ابو محمد سحر
خاتمہ’ گلِ رعنا‘ اور غالب کاسفر کلکتہ
غالبیات کی اکثر لاینحل گتھیاں خود غالب کے بیانات کی کوتاہیوںا ور اختلافات کے علاوہ تاریخوں کے اندراج کے سلسلے میں ان کے حیران کن روےّے کا نتیجہ ہیں۔ بیشتر تحریروں میں تاریخوں کے محذوف ہونے یا ناقص رہ جانے سے معلوم ہوتاہے کہ وہ تاریخوں کے ٹھیک ٹھیک اندراج کو کوئی خاص اہمیت نہ دیتے تھے۔ بعض تحریروں پر پہلے تاریخیں درج تھیں لیکن جب غالب نے ان کو کتابی شکل میں مرتب کیاتو تاریخیں خارج کردیں۔ جابجا یہ صورت بھی ہے کہ تاریخ اور مہینہ تو ہے لیکن سنہ غائب ہے۔ اب کوئی اللہ کا بندہ ان سے پوچھتا کہ کسی کتاب کے مندرجات میں سنہ کے بغیر صرف تاریخ اور مہینہ برقرار رکھنے کا کیا منشا تھا۔ جیساکہ راقم الحروف نے ایک اور مضمون میں لکھاہے ”تاریخوں کے معاملے میں انہوں نے ماہرین غالبیات کے ساتھ ستم ہی نہیں بلکہ ستم ظریفی بھی کی ہے، ستم اس لحاظ سے کہ تاریخ بالکل حذف کردی ہے اور ستم ظریفی اس لحاظ سے کہ دن ،تاریخ اور مہینہ لکھ کر چھوڑ دیاہے۔“کلّیاتِ نثرغالب میں دیباچہ¿ ’گل رعنا‘ سے تاریخ مطلقاً محذوف ہے تو خاتمہ¿ گلِ رعنا میں آغامیر کی مدح کی نثر کے بعد صرف ”دوم محرم الحرام“لکھا ہواہے۔ ’گلِ رعنا‘کے قلمی نسخے مملوکہ¿ خواجہ محمد حسن میں دیباچے کی پوری تاریخ درج ہے لیکن خاتمے میں آغامیرکی مدح کی نثرکے آخر میں دوم محرّم الحرام کا بھی پتانہیں۔ خاتمہ¿ ’گلِ رعنا‘میں مولوی فضل حق کے نام غالب کاایک فارسی خط بھی شامل ہے جو انہوں نے فیروزپور جھرکہ سے لکھا تھا۔ اس کی تاریخِ تحریر گلِ رعنایا ’کلّیاتِ نثر غالب‘ کے کسی نسخے میں نہیں ملتی۔ باندہ کے محمد علی خاں کے نام اپنے قیامِ باندہ ہی کے ایک خط میں غالب نے ان دونوں فارسی تحریروں کو نقل کیاہے لیکن اس میں بھی تاریخیں سرے سے مفقود ہیں۔1
معتمدالدّولہ آغامیر، وزیراودھ، کی مدح کی نثر در صعنتِ تعطیل غالب نے کلکتے جاتے ہوئے لکھنو¿ کے قیام کے زمانے میں ان سے ملاقات کے دوران پیش کرنے کے لےے لکھی تھی۔ جانبین کی شانِ ریاست اس ملاقات کی تاب نہ لاسکی لیکن نثر محفوظ رہ گئی اور غالب نے اسے’ گلِ رعنا‘کے خاتمے میں شامل کردیا۔ اگر دہلی سے غالب کی روانگی اور لکھنو میں قیام کی تاریخوں کاصحیح علم ہتاتواس نثرکا سنہ آسانی سے اخذ کیاجاسکتاتھا۔ سوءاتفاق کہ یہاں بھی واقعات تو اکثر معلوم ہیں لیکن تاریخیں گوشہ¿ گمنامی میں ہیں۔ شیخ اکرام کا قیاس ہے کہ غالب دوم محرم الحرام1242ھ (اگست1826ئ) سے پہلے دہلی سے روانہ ہوچکے تھے2۔مولانا غلام رسول مہر کے مطابق ”اغلب یہ ہے ہ وہ عید شوال 1242ھ کے بعد یعنی اپریل 1827 میں روانہ ہوئے ہوں3۔مالک رام صاحب کی رائے میں وہ نومبر دسمبر1826 (جمادی الاوّل1242ھ) میں دہلی سے روانہ ہوئے تھے۔4 ان قیاسات میں دہلی سے غالب کی روانگی کے زمانے میں جتنا اختلاف پیدا ہوتاہے اسی نسبت سے لکھنو¿ میں قیام کی مدّت میںبھی فرق رونماہوجاتاہے جس کی وجہ سے اس نثر کے لکھنے کا سنہ1242ھ (۶۲۸۱ئ) بھی ہوسکتاہے اور 1243ھ (1827ئ) بھی۔ چنانچہ شیخ محمد اکرام 1242ھ کے حق میں معلوم ہوتے ہیں تو مولانامہر کا رجحان 1243ھ کی طرف ہے۔ سیّد اکبرعلی ترمذی اور ان کی تقلید میں سیّد وزیرالحسن عابدی نے اس مسئلے کی پیچیدگیوں کو نظرانداز کرکے اس نثرکی تاریخ 2 محرم الحرام 1242ھ (5اگست1826) مان لی ہے5۔کچھ ایسی ہی صورتِ حال میں سید وزیرالحسن عابدی نے مولوی فضل حق کے نام خط کا زمانہ¿ تحریر 1825ءکے وسط میں قرار دیا ہے۔6 جیساکہ آئندہ سطور سے واضح ہوگاتاریخ وزمانہ کا تعین پہلی صورت میں صحیح اور دوسری صورت میں تقریباً صحیح ہے لیکن کچھ ایسے شواہدو دلائل کامحتاج ہے جن کی طرف اب تک خاطرخواہ توجہ نہیں کی گئی ہے۔
