Muzakira – Khalid Mehmood’s Book

پروفیسر خالد محمودایک اچھے استاد اور غالب شناس ہیں: جناب نجیب جنگ

نئی دہلی :غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام دومئی کو شام شہریاراں کے موقع پر پروفیسر خالد محمود ،سابق صدر،شعبہ اردو ،جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تصنیف ’تفہیم وتعبیر‘پرمنعقد مذاکرے میں صدارتی تقریر کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمان قدوائی نے کہا کہ خالد محموداس عہد کے اہم لکھنے والوں میں سے ایک ہیں۔ آج کاجلسہ آپ کی خدمات کے اعتراف کا ابتدائیہ ہے۔ میں تو یہی کہوں گا کہ اللہ کرے کہ وہ مسلسل لکھتے رہیں۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ خالد محمودبہت سنجیدگی اور توازن کے ساتھ نہ صرف زندگی گزارتے ہیں ۔بلکہ مضامین کے ساتھ بھی توازن واعتدال کارویہ روارکھتے ہیں ۔
مہمان خصوصی کی حیثیت سے موجود دہلی کے سابق لیفٹننٹ گورنر نجیب جنگ نے کہا کہ خالد محمودمیرے عزیزاستادہیں۔ استاد کے ساتھ ساتھ میرے اچھے دوست بھی ہیں۔ ناممکن کو ممکن بنانا خالد محمود کو آتا ہے۔ میرے دل میں ان کے لئے بہت اہم مقام ہے۔ میں نے غالب کو خالد محمود سے پڑھا۔ خالد محمودنے صرف غالب کو ہی نہیں بلکہ مذہبی تعلیم سے بھی مجھے روشناس کرایا۔
پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ خالد محمود کے جو اوصاف بیان کیے گئے ان سب کی میں تائید، تصدیق اور توثیق کرتا ہوں۔ یہ غیر معمولی بات ہے کہ ہر عمر کے معاصرین نے خالد محمود کی ستائش کی، میں خالد محمودکی تعریف کرنے والوں کی بھی ستائش کرتاہوں۔وہ اردو زبان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اورزبان کے تلفّظ پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ اپنے ہم عصروں پر بھی خالد نے کشادہ دلی کے ساتھ لکھا ہے۔ خالد محمود نے ہمیشہ سبھی کے ساتھ محبت کا رشتہ استوار رکھا۔
دہلی اردو اکادمی کے وائس چیئرمین پروفیسر شہپر رسول نے کہا کہ خالد محمود خلوص اور انہماک کے مرقع ہیں۔ اس کتاب میں تنوع ہے۔ خالد محمود کے تبصرے بھی بڑے غیر معمولی ہیں۔ ان تبصرے میں بھی خلوص اور انہماک بہت ہے۔ ان مضامین میں خالد محمود پوری طرح موجود ہیں۔
اس موقع خود صاحب کتاب پروفیسر خالد محمود نے کہا کہ میں اس پروگرام میں عالم تحیر کی اصطلاح کو سمجھ سکا۔ اس عالمی ادارے نے میری کتاب پر مذاکرے کا انعقاد کیا۔ یہ بھی عالم حیرت ہے، میرے احباب نے جس طرح گفتگو کی تو میں نے اپنے اندر اتر کرخودکو دیکھا تو اندر وہ شخص نہیں ملا۔مجھے لگتا ہے کہ مجھے اب ان کی توقعات پر اتر کر دکھانا پڑے گا۔ میں آپ سب کی گفتگو سے سرشار ہوگیا۔ اتنے اچھے اور عمدہ پروگرام کی توقع میں نے نہیں کی تھی ۔
پروفیسر معین الدین جینابڑے نے کہا کہ خالد محمود پر جو کچھ کہا گیا ہے اس سے بہت زیادہ ان کہی باتیں رہ گئی ہیں۔ میں ممبئی میں جب بھی یوسف ناظم صاحب سے ملتاتھا مجھے خالد محمود یاد آتے تھے۔ خالد محمود کے یہاں سنجیدگی اور مزاح نگاری دونوں پائی جاتی ہے۔ اسی لئے میں انہیں مکمل آدمی کہتاہوں ۔اس کتاب کا پہلا مضمون ہی معرکے کا مضمون ہے۔پروفیسر عراق رضا زیدی نے کہا کہ اکیسویں صدی میں اس کتاب کے ذریعہ ایک اہم غالب شناس ملا ہے۔ پروفیسر علی احمد فاطمی نے کہا کہ خالد محمودہمیشہ اپنے دوستوں سے بہت عزت و احترام سے ملتے ہیں۔آپ دوسروں کی تعریف بہت کھلے دل کرکرتے ہیں۔موجودہ دور میں آپ سنجیدہ لکھنے والوں میں سے ایک ہیں۔ شبلی اور حالی پراس کتاب میں لکھا ہواآپ کا مضمون بالکل نئے زاویہ پیش کرتا ہے۔
