مجوئے

سایہ ہمچو دود بالا می رود از بالِ ما

اس شعر میں گرم پروازِ ہما سے ذہن ایک عالی فکر اور عالی دماغ ہستی کی طرف منتقل ہوتا ہے اور پرواز کی گرمی فکر کی وہ بلندی ہے جس تک عام آدمی کی رسائی آسانی سے نہیں ہوتی۔ اس مفہوم کا اطلاق خود غالب پر ہوتا ہے کہ میرے افکار اتنے بلند اور اتنے پیچیدہ ہیں کہ ان سے (عام آدمی کے) مستفیض ہونے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔

دوسرا شعر:

پایۂ من جزبہ چشمِ من نیاید در نظر

از بلندی اخترم روشن نیاید در نظر

میرا مرتبہ میرے سوا کسی اور کی نظر میں نہیں آسکتا۔ اس لیے کہ میرا ستارہ اتنی بلندی پر ہے کہ وہ میرے سوا کسی کو صاف نظر نہیں آتا۔

تیسرا شعر:

دیدہ ور آں کہ تا نہد دل بہ شمارِ دلبری

دردلِ سنگ بنگرد رقصِ بتانِ آذری

دیدہ ور وہ ہے کہ اگر دلبری (کے مظاہر) کا شمار کرنے کی ٹھان لیتا ہے تو اس کو پتھر کے دل کے اندر آذری بتوں کا رقص نظر آنے لگتا ہے۔

آخری شعر:

در دام بہرِ دانہ نیفتم مگر قفس

چنداں کنی بلند کہ تا آشیاں رسد

شعر کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ میں دانے کے لیے دام میں نہیں آؤں گا بلکہ قفس کو اتنا اونچا کرو کہ وہ میرے آشیاں تک پہنچ جائے۔ باطنی مفہوم یہ ہے کہ اگر مجھ کو سمجھنا چاہتے ہو تو وہ دانش اور ذکاوت پیدا کرو جس کا مطالبہ میرے شعروں کے معنی کرتے ہیں۔

فارسی کے یہ شعر اور ان کے مفاہیم اس لیے نقل کیے گئے ہیں کہ جو کچھ غالب کے نابغے، ان کے ذہنِ رسا اور ان کی ذکاوت کے بارے میں اوپر کہا گیا ہے اس کی توثیق ہوسکے۔

غالب کے غیر معمولی ذہن، بلا کی قوتِ پرواز، ان کی ہمہ دانی، ان کے معانی کی پیچیدگی اور تہہ داری کی بنا پر نکتہ شناسانِ شعر کو شعرِ غالب کی شرحیں لکھنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ شارحین کی ان شرحوں سے غالب کا اشکال کم ہوا اور ان کے شعروں کا ظاہری مفہوم بھی بڑی حد تک ہم پر ظاہر ہوگیا لیکن کلامِ غالب کے لامحدود معنوی امکانات تک رسائی کا راستہ پھر بھی پوری طرح نہ کھل سکا۔ اس کے لیے نیرمسعود، پروفیسر گیان چند جین، شمس الرحمن فاروقی اور پروفیسر گوپی چند نارنگ وغیرہ کو آگے آنا پڑا اور نئے زمانوں کی معنویتوں کے اعتبار سے غالب کو سمجھانا پڑا۔

درج بالا معروضات میں ہمارا اصل نکتہ یہ ہے کہ مفاہیم کی نیرنگی اور معانی کی کثرت کی بنا پر غالب کی شاعری کسی ایک زمانے کی اسیر نہیں ہے۔ وہ جی تورہے تھے انیسویں صدی میں لیکن ان کی نگاہ آئندہ کے زمانوں کو بھی دیکھ رہی تھی اسی لیے ہمیں ان کے یہاں آئندہ زمانوں کے معنی بھی دکھائی دیتے ہیں۔

اس سے پہلے کہ ہم مثالوں کے ذریعے اکیسویں صدی میں غالب کی معنویت کا محاکمہ کریں یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ وقت اور نوعیت کے اعتبار سے موضوعات ومسائل کی شکلیں کیا ہیں۔ بظاہر ان کی چار شکلیں ہمارے سامنے ہیں:

          1۔ ازلی اور آفاقی موضوعات و مسائل : یہ حدود اور نفوس کے امتیاز کے بغیر ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔

          2۔ یک عہدی یا عصری موضوعات : یہ ایک ہی زمانے اور بیشتر ایک ہی جگہ سے مخصوص ہوتے ہےں۔

          3۔ ہمہ زمانی موضوعات : یہ ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیں اور حدود و نفوس کے امتیاز کے بغیر ان کا تجربہ ہر زمین پر ہر شخص کو کم و بیش ایک ہی طرح سے ہوتا ہے۔

          4۔ انفرادی موضوعات : ان کا تعلق ایک مخصوص فرد، ایک مخصوص قوم اور ایک مخصوص علاقے سے ہوتا ہے۔ لیکن یہ انفرادی موضوعات بعض حالتوں میں انفرادی نہ رہ کر اجتماعی ہوجاتے ہیں۔

موضوعات (مسائل) کی یہ شکلیں بتانے کے بعد ہم آپ کو یہ بھی بتادیں کہ ایک تخلیق کار اپنی تخلیق میں انہیں موضوعات سے معنی کشید کرتا ہے۔ یعنی تخلیق سے باہر جو چیز موضوع کی شکل میں نظر آتی ہے تخلیق کے اندر وہی شے معنویت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔

ان معنویتوں/ موضوعوں کی شکلیں بتانے کے بعد یہیں پر ہم آپ کو یہ بھی بتادیں کہ غالب کی شاعری میں ہماری تقسیم والی چاروں معنویتیں موجود ہیں۔ غالب کے ساتھ اکیسویں صدی میں قدم رکھنے سے قبل اب ذرا یہ بھی دیکھ لیجیے کہ جن مختلف معنویتوں کی شکلیں ہم نے آپ کے سامنے پیش کی ہیں وہ اصلاً ہیں کیا۔ سب سے پہلے دائمی یا آفاقی یا ازلی معنویتوں یا مسئلوں کو دیکھےے۔ یہ معنویتیں اس طرح ہیں:

