Print Friendly, PDF & Email

کلام غالب ، کچھ مسائل

شمس الرحمٰن فاروقی نے اردو کی کلاسیکی اور جدید شاعری پر جس سنجیدگی اور اور معروضی انداز میں غور کیا ہے اس سے نئے مسلمات بھی  سامنےآئے اور بہت سے ایسے مفروضات جو شہرت اور معمولی غور و فکر کے نتیجے میں کلیے کا درجہ حاصل کر چکے تھے ان کے علمی استدلال کے سامنے بے اصل ہوکرنئے مطالب و نتائج پیش کرنے لگے۔ زیر نظر مقالہ بھی اسی قسم کی ایک کڑی ہے، جس میں غالب اور ان سے منسوب کئی مشہور باتوں کی مدلل تردید کی گئی ہے۔ یہ مقالہ 6 مئی 2014 کو  غالب انسٹی ٹیوٹ میں منعقد’غالب توسیعی خطبے ‘ میں پیش کیا گیا تھا، اور’غالب نامہ ‘ جولائی 2014 کے شمارے میں پہلی مرتبہ شائع ہوا۔

شمس الرحمٰن فاروقی

کلام غالب ، کچھ مسائل

کمال احمد صدیقی کی یاد میں

غالب کو اپنی زندگی ہی میں غیر معمولی شہرت اور وقعت حاصل ہوئی۔ ابو محمد سحر نے بہت صحیح لکھا ہے کہ نہ صرف یہ کہ غالب کی زندگی میں ان کی شہرت بہت تھی، بلکہ یہ بھی کہ ان کی اسی شہرت اور وقعت نے حالی کو ’یادگار غالب‘ لکھنے کی تحریک دی۔ لیکن ان کے بارے میں یہ افسانہ اب تک مشہور ہے کہ زمانے نے غالب کی قدرنہ کی۔ اگر ان کی تصنیفات کی فہرست تیار کی جائے جو ان کے حین حیات میں شائع ہوئیں اوراس فہرت میں یہ بھی درج کیا جائے کہ کون کون سی تصنیفات کے ایک سے زیادہ ایڈیشن شائع ہوئے تو بات اور بھی صاف ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے زمانے کے مقبول ترین شاعر تھے۔  صرف اردو دیوان کو لیجئے تو اس کی اشاعت غالب کی زندگی میں حسب ذیل تاریخوں میں ہوئی:

1841

1847

1861

1862

1863

فارسی کا کلیات بھی بڑے اہتمام سے نولکشور نے چھاپا۔  خطوط اردو کی بھی ایک جلد ان کی زندگی میں آگئی۔ فارسی کی بہت ساری نثران کی زندگی میں چھپی۔ اس کے برخلاف،  مومن کا دیوان بقول نثار احمد فاروقی1846 میں نواب شیفتہ نے چھپوایا تھا اور بقول عرش گیاوی صرف دیوان فارسی حکیم احسن اللہ خان نے 1857 کے پہلے شائع کیا تھا۔  یہ دیوان عرش گیاوی ہی کے زمانے (1928) میں ناپید تھا۔ نثار احمد فاروقی نے1846  کے دیوان کو کلیات کہا  ہے اور کہا  ہے اس میں مومن ’کا بیشتر منظوم کلام ‘ شامل تھا۔  چونکہ یہ دیوان یا کلیا ت اب تک کسی نے دیکھا نہیں ہے اس لئے عرش گیاوی کی بات پر تکیہ کرتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس دیوان میں صرف فارسی کلام رہا ہو گا۔  ان کا اردودیوان بقول وقار خلیل پہلی بار1282 (مطابق 1865/1866 میں منطبع ہوا۔ عرش گیاوی نے عبد الرحمٰن آہی کے مرتب کردہ دیوان کا ذکر کیاہے۔  انھوں نے اس کی تاریخ اشاعت نہیں لکھی لیکن یہ کہا کہ اس میں اغلاط بہت ہیں۔ نثار احمد فاروقی کے بقول یہ دیوان بھی نواب شیفتہ کے اعتنا سے شائع ہوا تھا۔  مومن بہر حال 1852 میں اللہ کو پیارے ہو چکے تھے۔

ذوق کا حال اس سے بھی ابتر رہا۔ کلیات ذوق کی اول اشاعت (امراؤ مرزا  انور اور حافظ ویران کی کوششوں سے) فراق کی موت کے نو سال بعد1863 میں ہوئی۔ مگر بقو ل تنویر احمد علوی اس میں بہت سی کمیاں بھی تھیں۔محمدحسین آزاد بھی اس سے بہت ناخوش تھے،  لیکن انھوں نے جو دیوان ذوق مرتب کیا (اس کے زمانۂ ترتیب میں آزاد کی دیوانگی کے بھی کچھ برس شامل ہیں)، وہ خود ہی بہت ناقص ہے۔

