Print Friendly, PDF & Email

میرزا غالب کا کلام اردوو فارسی 

حافظ محمودشیرانی

         (مضمون ہذا رسالہ ‘غالب’، امرتسر کے جون 27، 1919 کے شمارے میں چھپا تھااور اپنے انداز تحریر کے لحاظ سے حافظ صاحب کے تمام مضامین میں انفرادی حیثیت رکھتاہے۔  وہ اپنے تحقیقی اور تنقیدی مضامین نہایت سادہ و سلیس نثر میں لکھا کرتے تھے لیکن یہ مضمون نثر رنگین میں ہے۔  ایسا معلوم ہوتاہے کہ ’غالب‘ کے مدیر کے تقاضوں کے تحت کیے گئے وعدے سے عہدہ براہونے کے لیے لکھاگیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں گیرائی ہے، گہرائی نہیں۔ اسی مضمون میں ایک جگہ ذریعۂ تعلیم کے متعلق اپنی رائے کا اظہار بدیں الفاظ کیاہے:

”راقم اس گروہ سے تعلق رکھتاہے جس کا اعتقاد ہے کہ انسان کے لیے اپنے اظہار خیالات کا سب سے بہتر ذریعہ صرف اس کی اپنی مادری زبان ہوسکتی ہے۔ نیز یہ کہ اکتسابی زبان میں خواہ وہ کتناہی کمال کیوں نہ حاصل کرلے،  وہ بے تکلفی اور لطافت پیدا نہیں کرسکتاجو اپنی زبان میں کرسکتاہے۔”  

حافظ محمود شیرانی صاحب کایہ مضمون ان کے ’مقالات شیرانی‘ جلد سوم میں شامل ہے۔)

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یادش بخیر میرزا غالب! جب یہ مغنی آتش نفس، غزل سرا ہوکر اپنے ترانوں سے بزم تماشا کو درہم برہم کرتاہے،  ا سکے موسیقا رسے دو قسم کے نغمے نکل کر ناخن زن دل و جگر ہوتے ہیں۔  پہلا مرحوم کا فارسی کلام جس نے آتش کدے کے زیرسایہ پرورش پائی ہے۔ دوسرا  اردو جو  بت خانے کی بہار آفریں آب و ہوا میں ہوش سنبھالتا ہے۔ اس لحاظ سے جہاں ایک طرف میرزا بت کدے میں جاکر پرستاران سومنات کو سرود برہمنی سناتے رہے، دوسری طرف مغوں کے حلقے میں داخل ہوکر قبلہ زردشت کے سامنے جبین سائی کرتے رہے۔ کمر میں زنار باندھی، گلے میں بت پہنا اور لباس برہمن میں کیش زردشتی کو تازہ فرماتے رہے

میرزاکایہ میکدہ بے خروش، یعنی ان کی بید خوانی و ژندخوانی، اگر دیکھا جائے تو حقیقت میں ’جنّت نگاہ و فردوس گوش‘ ہے، کیوں کہ جو نالہ ان کے شور نفس نے موزوں کیا، آرائش چاک گریباں کی دعوت دیتاہے اور جو نغمہ ان کے پردہ ساز سے نکلا، چشم مشتاق تماشا کے لیے ’دامان باغبان و کف گل فروش‘ ہے۔ ان کے ہم نوا معاصرین نے جب کہ ان کے زردشتی زمزموں کے آگے سرتسلیم خم کیا، ان کے ریختہ کو وقف تاراج بے التفاتی چھوڑا بلکہ بعض حریفوں نے تو صاف صاف کہہ دیا:

مگر ان کا لکھا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے

خود میرزا کی روش اپنے ریختہ کے ساتھ بے مہرانہ ہے۔فرماتے ہیں:

نیست نقصان یک دو جزو  است از سواد ریختہ

کان دژم برگی ز نخلستان فرہنگ منست

فارسی بین تا بہ بینی نقش ہای رنگ رنگ

بگذر از مجموعۂ اردو۱ کہ بیرنگ منست

        لیکن فی زمانناان کی شہرت کو بال پرواز دینے والاان کا یہی اردو کلام ہے۔ اس کا مطالعہ ایک فیشن بن گیاہے۔ ملک کے بہترین دماغ اس کی تشریح میں سرگرم کارہیں۔ آئے دن رسالوں میں اس پر تبصرے ہوتے رہتے ہیں۔ شرحیں لکھی جاتی ہیں اور ہرسال ایک نہ ایک جدید شرح اضافہ ہوتی رہتی ہے۔اگریہی حالت رہی تو وہ دن دور نہیں جب ’غالبیات‘ ہمارے ادب کی ایک اہم اور گراں قدر شاخ بن جائے گی۔