ذات اور کائنات کا طلسم، وجود کے تئیں ہمارا استفہام، دنیا میں ہمارے خلق ہونے کی غرض و غایت، موت کی ناگزیری، دنیا کی بے ثباتی، زندگی کا جبر، زیاں کا احساس، خوفِ مرگ، رنجِ رائیگاں، عدمِ تحفظ، تنہائی، مایوسی، بے یقینی، ذات کا انتشار، باطن کی پیکار، ہونے کا آزار، نہ ہونے کا وہم وغیرہ۔ یہ دائمی اور آفاقی مسائل ہیں اور یہ آج سے دو سو برس بعد یعنی تئیسویں صدی میں بھی اسی طرح موجود رہیں گے۔ یہ ضرور ہے کہ ان میں سے بعض کی حالتوں اور کیفیتوں میں بہ اعتبارِ وقت تبدیلی واقع ہوتی رہے گی۔ مثلاً مایوسی، بے یقینی، عدمِ تحفظ، عدم حوصلگی اور زیاں کا جو احساس ہمیں 1857 کے غدر یا پہلی جنگ عظیم میں ہوا تھا، اس سے کہیں زیادہ دوسری عالمگیر جنگ میں ہوا۔ جب تقسیم اور اس کے بعد فسادات کے المناک واقعات رونما ہوئے تو اس احساس میں پھر تیزی آئی اور بیسویں صدی کے آخری اور اکیسویں صدی کے پہلے دہے میں ایک عبادت گاہ کی مسماری اور بہ رضائے ریاست ایک صوبے میں ایک مخصوص جمیعت کی صف کُشی کے دل دہلادینے والے مناظر سامنے آئے تو ہم ایک نئے طرح کے آزار و اضطراب میں مبتلا ہوئے اور عدمِ تحفظ کے احساس نے ہمیں لرزہ براندام کردیا۔ اور آج اکیسویں صدی کے دوسرے دہے کا منظرنامہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ ایک مخصوص طبقہ پھر نشانے پر ہے۔ اس طبقے کو جس نوع کے انفرادی اور اجتماعی تشدد کا شکار ہونا پڑرہا ہے اور جس طرح ایک خاص خطے کے حدود کو بندی خانوں میں بدل کر محصور لوگوں کی زبانوں کو بند کردیا گیا ہے اس نے ہمیں ہونے اور نہ ہونے کے وہم میں مبتلا کردیا ہے۔

درج بالا بیان کے ذریعے ہم جس نکتے کو زیادہ نمایاں کرنا چاہ رہے ہیں وہ یہ کہ دائمی اور آفاقی مسئلوں یا معنویتوں کی حالتیں یا کیفیتیں تو بدل سکتی ہیں لیکن ان کی اصل میں کوئی تغیر نہیں ہوتا۔ مثلاً مایوسی، بے یقینی، تنہائی اور غم کی حالت ہر شخص پر طاری ہوتی ہے اور ہر زمانے میں طاری ہوتی ہے۔ مخصوص حالتوں میں کسی کو اس کا زیادہ احساس ہوتا ہے کسی کو کم۔ جب غالب یہ کہتے ہیں:

کیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواہ اہلِ بزم

ہو غم ہی جاں گداز تو غمخوار کیا کریں

تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کا غم بہ اعتبارِ حالت کم ہوتا ہے اورکسی کا جان کو گھلا دینے والا۔ دائمی اور آفاقی حالتوں یا معنویتوں کا ذکر کرنے کے بعد اب آئیے فوری، یک عہدی یا وقتی موضوعوں یا معنویتوں کی طرف۔ یہ معنویتیں عارضی اور مخصوص حالتوں کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا زمانہ کبھی بہت مختصر ہوتا ہے اور کبھی ان کا سلسلہ دراز ہوجاتا ہے۔ مثلاً بیسویں صدی کے آخری دہے میں بنیادپرستی اور مذہب زدگی میں شدت پیدا ہوگئی تھی، اقلیتوں کی وفاداری پر سوالیہ نشان قائم کئے جانے لگے تھے۔ قومی وقار و افتخار کی نئی تعریفیں وضع کی جانے لگی تھیں۔ نیز مذہب شناسی کے نام پر منافرت کو ہوا دی جارہی تھی۔ ذات پرست اور مذہب اساس سیاست کا کھیل کھیلا جانے لگا تھا۔ اکیسویں صدی کے دوسرے دہے میں اقتدار میں آنے کے لیے انہیں موضوعوں/ مسئلوں کو اور ہوا دی گئی اور اس ہوا کے تیز تھپیڑوں کو ہم آج بھی محسوس کررہے ہیں۔ لیکن یہاں ہم آپ کو ایک باریک فرق بھی بتاتے چلیں کہ فوری اور وقتی معنویتیں بعض صورتوں میں ہمہ زمانی بھی ہوجاتی ہیں مثلاً بیسویں صدی کے آخری دہے میں پیدا ہونے والے مسائل پر اگر کسی نے کوئی شعر کہا ہے اور اُس شعر میں زمانے کے تعین کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے تو چونکہ یہ حالتیں اکیسویں صدی کے دوسرے دہے میں بھی موجود ہیں اس لیے اس زمانے میں کہے جانے والے شعر کا اطلاق 2021 کے بعد کے زمانے پر بھی کیا جاسکتا ہے اور اس طرح وہ شعر وقتی نہ رہ کر ہمہ زمانی ہوجائے گا۔ مشہور ترقی پسند شاعر سردار جعفری کے دو شعروں سے یہ بات زیادہ واضح ہوجائے گی۔

شعر یہ ہیں:

کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سوا

راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا

تیغ منصف ہو جہاں دار و رسن ہوں شاہد

بے گنہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا

یہ شعر غالباً 1950 سے پہلے کسی مخصوص اور ہنگامی حالت کے نتیجے میں کہے گئے تھے۔ لیکن جب ایمرجنسی کے زمانے میں دہلی کے ایک بڑے مشاعرے میں سردار جعفری نے ان شعروں کو بقول شخصے حال ہی میں کہے ہوئے شعروں کے طور پر پڑھا تو مشاعرے کی چھتیں اڑ گئیں۔ اس کے برعکس غالب کا مشہور قطعہ : ’بس کہ فعّالِ ما یرید ہے آج….، اس میں انگلستاں اور دہلی کے لفظوں کے آجانے کی وجہ سے یہ قطعہ جگہ اور زمانے سے مخصوص ہوگیا ہے اور یہ اکہری اور وقتی معنویت سے آگے نہیں بڑھ سکا۔