ان تفصیلات کی موجودگی میں یہ خیال کرنا چاہیئے کہ غالب کی قدر و عزت ان کے زمانے میں بہت ہوئی۔ انھوں نے بندہ علی خان عرف مرزا میر کو 1864 میں  لکھا تھا کہ میں ’بہت سی عزت اور تھوڑی سی دولت‘ چاہتا ہوں۔ جتنی عزت ان کو ملی اس کے پیش نظر یہ بیان محض ہل من مزید کی ذیل میں آنا چاہیئے کہ وہ اور بھی عزت چاہتے تھے لیکن وہ ایسی عزت تھی جو نا ممکن الحصول تھی۔  مثلاً ملکۂ  برطانیہ کے یہاں سے خطاب ملک الشعرائی ملنا،لوہارو خاندان سے ان کے مرتبے کے موافق آﺅ بھگت اور داماد کی حیثیت سے مالی تعاون ملنا،  مہاراجہ بیکانیر کے یہاں سے کوئی عہدہ اور تنخواہ،یا محض انعام ملنا، دہلی کالج میں انگریز کا نوکر ہونے کے باوجود انگریز سے توقع رکھنا کہ وہ ان کے استقبال کو آئے۔ انھوں نے نوکری فوراً ہی چھوڑ دی، بلکہ قبول ہی نہ کی، یہ کہہ کر کہ میں نے نوکری اپنی افزائی عزت کے لئے قبول کی تھی نہ کہ توقیر موجودہ میں تخفیف کے لئے۔ لوہارو خاندان سے ان کے مراسم کبھی بہت خوشگوار نہ رہے۔ 23  اگست1858 کو انھوں نے علائی کو صاف صاف لکھا کہ ’میری بی بی اور بچوں کو کہ یہ تمھاری قوم کے ہیں مجھ سے لے لوکہ میں اب اس بوجھ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔  انھوں نے بشرط لوہارو جانے کے اس خواہش کو قبول کیا۔‘ لیکن ظاہر ہے غالب کے اہل و عیال کوان کی ’قوم‘ والوں نے غالب ہی کے پاس رکھنا بہتر سمجھا اور نہ ہی ان کی کچھ مالی اعانت کی۔

ان شکایتوں یا آرزؤں سے قطع نظر کیجئے تو غالب کو توقیر بہت ملی۔ بڑے بڑے انگریزوں سے ان کی رسم و راہ تھی۔  ریزیڈنٹ ولیم فریزر کو وہ دوستوں میں گنتے تھے۔ کم سے کم دو معزز انگریز انھیں اپنا استاد  گنتے تھے، اوردہلی کے تمام ہندوستانی زعما اور بیرون دہلی کے کئی معزز خاندانوں کے علاوہ ان کے انگریز  ملاقاتی بھی بہت سے تھے۔  ذوق اور مومن کے یہاںایسی کوئی بات نہ تھی۔

یہ بات ضرور ہے کہ غالب کو جس طرح’بہت سی عزت‘ کی تمنا تھی اسی طرح انھیں یہ شکوہ بھی تھا کہ میری قدر وہ نہ ہوئی جس کا میں مستحق تھا۔  یہ بات انھوں نے عمر کے آخری برسوں میں کئی بار لکھی:

  • اپنے ایمان کی قسم میں نے اپنی نظم و نثر کی داد بہ اندازۂبایست نہیں پائی۔آپ ہی کہااورآپ ہی سمجھا‘(بنام علائی، مورخہ 13 فروری1865)۔
  • ساٹھ برس بکا نہ مدح کا صلہ ملا نہ غزل کی داد‘(بنام قدر بلگرامی، تاریخ ندارد، لیکن ’غالب کے خطوط‘ مرتبہ و مدونہ خلیق انجم میں قدر کے نام یہ غالب کا آخری خط ہے)۔
  • ہر شخص نے بہ قدر حال ایک ایک قدر داں پایا۔  غالب سوختہ اختر کو ہنر کی داد بھی نہ ملی‘ (بنام حبیب اللہ ذکا، تاریخ ندارد، لیکن ’غالب کے خطوط‘ مرتبہ و مدون خلیق انجم میں ذکا کے نام یہ غالب کا آخری خط ہے۔  اس سے پچھلے خط پر27  جنوری 1868  کی تاریخ پڑی ہوئی ہے)۔

یہاں پہلی بات تو یہ غور کرنے کی ہے کہ یہ تینوں خط غالب کے آخری زمانے کے ہیں۔ علائی کے نام خط 1865  کا ہے جب غالب بہت کمزور اور بخیال خود بوڑھے ہو چکے تھے اور اس بات سے بظاہر مایوس تھے کہ اب انھیں کچھ اور اعزاز و اکرام مل سکیں گے۔مرزا عبد الرحیم بیگ کے نام ایک طویل خط میں(اس پر تاریخ نہیں ہے لیکن ظاہر ہے وہ آخری زمانے کا ہے، کیونکہ سارے خط میں’قاطع برہان‘ پر مرزا عبد الرحیم بیگ کے اعتراضات کاجواب ہے)  اس خط میں غالب نے صاف لکھا ہے کہ اب ’اصلاح حال اور حصول مطلب سے دل مایوس ہے‘)۔ علائی کے نام اس زمانے کے خطوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوںخاندان لوہارو سے ان کی کچھ نئی نا چاقیاں بھی تھیں۔بہر حال، ان باتوں کے علاوہ،  یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ غالب کا یہ جملہ کہ میں نے ’آپ ہی کہا اور آپ ہی سمجھا‘ ، در اصل ایک مضمون شعری ہے۔  یہ مضمون سبک ہندی کے شعرا نے ایجاد کیا اور اس کے کئی پہلو  ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ میری بات کوئی سمجھتا نہیں۔  فیضی جو سبک ہندی کے اولین شعرا میں ہے، اس نے یہ مضمون بار بار باندھا ہے۔ مثال کے طور پر تین شعر ملاحظہ ہوں

عجب تر از دل فیضی نہ دیدہ ایم طلسم

کہ ہم گہر بود و ہم محیط و ہم غواص

ز من مپرس شمار رموز دل فیضی

معلماں نہ شمارندموج دریا را

یک نقطہ ز حرف عشق فیضی

در دائرہ ¿ بیاں نہ گنجد

پہلے شعر کا مضمون بالکل غالب کے اس قول کی تفصیل ہے کہ میں نے’ آپ ہی کہا اورآپ ہی سمجھا‘۔ دوسرا شعر بھی اسی مضمون کا ایک اور پہلو ہے کہ معلمان و ملایان مکتبی ہماری بات نہیں سمجھ سکتے۔ صائب بھی سبک ہندی کے ممتاز شعرا میں ہے۔  اس نے اسی مضمون کو ’شعر مرا بہ مدرسہ کہ برد؟ ‘ کا فقرہ کہہ کر ادا کیا۔لہٰذا غالب کا شکوۂ ناقدری روزگا ر و فقدان صلۂ کمال شعر بھی اسی مضمون کے تحت رکھا جانا چاہیئے۔