        آخر یہی اردو دیوان جو خود مصنف کی رائے میں متاع قابل عرض نہ تھا اور ان کے ’نخلستان فرہنگ‘ کا ایک ’دژم برگ‘ تھا، آج ہماری نگاہ میں کیوں سرمہ بخش چشم قبول ہوا۔ اس کے جواب توبہت سے ہیں لیکن میں اپنے مضمون کے محتصر ظرف کو مدنظر رکھ کر صرف ایک جواب پر اکتفاکرتاہوں۔ وہ یہ ہے کہ ہم میں قدرتاً شوق دریافت کا مادہ موجود ہے اور غالب نے میرزا بیدل کی طرز کو اردو کے قالب میں منتقل کردینے سے ہماری اشتیاق انگیزی کی رگ کو جنبش دے کر ہمیں اپنا مسخر کرلیاہے۔ یہ ایک حقیقت مسلمّہ ہے کہ میرزا ہر میدان میں اپنی شان یک رنگی کو برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ میرا رنگ کسی سے نہ ملے اور میں سب سے مختلف نظر آوں۔ان ایام میں جو روش خاص اردو میں چمن طراز دامان قبول تھی، ان کو ایک آنکھ منظور نہ تھی۔ طبیعت تھی دشوار پسند، اس کی مناسبت سے مرزابیدل کی طرز کو رواج دیااو ربزم رنگ و بو میں اندازنو بروے کار لائے۔ فارسی زبان میں یہ استعداد موجود ہے کہ جب ایک مدعا ایک لفظ کے ذریعے سے منتقل نہیں ہوسکتا،دو لفظوں کے ترکیب دینے سے آسانی کے ساتھ ادا کیا جاسکتاہے اور ترکیبوں کے ذریعے مختلف مقاصداور جدید خیالات بلاکسی دقت کے ظاہر کےے جاسکتے ہیں۔ بایں ہمہ دیکھا جاتاہے کہ بیدل کے باد تندو تلخ کے لےے فارسی زبان کا ظرف ایک شیشۂ شکستہ سے زیادہ درخور وقعت نہیں اور ان کے کاوش جگر کی مخلوق یعنی اصنام خیالی، شہر بند الفاظ کے زندانی بننا نہیں چاہتے۔۔۔! شمیم گل جس طرح ریاحین کے ساغر تنک ظرف سے ابل پڑتی ہے، یہی حالت اردو کے میدان میں مرزا غالب کے ساتھ گذری ہے؛  انہیں اپنے خیالات کو الفاظ کا جامہ پہناتے وقت مجبوراً زیادہ تر فارسی تراکیب کا منت کش ہونا پڑا ہے۔ تاہم ہماری زبان اپنی تہی مائیگی کی وجہ سے ان کے عالی خیالات کا چربہ اتارنے سے قاصر رہی ہے۔ معانی اور الفاظ میں تصادم نظر آتاہے۔ کہنا کچھ چاہتے ہیں او رکہا کچھ ہے۔ ’دو اور دو‘کہہ دیےاور فرض کرلیے کہ مستمع سمجھ لے گا، چار ہوئے۔ ادراک اپنا ’دام شنیدن‘ خواہ کتناہی وسیع کیو ں نہ بچھائے لیکن ان کے ’عالم تقریر‘ کا مرغ زیرک یعنی مدعا،رشتہ برپاہونے سے گریز کرتاہے۔

        قصہ مختصر الفاظ و معانی کی اس کشمکش و کشاکش نے ایک ایسی ابتری و درہمی کا عالم پیدا کردیاہے کہ جلد باز اذہان نے جو کاوش و تلاش کے خوگر نہیں اور سہل نظری کے رفیق طریق ہیں، فتویٰ لگادیاہے کہ میرزاکا کلام مہمل ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ یہی نقائص ان کی شاعری کے سب سے زیادہ دلکش خط و خال ہیں۔ یہ انداز شاعری در حقیقت ساحری ہے او رمیرزا غالب کی کامیابی کا راز یہی ہے کہ وہ ہماری حیرت کو حرکت دیتے ہیں اور ان نامعلوم اسرار کی دریافت کے لےے، جو ان کے الفاظ کے ایوان بے در میں مقفل ہیں، ہمارے اشتیاق کو گدگداتے ہیں۔ اسی بناپر دشوار پسند طبائع، جو ذوق سعی سے لذت یاب ہیں، ان کے کلام کے گرد پروانہ وار جمع ہوکر اپنے شوق جگر کاوی اور دماغ سوزی کی رہبری میں آشناے مقصود ہوتے رہیں گے۔ ان کے فارسی کلام میں اس قسم کا عنصر قریب قریب غیر حاضرہے اور غالباً اسی لےے وہ اس قدر ہمارا عناں گیر توجہ نہیں ہے۔