موضوعوں اور معنویتوں کی اس تقسیم و تخصیص کے بعد اب آئیے دیکھیں کہ غالب کے شعروں میں یہ موضوع یا معنویتیں کس طرح نظر آتی ہیں۔ سب سے پہلے آفاقی معنویتوں کی طرف آتے ہیں اور ان میں بھی پہلے فنا، زوال اور دنیا کی بے ثباتی کا موضوع لیتے ہیں اور اس کے لیے اس شعر کے مفہوم کو غور سے ملاحظہ کیجیے:

کیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواہ اہلِ بزم

ہو غم ہی جاں گداز تو غمخوار کیا کریں

بظاہر شعر کا مفہوم یہ ہے کہ اہلِ بزم شمع کے خیرخواہ تو ہیں لیکن شمع کا غم ہی ایسا ہے جو لاعلاج ہے اس لیے اہلِ محفل بہی خواہی کے جذبے کے باوجود شمع کا غم دور نہیں کرسکتے۔

یعنی شمع کا کام اور اس کا انجام ہی یہ ہے کہ وہ پگھلتے پگھلتے ختم ہوجائے۔ ایسی صورت میں اس سے ہمدردی تو کی جاسکتی ہے لیکن اس کے لوازمِ ذاتی کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ شمع کا وجود عبارت ہے جلنے سے اور جل کر ختم ہوجانے سے۔ اس لیے ایسی شے کی غمخواری جس کا غم جاں گداز ہو حقیقتاً ممکن نہیں۔ شمع کی جاں گدازی کو ختم کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ شمع کو بجھادیا جائے لیکن اس طرح شمع کی موت ہوجائے گی اس لیے کہ شمع کی زندگی اپنی شمعیّت (روشن رہنے) کی وجہ سے ہے۔ اسے گل کردینے سے یہ شمعیّت ختم ہوجائے گی یعنی شمع کی موت واقع ہوجائے گی۔ اس طرح دونوںصورتوں میں شمع کی موت یقینی ہے۔ پہلی صورت میں جلتے جلتے ختم ہونا اس کا فنا ہونا ہے اور دوسری صورت میں اِس فنا کے سلسلے کو روک دینا دراصل اسے (شمع کو) مار ڈالنا ہے۔

غالب نے اپنے ایک شعر میں، جسے اوپر نقل کیا جاچکا ہے، اپنے ہر لفظ کو گنجینۂ معنی کا طلسم کہا تھا سو اس شعر میں بھی ہر لفظ معنی سے معمور ہے۔ اس کی مثال لفظ غمخواری ہے جس نے شعر کے مفہوم کو متحرک کردیا ہے۔

غمخواری کا مطلب ہے کسی کے غم میں شرکت کرنا یعنی اسے اپنا لینا۔ اس طرح اہلِ بزم کا شمع کی غمخواری کرنا خود بھی جاں گدازی کے مرحلے سے گزرنا ہے۔ چونکہ شمع کی جاں گدازی اس کے روشن ہونے کی بنا پر ہے اور شمع کا روشن ہونا بزم کے وجود یعنی اہلِ بزم کا موجب ہے۔ اگر شمع کے غم کی جاں گدازی ختم کردی جائے تو بزم باقی نہیں رہے گی اور اگر شمع کی غمخواری کی جائے تو اہلِ بزم خود اس کا شکار ہوجائیں گے اور اس طرح بھی بزم کا باقی رہنا مشکل ہے۔ یعنی جس المیہ نظام سے شمع دوچار ہے اسی نظام میں اہلِ بزم بھی مبتلا ہیں۔ اس لیے نہ صرف شمع بلکہ اہلِ بزم اور بزم کے تمام لوازم فنا کا شکار ہیں۔ اس طرح غالب کا یہ شعر اس پورے نظامِ کائنات کو ظاہر کرتا ہے جہاں ہر شے فنا میں مبتلا ہے۔

فنا اور بے ثباتی کا یہ المیہ نظام تئیسویں صدی بلکہ تیسرے ہزارے کے بعد بھی قائم رہے گا اور غالب اس وقت بھی بامعنی رہیں گے۔ غالب کو بامعنی بتانے میں میں بہت دور تک چلا گیا۔ چھوڑیے اتنے آگے کے زمانے کو۔ اس شعر میں جاں گدازی اور غمخواری کے الفاظ کو بالکل تازہ مفہوم تک لاتے ہیں۔ غالب کے اس شعر کی شمع وقت اورزمانہ بدل کر کوئی پینتالیس دن سے جاں سوزی اور جاں گدازی کے عالم میں ہے۔ اس شمع کی طرف آپ کا ذہن منتقل ہوا؟ اگر نہیں تو ہم بتاتے ہیں۔ یہ شمع ہری بھری وادیوں کے فانوس میں روشن ہے اور اس کی لَو کی نیلاہٹ روز بہ روز کم ہورہی ہے۔ ہم سب اس شمع کے غمخوار ہیں۔ اس شمع کی جاں سوزی ایک شب کی نہیں بلکہ ہزاروں شبوں کی ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہم اس کے غم میں شریک ہوتے ہیں تو موجودہ صورتحال ایسی ہے کہ ہمیں بھی جاں گدازی کے مرحلے سے گزرنا پڑے گا بلکہ ہماری جاں گدازی شمع کی جاں گدازی سے زیادہ بڑھ جائے گی۔ دوسری طرف وہ لوگ جو شمع کی جاں گدازی کو ختم یعنی اس کے دکھ کو دور کرنے کے بہانے اسے بجھادینے کے درپے ہیں، وہ شمع کو اس کی شمعیّت یعنی اس کی شناخت سے محروم کردینا چاہتے ہیں۔ یہ کھلے ہوئے اشارے آپ نے یقینا سمجھ لیے ہوں گے۔ تو دیکھیے انیسویں صدی میں کہا ہوا شعر اکیسویں صدی کے دوسرے دہے کی تازہ ترین صورتحال پر کس طرح منطبق ہوتا ہے۔

وجود و عدم کے مسائل فارسی میں بیدل اور اردو میں غالب کے یہاں سب سے زیادہ بیان کئے گئے ہیں۔ وجود کی بوالعجبیوں اور نیرنگیوں کی تفسیریں ہر عہد میں کی جاتی رہی ہیں۔ چنانچہ بیسویں صدی کے ربعِ ثالث میں فرانسیسی مفکر ژاں پال سارتر نے اپنی دانست میں وجود کی نئی تفسیر اس مشہور فقرے کے ذریعے کی: ”آزادی ہی انسان کی قید ہے۔“ ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ سارتر کے اس وجودی فقرے کے معنی کیا ہیں۔ ابھی ہم اس فقرے پر غور کرہی رہے تھے کہ ہماری نگاہ غالب کے اس شعر پر ٹھہری:

کشاکش ہائے ہستی سے کرے کیا سعیِ آزادی

ہوئی زنجیر موجِ آب کو فرصت روانی کی

یہ شعر پڑھ کر ہمیں معاً یہ محسوس ہوا جیسے ہم نے سارتر کے اس کلیدی فقرے کے مفہوم کو سمجھ لیا ہو۔ اب شعر کا مفہوم ملاحظہ کیجیے:

یہ دنیا سمندر ہے۔ ہم اس میں ایک موج کی مانند ہیں۔ جس طرح موج کو سمندر میں ہمیشہ بہتے رہنا ہے یعنی کشاکش سے گزرتے رہنا ہے اور جس طرح اب کنارہ اس کے مقدر میں نہیں ہے اسی طرح ہمیں بھی دنیا کی کشاکش سے آزادی نہیں مل سکتی ہے درحالیکہ ہم آزاد ہیں۔ جس طرح روانی کی فرصت موج کے لیے زنجیر بن گئی ہے اسی طرح اس دنیا میں آزادی ہمارے لیے زنجیر بن گئی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ اپنے زمانے میں کہے ہوئے شعر کے ذریعے غالب نے بیسویں صدی کے سب سے نمایاں فلسفی کے وجودی فقرے کو کتنی آسانی سے سمجھا دیا۔ اب اگر ہم فرانسیسیوں سے کہیں کہ وجود کی اس نوع کی تفسیر میں زمانی فضیلت غالب کو حاصل ہے تو کیا انہیں آسانی سے یقین آئے گا۔

انسانی ذہن میں جس دن سے ذکاوت پیدا ہوئی ہے، اسی دن سے کائنات کے اسباب و علل کو سمجھنے کی کوشش شروع ہوگئی ہے۔ غالب کے یہاں ان اسباب و علل کو سمجھنے کی سعی جگہ جگہ موجود ہے۔ یہ شعر ملاحظہ کیجیے:

شوق اُس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو کہ جہاں

جادہ غیر از نگہہِ دیدۂ تصویر نہیں

اس شعر میں غالب نے جادہ کو غیر از نگہہِ دیدہ تصویر کہہ کر مفہوم کو بالکل منفرد کردیا ہے۔ تصویر اگر سامنے دیکھتی ہے تو اس کی نگاہ جدھر سے بھی دیکھیے اپنی طرف معلوم ہوتی ہے۔ اگر یہ تصویر کسی اور رخ کو دیکھ رہی ہے تو اس رخ کی طرف کھسکتے جائیے، نگاہ بھی کھسکتی جائے گی۔ تصویر کی نگاہ کسی نہ کسی طرف جاتی ہوئی معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقتاً کسی بھی طرف نہیں جاتی۔ یہی حال دشت کا ہے جہاں راستہ مسدود نہ ہونے کی وجہ سے جس طرف دیکھیے راہ کھلی ہوئی نظر آتی ہے یعنی ہر طرف جادہ نظر آتا ہے مگر جادہ کہیں نہیں ہے۔

یعنی میں اس دشت میں دوڑ رہا ہوں جہاں راستے کا تعین بھی نہیں ہے اور جہاں مجھ سے پہلے کسی اور شخص کا گزر نہیں ہوا ہے، اگر مجھ سے پہلے کوئی شخص گزرا ہوتا تو یہاں جادہ ضرور بن جاتا اس لیے کہ جادہ انسان کے قدموں ہی سے بنتا ہے۔

اب اس جادے سے خالی دشت میں دوڑنے کے دو مفہوم ہیں۔ ایک یہ کہ میں شوق کے ہاتھوں سعیِ رائیگاں میں مبتلا ہوں اور دوسرے یہ کہ اس شوق نے مجھے سرگرمِ عمل کردیا کہ جہاں جادہ نہیں ہے اس دشت کو بھی چھانتا پھر رہا ہوں۔

یہ شعر ہمارے اس ذہنی اور مابعد الطبیعییاتی تجربے کو ظاہر کرتا ہے کہ ہم اس پوری کائنات کے اسباب و علل کو سمجھنے کے شوق میں مبتلا ہیں لیکن جس کا نتیجہ فقط حیرانی ہے۔ یہ مابعدالطبیعییاتی تجسس (Metaphysical curiosity) آپ کو افلاطون سے لے کر اسٹیفن ہاکنگ تک ہر جگہ نظر آئے گا۔ غالب کے ایسے شعروں کا سفر کیجیے تو ذہنی اور مابعدالطبیعییاتی مسائل سے ان کی پیکار و آویزش آئندہ زمانوں کو حیران کردینے والی ہے۔

اب چلتے ہیں ایک اور دلچسپ نکتے کی طرف۔ یہ بات کہ ”انسانی وجود اور کائنات کی پیچیدہ حقیقت کا احاطہ کرنے میں عقل ناکام ہے۔“ دنیا کے مشہور فلسفیوں پاسکل، کرکے گار، نطشے، یاسپرس، ہزرل، ہائیڈیگر اور سارتر وغیرہ میں مشترک ہے۔ لیکن اسی بات کو غالب ان فلسفیوں سے بہت پہلے اپنے بیسیوں شعروں میں بیان کرچکے ہیں۔

حیرت اور استفہام میں ڈوبے ہوئے یہ شعر تو آپ کی زبان پر فوراً آجاتے ہیں:

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

یہ اور ایسے بہت سے شعر بتاتے ہیں کہ غالب کا نابغہ زمان و مکان کے حدود و قیود سے آزاد ہے۔

 آفاقی معنویتوں میں وجودیت کا ذکر ابھی کیا جاچکا ہے۔ اب آئیے ایسی ہی کچھ اور معنویتوں کی طرف۔ یہ ہیں: اجنبیت، معدومیت اور مہملیت۔

معدومیت کی اصطلاح روس میں انیسویں صدی کے دوسرے ربع میں ایواں ترگینیو کے ناول

Fathers And Sons(1860)

