غالب کی شاعری میں زندگی کے مختلف رنگ اور کائنات کو سمجھنے کے مختلف زاویوں کو جس طرح تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس کی مثال دوسرے کسی شاعر کے یہاں نہیں ملتی۔ نفی و اثبات انسانی زندگی کے ایسے رویے ہیں جن کے وسیلے سے بھی بہت سے آفاقی حقائق کا انکشاف ہوتا ہے۔ اس کائنات کی موجودگی خود میں نفی بھی ہے اور اثبات بھی۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے 13-14- 15 مارچ 2022 کو ایک بین الاقوامی سمینار کا انعقاد اس غرض سے کیا گیا کہ غالب کی شاعری میں ‘نفی و اثبات’ کی مختلف شکلوں کو تلاش کیا جائے۔ زیر نظر کتاب اسی مقالات میں پیش کیے گئے مقالات ک مجموعہ ہے۔
ghalib institute
اُردو نثرکی تاریخ میں غالب کا عہد
پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی
(پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی اردو کے بزرگ استاد اور مستند نقاد ہیں۔ انھوں نے دہلی یونیورسٹی اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں طویل مدت تک درس و تدریس کے فرائض انجام دیے. پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی کی تحریروں میں ٹھہراؤ، مسائل کی سنجیدگی اور اس کی بنیادوں کو تلاش کرنے کا طریق سب سے زیادہ متاثر کن وصف ہے۔ یہ مضمون عہد غالب کی نثر اور نثر کے ارتقا پر بحث کرتا ہے۔ عام طور پر جدید نثر کی بنیادی شناخت کے سلسلے میں ذہن صاف نہیں ہیں۔ اُردو نثر کی تاریخ میں غالب کے عہد کے مطالعے کامقصد ان اسباب کی شناخت کرنا ہے جنہوں نے اس عہد کی نثر کی زبان اور اسالیب کی ساخت اور ان کے ارتقا کے رُخ کو متعین کرنے میں حصہ لیا۔ غالب کے عہد سے مراد غالب کاپورا عرصۂ حیات ہے۔ اس مضمون سے ان اسباب پر روشنی پڑتی ہے جنھوں نے اردو نثر کے رخ کو بدلا اور اس کی ساخت کو متعین کیا۔)
اُردو نثرکی تاریخ میں غالب کا عہد
غالب کے عہد کے بارے میں سیاست، معاشیات اور تاریخ کے زاویے سے بہت کچھ لکھا جاچکاہے۔ ان کی ہم عصر ادبی شخصیات اور ان کے کارناموں پر بھی اہم تحقیقی کام ہوا ہے، مگر تاریخِ ادب کے نقطۂ نظر سے اس عہد کے اردو ادب پر کم اور اردو نثر پر اور کم توجہ دی گئی۔ چنانچہ غالب کے دور کی ادبی اہمیت کا کوئی مربوط اور جامع تصور ابھی تک ہمارے سامنے نہیں۔ ادب میں نمودار ہونے والی عہد بہ عہد تبدیلیوں کے اسباب کا ذکر بس عمومی اور سرسری طور پر ملتا ہے، جوبسا اوقات خود ادب سے غیر متعلق ہوتا ہے۔ کتابوں میں سیاسی و سماجی پس منظر کے عنوانات کے تحت صفحات کا اضافہ تو ہوا مگر یہاں بھی محض تاریخ و تہذیب کی معروف کتابوں کے بیانات کو دہرا دینے پر ہی اکتفا کر لیا گیا اور ادب کی سماجی تبدیلیوں کے رشتوں اور ان رشتوں کی پیچیدگیوں کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ تاریخ ادب کے ادوار کاذکر عام طور سے ملتا ہے مگر یہ ذکر جدید اور قدیم کے تصوّر سے بالکل عاری ہوتا ہے۔ اس مفروضے کی بنا پر کہ سادہ اور سلیس نثر کا پایا جانا ہی جدید نثر کا نقطۂ آغاز ہوسکتا ہے، فورٹ ولیم کالج کو اس کی پہلی کڑی مان کر غالب کو اور پھر سرسیّد کو اس سے جوڑ دیا گیا، اور یہ سمجھا جانے لگا کہ فورٹ ولیم کالج کی نثر سے غالب متاثر ہوئے اور غالب کی نثر سے سرسید؛ جب کہ اس کی کوئی شہادت نہیں ملتی۔ یہ بھی کہا گیا کہ فورٹ ولیم کالج ایک جزیرہ تھا جس نے ہندستان میں فروغ پانے والی ادبی اقدار سے نہ کوئی اثر لیا اور نہ اس کا کوئی اثر اوروں پر پڑا۱۔ یہ سب تصورات ادھوری سچائیوں پر تکیہ کرتے ہیں۔ تاریخ کے تسلسل اور ارتقا کو دریافت کرنے کی کوشش کا پتا تو دیتے ہیں مگر ایک عہد سے دوسرے عہد تک روایت میں تبدیلی کے عمل پر روشنی نہیں ڈالتے، جس کی بنا پر ادبی تاریخ کے سارے رشتے بظاہر میکانکی معلوم ہونےلگتے ہیں۔
اگر ہم سادہ اور سلیس نثر کو جدید نثر مان لیں توپھر نثر کا جدید دور فورٹ ولیم کالج سے کیوں شروع کیا جائے، ملّا وجہی کی سب رس سے کیوں نہ مانا جائے اور پھر قصۂ مہر افروز و دل بر کو جدید نثر کا نمونہ مان لینے میں کیا قباحت ہے۔ یعنی جدید نثر ہمارے ہاں روز اوّل سے موجود تھی۔ اگر صنعت گری اور قافیہ اور سجع کو قدیم نثرکا بنیادی وصف مان لیں تو فورٹ ولیم کالج کے مصنفین اور غالب دونوں کے ہاں صنعتوں کی نہ صرف کمی نہیں بلکہ وہ ان کااستعمال اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق نہایت فن کارانہ طورپر کرتے ہیں۔ توپھر انہیں قدیم کیوں نہ مانا جائے۔ اور اگر یہ مان لیاجائے کہ فورٹ ولیم کالج ہندستان کی ادبی فضا میں ایک جزیرے سے زیادہ نہیں تھا تو رجب علی بیگ سرور نے میر امن کے طرز کو اپنے لیے ایک چیلنج کے طورپر کیوں قبول کیا اور اس کا جواب فسانۂ عجائب کی شکل میں دینا کیوں ضروری سمجھا۔ ان کے علاوہ اس طرح کے بیانات کہ “اگر مرزا کے لیے ممکن ہوتا تو وہ یقینا ناول کا فن اختیار کرتے۔ مگر ناول کا ان کے سامنے کوئی نمونہ موجود نہ تھا۔ پس انہوں نے خطوط کو ذاتی اور عصری تجربات کے اظہار کا ذریہ بنایا۲۔ “غالب کی ادبی شخصیت اور ان کے عہد پر روشنی ڈالنے کی بجاۓ انہیں خود اپنی خواہشات کے دُھندلکوں میں لا کر کھو دیتے ہیں۔
اُردو نثر کی تاریخ میں غالب کے عہد کے مطالعے کامقصد ان اسباب کی شناخت کرنا ہے جنہوں نے اس عہد کی نثر کی زبان اور اسالیب کی ساخت اور ان کے ارتقا کے رُخ کو متعین کرنے میں حصہ لیا۔ غالب کے عہد سے مراد غالب کاپورا عرصۂ حیات ہے۔ غالب کی ادبی تخلیقات کا سلسلہ ظاہر ہے کہ ان کے روز ولادت سے شروع نہیں ہوا۔ اور نہ اُردو نثرکی تاریخ میں 1797 اور 1869 کی بجز اس کے کہ وہ ایک عظیم ادبی شخصیت کی ولادت و وفات کی تاریخیں ہیں کوئی اور اہمیت ہے۔ غالب کی پہلی نثری تحریر جس دن بھی ظہور میں آئی ہو، انہوں نے جس قسم کی نثر لکھی اس کو وجود میں لانے والے عناصر اٹھارہویں صدی کے اواخر اور غالب کی ولادت سے پہلے نمایاں ہونے لگے تھے۔ ان عناصر نے اُردو ادب پراپنے اثرات مختلف صورتوں میں ڈالے ہیں جن میں سے ایک صورت وہ ہے جس کی نمایندگی غالب کے خطوط کرتے ہیں، مگر غالب کے خطوط میں یہ عناصر اتنے ڈھلے ہوئے، اتنے ترشے ہوئے ہیں کہ غالب اوروں پر چھا جاتے ہیں اور خود اپنے عہد کے ادبی کلچر کے عروج کی علامت بن جاتے ہیں۔ غالب کے عہد کےایک سرے پر اگر میرامن ہیں تو دوسرے سرے پر سرسید، حالی، آزاد اور نذیر احمد اور درمیان میں انشاءاللہ خاں، رجب علی بیگ سرور اور قدیم دہلی کالج کے مصنفین۔ ہماری سیاسی اور تہذیبی تاریخ کی طرح اُردو نثر کی تاریخ میں بھی غالب کا دور عبوری دور ہے۔ چنانچہ یہ بات قابلِ غور ہے کہ یہ عبوری منزل کس طرح آئی اور پھر کیسے سرہوئی۔ اُردو نثر ‘قدیم’ سے ‘جدید’ کس طرح بنی۔