خاتمہ ’گلِ رعنا‘میں غالب نے لکھاہے کہ وہ نواب احمد بخش خاں سے ملاقا ت کے لےے فیروزپور جھرکہ گئے تھے چونکہ مولوی فضلِ حق کی اجازت کے بغیر سفرکرناان کی طبیعت پر بار گزراتھااس لےے ان کو بڑا دکھ ہوااور جب وہ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچے اور سفر کی تکان دور ہوئی توانہوں نے مولوی فضل حق کو صنعتِ تعطیل میں ایک خط لکھا۔فیروزپور میں ان کا مقصد حاصل نہ ہوااور وہ دہلی واپس آگئے۔ اس کے ایک عرصے کے بعد انہیں پھر سفرکا خیال دامن گیر ہوا۔ ہونا تو یہ چاہےے تھاکہ وہ کلکتے جاتے لیکن پہلے لکھنو¿ پہنچنے کااتفاق ہوا۔7 لیکن اپنی پنشن کے سلسلے میں 28 اپریل 1828 کو کلکتے میں انہوں نے جودرخواست گورنر جنرل کے دفترمیں پیش کی تھی اس میں یہ بیان کیاہے کہ ایک بارجو وہ دہلی سے فیروزپور کے لےے نکلے تو قرض خواہوں کے خوف کی وجہ سے دہلی واپس نہ جاسکے بلکہ فرّخ آباد ہوتے ہوئے کانپور پہنچے اور پھر لکھنو اور باندے میں قیام کرنے کے بعد کلکتے کا رخ کیا۔8 مالک رام صاحب خاتمہ ’گلِ رعنا‘ (کلّیاتِ نثرِ غالب) کے بیان کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”وہ جب سفر پرروانہ ہوئے تو چونکہ روانگی سے پہلے مولوی فضل حق خیرآبادی سے وداعی ملاقات نہیں کرسکے تھے اس لےے ان سے ملنے کو واپس گئے اور پھر دوبارہ سفر پر روانہ ہوئے۔ کلّیات کابیان صحیح معلوم ہوتاہے۔ درخواست میں انہوں نے اختصار سے کام لیااور اس کاذکر مناسب خیال نہیں کیا“۔9
چونکہ خاتمہ¿ ’گل رعنا‘ میں غالب نے یہ نہیں لکھاکہ وہ مولوی فضل حق سے وداعی ملاقات کے لےے فیروزپور سے دہلی واپس آئے تھے اس لےے ڈاکٹر محمود الٰہی نے دہلی آنے کے سلسلے میں مالک رام صاحب کے بیان کردہ اس سبب کو بے بنیاد قرار دیاہے۔ انہوں نے غالب کی درخواست کی تفصیلات اورنواب احمد بخش خاں کے بعض حالات کی مناسبت سے یہ استدلال بھی کیاہے کہ خاتمہ¿ گلِ رعنامیں غالب نے فیروزپورکے جس سفرکاذکرکیاہے اس سے وہ دہلی واپس آگئے تھے لیکن اس کے بعد انہوں نے فیروزپورکاایک اور سفرکیا۔وہاں سے نواب احمد بخش خاں کے اصرار پر وہ بھرت پورگئے اور پھر فیروزپور آئے تو دہلی واپس نہیں آئے بلکہ وہیں سے کلکتے کی طرف روانہ ہوگئے10۔ لیکن خاتمہ¿ گلِ رعنامیں کلکتے کے سفر سے قبل فیروزپور کے کسی اور سفرکاذکر نہیں کیاگیا۔ باندے کے مولوی محمدعلی خاں کے نام اپنے ایک خط میں انہوں نے مولوی فضل حق کے نام اس خط کو نقل کرنے سے پہلے جوصراحت کی ہے اس سے خاتمہ¿ ’گلِ رعنا‘کی طرح صرف اتنا معلوم نہیں ہوتاکہ یہ خط انہوں نے فیروزپور سے لکھا تھابلکہ یہ بھی پتا چلتا ہے کہ فیروزپورکے جس سفرسے یہ خط متعلق ہے وہ انہوں نے ”درمبادیِ بسیج سفرِ مشرق“ یعنی سفرِ مشرق کے ارادے کے اوائل میں کیا تھا11۔چنانچہ خاتمہ¿ ’گل رعنا‘میں فیروزپورکے جس سفرکاذکر ہے اس کو سفرِ کلکتہ کے سلسلے سے الگ نہیں کیا جاسکتااور یہ ماننے کے سواچارہ نہیں کہ کلکتے جانے سے پہلے فیروزپورکایہ آخری سفر تھاجو غالب نے کیاتھا۔اس کے برعکس ڈاکٹر محمود الٰہی نے اپنے قیاس کی بنیاددرخواست کے ان بیانات پر رکھی ہے۔
”سرچارلس مٹکاف کے آنے کے بعد بھرت پورکا معاملہ پیش آگیااور وہ راجہ بھرت پورکو بچانے اور راج کے شورہ پشتوں کو سزادینے میں مصروف ہوگئے۔ نواب احمدبخش خاںبھی وہاں جارہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے بھی ساتھ چلنے کوکہا۔
میں اس زمانے میں اپنے بھائی کی بیماری کی وجہ سے ایک مصیبت میں گرفتار تھا۔مزیدبرآں قرض خواہوں نے تقاضوں اور شوروغوغا سے میرا ناک میں دم کر رکھا تھا۔ اس لےے میں اس سفرکے لےے کسی طرح تیار نہیں تھا۔
