غالب اور بجنوری بوطیقا

انیس اشفاق

غالب اور بجنوری بوطیقا
بجنوری کو دوبارہ دریافت کرنے کے لےے میں کوئی پندرہ-سولہ برس قبل لکھے ہوئے اپنے اس مضمون کے اقتباس سے اپنی گفتگو کا آغاز کرنا چاہتا ہوں جو اردو اکادمی (دہلی) کے تنقید سیمینار میں پڑھا گیا تھا اور شمس الرحمن فاروقی کے اُن مقدمات کے جائزے پر مشتمل تھا جو انہوں نے میر و غالب کی تفہیموں سے متعلق تحریر فرمائے تھے۔ یہ مضمون میرے تنقیدی مجموعے ”بحث و تنقید“ (۹۰۰۲ئ) میں شامل ہے۔
اقتباس یہ ہے:
”لیکن قدیم و جدید شعریات کے بارے میں فاروقی کی بتائی ہوئی بعض خصوصیتیں اُن بیانات کی طرف بھی ہمارے ذہن کو منتقل کرتی ہیں جن میں قریب قریب وہی نکتے نظر آتے ہیں جنہےں فاروقی اپنی تعبیروں کا محرک بتاتے ہےں۔ مثلاً جوش اور عقیدت کے زور میں قابو سے باہر ہوتی ہوئی اپنی غیر تنقیدی نثر میں بھی بجنوری بعض بڑی اہم باتیں کہہ گئے ہےں…. (وہ) بے ربطی اور بے نظمی کے ساتھ کچھ ایسے معیار بھی قائم کرنا چاہتے ہےں جو بڑی شاعری کا حوالہ بن سکیں۔ یہ چند فقرے ملاحظہ کیجےے:
۱- شاعری انکشافِ حیات ہے۔ جس طرح زندگی اپنی نمود میں محدود نہیں، شاعری بھی اپنے اظہار میں لاتعین ہے۔
۲- تقلیلِ الفاظ بلا اختلالِ معنی اس سے زیادہ محال ہے۔ کہیں کوئی لفظ بھی ایسا نہےں جس کو پُرکن کہا جاسکے۔
۳- انسانی طلب کی انتہا تحیر ہے۔ اگر کسی فصل سے حیرت پیدا ہو تو وہ کمالِ فن ہے اور اس بات پر اصرار نہ کرنا چاہےے کہ اس کے پسِ پشت کیا ہے۔
۴- بہت سے دشوار اور غریب اشعار حل نہےں ہوتے لیکن ایک مقابل شعر فوراً مضمون کو آئینہ بنا دیتا ہے۔
اِن بیانات مےں معنی کی غیر قطعیت، الفاظ کی تقلیل، غالب کی شاعری سے مخصوص حیرت کے عنصر اور متن کے مقابل دوسرے متن کو لاکر مفہوم کو واضح کرنے کی طرف صاف اشارے کےے گئے ہےں۔“
آگے بڑھنے سے قبل یہ بتانا ضروری ہے کہ بجنوری سے قبل غالب خانہ¿ شرح میں اپنے شعروں کے صرف اوپری مفاہیم میں سانس لے رہے تھے۔ حالی بھی اس راہ میں حقِ شاگردی ادا کرنے سے عاجز رہے۔ اسی زمانے میں جدید علوم سے آگاہ اور نئی روشنی سے بہرہ یاب ایک نوجوان غالب کو وہاں دیکھ رہا تھا جہاں شارحینِ غالب کی نگاہ کا پہنچنا محال تھا۔ اُس نے غالب کے دیدہ ورانہ مطالعے میں کچھ ایسی روشنیوں کو دیکھ لیا تھا جن کی طرف کسی اور شاعر کی آنکھ کا جانا ممکن نہ تھا اور اسی لےے اس نے کتابِ غالب کو اس کتابِ نور کے پہلو میں رکھ دیا جسے ایک مخصوص مسلک کی جمعیت میں خدا کی جانب سے اتارا ہوا تصور کیا جاتا ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ اپنی زبان کے شاہکاروں کے مطالعے مےں ہم کم خوانی یا نیم خوانی تک محدود رہے ہےں۔ اور آج بھی اسی وبا کا شکار ہیں۔ اس کا مظاہرہ اکثر و بیشتر سیمیناروں میں ہوتا رہتا ہے جہاں نوواردان بلکہ جمے جمائے لوگ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنے کے لےے اس موضوع کے متن سے براہِ راست رجوع کرنے کے بجائے اس موضوع پر لکھی ہوئی تحریروں کا سہارا لے کر مضمون سازی کے ہنر کا بخوبی مظاہرہ کرتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ’محاسنِ کلامِ غالب‘ کی حمایت یا مخالفت میں قلم اٹھانے والوں نے اسے حرفاً حرفاً تو کیا ورق ورق بھی ٹھیک سے نہےں پڑھا اور بفرضِ محال پڑھا بھی تو سمجھ کر نہےں پڑھا ورنہ وہ نکتے جو خاکسار نے پندرہ برس قبل اپنے مضمون میں پیش کےے تھے، ان تک اُن کی نگاہ بہت پہلے پہنچ گئی ہوتی۔
’محاسن‘ کے بغور مطالعے کے بعد مجھے اس بات کے یقین کرلینے میں کوئی تامل نہ رہا کہ یہ مقدمہ بجنوری نے غالب پر ایک بڑی کتاب لکھنے کی خاکہ سازی کے طور پر لکھا تھا۔ اس خیال کو تقویت ملنے کے دو معروضی سبب ہیں۔ ایک یہ کہ ’محاسن‘ کو مولوی عبدالحق کی فرمائش پر دیوانِ غالب کے اعلیٰ ایڈیشن میں شامل کرنے کے لےے مقدمے کے طور پر لکھا گیا تھا۔ اس مقدمے کی تصنیف میں بجنوری نے کلامِ غالب کی معنوی تعبیر کا پہلا دروازہ اس لےے کھولا ہوگا کہ ’مقدمے‘ میں قائم کےے ہوئے نکات کے ذریعے وہ غالب کی آئندہ تعبیروں کے لےے اور دروازے کھول سکیں۔ اس خیال کو تسلیم کرلینے کا دوسرا سبب یہ ہے کہ اگر ’محاسن‘ لکھنے کے بعد ۳۳برس کی مختصر سی عمر میں بجنوری کا انتقال نہ ہوگیا ہوتا تو وہ سب اہم اور معنوی مباحث جن کی شکل سازی انہوں نے سترہ نکتوں میں کی تھی، انہےں پھیلاکر ایک بڑی کتاب کی شکل بہ آسانی دی جاسکتی تھی اور اس میں بجنوری کی آنکھ سے دیکھے جانے والے پورے غالب ہمیں دکھائی دے سکتے تھے۔
ابھی کچھ دیر پہلے درج بالا سطور میں کہا گیا ہے کہ ’محاسن‘ کے مختصر مندرجات کا مطالعہ بھی ہم نے محویت اور معروضیت کے ساتھ نہیں کیا ورنہ مجنوں گورکھپوری، شیخ محمداکرام، ابومحمدسحر اور باقر مہدی وغیرہ نے ’محاسن‘ کی تائید و تردید میں جو بیانات دیے ہیں وہ کم فہمی اور کم خوانی کا ثبوت نہ فراہم کرتے۔پروفیسر نارنگ کی مشہور زمانہ کتاب ”غالب….“ کے مندرجات کے مطابق مجنوں گورکھپوری غالب اور بجنوری پر الہام کے دوچار چھینٹے ڈال کر آگے بڑھ گئے۔
شیخ محمد اکرام بجنوری کے نقد و نظر کو ’نعرہ¿ مستانہ‘ کہہ کر مستانہ وار آگے نکل گئے۔ ابومحمد سحر محاسن کے الہامی فقرے کو سب سے زیادہ الہامی قرار دینے کے باوجود اس کی تہ تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ وہ غالب کی الہامیت اور بجنوری کے چونکادینے والے پیرائے کی تحسین تو کرتے ہےں لیکن اس تحسین کے ذریعے تعبیر کی راہداری میں داخل نہےں ہوتے۔ اور باقر مہدی ’محاسن©‘ کو تنقیدی کارنامہ قرار نہ دے کر اسی سانس میں قولِ محال والا یہ جملہ نقل کرجاتے ہےں کہ (بجنوری نے) ”غالب کی عظمت کی نشاندہی ضرور کردی تھی۔“
اگرچہ بجنوری کے یہاں بلند آہنگی، جوش اور زورِ تحریر زیادہ ہے لیکن ان سب کے سیل میں ان کی بصیرت بہنے نہےں پاتی۔ ذرا سوچےے اس زمانے میں جب شعر کو لفظوں کے اکہرے قالب میں رکھ کر سامنے کے مفاہیم پر صبر کرلیا جاتا تھا اور اسی کو حقِ تحسین کے زمرے میں شمار کیا جاتا تھا، اس وقت بجنوری کلامِ غالب کی تعبیر کے لےے اسے الگ الگ خانوں میں رکھ کر دیکھ رہے تھے اور اکہرے اور یک سطحی مفاہیم کے بجائے اسے معنی کی وسعتوں کی طرف لارہے تھے۔ کیا بجنوری سے قبل غالب کے کسی رسالہ¿ تعبیر میں اتنے کم صفحوں والے مقدمے میں ایسے مرحلہ وار طریقے سے غالب کو سمجھنے کی کوشش کی گئی اور کیا کسی اور شرح یا تعبیر میں غالب کی ذکاوت، دانش اور ظرافت کی ایسی روشنی نظر آتی ہے۔ کیا شاعری کے (معنی کے) لاتعین ہونے کی طرف بجنوری سے قبل کسی اور نے اشارہ کیا تھا۔ اور تحیر، تقلیل اور متن کے مقابل دوسرے متن کو لاکر معنی کے سمجھنے کی بات کسی اور نے کہی تھی۔ جواب ظاہر ہے نفی میں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ جوشِ بیان کی جلالت اور مقدمہ جلد مکمل کرلینے کی عجلت میں ان کے یہاں تکرار، اور اعادے کی صورت پیدا ہوگئی۔ یعنی جن سترہ ستونوں پر انہوں نے غالب کی عمارت کھڑی کی ہے ان میں سے کئی ستون کم بھی کےے جاسکتے تھے۔
اب کچھ دیر یہاں ٹھہر کر مختصراً یہ بھی سن لیجےے کہ اپنے بنائے ہوئے سترہ نکتوں کے مباحث میں انہوں نے وہ کیا دکھایا ہے جو ان سے پہلے دوسرے اس طور نہےں دکھا سکے۔ یہ نکات کچھ اس طرح ہےں:
۱- شاعری بالخصوص غالب کی شاعری میں معنی کی غیر قطعیت، تقلیل، تحیر کی اہمیت اور متحد المضمون اشعار کے ذریعے شعر کے معنی کو مزید روشن کرنا۔
۲- شاعری کی فلسفیانہ جہت۔
۳- شاعری کی ماہیت اور اس کے خلق ہونے کی صورت۔
۴- شاعری میں استعمالِ الفاظ کی منطق۔
۵- شاعری میں صنائع بدائع کی اہمیت، استعارے کی معنویت اور اس کا دائرہ¿ عمل۔
۶- شاعری اور مصوری کا رشتہ اور دونوں کی ہم رشتگی سے منفرد اور عمیق مفاہیم کا پیدا کیا جانا۔
۷- مشاہدے اور بصیرت کی اہمیت۔ سادگی کا انتہاے اشکال ہونا اور کلام کو سہلِ ممتنع کی صورت دینے کے لےے جگر کاوی کی ضرورت۔
۸- مشہور مصوروں کا حوالہ دے کر یہ بتانا کہ شاعری کا جامہ زیبِ تن کےے ہوئے غالب سر تا پا ایک فلسفی ہےں۔
۹- نظریہ¿ وحدت الوجود اور غالب کے صوفیانہ خیالات۔
۰۱- باطنی رموز اور ان کی بوالعجبیاں۔
۱۱- ذات اور کائنات سے متعلق مشہور فلسفیوں کے خیالات کی روشنی میں یقین و وہم، وحدت اور دوئی اور ہستی و عدم کے اسرار و رموز کی وضاحت۔
۲۱- انہےں فلسفیوں کے افکار کو بنیاد بناکر غالب کے ترکِ رسوم والے مسلک کو بجا ٹھہرانا۔
۳۱- ظرافت، سرمستی اور تحسینِ حسن کی گفتگو کلامِ غالب کی روشنی میں۔
۴۱- آخراً یہ سوال اٹھانا کہ کیا شاعری مصوری ہے۔
ان نکات کے علاوہ بجنوری اس پوری گفتگو میں کچھ بہت معنی خیز فقرے بھی لکھ گئے ہیں جیسے:
۱- بوطیقا کی رو سے دیوانِ غالب آپ اپنا جواب ہے۔ یعنی غالب نے اپنی بوطیقا خود تشکیل دی ہے۔
۲- محض وزن کا التزام شاعری نہےں ہے۔
۳- شاعری موسیقی ہے اور موسیقی شاعری۔
۴- غالب کی طبیعت میں رحم ہے وہ انسانی کمزوریوں پر لب آسا ہنستے نہےں بلکہ چشم آسا روتے ہےں۔
۵- مصوری اور شاعری دونوں ایک دوسرے سے بہت قریب ہےں۔ دونوں کا کام غیر موجود اشیاءکو حاضر اور واقع دکھلانا ہے۔
۶- خوب سے خوب محاورہ بلحاظِ عمرِ آخر ضعیف ہوکر بے جان ہوجاتا ہے۔
۷- جہاں نیا خیال پیدا ہوتا ہے وہاں نیا لفظ خود بخود پیدا ہوجاتا ہے۔
۸- تشبیہ یا استعارے کا پہلا کام معنی آفرینی ہے۔
درج بالا نکات اور فقرے غالب کی شاعری کی قریب قریب سب طرفوں کا احاطہ کرتے ہےں اور کہا جاچکا ہے کہ اگر اِن نکات کو وسعت دی جاتی اور ان پر عجلت کے بجائے ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کی جاتی یا اس مقدمے کے بعد فوراً ان کی وفات نہ ہوجاتی اور وہ ہر ہر نکتے کو پھیلاکر اس پر سیر حاصل گفتگو کرتے اور شعروں کے تجزیوں کو طول دیتے تو کوئی تعجب نہےں کہ اس گفتگو میں سے وہ غالب نکل کر سامنے آجاتے جن تک پہنچنے کے عمل میں ہماری تعبیر ہنوز مصروف ہے۔ یہاں وقت نہےں ہے کہ ان نکتوں پر تفصیل سے بحث کی جائے، اس تفصیل کو ہم کسی اور موقع کے لےے اٹھا رکھتے ہےں، سردست یہ سن لیجےے اور ’محاسن‘ کی ورق گردانی میں آپ نے اسے دیکھ بھی لیا ہوگا کہ اپنی تعبیر کے طریقہ¿ کار کو زیادہ منطقی اور قابلِ قبول بنانے کے لےے بجنوری نے کس طرح عملی تنقید کا سہارا لیا ہے۔ ترقی پسند تنقید سے لے کر آج تک ہم بیشتر قولِ فیصل سناکر آگے بڑھ جاتے ہیں اور دعوے کو دلیل بنانے سے عاجز رہتے ہےں۔ تنقید میں دعوے کو دلیل بنانا اس وقت تک ممکن نہےں جب تک متن کے اندر سے گزر کر ثبوت نہ سامنے لائے جائیں۔ بجنوری صرف نکتے بناکر اور اُن کی اصل کو بتاکر آگے نہےں بڑھے بلکہ انہوں نے ایسے تمام نکتوں کی وضاحت میں منتخب اور موزوں مثالیں بھی سامنے رکھی ہیں اور کہیں کہیں تو کثرت سے رکھی ہیں۔ اب یہ بات الگ ہے کہ مثالوں کی شکل میں جن شعروں کا انہوں نے عاجلانہ تجزیہ کیا ہے وہ اپنے معنی پوری طرح نہیں کھولتے کہ اشارے دے کر وہ بہت کچھ پڑھنے والے کی فہم پر چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
بجنوری نے اپنا مقدمہ ختم کرتے کرتے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا شاعری مصوری ہے اور اسی استفسار کے ذیل میں انہوں نے غالب کے ان چار شعروں کو نقل کرکے اپنے مبحث کا باب بند کردیا ہے۔ شعر یہ ہےں:
پھر اس انداز سے بہار آئی

کہ ہوئے مہر و مہ تماشائی
دیکھو اے ساکنانِ خطہ¿ خاک

اس کو کہتے ہےں عالم آرائی
کہ زمیں ہوگئی ہے سر تا سر

روکشِ سطح چرخِ مینائی
سبزہ کو جب کہےں جگہ نہ ملی

بن گیا روے آب پر کائی
ان شعروں کی تجزیاتی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہےں:
”یہ کل اشعار ایک نظارہ¿ قدرت پیش کرتے ہیں جس میں متصل اور مسلسل واقعات نہےں بلکہ صرف ایک دلفریب خاموش منظر ہے۔ عقب مےں نیلگوں افق ہے۔ آفتاب چمک رہا ہے اور قرصِ ماہتاب بھی بیتاب اور ماند موجود ہے۔
بارش نے زمین کو آئینہ یاب بنادیا ہے۔ سامنے ایک تالاب ہے۔ سبزہ کی یہ زیادتی ہے کہ سطحِ آب تک دست دراز ہے۔ اشجار گلپوش اور گلبار ہےں۔ سب سے آگے شاخِ نرگس گویا چشمِ نرگس مشغولِ تماشا ہے۔ ایک چڑیا یا تتلی تک بھی تو نہےں جو اس خاموشی میں شور یا حرکت پیدا کرے۔ غالب نے حقیقت میں ورجل کو بھی جس کی نظم ’کنارِ دیار‘ مشہور ہے، مات کردیا ہے۔“
آپ نے دیکھا بجنوری نے کس خوبی سے اس خاموشی کو پالیا جو اِن شعروں کے اندر دم سادھے بیٹھی ہے۔
نقدِ غالب میں پیش پیش رہنے والے علماے ادب نے بجنوری کے مقدمے کو تنقید سے عاری بتاکر یہ جتانے کی کوشش کی ہے کہ ’محاسن‘ محض تاثرات کا مرقع ہے جو حد سے بڑھی ہوئی غالب پرستی کے نتیجے میں سامنے آیا ہے اور یہ کہ بجنوری غالب کی واقعی معنویت کو نمایاں کرنے میں ناکام رہے ہےں۔
برایں عقل و دانش بباید گریست
بجنوری کے جو نکتے اور فقرے اوپر پیش کےے گئے ہیں کیا وہ سب غیر تنقیدی ہےں اور کیا ان میں طلسم غالب کو واکرنے کی صورتیں موجود نہےں ہیں اورکیا تجزےے کی جو صورت ابھی ابھی آپ کے سامنے آئی ہے، اس مےں اشعار کے بطن میں چھپا ہوا اسرار موجود نہےں ہے۔ ’محاسن‘ میں اتنا سب کچھ موجود ہونے کے باوجود بجنوری کو غالب شناسی کے اوّلین جادے سے ہٹادینا غالب شناسوں کا سنگین جرم ہے۔ ہماری ادبی دیانت کا تقاضا ہے کہ ہم بجنوری کو پس منظر سے پیش منظر میں لاکر ان کی واقعی اہمیت کو نمایاں کریں۔

خاتمہ’ گلِ رعنا‘ اور غالب کاسفر کلکتہ

ابو محمد سحر

خاتمہ’ گلِ رعنا‘ اور غالب کاسفر کلکتہ

غالبیات کی اکثر لاینحل گتھیاں خود غالب کے بیانات کی کوتاہیوںا ور اختلافات کے علاوہ تاریخوں کے اندراج کے سلسلے میں ان کے حیران کن روےّے کا نتیجہ ہیں۔ بیشتر تحریروں میں تاریخوں کے محذوف ہونے یا ناقص رہ جانے سے معلوم ہوتاہے کہ وہ تاریخوں کے ٹھیک ٹھیک اندراج کو کوئی خاص اہمیت نہ دیتے تھے۔ بعض تحریروں پر پہلے تاریخیں درج تھیں لیکن جب غالب نے ان کو کتابی شکل میں مرتب کیاتو تاریخیں خارج کردیں۔ جابجا یہ صورت بھی ہے کہ تاریخ اور مہینہ تو ہے لیکن سنہ غائب ہے۔ اب کوئی اللہ کا بندہ ان سے پوچھتا کہ کسی کتاب کے مندرجات میں سنہ کے بغیر صرف تاریخ اور مہینہ برقرار رکھنے کا کیا منشا تھا۔ جیساکہ راقم الحروف نے ایک اور مضمون میں لکھاہے ”تاریخوں کے معاملے میں انہوں نے ماہرین غالبیات کے ساتھ ستم ہی نہیں بلکہ ستم ظریفی بھی کی ہے، ستم اس لحاظ سے کہ تاریخ بالکل حذف کردی ہے اور ستم ظریفی اس لحاظ سے کہ دن ،تاریخ اور مہینہ لکھ کر چھوڑ دیاہے۔“کلّیاتِ نثرغالب میں دیباچہ¿ ’گل رعنا‘ سے تاریخ مطلقاً محذوف ہے تو خاتمہ¿ گلِ رعنا میں آغامیر کی مدح کی نثر کے بعد صرف ”دوم محرم الحرام“لکھا ہواہے۔ ’گلِ رعنا‘کے قلمی نسخے مملوکہ¿ خواجہ محمد حسن میں دیباچے کی پوری تاریخ درج ہے لیکن خاتمے میں آغامیرکی مدح کی نثرکے آخر میں دوم محرّم الحرام کا بھی پتانہیں۔ خاتمہ¿ ’گلِ رعنا‘میں مولوی فضل حق کے نام غالب کاایک فارسی خط بھی شامل ہے جو انہوں نے فیروزپور جھرکہ سے لکھا تھا۔ اس کی تاریخِ تحریر گلِ رعنایا ’کلّیاتِ نثر غالب‘ کے کسی نسخے میں نہیں ملتی۔ باندہ کے محمد علی خاں کے نام اپنے قیامِ باندہ ہی کے ایک خط میں غالب نے ان دونوں فارسی تحریروں کو نقل کیاہے لیکن اس میں بھی تاریخیں سرے سے مفقود ہیں۔1
معتمدالدّولہ آغامیر، وزیراودھ، کی مدح کی نثر در صعنتِ تعطیل غالب نے کلکتے جاتے ہوئے لکھنو¿ کے قیام کے زمانے میں ان سے ملاقات کے دوران پیش کرنے کے لےے لکھی تھی۔ جانبین کی شانِ ریاست اس ملاقات کی تاب نہ لاسکی لیکن نثر محفوظ رہ گئی اور غالب نے اسے’ گلِ رعنا‘کے خاتمے میں شامل کردیا۔ اگر دہلی سے غالب کی روانگی اور لکھنو میں قیام کی تاریخوں کاصحیح علم ہتاتواس نثرکا سنہ آسانی سے اخذ کیاجاسکتاتھا۔ سوءاتفاق کہ یہاں بھی واقعات تو اکثر معلوم ہیں لیکن تاریخیں گوشہ¿ گمنامی میں ہیں۔ شیخ اکرام کا قیاس ہے کہ غالب دوم محرم الحرام1242ھ (اگست1826ئ) سے پہلے دہلی سے روانہ ہوچکے تھے2۔مولانا غلام رسول مہر کے مطابق ”اغلب یہ ہے ہ وہ عید شوال 1242ھ کے بعد یعنی اپریل 1827 میں روانہ ہوئے ہوں3۔مالک رام صاحب کی رائے میں وہ نومبر دسمبر1826 (جمادی الاوّل1242ھ) میں دہلی سے روانہ ہوئے تھے۔4 ان قیاسات میں دہلی سے غالب کی روانگی کے زمانے میں جتنا اختلاف پیدا ہوتاہے اسی نسبت سے لکھنو¿ میں قیام کی مدّت میںبھی فرق رونماہوجاتاہے جس کی وجہ سے اس نثر کے لکھنے کا سنہ1242ھ (۶۲۸۱ئ) بھی ہوسکتاہے اور 1243ھ (1827ئ) بھی۔ چنانچہ شیخ محمد اکرام 1242ھ کے حق میں معلوم ہوتے ہیں تو مولانامہر کا رجحان 1243ھ کی طرف ہے۔ سیّد اکبرعلی ترمذی اور ان کی تقلید میں سیّد وزیرالحسن عابدی نے اس مسئلے کی پیچیدگیوں کو نظرانداز کرکے اس نثرکی تاریخ 2 محرم الحرام 1242ھ (5اگست1826) مان لی ہے5۔کچھ ایسی ہی صورتِ حال میں سید وزیرالحسن عابدی نے مولوی فضل حق کے نام خط کا زمانہ¿ تحریر 1825ءکے وسط میں قرار دیا ہے۔6 جیساکہ آئندہ سطور سے واضح ہوگاتاریخ وزمانہ کا تعین پہلی صورت میں صحیح اور دوسری صورت میں تقریباً صحیح ہے لیکن کچھ ایسے شواہدو دلائل کامحتاج ہے جن کی طرف اب تک خاطرخواہ توجہ نہیں کی گئی ہے۔
خاتمہ ’گلِ رعنا‘میں غالب نے لکھاہے کہ وہ نواب احمد بخش خاں سے ملاقا ت کے لےے فیروزپور جھرکہ گئے تھے چونکہ مولوی فضلِ حق کی اجازت کے بغیر سفرکرناان کی طبیعت پر بار گزراتھااس لےے ان کو بڑا دکھ ہوااور جب وہ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچے اور سفر کی تکان دور ہوئی توانہوں نے مولوی فضل حق کو صنعتِ تعطیل میں ایک خط لکھا۔فیروزپور میں ان کا مقصد حاصل نہ ہوااور وہ دہلی واپس آگئے۔ اس کے ایک عرصے کے بعد انہیں پھر سفرکا خیال دامن گیر ہوا۔ ہونا تو یہ چاہےے تھاکہ وہ کلکتے جاتے لیکن پہلے لکھنو¿ پہنچنے کااتفاق ہوا۔7 لیکن اپنی پنشن کے سلسلے میں 28 اپریل 1828 کو کلکتے میں انہوں نے جودرخواست گورنر جنرل کے دفترمیں پیش کی تھی اس میں یہ بیان کیاہے کہ ایک بارجو وہ دہلی سے فیروزپور کے لےے نکلے تو قرض خواہوں کے خوف کی وجہ سے دہلی واپس نہ جاسکے بلکہ فرّخ آباد ہوتے ہوئے کانپور پہنچے اور پھر لکھنو اور باندے میں قیام کرنے کے بعد کلکتے کا رخ کیا۔8 مالک رام صاحب خاتمہ ’گلِ رعنا‘ (کلّیاتِ نثرِ غالب) کے بیان کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

”وہ جب سفر پرروانہ ہوئے تو چونکہ روانگی سے پہلے مولوی فضل حق خیرآبادی سے وداعی ملاقات نہیں کرسکے تھے اس لےے ان سے ملنے کو واپس گئے اور پھر دوبارہ سفر پر روانہ ہوئے۔ کلّیات کابیان صحیح معلوم ہوتاہے۔ درخواست میں انہوں نے اختصار سے کام لیااور اس کاذکر مناسب خیال نہیں کیا“۔9
چونکہ خاتمہ¿ ’گل رعنا‘ میں غالب نے یہ نہیں لکھاکہ وہ مولوی فضل حق سے وداعی ملاقات کے لےے فیروزپور سے دہلی واپس آئے تھے اس لےے ڈاکٹر محمود الٰہی نے دہلی آنے کے سلسلے میں مالک رام صاحب کے بیان کردہ اس سبب کو بے بنیاد قرار دیاہے۔ انہوں نے غالب کی درخواست کی تفصیلات اورنواب احمد بخش خاں کے بعض حالات کی مناسبت سے یہ استدلال بھی کیاہے کہ خاتمہ¿ گلِ رعنامیں غالب نے فیروزپورکے جس سفرکاذکرکیاہے اس سے وہ دہلی واپس آگئے تھے لیکن اس کے بعد انہوں نے فیروزپورکاایک اور سفرکیا۔وہاں سے نواب احمد بخش خاں کے اصرار پر وہ بھرت پورگئے اور پھر فیروزپور آئے تو دہلی واپس نہیں آئے بلکہ وہیں سے کلکتے کی طرف روانہ ہوگئے10۔ لیکن خاتمہ¿ گلِ رعنامیں کلکتے کے سفر سے قبل فیروزپور کے کسی اور سفرکاذکر نہیں کیاگیا۔ باندے کے مولوی محمدعلی خاں کے نام اپنے ایک خط میں انہوں نے مولوی فضل حق کے نام اس خط کو نقل کرنے سے پہلے جوصراحت کی ہے اس سے خاتمہ¿ ’گلِ رعنا‘کی طرح صرف اتنا معلوم نہیں ہوتاکہ یہ خط انہوں نے فیروزپور سے لکھا تھابلکہ یہ بھی پتا چلتا ہے کہ فیروزپورکے جس سفرسے یہ خط متعلق ہے وہ انہوں نے ”درمبادیِ بسیج سفرِ مشرق“ یعنی سفرِ مشرق کے ارادے کے اوائل میں کیا تھا11۔چنانچہ خاتمہ¿ ’گل رعنا‘میں فیروزپورکے جس سفرکاذکر ہے اس کو سفرِ کلکتہ کے سلسلے سے الگ نہیں کیا جاسکتااور یہ ماننے کے سواچارہ نہیں کہ کلکتے جانے سے پہلے فیروزپورکایہ آخری سفر تھاجو غالب نے کیاتھا۔اس کے برعکس ڈاکٹر محمود الٰہی نے اپنے قیاس کی بنیاددرخواست کے ان بیانات پر رکھی ہے۔
”سرچارلس مٹکاف کے آنے کے بعد بھرت پورکا معاملہ پیش آگیااور وہ راجہ بھرت پورکو بچانے اور راج کے شورہ پشتوں کو سزادینے میں مصروف ہوگئے۔ نواب احمدبخش خاںبھی وہاں جارہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے بھی ساتھ چلنے کوکہا۔
میں اس زمانے میں اپنے بھائی کی بیماری کی وجہ سے ایک مصیبت میں گرفتار تھا۔مزیدبرآں قرض خواہوں نے تقاضوں اور شوروغوغا سے میرا ناک میں دم کر رکھا تھا۔ اس لےے میں اس سفرکے لےے کسی طرح تیار نہیں تھا۔
اس کے باوجود اس توقع پرکہ مجھے مٹکاف صاحب کی خدمت میں سلام کرنے کا موقع مل جائے میں نے اپنے بھائی کوبخاراور ہذیان کی حالت میں چھوڑا، چارآدمیوں کو اس کی نگہداشت کے لےے مقرر کیا۔کچھ قرض خواہوں کو طرح طرح کے وعدوں سے چپ کرایا۔دوسروں کی نظرسے چوری چھپے بھیس بدل کر کسی طرح کاسازوسامان لےے بغیر سومشکلوں سے نواب احمد بخش خاں کے ساتھ بھرت پور کے لےے روانہ ہوگیا۔“12
اگر اس وقت قرض خواہوں کی طرح مرزایوسف بھی دہلی میں تھے اور بھرت پور جانے سے پہلے ان کی تیمارداری اور قرض خواہوں کی تسلی کاانتظام غالب نے خود دہلی آکر کیاتھاتوہ نہایت عجلت میں دہلی آئے ہوں گے اور وہاں ان کے قیام کی مدت بہت مختصر رہی ہوگی۔اس سے خاتمہ¿’ گلِ رعنا‘کے ”بیخودی گریبانم گرفت و بازم بہ دہلی آورد“ اور ”روزگاری دراز بخاک نشینی سپری شد“13 یعنی واپس آنے اورپھر ایک عرصے کے بعد سفر پر روانہ ہونے کی توجیہہ نہیں ہوسکتی۔ فیروزپورسے دہلی کی وہ واپسی جس کا خاتمہ¿ گلِ رعنامیںذکر ہے بلاشبہ کسی ایسی ہنگامی واپسی سے مختلف ہے جس کا درخواست سے گمان ہوتاہے۔ چنانچہ کسی وقتی پریشانی میں غالب فیروزپورسے دہلی واپس آئے ہوں یا نہ آئے ہوں وہ بالآخر فیروزپور سے دہلی اس طرح واپس آئے کہ کلکتے جانے سے قبل پھر فیروزپور نہیں گئے اور اس لحاظ سے خاتمہ¿ ’گلِ رعنا‘کااظہار حقیقت پر مبنی ہے۔
خاتمہ¿ ’گل رعنا‘ کی عدمِ صحت پر اگر اختصارکی دلیل لائی جاسکتی ہے تو درخواست کے مفصل بیانات کی عدمِ صحت پر مقدمہ بازی کی مصلحتوں کے پیش نظر استدلال کیاجاسکتاہے۔ واقعہ یہ ہے کہ کلکتے پہنچتے ہی غالب کویہ احساس دلایا جاچکاتھاکہ ان کو اپنا مقدمہ پہلے دہلی کے رزیڈنٹ کے سامنے پیش کرنا چاہےے تھا۔رائے چھج مل کے نام کلکتے سے اپنے پہلے ہی خط میں انہوں نے یہ استفسارکیا تھا:
”اگر بندہ رادر پیچ و خمِ استغاثہ حاجت بداں افتد کہ دردارالخلافت وکیلی از جانبِ خود قرارباید داد صاحب این زحمت گوارا خواہند کردیانے۔ہرچہ دراین مادہ مضمر ِضمیر باشد بے تکلف باید نوشت۔“14
چنانچہ انہوں نے اپنی درخواست میں سب سے زیادہ زور اسی پر صرف کیاہے کہ دہلی میں ان کے لےے دوبھر ہوگیاتھااور وہ وہاں کسی کو منھ دکھانے کے قابل نہ تھے۔اسی وجہ سے وہ فیروزپور سے بالارادہ کلکتے روانہ ہونے کے بجائے سرچارلس مٹکاف سے ملاقا ت کی جستجومیں سیدھے کانپور پہنچے تھے۔ مقصد یہ تھاکہ کانپورسے ان کی معیت میں دہلی واپس آئیں گے اور کسی مناسب موقع پر ان سے اپنا احوال بیان کریں گے لیکن کانپور پہنچتے ہی وہ بیمار پڑگئے اور انہیں علاج کی غرض سے لکھنو¿ جانا پڑا۔ سوال پیدا ہوتاتھاکہ اگر وہ پہلے سے کلکتے جانے کا ارادہ نہ رکھتے تھے تو باندے سے دہلی کیوں نہ لوٹ گئے۔ اس کا جواز انہوں نے یہ پیش کیاکہ جب قرض خواہوں کے ڈراور مالی مشکلات کی وجہ سے وہ فیروزپور سے دہلی نہ جاسکے تھے تو اب باندے سے دہلی کیونکر جاسکتے تھے۔ اس کے علاوہ انہیں یہ خیال بھی آیاکہ دہلی ہویاکلکتہ، دونوں جگہ قانون توایک ہی ہے15۔گویا کلکتے جانے کا خیال انہیں باندے میں آیاتھالیکن رائے جھج مل کے نام ان کے اس خط سے جوانہوںنے لکھنو¿ سے کانپور پہنچنے کے بعدلکھاتھایہ بات بھی ثابت ہے کہ یہ ارادہ پہلے سے تھا:
”بتاریخِ بست و ششم ذیقعدہ روز جمعہ ازاں ستم آباد برآمدم و بتاریخِ بست ونہم در دارالسّرور کانپور رسیدم و اینجادوسہ مقام گزیدہ رہگرایِ باندہ میشوم در آنجا چند روز آرامیدہ۔ اگر خدا می خواہد و مرگ اماں میدہد بکلکتہ می رسم“16
غرض یہ کہ درخواست کی ساری تفصیل و تاویل کا منشاگورنر جنرل کویہ باور کراناتھاکہ دہلی میں چارہ جوئی کرناان کے لےے ممکن نہ تھااوروہ بڑی مصیبتوں اور مجبوریوں میں کلکتے پہنچے تھے تاکہ مقامی حکام کو نظرانداز کرکے ان کی درخواست قبول کرلی جائے۔ لیکن جیساکہ اندیشہ تھا 20 جون 1828 17 کوان کی درخواست پریہی حکم صادرہواکہ مقدمہ پہلے دہلی میں پیش کیا جائے۔
سرکاری پنشن کے سلسلے میں غالب کی درخواست کی ایسی باتوںکو آنکھ بند کرکے قبول نہیں کیا جاسکتاجوان کے مفادپر کسی طرح اثرانداز ہوسکتی تھیں۔ تاہم بے ضرر حالات یا ایسے واقعات کے بیان میں وہ پہلو تہی نہیںکرسکتے تھے جوانگریز حکّام کے علم میں ہوسکتے تھے۔ درخواست میںغالب کے اس قسم کے بیانات کو اگرکچھ ایسے تاریخی واقعات سے مطابق کیا جائے جن کا صحیح زمانہ معلوم ہوسکتاہے تو ان کی نقل و حرکت کے بارے میں غیر تحقیقی قیاسات کی دھند بہت کچھ چھٹ سکتی ہے۔ مثلاً غالب فیروزپور اس وقت پہنچتے تھے جب نواب احمد بخش خاں قاتلانہ حملے کے بعد بسترِ علالت سے اٹھے تھے اور ان کی الورکی مختیاری جاتی رہی تھی۔ اس کے فوراً بعد کازمانہ وہ ہے جب دہلی کے رزیڈنٹ سرڈیوڈآکٹرلونی بھرت پور پر فوج کشی کے حکم کے خلاف گورنر جنرل لارڈ ایمبرسٹ کے ردِّ عمل کی وجہ سے اپنے عہدے سے استعفادے چکے18 تھے اور ان کی وفات کے بعد ان کی جگہ 26 اگست 1825 کو سرچارلس مٹکاف کا تقرر ہوچکاتھا19۔اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ غالب اپریل1825 کے لگ بھگ فیروزپور پہنچ گئے تھے اور مولوی فضل حق کے نام صنعتِ تعطیل میں ان کا خط اسی زمانے کاہے۔یہ تعیّنِ زمانی اس خط کے مندرجہ ذیل اقتباس کے بھی عین مطابق ہے:
”امّاعمِ کامگاردروہم و ہراسِ مکرواسدِ اعداودردِ عدمِ محاصلِ سرکارِ الور وملال در آمدِ دگرہا سرگرم و سو گوار و گم کردہ¿ آرام“20
دہلی سے میرزاعلی بخش خاں کے نام دوفارسی خطوں سے معلوم ہوتاہے کہ کسی زمانے میں غالب نواب احمدبخش خاں سے ملنے کے لےے بہت بے چین تھے اورفیروزپورجانے میں اس لےے متامل تھے کہ انہیں یہ اطلاع ملی تھی کہ نواب احمد بخش خاں دہلی آنے والے تھے۔اسی بے چینی میں انہوں نے کسی میرامام علی کی معرفت نواب احمد بخش خاں کوایک عرضداشت بھی بھیجی تھی۔ نواب سے ان کو توقع نہ تھی لیکن ان کے بعض احباب کہتے تھے کہ وہ نواب سے اپنا دردِ دل نہیں بیان کرتے ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ وہ اس کاتدارک نہ کریں، اس لےے وہ کوشاں تھے تھے کہ نواب سے انہیں جواب مل جائے اور وہ ان دوستانِ ناصح کو خیرباد کہہ کر مشرق کی سمت روانہ ہوجائیں۔ پھر اس صورت میں کہ نواب کے دہلی آنے کی خبرغلط ہووہ چاہتے تھے کہ ان سے ملاقات کے لےے خود فیروزپور چلے جائیں:
”یک چندبامیدِ نواب صاحب ساختم وازتاب آتشِ انتظارگداختم نشستہ ام بعد ا بیکہ مجرم بزنداں نشیند و می بینم انچہ کافر بجہنم بیند۔ بہ فیروزپور بہر آں نیامدہ بودم کہ بازم بدہلی باید آمد۔نواب صاحب مرا بلطفِ زبانی فریفتند و بکرشمہ¿ ستمی کہ بالتفات میمانست از راہ بردند میرامام علی را با عرضداشت بخدمتِ نواب فرستادہ ام یاراں میگفتند کہ توبہ نواب نمیگرائی و دردِ دل باوی نمیگوئی ورنہ از کجاکہ نواب بچارہ برنخیزد اینہا کہ میکنم از بہرِ زباں بندی ایں اداناشناسانست۔ خدا را طرح آن افگنید کہ میرامام علی زودبرگردند و بمن پیوندند تا دوستانِ ناصح را خیرباد گویم و بسر و برگی کہ ندارم بشرق پویم۔“