عہدغالب کی تہذیبی زندگی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس وقت ہندستان کی بہت سی زبانیں جوآج جدید زبانیں کہلاتی ہیں، اپنے ارتقا کی ایک ایسی منزل میں پہنچ رہی تھیں جہاں وہ اس خلا کو پُر کرسکیں جو کلاسیکی زبانوں کےاثرمیں کمی واقع ہونے سے پیدا ہو رہا تھا۔ ان زبانوں کے نقش توبارہویں تیرہویں صدی سے ملتے ہیں مگر ان کی تیز رفتار ترقی کا زمانہ عہدِ مغلیہ اور خصوصاً اُس کا عہدِ زوال ہے۔ اس زمانے میں دہلی کی مرکزیت کے کمزور ہونے سے سیاسی طورپر خود مختار علاقائی وحدتوں میں وہ طبقے ابھرنے شروع ہوئے جو علاقائی تہذیبوں کے حامل تھے۔ چنانچہ یہی وہ زمانہ ہے جب مصوّری، موسیقی، رقص، فنِ تعمیر غرض کہ ہر شعبے میں علاقائی اسکولوں کے طرز ظہور میں آنے لگے، یہ لوگ سنسکرت اور فارسی سے زیادہ اپنی علاقائی زبانوں سے وابستگی رکھتے تھے جو ان کی شناخت کی علامتیں بھی تھیں۳۔ اُردو زبان بھی اس تاریخی عمل سے متاثر ہوئی۔ اس وقت کے ہندستان میں کسی بھی قومی زبان کے لیے فارسی کی جگہ لینا ناممکن تھا۔ فارسی اس وقت ایشیا کے مختلف ملکوں کے درمیان علمی، سیاسی، ثقافتی اور مذہبی رابطے اور تبادلۂ خیال کی زبان تھی اور پڑھے لکھوں کی سماجی حیثیت ان کے فارسی میں علم و استعداد سے ہی متعین ہوتی تھی۔ اس کی بدولت سرکار و دربار میں اعلا مراتب بھی مل سکتے تھے؛ عام لوگوں میں وقاربھی اور صلاحیت ہوتو ہندستان سے باہر شہرت بھی۔ مگر فارسی کا اثر کچھ تو ہندستان کے مرکزی نظام کی برہمی کے ساتھ اور کچھ خود فارسی زبان کو پروان چڑھانے اور مقبول بنانے والے خطّے یعنی ایران کے پچھڑ جانے کے سبب کم ہورہا تھا کیوں کہ اب وہاں کے لوگ اُسے پہلے کی طرح ہر لحظہ تازہ تر علمی، فنّی اور فکری خزانوں سے مالامال نہیں کر رہے تھے۔ عالمی تہذیب کے نئے مراکز مشرق سے مغرب کی طرف منتقل ہورہے تھے۔ فارسی اب اُن سرچشموں سے دور ہوتی جارہی تھی جو کبھی اُسے سیراب کرتے رہے۔ پھر وہ ہندستان میں بہرحال ایک بیرونی زبان تھی اور اس کا سکّہ یہاں کے پڑھے لکھے اور بااثر طبقے میں چلتاتھا۴۔جب اس طبقے کا اثر ختم ہونے لگا تو نئے طبقے اُبھرے جن کی زبانیں غیر ترقی یافتہ تھیں اور ان زبانوں کو زندگی کی مختلف سطحوں پر پھیلنے اور بڑھنے کا پورا موقع ملا۔ مگریہ بھی ممکن نہ تھا کہ کوئی نئی زبان اچانک کسی ترقی یافتہ اور مقبول زبان کی جگہ حاصل کرلے۔ چنانچہ شمالی ہندستان کی زبانوں نے خصوصاً اردو نے جو دہلی اور اس کے نواح کی زبان ہونے کے باعث سارے ملک کے بڑے شہروں اور راجدھانیوں میں بولی اور سمجھی جاتی تھی فارسی زبان و ادب کے قابلِ قبول اقدار و عناصر کو جذب کرنا شروع کیا اور عام بول چال کی سطح سے ادبی علمی اور رسمی استعمال کی سطح تک پہنچنے کے لیے اپنا زور اور دباؤ بڑھانے لگی۔ رسمِ خط، آوازیں، اصولِ شعریات، اصناف، پیرایہ ہاے اظہار، الفاظ، تلمیحات وغیرہ اردو زبان نے فارسی سے لے کر اپنے علاقائی جینئیس کے مطابق ڈھال لیے اور اس طرح ایک تغیر پذیر تہذیبی فضا کے ساتھ ساتھ ایک نیا ادبی ماحول تشکیل پانے لگا۔ دوسری ہندستانی زبانوں کے ساتھ اُردو زبان کے فروغ کا یہ عمل 1857 کے بعد پھر دھیما پڑگیا۔ کیوں کہ اب ایک اور ترقی یافتہ زبان انگریزی جوکہ عہد وسطا کی فارسی سے بھی زیادہ قوت رکھتی تھی، برطانوی سامراج کے جلومیں ہندستان آئی اور تیزی کے ساتھ چھاگئی۔ غالب کا عہد تبدیلی کے اسی عمل سے گزر رہاتھا۔ ملک کے مختلف خطّوں میں اردو میں تصنیف و تالیف اور تراجم کی سرگرمیاں اس تبدیلی کی نشان دہی کرتی ہیں۔ اُردو ادب میں اٹھارہویں صدی کے آخر تک فارسی ادب کے اثرات نمایاں اور اُنیسویں صدی میں کم ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اُنیسویں صدی کے ابتدائی برسوں سے ہی انگریزی زبان اور ادب سے آشنائی کی شہادتیں ملنے لگتی ہیں اور اس کے بعد انگریزی سے استفادے بلکہ مرعوبیت کے واضح نشانات بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ نوطرزِ مرصّع فارسی کے بوجھ سے ہلکان ہونے کے باوجود ایک ایسی ادبی منزل کی نشان دہی کرتی ہے جب اس کا مصنف، جو پہلے محض فارسی میں لکھا کرتا تھا۔ اب خود کو اس بات پر آمادہ پاتا ہے کہ بقول اپنے اس ‘کندۂ نا تراش’ کو خراد پر چڑھا کر شرفا کی مجلسوں میں باریاب ہونے کے قابل بنائے۔ تحسین کو اس کا علم نہیں کہ اُن سے پہلے سب رس، کربل کتھا اور مہرافروز دلبر کا قصہ لکھا جا چکاہے۔ چنانچہ انہوں نے اس کا دعوا کیا کہ ان سے پہلے “کوئی موجد اس ایجاد تازہ کا نہ ہوا۔” اس دور کے شاعروں کی طرح بیشتر نثر نگاروں کے سوانح سے بھی یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان کے آباو اجداد دودمانِ تیموریہ یا اس کے قبل سے حکمرانوں کی ملازمت میں ہندستان آئے۔ مقرب بارگاہ ہوئے۔ اونچے مرتبے اور خطابات سے سرافراز ہوئے، جاگیریں پائیں اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ان کا خاندان فلکِ کج رفتار کی گردش کی بدولت دربدر ہوا پھرمدتوں بعد کسی نواب وزیر کی عمل داری میں صاحبانِ والاشان، کی سرپرستی سے دن پھرے اور کرم فرماؤں کی خواہش، اپنی ضرورت اور ساتھ ہی ساتھ طبیعت کی جولانی نے اُردو زبان میں داستان یا کوئی اور کتاب لکھنے کی طرف راغب کیا۔ چنانچہ یہ محض اتفاق نہیں کہ جب مغل سلطنت اور اس کے ساتھ عہد وسطاکی تہذیب زوال پذیر ہوئی تو اسی افراتفری نے ان قوتوں کو بھی جنم دیا،جو مستقبل میں فروغ پانے والی تھیں۔ دوسری ہندستانی زبانوں کی طرح اُردو بھی انھی میں سے ایک تھی۔