        اس خامی کے باوجود جس کا ذکر اوپر آچکاہے، جب میرزا کے دونوں کلاموں کو رو در رو رکھ کر مطالعہ کیا جاتاہے تو کوئی ایسا نمایاں فرق دامن گیر نظر نہیں ہوتا۔ میرزا کا فارسی کے لےے اس قدر توغل اور اردو سے صرف نظر کوئی قابل ذکر ممتاز نتیجہ پیدا نہیں کرتے۔ ہمیں یہی محسوس ہوتاہے کہ وہی بادہ سرجوش ہے جو ایک ہی خم سے نکالا گیاہے۔ جس کی تندی و تلخی میں کوئی فرق نہیں۔ ہاں البتہ ساقی نے اس کو دو مختلف رنگین پیمانوں میں بھردیاہے۔

بادہ صاف است مپندا رکہ رنگین شدہ است

ایں ز ہمرنگی جام است کہ شد سرخ و کبود

        لیکن یہ یاد رہے کہ راقم اس گروہ سے تعلق رکھتاہے جس کا اعتقاد ہے کہ انسان کے لےے اپنے اظہار خیالات کا سب سے بہتر ذریعہ صرف اس کی اپنی مادری زبان ہوسکتی ہے۔ نیز یہ کہ اکتسابی زبان میں خواہ وہ کتناہی کمال کیوں نہ حاصل کرلے، وہ بے تکلفی اور لطافت پیدا نہیں کرسکتاجو اپنی زبان میں کرسکتاہے۔ ایرانیوں نے ہماری فارسی کو باوجود آٹھ سو سال کے انہماک اور مزاولت کے، فارسی نہیں مانا۔  ہماری انگریزی دانی کی قابلیت کا راز کسی قدر ان قصوں سے منکشف ہوسکتاہے جو وقتاً فوقتاً انگریزی جرائد میں انگریزو ں کی خوش وقتی اور تفریح کا سامان مہیا کرنے کے لیے نقل کےے جاتے ہیں۔ ہماری عمر کا نصف بہتر حصہ ضائع کرنے کے بعد ہمارے معیار تحصیل کو ’بابوانگلش‘ کے ناقابل رشک خطاب سے یاد کیا جاتاہے۔ اگر غیر قوموں کے اس خیال میں راستی کا عنصر موجود ہے اور اس کو اہل زبان کی گزاف تسلیم نہ کی جائے، تو میں اس کی روشنی میں یہ عقیدہ ظاہر کروں گا کہ میرزا غالب اگر اس التفات کا نصف حصہ بھی اردو پر صرف کرتے جو انہوں نے فارسی کے لیے مخصوص کیاتھا، تو ان کی اردو ان کی فارسی سے بلاشبہ گوے سبقت لے جاتی۔ تاہم میں اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتاکہ میرے قلب پر جو وجدانی کیفیت ان کے اردو کلام سے طاری ہوتی وہی لذت ان کے میخانے کی شراب شیراز سے حاصل نہیں ہوتی۔ یہ عقیدہ ممکن ہے کہ ملحدانہ مانا جائے اور بہ نظر امعان بے بنیاد ثابت ہولیکن میں جانتاہوں ذوق و وجدان کے معاملات میں بحث کرناایک بے سود فعل ہے۔ اس لیے اس سے اجتناب کرکے میرزاکے ایسے فارسی اور اردو اشعار جو قریب المعنی اور ہم آہنگ ہیں اور سرسری نظر میں مجھ کو بغیر دقت تلاش دستیاب ہوسکے،ذیل میں حوالہ قلم کرتا ہوں:

ہر حجابی کہ دہد روی بہ ہنگامۂ شوق

پردۂ ساز بود زمزمہ سنجان ترا

محرم نہیں ہے تو ہی نواہاے راز کا

یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا

عہد و وفا ز سوی تو نا استوار بود

بشکستی و ترا بشکستن گزند نیست

تیری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا

کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

پیش ما دوزخ جاوید بہشت است بہشت

باد آباد دیاری کہ وفا خیزد ازو

وفاداری بشرط اُستواری اصل ایماں ہے

مرے بتخانہ میں تو کعبہ میں گاڑو برہمن کو

اختلاط شبنم و خورشید تابان دیدہ ام

جراتی باید کہ عرض شوق دیدارش کنم

پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم

میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک

تاچند نشنوی تو و ما حسب حال خویش

افسانہ ہای غیر مکرر کنیم طرح

بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک

ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرمائیں گے کیا

ایمان اگر بخوف و رجا کردم استوار

اخلاص در نمود وفایم دو رو گرفت

طاعت میں تار ہے نہ مے و انگبیں کی لاگ

دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو

حق شناس صحبت بے تابی پروانہ ایم

گرچہ مشق نالہ با مرغ غزلخوان کردہ ایم

کعبہ میں جا رہا تو نہ دو طعنہ کیا کہیں

بھولا ہوں حق صحبت اہل کنشت کو

دہد بمجلسیان بادہ و بہ نوبت من

بمن نماید و در انجمن فرو ریزد

مجھ تک کب اس کی بزم میں آتا تھا دور جام

ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں

کف خاکم از مابر نخیزد جز غبار آنجا

فزون از صرصری نبود قیامت خاکسار انرا

بجز پرواز شوق ناز کیا باقی رہا ہوگا

قیامت اک ہواے تند ہے خاک شہیداں پر

در آغوش تغافل عرض یکرنگی توان دادن

تہی تا  میکنی پہلو بما بنمودۂ جارا

تغافل دوست ہوں میرا دماغ عجز عالی ہے

اگر پہلو تہی کیجے تو جا میری بھی خالی ہے

بنازم سادگی طفل است و خونریزی نمی داند

بہ گلچیدن، ہمان ذوق شمار کشتگاں دارد

ہواے سیر گل، آئینہ بے مہری قاتل

کہ انداز بخوں غلطیدن بسمل پسند آیا

بسکہ لبریز است زاندوہ تو سرتاپای من

نالہ میروید چو خار ماہی از اعضای من

پر ہوں میں شکوہ سے یوں راگ سے جیسے باجہ

اک ذرا چھیڑےے پھر دیکھےے کیا ہوتا ہے

تا حسن بہ بے پردگی جلوہ صلازد

دیدیم کہ تاری ز نقابست نظر ہم

نظارہ نے بھی کام کیا واں نقاب کا

مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی

مدتی ضبط شرر کردم بپاس غم ولی

خوں چکیدن دارد اکنون از رگ خارای من

رنگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا

جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا

تا خود از بہر نثا رکیست می میرم ز رشک

خضر و چندین کوشش و عمر دراز آوردنش

وہ زندہ ہم ہیں کہیں روشناس خلق اے خضر

نہ تم کہ چور بنے عمر جاوداں کے لےے

ننگ فرہادم بہ فرسنگ از وفا دور افگند

عشق کافر شغل جاندادن بمزدور افگنند

عشق و مزدوری عشرتگہ خسرو کیا خوب

ہم کو تسلیم نکونامی فرہاد نہیں

در آئینہ ما کہ ناساز بختیم

خط عکس طوطی بزنگار ماند

کیا بدگماں ہے مجھ سے کہ آئینہ میں مرے

طوطی کا عکس سمجھے ہے زنگار دیکھ کر

فغان کہ رحم بد آموز یار شد غالب

روا نداشت کہ بر من ستم روا دارد

نہ مارا جان کر بے جرم قاتل تیری گردن پر

رہا مانند خون بے گنہ حق آشنائی کا

با تغافل بر نیابد طاقتم لیک از ہوس

در تمنای نگاہ بی محابایم ہنوز

نگاہ بے محابا چاہتا ہوں

تغافل ہاے تمکیں آزما کیا

بنای خانہ ام ذوق خرابی داشت پنداری

کز آمد آمد سیلاب در رقص است دیوارش

مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی

ہیولا برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا

بہر کہ نوبت ساغر نمی رسد ساقی

خراب گردش چشمیست میتوان گردن

نفس موج محیط بے خودی ہے

تغافل ہاے ساقی کا گلہ کیا

تو داری دین و ایمانی بترس از دیو و نیرنگش

چو نبود توشۂ راہی چہ باک از رہزنم باشد

نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا

رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو

جنگ نکند چارۂ افسردگی دل

تعمیر باندازۂ ویرانی ما نیست

دیتے ہیں جنت حیات دہر کے بدلے

نشہ باندازۂ خمار نہیں ہے

گفتنی نیست کہ بر غالب ناکام چہ رفت

میتواں گفت کہ این بندہ خداوند نداشت

زندگی اپنی جب اس رنگ سے گزری غالب

ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے

۔۔۔۔

English Hindi Urdu