کے وسیلے سے سامنے آئی۔ اس ناول کا مرکزی کردار بازاروف خود کو معدومیت پسند کہتا تھا۔ یہ ذہنی معدومیت تھی اور اس زمانے کی مخصوص حالتوں کے نتیجے میں سامنے آئی تھی۔ یہی معدومیت غالب کے یہاں بھی ہے لیکن غالب کے یہاں یہ معدومیت ذہنی بھی ہے اور روحانی بھی۔ اس معدومیت کے ضمن میں ہوسکتا ہے غالب کا یہ مشہور شعر مجھ سے پہلے آپ کے ذہن میں آگیا ہو:

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی

خود ہماری خبر نہیں آتی

سہلِ ممتنع کے سے انداز میں کہے جانے والے اس شعر کا ظاہری مفہوم تو آپ نے سمجھ ہی لیا ہوگا لیکن باطنی مفہوم میں سوال یہ ہے کہ ہم کہاں ہیں جہاں سے ہم کو ہماری خبر نہیں مل رہی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ہم عدم میں ہیں یعنی ہم نہیں ہیں۔ تو جو نہیں ہے اسے ’ہے‘ والی شے کی خبر کیونکر مل سکتی ہے۔ یعنی معدوم کو موجود کی خبر ملنا محال ہے اور موجود بھی وہ جو قیاسی، موہوم اور اعتباری ہے۔ اس کے لیے خود غالب کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے:

ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد

عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے

یا میر کا یہ شعر:

یہ توہم کا کارخانہ ہے

یاں وہی ہے جو اعتبار کیا

سارتر نے

 (Being and Nothingness)

 کے مسائل پر عالمانہ انداز میں بہت بعد میں غور کرنا شروع کیا لیکن غالب ”ہونے اور نہ ہونے“ کے معاملات کو بہت پہلے اپنے شعروں میں بیان کرچکے تھے۔

‘بیگانہ’ کے سے شہرۂ آفاق ناول کے خالق البیئر کامیو نے لغویت اور مہملیت

(Absurdity and Nihilism)

کے بارے میں بتایا ہے کہ اس کا احساس درج ذیل چار صورتوں میں ہوتا ہے:

          1۔ اس بات پر غور کرنا کہ ہمارے وجود کی غرض و غایت کیا ہے۔

          2۔ اس بات کا خاطر نشین ہوجانا کہ وقت ایک تخریبی قوت ہے۔

          3۔ اس بیگانہ دنیا میں لاکر چھوڑ دیے جانے کا احساس۔

          4۔ دوسروں سے بے تعلقی کا احساس۔

ان چاروں صورتوں کو غالب نے اپنے کلام میں بہ ہزار صورت بیان کیا ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:

جب کہ تجھ بِن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

ہرزہ ہے نغمۂ زیر و بم ہستی و عدم

لغو ہے آئینۂ فرقِ جنون و تمکیں

بیگانگیِ خلق سے بے دل نہ ہو غالب

کوئی نہیں تیرا تو مری جان خدا ہے

ان شعروں کے مفاہیم بیان کرنے میں بڑا وقت لگ جائے گا۔ شعروں کو سن کر آپ نے سمجھ لیا ہوگا کہ کامیو کی بتائی ہوئی چاروں صورتیں یہاں موجود ہیں اور بہت سے معنوی ارتعاشات کے ساتھ موجود ہیں۔

لغویت اور مہملیت کی وضاحت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان کے شدید احساس کی بنا پر انسان شدید ذہنی تنہائی

(Loneliness)

میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس تنہائی کا احساس غالب کے یہاں دیکھیے

وحشتِ آتشِ دل سے شبِ تنہائی میں

صورتِ دود رہا سایہ گریزاں مجھ سے

بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق

بیکسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں

اور ”کوئی نہ ہو“ ردیف والے وہ تین شعر تو ہم سب کی زبانوں پر ہیں جن میں غالب نے دنیا سے اپنی بے تعلقی، بے دلی اور بیزاری کا ذکر کیا ہے۔

اوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے اسے سننے کے بعد اب آپ خود فیصلہ کیجیے کہ ان دقیق، پیچیدہ اور مشکل موضوعات کے بیان میں زمانی سبقت کسے حاصل ہے۔ لیکن اسے کیا کیا جائے کہ اردو کے بعض مغرب زدہ نقاد اپنے علمی دبدبے کو ظاہر کرنے کے لیے مغربی فلسفیوں اور نقادوں کا ذکر کےے بغیر لقمہ نہیں توڑتے۔ مقامِ افسوس ہے کہ ہم اپنے خزانوں کو کھنگالنے کے بجائے دوسروں کے دفینوں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔

ہماری اب تک کی گفتگو غالب کے یہاں موجود آفاقی اور ہمہ زمانی موضوعات سے متعلق تھی۔ اب آئےے یک عہدی یعنی عصری اور انفرادی معنویتوںکی طرف لیکن اس سے پہلے کہ ہم ان معنویتوں کو ظاہر کریں، آپ کو بتادیں کہ غالب کے شعروں میں چونکہ زمانی اور مقامی تعین ہے ہی نہیں اس لیے اگر ان کے یہاں کوئی عصری یا مقامی موضوع ہوتا بھی ہے تو معنویت اس کی ہمہ زمانی ہوجاتی ہے۔ اب اسی شعر کو دیکھیے:

گلشن میں بندوبست برنگِ دگر ہے آج

قمری کا طوق حلقۂ بیرونِ در ہے آج

قیاس کہتا ہے کہ غالب نے یہ شعر مغلیہ سلطنت کے زوال پر کہا ہوگا لیکن اکیسویں صدی کے دوسرے دہے میں یہ شعر پڑھیے تو ایسا لگتا ہے کہ غالب نے حال ہی کے ایک واقعے (5 اگست 2020) کو نگاہ میں رکھ کر یہ شعر کہا ہے۔ خیر پہلے شعر کے مرکزی مفہوم پر نظر کیجیے۔ اس مرکزی مفہوم تک حلقۂ بیرونِ در کی تشریح کے بغیر نہیں پہنچا جاسکتا۔ قمری کا طوق حلقۂ بیرونِ در کا استعارہ ہے۔ حلقۂ بیرون در دروازے کے باہر کی زنجیر کا حلقہ ہے جسے کھٹکھٹاکر آمد کی اطلاع دی جاتی ہے اور داخلے کی اجازت طلب کی جاتی ہے۔