تحسین ہی کے ہاں نہیں اس عہد کے تمام مصنفین کے ہاں فارسی ادب کی روایات کسی نہ کسی لحاظ سے ایک مثالی حیثیت رکھتی ہیں۔ میرامن سے غالب تک سب ہی کی نثرمیں اس کے واضح نقوش ملتے ہیں۔ خود غالب، رجب علی بیگ سرور کے طرز کے مداحوں میں تھے۔ چنانچہ بول چال کی نثرنہ صرف فارسی آمیز نثرکے دوش بدوش موجود تھی بلکہ وہ فارسی انشا پردازی کی روایت سے بھی خاصی متاثر تھی۔ پیچیدہ اور دقیق طرز فرصت و فراغت رکھنے والے طبقوں میں مقبول تھااور یہ گنجلک انداز آج بُرا نہیں بلکہ اہلِ مذاق کی صلاحیتوں کو جانچنے کاپیمانہ تھا۔ عام بول چال کی زبان میں علم و ادب کی ضروریات کوپورا کرنے والی روایات ابھی تھیں ہی نہیں۔ لہٰذا اس نے فارسی کا سہارالیا۔ مگر وہ اس سہارے کے ساتھ ہی خود اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کر رہی تھی اور اس کے لیے اُسے اپنی ہی زمین سے قوت بھی حاصل ہورہی تھی۔چنانچہ نوطرزِ مرصع اور فسانہ عجائب جیسی کتابیں آج اپنے اسلوب کی دقتوں کی بناپر کتنی ہی فارسی آمیز ہوں، یہ ہماری تاریخِ ادب کے اس عبوری دورکی شہادتیں ہیں جب نثر کی روایات ایک سیال حالت میں نمودار ہونا شروع ہوئی تھیں۔ تاریح کے پورے تناطرمیں دیکھا جائے تو تحسین، میرامن، غالب، سرور، دہلی کالج اور بعدمیں سرسیّد احمد خاں کی تحریک نثر کی ایک ہی سفرکی مختلف مگر باہم مربوط منزلیں ہیں۔
نثرمیں سادہ اور سلیس طرز کا ارتقا جوپہلے رُک رُک کر ہو رہا تھا انیسویں صدی کے وسط سے تیز رفتار ہوگیا۔اب اس کے راستے سے نہ صرف رکاوٹیں دور ہورہی تھیں بلکہ اُسے فروغ دینے والے نئے نئے اسباب بھی پیداہورہے تھے۔ اب سادہ طرز خلّاق ذہنو ں کے لیے ایک چیلنج بن گیاتھا۔ ہمارے شاعر اس آزمایش سے بہت پہلے کامیاب گزر چکے تھے۔نثر میں یہ منزل بہت دیر سے آئی۔ اتنی دیر سے کہ جس وقت اردو شاعری میروسودا جیسے باکمالوں پر فخر کرسکتی تھی اردو نثر محض عطاخاں تحسین تک ہی پہنچی تھی۔ خود تحسین نے نوطرزمرصع میں جا بجا سودا کے اشعار پروکر نثر و نظم کے ارتقائی مدارج کے درمیان خلیج کو عیاں کردیاہے۔مگر اس عہد کی اردو شاعری سے اس زبان کی لچک اور قوتِ نموکابھی اندازہ ہوتاہےا ور یہی وجہ تھی کہ جب برطانوی سامراج نے سوداگری سے ملک گیری کی منزل میں قدم رکھاتو ان کی سیاسی حکمتِ عملی کے خاکے میں اس زبان کو بہت اہمیت دی گئی۔ اس زمانے کے یورپی تاجروں، سیّاحوں، مسیحی مبلّغوں اور مہم جو نوجوانو ں نے اپنی تصانیف میں باربار اس حقیقت کاانکشاف کیاہے کہ ہندستان کے ہر علاقے میں اس ایک زبان سے کام چل جاتاتھاجوان کی اصطلاح میں ’ہندستانی تھی‘۔ گل کرسٹ نے جب1828 میں سورت کی بندرگاہ سے کلکتہ تک کا سفر کیاتو اُسے جو مشترک زبان ہرجگہ ملی اس کا بہترین نمونہ اس کے نزدیک کلیات سودا تھی۔ فورٹ ولیم کالج اور اس کی نثر اسی لسانی اور ادبی صورت حال کے ادراک کاپتا دیتی ہے۔ ہماری تاریخ ادب میں فورٹ ولیم کالج کے بارے میں ادبی مورخوں نے اب تک جو کچھ لکھا ہے وہ اس مفروضے پرمبنی ہے کہ سادہ اور سلیس بلکہ جدید نثر فورٹ ولیم کالج کی ایجاد ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ فورٹ ولیم کالج نے ایک تہذیبی عمل کی جو عرصے سے جاری تھا واضح شہادت دی، اُسے تسلیم کیا اور اپنے ذرائع اور وسائل کی بدولت نہایت منظم طورپر اس کاعملی اظہار کیا۔ کالج کے مقاصد میں ادب کی خدمت کرنانہیں بلکہ سامراجی مقاصد کے حصول کے لیے ہندستانیوں کی ایک بڑی تعداد سے رابطے کا وسیلہ دریافت کرنا تھا۔ اس صورت حال کواُس عہد کے سب ہی لوگ تسلیم کررہے تھے۔ انشا کی رانی کیتکی کی کہانی کی زبان محض ان کی ندرت پسندی اور طباعی کانتیجہ تھی اور کسی عہدمیں بھی نہ رائج تھی نہ رہ سکتی تھی مگر اس طرح کا تجربہ خود اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتاہے کہ ایک تغیر پذیر لسانی صورت حال کو سب ہی ذہین تخلیق کار کسی نہ کسی طورپر دیکھ رہے تھے اوراپنے اظہارکے لیے نثر کے ایک ایسے طرز کی طرف آنے کی کامیاب یاناکام کوشش ضرور کر رہے تھے جس کی اساس عام بول چال کی زبان ہو۔زبان کے اس نئے طرز کے زیادہ حقیقت پسندانہ ادراک کااندازہ انشاہی کی 'دریاے لطافت' کے ان صفحات سے ہوتا ہے جہاں انہو ںنے اپنے عہد کی زبان کا تجزیہ زیادہ وضاحت سے کیاہے۔ ان کے علاوہ فقیر محمد گویا، غلام غوث بیخبر، غلام امام شہید اور دوسرے چھوٹے بڑے مصنفین کے ہاں بھی اسی طرز کی نثر نظر آتی ہے جو ادبی اعتبار سے میرامن اور غالب کے پائے کے نہ سہی،مگر تاریخِ ادب کے نقطہ نظر سے ان کی اس اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ وہ اس تیز رفتار سفرکے نقوش و آثارہیں اور گواہی دیتے ہیں کہ نثرکایہ طرز اچانک نہیں ابھرا اور نہ کسی خاص فردیاتحریک کی ایجاد تھابلکہ یہ ایک تاریخی تقاضا تھاجسے اس عہدکاہر ادیب، خواہ وہ کہیں ہو اور کسی بھی مقصد کے تحت لکھ رہاہو، اپنی نگارشات کے ذریعے تسلیم کرتاتھا۔
اس دورکاایک اہم اور انقلاب آفریں واقعہ پرنٹنگ پریس کا استعمال ہے۔ اس سے پہلے ادب کی رسائی صرف صاحبِ استطاعت لوگوں تک تھی۔ پرنٹنگ پریس نے ادبی تخلیقات کو اس نئے اور بڑھتے ہوئے متوسط طبقے تک پہنچا یاجو انیسویں صدی میں تیزی کے ساتھ فروغ پانے لگا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو زندگی کی آسایشوں کے لیے بڑی بڑی جایدادوں یا سرکار دربار کی سرپستی پر زیادہ انحصارنہیں کرتے تھے۔ انہیں اُن نئے پیشوں کی کشش کھینچ رہی
تھی جو انگریز سرکار اور اس کے لائے ہوئے تاجرانہ اور صنعتی نظام کے طفیل وجود میں آرہے تھے اور جن کے لیے نئی قسم کی استعداد رکھنے والے لوگ درکار تھے۔ادب کے نئے قارئین اباسی طبقے سے اُبھر رہے تھے۔ انگریزوں کی سرپرستی میں نئی تعلیم نے اس طبقے کونہ صرف سہارا دیا بلکہ اُن پر علم و ادب اور فنون کی ایک نئی دنیا کے دروازے کھول دیے۔ چنانچہ اب ایک ایسی زبان اورایسے طرز کانشو و نماپانالازم ہوگیاجو نہ تو محض کسی دربار کی رونق ہوکر رہ جائے اور نہ صرف ’صاحبانِ نوآموز‘ کی درسی ضرورتوں تک محدود ہو۔اب وہ زبان درکار تھی جو روز مرّہ کی بول چال میں بھی کام آسکے اور علم و ہُنر کی ان جہتوں اور افکار و خیالات کی ان بلندیوں اور گہرائیوں کوبھی ناپ سکے جومغرب سے رابطے کے نتیجے میں نئے نظام کی بدولت وجود میں آ رہے تھے۔اردو زبان کی راجدھانی دہلی عملاً 1830 میں انگریز کے قبضے میں آچکی تھی اور دہلی کی زندگی میں یہ عناصراپنے قدم جماتے چلے جارہے تھے جو دہلی کالج میں اپنے نقطہ عروج کو پہنچے۔ 1830 اور 1857 کے درمیان کی دہلی پرایک طرف ایک سورج کے ڈوبنے کی سُرخی تھی تو دوسری طرف ایک نئے اُبھرنے والے طبقے کی امیدوں کاسویرابھی جھلک رہاتھا۔ یہ امیدیں پوری ہوئیں یا نہیں، تفصیلی بحث کاتویہاں موقع نہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ اس عہدکے اُردو ادب پر اس فضا کا بہت گہرااثر پڑا۔ اور افردو نثرکے سادہ و سلیس طرز کے رواج میں بھی اس نئے شعور کا بڑا دخل ہے۔ غالب کے اردو مکاتیب کے ظہورمیں آنے سے بہت پہلے 23 مئی 1941 کودہلی اُردو اخبارمیں ایک مکتوب نگار ’محمد‘ کایہ خط قلعہ معلّی کے حالات کے بارے میں نظر آتاہے۔