دوسرے مسئلے کے طور پریہاں یہ بات بھی کہہ دینا غیر مناسب نہ ہو گا کہ غالب کے کچھ مشہور ترین فارسی اشعارکو بھی یاروں نے اسی ضمن میں رکھا ہے کہ غالب کو شکوہ تھا کہ میرے زمانے میں میری قدر نہیں ہوئی۔ اشعار سن لیجئے

تا ز دیوانم کہ سر مست سخن خواہد شدن

ایں مے از قحط خریدارے کہن خواہد شدن

کوکبم را در عدم اوج قبولی بودہ است

شہرت شعرم بہ گیتی بعد من خواہد شدن

پہلی بات تو یہ کہ اکثر ماہرین غالب نے مطلع میں ’تا‘ اور ’کہ‘ کو نہیں سمجھا ہے۔ ’تا‘ یہاں در اصل ایک روز مرہ ہے، جیسے ہم لوگ کہتے ہیں ،’دیکھیں اب کیا ہوتا ہے یا ‘ بھلا اب کیا ہوگا؟  ‘ اسی طرح ’تا‘ کے معنی ہیں، ’بھلا کب‘ یا ’ بھلا دیکھیں تو سہی‘، جیسا کہ حافظ کے یہاں ہے

تا نہال دوستی کے بر دہد

حالیا رفتیم و  نخلے کاشتیم

اب رہا  ’کہ‘  کا معاملہ،  تو یہ کاف کدامیہ ہے،یعنی’کون‘۔ لہٰذا شعر کے معنی ہوئے کہ بھلا دیکھیں میرے اشعار سے کون سر مست ہوتا ہے؟ پھر خود ہی جواب دیتے ہیں کہ خریداروں کے قحط کے باعث یہ شراب پرانی ہو جائے گی۔ لہٰذا یہ مضمون شکوے کا نہیں ، یہ تعلی کا شعر ہے۔  دوسرے شعر سے یہ بات اور صاف ہو جاتی ہے کہ میرے ستارۂ  تقدیر کو ملک عدم ہی میں اوج قبول مل چکا ہے۔ لہٰذا جب میں عدم میں ہوں گاتو میرے شعر کی شہرت ہو گی۔

غز ل کا ایک دو شعر پڑھ کر چھوڑ دینے والے اصحاب نے اس غزل کا مقطع نہیں پڑھا

در تہ ہرحرف غالب چیدہ ام مےخانہ اے

تا ز دیوانم کہ سر مست سخن خواہد شدن

یعنی غالب، میں نے ہر لفظ کی تہ میں ایک میخانہ سجا رکھا ہے۔ بھلا دیکھیں تو کون میرے دیوان میں بھر ی ہوئی شراب سے سر مست ہوتا ہے؟ یہی شعر غالب نے اپنے فارسی دیوان کی تقریظ کے آخر میں درج کیا ہے ۔ لہٰذا ان اشعار میں تعلی اور ایک طرح کی چنوتی ہے ، شکوۂ  روزگار نہیں۔اگلی بات یہ کہ یہ غزل ایک طرح سے پیشین گوئی کی غزل ہے، یعنی اس میں غالب نے کہا ہے کہ اگلے زمانے میں شعر کی بری گت ہو گی اور مذاق بے حد پست ہوں گے۔ تعلی کے پانچ شعروں کے بعد غالب کہتے ہیں

ہی چہ می گویم اگر اینست وضع روز گار

دفتر اشعار باب سوختن خواہد شدن

پھر یہاں تک کہہ دیا ہے

چشم کور آئینۂ  دعویٰ بکف خواہد گرفت

دست شل مشاطۂ  زلف سخن خواہد شدن

آخری شعر میں کہتے ہیں کہ قرب قیامت کی آخری نشانی نمودار ہو گی کہ دنیا سے کفر وجود کا نام و نشان مٹ جائے گا اور ہر طرف توحید کا دور دورہ ہوگا

گرد پندار وجود از رہگذر خواہد نشست

بحر تو حید عیانے موجزن خواہد شدن

لہٰذا اس غزل کے مطلعے کی تعبیر یہ نہیں ہو سکتی کہ اس میں محزونی ہے اور شکوۂ روزگار ہے۔غالب کی قدر ان کے زمانے میں نہیں ہوئی، یہ ایک مفروضہ ہے جس سے ہم لوگ اب تک آزاد نہیں ہو سکے ہیں۔

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ غالب کے قریبی لوگوں نے، اور بعد کے لوگوں نے بھی مزید زور شور سے یہ بات کہی کہ غالب نے آخری زمانے میں میر کا انداز اختیار کیا، کیونکہ انھیں احساس تھا کہ میرا گذشتہ رنگ مقبول نہیں ہو سکتا۔ ہماری ادبی تاریخ میں اکثر مشہور باتوں کی طرح یہ بات بھی بالکل جھوٹی ہے۔ اول تو خودغالب نے کہیں نہیں کہا یا لکھا کہ اب میں شیوۂ میر اختیار کرتا ہوں۔ انھوں نے اپنے خطوط میں اپنے شعر کے بارے میں بہت سی باتیں کہی ہیں اور بعض باتوں پر بہت زور بھی دیاہے۔لیکن ان میں کہیں سے یہ متبادر نہیں ہوتا کہ میں نے اب شیوۂ  میر اختیار کر لیا ہے۔دوسری بات یہ کہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ غالب نے پچیس سا ل کی عمر تک جو کہا اس کا بڑا حصہ انھیں غزلوں پر مشتمل ہے جن کی بنا پر ہم میں سے اکثر لوگ غالب کو اردو کا سب سے بڑا شاعر ماننے پر مصر ہیں۔  اس نکتے کی طرف سب سے پہلے مالک رام مرحوم نے اشارہ کیا تھا۔  غالب کا یہ بیان سراسر غلط ہے کہ انھوں پچیس سال کی عمر تک کہے ہوئے دیوان کو یکسر چاک کر دیا۔ عبدالر زاق شاکر کے نام ان کے خط کا یہ فقرہ مشہور زمانہ ہے اور تمام مشہور زمانہ باتوں کی طرح وہ بھی بالکل جھوٹ ہے۔ غالب نے لکھا:’پندرہ برس کی عمر سے پچیس برس کی عمر تک مضامین خیالی لکھا کیا۔دس برس میں بڑا دیوان جمع ہو گیا۔ آخرجب تمیز آئی تو اس دیوان کو دور کیا۔  اوراق یک قلم چاک کئے۔ دس پندرہ شعر واسطے نمونے کے دیوان حال میں رہنے دیئے۔                                                                                