حلقۂ  بیرونِ در مکان سے بظاہر غیر متعلق ہونے کے باوجود متعلق ہوتا ہے۔ یعنی مکان میں داخل ہونے کے لیے پہلا وسیلہ ہی حلقہ  بیرونِ در ہے۔ یہ حلقہ قمری اور باغ کے درمیان قدرِ مشترک ہے۔ قمری کے گلے کا حلقہ باغ کے اندر ہوتا ہے یعنی وہ باغ کا لازمہ ہے اور وہ حلقہ جو دستک دینے کے کام آتا ہے، باغ کے باہر ہوتا ہے۔ لیکن نئے بندوبست میں یہ دونوں حلقے ایک ہوگئے ہیں۔ یعنی پہلے قمری باغ کے اندر تھی اور اب (نئے بندوبست میں) باغ کے باہر ہے۔

یہاں قمری کے طوق کو باغ میں رہنے یا باغ پر متصرف ہونے کی علامت بنادیا گیا ہے۔

دوسری طرف قمری کا طوق یعنی حلقۂ بیرونِ در بیک وقت آزادی، محرومی اور زوال کا مفہوم بھی ادا کرتا ہے۔ آزادی یہ کہ قمری جو عشقِ گل میں گرفتار تھی اب باغ سے باہر گو آزاد ہے مگر اس کی محرومی اور زوال یہ ہے کہ وہ باغ کا معزز اور ممتاز پرندہ اور عاشقِ گل تھی لیکن باغ سے باہر ہونے کی وجہ سے ایک طرف وہ عشقِ گل سے محروم ہوگئی اور دوسری طرف وہ اپنے اعزاز و امتیاز سے۔

اب محرومی اور زوال کے مفہوم کو سامنے رکھیے تو یہ شعر اس خطے کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں کے رہنے والوں کو حال ہی میں ان کی روایتی سہولتوں سے محروم کردیا گیا ہے۔ اور اگر آزادی کے مفہوم کو ملحوظ رکھیے تو شعر کی علامتی جہت یہ ہوگی کہ دوسروں کے زیرِانتظام آجانے کے بعد اگرچہ وہاں کے باشندے صوبائی امور کی تمام الجھنوں سے آزاد ہوجائیں گے لیکن یہ آزادی غلامی سے بدتر اور غلامی ہی کی ایک شکل ہوگی۔

درج بالا سطور میں ہم نے بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے اوائل کے اِن مشترک مسائل کا ذکر کیا تھا:

 ‘بنیادپرستی اور مذہب زدگی، قومی وقار و افتخار کی نئی تعریفوں کا وضع کیا جانا، مذہب شناسی کے نام پر منافرت کو ہوا دیا جانا، وفاداریوں پر سوالیہ نشان کا قائم کیا جانا، تاریخ اور ثقافت کی نئی تعبیر کے لیے تعلیم کو ایک مخصوص نظریے کا ترجمان بنایا جانا نیز انفرادی اور اجتماعی تشدد وغیرہ۔’

پچھلے پچاس ساٹھ برس کی تاریخ کے ورق الٹیے تو حکومتوں کی تخصیص و تفریق کے بغیر ایک مخصوص طبقہ ان مسائل کا شکار ہوتا رہا ہے۔ اب غالب کے اس شعر میں اس مخصوص طبقے کی فریاد سنیے:

خزاں کیا فصلِ گل کہتے ہیں کس کو کوئی موسم ہو

وہی ہم ہیں قفس ہے اور ماتم بال و پر کا ہے

عام طور پر بال و پر کا ماتم فصلِ گل میں ہوتا ہے لیکن غالب نے خزاں کو شامل کرکے مفہوم میں ندرت پیدا کردی ہے۔ فصلِ گل میں اڑنے کی خواہش زیادہ ہوتی ہے اسی لیے بال و پر کے نہ ہونے کا ماتم اسی فصل میں کیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں تو اسیری بلکہ دائمی اسیری ہے اس لیے ہم خزاں میں بھی وہی ماتم کررہے ہیں۔ یعنی زمانے کے سرد و گرم ہمارے لیے ایک سے ہیں۔

علامتی مفہوم یہ ہے کہ نظامِ حکومت کوئی بھی ہو محرومی اور ستم آزاری ہمارا مقدر ہے۔ اور ’ہمارا‘ سے مراد ایک مخصوص طبقہ ہے۔

یہاں تک آتے آتے منتخب مثالوں کے ذریعے ہم نے غالب کے یہاں قریب قریب ان تمام موضوعوں اور معنویتوں کا احاطہ کرلیا ہے جن کی ابتداً ہم نے درجہ بندی کی تھی۔

میں نے اپنے کسی مضمون میں لکھا ہے کہ جو منظم ادبی اور سماجی فلسفے ظہور میں آتے ہیں وہ غیر منظم شکل میں ہمارے بڑے فنکاروں کی تخلیقوں میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ تو غالب کے ساتھ ہم ایک ایسے ہی ادبی نظریے کی طرف چلتے ہیں جو بیسویں صدی کے اواخر میں باہر سے ہمارے یہاں لایا گیا اور ایک انوکھے ادبی نظریے کے طور پر اس کا خوب گُن گایا گیا۔

ژاک دریدا کا نام کوئی پینتیس چھتیس برس پہلے میں نے لکھنؤ کی برٹش کاؤنسل لائبریری میں بیٹھ کر اخبار ’گارجین‘ میں پڑھا تھا۔ اس وقت تک دریدا اردو میں پوری طرح نمودار نہیں ہوئے تھے۔ ’گارجین‘ نے دریدا کو پورا ایک صفحہ اس لیے دیا تھا کہ اس وقت کیمبرج یونیورسٹی کی انتظامیہ میں دریدا کی اعزازی رکنیت کے معاملے میں تنازعہ چھڑا ہوا تھا۔ دریدا پر ’گارجین‘ نے

Text Detective

 (مُفتّشِ متن) کے نام سے ایک مضمون شائع کیا تھا اور اسے اپنے عہد کا نابغہ قرار دیا تھا۔ اس وقت اس مضمون میں