”کہتے ہیں کہ مختارِ نوتجربہ کار اور بظاہر نام مرزا شاہ رُح بہادرکا لیکن ایک حکیم جواب معالج حضور والاکے۔ اور دوایک لڑکے راجا جے سُکھ راے کے اور کوئی ملّا زادہ جو حافظ کرکے مشہورہے، اور چند حواشی اس قسم کے مجتمع ہیں۔جو چاہتے ہیں سوکرتےہیں۔ اموراتِ سلطنت میں اب یہ لوگ اختیار تام رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ طبیب نبض دیکھنی جانے، قارورہ پہچانے، بنیا مہاجن دکان داری جانے ۔ ملّا زادہ لڑکے پڑھنے پڑھانا جانے،اموراتِ مہمات سلطنت سے ان کو کیا نسبت۔ جب یہ لوگ مدارِ سلطنت ہوں تو کیا حال ہووے؟“(5)
مقدمہ شعروشاعری اور تہذیب الاخلاق سے بہت پہلے ستمبر 1847 میں خیر خواہ ہند کے صفحات پر اور اس کے بعد فوائد الناظرین کے شماروں میں ماسٹر رام چندر اُردو شعروادب پر سماجی اثر پذیری کے نقطہ نظر سے بہت تفصیل کے ساتھ تنقیدی مضامین لکھ چکے تھے۔ مکتوب نگاری کے بارے میں بھی ان کاایک مضمون 1849ءمیں شائع ہواتھاجس میں انہوںنے خط کو ’نائب وخلیفہ تقریرکا‘ کہا تھااور مکتوب نگاری کے رائج طرز پر کڑی تنقید کی تھی۔ اسی کو دیکھ کر پنڈت برج موہن کیفی کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ غالب نے سادہ اندازمیں خطوط لکھنے کا خیال ماسٹر رام چندر سے ہی لیا ہوگا۔ (6) دراصل ہمارے ہاں ادبی تاریخ سے متعلق غلط فہمیوں کاایک سبب ہماری ہیروپرستی بھی ہے۔ ہم غالب یا کسی اور عظیم شخصیت کی عظمت کو ان کے عہدکی تہذیبی تاریخ کے تناظر میں دیکھنے کی بجاے ہر اچھی بات کو اُن سے غلط یا صحیح منسوب کردیتے ہیں۔ غالب کی عظمت کاانحصاراس پرہرگز نہیں کہ انہوں نے سادہ طرز میں خطوط لکھنے میں پہل کی۔ کیونکہ یہ سب تو ان سے پہلے موجود تھا مگر اس کے باوجود غالب کی تاریخی اور ادبی اہمیت کم نہیں ہو سکتی۔ اُردو نثر کی تاریخ کے نقطہ¿ نظر سے اس زمانے کاایک اور اہم عنصر صحافت ہے۔ پرنٹنگ پریس کی بدولت اُردو صحافت وجودمیں آئی۔ صحافت نے بھی بڑی تیزی کے ساتھ فروغ پایااور تھوڑے ہی عرصے کے اندر ملک کے ہر بڑے شہر سے جرائد نکنے لگے۔ صحافت کاایک تقاضا تو یہ ہے کہ بڑے سے بڑے حلقے تک اخبار کی رسائی ہو،اس کی اشاعت کا عرصہ اور وقت مقرر ہو۔ خبروں اور مضامین کے بارے میں قارئین کے ردعمل کو اہمیت دی جائے۔ یہ ایک ایسا وسیلہ ترسیل ہے جس کی نوعیت کو طے کرنے میں پڑھنے والوں کا ایک رول ہوتاہے اور کسی نہ کسی منصوبے کے تحت اسےاس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے کہ وہ پڑھنے والوں کے روّیوں پر اثر انداز ہو۔ چنانچہ اردو میں پہلی بار ایک ایسا وسیلہ اظہار وجود میں آیا جو مصنف اور اس کے لاتعداد اَن دیکھے قارئین کوایک رشتے میں جوڑتا تھا۔ اس کے ذریعے نہ صرف ملک کے مختلف حصّوں کے لوگ ایک دوسرے سے منسلک اور باخبر ہوئے بلکہ مغرب میں ہونے والی اصلاحوں، سائنسی ایجادوں اور دریافتوں، صنعتی دورکی برکتوں، حکومت اور طرز حکومت سے متعلق بحثوں کے اور آزادیِ اظہار کے چرچے یہاں تک پہنچے۔ یہ باتیں ہندستان کی ضعیف و بیمار بادشاہت کے زیرنگیں رہنے والوں کے لیے بالکل نئی تھیں۔ صحافت نے پہلی بار ہندستانیوں کے لیے بے باکانہ اظہار کے راستے کھولے۔ چنانچہ اس کا دائرہ اثر تیزی کے ساتھ بڑھنے لگا۔ اس کے سائے میں پلنے والی نثر میں صرف سادگی اور سلاست ہی نہیں تھی، وہ صنعت گری کوبھی برداشت نہیں کرسکتی تھی، وہ کوئی بھی ایسا پیرایہ نہیں اپنا سکتی تھی جو وسیع حلقوں میں اس کی رسائی کو کم کر دے۔ مضمون نگاری کی صنف صحافت کے راستے ہی سے ہمارے ادب میں آئی۔ماسٹر رام چندر اور ان کے ہم عصروں نے لاتعداد مضامین لکھے۔ اسے انہوں نےاپنے اصلاحی خیالات کے پرچار کاذریعہ بنایا۔ اس عہد کی صحافتی نثر میں بڑا کچّاپن ہے مگر ماسٹر رام چندرکے بعدکے عہدمیں یہ نثر سرسید، شبلی، آزاد اور حالی کے ہاں تراش خراش کے بعد زیادہ دل کش ہوکر ایک اعلا منزل تک پہنچی۔
نظریات کے اعتبار سے اس عہدکے روشن خیال طبقے پر مغربی لبرل ازم اور افادیت پر ستی utilitarianism کا گہرا اثر پڑا۔ انگلستان میں اس وقت اسی کاچرچا تھا اور جو با اثر انگریز ہندستان آئے، وہ یہ نظریہ بھی اپنے ساتھ لائے۔ صحافت کے علاوہ شخصی رابطے کے ذریعے بھی ہندستان میں یہ نقطہ نظر پھیلا۔اُردو میں ماسٹر رام چندرسے لے کر سرسیّد تحریک کے مصنّفین تک اس کابڑا گہرا اثر ہے۔اس نقطہ نظرکے مطابق انسانی زندگی کاہر پہلو، اس کے اعمال و اقوال، اس کا مذہب اور فلسفہ آرٹ اور ادب، اس کا نظام معاشرت و سیاست غرض کہ سب کچھ سماجی افادیت کے معیار پر پرکھا جانا چاہےے۔ چنانچہ اس فکر کو ادب پر بی منطبق کیا گیا۔اگر ادب کوزیادہ سے زیادہ لوگوں کے لےے مفید ہونا ہے تو اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں کی زبان کے ذریعے ہی ان تک پہنچنا بھی ہوگا، اور اس ادب میں مفید باتیں بھی پیش کرنی ہوں گی۔انیسویں صدی کے وسط سے اس سماجی نقطہ نظر کاادب پر اثر پڑنا شروع ہوا اور بڑھتا گیا۔ اس کی سب سے واضح اور نمایندہ مثالیں سرسیّد تحریک کے مصنفین کے ہاں ملتی ہیں۔ یہ نظریہ غالب کے عہدکے پڑھے لکھے طبقے میں خصوصاً دہلی کالج سے وابستہ لوگوں میں بہت مقبول ہوا اور اسے پہلی بار انہی اخبارات کے ذریعے برے پیمانے پر پھیلایا گیا۔ سرسید تحریک کے تین اہم رُکن آزاد، نذیراحمداور ذکاءاللہ دہلی کالج کے اسی دور کے سرگرم طالب علموں میں تھے۔غالب کے احباب اور مداحوں کے حلقے میں دہلی کالج کے حلقے کے بہت لوگ تھے۔ مگر غالب کی کسی بھی تحریر سے ان کے اثرات کاپتا نہیں چلتا۔ غالب خود اس قسم کی نثر نہ لکھتے تھے اور نہ شاید پسند کرتے تھے۔ مگر ان کے عہدکی تہذیب کا یہ اہم جُزو تھا اور اس میں پروان چڑھنے والی نثر اس سے بہت متاثر تھی۔
