اردو، فارسی کے مستند و معروف شاعر مرزا اسد اللہ خاں کا 225واں یوم ولادت پورے ملک میں بڑے خلوص و محبت سے منایاگیا۔ اس موقع غالب سے منسوب ادارے غالب انسٹی ٹیوٹ کے اراکین نے مزار غالب پر حاضر ہو کر گل پوشی و فاتحہ خوانی کے فرائض انجام دیے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر نے تمام عملے کے ساتھ مزار غالب پر حاضری دی اور غالب کو خراج عقیدت پیش کیا۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے اپنے پیغام میں کہا کہ غالب اردو شاعری کی سب سے بڑی شناخت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کی وجہ سے ہمارا ادبی سرمایہ ثروت مند ہوا اور ہم عالمی پیمانے پر اپنے ادب کو سرخ روئی کے ساتھ پیش کرنے کے قابل ہوئے۔ میری خواہش ہے کہ نئی نسل غالب کا نام صرف فیشن کے طور پر نہ لے بلکہ اس کے اصل جوہر سے بھی واقف ہو۔ اس موقع پر غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر نے کہا کہ میں گذشتہ 35 سال سے مزار غالب پر حاضر ہوتا رہا ہوں۔ میں نے مزار غالب کو خستہ حالت میں بھی دیکھا ہے اور اس کو واگزار کرانے کی مہم میں بھی شریک رہا ہوں۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ آج مزار غالب پوری شان و شوکت کے ساتھ موجود ہے۔ غالب ہمارے ملک کی وراثت ہیں ان کا نام پوری دنیا میں عزت و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ انھوں نے نظم و نثر میں جو سرمایہ اپنی یادگار چھوڑا ہے اس کی اشاعت کے ساتھ ہمارا یہ بھی فریضہ ہے کہ ہم ان کی یادگاروں کی حفاظت کریں۔ اردو سے محبت کرنے والے اگر یہاں آتے رہیں گے تو یہ وراثت یوں ہی باقی رہے گی۔ اس موقع پر غالب اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد اور بزرگ شاعر جناب متین امروہوی بھی موجود تھے۔
99