پروفیسر شہزاد انجم نے کہا کہ خالد محمود جامعاتی تہذیب کی سچی تصویر ہیں۔ لوگوں کے ساتھ عملی طور پر ان کا جو رویہ رہتا ہے اسے بیان کرنا مشکل ہے۔ اس سے پہلے ان کی تقریبا بیس بائیس کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ اگر کسی متن کے ساتھ آپ کا دل جڑا ہوتو اس پر آپ کا اظہار خیال بھی تازہ کار ہوجاتا ہے۔
پروفیسر نسیم احمد، سابق استاد بنارس یونیورسٹی نے کہا کہ خالد محمود واقعی نیک انسان ہیں۔غالب پر آپ کا مضمون اہم ہے۔تدریس غزل اس وقت تک درست نہیں ہوسکتی، جب تک دیوان غالب ومیر درست نہیں ہوتے ۔
معروف فکشن نگار ڈاکٹر خالد جاوید نے کہا کہ خالد محمودکی شگفتگی اور طنز ومزاح خودکو دنیا کے موجودہ حالات سے بچانے کا حربہ ہے۔ خالد محمود کی شخصیت اورتحریرمیں کوئی بعد نہیں ہے ۔ان مضامین کا منافقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمیں اس کتاب کو بھی پڑھنے کی ضرورت ہے، جس کا نام خالد محمود ہے ۔کتاب میں ایمانداری بہت ہے۔ ان مضامین میں تخلیقیت اور معروضیت ہے۔ اس کتاب میں موجود شبلی سے متعلق مضامین شبلیات میں ایک اہم اضافہ ہے۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سیدرضا حیدر نے کہا کہ آج کی اس پروقارمحفل میں ہم پروفیسر خالد محمود کی کتاب’ تفہیم و تعبیر ‘پر گفتگو کررہے ہیں۔ آپ کے مضامین اور کتابیں علمی دنیا میں تحسین آمیز نگاہوں سے دیکھی جاتی ہیں۔ پروفیسر خالد محمود جہاں بھی رہے ادارے کا اعتبار بڑھاتے رہے۔مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ کی تاریخ لکھی جائے گی توخالد محمود صاحب کے کارنامے کو یقیناً سراہا جائے گا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کو بھی آپ سے استفادے کو موقع ملتا رہتاہے۔آپ ایک اہم ادیب کے ساتھ ساتھ ایک ہر دل عزیز انسان بھی ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ ہماری ادبی اورسماجی زندگی میں بے پناہ مقبول ہیں۔ اس کتاب میں زیادہ ترمضامین کلاسیکی ادب سے متعلق ہیں۔ غالب کے حوالے سے خالدمحمود کا نقطہ نظر بالکل منفرد ہے۔ مجھے امید ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرے گا۔ اس کتاب کی اہمیت میں اضافہ ہوتاجائے گا۔
اس موقع پر راشد جمال فاروقی نے پروفیسر خالد محمود کاخاکہ پیش کیا،جس میں انہوں نے پروفیسر خالد محمود کے اوصاف پر بھرپور روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر خالد مبشر نے پروفیسر خالد محمود پر ایک طویل نظم پیش کی ۔ انہوں نے اس کتاب پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ شبلی کے ادبی کارنامے پر کتاب میں موجودمضامین معروضی ہیں۔ فوزیہ رباب نے کہا کہ اس کتاب کی زبان اور اسلوب بہت ہی اہم ہیں ۔نہایت صاف وشفاف انداز میں بات کرتے ہیں۔ان کا اصل جوہر کسی شعر کے تجزیے میں کھلتا ہے۔ شبلی سے خالدمحمود کو خصوصی تعلق ہے۔
ڈاکٹر مشتاق تجاروی نے کہا کہ اس کتاب میں متنوع مضامین ہیں۔ یہ کتاب گویا علمی کشکول ہے۔ کتاب میں بڑی بوقلمونی ہے۔ دل نشیں اور جامع اسلوب ہے۔ پوری کتاب فن مضمون نگاری کی عکاس ہے۔ ہر مضمون اپنے آپ میں ایک گلستاں ہے۔ ڈاکٹر ابوبکر عباد نے کہا کہ خالد محمود صاحب خلیق، شفیق اور مشفق انسان ہیں۔خالد محمود صاحب جب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے صدر تھے تو وہ عہد ہر اعتبارسے سنہری تھا۔وہ جہاں رہے کامیاب رہے اور ادارے کو کامیاب کیا۔ اس کتاب کے تمام مضامین اہم ہیں۔اس کتاب میں شبلی کا تقابل غالب سے کیا گیاہے اور یہ نئی دریافت ہے ۔ان کی تحریر میں بھرتی کا ایک لفظ نہیں ہوتا۔ اس موقع پر دہلی کی تینوں یونیورسٹیوں کے اساتذہ ،طلبہ وطالبات اور معززین شہر موجودتھے ۔