غالب ان تبدیلیوں کے درمیان رہ رہے تھے۔وہ قدیم و جدید کے درمیان کھڑے تھے۔وہ اس جاہ و منصب پر بھی نازاں تھے جوانہیں مغل شہنشاہت نے عطا کیے اور انگریزوں کے کرم کے طلب گار بھی تھے۔جیسا کہ ان کے خطوط سے پتاچلتا ہے۔ وہ مستقبل کا ایک دُھندلا سا تصوّر رکھتے تھے۔ معروضی طور پر وہ نئے عہدکی برکتوں کاخیر مقدم بھی کرتے تھے جیساکہ ان کی آئینِ اکبری والی تقریظ سے ظاہر ہے مگر وہ اس کشاکش کے درمیان حیران و ششدر تھے۔ خاص طورسے دہلی شہرکی سماجی زندگی کاجو ڈھانچہ بن رہا تھا وہ انہیں ایک آنکھ نہیں بھایا۔ ان کی بہت سی شکایتوں میں ایک یہ بھی تھی کہ دہلی میں شرفا کی جگہ اہل حرفہ زیادہ آباد ہوگئے۔ جس دہلی میں میر کو اپنی پگڑی سنبھالنی دشوار تھی، وہاں غالب کی کلاہِ پاپاخ کتنے جتن سے بچی اس کا حال تو سب پر عیاں ہے۔مگر غالب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے یہ سب کچھ نہ صرف جھیلا بلکہ ان کے اس کرب نے ان کی شاعری کے ساتھ ان کے مکاتیب میں بھی اظہار کی وہ صورت پائی جو ان کے عہد میں کسی کونصیب نہ ہوسکی۔ غالب دوسروں سےاس لیے بلند نہیں کہ انہوں نے سادہ اور سہل انداز میں پہلے پہل خطوط لکھے نہ وہ اس لیے اہم ہیں کہ ان کی نثر جدید تھی۔ ان کی عظمت اس میں ہے کہ انہوں نے اپنی شخصیت اور اپنی شخصیت کے ذریعے اپنے عہد کے خلفشار کے اظہار کے لیے جو تخلیقی کاوش کی وہ شاعری کی طرح نثر میں بھی کامیاب ہوئی۔ اگر ان کے ہاں محض سادہ نثر لکھنے کادرک ہوتاتو وہ غلام غوث بیخبر اور غلام امام شہید سے بس اُنیس بیس ہوتے۔ اگر ان کی دانش و آگہی آسمانوں کو چھو رہی ہوتی اور تخلیقی شخصیت یہ نہ ہوتی تو اُن کے خطوط میں خیالات، اطلاعات و معلومات کاخزانہ تو مل جاتا مگر یہ جادو نہ ہوتا۔ اور ان کی حیثیت ہمارے ہاں ادبی سے زیادہ تاریخی ہوتی۔ غالب کے ہاں فارسی انشا کی تقلید بھی ہے۔ صنعتوں کاخاص التزام بھی، قدیم روایات سے یہ وابستگی محض اتفاقی نہیں بلکہ یہ ان کے جمالیاتی مزاج کا جزو لازم ہے۔ فارسی ادب کے علم پر انہیں ناز تھا اور فارسی سے آئی ہوئی اقدار و روایات سے انحراف ان کے مزاج کے خلاف بھی تھامگر اسے اُردو کے مزاج کے مطابق اپنانے کی کوشش کرنا اور اس میں زیادہ تر کامیاب ہونا ان کے کمال فن کی دلیل ہے۔ مکتوب نگاری کی صنف جو آزادیاں عطا کرتی ہے۔ غالب نے اس سے پورا پورا فائدہ اُٹھایااور اس میں اظہار کے جتنے پیرائے ممکن تھے ان کے حُسن کوانہوں نے عیاں کردیا۔ غالب کے عہدکی سادہ اور سلیس نثرمیں اسالیب کا تنوع نہ ہونے کے برابر ہے۔ تحریریں سپاٹ اور مصنّف کی شخصیت کے نقش سے بالکل عاری ہیں۔ غالب سے پہلے صرف میر امن کی نثر اپنا الگ رنگ رکھتی ہے۔ انشا کی نثر دل کش اور ان کی ذہانت اور فن کارانہ چابک دستی کی دلیل تو ہے مگر وہ تمام تر مصنوعی ہے۔ رجب علی بیگ سرور تکلّف اور صنعت آرائی کو ادبی حسن سمجھتے ہیں مگر اس پر بھی سادہ اور سلیس ہونے کادعوا کرتے ہیں۔ سرور نے لکھنئو کی عام زبان کی طرز و انداز جس خوبصورتی کے ساتھ پیش کیے ہیں اس سے ظاہر ہوتاہے کہ خود ان کے لیے بھی بول چال کی فطری بے تکلفی سے بچ کرنکلنا مکن نہ تھابلکہ اس پراپنی قدرت کااظہار نہ کرنا اس وقت ان کاعجز بیان سمجھا جاتا۔یہ بھی اس عہدکی عام فضا کااشاریہ ہے کہ جس مصنّف نے مصنوعی اور پُرتکلف طرز کو کمال تک پہنچایاوہ بھی روزمرّہ اور محاورے پر اپنی قدرت کامظاہرہ ضروری سمجھتا ہے۔ اس سے یہی نتیجہ نکلتاہے کہ اب نثرکی روایت نے ایک قطعاً نیا رُخ اختیار کرلیاتھاجسے کہیں بلا تکلف اپنایا جا رہا تھا اور کہیں تامّل کے ساتھ۔ ڈاکٹر محمود الٰہی کے مرتب کیے ہوئے فسانہ عجائب کے متن کومدِّنظر رکھیں تو یہ بات اور صاف ہو جاتی ہے کہ سادہ نثرکی قوت اور حسن دونوں کا اندازہ سرور کو تھا۔اگرچہ ان کے اپنے ادبی مذاق کی میزان میں روایتی انداز کاپلّہ بھاری ہی نکلا۔
غالب کے بعد کے عہد میں فارسی کی تقلید سے انحراف ملتا ہے۔ سرسید اور ان کے حلقے کے لوگوں کو اس انحراف پراصرار ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کا پڑھنے والا عبارت کے حسن میں محوہوکر معانی سے بہک جائے۔ چنانچہ ظاہری آرایش سے اجتناب، معانی اور مفید معانی پر زور اور ان حدود کے اندر حسن و تاثیر پیدا کرنے کے لیے انفرادی ذوق اور تخلیقی صلاحتیوں کی اہمیت اس جدید نثرکی علامت قرار پائی جس کے عناصرغالب کے عہدمیں جنم لینے لگے تھے مگر جس کا زمانہ غالب کے بعد آیا۔
حواشی:
2،1 ۔ڈاکٹر سید عبداللہ:اطرافِ غالب۔علی گڑھ 1984،ص269۔
3۔فرٹرزلیہسن: اردو لٹریچراینڈ مغل ڈکلائن:شکاگوVI، 3،2،۰197ص131۔125
4۔ہمارے ہا ں بہت سی کہاوتیں زبان زد ہیں جو فارسی کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں، مثلاً: ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے۔ پڑھے لکھے کو فارسی کیا ہے۔ یا پڑھے فارسی بیچے تیل وغیرہ۔
5۔ صدیق الرحمن قدوائی: ماسٹر رام چندر، دہلی 1960،صفحہ21
6۔ صدیق الرحمن قدوائی:ماسٹر رام چندر،دہلی 1960،صفحات 14۔144
Zikr-e-Hafiz
سجاد ظہیر کی ولادت 1905 میں اودھ کے ایک معزز خانوادے میں ہوئی۔ ان کے والد جسٹس سر وزیر خاں چیف جسٹس تھے۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے ادبیات کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سجاد ظہیر نے برطانیہ جاکر قانون کی پڑھائی کی اور بیرسٹر بن کے واپس آئے۔ سجاد ظہیر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بانی ارکان میں سے تھے۔ اردو میں ترقی پسند تحریک انھیں کی منظم کوششوں سے کامیاں ہو سکی۔ اس تحریک کی کامیابی کے ساتھ ایک غلط رجحان بھی پنپنے لگا جس کے زیر اثر بعض ناقدین نے کلاسیکی ادب اور بعض اصناف کو از کار رفتہ شمار کیا اور ان کے سلسلے میں بعض ایسے خیالات کا اظہار کیا جو نا کافی غور و فکر کی وجہ سے غلط رجحان کو فروغ دینے میں معاون ہوئے۔ ‘ذکر حافظ’ ایسے خیالات کی مدلل تردید اور معروضی جواب بھی فراہم کرتی ہے۔ کلاسیکی ادب کے سلسے میں انھوں نے یہ واضح موقف اختیار کیا ہے کہ ہر دور کی فنی اور ادبی تخلیقات کو پرکھتے ہوئے اس دور میں مروج اقدار و روایات، تاریخی اور معاشرتی حالات کو مد نظر رکھے بغیر تنقیدی فیصلے گمراہی کا باعث ہوتے ہیں۔ اس کتاب میں نہ صرف فارسی کے بڑے شاعر حافظ کی شاعری کے فنی اور فکری پہلو سامنے آتے ہیں بلکہ اردو ادب کے مطالعے کے رہنما اصول بھی بڑی حد تک واضح ہو جاتے ہیں۔ سجاد ظہیر نے نہایت بصیرت مندی کے ساتھ حافظ کا ایک انتخاب بھی تیار کر کے اس کتاب کی افادتیت کو دوبالا کر دیا ہے۔ سجاد ظہیر کے رہنما تنقیدی اصولوں کو اس کتاب کی روشنی میں زیادہ خوبی کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے۔
شام شہر یاراں کے تحت تین ریسرچ اسکالرز کی کتابوں پر مذاکرہ
پروفیسرعقیل رضوی کو الٰہ آباد میں استقبالیہ
غالب انسٹی ٹیوٹ میں بیگم عابدہ احمد میموریل لکچر
بین الاقوامی سمینار کا انعقاد
