Discussion book of Farooq Argali

فاروق ارگلی نے قلم کی بنیاد پر خود کو منوایاہے:پروفیسراخترالواسع
غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام’ شام شہریاراں ‘کے موقع پر فاروق ارگلی کی کتاب’ جواہرعظیم آباد‘پرمذاکرے کاانعقاد

نئی دہلی:غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام شام شہریاراں کے موقع پرمعروف صحافی ومصنف فاروق ارگلی کی کتاب’ جواہرعظیم آباد‘پرمذاکرے کاانعقادکیاگیا۔اس موقع پراپنی صدارتی گفتگومیں مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی، جودھپور کے وائس چانسلر اور معروف اسکالرپروفیسراخترالواسع نے فاروقی ارگلی کی اس کتاب پر انہیں مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہاکہ اس کتاب میں فاروق ارگلی نے ذرّہ برابر بھی تعصب سے کام نہیں لیا ہے۔فاروق ارگلی کی خاصیت یہ ہے کہ انہوں نے قلم کی بنیاد پر اپنے آپ کو منوایاہے۔فاروق ارگلی کی فکر بڑی زرخیز ہے۔ انہوں نے ادب و ثقافت ،تاریخ و تہذیب اور مختلف موضوعات پرقلم اٹھایا ہے۔اور اپنے تدبّر سے صاحبانِ فہم کوہمیشہ علمی تحفہ پیش کیا ہے۔ جواہرعظیم آبادمیں بہارکی اہم شخصیات کی خدمات کو سراہاگیا ہے ۔مجھے خوشی ہے کہ بہار کے وہ لوگ جنہوں نے اردو زبان و ادب کو فروغ دیاان کے کام کو فاروق ارگلی نے اپنی اس کتاب میں نمایاں کیا ہے۔فاروق ارگلی کی یہ کتاب ادب سے متعلق ریسرچ کرنے والے طلبہ واسکالرس کی بھرپورمددکرے گی ۔جواہرعظیم آباد کے مصنف فاروق ارگلی نے کہا کہ میں غالب انسٹی ٹیوٹ کا شکریہ ادا کرتاہوں کہ اس ادارے نے میری کتاب پر اتنے اہم مذاکرے کا انعقاد کیا۔میں نے اب تک مختلف موضوعات پرتقریباً دیڑھ سو سے زائد کتابیں تحریر کی ہیں ۔جواہرعظیم آباد تنقیدپرمبنی کتاب نہیں ہے ۔اس میں میں نے جن شخصیات پر قلم فرسائی کی ہے ان کی خدمات کو سراہاہے اوران کے علمی کاموں کو ایک جگہ اکٹھاکرنے کی کوشش کی ہے ۔مجھے لگتا ہے کہ اس سے آنے والی نسلوں کو فائدہ ہوگا۔
شعبہ اردو،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے استاذپروفیسرمولا بخش نے کہا کہ آزادی کے بعد جن مصنفین نے اپنی تحریروں سے ادب میں اپنا ایک اہم مقام پیدا کیا ہے ان میں فاروق ارگلی ہمیشہ نمایاں نظر آتے ہیں۔ان کی تحریروں کا میں ہمیشہ قائل رہا ہوں اور آج بھی ان کے افکار و خیالات سے مجھے روشنی مل رہی ہے۔ ماہنامہ آجکل کے ایڈیٹرڈاکٹر ابرار رحمانی نے کہاکہ یہ کتاب موجودہ دور کے تذکروں میں قابل ذکر ہے۔