Fakhruddin Ali Ahmed Memorial Lecture 2018

نیمی ٹور(کیڑے ،مکوڑے) انسانوں کے لیے سخت نقصان دہ:پروفیسرشمیم جیراجپوری
غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام سالانہ فخرالدین علی احمدمیموریل لیکچر کا جسٹس بدردریز احمدکی صدارت میں انعقاد
نئی دہلی :غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام وزارت ثقافت، حکومت ہند کے تعاون سے فخرالدین علی احمد میموریل لیکچر بعنوان’ انسانوں، جانوروں اور پیڑ پودوں کو شدید نقصان پہنچانے والے خورد بینی کیڑے ‘کا انعقاد کیاگیا، جس کی صدارت جسٹس بدردریزاحمد، سابق چیف جسٹس،جموں وکشمیر نے کی۔ سالانہ فخرالدین علی احمد میموریل لیکچر دیتے ہوئے زولوجیکل سروے آف انڈیا کے سابق ڈائرکٹر اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر محمد شمیم جیراج پوری نے کہا کہ کیڑوں کے بارے میں ہم بہت کم جانتے ہیں حالاں کہ یہ کیڑے ہمیں بہت زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں اور بہت کم فائدہ بھی پہنچاتے ہیں۔کیڑوں کی 37ایسی قسمیں پائی جاتی ہیں، جو انسانوں میں پائے جاتے ہیں اور ان سے ہمیں شدید نقصان پہنچتا ہے۔ ایسے کیڑے ہر جگہ اور ہر زمین میں پائے جاتے ہیں۔ ان سے فصلوں کو بھی بہت نقصان پہنچتا ہے۔ میں نے تیس چالیس برسوں تک ان کیڑوں کا تعاقب کیا ہے۔جوہمیں نظر نہیں آتے ، ان کیڑوں کی وجہ سے سالانہ تقریبا بیس ہزار سے پچاس ہزار تک اموات ہوتی ہیں۔ یہ کیڑے آنکھوں میں بھی داخل ہوجاتے ہیں اور ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں۔ وائرس اور بکٹیریا نیمی ٹور نہیں ہیں۔ میں فخر کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ ہمارے ملک اور اے ایم یو کی اس موضوع پر کافی خدمات ہیں۔اس معاملے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی خدمات فراموش نہیں کی جاسکتیں۔
اس موقع پرغالب انسٹی ٹیوٹ کے ٹرسٹی جسٹس بدردریزاحمد،سابق چیف جسٹس جموں وکشمیر نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ یہ دن میرے لئے کافی اہم ہے، چوں کہ 13 مئی 1905کو میرے والدسابق صدرجمہوریہ ہندفخرالدین علی احمد پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے چھ سال جیل میں گزارے۔ خراب زمانے میں بھی خال خال اچھے لوگ ہوتے ہیں انہیں ہمیں ڈھونڈنا چاہیے۔ آج کا لیکچر سائنسی موضوع پر تھا ایسے موضوعات پر مزید پروگرام ہونے چاہئیں۔ سائنس کو ہم نظر انداز نہیں کرسکتے۔ اسے جاننا ہمارے لیے انتہائی ضروری ہے۔اس ادارے کی طرف سے اس طرح کے پروگرام کا انعقاد خوش آئندہے ۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمان قدوائی نے کہا کہ یہ لیکچر دیگر پروگراموں کی طرح نہیں ہے بلکہ بہت منفرد ہے۔ اس لیکچر کے ذریعہ ہم مرحوم فخرالدین علی احمد صاحب کو یاد کررہے ہیں آج کا یہ لیکچربہت اہم ہے ۔ سائنس کی دنیا ہمیں بتاتی ہے کہ ہم ابھی کتنے پانی میں ہیں۔ یہ زندگی جتنی پراسرار ہے اس کا علم اب تک ہمیں نہیں ہواہے ۔انسان جب سے ہے، تب سے اسرار کا انکشاف ہورہاہے اور یہ سلسلہ نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔ اس طرح کے موضوعات پر مشتمل پروگراموں اور خطبات میں اضافہ ہونا چاہیے۔ ایسے لیکچر کا ہم آئندہ بھی انعقاد کریں گے اور اس لیکچر کوبھی ہم شائع کریں گے۔ شمیم جیراجپوری ،مولانا اسلم جیراجپوری کے صاحب زادے ہیں، جن سے اقبال مشورے کیاکرتے تھے۔پروفیسر جیراجپوری اور بدردریز احمد صاحب اور تمام مہمانوں اور سامعین کا میں شکریہ ادا کرتاہوں کہ آپ نے اس پروگرام میں شرکت کی اوراس پروگرام کو کامیاب کیا ۔
اس موقع پر غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سیدرضا حیدر نے تعارفی اور استقبالیہ کلمات کے دوران کہاکہ یہ لیکچر ملک کے سابق صدر جمہوریہ اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے بانی فخرلدین علی احمد کے یوم پیدائش کے موقع پرہرسال منعقد ہوتا ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے پروگراموں میں یہ لیکچر خصوصی اور مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم آج کے دن کو یوم اتحاد اور یوم سا لمیت کے طور پر بھی مناتے ہیں ۔مجھے یقین ہے کہ جب تک یہ ملک رہے گا اور جب تک اس ملک کی تاریخ رہے گی سابق صدر جمہوریہ کی خدمات کو یادکیاجاتا رہے گا۔ اس لیکچر کی اپنی ایک تاریخی حیثیت ہے۔ بڑی بڑی شخصیات نے یہ لیکچر دیا ہے،جن میں ملک کے سابق وزیراعظم آئی کے گجرال بھی شامل ہیں ۔آج کا موضوع انسانی زندگی سے متصل ومنسلک ہے۔یہ لیکچر غالب انسٹی ٹیوٹ کی تاریخ میں نیااضافہ ہے۔اس جلسے میں بڑی تعدادمیں مختلف علوم وفنون کے لوگ شامل تھے ۔

 

 

 