اس کے باوجود اس توقع پرکہ مجھے مٹکاف صاحب کی خدمت میں سلام کرنے کا موقع مل جائے میں نے اپنے بھائی کوبخاراور ہذیان کی حالت میں چھوڑا، چارآدمیوں کو اس کی نگہداشت کے لےے مقرر کیا۔کچھ قرض خواہوں کو طرح طرح کے وعدوں سے چپ کرایا۔دوسروں کی نظرسے چوری چھپے بھیس بدل کر کسی طرح کاسازوسامان لےے بغیر سومشکلوں سے نواب احمد بخش خاں کے ساتھ بھرت پور کے لےے روانہ ہوگیا۔“12
اگر اس وقت قرض خواہوں کی طرح مرزایوسف بھی دہلی میں تھے اور بھرت پور جانے سے پہلے ان کی تیمارداری اور قرض خواہوں کی تسلی کاانتظام غالب نے خود دہلی آکر کیاتھاتوہ نہایت عجلت میں دہلی آئے ہوں گے اور وہاں ان کے قیام کی مدت بہت مختصر رہی ہوگی۔اس سے خاتمہ¿’ گلِ رعنا‘کے ”بیخودی گریبانم گرفت و بازم بہ دہلی آورد“ اور ”روزگاری دراز بخاک نشینی سپری شد“13 یعنی واپس آنے اورپھر ایک عرصے کے بعد سفر پر روانہ ہونے کی توجیہہ نہیں ہوسکتی۔ فیروزپورسے دہلی کی وہ واپسی جس کا خاتمہ¿ گلِ رعنامیںذکر ہے بلاشبہ کسی ایسی ہنگامی واپسی سے مختلف ہے جس کا درخواست سے گمان ہوتاہے۔ چنانچہ کسی وقتی پریشانی میں غالب فیروزپورسے دہلی واپس آئے ہوں یا نہ آئے ہوں وہ بالآخر فیروزپور سے دہلی اس طرح واپس آئے کہ کلکتے جانے سے قبل پھر فیروزپور نہیں گئے اور اس لحاظ سے خاتمہ¿ ’گلِ رعنا‘کااظہار حقیقت پر مبنی ہے۔
خاتمہ¿ ’گل رعنا‘ کی عدمِ صحت پر اگر اختصارکی دلیل لائی جاسکتی ہے تو درخواست کے مفصل بیانات کی عدمِ صحت پر مقدمہ بازی کی مصلحتوں کے پیش نظر استدلال کیاجاسکتاہے۔ واقعہ یہ ہے کہ کلکتے پہنچتے ہی غالب کویہ احساس دلایا جاچکاتھاکہ ان کو اپنا مقدمہ پہلے دہلی کے رزیڈنٹ کے سامنے پیش کرنا چاہےے تھا۔رائے چھج مل کے نام کلکتے سے اپنے پہلے ہی خط میں انہوں نے یہ استفسارکیا تھا:
”اگر بندہ رادر پیچ و خمِ استغاثہ حاجت بداں افتد کہ دردارالخلافت وکیلی از جانبِ خود قرارباید داد صاحب این زحمت گوارا خواہند کردیانے۔ہرچہ دراین مادہ مضمر ِضمیر باشد بے تکلف باید نوشت۔“14
چنانچہ انہوں نے اپنی درخواست میں سب سے زیادہ زور اسی پر صرف کیاہے کہ دہلی میں ان کے لےے دوبھر ہوگیاتھااور وہ وہاں کسی کو منھ دکھانے کے قابل نہ تھے۔اسی وجہ سے وہ فیروزپور سے بالارادہ کلکتے روانہ ہونے کے بجائے سرچارلس مٹکاف سے ملاقا ت کی جستجومیں سیدھے کانپور پہنچے تھے۔ مقصد یہ تھاکہ کانپورسے ان کی معیت میں دہلی واپس آئیں گے اور کسی مناسب موقع پر ان سے اپنا احوال بیان کریں گے لیکن کانپور پہنچتے ہی وہ بیمار پڑگئے اور انہیں علاج کی غرض سے لکھنو¿ جانا پڑا۔ سوال پیدا ہوتاتھاکہ اگر وہ پہلے سے کلکتے جانے کا ارادہ نہ رکھتے تھے تو باندے سے دہلی کیوں نہ لوٹ گئے۔ اس کا جواز انہوں نے یہ پیش کیاکہ جب قرض خواہوں کے ڈراور مالی مشکلات کی وجہ سے وہ فیروزپور سے دہلی نہ جاسکے تھے تو اب باندے سے دہلی کیونکر جاسکتے تھے۔ اس کے علاوہ انہیں یہ خیال بھی آیاکہ دہلی ہویاکلکتہ، دونوں جگہ قانون توایک ہی ہے15۔گویا کلکتے جانے کا خیال انہیں باندے میں آیاتھالیکن رائے جھج مل کے نام ان کے اس خط سے جوانہوںنے لکھنو¿ سے کانپور پہنچنے کے بعدلکھاتھایہ بات بھی ثابت ہے کہ یہ ارادہ پہلے سے تھا:
”بتاریخِ بست و ششم ذیقعدہ روز جمعہ ازاں ستم آباد برآمدم و بتاریخِ بست ونہم در دارالسّرور کانپور رسیدم و اینجادوسہ مقام گزیدہ رہگرایِ باندہ میشوم در آنجا چند روز آرامیدہ۔ اگر خدا می خواہد و مرگ اماں میدہد بکلکتہ می رسم“16
غرض یہ کہ درخواست کی ساری تفصیل و تاویل کا منشاگورنر جنرل کویہ باور کراناتھاکہ دہلی میں چارہ جوئی کرناان کے لےے ممکن نہ تھااوروہ بڑی مصیبتوں اور مجبوریوں میں کلکتے پہنچے تھے تاکہ مقامی حکام کو نظرانداز کرکے ان کی درخواست قبول کرلی جائے۔ لیکن جیساکہ اندیشہ تھا 20 جون 1828 17 کوان کی درخواست پریہی حکم صادرہواکہ مقدمہ پہلے دہلی میں پیش کیا جائے۔