میں چاہتاہوں کہ تعریف کے ساتھ تنقید بھی کی جائے، کتاب میں حفظ مراتب کا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔اگر شخصیات کو کتاب میں جگہ دیتے وقت ان کی عمریا جدید تحقیق کے طریقہ کار کو اختیارکیا جاتاتو اچھا ہوتا۔اب تو حروف تہجی کے اعتبار سے کتابوں کی ترتیب کا چلن عام ہوچکا ہے ۔اس کتاب کی تصنیف پر میں مصنف فاروق ارگلی کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔حقانی القاسمی صاحب نے کہا کہ مادی عہد میں لفظوں سے تعلق کو استواررکھنے والے اہم مصنفین میں ایک اہم نام فاروق ارگلی کا بھی ہے۔فاروق صاحب نے انتہائی غیر جانب دارانہ انداز میں کتاب لکھی ہے۔کتاب میں بہارکی اہم تاریخی اورموجودہ شخصیات میں متحرک وفعال شخصیات کاانتخاب کیا ہے ۔بہار اردو اکادمی کے سابق سکریٹری مشتاق احمد نوری نے کہا کہ میں اس کتاب پر فاروق ارگلی کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔اس عمر میں بھی آپ اہم اور علمی کام انجام دے رہے ہیں۔ مجھے پوری امید ہے کہ یہ کتاب سبھی کے لئے کارآمد ثابت ہوگی۔نگار عظیم نے بھی اس کتاب کی اشاعت پر فاروق ارگلی کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ارگلی صاحب کی یہ کتاب ان کی تمام کتابوں میں سے ایک منفرد کتاب ہے۔بہار کے اہم ترین مصنفین کو اس کتاب سے بآسانی پہچانااور جاناجاسکتا ہے۔فاروق ارگلی کو میں ان کی کتاب میناکماری سے جانتی ہوں اوراس وقت سے اب تک انہیں مسلسل پڑھ رہی ہوں ۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سیدرضا حیدر نے اپنی استقبالیہ تقریر میں کہاکہ یہ کتاب ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔اس میں بہار کے اہم ترین شخصیتوں کو اکٹھاکرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے ۔پہلی جلد میں رفتگاں پر مضامین موجود ہیں دوسری جلد میں وہ شخصیات ہیں ،جو آج بھی متحرک وفعال ہیں۔اس کتاب میں حضرت شیخ شرف الدین یحیی منیری سے لے کر موجودہ دور کے مصنفین کے علمی کاموں کااحاطہ کیا گیا ہے۔ بہار کے صوفیوں،محققوں، ناقدوں،افسانہ نگاروں ،ناول نگاروں اور ان کے علاوہ بھی مختلف شعبہ ہائے فکر کے لوگوں کو اس کتاب میں جگہ دی گئی ہے۔میں اپنے تمام مہمانوں ،مقررین ،صاحب کتاب اور سامعین کا اس پروگرام میں تہ دل سے استقبال کرتاہوں ۔اس پروگرام کی نظامت کرتے ہوئے نورین علی حق نے کہاکہ تذکروں کی فہرست میں اس کتاب کا نام زریں حروف سے لکھا جائے گا۔اس موقع پر دہلی کی معززشخصیات نے شرکت کی اور پروگرام کو کامیاب بنایا ۔