Udaipur Seminar

موجودہ دور میں غالب جیسے بڑے شاعر کو یادکرنا بے حد ضروری ہے :ڈاکٹر گرجا ویاس۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام وزارتِ ثقافت ،حکومتِ ہند اور ادبی سنگم، اودے پور کے زیرِ اہتمام اودے پور کا اہم ادبی، ثقافتی مرکز کمبھا سبھا گار میں غالب کا تصورِ نشاط و غم کے عنوان سے۵،۶ مئی کو دودنوں کا قومی سیمنار منعقد کیا گیا ۔اس سمینار کی صدارت کرتے ہوئے سابق مرکزی وزیر ڈاکٹر گرجا ویاس نے فرمایا کہ پوری دنیا میں ہمارے ادیب و شاعر غالب پر لکھ رہے ہیں اور گفتگو بھی کر رہے ہیں مگر آج بھی ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ اب بھی غالب کی شاعری پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ جب میں طالبِ علم تھی تو میں نے دیوانِ غالب کو پڑھنے کے لئے اپنی کلاس تک چھوڑ دیتی تھی ۔ہم جیسے سیاست دانوں کو بھی ہر وقت غالب کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم جب بھی پریشانیوں میں مبتلا ہوتے ہیں تو غالب کو اپنے سے قریب پاتے ہیں ۔غالب نے اپنے عہد ہی میں نئے ہندوستان کی تصویر دیکھ لی تھی جس کا اظہار وہ اپنے خطوط اور شاعری میں برابر کرتے ہیں۔آپ نے مزید کہا کہ جب بھی میں دیوانِ غالب کا مطالعہ کرتی ہوں تو میرا یہ جی چاہتا ہے کہ میں اس دیوان کو پڑھتے پڑھتے ہی اس دنیا سے نکل کر دوسری دنیا میں چلی جاؤں۔ راجستھان کے معروف ماہرِ تعلیم اور سائنس کے پروفیسر جے کے تاء لیہ نے فرمایا کہ غالب کے کلام کو پڑھنا ہم اپنے لئے باعثِ عزت سمجھتے ہیں۔ اپنے ذاتی تجر بات کو بیان کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ جب ہم کالج میں غالب کو پڑھتے تھے تو ہمیں یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ غالب کس مذہب سے تعلق رکھتے تھے بس ہم اتنا جانتے تھے وہ ایک عظیم شاعر تھے اور ہر وقت ہماری زندگی کے قریب تھے ۔آج کی نوجوان نسل موڈرن ٹیکنولوجی سے وابستہ ہے مگر غالب کے اشعار کو پڑھنا اپنے لئے باعثِ فخر سمجھتی ہے۔ سمینارکا کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے الہ آباد یونیورسٹی کے پروفیسر علی احمد فاطمی نے کہا کہ ’’غالب مشکل ، نازک اور پیچیدہ شاعر تھے، اُن کی زندگی تضادات و تصادمات کا شکار رہی اور یہی تضادات اُن کی شاعری میں بھی نظر آتے ہیں۔اُن کے یہاں غم بھی ہے نشاط بھی ، اُن کے یہاں ماضی کا کرب بھی ہے اور مستقبل شناسی بھی ،غالب کے یہاں مسجد بھی ہے اور کلیسا بھی ،مشرق بھی ہے اور مغرب بھی ، غالب کے یہاں انتشار و اضطراب کا ایک سیلاب ہے لیکن وہ اس کو اپنے مخصوص تخلیقی وجدان میں ڈھال کر تصورِ نشاط و جمال میں بدل دیتے ہیں۔