سہ روزہ بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینار
قومی کونسل برائے فروغ انسانی وسائل وغالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام سہ روزہ بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینار
قومی کونسل برائے فروغ انسانی وسائل وغالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام منعقد سہ روزہ بین الاقوامی ریسرچ اسکالرزسمینارکے افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبے میں معتبروممتاز ناقدومحقق اورہندوستان میں جدیدیت کے بانی پروفیسرشمس الرحمان فاروقی نے غالب آڈیٹوریم میں کہا کہ آج کی تحقیق یا تحقیق کے نام پرجوکچھ ہورہا ہے۔اس سے میں مطمئن نہیں ہوں ۔تحقیق کرتے ہوئے یہ پیش نظررکھنا چاہیے کہ اپنے موضوع کے اعتبارسے نئی تعبیرات کاہم انکشاف کریں ۔ہماری ادبی تاریخ میں بہت سے محققین ہیں ،جنہوں نے ادبی نتائج کواپنے معتقدات کے مطابق ہونے کی وجہ سے قبول کرلیا۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ جونتائج اورفیصلے پہلے سے موجود ہیں ،ان پرآنکھ بندکرکے یقین نہیں کرنا چاہیے ۔کوئی روایت چاہے جنتی مصدق ہومگراپنی تحقیق کے بغیراسے قبول نہیں کرنا چاہیے ۔تحقیق کی موجودہ صورت حال دروں بینی اورخود احتسابی کی دعوت دیتی ہے،جس کا پاس ولحاظ رکھنا اشد ضروری ہے۔افتتاحی اجلاس کی صدارتی تقریر میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلرسیدشاہدمہدی نے کہ اکہ ریسرچ اسکالرز کی شرح نمو ہندوستانی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ ہے ۔یہ صورت حال صرف اردوتک محدود ومسدود نہیں ہے۔بہت سے شعبوں کی صورت حال اردو سے زیادہ خراب ہے۔اردوتحقیق کوایک مخصوص دائرے سے باہرلانے کی ضرورت ہے ۔تاکہ تازہ ہواآسکے۔فارسی زبان وادب کے ماہرپروفیسرسید طلحہ رضوی برق چشتی داناپوری نے کہاکہ ریسرچ اسکالرزکوبھی معلوم نہیں ہوتا کہ تھیسس میں لکھا ہواکیا ہے ۔ریسرچ اسکالرز کوچاہیے کہ جوچیزیں آنکھوں سے پوشیدہ ہیں ،انہیں سامنے لائیں ۔اچھی اردوکے لیے فارسی کاجاننا ضروری ہے۔طلبہ وطالبات کے شایان شان جو مدد نہ ہووہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کربھی نہ دیکھیں ۔اپنی تہذیب کی بقاکے لیے زبان کی بقا کویقینی بنانا ہوگااورزبان کی بقا کے لیے جدوجہداورمحنت کی ضرورت ہے ۔موجودہ صورت حال کے پیش نظراحتساب بھی ضروری ہے اوراحتساب ریسرچ اسکالرز تک محدود نہیں ہونا چاہیے ۔اس سہ روزہ بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینارمیں افتتاحی خطاب کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر پروفیسرطلعت احمد نے کہا کہ یہ سمینارطلبہ وطالبات کے لیے ہی ہے۔دوسرے شعبوں کے لوگوں کومدعوکرنااچھی پیش رفت ہے ۔باہرکی دنیا میں جدیدچیزیں طلبہ کو ہی ازبرہوتی ہیں اوروہی صدارت کرتے ہیں ۔آج کے زمانے میں ریسرچ کرنا پہلے کی بہ نسبت زیادہ آسان ہے ۔آج آپ کے پاس گلوبل دنیا تک رسائی بہت آسان ہے۔نیٹ نے دشواریوں کو ختم کردیا ہے۔انہوں نے اس موقع پر زود نویسی کی ممانعت بھی بیان کی اورکہاکہ کم لکھیں مگر اچھا لکھیں ۔اچھا استاذ وہ ہوتا ہے ،جو خود سے اچھا شاگرد پیداکرے ۔اس موقع پراپنے تعارفی کلمات میں قومی کونسل برائے فروغ انسانی وسائل کے متحرک وفعال ڈائرکٹر پروفیسرارتضی کریم نے کہاکہ ادب وتحقیق اورتنقید عبادت کا درجہ رکھتی ہیں ۔ہمارے اساتذہ نے خود کو فنافی الادب کیا تب کہیں انہیں یہ مقام ومرتبہ حاصل ہوسکا۔یہ راہیں تسلسل چاہتی ہیں ۔ریسرچ اسکالرز کو باندھ کرنہیں رکھنا چاہیے انہیں یہ آزادی دینی چاہیے کہ وہ جس سے چاہیں استفادہ کریں ۔انہوں نے پرجوش طریقے پرریسرچ اسکالرز کا اس سمینار میں خیرمقدم اوراستقبال کیااورکہاکہ قومی کونسل نے ریسرچ اسکالرز کو گود لے لیا ہے ۔تاکہ وہ بہترسے بہتر کام کرسکیں ۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسرصدیق الرحمن قدوائی نے استقبالیہ تقریرکرتے ہوئے تمام مہمانوں اورریسرچ اسکالرز کا خیرمقدم کیااوراعلی تعلیم کی طرف کم ہوتے رجحان کی طرف ان کی توجہ مبذول کرائی ۔انہوں نے کہاکہ ہم سب کو آپ لوگوں سے ہی امیدیں وابستہ ہیں۔معاصرادب ،تحقیق اورتنقید کی تاریخ آپ کوہی رقم کرنی ہے۔اس لیے اپنے فرض منصبی کی ادائیگی کے لیے آپ سب کو متحرک وفعال ہونا ہی ہوگااوریہی وقت کا جبری تقاضہ بھی ہے ۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹررضاحیدرنے افتتاحی اجلاس کی نظامت کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ وقت میں ریسرچ اسکالرز کی تمام سمیناروں میں سب سے زیادہ ضرورت ہے اس لیے کہ ہم نے اگر ریسرچ اسکالرز کی حوصلہ افزائی نہیں کی تو ہم اردو وفارسی زبان و ادب کے ساتھ انصاف نہیں کرسکیں گے۔آپ نے مزید کہاکہ ریسرچ اسکالرز سمینارکی مقبولیت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس سال چالیس سے زیادہ یونیورسٹیوں کے ریسرچ اسکالرز اس سمینار میں مقالہ پیش کر رہے ہیں۔اس سمینارمیں دلچسپیوں کاتذکرہ کیااوراپنی خوشی کا اظہاربھی کیا اوراس سمینارکی تیاریوں میں آنے والی دشواریوں کا ذکرکرتے ہوئے انہوں نے اساتذہ سے مزید تعاون کی درخواست کی ۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ٹیگورپروجیکٹ کے کامیاب اختتام کے بعد اس کے ذمہ داران نے گیارہ سو کتابیں مجھ تک پہنچائی ہیں ۔جنہیں میں سمینارکے آخری دن ریسرچ اسکالرز کو پیش کروں گا۔اس افتتاحی اجلاس کے دوران چارکتابوں کو اجرابھی مہمانوں کے دست مبارک سے ہوا۔خیال رہے کہ یہ تمام کتابیں ریسرچ اسکالرز کی تصانیف ہیں ۔جن میں افسانے کی شعریات ،رضی شہاب،شیریں کتھا،ضیاء اللہ انور،علامہ ،صالحہ صدیقی اورراحین شمع کے ترجمے کی رسم اجراہوئی۔اس موقع پرممتاز محقق وناقد شمس الرحمان فاروقی سمیت تمام مہمانوں نے مصنفین کو مبارک باد دی ۔سمینارکے پہلے اجلاس کی کی صدارت کرتے ہوئے جے این یو کے ہندوستانی زبانوں کے مرکز کے چیئرپرسن پروفیسرانورپاشا نے کہاکہ زوال ہرجگہ نمایاں ہے،بیوروکریٹس کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں ۔انہیں بھی سمجھنے کی ضرورت ہے ۔زبان ،تہذیب ،تمدن ،تشخص اورثقافت کاتحفظ ناگزیر ہے۔اپنی نوجوان نسل سے توقعات وابستہ کرنا فطری امر ہے۔نوجوان نسل کے کاندھے جتنے مضبوط ہوں گے،ادب،زبان اورتہذیب اتنی ہی مستحکم ہوں گی ۔کامیاب سمینارکے انعقادکے لیے میں ڈائرکٹر اورغالب انسٹی ٹیوٹ کو مبارک باد پیش کرتاہوں ۔پہلے اجلاس کی مجلس صدارت کے دوسرے رکن پروفیسرقاسم فریدی نے کہاکہ اس سمینارمیں آنے سے قبل شعبے میں اپنے اساتذہ سے استفادہ ضرور کرنا چاہیے ۔تاکہ یہاں کسی طرح کی خامی اورغلطی کا امکان باقی نہ رہے ۔پہلے اجلاس میں نورین علی حق نے نظامت کی اورمحمد عالم گیرانصاری،نرگس بیگم ،فہیم اشرف ،سرفراز خان،محمدشہاب الدین ،رضوانہ عارف ،ثنافاطمہ اورفرحین انجم نے مختلف موضوعات پراپنے اپنے مقالے پیش کیے ۔دوسرے اجلاس کی صدارت ڈاکٹراسلم جمشیدپوری،ڈاکٹراخلاق آہن اورصالحہ رشید نے کی اس اجلاس میں عالیہ خان نے نظامت کی اور محمد عابدکریم،احمدذکی،محمدفراز ،نصرت امین اورانصاراحمد نے مقالات پیش کیے ۔