دس پندرہ شعر کہاں،  غالب کا تقریباًسارا دیوان پچیس برس کی عمرتک تصنیف ہو چکا تھا۔ متداول دیوان کا بہت بڑا حصہ غیر متداول دیوان میں موجود ہے غالب نے فارسی میں زیادہ لکھا،  اردو میں کم۔ پچیس سے پچاس برس کی عمر تک انھوں نے کم و بیش صرف فارسی لکھی۔  اس کے بعد جب انھوں نے اردو گوئی دوبارہ اختیار کی تو بھی ان کی رفتار بہت کم رہی۔ انھوں نے کوئی 1847  سے اردو میں بھی خط لکھنے شروع کئے۔ بہت جلد ہی اردو خطوط کی رفتار اور تعداد بہت ہو گئی۔ان مراسلات کو دیکھیں تو غالب بار بار اس بات کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ مدتوں سے ہندی میں کچھ نہیں کہا، یا اکا دکا غزل ہوئی بھی تو و ہ یاد نہ رہ گئی۔ غالب نے ہمیشہ خود کو اولاًفارسی کا شاعر سمجھا۔4  جنوری1859 کو انھوں نے شیو نرائن آرام کو تقریباً بگڑ کر لکھا، ’میرا یہ منصب ہے کہ مجھ پر اردو کی فرمائش ہو؟‘وہ قطعہ بھی دیکھ لیجئے جس میں انھوں نے مجموعۂ  اردو کو ’بے رنگ‘ ، یعنی محض ’خاکہ‘ یا انگریزی اصطلاح میں Drawingکہا تھا اور فارسی کو ’نقش ہاے رنگ رنگ ‘ سے معمور کہا تھا۔چلئے وہ شعر بھی سن ہی لیجئے

فارسی بیں تا بہ بینی نقش ہاے رنگ رنگ

بگذر از مجموعۂ  اردو کہ بیرنگ من است

ان باتوں کے پیش نظر،یہ کہاں ممکن تھا کہ وہ میر کے ہزار معتقد ہونے کے باوجود میر کی طرح کے شعر کہنے کی کوشش کرتے؟ غالب اعلیٰ درجے کے خیال بند شاعر تھے۔ انھیں میر کی طرح خیال کو مجسم کرنے یا دنیا اور دنیا والوں کی باتوں کو نظم کرنے کا شوق نہ ہو سکتا تھا۔ انھوں نے میر کی زمین اور بحر میں پانچ شعروں کی ایک غزل جو عالم نوجوانی میں لکھی تھی اسی کو پڑھ لیجئے، سب حا ل عیاں ہو جائے گا۔ مطلع ہے

وحشی بن صیاد نے ہم رم خوردوں کو کیا رام کیا

رشتۂ  چاک جیب دریدہ صرف قماش دام کیا

اس غزل میں نہ میر بول رہے ہیں نہ بیدل، صرف ایک نوجوان کٹر خیال بند بول رہا ہے اور اس دعوے کے ساتھ کہ میں استاد کی مشہور غزل پر غزل کہوں لیکن اس کا رنگ بالکل نہ برتوں گا۔ لیکن نوجوان غالب پانچ ہی شعروں کے بعد پسپا ہو گیا اور استاد نے پندرہ شعر کی غزل پر بس نہ کیا، بلکہ دیوان پنجم میں نو شعر کی ایک غزل اور ٹھونک دی۔

لوگ کہتے ہیں ’ابن مریم ہوا کرے کوئی‘ اور اس انداز کی غزلیں میر کے رنگ میں ہیں۔ بھلا اس غزل کا مطلع دیکھئے

ابن مریم ہوا کرے کوئی

میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

بےشک اس شعر کی معصوم جھلاہٹ اور ضد بہت خوب ہیں۔ لیکن میر جس برہمی اور اور جس تلخی سے اسی مضمون کو ادا کرتے ہیں وہ کسی اور عالم سے ہے

خضر و مسیح سب کو جیتے ہی موت آئی

 اور اس مرض کا کوئی اب چارہ گر کہاں ہے

میر کے شعر میں دلی کے شہدوں اور رندوں کا لہجہ ہے،اس طرح کا دنیا وی لہجہ اختیار کرناخیال بندوں کا کام نہیں۔ ’ کام کیا‘ کی زمین و بحر میں غالب کا مطلع میں نے نقل کیا۔ اب اس غزل سے ایک شعر میر کا دیکھئے۔ میں نے مطلع نظر انداز کر دیا ہے کہ وہ کثرت سے نقل کیا جا چکا ہے