تصویر میں مائک پر: پروفیسر مولیٰ بخش،نورین علی حق،ڈاکٹر سید رضاحیدر، پروفیسر اخترالواسع، مشتاق احمد نوری،ابرار رحمانی،فاروق ارگلی، حقانی القاسمی

 

Insha Seminar

غالب انسٹی ٹیوٹ میں انشا اللہ خاں انشا پر سمیناراختتام پذیر
غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام ’’انشا اللہ خاں انشا اورہندوستانی روایت‘‘ کے عنوان سے دو روزہ سمینارکے دوسرے روز مقالہ نگار ،علمااور دانشوروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ سمینار کاپہلا اجلاس صبح دس بجے شروع ہوا۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر سہیل انور نے ’’انشا اللہ خاں انشا ہندوستانی روایت کے آئینے میں‘‘کے عنوان سے مقالہ پیش کیا،ڈاکٹر سہیل انور نے اپنے مقالے میں انشا کے اشعار سے مثالیں پیش کرکے کہا کہ انشا نہ صرف ہندوستانی تہذیب کو پوری طرح سمجھتے تھے بلکہ اسے ایک تخلیقی تجربہ بناکر پیش کرنے کاہنر بھی بخوبی جانتے تھے۔ ڈاکٹر ریحان حسن نے’’انشا اور مصحفی کے معرکے پر ایک نظر‘‘ کے عنوان سے اپنے مقالے میں کہا کہ ادبا کے معرکے وقتی طورپر جوبھی تلخی پیدا کریں لیکن اس سے زبان و ادب کوکافی فائدہ ہوتا ہے۔ انشا اور مصحفی کے معرکے کی آج ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ اس سے نئے الفاظ شاعری میں داخل ہوئے۔ڈاکٹر مرزاشفیق حسین شفق نے ’’انشا کی عشقیہ شاعری‘‘کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ انشا کی ایک ایسی شبیہہ ہمارے سامنے پیش کی گئی ہے جس کوشوخی اور معرکہ آرائی سے خاص شغف تھا۔لیکن جب ہم اُن کی شاعری پر نظر کرتے ہیں توان کے یہاں عشقیہ مضامین کو برتنے کاایک خاص ہنر نظر آتا ہے۔ پروفیسر کوثر مظہری نے اپنے مقالے میں انشا کی مشہور تصنیف’’دریائے لطافت‘‘ کے حوالے سے کہا اس بات پر زور دیاکہ دریائے لطافت کی قرأت کی اہمیت آج بھی مسلم ہے۔ اس اجلاس کی صدارت کے فرائض مشہور نقاداور انشائیہ نگار پروفیسر خالد محمود نے انجام دیے۔ پروفیسر خالد محمود نے اپنی صدارتی تقریر میں انشاکی تخلیقات کے تنوع اور کشادہ ذہنی کاذکر کرتے ہوئے کہاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ مبارکباد کا مستحق ہے کہ اس نے اس اہم موضوع کاانتخاب کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ اردومیں غالب اور میر کی شہرت سے دوسرے ایسے شاعر جو غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں ہمارے ذہن سے محوہوگئے۔ سمینار کادوسرے اجلاس میں ثاقب فریدی نے ’’انشا کے قصائد‘‘،شعبہ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی کے استاد عبدالسمیع نے ’’انشا اللہ خاں انشا کی ہندوستانیت، انتظار حسین کی نظر میں‘‘، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے استاد پروفیسر مولیٰ بخش نے ’’رانی کیتکی کی کہانی اردو افعال کی زبانی‘‘ اورشعبہ اردوجامعہ ملیہ اسلامیہ کے استاد پروفیسر احمدمحفوظ نے ’’کلاسیکی شاعری میں الفاظ کی اہمیت، کلامِ انشا کے خصوصی حوالے سے‘‘کے عنوان سے مقالات پیش کیے۔اس اجلاس میں پروفیسر عبدل بسم اللہ نے بھی پُرمغز مقالہ پیش کیا۔اس اجلاس کی صدارت غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پرووفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے فرمائی۔ پروفیسرصدیق الرحمن قدوائی نے اپنی صدارتی تقریر میں کہاکہ مجھے خوشی ہے کہ انشا کی شاعری اور ان کی نثری تصنیفات کے تقریباً تمام پہلوؤں پر بہت عمدہ مقالے پڑھے گئے۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے سمیناروں کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہم نئی نسل کے لکھنے والوں کوزیادہ سے زیادہ موقع دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس سے انشا کے فن اور ان کے عہدکو سمجھنے میں بڑی مدد ملے گی۔ سمینار کے تیسرے اور آخری اجلاس میں ڈاکٹر محمد شاہد خان، ڈاکٹر احمد امتیاز، ڈاکٹر علی اکبرشاہ اور ڈاکٹر سرورالہدیٰ نے مقالے پیش کیے۔ اس اجلاس کی صدارت مشہور نقاد افسانہ نگار اور شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی کے سابق صدر پروفیسر ابن کنول نے فرمائی۔ اپنی صدارتی تقریر میں پروفیسر ابنِ کنول نے کہا انشا اللہ خاں انشا کے مقام و مرتبہ سے انکار نہیں کیا جاسکتا وہ اردو کے پہلے قواعد نویس ہیں جنہوں نے قواعد کے اندر بھی ہندوستانی تہذیب کو فروغ دیا۔ ہمارے قواعدنگار انشا کے انہیں اصولوں کوملحوظ رکھتے تو آج ہماری زبان میں موجودہ صورت کے مقابلے کافی وسعت پیدا ہوچکی ہوتی۔ سمینار میں شرکاء کی طرف سے بھی اہم سوالات اٹھائے گئے اور مقالات پرسیرحاصل تبصرے بھی پیش کیے گئے۔سمینار کے اختتامی کلمات کو ادا کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدر نے تمام مقالہ نگار، اجلاس کے صدوراور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔

English Hindi Urdu