”شنیدہ میشودکہ نواب بدہلی می آیند باری از صدق و کذب این خبررقم کنید من آں میخواہم کہ اگر خبرِ عزیمتِ نواب دروغ بودہ باشد خود بہ فیروز پور رسم و شرف قدمبوسِ عم عالی مقدار و مسرتِ دیدارِ شما در یابم“21
یہ حالات اور خطوط بھی اپریل 1825 کے لگ بھگ غالب کے فیروزپورجانے سے قبل کے سواکسی اور زمانے کے نہیں ہوسکتے۔ فیروزپور میں نواب احمد بخش خاں کی حالت دیکھنے کے بعد غالب کی مایوسیاں اور پختہ ہوگئی تھیں۔ چنانچہ انہوں نے مولوی فضل حق کو لکھاتھاکہ :
”او را مہر کو کہ کس را دل دہد و ہمم در اصلاحِ حال کس گمارد و مرا دلِ آسودہ¿ رام و طورِ آرام کوکہ سرِصداع آلودہ درکوہسار مالم و دل را درطمع امدادِ کار سالہا در ورطہ¿ طولِ امل دارم۔“22
لیکن معلوم ہوتاہے کہ نواب احمد بخش خاں کی باتوں سے پھر کچھ امید بندھی اور وہ ان کے کہنے پر بھرت پور روانہ ہوگئے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے بھرت پورکاسفرکیاتھا۔ ’پنج آہنگ‘ کے پہلے دو حصے یعنی آہنگِ اوّل اور آہنگِ دوم اسی سفرکے دوران لکھے گئے تھے۔ غالب نے آہنگِ اوّل کی تمہید میں لکھا ہے:
”در سالِ یکہزارودوصدوچہل و یک ہجری کہ گیتی ستانانِ انگلشیہ بھرت پور لشکر کشیدہ وہ آں روئیں دژرا درمیان گرفتہ اند من دریں یورش باجناب مستطاب عمِ عالی مقدار فخرالدولہ دلاورالملک نواب احمد بخش خاں بہادر و گرامی بردار ستودہ خوی مرزا علی بخش خاں بہادر ہم سفر ست روزانہ برفتار ہم قدیم و شبانہ بیک خیمہ فرود می آئیم۔“ 23
دہلی کے رزیڈنٹ اور راجپوتانے میں گورنرجنرل کے ایجنٹ کی حیثیت سے سرچارلس مٹکاف کا تقرر تو 26 اگست 1825 کو ہواتھالیکن دہلی میں ان کے وارد ہونے کی تاریخ 21 اکتوبر 1825 ہے۔ نومبر میں شہرکے باہران کاکیمپ لگایا گیااور انہوں نے بھرت پورکی مسافت شروع کی24۔ چنانچہ نواب احمد بخش خاں کے ساتھ غالب بھی اسی زمانے میں بھرت پور گئے ہوں گے۔ 6 دسمبر کو مٹکاف متھرا پہنچااور کمانڈر انچیف لارڈ کمبر میئرکی فوجوں سے مل گیا25۔18جنوری 1826کو ایک بڑے قتلِ عام کے بعد بھرت پورمیں انگریزوں کو ’شاندار کامیابی‘ حاصل ہوئی۔26
اس مقام پر رائے جھج مل کے نام غالب کاایک اور خط غورطلب ہے۔جیساکہ اس کے مضمون سے منکشف ہوتاہے یہ خط فتحِ بھرپور کے بعد فیروزپور سے لکھا گیاتھا۔ نواب احمد بخش خاں کی واپسی میں تاخیر ہونے کی وجہ سے غالب اس وقت بھی بڑی کشمکش اور بیچارگی میں مبتلا تھے۔ رائے جھج مل، غالب کے دیگر دوستوں کی طرح نواب احمدبخش خاں کے ہمرکاب تھے۔ لہٰذا غالب نے اپنی پریشاں خاطری کا حال لکھ کر ان سے یہ معلوم کرنا چاہاتھاکہ نواب احمد بخش خاں فیروزپور کب واپس آرہے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
”ہرچند در وطن نیم اماقربِ وطن نیز قیامت است۔ ہنوز بااہلِ کاشانہ راہِ نامہ و پیام داشت۔ ہرچہ دیدہ میشود آشوبِ چشم بود و ہرچہ شنیدہ میشود زحمتِ گوش است۔ نیم جانی کہ ازاں ورطہ بروں آوردہ ام ودیعتِ خاکِ فیروزپور است کہ مراایں ہمہ اقامتِ اضطراری اتفاق افتاد و مرگی کہ منش بہزار آرزواز خدامیخواہم مگر ہمدریں سرزمین موعوداست کہ ایں قدردرنگ درافتادگیہا روداد۔ ہرچہ از اخبارِ معاودتِ نواب شنیدہ میشود راہی بحرف مدعا ی ِمن ندارد چہ سربسر آں افسانہ نکبتِ الوریاں و آرائش صفوفِ قتال وازگوں۔ گشتن کارہاے اعداد درست آمدن فال سگالانِ دولت فخریہ است۔ کلمہ¿ مختصر یکہ نواب صاحب دراینقدر عرصہ رونق افزایِ فیروزپور خواہند گشت از کسی شنیدہ نمیشود و دلِ مضطرتسلّی نمی پذیر و دوستانیکہ در رکابِ نواب صاحب اند وازین جملہ آں مہرباں بصفتِ اسد نوازی غالب پروری بیشتراز بیشتر متّصف اند واماندگانِ تنگنائے اضطراب بسلامی یاد نمی فرمایند خدارا کرم نمایند۔ واز تعیّنِ زمانِ معاودت رقم فرمایند۔“26
اگرغالب کایہ خط فتح بھرت پور اور نواب احمد بخش خاں کے فیروزپور واپس آنے کے درمیانی زمانے کاہے تو اس سے قیاس کیا جاسکتاہے کہ غالب نواب احمد بخش خاں سے پہلے بھرت پور سے فیروزپور واپس آگئے تھے اور اس صورت میں انہیں نواب احمد بخش خاں کے فیروزپور واپس آنے کاشدت سے انتظار تھا۔
بھرت پورسے سرچارلس مٹکاف کے دہلی واپس آنے کی صحیح تاریخ کاتو علم نہیں لیکن جان ولیم کے مطابق بھرت پورمیں انتظامات مکمل کرلینے کے بعد گرم ہواو¿ں کے آغاز نے ان کو لازمی طورسے دہلی واپس آنے پر مجبور کیا۔27غالب کی درخواست کے مطابق واپسی میں وہ تین دن فیروزپور میں بھی رہے تھے۔ غالب اس وقت فیروزپورمیں تے اور چونکہ نواب احمد بخش خاں نے خلافِ وعدہ غالب کا ان سے تعارف نہیں کرایاتھااس لےے ان کے دہلی جانے کے بعد وہ نواب احمد بخش خاں سے بالکل مایوس ہوچکے تھے28۔ چنانچہ خاتمہ¿ ’گل رعنا‘کی روسے مارچ 1826 یا اس کے آس پاس غالب کا فیروزپور سے دہلی واپس آجانا یقینی ہے۔
آغامیرکی مدح کی نثرکی تاریخ کے لےے دہلی سے غالب کی روانگی سے زیادہ لکھنو¿ میں ان کے قیام کے زمانے کا تعیّن اہمیت رکھتا ہے لیکن اس سلسلے میںبھی اب تک رائے جھج مل کے نام ان کے ایک خط اور بعض قرائن سے صرف اتنا ثابت ہے کہ وہ ذیقعدہ 1242ھ (جون 1827ئ) میں لکھنو¿ میں تھے اور 26 ذیقعدہ1242ھ جو جمعہ کے دن وہاں سے روانہ ہوکر 29 ذیقعدہ1242ھ کو کانپور پہنچے تھے، نیز یہ کہ کانپور سے باندے اور پھر کلکتے جانے کاارادہ تھا29۔اس روشنی میں اگر آغامیر کی مدح کی نثرکی تاریخِ تصنیف2 محرم الحرام1242ھ فرض کی جائے تو لکھنو¿ میں ان کے قیام کا زمانہ جیساکہ شیخ محمد اکرام نے صراحت کی ہے تقریباً گیارہ ماہ ہوجاتاہے30۔مولانا غلام رسول مہرکے نزدیک یہ امر مستبعد ہے اور زیادہ قرینِ قیاس یہ ہے کہ غالب 26ذیقعدہ 1242ھ (27جون 1828ئ) کو لکھنو¿ سے جانے کے بعد آغامیرکے دربار میں باریابی کی توقع میں کانپور سے پھر لکھنو¿ واپس آئے اور انہوں نے2 محرم الحرام1243ھ (26 جولائی1827) کو یہ نثر سرانجام دی31۔مالک رام صاحب جب دہلی سے غالب کی روانگی کی تاریخ نومبر، دسمبر1826 قرار دیتے ہیں تو اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ وہ نثرکی تاریخ کے سلسلے میں مولانا مہرکے ہم خیال ہیں۔ لیکن ایک تو لکھنو¿ سے چل دینے کے بعد دوبارہ غالب کے وہاں جانے کے لےے کوئی ثبوت موجود نہیں، دوسرے رائے جھج مل کے نام ان کے جس خط کی بناپر لکھنو¿ سے ان کی روانگی کی تاریخ 26 ذیقعدہ1242ھ (27جون 1827) قرار پاتی ہے اسی میں انہوں نے آغامیرکاذکر بڑی حقارت سے کیاہے اور اشارةً ان سے شرفِ ملاقات حاصل نہ ہونے کے اس واقعے کابھی ذکرکیاہے جوان کے ساتھ پیش آیا تھا:
”خلاصہ¿ گفتگو ایں کہ اعیانِ سرکار لکھنو¿ بامن گرم جوشید ندانچہ درباب ملازمت قرار یافت خلاف آئینِ خویشتن داری وننگ شیوہ¿ خاکساری بود۔ تفصیل ایں اجمال جزبہ تقریر ادا نتواں کردہرچہ درآں بلاد از کرم پیشگی و فیض رسانیِ ایں گدا طبع سلطان صورت یعنی معتمدالدّولہ آغامیرشنیدہ مشیود بخداکہ حال برعکس است“ 32
ان حالات میں نثر پیش کرنے کے لےے ان کے دوبارہ لکھنو¿ جانے کا کوئی امکان نہیں تھا۔
درخواست کے مطابق غالب گورنر جنرل کے ورود کی خبر پھیلنے کے بعد کانپور روانہ ہوئے تھے اور جب گورنر جنرل کانپورمیں وارد ہوئے تو وہ لکھنو¿ میں صاحب فراش تھے:
”انہی دنوں نواب گورنر جنرل بہادرکے ورود کی خبر پھیلی۔ یقین تھاکہ سرچارلس مٹکاف بھی ان کی پذیرائی اور استقبال کے لےے جائیںگے۔ لہٰذامیں نے فیصلہ کیاکہ کانپور جاو¿ں اور وہاں سے ان کی معیّت میں واپس آو¿ں اور راستے میں کسی مناسب موقع پر ان کی خدمت میںحاضر ہوکر اپنی مصیبت اور بے بسی اور قرض کاسارا افسوسناک احوال ان سے کہوں اور انصاف کا طالب ہوں۔
غرض میں اس ارادے سے فرخ آباداور کانپور کی طرف روانہ ہوگیا۔ بدقسمتی سے جوں ہی کانپور پہنچا میں یہاں بیمارپڑگیا، یہاں تک کہ ہلنے جلنے کی سکت بھی جاتی رہی۔ چونکہ اس شہرمیں ڈھنگ کاکوئی معالج نہیں ملا اس لےے مجبوراً ایک کرائے کی پالکی میں گنگاپارلکھنو¿ جانا پڑا۔یہاں میں پانچ مہینے سے کچھ اوپر بستر پر پڑا رہا۔ یہیں میں نے نواب گورنر جنرل بہادرکے ورود اور بادشاہِ اودھ کے ان کے استقبال کو جانے کی خبر سنی۔ لیکن ان دونوں میں چارپائی سے اٹھنے تک کے قابل نہیں تھا۔ غرض کہ لکھنو¿ کی آب و ہوابالکل میرے راس نہیں آئی۔33
لارڈایمہرسٹ جو اس زمانے میں گورنرجنرل تھے4 اگست 1826 ءکو کلکتے سے روانہ ہوئے تھے۔ بھاگل پور، غازی پور، رام نگر، مرزاپور، الٰہ آباد اور فتح پور ہوتے ہوئے 18نومبر 1826ءکو وہ کانپور پہنچے 20 نومبر کو بادشاہِ اودھ (غازی الدین حیدر) نے ان سے ماقا ت کی۔ دوسرے دن انگریزوں نے بادشاہِ اودھ سے جوابی ملاقات کی یکم دسمبرکو یہ قافلہ لکھنو¿ پہنچااور سال کے اختتام پر برطانوی علاقعے میں واپس آگیا۔ 8 جنوری1827کو اس کاورود آگرے میں ہوا۔34 چونکہ غالب گورنر جنرل کے ورودکی خبر پھیلنے پر کانپورکی طرف روانہ ہوئے تھے اس لےے قیاس کیاجاسکتاہے کہ وہ دہلی سے جولائی 1826 میں روانہ ہوئے ہوں گے۔ لارڈ ایمہرسٹ کے کانپور پہنچنے کی تاریخ معلوم ہونے سے اس میں کوئی شبہہ نہیں رہتاکہ وہ 18 نومبر 1826 کو نہ صرف یہ کہ لکھنو¿ میں تھے بلکہ وہاں کافی پہلے سے ٹھہرے ہوئے تھے اور وہ تمام قیاسات جن میں نومبر 1826 کے بعد دہلی سے ان کی روانگیِ سفر بیان کی گئی ہے مطلقاً ردہوجاتے ہیںچونکہ وہ 26 ذیقعدہ 1242 ھ (27جون 1827) کو لکھنو¿ سے کانپور چلے گئے تھے اور ان کے دوبارہ لکھنو¿ جانے کے بارے میں کوئی اشارہ موجود نہیں اس لےے یہ بھی یقینی ہے کہ آغامیر کی مدح کی نثر انہوں نے2 محرم الحرام 1242ھ (5 اگست 1826) کو مکمل کی تھی۔
ان مباحث کا ماحصل یہ ہے کہ غالب اپریل 1825 کے لگ بھگ فیروزپور گئے تھے۔اسی زمانے میں انہوں نے مولوی فضل حق کے نام صنعتِ تعطیل میں اپنا فارسی خط لکھا۔ نومبر 1825 میں انہوں نے نواب احمد بخش خاں کے ساتھ بھرت پورکاسفرکیااورمارچ 1826 سے کچھ قبل فیروزپور آگئے بھرت پورجانے کی تیاری میں اگر وہ نہایت عجلت میں فیروزپورسے دہلی آئے تھے تو اس سے اس سفرکے سلسلے کو منقطع نہیں کیا جاسکتاجوکلکتے روانہ ہونے سے پہلے فیروزپور کا آخری سفر تھا۔ تقریباً ایک سال کے بعد غالب مارچ 1826 میں کانپور روانہ ہوئے اور جلدہی لکھنو¿ پہنچ گئے جہاں انہوں نے 2 محرم الحرام 1242ھ (5اگست 1826) کو صنعت تعطیل میں آغامیر کی مدح میں فارسی نثر سرانجام دی۔ نومبر 1826 سے جون 1827(ذیقعدہ1242ھ) تک تقریباً آٹھ ماہ وہ یقینی طورپر لکھنو¿ میں تھے۔ جس طرح انہوں نے اپنی درخواست میں مصلحةًکلکتے کے سفر سے پہلے فیروزپورسے دہلی آنے کااظہارنہیں کیااسی طرح ان کایہ بیان کہ وہ لکھنو¿ میںپانچ ماہ سے کچھ اوپر مقیم رہے کسی مصلحت پر مبنی ہے اور جب ان کے بیان کے برخلاف لکھنو¿ میں ان کے قیام کی مدّت کم سے کم آٹھ ماہ ثابت ہے تو یہ مدّت ایک سال بھی تسلیم کی جاسکتی ہے۔
مالک رام صاحب کا قیاس ہے کہ خواجہ حاجی نے غالب کے خسر نواب الٰہی بخش خاں معروف کے انتقال (1826۔1242ھ) کے شاید ایک ہی سال پہلے وفات پائی تھی35۔سید اکبر علی ترمذی نے غالباً اسی بناپر یہ لکھ دیا ہے کہ خواجہ حاجی کاانتقال 1825 میں ہوا36۔خاندانی پنشن کے سلسلے میں غالب کی باقاعدہ کوشش کا آغاز خواجہ حاجی کی وفات سے قبل ممکن نہیں لیکن غالب کے بعض سوانح نگاروں کا یہ خیال درست نہیں کہ اس کی نوبت نواب الٰہی بخش خاں معروف کی وفات کے بعد آئی۔ 1242ھ یعنی معروف کا سالِ وفات اگست 1826 سے شروع ہوکر جولائی 1827 میں ختم ہوا تھا۔ موجودہ تفصیلات سے ثابت ہوتاہے کہ انہوں نے نہ صرف اپنی کوششیں اس سے قبل ہی تیز کردی تھیں اور کلکتے جانے کاارادہ کرلیاتھابلکہ وہ اس سے پہلے دہلی سے روانہ ہوچکے تھے۔ تعجب ہے کہ اثنائے سفرکے کسی خط میں انہوں نے معروف کی وفات کاذکرنہیں کیا۔ اس کے علاوہ کلکتے میںایک طرف تو وہ اس بنیادپر چارہ جوئی کر رہے تھے کہ فیروزپور سے دہلی جانا ان کے لےے ممکن نہ تھا اور دوسری طرف خاتمہ¿ ’گلِ رعنا‘ میں یہ لکھ رہے تھے کہ وہ فیروزپورسے دہلی واپس آئے تھے۔ فیروزپور سے دہلی واپس آنے کے تقریباً پانچ ماہ کے بعدوہ کلکتے کے لےے روانہ ہوئے تو اس مدت پر بھی خاتمہ¿ ’گلِ رعنا‘کایہ فقرہ کہ ”روزگاری دراز بہ خاک نشینی سپری شد“ پوری طرح منطبق نہیںہوتا۔لیکن ان وجوہ سے اگر غالب کے سفروحضرکے بعض مراحل کے تعینِ زمانی میں کچھ شکوک باقی رہ جاتے ہیں تو انہیں نئی معلومات او رمآخذ کی دستیابی کے بغیر دور نہیں کیا جاسکتا۔ محقق کے لےے دستیاب مواد کے حدود کاادراک اوراپنی تلاشِ نارساکا اعتراف ضروری ہے۔ غیر تحقیقی قیاس آرائی سے بات بٹھانے کے رجحان نے غالبیات میں ایسے گل کھلائے ہیں کہ اب اس سے جتنا اجتناب برتاجائے اتناہی بہتر ہے۔

(’غالبیات اور ہم ‘ازابو محمد سحر)

حواشی:
1۔ دیکھےے نامہاے فارسیِ غالب،مرتبہ سید اکبر علی ترمذی،ص11-15
2۔غالب نامہ،طبع دوم، ص25
3۔غالب از مہر، طبع سوم، ص92
4۔گل رعنامرتبہ¿ مالک رام، مقدمہ،ص7
5۔دیکھےے نامہائے فارسی غالب مرتبہ سید اکبرعلی ترمذی، مقدمہ¿ انگلیسی، ص21 اور گل رعنامرتبہ سید وزیرالحن عابدی، مقدمہ، ص50
6۔گل رعنامرتبہ سید وزیرالحسن عابدی، مقدمہ، ص50
7۔کلیاتِ نثرِ غالب،کانپور، 1888،ص64-65
8۔ذکرِ غالب کچھ نئے حالات از مالک رام، افکار، غالب نمبر، 1969، ص46 تا54 اور ذکر غالب از مالک رام، طبع چہارم، ص 60تا69
9۔ذکر غالب، کچھ نئے حالات از مالک رام، افکار، غالب نمبر، 1969، حاشیہ، ص51
10۔غالب کا سفر کلکتہ از ڈاکٹر محمود الٰہی، اردو، کراچی، شمارہ خصوصی بیادِ غالب، حصہ دوم، 1969، ص83 تا88 نیز کتاب، لکھنو¿، اکتوبر 1969، ص29 تا 31
11۔ملاحظہ ہو نامہاے فارسیِ غالب،10
12۔ذکر غالب کچھ نئے حالات، افکار، کراچی، غالب نمبر، ص49،50
13۔ کلیات نثر غالب،ص64
14۔کلیات نثر،غالب،ص159
15۔ذکر غالب کچھ نئے حالات، افکار، غالب نمبر،1969،ص51
16۔کلیات نثر غالب،ص158
17۔نامہ ہاے فارسی غالب، مقدمہ انگلیسی،ص32
18۔ The cambride history of India, vol. V. second indian print, 1963, p. 577
19۔ Selections from the papers of lord Metcalfe by Jhon William Kaye
ذکرِ غالب،ص 61کے مطابق آکٹرلونی کاانتقال 15جولائی 1825 کو ہوا۔
20۔کلیاتِ نثر غالب،ص64
21۔ایضاً،98-99
22۔کلیات نثر غالب،ص64
23۔ایضاً،ص4
24۔The life and corespondence of charles, lord netcalfe by Jhon Willian Kaye, Vol. II, 1858, p. 139
25۔The life and correspondence of Charles, Lord Metcalfe, Vol. II, p. 156.
26۔ کلیاتِ نثر غالب،ص155-156
27۔The life and correspondence of Charles, Lord Metcalfe, Vol. II, p. 156.
28۔ذکر غالب کچھ نئے حالات، افکار، غالب نمبر، 1969،ص50
29۔کلیاتِ نثر غالب، ص158۔ خط میں سنہ درج نہیں ہے لیکن غالب 1243ھ سے پہلے لکھنو¿ پہنچ گے تھے۔ اس لےے یہ واقعات لازمی طورپر 1242ھ سے متعلق ہیں۔
30۔غالب نامہ،ص25
31۔غالب،ص92
32۔کلیاتِ نثرِ غالب،ص157۔ An Oriental Biographical Dictionaryمیں معتمدالدولہ آغامیرکی معزولی کاسنہ 1826 درج ہے جس کا اعادہ نامہاے فارسیِ غالب (مقدمہ¿ انگلیسی۔ص21) میں بھی کیاگیاہے۔
33۔ذکرِ غالب، کچھ نئے حالات، افکار، غالب نمبر، 1969،ص50
34۔Lord Amherst By Mrs. Thackery Ritchie and Mr. Richardson Evans, pp. 176,177,179 and 180 and A Comprehensive History of India by Henry Beveridge, Vol. III, pp. 187-188
35۔ذکرِ غالب، ص57-58 ۔ مالک رام صاحب نے معروف کا سالِ وفات گلشن بے خار، ص184 کے حوالے سے درج کیاہے۔ گلشنِ بے خارمیں صرف 1242ھ ہے اور یہی سنہ ہجری بزمِ سخن مرتبہ¿ سید علی حسن خاں (ص106) اور این اورینٹل باﺅگرافیکل ڈکشنری مرتبہ¿ ٹامس ولیم بیل (ص244) میںبھی ملتاہے۔
36۔نامہاے فارسیِ غالب، مقدمہ¿ انگلیسی،ص19

غالب اور وفاکا تصوّر

ظ۔انصاری

غالب اور وفاکا تصوّر

دہر میں نقش وفا وجہِ تسلّی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ، جو شرمندہ معنی نہ ہوا
دیوان اردو کے شروع کی غزلوں میں یہ شعر آتاہے اور یہ اس قدر مشہور ہے کہ پڑھنے والے اس پر سے سرسری گزر جاتے ہیں، حالاں کہ اگر غالب کی پوری زندگی، پورے کلام اور گہری سوچ کے پورے اُتار چڑھاو¿ کو اوّل تاآخر غور سے دیکھا اور جانچا جائے تو اس شعرکوبھی شروع سے آخر تک پھیلایا جاسکتاہے؛ یہاں تک کہ ہم اِسے اُن کاآخری شعربھی کہہ سکتے ہیں۔ ’نقشِ وفا“ ”شرمندہ¿ معنی“ ضرورہوا،لیکن ہر سطح اورہر ایک صورتِ حال میں اس کے معانی بدلتے گئے۔اِس درجہ بدلتے گئے کہ عام فہوم میں وہ اپنے مقررّہ معانی سے محروم ہوگیااوربالآخر پتاچلاکہ سوالیہ علامتوں کے درمیان اور اُن کے ساتھ بسر کرنے والا ہمارایہ عظیم شاعر ”وفا“ کے طے شدہ تصوّر کو ”وجہِ تسلّی “ نہیں سمجھتا۔
آگے کی غلط فہمی سے بچاو کی خاطر،اور راے عامّہ کی رعاتی کرتے ہوئے، یہیں اتنا کہتے چلیں کہ ”وفا“ کوفی الحال نہ Loyaltyکالفظ پورا پڑتاہے، نہ Faithfulnessکا، Devotionکا، اور نہ Total Commitmentکا، البتّہ یہ تینوں پرحاوری ہے۔ بے وفائی کا مطلب غدّاری یابے ایمانی بھی نہیںہے۔ نہ یہ فکری سطح پربے ایمانی کے مرادف ہے۔بلکہ یہ ایک رویّہ ہے فرماں برداری اور سعادت مندی کے برعکس۔ مان لینے اور تسلّی پانے کے برخلاف؛ اس میں خیال اور برتاو کا مسلسل تغیّر، لگاتار اَدَل بدل، ترمیم اور ردّوقبول کی پے در پے کشمکش شامل ہے۔
یوں دیکھےے تو بلاخوفِ تردید کہا جاسکتاہے کہ غالب بے وفاشخص، ایک بے وفا شاعر، بے وفا فنکار ہے۔ زندگی کی آزمائش میں پورااترنے کے سوااس کے نزدیک ”وفا“ کا کوئی تصور نہیں؛ وفاداری کووہ آدمی کے زندہ، توانااور داناوجودکے لےے بے معنی قرار دیتاہے۔
آگرے میں آنکھ کھولی توباپ، چچااور نانا سب کے سب فوجی افسر تھے۔ باپ شاہ عالم کی نکمّی فوج میں رسالداری کر رہے ہیں، کل حیدرآباد جاکر نظام الملک کے ہاں تین سو سواروں کے افسر، تین برس بعدمہاراجہ الورکی فوج میں اور وہیں مارے گئے۔
”در خاک راج گڑھ پدرم را بود مزار“ (قصیدہ ۵۸۵)
چچاکاحال بھی معلوم ہے۔ مراٹھا راج کی طرف سے آگرے کے صوبیدارہیں، اور جیسے ہی دیکھتے ہیں کہ جنرل لارڈلیک کافوجی پلّہ بھاریہے،وہ شہرکو دشمن کے حوالے کرکے پنا منصب بچا لیتے ہیں۔
آگرے پرلارڈلیک کے طوفانی حملے سے پہلے کشمیری رئیس غلام حسین اپنی بیٹی مراٹھوں کے مغل صوبیدارنصراللہ بیگ کے بھائی سے بیاہ دیتے ہیں اور خودبھی پہلے مغلوںسے، پھر مراٹھوں سے اورپھر فوراً انگریزوں سے معاملہ کرلیتے ہیں۔ پہلے وہ مراٹھوں کی طرف سے کمیدان Commandantتھے؛ بعدمیں انگریزوں نے ان کی جاگیر بحال رکھی۔ یہ وہ نانا ہیں جن کے گھرمیں تبداللہ بیگ کا یتیم پلابڑھا۔
جن لڑوں کے ساتھ غالب کااٹھنابیٹھنا، پتنگیں لڑانا، پینگیں بڑھانا معمول تھاان میں مہاراجہ بنارس، چیت سنگھ کے جلاوطن وارث کنور بلوان سنگھ شامل ہیں۔جن کے بزرگوں نے شاہِ اودھکے زیرسایہ رہتے ہوئے اندرخانہ ایسٹ انڈیا کمپنی سے معاملہ کرلیاتھا،یہاں تک کہ آگے چل کر، جب وارن ہیسٹٹنگز کے چھوٹے سے لشکرکواہلِ بنارس نے مارپیٹ کرختم کردیاتو ہیسٹٹنگزکوبمشکل زندہ سلامت رکھابلکہ ایک بڑی رقم سے خفیہ طورپر مدد بھی کی۔
ننھیال اور ددھیال اور ہم عمر عزیوں کی حویلیوں میں یتیم، مگر نازپروردہ اسداللہ یہ سب دیکھتا، سنتااور سوچتاہوگا،اثر لیتاہوگا۔ جس خاندان میں شادی ہوئی، وہاں بزرگ خاندان مغل شاہی منصبدار فخرالدولہ نواب احمد بخش خاں اپنی چھوٹی سی میواتی ریاست سنبھالنے کی خاطر انگریز کمپنی کے جنگ جو مہم پسندوں سے معاملہ کرلیتاہے اورحملہ آوروں کے اشارے بلکہ سپورٹ سے بھرت پورریاست پراچانک حملہ کردیتاہے۔ بھرت پور کی لوٹ اور حصّے بخرے میں اُسے بھی جاگیر انعام ملتی ہے۔ کمپنی دہلی کے نواح میںاپنے ایک طاقتور مخالف، راجہ بھرتپورکو کچل ڈالتی ہے۔
سسرال کاسب سے باعزت امیرخوداپنے قریبی رشتہ دار عبداللہ بیگ اور نصراللہ بیگ کے وارثوں کے نام کی جاگیر صاحب ایجنٹ سے مل کراپنی جاگیرمیں ملالیتاہے۔ اور لڑکوں لڑکیوں کاحق مارنے میں دریغ نہیں کرتا۔ وہ بھی جب اسداللہ کااس کی بھتیجی سے رشتہ طے ہوچکاہے۔
چودہ پندرہ برس کی عمر سے،شادی کے بعد غالب کا مستقل ٹھکانا سسرالی عزیزوں، یا لوہارو والوں میں ہوگیا۔ ان کا منچلا برادرِ نسبتی، جوبیوی کا سوتیلابھائی تھا،نواب شمس الدین، ظاہر ہے کہ یوں ہی دوسرے بھائیوں سے بگڑا ہواتھا، مرزا نوشہ کو کیا خاطر میں لاتاجو باپ دادا کے گھرسے کوئی جاگیر بھی نہ رکھتے تھے اوراپنا حق جتاتے تھے۔ سسرال میں اوّلین دشمن انہیں وہی نظر آیا۔ او ریہ ذاتی دشمن ایسا تھاکہ ایک طرف سپرنٹنڈنٹ ولیم فریزرکواپنے باپ فخرالدولہ کے رشتے سے چچا کہتاتھا، دوسری طرف اس کے قتل کی سازش کی اور قتل کرادیا۔ جس کی سرگوشیاں قریب کے عزیزوں میںہوتی ہوں گی۔غالب کے کان تک بھی ضرور پہنچی ہوں گی اور پھر انہیں دنوں انگریز سٹی مجسٹریٹ کا لوہارو والوں کے داماد مرزانوشہ کے گھر آنا جانا۔ عجب نہیں کہ دلّی والوں میں جو افواہ غالب کے مخبرہونے کی پھیلی، اس میں کسی قدر سچائی بھی ہو۔وہ اپنے حصے کی جاگیر کا روپیہ کمپنی کے سرکاری خزانے سے طلب کر رہے تھے۔
اسی وسیع اور پے چیدہ منظر میں نوعمراسداللہ، اور بعدکے مرزانوشہ کی اٹھان کازمانہ اور ماحول بٹی ہوئی وفاداریوں، بدلتی ہوئی وفاداریوں سے پارہ پارہ ہے۔ جوان امیرزادے کے پاو¿ں تلے ریتیلی زمین ہے،اور جدھر نظر اٹھتی ہے اُدھر باربار بدلتاہوا منظر۔ اوروں کی طرح، اپنی پائدار حیثیت اور ہم چشمو ںمیں عزت آبرو بنائے رکھن کی خاطر مرزانوشہ کو وفاداری کے تصوّر میں ضرور جھول نظر آتا ہوگا۔
”وفا“ پہلے قبائلی اور پھر جاگیرداری نظا کا کلیدی لفظ رہا ہے۔ وفاکس سے؟ خاندان سے، قبیلے سے، جس کا نمک کھایااُس سے، جس ذات یا برادری، یا جاتی میںجنم لیا، پَلے بڑھے، اُس سے۔ جس دھرتی کو بویا جوتااُس سے۔ جو مذہب، عقیدہ یا سنسکار اوپرسے ملااُس سے؟ رہن سہن، پیشہ و توشہ، طور رطریقے سے وفا؟ ایک حال پر صدیوں چلنے والے سماج کے لےے یہ وفاداری بیچ کی کیلی تھی جس نے اپنے بندھن پکّے پکڑے تھے۔ لیکن وقت کی رفتار نے جب چال بڑھائی، ہندسستانی بھی وسطی دَور سے نکل کر مَرکنٹائل رشتوں کی طرف پہلے بڑھا،پھر لپکااور اس نے بوژوازی کے اقتدار کے لےے راہ بنانی شروع کی تو ذات برادری، گاو¿ں گراو¿ں کے رشتے ڈھیلے پڑے رعیت اور مزارع شہری کاروبار کی جانب بڑھنے کو آزادہوئے۔ پچھلی دو صدیوں کی معاشی سماجی سرگرمیوں کاچارٹ دیکھتے چلے جائےے تو یہ عقدہ کھلے گاکہ وفاداریوں کی گڑھیاں ڈھیتی چلتی گئیں اور کمرشیل دولت اندوزی کے اِنڈسٹریل پیداوار میں لگنے سے وفاکا تصورایسا بدلاکہ ٹھیک ایسے وقت جب ۷۵۸۱ءمیں ہندوستانی زبان کاعلاقہ جنگ آزادی کے شعلوں میں لپٹا ہواتھا، بمبئی، کلکتہ اور مدراس کی پری سی ڈینسیوں میں کارخانے اور کالج کھولے جارہے تھے اور یونیورسٹیاںقائم ہورہی تھیں۔ ہندوستانی سرمایہ کھلے بندوں ایسٹ انڈیا کمپنی کے سرمائے اور سرگرمی سے ہم آغوش ہورہاتھااوراس بالکل شروع کی Multinational سرمایہ کاری میں کوئی شرم کی بات بھی نہ تھی۔یہ صرف موٹی سی مثال ہے وفا کے مقررہ اور قدیم تصور کی ہولناک شکست کی۔ ۷۵ءکے بعدکے چالیس پچاس برس بعد تک جو ہوتارہاوہ کل کی سی بات ہے۔ بزرگوں کی نظراور کالج کے دَرنے ہمیں اس کا علم دے رکھاہے اسے بھی نظر میں رکھےے۔
۰۳برس کے غالب دہلی سے نکلتے ہیں۔ لکھنو ٹھیرتے ہیں۔ منزل کلکتہ کاگورنر جنرل سکریٹریٹ ہے۔ لیکن تھمتے ہوئے جارہے ہیں۔ لکھنو¿ میں صفات کاوہ مجموعہ جسے ”مشرقی“ کہتے ہیں کن کن صورتوں میں اُن صفات کے مجموعے سے سنگم بنارہاتھا جسے ’مغربی“ کے لیبل سے پہچانا جاتا ہے۔ کمپنی نے نواب سعادت علی خاں کے زمانے سے غالب کی آمدیاغازی الدین اور نصیرالدین حیدرکی براے نام ”شاہی“ حکومت سے کروڑوں روپیہ ہی سودی قرض نہیں لے رکھا تھابلکہ کاری گری دستکاری اور فنکاری کوبھی متاثر کیاتھا۔(اس پہلوپر تفصیل سے لکھا جاچکاہے)
لکھنو¿ کی اس دھوپ چھاو¿ں، فضااور طاقت کی دوعملی نے بھی یقینا غالب کوکافی کچھ سجھایاہوگا۔ پھر بنارس، ”عبادت خانہ ناقوسیاں اور کعبہ¿ ہندوستاں“ کا تفصیلی نظارہ، پھر باندہ کی طرّرار اور سُست رفتار نوابی، جو ۷۵ءمیں باغیوں کی چھاو¿نی بنی]اور نواب کو پھانسی دی گئی[عظیم آباد پٹنہ تو ۱۶۷۱ئ ۵۶۷۱ءکے معاہدوں میں ہی ایسٹ انڈیا کمپنی کے راج دُلاروں کی شکارگاہ بن چکاتھا۔ اور بالآخر کلکتہ جہاں گورنر جنرل کے محل کے سامنے ایران کا سفارت خانہ اور مدرسہ¿ عالیہ براجمان تھے۔ کلکتے سے غالب کے جوان، اثرپذیر اور زودرنج ذہن نے کیاسیکھا، کیا سمجھا،اس پراوروں نے کافی لکھاہے۔ ڈھائی برسکایہ غرضمندانہ بلکہ آرزومندانہ سفر جو”تَن کا سفر“ ہی نہیں، ’مَن“ کا سفر بھی تھا، جسمانی نہیں ،ذہنیسفر بھی ثابت ہوا،اوراس نے نئے قسم کے ایڈمنسٹریشن کی بے دردی اور وفاکے ہرتصورسے ناآشنائی اُن پر روشن کردی۔ یہاں برسبیلِ تذکرہ ان کے د و غیر معروف شعر نقل کرنابے محل نہ ہوگا:
آں کہ جوید از تو شرم و آں کہ خواہد از تو مہر
تقویٰ از مے خانہ و داد از فرنگ آرد ہمی
یا کلکتہ کے تاثرات پر ان کا قطعہ(۰۱)جویوں ختم ہوتاہے:
گفتم از بہرداد آمدہ ام گفت بگریز و سَر بسنگ مزن
غالب ۰۳۸۱ءمیں بکھرے ہوئے اپنے گھر لوٹ ےہیں۔ یہاں انگریزی تعلیم کی شروعات ہے۔ انگریزی علم و دانش کاچرچااوراس کے خلاف علوم قدیمہ سے وفاداری کا محاذ گرم ہے۔ اُدھر سے زمین کے گول ہونے اور زمین کے گھومنے کی خبر گھوم رہی ہے، اِدھر مولوی فضل حق خیرآبادی، غالب کے بزرگ دوست ”ابطال حرکة الارض“ تصنیف فرمارہے ہیں۔ شاہ ولی اللّہی مجاہدین کی جماعت میں فدائیوں کی سروسامان کی اور چندے کی رقموںکی ریل پیل ہے۔وہ تحریک جس کی موجودہ صورت کو آج کل Fundamentalکہا جاتاہے۔ غالب کے کئی ہم عصر اور ہم سَر اس تحریک کے ہمدرد ہیں یااس تحریک کے ہمنوا ہیں، مثلاً حکیم مومن خاں؛اس کے سیاسی پہلو سے ہمدردی، مگر ذہنی اور نظریاتی پہلو سے شدید اختلاف رکھتے ہیں مثلاً مفتی صدرالدین آزردہ، غالب کو مولوی فضل حق اپنے پروپگینڈے کاایک ہتھیار بنانا چاہتے ہیں، مروّت میں غالب پیچھے پیچھے ہولیتے ہیں، لیکن نتیج میں اُلٹی بات کہہ جاتے ہیں۔ ڈانٹ سن کر پھر اسے سیدھا کرتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے ک دانستہ یا نادانستہ ذہن ”غیر مقلدوں“ کی طرف جاتاہے یا نسبتہً آزادانہ بھٹکتا ہے۔
اتنی بڑی مذہبی سماجی تحریک جو دینی عقائدکی اصلاح کے ساتھ ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی کی اَندادُھند معاشی لوٹ کا توڑ کرنے کے لےے اٹھی تھی، پنجاب کی سکھ حکومت کے خلاف کس ہوشیاری سے موڑ دی گئی وار پھر دوتین سال میں خود ٹوٹ پھوٹ کربرابر ہوگئی۔ یہ غالب کی جوانی کے زمانے کا، اُن کی دہلی کا، ان کے طبقے کااور ماحول کااتنا زبردست ہیجان انگیز واقعہ تھاجو کہ کم و بیش دس برس دہلی سے کلکتہ تک گونجتارہامگر ان کے ہاں اس سے نہ وابستگی ملتی ہے،نہ نابستگی۔ دو راز کارچنداشارے ہیں، مثلاً:
عشرتِ قتل گہِ اہلِ تمنّا مت پوچھ
عید نظّارہ ہے شمشیر کا عُریاں ہونا
اُن دنوں ،اپنے بیان کے مطابق، وہ پچاس ہزارکے مقروض ہیں۔ گھر بیچا، زیور بیچا،اور کیا بیچا، کیسے قرض اداکیا،کیابھی یانہیں، ہمیں نہیں معلوم، صرف یہ معلوم ہے کہ ایک بار مقروض ہونے کی بناپر گرفتار ہوئے، دوسری بار خلافِ قانون جُوا کھیلنے اور جُوا کھلانے کی علّت میں قید خانے پہنچے۔اس حالت میں وہ ایک طرف اُس دربارِ بے بہار سے چلتے چلاتے کچھ نچوڑ لینے کی فکر میں ہیں جہاں ان کے ذوقِ سخن کی سچی داد دینے والاکوی نہیں، دوسری طرف ہرایک آیندوروند انگریز عہدہ دار سے رشتہ جوڑنے میں، جس کے متعلق کچھ امید ہے کہ اگر شاعری کی نہیں توث کم از کم رئیسی شان کی ہی قدر کرے گا۔ قصیدے اور قطعے لکھ لکھ کر دونوں سمتوں میں رَواں کرتے ہیں، اس خیال سے کہ ایک دربار دار شاعرکے پاس کلام منظوم کے علاوہ نذر کرنے کو اور ہے بھی کیا! وہ ”رَسن تابیِ آواز“ کو قید حیات کی ایک مشقت اور وفاداری کے اظہار کو محض ایک سلسلہ جنبانی شمار کرتے ہیں۔
یہی بیس برس ہیں۔ (۰۳۸۱ءسے ۰۵۸۱ءتک) جب وہ تمام وفاو¿ں اور وفاداریوں سے قطعی بدگمان اور اگلے پچھلے تمام بندھنوں سے بدعہدہوکر محض اپنی تکمیل میں لگ جاتے ہیں(”ترکِ صحبت کردم و دربند تکمیل خودم“) عین پختگی کے ززانے میں وہ اب اس مقام پر کھڑے ہیں، جہاں کعبہ اُن کے پیچھے ہے اور کلیسا اُن کے آگے۔ دونوں سے رشتہ ہے اور دونوں سے آزادگی۔ چناں چہ بے قراری اور بے یقینی کے بخشے ہوئے اِس قرار نے انہیں فارسی شعر گوئی میںاوراپنے کلام کی ترمیم و تصحیح میں لگارکھاہے۔ یہاں تک کہ اتفاق سے اُن پر شاہِ اودھ اور لال قلعے کی نظرالتفات پڑتی ہے۔ اور وہ زمانے کی اس شوخی کا مجبوراً استقبال کرتے ہیں۔ نتیجہ ان کے اردو خطوط اور اردو کلام میں ظاہر ہے۔ جو یقینا تب تک کے روےّے سے ہٹی ہوئی بات تھی۔
غالب اپنے گھرمیںہیں۔ ملنا جلنا، آنا جانا، محفلیں اور چُہلیں کرناموقوف۔ اخبار اور کتاب سے سروکار ہے۔ محل سرامیں صرف ایک برا دم بھرکو کھانا کھانے جاتے ہیں۔ دن بھر مردانے میں رہتے ہیں۔ یہ کون سی ازدواجی زندگی ہے؟
نوجوانی تک، جب انہیں ننھیالی اور ددھیالی عزیزوں کی شفقت میسر تھی، جیسی بھی لااُبالی زندگی گزاری ہو، لیکن گھر بار سنبھالنے کے بعدسے انہیں نئی ذمّہ داریوں کااحساس ہوگیااور جہاں تک بن پڑااِدھر سے غفلت نہیں برتی۔ غفلت تو نہیں، البتہ ”بے وفائی“ ضرور کرتے رہے۔ شادی شدہ زندگی میں ازدواجی بے وفائی کے دوواقعے ایسے ہیں جن کا اقرار خود غالب نے کیاہے اور چوں کہ دونوں کا انجام جان لیوا حادثوں پر ہوا۔ غالب کی بیوی اُمراو¿ بیگم کو ضرور ان کی خب تھی۔ (ملاحظہ ہوچراغِ دیر مثنوی میں”زتونالاں ولے درپدہ¿ تو“)
ایک وہ تعلق جو رئیسانہ شان میں شامل تھا۔ خوش مذاق مگر پابند قسم کی طواف مغل جان کے مکان پر حاضری، دل لگی اور خوش وقتی۔ ایک اور خوب رو خوشحال حاتم علی مہر پہلے وہیںآتے جاتے رہے ہوں گے۔ اس خاتون نے مہر کاذکر تعریفی لفظوں میں غالب سے بھی کیاجس سے اُن میں رقابت نہ سلگی۔ تعلق کی نوعیت ظاہر ہے۔ مغل جان کے انتقال پر حاتم علی مہر نے دردِ دل غالب کو لکھاتو وہ تسلی دے رہے ہیں، درد میں شریک ہیں مگر اس واقعے کو دل پر نہیں لیتے۔ بلکہ اُلٹاسمجھاتے ہیں کہ ان کاتوشروع سے کسی بزرگ کی نصیحت پر عمل رہاے کہ ”زہدووَرَع ہمیں منظور نہیں، ہم مانعِ فِسق و فجور نہیں، مصری کی مکھی بنو، شہدکی مکھی نہ بنو“ یہ بات غالب نے گھُماپھراکر کئی بار کہی ہے،مثلاً:
در دَہر فرو رفتہ¿ لذّت نتواں بود
برقند، نہ بر شہد نشیند مگسِ ما
مغل جان کے واقعے کو افسانوی حیثیت مل گئی۔ غالب ویسے ہی بے وفائی میں بدنام تھے، اس واقعے نے کچھ کمی بیشی نہ کی ہوگی۔
دوسرا واقعہ کسی خاندانی خاتون کاہے۔ جن کی وپری تصویر، غالب کے ایسے اشعار میں ملتی ہے جنہیں محفل تخیلی تجربہ یا دورکا جلوہ نہیں کہا جاسکتا۔ ہم سب یکساں طورپر جانتے ہیں کہ کسی بھی فنکارکاہرایک نقش اس کے ذاتی تجربے کا نشان مندنہیںہوا کرتا۔ لیکن ایسے اشعرااور اشاروں سے کہاں تک نظرچُرائےے جو صاف صاف چلتی پھرتی تصویریں دکھاتے اور غالب کی ذہنی کیفیت سمجھنے میںہماری مدد کرتے ہیں۔ مثلاً بیوی سے بے وفائی کا یہ دوسرا واقعہ۔جوسایہ¿ دیوارمیں ایک زمانے تک چلتارہا،سُلگتا رہا۔
کشیدہ قامت، تیکھے نقوش، گورے رنگ، بَرق چشم، دراز گیسواور نازک مزاج کوئی ہم قبیلہ نوجوان خاتون تھیں جنہیں ذوقِ سخن بی میسر تھااور غالب کواپناکلام بغرض اصلاح بھیجا کرتی تھی۔ حمیدہ سلطان نے اپنی نانی کی زبانی اس خاتون کا تخلص ”ترک“ بتایاہے۔ موصوفہ نے اس خاتون کو دیکھابھی ہوگا۔اگر انہوں نے نہیں دیکھا،صرف سنا تو ہم نے غالب کی زبانی سنااور اس کے کلام میں ”تُرک“ کودیکھابھی کیوں کہ ہم نے غالب کے زخمِ جگر کو دیکھا۔
”تُرک“نام یا تخلص کی کسی شاعرہ کا کلم آج تک دیکھنے میں نہیں آیا، عین ممکن ہے یہ استادی شاگردی شاعرانہ اور برے بیت ہواور اس پردے میں غالب خاندان کی کسی معزّز خاتون سے ایسے ٹوٹ کر ملے ہوں، ملتے رہے ہوں کہ گھر والوں کو خبر ہوگئی۔ نہ صرف اِس اختلاط کی خبر، بلکہ اس کے نتیجے کی بھی۔ خود غالب کے دےے ہوئے اشاروں سے ، ایک مدّت بعد جب افواہ سرد ہوچکی، وہ غزل، جس میں واقعی شاعر نے پورے حادثے کا ماتم کیا ہے ۔
”ہاے ہاے“ کی ردیف کے ساتھ انجام سنادیتی ہے۔ اردو فارسی کے کوئی چودہ ہزار اشعار میں یہ واحد غزل ہے جس میں محبوبہ کی موت کاانہوں نے ایک Monumantمونومنٹ نصب کیا ہے اور وہ بھی اپنے مزاج کے خلاف”ہاے ہاے“ کی صداپر۔
اس غزل اور اس سے رشتہ رکھن والے چندفارسی اشعار کو غور سے پڑھنے والوں پر یہ جتانا کچھ ضرور نہیں کہ غالب سے اس خاتون کے تعلقات یہاں تک پڑھنے والوں پر یہ جتانا کچھ ضرور نہیں کہ غالب سے اس خاتون کے تعلقات یہاں تک بڑھے کہ بالآخر وہ حاملہ ہوگئی اور چوں کہ معاملہ ایک معزز خاندان کی بیٹی کاتھا،اور غالب نے اپنی ذمہ داری میں اضافہ قبول کرنے سے پہلوتہی کی۔اُس نے خاموشی سے جان دے دی اور اس جواں مرگی پر معاملہ دب گیا۔ حمیدہ سلطان لکھتی ہیں کہ جب اس شاعرہ کا انقال ہوا، غالب بیمارپڑگئے تھے۔ ہاں ایساہی ہوگا۔ غالب کو البتہ اس بیماری سے کبھی شفا نہ ہوئی کیوں کہ سالہاسال اُن کے ضمیر میں اُس کی وفااراپنی بے وفائی کاکانٹا کھٹکتارہا،ورنہ اِن اشعار کاکیا مطلب؟
شرم رسوائی سے جا چھپنا نقابِ خاک میں
ختم ہے اُلفت کی تجھ پر پردہ داری ہاے ہاے
خاک میں ناموسِ پیمان محبت مل گئی
اُٹھ گئی دنیا سے راہ رسمِ یاری ہاے ہاے
بہتر ہوگاکہ ہم وفااور بے وفائی کے اصل مفہوم کی جڑ تک پہنچنے یااپنے طورپر اس کو Defineکرنے میں کسی قدر غالب کے اشعار سے بھی کام لیتے چلیں۔
اُن کی ایک فارسی غزل ہے جسے قریب ک لوگ بھی پوری طرح نہ سمجھ پائے تھے اور خود شاعرکو مطلع کامفہوم بیان کرناپڑا:
من بَوفا مُردم و رقیب بَدَر زد
نیمہ لبَش اَنگبین و نیم تَبرزَد
وفااور رقیب کے ساتھ شہد اور مصری کے تلازمے یہاں بھی دہرائے گئے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ شاعر نے وفامیں جان دینااپنے لےے اور مصری کی ڈلی چکھ کر اُڑ جانا رقیب کے لےے فرض کرلیاہے۔ یہ بات انہوں نے دوسرے طریقے ایک آدھ بار کہی ضرور ہے:
جو منکرِ وفا ہو فریب اس پہ کیا چلے
کیوں بدگماں ہوں دوست سے دشمن کے باب میں
یہاں رقیب وفانہیں کرتا،وفاکافریب دیتاہے اور محبوب وفاکے ہر دعوے سے منکر ہے اس لےے وہ رقیب کے فریب میں بھی نہیں آنے والا۔ رقیب اور وفاکے سارے تلازمے اور متعلقات کوایک ساتھ رکھ کر دیکھےے تو کھُلے گاکہ یہ خود غالب ہیں جن سے وفا کی اُمید نہیں کی جاتی اور ان کے ہردعوای وفاکو فریبِ وفا شمار کیا جاتاہے۔ یہاں تک کہ وہ خود وفاکی اصلیت سے بدگماں ہوجاتے ہیں۔
وفا، محبوب اور رقیب کے مثلّث کوانہوں نے روشنی اور تاریکی کے زاوےے بدل بدل کردیکھاہے،کوئی گوشہ چھوڑا نہیں۔
۷۴۹۱ ءمیں دہلی دروازے کے باہر جیل میں ہیں اور عام مجرموں کے ساتھ رکھے گئے ہیں۔ جان عذاب میں ہے۔ عزیزوں نے بدنامی کے خوف سے منھ پھیر لیاہے، کوئی خبرگیری تک کا روادار نہیں (رواے مصطفٰے خاں شیفتہ کے)غضب کا ”حبسیّہ“لکھاہے جوپہلے ہی بندمیں شکایت سے شروع ہوتاہے:
ہلہ دُزدانِ گرفتار وفا نیست بشہر
خویشتن را بہ شمار ہمدم و ہمراز کنم
قصیدہ (۹۴)در مدح فرماں رواے اوَدھ میں تشبیب ہی میں وفاکی جنسِ ناروا کا روناہے:
ناروا بود بہ بازار جہاں جنسِ وفا
رونقے گشتم و از طالع دُکاں رفتم
مشہور و مقبول غزل ہے جسے ایرانی موسیقار نے بھی گایا ہے:
زماگسستی و با دیگراں گرو بستی
بیا کہ عہدِ وفا نیست اُستوار بیا
اور اس کایہ ضرب المثل شعر:
وداع و وصل جدگانہ لذّتے دارد
ہزار بار برو صد ہزار بار بیا
رفتہ رفتہ ایسا وقت آگیاہے کہ غالب نہ محبوب سے وفاکے طالبہیں، نہ احباب سے، نہ زمانے سے:
نہ آں بودکہ وفا خواہد از جہاں غالب
بدیںکہ پُرسد و گویند ہست، خُرسندست
”جومنکرِ وفاہو“والاخیال ایک بارسے زیادہ دہرایاگیاہے اور وفاکے مثلث میں خود شاعرکارویّہ یا تصوّر ہم پر روشن ہوتاہے:
خوشم کہ دوست خود و¿ں مایہ بے وفا باشد
کہ در گماں نسگالم اُمیدگاہِ کسش
حدہوگئی کہا یک غزل میں ”غلط بود غلط“ کی ردیف رکھ کر وفاکے ہرایک تصور کو اس تار میں پرودیاہے:
تکیہ بر عہد زبان تو غلط بود علط
کایں خود از طرزِ بیانِ تو غلط بود غلط
دل نہادن بہ پیامِ تو خطا بود خطا
کام جُستن زلبان تو غلط بود غلط
آخر اے بوقلموں جلوہ کجائی؟ کا ینجا
ہرچہ دادند نشانِ تو غلط بود غلط
وفا کا مقررّہ مفہوم غالب کے لےے زدگی کے ہرحال، ہرمرحلے، ہر ماحول میں جگہ چھوڑتاچلا جاتاہے۔ حسن محبوب کی وفاسے بھی ان کی تسلی نہیں ہوتی، کیوں کہ وہ ان کا مقصود نہیں:
تیری وفاسے کیا ہو تسلّی کہ دہر میں
تیرے سوا بھی ہم پہ ہزاروں ستم ہوئے بہت سے؟
اور خوداپنی وفا سے دست بردار ہوتے ہیں:
وفا کیسی، کہاں کاع شق، جب سر پھوڑنا ٹھیرا
تو پھر اسے سنگ دل تیر ہی سنگ آستاں کیوں ہو!
یہ ان کا عملی نقطہ نظر ہے، زندگی اور فن کے بارے میں ایک سوچا سمجھا، نپا تفلا رویّہ۔ایک مستحکم، قائم بالذّات
مجبوری و دعواے گرفتاریِ الفت
دستِ تہِ سنگ آمدہ پیمانِ وفا ہے
عین ممکن ہے کہ یہاں،ہمارے خیال کو رَد کرنے کے لےے غالب کا کوئی پرستاراس قسم کے اشعار یاد دلائے جو پہلے سے کافی مشہور ہیں وار وفاکی عظمت جتاتے ہیں،مثلاً
وفاداری بشرطِ اُستواری اصل ایماں ہے
مرے بُت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
نہیں کچھ سبحہ و زُنّارکے پھندے میں گیرائی
وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے
غور کیجےے تو یہاں بھی انہوںنے وفاکے اس تصورکو، اس کے انتہاسے کمال کو شیخ و برہمن کے سپرد کرکے پنی جان چھڑائی ہے۔برہمن اگر اپنی وفامیں اُستوارہے تو اسے صلہ دیجے۔ اول تو برہمن گاڑانہیں، جلایا جاتاہے، پھر کعبے میں کسی کو دفن نہیں کرتے۔ برہمن کووہاں دفن کیجےے کیوں کہ وہ اپنی آزمائش میں ”زنّارکے پھندے کی گرفتاری“ میں سارا جیون بِتاگیاہے یعنی وہ عمل اس سے سرزد ہواہے جسے لوگ وفاکی استواری کا آئڈیل سمجھتے ہیں۔جو لوگ وفاکی عظمت کے ایسے ہی قائل ہیں اب وہ برہمن کی ارتھی چتاکے لےے نہیں دفنانے کے لےے تیار کریں۔ اور وہ بھی کہاں؟ توپھر غالب اپنے لےے کیا پسند کرتے ہیں؟ بے وفائی؟ بد عہدی؟مصری کی مکّھی بن کر لذّت چکھنااو راڑ جانا؟ نہیں۔ وہ زندگی کو اس سے زیادہ گہرائی کے ساتھ، جدلیاتی تجزےے کے ساتھ دیکھتے ہیں اور رنگارنگ تقاضوں کی ملک میں دیکھتے ہیں۔ ہم یہاں وفاکے اس پہلو کواشارةً عرض کریں گے۔
(صاحبو،سمی نارکے معزز حاضرین! آپ جو فلسفے اور عمرانیات کا سُتھراذوق رکھتے ہیں، آپ کے سامنے خیال اور عمل کے دیرینہ اور باہمی تعلق پر روشنی ڈالنا کچھ ضرور نہیں) خیال اور عمل میں کون اول ہے،یہ وہی مسئلہ ہے کہ Being(وجود) اور (Thinking)(شعور) میں کون فیصلہ کن ہے۔ سائنسی مادیت کانظریہ ماننے والے عمل وک، خارجی حالات (پیداواری طرز و تعلقات) یا ماحول کے عمل کو انسان کے ذہن و شعورپر حاوی بلکہ اُن کا راہنمامانتے ہیں۔ اسی سبب سے ہم نے غالب اور وفاکے تصور میں خارجی حالات کو پس منظرکے طورپر پیش کیا۔ اب خود خیال اور عمل کے رشتے سے دانش وَر فنکارکا وطیرہ بھی دیکھےے۔
اوّل یہ کہ ”رِچا“ (fjpk)اور Rifnalمیں دونوں دست و گریباں ہیں۔”رِچا“ یا خیال، بلکہ دستوئیفسکی کے طرز فکری نظام میں Ideaہے جو کسی شحص اور سماج کی روح میں رواں رہتاہے۔ آئڈیااپنی شناخت کے ساتھ عملی رسوم کی شاخت طلب کرتاہے اوراسے جنم دیتاہے۔ جب کوئی ”رچا“ بڑھ کر ”ری چوئل“ میں نشوونما پاتاہے تو نظریہ سماجی عمل بن جاتاہے۔ اب سنےے کہ خیال وفا بیزار ہےا ور ایکشن وفا طلب۔ خیال یا آئیڈیاکوایکشن میں، انفرادیاور اجتماعی عمل میں ڈھلنے، فرداور جماعت کوہم آہنگ کرنے اور ہمنوا رکھنے کے لےے وفاپرزور دنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ وفاکے مشروط تصورکے بغیر کوئی ”رِچا“ پھیل کر ”رِچوئل“ نہیں بنتا، نہیں بن سکتا۔اور جو نظرےّے کسی سماجی نظام کو جنم دے کریہ اضرار کرتے ہیں کہ پارٹییا سوسائٹی ان کا مقصود ہے، وہ فرد کو ثانوی حقیقت دے دیتے ہیں،جو اقبال کے لفظوں میں:
فرد قائم ربط ملّت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
آپ نے دیکھابرتاہوگاکہ خیال کی لچک یا عقیدے کی آوارگی سے بے مروَتی برتنے والے سماجی نظام مُرتدکو سنگسارDissenterاور کو Exoellکر دیتے ہیں۔ عمل کی اجتماعی نوعیت کی خاطر انہیں اصرار ہوتاہے کہ خیال کے سوتے سے پھوٹاہوااور زمانے بھرکی آلائشیں لپیٹے ہوئے جو عقیدہ طے شدہ ہے اسے جوں کا توں قبول یا تمامتر رد کردیا جائے۔ اسے وہ ”وفاداری بشرطِ استوار“ یعنی مشروط و وفاقرار دیتے ہیں۔ جب کہ خیال بجاے خود غیر مشروط ہے اور بے وفائی کی روح لےے بغیر توانااور تازہ دم نہیں رہتا۔
اب ذراغالب کاوہ مشہور زمانہ شعر پڑھ کر سوچےے کہ وہ کیا کہہ رہاہے:
”ترکِ رسوم“ دراصل ایک معنی میں ترکِ وفاہے۔کیوں کہ رسوم ہی تو ہی ںجو عمل میںوفا کا اظہار کرتی ہیں یہ ”رِچا“ نہیں ”ری چوئل‘ کا مجموعہ ہیں۔ فنکار اور وفادار نظریہ ساز اور نظریہ پرست میں یہیں آکے انترپڑتا ہے۔ فنکار اپنے عہداور ماحول میں سانس لے کر، ”ہر رنگ میں بہارکے اثبات“ پر زوردیتاہے۔وہ ایسا دانش ور ہے جو پوری دیانت داری کے باوجود، بلکہ دیانت داری کے ساتھ کسی بھی مسلمہ عقیدے، طے شدہ سانچے، یا طاقتِ فرماں رواسے، وقت کے عام چلن سے، یا بستگیِ رسم و رہِ عام“ سے جزوی یا کلّی، عارضی یا مستقل بے وفائی کرنے پر مجبور ہے۔ وہ خود اپنے سودوزیاں سے غافل یا بے نیاز بلکہ ذاتی مفادکا کھلا دشمن ہوکر بھی وفاکے معمول سے بگڑ بیٹھتا ہے اور راہِ صواب کے بجاے بھٹکنے اور تلاش کرتے رہنے کو ترجیح دیتاہے۔ وہ خود کو بالآخر اپنا غیر فرض کرلیتاہے۔ جیساکہ غالب نے اپنے بارے میں ایک آٹوبائیگرفیکل (سوانحی) بے تکلف خط میں لکھاہے۔وہ جب کہتاہے:
عیش و غم در دل نمی اِستد خوشا آزادگی
بادہ و خونابہ یکسانست در غربالِ ما
یا
ایماں بہ غیب تفرقہ ہا رُفت از ضمیر
ز اسما گمشتہ ایم و مفسمّی نوشتہ ایم
تو اَس ”آزادگی“ کے خدوخال اُبھارتاہے جوخیال کے بدلتے ہوئے بھاو¿ (Hkko)کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔وہ ”اسما“ یا Ritualsکی پوٹلی دریاکنارے چھوڑ کر خیال کے گرداب میں اُترتا ہے اور مسمّی کی تلاش جاری رکھتاہے۔ اس کی وفا صرف اپنی فکرکے تقاضوں سے ہوتی ہے۔ جو گلوب کی طرح گردش کرتی اور روشنی و تاریکی کے عالم میں مبتلا رہتی ہے۔
فنکار اپنی عصری سطح سے بلند تبھی ہوگاجب وہ دانش وری میں قدم رکھے اور اپنے وقت کے وانش وَر ہوتے ہیں جن کی وفااپنی دانش کے تقاضوں سے برقرار رہے۔ ان تقاضوں سے جوہر عہد، ہرایک دَور اور سماجی ارتقاکے ہر ایک مرحلے میں تغیر پسنداور ”بے وفا“ رہے ہیں۔ جسے غالب کے متعلق اس سلسلے میں کچھ کلام ہو وہ ان کے قصیدوں کی تشبیبیں دیکھے، بعض مثنویاں دیکھے جہںا اس دانش ور فنکارنے اپنا سوچا سمجھا رویّہ یا Atitudeایک تسلسل کے ساتھ بیان کردیاہے،مثلاً بینند“ کی ردیف والا قصیدہ(نمبر۶۲)
دل نہ بندند بہ نیرنگ و دریں دیرِ دو رنگ
ہرچہ بینند بہ عنوان تماشا بینند
خود تصوف کا نظریہ ،جس میں غالب نے فقیہوںکی بحثابحثی سے بچنے کے لےے پناہ لی تھی، ان کے ہاں ایک مکمل عقیدہ یا اعتقادی نظام نہیں، بلکہ ایک اخلاقی برتاو ہے۔ اپنے خطوں میں یہ راز افشابھی کردیاہے۔ کسی کوکبھی مشورہ نہ دیاکہ تم تصوف اختیار کرو، کھل کرکہہد یاکہ تصوف و نجوم، انہوں نے بس یوں ہی لگارکھاہے۔ ورنہ ان باتوںم یںکیا رکھاہے۔
”بے وفائی“ کے اس برتاو میں ہمارا دانش ور فنکار اس مقام کو پہنچ جاتاہے جہاں فرانس کے روسو اور بالزاک جیسے انسائیکلوپیڈسٹ اپنے وقتوں میں پہنچے تھے۔ وہ صرف قافیہ پیمائی کی خاطر نہیں کہتاکہ:
بامن میا ویز اے پدر، فرزند آزر رانگر
ہرکس کہ شد صاحب نظر، دینِ بزرگاں خوش نکرد
یہاں پدر سچ مچ کاپدرنہیں بلکہ رسوم اور سکّہ بند عقائد کے پاسبان یا کوتوال ہیں جو پہلے رسمی مذاہب کی تقدیر میں لکھے تھے اب ”اِزموں“ کے حصے میںآرہے ہیں۔
کفر و دیں چیست، ُز آلائشِ پندارِ وجود
پاک شو پاک کہ ہم کفرِ تو دینِ تو شود
غالب کے اس ”بے وفایانہ، تصوراور برتاو میں کفر و دیں کے تمام مروجہ تصورات کی دیواریں دھنس گئی ہیں اور مادرپدر آزاد انسانی تفکر سربلندہوجاتاہے:
محفلیں برہم کرے ہے گنجفہ بازِ خیال
ہیں وَرَق گردانیِ نیرنگِ یک بت خانہ ہم