کام ہوئے ہیں سارے ضائع ہر ساعت کی سماجت سے

استغنا کی چوگنی ان نے جوں جوں میں ابرام کیا

یہ شعر ،ظاہر ہے کہ دیوان اول کا ہے۔اب دیوان دوم کا ایک شعر سنیے

شیوہ اپنا بے پروائی نومیدی سے ٹھہرا ہے

کچھ بھی وہ مغرور دبے تو منت ہم سو بار کریں

اب دیکھئے دونوں شعروں میں دو مختلف انسانی صورت حال بیان ہوئی ہےں اور لفظی پیچ کوئی نہیں ہے۔ یہ میر کا مخصوص رنگ ہے، غالب کے یہاں ایسا شعر کوئی نہ ملے گا۔ ملحوظ رہے کہ میں یہ نہیں کہہ رہا  ہوں کہ میر کے یہاں پیچ دار شعر نہیں ہیں۔ ہیں،  اور بہت ہیں۔لیکن یہ رنگ، کہ انسانی صورت حال کا بیان ہواور اس انداز میں، کہ ہم اس بیان میں خود کو شریک سمجھنے میں کوئی قباحت نہ محسوس کریں،یہ رنگ میر سے مخصوص ہے۔ قائم، مصحفی، جرا ت، کوئی بھی اس میں میرکے برابر نہیں۔لہٰذا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ غالب نے آخرآخر میں میر کا رنگ اختیار کیا۔ اگر مزید ثبوت درکار ہوتو غیر متداول کلام سے یہ اشعار دیکھئے

سمجھاﺅ اسے یہ وضع چھوڑے

جو چاہے کرے پہ دل نہ توڑے

نذر مژہ کر دل و جگر کو

چیرے ہی سے جائیں گے یہ پھوڑے

یہ اشعار 1816  کے دیوان کے ہیں۔ اب1821  کے دیوان سے یہ شعر بھی دیکھ لیں

دوستو مجھ ستم رسیدہ سے

دشمنی ہے وصال کا مذکور

زندگانی پہ اعتماد غلط

ہے کہاں قیصر اور کہاں فغفور

کیجے جوں اشک اور قطرہ زنی

اے اسد ہے ہنوز دلی دور

’قطرہ زنی‘ میں تھوڑی سی باریکی ہے، کیوں کہ اس کے معنی ہیں’خوب تیز چلنا یا دوڑنا‘، ورنہ یہ پانچ شعر ایسے ہیں کہ اگر کوئی ثابت کردے کہ غالب نے انھیں بڑھاپے میں کہا تھا تو  ’آخری زمانے میں رنگ میر‘  کا نظریہ رکھنے والوں کی چاندی ہو جائے۔

ہم دیکھ سکتے ہیں کہ غالب کا متداول پڑھنے کے دوران ہم بار بار ان کے غیر متداول کلام کی طرف رخ پھیرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔لیکن افسوس یہ کہ غیر متداول کلام پرابھی ویسی توجہ نہیں ہوئی جس کا وہ مستحق تھا۔غالب کے متداول دیوان کی شہرت کی ایک وجہ مولاناحالی کی دونوں کتابیں ’یاد گار غالب‘ اور ’مقدمۂ شعر و شاعری‘ ہیں۔ اول الذکر کے بارے میں ڈاکٹر حفیظ سید نے جل بھن کر لکھا تھا  (و ہ مومن کے پرستا رتھے) کہ:’غالب کی نظم و نثر صرف نظم و نثر تھی۔ مگر اس کی اہمیت و خصوصیت اس وقت معلوم ہوئی جب حالی نے ’یاد گار غالب‘ لکھ کر اسے عالم آشکارا کر دیا۔ ‘ اس میں تھوڑا سا مبالغہ ہے، لیکن بات پتے کی ہے۔ ’مقدمہ‘کے بارے میں مدتوں ہوئی میں نے لکھا تھا کہ حالی نے’اصلیت‘ کی جو تعریف کی ہے اس کی رو سے غالب صاف بچ جاتے ہیں کیونکہ حالی کی رو سے’ اصلیت‘ کے ایک معنی یہ ہیں کہ ہر وہ چیز جو ’شاعر کے عندیے میں ہو‘۔  لہٰذا اب یہ جھگڑا ہی نہ رہا کہ غالب کے پیچیدہ اور خیال بندی پر مبنی اشعار میں ’اصلیت‘ ہے کہ نہیں، کیونکہ وہ چیزیں شاعر کے عندیے میں ہیں، وہ ’اصلیت‘ پر مبنی ہیں ، در حقیقت ان میں ’اصلیت‘ ہو یا نہ ہو۔

دوسری طرف ’،سادگی‘ پر مرنے والے حالی یہ بھی کرتے ہیں کہ غالب کے پیچید ہ اور کثیر المعنی شعروں کی تعبیر و تفسیر کرتے نہیں تھکتے ۔ درحقیقت غالب فہمی کے نئے انداز کی بنیاد انھیں نے رکھی۔

غیر متداول کلام کے بارے میں اولاًلوگوں کو وہی معلوم تھا جو عبد الرزاق شاکر کے نام غالب کے خط میں ہے اور جس کا اقتباس میں اوپر نقل کر چکا ہوں۔ پھردیوان غالب کی اول اشاعت 1841 کا دیباچہ جس میں انھوں نے لکھا:

ہمانا نگارندۂ  این نامہ را آں در سر است کہ پس از انتخاب دیوان ریختہ بہ گرد آوردن سرمایۂ  دیوان فارسی بر خیزدو باستفاضۂ  کمال ایں فریور فن پس زانوے خویشتن نشیند امید کہ سخن سرایان سخنوراں ستاے پراگندہ ابیاتے راکہ خارج از ایں اوراق یابند از آثار تراوش رگ کلک ایں نامہ سیاہ را نہ شناسند و چامہ گرد آور را در ستائش و نکوہش آں اشعار ممنون و ماخوذ نہ سگالند۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ غالب نے کثیر تعداد میںاپنے اشعار کو خود مسترد کیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ ان اشعار کے اچھے برے کا ذمہ دار مجھے نہ ٹھہرا یا جائے۔اس بیان کی روشنی میں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غالب کے غیر متداول دیوان کو کیا نام دیا جائے؟ بظاہر تو یہی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے ’مسترد ‘ کہا جائے۔لیکن اس لفظ میں ایک طرح کی بیزاری اور کراہیت کا احساس ہوتا ہے، گویا وہ کلام کوئی سڑی گلی شے تھا جسے خارج از دیوان قرار دیا گیا، یا آج کی اخباری زبان میں ’رد‘کر دیا گیا۔