Deconstruction

کا لفظ میری سمجھ میں نہ آیا اور سچ پوچھیے تو ابھی بھی میں اسے براہِ راست سمجھنے سے قاصر ہوں۔ بس اردو کے بعض بہت دانا اور زیرک نقادوں کے ذریعے جو کچھ میں نے سمجھا ہے وہ یہ کہ متن کو جتنی بار کھنگالیے، الٹیے، برہم کیجیے، جتنی بار اس کے وقفوں، درزوں اور جھروکوں میں جھانکیے ہر بار اس کے اندر نئے معنی بلکہ اصل معنی کے برعکس معنی نکلتے ہیں۔ کچھ دیر پہلے ہم نے سارتر کی وجودیت کی اصل کو غالب کے یہاں ڈھونڈ نکالا تھا۔ اب اس شعر میں دریدائی طریقۂ کار کو منکشف ہوتا ہوا دیکھیے۔ یہ بھی بتادیں کہ غالب کی تعبیروں میں اس طریقے کو سب سے پہلے طباطبائی نے رسمی طور پر اور نیرمسعود نے باقاعدہ اختیار کیا۔ شعر یہ ہے:

غم کھانے میں بودا دلِ ناکام بہت ہے

یہ رنج کہ کم ہے مئے گلفام بہت ہے

یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ متحرک معنویت غالب کے اشعار کی بنیادی خصوصیت ہے۔ اس شعر میں بھی غالب نے مفہوم کو متحرک کردیا ہے۔ دیکھیے کیسے۔

چونکہ دل غم کھانے میں بہت بودا ہے اس لیے شراب کی ضرورت ہے۔ لیکن جتنا غم ہے اس کے بقدر شراب نہیں ہے۔ مقابلتاً شراب کی اس کمی کے احساس کی وجہ سے رنج میں اور اضافہ ہورہا ہے اور رنج میں اس اضافے کے ساتھ شراب کی کمی اور زیادہ محسوس ہورہی ہے۔ اس طرح رنج برابر بڑھتا جارہا ہے اور شراب کی مقدار اس کے تناسب سے کم ہوتی جارہی ہے۔ اب متن کو برہم کیجیے تو متخالف

(Paradoxical)

 معنی بھی سامنے آئیں گے۔  یعنی یہاں حوصلہ بھی ہے اور عدمِ حوصلہ بھی۔ عدمِ حوصلہ یہ کہ غم کھانے میں دلِ ناکام بہت کمزور ہے اور حوصلہ یہ کہ مئے گلفام بہت کم ہے، اسے بقدرِ ظرف یعنی میرے غم کے مطابق ہونا چاہیے تھا۔

آپ نے دیکھا کہ متن کو برہم کرنے کے بعد شعر میں برعکس اور متخالف معنی موجود نظر آنے لگے اور یہ معنی اس لیے نظر آنے لگے کہ غالب نے تخالف اور تقلیب کی منطق ہی سے اس شعر کی تخلیق کی ہے۔

دریدا یہی تو کہتا ہے کہ متن جو دکھاتا ہے، بتاتا اس کے برعکس ہے۔ یہی بات غالب نے عملاً اپنے شعروں کے ذریعے بتادی۔ غالب کے یہاں دریدا کے نکتے کی وضاحت میں ہم نے بظاہر سامنے کا ایک سادہ شعر لیا ہے لیکن غالب کے مشکل اور پیچیدہ شعروں کی طرف جائیے تو متن کے اندر سے معنی کو منکشف کرنے کا دریدائی مطالبہ ہر طرح سے پورا ہوتا ہوا نظر آئے گا۔

اگر میں شعروں کی تشریح کے ذریعے اکیسویں صدی میں غالب کی معنویت کو روشن کرنا شروع کروں گا تو یہ مقالہ پھیلتا چلا جائے گا سو اس حرف دراز خامے کو گرفت میں رکھتے ہوئے آپ کو اپنے اس احساس میں شریک کرنا چاہتا ہوں کہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ہم بہت سنگین اور جاں سوز مراحل سے گزر رہے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم اور تقسیم کے المیے کے بعد ہم میر کی پناہ میں چلے گئے تھے۔ موجودہ صدی کے دوسرے دہے کے لیے ہمیں غالب کی طرف دیکھنا پڑرہا ہے۔ جو کچھ اس دہائی میں یا اس سے پہلے ہوا اس کا ذکر ہم سطور بالا میں کرچکے ہیں۔ یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بعض زمانی مسائل کو نگاہ میں رکھ کر شعر نقل کرکے ان کی معنویتیں بتادی جائیں۔

محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے

کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا

ایک مخصوص طبقے کی وفاداری پر سوالیہ نشان اٹھائے جانے پر اس طبقے کا ردِّ عمل۔

 آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے

کل تلک تیرا بھی دل مہر و وفا کا باب تھا

ایک حکمراں کا حکومت قائم کرتے وقت سب کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھنے کا وعدہ کرنا اور اس پر عمل نہ کرنا۔

کام اس سے آپڑا ہے کہ جس کا جہان میں

لیوے نہ کوئی نام ستمگر کہے بغیر

 ‘جنت نظیر’ خطے میں بہ حالتِ مجبوری نظریاتی سطح پر ایک دوسرے کی ضد سمجھی جانے والی جماعتوں کی یکجائی کے وقت کی بے بسی۔

باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر

ہر گلِ تر ایک چشمِ خوں فشاں ہوجائے گا

معنویت اپنے ہی باغ سے نکالے جانے والے کو اسی باغ میں سبزباغ دکھا کر لے جانے پر اصرار کے وقت نکالے جانے والے کا ردِّعمل۔

 ہر چند سبک دست ہوئے بت شکنی میں

ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور

معنویت اُن طاقتوں کے سامنے شدید اور مسلسل مزاحمت جن کا زور کسی طرح کم ہوتا ہوا نظر نہےں آتا۔

 روز اس شہر میں اک حکم نیا ہوتا ہے

کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا ہوتا ہے

 ایک مخصوص طبقے کے لیے منفی مقاصد کو نگاہ میں رکھ کر نافذ کیے جانے والے احکام۔

شعروں کے مقابل ان کی عصری معنویتیں رکھ دینے کے بعد عرض کرتا چلوں کہ ایسا میں نے اپنے موضوع کی مجبوری کی بنا پر کیا ہے ورنہ اپنے طریقۂ کار کے مطابق میں شعروں کو اکہرے مفاہیم میں نہیں باندھتا۔ نقل کیے ہوئے شعر اپنے معنوی امکانات کی وجہ سے متعدد موضوعات پر منطبق ہوسکتے ہیں۔

آخراً جو کچھ کہتے آئے ہیں اس کے ماحصل کے لیے یہ دو جوہر دار شعر اور ملاحظہ کرلیجیے:

کمالِ گرمیِ سعیِ تلاشِ دید نہ پوچھ

برنگِ خار مرے آئینے سے جوہر کھینچ

عرض کیجیے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں

کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا

پہلا شعر:

 کمالِ گرمیِ سعیِ تلاشِ دید نہ پوچھ

برنگِ خار مرے آئینے سے جوہر کھینچ

آئینہ اپنے جوہر کے ذریعے اشیا کو منعکس کرتا ہے۔ یعنی آئینے سے یہ جوہر نکل جانے سے اشیا کا انعکاس نہیں ہوسکتا۔

اشیا کا بہت زیادہ انعکاس آئینے کو حیرانی یعنی اذیت میں مبتلا کردیتا ہے۔ جس طرح (جسم سے) کانٹا نکل جانے کے بعد تکلیف ختم ہوجاتی ہے اسی طرح آئینے سے اس کا جوہر نکل جانے سے مشاہدے کی اذیت ختم ہوجاتی ہے۔

غالب نے اس شعر میں ایک ایسے شخص (سمجھ لیجےے کہ خود غالب) کی صورتحال کو پیش کیا ہے جو زیادہ سے زیادہ اشیا کا مشاہدہ کرنا چاہتا ہے اور چونکہ یہ مشاہدہ اس کے لیے تکلیف دہ بھی ہے اس لیے وہ چاہتا ہے کہ تکلیف ختم ہوجائے۔ بتادیں کہ غالب کے یہاں مشاہدے کی یہ اذیت ہرجگہ موجود ہے۔ کمالِ گرمیِ سعیِ تلاشِ دید دراصل مشاہدے کی وہ بے پناہی ہے جو انسان کو بالآخر پراگندہ

 (confuse)

 کرد یتی ہے اور پھر وہ اس پراگندگی سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے۔

کمالِ گرمیِ سعیِ تلاشِ دید کا اطلاق، بتایا جاچکا ہے، خود غالب پر ہوتا ہے۔ ان کا مشاہدہ بے پناہ بلکہ لازمانی ہے۔ ان کی آنکھ کئی زمانوں کی فصیلوں کے اُس طرف دیکھ لیتی ہے اور جو کچھ انہیں دکھائی دیتا ہے اس کی پراگندگی کا سبب یہ ہے کہ جو انہیں دکھائی دے رہا ہے وہ دوسروں کو کیوں نہیں دکھائی دیتا۔

دوسرا شعر:

عرض کیجیے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں

کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا

اس شعر کے مصرعہ اولیٰ میں لفظ ’کہاں‘ پر غور کیجیے:

وحشت کو بروئے کار لانے کی جگہ صحرا ہے اور صحرا میری وحشت کے تصور ہی سے جل گیا۔ تو اب (اس عالمِ امکان میں) کون سی جگہ ہے جہاں میں اپنی وحشت کو لے جاکر سماؤں یعنی جس کی گرمیِ فکر کا یہ عالم ہو کہ وہ عملِ تصور ہی میں صحرا (کائنات) کو جلادے اسے موجودات میں ہر شے ناقص اور نامکمل نظر آئے گی اور یہ ظرفِ کائنات ایسی فکر کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

اور یہ ظرفِ کائنات جس فکر کا متحمل نہیں ہوسکتا وہ دراصل غالب کی فکر ہے۔  ان کے دائرۂ  دانش میں ناموجود مکانوں اور غیر مرئی زمانوں کی ایسی ایسی نیرنگیاں اور بوالعجبیاں ہیں کہ ان کی معنی کشائی کے لیے غالب کی سی ہی دیدہ وری کی ضرورت ہے۔

اپنی گفتگو کے قطعی اور آخری مرحلے تک آتے آتے ہم نے معانی سے بھرے ہوئے غالب کے ذہن کی وسعت، ان کے شعروں میں خلق ہوتی ہوئی دور کے زمانوں کی دنیاوں، ان دنیاوں کے طلسم اور ان کی حیرت آوری کو بہ حدِّ بساط نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ ذیل میں یہ دیکھ لیجیے کہ آئندہ یعنی اکیسویں صدی اور اس سے آگے کے زمانوں میں کیا ہوگا اور ہم غالب کے آئینۂ کلام میں اس کی تمثالیں کس طرح دیکھ سکیں گے۔

          1۔ ازلی اور آفاقی معنویتیں ایک سی تھیں، ایک سی ہیں اور دنیا کے فنا ہونے تک ایک سی رہیں گی۔

          2۔ کائنات اور ماورائے کائنات کا استفہام و تجسس اسی طرح قائم رہے گا۔

          جبلتوں 3۔

(instincts)

سے آزادی حاصل کرنا انسان کے اختیار میں نہیں تاوقتیکہ ہمارے گوشت پوست والے جسم کو

Robotic

 نہ بنادیا جائے۔ سو اِن جبلتوں کا اظہار آئندہ زمانوں میں بھی اسی طرح ہوتا رہے گا۔

4۔ نئی روشنی انسانی ذہن کو منور کرتی رہے گی۔ نئے فلسفے اور نظریے وجود میں آتے رہیں گے اور پرانے فلسفوں اور نظریوں سے بھی رہنمائی حاصل کی جاتی رہے گی۔

5۔ کمپیوٹر نے اگر ہمارے دل اور دماغ کو اپنے اختیار میں نہیں لیا تو ہم اپنے بنیادی جذبوں، حسن، عشق اورغم سے محروم نہیں ہوں گے۔

6۔ دو سو برس بعد بفرضِ محال سارے نظاموں کو ضم کرکے ایک عالمی نظام قائم کردیا جائے تب بھی مابینِ حدود و نفوس پیکار و آویزش کا سلسلہ قائم رہے گا کہ یہ انسان کی جبلت میں شامل ہے۔

          7۔ جب تک جسم جسم کی صورت میں قائم رہے گا اور روح قفسِ عنصری سے پرواز نہیں کرے گی، جہانِ باطن کے اسرار ہمیں پریشان کرتے رہیں گے۔

اورجب تک آئندہ زمانوں میں یہ سب ہوتا رہے گا غالب ہمارے آگے آگے چلتے رہیں گے اور کہتے رہیں گے:

شمع ہوں لیکن بہ پا در رفتہ خارِ جستجو

مدعا گم کردہ ہر سو ہر طرف جلتا ہوں میں

۔۔۔۔۔۔۔۔

m

English Hindi Urdu