غالب کی شاعری آزاد انسان کی روح سے ابھرتی ہے: خلیل مامون
✅غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام بہ اشتراک محمود ایاز میموریل ٹرسٹ دو روزہ قومی سمینار کا انعقاد
14مئی بنگلور، غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام بہ اشتراک محمود ایاز میموریل ٹرسٹ دو روزہ قومی سمینار بعنوان ’غالب اور عالمی انسانی قدریں‘ کا افتتاحی اجلاس حسنات کالج آدیٹوریم ڈینکینسن روڈمیں ہوا۔ سمینار کا کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے اردو کے معروف دانشور جناب خلیل مامون نے کہا کہ غالب کی شاعری ایک غیر متعصب غیر منضبط آزادانسان کی روح سے ابھرتی ہے، جو اپنی تمام روحانی اور جسمانی زنجیروں کو توڑ کر باہر نکلتی ہے۔ غالب نے اپنی اردو غزل میں پرانی قدروں کو توڑ کر جمالیاتی حقائق کو جنم دیاہے۔
سمینار کا افتتاح پروفیسر اختر الواسع (سابق صدر مالانا آزاد یونیورسٹی، ادے پور)نے کیا۔ انھوں نے اپنے خطاب میں کہا غالب انسٹی ٹیوٹ اردو کا ایسا ادارہ ہے جس نے اردو دنیا میں اپنی ممتاز شناخت قائم کی ہے۔ محمود ایازمیموریل ٹرسٹ کے ذمہ داران قابل مبارکباد ہیں کہ انھوں نے غالب انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ اشتراک کیا اور ایک اہم موضوع پر سمینار کا انعقاد کیا۔ آپ لوگوں کے جذبے اور مقالہ نگارں کی فہرست کو دیکھتے میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایک کامیاب سمینار ہوگا اور جب یہ مقالے کتابی شکل میں میں شائع ہوں گے تو غالبیات میں ایک اہم گوشے کا اضافہ ہوگا۔
جناب عزیز اللہ بیگ (صدر محمود ایاز میموریل ٹرسٹ) نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ جناب محمود ایاز صاحب نے ادب اور ادبی صحافت میں اپنی منفرد شناخت قائم کی، وہ بہت مصروف انسان تھے اس کے باوجود ان کا مطالعہ قابل رشک تھا۔’سوغات‘ نے پوری اردو دنیا میں جو اعتبار حاصل کیا وہ ادبی صحافت کی دنیا میں ایک و اقعہ ہے۔ مجھے خیال تھا کہ بنگلور کی سرزمین پرغالب کے تعلق سے ایک معیاری سمینار کاانعقاد کیا جائے جس کا کوئی رشتہ محمود ایاز سے بھی قائم ہو۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ محمود ایاز کی یاد میں قائم اس ادارے اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے درمیان اشتراک سے یہ سمینار منعقد ہو رہا ہے اور ملک کے مختلف گوشوں سے اہل علم اس سمینار میں اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔ ہم مستقبل میں بھی ایسے ہی ادبی اجلاس منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس اجلاس کے مہمان خصوصی جناب این ڈی ملا (سابق ڈپٹی کمشنر آف پولیس) نے کہا غالب انسٹی ٹیوٹ اور محمود ایاز میموریل ٹرسٹ کے ذمہ داران قابل مبارک باد ہیں کہ انھوں نے غالب کی یاد میں ایسے سمینار کا انعقاد کیا جس کا موضوع ہی اتنا پر کشش اور معنی خیز ہے۔ غالب کے یہاں انسانی اقدار کا احساس اتنی فنکارانہ ادبی بصیرت کے ساتھ ظاہر ہوا ہے جس کی مثال غالب سے قبل نظر نہیں آتی۔
تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے اردو کے جدید ممتاز ناقدپروفیسر سرور الہدیٰ نے کہا کہ بنگلور کی ادبی زندگی کا خیال محمود ایاز کے بغیر نہیںآتا۔ انھوں نے ادب میں جو سلسلہ قائم کیا تھا وہ آج اس صورت میں نہ بھی ہو لیکن وہ کسی نہ کسی شکل میں باقی ضرور ہے کسی لمحے میں وہ توسیع کے ساتھ ظاہر ہوگی۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریساحمد نے کہاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ اردو کا ایک فعال ادارہ ہے اس ادارے نے اب تک تقریباً تین سو کتابیںشائع کی ہیں اور تقریباً دو سو سمینار کا انعقاد بھی کیا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کی ایک خوبصورت روایت یہ ہے ہم سال میں دو سمینار دہلی سے باہر کرتے ہیں۔اب تک ملک کے مختلف گوشوں میں نہایت کامیاب سمینار کر چکے ہیں جن کی روداد بھی کتابی شکل میں شائع ہو چکی ہے۔ مجھے عرصے سے یہ احساس تھا کہ جنوبی ہندستان مین اب تک اس طرح کا سمینار منعقد نہیں ہو سکا۔ جناب عزیز اللہ بیگ اور محترمہ شائستہ یوسف صاحبہ جن کی سر پرستی میں محمود ایاز میموریل ٹرسٹ خدمات انجام دے رہاہے ، جب ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے اپنے خواہش کا اظہار کیا اور انھوں نے نہ صرف اس تجویز کو پسند کیا بلکہ اپنے اشراک سے اس سمینار کا خاکہ تیا کیا۔ دوران ملاقات میں نے محمسوس کیا کہ وہ اردو اور محمود ایاز میموریل ٹرسٹ کی ترقی کے سلسلے میں بہت فعال ہیں۔