میں خود اسی باعث لفظ ’مسترد‘ کے حق میں نہیں ہوں۔ اس میں ایک اشتباہ یہ بھی ہے کہ یہ دیوان کس نے ’مسترد‘ کیا؟ جاننے والے جانتے ہیں کہ غالب نے مسترد کیا، لیکن عام لوگ پوری طرح اس بات کو نہیں سمجھتے۔ وہ خیال کریں گے کہ یہ غالب کے کلام کا کوڑا کچرا ہے اور اس کی کوئی اہمیت نہیں۔لہٰذا یہ اصطلاح خود مسترد کرنے کے لائق ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں(خاص کر ہماری مشہور غیر ملکی ماہر غالبیات پروفیسر فرینسس پریچٹFrances Pritchett) کہ اس دیوان کو ’غیر مطبوعہ‘ کہا جانا چاہیئے اور یہ فرض کرنا چاہیئے کہ دیوان کی اشاعت کے وقت (1841) یہ دیوان غالب کی دسترس میں نہ تھا، لہٰذا وہ اسے شامل دیوا ن نہ کر سکے۔ لیکن غالب کے مندرجہ بالا اقتباس سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ دسترس وغیرہ کا کوئی مسئلہ نہ تھا، کیونکہ انھوں نے صاف لکھ ہی دیا تھا کہ وہ سب کلام جو اس دیوان کے باہر ہے، میرا نہ سمجھا جائے اور اس کے اچھے برے کا ذمہ دار مجھے نہ ٹھہرایا جائے۔دوسری بات یہ کہ بالفرض اگر وہ کلام غالب کی دسترس میں اس وقت نہ تھا تو اس کے بعد یہی دیوان مزیدچار بار چھپا۔ اگر غالب اس کلام کو قائم رکھنا چاہتے تو 1841سے لے کر1863  تک بائیس سال کی مدت اس گم گشتہ کلام کو ڈھونڈنے اور شامل دیوان کر نے کے لئے بہت تھی۔

لیکن یہاں ایک بات اور بھی ہے۔ غالب نے اس دیباچے میں صاف لکھ دیا تھا کہ میں اس ’فریور فن‘ (یعنی فارسی دیوان) کو عام کرنے کے بعد چپ چاپ بیٹھ جاﺅں گا  (پس زانوے خویشتن نشیند)  اور مزید کچھ نہ کہوں گا۔  غالب کا فارسی دیوان ’مے خانۂ  آرزو سر انجام‘ 1835  میں تیار ہو چکا تھا اور مولانا غلام رسول مہر کے خیال میں یہ 1838  کے قریب چھپ بھی چکا تھا۔ لیکن ایسے کسی دیوان کا سراغ اب تک نہ مل سکا ہے۔ کاظم علی خان کہتے ہیں کہ فارسی دیوان کی اول اشاعت 1845 میں دہلی سے ہوئی۔ یہ بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کیونکہ 1841  کے دیباچے میں وہ کہہ چکے ہیں اب میں فارسی دیوان کی اشاعت کی فکر کروں گا اور اس کے بعد گوشۂ  تنہائی میں چپ چاپ بیٹھ جاﺅں گا۔

لیکن یہ بھی ہے کہ 1841، یا1845  کے بعد بھی غالب نے فارسی میں بہت کچھ کہا ۔ اور1850 کے بعد انھوں نے اردو میں بھی کچھ نہ کچھ کہا۔ لہٰذا ان کا یہ اعلان، کہ فارسی دیوان کی اشاعت کے بعد میں چپ بیٹھ جاﺅں گا، محض شاعرانہ مبالغہ معلوم ہوتا ہے۔  ایسی صورت میں ان کے اس بیان کو بھی شاعرانہ مبالغہ کیوں نہ کہا جائے کہ زیر نظر اردو دیوان کے باہر جو بھی ہے وہ میرا نہیں ہے؟ اغلب یہ ہے کہ اس اعلان سے ان کی مراد یہ تھی کہ بہت سے اشعار اور غزلیں عوام میں غالب کے کلام کے نام سے مشہور ہونے لگی تھیں اور غالب یہاں ان اشعارسے براءت کا اعلان کر رہے ہیں۔

گیان چند مرحوم نے ’قلم زد کلام‘ کی اصطلاح بنائی ہے جو بہت مناسب معلوم ہوتی ہے ۔  اس میں یہ خوبی بھی ہے کہ اس میں فیصلہ جاتی عنصر نہیں ہے جو ’غیر مطبوعہ‘ یا ’مسترد‘ میں ہے۔ لیکن ’قلم زد‘ سے یہ بھی دھوکا ہوتا ہے کہ اس کلام کو شاید کسی اور شخص نے قلم زد کر دیاہو۔ یاپھر غالب نے قلم زد کر کے انھیں ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا تھا۔یا پھر یہ کلام ’قلم زد‘ تو ہے، لیکن مکمل دیوان کے کسی نسخے میں موجود ہے۔ یعنی غالب نے اس پر خط تنسیخ پھیر دیا تھا۔

ان حقائق کے پیش نظر یہی سب سے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اس دیوان کو غیر متداول کہا جائے۔  مالک رام صاحب بھی ’غیر متداول دیوان‘ ہی کہتے تھے۔ اور یوں بھی یہ غیر متداول ہی ہے۔ اور نسخۂ عرشی کے دوسرے ایڈیشن (1982) کے سوا اس کا کوئی جدید ایڈیشن موجود نہیں ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے، ہماری یونیورسٹیوں نے اس کلام یا اس کے کسی حصے کو درس میں شامل نہیں کیاہے۔ میرا خیال ہے ہمارے اکثر پروفیسر صاحبان نے اس کا کوئی شعر نہ پڑھا ہوگا، الا وہ شعر جو بہت مشہور ہے