خاتمہ گلِ رعنا اور غالب کاسفر کلکتہ

ابو محمد سحر

خاتمہ گلِ رعنا اور غالب کاسفر کلکتہ

غالبیات کی اکثر لاینحل گتھیاں خود غالب کے بیانات کی کوتاہیوںا ور اختلافات کے علاوہ تاریخوں کے اندراج کے سلسلے میں ان کے حیران کن روےّے کا نتیجہ ہیں۔ بیشتر تحریروں میں تاریخوں کے محذوف ہونے یا ناقص رہ جانے سے معلوم ہوتاہے کہ وہ تاریخوں کے ٹھیک ٹھیک اندراج کو کوئی خاص اہمیت نہ دیتے تھے۔ بعض تحریروں پر پہلے تاریخیں درج تھیں لیکن جب غالب نے ان کو کتابی شکل میں مرتب کیاتو تاریخیں خارج کردیں۔ جابجا یہ صورت بھی ہے کہ تاریخ اور مہینہ تو ہے لیکن سنہ غائب ہے۔ اب کوئی اللہ کا بندہ ان سے پوچھتا کہ کسی کتاب کے مندرجات میں سنہ کے بغیر صرف تاریخ اور مہینہ برقرار رکھنے کا کیا منشا تھا۔ جیساکہ راقم الحروف نے ایک اور مضمون میں لکھاہے ”تاریخوں کے معاملے میں انہوں نے ماہرین غالبیات کے ساتھ ستم ہی نہیں بلکہ ستم ظریفی بھی کی ہے، ستم اس لحاظ سے کہ تاریخ بالکل حذف کردی ہے اور ستم ظریفی اس لحاظ سے کہ دن ،تاریخ اور مہینہ لکھ کر چھوڑ دیاہے۔“کلّیاتِ نثرغالب میں دیباچہ¿ ’گل رعنا‘ سے تاریخ مطلقاً محذوف ہے تو خاتمہ¿ گلِ رعنا میں آغامیر کی مدح کی نثر کے بعد صرف ”دوم محرم الحرام“لکھا ہواہے۔ ’گلِ رعنا‘کے قلمی نسخے مملوکہ¿ خواجہ محمد حسن میں دیباچے کی پوری تاریخ درج ہے لیکن خاتمے میں آغامیرکی مدح کی نثرکے آخر میں دوم محرّم الحرام کا بھی پتانہیں۔ خاتمہ¿ ’گلِ رعنا‘میں مولوی فضل حق کے نام غالب کاایک فارسی خط بھی شامل ہے جو انہوں نے فیروزپور جھرکہ سے لکھا تھا۔ اس کی تاریخِ تحریر گلِ رعنایا ’کلّیاتِ نثر غالب‘ کے کسی نسخے میں نہیں ملتی۔ باندہ کے محمد علی خاں کے نام اپنے قیامِ باندہ ہی کے ایک خط میں غالب نے ان دونوں فارسی تحریروں کو نقل کیاہے لیکن اس میں بھی تاریخیں سرے سے مفقود ہیں۔1
معتمدالدّولہ آغامیر، وزیراودھ، کی مدح کی نثر در صعنتِ تعطیل غالب نے کلکتے جاتے ہوئے لکھنو¿ کے قیام کے زمانے میں ان سے ملاقات کے دوران پیش کرنے کے لےے لکھی تھی۔ جانبین کی شانِ ریاست اس ملاقات کی تاب نہ لاسکی لیکن نثر محفوظ رہ گئی اور غالب نے اسے’ گلِ رعنا‘کے خاتمے میں شامل کردیا۔ اگر دہلی سے غالب کی روانگی اور لکھنو¿ میں قیام کی تاریخوں کاصحیح علم ہتاتواس نثرکا سنہ آسانی سے اخذ کیاجاسکتاتھا۔ سوءاتفاق کہ یہاں بھی واقعات تو اکثر معلوم ہیں لیکن تاریخیں گوشہ¿ گمنامی میں ہیں۔ شیخ اکرام کا قیاس ہے کہ غالب دوم محرم الحرام1242ھ (اگست1826ئ) سے پہلے دہلی سے روانہ ہوچکے تھے2۔مولانا غلام رسول مہر کے مطابق ”اغلب یہ ہے ہ وہ عید شوال 1242ھ کے بعد یعنی اپریل 1827 میں روانہ ہوئے ہوں۔3مالک رام صاحب کی رائے میں وہ نومبر دسمبر1826 (جمادی الاوّل1242ھ) میں دہلی سے روانہ ہوئے تھے۔4ان قیاسات میں دہلی سے غالب کی روانگی کے زمانے میں جتنا اختلاف پیدا ہوتاہے اسی نسبت سے لکھنو¿ میں قیام کی مدّت میںبھی فرق رونماہوجاتاہے جس کی وجہ سے اس نثر کے لکھنے کا سنہ1242ھ (۶۲۸۱ئ) بھی ہوسکتاہے اور 1243ھ (1827ئ) بھی۔ چنانچہ شیخ محمد اکرام 1242ھ کے حق میں معلوم ہوتے ہیں تو مولانامہر کا رجحان 1243ھ کی طرف ہے۔ سیّد اکبرعلی ترمذی اور ان کی تقلید میں سیّد وزیرالحسن عابدی نے اس مسئلے کی پیچیدگیوں کو نظرانداز کرکے اس نثرکی تاریخ 2 محرم الحرام 1242ھ (5اگست1826) مان لی ہے5۔کچھ ایسی ہی صورتِ حال میں سید وزیرالحسن عابدی نے مولوی فضل حق کے نام خط کا زمانہ¿ تحریر 1825ءکے وسط میں قرار دیا ہے۔6 جیساکہ آئندہ سطور سے واضح ہوگاتاریخ وزمانہ کا تعین پہلی صورت میں صحیح اور دوسری صورت میں تقریباً صحیح ہے لیکن کچھ ایسے شواہدو دلائل کامحتاج ہے جن کی طرف اب تک خاطرخواہ توجہ نہیں کی گئی ہے۔
خاتمہ ’گلِ رعنا‘میں غالب نے لکھاہے کہ وہ نواب احمد بخش خاں سے ملاقا ت کے لےے فیروزپور جھرکہ گئے تھے چونکہ مولوی فضلِ حق کی اجازت کے بغیر سفرکرناان کی طبیعت پر بار گزراتھااس لےے ان کو بڑا دکھ ہوااور جب وہ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچے اور سفر کی تکان دور ہوئی توانہوں نے مولوی فضل حق کو صنعتِ تعطیل میں ایک خط لکھا۔فیروزپور میں ان کا مقصد حاصل نہ ہوااور وہ دہلی واپس آگئے۔ اس کے ایک عرصے کے بعد انہیں پھر سفرکا خیال دامن گیر ہوا۔ ہونا تو یہ چاہےے تھاکہ وہ کلکتے جاتے لیکن پہلے لکھنو¿ پہنچنے کااتفاق ہوا۔7 لیکن اپنی پنشن کے سلسلے میں 28 اپریل 1828 کو کلکتے میں انہوں نے جودرخواست گورنر جنرل کے دفترمیں پیش کی تھی اس میں یہ بیان کیاہے کہ ایک بارجو وہ دہلی سے فیروزپور کے لےے نکلے تو قرض خواہوں کے خوف کی وجہ سے دہلی واپس نہ جاسکے بلکہ فرّخ آباد ہوتے ہوئے کانپور پہنچے اور پھر لکھنو¿ اور باندے میں قیام کرنے کے بعد کلکتے کا رخ کیا۔8 مالک رام صاحب خاتمہ¿ ’گلِ رعنا‘ (کلّیاتِ نثرِ غالب) کے بیان کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

”وہ جب سفر پرروانہ ہوئے تو چونکہ روانگی سے پہلے مولوی فضل حق خیرآبادی سے وداعی ملاقات نہیں کرسکے تھے اس لےے ان سے ملنے کو واپس گئے اور پھر دوبارہ سفر پر روانہ ہوئے۔ کلّیات کابیان صحیح معلوم ہوتاہے۔ درخواست میں انہوں نے اختصار سے کام لیااور اس کاذکر مناسب خیال نہیں کیا“۔9
چونکہ خاتمہ¿ ’گل رعنا‘ میں غالب نے یہ نہیں لکھاکہ وہ مولوی فضل حق سے وداعی ملاقات کے لےے فیروزپور سے دہلی واپس آئے تھے اس لےے ڈاکٹر محمود الٰہی نے دہلی آنے کے سلسلے میں مالک رام صاحب کے بیان کردہ اس سبب کو بے بنیاد قرار دیاہے۔ انہوں نے غالب کی درخواست کی تفصیلات اورنواب احمد بخش خاں کے بعض حالات کی مناسبت سے یہ استدلال بھی کیاہے کہ خاتمہ¿ گلِ رعنامیں غالب نے فیروزپورکے جس سفرکاذکرکیاہے اس سے وہ دہلی واپس آگئے تھے لیکن اس کے بعد انہوں نے فیروزپورکاایک اور سفرکیا۔وہاں سے نواب احمد بخش خاں کے اصرار پر وہ بھرت پورگئے اور پھر فیروزپور آئے تو دہلی واپس نہیں آئے بلکہ وہیں سے کلکتے کی طرف روانہ ہوگئے10۔ لیکن خاتمہ¿ گلِ رعنامیں کلکتے کے سفر سے قبل فیروزپور کے کسی اور سفرکاذکر نہیں کیاگیا۔ باندے کے مولوی محمدعلی خاں کے نام اپنے ایک خط میں انہوں نے مولوی فضل حق کے نام اس خط کو نقل کرنے سے پہلے جوصراحت کی ہے اس سے خاتمہ¿ ’گلِ رعنا‘کی طرح صرف اتنا معلوم نہیں ہوتاکہ یہ خط انہوں نے فیروزپور سے لکھا تھابلکہ یہ بھی پتا چلتا ہے کہ فیروزپورکے جس سفرسے یہ خط متعلق ہے وہ انہوں نے ”درمبادیِ بسیج سفرِ مشرق“ یعنی سفرِ مشرق کے ارادے کے اوائل میں کیا تھا11۔چنانچہ خاتمہ¿ ’گل رعنا‘میں فیروزپورکے جس سفرکاذکر ہے اس کو سفرِ کلکتہ کے سلسلے سے الگ نہیں کیا جاسکتااور یہ ماننے کے سواچارہ نہیں کہ کلکتے جانے سے پہلے فیروزپورکایہ آخری سفر تھاجو غالب نے کیاتھا۔اس کے برعکس ڈاکٹر محمود الٰہی نے اپنے قیاس کی بنیاددرخواست کے ان بیانات پر رکھی ہے۔
”سرچارلس مٹکاف کے آنے کے بعد بھرت پورکا معاملہ پیش آگیااور وہ راجہ بھرت پورکو بچانے اور راج کے شورہ پشتوں کو سزادینے میں مصروف ہوگئے۔ نواب احمدبخش خاںبھی وہاں جارہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے بھی ساتھ چلنے کوکہا۔
میں اس زمانے میں اپنے بھائی کی بیماری کی وجہ سے ایک مصیبت میں گرفتار تھا۔مزیدبرآں قرض خواہوں نے تقاضوں اور شوروغوغا سے میرا ناک میں دم کر رکھا تھا۔ اس لےے میں اس سفرکے لےے کسی طرح تیار نہیں تھا۔
اس کے باوجود اس توقع پرکہ مجھے مٹکاف صاحب کی خدمت میں سلام کرنے کا موقع مل جائے میں نے اپنے بھائی کوبخاراور ہذیان کی حالت میں چھوڑا، چارآدمیوں کو اس کی نگہداشت کے لےے مقرر کیا۔کچھ قرض خواہوں کو طرح طرح کے وعدوں سے چپ کرایا۔دوسروں کی نظرسے چوری چھپے بھیس بدل کر کسی طرح کاسازوسامان لےے بغیر سومشکلوں سے نواب احمد بخش خاں کے ساتھ بھرت پور کے لےے روانہ ہوگیا۔“12
اگر اس وقت قرض خواہوں کی طرح مرزایوسف بھی دہلی میں تھے اور بھرت پور جانے سے پہلے ان کی تیمارداری اور قرض خواہوں کی تسلی کاانتظام غالب نے خود دہلی آکر کیاتھاتوہ نہایت عجلت میں دہلی آئے ہوں گے اور وہاں ان کے قیام کی مدت بہت مختصر رہی ہوگی۔اس سے خاتمہ¿’ گلِ رعنا‘کے ”بیخودی گریبانم گرفت و بازم بہ دہلی آورد“ اور ”روزگاری دراز بخاک نشینی سپری شد“13 یعنی واپس آنے اورپھر ایک عرصے کے بعد سفر پر روانہ ہونے کی توجیہہ نہیں ہوسکتی۔ فیروزپورسے دہلی کی وہ واپسی جس کا خاتمہ¿ گلِ رعنامیںذکر ہے بلاشبہ کسی ایسی ہنگامی واپسی سے مختلف ہے جس کا درخواست سے گمان ہوتاہے۔ چنانچہ کسی وقتی پریشانی میں غالب فیروزپورسے دہلی واپس آئے ہوں یا نہ آئے ہوں وہ بالآخر فیروزپور سے دہلی اس طرح واپس آئے کہ کلکتے جانے سے قبل پھر فیروزپور نہیں گئے اور اس لحاظ سے خاتمہ¿ ’گلِ رعنا‘کااظہار حقیقت پر مبنی ہے۔
خاتمہ¿ ’گل رعنا‘ کی عدمِ صحت پر اگر اختصارکی دلیل لائی جاسکتی ہے تو درخواست کے مفصل بیانات کی عدمِ صحت پر مقدمہ بازی کی مصلحتوں کے پیش نظر استدلال کیاجاسکتاہے۔ واقعہ یہ ہے کہ کلکتے پہنچتے ہی غالب کویہ احساس دلایا جاچکاتھاکہ ان کو اپنا مقدمہ پہلے دہلی کے رزیڈنٹ کے سامنے پیش کرنا چاہےے تھا۔رائے چھج مل کے نام کلکتے سے اپنے پہلے ہی خط میں انہوں نے یہ استفسارکیا تھا:
”اگر بندہ رادر پیچ و خمِ استغاثہ حاجت بداں افتد کہ دردارالخلافت وکیلی از جانبِ خود قرارباید داد صاحب این زحمت گوارا خواہند کردیانے۔ہرچہ دراین مادہ مضمر ِضمیر باشد بے تکلف باید نوشت۔“14
چنانچہ انہوں نے اپنی درخواست میں سب سے زیادہ زور اسی پر صرف کیاہے کہ دہلی میں ان کے لےے دوبھر ہوگیاتھااور وہ وہاں کسی کو منھ دکھانے کے قابل نہ تھے۔اسی وجہ سے وہ فیروزپور سے بالارادہ کلکتے روانہ ہونے کے بجائے سرچارلس مٹکاف سے ملاقا ت کی جستجومیں سیدھے کانپور پہنچے تھے۔ مقصد یہ تھاکہ کانپورسے ان کی معیت میں دہلی واپس آئیں گے اور کسی مناسب موقع پر ان سے اپنا احوال بیان کریں گے لیکن کانپور پہنچتے ہی وہ بیمار پڑگئے اور انہیں علاج کی غرض سے لکھنو¿ جانا پڑا۔ سوال پیدا ہوتاتھاکہ اگر وہ پہلے سے کلکتے جانے کا ارادہ نہ رکھتے تھے تو باندے سے دہلی کیوں نہ لوٹ گئے۔ اس کا جواز انہوں نے یہ پیش کیاکہ جب قرض خواہوں کے ڈراور مالی مشکلات کی وجہ سے وہ فیروزپور سے دہلی نہ جاسکے تھے تو اب باندے سے دہلی کیونکر جاسکتے تھے۔ اس کے علاوہ انہیں یہ خیال بھی آیاکہ دہلی ہویاکلکتہ، دونوں جگہ قانون توایک ہی ہے15۔گویا کلکتے جانے کا خیال انہیں باندے میں آیاتھالیکن رائے جھج مل کے نام ان کے اس خط سے جوانہوںنے لکھنو¿ سے کانپور پہنچنے کے بعدلکھاتھایہ بات بھی ثابت ہے کہ یہ ارادہ پہلے سے تھا:
”بتاریخِ بست و ششم ذیقعدہ روز جمعہ ازاں ستم آباد برآمدم و بتاریخِ بست ونہم در دارالسّرور کانپور رسیدم و اینجادوسہ مقام گزیدہ رہگرایِ باندہ میشوم در آنجا چند روز آرامیدہ۔ اگر خدا می خواہد و مرگ اماں میدہد بکلکتہ می رسم“16
غرض یہ کہ درخواست کی ساری تفصیل و تاویل کا منشاگورنر جنرل کویہ باور کراناتھاکہ دہلی میں چارہ جوئی کرناان کے لےے ممکن نہ تھااوروہ بڑی مصیبتوں اور مجبوریوں میں کلکتے پہنچے تھے تاکہ مقامی حکام کو نظرانداز کرکے ان کی درخواست قبول کرلی جائے۔ لیکن جیساکہ اندیشہ تھا 20 جون 1828 17 کوان کی درخواست پریہی حکم صادرہواکہ مقدمہ پہلے دہلی میں پیش کیا جائے۔
سرکاری پنشن کے سلسلے میں غالب کی درخواست کی ایسی باتوںکو آنکھ بند کرکے قبول نہیں کیا جاسکتاجوان کے مفادپر کسی طرح اثرانداز ہوسکتی تھیں۔ تاہم بے ضرر حالات یا ایسے واقعات کے بیان میں وہ پہلو تہی نہیںکرسکتے تھے جوانگریز حکّام کے علم میں ہوسکتے تھے۔ درخواست میںغالب کے اس قسم کے بیانات کو اگرکچھ ایسے تاریخی واقعات سے مطابق کیا جائے جن کا صحیح زمانہ معلوم ہوسکتاہے تو ان کی نقل و حرکت کے بارے میں غیر تحقیقی قیاسات کی دھند بہت کچھ چھٹ سکتی ہے۔ مثلاً غالب فیروزپور اس وقت پہنچتے تھے جب نواب احمد بخش خاں قاتلانہ حملے کے بعد بسترِ علالت سے اٹھے تھے اور ان کی الورکی مختیاری جاتی رہی تھی۔ اس کے فوراً بعد کازمانہ وہ ہے جب دہلی کے رزیڈنٹ سرڈیوڈآکٹرلونی بھرت پور پر فوج کشی کے حکم کے خلاف گورنر جنرل لارڈ ایمبرسٹ کے ردِّ عمل کی وجہ سے اپنے عہدے سے استعفادے چکے18 تھے اور ان کی وفات کے بعد ان کی جگہ 26 اگست 1825 کو سرچارلس مٹکاف کا تقرر ہوچکاتھا19۔اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ غالب اپریل1825 کے لگ بھگ فیروزپور پہنچ گئے تھے اور مولوی فضل حق کے نام صنعتِ تعطیل میں ان کا خط اسی زمانے کاہے۔یہ تعیّنِ زمانی اس خط کے مندرجہ ذیل اقتباس کے بھی عین مطابق ہے:
”امّاعمِ کامگاردروہم و ہراسِ مکرواسدِ اعداودردِ عدمِ محاصلِ سرکارِ الور وملال در آمدِ دگرہا سرگرم و سو گوار و گم کردہ¿ آرام“20
دہلی سے میرزاعلی بخش خاں کے نام دوفارسی خطوں سے معلوم ہوتاہے کہ کسی زمانے میں غالب نواب احمدبخش خاں سے ملنے کے لےے بہت بے چین تھے اورفیروزپورجانے میں اس لےے متامل تھے کہ انہیں یہ اطلاع ملی تھی کہ نواب احمد بخش خاں دہلی آنے والے تھے۔اسی بے چینی میں انہوں نے کسی میرامام علی کی معرفت نواب احمد بخش خاں کوایک عرضداشت بھی بھیجی تھی۔ نواب سے ان کو توقع نہ تھی لیکن ان کے بعض احباب کہتے تھے کہ وہ نواب سے اپنا دردِ دل نہیں بیان کرتے ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ وہ اس کاتدارک نہ کریں، اس لےے وہ کوشاں تھے تھے کہ نواب سے انہیں جواب مل جائے اور وہ ان دوستانِ ناصح کو خیرباد کہہ کر مشرق کی سمت روانہ ہوجائیں۔ پھر اس صورت میں کہ نواب کے دہلی آنے کی خبرغلط ہووہ چاہتے تھے کہ ان سے ملاقات کے لےے خود فیروزپور چلے جائیں:
”یک چندبامیدِ نواب صاحب ساختم وازتاب آتشِ انتظارگداختم نشستہ ام بعد ا بیکہ مجرم بزنداں نشیند و می بینم انچہ کافر بجہنم بیند۔ بہ فیروزپور بہر آں نیامدہ بودم کہ بازم بدہلی باید آمد۔نواب صاحب مرا بلطفِ زبانی فریفتند و بکرشمہ¿ ستمی کہ بالتفات میمانست از راہ بردند میرامام علی را با عرضداشت بخدمتِ نواب فرستادہ ام یاراں میگفتند کہ توبہ نواب نمیگرائی و دردِ دل باوی نمیگوئی ورنہ از کجاکہ نواب بچارہ برنخیزد اینہا کہ میکنم از بہرِ زباں بندی ایں اداناشناسانست۔ خدا را طرح آن افگنید کہ میرامام علی زودبرگردند و بمن پیوندند تا دوستانِ ناصح را خیرباد گویم و بسر و برگی کہ ندارم بشرق پویم۔“

”شنیدہ میشودکہ نواب بدہلی می آیند باری از صدق و کذب این خبررقم کنید من آں میخواہم کہ اگر خبرِ عزیمتِ نواب دروغ بودہ باشد خود بہ فیروز پور رسم و شرف قدمبوسِ عم عالی مقدار و مسرتِ دیدارِ شما در یابم“21
یہ حالات اور خطوط بھی اپریل 1825 کے لگ بھگ غالب کے فیروزپورجانے سے قبل کے سواکسی اور زمانے کے نہیں ہوسکتے۔ فیروزپور میں نواب احمد بخش خاں کی حالت دیکھنے کے بعد غالب کی مایوسیاں اور پختہ ہوگئی تھیں۔ چنانچہ انہوں نے مولوی فضل حق کو لکھاتھاکہ :
”او را مہر کو کہ کس را دل دہد و ہمم در اصلاحِ حال کس گمارد و مرا دلِ آسودہ¿ رام و طورِ آرام کوکہ سرِصداع آلودہ درکوہسار مالم و دل را درطمع امدادِ کار سالہا در ورطہ¿ طولِ امل دارم۔“22
لیکن معلوم ہوتاہے کہ نواب احمد بخش خاں کی باتوں سے پھر کچھ امید بندھی اور وہ ان کے کہنے پر بھرت پور روانہ ہوگئے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے بھرت پورکاسفرکیاتھا۔ ’پنج آہنگ‘ کے پہلے دو حصے یعنی آہنگِ اوّل اور آہنگِ دوم اسی سفرکے دوران لکھے گئے تھے۔ غالب نے آہنگِ اوّل کی تمہید میں لکھا ہے:
”در سالِ یکہزارودوصدوچہل و یک ہجری کہ گیتی ستانانِ انگلشیہ بھرت پور لشکر کشیدہ وہ آں روئیں دژرا درمیان گرفتہ اند من دریں یورش باجناب مستطاب عمِ عالی مقدار فخرالدولہ دلاورالملک نواب احمد بخش خاں بہادر و گرامی بردار ستودہ خوی مرزا علی بخش خاں بہادر ہم سفر ست روزانہ برفتار ہم قدیم و شبانہ بیک خیمہ فرود می آئیم۔“ 23
دہلی کے رزیڈنٹ اور راجپوتانے میں گورنرجنرل کے ایجنٹ کی حیثیت سے سرچارلس مٹکاف کا تقرر تو 26 اگست 1825 کو ہواتھالیکن دہلی میں ان کے وارد ہونے کی تاریخ 21 اکتوبر 1825 ہے۔ نومبر میں شہرکے باہران کاکیمپ لگایا گیااور انہوں نے بھرت پورکی مسافت شروع کی24۔ چنانچہ نواب احمد بخش خاں کے ساتھ غالب بھی اسی زمانے میں بھرت پور گئے ہوں گے۔ 6 دسمبر کو مٹکاف متھرا پہنچااور کمانڈر انچیف لارڈ کمبر میئرکی فوجوں سے مل گیا25۔18جنوری 1826کو ایک بڑے قتلِ عام کے بعد بھرت پورمیں انگریزوں کو ’شاندار کامیابی‘ حاصل ہوئی۔26
اس مقام پر رائے جھج مل کے نام غالب کاایک اور خط غورطلب ہے۔جیساکہ اس کے مضمون سے منکشف ہوتاہے یہ خط فتحِ بھرپور کے بعد فیروزپور سے لکھا گیاتھا۔ نواب احمد بخش خاں کی واپسی میں تاخیر ہونے کی وجہ سے غالب اس وقت بھی بڑی کشمکش اور بیچارگی میں مبتلا تھے۔ رائے جھج مل، غالب کے دیگر دوستوں کی طرح نواب احمدبخش خاں کے ہمرکاب تھے۔ لہٰذا غالب نے اپنی پریشاں خاطری کا حال لکھ کر ان سے یہ معلوم کرنا چاہاتھاکہ نواب احمد بخش خاں فیروزپور کب واپس آرہے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
”ہرچند در وطن نیم اماقربِ وطن نیز قیامت است۔ ہنوز بااہلِ کاشانہ راہِ نامہ و پیام داشت۔ ہرچہ دیدہ میشود آشوبِ چشم بود و ہرچہ شنیدہ میشود زحمتِ گوش است۔ نیم جانی کہ ازاں ورطہ بروں آوردہ ام ودیعتِ خاکِ فیروزپور است کہ مراایں ہمہ اقامتِ اضطراری اتفاق افتاد و مرگی کہ منش بہزار آرزواز خدامیخواہم مگر ہمدریں سرزمین موعوداست کہ ایں قدردرنگ درافتادگیہا روداد۔ ہرچہ از اخبارِ معاودتِ نواب شنیدہ میشود راہی بحرف مدعا ی ِمن ندارد چہ سربسر آں افسانہ نکبتِ الوریاں و آرائش صفوفِ قتال وازگوں۔ گشتن کارہاے اعداد درست آمدن فال سگالانِ دولت فخریہ است۔ کلمہ¿ مختصر یکہ نواب صاحب دراینقدر عرصہ رونق افزایِ فیروزپور خواہند گشت از کسی شنیدہ نمیشود و دلِ مضطرتسلّی نمی پذیر و دوستانیکہ در رکابِ نواب صاحب اند وازین جملہ آں مہرباں بصفتِ اسد نوازی غالب پروری بیشتراز بیشتر متّصف اند واماندگانِ تنگنائے اضطراب بسلامی یاد نمی فرمایند خدارا کرم نمایند۔ واز تعیّنِ زمانِ معاودت رقم فرمایند۔“26
اگرغالب کایہ خط فتح بھرت پور اور نواب احمد بخش خاں کے فیروزپور واپس آنے کے درمیانی زمانے کاہے تو اس سے قیاس کیا جاسکتاہے کہ غالب نواب احمد بخش خاں سے پہلے بھرت پور سے فیروزپور واپس آگئے تھے اور اس صورت میں انہیں نواب احمد بخش خاں کے فیروزپور واپس آنے کاشدت سے انتظار تھا۔
بھرت پورسے سرچارلس مٹکاف کے دہلی واپس آنے کی صحیح تاریخ کاتو علم نہیں لیکن جان ولیم کے مطابق بھرت پورمیں انتظامات مکمل کرلینے کے بعد گرم ہواو¿ں کے آغاز نے ان کو لازمی طورسے دہلی واپس آنے پر مجبور کیا۔27غالب کی درخواست کے مطابق واپسی میں وہ تین دن فیروزپور میں بھی رہے تھے۔ غالب اس وقت فیروزپورمیں تے اور چونکہ نواب احمد بخش خاں نے خلافِ وعدہ غالب کا ان سے تعارف نہیں کرایاتھااس لےے ان کے دہلی جانے کے بعد وہ نواب احمد بخش خاں سے بالکل مایوس ہوچکے تھے28۔ چنانچہ خاتمہ¿ ’گل رعنا‘کی روسے مارچ 1826 یا اس کے آس پاس غالب کا فیروزپور سے دہلی واپس آجانا یقینی ہے۔
آغامیرکی مدح کی نثرکی تاریخ کے لےے دہلی سے غالب کی روانگی سے زیادہ لکھنو¿ میں ان کے قیام کے زمانے کا تعیّن اہمیت رکھتا ہے لیکن اس سلسلے میںبھی اب تک رائے جھج مل کے نام ان کے ایک خط اور بعض قرائن سے صرف اتنا ثابت ہے کہ وہ ذیقعدہ 1242ھ (جون 1827ئ) میں لکھنو¿ میں تھے اور 26 ذیقعدہ1242ھ جو جمعہ کے دن وہاں سے روانہ ہوکر 29 ذیقعدہ1242ھ کو کانپور پہنچے تھے، نیز یہ کہ کانپور سے باندے اور پھر کلکتے جانے کاارادہ تھا29۔اس روشنی میں اگر آغامیر کی مدح کی نثرکی تاریخِ تصنیف2 محرم الحرام1242ھ فرض کی جائے تو لکھنو¿ میں ان کے قیام کا زمانہ جیساکہ شیخ محمد اکرام نے صراحت کی ہے تقریباً گیارہ ماہ ہوجاتاہے30۔مولانا غلام رسول مہرکے نزدیک یہ امر مستبعد ہے اور زیادہ قرینِ قیاس یہ ہے کہ غالب 26ذیقعدہ 1242ھ (27جون 1828ئ) کو لکھنو¿ سے جانے کے بعد آغامیرکے دربار میں باریابی کی توقع میں کانپور سے پھر لکھنو¿ واپس آئے اور انہوں نے2 محرم الحرام1243ھ (26 جولائی1827) کو یہ نثر سرانجام دی31۔مالک رام صاحب جب دہلی سے غالب کی روانگی کی تاریخ نومبر، دسمبر1826 قرار دیتے ہیں تو اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ وہ نثرکی تاریخ کے سلسلے میں مولانا مہرکے ہم خیال ہیں۔ لیکن ایک تو لکھنو¿ سے چل دینے کے بعد دوبارہ غالب کے وہاں جانے کے لےے کوئی ثبوت موجود نہیں، دوسرے رائے جھج مل کے نام ان کے جس خط کی بناپر لکھنو¿ سے ان کی روانگی کی تاریخ 26 ذیقعدہ1242ھ (27جون 1827) قرار پاتی ہے اسی میں انہوں نے آغامیرکاذکر بڑی حقارت سے کیاہے اور اشارةً ان سے شرفِ ملاقات حاصل نہ ہونے کے اس واقعے کابھی ذکرکیاہے جوان کے ساتھ پیش آیا تھا:
”خلاصہ¿ گفتگو ایں کہ اعیانِ سرکار لکھنو¿ بامن گرم جوشید ندانچہ درباب ملازمت قرار یافت خلاف آئینِ خویشتن داری وننگ شیوہ¿ خاکساری بود۔ تفصیل ایں اجمال جزبہ تقریر ادا نتواں کردہرچہ درآں بلاد از کرم پیشگی و فیض رسانیِ ایں گدا طبع سلطان صورت یعنی معتمدالدّولہ آغامیرشنیدہ مشیود بخداکہ حال برعکس است“ 32
ان حالات میں نثر پیش کرنے کے لےے ان کے دوبارہ لکھنو¿ جانے کا کوئی امکان نہیں تھا۔
درخواست کے مطابق غالب گورنر جنرل کے ورود کی خبر پھیلنے کے بعد کانپور روانہ ہوئے تھے اور جب گورنر جنرل کانپورمیں وارد ہوئے تو وہ لکھنو¿ میں صاحب فراش تھے:
”انہی دنوں نواب گورنر جنرل بہادرکے ورود کی خبر پھیلی۔ یقین تھاکہ سرچارلس مٹکاف بھی ان کی پذیرائی اور استقبال کے لےے جائیںگے۔ لہٰذامیں نے فیصلہ کیاکہ کانپور جاو¿ں اور وہاں سے ان کی معیّت میں واپس آو¿ں اور راستے میں کسی مناسب موقع پر ان کی خدمت میںحاضر ہوکر اپنی مصیبت اور بے بسی اور قرض کاسارا افسوسناک احوال ان سے کہوں اور انصاف کا طالب ہوں۔
غرض میں اس ارادے سے فرخ آباداور کانپور کی طرف روانہ ہوگیا۔ بدقسمتی سے جوں ہی کانپور پہنچا میں یہاں بیمارپڑگیا، یہاں تک کہ ہلنے جلنے کی سکت بھی جاتی رہی۔ چونکہ اس شہرمیں ڈھنگ کاکوئی معالج نہیں ملا اس لےے مجبوراً ایک کرائے کی پالکی میں گنگاپارلکھنو¿ جانا پڑا۔یہاں میں پانچ مہینے سے کچھ اوپر بستر پر پڑا رہا۔ یہیں میں نے نواب گورنر جنرل بہادرکے ورود اور بادشاہِ اودھ کے ان کے استقبال کو جانے کی خبر سنی۔ لیکن ان دونوں میں چارپائی سے اٹھنے تک کے قابل نہیں تھا۔ غرض کہ لکھنو¿ کی آب و ہوابالکل میرے راس نہیں آئی۔33
لارڈایمہرسٹ جو اس زمانے میں گورنرجنرل تھے4 اگست 1826 ءکو کلکتے سے روانہ ہوئے تھے۔ بھاگل پور، غازی پور، رام نگر، مرزاپور، الٰہ آباد اور فتح پور ہوتے ہوئے 18نومبر 1826ءکو وہ کانپور پہنچے 20 نومبر کو بادشاہِ اودھ (غازی الدین حیدر) نے ان سے ماقا ت کی۔ دوسرے دن انگریزوں نے بادشاہِ اودھ سے جوابی ملاقات کی یکم دسمبرکو یہ قافلہ لکھنو¿ پہنچااور سال کے اختتام پر برطانوی علاقعے میں واپس آگیا۔ 8 جنوری1827کو اس کاورود آگرے میں ہوا۔34 چونکہ غالب گورنر جنرل کے ورودکی خبر پھیلنے پر کانپورکی طرف روانہ ہوئے تھے اس لےے قیاس کیاجاسکتاہے کہ وہ دہلی سے جولائی 1826 میں روانہ ہوئے ہوں گے۔ لارڈ ایمہرسٹ کے کانپور پہنچنے کی تاریخ معلوم ہونے سے اس میں کوئی شبہہ نہیں رہتاکہ وہ 18 نومبر 1826 کو نہ صرف یہ کہ لکھنو¿ میں تھے بلکہ وہاں کافی پہلے سے ٹھہرے ہوئے تھے اور وہ تمام قیاسات جن میں نومبر 1826 کے بعد دہلی سے ان کی روانگیِ سفر بیان کی گئی ہے مطلقاً ردہوجاتے ہیںچونکہ وہ 26 ذیقعدہ 1242 ھ (27جون 1827) کو لکھنو¿ سے کانپور چلے گئے تھے اور ان کے دوبارہ لکھنو¿ جانے کے بارے میں کوئی اشارہ موجود نہیں اس لےے یہ بھی یقینی ہے کہ آغامیر کی مدح کی نثر انہوں نے2 محرم الحرام 1242ھ (5 اگست 1826) کو مکمل کی تھی۔
ان مباحث کا ماحصل یہ ہے کہ غالب اپریل 1825 کے لگ بھگ فیروزپور گئے تھے۔اسی زمانے میں انہوں نے مولوی فضل حق کے نام صنعتِ تعطیل میں اپنا فارسی خط لکھا۔ نومبر 1825 میں انہوں نے نواب احمد بخش خاں کے ساتھ بھرت پورکاسفرکیااورمارچ 1826 سے کچھ قبل فیروزپور آگئے بھرت پورجانے کی تیاری میں اگر وہ نہایت عجلت میں فیروزپورسے دہلی آئے تھے تو اس سے اس سفرکے سلسلے کو منقطع نہیں کیا جاسکتاجوکلکتے روانہ ہونے سے پہلے فیروزپور کا آخری سفر تھا۔ تقریباً ایک سال کے بعد غالب مارچ 1826 میں کانپور روانہ ہوئے اور جلدہی لکھنو¿ پہنچ گئے جہاں انہوں نے 2 محرم الحرام 1242ھ (5اگست 1826) کو صنعت تعطیل میں آغامیر کی مدح میں فارسی نثر سرانجام دی۔ نومبر 1826 سے جون 1827(ذیقعدہ1242ھ) تک تقریباً آٹھ ماہ وہ یقینی طورپر لکھنو¿ میں تھے۔ جس طرح انہوں نے اپنی درخواست میں مصلحةًکلکتے کے سفر سے پہلے فیروزپورسے دہلی آنے کااظہارنہیں کیااسی طرح ان کایہ بیان کہ وہ لکھنو¿ میںپانچ ماہ سے کچھ اوپر مقیم رہے کسی مصلحت پر مبنی ہے اور جب ان کے بیان کے برخلاف لکھنو¿ میں ان کے قیام کی مدّت کم سے کم آٹھ ماہ ثابت ہے تو یہ مدّت ایک سال بھی تسلیم کی جاسکتی ہے۔
مالک رام صاحب کا قیاس ہے کہ خواجہ حاجی نے غالب کے خسر نواب الٰہی بخش خاں معروف کے انتقال (1826۔1242ھ) کے شاید ایک ہی سال پہلے وفات پائی تھی35۔سید اکبر علی ترمذی نے غالباً اسی بناپر یہ لکھ دیا ہے کہ خواجہ حاجی کاانتقال 1825 میں ہوا36۔خاندانی پنشن کے سلسلے میں غالب کی باقاعدہ کوشش کا آغاز خواجہ حاجی کی وفات سے قبل ممکن نہیں لیکن غالب کے بعض سوانح نگاروں کا یہ خیال درست نہیں کہ اس کی نوبت نواب الٰہی بخش خاں معروف کی وفات کے بعد آئی۔ 1242ھ یعنی معروف کا سالِ وفات اگست 1826 سے شروع ہوکر جولائی 1827 میں ختم ہوا تھا۔ موجودہ تفصیلات سے ثابت ہوتاہے کہ انہوں نے نہ صرف اپنی کوششیں اس سے قبل ہی تیز کردی تھیں اور کلکتے جانے کاارادہ کرلیاتھابلکہ وہ اس سے پہلے دہلی سے روانہ ہوچکے تھے۔ تعجب ہے کہ اثنائے سفرکے کسی خط میں انہوں نے معروف کی وفات کاذکرنہیں کیا۔ اس کے علاوہ کلکتے میںایک طرف تو وہ اس بنیادپر چارہ جوئی کر رہے تھے کہ فیروزپور سے دہلی جانا ان کے لےے ممکن نہ تھا اور دوسری طرف خاتمہ¿ ’گلِ رعنا‘ میں یہ لکھ رہے تھے کہ وہ فیروزپورسے دہلی واپس آئے تھے۔ فیروزپور سے دہلی واپس آنے کے تقریباً پانچ ماہ کے بعدوہ کلکتے کے لےے روانہ ہوئے تو اس مدت پر بھی خاتمہ¿ ’گلِ رعنا‘کایہ فقرہ کہ ”روزگاری دراز بہ خاک نشینی سپری شد“ پوری طرح منطبق نہیںہوتا۔لیکن ان وجوہ سے اگر غالب کے سفروحضرکے بعض مراحل کے تعینِ زمانی میں کچھ شکوک باقی رہ جاتے ہیں تو انہیں نئی معلومات او رمآخذ کی دستیابی کے بغیر دور نہیں کیا جاسکتا۔ محقق کے لےے دستیاب مواد کے حدود کاادراک اوراپنی تلاشِ نارساکا اعتراف ضروری ہے۔ غیر تحقیقی قیاس آرائی سے بات بٹھانے کے رجحان نے غالبیات میں ایسے گل کھلائے ہیں کہ اب اس سے جتنا اجتناب برتاجائے اتناہی بہتر ہے۔

(’غالبیات اور ہم ‘ازابو محمد سحر)

