Print Friendly, PDF & Email

بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینار 2015

قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام بین الاقوامی ریسرچ اسکالرزکے

سہ روزہ سمینار کے افتتاحی پروگرام میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے تمام مہمانوں کا خیرمقدم کیا اور کہاکہ ادب ،تہذیب وثقافت کا حلقہ کافی وسیع ہے لہٰذا یہ سمینارمستقبل میں ادبی دنیا کو روشن و تابناک کرے گا۔ تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے قومی کونسل کے ڈائرکٹر پروفیسر ارتضیٰ کریم نے بھی تمام مہمانان اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور کہاکہ یہاں پر موجود ہر ریسرچ ایک ادارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ نے ریسرچ اسکالرز کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مزید فرمایاکہ یہ سمینارریسرچ اسکالرز کوحوصلہ اور توانائی عطا کرے گا۔افتتاحی کلمات پیش کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر پروفیسر طلعت احمدنے کہا کہ مجھے گزشتہ سال بھی ریسرچ اسکالرز سمینارمیں حاضر ہونے کی سعادت حاصل ہوئی تھی ۔اسکالرز کو چاہیے کہ اپنے سبجیکٹ میں دلچسپی سے حصہ لیں اور اپنے اپنے شعبہ کے لیڈر بھی بنے اور ریڈر بھی بنیں اور ریسرچ کے ذریعے اپنے شعبہ میں نئے نئے تصورات کوپیش کریں۔ انسٹی آف پرشین ریسرچ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ڈائرکٹر پروفیسر آذرمیدُخت صفوی نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے ریسرچ اسکالرز کی حوصلہ افزائی کی اور کہاکہ یہ جلسہ آپ لوگوں سے منسوب ہے۔ آپ اپنے مسائل بالخصوص تحقیقی مسائل کا دلچسپی سے مطالعہ اور اس کا سد باب بھی تلاش کریں۔مجھے بڑی خوشی ہورہی ہے کہ یہ سمیناراردو وفارسی کے باہمی رشتہ کو مضبوط کر رہا ہے۔عہد حاضر کے ممتازادیب و دانشورپروفیسر گوپی چند نارنگ نے کہاکہ یہ سمینارریسرچ اسکالرز کو ذہنی استحکام عطا کرے گا۔ پروفیسر نارنگ نے ریسرچ کی موجودہ صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہمارے دور کے مقابلے آج کے ریسرچ اسکالرز کے درمیان وسائل کی کمی نہیں ہے اس لیے انہیں اپنے ریسرچ کوصحت مندروش کی طرف لے جانا چاہیے۔وہ اپنی جڑوں کو مضبوط کریں تاکہ اس سے ثمرآور درخت کی آبیاری ہوسکے۔مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے تشریف لائے سینٹرل یونیورسٹی حیدرآباد کے سابق وائس چانسلر اور بین الاقوامی شہرت یافتہ ممتاز سائنس داں پروفیسر سید احتشام حسنین نے ریسرچ کی اہمیت وافادیت کاذکر کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل ہیلتھ اسکیم کے تحت بین الاقوامی ممالک میں دورہ کا موقع ملا جس سے ریسرچ کے مسائل کو قریب سے سمجھنے کا بھی اتفاق ہوا آپ نے قومی کونسل اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے اس سمینار کی تعریف کرتے ہوئے یہ بھی کہ یہ سمینار ریسرچ اسکالرز کوایک نئی روشنی اورایک نئی سمت عطا کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر سید شاہد مہدی نے بھی افتتاحی اجلاس میں اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ یونیورسٹی ایک شامیانہ ہے اور سارے علوم اس میں شامل ہیں لہٰدا ریسرچ اسکالرز کو چاہیے کہ دوسرے علوم و فنون سے بھی فائدہ اٹھائیں۔ آپ نے دکنی ادب کاذکر کرتے ہوئے کہا کہ ریسرچ اسکالرز کودکنی ادب کابھی مطالعہ کرنا چاہیے۔اگر ریسرچ اسکالرزدکنی ادب کا مطالعہ کریں گے تواردو ادب کی تاریخ کو انہیں سمجھنے میں آسانی ہوگی۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر لیفٹننٹ جنرل،ضمیرالدین شاہ نے اپنی صدارتی گفتگو میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اردو کی صورتحال کاذکر کرتے ہوئے کہاکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہمیشہ سے اردو زبان و ادب کا ایک گہوراہ رہی ہے اورہماری پوری کوشش ہے کہ اس یونیورسٹی کے ذریعہ زبان و ادب کواستحکام ملتا رہے۔مسلم یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالرز کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے یہ بھی کہاکہ ایک بڑی تعداد ریسرچ میں داخلہ لینا چاہتی ہے اورہماری پوری کوشش یہ ہے کہ ہم تمام ریسرچ اسکالرز کواچھی ٹریننگ دیں تاکہ وہ ایک اچھے استاد ثابت ہوسکیں۔ڈائرکٹرغالب انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹر سید رضاحیدرنے اپنے افتتاحی کلمات میں غالب انسٹی ٹیوٹ کی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ یہ ریسرچ اسکالرز سمینار غالب انسٹی ٹیوٹ کی تمام سرگرمیوں میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ تین دنوں تک منعقد ہونے والے اس سمینا رمیں تیس سے زیادہ یونیورسٹیوں کے شعبۂ فارسی اور شعبۂ اردو کے ریسرچ اسکالرز شرکت کر رہے ہیں جن کی گفتگو سے ہم مستفید ہوں گے اور ہمیں ریسرچ اسکالرز کے مسائل کو سمجھنے کا موقع بھی ملے گا۔افتتاحی اجلاس کے بعد مزید دو اجلاس ہوئے جس میں ممتاز ماہر لسانیات پروفیسر امتیاز حسنین،ڈاکٹر اطہر فاروقی، پروفیسر علیم اشرف اور پروفیسر آذرمیدُخت صفوی نے صدارتی فریضہ کو انجام دیا اورمختلف یونیورسٹیوں سے آئے ہوئے دس ریسرچ اسکالرزاوردس شرکائے گفتگو نے اپنے مقالات پیش کیے اور خیالات کااظہار کیا۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینار کے دوسرے دن چار اجلاس منعقد کیے گئے جس میں ہندستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے شعبہ اردو وشعبۂ فارسی کے ریسرچ اسکالرز کے علاوہ ایران کے ریسرچ اسکالرز نے بھی مقالات پیش کیے۔ دوسرے دن کے پہلے اجلاس کی صدارت ڈاکٹر علی جاوید اور ڈاکٹر خالد علوی نے انجام دیے، نظامت کا فریضہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر رفعت مہدی رضوی نے ادا کیا۔ اس اجلاس میں سات مقالہ پیش کیے گئے۔ جس میں پہلا مقالہ محمد توصیف نے ’’ہنگامۂ عشق از آنندرام مخلص:ایک تعارف‘‘ کے عنوان سے پیش کیا۔ان کا مقالہ تعارفی نوعیت کاتھا۔ان کے علاوہ یاسمین رشیدی،الطاف احمد، عبدالسلیم، ذاکر حسین ، اسماء پروین اور ایران کی اسکالر خام مہدی نژاد شیخ نے بھرپورمطالعہ پر مبنی مقالات پیش کیے۔ بالخصوص ایرانی اسکالر نے ’’اردو میں فارسی زبان کے اثرات کی چند جھلکیاں‘‘ کے موضوع پر پیش کیا۔اس اجلاس کی صدارتی تقریر میں ڈاکٹر علی جاوید نے کہاکہ جتنے بھی مقالے پڑھے گئے اس بنیاد پرہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مختلف یونیورسٹیوں میں جو کام ہورہے ہیں ان کی معنویت پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ مقالہ نگار اپنے مقالے میں اپنی رائے سے واقفیت فراہم نہیں کرتے ہیں۔اس اجلاس کے دوسرے صدر ڈاکٹر خالدعلوی نے تمام مقالہ نگاروں کوتلفظات درست کرنے کی طرف توجہ دلائی اور تمام مقالہ نگاروں کے مقالات پر تجزیاتی طورپر اظہارخیال کیااور مقالہ نگاروں کے موضوعات کی تعریف کی۔
چوتھے اجلاس کی صدارت کے فرائض پروفیسر قاضی عبیدالرحمن ہاشمی،پروفیسر اختر مہدی اورامریکہ سے آئے مہمان شاعر ’فرحت شہزاد‘ نے انجام دیے۔اس اجلاس کی نظامت کا فریضہ نورین علی حق نے انجام دیا۔اس اجلاس کی پہلی نگار مقالہ مسرت گیلانی جوکشمیر یونیورسٹی سے تشریف لائی تھیں اپنے عنوان تاریخ،فکشن اور تخلیقی تجربہ(نسیم حجازی کے حوالے سے) تجزیاتی روشنی ڈالی۔دوسرے مقالہ نگارمحمد فرقان کا موضوع روہیل کھنڈ میں اردو افسانے کا ارتقاپرمبنی تھاجس میں انہوں نے مغربی یوپی روہیل کھنڈ کے مردم خیز علاقہ میں اردوکے افسانہ نگاروں و افسانوں پرتجزیاتی مطالعہ پیش کیا۔اسی اجلاس کی تیسری مقالہ نگار شبستاں پروین ’’قدرت اللہ شہاب‘‘ کی افسانہ نگاری پر اظہار خیال کیا۔ ان کے علاوہ شمیم احمد،رزینہ خان نے اپنے مقالے کے ہمہ جہت پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔اس اجلاس کے صدارتی خطبہ میں پروفیسر عبیدالرحمن ہاشمی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ طلباء و اسکالرز کومزید محنت و ذمہ داری کے ساتھ مضامین لکھنے چاہیے۔ پروفیسر اخترمہدی نے بھی اپنے صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ مقالہ نگاروں کو تلفظ درست کرنے کی ضرورت ہے تبھی ہم قومی اور بین الاقوامی سمینار کے ساتھ انصاف کر سکتے ہیں۔ اجلاس میں فرحت شہزاد نے بھی اس بین الاقوامی سمینار کے تعلق سے اپنے خیالات کااظہار کیا۔
دوسرے اور تیسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر عراق رضازیدی، پروفیسر معین الدین جینابڈے، ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری،قاسم خورشید،پروفیسر عین الحسن، پروفیسر مظہر مہدی اور ڈاکٹر ابوبکرعباد نے کی۔ان اجلاس میں نظامت کا فریضہ احمدعلی جوہراور جاوید حسن نے انجام دیا۔ ان دونوں اجلاس میں تقریباً چودہ مقالات پیش کیے گئے۔تمام مقالہ نگاروں نے اپنے موضوعات کے تعلق سے اپنی معروضات پیش کی۔آج کے سمینار کے خاص بات یہ تھی کہ دن بھر تقریباً تیس مقالات پیش کیے گئے اور تقریباً پچیس اسکالرز گفتگو میں شریک ہوئے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، دہلی یونیورسٹی،جامعہ ملیہ اسلامیہ، چوہدری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرز بڑی تعداد میں آج کے سمینار میں شامل ہوئے۔