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب

ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

غیر متداول دیوان کی پہلی شرح’مکمل شرح دیوان غالب‘ کے نام سے مولانا آسی نے1931  میں شائع کی۔ لیکن عنوان میں ’مکمل‘ لفظ کے باوجود یہ مکمل نہیں ہے۔ سب سے پہلی مکمل شرح مولانا  ضامن کنتوری نے1834  میں لکھی، لیکن وہ مدت مدید تک شائع نہ ہو سکی۔اب یہ اشرف رفیع کی کوششوں سے 2012  میں شائع ہوئی ہے۔  ضامن کنتوری نے مکمل کلام کو ایک ساتھ رکھ دیا، یعنی متداول اور غیر متداول کو ملا دیا، پھر شرح لکھی۔    آخری اور سب سے بہتر شرح گیان چند مرحوم نے لکھی جو 1971  میں جموں کشمیرکلچرل ایڈمی سے شائع ہوئی۔ گیان چند نے بتایا ہے کہ شیر علی خاں سرخوش نے ’عنقاے معانی‘ کے نام سے متداول دیوان کی شرح دو جلدوں میں لکھی ۔ اس میں غیر متداول دیوان (گیان چند اسے’ قلم زد کلام‘ کہتے ہیں) کے ایک سو چھیانوے( 196) اشعار کی بھی شرح ہے۔ پھر وجاہت علی سندیلوی نے ایک سو تراسی (183) اشعار کی شرح لکھی ہے۔

افسوس کہ میں ان دونوں شرحوں سے آشنا نہیں ہوں، لیکن ان میں غیر متداول دیوان کادس فی صدی حصہ بھی زیر بحث نہیں آیا ہے، اس لئے انھیں نظر انداز کرتا ہوں۔پروفیسر محمد مجیب نے غالب کے کچھ اشعار کا انگریزی میں ترجمہ کیاتھا جسے ساہتیہ اکیڈمی نے1969  میں چھاپا۔اس مختصر سی کتاب میں غالب کے چند غیر متداول شعروں  کا بھی ترجمہ ہے۔

متداول کلام کی کتنی شرحیں لکھی گئی ہیں اس کا میں نے شمار نہیں کیا ہے، لیکن اب تک ان کی گنتی سو تک ضرور پہنچ چکی ہوگی۔ پھر یہ بھی ہے کہ غیر متداول کلام کی ان تین شرحوں میں اگرچہ گیان چندنے کلام کے ساتھ واقعی انصاف کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن انھیں اس کلام سے کچھ زیاد ہ ہمدردی نہیں ہے۔ وہ بار بار شکایت کرتے ہیں کہ ’شعر میں محض نازک خیا لی ہے اور کچھ نہیں‘؛ یا ’نہایت تصنع آمیز ترکیب ہے‘؛ یا ’غالب ”زبان“ پر اضافت لگا  گئے ہیں،  اوریہ عروضی جبر ہے ورنہ بغیر اضافت ہی بہتر تھا ؛  یا ’محض شاعرانہ خیال ہے۔ صریر خامہ کی ایک تشبیہ پیش کرنی تھی‘؛ وغیرہ۔ دیباچے میں وہ یہاں تک کہتے ہیں:’پورے کلام میں ایک شعر بھی مہمل نہیں ہے‘ ، لیکن وہ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ :

بیشتر صورتوں میں یہ کلام محض ذہنی جمناسٹک ہے۔سرکس میں کسے ہوئے تار یا جھولے پر طرح طرح کے کرتب دکھا نا ہے۔ یہ کلام ایک صحراے لق و دق ہے جس میں روح شاعری کا نخلستان شاذ ہے(ص13)۔

ضامن کنتوری مرحوم نے جگہ جگہ شرح شعر سے ہاتھ کھینچ کر لکھ دیا ہے کہ شعر مہمل ہے۔آسی نے زیادہ تر مشکل اشعار چھوڑ دیے ہیں،یا بقول گیان چند شعر کی محض نثر کر کے چھوڑ دیا ہے۔ ایسی صورت میں ان تمام شراح سے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ صاحب، شرح لکھنے کا کسا لا کھینچنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟

خلاصہ یہ کہ ا س کلام کا حق ابھی تک کسی سے ادا نہ ہوا۔ حال میں فرینسس پریچٹFrances Pritchett)  نے چند غیر متداول اشعار کی شرح انگریزی میں لکھی ہے اورمہر فاروقی اس کلام سے منتخب پچاس غزلوں کی مکمل شرح اور ایک پوری کتاب غیر متداول کلام سے متعلق معاملات پر لکھ رہی ہیں۔ یہ کتاب بھی انگریزی میں ہوگی۔  اردو والے اس سے بآسانی استفادہ نہ کر سکیں گے۔اس کتاب میں وہ کئی مسائل سے بحث کریں گی جن پر ابھی توجہ کم ہوئی ہے۔مہر فاروقی غیر متداول دیوان کے اشعار پر ہر مہینے ’ڈان‘ کراچی میں ایک کالم بھی لکھتی ہیں۔