حواشی:
1۔ دیکھےے نامہاے فارسیِ غالب،مرتبہ سید اکبر علی ترمذی،ص11-15
2۔غالب نامہ،طبع دوم، ص25
3۔غالب از مہر، طبع سوم، ص92
4۔گل رعنامرتبہ¿ مالک رام، مقدمہ،ص7
5۔دیکھےے نامہائے فارسی غالب مرتبہ سید اکبرعلی ترمذی، مقدمہ¿ انگلیسی، ص21 اور گل رعنامرتبہ سید وزیرالحن عابدی، مقدمہ، ص50
6۔گل رعنامرتبہ سید وزیرالحسن عابدی، مقدمہ، ص50
7۔کلیاتِ نثرِ غالب،کانپور، 1888،ص64-65
8۔ذکرِ غالب کچھ نئے حالات از مالک رام، افکار، غالب نمبر، 1969، ص46 تا54 اور ذکر غالب از مالک رام، طبع چہارم، ص 60تا69
9۔ذکر غالب، کچھ نئے حالات از مالک رام، افکار، غالب نمبر، 1969، حاشیہ، ص51
10۔غالب کا سفر کلکتہ از ڈاکٹر محمود الٰہی، اردو، کراچی، شمارہ خصوصی بیادِ غالب، حصہ دوم، 1969، ص83 تا88 نیز کتاب، لکھنو¿، اکتوبر 1969، ص29 تا 31
11۔ملاحظہ ہو نامہاے فارسیِ غالب،10
12۔ذکر غالب کچھ نئے حالات، افکار، کراچی، غالب نمبر، ص49،50
13۔ کلیات نثر غالب،ص64
14۔کلیات نثر،غالب،ص159
15۔ذکر غالب کچھ نئے حالات، افکار، غالب نمبر،1969،ص51
16۔کلیات نثر غالب،ص158
17۔نامہ ہاے فارسی غالب، مقدمہ انگلیسی،ص32
18۔ The cambride history of India, vol. V. second indian print, 1963, p. 577
19۔ Selections from the papers of lord Metcalfe by Jhon William Kaye
ذکرِ غالب،ص 61کے مطابق آکٹرلونی کاانتقال 15جولائی 1825 کو ہوا۔
20۔کلیاتِ نثر غالب،ص64
21۔ایضاً،98-99
22۔کلیات نثر غالب،ص64
23۔ایضاً،ص4
24۔The life and corespondence of charles, lord netcalfe by Jhon Willian Kaye, Vol. II, 1858, p. 139
25۔The life and correspondence of Charles, Lord Metcalfe, Vol. II, p. 156.
26۔ کلیاتِ نثر غالب،ص155-156
27۔The life and correspondence of Charles, Lord Metcalfe, Vol. II, p. 156.
28۔ذکر غالب کچھ نئے حالات، افکار، غالب نمبر، 1969،ص50
29۔کلیاتِ نثر غالب، ص158۔ خط میں سنہ درج نہیں ہے لیکن غالب 1243ھ سے پہلے لکھنو¿ پہنچ گے تھے۔ اس لےے یہ واقعات لازمی طورپر 1242ھ سے متعلق ہیں۔
30۔غالب نامہ،ص25
31۔غالب،ص92
32۔کلیاتِ نثرِ غالب،ص157۔ An Oriental Biographical Dictionaryمیں معتمدالدولہ آغامیرکی معزولی کاسنہ 1826 درج ہے جس کا اعادہ نامہاے فارسیِ غالب (مقدمہ¿ انگلیسی۔ص21) میں بھی کیاگیاہے۔
33۔ذکرِ غالب، کچھ نئے حالات، افکار، غالب نمبر، 1969،ص50
34۔Lord Amherst By Mrs. Thackery Ritchie and Mr. Richardson Evans, pp. 176,177,179 and 180 and A Comprehensive History of India by Henry Beveridge, Vol. III, pp. 187-188
35۔ذکرِ غالب، ص57-58 ۔ مالک رام صاحب نے معروف کا سالِ وفات گلشن بے خار، ص184 کے حوالے سے درج کیاہے۔ گلشنِ بے خارمیں صرف 1242ھ ہے اور یہی سنہ ہجری بزمِ سخن مرتبہ¿ سید علی حسن خاں (ص106) اور این اورینٹل باﺅگرافیکل ڈکشنری مرتبہ¿ ٹامس ولیم بیل (ص244) میںبھی ملتاہے۔
36۔نامہاے فارسیِ غالب، مقدمہ¿ انگلیسی،ص19

عہدِ جدید میں غالب

نیر مسعود

عہدِ جدید میں غالب

1969 
میں غالب صدی تقریبات عالمی پیمانے پر منائی گئیں جن کے نتیجے میں غالب کی شہرت کا دائرہ دیکھتے دیکھتے نہایت وسیع ہوگیا۔اسی کے ساتھ غالب اور اُن کے فن سے ہماری واقفیت کا دائرہ بھی وسیع ہوا۔ اِن تقریبات کے دوران غالب کی شخصیت اور فن کے اُن گوشوں پربھی روشنی پڑی جن پر ابھی تک زیادہ بالکل غور نہیں ہواتھا۔ اب یہ غالب کے فن کی قوت اور اُن کی شخصیت کے پیچ و خم کا کرشمہ تھاکہ سیکڑوں کتابیںاور ہزاروں مضمون مل کربھی اُن کو کسی دائرے میں گھیر نہیں سکے، البتہ ان مطالعوں نے غالب کوہمارے ذہنوں سے قریب تر کردیااور انہیںبہت سے ایسے ذہنوں تک بھی پہنچا دیاجن کو عام حالات میں غالب سے مانوس ہونے کا موقع شاید نہ ملتا۔ یہ غالب کی تازہ مقبولیت کی ایک صورت تھی جو غالب صدی کے ذریعے انہیں حاصل ہونے والی شہرت کی آوردہ تھی۔ لیکن شہرت بالعموم دیرپا مقبولیت کی ضمانت نہیں ہواکرتی۔غالب کی یہ تازہ مقبولیت بھی ایک حد تک عارضی تھی اور اس کا بڑا حصہ غالب صدی کی ہماہمی ختم ہونے کے بعد زائل ہوگیا۔
اس ہنگامی مقبولیت کے متوازی غالب کی وہ استمراری مقبولیت ہے جو اُن کے دورانِ حیات سے لے کر آج تک چلی آرہی ہے، اگرچہ یہ خیال آج بھی بعض ذہنوں میں راسخ ہے کہ غالب کے اپنے عہدنے اُن کی قدر نہیں کی۔یہ غلط فہمی (غالب کے بارے میں بیشتر دوسری غلط فہمیوں کی طرح خود غالب کی پھیلائی ہوی ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اُن کو اپنی زندگی ہی میں جتنی مقبولیت حاصل ہوگئی تھی اتنی اقبال کے سواشاید کسی اور اُردو شاعرکو جیتے جی ہاتھ نہ آسکی۔
ظاہر ہے اس استمراری مقبولیت کی بنیاد غالب کی شاعری پر قائم ہے جس کی مختلف خصوصیتیں مختلف زمانوں اور مختلف حلقوں میںان کو اردوکاصفِ اوّل کا شاعر تسلیم کراتی رہیںاور ایک مدت تک غالب کویہ امتیاز حاصل رہاکہ اردوکے کسی اہلِ قلم پر اُن سے زیادہ کتابیں اور مضامین نہیں لکھے گئے(اب اس خصوص میں اقبال غالب سے آگے ہیں)۔
لیکن غالب کی شاعری میں کچھ عناصر ایسے بھی ہیں جن کی موجودگی میں یہ شاعری مجموعہ¿ اضداد نظر آنے لگتی ہے اوریہ ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ جو شاعرایسے شعرکہہ سکتا ہو:

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ توکیا ہے
تمھیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے

زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی
کیوں ترا راہ گزر یاد آیا

تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پُرزے
دیکھنے ہم بھی بھی گئے تھے، پہ تماشا نہ ہوا

میں نے کہا کہ ”بزمِ ناز چاہےے غیر سے تہی“
سُن کے ستم ظریف نے مجھ کو اُٹھا دیا کہ یوں!

پُر ہوں میںشکوے سے یوں راگ سے جیسے باجا
اک ذرا چھیڑےے پھر دیکھےے کیا ہوتاہے
اُسی شاعر نے ایسے شعر بھی کہے ہیں:
عشق بے ربطیِ شیرازہ¿ اجزاے حواس
وصل زنگارِ رُخِ آئنہ¿ حسنِ یقیں

بے خونِ دل ہے چشم میں موجِ نگہہ غبار
یہ مے کدہ خراب ہے مے کے سراغ کا

بے خودی بسترِ تمہیدِ فراغت ہو جو
پُر ہے سائے کی طرح میرا شبستاں مجھ سے

ہے کُشادِ خاطرِ وابستہ در رہنِ سخن
تھا طلسمِ قفلِ ابجد خانہ¿ مکتب مجھے

معلوم ہوا حالِ شہیدانِ گزشتہ
تیغِ ستم آئینہ تصویر نما ہے
بلکہ یہی شاعر ایسے شعربھی کہہ چکاتھا:
کرتی ہے عاجزی سفرِ سوختن تمام
پیراہنِ خَسَک میں غُبارِ شرر ہے آج

جوہرِ آئینہ فکرِ سخن موے دماغ
عرضِ حسرت پسِ زانوے تامّل تاچند

کرے ہے لطفِ اندازِ برہنہ گوئی خوباں
بہ تقریبِ نگارش ہاے سطرِ شعلہ یاد آتش

چشمِ پرواز و نفس خفتہ، مگر ضعفِ امید
شہپرِ کاہ پےِ مُژدہ رسانی مانگے

نگہہ معمارِ حسرت ہاچہ آبادی چہ ویرانی
کہ مژگاں جس طرف وا ہو بہ کف دامانِ صحرا ہے
عرصے تک اُردو کا تنقیدی مزاج اور ہمارا ادبی مذاق غالب کے اس کلام سے ہم آہنگ نہ ہوسکا۔ یہاں غالب نے نامانوس ،خلافِ محاورہ اور فارسی نمااُردو میں پیچ در پیچ استعاروں کے ذریعے ایسے غریب مضامین باندھے اور ایسے انوکھے شعری پیکر خلق کےے تھے جن کا ہماری مانوس دنیاکی حقیقتوں سے بہ ظاہر کوئی تعلق نہ تھااوراسی وجہ سے ان شعروں کو مشکل اور مبہم ہی نہیں، مہمل کہہ کربھی مستردکیا جاتاتھا۔ خود غالب نے معذرت کے انداز میں اِن ’مضامینِ خیالی‘ سے ا پنی وقتی دل بستگی کا اعتراف کیااو ریہ اعلان بھی کیاکہ بعدمیں وہ راہ راست پر آگئے۔ اپنے شعری روےے میں تبدیلی کامزیداور مستحکم تر ثبوت انھوں نے اس طرح فراہم کیاکہ اپنابہت سا کلام خود مسترد کردیااور کہاکہ انھوں نے اپنے اس قسم کے شعروں والے ابتدائی ”دیوان کو دور کیا،اوراق یک قلم چاک کےے، د س پندرہ شعر واسطے نمونے کے دیوانِ حال میں رہنے دےے“۔ اپنے اس منتخب اور متداول دیوانِ حال کے دیباچے میں غالب نے یہ بھی اعلان کردیاکہ جو شعراس دیوان میں شامل نہیں ہیں انہیںمیرے ”آثارِ تراوشِ رگِ کلک“ میں نہ سمجھا جائے اور مجھ کو ان شعروں کی تحسین سے ممنون اور تنقیص میں ماخوذ نہ کیا جائے۔
اس طرح غالب نے وقتی طورپر ادبی دنیاکوایک بہت بڑے مغالطے میں ڈال دیا۔ وہ یہ کہ اُن کا وہ مشکل کلام، جسے سہولت کی خاطر ’بیدلانہ‘ کلام کہا جاسکتاہے، عمدہ اور اصلی شاعری کے معیار پر پورانہیں اُترتا، اور خود غالب کے اعلانِ برا¿ت کے بعد قابل اعتنا نہیں رہ جاتا۔ یہ سراسر آوردکی شاعری ہے جس کے پسِ پُشت شاعرکے حقیقی جذبات و خیالات کارفرما نہیں ہیں اوریہاں غالب مناسب پیرایہ¿ اظہار میں عام انسانی واردات کی عکاسی کرنے کے بجاے اپنے غیر معتدل اور پیچیدہ ذہن کی بھول بھلیاں میں بھٹکنے لگے ہیںاور کم عمری کی وجہ سے عجزِ بیان کاشکارہوئے ہیں۔
لیکن عہدِ جدید میں یہی کلام غالب کی مقبولیت کاتازہ سبب بنااور جن عناصرکی بناپر ابھی تک اسے لائقِ اعتنانہیں سمجھا گیاتھاانہیںعناصر نے اسے جدید ذہن کے لےے سب سے زیادہ قابلِ توجّہ اور قابلِ قبول ٹھہرایا۔ اس انقلاب کا بڑا سبب اُرد ادب میں جدیدیت کا فروغ اور اس سے وابستہ تنقیدی نظریات ہیں۔ ان نظریات کے تحت شعرمیں اظہار و ابلاغ کے مسائل خاص طورپر زیرِ بحث آئے اور جدید نقادوں نے جن امورپر زوردیاوہ مجملاً یہ ہیں:
ضروری نہیں کہ شعرکے جو معنی شاعرکے ذہن میں ہوں وہی قاری کی بھی سمجھ میں آئیں۔ مکمل ابلاغ، یعنی بات کواس طرح کھول کر کہہ دیناکہ وہ فوراً اور پوری کی پوری واضح ہوجائے، شعرکی خوبی نہیں۔ شعرکی خوبی یہ ہے کہ اسے سمجھنے کے بعدبھی اس میں کچھ مفاہیم باقی رہ جانے کااحساس ہو۔کسی بھی کلام کو یقین کے ساتھ مہمل نہیں کہا جاسکتا، علی الخصوص مبہم کلام کو۔ ابہام شعرکا عیب نہیں، حسن ہے۔ مبہم شعر ٹھیک سے سمجھ میں نہ آنے کے باوجود اچھامعلوم ہو سکتا ہے اور مختلف النّوع تاثّر پیدا کرسکتاہے۔ شعرکی زبان کو زیادہ سے زیادہ غیر رسمی اور نثرکی زبان سے زیادہ سے زیادہ دُور ہونا چاہےے۔ بالواسطہ، استعاراتی اور علامتی پیرایہ شعرکابہترین پیرایہ ہے، وغیرہ۔ مثالیں دینے کی ضرورت نہیں، ان کے بغیربھی سمجھا جاسکتاہے کہ یہ سارے تنقیدی خیالات غالب کے بیدلانہ کلام کاجواز فراہم کر رہے ہیں، درحالے کہ اِن کا اصل مقصد جدید شاعری کاجواز فراہم کرنااور اُن الزاموں کارفع کرناتھاجو شروع میں جدید شاعروں پر بہ کثرت وارد ہو رہے تھے اور جن کا لُبِّ لباب یہ ہے کہ ان شاعرو ںکے کلام کا بیشتر حصہ چیستانی، مبہم، بلکہ مہمل ہے، انہیں زبان کے استعمال کا سلیقہ نہیں اور وہ مطابقِ محاورہ فصیح زبان کے بجائے مصنوعی اور نامانوس زبان استعمال کرکے عجزِ بیان کا ثبوت دے رہے ہیں۔ یعنی جدید شاعروں کوبھی انہیں اعتراضوں کا سامنا کرناپڑاجن سے غالب دوچار ہوئے تھے۔اس طرح فطری طورپر غالب جدید شاعروں اور نقادوں کے مزاج کے قریب آگئے اور اُن کی استمراری مقبولیت نے عہدِ جدید میں اپنے لےے تازہ اسباب پیدا کرلےے۔ لیکن اس سے یہ غلط فہمی نہ ہوناچاہےے کہ عہدِ جدید کاذہن غالب کے صرف بیدلانہ شعروں کی بناپر اُن کو پسند کرتاہے۔ یہ ذہن اِن شعروں کو قبول کرتااور لائقِ تحسین مانتاہے اگرچہ اُسے اِن شعروں کی بناپراُن کو پسند کرتاہے۔ یہ ذہن اِن شعروں کو قبول کرتااور لائقِ تحسین مانتاہے اگرچہ اُسے اِن شعروں کے مفاہیم روشن نہ ہونے کا اعتراف بھی ہے، لیکن اِن شعروں سے قطع نظر غالب کے نسبتہً صاف اور سہل شعروں نے بھی عہدِ جدید کے سیاق و سباق میں نئی معنویت پیدا کرلی ہے اور مجموعی حیثیت سے بھی نیاعہد دوسرے تمام کلاسیکی شاعروں سے زیادہ غالب کو اپنے ذہن کے قریب پاتااور غالب کو جدید ذہن کا مالک جانتاہے۔ اس لےے کہ تفکر، تشکیک اور ناآسودگی کے احساس کی وہ صورتیںجو عہدِ جدید کاخاصّہ ہیں، غالب کے یہاں بھی مل جاتی ہیں۔ اسی لےے شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:
”اُردو کے تمام بڑے شاعروں میںغالب سے زیادہ ذاتی اور کائناتی المےے کااحساس کسی کونہیں تھااور بیسویں صدی کے ذہن کی جیسی پیش آمد (Anticipation)غالب کے یہاں ہے ویسی بیسویں صدی کے بھی بہت سے شعراکونصیب نہیںہوی۔“
دوسرے جدید نقادبھی فاروقی کے ہم نوا ہیں۔ اس سلسلے میں غالب کے بہت سے ایسے شعر عہدِ جدید کے ادبی پیش منظرپر روشن ہوئے جن کواس سے قبل زیادہ توجہ کا مستحق نہیں سمجھا گیاتھا،مثلاً:
ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
کوئی آگاہ نہیں باطنِ ہم دیگر سے
ہے ہراک فرد جہاں میں ورقِ ناخواندہ
دیر و حرم آئینہ¿ تکرارِ تمنا
واماندگیِ شوق تراشے ہے پناہیں
ہوں گرمیِ نشاطِ تصوّر سے نغمہ سنج
میں عندلیبِ گلشن ناآفریدہ ہوں
ہجومِ سادہ لوحی پنبہ¿ گوشِ حریفاں ہے
وگر نہ خواب کی مضمر ہیں افسانے میں تعبیریں
آخر میں اس نئی صورتِ حال کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ عہدِ جدید میں غالب نے بیرون ِ ملک بھی ذہنوں کو متاثرکیاہے اور اس اثراندازی کے اسباب غالب کی شخصیت اور شاعری ہی کی طرح مختلف بلکہ متضاد ہیں۔ روسی نقّاد غالب کا مطالعہ کرتے ہیں توانہیں سماجی شعور، عوام دوستی اور سامراج دشمنی میں اپنے معاصروں سے آگے پاتے ہیں۔جدید امریکی شاعرہ ایڈرین رِچ کو جب غالب کی کچھ غزلوں کے انگریزی ترجمے دےے گئے تو اُسے ان غزلو میں خیال کے ارتکازاور ہمہ گیری کی بہ یک وقت موجودگی نے حیران کردیا۔ اُس نے ان اشعار کے مضامین کو انگریزی میں نظم کیااور اعتراف کیاکہ غالب کے شعروں کو انگریزی نظم کے سانچے میں ڈھلنے کے لےے اُسے ایسے واضح نقوش اور پیکر تیار کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی جن کے پیچھے پرچھائیوں، بازگشتوں اور عکس در عکس کاایک سلسلہ موجودہو،اور ان نظموں کااجمال اورچُستی مغربی قارئین کو جاپانی ہائکو، یاالگزنڈرپوپ یایونانی شاعری کی بیتوںکے اجمال اور چستی سے بالکل مختلف ہو۔
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عہدِ جدید میں غالب کی مقبولیت نے اپنے لےے نئے میدان تلاش کرلےے ہیں اور آئندہ زمانوں میں بھی غالب کاانتظار کر رہی ہے۔

مرقع چغتائی

محمد عبدالرحمن چغتائی

مرقع چغتائی

غالب کے مصور نسخہ کی داستان تخلیق

            غالب کے مصور ایڈیشن، مرقع چغتائی کی تخلیق کے سلسلے میں اس سے قبل بھی کچھ گزارشات پیش کرچکا ہوں اور اس موقع پر بھی چند نئے اضافوں اور وضاحتوں کے بعد یہی داستان دہراتا ہوں۔ اس عظیم اور فنی پیش کش کی اہمیت پر اس بیان سے بھی کافی روشنی پڑے گی۔

            میری زندگی اورمیرے فن کی داستان میں 1919 بہت اہم سال ہے۔ یہ سال وہ ہے جب میرے فن کی ابتدا ہوئی۔ یہی زمانہ ہے جب مجھے اپنے مستقبل سے روشناس ہونے کا موقع ملااور یہ احساس زندگی کاجزو بن گیا۔ احساس یہ تھا کہ مجھے آئندہ ایک بڑا فنکار بننا ہے اور اسی کے لیے  جینا ہے۔ یہ خودی کی بیداری تھی۔ اس سے قبل میں کچھ افسانے اور کہانیاں بھی لکھتا تھا اور اب بھی لکھتا ہوں، لیکن یہ محض ایک شوقیہ مشغلہ تھا اور ہے۔

            1924 میرے امتحان اور خود اعتمادی کی آزمائش کا سال تھا اور اس کے اظہار کاموقع بھی پیدا ہوا۔ میں ان دنوں میو اسکول آف آرٹ لاہورمیں ایک انچارج کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ اس عہدہ سے جب گلوخلاصی کی نوبت آئی تو اس وقت میں رخصت پر تھا۔ چھٹیاں گزار کر جب ادارے میں واپس آیاتو کالج کے پرنسپل سے آمنا سامنا ہوا۔ یہ ایک انگریز افسر تھا۔ فنکار اور منتظم بھی بہت اچھا تھا۔ اس نے مجھ پر ظاہرکیا کہ چھٹیوں کے دوران میں سنیما دیکھتا رہاہوں!۔ یہ ایک چغل خور کی حرکت تھی۔ چغل خور کون تھا، میں اس کو اچھی طرح جانتا تھا۔ یہ شخص میری فنی کامیابی اور ہردلعزیزی کو دیکھ دیکھ کر جلتا تھا اور میرے پیچھے پڑا ہوا تھا اورایسے موقع کی تلاش میں تھا کہ میرے خلاف کان بھرسکے۔ بلکہ مجھے نقصان پہنچنے کا امکان بھی پیدا ہوا۔

            یہ وہ زمانہ تھا کہ میری بنائی ہوئی تصاویر کی نمائش ہو رہی تھی۔”پنجاب فائن آرٹ سوسائٹی“ کی پہلی نمائش ہوئی تو اس میں کام کی غیر معمولی قدر کی گئی۔ کئی تصاویر کم وبیش چھ سات ہزار میں فروخت بھی ہوئیں۔ ان کا بیشتر حصہ ہزہائینس میر صادق عباسی بہاول پورنے خرید فرمایا تھا۔ یہ پہلا فاتحانہ معرکہ تھا۔ جس وجہ سے قدرتاً حاسدوں کابھی ایک گروہ پیدا ہوگیا۔ میں نے موقع پراپنے آپ کو ایسے حاسدوں کے بیچ میں کھڑا ہوا پایا۔ مگر حاسدانہ کوششوں اور کشاکش کے ساتھ حقیقی قدر افزائی نے بھی میری ذات، فن اور مستقبل پر گہرا اثرڈالا۔

            ذکر انگریز پرنسپل کا تھا میں نے اس کے سامنے کہا کہ اطلاع غلط ہے۔ میرے اس انکار پروہ تن گیا کہنے لگا۔ بڑے قابل اعتماد آدمی نے مجھے باوثوق طریقہ پر بتایا ہے اس کی اطلاع غلط نہیں ہے میں نے دہرایا وہ مجھ سے زیادہ تو نہیں ہوسکتا۔ میں اپنے آپ پرکامل اعتماد رکھتا ہوں اور ذمہ دار بھی سمجھتا ہوں۔

            ممکن ہے گفتگو طول پکڑ جاتی لیکن میں بات کو ادھورا چھوڑ کر واپس چلا آیا اور راستے ہی میں اس بات کا فیصلہ کیا کہ ان حالات میں مجھے اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوجانا چاہیے۔ اس خود اعتمادی کی بنا پر ہی میں نے استعفیٰ دے دیا۔ انگریز پرنسپل کے لیے یہ پہلا موقع تھا کہ کسی نے ایسی جرات سے کام لیا۔ میرا استعفیٰ دیکھ کر وہ کچھ پریشان بھی ہوا۔ کالج کے اساتذہ کوبلا لیا اور بڑے خلوص سے سمجھانے لگا کہ میں استعفیٰ واپس لوں۔

            اس نے میرے روشن مستقبل پربھی روشنی ڈالی اور کہنے لگا ہو سکتا ہے تم ایک دن اس انسٹی ٹیوشن کے پرنسپل ہوجاو مگر زیادہ حجت نہ کی اور ایک ماہ کی تنخواہ چھوڑ کر گھر بیٹھ گیا۔ یہ مالی قربانی اس وقت میرے اور میرے خاندان کے لیے معنی رکھتی تھی، بالخصوص اس وجہ سے کہ یہاں تک پہنچنے کے لیے جتنے پاپڑ بیلے تھے، بہت فاصلے طے کیے تھے، بڑی ریاضت اور انتھک کوششیں کرنے کے بعد ہی یہاں تک پہنچا تھا۔

            اس کے بعد میں ملازمت کے پھندے میں کبھی نہ پھنسا ہمیشہ اس جال سے بچ کر نکل گیا۔ خدا کے فضل سے کامیاب، مجھے اس وقت مدراس، حیدرآباد دکن اور میواسکول آرٹ (موجودہ نیشنل آرٹ کالج) کے پرنسپل کی اسامی کے لیے پیش کش کی گئی۔ مگر میں ملازمت کوکبھی ترجیح نہ دے سکتا تھا۔ اس لیے اس طرف سے نفور رہا۔

            ملازمت سے سبکدوشی کے بعد میرے کانوں میں عجیب قسم کی طرح کی پیشنگوئیاں بلکہ بدگوئیاں پڑتی رہیں۔ مگر میں سنی ان سنی کر دیتا تھا۔ صحیح تھا کہ اس وقت میری گھریلو زندگی ان جرات مندانہ اقدام کی اجازت نہ دیتی تھی۔ صرف اس ملازمت واحد کا سلسلہ تھا جس سے زندگی کو سہارا مل رہا تھا۔ مگر آفریں ہے میری محترمہ والدہ کو کہ انہوں نے میری ڈھارس بندھائی اور اس جرات کو میرے حق میں فال نیک قرار دیا اور دعا دی کہ اللہ ہمیں کسی کا محتاج نہ کرے گا۔

            ہم تین بھائی ہیں۔میں بڑاہوں ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی منجھلے اور عبدالرحیم چغتائی سب سے چھوٹے ہیں۔ ڈاکٹر عبداللہ میری اس جرات پر مشوّش تھے۔ ایک طرح عبداللہ کا سوچنا بھی ٹھیک تھا۔ اس کا تعلق حالات کی سفاکی، غربت اور ضروریات زندگی سے تھا۔ بعض اور ذہنی عوامل بھی تھے اور یہ مزاجوں، نیز اقدار زندگی کے باب میں زاویہ نظر کے فرق سے بھی تعلق رکھتا ہے۔

            بہرکیف یہ ان دنوں کی بات ہے جب ویمبلے، انگلستان میں سرکاری اہتمام سے ایک بہت بڑی نمائش فن منعقد ہورہی تھی اور برطانوی نوآبادیات کے فنکار اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔ یہ 1923 کا واقعہ ہے۔ میرے کام کے نمونے بھی اس نمائش میں شریک تھے، بلکہ حصہ لینے والے فنکاروں کی تصاویر میں سب سے زیادہ میری ہی تصویریں تھیں۔ میرے فن کی شہرت اور قدردانی اب اس منزل پر پہنچ چکی تھی کہ کوئی بھی فنکار اس پر فخر کرسکتا ہے۔ خود میرے پرنسپل نے جس سے بعد کو میرا جھگڑا بھی ہوا، میرے فن کا قدردان تھا اور بڑے خوش آہنگ الفاظ میں میرے ہنر پر اظہار خیال بھی کرچکا تھا۔ اس نے سچ کہا تھا کہ میں ایک نئے دبستان فن کا خالق بنوں گا اور اس طرح جدید ہندستانی فن میں ایک نئے ردعمل کی پیشینگوئی کی جاسکتی ہے۔ ان واقعات نے میرے دل پر گہرا اثر ڈالا میں سوچتا تھا مجھے فن کی عظمت کو اونچا لے جانا چاہیے۔ میرے معاشرے میں صدیوں سے جو فنی اقدار نظر انداز کی جارہی ہیں ان کی حفاظت کی ضرورت ہے۔ 1924 میں جب میں نے استعفیٰ دیا تو یہی رجحانات اور محرکات ذہنی تھے جو مجھے اکسا رہے تھے اور میں نے سود و زیاں کے چکروں میں پڑے بغیر مستقبل سے اپنا رشتہ جوڑ لیا۔ عقل محو تماشائے لب بام ہی رہی اور میرا عشق فن سفاک حالات کی آتش نمرود میں بے جھجک کود پڑا۔

            معاش کا چکر، ایک کبھی نہ ختم  ہونے والا چکر، اپنے محور پر گھوم رہا تھا اور کئی سوتے پھوٹ رہے تھے۔ گھریلو مشکلات اور خاندانی مسائل میرے لیے آزمائش و امتحان کے مرحلے تھے میں سوچتا تھا یہ ذاتی انسانی فرائض بھی کچھ کم اہم نہیں۔ مگر صرف ملازمت بھی کوئی بڑا شرف و مرتبہ نہ تھا میں سوچتا فن کے فرائض بھی تو ہیں۔ وہ بھی تو میرا دامن کھینچتے ہیں۔

            وہ جب میرا دامن کھینچتے تومیں پنسل پکڑ لیتا، سامنے سفید کاغذ ہوتا، تصور ابھرتے، اپنا پیکر ڈھونڈتے اور فن کے پیکر و پیراہن وجود میں آتے چلے جاتے۔ اس دور آزمائش میں قناعت سب سے بڑا سہارا ثابت ہوئی۔ میں ضمیر کی آواز کو لبیک کہتا رہا اور جذبے روشن سے روشن تر ہوتے چلے گئے۔ میں محسوس کرتا یہ گھاٹیاں طے کرنا اور یہ فراز عبور کرجانا کچھ بھی مشکل نہیں۔ مجھے یقین تھاکہ بہت جلد اس منزل تک پہنچ جاوں گا جہاں زندگی فراواں چشموں سے عبارت ہوگی۔ ہرشے شاداب و شادکام ہوگی، جہاں مدوجزرتو ہوں گے مگر الجھنوں کی یہ کیفیت نہ ہوگی۔

            ڈاکٹر تاثیر سے میرا رابطہ بہت شروع سے تھا اور یہ زندگی کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہا۔ اس میں زندگی کی امنگیں اور بلند نظری کے اتنے امکانات کروٹیں لیتے تھے کہ ہم دیکھتے ہی دیکھتے ایک دوسرے کے قریب آگئے، دھندلے نقوش ابھرابھر کر پختگی اور انفرادیت پاتے چلے گئے پھر ان روابط نے معین اشکال اختیار کرنی شروع کیں، انفرادیت اور افادیت کے پہلووں پر روشنی کی چھوٹ پڑنے لگی۔ ہم ان امکانات کو شناخت بھی کرنے لگے ایسے نشانات زندگی جس سے آشنا ہوئے بغیر انسان ان کے قریب نہیں آسکتا۔

            تاثیر بجائے خود ایک انجمن تھا اپنی ذات میں اور ایک انجمن وہ تھی جواس کے دائیں بائیں جلو میں رہتی۔ میرے چھوٹے بھائی عبدالرحیم جن کا ابھی ذکر آیا، ایک دن غالب کا کوئی شعر پڑھ رہے تھے۔ تاثیر بھی بیٹھے تھے۔ رحیم کہنے لگے، تاثیر صاحب یہ تصویر ”سیاہ پوش“ غالب کے شعرکی مفسر ہے۔ اس تصور کی ترجمانی اس تصویر میں دیکھیے۔ اپنی عادت کے موافق تاثیر نے پہلے تو کچھ تامل کیا، پھر نقش کو دیکھا اور ایک دم تائید میں کلمات ادا کیے۔ کہنے لگے! رحیم صاحب آپ نے بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ چغتائی صاحب کو غالب کے اشعار اپنی مخصوص طرزنگارش میں مصور کرنے چاہئیں۔ یہ بڑا کام ہوگا۔

            بات کافی آگے بڑھی اور کچھ ہیولی بننے لگا۔ اس سے قبل میں علامہ اقبال کے بعض اشعار کومصور کرنے کی کوشش کربھی چکا تھا مگر غالب کے باب میں میں نے عرض کیا کہ اس کا مطالعہ نہیں، اس لیے بہتر ہوگا کہ پہلے اقبال کے کلام کو مصور صورت میں پیش کروں۔

            مگر کسی نے میری ایک نہ سنی۔ میں تصویریں برابر بناتا رہا اور یہ تصویریں جب وجود میں آجاتیں تو ڈاکٹر تاثیر اور رحیم غالب کے اشعار پر ان تصویروں کو منطبق کرتے۔ ان کی برجستگی و ابلاغ پر گفتگو کرتے اور بہت سے فیصلے کیے جاتے، خیالات کا تبادلہ بہت سے نئے نکتے سمجھاتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ گزرا ہوا دن آنے والے دن کے لیے بہت سے نئے گلہائے شگفتہ دے جاتا عملی سرگرمی کا دور برابر قائم رہا۔ یہ وہ دن تھے جب اردو صحافت بالخصوص ہمارے رسائل، نئی زندگی سے روشناس ہو رہے تھے، بڑی سرگرمی اور گہماگہمی تھی۔ میرا گھر، ادب کے  ادا شناسوں اور احباب کے لیے ایک مرکزی جگہ بن چکا تھا، عجیب حیات پرور ماحول تھا، جدھر نظر اٹھتی زندگی نئی کروٹ لیتی اور مچلتی نظر آتی، ہرایک کچھ نہ کچھ کر رہا تھا اور ادب و فن نئی نئی راہیں ڈھونڈ رہے تھے۔

            انہیں دنوں دیوان غالب کا ایک نیا ایڈیشن جرمنی سے طبع ہوکر آیا۔ لوگ اس کی بہت تعریف کر رہے تھے، اب میں سوچتا ہوں وہ ایڈیشن ہی میری اور تاثیر کی گہری دوستی کا موجب بنا۔ اس میں غالب کی ایک شبیہہ بھی لگی ہوئی تھی۔ تاثیر نے جب مجھے وہ تصویردکھائی تومیں نے اس کی بہت بری طرح مذمت کی اور کہا کہ اس تصویر کا چھپنا شاعر کے دونِ مرتبت ہے۔ اس بات کا تاثیر پر بڑا اثر ہوا اور اس نے گھر پہنچنے سے پہلے اس تصویر کو پھاڑ کر دیوان سے الگ کردیا اور دوسرے دن اپنے اس ردعمل کی کہانی مجھے سنائی۔ اس کے بعد آرٹ سے اس کا لگاو بڑھتا چلاگیا۔ ”بنگال اسکول“ کی تحریک فن اس وقت زوروں پر تھی۔ جدید ہندستانی آرٹ پر اس کا جادو چل رہا تھا۔ ہر جگہ اس کاچرچا تھا۔ فنی نقطہ نظر سے ہم نے بھی اسے پرکھا جانا اور حسب موقع خالص مشرقی نقطہ نگاہ سے اسے سراہا بھی۔

            میرے فن میں تاثیر کی دلچسپی برابر بڑھ رہی تھی اور اس نے ”نیرنگ خیال“ ہی کے ذریعے نہیں اور بہت سی جگہوں پربھی اس سلسلے کو بڑھایا۔ ہر موقع پر اس کا وسیع مطالعہ علم و فن اپنا نقش چھوڑ جاتا تھا میرا خیال ہے کہ فن پر لکھنے والوں میں اس جیسی پہنچ اور سوجھ بوجھ کا کسی اور نے ثبوت نہیں دیا۔

            میں غالب کے اشعار کی تصویری تفسیر کا ذکر کر رہا تھا یہ تصاویر برابر بن رہی تھیں، اچھی خاصی تعداد جمع ہوگئی۔ مگر میں ابھی تک اس خیال کا ہی موید تھا کہ اگرہمیں کچھ کرنا ہی ہے تو پہلے اقبال کے کلام کو مصور کرنا چاہیے تاکہ وہ روایات جو تین چار سو سال سے نظر انداز کی جارہی تھیں ان میں پھر سے زندگی پیدا ہو۔ مگر اس مرحلہ پر علامہ اقبال کے ایک قریبی محسن و محب نے رائیلٹی کا سوال پیدا کر دیا تھا اور یہاں سے مسئلہ دوسرا رخ اختیار کرتا ہے۔

            جیسا کہ عرض کیا میرے فن نے کافی شہرت حاصل کرلی تھی پھر بھی ہم حالات کی تنگنائے میں سے بہت مشکل سے گزر رہے تھے اور ایسے مراحل سے دوچار تھے جن کا علم ہم تینوں بھائیوں کے سوا کسی کونہ تھا۔ زندگی کے تقاضوں نے بری طرح زچ کر رکھاتھا۔ شب و روز ہم اونچی پرواز کے لیے پر تولتے تھے، اڑنے کو بہت جی چاہتا تھا۔ مگر پھر مسکرا کر رہ جاتے تھے۔ زندگی ایسی ہی افتادوں کا نام ہے۔

            غالب کا مصور نسخہ مکمل کرنے کا خیال میرے چھوٹے بھائی، رحیم کے دل میں ایسا سمایا کہ وہ برابر اس دھن میں لگا رہا اور اس لگن نے ہی مجھے بھی کام پر لگائے رکھا، غیب سے ”مضامین“ خیال میں آتے رہے اور مرقع کی شکل بنتی چلی گئی۔ ایکا ایکی مدراس کے مشہور نقاد فن، ڈاکٹر جیمز کزنزنے میری کچھ تصویریں حاصل کرنے کا تقاضا کیا۔ وہ یہ تصاویر مہارانی کوچ بہار کے محل کے لیے خریدنا چاہتے تھے۔ میں نے ان کے سامنے ایک پبلیکیشن کا تصور پیش کیا اور کچھ تجویزیں سامنے رکھیں۔ مگر ابھی یہ خط و کتابت آپس میں رہی تھی کہ مہارانی کوچ بہار نے ایک قدرشناس کی حیثیت سے مجھے پانچ ہزار کا چیک روانہ کردیا تا کہ میں اپنے پروگرام پر دلجمعی کے ساتھ کام کرسکوں۔ حالات کے پیش نظر اس وقت کے یہ پانچ ہزار ہمارے لیے گویا پانچ لاکھ سے کم نہ تھے۔ اس کی خبر جب میری والدہ صاحبہ کو پہنچی تو وہ فرمانے لگیں کہ یہی تو میرا وہ سہانا خواب تھاجو میں دیکھ رہی تھی۔

            ”نیرنگ خیال“ کی مقبولیت حکیم یوسف حسن کے تعاون اور ڈاکٹر تاثیر کی کاوشوں نے بڑی مدد کی اور ہرموڑ پر اپنی ہمدردی، خلوص اور پاک طینتی کا ثبوت دیا۔ ان دنوں ڈاکٹر تاثیر، بدرالدین بدر، ڈاکٹر نذیراور غلام عباس تقریباً ہر وقت میرے گھر پرموجود رہتے کبھی کبھار حفیظ جالندھری، ہری چند اختر، مجید ملک، پطرس بخاری اور سید امتیاز علی تاج بھی رونق بزم بنتے اور غالب کی اشاعت کے سلسلے میں اپنی دلچسپی کا اظہار فرماتے۔ اکثر کوئی نہ کوئی نئی بات ہاتھ آتی وہ ہمدردیاں، خلوص، وہ ہنگامہ پرور فضائیں جن کی طرف ایک دنیا کی نظریں لگی رہتی تھیں جب یاد آتی ہیں تو دل کہتا ہے کاش وہ ماضی واپس آسکتا۔ مگر ماضی کبھی واپس نہیں آتا۔ کسی قیمت پر یہ جنس حاصل نہیں ہوسکتی۔ میں ان دوستوں کی بلند نگاہی کے طفیل اپنی دھن میں لگارہا اور ایسا ڈول ڈالتا رہا کہ مرقع چغتائی اپنا معیار آپ ہو، اس کی مقبولیت کاعالم یہ ہو کہ اک خلق ”اس کے گرد آوے“ پورا برصغیر یک زباں ہوکر اس کی داد دے اور باہر بھی وہ قدرومنزلت ہو کہ فن کی لاج رہے اور یہ کہا جا سکے کہ اب تک اس بلند معیار اور ذوق کی کوئی دوسری کتاب اس برصغیر سے پیش نہ ہوئی تھی۔

            میری تصاویر کا چرچا اب کافی دور دور پہنچ چکا تھا مہاراجہ پٹیالہ کوبھی میرے فن نے اپنی طرف متوجہ کیا اور میرے ارادوں کا علم ہونے پر انہوں نے میری تصویریں خریدیں اور اچھی خاصی رقم عنایت کی جس کی وجہ سے یہ قطعی ہو گیا کہ ”مرقع چغتائی“ شائع ہو سکے گا۔

            ”نیرنگ خیال“ کی سرگرمیاں تو اس سلسلے میں جاری تھیں کہ ”انقلاب“، ”احسان“، ”زمیندار“، ”ہمایوں“، ”عالمگیر“ ”مخزن“۔ نیز دہلی اور حیدرآباد دکن کے اخبارات و رسائل نے بھی میری تحریک فن کا پر جوش خیرمقدم کیا اور ان سب نے اپنا تعاون بھی دیا۔ پھر یہ تحریک و تصور اس قدر آگے بڑھ گیا کہ اگر ہم چاہتے بھی کہ مرقع چغتائی طبع نہ ہو، تو ایسا نہ کرسکتے تھے! اس کے بعد ایسے حالات خود بخود ظہور میں آئے کہ سوائے دیوان غالب مصور کی تکمیل کے اور کوئی کام میرے لیے نہ رہا میں جو کبھی مصروفیتوں کی تلاش میں رہتا تھا،اب اتنامصروف تھا اور کام میں ایسا گھراہوامحسوس کرنے لگا کہ سارے فرائض کو سرانجام دینے میں دشواری معلوم ہوئی۔

            تصویروں کے بلاک، تصویروں کی حفاظت، دیوان کی تصحیح۔ دیوان کو کسی اعلیٰ خطاط سے لکھوانا پھر اس کتابت سے بلاک بنوانا، آرائش و حسن کاری کے لیے نئے نئے ڈیزائن تیار ہونا ایک دوسرا درد سر تھا۔ پھر کتاب کی جلد بندی کا کام تھا۔ طباعت کے لیے خاص الخاص قسم کے کاغذ کی فراہمی راہ کا ایک اور سنگ گراں تھا۔ غرض ہر قدم توجہ اور کوششوں کا محتاج تھا۔ ذوق نظر اور کدوکاوش کے علاوہ بے دریغ خرچ کا بھی سوال تھا۔ واقعات و ضرورت نے مل کر حسب ضرورت روپیہ بھی فراہم کردیا۔ غالب کے مصور ایڈیشن کے سلسلے میں زر تبادلہ کا مسئلہ رائیلٹی کا قصہ بھی نہ تھا۔ غرض کلام اقبال کے سلسلے میں جو حائیلات تھے وہ اگر غالب کے سلسلے پیش آتے تو بھلایہ مرقع کیسے منصہ شہود پر آتا۔

            رحیم نے اگرمرقع چغتائی شائع کرنے کے لیے مجھے اکسایا تھا تو اس نے اس کا سارا بار خود اٹھایا اور بڑے سلیقے سے ان کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے کہ مرقع چغتائی جیسی کتاب اس وقت اردو کی سفیر بنی ہوئی ہے اور دنیا کے ہراہم مرکز علم، ادب و فن نیز لائبریریوں، عجائب خانوں اور فنی نگارخانوں میں موجود ہے اس کے معیار نے مشرق کے آرٹ اور اردو کو پہلو بہ پہلو پیش کیا ہے اور اس کی اہمیت نے اردوکو بین الاقوامی مرتبہ پر پہنچا دیا ہے۔

            اب مراحل تیاری کی داستان بھی سن لیجیے۔ سب سے پہلے کاتب کی تلاش ہوئی۔ ڈاکٹر تاثیر اور میں نے لاہور کے کئی مشہور خطاطوں کواس کام کی اہمیت جتلائی اور منہ مانگی رقم دینے کابھی یقین دلایا مگر ہوا یہ کہ ہمارے الفاظ یہاں آکر بے اثر ہو گئے، جب ایسا نظر آیا تو بھائی عبدالرحیم نے خود ہی قدیم طرز خط کے استاد منشی اسد اللہ کا انتخاب کیا اور یہ بیل منڈھے چڑھی۔ انہوں نے ہماری ضرورت کو سمجھا، کام کی نوعیت کوجانا اور پھر ایسی جانفشانی و محبت سے اس کام میں شریک ہوئے کہ آخری لفظ لکھنے تک ان کاوہی شوق و جذبہ کارفرمارہا۔ بحمداللہ آج بھی دنیا ان کے اس کام سے مطمئن ہے۔ اس وقت مرقع چغتائی کے ان کاتب، بابا اسداللہ صاحب کی عمر 65 سال کے لگ بھگ تھی۔

            آج بلاک بنوانے اور ایسی کتابیں چھاپنے کے لیے کافی سہولتیں موجود ہیں۔ ایسے پریس اور بلاک ساز وصناع بھی ہیں جن پر پورا بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ مگرمیں جن دنوں کی بات کررہا ہوں وہ اور وقت تھا اس وقت اپنی نوعیت کا یہ کام اکیلا ہی تھا اور اتنا مشکل اور پیچیدہ کہ اس کا حل سوائے اس کے اور کچھ نہ تھا کہ بلاک سازی اور چھپائی کی اعلیٰ مشینیں خود فراہم کریں اور یہ سارا فنی کام بھی خود سنبھالیں اس ضمن میں جو جوپریشانیاں، تکلیفیں اور سنگ گراں حائل ہوئے ان کا آج تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مگر ہم نے ہمت نہ ہاری اور مشکلوں کے حل تلاش کرتے رہے۔ میرے ماموں زاد بھائی معراج الدین صاحب اور میرے چھوٹے بھائی عبدالرحیم چغتائی نے جس تندہی اور حق شناسی کا ثبوت دیا وہ میری انتہائی عزیز یاد ہے۔ یہ علمی ادبی اور فنی نوعیت کی خدمت تھی، کوئی خزانہ ہاتھ نہیں آرہا تھا۔

            اس کام کے سلسلے میں جب پر وقار الفاظ اور وقیع آوازوں نے فضا میں ارتعاش پیدا کیا تو اس وقت کی انگریز حکومت بھی کچھ متوجہ ہوئی۔ لارڈ لن لتھ گواورلارڈ پیلی فوکس وائسراوں نے جہاں سر فضل حسین اور سرسکندرحیات خاں جیسے مشیروں سے میری بابت مشورہ کیا اور ان بزرگوں نے حکومت انگلشیہ سے میرے لیے ”نائٹ ہڈ“ کی سفارش بھی کی مگر لطیفہ یہ ہوا کہ فن کی منزلت تو دھری رہ گئی اور میری ناداری اور پرانے لاہور کی چاردیواری میں رہائش کی قید سامنے آگئی۔ چنانچہ ”سر“ بدل کر خان بہادر کی شکل اختیار کر گیا! مگراس پر بھی علمی حلقوں نے یہ احساس دلایا کہ فن کی کچھ توپوچھ ہوئی مثلاً ”ٹائمز آف انڈیا“ نے ہی لکھا کہ اس ایک صدی کے عرصہ میں یہ تیسرا خطاب ہے جو علم و فن کے سلسلے میں حکومت ہند نے جدید ہندستانی آرٹ کے ایک نامور فنکار کو دیا ہے۔ یہ اعزاز تو خیر تھا ہی مگر میں جسے عزیز تر سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ میرے مخلص دوستوں اور رفقائے کارنے آخری دم تک میرا ساتھ نہ چھوڑا اور جو بھی برگ و بار آئے انہیں کی مساعی خلوص کا نتیجہ تھا۔

            جن دنوں غالب کا مصور ایڈیشن ارتقا کی منزلیں طے کررہا تھا میں تاثیر کو باربار یاد دلا رہا تھا کہ وہ وقت کے تقاضے کے مطابق اس پروگرام کو عملی شکل دیں جو ان کے ذہن میں تھی۔ عبدالرحمن بجنوری کی بعض ابتدائی کوششوں کے پیش نظر وہ کچھ اور کام سوچ رہے تھے۔ وہ بعض ایسی باتوں کو سامنے لانے والے تھے جن پر پہلے عمل نہ ہوا تھا مگر افسوس کہ آرزووں کی بلندی کے باوجود انہیں سرانجام نہ دے سکے۔ علم و ادب کا توخیر نقصان ہوا ہی مگر مجھے اس کابڑا افسوس رہا۔ مگر ان کی ذات سے مجھے یہ فائدہ برابر ہوتا رہا کہ کام کے سلسلے میں وہ مہمیز ثابت ہوئے میں نے ضرورت کا لحاظ کرتے ہوئے اس مرقع کے لیے سخن ہائے گفتنی خود تحریر کیا تھا۔ یہ ایک تعارف ہے اس تعارف کا مقصد یہ تھاکہ ایک خاص طبقہ اہل ذوق و نظر اس نہج فن کی طرف کھنچے اور اس میں وہ فنی شعورو ادراک پیدا ہو جو میرا زاویہ فکر تھا اس میں شک نہیں کہ یہ سخن ہائے گفتنی اس بارہ خاص میں کامیاب ہوا یعنی یہ کہ ترقی پسند عناصر فن اور ذوق جمال کی تسکین و تلاش کرنے والوں میں احساس پیدا ہوگیا۔