معروف دانشور ریاض تحسین نے فرمایا کہ ’’اودے پور کی سر زمین پر پہلی مرتبہ اتنے بڑے پیمانے پر غالب کو یاد کیا جا رہا ہے اس کے لئے میں غالب انسٹی ٹیوٹ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر رضا حیدر نے اپنے استقبالیہ کلمات میں فرمایا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ کے مقاصد میں یہ بھی ہے کہ ہم ملک کے مختلف شہروں میں غالب کو یاد کریں ،اودے پور میں غالب کو یاد کرنے کا مقصد اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔موجودہ دور میں غالب کو یاد کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ غالب ہماری تہذیب ،ہمارے ادب اور ہماری ثقافت کا ایک بڑا سمبل ہے لہذا ہماری کوشش ہوگی کہ ملک کے ہر شہر میں غالب کو یاد کرکے اس عظیم شاعر کو خراجِ عقیدت پیش کریں۔
سمینار کی کنوینر اور اہم ناول نگار ڈاکٹر ثروت خان نے پورے جلسے میں نظامت اور اظہارِ تشکر کا فریضہ انجام دیتے ہوئے کہا کہ اودے پور جیسے تاریخی اور ثقافتی شہر میں ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کے ذریعے غالب کو خراجِ عقیدت پیش کرنا ہمارے لئے کسی خواب سے کم نہیں ہے جب بھی اودے پور کی ثقافتی تاریخ لکھی جائے گی مورخ اس جلسے کا ذکر ضروری کرے گا جس کے لئے ہم غالب انسٹی ٹیوٹ کے ہمیشہ شکر گزار رہیں گے۔
اس افتتاحی اجلاس کے اختتام سے پہلے ممتاز غزل سنگر پروفیسر پر یم بھنڈاری نے غالب کی خوبصورت غزل گا کر ماحول کو خوش گوار بنایا۔ ۶ مئی کو صبح ۱۰ بجے سے شام ۶ بجے تک سمینار کا ادبی اجلاس منعقد کیا گیا جس میں ڈاکٹر خالد علوی، ڈاکٹر حسین رضا حان، ڈاکٹر محمد حسین،ڈاکٹر تسنیم خانم،ڈاکٹر شاہد پٹھان،ڈاکٹر حسن آرا، ڈاکٹر شبنم خان،ڈاکٹر سعید روشن،ہریش تلریجا،ڈاکٹر شیبا حیدر ،ڈاکٹر شہناز یوسف،ڈاکٹر ثروت خان ، محمد شاہد زیدی، محمد شاکر کے علاوہ مختلف اساتذاہ نے موضوع کے تعلق سے مقالہ خوانی کی۔خصو صاً ڈاکٹر خالد علوی نے جلسے کی صدارت اور مقالہ خوانی میں نہایت ہی پُر مغز اور علمی گفتگو کی ۔اختتامی اجلاس میں جگمال سنگھ ،(مہاراول،بانس واڑا) پروفیسر جے کے تاء لیہ،پریتا بھارگو(ڈی، ائی، جی ) ،پرسنّا کھمیسرا( ڈی، ائی، جی) اور مشتاق چنچل نے اظہارِ خیال کیا ۔ان دو دنوں کے جلسوں میں اودے پور کی اہم سیاسی ،سماجی شخصیات کے علاوہ بڑی تعداد میں اساتذاہ ، صحافی،ڈاکٹرس کے علاوہ مختلف علوم و فنون کے اہلِ علم موجود تھے۔