سرکاری پنشن کے سلسلے میں غالب کی درخواست کی ایسی باتوںکو آنکھ بند کرکے قبول نہیں کیا جاسکتاجوان کے مفادپر کسی طرح اثرانداز ہوسکتی تھیں۔ تاہم بے ضرر حالات یا ایسے واقعات کے بیان میں وہ پہلو تہی نہیںکرسکتے تھے جوانگریز حکّام کے علم میں ہوسکتے تھے۔ درخواست میںغالب کے اس قسم کے بیانات کو اگرکچھ ایسے تاریخی واقعات سے مطابق کیا جائے جن کا صحیح زمانہ معلوم ہوسکتاہے تو ان کی نقل و حرکت کے بارے میں غیر تحقیقی قیاسات کی دھند بہت کچھ چھٹ سکتی ہے۔ مثلاً غالب فیروزپور اس وقت پہنچتے تھے جب نواب احمد بخش خاں قاتلانہ حملے کے بعد بسترِ علالت سے اٹھے تھے اور ان کی الورکی مختیاری جاتی رہی تھی۔ اس کے فوراً بعد کازمانہ وہ ہے جب دہلی کے رزیڈنٹ سرڈیوڈآکٹرلونی بھرت پور پر فوج کشی کے حکم کے خلاف گورنر جنرل لارڈ ایمبرسٹ کے ردِّ عمل کی وجہ سے اپنے عہدے سے استعفادے چکے18 تھے اور ان کی وفات کے بعد ان کی جگہ 26 اگست 1825 کو سرچارلس مٹکاف کا تقرر ہوچکاتھا19۔اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ غالب اپریل1825 کے لگ بھگ فیروزپور پہنچ گئے تھے اور مولوی فضل حق کے نام صنعتِ تعطیل میں ان کا خط اسی زمانے کاہے۔یہ تعیّنِ زمانی اس خط کے مندرجہ ذیل اقتباس کے بھی عین مطابق ہے:
”امّاعمِ کامگاردروہم و ہراسِ مکرواسدِ اعداودردِ عدمِ محاصلِ سرکارِ الور وملال در آمدِ دگرہا سرگرم و سو گوار و گم کردہ¿ آرام“20
دہلی سے میرزاعلی بخش خاں کے نام دوفارسی خطوں سے معلوم ہوتاہے کہ کسی زمانے میں غالب نواب احمدبخش خاں سے ملنے کے لےے بہت بے چین تھے اورفیروزپورجانے میں اس لےے متامل تھے کہ انہیں یہ اطلاع ملی تھی کہ نواب احمد بخش خاں دہلی آنے والے تھے۔اسی بے چینی میں انہوں نے کسی میرامام علی کی معرفت نواب احمد بخش خاں کوایک عرضداشت بھی بھیجی تھی۔ نواب سے ان کو توقع نہ تھی لیکن ان کے بعض احباب کہتے تھے کہ وہ نواب سے اپنا دردِ دل نہیں بیان کرتے ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ وہ اس کاتدارک نہ کریں، اس لےے وہ کوشاں تھے تھے کہ نواب سے انہیں جواب مل جائے اور وہ ان دوستانِ ناصح کو خیرباد کہہ کر مشرق کی سمت روانہ ہوجائیں۔ پھر اس صورت میں کہ نواب کے دہلی آنے کی خبرغلط ہووہ چاہتے تھے کہ ان سے ملاقات کے لےے خود فیروزپور چلے جائیں:
”یک چندبامیدِ نواب صاحب ساختم وازتاب آتشِ انتظارگداختم نشستہ ام بعد ا بیکہ مجرم بزنداں نشیند و می بینم انچہ کافر بجہنم بیند۔ بہ فیروزپور بہر آں نیامدہ بودم کہ بازم بدہلی باید آمد۔نواب صاحب مرا بلطفِ زبانی فریفتند و بکرشمہ¿ ستمی کہ بالتفات میمانست از راہ بردند میرامام علی را با عرضداشت بخدمتِ نواب فرستادہ ام یاراں میگفتند کہ توبہ نواب نمیگرائی و دردِ دل باوی نمیگوئی ورنہ از کجاکہ نواب بچارہ برنخیزد اینہا کہ میکنم از بہرِ زباں بندی ایں اداناشناسانست۔ خدا را طرح آن افگنید کہ میرامام علی زودبرگردند و بمن پیوندند تا دوستانِ ناصح را خیرباد گویم و بسر و برگی کہ ندارم بشرق پویم۔“
”شنیدہ میشودکہ نواب بدہلی می آیند باری از صدق و کذب این خبررقم کنید من آں میخواہم کہ اگر خبرِ عزیمتِ نواب دروغ بودہ باشد خود بہ فیروز پور رسم و شرف قدمبوسِ عم عالی مقدار و مسرتِ دیدارِ شما در یابم“21
یہ حالات اور خطوط بھی اپریل 1825 کے لگ بھگ غالب کے فیروزپورجانے سے قبل کے سواکسی اور زمانے کے نہیں ہوسکتے۔ فیروزپور میں نواب احمد بخش خاں کی حالت دیکھنے کے بعد غالب کی مایوسیاں اور پختہ ہوگئی تھیں۔ چنانچہ انہوں نے مولوی فضل حق کو لکھاتھاکہ :