سہ روزہ بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینارکے دوسرے دن کے پہلے اجلاس کی صدرات کرتے ہوئے فارسی کے معروف اسکالروسابق صدرشعبۂ فارسی ،دہلی یونیورسٹی پروفیسرشریف حسین قاسمی نے کہاکہ سمینارکے آداب بجالانا ناگزیرہے۔اس سے صدورکی اہمیت یاوقارمیں اضافہ نہیں ہوگا لیکن آپ کو آداب معلوم ہوں گے ۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ اگراردوقصائدکاموازنہ عربی قصائد سے ہوگاتوفارسی کے توسط سے ہوگا۔اردوکے قصیدہ گوشعرافارسی کے شعراسے متاثرتھے۔نہ کہ عربی کے شعراسے ۔انہوں نے آخر میں تمام مقالہ نگاروں کو مبارک باد پیش کی ۔اس موقع پراپنی صدارتی گفتگو کرتے ہوئے ڈؑ اکٹرشعیب رضاخان وارثی نے کہاکہ سمیناروں میں متعدداجلاس ہوتے ہیں ۔اس لیے وقت کی پابندی ضروری ہے۔اسکالرز کو چاہیے کہ وہ سیشن شروع ہونے سے قبل ہال میں داخل ہوجائیں ۔انہوں نے طلبہ وطالبات کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اساتذہ کے ایک ایک عمل پران کے طلبہ وطالبات کی نظر ہوتی ہے۔اس لیے اساتذہ کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے ۔طلبہ وطالبات والدین سے زیادہ اساتذہ کو لائق عمل سمجھتے ہیں ۔اس سیشن کے ایک اورصدرڈاکٹراطہرفاروقی نے پروفیسرشمس الرحمن فاروقی کی اس سمینار میں موجودگی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ جس سمینار میں اجلاس میں شمس الرحمان فاروقی صاحب موجود ہوں ،وہ تاریخی حیثیت کاسمینار ہوجا تاہے ۔مجھے انہیں دیکھ کرخوشی ہورہی ہے اورطلبہ کو ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی مل رہا ہے ۔خیال رہے کہ دوسرے دن کے پہلے اجلاس میں ندامعید،ظہیرحیدرنقوی ،یاسمین بانو،محمدیوسف ،صدف حنیف،سعدیہ جعفری،عذراشکیل،پردیپ خسرونے مختلف عناوین پراپنے اپنے مقالات پیش کیے۔اس سیشن کی نظامت جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ریسرچ اسکالرغزالہ فاطمہ نے کی ۔بین الاقوامی سمینارکے دوسرے دن کے دوسرے سیشن کی صدارت کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق صدرپروفیسرخالدمحمودنے تمام مقالہ نگاروں کے مقالات پرفرداًفرداًتبصرہ کیا اورتمام ریسرچ اسکالرز کی حوصلہ افزائیوں کے ساتھ ہی ان کی اصلاح بھی کی۔اس موقع پر انہوں نے کہاکہ عام طورپردیکھاجاتا ہے کہ ریسرچ اسکالرز ثانوی اورتیسرے درجے کے مآخذسے مددلیتے ہیں اوراصل متن کے مطالعے کو یقینی نہیں بناتے یہ عمل نہ صرف قابل صدافسوس ہے بلکہ ریسرچ اسکالرز کا اس سے کافی خسارہ بھی ہے۔اس عمل میں مثبت اورمستحکم تبدیلی کی اشد ضرورت ہے ۔ناول ،افسانہ اورشعری اصناف کے اصل متن تک جب تک رسائی نہیں ہوگی ۔ہم بے معنی باتیں کرتے رہیں گے ۔اسی سیشن کے دوسرے صدرپروفیسرمظہرمہدی ،جواہرلعل نہرویونیورسٹی نے کہاکہ علاقائی حدبندی کامقصدعلاقائی عصبیت کا فروغ نہیں ہے۔البتہ اگر علاقائی حدبندیوں کے باجودان علاقوں کے فن پاروں میں گہرے معانی کی تلاش ممکن نہ ہوسکے تویہ بہترنتیجہ نہیں ہوگا۔سوالات قائم ہونے چاہئیں ۔یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جس علاقے کی ہم حدبندی کررہے ہیں وہاں کے مصنفوں کی خصوصیات کیا ہیں ۔اس سیشن کی نظامت بحسن وخوبی سیدعینین علی حق نے کی ۔اس اجلاس میں صائمہ منظور،ترنم جنین،وصی الدین شیخ ،ایرانی اسکالرزینب محمودیان دارابی ،محمدعرفان،ضیاء اللہ انورنے اپنے مقالے پیش کیے۔سمینارکے دوسرے دن کے تیسرے سیشن میں دہلی یونیورسٹی کے صدرشعبۂ اردو پروفیسرابن کنول نے اپنی صدارتی تقریرمیں کہاکہ کوئی شعبہ ایسانہیں ہے ،جہاں زوال ہی زوال ہویاعروج ہی عروج ہو،ہرجگہ عروج وزوال کا دور دورہ ہے ۔کسی زمانے میں تمام کے تمام ریسرچ اسکالرزیاتمام شعرایاتمام ادبا مشہورومعروف اورمعتبرومعتمد نہیں ہوئے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اچھے اوربہتراسکالرکی شناخت کرنی ہے ۔یہ سمیناراس کام کے لیے ہی منعقد کیا جاتا ہے تاکہ ریسرچ اسکالرز اپنی کاوشیں یہاں پیش کریں اوراساتذہ ان کی اصلاح کریں ۔اس سیشن کے دوسرے صدرجواہرلعل نہرویونیورسٹی کے استاذ پروفیسرمعین الدین جینابڑے نے فردافرداتمام مقالہ نگاروں کے مقالوں پربھرپورتبصرہ کیا اوراپنی گفتگوسے ریسرچ اسکالرز کو بات کہنے کا سلیقہ بھی سکھایا۔انہوں نے کہاکہ میں نے خاص طورپریہ محسوس کیاکہ اس سیشن کے تمام ہی مقالہ نگاروں نے اپنے مقالے کو بروقت ختم کیا اوریہ عمل اچھا عندیہ ہے کہ آپ پابندی وقت کے قائل ہیں ۔ایک اسکالر کو پابندئ وقت کا قائل ہونا بھی چاہیے ۔اس سے بہتر سے بہتر کام ہم کرسکتے ہیں ۔سیشن کے تیسرے صدرڈاکٹرصفدرامام قادری نے کہاکہ مقالات پربہت سی باتیں کہی جاسکتی ہیں ۔مگر وقت کی قلت دامن گیر ہے ۔انہوں نے بلاترددتمام مقالہ نگاروں کی خامیاں بھی گنوائیں ۔اس سیشن کی نظامت جامعہ کی ریسرچ اسکالرصالحہ صدیقی نے کی ۔اس سیشن میں مصطفی علاء الدین محمدعلی،شاہ نواز احمد،راہین شمع،محمدمعروف،تمناشاہین،رزینہ خان اورسفینہ نے اپنے مقالات پیش کیے۔دوسرے دن کے چوتھے اورآخری سیشن کی صدارت الہ آبادیونیورسٹی کے شعبہ فارسی کے استاذپروفیسرعبدالقادرجعفری ،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق استاذ پروفیسرعراق رضازیدی اورپروفیسرقدوس جاوید نے کی ۔اس سیشن کی نظامت رئیس فاطمہ نے کی اوراس سیشن میں سیدتصورمہدی،ناہیدزہرا،تحسین سلطانہ ،عبیداللہ ہارون ،مسرورفیضی اور توصیف خان نے اپنے مقالات پیش کیے۔سمینار کے دوسرے دن کے تمام اجلاس کی خاص بات یہ رہی کہ بڑی تعداد میں مختلف شہروں سے آئے ہوئے ریسرچ اسکالرز کے ساتھ ساتھ اساتذہ نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔اور اس بات پر زور دیاکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان سمیناروں کے ذریعہ ریسرچ اسکالرز کو علمی طورپر بھرپور مدد دیں تاکہ ریسرچ کا معیار بلند رہے۔