محترمہ شائستہ یوسف نے کہا کہ آج کے اس کامیاب افتتاح کے بعد سمینار کا ایک رخ متعن ہو گیا ہے کل پورے دن مقالے پیش کیے جائیں گے جس بعد میں کتابی شکل میں بھی شائع ہوں گے۔ میں غالب انسٹی ٹیوٹ اور تمام شرکا کی شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اس سمینار میں شرکت کی۔ افتتاحی اجلاس کے بعد شام غزل کا اہتمام کیا گیا جس میں محترمی کھنک جوشی نے اپنے خوبصور آواز میں غالب اور دوسرے اہم شاعروں کی غزل پیش کی جسے سامعین نے بہت پسند کیا۔ شام غزل کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر صبیحہ زبیر نے انجام دیے۔ اس اجلاس میں ادبی دنیا کی اہم شخصیات اور غالب کے شائقین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
دوسرے دن سمینار کے پہلے اجلاس کی صدارت پروفیسر شمس الہدیٰ نے کی اپنے صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ اور محمود ایاز میموریل ٹرسٹ کے ذمہ داران قابل مبارک باد ہیں کہ انھوں نے ایسا موقع فراہم کیا کہ اردو کی معتبر شخصیات سے ملاقات ہو گئی۔ سمینار کا بنیادی موضوع بہت اہم ہے اور یہ موضوع اس دنیا کے بیشتر مشائل سے بھی متعلق ہے۔ اس اجلاس میں جناب ملنسار اطہراحمد نے ’غالب اور عالمی انسانی قدریں‘ ڈاکٹر ادریس احمد نے کلام غالب اور عالمی انسانی قدروں کی تلاش، ڈاکٹر فجیہہ سلطانہ نے غالب کی شاعری میں عالمی انسانی قدریں، محترمہ مہر فاطمہ نے ’غالب اور عالمی انسانی قدریں‘کے موضورع پر مقالات پیش کیے۔
دوسرے اجلاس کی صدارت جناب ملنسار اطہر صاحب نے کی۔ اپنی صدارتی تقریر میں انھوں نے کہا کہ اس اجلاس کے تمام مقالے موضوع کے علاوہ اسلوب کی سطح پر بھی ہمیں متاثر کرتے ہیں۔ یہ وصف غالب کی شاعری کا بھی ہے کہ ان کے یہاں فکر و اسلوب دونوں کی معراج نظر آتی ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ اور محمود ایاز میموریل ٹرسٹ نے ایک مبارک قدم یہ بھی اٹھایا ہے کہ اس سمینار میں بزرگوں کے علاوہ نئی نسل کی بھی نمائندگی کو ممکنبنایا۔ اس اجلاس میں جناب راہی فدائی نے ’کلام غالب اور انسانی اقدار‘ پروفیسر شمس الہدیٰ نے ’عالمی انسانی قدیں کلام غالب کی روشنی میں، ڈاکٹر غضنفر اقبال نے ’کلام غالب میں انسانی قدروں کی تلاش‘ ڈاکٹر زبید ہ بیگم نے غالب اور عالمی انسانی قدریں (خطوط کے حوالے سے)‘ کے موضوع پر مقالے پیش کیے۔
تیسرے اور آخری اجلاس کے صدر جناب راہی فدائی نے کی۔ صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا کہ آج جو بھی مقالے پیش کیے گئے مجموعی طور پران کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ بڑی محنت سے لکھے گئے ہیں۔ ادب ہماری سماجی زندگی کا ایسا گوشہ ہے جس سے صرف جمالیاتی ذوق کی تسکین نہیں ہوتی بلکہ وہ ہمیں گفتگو، نشست و برخواست اور باہمی سلوک کا سلیقہ بھی سکھاتاہے۔ اس اجلاس میں پروفیسر میم نون سعید نے ’غالب کی بہو‘ جناب اکرم نقاش نے ’غالب ایک اسکیچ‘ پروفیسر سرورالہدیٰ نے ’گلشن ویمر میں تیرا ہمنوا خوابیدہ ہے‘ ڈاکٹر کوثر پروین نے ’غالب اور عالمی انسانی قدریں‘ اور ڈاکٹر فرزانہ فرح نے ’غالب اور انسان دوستی‘ کے موضوع پر مقالات پیش کیے۔ شکریے کی رسم ادا کرتے ہوئے پروفیسر سرورالہدیٰ نے کہا کہ غالب کی شاعری پیراڈاکس سے بھری ہوئی ہے ہم لاکھ موضوع قائم کر لیں لیکن غالب کی شاعری ساری حدبندیوں سے پھسلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور یہی ان کی عظمت کا راز ہے۔ محمود ایاز میموریل ٹرسٹ کے صدر جناب عزیز اللہ بیگ نے کہا کہ ہم بنگلور میں اردو ادب کے فروغ اور محمود ایاز صاحب کی یاد کو باقی رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے اراکین کا تہ دل سے شکریہ ادا کرنا اپنا فریضہ سمجھتا ہوں کہ انھوں نے دکن کی طرف توجہ کی اور ایک کامیاب سمینار کا انعقاد کیا۔ میں تمام حاضرین کا بھی شکر گزار ہوں کہ انھوں اتنی دلچسپی سے تمام مقالات سنے۔سمینار کے بعد مشاعرے کا انعقاد ہوا جس کی صدارت اردو کے ممتاز شاعر و ادیب جناب خلیل مامون نے کی، جناب ایم ایچ اعجاز علی جوہری نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی اور نظامت کے فرائض جناب شفیق عابدی نے انجام دیے۔ جن شعرا نے مشاعرے میں شرکت کی ان کے نام اس طرح ہیں: ڈاکٹر شائستہ یوسف، جناب راہی فدائی، جناب اکرم نقاش، جناب ساجد حمید، ڈاکٹر فرزانہ فرح، جناب غفران امجد، جناب شفیق عابدی، اور جناب حافظ کرناٹکی