”او را مہر کو کہ کس را دل دہد و ہمم در اصلاحِ حال کس گمارد و مرا دلِ آسودہ¿ رام و طورِ آرام کوکہ سرِصداع آلودہ درکوہسار مالم و دل را درطمع امدادِ کار سالہا در ورطہ¿ طولِ امل دارم۔“22
لیکن معلوم ہوتاہے کہ نواب احمد بخش خاں کی باتوں سے پھر کچھ امید بندھی اور وہ ان کے کہنے پر بھرت پور روانہ ہوگئے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے بھرت پورکاسفرکیاتھا۔ ’پنج آہنگ‘ کے پہلے دو حصے یعنی آہنگِ اوّل اور آہنگِ دوم اسی سفرکے دوران لکھے گئے تھے۔ غالب نے آہنگِ اوّل کی تمہید میں لکھا ہے:
”در سالِ یکہزارودوصدوچہل و یک ہجری کہ گیتی ستانانِ انگلشیہ بھرت پور لشکر کشیدہ وہ آں روئیں دژرا درمیان گرفتہ اند من دریں یورش باجناب مستطاب عمِ عالی مقدار فخرالدولہ دلاورالملک نواب احمد بخش خاں بہادر و گرامی بردار ستودہ خوی مرزا علی بخش خاں بہادر ہم سفر ست روزانہ برفتار ہم قدیم و شبانہ بیک خیمہ فرود می آئیم۔“ 23
دہلی کے رزیڈنٹ اور راجپوتانے میں گورنرجنرل کے ایجنٹ کی حیثیت سے سرچارلس مٹکاف کا تقرر تو 26 اگست 1825 کو ہواتھالیکن دہلی میں ان کے وارد ہونے کی تاریخ 21 اکتوبر 1825 ہے۔ نومبر میں شہرکے باہران کاکیمپ لگایا گیااور انہوں نے بھرت پورکی مسافت شروع کی24۔ چنانچہ نواب احمد بخش خاں کے ساتھ غالب بھی اسی زمانے میں بھرت پور گئے ہوں گے۔ 6 دسمبر کو مٹکاف متھرا پہنچااور کمانڈر انچیف لارڈ کمبر میئرکی فوجوں سے مل گیا25۔18جنوری 1826کو ایک بڑے قتلِ عام کے بعد بھرت پورمیں انگریزوں کو ’شاندار کامیابی‘ حاصل ہوئی۔26
اس مقام پر رائے جھج مل کے نام غالب کاایک اور خط غورطلب ہے۔جیساکہ اس کے مضمون سے منکشف ہوتاہے یہ خط فتحِ بھرپور کے بعد فیروزپور سے لکھا گیاتھا۔ نواب احمد بخش خاں کی واپسی میں تاخیر ہونے کی وجہ سے غالب اس وقت بھی بڑی کشمکش اور بیچارگی میں مبتلا تھے۔ رائے جھج مل، غالب کے دیگر دوستوں کی طرح نواب احمدبخش خاں کے ہمرکاب تھے۔ لہٰذا غالب نے اپنی پریشاں خاطری کا حال لکھ کر ان سے یہ معلوم کرنا چاہاتھاکہ نواب احمد بخش خاں فیروزپور کب واپس آرہے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
”ہرچند در وطن نیم اماقربِ وطن نیز قیامت است۔ ہنوز بااہلِ کاشانہ راہِ نامہ و پیام داشت۔ ہرچہ دیدہ میشود آشوبِ چشم بود و ہرچہ شنیدہ میشود زحمتِ گوش است۔ نیم جانی کہ ازاں ورطہ بروں آوردہ ام ودیعتِ خاکِ فیروزپور است کہ مراایں ہمہ اقامتِ اضطراری اتفاق افتاد و مرگی کہ منش بہزار آرزواز خدامیخواہم مگر ہمدریں سرزمین موعوداست کہ ایں قدردرنگ درافتادگیہا روداد۔ ہرچہ از اخبارِ معاودتِ نواب شنیدہ میشود راہی بحرف مدعا ی ِمن ندارد چہ سربسر آں افسانہ نکبتِ الوریاں و آرائش صفوفِ قتال وازگوں۔ گشتن کارہاے اعداد درست آمدن فال سگالانِ دولت فخریہ است۔ کلمہ¿ مختصر یکہ نواب صاحب دراینقدر عرصہ رونق افزایِ فیروزپور خواہند گشت از کسی شنیدہ نمیشود و دلِ مضطرتسلّی نمی پذیر و دوستانیکہ در رکابِ نواب صاحب اند وازین جملہ آں مہرباں بصفتِ اسد نوازی غالب پروری بیشتراز بیشتر متّصف اند واماندگانِ تنگنائے اضطراب بسلامی یاد نمی فرمایند خدارا کرم نمایند۔ واز تعیّنِ زمانِ معاودت رقم فرمایند۔“26
اگرغالب کایہ خط فتح بھرت پور اور نواب احمد بخش خاں کے فیروزپور واپس آنے کے درمیانی زمانے کاہے تو اس سے قیاس کیا جاسکتاہے کہ غالب نواب احمد بخش خاں سے پہلے بھرت پور سے فیروزپور واپس آگئے تھے اور اس صورت میں انہیں نواب احمد بخش خاں کے فیروزپور واپس آنے کاشدت سے انتظار تھا۔