ایک دو باتیں اور بھی قابل غور ہیں۔ پہلی بات تو یہ غالب نے یہ انتخاب کیوں

کیا؟ یہ بات قطعی بعید از قیاس ہے کہ مرزا خانی کوتوال دہلی اور علامہ فضل حق خیرآبادی نے انھیں مجبور کیا کہ اپنے کلام سے مغلق اشعار نکال ڈالو۔ مرزا خانی صاحب تو قتیل کے شاگرد تھے اور غالب سے اس بات کی ہرگز توقع نہیں ہو سکتی کہ وہ قتیل کے کسی شاگرد کی بات مانیں گے در حالے کہ وہ قتیل ہی کو ہیچ و پوچ گردانتے تھے۔ اب رہے علامہ خیر آبادی، تو غالب ان کے معتقد اور ان کے دوست ضرور تھے۔لیکن فن شعر میں انھوں نے علامہ سے کبھی کسی قسم کا استفادہ کیاہو، یا دہلی والے ان کی شعر شناسی کے بہت قائل رہے ہوں، ان دونوں باتوں کے لئے کوئی ثبوت نہیں ہے۔آسی نے بھی لکھا ہے کہ غالب جیسا شخص مرزا خانی جیسے شخص کے ہاتھ میں اپنا کلام نہ دے سکتا تھا۔ مالک رام مرحوم نے بہت خوب لکھا ہے کہ محمد حسین آزاد نے جو مرزا خانی اور علامہ خیرآبادی کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کی رائے سے غالب نے انتخاب و رد کا کام کیا، ’یہ محض افسانہ طرازی ہے‘۔  اس کے بعد مالک رام فرماتے ہیں:

اس (افسانہ طرازی) سے مقصود سواے غالب کی نا اہلی اور کج فہمی ثابت کرنے کے اور کچھ نہیں ہے۔مولوی فضل حق فاضل دینیات اور امام معقولات تھےوہ عالم ہوں گے، انھیں شعر و سخن سے کیا واسطہ۔رہے مرزا خانی،تو وہ نظم و نثر فارسی خوب لکھتے ہوں گے، انھیں اردو سے کیا سروکار۔ اور اس پر ٹھہرے قتیل کے شاگرد!(دیباچہ ’گل رعنا‘ ص36)۔

مالک رام صاحب کہتے ہیں کہ ”گل رعنا‘کا جملہ انتخاب(چند مستثنیات سے قطع نظر)جوں کا توں متداول دیوان میں شامل ہے۔‘یہ بات پوری طرح درست نہیں ہے،کیونکہ ’گل رعنا‘ میں غیر متداول دیوان کے اشعار بھی خاصی تعداد میں ہیں۔عبد الرزاق شاکر کے نام غالب کے مراسلے سے یہ متبادر ہوتا ہے کہ متداول دیوان کے باب میں سارا فیصلہ اور انتخاب خود غالب نے کیا۔ لیکن چونکہ اس خط میں کئی باتیں بدیہی طور پر غلط ہیں، اس لئے اس کے مشمولات پر مکمل اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔لیکن بہت ممکن ہے کہ غالب ہی نے انتخاب کیا ہو۔ ’گل رعنا‘  (1828/1829) سے لے کر رامپور ی انتخاب (1866) تک غالب نے اپنے کلام نظم و نثر کے کئی انتخاب کئے،لیکن ’گل رعنا‘ کے بعد وہ سب متداول کلام ہی سے لئے گئے تھے۔

انتخاب خود غالب نے کیا، یہ بات ابھی ایک حد تک بحث طلب ہے۔ لیکن غالب نے ، یا جس نے بھی یہ انتخاب کیا، اس نے اپنے سامنے معیار کیا رکھا؟اگر یہ کہا جائے کہ انتخاب کنندہ نے مشکل اور مغلق اشعار کو چھوڑ دیا، تو مشکل یہ ہے کہ بلا مبالغہ ایک چوتھائی دیوان ایسا ہے جوجسے متداول دیوان سے کسی طرح مشکل تر نہیں کہا جا سکتا۔ پھر وہ کلام کیوں چھوڑ دیا؟مثال کے طور پر یہ شعر ملاحظہ ہوں

فکر سخن یک انشا زندانی خموشی

دود چراغ گویا زنجیر بے صدا ہے

موزونی دو عالم قربان ساز یک درد

مصراع نالۂ نے سکتہ ہزار جا ہے

یہ شعر تو ایسے ہیں کہ بیدل بھی ان پر ناز کرتے۔ کچھ شعر اور دیکھئے

خبر نگہ کو نگہ چشم کو عدو جانے

وہ جلوہ کر کہ نہ میں جانوں اور نہ تو جانے

عجز و نیاز سے تو نہ آیا وہ راہ پر

دامن کو اس کے آج حریفانہ کھینچئے

جام ہر ذرہ ہے سرشار تمنا مجھ سے

کس کا دل ہوں کہ دو عالم سے لگایا ہے مجھے

برہم ہے بزم غنچہ بیک جنبش نشاط

کاشانہ بسکہ تنگ ہے غافل ہوانہ مانگ

اسد اٹھنا قیامت قامتوں کا وقت آرائش

لباس نظم میں بالیدن مضمون عالی ہے

خوں چکاں ہے جادہ مانند رگ سودائیاں

سبزہ ¿ صحراے الفت نشتر خوں ریز ہے

باغ تجھ بن گل نرگس سے ڈراتا ہے مجھے

چاہوں گر سیر چمن آنکھ دکھاتا ہے مجھے

ترے نوکر ترے در پر اسد کو ذبح کرتے ہیں

ستم گر ناخدا ترس آشنا کش ماجرا کیا ہے

مثلاًمیں یہ بات سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں کہ

باغ پا کر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے

سایۂ  شاخ گل افعی نظر آتا ہے مجھے

جیسا کمزور مطلع تو دیوان میں ہو اور جو مطلع میں نے اوپرنقل کیا وہ نہ ہو

باغ تجھ بن گل نرگس سے ڈراتا ہے مجھے

چاہوں گر سیر چمن آنکھ دکھاتا ہے مجھے

بہر حال، یہ تین مسائل، کہ انتخاب کس نے کیا ،اور کیوں کیا، اور معیار انتخاب کیا رکھا، مہر فاروقی کی کتاب میں زیر بحث آئیں گے۔ہم سب ان کی کتاب کے منتظر رہیں گے۔

English Hindi Urdu