मिर्जा गालिब पर दो दिवसीय सेमीनार

गालिब इंस्टीट्यूट नई दिल्ली, मिनिस्ट्री ऑफ कल्चर भारत सरकार एवं अदबी संगम उदयपुर के संयुक्त तत्वावधान में गालिब का तसव्वुर ए निशात ओ गम विषयक दो दिवसीय राष्ट्रीय सेमिनार सरदारपुरा स्थित कुंभा भवन में प्रारम्भ हुई। इस अवसर पर इंस्टीट्यूट के निदेशक रज़ा हैदर ने बताया कि गालिब और उनकी शेरो-शायरियों को घर-घर पहुंचाने एवं आज के युवाओं को उनके व्यक्तित्व व कृतित्व से रूबरू करवाने के उद्देश्य से यह इंस्टीट्यूट देश के विभिन्न शहरों में ऐसे आयोजन करता है। उसी कड़ी में उदयपुर में भी आज से यह दो दिवसीय सेमीनार प्रारम्भ हुई है। मौजूदा वक्त मे गालिब को समझना बेहद जरूरी है। इसलिये कि गालिब हमारी सांझी विरासत व मिली-जुली तहज़ीब का सबसे बड़ा सिम्बल है।

https://udaipurtimes.com/hindi/city-news/seminar-on-mirza-ghalib/

English Hindi Urdu