بھرت پورسے سرچارلس مٹکاف کے دہلی واپس آنے کی صحیح تاریخ کاتو علم نہیں لیکن جان ولیم کے مطابق بھرت پورمیں انتظامات مکمل کرلینے کے بعد گرم ہواو¿ں کے آغاز نے ان کو لازمی طورسے دہلی واپس آنے پر مجبور کیا۔27غالب کی درخواست کے مطابق واپسی میں وہ تین دن فیروزپور میں بھی رہے تھے۔ غالب اس وقت فیروزپورمیں تے اور چونکہ نواب احمد بخش خاں نے خلافِ وعدہ غالب کا ان سے تعارف نہیں کرایاتھااس لےے ان کے دہلی جانے کے بعد وہ نواب احمد بخش خاں سے بالکل مایوس ہوچکے تھے28۔ چنانچہ خاتمہ¿ ’گل رعنا‘کی روسے مارچ 1826 یا اس کے آس پاس غالب کا فیروزپور سے دہلی واپس آجانا یقینی ہے۔
آغامیرکی مدح کی نثرکی تاریخ کے لےے دہلی سے غالب کی روانگی سے زیادہ لکھنو¿ میں ان کے قیام کے زمانے کا تعیّن اہمیت رکھتا ہے لیکن اس سلسلے میںبھی اب تک رائے جھج مل کے نام ان کے ایک خط اور بعض قرائن سے صرف اتنا ثابت ہے کہ وہ ذیقعدہ 1242ھ (جون 1827ئ) میں لکھنو¿ میں تھے اور 26 ذیقعدہ1242ھ جو جمعہ کے دن وہاں سے روانہ ہوکر 29 ذیقعدہ1242ھ کو کانپور پہنچے تھے، نیز یہ کہ کانپور سے باندے اور پھر کلکتے جانے کاارادہ تھا29۔اس روشنی میں اگر آغامیر کی مدح کی نثرکی تاریخِ تصنیف2 محرم الحرام1242ھ فرض کی جائے تو لکھنو¿ میں ان کے قیام کا زمانہ جیساکہ شیخ محمد اکرام نے صراحت کی ہے تقریباً گیارہ ماہ ہوجاتاہے30۔مولانا غلام رسول مہرکے نزدیک یہ امر مستبعد ہے اور زیادہ قرینِ قیاس یہ ہے کہ غالب 26ذیقعدہ 1242ھ (27جون 1828ئ) کو لکھنو¿ سے جانے کے بعد آغامیرکے دربار میں باریابی کی توقع میں کانپور سے پھر لکھنو¿ واپس آئے اور انہوں نے2 محرم الحرام1243ھ (26 جولائی1827) کو یہ نثر سرانجام دی31۔مالک رام صاحب جب دہلی سے غالب کی روانگی کی تاریخ نومبر، دسمبر1826 قرار دیتے ہیں تو اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ وہ نثرکی تاریخ کے سلسلے میں مولانا مہرکے ہم خیال ہیں۔ لیکن ایک تو لکھنو¿ سے چل دینے کے بعد دوبارہ غالب کے وہاں جانے کے لےے کوئی ثبوت موجود نہیں، دوسرے رائے جھج مل کے نام ان کے جس خط کی بناپر لکھنو¿ سے ان کی روانگی کی تاریخ 26 ذیقعدہ1242ھ (27جون 1827) قرار پاتی ہے اسی میں انہوں نے آغامیرکاذکر بڑی حقارت سے کیاہے اور اشارةً ان سے شرفِ ملاقات حاصل نہ ہونے کے اس واقعے کابھی ذکرکیاہے جوان کے ساتھ پیش آیا تھا:
”خلاصہ¿ گفتگو ایں کہ اعیانِ سرکار لکھنو¿ بامن گرم جوشید ندانچہ درباب ملازمت قرار یافت خلاف آئینِ خویشتن داری وننگ شیوہ¿ خاکساری بود۔ تفصیل ایں اجمال جزبہ تقریر ادا نتواں کردہرچہ درآں بلاد از کرم پیشگی و فیض رسانیِ ایں گدا طبع سلطان صورت یعنی معتمدالدّولہ آغامیرشنیدہ مشیود بخداکہ حال برعکس است“ 32
ان حالات میں نثر پیش کرنے کے لےے ان کے دوبارہ لکھنو¿ جانے کا کوئی امکان نہیں تھا۔
درخواست کے مطابق غالب گورنر جنرل کے ورود کی خبر پھیلنے کے بعد کانپور روانہ ہوئے تھے اور جب گورنر جنرل کانپورمیں وارد ہوئے تو وہ لکھنو¿ میں صاحب فراش تھے:
”انہی دنوں نواب گورنر جنرل بہادرکے ورود کی خبر پھیلی۔ یقین تھاکہ سرچارلس مٹکاف بھی ان کی پذیرائی اور استقبال کے لےے جائیںگے۔ لہٰذامیں نے فیصلہ کیاکہ کانپور جاو¿ں اور وہاں سے ان کی معیّت میں واپس آو¿ں اور راستے میں کسی مناسب موقع پر ان کی خدمت میںحاضر ہوکر اپنی مصیبت اور بے بسی اور قرض کاسارا افسوسناک احوال ان سے کہوں اور انصاف کا طالب ہوں۔
غرض میں اس ارادے سے فرخ آباداور کانپور کی طرف روانہ ہوگیا۔ بدقسمتی سے جوں ہی کانپور پہنچا میں یہاں بیمارپڑگیا، یہاں تک کہ ہلنے جلنے کی سکت بھی جاتی رہی۔ چونکہ اس شہرمیں ڈھنگ کاکوئی معالج نہیں ملا اس لےے مجبوراً ایک کرائے کی پالکی میں گنگاپارلکھنو¿ جانا پڑا۔یہاں میں پانچ مہینے سے کچھ اوپر بستر پر پڑا رہا۔ یہیں میں نے نواب گورنر جنرل بہادرکے ورود اور بادشاہِ اودھ کے ان کے استقبال کو جانے کی خبر سنی۔ لیکن ان دونوں میں چارپائی سے اٹھنے تک کے قابل نہیں تھا۔ غرض کہ لکھنو¿ کی آب و ہوابالکل میرے راس نہیں آئی۔33