            میرے بھائی عبدالرحیم اور ڈاکٹر تاثیر نے مصور نسخہ غالب کی جو داغ بیل ڈالی تھی وہ چھ سات روپے کا ایک مصور ایڈیشن تھا مگر کتاب پر پچیس ہزار کے قریب خرچ آچکاتھا۔ جب نوبت یہ پہنچی توپھر قیمت کا سوال ایک اور ہی طرف ذہن میں آیا میرے سامنے یورپ کی بعض فنی مطبوعات تھیں۔ مگر میں نے فیصلہ کیا کہ اگر اپنے ملک میں بدذوقی یا کم مائیگی کے باعث پوری طرح خیر مقدم نہ ہوا اور یہ ایڈیشن یونہی پڑا رہاتب بھی وہ ایک یادگار چیز ضرور ہوگا، ایک ناقابل فراموش یادگار۔ اس بات پر کافی سوچتا رہا اور آخرالامر یہ تجویز پیش کی کہ اس کا ایک خاص الخاص (ڈی لکس) ایڈیشن الگ تیار ہو جس کی قیمت ایک سو دس روپے مقرر کی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ اس کی صرف دوسودس کاپیاں شائع ہوں گی۔ بعض دوستوں نے اس پر مجھے آنکھیں دکھائیں، کسی نے ہنسی اڑائی اور بعض نے کہا اردو پڑھنے والے ابھی چھ سات روپے کی کتاب پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ ایسا گراں قیمت نسخہ کیسے خریدیں گے؟ میں نے جواب دیا یہ سب ٹھیک، مگر میں نے اپنے فن کے بل بوتے پر اتنا بڑا حوصلہ کیا ہے اور اسے ایسا ہی بنا رہا ہوں اب یہ مرقع ایسے سانچے میں ڈھل چکا ہے کہ اردو نہ جاننے والے بھی اس کی طرف متوجہ ہوں گے اور خلوص کے ہاتھ اس کی طرف پھیلیں گے۔ غالب کے پرستاروں کی دنیا بھی ایسی گئی گزری نہیں ہے وہ بھی شعروفن سے اپنے لگاو کاعملی ثبوت دیں گے۔

            بہرکیف غالب کے مرقع چغتائی خاص ایڈیشن کا اعلان کردیا گیا۔ آرڈر آنے شروع ہوگئے ہر مذہب و ملت کے لوگوں، غریبوں اور امیروں نے سب نے ہی آرڈر بھیجے۔ یہ خاص ایڈیشن شائع ہونے سے پہلے ہی فروخت ہوچکا تھا۔ ایک تاجر کو اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانے کا پورا حق بھی تھا اور موقع بھی۔ مگر ہم کاروباری ہتھکنڈوں سے قطعی ناواقف اور تجارت کے فن میں کورے تھے اس لیے یہ موقع بھی ہمیں کچھ نہ دے سکا۔

            میں اپنے قدردانوں اور ان ذی شعور لوگوں کا ذکر کیا کروں جن میں سے ہر ایک کا خلوص، دیدہ وری اور فن آگاہی میرے لیے معاون ثابت ہوئی اور میرا آرٹ پنپا، بہر نوع یہ ضرور ہے کہ میرے خاندان کے مسائل اور بے اطمینانی ایک حد تک ضرور ختم ہو گئی۔ غالب کی شاعرانہ عظمت کے ساتھ میرے فن کے تقاضے مجھے برابر یہی کہتے رہے کہ ان دیانت دارانہ کوششوں میں ایسی کوئی بات نہ آنے پائے جو انتشار حالات کا باعث ہواور میں پھر ایسی جرات ہی نہ کرسکوں یوں تو ہرایک خواہاں تھا کہ میری یہ تخلیقی کوششیں ایک مرتب کتاب کی شکل میں آجائیں اور یہی عوامی تقاضے میرے لیے بہت بڑی ڈھارس تھی۔ مرقع چغتائی جیسی کوئی کتاب اردو میں نہ تھی مگر جب اس کا غلغلہ بلند ہوا تو اس جنس کے خریدار بھی نہ جانے کہاں کہاں سے پیدا ہوگئے۔ فن کاعالم یہ تھا کہ میری تکنیک بالکل نئی اور جدا تھی، نگارش کا انداز اجنبی پراسرار خطوں کی کشش اپنا انفرادی اپیل رکھتی تھی۔ یہ سب باتیں چونکانے والی تھیں۔ انہوں نے اپنی جگہ خود بنائی اور جدید ہندستانی آرٹ میں ایک نئے تجربہ کااضافہ ہوا۔ فن میں وہ قنوطیت جوبدھ اور بدھ کی سمادھی سے آگے نہ بڑھ سکی تھی، اس سے گریز شروع ہوا۔ ہم عصر مصوروں کے سامنے یہ انوکھی چیز لاکر کچھ کام کر دکھانا ویسے بھی کوئی آسان مرحلہ نہ تھا مگر ایرانی، مغل اور اجنتا روایات کے سہارے میں نے اپنے فنی موقف کے لیے وہ جگہ ضرور نکالی جوایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوئی یہ تحسین فن کی ایک نئی کاوش تھی، اس نے رمزنگاری اور رمز شناسی کا چلن پیدا کیا اور آرٹ نے نیا مرتبہ پایا۔

            اپنے فن کے سلسلے میں چند باتیں عرض کروں۔ میرے بعض نقوش بالکل انفرادی ہیں۔ میں نے اپنے نقوش میں مشرق رموز بھی پیدا کیے ہیں۔ نیز علامتیں ہیں جو ہماری ثقافتی ثروت کی نشانیاں ہیں۔ میں نے بعد میں بھی کچھ تجربے کیے اور انہیں نیاپن دیا۔ لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو نئی نئی تحریکوں، نئی باتوں، رجحانوں اور انکشافات سے دلچسپی لیتے ہیں۔ وہ فن اور ثقافت کے دائرہ کار کو وسیع کرنا چاہتے ہیں اور اس ضمن میں وہ کبھی کوتاہی نہیں کرتے۔ ذوق نظر نے ہمیشہ روح حیات کا ساتھ دیاہے اور دیتا رہے گا مگر کام کرنے کا وہ زمانہ شاید اب مشکل ہی سے ہاتھ آئے جیسا کہ عرض کیا میں سب قدر دانوں اور مداحوں کے خلوص دل کا معترف ہوں۔ خواص بھی اور عوام بھی۔ انہیں نے اس مرقع کو پیش کرنے کے اسباب پیدا کیے۔ خواص کے ذکر میں میں مہارانی کوچ بہارکا نام لے چکا ہوں، جو سرفہرست ہے پھر ان کی والدہ محترمہ مہارانی بڑودہ ہیں۔ مہاراجہ پٹیالہ، سراکبرحیدری وزیراعظم حیدرآباد دکن، مہارانا شمشیر جنگ بہادر نیپال وغیرہ۔ ان لوگوں کی قدردانی سے مرقع کو وجود بخشنے میں مدد ملی بعض وہ نام بھی ہیں جن کا ذکر بصد احترام کرنا ضروری ہے۔ مثلاً سرتیج بہادر سپرو، سرسالار جنگ بہادر، سرعبدالقادر، نواب احمد یار خاں دولتانہ، سرکرشن پرشاد شاد، میاں نظام الدین بارود خانہ لاہور وغیرہ ان سب نے میری کوششوں کوسراہا۔

            جب مرقع چغتائی پہلی بار تیار ہواتواس کی ایک جلد دربار غالب میں اس طرح پیش کی گئی کہ حضرت نظام الدین اولیاؒ کے پائیں شاعر کے مرقد پر نذرانہ عقیدت رکھ دیا گیا یہ ان کی خدمت میں خراج تھا ایک فنکار کا اور یہ امانت ان تک پہنچادی گئی۔ مگرمعلوم نہیں وہ کون بے باک تھاجواس خراج عقیدت کوبیتا بیٹھا۔ معلوم نہیں اس وقت یہ امانت کس کے پاس ہے؟

            یہ سب توہوا۔ امیدوں سے بڑھ کر قدرافزائی ہوئی مگر تجارتی چکر سمجھ میں نہیں آیا اور دیدے پھاڑ پھاڑ کر ہم ان باتوں کی طرف دیکھتے رہے اور عجب احوال رہا۔ عام ایڈیشن سے بڑے بڑے امکانات وابستہ تھے۔ مگر ہوا وہی کہ سرمایہ دارتاجر اپنا کام کر گیا اور ان باتوں کی نافہمی سب کچھ چٹ کرگئی، جمالیاتی قدریں اور امنگیں ترستی رہیں۔

غالب کی مُہریں

حنیف نقوی

غالب کی مُہریں

          اشیا کی قدروقیمت کا تعیّن بالعموم ان کی ماہیت اور کیفیتِ ظاہری کی بنیاد پر کیا جاتا ہے لیکن بعض اوقات کوئی نسبتِ خاص کسی شے کو اس کی حیثیتِ ظاہری سے بلند تر کرکے اس مرتبہ و مقام تک پہنچا دیتی ہے جہاں اس کے دوسرے تمام اوصاف ہیچ و بے مقدار ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سربرآوردہ اور نامور شخصیات سے تعلق رکھنے والی بعض معمولی چیزیں بھی محض ان کی ذات سے نسبت کی بناپر غیر معمولی اہمیت اختیار کرلیتی ہیں۔ جہاں تک اردو زبان و ادب کا تعلق ہے، غالب اس معاملے میں بھی اپنے تمام ہم مشربوں میں سابق وفائق ہیں کہ ان سے وابستہ ہر شے اس نسبتِ خاص کے انکشاف کے ساتھ از خود معتبر و محترم ہوجاتی ہے۔ ان کی مختلف مہریں جن کے نقش ان کی بے شمار تحریروں پر ثبت ہیں، اس ضمن میں بہ طورِ مثال پیش کی جاسکتی ہیں۔ مہروں کا رواج انیسویں صدی میں اور اس سے پہلے بہت عام تھا، چنانچہ یہ بات یقینی ہے کہ غالب کے بہت سے معروف و ممتاز معاصرین اور ان سے پہلے کے لاتعداد مشاہیر شعرا اور اہلِ علم نے اپنے ناموں کی مہریں تیار کرائی ہوں گی اور مرورِ ایام کے باوجود بعض کتابوں اور تحریروں پر ان کے نقوش کی موجودگی بھی خارج از امکان نہیں، تاہم ان کی تلاش و تحقیق اور ان سے متعلق گفتگو میں اہلِ علم کی دلچسپی کا ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا جیسی دلچسپی کا مظاہرہ غالب کی مہروں کے سلسلے میں کیاگیاہے۔ البتہ ان کے بعض ہم نام و ہم تخلص یا صرف ہم نام حضرات کی مہریں محض اس غلط فہمی یا شبہے کی بنا پر کہ وہ غالب سے نسبت رکھتی ہیں، ضرور معرضِ بحث میں آتی رہی ہیں۔ نسبتیں کبھی کبھی کتنی اہم ہوجاتی ہیں، یہ اس کا بیّن ثبوت ہے۔

          تازہ ترین معلومات کے مطابق غالب نے اپنی زندگی کے محتلف ادوار میں کم از کم آٹھ (۸) مہریں بنوائی تھیں۔ مالک رام صاحب نے مندرجہ بالا عنوان (غالب کی مہریں) ہی کے تحت اپنے ایک مضمون میں جو ان کے مجموعہ مضامین ”فسانہ غالب“ میں شامل ہے، ان میں سے چھ (۶) مہروں کا مفصّل تعارف سپردِ قلم فرمایاہے۔ بعد کے جن مصنفین اور توقیت نگاروں نے اپنی نگارشات میں ان مہروں کا ذکر کیاہے، ان کا ماخذ یہی مضمون ہے۔ ڈاکٹر گیان چند کے نزدیک ”اس مضمون کا سب سے قابلِ قدر پہلو ان مہروں کا نفسیاتی مطالعہ ہے۱۔“ خود مالک رام صاحب کے ارشاد کے مطابق ”میرزا کی یہ مہریں ان کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت اور عام حالت کی مادّی ترجمان ہیں(انہوں) نے ان میں اپنی زندگی کے اہم واقعات کو بھردیا ہے۲۔“ پیشِ نظرسطور میں یہ دیکھنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ تجزیہ جو بہ ظاہر بہت محققانہ اور عالمانہ معلوم ہوتا ہے، کس حد تک مبنی بر حقیقت ہے؟

          دریافت شدہ مہروں میں سے دو قدیم ترین مہریں غالب نے 1231ھ (1815-16ع) میں کندہ کرائیں تھیں۔ ان میں سے ایک مہر پر خطِ نستعلیق میں ”اسد اللہ خاں عرف مرزا نوشہ“ اور دوسری پر خطِ نسخ میں ”اسد اللہ الغالب“ نقش تھا۔ مالک رام صاحب کے مطابق پہلی مہر سے غالب کی ”اس زمانے کی سرمستی و رنگینی، رندی و ہوس پیشگی بہ درجہ اتم ظاہر ہے۔“ (ص81) جب کہ دوسری مہر”ان کے دلی خیالات و معتقدات کی مظہر ہے۔“(ص82) پہلے تاثر کی تائید میں منشی شیونرائن آرام اور مرزا حاتم علی مہر کے نام کے خطوط سے شطرنج کے کھیل سے دلچسپی، پتنگ بازی کے شوق اورایک ستم پیشہ ڈومنی کو مار رکھنے کے واقعات نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

“غالب کے والد میرزاعبداللہ بیگ خاں کا عرف ”میرزا دولھا“ تھا، اسی لیے لوگ میرزا غالب کو بچپن ہی سے ”میرزانوشہ“ کہنے لگے۔ اس عرف کی پستی ظاہر ہے اور خود میرزا کو بھی بعد کو اس ”نالائق“ عرف سے نفرت ہوگئی تھی۔ مگر اس طوفانی زمانے میں بھلا ثقاہت کہاں قریب پھٹک سکتی تھی۔ یہ باتیں شعور اور تجربے سے حاصل ہوتی ہیں اور وہ ان کی عمر اور گرد و پیش کا اقتضا نہ تھا۔“ (ص81)

دوسری مہر کے سلسلے میں محترم مضمون نگا رکا ارشاد ہے:

          “اس مہرکی بناحضرتِ علی کا لقب ہے۔ چوں کہ میرزا کا نام اسد اللہ تھا، اس لیے انہوں نے اس رعایت سے بہ طورِ سجع یہ نام کھدوا لیا اور بعد کو ان کے دوسرے تخلص کی بنا بھی یہی ہوئی۔ چوں کہ سامنے کی چیز تھی اس لیے جب انہوں نے تخلص تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تو اسد چھوڑ کر بلا تامّل غالب رکھ لیا“ (ص81)

          اس کے بعد حضرت علیؓ سے میرزا صاحب کی عقیدت اور ”شیعت سے شغف“ کو عبد الصمد سے زبانِ فارسی کی تحصیل اور ”ایران کے علوم و رسوم“ سے حصولِ واقفیت کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے علائی کے نام 17جولائی 1862ء کے ایک خط کے حوالے سے ان کے مذہب و مسلک کی وضاحت کی ہے، جس کا لُبِّ لباب خود میرزا صاحب کے الفاظ میں حسب ذیل ہے:

“محمد علیہ السّلام پر نبوت ختم ہوئی مقطع نبوّت کا مطلع امامت اور امامت نہ اجماعی بلکہ مِن اللہ ہے، اور امام مِن اللہ علی علیہ السّلام ہیں، ثمّ حسن، ثمّ حسین تامہدی موعود علیہ السّلام “ (ص82)

          ایک ہی سال میں تیارشدہ ان دو مہروں کو دو مختلف بلکہ متضاد مزاجی کیفیات اور طبعی میلانات کی علامت قرار دے کر مالک رام صاحب نے اجتماعِ ضدّین کی جو مثال پیش فرمائی ہے، وہ عقلاً ممکن الوقوع تو ہے لیکن عملاً بعید از قیاس نظر آتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پہلی مہر میں نام کے ساتھ عرف کی موجودگی نہ تو عنفوانِ شباب کی رنگ رلیوں یا لابالی پن کی مظہر تھی اور نہ ثقاہت کے منافی۔ جیسا کہ خود مالک رام صاحب نے فرمایاہے، غالب بچپن ہی سے ”میرزانوشہ“ کے عرف سے معروف تھے، لیکن واقعہ صرف اتنا ہی نہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ عرف شروع سے آخرِ عمر تک ان کے نام کا جزوِ لا ینفک بنارہا اور یہ بات ان کے لیے کسی بھی درجے میں ناگواری کا باعث نہ تھی۔ غالب کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے یہ بنیادی نکتہ ذہن نشیں رکھنا اشد ضروری ہے کہ مصلحت اندیشی ان کے مزاج کا لابُدی خاصّہ تھی۔ اس معاملہ میں وہ اس قدر حسّاس واقع ہوئے تھے کہ ان سے عمداً کسی ایسے کام کی توقعی ہی نہیں کی جاسکتی تھی جو خلافِ مصلحت یا مقتضاے وقت کے منافی ہو۔ عرف کا معاملہ بھی اس سے مستثنٰی نہیں، چنانچہ اس کے ترک و اختیار کے سلسلے میں بھی ان کی تمام تر ترجیحات بہ ظاہر وقتی ضرورت اور حالات کے تقاضوں کا ردِّ عمل معلوم ہوتی ہیں۔ 1231ھ (1815-16ع) میں اس مہر کے کندہ کرانے کے بعد انہوں نے جہاں جہاں اس عرف کو اپنے قلم سے اپنی شناخت کا وسیلہ بنایا، ان میں سے مندرجہ ذیل تحریریں اب بھی محفوظ ہیں:

          (1) درخواست بہ نام سائمن فریزر مورخہ 28 اپریل 1828 ع ”اسد اللہ خاں عرف مرزا نوشہ برادر زادہ نصر اللہ بیگ خاں جاگیردار سونک سونسا۔“3

          (2) عرضی دعویٰ پنشن مورخہ 28 اپریل 1828 ع ”میرا نام اسد اللہ خاں ہے اور عرف میرزا نوشہ“4

          (3) درخواست بہ نام ”سر حلقہ افرادِ دفتر کدہ کلکتہ“: ’اسمِ ایں فقیر اسد اللہ خان است و علَم مرزا نوشہ و تخلص غالب۔“5

          (4) عرضی بہ نام اینڈ ریواسٹرلنگ مورخہ 15 جولائی 1829 ع ”اسد اللہ خاں عرف میرزانوشہ برادر زادہ کلانِ نصراللہ بیگ خاں۔“6

(5) عرضداشت مورخہ 11 اگست 1829 ع ”اسد اللہ خاں عرف میرزا نوشہ برادر زادہ نصراللہ بیگ خاں جاگیردار سونک سونسا۔“7

(6) مکتوب بہ نام راے سدا سکھ مدیر اخبار جامِ جہاں نما مورخہ جمعہ، 25 صفر 1247ھ (5 اگست 1831ع) ”ایں ننگِ آفرینش کہ موسوم بہ اسد اللہ خاں و معروف بہ مرزا نوشہ و متخلص بہ غالب است۔“ 8

(7) دیباچہ دیوانِ اردو مرقوم بست و چہارم شہر ذی قعدہ 1248ھ (14 اپریل 1833ع) ”نگارندہ ایں نامہ بہ اسد اللہ خاں موسوم و بہ میرزا نوشہ معروف و بہ غالب متخلص است۔“9

(8) مکتوب بہ نام میر مہدی مجروح مورخہ 8 اگست1858ع ”وہ جو تم نے لکھا تھا کہ تیرا خط میرے نام کا میرے ہم نام کے ہاتھ جا پڑا، صاحب! قصور تمہارا ہے۔ کیوں ایسے شہر میں رہتے ہو جہاں دوسرا میر مہدی بھی ہو؟ مجھ کو دیکھو کہ میں کب سے دلّی میں رہتاہوں۔ نہ کوئی اپنا ہم نام ہونے دیا، نہ کوئی اپنا ہم عرف بننے دیا، نہ اپنا ہم تخلص بہم پہنچایا۔”

(9) خودنوشت براے تذکرہ شعرامرتبہ مولوی مظہر الحق مظہر: مرقومہ 1864ع ”اسد اللہ خاں عرف میرزا نوشہ، غالب تخلص۔“10

          ان تحریروں سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ پسند و ناپسند سے قطعِ نظر غالب کو اس اعتراف و اظہار میں کوئی تامل نہ تھا کہ وہ ”مرزانوشہ“ کے عرف سے معروف ہیں۔ اگر وہ اسے اپنی شخصیت کا ایک لازمی جزونہ سمجھتے اور اس سے متنفّر یا بیزار ہوتے تو اس طرح باربار اس کا ذکر ہرگز نہ کرتے۔ ان کے اعزا، احباب اور معاصرین میں بھی ایسے متعدد حضرات شامل ہیں جنہیں اس عرف کے حوالے سے ان کا ذکر کرنے میں کوئی عذر مانع نہ تھا۔ اگراس میں ان کی ناخوشی یابے ادبی کا شائبہ ہوتا تو ان میں سے بعض لوگ یقینا اس سے احتراز برتتے۔ مثلاً:

          (1)  مولانا فضلِ حق خیرآبادی کے بڑے بھائی مولوی فضل عظیم نے 1241ھ 1826ء میں ”افسانہ بھرتپور“ کے نام سے فارسی میں ایک مثنوی لکھی تھی۔ یہ مثنوی مرزا غالب کی نظر سے گزر چکی تھی اور انہوں نے اس کی تاریحِ تصنیف بھی کہی تھی جو ان کے کلیات فارسی میں موجود ہے۔ مصنف نے اس مثنوی کے خاتمے پر یہ تاریخ نقل کرنے سے پہلے مرزا غالب کی تعریف میں بائیس شعر کہہ کر شاملِ کتاب کیے ہیں۔ ان اشعار کا عنوان انہوں نے ”در تعریف مرزا نوشہ صاحب“ قائم کیا ہے اور ایک شعر میں بھی ان کا ذکر ان کے اسی عرف کے ساتھ کیا ہے۔ شعر حسبِ ذیل ہے:

ز اوصافِ او ہر کسے آگہ است

کہ معروف با میرزا نوشہ است11

(2) نواب مصطفی خاں شیفتہ نے 1250ھ 1835ء میں تذکرہ ”گلشنِ بے خار“ تالیف کیا۔ اس میں مرزا صاحب کے ترجمہ احوال کا آغاز ان الفاظ کے ساتھ کیاہے: ”غالب تخلص، اسمِ شریفش اسد اللہ خاں، المشتہر بہ مرزانوشہ“12

‘گلشنِ بے خار’ کا مسودہ طباعت سے پہلے مرزا صاحب کی نظر سے گزر چکا تھا۔ اگر نام کے ساتھ عرف کی شمولیت ان کے مزاج کے خلاف ہوتی تو وہ اس عبارت سے ”المشتہر بہ مرزا نوشہ“ کو بہ آسانی قلمزد کرسکتے تھے۔

          (3) سرسید کے برادرِ بزرگ سید محمد خاں بہادر نے اکتوبر 1841ء میں پہلی بار مرزا صاحب کا دیوانِ اردو اپنے لیتھوگرافک پریس سے شائع کیا تو اس کے سرورق پر ”دیوان اسداللہ خاں صاحب غالب تخلص، میرزا نوشہ صاحب مشہور کا“ لکھ کر گویا اس امر کی تصدیق کی کہ صاحبِ دیوان کا نام اسد اللہ خاں اور تخلص غالب ہے لیکن وہ عام طورپر مرزا نوشہ کے عرف سے مشہور ہیں۔

(4) دیوان کی اشاعت کے فوراً بعد سید محمد خاں بہادر کے لیتھوگرافک پریس ہی سے شائع ہونے والے ”سیدالاخبار“ کے 9 شوال 1357ھ 24 نومبر 1841ء کے شمارے میں ایک اشتہار شائع ہوا تھا جس میں شائقین کو ”پنج آہنگ“ کی اشاعت کے لیے تیاری کی خوش خبری سنائی گئی تھی۔ اس کی ابتدابھی ”مرزا اسد اللہ خاں صاحب غالب تخلص، مرزا نوشہ صاحب مشہور“ سے ہوئی تھی۔

          منشی بال مکند بے صبر،غالب کے شاگرد کی حیثیت سے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ انہوں نے اپنی اردو مثنوی ”لختِ جگر“ 1275ھ 1858ء میں نظر ثانی کے بعد بہ غرضِ اصلاح غالب کی خدمت میں پیش کی تھی۔ اس میں انہوں نے ”در شانِ مجمعِ کمالاتِ صوری و معنوی حضرت استادی جناب مولانا اسد اللہ خاں صاحب“ کے زیرِ عنوان جو اشعار کہے ہیں، ان میں ان کے نام، تخلص اور لقب (عرف) کا بیان اس طرح ہواہے:

نام اس کے سے کرتا ہوں میں آگاہ

اوّل ہے اسد اور آخر اللہ

مشہور تخلص اس کا غالب

مطلوبِ دلِ ہزار طالب

مرزا نوشہ لقب ہے اس کا

ثانی کوئی اور کب ہے اس کا16

(6) مکتوب بہ نام حسین مرزا مورخہ 29 اکتوبر 1859ء میں خود مرزا صاحب کا ارشاد ہے: “کاشی ناتھ بے پروا آدمی ہے۔ تم ایک خط تاکیدی اس کو بھی لکھ بھیجو۔ اکثر وہ کہا کرتا ہے کہ حسین مرزا صاحب جب لکھتے ہیں مرزا نوشہ ہی کو لکھتے ہیں۔”

          (7) مرزا یوسف کے انتقال کے پانچ برس بعد ان کی اہلیہ لاڈو بیگم نے یکم اکتوبر 1862ء کو ایک درخواست کے ذریعے ڈپٹی کمشنر سے یہ التجا کی کہ حکومت کی طرف سے ان کی مالی امداد کی جائے۔اس درخواست کے اندراجات کی روشنی میں ڈپٹی کمشنر نے ان کے کوائف کا جو گوشوارہ مرتب کرکے کمشنر کو بھیجا تھا، اس کا ایک اندراج یہ بھی تھا کہ ”کبھی کبھی اس کے مرحوم خاوند کا بھائی مرزا نوشہ اس کی مدد کرتاہے14۔“ ظاہرہے کہ لاڈو بیگم نے اپنی درخواست میں ”مرزانوشہ“ ہی لکھا ہوگا۔

(8) 1867ء کے اواخر میں غالب نے ”قاطع القاطع“ کے مصنف مولوی امین الدین کے خلاف دہلی کی ایک عدالت میں ازالہ حیثیتِ عرفی کا مقدمہ دائر کیا۔ اس مقدمے میں ان کے وکیل مولوی عزیزالدین تھے۔ انہوں نے 15 دسمبر 1867ء کو پیش کردہ ایک درخواست کے آخر میں اپنے دستخط کے تحت خود کو ”وکیلِ مرزا اسداللہ خاں پنشن دارِ سرکاری عرف مرزا نوشہ“ اور 20 فروری 1868ء کی اسی سلسلے کی ایک اور تحریر کے خاتمے پر ”وکیلِ مرزا اسد اللہ خاں عرف مرزانوشہ“ لکھاہے۔15

(9) غالب کی وفات کے تیسرے دن ان کے فرزندِ متبنّٰی حسین علی خاں شاداں (پسرِ عارف) نے نواب کلب علی خاں کو اس حادثے کی اطلاع دیتے ہوئے لکھا تھا:

 ”بہ تاریخ 15 فروری سالِ حال مطابق 2 ذی قعدہ روزِ دوشنبہ وقت ظہر جناب دادا جان صاحب قبلہ نواب اسد اللہ خاں غالب عرف میرزا نوشہ صاحب نے اس جہانِ فانی سے رحلت کی۔“16

(10) مولانا حالی نے جو غالب کے عزیز ترین شاگردوں میں سے تھے، ”یادگارِ غالب“ کا آغاز اس جملے سے کیا ہے:

“میرزا اسد اللہ خاں غالب المعروف بہ میرزانوشہ، المخاطب بہ نجم الدولہ، دبیر الملک، اسد اللہ خاں بہادر، نظام جنگ، المتخلص بہ غالب در فارسی واسد در ریختہ، شبِ ہشتمِ ماہِ رجب 1212 ہجری کو شہر آگرہ میں پیداہوئے۔“17

          عرف کے متواتر استعمال اور اس کے ساتھ شہرتِ عام کی ان مثالوں کے پیشِ نظر یہ باور کرنے کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی کہ غالب واقعتا اس سے بیزار ہوں گے یا اسے بہ نظرِ حقارت دیکھتے ہوں گے۔ اس کے باوجود یہ بھی واقعہ ہے کہ انہوں نے ایک دوبا راپنے احباب کو اس کے استعمال سے روکابھی ہے اور اسے ”نالائق“ قرار دے کر ایک اعتبار سے اس کی مذمّت بھی کی ہے، لیکن اس کی وجہ ان کی وہی مصلحت اندیشی اور احتیاط پسندی تھی جو انہیں بہ وقتِ ضرورت خلافِ معمول فیصلے لینے پر مجبور کرتی رہتی تھی۔فروری 1828ء میں جب وہ اپنی پنشن کا مقدمہ حکومتِ عالیہ کے سامنے پیش کرنے کی غرض سے کلکتے پہنچے تو ایک ”نکوہیدہ سیرت“ ہم وطن (مرزا افضل بیگ) نے حکّام کو ان کی طرف سے بدظن کرنے کی غرض سے یہ افواہ اڑادی کہ اس تازہ وارد شخص نے اپنا نام بھی بدل لیاہے اور تخلص بھی۔ گویا یہ شخص فریبی اور جعل ساز ہے۔ اسی افواہ کے زیرِ اثر اعیانِ دفتر کو ان کا نام بہ غرضِ ملاقات اپنے افسرِ اعلیٰ تک پہنچانے میں تامّل تھا، کیوں کہ سرکاری کاغذات کے مطابق خاندانی پنشن ”مرزا نوشاہ“ کے نام جاری ہوئی تھی اور وہ ”مرزانوشہ متخلص بہ اسد“ کی منزل سے آگے بڑھ کر اب ”اسد اللہ خاں غالب“ کے طور پر روشناسِ خلق تھے۔ اس مرحلہ دشوار سے نبٹنے کے لیے مرزاصاحب نے اپنے دیوانِ اردو کے ایک قلمی نسخے کا سہارا لیا جسے مرتب ہوئے سات سال سے کچھ زیادہ مدت گزر چکی تھی او راس سفر میں اتفاقاً ان کے ساتھ تھا۔ اس دیوان میں وہ غزلیں بھی شامل تھیں جن کے مقطعوں میں پرانا تخلص (اسد) موجود تھااور وہ غزلیں بھی جن میں نیا تخلص (غالب) نظم ہواتھا۔ مزید برآں اس کے خاتمے پر 1231ھ کی وہ مہر بھی ثبت تھی جس کے نگینے پر ”اسد اللہ خاں عرف مرزا نوشہ“ نقش تھا۔ غالب نے یہ دیوان ایک خط کے ساتھ ”سرحلقہ افرادِ دفتر“ (غالباً سائمن فریزر) کی خدمت میں پیش کردیا تا کہ وہ بہ طورِ خود فیصلہ کرسکیں کہ یہ افواہ کس حد تک درست ہے۔ خط میں انہوں نے لکھا تھا:

“آن مہر بہ ابطالِ دعویِ حداثتِ اسم مسکتِ مدعی است و در مسلّم نہ داشتنِ علَم برے سکوتِ ایں گمنام نیز کافی است۔ آرے اسمِ ایں فقیر اسد الہ خان است و علم مرزا نوشہ و تخلص غالب، لیکن ازیں جاکہ غالب کلمہ رباعی است و ظرفِ بعض بحور نشستِ آں رانیک برنتابد، فقیر لفظِ اسد راکہ مخففِ اسمِ عاصی است و معِ ہٰذا کلمہ ثلاثی، گاہ گاہ تخلص اختیار می کند۔“ 18

          اس تحریر سے غالب کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھاکہ اب سے بارہ سال پہلے بھی جب کہ یہ مہر تیار ہوئی تھی، وہ ”اسد اللہ خاں“ کے نام سے موسوم تھے۔ لہٰذا یہ مہر مدّعی کے اس دعوے کی تردید کے لیے کہ انہوں نے اپنا نام بدل لیا ہے، ایک مسکت دلیل کی حیثیت رکھتی ہے۔ نیز یہ کہ ”مرزانوشہ“ انھی کاعرف ہے اور یہ ان کا اختیارِ تمیزی ہے کہ وہ چاہیں تو اسے استعمال کریں اور چاہیں تو ترک کردیں۔ اس کے بعد کچھ دنوں تک وہ سرکاری خطوط اور عرضداشتوں میں اپنا نام ”اسد اللہ خاں عرف مرزانوشہ“ لکھتے رہے، بعد ازاں جب یہ قضیہ فیصل ہوگیاکہ ”مرزانوشہ“ بھی وہی ہیں اور ”اسد اللہ خاں“ بھی وہی تو انہوں نے اس دو عملی سے نجات پانے کے لیے آئندہ بہ نظر احتیاط صرف ”محمد اسد اللہ خاں“ یا ”اسد اللہ خاں“ لکھنے کا تہیّہ کرلیا۔ چنانچہ قیامِ کلکتہ کے اسی زمانے میں ایک بار اپنے دوست راے چھج مل کو خط لکھا تو پتے کے ذیل میں ان کے لکھے ہوئے مفصل نام کو موضوعِ گفتگو بناکر یہ سوال بھی کرڈالاکہ:

“برعنوانِ مکتوب کلمہ نواب راجزوِ اعظم (کذا=اسم) ساختن یعنی چہ و عرف پایانِ اسم رقم کردن چرا؟ سگِ دنیا را بہ اسد اللّٰہی شہرت دادن چہ کم است کہ نوابی و میرزائی برسرِ ہم باید افزود۔“19

          یہ بات بہ ظاہر انکسا رکے طورپر کہی گئی ہے لیکن اصل مقصد یہی معلوم ہوتاہے کہ نام کے ساتھ عرف نہ شامل کیا جائے تاکہ پڑھنے والے کا ذہن اس قضیہ نامرضیہ کی طرف منتقل ہی نہ ہو کہ مکتوب الیہ اب سے پہلے ”مرزانوشہ“ کے نام سے موسوم تھا اور اب اس نے اپنا نام بدل کر ”اسد اللہ خاں“ کر لیا ہے۔ اس کے بعد اگلے تیس (30) برسوں میں ان کی کوئی ایسی تحریر نہیں ملتی جس میں انہوں نے اس عرف سے بریّت کا اظہار کیا ہو یا کسی کو اس کے استعمال سے روکاہو۔ تا آن کہ یکم ستمبر 1858ء کو انہو ںنے مرزا ہرگوپال تفتہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا:

“صاحبِ مطبع (مفیدِ خلائق،آگرہ) نے خط کے لفافے پرلکھاہے:

”مرزانوشہ صاحب غالب“ للہ غور کرو، یہ کتنا بے جوڑ جملہ ہے۔ ڈرتاہوں کہ کہیں صفحہ اولِ کتاب پر بھی نہ لکھ دیں صرف اپنی نفرت عرف سے وجہ اس واویلا کی نہیں ہے بلکہ سبب یہ ہے کہ دلّی کے حکّام کو تو عرف معلوم ہے مگر کلکتے سے ولایت تک یعنی وزراکے محکمے میں اور ملکہ   عالیہ کے حضور میں کوئی اس نالائق عرف کو نہیں جانتا، پس اگر صاحبِ مطبع نے ”مرزانوشہ صاحب غالب“ لکھ دیاتو میں غارت ہوگیا، کھویاگیا، میری محنت رائگاں گئی، گویا کتاب کسی اور کی ہوگئی۔“

اس کے تیسرے دن ان سے دوبارہ یہ استدعا کی:

          منشی شیونرائن کو سمجھا دینا کہ زنہار عرف نہ لکھیں، نام اور تخلص بس، اجزاے خطابی کا لکھنا نامناسب بلکہ مضر ہے“۔

          ان بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ کتاب (دستنبو)کے سرورق پر صرف نام اور تخلص لکھنے اور عرف نہ لکھنے پر یہ اصرار فی الواقع اس مبیّنہ طورپر ”نالائق عرف“ سے نفرت کا نتیجہ نہیں بلکہ اس احتیاط اور پیش بندی پر مبنی ہے کہ سرکاری کاغذات میں درج ان کے نام کے ساتھ اس عرف کی شمولیت ”وزراکے محکمے اور ملکہ عالیہ کے حضور میں“ کسی غلط فہمی کا سبب نہ بن جائے اور پھر کوئی ایسی صورتِ حال پیش نہ آجائے جیسی ایک بار کلکتے میں پیش آچکی تھی۔ غدر کے بعد کے مخصوص حالات اور انگریز حکّام کی مطلق العنانی کو مدِّ نظر رکھا جائے تو یہ اندیشہ کچھ بے جابھی نہ تھا۔ کلکتے میں انہیں ذاتی طورپر جو تجربہ ہوچکاتھا، ممکن ہے کہ اس قسم کے کچھ اور واقعات بھی ان کے علم میں ہوں۔ کم سے کم ایک واقعے کا ذکر خود ان کے ایک خط میں موجود ہے۔ یہ خط یوسف مرزا کے نام ہے اور قیاساً 1859ء کے وسط میں لکھاگیاہے۔ لکھتے ہیں:

“ایک لطیفہ پرسوں کا سنو:حافظ ممّو بے گناہ ثابت ہوچکے۔ رہائی پاچکے۔ حاکم کے سامنے حاضر ہواکرتے ہیں۔ املاک اپنی مانگتے ہیں۔ قبض و تصرف ان کا ثابت ہوچکا ہے، صرف حکم کی دیر۔ پرسوں وہ حاضر ہیں۔ مسل پیش ہوئی۔ حاکم نے پوچھا:

حافظ محمد بخش کون؟ عرض کیا میں۔ پھر پوچھا کہ حافظ ممّو کون؟ عرض کیا کہ میں۔ اصل نام میرا محمد بخش ہے، ممّوم ممّو مشہور ہوں۔ فرمایا: یہ کچھ بات نہیں، حافظ محمد بخش بھی تم، حافظ ممّو بھی تم، سارا جہان بھی تم، جو کچھ دنیا میں ہے، وہ بھی تم۔ ہم مکان کس کو دیں؟ مسل داخلِ دفتر ہوئی۔ میاں ممّو اپنے گھر چلے آئے۔

          جہاں ایک معمولی سے شبہے کی بنا پر اس طرح ایک جیتا ہوا مقدمہ ہارا جا سکتا ہے، وہاں غالب کا اپنے مفادات کے تحفظ میں ہرممکن احتیاط برتنا مقتضاے حال کے عین مطابق تھا۔ وہ یہ خطرہ مول لینے کے لیے کسی صورت میں بھی تیار نہیں ہوسکتے تھے کہ نام اور عرف کے چکر میں حافظ محمد بخش عرف حافظ ممّو کی طرح ان کی مسل بھی داخلِ دفتر کردی جائے۔ تفتہ کے نام پنے محولّہ بالا دونوں خطوں میں سے پہلے خط میں انہوں نے جس تشویش کا اظہار کیا ہے اور دوسرے خط میں تاکید کی جو صورت اپنائی ہے، وہ بدیہی طورپر اسی قسم کے اندیشہ ہاے دور دراز کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔ اگر وہ واقعی اس ”نالائق عرف“ سے متنفّر ہوتے تو عام حالات میں بھی اپنے نام کے ساتھ اس کے الحاق کے خلاف کبھی نہ کبھی ضرور احتجاج کرتے، لیکن اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حد یہ ہے کہ 1865ء میں جب اسی کتاب (دستنبو) کا دوسرا ایڈیشن ”نسخہ صحیحہ مرسلہ مصنف“ کی بنیاد پر مطبع لٹریری سوسائٹی روہیل کھنڈ، بریلی سے شائع ہواتو اس کے سرورق پر ان کا پورا نام ”نجم الدولہ، دبیر الملک، اسد اللہ خاں بہادر، نظام جنگ، المتخلص بہ غالب عرف مرزانوشہ“ لکھا ہواتھا۔ نام کے ساتھ ”اجزاے خطابی“ اور ”عرف“ کے اس اندراج کو انہوں نے بعد کی کسی تحریر میں نہ تو ”نامناسب بلکہ مضر“ قرار دیا اورنہ اس پر کسی قسم کی ناگواری ظاہر کی۔

          دوسری مہر کے سلسلے میں مالک رام صاحب کا ارشاد ہے کہ ”اس کی بنا حضرت علی کا لقب ہے۔ چوں کہ میرزا کا نام اسد اللہ تھا، اس لیے انہوں نے اس رعایت سے بہ طورِ سجع یہ نام کھدوا لیا۔“ بعد میں جب انہوں نے تخلص تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تو اسی لقب کی رعایت سے اسد کو چھوڑ کر غالب اختیار کرلیا (ص81) غالب نے ایک منقبتی قصیدے میں خود بھی اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ تخلص کے اس انتخاب میں حضرت علی کے ”اسم و رسم“ کے اثرات شامل تھے۔ فرماتے ہیں:

اے کز نوازشِ اثرِ اسم و رسمِ تو

نامم زمانہ غالب معجز بیاں نہاد

          اس کے باوجود مالک رام صاحب کا یہ دعویٰ محتاجِ دلیل ہے کہ مرزا صاحب نے پہلے حضرت علی سے اپنی محبت و عقیدت کے اظہا رکے طورپر یہ مہر کھدوائی،اس کے بعد اپنا تخلص اسد سے بدل کر غالب کیا۔اس کے برخلاف مرحوم اکبر علی خاں عرشی زادہ کا یہ استدلال زیادہ قرینِ صحت معلوم ہوتاہے کہ رجب 1231ھ (جون 1861ع) میں دیوان کے اولین دستیاب نسخے کی ترتیب کے وقت تک مرزا صاحب اسد تخلص کرتے تھے۔ بعد میں اسی سال کی کسی تاریخ کو انہوں نے غالب تخلص اختیار کیاتو یہ نئی باتخلص مہر کندہ کرائی۔ 20

          اگر اس مہر کی وساطت سے صرف ”دلی خیالات و معتقدات“ کا اظہار مقصود ہوتا تو یہ کام اس سے قبل بھی کیا جاسکتا تھاکیوں کہ غالب 1231ھ سے پہلے بارہا اس امر کا اعتراف و اعلان کرچکے تھے کہ

امامِ ظاہر و باطن، امیرِ صورت و معنی

علی، ولی، اسد اللہ، جانشینِ نبی ہے

          ان حالات میں ایک ہی سال کے اندر دو مہروں کی تیاری کی اس کے علاوہ اور کوئی معقول توجیہہ نہیں کی جاسکتی کہ مرزا صاحب نے اسی سال اپنا تخلص تبدیل کیا ہوگا اور اس تبدیلی کی علامت کے طورپر بہ صورت سجع یہ دوسری مہر کندہ کرائی ہوگی۔ لیکن مالک رام صاحب کے نزدیک یہ استدلال قابلِ قبول نہیں، چنانچہ ”گلِ رعنا“ کے مقدمے میں انہو ںنے اس مسئلے کو ایک بار پھر اٹھایا ہے۔ عرشی زادہ کا نام لیے بغیر تحریر فرماتے ہیں:

بعض لوگوں نے استدلال کیاکہ ”اسد اللہ الغالب“ مہر سے ثابت ہوتاہے کہ انہوں نے اس سال (1231 میں) غالب تخلص اختیارکیا، حال آنکہ نہ ان کا نام ”اسد اللہ“ تھا نہ تخلص ”الغالب“۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس مہر میں لفظ ”غالب“ بہ طورِ تخلص استعمال ہی نہیں ہوا بلکہ یہ مہر انہوں نے بہ طورِ سجع تیار کرائی تھی۔ دراصل ”اسداللہ الغالب“ لقب ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا۔ چوں کہ میرزا کا نام ”اسد اللہ خاں“ تھا اور وہ عقیدے کے لحاظ سے شیعی تھے، اس لیے انہوں نے یہ سجع والی مہر بنوا کر گویا حضرت علی سے اپنی عقیدت کا اعلان بھی کردیا۔ غرض اس مہر سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ 1231ھ میں انہوں نے غالب تخلص اختیار کر لیا تھا۔ البتہ یہ درست ہے کہ بعد کو انہوں نے اسد تخلص سے بیزار ہوکر نیا تخلص رکھنے کا فیصلہ کیا تو اسی سجع نے ان کی مشکل حل کردی اور انہوں نے یہ سامنے کا لفظ بہ طورِ تخلص اختیار کرلیا۔“21

          اپنی بات پر بے جا اصرار کا رویّہ بعض اوقات بدیہّیات سے بھی چشم پوشی پر مجبور کردیتا ہے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت اس بیان کی بھی ہے۔ سجع کی خوبی یہ خیال کی جاتی ہے کہ اس میں صاحب سجع کا نام بھی آجائے اور کلمہ سجع کی معنوی بھی اپنی جگہ برقرار رہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ حشو و زوائد سے یکسر پاک ہو۔ غالب نے اپنے شاگرد حکیم سید احمد حسن فنا مودودی کی فرمائش پر ان کے نام کے دو سجعے کہے تھے۔ یہ سجعے بھیجتے ہوئے انہوں نے خط میں لکھاتھا:

“بہارِ گلستانِ احمد حسن، یہ سجع کیا برا ہے؟ دلِ حیدر و جانِ احمد حسن، یہ اس سے بھی بہتر ہے۔ انھی دونوں میں سے ایک سجع مہر پر کھدوا لیجیے۔“22

          ان دونوں سجعوں میں ایک لفظ بھی زائد از ضرورت نہیں۔”اسد اللہ الغالب“ کی بھی یہی کیفیت ہے۔ اگر اس وقت مرزا صاحب کا تخلص غالب نہ ہوتاتو یہ سجع کوئی معنی ہی نہ رکھتا، اور اگر اس مہر میں ”اسد اللہ“ کے ساتھ ”الغالب“ کی بجاے صرف ”غالب“ کندہ کیا گیا ہوتا تو یہ سجع نہ ہوتا، صرف نام ہوتا۔ رہ گیا یہ سوال کہ غالب کا اصل نام ”اسد اللہ“ نہیں ”اسد اللہ خاں“ تھا تو یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ میر، میرزا، سید، شیخ، خاں، بیگ، مودودی اور چشتی جیسے سابقے اور لاحقے کسی نام کے اجزاے اصلی نہیں، اجزاے اضافی ہوتے ہیں، علاوہ بریں الفاظ کے اس مخصوص تانے بانے سے بھی کوئی مناسبت نہیں رکھتے جس سے سجع کی تشکیل ہوتی ہے، اس لیے سجع کہتے وقت انہیں نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ چنانچہ غالب نے بھی سید احمد حسن کے نام کے مذکورہ بالا دونوں سجعوں میں ”سید“ کے سابقے سے صرفِ نظر کرکے صرف ”احمد حسن“ نظم کیاہے۔ قطعِ نظر اس سے اگر مالک رام صاحب کے نزدیک غالب کا اصل نام ”اسد اللہ خاں“ اور صرف ”اسد اللہ خاں“ تھاتو چند سال کے بعد ”محمد اسد اللہ خاں“ کے نام سے ایک تازہ مہر کندہ کرانے کا کیا جواز باقی رہتاہے؟

          صحیح بات یہ ہے کہ غالب کا اصل نام صرف ”اسد اللہ“ تھا، باقی تمام سابقے اور لاحقے فروعی یا اضافی حیثیت رکھتے تھے، چنانچہ انہوں نے اپنی بے شمار تحریروں میں، نظم میں بھی اور نثر میں بھی، اپنا نام صرف ”اسد اللہ“ لکھاہے۔ نظم کے چند نمو نے حسبِ ذیل ہیں:

حبسِ بازارِ معاصی، اسد اللہ اسد

کہ سوا تیرے کوئی اس کا خریدار نہیں

غالب نام آورم، نام و نشانم مپرس

ہم اسد اللّٰہم و ہم اسد اللّٰہیم

منصورِ فرقہ علی اللّٰہیاں منم

آوازہ انا اسداللہ درافگنم

فیضِ دمِ انا اسد اللہ بر آورم

منصورِ لا ابالیِ بے دار و بے رسن

‘پنج آہنگ’ کے خطوط میں بھی انہوں نے متعدد جگہ اپنا نام صرف ”اسد اللہ“ ہی لکھا ہے، حتّٰی کہ بعض خطوط کا آغاز ”از اسداللہ نامہ سیاہ“ یا ”نامہ نگار اسد اللہ“ سے ہوتاہے۔ میاں نوروز علی خاں کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:

“اگرنامہ فریسند و بہ عنوان نویسند کہ ایں مکتوب بہ دہلی بہ اسد اللہ رسد، دشوار نیست کہ آں نامہ بدیں روسیاہ برسد۔“23

22 مارچ 1852ء کے ایک خط میں تفتہ کو ہدایت کرتے ہیں:

“خط پر حاجت مکان کے نشان کی نہیں ہے۔ ”در دہلی بہ اسد اللہ برسد“ کافی ہے”

          اس سے بھی اہم تر بات یہ ہے کہ پنشن سے متعلق عرض داشتوں اور درخواستوں کے آخر میں بھی وہ کبھی کبھی اپنا نام صرف ”اسد اللہ“ ہی لکھا کرتے تھے۔ اس سلسلے کے دستاویزات میں ایسی اٹھائیس تحریریں ہماری نطر سے گزر چکی ہیں جن پر ان کے دستخط ثبت ہیں۔ ان میں سے بارہ تحریروں میں انہو ںنے اپنا نام ”اسد اللہ“ لکھاہے۔ ان میں قدیم ترین تحریر 25 نومبر 1831ء کی اور آخری تحریر 25 اکتوبر 1844ء کی ہے۔ نواب کلب علی خاں کے نام کے خطوط میں بھی جہاں انہوں نے بہ طورِ دستخط تخلص کی بجاے نام لکھا ہے، یہی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس سلسلے کا آخری خط 16 نومبر 1898ء کا تحریر کردہ ہے۔

          اس سلسلہ گفتگو کا آخری اور سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ”اسد اللہ“ کی حیثیت اسمی سے متعلق مالک رام صاحب کا زیر بحث بیان خود ان کے سابقہ موقف سے مطابقت نہیں رکھتا۔ گزشتہ سطور میں ان کا یہ قول نقل کیا جاچکاہے کہ”اس (دوسری) مہر کی بناحضرت علیؓ کا لقب ہے۔ چوں کہ میرزا کانام اسد اللہ تھا، اس لےے انہوں نے اس رعایت سے بہ طورِ سجع یہ نام کھدوا لیا۔“ اس طر ح ایک بار یہ کہنا کہ ”میرزا کا نام اسد اللہ تھا“ اور دوسری بار اس سے انکار کردینا ایک ایسی کیفیتِ ذہنی کی غمّازی کرتا ہے جو اعترافِ حق اور اعلانِ حق کی بجاے بہر صورت حریف کے دعووں کو باطل ٹھہرانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔

          غالب نے تیسری مہر 1238ھ میں تیار کرائی تھی۔ اس پر ”محمد اسد اللہ خاں“ کندہ تھا۔ مالک رام صاحب کے مطابق یہ ”معرکہ آرا مہر ایک عظیم الشان داخلی اور ذہنی انقلاب کی آئینہ دار ہے۔“ اس انقلاب کے محرکات میں انہوں نے اس مذہبی مباحثے کا بہ طورِ خاص حوالہ دیاہے جو ان کے بقول انیسویں صدی کے ربعِ اول میں شروع ہواتھااور جس کا موضوع مسئلہ امکان و امتناعِ نظیر تھا۔ اس مباحثے کے ایک فریق مولانا فضلِ حق خیرآبادی تھے۔ ان کی تحریک پر غالب نے بھی اس بحث میں حصّہ لیا تھا اور فارسی میں ایک مثنوی کہہ کر ان کی او ران کے ہم خیال علما کی تائید کی تھی۔ مذہبی معاملات سے غالب کی اس دلچسپی کا اوّلین محرک مالک رام صاحب نے نواب الٰہی بخش خاں معروف سے ان کی عزیز داری کو ٹھہرایاہے۔ نواب صاحب خود صوفی تھے اور اس حیثیت سے متصوفین کے درمیان ”خاصے معروف بھی تھے“۔ غالب کی طبیعت کے ”لاابالیانہ پن“ پر ”علم و عمل کے اس نمونے“ کے اثرات مرتب نہ ہوں، یہ اصولِ فطرت کے خلاف تھا۔اس تمہید کے بعد مالک رام صاحب نے اس سلسلے میں اپنے مجموعی تاثرات ان الفاظ میں قلمبند فرمائے ہیں:

“میرزا کی تحریروں سے ثابت ہے کہ وہ اس سے قبل فسق و فجور اور عیش و عشرت کی دلدل میں پھنس چکے تھے، لیکن اس نئے مذہبی ماحول نے اگر ان کی کایا بالکل پلٹ نہیں دی تو کم از کم اس کی شدت میں ضرور کمی آگئی اور وہ اخلاقی قدروں کے بھی شناسا ہوگئے۔اس سے پہلے انکی مہر پر کندہ تھا: اسد اللہ خاں عرف میرزانوشہ، انہوں نے جو نئی مہر تیار کرائی، اس پر لکھا ہے: محمد اسد اللہ خاں۔ کیا ان کی قلبِ ماہیت کا اس سے زیادہ کوئی اور ثبوت درکارہے۔“ (ص84)

          مسئلہ امکان و امتناعِ نظیر پر بحث کب شروع ہوئی اور اس کا آغاز کس نے کیا، فی الوقت اس موضوع پر گفتگو کا موقع نہیں۔ قابلِ غور مسئلہ یہ ہے کہ غالب اس بحث میں کب شریک ہوئے اور ان کی وہ نظم جو اس مسئلے سے متعلق ہے، کس زمانے میں معرضِ وجود میں آئی؟ مالک رام صاحب نے اس مباحثے کو انیسویں صدی کے ربعِ اوّل کا واقعہ قرار دیاہے۔ نہیں کہا جاسکتاکہ غالب کو اس ابتدائی مرحلے میں اس مسئلے سے کوئی دلچسپی تھی یانہیں۔ شواہد سے معلوم ہوتاہے کہ 1856ءکے اواخر تک اس بحث کا سلسلہ ختم نہیں ہواتھا۔ بعض قرائن کے بموجب یہی وہ زمانہ ہے جب کہ مولانا فضلِ حق نے الور سے رام پور جاتے ہوئے کچھ دنو ںکے لےے دہلی میں قیام کیا تھا اور اس دوران ان کی سرگرم شرکت کی بدولت یہ بحث ایک بار پھر تازہ ہوگئی تھی۔ چنانچہ غالب نے انھی ایام میں مولانا کی فرمائش پر وہ اشعار کہے تھے جو ان کی چھٹی فارسی مثنوی موسوم بہ ”بیانِ نموداریِ شانِ نوبت و ولایت“ میں شامل ہیں۔ سلطان العلما مولانا سید محمد مجتہد کے نام 21 جمادی الاول 1273ھ (17 جنوری 1857ع) کے خط میں اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“دریں ہنگام در شہر دو دانشمند باہم در آویختہ اند۔ یکے می سراید کہ آفریدگار ہمتاے حضرتِ خاتم الانبیا علیہ و آلہ السّلام می تواند آفرید۔ وایں یکے می فرماید کہ ایں ممتنعِ ذاتی و محالِ ذاتی است۔ بندہ چوں ہمیں عقیدہ دارد، نظمے در گیرندہ بدیں مدّعا سرانجام دادہ است۔ ہر آئینہ چشم دارد کہ سواد بہ نورِ نظرِ اصلاح روشن شود۔“ 24

          اس واضح بیان کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ 1273ھ 1856ء میں اس مذہبی مباحثے میں غالب کی شرکت اور اس سے پورے پینتیس (35) برس قبل 1238ھ 1823ء میں تیار شدہ ان کی زیرِ بحث مہرکے درمیان کسی ذہنی و جذباتی رشتے کی موجود گی قطعاً خارج از امکان ہے۔ یہی کیفیت تصوف کے اثرات کی بھی ہے کہ اس سے غالب کا واسطہ ”براے شعر گفتن“ سے زیادہ نہ تھا۔ علاوہ بریں مذہبی طورپر وہ شیعی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے تھے جس میں تصوف کے لیے یوں بھی کوئی گنجائش نہیں۔ البتہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ دوسری مہر کی طرح یہ تیسری مہربھی شیعت میں ان کے گہرے اعتقاد کی توثیق کرتی ہے۔ اس میں ان کے نام کے مختلف اجزا کی نشست میں جو ترتیب قائم کی گئی ہے، اسے محض اتفاق نہیں کہا جا سکتا۔ اس کی صورت یہ ہے کہ سب سے اوپر لفظ ”اللہ“ کندہ ہے، درمیان میں لفظ ”محمد“ نقش ہے اور تیسری اور آخری سطر میں لفظ ”اسد“ اور ”خان“ یعنی:

خدا کے بعد نبی اور نبی کے بعد امام

یہی ہے مذہبِ حق، والسّلام و الاکرام

          غالب کی خودنوشت تحریروں، سرکاری مراسلوں اور عرضداشتوں میںکہیں ان کا نام ”اسد اللہ خاں“، کہیں ”محمد اسد اللہ خاں“، کہیں ”محمد اسد اللہ“ اور کہیں صرف ”اسد اللہ“ لکھا ہوا ملتاہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ اس معاملے میں کسی طے شدہ ضابطے کے پابند نہیں تھے۔ دوسری اور تیسری صورتوں میں اصل نام ”اسد اللہ“ کے ساتھ لفظِ ”محمد کے اضافے کاایک سبب یہ بھی ہوسکتاہے کہ ان کے رشتے کے ایک سالے یعنی امراو بیگم کے عمِ حقیقی نبی بخش خاں کے ایک بیٹے کا نام بھی ”اسد اللہ خاں“ تھااور ان کی مہر پر یہی نام کندہ تھا۔چوں کہ غالب اپنے تشخّص کی نگہداری کے معاملے میں خاصے حسّاس تھے، اس لےے عین ممکن ہے کہ انہو ںنے اپنے اور اپنے ان برادرِ نسبتی کے درمیان امتیاز کی غرض سے اپنی مہر پر ”محمد اسد اللہ خاں“ کندہ کرالیاہو۔

          جیسا کہ گزشتہ سطور میں عرض کیاگیا، غالب اپنے نام کے معاملے میں کسی طے شدہ ضابطے کے پابندنہیں تھے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا غالب رجحان ”اسد اللہ خاں“ کی طرف تھا۔ جب اس نام کو سرکاری سطح پر سندِ اعتبار حاصل ہوگئی تو انہوں نے لفظ ”محمد“ کو ترک کرکے صرف ”اسد اللہ خاں“ لکھنا شروع کردیا۔چنانچہ مرزا ہرگوپال تفتہ کو 17 ستمبر1858ء کے خط میں لکھتے ہیں:

“لفظِ مبارک میم، حا، میم، دال“، اس کے ہر حرف پر میری جاں نثا رہے مگر چو نکہ یہاں سے ولایت تک حکّام کے ہاں سے یہ لفظ یعنی ”محمد اسد اللہ خاں“ نہیں لکھا جاتا، میں نے بھی موقوف کردیاہے۔”

          حکّام کاپاسِ خاطر غالب کو کس قدر عزیز تھا، اس کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتاہے، اس لیے ان کے کسی بھی فیصلے یا طرزِ عمل کو وقت اور حالات کے تقاضوں سے بلند ترہوکر دیکھنے کی کوشش کبھی صحیح سمت میں رہنمائی نہیں کرسکتی۔اسی مصلحت کوشی اور احتیاط پسندی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اپنی خاندانی پنشن اور دیگر امور سے متعلق درخواستوں اور مراسلوں پر کبھی اس مہر کے علاوہ کوئی اور مہر نہیں لگائی۔ چنانچہ اس سلسلے کے جو دستاویزات برصغیر اور یورپ کے مختلف محافظ خانوں میں محفوظ ہیں،ان میں سے سترہ (17) کاغذات پر دستخط کے ساتھ یہ مہر بھی ثبت ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ نام کے ساتھ ”محمد“ کا سابقہ موقوف کردینے کے اعلان کے بعد بھی وہ سرکاری نوعیت کی تمام تحریروں پر یہی مہر لگاتے رہے۔ چنانچہ جن سترہ تحریروں پر اس مہر کے نشانات ہماری نظر سے گزرے ہیں، ان میں اولین تحریر 7جولائی 1830ء کی اور آخری تحریر 7 فروری 1867ء کی ہے۔ اس آخری تحریر کی روشنی میں جناب کالی داس گپتا رضا کایہ ارشاد محلِّ نظر قرار پاتا ہے کہ ”غالب کی یہ مہر تقریباً تیس سال تک استعمال میں رہی25۔“ موجودہ شواہد کی بنیاد پر اس کا کم از کم پیتالیس (45) سال تک (1138ھ 1822-23ء تا 2شوال1283 7 فروری 1867ء استعمال میں رہنا ثابت ہے۔

          ہمارے نزدیک یہ مہر نہ تو مذہبی نقطہ نظر سے کسی ”داخلی اور ذہنی انقلاب“ کی آئینہ دا رہے اور نہ اخلاقی سطح پر کسی ”قلبِ ماہیت“ کی نشان دہی کرتی ہے۔ بہ ظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ بہ طورِ خاص سرکاری کاغذات پر ثبت کرنے کے لیے تیار کرائی گئی تھی، کیوں کہ اس سے پہلے کی دونوں مہریں اس کام کے لیے موزوں نہیں تھیں۔ پہلی مہر کا استعمال نام کے ساتھ عرف کے شمول کی وجہ سے خلافِ احتیاط تھا جب کہ دوسری مہریں اس کام کے لیے موزوں نہیں تھیں۔ پہلی مہر کا استعمال نام کے ساتھ عرف کے شمول کی وجہ سے خلافِ احتیاط تھا جب کہ دوسری مہر خالص مذہبی رنگ کی نمائندگی کرتی تھی۔

          اس سلسلے کی چوتھی مہر وہ ہے جسے مالک رام صاحب نے پانچویں نمبر پر جگہ دی ہے۔ اس پر ”یا اسدَاللہ الغالب“ کندہ ہے اور مالک رام صاحب کے مشاہدے یا تحقیق کے مطابق یہ 1269ھ 1852-53ء میں تیار ہوئی تھی۔ مصیبت یا پریشانی کے وقت حضرت علیؓ کو مدد کے لیے پکارنا شیعہ حضرات کے بنیادی عقائد اور روز مرّہ کے معمولات میں شامل ہے۔ یہ مہر اسی عقیدے کے اظہار کا ایک وسیلہ ہے۔ چنانچہ مالک رام صاحب نے اسے مناسب جواز فراہم کرنے کی غرض سے پہلے تویہ وضاحت فرمائی ہے کہ غالب اس زمانے میں یعنی 1852-53ءکے آس پاس مختلف قسم کی ذہنی و مالی پریشانیوں میں مبتلا تھے، جنہوں نے انہیں ”پراگندہ روزی، پراگندہ دل“ کا مصداق بنادیاتھا۔اس کے بعد 1854ء کے چند واقعات کے حوالے سے ان کی ”خوش اعتقادی اور نیک نیتی“ کے بار آور اور اس استعانت کے مقبول و مستجاب ہونے کے کئی ثبوت پیش کیے ہیں۔ یہ شواہد حسب ذیل ہیں:

(1) ذوق کے انتقال (4 نومبر 1845ع) کے بعد استادِ شاہ کے منصب پر تقرر۔

(2) ولی عہد مرزا غلام فحرالدین رمز کا حلقہ تلامذہ میں شامل ہونا اور چار سو روپے سالانہ وظیفہ مقرر کرنا۔

(3) طفر کے سب سے چھوٹے بیٹے مرزا خضر سلطان کا شاگرد ہونا۔

(4) سلطنتِ اودھ سے رسم و راہ میں استواری اور واجد علی شاہ کی طرف سے پانچ سو روپے سالانہ بہ طورِ وظیفہ مقرر ہونا۔

          یوں تو غالب کی زندگی میں کوئی دور ایسا نہیں گزراجب کہ انہوں نے اپنی خواہشات اور توقعات کے مطابق آسودگی اور مرفّہ الحالی کی زندگی گزاری ہو تاہم 1853ء میں یا اس سے کچھ پہلے آلام و مصائب کی کوئی ایسی غیر معمولی صورتِ حال نظر نہیں آتی جس میں وہ مالک رام صاحب کے بقول ”بہ آوازِ بلند فریاد“ پر مجبور ہوں اور حضرت علیؓ کو ان کی مشکل کشائی کا واسطہ دے کر مدد کے لیے پکاریں۔ اس کے برخلاف یہ وہ زمانہ ہے جب کہ بہادرشاہ ظفر کی سرکار سے ”نجم الدولہ، دبیر الملک، نظام جنگ“ کے خطابات اور پچاس روپے ماہوار کے مشاہرے کے ساتھ سلاطینِ مغلیہ کی تاریخ نویسی کے منصب پر تقررکے بعد ان کی اناکی تسکین اور اسبابِ معیشت کی بہتری کا اچھا خاصا سامان مہیا ہو گیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں مالک رام صاحب کی تمام تاویلات و توجیہات دوراز کار قیاسات پر مبنی ہیں،کیوں کہ یہ مہر 1269ھ میں نہیں، اس سے پورے بیس برس پہلے1269ھ 1833-34ء میں کندہ کرائی گئی تھی۔ اس کے دستیاب نقش میں چار کی دہائی واضح نہیں۔ مالک رام صاحب نے اسے پہلی نظر میں غلطی سے چھ پڑھ لیا، اس کے بعد دوبارہ اس پر غور کرنے اور دوسرے ذرائع سے اس کی تصدیق کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، حال آنکہ یہ زیادہ مشکل کام نہ تھا۔ غالب نے اپنا دیوانِ فارسی ”مے خانہ آرزو سرانجام“ کے نام سے 1250ھ 1834-35ء میں مرتب کیا تھا۔ اس کا دیباچہ ان کے کلیاتِ فارسی کے علاوہ ”کلیاتِ نثرِ غالب“ میں بھی شامل ہے۔ اس دیباچے میں ایک جگہ انہوں نے لکھا ہے

دل بہ شراکِ نعلینِ محمدی آویختن کیش و آئینِ من و طغراے والاے ”یا اسدَاللہ الغالب“ نقشِ نگینِ من۔“26

          اس سے ظاہرہے کہ یہ مہر اس دیوان کی ترتیب سے پہلے تیار ہوچکی تھی۔ 1250ھ سے پہلے اور اس کے بعد لیکن 1260ھ سے بہت پہلے کی غالب کی ایسی کئی تحریریں راقم الحروف کی نطر سے گزر چکی ہیں جن کا آغاز انہو ںنے ”یا اسداللہ الغالب“ سے کیا ہے۔ مثلاً:

(1) مکاتیبِ غالب کے اس مجموعے میں جو پہلے پروفیسر مسعود حسن رضوی کی ملکیت تھااو راب مولانا آزاد لائبریری،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ مخطوطات میں محفوظ ہے، مثنوی ”بادِ مخالف“ کے سرِ عنوان ”یا اسداللہ الغالب“ لکھا ہوا ہے۔ اس مجموعے کی تمام تحریریں غالب کے قیامِ کلکتہ کے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں۔

(2) “مآثرِ غالب” میں شامل فارسی خطوں میں سے ایک خط کا آغاز”یا اسداللہ الغالب“ سے ہواہے۔ یہ خط خواجہ فخراللہ کے نام ہے اور 10 رمضان 1148ھ مطابق 31 جنوری 1833ء کو لکھا گیا ہے۔

(3) خدابخش لائبریری، پٹنہ میں غالب کے کلیاتِ نظم فارسی کاایک قلمی نسخہ محفوظ ہے جسے ان کے دوست راے چھج مل نے لکھ کر 11 ربیع الآخر 1254ھ 4 جولائی 1838ء کو مکمل کیاہے۔ اس کے ایک صفحے کے حاشےے پر ”نامہ منظوم بہ نامِ جوہر“ کی ابتدابھی ”یا اسداللہ الغالب“ ہی سے ہوئی ہے۔

(4) دیوان غالب کے 1257ھ 1841ء میں شائع شدہ پہلے ایڈیشن کا آغاز بھی یا اسداللہ الغالب ہی سے ہوا ہے۔

          حضرت علیؓ سے استعانت کایہ متواتر عمل غالب کی اس زمانے کی ذہنی و مالی پریشانیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

          ان ایام میں وہ جن مسائل و مصائب سے دوچار تھے، ان کا انداز مندرجہ ذیل واقعات سے کیا جا سکتا ہے:

(1) 1826ع کے آس پاس میرزایوسف مرضِ جنون میں مبتلا ہوے اور انہوں نے تقریباً تیس برس اسی حالت میں گزارے۔ چھوٹے بھائی کی یہ علالت غالب کے لیے ہمیشہ سوہانِ روح بنی رہی لیکن شروع میں کئی برس وہ اس کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی پریشان رہے۔

(2) امراو بیگم کو اپنے چچا نواب احمد بخش خاں کی سرکار سے تیس روپے ماہوار وظیفہ ملتا تھا۔ اکتوبر 1827ء میں نواب صاحب کی وفات کے بعد جو حالات رونما ہوئے، ان کے زیرِ اثر ان کے جانشین نواب شمس الدین احمد خاں نے غالباً 1830ء یا 1831ء میں یہ وظیفہ منسوخ کردیا۔ بیوی کی اس مستقل آمدنی کے بند ہوجانے سے گھر کی اقتصادی حالت کا متاثر ہونا ناگزیر تھا۔

(3) معتمد براے گورنر جنرل کے خط مورخہ 27 جنوری 1831ء کے ذریعے اس فیصلے سے آگاہ ہونے کے بعد کہ حضورِ والا(گورنرجنرل)نصراللہ خاں کے متوسلین کی مالی امداد کے ضمن میں فیروزپور کے جاگیردار کے کےے ہوئے انتظام میں مداخلت پسند نہیں فرمائیں گے“غالب اپنے مقدمہ پنشن کی ناکامی پر عرصے تک بے حد افسردہ اور پریشان رہے۔ اس کے بعد اپریل 1844ء تک ان کا بیشتر وقت اس مقدمے کی اپیل کی کامیابی کے لیے تگ ودو میں صرف ہوا۔

(4) سقیم مالی حالت اور رئیسانہ طرزِ زندگی کی وجہ سے قرص کا بوجھ برابر بڑھتا جارہاتھا۔ پنشن کے مقدمے میں گورنر جنرل کے فیصلے کے بعد قرض خواہوں کے تقاضوں نے غالب کی زندگی اجیرن کررکھی تھی۔ انجامِ کار فروری 1835ء میں عدالتِ دیوانی سے ان کے خلاف پانچ ہزار کی ڈگری ہوگئی۔

          یہ تھاوہ پس منظر جس میں یہ مہر تیار ہوئی۔ یہ معلوم ہوجانے کے بعد کہ یہ1249ھ میں کندہ کرائی گئی تھی، یہ بات از خود طے ہوجاتی ہے کہ غالب کی اب تک دریافت شدہ مہروں میں اس کا چوتھا نمبر تھا۔

          محمد مشتاق تجاروی کابیان ہے کہ پروفیسرمختارالدین احمد کے خیال میں یہ مہر بدرالدین کے علاوہ کسی اور مہر کن کی کندہ کی ہوئی معلوم ہوتی ہے27۔ ہمیں اس خیال سے اتفاق کی بہ ظاہر کوئی معقول وجہ نظر نہیں و تی کیوں کہ اس کے حروف کی کشش اور نشست میں کوئی ایسا نقص موجود نہیں جو بدرالدین کی شانِ خط کے منافی ہو۔ البتہ اس کا جو نقش دستیاب ہواہے، وہ بہت صاف نہیں۔ یہی سبب ہے کہ مالک رام صاحب کو اس پر درج سنہ کے پڑھنے میں تسامح ہوا۔اس کیفیت کی وجہ سے بعض حروف کی ہیئتِ ظاہری بھی متاثر ہوئی ہے۔ غالباً اسی بناپر مختارالدین احمد صاحب کو یہ شبہ ہواکہ یہ بدرالدین کے علاوہ کسی اور کی بنائی ہوئی ہے۔

          پانچویں، چھٹی اور ساتویں، تینوں مہریں غالب کے شاہی خطاب ”نجم الدولہ، دبیرالملک، نظام جنگ“ سے تعلق رکھتی ہیں۔ مالک رام صاحب نے ان میں سے صرف آخری یعنی ساتویں مہرکا ذکر فرمایاہے اور اپنے حساب کے مطابق اسے چوتھے نمبر پر رکھاہے۔ چو ںکہ یہی مہر اس سلسلے کی باقی دو مہروں تک ہماری رسائی کا وسیلہ بنی ہے، اس لےے مناسب معلوم ہوتاہے کہ گفتگو کا آغاز اسی کے ذکر سے کیا جائے۔ اس ساتویں مہر پر غالب کا نام مع ان کے خطابات کے اس طرح کندہ تھا:

“نجم الدولہ، دبیر الملک، اسد اللہ خاں بہادر، نظام جنگ”

          دائیں طرف کے زیریں گوشے میں لکھے وئے سنہ کے مطابق یہ مہر 1267ھ میں تیار ہوئی تھی۔ غالب کو متذکرہ بالا خطابات بہادرشاہ ظفر نے 23 شعبان 1266ھ مطابق 4 جولائی 1850ء کو عطا کےے تھے اور ”تاریخ نویسی تاجدارانِ تیموریہ“ کی خدمت ان کے سپرد فرمائی تھی۔ مالک رام صاحب نے خود غالب کی ایک فارسی تحریر کے طویل اقتباس، ”اسعد الاخبار“ آگرہ کے 15 جولائی 1850ء کے شمارے میں شائع شدہ مفصل خبر اور مرزاہرگوپال تفتہ کے کہے ہوے قطعہ تاریخ کے حوالے سے اس سلسلے کی تمام تفصیلات اپنے مضمون میںیکجا فرمادی ہیں لیکن ایک پہلو کو بالکل نظرانداز کردیاہے کہ یہ خطابات تو 1266ھ میں ملے تھے پھر یہ مہر 1267ھ میں کیوں تیار ہوئی؟ خود اشتہاری غالب کے مزاج کاایک نمایاں عنصر تھی چنانچہ یہ بات ان کی نفسیات کے بالکل خلاف معلوم ہوتی ہے کہ وہ مہینوں نئی مہر کی تیاری کا انتظار کرتے اور اس اعزاز کے اعلان و اشتہار کے اس سہل الحصول اور موثر وسیلے سے اتنے دنوں تک محروم رہتے۔ اگر فاضل محقق کے ذہن میں یہ خلش پیداہوئی ہوتی اور انہوں نے اسے دور کرنے کے لےے غالب کی اس زمانے کی تحریروں پر بہ نظر غائر توجہ فرمائی ہوتی تو اس انکشاف میں زیادہ دیر نہ لگتی کہ وہ اس مہر سے پہلے ان خطابات پر مشتمل ایک نہیں، دو مہریں 1266ھ ہی میں تیار کراچکے تھے۔ لیکن چوں کہ یہ مہریں ان کے معیا رپر پوری نہیں اتریں اس لےے انہوں نے انہیں رد کرکے جلد ہی ایک اور مہر تیار کرالی جو عرصہ دراز تک ان کے استعمال میں رہی۔ اپنے شاگردِ عزیز منشی جواہر سنگھ جوہر کے نام 23 اکتوبر 1850ء(16 ذی قعدہ 1266ھ) کے خط میں لکھتے ہیں:

“روزے بودکہ نامہ بہ من رسیدکہ نگارش از شمابود و مہر از من۔ گفتم: سبحان اللہ شگرفیِ آثارِ یگانگی و اتحاد کہ ہم نامہ بہ نامِ من است وہم بہ مہرِ من چوں آں ورق بہ من رسید و من دراں وقت تنہا بودم، مشاہدہ نقشِ خاتمِ خویش برمکتوبِ موسومہ خویش مرابہ وجد آورد۔ بالجملہ چشم بہ راہِ نگینِ مہر داشتم، دی روز کہ سہ شنبہ و بست ودومِ اکتوبر بود، رسید۔ ہمانا مہر کن در کشمیر نہ ماند، ع مجلس چو برشکست، تماشا بہ مارسید۔ پس از پزوہش پدید آمد کہ قریبِ صد کس از ہوسناکانِ دہلی نگیں ہافرستادہ در کشمیر کند اندہ اندوہمہ شرمسار و پشیماں شدہ اند۔ حالیا آں سعادت نشاں راباید کہ دردِ سر نہ کشند و مہرِ دیگر بہ کندن نہ دہند۔ امروز دریں فن نظیر بدرالدین بہ گیتی نیست۔ چوں اوبدنوشت، پندارم کہ خوبیِ سرنوشتِ من است۔“28

          اس تحریر سے دوباتیں معلوم ہوتی ہیں، پہلی یہ کہ 4 جولائی اور 22 اکتوبر 1850ء کے درمیان غالب نے دلّی کے مشہور مہر کن بدرالدین سے اس خطاب کی یادگار کے طورپر ایک تازہ مہر تیار کرائی تھی جو انہیں کسی وجہ سے پسند نہیں آئی۔ دوسری یہ کہ اس مہر کو رد کردینے کے بعد انہوں نے اپنے شاگرد منشی جواہر سنگھ جوہر سے جو اس زمانے میں پنجاب میں کسی جگہ برسرِ روزگار تھے، یہ فرمائش کی کہ وہ کشمیر کے کسی مہرساز سے ان کی مہر تیار کرادیں۔ یہ دوسرانگینہ انہیں 22 اکتوبر 1850ء کو موصول ہوا، لیکن اس کی نقاشی سے بھی وہ مطمئن نہیں ہوئے۔ غالباً اس کے بعد ہی 1267ھ میں اس سلسلے کی وہ تیسری مہر تیا رہوئی جسے مالک رام صاحب نے چوتھے اور ہم نے ساتویں نمبر پررکھا ہے۔ احوالِ ظاہری کے اعتبارسے یہ مہر بھی بدرالدین ہی کی تیارکردہ معلوم ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ انہو ںنے پچھلی مہر کے بارے میں غالب کی ناپسندیدگی کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اس کی تیاری پر خصوصی توجہ صرف کی ہو۔

          پروفیسر مختارالدین احمد صاحب کابیان ہے کہ قیامِ آکسفورڈ کے دوران 1956ء میں انہوں نے ایک بار اس مہر کی زیارت کی تھی۔ تقریب یہ ہوئی کہ حیدرآباد سے ڈاکٹر نظام الدین صاحب اور آغا حیدر حسن صاحب کے داماد وہاں تشریف لائے ہوئے تھے۔ ایک روز جب وہ ان دونوں حضرات کو ایشمولین میوزیم کا وہ شوکیس دکھا رہے تھے جس میں مختلف قسم کی انگوٹھیاں اور مہریں رکھی ہوئی تھیں تو ڈاکٹر نظام الدین صاحب نے اپنے ہم سفر کی انگلی کی طرف اشارہ کیااو ران سے پوچھا: اس مہر کو آپ پہچانتے ہیں؟ یہ مرزا غالب کی مشہور مہر تھی۔ عقیق پر نہایت خوبصورت حروف میں ”نجم الدولہ، دبیر الملک، نظام جنگ“کے الفاظ منقوش تھے۔ مختلف کاغدوں پر متعدد بار اس کے نقوش دیکھنے میں آئے تھے۔29

          مختارالدین احمد صاحب کے علاوہ ڈاکٹر ضیاءالدین احمد شکیب نے بھی اپنی کتاب ”غالب اور حیدرآباد“ میں اس مہر کا ذکر کیاہے، جس سے اندازہ ہوتاہے کہ یہ 1969ء تک آغا حیدرحسن کے ہاں موجود تھی۔ شکیب صاحب لکھتے ہیں:

“پروفیسرآغاحیدرحسن کے یہاں میرزا غالب کاایک چغہ اور ان کی ایک مہر ہے۔ یہ مہر جگری عقیق پر کندہ ہے۔ اس مہر کی عبارت حسبِ ذیل ہے:

“نجم الدولہ، دبیرالملک، اسد اللہ خاں غالب، نظام جنگ”

1262ھ

آغا حیدرحسن صاحب کے بیان کے مطابق غالب کی یہ مہر شاہی مہر کن بدرالدین نے تیار کی تھی۔“30

          اس مہر سے متعلق یہ دونو ںبیانات تحقیقی اعتبار سے ناقص اور وضاحت طلب ہیں۔ مختارالدین احمد صاحب کے بیان کا نقص یہ ہے کہ انہو ںنے صرف اجزاے خطابی نقل فرمائے ہیں، مہر کے باقی اندراجات کو نظر انداز کردیاہے، جب کہ شکیب صاحب کی نقل کردہ عبارت میں ”اسد اللہ خاں“ اور ”نظام جنگ“ کے درمیان ”غالب“ کا اندراج او رنیچے دیاہوا سنہ مشکوک ہے۔ سنہ کے بارے میں یقین کے ساتھ کہا جاسکتاہے کہ اس کے نقل کرنے میں سہوہواہے، خواہ اس کے ذمّہ دار خود صاحبِ کتاب ہو ںیا ان کا کاتب۔ اسے ہرحال 1266ھ یا 1267ھ ہونا چاہیے۔ اگریہ 1266ھ ہے تویہ مہر یقینا اس مہر سے مختلف ہے جسے مالک رام صاحب نے اپنے مضمون میں متعارف کرایاہے اور اگر 1267ھ ہے تو اس میں نام کے بعد لفظِ ”بہادر“ کی بجاے تخلص یعنی ”غالب“ کا اندراج خلافِ واقعہ ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ دراصل یہ وہی مہر ہے جو منشی جواہر سنگھ جوہر نے کشمیر کے کسی مہرساز سے کندہ کراکے اکتوبر 1850ء میں غالب کو بھیجی تھی۔ اس کے رد کیے جانے کی وجہ بہ ظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس میں نام کے ساتھ ”بہادر“ کالاحقہ موجود نہیں تھا، جس کا شمول از روے قاعدہ بے حد ضروری تھا۔اس سلسلے میں منشی شیونرائن آرام کے نام ستمبر 1858ء کے ایک خط کا یہ اقتباس ملاحظہ طلب ہے:

“سنو، میری جان!نوابی کا مجھ کو خطاب ہے ”نجم الدولہ“ اور اطراف و جوانب کے امرا سب مجھ کو ”نواب“ لکھتے ہیں، بلکہ بعض انگریز بھی یاد رہے”نواب“ کے لفظ کے ساتھ ”میرزا“ یا ”میر“ نہیں لکھتے۔ یہ خلافِ دستور ہے۔ یا ”نواب اسد اللہ خاں“ لکھو یا ”میرزا اسد اللہ خاں“ اور ”بہادر“ کا لفظ تو دونوں حال میں واجب اور لازم ہے۔”

          یہ مہر چوں کہ شکیب صاحب کی نطر سے گزر چکی تھی، اس لیے نومبر 2004ء میں جب وہ لندن سے حیدرآباد تشریف لائے تو میں نے اپنے شبہات کا حوالہ دیتے ہوئے ان سے رجوع کیاکہ وہ صحیح صورتِ حال سے مطلع فرمائیں۔ موصوف نے اس کے جواب میں اپنے مکتوب مورخہ 29 نومبر 2004ء میں جو وضاحت فرمائی ہے وہ حسب ذیل ہے:

غالب کی یا غالب سے منسوخ جس مہر کاذکر ”غالب اور حیدرآباد“ میں ہے،وہ اب ہماری دسترس سے باہر ہے۔ یہ مہر پروفیسر آغا حیدرحسن کی ملکیت تھی۔ انہوں نے جناب محمد اشرف صاحب کو تحفةً دے دی تھی۔ محمد اشرف صاحب وہی ہیں جنہوں نے سالار جنگ میوزیم کے مخطوطات کا کیٹلاگ کئی جلدوں میں شائع کیامیں نے غالب کی یہ مہر محمد اشرف صاحب کے یہاں دیکھی تھی۔ جہاں تک یاد ہے وہ خود اس مہر سے مطمئن نہیں تھے۔ اس کاذکر میں نے پروفیسر آغا حیدر حسن صاحب سے کیا ۔آغا صاحب نے اپنی روایات کے مطابق وثوق سے کہا کہ یہ مرزا غالب کی ہے بلکہ یہ تک وضاحت کی، یہ بدرالدین مہر کن کی کندہ کی ہوئی ہے۔ آغا صاحب قلعہ معلّٰی کی یادگار تھے۔ ان کے گھرانے اور مرزا غالب کے گھرانے کے تعلقات قدیم تھے۔ میں کیاجواب دیتا۔ لہٰذا میں نے تمام اختلافات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ”غالب اور حیدرآباد“ میں اس کا ذکر کردیا۔اب یہ آپ جیسے محققین کا کام ہے کہ اس کے بارے میں کوئی قطعی راے قائم فرمائیں۔

          جہاں تک مجھے یقین ہے”غالب اور حیدرآباد“ میں مہر کا متن جو دیاگیاہے،و ہ درست ہے۔ اس میں سہوِ کتابت کو دخل نہیں۔ ممکن ہے کہ مہر میں تاریخ غلط کندہ ہوگئی ہو، اس لےے اس کو استعمال نہ کیاگیاہو۔ پڑی رہی ہو اور خاندانی تعلقات کی وجہ سے آغا حیدرحسن صاحب تک پہنچی ہو۔

جس وسیلے سے یہ مہر ہم تک پہنچی، اس کی وجہ سے ہم اس کو ‘فیک’ تو نہیں کہ سکتے، لیکن اگر غلط کندہ ہوگئی ہو تو

Discarded

کہہ سکتے ہیں۔

شکیب صاحب کی اس تحریر سے معلوم ہوجانے کے بعد کہ آغا حیدر حسن صاحب نے یہ مہر محمد اشرف صاحب کو تحفةً عنایت فرمادی تھی، یہ مناسب معلوم ہوا کہ آغا صاب کے داماد میرمعظم حسین صاحب سے درخواست کی جائے کہ وہ اس کے بارے میں حصول معلومات میں مدد فرمائیں۔ موصوف نے میرے 4 فروری 2005ء کے خط کے جواب میں 25 فروری 2005ء کو تحریر فرمایا:

“آپ نے خط میں جس مہر کا ذکر کیا ہے،اس کا مجھے علم نہیں ہے، لیکن میری شادی کے موقعہ پر میرے خسر پروفیسر آغا حیدرحسن مرزا نے مجھے ایک انگوٹھی عنایت کی تھی جس کو میں نے پچاس سال سے زائد اپنے ہاتھ پرپہنا۔ اُس انگوٹھی پر اسداللہ خاں غالب کے خطابات کندہ تھے۔ میں اس انگوٹھی کو اب محفوظ کروادیاہوں جس کی وجہ سے اس کا عکس بھیجنے سے قاصر ہوں۔”

          اس مایوس کن جواب کے بعد بہ ظاہر اب اس مہر تک رسائی کی کوئی امید نظر نہیں آتی، اس لےے باقی مہروں کی طرح اسے بھی متاعِ گم گشتہ تصور کرکے طاقِ نسیاں کے کسی گوشے میں ڈال دینا چاہےے۔ راقمِ سطور اپنے اس خیال پر بہر حال قائم ہے کہ غالب نے اسے نام کے بعد لفظِ ”بہادر“ کی عدم موجودگی کی وجہ سے مسترد کردیاہوگا۔شکیبصاحب کی راے کے مطابق سنہ کا غلط کندہ ہوجانا بھی اس کی وجہ ہوسکتی ہے لیکن اس کا امکان بہت کم ہے۔ اس کے برخلاف بے خیالی یا رواروی کے باعث اکائی کے عدد چھ (6) کا دو(2) پڑھ لیا جانا عملی تجربات کی روشنی میں زیادہ قرینِ قیاس معلوم ہوتا ہے۔

          جس طرح ساتویں مہر کے متعلق غوروخوض کے نتیجے میں اس چھٹی مہر کے وجود کا علم ہوا،اسی طرح اس چھٹی مہر کے حوالے سے یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ انہی خطابات پر مشتمل ایک مہر اس سے قبل بھی تیار ہوچکی تھی۔ ”امروز دریں فن نظیر بدرالدین بہ گیتی نیست۔ چوں اوبدنوشت، پندارم کہ خوبیِ سرنوشتِ من است۔“ سے اشارہ ملتاہے کہ یہ مہر بدرالدین نے کندہ کی تھی لیکن غالب اس سے مطمئن نہیں تھے۔ انہو ںنے اپنی اس بے اطمینانی یا ناپسندیدگی کا سبب مہر ساز کی بدنویسی کو ٹھہرایاہے، لیکن یہ بات اس لےے قابلِ قبول نہیں معلوم ہوتی کہ ”بدرالدین“ اور ”بدنویسی“ میں بہ ظاہر لفظِ ”بد“ کے سوا کوئی چیز مشترک نہیں تھی۔ غالب کی اس زمانے کی تحریریں تقریباً نایاب ہیں۔ کافی تلاش و جستجو کے بعد ہمیں صرف ایک خط دستیا ب ہواہے جس پر یہ مہر ثبت تھی، لیکن یہ اصل خط نہیں، اس کی نقل ہے، اس لےے اس کی روشنی میں اس مہر کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ خط مفتی سید احمد خاں بریلوی کے نام ہے اور پنجشنبہ 3 اکتوبر 1850 کو یعنی منشی جواہر سنگھ جوہر کے بھیجے ہوئے نگینے کے دہلی پہنچنے سے صرف انیس (19) دن پہلے لکھا گیاہے۔اسے محمد ابرار علی صدیقی نے اپنی کتاب ”آئینہ دلدار“ میں جو میاں دلدار علی مذاق بدایونی کی سوانح عمری ہے، دوسرے کئی خطوط کے ساتھ نقل کیاہے۔ خط کے آخر میں مہر کی عبارت بھی بہ ظاہر اس کی ہیئتِ اصلی کے مطابق ایک مستطیل کی شکل میں نقل کردی گئی ہے31۔ پانچویں مہر کی یہ دستی نقل ساتویں مہر کے دستیاب نقوش سے صرف اس قدر مختلف ہے کہ یہ سنہ کی قید سے عاری ہے جب کہ آخرالذکر میں اس کی تیاری کا سنہ (1267ھ) بھی موجود ہے۔ لیکن یہ محض اتفاق بھی ہوسکتاہے کیوں کہ ساتویں مہر جو 1267ھ کے بعد برابر زیرِ استعمال رہی، اس کی ایسی کئی نقلیں بھی ہمارے علم میں ہیں جن میں سنہ کا اندراج نہیں۔ ان حالات میں زیرِ بحث پانچویں مہر کی کیفیتِ ظاہری کے بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ کہنا دشوار ہے۔ البتہ مفتی سیّداحمد کے نام کے خط پر اس کے نقش کی موجودگی میں اس کے وجود پر کسی شبہے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

          غالب نے اپنی آخری مہر 1278ھ (1861-62) میں یعنی اپنی وفات سے تقریباً سات سال قبل تیار کرائی تھی۔ اس مہرکی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ ان کی دوسری تمام مہروں کی بہ نسبت کافی مختصر ہے یعنی اس پر صرف ان کا تخلص (غالب) اور تیاری کا سنہ (1278ھ) کندہ ہے۔ اس کا پس منظر بیان کرتے ہوئے مالک رام صاحب لکھتے ہیں:

“جو لوگ نفسیات سے واقف ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ نفسِ انسانی میں ”انا“ کے ارتقا کا انتہائی مقام یہ ہے کہ انسان کسی غیر معمولی کامیابی کے بعد اپنے تعارف کے لیے مختصر ”علَم“ کا استعمال کرنے لگتا ہے۔“(ص88)

          غالب کی اس نفسیاتی کیفیت کو انہوں نے جن دو غیر معمولی کامیابیوں کا نتیجہ قرار دیاہے، ان میں سے پہلی ”قاطعِ برہان“ کی اشاعت ہے جو ان کے بقول ”ہندوستان کے فارسی دانوں کے خلاف ساری عمر کے جہاد“ کا ایک عملی ثبوت بھی تھی اور ”علی الاعلان عام دعوتِ مبارزت بھی“۔ یہ کتاب 20 رمضان المبارک 1278ھ مطابق 22مارچ 1862ء کو اس زمانے کے سب سے مشہور و ممتاز طباعتی ادارے مطبعِ منشی نول کشور، لکھنو میں چھپ کر شائع ہوئی تھی۔ دوسری بڑی کامیابی یہ تھی کہ اسی سال مطبعِ نول کشور میں ان کے کلیاتِ فارسی کی طباعت شروع ہوئی جو اگلے سال یعنی 1863ء میں مکمل ہوگئی۔ اس سلسلے کی تمام ضروری تفصیلات قلمبند کرنے کے بعد محترم محقق اس نتیجے پر پہنچے ہیں:

“1862ع۔ 1863ء میرزا کی زندگی میں نہایت اہم سال ہیں۔ ”قاطعِ برہان“ اگر دوسروں کی شکست کا اعلان تھاتو کلیات ان کی فتح مندی کا ثبوت۔ اسی سال ان کا اپنے نگیں پر ”غالب“ کندہ کرانا اسی حقیقت کا ایک اور پیراے میں اظہارہے۔ اب گویا انہوں نے اس دعوے پر مہر لگادی کہ فارسی علم و زبان کے لحاظ سے میں ”علیٰ کلٍّ غالب“ ہوں۔“(ص90-91)

          کسی بھی معروف طباعتی و اشاعتی ادارے سے بہ یک وقت دو کتابوں کی اشاعت کسی بھی مصنف کے لیے فخر و مباہات کا باعث ہوسکتی ہے۔ غالب کو بھی اس سے مستثنٰی نہیںکیا جاسکتا۔لیکن یہ اتنی بڑی کامیابی یقینا نہیںکہ غالب جیسا یگانہ روزگار فن کار اس کی علامت کے طورپر ایک مہر تیار کراکے اسے یادگار بنادے۔ دنیا میں ہزاروں کام ایسے ہیں جن کی انجام پذیری میں وقت کا تعین کوئی اہمیت نہیں رکھتا، مگرجب وہ انجام پاجاتے ہیں تو وقت کے ساتھ ان کے تعلق کی متعدد توجیہات و تاویلات کی جاسکتی ہیں اور حسبِ اتفاق ان میں سے کوئی توجیہہ یا تاویل واقعے کے عین مطابق بھی ہوسکتی ہے۔ اس مہر کے سلسلے میں مالک رام صاحب قبلہ کے ارشادات بھی اسی ضمن میں آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غالب کو بیس پچیس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے اپنی انفرادیت کا بہ خوبی ادراک و احساس ہوگیاتھا۔ کلکتے میں قیام کے دوران قتیل کی زبان دانی پر ان کے اعتراضات کو بجاطورپر ہندوستانی فارسی دانوں کے خلاف ان کے مبیّنہ جہاد کا نقطہ آغاز کہا جاسکتاہے۔ اس وقت اپنے بیان کردہ سالِ ولادت (1212ھ) کی رو سے وہ عمر کی بتّیسویں منزل میں اور ہماری تحقیق کے مطابق چھتیسویں سال میں تھے۔ اس کے بعد انانیت کی یہ لے متواتر تیز ہوتی رہی۔ حتّی کہ نصف صدی پوری کرتے کرتے انہیں وہ مقام حاصل ہوگیاجہاں شہرت کے پرِ پرواز لگاکر اڑنے والے کسی رسمی تعارف کے محتاج نہیں رہتے۔ چنانچہ 1260ھ 1844ء میں انہوں نے نواب وزیرالدولہ والیِ ٹونک کی خدمت میں جو قصیدہ مدحیہ ارسال کیاتھا، اس کے ایک شعر میں یہ واضح اعلان موجود تھا:

نامم بہ سخن غالب و رشن ترم از روز

بے ہودہ چرا جلوہ دہم اسم و علم را

          تقریباً اسی زمانے میں (پنج آہنگ کی اشاعت سے قبل) انہوں نے میاں نوروز علی خاں کو پہلی بار خط لکھاتو جواب کے لےے پتے میں صرف ”بہ دہلی بہ اسد الہ برسد“ کو کافی قرار دیا۔22 مارچ 1858ء کے خط میں مرزا تفتہ کو بھی اسی مختصر پتے پر اکتفا کی ہدایت کی گئی ہے۔ان دونوں خطوط کے اقتباسات گزشتہ صفحات میں پیش کےے جاچکے ہیں۔ ایک اور خط مرزا حاتم علی مہر کے نام ہے جو 1861ء میں لکھا گیا تھا، اس میں لکھتے ہیں:

“آپ کو معلوم رہے کہ میرے خط کے سرنامے پر محّلے کا نام لکھنا ضروری نہیں۔شہر کا نام اور میرا نام، قصہ تمام”

          اسی ہدایت کا اعادہ چار برس کے بعد مولوی عبدالرزّاق شاکر کے نام کے ایک خط میں بھی کیا گیا ہے۔ یہ خط مرزا صاحب نے ستمبر 1865ء میں رام پور کے سفر پرروانگی سے قبل تحریر فرمایاتھا۔ مکتوب الیہ موصوف کو مطلع فرماتے ہیں:

          “اب کوئی خط آپ بھیجیں تو رام پور بھیجیں۔ مکان کا پتا لکھنا ضروری نہیں۔ شہر کا نام اور میرا نام کافی ہے۔”