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینار کے اختتامی اجلاس میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر پروفیسر ارتضیٰ کریم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایاکہ تین دن کے اس سمینا رمیں بہت سی باتیں سامنے آئی ہیں۔ یہ سمینار جس میں پروفیسراور مقالہ کے نگراں حضرات تھے اور ہمارے ریسرچ اسکالرز سمینار نے مقالہ بھی پڑھے اور سوالات بھی سامنے آئے نیز اساتدہ نے اپنے تجربات کی روشنی میں مشورہ بھی دیے۔مگر مشکل یہ ہے کہ سچی بات سامنے نہ آسکی۔ایم۔فل اور پی ایچ ڈی میں جو طلباء داخلہ لیتے ہیں وہ صرف ایم۔اے۔ کرکے آتے ہیں۔ اُن کے مقابلہ میں نگراں یا استاد کاتجربہ زیادہ ہوتاہے لیکن امید یہ رکھی جاتی ہے کہ طالب علم ہی تمام تر کام کرے۔بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک تازہ وارد طالب علم تحقیق کے اصول وضوابط سے کماحقہ واقف ہوسکے۔آپ نے مزید فرمایاکہ کسی بھی مقالہ کی خرابی اور کمزوری کی بڑی ذمہ داری نگراں کی ہوتی ہے چونکہ موضوع پر اسی کی نگاہ زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے میں طالب علم کوگرتے ہوئے تحقیقی معیار کاذمہ دار نہیں کہہ سکتا۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق نے اختتام اجلاس کے صدارتی کلمات میں باہر سے آئے ہوئے تمام ریسرچ اسکالرزکواُن کے مقالات پر انہیں مبارک باد دیتے ہوئے اُمید ظاہر کی کہ اگر اسی طرح ان ریسرچ اسکالرز کواپنی گفتگو پیش کرنے کاوقتاً فوقتاً موقع دیا جائے تو ہمیں پوری امید ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ ریسرچ اسکالرز اچھے استاد ثابت ہوں گے۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹرڈاکٹر رضاحیدرنے اپنی گفتگو میں اس بات کااظہارکیاکہ یہ سمینار ان معنوں میں تاریخی اہمیت کاحامل ہے کہ ریسرچ اسکالرز کی اتنی بڑی تعدادایک ساتھ موجود ہے۔آپ نے مزید فرمایاکہ ان تین دنوں کے سمینار میں سو سے زیادہ ریسرچ اسکالرزنے مقالہ نگار، ناظم اور شرکائے گفتگو کی حیثیت سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔اور ہمیں پوری امید ہے کہ اگر ان اسکالرز کی اسی طرح حوصلہ افزائی کی جائے تو ریسرچ کا معیار بہتر سے بہتر ہوگا۔اس بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینار کے آخری دن ہندستان کی مختلف یونیورسٹیوں سے آئے ہوئے ریسرچ اسکالرز نے مقالات پیش کیے۔ آخری دن کے ساتویں اجلاس میں پروفیسر عتیق اللہ اور دہلی اردو اکادمی کے وائس چیئرمین ماجد دیوبندی نے صدارت کے فریضہ کو انجام دیا۔ پروفیسر عتیق اللہ نے ریسرچ اسکالرز کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ صرف علم ہی جہالت کی تاریکی کو دور کرتا ہے۔آنے والی نسلوں سے توقع رکھتے ہیں کہ اپنی غلطیوں سے سیکھیں گے۔اسکالرز کو ترغیب دیتے ہوئے کہاکہ وہ پیراگرافنگ کی اہمیت کو سمجھیں اور مقالہ میں اس کوبرتیں۔اس اجلاس کے دوسرے صدرجناب ماجد دیوبندی نے اپنے صدارتی کلمات میں تمام مقالہ نگاروں کے مقالے پر اپنی آراء پیش کرتے ہوئے مقالہ نگاروں کی پذیرائی کی۔ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اس بات کا بھی اعادہ کیاآئندہ ہماری اردو اکادمی بھی غالب انسٹی ٹیوٹ کے اشتراک سے سمینار منعقد کرائے گی۔ اس اجلاس میں قمر صدیقی،ابواسامہ ہارون رشید،صابر انصاری،صالحہ صدیقی اور نورین علی حق نے مقالات پیش کیے۔ نظامت کافریضہ شاہین نے انجام دیا۔ آٹھویں اجلاس میں فارسی کے ممتاز اسکالر پروفیسر شریف حسین قاسمی اور شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی کے صدرپروفیسر ابن کنول نے صدارتی فریضہ کو انجام دیا۔بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سہ روزہ سمینار کے تیسرے دن کے صدارتی کلمات میں پروفیسر ابن کنول نے ریسرچ اسکالرز سمینار کے روشن و تابناک مستقبل پر خوشی کااظہارکیامزید کہااس اجلاس میں سات مقالات مختلف موضوعات کے پڑھے گئے اور یہ مقالات معلوماتی تھے۔ اورمزید کہاکہ ریسرچ انہیں لوگوں کو کرنا چاہیے جن میں تحقیق کی ذرا بھی رمق موجود ہو۔ اس اجلاس کے دوسرے صدر اورفارسی کے ممتاز اسکالرپروفیسر شریف حسین قاسمی نے نوجوان اسکالرز سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صحت مند مقالہ اور تھیسس لکھنا ریسرچ اسکالرز سے زیادہ نگراں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس اجلاس میں منیب آفاق، امان اللہ، فیروز بخت افروز،صبامامون رحمانی اور رفعت مہدی رضوی نے مقالات پیش کیے۔ نظامت کا فریضہ سفینہ بیگم نے انجام دیا۔اس بین الاقوامی سمینا رکے نویں اور دسویں اجلاس میں پروفیسر خالد محمود،پروفیسر انوار پاشا،پروفیسر قادر جعفری، پروفیسر شمس الحق عثمانی، ڈاکٹر اخلاق احمد آہن اور ڈاکٹر شعیب رضا خان بحیثیت صدور موجود تھے۔ ان دونوں اجلاس میں سید عارف،شمع خان، عینین علی حق، تسنیم بانو،صالحہ جعفری ، نیہا اقبال، سفینہ بیگم، محمد صادق، محمد مغیث احمد، محمد عالم، نوشاد عالم اور محمد نظام الدین نے مقالات پیش کیے۔ کمیل ترابی اور محمد رضوان خان نے ان دونوں اجلاس میں نظامت کے فریضہ کو انجام دیا۔اس سمینار میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی یونیورسٹی، چوہدری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، الٰہ آباد یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، لکھنؤ یونیورسٹی، پٹنہ یونیورسٹی، مگدھ یونیورسٹی، بھاگلپوری یونیورسٹی، کلتہ یونیورسٹی،مدراس یونیورسٹی،گلبرگہ یونیورسٹی ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد، عثمانیہ یونیورسٹی، پنجابی یونیورسٹی، پٹیالہ،پنجاب یونیورسٹی، چنڈی گڑھ، کشمیر یونیورسٹی، روہیل کھنڈ یونیورسٹی، جمّوں یونیورسٹی،اُدے پور یونیورسٹی کے علاوہ کئی بڑی یونیورسٹیوں کے شعبہ اردووشعبۂ فارسی کے رسیرچ اسکالرز نے مقالہ خوانی کی۔ اس بین الاقوامی سمینار کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں ملک کی اہم یونیورسٹیوں کے شعبہ اردو و شعبہ فارسی کے ریسرچ اسکالرز نے شرکاء کی حیثیت سے بھی اپنے سوالات قائم کیے۔ تین دن تک چلنے والے اس سمینار میں تقریباً پورے ملک سے چارسو سے زیادہ ریسرچ اسکالرز نے شرکت فرمائی۔ دہلی کی تمام یونیورسٹیوں کے صدرِ شعبہ اردو اورصدر شعبہ فارسی کو بھی صدارتی کلمات کے لیے مدعو کیا گیاتھا۔

English Hindi Urdu