لارڈایمہرسٹ جو اس زمانے میں گورنرجنرل تھے4 اگست 1826 ءکو کلکتے سے روانہ ہوئے تھے۔ بھاگل پور، غازی پور، رام نگر، مرزاپور، الٰہ آباد اور فتح پور ہوتے ہوئے 18نومبر 1826ءکو وہ کانپور پہنچے 20 نومبر کو بادشاہِ اودھ (غازی الدین حیدر) نے ان سے ماقا ت کی۔ دوسرے دن انگریزوں نے بادشاہِ اودھ سے جوابی ملاقات کی یکم دسمبرکو یہ قافلہ لکھنو¿ پہنچااور سال کے اختتام پر برطانوی علاقعے میں واپس آگیا۔ 8 جنوری1827کو اس کاورود آگرے میں ہوا۔34 چونکہ غالب گورنر جنرل کے ورودکی خبر پھیلنے پر کانپورکی طرف روانہ ہوئے تھے اس لےے قیاس کیاجاسکتاہے کہ وہ دہلی سے جولائی 1826 میں روانہ ہوئے ہوں گے۔ لارڈ ایمہرسٹ کے کانپور پہنچنے کی تاریخ معلوم ہونے سے اس میں کوئی شبہہ نہیں رہتاکہ وہ 18 نومبر 1826 کو نہ صرف یہ کہ لکھنو¿ میں تھے بلکہ وہاں کافی پہلے سے ٹھہرے ہوئے تھے اور وہ تمام قیاسات جن میں نومبر 1826 کے بعد دہلی سے ان کی روانگیِ سفر بیان کی گئی ہے مطلقاً ردہوجاتے ہیںچونکہ وہ 26 ذیقعدہ 1242 ھ (27جون 1827) کو لکھنو¿ سے کانپور چلے گئے تھے اور ان کے دوبارہ لکھنو¿ جانے کے بارے میں کوئی اشارہ موجود نہیں اس لےے یہ بھی یقینی ہے کہ آغامیر کی مدح کی نثر انہوں نے2 محرم الحرام 1242ھ (5 اگست 1826) کو مکمل کی تھی۔
ان مباحث کا ماحصل یہ ہے کہ غالب اپریل 1825 کے لگ بھگ فیروزپور گئے تھے۔اسی زمانے میں انہوں نے مولوی فضل حق کے نام صنعتِ تعطیل میں اپنا فارسی خط لکھا۔ نومبر 1825 میں انہوں نے نواب احمد بخش خاں کے ساتھ بھرت پورکاسفرکیااورمارچ 1826 سے کچھ قبل فیروزپور آگئے بھرت پورجانے کی تیاری میں اگر وہ نہایت عجلت میں فیروزپورسے دہلی آئے تھے تو اس سے اس سفرکے سلسلے کو منقطع نہیں کیا جاسکتاجوکلکتے روانہ ہونے سے پہلے فیروزپور کا آخری سفر تھا۔ تقریباً ایک سال کے بعد غالب مارچ 1826 میں کانپور روانہ ہوئے اور جلدہی لکھنو¿ پہنچ گئے جہاں انہوں نے 2 محرم الحرام 1242ھ (5اگست 1826) کو صنعت تعطیل میں آغامیر کی مدح میں فارسی نثر سرانجام دی۔ نومبر 1826 سے جون 1827(ذیقعدہ1242ھ) تک تقریباً آٹھ ماہ وہ یقینی طورپر لکھنو¿ میں تھے۔ جس طرح انہوں نے اپنی درخواست میں مصلحةًکلکتے کے سفر سے پہلے فیروزپورسے دہلی آنے کااظہارنہیں کیااسی طرح ان کایہ بیان کہ وہ لکھنو¿ میںپانچ ماہ سے کچھ اوپر مقیم رہے کسی مصلحت پر مبنی ہے اور جب ان کے بیان کے برخلاف لکھنو¿ میں ان کے قیام کی مدّت کم سے کم آٹھ ماہ ثابت ہے تو یہ مدّت ایک سال بھی تسلیم کی جاسکتی ہے۔
مالک رام صاحب کا قیاس ہے کہ خواجہ حاجی نے غالب کے خسر نواب الٰہی بخش خاں معروف کے انتقال (1826۔1242ھ) کے شاید ایک ہی سال پہلے وفات پائی تھی35۔سید اکبر علی ترمذی نے غالباً اسی بناپر یہ لکھ دیا ہے کہ خواجہ حاجی کاانتقال 1825 میں ہوا36۔خاندانی پنشن کے سلسلے میں غالب کی باقاعدہ کوشش کا آغاز خواجہ حاجی کی وفات سے قبل ممکن نہیں لیکن غالب کے بعض سوانح نگاروں کا یہ خیال درست نہیں کہ اس کی نوبت نواب الٰہی بخش خاں معروف کی وفات کے بعد آئی۔ 1242ھ یعنی معروف کا سالِ وفات اگست 1826 سے شروع ہوکر جولائی 1827 میں ختم ہوا تھا۔ موجودہ تفصیلات سے ثابت ہوتاہے کہ انہوں نے نہ صرف اپنی کوششیں اس سے قبل ہی تیز کردی تھیں اور کلکتے جانے کاارادہ کرلیاتھابلکہ وہ اس سے پہلے دہلی سے روانہ ہوچکے تھے۔ تعجب ہے کہ اثنائے سفرکے کسی خط میں انہوں نے معروف کی وفات کاذکرنہیں کیا۔ اس کے علاوہ کلکتے میںایک طرف تو وہ اس بنیادپر چارہ جوئی کر رہے تھے کہ فیروزپور سے دہلی جانا ان کے لےے ممکن نہ تھا اور دوسری طرف خاتمہ¿ ’گلِ رعنا‘ میں یہ لکھ رہے تھے کہ وہ فیروزپورسے دہلی واپس آئے تھے۔ فیروزپور سے دہلی واپس آنے کے تقریباً پانچ ماہ کے بعدوہ کلکتے کے لےے روانہ ہوئے تو اس مدت پر بھی خاتمہ¿ ’گلِ رعنا‘کایہ فقرہ کہ ”روزگاری دراز بہ خاک نشینی سپری شد“ پوری طرح منطبق نہیںہوتا۔لیکن ان وجوہ سے اگر غالب کے سفروحضرکے بعض مراحل کے تعینِ زمانی میں کچھ شکوک باقی رہ جاتے ہیں تو انہیں نئی معلومات او رمآخذ کی دستیابی کے بغیر دور نہیں کیا جاسکتا۔ محقق کے لےے دستیاب مواد کے حدود کاادراک اوراپنی تلاشِ نارساکا اعتراف ضروری ہے۔ غیر تحقیقی قیاس آرائی سے بات بٹھانے کے رجحان نے غالبیات میں ایسے گل کھلائے ہیں کہ اب اس سے جتنا اجتناب برتاجائے اتناہی بہتر ہے۔
ہ
(’غالبیات اور ہم ‘ازابو محمد سحر)
حواشی:
1۔ دیکھےے نامہاے فارسیِ غالب،مرتبہ سید اکبر علی ترمذی،ص11-15
2۔غالب نامہ،طبع دوم، ص25
3۔غالب از مہر، طبع سوم، ص92
4۔گل رعنامرتبہ¿ مالک رام، مقدمہ،ص7
5۔دیکھےے نامہائے فارسی غالب مرتبہ سید اکبرعلی ترمذی، مقدمہ¿ انگلیسی، ص21 اور گل رعنامرتبہ سید وزیرالحن عابدی، مقدمہ، ص50
6۔گل رعنامرتبہ سید وزیرالحسن عابدی، مقدمہ، ص50
7۔کلیاتِ نثرِ غالب،کانپور، 1888،ص64-65
8۔ذکرِ غالب کچھ نئے حالات از مالک رام، افکار، غالب نمبر، 1969، ص46 تا54 اور ذکر غالب از مالک رام، طبع چہارم، ص 60تا69
9۔ذکر غالب، کچھ نئے حالات از مالک رام، افکار، غالب نمبر، 1969، حاشیہ، ص51
10۔غالب کا سفر کلکتہ از ڈاکٹر محمود الٰہی، اردو، کراچی، شمارہ خصوصی بیادِ غالب، حصہ دوم، 1969، ص83 تا88 نیز کتاب، لکھنو¿، اکتوبر 1969، ص29 تا 31
11۔ملاحظہ ہو نامہاے فارسیِ غالب،10
12۔ذکر غالب کچھ نئے حالات، افکار، کراچی، غالب نمبر، ص49،50
13۔ کلیات نثر غالب،ص64
14۔کلیات نثر،غالب،ص159
15۔ذکر غالب کچھ نئے حالات، افکار، غالب نمبر،1969،ص51
16۔کلیات نثر غالب،ص158
17۔نامہ ہاے فارسی غالب، مقدمہ انگلیسی،ص32
18۔ The cambride history of India, vol. V. second indian print, 1963, p. 577
19۔ Selections from the papers of lord Metcalfe by Jhon William Kaye
ذکرِ غالب،ص 61کے مطابق آکٹرلونی کاانتقال 15جولائی 1825 کو ہوا۔
20۔کلیاتِ نثر غالب،ص64
21۔ایضاً،98-99
22۔کلیات نثر غالب،ص64
23۔ایضاً،ص4
24۔The life and corespondence of charles, lord netcalfe by Jhon Willian Kaye, Vol. II, 1858, p. 139
25۔The life and correspondence of Charles, Lord Metcalfe, Vol. II, p. 156.
26۔ کلیاتِ نثر غالب،ص155-156
27۔The life and correspondence of Charles, Lord Metcalfe, Vol. II, p. 156.
28۔ذکر غالب کچھ نئے حالات، افکار، غالب نمبر، 1969،ص50
29۔کلیاتِ نثر غالب، ص158۔ خط میں سنہ درج نہیں ہے لیکن غالب 1243ھ سے پہلے لکھنو¿ پہنچ گے تھے۔ اس لےے یہ واقعات لازمی طورپر 1242ھ سے متعلق ہیں۔
30۔غالب نامہ،ص25
31۔غالب،ص92
32۔کلیاتِ نثرِ غالب،ص157۔ An Oriental Biographical Dictionaryمیں معتمدالدولہ آغامیرکی معزولی کاسنہ 1826 درج ہے جس کا اعادہ نامہاے فارسیِ غالب (مقدمہ¿ انگلیسی۔ص21) میں بھی کیاگیاہے۔
33۔ذکرِ غالب، کچھ نئے حالات، افکار، غالب نمبر، 1969،ص50
34۔Lord Amherst By Mrs. Thackery Ritchie and Mr. Richardson Evans, pp. 176,177,179 and 180 and A Comprehensive History of India by Henry Beveridge, Vol. III, pp. 187-188
35۔ذکرِ غالب، ص57-58 ۔ مالک رام صاحب نے معروف کا سالِ وفات گلشن بے خار، ص184 کے حوالے سے درج کیاہے۔ گلشنِ بے خارمیں صرف 1242ھ ہے اور یہی سنہ ہجری بزمِ سخن مرتبہ¿ سید علی حسن خاں (ص106) اور این اورینٹل باﺅگرافیکل ڈکشنری مرتبہ¿ ٹامس ولیم بیل (ص244) میںبھی ملتاہے۔
36۔نامہاے فارسیِ غالب، مقدمہ¿ انگلیسی،ص19