          پیش کردہ مثالو ںمیں سے تین مثالیں 1278ھ 1862ء سے قبل کے زمانے سے متعلق ہیں۔ چوتھی اور آخری مثال اگرچہ 1278ھ سے بعد کی ہے لیکن اس اعتبار سے بے حد اہم ہے کہ یہ برونِ دہلی یعنی رام پور کے عارضی قیام کے زمانے سے تعلق رکھتی ہے۔ ان سبھی مثالوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ غالب اپنی شخصیت کی یکتائی سے بہ خوبی واقف تھے اور اپنے وقار کے تحفظ اور انا کی سربلندی کے لیے ہمہ وقت سرگرم و فکرمند رہتے تھے۔ ”ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے“ کسی شہر کی تخصیص کے بغیر ایک ایسا سوال تھاجس کا جواب ان کے تصور کے مطابق ”نہیں“ کے سوا کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ ایک اتفاقی امر ہے کہ ان کی یہ آخری مہر جس پر صرف ان کا تخلص کندہ ہے، 1278ھ میں تیارہوئی، ورنہ اس سے مالک رام صاحب کے بقول جس نفسیاتی کیفیت کا اظہارہوتاہے، وہ اس سے اٹھارہ برس قبل 1260ھ میں کہے ہوے ان کے اس شعر سے بھی ظاہر ہے جس میں ”اسم و علم“ سے بے نیازی اور صرف تخلص کے حوالے سے اَبَین مِنَ الامس(روشن تراز روز) ہونے کادعویٰ کیا گیاہے۔ ہا ںیہ امر بھی قابلِ لحاظ ہے کہ انہو ںنے اپنی بعض تحریروں میں شعروادب کے تناظر میں صرف تخلص کے حوالے سے اور مراسلت و مکاتبت کی حالت میں نام کی مختصر ترین شکل ”اسد اللہ“ کے ذریعے روشناسِ خلق ہونے پر جو اصرار کیاہے،وہ کسی داخلی مغائرت یا تضادکا مظہر نہیں۔ تعارف کی یہ دونوں صورتیں ”ہرسخن وقتے و ہر نکتہ مکانے دارد“ کے بہ مصداق ایک ہی باطنی کیفیت کی نشان دہی کرتی ہیں۔

          غالب کی جن مہروں کے نقوش اہلِ علم کی دسترس میں ہیں،ان میں یہ آخری مہر وہ واحد مہر ہے جس کے خط کی ناپختگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ بدرالدین کی بنائی ہوئی نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ غالب کے کسی دوست یا شاگرد نے یہ سوچ کرکہ شاعر کی حیثیت سے غیر معمولی شہرت و ناموری کے باوجود انہوں نے اپنے تخلص کے ساتھ کوئی مہر کندہ نہیں کرائی، یہ مہر بہ طورِ خود کسی معمولی مہر ساز سے تیار کراکے ان کی خدمت میں پیش کردی ہو اور انہوں نے اس دوست یا شاگرد کے پاسِ خاطر کی بناپر اسے رد کردینا مناسب نہ سمجھا ہو۔ اس سوال کا کہ ان کی نفاست پسندی کیوں کر اس کی متحمل ہوئی، اس کے علاوہ کوئی اور جواب سمجھ میں نہیں آتا۔

          مفصّلہ بالا تجزےے سے ظاہر ہے کہ مالک رام صاحب نے ان مہروں کی تیاری کے سلسلے میں جو تاویلات پیش فرمائیں ہیں، ان میں سے بیشتر قابلِ قبول نہیں۔ لیکن ان کے اس بنیادی موقف سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ ان میں سے ہر مہر اپنا ایک نفسیاتی، مذہبی یا تاریخی پس منطر رکھتی ہے۔ اس اعتبار سے غالب کی پر پیچ شخصیت اور ذہن و مزاج کی تفہیم میں دوسرے خارجی وسائل کے ساتھ ان مہروں کا کردار بھی مناسب توجہ کا مستحق ہے۔ یہی ایک بات ان کے بارے میں تحقیق و تنقید کا جواز فراہم کرتی ہے۔

حواشی:

1۔ غالب شناس مالک رام، از ڈاکٹر گیان چند، غالب اکیڈمی،نئی دہلی، 1996، ص67

2۔ فسانہ غالب، از مالک رام، مکتبہ جامعہ، نئی دہلی، 1977، ص81۔ آئندہ تمام مقامات پر اقتباسات کے آخر میں قوسین کے اندر صفحات کے حوالے دے دےے گئے ہیں۔

3۔ نامہ ہاے فارسیِ غالب، مربتہ سید اکبر علی ترمذی، غالب اکیڈمی، نئی دہلی، 1969، ص117۔ غالب کی خاندانی نشن اور دیگر امور، نیشنل ڈاکومینٹیشن سینٹر، مقتدرہ قومی زبان پاکستان، اسلام آباد، 1997، ص39

4۔ فسانہ غالب،ص115

5۔ نامہ ہاے فارسیِ غالب، ص103

6۔ غالب کی خاندانی پنشن،ص49

7۔ ایضاً،ص53

8۔ متفرقاتِ غالب، مرتبہ پروفیسر مسعود حسن رضوی، طبعِ ثانی، لکھنو1969، ص126

9۔ دیوانِ غالب، مرتبہ نظامی بدایونی، طبعِ ثانی، بدایوں، 1918، صفحہ ماقبلِ متن

10۔ احوالِ غالب، مربتہ پروفیسر مختارالدین احمد، طبعِ ثانی، دہلی، 1968،ص34

11۔ بہ حوالہ غالب نامہ، نئی دہلی، شمارہ جنوری 1989، ص215-16

12۔ گلشنِ بے خار، از نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ، طبعِ اول، دہلی، 1837، ص185

13۔ بہ حوالہ غالب نامہ، نئی دہلی، شمارہ مذکور الصدر، ص173

14۔ فسانہ غالب،ص49

15۔ احوالِ غالب، ص142۔143

16۔ مکاتیبِ غالب، مربتہ مولانا امتیاز علی عرشی، طبعِ دوم، رام پور، 1943، حاشیہ ص41

17۔ یادگارِ غالب(عکسی ایڈیشن)یو۔پی۔اردو اکاڈمی، لکھنو1986، ص9

18۔ نامہ ہائے فارسیِ غالب،ص103

19۔ پنج آہنگ، طبعِ ثانی، دہلی، 1853، ص334

20۔ دیوانِ غالب بہ خطِ غالب، مرتبہ اکبر علی خاں عرشی زادہ، رام پور، 1969،ص16

21۔ گلِ رعنا، مرتبہ مالک رام، دہلی، 1970، ص35

22۔ غالب کے خطوط، مرتبہ خلیق انجم، جلد سوم، دہلی،ص1029۔ 30

23۔ پنج آہنگ، ص389

24۔ تجلیات، از مرزامحمد ہادی عزیز لکھنوی، ص197-98، بہ حوالہ ماہنامہ نیادور، لکھنو شمارہ جولائی 1980، ص12

25۔ غالب درونِ خانہ، از کالی داس گپتا رضا، ساکار پبلشرز، بمبئی، 1989، ص43

26۔ پنج آہنگ، ص113

27۔ غالب نامہ، نئی دہلی، شمارہ جنوری 1996، ص164

28۔ باغِ دو در، مرتبہ سید وزیرالحسن عابدی، لاہور، 1970، ص120

29۔ گنجینہ غالب، پبلی کیشنز ڈویژن، نئی دہلی، 1995،ص168 تا ص170

30۔ غالب اور حیدرآباد، از ڈاکٹر ضیا ءالدین شکیب، نئی دہلی، 1969، ص223

31۔ آئینہ دلدار، از ابرار علی صدیقی، کراچی، 1956، ص93

میرزا غالب کا سفرِ کلکتہ اور بیدل

عبدالغنی

میرزا غالب کا سفرِ کلکتہ اور بیدل

          میرزاغالب اپریل 1827 میں دہلی سے کلکتے کی طرف روانہ ہوئے۔ انہیں دہلی میں رہتے ہوئے کم و بیش بارہ سال گزر چکے تھے اور یہ قیام ان کے لیے سخت پریشان کن ثابت ہوا تھا۔ دہلی میں ان کی دقت پسندی اور مشکل گوئی پر اعتراضات ہوئے تھے اور پھر انھی سالوں میں ان کی پنشن کا جھگڑا بھی شروع ہوا جس کے ساتھ معیشت کے علاوہ عزت و آبرو کا سوال بھی وابستہ تھا، اس لیے جب وہ قضیہ پنشن کے تصفیے کے لیے رہگرائے کلکتہ ہوئے ہیں تو سخت آزردہ خاطر تھے۔ آغاز شباب میں ان کے دل میں اس بات کا کبھی تصور تک نہیں آیا تھا کہ زندگی ان کے لیے اس قدر زہرہ گداز ثابت ہوگی۔ آگرہ رہتے ہوئے انہیں خیال تھا کہ زندگی ہر طرح عیش و طرب کے مترادف ہے لیکن دہلی پہنچنے پر یہ خیال باطل نکلا۔ اور حزن و یاس کے عالم میں انہوں نے وطن اور ابنائے وطن کے متعلق کہا:

کس از اہلِ وطن غم خوار من نیست

مرا در دہر پنداری وطن نیست

          مرزا غالب کے دل و دماغ کی اِس کیفیت کے ساتھ لکھنو کان پور، باندہ، موڈا، چلہ تارا اور الٰہ آباد ہوتے ہوئے بنارس پہنچے۔ رنج و غم، صعوبتِ راہ، اور اِن پر مستزاد کچھ جسمانی عوارضات۔ بنارس سے ایک خط میں لکھتے ہیں

مغلوبِ سطوتِ غم دلِ غالبِ حزیں

کاندر تنش ز ضعف تواں گفت جاں نبود

گویند زندہ تا بہ بنارس رسیدہ است

“مارا ازیں گیاہِ ضعیف ایں گماں نبود”

          لیکن یہ ’گیاہِ ضعیف“ بالکل پژمردہ اور مضمحل جب بنارس پہنچا تھا وہاں کی حسن پرور فضا نے اُسے تروتازہ کردیا۔ طبیعت شگفتہ ہوگئی، عروقِ مردہ میں خونِ زندگی دوڑنے لگا، تخلیقی قوتیں عروج پر پہنچ گئیں، وجودِ معنوی سرور انگیز لَے کے ساتھ مترنم ہوا۔ ناموافقتِ حالات نے جس شدت کے ساتھ ان پر دباو ڈالا ہوا تھا، حسینانِ بنارس کو دیکھ کر اُن کا تخیل اُتنی جولانی کے ساتھ تخلیقِ شعرکی طرف راغب ہوا اور اس طرح انہوں نے حسنِ خیال اور حُسنِ بیان کا وہ شاہکار پیش کیا جو مثنوی چراغِ دیر کے نام سے موسوم ہے۔

          تحقیق سے متعلق مقالات میں رنگینی بیان کا بہت کم دخل ہوتاہے، لیکن یہاں یہ انداز بالارادہ اختیار کیا گیا ہے تاکہ آئندہ سطورمیں مثنوی چراعِ دیر کی جمال پروری کے متعلق ہم جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، اس کے لیے ذہن تیار ہوجائے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ دہلی والوں نے اُردو شاعری کے مرغوب اور مطبوع رجحانات کی بنا پر میرزاغالب کو جس شد و مد کے ساتھ مطعون کیا تھا کہ تقلیدِ بیدل نے ان کے کلام کوایک معمہ بنا ڈالا ہے، اُسی قدر اصرار کے ساتھ اِس سفرمیں میرزا غالب نے اپنی تخلیقات کے ذریعے بیدل کے ساتھ اپنے فکری اور قلبی اتحاد کا اعلان کیا۔ زیادہ پرلطف بات یہ ہے کہ دہلی والوں کے اعتراضات نے جو گونج پیدا کی تھی، اُس میں ڈوب کر تمام کے تمام اہلِ تحقیق نے غالب کے اس اعلان کی طرف توجہ مبذول نہیں کی۔اور اب جبکہ غالب کے سفر کلکتہ کے بعد پوری ڈیڑھ صدی ہونے میں صرف دس سال باقی ہیں، اس کی ضرور تلافی ہونی چاہیے۔ اس بے توجہی کی وجہ صرف یہ رہی ہے کہ اگرچہ میرزاغالب نے کہا تھا:

فارسی بیں تابہ بینی نقش ہاے رنگ رنگ

بگزر از مجموعہ اردو کہ بے رنگِ من است

سلطنتِ مغلیہ کی بساط کے اُلٹنے، انگریزوں کے تسلط، فارسی زبان کی علمی اور ادبی حیثیت کے خاتمے، اردوکی رواج پذیری اور پھر قیامِ پاکستان کے بعد بھی فارسی ادب کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے ہم نے غالب کے دیوانِ فارسی کو درخورِ اعتنانہ سمجھا۔ اس لیے ہم اُن مثبت اور وقیع اثرات کاجائزہ نہیں لے سکے جو بیدل کے مطالعے نے غالب کی تخلیقی قوتوں کے ارتقا پرڈالے۔ اِس مقالے میں صرف اُن اثرات کو زیرِ بحث لایا جائے گا جنہیں میرزاکے سفرِ کلکتہ نے بے نقاب کیا۔ یہ سفر غالب کوایک نئی دنیا سے متعارف کرانے کا موجب ثابت ہوا تھا۔ کلکتے میں جدید حیرت انگیز ایجادات کو دیکھ کر وہ اس عہد کے نقیب بنے۔ جس میں سے ہم گزر رہے ہیں۔ اسی لیے سرسید احمد خاں کے کہنے پر جب انہوں نے آئینِ اکبری پر تقریظ لکھی توکہا:

مردہ پروردن مبارک کار نیست

علم اور تجربے میں اضافے کے علاوہ یہ سفر اس لیے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اس کے دوران میں انہوں نے جو مثنویاں۱ تصنیف کیں، ان میں واضح طورپر بیدل کا تتبع کیا اور وہ بھی نہایت ہی خوش آیند اور دل پذیر طور پر۔

          قشقہ جبین پریزادگانِ بنارس کو دیکھ کر جو سرور انگیز کیفیت میرزا غالب کے دل پر طاری ہوئی اس نے ان کی زبان پر بے اختیار بیدل کی مثنوی ”طور معرفت“ کے اشعار وارد کردیے۔ بیدل نے یہ مثنوی وسط ہند میں لکھی تھی اور اُس میں کوہِ بیراٹ (بندھیاچل کی شاخ) کے حسن پرور مناظر بیان کیے تھے جو انہوں نے وہاں ساون کی موسلادھار بارشوں میں دیکھے۔ جس پُرشور تجربہ تخلیقی سے بنارس میں میرزا غالب دوچار ہوئے تھے، کوہِ بیراٹ میں میرزابیدل کو بھی اُسی سے گزرنا پڑاتھا۔ میرزابیدل نے جامی کی مثنوی یوسف زلیخا اور نظامی کی شیریں خسرو والی بحر ہزج مسدس محذوف اختیار کی تھی۔ لغت میں ہزج کامعنی باترنم خوش آیند آواز ہے۔ چوں کہ کیف و سرور کے لہجے کو ادا کرنے کے لیے یہ بحر فطرتاً نہایت ہی مناسب آہنگ رکھتی ہے، اہل عرب سرود و نغمہ کے وقت بیشتر اسی کواختیار کیا کرتے تھے۔ جامی اور نظامی نے بھی اپنی رومان پرور مثنویوں کے لیے اِسے اسی لیے منتخب کیا تھا۔ اِس بحر کو گویا رومان آفرینی اور تخیل پروری کے ساتھ فطری مناسبت اور موافقت حاصل ہے۔ اس بحر کے انھی ممکنات کے زیرِ نظر میرزا بیدل ایسے بالغ نظر شاعرنے بھی اسے پسند کیا۔ یہ بحر حسن پرور تخیل اور رومان سے متعلق جذبات کا قدرتی ذریعہ اظہار ہے۔ بیدل کی مثنوی گیارہ سو اشعار پر مشتمل ہے جو انہوں نے صرف دو روز میں لکھی تھی۔ وفورِ جذبات، حسنِ تصورات، لطافتِ بیان اور معانیِ نغز کے اعتبار سے یہ مثنوی فارسی ادب کا بے نظیر شاہکارہے۔ مناظر قدرت کو لے کر اتنی رومان پروری کے ساتھ دنیابھر کے شایدہی کسی شاعر نے ایسا عظیم شاہکار پیش کیا ہوگا۔

          بیدل کی یہ مثنوی ایک محبوب سرمایے کی حیثیت سے غالب کے قبضے میں رہی تھی۔ اور پنجاب یونیورسٹی لائبریری کو یہ فخر حاصل ہے کہ اِس مثنوی کا جو۲ مخطوطہ غالب کے قبضے میں رہاتھا، وہ اس کی الماریوں میں محفوظ ہے۔ اِس مخطوطے پر غالب نے 1231ھ (مطابق1815)

 کی مہر ثبت کی ہے اور اپنے قلم سے شکستہ خوبصورت نستعلیق میں مثنوی کے متعلق یہ شعر۳ لکھا ہے:

ازیں صحیفہ بنوعی ظہورِ معرفت است

کہ ذرّہ ذرّہ چراغانِ نورِ معرفت است

          1815ءیا 1817ء میں میرزا غالب مستقل طور پر آگرے سے شاہجہان آباد آگئے تھے۔  معلوم نہیں انہوں نے یہ مخطوطہ آگرے ہی سے حاصل کیا تھا یا شاہجہان آباد پہنچ کر کہیں سے لیا تھا۔ انہوں نے دس گیارہ سال کی عمرمیں شعرکہنا شروع کر دیا تھا۔ گلاب خانہ آگرہ کا ماحول بھی علمی تھا اور جیسا کہ نسخہ حمیدیہ سے ظاہرہوتا ہے، انہوں نے شاعری کا آغازہی اتباع۴ بیدل سے کیا تھا۔ ظاہر ہے غالب آگرہ ہی میں بیدل سے متعارف ہوچکے تھے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ نفسیاتی اور معنوی اعتبار سے بیدل کے ساتھ عقیدت کے کیا اسباب تھے۔ یہاں صرف یہی کہہ دینا کافی ہے کہ غالب آگرے سے بیدل کے ساتھ لگاو لے کر آئے تھے۔

          اور اگرانہیں آگرے میں رہتے ہوئے مثنوی”طورِ معرفت“ کا مخطوطہ نہیں ملاتھاتو ’مہرکی تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ شاہجہان آباد پہنچتے ہی مل گیا ہوگا۔ یہ امر بعید از قیاس نہیں۔ میرزا بیدل شاہجہان آباد میں اپنی زندگی کے آخری پینتیس سال بڑے احترام کے ساتھ گزار کر دسمبر 1720ء میں فوت ہوئے تھے۔ اور پھر ان کی وفات کے بعد کم و بیش اکیاون باون سال تک مزارِ بیدل پرہر سال بڑے اہتمام سے عرس منایا جاتا تھا۔ شاہجہان آبادکی یہ ایک خاص سالانہ تقریب ہوا کرتی تھی۔ جس میں تقریباً تمام فارسی اور اردو گو شعرا شامل ہوا کرتے تھے۔ مرزا محمد رفیع سودا (وفات:1781 ئ) اور مولانا ندرت کشمیری کی چپقلش نے عرسِ بیدل کا تذکرہ اردو ادب میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب میرزا غالب شاہجہان آباد جاکر سکونت پذیر ہوئے ہیں تو میرزا بیدل کی تقریباتِ عرس کی بات صرف بیالیس چوالیس سال اُدھر کی تھی۔ اور پھر میرزا غالب کے زمانے میں بھی جہان آباد(شاہجہان آباد) میں علمی اور ادبی چرچے باقاعدہ موجود تھے۔ ممکن ہے زندہ۵ بزرگوں میں سے کوئی عرسِ بیدل میں شامل بھی ہوا ہو۔ ویسے بھی روایات جاری رہتی ہیں۔ بیدل بھی مغلوں کی عظمت کا ایک مظہرِ جلیل تھے۔ جہاں آباد والے انہیں کب بھلا سکتے تھے۔ اور معلوم ہوتا ہے میرزا غالب جب وہاں گئے ہیں تو ان کے دل میں مزارِ بیدل دیکھنے کی شدید آرزو تھی۔ کہتے ہیں:

گر ملے حضرتِ بیدل کا خطِ لوحِ مزار

اسد آئینہ پروازِ معانی مانگے

          دستبردِ زمانہ سے مزارِ بیدل ناپید ہوچکا تھا اور ان کا موجودہ مزار خواجہ حسن نظامی مرحوم نے 1914ء میں تعمیرکرایا تھا۔ بنابریں جہاں بیدل کی شہرت کایہ غلغلہ تھا اور ان سے میرزاغالب کو اس قدر عقیدت تھی،1815ء میں اگر انہیں آگرہ پہنچتے ہی مثنوی طورِ معرفت کا نسخہ مل گیا اور انہوں نے اسے حرزِ جاں بنا لیاتو قطعاً تعجب کا مقام نہیں۔ ہمیں اس بات کابھی قطعی طورپر علم نہیں کہ مثنوی طورِ معرفت کا نسخہ کب تک میرزا غالب کے زیرِ مطالعہ رہا۔مگر ان کی مثنوی چراغ دیرکے سال تصنیف (1827) اور اس مثنوی پر طورِ معرفت کے واضح اثرات کے زیر نظر کہا جا سکتا ہے کہ یہ مثنوی کافی دیر تک میرزا غالب کے پاس رہی ہوگی اور یہ بھی عین ممکن ہے زندگی بھر رہی ہو۔ اسی لیے آثارِ غالب۶ کے طور پر ضائع ہونے سے بچ گئی اور کسی نہ کسی طرح پنجاب یونی ورسٹی لائبریری میں پہنچ گئی۔

          اب ذراغور فرمائیے؛ اٹھارہ سال کا نوخیز شاعر، جس کی امنگوں اور آرزووں کی کوئی انتہا نہیں، ایک رومان پرور مثنوی حاصل کرتاہے جس میں دیگر مطالب و معانی اور جذبات انگیز اقوال کے علاوہ کہا گیا ہے:

بہارِ زندگی مفت است دریاب

          جو بات اس نوخیز شاعر کی فطرت سے بالکل مطابقت رکھتی ہے۔ وہ تو زندگی کے رس کا آخری قطرہ تک نچوڑ کر پی جانا چاہتا ہے۔ زندگی میں جو حسن اور دل کشی ہے، زندگی جن جن اسرار و رموز سے لب ریز ہے، تخیل اور جذبہ زندگی میں جس طرح رنگینی پیدا کرسکتے ہیں، یہ سب کچھ اس مثنوی میں بافراط موجود تھا۔ اب آپ ہی اندازہ لگائیے ’برآرزو غالب نے اس مثنوی کا مطالعہ کس ذوق و شوق کے ساتھ کیا ہوگا اور کس طرح اس کے اشعار، اس کی ترکیبات، اس کے تصورات اور اس کے معانی غالب کے شعور کا مستقل جزو بن گئے ہوں گے۔ مبدہ فیاض نے شاعرانہ عظمت کے عناصر شعورِ غالب میں بدرجہ اتم موجود کردیے تھے۔ ان عناصر کی نشو و نما میں طورِ معرفت کے اثرات نے کیا حصہ لیا ہوگا؟ اس کا کچھ اندازہ تو غالب کے محولہ بالا شعرسے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کھلے دل سے تسلیم کیا ہے کہ اس صحیفے کی برکت سے ذرہ ذرہ چراغانِ طورِ معرفت بن چکا ہے۔ سطورِ آیندہ کے مطالعے سے آپ بھی اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ طورِ معرفت کے اشعار نے غالب کے شعورِ تخلیقی میں ایک مستقل گونج پیدا کردی تھی۔ انہوں نے بنارس کا بہشتِ خرم اور فردوس معمور دیکھا تو سرور و کیف کے پرشور جذبات کے ساتھ طورِ معرفت کی بحر اور اس کے اشعار ان کے شعور میںبڑی شدت کے ساتھ گونجنے لگ گئے اور جب اُن پر جذبہ تخلیقی طاری ہواتو وہ بھول گئے کہ وہ خود کچھ کہہ رہے ہیں یا بیدل گویا ہیں۔ معنوی اتحاد کا یہ عالم تھا۔

          میرزا غالب ایک نابغہ تھے۔ اُن کی شاعرانہ عظمت کے ہم روز بروز زیادہ قائل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ وہ ہماری ثقافت کا مایہ ناز مظہر ہیں۔ ان کی اپنی انفرادیت بڑی عظیم اور رنگین ہے۔ وہ بیدل سے استفادے اور استفاضے کے باوجود غالب رہتے ہیں، اس لیے مثنوی چراغ دیر میں سے پہلے ہم اُن چیزوں کو پیش کریں گے جو خالصةً غالب اور بنارس سے تعلق رکھتی ہیں تاکہ کوئی اس گمانِ باطل میں مبتلانہ ہوجائے کہ چراغ دیر تو طورِ معرفت کی محض صداے بازگشت ہے۔ غالب جیسے یگانہ روزگار نبوغِ ذاتی رکھنے والے شاعرسے یہ توقع کبھی نہیں ہوسکتی کہ وہ اپنی تخلیقات میں اپنی انفرادیت کو چھوڑ کرمحض نقالی اپنا شعار بنالے۔ یہ تو ان کی فطرت کے بالکل خلاف تھا۔ خود کہتے ہیں:

بامن میاویز اے پدر فرزندِ آذر را نگر

ہرکس کہ شد صاحب نظر دینِ بزرگاں خوش نکرد

          پہلے ہم غالب کی انفرادیت کا ذکر کرتے ہیں:

          مناظر فطرت کی رنگینیاں اور رعنائیاں بیان کرتے ہوئے بھی میرزا بیدل کی مثنوی کا مرکزی خیال یہ ہے:

معمّائی معمّائی معمّا

اگر خواہی کشودن چشم بکشا

          وہ انسان کو مصدرِ اسرار قرار دے کر تمام کائنات کو بھی ایک معمّا کہتے ہیں۔ اس لیے کوہستان بیراٹ انہیں نارستانِ اسرار نظر آتا ہے اور اس کے ایک ایک سنگریزے میں انہیں پری زادِ حسن محوِ خواب دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی جولانیِ تخیل میں بھی بنیادی طورپر فکر پرستی ہے، بصیرت افروزی ہے، عرفان پروری ہے۔ لیکن میرزا غالب اتنے نیرنگیِ قدرت سے متاثر نہیں جتنے صنفِ لطیف کی گل اندامی سے مسحور ہو جاتے ہیں۔ بلکہ وہ تو لالہ و گل کو بھی دیکھتے ہیں تو خیال کرتے ہیں کسی کے لب و رخسار کی رنگینی ہے جو اس صورت میں نمایاں ہوگئی ہے۔ اُن کی ساری شاعری میں ارضی قسم کی لذت پروری ہے۔ وہ حکیمِ فرزانہ ہوتے ہوئے بھی اپنے اس بنیادی جذبے سے علیحدہ نہیں ہوتے۔ مثنوی چراغ دیر میں بھی یہی جذبہ کارفرماہے۔ کاشی (بنارس کا دوسرانام ہے) کے بتانِ بت پرست اور برہمن سوز کی تبسم ریزی اور مشک بیزی کا ذکر کرتے ہوئے فکرِ غالب اپنے معراج پر اُس وقت پہنچتا ہے جب وہ ان کے متعلق کہتے ہیں:

بہارِ بستر و نوروز آغوش

          میرزا بیدل اور میرزا غالب کی طبائع میں یہی بنیادی اختلاف ہے اور مجموعی حیثیت سے ان دونوں مثنویوں میں بھی بنیادی طورپر یہی فرق ہے۔ طورِ معرفت کے گیارہ سو اشعار عرفان نوازی کے اردگرد گھومتے نظر آتے ہیں۔ چراغ دیر کے یک صد و ہشت (108) اشعار کا محور صنفِ لطیف ہے۔ اس میں اگر غمِ دوراں یا معرفت کوشی کاذکر موجود ہے تو اس کی حیثیت محض ضمنی ہے۔

          یہ تو اس امر کا ذکر تھا کہ چراغِ دیر فطرتِ غالب کی آئینہ داری کرتی ہے۔ اب یہ بتایا جاتا ہے کہ اس مثنوی میں خصوصیت کے ساتھ صرف اُن چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے جو کاشی کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور جن کے مطالعے سے صرف کاشی کا نقشہ نگاہوں کے سامنے ابھرتا ہے۔ صرف دو ایک باتوں پر اکتفا کیا جائے گا۔ حسینانِ کاشی چونکہ بت پرست ہیں، اپنی رسم مذہبی کے مطابق صندل کا قشقہ اُن کی جبینوں پر ہے۔ چونکہ ہر طرف قشقہ جبیں حسین نظر آتے ہیں، غالب کے تخیل نے انہیں بتایا کہ ان کو دیکھ کر فلک نے بھی اپنی جبین کو شفق کے ذریعے اسی طرح رنگین بنا لیا ہے:

فلک را قشقہ اش گر بر جبین نیست

پس ایں رنگینی موج شفق چیست

          پھر اپنے شعارِ مذہبی کی بنا پر تمام حسینوں نے اپنے رنگین و رعنا بدن کے اردگرد زنار باندھ رکھا ہے۔ غالب کہتے ہیں اس چمن زار میں بہار آتی ہے تو اسی لیے موجِ گل سے زنار بدوش ہوتی ہے:

بہ تسلیم ہواے آن چمن زار

زِ موجِ گل بہاراں بستہ زنار

          ان مہوشوں کے دمکتے ہوئے چہرے شام کے وقت گنگا کے کنارے نظر آتے ہیں تو چراغاں ہوجاتی ہے:

بہ سامانِ دو عالم گلستاں رنگ

ز تابِ رخ چراغانِ لبِ گنگ

          گنگا انہیں دیکھتی ہے تو بہ صد شوق ان کے لیے اپنی آغوش واکر دیتی ہے۔ یہ گل رخسار اپنے وجود رنگین کے ساتھ بہ غرضِ شست و شوپانی میں داخل ہوتے ہیں تو گنگا کی امواج کھلی باہوں سے استقبال اور معانقہ کرتی ہیں:

ز بس عرضِ تمنّا می کند گنگ

ز موج آغوشہا وا می کند گنگ

          الغرض پڑھنے والے پر تمام اشعار کا مجموعی تاثریہ ہوتاہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے کاشی کے مناظر دیکھ درہاہے۔

          ان دوپاروں کا مقصد صرف یہ تھا کہ پتا چل جائے، مثنوی چراعِ دیر میں میرزا غالب کی انفرادیت بدرجہ اتم موجود ہے، اوراس کو پڑھتے ہوئے ہم”طورِ معرفت“ کے کوہ بیراٹ کی سیر نہیں کرتے بلکہ کاشی میں گلگشت کر رہے ہوتے ہیں۔ ”چراغِ دیر“ اپنے اندر تازگی اور جدت رکھتی ہے،طورِ معرفت کی نقالی نہیں۔ یہ سب کچھ برسبیل احتیاط تھا۔ ہمارا اصل مقصد یہ تھا کہ اس حقیقت کا علم ہوجائے کہ مثنوی چراغ دیر لکھتے وقت غالب کے شعورِ تخلیقی میں میرزابیدل کی مثنوی طورِ معرفت کے اثرات اس طرح رچے ہوئے تھے کہ اپنا انفرادی رنگ قائم رکھتے ہوئے بھی وہ اس کے تصورات اور اس کے اسلوبِ نگارش سے باہر نہ جاسکے۔ بنابریں یہ بات بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ سفرِ کلکتہ میں معنوی طورپر بیدل، غالب کے ساتھ رہے۔

          بحرتوظاہر ہے وہی”طورِ معرفت“ والی ہے۔ نظامی، جامی اور ان کے بعد ناصر علی سرہندی نے بھی اپنی مثنویوں میں تواجد و سرور کے اظہار کے لیے یہی بحر اختیار کی تھی۔ جذبات میں ایک تلاطم بپاہوا تھا۔ دیکھیے غالب اور بیدل اس کا اظہار اپنی اپنی مثنویوں کے آغازمیں بالکل یکساں انداز میں کرتے ہیں:

غالب

بیدل

نفس با صور دمساز است امروز

طپش فرسود شوقِ نالہ تمثال

خموشی محشرِ راز است امروز

زِ تحریکِ نفس وا می کند بال

رگِ سنگم شراری می نویسم

کہ خاموشی نوا ساز است امروز

کفِ خاکم غباری می نویسم

غبارِ سرمہ آواز است امروز

          یہ دونوں شاعروں کے پہلے دو دو شعر ہیں۔ الفاظ، قافیہ، ردیف اور تصورِ طپش کی یکسانیت دیکھیے۔ دونوں کے ہاں لفظِ ”امروز“ کی نشست جذبہ تخلیقی کی اُس کد و کاوش کی طرف اشارہ کر رہی ہے جوایک خاص ”آن“ کو مسخر کرکے اسے ابدیت کا معنی خیز جز و بنا دینا چاہتی ہے۔

          میرزاغالب کے دوسرے شعرمیں”شرار نوشتن“ کا محاورہ بالکل اندازِ بیدل سے مطابقت رکھتاہے۔اسی طورِ معرفت کاایک شعر ہے:

بہر عضوم تبِ سودا شرر کاشت

ز ہر مویم دلِ فریاد برداشت

          میرزابیدل نے شرر کاشتن محاورہ استعمال کیا ہے۔ اب نوشتن اور کاشتن میں وہی فرق ہے جو منشی اور مجاہدمیں ہوتاہے۔ایک جگہ انفعالیت ہے، دوسری جگہ فعالیت، علامہ اقبال مرحوم کی مجلس میں ایک باربیدل کے محاورہ ”خرام کاشتن“ کاذکر چھڑ گیا۔انہوں نے فرمایاکہ ا س سے ظاہر ہوتاہے کہ بیدل کا فلسفہ حیات حرکی (Dynamic)ہے اور ان کے مقابلے میں میرزا غالب کامائل بہ سکون۔ بہرحال ترکیب کی مطابقت ظاہر ہے۔ میرزا غالب نے اپنے اس شعرمیں سوزاور طیش کے لیے شرار کے استعارے سے کام لیاہے۔ ان کے اُردوکلام میں بھی اس غرض کے لیے شرار کئی بار استعمال ہواہے۔ مثلاً:

رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا

جسے غم سمجھ رہے ہو وہ اگر شرار ہوتا

          لیکن ان کے فارسی کلام میں یہ لفظ ایک انوکھے معنی کو بیان کرنے کے لیے بھی استعمال ہواہے۔ مندرجہ ذیل شعر پر غور کیجیے جو دیدہ وروں کی تعریف میں کہا گیا ہے:

زخمہ کردار بتارِ رگِ خارا بینند

          اس شعرمیں بتایا گیا ہے کہ اہل بصیرت کی حقیقت بیں نگاہیں زمان و مکان کے پوشیدہ امکانات سے پوری طرح باخبرہوتی ہیں۔ اس شعرکے مطالعے کے بعد مثنوی طور معرفت سے صنعتِ سنگ کے متعلق مندرجہ ذیل اشعار پڑھیے:

بود ہر جزوش از جوش شرر ہا

نگہ پروردہ چشمِ تماشا

چو اہل شرم ازو نتواں نمودن

بچندیں چشم یک مژگاں کشودن

دریں خلوت چو شاہد آرمیداست

کہ دیوار و درش آئینہ چیداست

۔۔

شرارش گر کند چشم تو روشن

سراپایش چو غربال است روشن

ولی کس را بریں روزن نظر نیست

نگاہ سنگ بین بابِ شرر نیست

شفقہائے کزیں کوہ آشکار است

ہماں عکسِ چراغانِ شرار است

          ان اشعار میں شراراور دیدہ وری کا تعلق موجود ہے، بلکہ بیدل توکہتے ہیں کہ یہ جوش شرر بچندیں چشم کسی کے حسن کا تماشا کررہاہے۔ علاوہ بریں تخیلِ بیدل نے تصور شرار میں وہ اشتعال پیدا کردیاہے کہ یہ کہنا بے جانہ ہوگاغالب کا شرار کے ساتھ مستقل والہانہ تعلق بڑی حد تک مثنوی ”طور معرفت“ کا مرہون منت ہے۔ شرار کا تصور ان کے ذہن میں اس طرح جاگزیں ہوچکاتھاکہ اپنی اس مختصر مثنوی میں بھی انہوں نے اس لفظ کو دوبار استعال کیاہے۔ دوسرا شعر اختتام پر ہے:

شرار آسا فنا آمادہ برخیز

بیفشاں دامن و آزادہ برخیز

          اور فنا پذیری میرزا غالب کے ہاں تصورِ شرار کاتیسرا پہلو ہے۔

          شرار کے متعلق ان تمام امور کو ذہن میں رکھ کر ”طورمعرفت“ سے یہ قطعہ ”درصفت شرار“ پڑھا جائے:

بیا تا وحشتی درپیش گیریم

مبادا چوں شرر در سنگ میریم

دو روزی تیشہ فرہاد باشیم

ازیں کہسار معنی ہا تراشیم

براہ انتظار ماست دلتنگ

پریزاد شرر در شیشہ سنگ

شویم آتش زنِ شوق شرارش

بر آریم از طلسمِ انتظارش

ہماں برتی کہ از جوشِ لطافت

بہ گل رنگ است و در آئینہ حیرت

برنگِ قطرہ از ابر آشکار است

بطبع سنگ نامِ او شرار است

ز افسون لطافت کردہ منزل

بہر سنگی چو راز عشق در دل

بہ آہنگِ پر افشانی مہیسّا

درونِ بیضہ طاوسانِ رعنا

          عالمی ادب پر نگاہ رکھنے والے اپنے دوستوں سے کہوں گا کہ دنیا بھر کے کسی شاعر کے کلام سے اس قطعے کاجواب تلاش کریں۔

          شرار کے سلسلے میں بیدل اور غالب کے تقابلی جائزے سے اس امر کا احساس دل میں پیدا ہوتا ہے کہ مثنوی طور معرفت نے میرزا غالب کو جس تصور سے بخوبی متعارف کرایا تھا، اس کااظہار انہوں نے نہ صرف مثنوی ”چراغ دیر“ میں کیا بلکہ ان کے تمام کلام میں ہم اس تصور سے دوچار ہوتے ہیں۔ اپنے اس دعوے کی تائید میں ہم ان کی ایک مشہور فارسی غزل کایہ مطلع درج کرتے ہیں:

دیدہ ور آں کہ تانہد دل بہ شمارِ دلبری

در دلِ سنگ بنگرد رقصِ بتانِ آذری

کس قدر بولتا ہوا مطلع ہے، تصور کس قدر واضح ہے۔ کائنات کے بے ترتیب اور بے رنگ عناصرمیں نگہِ بصیرت کا حسن کی جلوہ گری دیکھنا کیسا دلاویز خیال ہے۔ اسی خیال کی صحیح قدر وقیمت سے صرف ایک اعلیٰ درجے کا ذہین و فطین اور بالغ نظر سنگ تراش ہی آشنا ہو سکتا ہے جس کا تیشہ جمال افروزی کی اداوں کو بخوبی جانتا ہے۔ اس توضیح کے بعد مثنوی طورِ معرفت کے مندرجہ ذیل اشعار پڑھے جائیں جو لاریب بیدل کا شاہکار ہیں:

شبی بر تیغِ کوہی بود جایم

ز بیتابی بہ سنگی خورد پایم

ندا آمد کہ ای محروم اسرار

خراباتِ نزاکتہاست کہسار

مباد ایں جا زنی برسنگ دستی

کہ مینا در بغل خفتست مستی

          بداعتِ تخیل، طراوتِ احساس اور حسنِ بیان کا یہاں اتحاد ملاحظہ کرنے کے بعد آپ ایک بار پھر میرزا غالب کا مندرجہ بالا مطلع پڑھیں اور موازنہ کریں۔ لیکن بیدل یہ شعر کہنے کے بعد آگے جاکرنزہتِ فکری کاایک اور عالم دکھاتے ہیں:

سبک تر راں دریں کہسار محمل

مبادا شیشہ را بشکنی دل

نزاکت بسکہ این جا ریشہ دارد

صداے پا شکستِ شیشہ دارد

تو جسم اندیش وایں جا غیر جاں نیست

ہمہ میناست، سنگی درمیاں نیست

تیسرے شعرکاپہلامصرع گنگاتے ہوئے اب مثنوی چراغِ دیر سے میرزا غالب کے ان اشعار کا مطالعہ کیا جائے:

شگفتی نیست از آب و ہوایش

کہ تنہا جاں شود اندر فضایش

ہمہ جانہای بی تن کن تماشا

ندارد آب و خاک ایں جلوہ حاشا

نہادِ شاں چوبوی گل گراں نیست

ہمہ جانند جسمی درمیاں نیست

          میرزاغالب بے شک لطافتِ فکرواحساس کا پیکر ہیں لیکن خود فیصلہ فرمائیے اس خیال کاماخذ کہاہے؟

          سنگ و شرار کا تذکرہ ختم کرتے ہوئے یہاں ہم مثنوی طورِ معرفت میں سے بیدل کا ایک شعر درج کرتے ہیں جس میں ”رگِ سنگ“ کی ترکیب استعمال ہوئی ہے، اور وہ اس غرض کے لیے کہ پتاچل جائے یہ تین الفاظ۔ رگ، سنگ، شرار۔اگر غالب یک جا، دو دو کرکے یا تنہا استعمال کرتے ہیںتو یہ فیضِ۷ بیدل ہے:

رگِ سنگی بہ نیش نالہ خوں ریخت

خروشی سر بر آورد و جنوں ریخت

          بیدل کی طورِ معرفت اور غالب کی چراغِ دیر کاباہمی تعلق اب اچھی طرح واضح ہوچکاہے۔ تاہم مماثلت اور مطابقت کے بعض مزید عناصر موجود ہیں۔ ان کاذکربھی ضروری ہے تاکہ بحث سیر حاصل ہوجائے۔ اس ضمن میں پہلے دونوں شعرا کے ترکیبات، تصورات یا معانی کے لحاظ سے مزید ایک جیسے اشعار پیش کیے جاتے ہیں:

غالب

بیدل

بہ لطف از موجِ گوہر نرم رو تر

ہمہ از موجِ گلشن خوش عناں تر

بناز از خونِ عاشق گرم دو تر

زِ آبِ زندگانی ہم رواں تر

۔۔

تعالی اللہ بنارس چشم بد دور

بہشتِ اتفاقِ آرزوہا

بہشتِ خرم و فردوسِ معمور

فرنگستانِ حسنِ رنگ و بو ہا

۔۔

بہارستانِ حسنِ لا اُبالیست

رگِ ابرِ بہارستانِ نیرنگ

بہ کشورہا سمر در بی مثالیست

طلسمِ ریشہ فردوس در چنگ

۔۔

کفِ بر خاکش از مستی کنشتی

بنِ ہر خار صد گلشن در آغوش

سرِ ہر خارش از سبزی بہشتی

کفِ ہر خاک صد آئینہ بر دوش

۔۔

بسامانِ دو عالم گلستاں رنگ

دو عالم رنگ و بوی خفتہ یک بار

زِ تابِ رخ چراغانِ لبِ گنگ

زِ شورِ خندہ گل گشت بیدار

۔۔

شکایت گونہ دارم ز احباب

تماشائی جمالِ شستہ آب

کتانِ خویش می شویم بہ مہتاب

کتانم می زند بر روئی مہتاب

۔۔

بود در عرضِ بال افشانی ناز

نگہ تا باغبارش آشنا بود

خزانش صندل پیشانی ناز

مژہ عرضِ دکان توتیا بود

          چراغِ دیرکا وحدت پرور حسین تاروپود تیار کرنے کے لیے میرزا غالب نے متعدد رنگ استعمال کیے ہیں۔ پہلا رنگ ان کے دردوغم سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا اظہار بالکل قدرتی طورپر ہوا۔ احباب کی بے مہری کا ذکر کرتے ہیں تو مولٰنا فضل حق خیرآبادی، حسا م الدین حیدرخاں اور امین احمد خاں کی وفا شعاری اور ساتھ ہی فراموش کاری کی طرف اشارہ کرکے غم کے تاریک سایے میں روشنی کی خوشگوار کرنیں داخل کرتے ہیں۔ یہاں سے رنگ و نور کی نظرپرور سرزمین یعنی کاشی کی رعنائیوں کاذکر چھڑ جاتاہے۔ غم سے مسرت کی طرف گریز تضاد کے عنصر کی وجہ سے بڑا موثر ثابت ہوتا ہے اور پھر وہ اس حسن خیز خطے کاذکر کرکے گویا دادِ عیش دیتے ہیں۔ جب جذبہ مسرت اپنے عروج پر ہوتاہے تو خیال آتاہے کجا یہ عیش کوشی اور کجا میری فرزانگی:

چہ جوئی جلوہ زیں رنگیں چمنہا

بہشتِ خویش شو از خوں شدنہا

یہاں سے پھر گریز کرتے ہیں اور سوچتے ہیں (دراصل پچھلی عیش کوشی کا تاثر ابھی موجود ہے) ”میں نے تو اپنے روح و رواں کو آسودگی سے لبریز کیا لیکن حِس اور ذہن کی لذت کوشی میں اہلِ خانہ کو بالکل فراموش کردیاہے جو سچی بات ہے:

بہ شہر از بیکسی صحرا نشیناں

بروی آتشِ دل جاگزیناں

اُن سے تغافل روانہیں۔“ مختلف قسم کے احساسات کا اسی طرح تانا بانا تیار کرتے ہوئے میرزا غالب عرفانِ نفس سے عرفان الٰہی کی طرف رجوع کرتے ہیں جو میرزا بیدل کے طریقِ کارسے نہ صرف فکری لحاظ سے مشابہ ہے بلکہ معلوم ہوتاہے اسلوبِ بیان بھی مثنوی طور معرفت سے مستعار لیا گیا ہے:

غالب

ترا اے بی خبر کاریست در پیش

بیدل

چہ صحرا و چہ دریا و چہ کہسار

بیابانی و کہساریست در پیش

ہمہ مشتاقِ تست ای غافل از کار

چو سیلابت شتاباں میتواں رفت

اگر صحراست در راہست خرابست

بیاباں در بیاباں میتواں رفت

وگر دریاست از شوق تو آبست

ترا زاندوہ مجنوں بود باید

نہ کوہت سنگِ رہ، نے در، نہ دیوار

خرابِ کوہ و ہاموں بود باید

دو عالم بر صدا راہست ہموار

          ان اشعار میں بنیادی فکر کے ساتھ ساتھ تصورات کی مماثلت اور مشابہت دیکھیں۔ ہاں ساری کائنات حقیقی انسان کے ظہور کا جس بیتابی سے انتظار کرتی ہوئی طور معرفت کے ان اشعار میں نظر آتی ہے، وہ بیدل کی اپنی چیز ہے۔

          ان دونوں مثنویوں میں احساس جمال کی نزہت میں لطافت عجیب لذت پرور طریقے سے موجود ہے۔ میرزا غالب کے متعلق ہم جانتے ہیں کہ وہ حسّی لذتوں کے بڑے دل دادہ تھے۔ لاسہ، باصرہ، سامعہ خاص طورپر ان تین حسّوں کی لذت آفرینی سے وہ خوب لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ اُن کی بہت سی حسین تراکیب اسی لطف اندوزی کی مرہونِ منت ہیں۔ اس مثنوی میں زیادہ تر اول الذکر دو حسّوں کی ساحرانہ کیف پروری پائی جاتی ہے۔یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:

زہے آسودگی بخش روانہا

کہ داغِ جسم می شوید زِ جانہا

۔۔

ادائی یک گلستاں جلوہ سرشار

خرامی ’صد قیامت فتنہ دربار

بہ لطف از موجِ گوہر نرم رو تر

بناز از خونِ عاشق گرم دو تر

۔۔

بہ تن سرمایہ افزائشِ دل

سراپا مژدہ آسائشِ دل

          میرزابیدل کے ہاں باصرہ سے لذت آفرینی زیادہ ہے۔ لیکن چوں کہ اُن کے حسّی مشاہدے کی اساس عام طورپر تعقّل پر ہوتی ہے ،اُن کے تصورات میں نزہت زیادہ ہے۔ مثلاً قوسِ قزح کے متعلق اُن کایہ شعر پڑھا جائے:

پرِ طاوس صرفِ رشتہ دام

خیالِ لعلِ نو خط بر لبِ جام

اسی طرح ان کے مندرجہ ذیل تین شعروں پر نگاہ ڈالی جائے:

زِ طوفانِ بہارِ انبساطش

زمیں تا آسمان موجِ نشاطش

۔۔

شگفتن بسکہ لبریز است اینجا

زمیں تا چرخ گل خیز است اینجا

۔۔

تصور بر طرف می بندد احرام

ہماں بر خندہ گل می زند گام

          میرزاغالب کے سامنے طورِ معرف کی یہی جمال پروری تھی جب انہوں نے کاشی کے متعلق یہ شعر کہا:

فلک را قشقہ اش گر برجبیں نیست

پس ایں رنگینی موجِ شفق چیست

          صرف مندرجہ بالا قسم کے اشعار ہی نہیں بلکہ ”طورِ معرفت“ میں شفق کا دیاہوا یہ نقشہ بھی میرزا غالب کے تصورمیں موجود تھا۔میرزابیدل کہتے ہیں:

چہ گویم زیں شفقہای جہان تاب

کہ آتش ہم نمی باشد بایں آب

کدامیں نالہ بر اوجِ فلک تاخت

کہ ایں آتش بجانِ عالم انداخت

بیاں در وصفِ او ناقص کمنداست

عبث دامن مزن آتش بلند است

کدا میں بسمل ایں جا پرفشاں شد

کہ خونش رفتہ رفتہ آسماں شد

نمی دانم بایں شوخی کہ زد چنگ

کہ شد بی پردہ حسنِ عالمِ رنگ

کہ وا کردست بر آئینہ آغوش

کہ عکسش کرد عالم را چمن پوش

تصورہا بیادش جنت احرام

خیال از رنگ تصویرش گل اندام

نشستہ عالمی زیں موج نیرنگ

چو برگِ گل بزیرِ خیمہ رنگ

ہمیں جوشِ بہار انبساط است

ہمیں گلگونہ حسنِ نشاط است

لطافتِ احساس اور رعنائیِ خیال دیکھیں۔ تخیل کے زور سے رومان پروری کا عالم ملاحظہ کریں۔ کون سا شعر ہے جو رنگینیوں کے ایک نئے بہشت میں نہیں پہنچا دیتا۔ یہی چیزیں میرزا غالب کو پسند تھیں۔ اُن کی شیفتگیِ بیدل کا راز انھی چیزوں میں پنہاں ہے۔ ہم احساسِ حسن کی اسی لطافت میں میرزاغالب اور میرزابیدل کی مماثلت دیکھتے ہیں۔ یہی مماثلت تھی جو بتانِ کاشی کو دیکھ کر بے ساختہ گویا ہوگئی اوراپنے خدوخال ہمیشہ کے لیے اہل عالم کے سامنے واضح کرگئی۔

          میرزاغالب کاشی سے گھوڑے پر عازم کلکتہ ہوئے۔ دریاکے راستے جانے کا ارادہ تھا مگر کشتی کے اخراجات برداشت نہ کرسکے۔ عظیم آبادپٹنہ اور مرشدآباد ہوتے ہوئے 20 فروری 1828ء کو بروز منگلوار کلکتہ وارد ہوئے۔اور شملہ بازار میں مرزا علی سوادگرکی حویلی میں ایک کھلا مکان دس روپے ماہوار کرائے پر لیا۔ اُن کا اصل مقصد پنشن کے حصول کے لیے جد وجہد کرنا تھا۔ مگر وہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کے مدرسے میں ہرانگریزی مہینے کے پہلے اتوار کو مشاعرہ ہوتا تھا۔ میرزا غالب نے اس میں حصہ لینا شروع کردیا۔میرزا نے ایک غزل پڑھی جس کے اس شعر پر اعتراض ہوا:

جزوی از عالمم و از ہمہ عالم بیشم

ہمچو موی کہ بتاں را ز میاں برخیزد

          اعتراض یہ تھاکہ ’عالم‘مفرد ہے اور قتیل کے قول کے مطابق اس سے پہلے ’ہمہ‘ نہیں آسکتا۔ مشاعرے میں کفایت خاں ایرانی سفیر بھی موجود تھے۔ انہوں نے سعدی اور حافظ کے کلام سے سند پیش کردی مگر معترضین مطمئن نہ ہوئے۔ مرزا غالب کے مندرجہ ذیل شعر پر بھی اعتراض کیا گیا:

شورِ اشکی بہ فشارِ بنِ مژگاں دارم

طعنہ بر بی سروسامانیِ طوفاں زدہ

          معترضین کہتے تھے کہ اس میں ’زدہ کا استعمال غلط ہے۔

          میرزا غالب کو اپنی فارسی دانی پرنازتھا، اس لیے انہوں نے وہاں (کلکتے میں) اہل ایران سے روابط بڑھائے جو اہل زباں ہونے کی بنا پر زیادہ قابل اعتماد تھے۔ انہوں نے میرزا کی کھلے دل سے تعریف کی۔ محمدعلی حزیں کوبھی اہل زبان ہونے کی وجہ سے میرزا غالب قابل اعتماد سمجھتے تھے۔ حزیں نے برصغیر میںآکریہاں کے فارسی گوشعرا کو ”پوچ گو“ کہا تھااور سراج الدین علی خاں آرزو سے نزاع شروع کی تھی جو استعمال بند کے حامی تھے۔ اب غالب کے کلکتہ پہنچنے پر پرانی ایرانی ہندی نزاع کا ازسرنوآغازہوگیا۔ اب آرزوکی بجائے قتیل اور واقف اہل ہند کے نمائندے تھے اور کلکتہ میں ان کے طرف دار مولوی نعمت علی عظیم آبادی، مولوی کرم حسین بلگرامی اور مولوی عبد القادر وغیرہ تھے جو فارسی کے مستند اُستاد شمار ہوتے تھے۔ مرزا غالب کی حمایت ایرانی سفیر کے علاوہ نواب اکبرعلی متولی امام باڑہ اور مولوی محمد حسن کر رہے تھے۔

          میرزا غالب عجیب مخمصے میں گرفتار ہوگئے۔ اُن کے لیے پنشن کا جھگڑا دردِ جگر کاموجب بناہواتھا۔وہ کوئی اور درد سر مول نہیں لینا چاہتے تھے۔ دہلی میں محاورہ بندی، روزمرہ نگاری اور قافیہ پیمائی کے دلدادہ ادب دوستوں نے ان کے جدید اسلوب نگارش اور پیچیدہ افکارپر اعتراض کیا تھا۔ یہاں ایرانی ہندی جھگڑا اُن کے سرپر مسلط کردیاگیا، اور لطف کی بات یہ ہے کہ دہلی میں بھی بیدل کے اتباع پر اعتراض تھا اور یہاں بھی لفظ ’زدہ‘ کے جس استعمال کو محل نظر قرار دیا گیا تھاوہ بھی میرزا غالب کے ذہن میں بیدل کی وجہ سے جاگزیں ہواتھا۔ میرزاغالب، میرزا بیدل کی فارسی دانی کے قائل تھے اور کہتے تھے اس برصغیر سے تعلق کے باوجود میرزا بیدل قتیل کی طرح نادان نہیں۔وہ انہیں ایک عظیم سرچشمہ فیض خیال کرتے تھے۔اس لےے جب انہو ںنے احباب کے کہنے پربطریقِ معذرت مثنوی باد مخالف لکھی توجہاں میرزابیدل کی اس حیثیت کا اعلان کیا،وہاں ’زدہ‘ کے متعلق سندبھی انہیں کے شعرکی پیش کی:

می زدہ، غم زدہ کہ ترکیب است

بقیاس فقیر تقلیب است

ہمچناں آں محیطِ بی ساحل

قلزمِ فیض میرزا بیدل

از محبت حکایتی دارد

کہ بدینساں بدایتی دارد

”عاشقی بیدلی جنوں زدہ

قدحِ آرزو بخوں زدہ

واوین والاشعر میرزا بیدل کاہے اور ان کی مثنوی ”عرفان“ میں موجود ہے۸۔ معلوم ہوتا ہے جوں جوں اعتراضات کا واویلا بلند ہوتاتھا،غالب کے شعور میں میزا بیدل کا یہ شعر پے درپے گونج پیدا کرتاتھا۔ اس لےے کون کہہ سکتا ہے کہ میرزا غالب نے مثنوی باد مخالف کی بحر (فاعلاتن مفاعلن فعلان)اس شعر کا حوالہ دینے کی خاطر اختیار نہیں کی تھی، یایہ کہ ’زدہ  کے جس استعمال پر لوگوں نے اعتراض کیا تھا،وہ انہوں نے میرزا بیدل سے اخذ نہیں کیا تھا؟

          اور یہ بھی دیکھیے، دہلی اور کلکتہ والوں کے اعتراضات کے علی الرغم (قربِ زمانی اور جذباتی فضاخاص طورپر معنی خیز ہے) نہ صرف یہ کہ بنارس میں بیدل کے اتباع میں مثنوی لکھ کر میرزا غالب نے واضح کردیاکہ بیدل کا تخیل ان کے مزاجِ شعری کا جزولاینفک بن چکاہے بلکہ کلکتہ میں علی الاعلان بیدل کو محیطِ بے ساحل اور قلزم فیض کہا۔ گویا اُن سے فیض حاصل کرنے کے بزبان حال و قال معترف ہونے کے علاوہ میرزا غالب یہ بھی کہتے تھے کہ اُن کا فیض کبھی ختم ہونے ولانہیں۔ ”محیط بے ساحل“ محض مبالغہ آرائی نہیں اور نہ ضرورتِ شعری کی بناپریہ ترکیب استعمال ہوئی ہے۔ یہ ایک شاگرد کی انتہاے عقیدت ہے۔ اسی لےے اُستاد کے اشعار کو اپنی ذاتی جائداد سمجھ کر حسب ضرورت یہ ادنیٰ تصرف اپنے کلام میں لے آئے ہیں۔ مثنوی باد مخالفت کے ایک شعر کا موازنہ آپ خوداس نقطہ نگاہ سے عرفانِ بیدل کے ایک شعر سے کریں:

غالب

بیدل

من کف خاک و اَو سپہرِ بلند

خاک را کی رسد بچرخ کمند

من کفِ خاک و اُو سپہر بلند

نبرد خاک بر سپہر کمند

          یہ شعر اسی حکایت کاہے جس کا حوالہ مندرجہ بالا اشعار میں میرزا غالب نے خود دیاہے۔

          اب مذکورہ بالا تمام مطالب کو زیرنظر رکھ کر آپ غور فرمائیں۔ سفرِ کلکتہ میں میرزا غالب نے دو مثنویاں چراغ دیر اور باد مخالف تصنیف کریں۔ دونوں بیدل کی دو مثنویوں طور معرفت اور عرفان کی بحروں میں ہیں اور دونوں میں بیدل سے غالب کا استفادہ اور استفاضہ ظاہر ہے۔ مثنوی باد مخالف کاسال تصنیف ۸۲۸۱ءہے جب میرزا غالب کی عمر شمسی تقویم کے حساب سے پورے اکتیس سال تھی۔ اس لےے یہ کہنا کہ میرزا غالب نے بیدل کا تتبع عمر کے پچیس سال تک کیا، غلط ہے۔ ہم نے جو داخلی ثبوت پیش کیاہے، اس سے الم نشرح ہوجاتاہے کہ جب میرزا غالب نے دس گیارہ سال کی عمر سے بیدل کے رنگ میں شعر کہناشروع کردیاتھا، باد مخالف کے سال تصنیف تک انہوں نے بلاشبہ بیس سال کے طویل عرصے تک بیدل سے اکتساب فیض کیا۔ اور سطوربالانے پوری طرح واضح کردیاہے کہ ایک نابغہ کاایک عظیم شاعرسے اتنے طویل عرصہ تک اکتساب فیض کس قدر مثبت اثرات پر منتج ہوا۔اس طرح نظر آتاہے کہ غالب کے مرکزی نظامِ عصبی پر بیدل کے لطیف اور منزہ احساسِ حسن اور تخیل افروز اسلوب کا ایسا اثرتھاکہ اس کے خیال سے وہ مدہوش سے ہوجاتے تھے اور پھر عجیب لطف وسرور کے ساتھ تخلیق شعر کیاکرتے تھے۔ میرزا غالب کے مزاجِ شعری کا جوں جوں تجزیہ کیا جائے گا، واضح ہوتاجائے گاکہ اگر اس میں سے بیدل کے اثرات کو ختم کردیاجائے تو بہت سے ایسے عناصر باقی نہیںرہیں گے جن کی بناپر وہ (یعنی میرزا غالب) ہمیں اس قدر پسند ہیں۔

۔۔۔

حواشی:

۱۔کلکتے میں میرزاغالب نے اُردو زبان میں چکنی ڈلی کے متعلق ایک قطعہ بھی لکھا۔ ان کے دوست مولوی کریم حسین نے ایک مجلس میں بہت پاکیزہ چکنی ڈلی اپنے کفِ دست پر رکھ کر انہیں اس کے متعلق نظم لکھنے کوکہاتو انہوں نے وہیں بیٹھے بیٹھے نودس اشعار پر مشتمل ایک قطعہ کہا۔ جس میں تشبیہات کاحسن دید کے قابل ہے۔ اس قطعے سے ظاہر ہوتاہے کہ اُن ایام میں میرزاغالب کی طبیعت کا رجحان تخلیق حسن کی طرف بہت زیادہ تھا۔علاوہ بریں اگرچہ اس قطعے میں ان کی ابتدائی اُردو شاعری کی طرح اغلاق نہیں لیکن فارسی ترکیبات کی وہ بہتات ہے کہ اکثر اشعار کے افعال اگر فارسی میں تبدیل ہوجائیں تواشعار یکسر فارسی کے بن جاتے ہیں۔ یہ اس امرکاثبوت ہے کہ وہ میرزاکی فارسی گوئی کادور تھا۔

۲۔اِس مخطوطے کا نمبر 1526 ہے۔ اس میں بیدل کی ایک اور مثنوی محیطِ اعظم بھی شامل ہے۔ لیکن سفرِ کلکتہ سے اس دوسری مثنوی کے اثرات کاکوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ البتہ باقی کلامِ غالب میں اِس کے اثرات موجود ہیں۔

۳۔ہم نے اِس مہراور شعر کا عکس اپنی تصنیف سیرتِ بیدل (انگریزی) میں دے دیا ہے۔ اسی طرح بیدل کی دوسری مثنوی ”محیطِ اعظم“ سے متعلق شعر اور مہرکاعکس بھی دے دیا گیاہے۔ ”محیطِ اعظم“ کی تعریف میں میرزاغالب نے یہ شعر لکھاہے:

ہر حبابی را کہ موجش گل کند جامِ جم است

آبِ حیوان آب جوئے از محیطِ اعظم است

          (دیکھےے Life and Works of Bedilمطبوعہ پبلشرز یونائٹڈ لاہور، 1961صفحہ ۳۲۱)

۴۔ بیدل کے متعلق مرزا غالب کے ان ایام میں کہے ہوئے مندرجہ ذیل اردو کے اشعار کا مطالعہ بھی کیجےے۔ عقیدت اور استفادے کا جذبہ عمیق و پُرشور قابلِ دید ہے:

اسد ہر جا سخن نے طرحِ باغ تازہ ڈالی ہے

مجھے رنگِ بہار ایجادیِ بیدل پسند آیا۔

۔۔

مطربِ دل نے مرے تارِ نفس سے غالب

ساز پر رشتہ پَے نغمہ بیدل باندھا

۔۔

مجھے راہِ سخن میں خوفِ گمراہی نہیں غالب

عصاے خضر صحراے سخن ہے خامہ بیدل کا

۔۔

اسد قربانِ لطفِ جورِ بیدل

خبر لیتے ہیں لیکن بے دلی سے

۔۔

گر ملے حضرتِ بیدل کا خطِ لوحِ مزار

اسد آئینہ پروازِ معانی مانگے

۔۔

طرزِ بیدل میں ریختہ لکھنا

اسداللہ خاں قیامت ہے

۔۔

۵۔ میرزا غالب کا معاصرِ بزرگ غلام ہمدانی مصحفی (متوفی:۴۲۸۱ئ) ایک واسطے سے ان بزرگوں میں شامل ہوجاتاہے۔ سنہ ۱۷۷۱ءکے لگ بھگ مصحفی نے میرزا رفیع سوداسے لکھنو  (فیض آباد؟) میں ملاقات کی، اور میرزا سودا جب شاہجہان آباد میں رہتے تھے تو عرسِ بیدل منایا جاتاتھا۔ مصحفی ان لوگوں میں ہیں جنہوں نے بیدل کے اتباع کو آخری دم تک مستحسن سمجھا۔ مصحفی نے 1199ھ (85- 1886 ئ) میں تذکرہ ”عقدِ ثریا“ تصنیف کیا تو لکھا کہ اب بیدل کی ”قبرخانہ ویران“ میں واقع ہے۔ دیکھیے عقدِ ثریا، مطبوعہ دہلی، 1934ئ، صفحہ 160۔

۶۔اہل نظر کے نزدیک کلام بیدل اس قدر وقیع ہے کہ علامہ اقبال مرحوم نے اپنی وصیّت میں ایک قلمی دیوانِ بیدل کااپنی جائداد کے سلسلے میں ذکرکیاتھا۔ بحوالہ روزگار فقیر، جلد۲، صفحہ ۸۵۔ اور طورِ معرفت کے اس نسحے کو تو میرزا غالب کے خصوصی تعلق نے بھی گراں مایہ بنا دیا تھا۔

۷۔یہ ترکیب اُس بات کا پیش خیمہ ہے جو ہم میرزا غالب کے قیامِ کلکتہ کے سلسلے میں کہیں گے۔

۸۔دیکھیے کلیات بیدل، جلد سوم، مطبع دپو ہنی کابل۔ مثنوی عرفان صفحہ ۱۸۱

غالب کی شاعری

غلام رسول مہر

غالب کی شاعری

(غوروفکر کے بعض نئے پہلو)

شعرِغالب نبود وحی و نگوئیم ولے

تو ویزداں نتواں گفت کہ الہامے ہست

          مرزاغالب کی زندگی اور شاعری کے متعلق اتنی کتابیں، رسالے اور مقالے لکھے جاچکے ہیں کہ اردو اور فارسی کے شاعروں میں سے شاید ہی کسی کے ساتھ اتنا اعتنا کیا گیا ہو، ایک علامہ اقبال کو غالباً مستثنیٰ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم میں سمجھتاہوں کہ اب بھی مرزا کی شاعری کے بعض پہلو مزید غوروتوجہ کے محتاج ہیں اور جس حد تک مجھے علم ہے بے تکلّف اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ بہت محدود ہے۔ کہہ سکتا ہوں کہ ان پر اگر کچھ لکھا گیا ہے تو وہ بہت کم ہے۔

          ان میں سے ایک پہلو کا ذکر میں نے”ماہِ نو“ کے گزشتہ ”غالب نمبر“ میں سرسری طورپر کیا تھا۔ یعنی مرزا غالب کے جو شعر پیشتر کے اساتذہ سے استفادے یا ”توارد“ کے تحت آتے ہیں، ان کی چھان بین کی جائے اور جائزہ لیا جائے کہ آیا مرزا نے سابقہ مضامین میں کوئی خاص اضافہ کیا، جس سے ان کا حسن پوری طرح نکھر گیا؟ خواہ وہ اضافہ نفسِ مضمون میں ہو یا بیان میں۔ میں نے چند مثالیں بھی دی تھیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اصل معاملے کا دامن زیادہ وسیع ہے اور مرزا کے کلام سے شغف رکھنے والوں کی خدمت میں مودبانہ التماس ہے کہ وہ اس سلسلے میں غوروتحقیق کا قدم آگے بڑھائیں۔

          ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جومضامین و مطالب کلیاتِ فارسی اور دیوانِ اردو دونوں میں موجود ہیں، ان کاموازنہ کیا جائے اور دیکھا جائے کہ کیا فارسی کے مضامین اردو میں یا اردو کے مضامین فارسی میں بعینہ لے لئے یا ان میںکچھ اضافہ کیا؟ ایک دوسرے کا ترجمہ ہے یا کسی ایک میں زیادہ وضاحت،زیادہ حسن اور زیادہ دل آویزی پیدا کردی ہے؟ اس ضمن میں یہ اندازہ بھی کیا جاسکتاہے کہ اصل مضمون کے لئے فارسی کا قالب زیادہ موزوں رہا یا اردو کا؟

          خود اردو میں بعض اشعار بہ لحاظِ نفس مضمون مترادف ہیں، اگرچہ اسلوب بیان ایک نہیں۔ ان پر الگ غور کرنا چاہیے۔ مثلاً:

۱۔

دریائے معاصی تنگ آبی سے ہوا خشک

میرا سرِ دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا

۲۔

بقدر حسرت دل چاہیے ذوقِ معاصی بھی

بھروں یک گوشہ دامن گر آبِ ہفت دریا ہو

یا

۱۔

وارستہ اس سے ہیں کہ محبت ہی کیوں نہ ہو

کیجے ہمارے ساتھ عداوت ہی کیوں نہ ہو

۲۔

قطع کیجے نہ تعلق ہم سے

کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی

۳۔

لاگ ہو تو اس کو ہم سمجھیں لگاؤ

جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا

مرزاکی شاعری کے اس پہلو پرغور وتدبّر یقینی منفعت بخش ہوگا۔

          ایک پہلویہ بھی ہے کہ مرزا کے بعض اشعار پرایک سرسری سی نظر ڈالتے ہوئے ایسا تاثر قبول کرلیا گیا جو صحیح نہ تھا یا کم از کم اس کا دوسرا پہلو بالکل نظرانداز کردیا گیا۔ مثلاً مرزا کا ایک مشہور شعرہے:

خوشی کیا کھیت پر میرے اگر سوبار ابر آئے

سمجھتا ہوں کہ ڈھونڈے ہے ابھی سے برق خرمن کو

یہ شعر عموماً مرزاکی قنوطیت کے ثبوت میں پیش کیا جاتاہے۔ اگرمزیدغور کیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ مرزانے اس میں قنوطیت کااظہارنہیں کیا، بلکہ ایک معاملے کے دو پہلو پیش کیے ہیں تاکہ اہلِ نظر دونوں کوسامنے رکھیں۔ ابرکے دامن میں وہ پانی بھی ہوتا ہے جو کھیتوں، فصلوں اور باغوں کے لئے آبِ حیات ہے، بجلی بھی ہوتی ہے، جو سب کچھ جلا کر راکھ بنا دیتی ہے۔ اسی طرح یہاں کی مختلف چیزوں کے دوہی پہلو ہیں، جو متضاد نظر آتے ہیں۔ حقیقت شناس وہ ہے، جو دونوں پہلووں کویکساں پیشِ نظر رکھے۔ نہ ابرکی آب رسانی کے جوشِ شادمانی میں بجلی کی تباہ کاری سے اعراض کرے اور نہ بجلی کی دہشت انگیزی سے ہراس زدہ ہوکر ابرکے فیضان سے استفادے کا رشتہ کاٹ دے۔ اسے چاہیے کہ خیرسے فائدہ اٹھائے اور شر سے محفوظ رہنے کے لئے تمام ممکن تدبیروں پر عمل پیرا رہے۔

          ہم کیوں سمجھیں کہ مرزا نے یہاں قنوطیت کا اظہار کیا ہے اور ان کی نظراچھی چیزوں میں بھی بُرے پہلو ہی پررہتی ہے؟ کیوں یہ نہ سمجھیں کہ انہوں نے دنیا کو بصیرت کی دعوت دی ہے؟ یعنی انسانوں کوصرف اچھے پہلو ہی پر قانع نہ رہنا چاہیے، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس اچھی چیز سے برائی ظہورکرےگی تو امیدو رجائیت کی پوری متاع برباد ہوجائے گی۔ ضروری ہے کہ بُراپہلو بھی نگاہوں سے اوجھل نہ ہوتاکہ پہلے ہی اس کا انسداد کرلیا جائے۔

          ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مرزا نے ”رشک“ کی طرح بعض دوسرے مضامین میںبھی حیرت انگیز نکتہ آفرینیاں کی ہیں،مثلاً ”شراب“۔ میرے اندازے کے مطابق ”شراب“ کے متعلق سیکڑوں شعرکہے۔ہر شعر میںاس موضوع کے متعلق نئی بات کہی اور کوئی بھی بات ایسی نہ کہی جو اس دائرے میں حقیقت و واقعیت کی صحیح تصویر نہ ہو۔ مضامین شراب میں اتنا تنوع حافظ اور خیام کے ہاں بھی نہ ملے گا،جو خمریات، میں امام مانے جاتے ہیں۔ ایسے مضامین بھی بے شمارہیں، ن کے متعلق بے تکلف کہا جاسکتاہے کہ:

ہرچند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو

بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

          بعض اور پہلو بھی ہیں، لیکن میں اس گفتگو کو پھیلانا نہیں چاہتا اور جو کچھ اور پیش کرچکا ہوں، اس کی چند ملی جلی مثالیں عرض کروں گا۔

          مرزا کا ایک فارسی شعر ہے:

تا نیفتد ہرکہ تن پرور بود

خوش بود گر دانہ نبود دام را

پرندے پکڑنے کے لئے پھندا لگاتے ہیں تو اس پردانے بکھیر دیتے ہیں تاکہ پرندے دانے کے لالچ میں درختوں سے زمین پر اتریں اور پھنس جائیں۔ مرزا کہتے ہیں کہ دانے کی خاطر اترنا ”تن پروری“ ہے۔ کیا اچھا ہوتا کہ جال بچھاتے وقت اس پر دانے نہ بکھیرے جاتے تاکہ تن پروری کاذوق پرندوں کے لئے گرفتاری کا موجب نہ ہوتا۔

          یہی مضمون طاعت و عبادت کے سلسلے میں ذرا کھول کربیان کیاتو فرمایا:

طاعت میں تا رہے نہ مے و انگبیں کی لاگ

دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو

          جو لوگ خداکی عبادت کرتے ہیں، اس کے حکموں کے پابند رہتے ہیں، ان میں سے اکثر کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اعمال حسنہ کی جزا پائیں گے اور بہشت میں جائیں گے، جہاں شہد کی نہر بھی ہوگی، شراب طہور بھی ملے گی اور دوسری نعمتوں سے بھی مستفید ہوں گے۔ مرزا فرماتے ہیں کہ یہ طاعت خالصتہً خدا کے لئے نہ رہی بلکہ بہشت اور اس کی نعمتوں کے لئے ہوگئی۔ مرزا کے نزدیک حقیقی اور خالص طاعت وہ ہے، جو غیر اللہ کی تمام خواہشوں سے بالکل پاک ہو۔

          پھر فرماے ہیں:

کیا زہد کو مانوں کہ نہ ہو گرچہ ریائی

پاداشِ عمل کی طمع خام بہت ہے

یعنی زہد اگر ریا سے پاک بھی ہوتومیں اس کا معتقد کیوں کر ہوسکتاہوں۔ آخراپنے اعمال کی جزا کا معاملہ توساتھ ساتھ چلاجارہاہے۔ جب تک اس طمع خام سے زہد پاک نہ ہو، وہ ایسا زہد کیوں کر بن سکتا ہے جسے میں قابلِ احترام مانوں؟

          اب فارسی اور اردو کے متعدد ہم معنی اشعار پرایک نظر ڈال لیجیے جنہیں میں نے سرسری نظرمیں چُناہے۔ دقتِ نظرسے کام لیا جائے تو اور بہت سے اشعار مل جائیں گے:

۱۔

گریہ کرد از فریب وزارم کُشت

نگہ از تیغ آبدار تراست

کرے ہے قتل لگاوٹ میں تیرا رو دینا

تری طرح کوئی تیغ نگہ کو آب تو دے

۲۔

ہفت آسماں بہ گردش و ما درمیانہ ایم

غالب و گرمپرس کہ برماچہ مے رود

رات دن گردش میں ہیں ہفت آسماں

ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

۳۔

ہر رشحہ بہ اندازہ ہر ہر حوصلہ دادند

مے خانہ توفیق خم و جام نہ دارد

توفیق بہ اندازہ ہمّت ہے ازل سے

آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا

گرتی تھی ہم پہ برقِ تجلی، نہ طورپر

دیتے ہیں بادہ،ظرفِ قدح خوار دیکھ کر

۴۔

لالہ و گل ومداز طرفِ مزارش پسِ مرگ

تا چہا در دلِ غالب ہوسِ روئے تو بود

مشہدِ عاشق سے کوسوں تک جو اگتی ہے حنا

کس قدر یارب ہلاکِ حسرتِ پابوس تھا

۵۔

رمز بشناس کہ ہر نکتہ ادائے دارد

محرم آن است کہ رہ جز بہ اشارت نہ رود

چاک مت کر جیب بے ایّام گُل

کچھ ادھر کا بھی اشارہ چاہےے

۶۔

فغاں کہ نیست سرد برگ دہن افشانی

بہ بند خویش فرد ماندہ ام بہ عریانی

دیکھ کر درپردہ گرمِ دامن افشانی مجھے

کر گئی وابستہ تن میری عریانی مجھے

۷۔

ناکس زتنومندی ظاہر نہ شود کس

چوں سنگِ سرِ رہ کہ گران است و گراں نیست

قدر سنگِ سرِ رہ رکھتا ہوں

سخت ارزاں ہے گرانی میری

۸۔

ناداں حریف مستیِ غالب مشوکہ او

دردی کش پیالہ جمشید بودہ است

صاف دُردی کشِ پیمانہ جم ہیں ہم لوگ

وائے وہ بادہ کہ افشردہ انگور نہیں

۹۔

از جوئے شیر و عشرتِ خسرو نشاں نہ ماند

غیرت ہنوز طعنہ بہ فرہاد می زند

عشق و مزدوریِ عشرت گہ خسرو؟ کیا خوب

ہم کو تسلیم نکو نامیِ فرہاد نہیں

10۔

فرصت از کف مدہ و وقت غنیمت پندار

نیست گر صبح بہارے، شب ماہے دریاب

غالب چھٹی شراب،پر اب بھی کبھی کبھی

پیتا ہوں روز ابر و شبِ ماہتاب میں

پی جس قدر ملے شبِ مہتاب میں شراب

اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے

          مرزاکاایک خاص مضمون یہ ہے کہ گناہوں کی پرسش میں انہیں اپنی حسرتیں یادآجاتی ہیں۔ اس سلسلے میں فارسی کاایک نہایت عمدہ شعرہے:

اندر آں روز کہ پرسشش رود ام ہرچہ گزشت

کاش باما سخن از حسرت ما نیز کنند

پھر یہی مضمون ایک رباعی میں یوں پیش کیا ہے:

اے آنکہ وہی مایہ کم و خواہش بیش

آں روز کہ وقت باز پرس آید پیش

بگزار مرا کہ من خیالے دارم

با حسرت عیشہائے ناکردہ خویش

          مثنوی ”ابرگہربار“ کی مناجات کے آخرمیں کم و بیش اَسّی شعر صرف اس موضوع پر کہے ہیں اور ایسا انداز اختیار کیاہے کہ وہ شعر پڑھتے وقت دل ہل جاتاہے۔

          دیوان اردو میں بھی دو شعر اس مضمون کے موجود ہیں:

۱۔

ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد

یارب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے

۳۔

آتا ہے داغ حسرتِ دل کا شمار یاد

مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ

          آخر میں اتنااور عرض کرنا چاہتاہوں کہ مختلف اصحاب نے مرزاکے بعض اردو اشعار کو کسی نہ کسی فارسی شعر کے ہم مطلب قرار دے لیااور اس حقیقت پر غور نہ کیاکہ دونوں میں حقیقتہً کتنافر ق ہے۔ مثلاً بیگی دختر علی حیدرکایہ شعر ملاحظہ فرمائیے:

من اگر توبہ زمے کردہ ام اے سردِ سہی

تو خود ایں توبہ نہ کردی کہ مرا مے نہ دہی

یعنی اے سروِ سہی! اگر میں نے شراب سے توبہ کرلی تو تونے کب توبہ کی تھی کہ مجھے شراب نہ دے گا؟ کہا گیاہے کہ مرزاکا مندرجہ ذیل شعراسی سے ماخوذ ہے:

میں اور بزمِ مے سے یوں تشنہ کام آوں؟

گر میں نے کی تھی توبہ، ساقی کو کیا ہوا تھا؟

          بلاشبہ شراب سے توبہ کرنے اور ساقی کی طرف سے شراب نہ ملنے کاذکر دونوں میں موجود ہے، مگر بیتی کا شعر محض ذکر پر ختم ہوگیااور شراب کے سلسلے میں ساقی یا محبوب کو ”سروِ سہی“ کہنا کچھ لطف نہیں رکھتا۔اورآپ مرزا کے شعرکی معنویت پر غور فرمائیے:

۱۔”میں اور“ سے ظاہرہوتاہے،میکش اتنا پینے والاہے کہ ساقی اور رند سب اس سے بخوبی آگا ہیں۔ اسی لئے”میں“ پرخاص زور دیااور صرف ”میں“ کہہ کریہ پوری حقیقت واضح کردی۔

          ۲۔ پھر شراب نہ ملنے سے جو تکلیف ہوئی، وہ محتاج بیان نہیں۔ علاوہ بریں میکش کو اس بات پربھی سخت غصّہ ہے کہ عرق نوشی میں درجہ کمال حاصل کرلینے کے باوصف ساقی نے قدرنہ پہچانی۔

          ۳۔ بے شک شراب سے توبہ کرلی تھی،مگر بزم مے میں جانے سے صاف ظاہرہوگیاتھاکہ توبہ کچھ ایسی پختہ واستوارنہیں کہ ٹوٹنے نہ پائے یا شراب پیش کردی جائے تو اسے قبول کرنے میں ہچکچاہٹ ہو۔

          ۴۔”بزم مے“ سے روشن ہے کہ شراب نہ ملنے کاواقعہ خلوت میں پیش نہ آیا،جسے طوراً و کرہاً برداشت کیا جاسکتاتھا،بلکہ بھری محفل میں پیش آیا، جہاں حریفوں کا پورا گروہ موجود تھا۔ گویا سبکی اور بے عزتی رندوں کے مجمع میں ہوئی جس سے میکش کے غصّے کی آگ برابر تیز ہورہی ہے۔

          ۵۔ ”یوں تشنہ کام آوں“ سے پتا چلتاہے کہ رفعِ خمار کی بڑی امیدیں اور آرزوئیں لے کر بزمِ مے میں شریک ہواتھا،مگر ساقی نے آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھااور دور شروع ہواتو اسے تشنہ کام و نامراد لوٹا دیا۔

          ۶۔پھر کہتے ہیں اچھا بھئی مانا، میں نے توبہ کرلی تھی۔آخر ساقی کو تو خیال ہونا چاہےے تھاکہ توبہ محض نمائشی اور ریائی ہے، کیونکہ وہ تو عمربھرسے میکشی کو دیکھ رہاتھا، توبہ کامعاملہ تو ایک معمولی معاملہ تھا، یہ معمولی معاملہ یاد رکھااوراسی کو معیار سلوک بنالیا۔عمر بھر کی ہم مشربی یک قلم فراموش کردی۔

          ۷۔ سب سے آخر میں کہتے ہیں کہ”ساقی کو کیاہواتھا؟“ یعنی میں نے توبہ کرلی تھی تو اس نے کیوں یہ ناقابلِ تصوّر و تیرہ اختیار کرلیا؟

          پھر لطف یہ کہ کوئی معین بات نہیںبتاتے،”کیاہواتھا“ کہہ کر معاملہ ختم کردیا،جس کی بیسیوں تعبیریں ہوسکتی ہیں۔ مثلاً:

          ا۔ کیاوہ اس پر ناراض تھاکہ میں نے توبہ کیوں کی؟

          ب۔ کیاحریفوں نے اسے مختلف باتیں کہہ کہہ کر میرے خلاف برانگیختہ کردیاتھا؟

          ج۔کیاوہ ہوش میں نہ تھااور اس نے مجھے پہچانا نہیں تھا؟

          د۔ کیاوہ چاہتاتھاکہ یوں مجھ سے بھری محفل میں توبہ کابدلہ لے؟

          ہ۔ کیااس کے سے دیرینہ رند کے ساتھ ایسا برتاو مناسب تھا۔

          و۔ کیابیگی کے قول کے مطابق اس نے مجھے شراب دینے سے توبہ کرلی تھی؟

          غرض سوچتے جائےے اور مختلف پہلو نکلتے آئیں گے،بیگی کے شعر میں معنویت کے اتنے پہلو کہاں موجود ہیں؟

          غرض میری گزارشات کامدّعایہ ہے کہ مرزاغالب کی شاعری کے ان پہلووں پربھی اربابِ ذوق کو خاص توجہ فرمانی چاہےے اور مجھے یقین ہے کہ یہ توجہ بہرحال سودمند ہوگی، اغلب ہے کئی ایسے نکتے روشنی میں آجائیں جواب تک عام نظروں کی گرفت سے باہر رہے۔

غالب کی شاعری میں محبوب کا تصور

فراق گورکھپوری

غالب کی شاعری میں محبوب کا تصور

          کہتے ہیں کہ پاربتی جی نے ایک بار شیوجی سے پوچھا کہ میں تمہیں کیسی لگتی ہوں۔ شیوجی نے جواب دیا کہ ”تم مجھے ایسی لگتی ہوجیسے آدھا سنا گانا یا وہ راگ جو کچھ سنائی پڑے اور کچھ نہ سنائی پڑے“، انگریزی شاعر کیٹس نے اپنی محبوبہ کوایک خط میں لکھا کہ میں تمہیں ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے آنکھ اوجھل پاتاہوں، کتنے حسین، لطیف اور نازک تصوّر ان روایتوں میں پیش کےے گئے ہیں۔ مخصوص انفرادی لذّات یا احساسات کی مصوری الفاظ میں ناممکن ہے۔ ہر تجربے میںایک نرالاپن ہوتاہے۔ ہراحساس میں ایک اچھوتاپن ہوتاہے۔ ہر تصورکی ایک انفرادیت ہوتی ہے۔ الفاظ کے ذریعہ سے شاعر یا ادیب ہمیں اس نرالے پن، اچھوتے پن اور انفرادیت کے قریب کردیتاہے لیکن بات جہاں کی تہاں رہ جاتی ہے، اگر وہ شخص ایک ہی معشوق کے عاشق ہوں تو بھی اس کے حسن وجمال کا جو عکس دونوں کے دلوں میں پڑے گاوہ یکساں نہیں ہوگا۔ انفرادیت دنیا کے اہم ترین رازوں میں سے ایک رازہے لیکن انفرادیت میں ایک آفاقی اور عالمگیر صفت بھی ہوتی ہے، جب ہی تو ہم شاعروں کے مخصوص اور اچھوتے تصورات سے مانوس اور ہم آہنگ ہوسکتے ہیں۔

          غالب کی عشقیہ شاعری میں محبوب کے تصور کا اندازہ لگاتے وقت ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ غالب کا یہ تصور مسلسل نظموں میں نہیں پیش کیا گیاہے بلکہ غزلوں میں پیش کیا گیاہے اور غالب کی غزلوں میں، جن سے کہیں زیادہ عشق اور زندگی اور کائنات کی مصوری کی گئی ہے۔ بجائے اس کے حُسن کیا ہے اور کیسا ہے ہمیں زیادہ تریہ بتایا گیا ہے کہ حسن نے عشق کے ساتھ کیا کیا اور حسن کے ہاتھوں عشق پر کیا گزری، بقول اصغرگونڈوی’کچھ فتنے اُٹھے حُسن سے کچھ حُسن نظر سے‘ لیکن پھر بھی جب ہم دیوان غالب کی سیر کرتے ہیں تو حُسن کی متعدد جھلکیاں اورمعشوق کے مزاج اور کردار کی کئی تصویریں ہمارے سامنے سے گزرتی ہیں۔ ان اشعار سے ہم کافی حد تک اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ غالب کی شاعری میں حسن کا تصور کیا ہے اور کیسا ہے، پہلے معشوق کے قد کو لیجیے۔ لمبے قد کا آدمی کس قد و قامت پر عاشق ہوگا؟ اس کے معشوق کا قد بوٹا سا ہو گا یا لمبا اور چھریرا تو اسے ماہر حسنیات ہی بتائیں۔ لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ اُردو شاعروں میں غالب خود بہت لمبے قد کے آدمی تھے۔ ایک شعر میں غالب نے معشوق کے درازی قدکاذکرکیاہے،کہتے ہیں:

بھرم کھُل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا

اگر اس طرہ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے

          غالب کا معشوق ،یاغالب کے معشوق، میانہ قدر، بوٹا سا قد یا لمبے قد کے تھے۔ ہمیں اس کا کوئی تاریخی علم نہیں لیکن جو شعر ابھی آپ نے سُنا ہے اس سے یہ پتا ضرور چلتا ہے کہ سرو قد معشوق کے حُسن کا احساس اور شدید احساس غالب کو تھا۔

          غالب کا معشوق نرم گام یا آہستہ خرام نہیں ہے۔ معشوق کی چال کی تصویر غالب نے یوں کھینچی ہے:

چال جیسے کڑی کمان کا تیر

دل میں ایسے کے جا کرے کوئی

بجلی کی تیزی اور تیر کی جست محبوب غالب کی چال میں ہے،ایک جگہ اور کہتے ہیں:

ثابت ہوا ہے گردنِ مینا پر خونِ خلق

لرزے ہے موج مَے تری رفتار دیکھ کر

          یہاں بھی چال کے جمالی پہلو کو جلالی شان و انداز سے پیش کیا گیا ہے۔ معشوق کی شوخ چال کی ایک اور تصویر دیکھیے:

دیکھو تو دل فریبی  انداز نقشِ پا

موجِ خرام یار بھی کیا گل کتر گئی

اس شعرمیں بجلی کی سی چال کا ذکرنہیں پھر بھی چال ہے نہایت شوخ

زلف سے متعلق بھی غالب نے دو تین ہی شعر کہے ہیں لیکن کیا شعر ہیں:

نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں

تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہوگئیں

          زلف کی درازی کا کچھ اندازہ تو غالب کے اس شعر سے ہم کو ہوجاتا ہے جسے قامت کی درازی کے سلسلے میں پیش کرچکے ہیں:

اگر اس طرہ پُر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے

          زلف کی رمزیت پر ایک شعر کہہ کے غالب نے کیا کچھ نہیں کہہ دیا

کٹے تو شب کہیں، کاٹے تو سانپ کہلاوے

کوئی بتاو


¿ کہ وہ زلف خم بہ خم کیا ہے

اوریہ شعر تونہ جانے ہمیں کہاں لےے جارہاہے:

تو اور آرائش خم کا کل

میں اور اندیشہ ہائے دور و دراز

          گورا دمکتا ہوا چہرہ دیکھ کر کبھی نگاہیں تڑپ جاتی ہیں اور کبھی شاداب ہوجاتی ہیں۔ معشوق کے چہرے کا تصور غالب یوں کرتے ہیں اور اسے یوں دیکھنا چاہتے ہیں:

اک نو بہار ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ

چہرہ فروغ مے سے گلستاں کےے ہوئے

اس شعر میں بھی معشوق کے چہرے کی جگمگاہٹ دیکھےے:

کیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے

کرے جو پرتوِ خورشید عالم شبنمستاں کا

معشوق کی نگاہ کا کتنا لطیف احساس و تصوّر غالب کو تھا۔

بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی

وہ اک نگہ جو بظاہر نگاہ سے کم ہے

          غالب کے ہاں محبوب کا جوتصور ہمیں ملتاہے وہ نہایت دھاردار،نوک دار، چنچل اور شوخ ہے۔ اس تصورمیں ایرانی کلچرکی رنگینیاں،لطافتیں اور نزاکتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں، غالب کے تصورکا کوئی خط دھندلایا مبہم نہیںہے۔ اس کے تصورکی ہر سنہری لکیر میں اُپی ہوئی تلوار کی دھار ہے۔اس کے احساس حُسن میں ایک ارتکاز وہم آہنگی ہے۔ اس کا معشوق بہت شوخ اور طرار ہے، ا س کی باتیں تک برق رفتاری کی مثالیں ہیں۔ ٹھہراوتو کہیں ہے ہی نہیں۔ معشوق کیسے باتیں کرتا ہے؟

بجلی اک کوند گئی آنکھوں کے آگے تو کیا

بات کرتے کہ میں لبِ تشنہ تقریر بھی تھا

          معشوق کی بے پناہ شوخیاں ان اشعار میں دیکھیے:

نکتہ چیں ہے غمِ دل اس کو سُنائے نہ بنے

کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے

میں نے کہا کہ بزم ناز چاہیے غیر سے تہی

سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اُٹھا دیا کہ یوں

معشوق کا نہ آنا ہی نہیں بلکہ اس کا آنا اور ملنا بھی فتنوں سے خالی نہیں

وہ آئیں گے مرے گھر، وعدہ کیسا، دیکھنا غالب

نئے فتنوں میں اب چرخِ کہن کی آزمائش ہے

خوش ہوتے ہیں پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے

آئی شب ہجراں کی تمنّا میرے آگے

میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں

وہ ستمگر مرے مرنے پہ راضی نہ ہوا

          عموماً شوخ و شنگ معشوق عاشِق کو مٹاتا اور رقیب کو نوازتا رہتاہے، لیکن غالب کے معشوق میں نہ عاشق کے لیے سپردگی و ہمدردی ہے نہ رقیب کے لیے۔ بہت نازک اور حسّاس لہجے میں غالب نے اس تکلیف دہ حقیقت کا اظہار کیا ہے۔

تو دوست کسی کا بھی ستمگر نہ ہوا تھا

اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا

          معشوق کی جفا کاری اور ستم گاری، اس کی شرارتیں اور چھیڑیں، اس کی حیا میں بھی جھلک رہی ہیں۔

کبھی نیکی بھی اُس کے دل میں گرآجائے ہے مجھ سے

جفائیں کرکے اپنی یاد شرما جائے ہے مجھ سے

جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا

کہتے ہیں ہم تجھ کو منہہ دکھلائیں کیا

معشوق ظلم و ستم سے توبہ بھی کرتاہے تو کب کرتا ہے۔

کی مرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

کبھی کبھی معشوق کی ستمگاری سے غالب کو فائدہ بھی پہنچ جاتاہے۔

ذکر میرا بہ بدی بھی اسے منظور نہیں

غیر کی بات بگڑ جائے تو کچھ دور نہیں

گرچہ ہے کس کس بُرائی سے ولے بہ ایں ہمہ

ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے

غالب اپنے معشوق میں پاتے تو ہیں انتہائی شوخی لیکن چاہتے ہیں اس میں سادگی۔

سادگی پر اس کی مر جانے ک حسرت دل میں ہے

بس نہیں چلتا، کہ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے

لیکن معشوق کی سادگی بھی قیامت ڈھاتی ہے:

اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا

لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوا ر بھی نہیں

اور جب معشوق ایک ہی ساتھ سادگی و شوخی کاملاطفہ ہے تو اور بھی جان پر بن جاتی ہے:

سادگی و پُرکاری، بے خودی و ہُشیاری

حُسن کو تغافل میں جرات آزما پایا

          معشوق کی شوخی کا شکایت آمیز بیان جیسا غالب کے ہاں ملتا ہے اس کی مثالیں کسی اور شاعر کے ہاں نظر نہیں آتیں اس بیان اور اس شکایت میں نہ تو میر کی دل گرفتگی و خستگی ہے نہ بہت سے اور شاعروں کی طرح سطحیت ور چھچھوراپن، غالب معشوق کی شوخیوں سے تنگ آکر بھی بالکل مٹ نہیں جاتا وہ اپنی آن بان قائم رکھتاہے اور اسی خودداری کے سبب سے وہ معشوق کی شوخی اور جفا کاری کو بہت رچا کے اور سنوار کے پیش کرتاہے۔ مثلاً معشوق عاشق کے خطوں کا جواب نہیں دیتا یا نہایت بے حسی او ربے دردی سے جواب لکھتا ہے، غالب نے کسی طنزیہ لہجے میں اس کا ذکر کیا ہے۔

قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں

میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں

یہ جانتا ہوں کہ تو،اور پاسخ مکتوب

مگر ستم زدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا

          لیکن ان تمام اشعار سے غالب کے تصور محبوب کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ نامکمل ہوگی،اگر ہم غالب کے کچھ اور اشعار پربھی نظرنہ ڈالیں جن میں معشوق کی فطرت کی نرمی یا اس کی عاشِق نوازی دکھائی گئی ہے۔ معشوق خطوں میں ہمیشہ جلی کٹی نہیں لکھتا، پیاربھرے خط بھی لکھتا ہے۔

پھر چاہتا ہوں نامہ دلدار کھولنا

جان نذرِ دلفریبی عنواں کیے ہوئے

معشوق محض رُلاتا ہی نہیں، کبھی کبھی اس کی آنکھیں بھی ڈبڈبا آتی ہیں، کیا شعر کہا ہے:

نہیں معلوم کِس کِس کا لہو پانی ہوا ہوگا

قیامت ہے سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا

          غالب کے ہاں محبوب کے تصور میں بلکہ حُسن و عشق اور زندگی ہی کے تصور میں رشک کا عنصر بہت تیز ہے، غالب کے مزاج میں خود غرضی تھی، کِس کے مزاج میں نہیں ہوتی اور یہ خودغرضی بہت تیز تھی۔ لیکن ان کی فطری مصلحت شناسی، رشک کے جذبے کوبھی بہت حسین بنا دیتی ہے۔

رات کے وقت مے پیئے، ساتھ رقیب کو لیے

آئے وہ یوں خدا کرے، پر نہ خدا کرے کہ یوں

          رقیب تو درکنار غالب کو خود اپنے آپ پر رشک آجاتاہے۔

دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آجائے ہے

میں اُسے دیکھوں بھلاکب مجھ سے دیکھا جائے ہے

          لیکن مجبوری سب کچھ کراتی ہے، باوجود رشک کے غالب یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو

مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو

          لیکن اگر کسی ایک غزل میں غالب نے محبوب کا معیاری تصور پیش کیا ہے تو اُس غزل میں جویوں شروع ہوتی ہے:

درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے

کیا ہوئی ظالم تِری غفلت شعاری ہائے ہائے

          یہ پوری غزل معشوق کا مرثیہ ہے اور غالب کے مغموم تصور کا مرقع۔

English Hindi Urdu