سہ روزہ بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینارکے تیسرے اور آخری دنکے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ممتاز ناقد ومحقق اوراردومیں جدیدیت کے بانی پروفیسرشمس الرحمان فاروقی نے کہاکہ کچھ رائج الفاظ کا دامن تھام لینے سے زبان کی وسعت سمٹ رہی ہے ۔بتدریج زبان اپناتلفظ خوداختیارکرتی ہے۔لہجوں کی اہمیت مسلم ہے۔لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں خطے کالہجہ ہی اہم ہے۔تلفظ کی تشکیل میں ذرا وقت لگتا ہے ۔زبان اپنے تلفظ کوخود قائم کرلیتی ہے۔ہردن کے مقالات پرتاثردینے کے لیے ایک ریسرچ اسکالر کاانتخاب ضرور کرنا چاہیے ۔تبادلہ خیالات زیادہ سے زیادہ ہونا چاہئے۔انہوں نے سمینارپرمجموعی تاثرپیش کرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ ناول نگاری کی پہلی شرط یہ ہے کہ حقائق کوتصورمیں ڈھالا جائے ۔لکھنے سے پہلے غوروفکر سے کام لیا جائے ۔سوالات قائم کیے جائیں ۔اختتامی اجلاس کی اپنی صدارتی تقریرمیں غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری صدیق الرحمان قدوئی نے کہاکہ اردومیں تنوع اوررنگارنگی ہے ۔واحد وجمع کے قواعد بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔بہت کچھ چند برسوں میں تبدیل ہوجاتا ہے۔میں جاننا چاہتا ہوں کہ آخراردوزبان اوراس کے معیارکا پیمانہ کیا ہے۔زبان ،علاقائیت ،ادائیگی ،لہجے اورمختلف قواعد وضوابط میں اختلافات جاری رہتے ہیں ۔انہوں نے اس موقع پر ریسرچ اسکالروں کے مقالوں پراظہارخیال کرتے ہوئے اطمینان کا بھی اظہارکیا۔قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان کے ڈائرکٹرپروفیسرارتضی کریم نے شکریہ اداکرتے ہوئے کہاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ کی محنتوں کانتیجہ ہے یہ سمیناراوراراکین غالب انسٹی ٹیوٹ نے بڑی جانفشانیوں سے کام کیا ہے ۔انہوں نے ریسرچ اسکالرز کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہاکہ آپ کل فخر کریں گے کہ آپ نے اپنا پہلا مقالہ فاروقی صاحب کے سامنے پیش کیاتھاچوں کہ فاروقی بننے کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ نہیں جاننا بہت بڑی خرابی نہیں ہے ۔لیکن نہ جاننے کے باوجود اصرارکرنا بری بات ہے ۔ریسرچ اسکالروں کے ہاتھوں میں اردوکے مستقبل کی باگ ڈور ہے انہیں اس بات کاہمیشہ خیال رکھنا ہوگا۔اس موقع پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردوکے صدرپروفیسر شہپررسول نے کہاکہ ہندوستان کے مختلف خطوں سے اسکالرز آئے حتی کہ بیرون ممالک کے ریسرچ اسکالروں نے بھی مقالات پیش کیے ۔پوری دنیا زوال کاشکار ہے ۔جامعات بھی اس سے بالاترنہیں ہیں۔اس لیے صرف ریسرچ اسکالروں کا ماتم کرنا مناسب نہیں ہے ۔اس اختتامی اجلاس کی نظامت کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کی ڈائرکٹر ڈاکٹررضاحیدرنے کہاکہ ہندوستان کی تقریبا چالیس یونورسٹیز کے ریسرچ اسکالروں نے یہاں شرکت کی ۔ان تین دنوں میں تقریبا ۶۰مقالات پیش کیے گئے اورتمام اجلاسوں کے صدورکامجموعی تاثر اچھا رہا ہے اس لیے ہم اپنی محنتوں سے خوش ہیں اور اپنے ریسرچ اسکالروں سے پرامید ہوں کہ وہ آئندہ مزید بہتر نتائج پیش کریں گے۔خیال رہے کہ اس موقع پر تمام مقالہ نگاروں اور شرکاکوکتابوں کا تحفہ پیش کیا گیا ۔اس سے قبل تیسرے دن کے پہلے سیشن میں صدارتی گفتگو کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے استاذپروفیسراحمدمحفوظ نے کہاکہ زبان کے اصول وضوابط اورقواعداپنی جگہ مسلم لیکن روزمرہ کے استعمالات اوررائج طریقہ اظہارسے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ہے۔اس موقع پرانہوں نے ریسرچ اسکالر ز کی حوصلہ افزائی کی ،مبارک باد پیش کی اوریہ بھی کہاکہ شاعری پرکام کرنے والوں کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ اشعار بے وزن نہ ہونے پائیں۔پہلے سیشن کے دوسرے صدراوردہلی یونیورسٹی کے شعبہ فارسی کے استاذ پروفیسرعلیم اشرف نے کہاکہ قومی سمینارہوں یا بین الاقوامی سمینار ہرجگہ اسکالرز کو بہت ہی کم وقت اظہارمافی الضمیرکے لیے ملتا ہے۔کئی مقالہ نگارو قت کی قلت کی وجہ سے اپنی بات نہ کہہ سکے۔بالخصوص ریسرچ اسکالروں کے لیے وقت کا اضافہ کرنا چاہیے چوں کہ یہی ہمارا مستقبل ہیں ۔تاکہ ہمیں بھی اپنے مستقبل کو سننے اورسمجھنے کا موقع ملے ۔اس سیشن کی نظامت فرمان چودھری نے کی ۔جب کہ تاضی اسدوصی ،سیدہ خاتون ،نائلہ اختر،صفی محمدنائک ،عالیہ خان،رخسارپروین ،تحسین بانو نے مقالات پیش کیے ۔دوسرے سیشن کی صدارتی کرتے ہوئے دہلی یونیورسٹی کے شعبہ فارسی کے استاذ پروفیسرچندرشیکھرنے کہاکہ اس سیشن کے تمام مقالے اچھے تھے۔سب سے بڑی بات یہ تھی کہ مقالات کے موضوعات میں تنوع اوررنگارنگی تھی ۔انہوں نے اس موقع پر اردوکی ڈجیٹل دنیا کے حوالے سے بھی کافی پرمغز باتیں کیں۔اس سیشن کے دوسرے صدرجے این یو کے ہندوستانی زبانوں کے مرکز کے استاذ پروفیسرخواجہ اکرام نے کہاکہ ان پیج کی آمد نے جہاں اردو دنیا کو کافی فائدہ پہنچایا وہیں اس نے اردو کو پچیس برس پیچھے بھی کیا۔انہوں نے مزید کہاکہ حوصلہ افزائی کی قلت ہمارے یہاں بہت زیادہ ہے ۔عام طورپر ہم اپنے اسکالرز کی حوصلہ شکنی کے عادی ہیں ۔جب کہ اقلیت کو اکثریت پرمحمول نہیں کرنا چاہیے ۔انہوں نے تمام مقالہ نگاروں کو مبارک باد دیتے ہوئے مقالوں کے نقائص اوران کی خامیوں کی نشاندہی بھی کی۔خیال رہے کہ دوسرے سیشن میں ضیاء اللہ انورنے نظامت کی اورعبدالرزاق ،انجمن النسا،غزالہ صدیقی ،امان اللہ ،نرجس فاطمہ،نورین علی حق ،سریتاچوہان اورشاداب شمیم نے اپنے مقالات پیش کیے ۔سمینارکے آخری دن کے تیسرے سیشن کی صدارت ادے پوریونیورسٹی کے استاذ پروفیسرفاروق بخشی اورفاروق ارگلی نے کی ۔اس سیشن کی نظامت تسنیم بانونے کی اورولی اللہ قادری ،محمدارشد،نصرت جہاں،شفقت حسین بھٹ ،علی عباس ،سلمی رفیق اوررضی شہاب نے اپنے مقالات پیش ۔سمینا رمیں بڑی تعداد میں اساتذہ،ریسرچ اسکالرز، ایم اے کے طلبہ و طالبات کے علاوہ مختلف علوم و فنون کے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور گفتگو میں حصہ لیا۔