Izhare Taziyat

پروفیسرعبدالودوداظہر کے انتقال پر غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری اور ڈائرکٹر کااظہار تعزیت 

فارسی کے نامور ادیب و دانشور پروفیسر عبدالودود اظہر کے انتقال پرغالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنے تعزیتی پیغام میں یہ کہا کہ پروفیسرعبدالودود اظہر کے انتقال سے فارسی دنیا کوزبردست نقصان ہوا ہے۔ آپ فارسی کے ایک بڑے عالم کی حیثیت سے نہ صرف ہندستان میں بلکہ سینٹرل ایشیا اور ایران میں بھی پہچانے جاتے تھے۔ آپ متعدد کتابوں کے مصنف تھے اور آپ کی تحریروں کوفارسی دنیا میں نہایت عزت و احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ پروفیسر عبدالودود اظہر ایک طویل عرصے تک جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے شعبۂ فارسی سے وابستہ رہے اور آپ کی نگرانی میں شعبۂ فارسی میں متعدد علمی تحقیقی امور انجام پائے۔ آپ کے بے شمار شاگرداس وقت ملک کی اہم جامعات میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ موت برحق ہے اور ہر شخص کو اس دارفانی سے کوچ کرنا ہے لیکن پروفیسر عبدالودود اظہر کاہمارے درمیان سے اٹھ جانا ہمارے لیے کسی بڑے المیہ سے کم نہیں۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدرنے بھی اپنے تعزیتی پیغام میں گہرے رنجم و غم کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ پروفیسر عبدالودود اظہر غالب انسٹی ٹیوٹ سے طویل عرصے تک وابستہ رہے آپ نے یہاں منعقد ہونے والے کئی سمیناروں میں بہ حیثیت صدورکے شرکت کی اور مقالات پیش کیے۔غالب انسٹی ٹیوٹ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس ادارے نے اپنے اہم فارسی انعام ’’فخرالدین علی احمد غالب انعام برائے فارسی تحقیق و تنقید‘‘ سے بھی آپ کوسرفراز کیا۔یہ ادارہ پروفیسر عبدالودود اظہر کی خدمات کو ہمیشہ یاد کرے گا۔ خداکریم اُن کی غریق رحمت کرے اور تمام پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا کرے۔)

ڈاکٹراسلم جمشید پوری کے افسانوی مجموعے’’عید گاہ سے واپسی‘‘پر مذاکرہ

غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی کے زیرِ اہتمام یکم ستمبرشام میں شعبۂ اردو ،چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی،

میرٹھ کے صدر اور نئی نسل کے معروف افسانہ نگارو ناقد ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری کے افسانوں کامجموعہ ’’عید گاہ سے واپسی ‘‘کے دوسرے ایڈیشن پر ایوانِ غالب میں ایک شاندار مذاکرہ کا اہتمام کیا گیاجس کی صدارت عہد حاضر کے معروف شاعرپروفیسرشہپر رسول (صدر شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی )نے فرمائی۔جب کہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے معروف افسانہ نگار جناب رتن سنگھ اور مہمانِ ذی وقار کی حیثیت سے پروفیسر ارتضیٰ کریم (ڈائریکٹر،قومی کونسل برائے فروغ اردو، زبان،نئی دہلی)نے شرکت کی۔استقبالیہ کلمات ڈاکٹر رضا حیدر(ڈائریکٹر،غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی) نے انجام دیے،نظامت محترم معین شاداب اور شکریے کی رسم ڈاکٹر اسلم جمشید پوری نے ادا کی۔

اپنے استقبالیہ کلمات میں پروگرام کا تعارف کراتے ہوئے ڈاکٹر رضا حیدر نے کہا کہ شام شہرِ یاراں غالب انسٹی ٹیوٹ کی سرگرمیوں میں ایک اہم ادبی پروگرام ہے ،اس کی مقبولیت ہندوستان ہی نہیں بین الاقوامی سطح پر ہو گئی ہے۔اس میں ہونے والے مذاکرے اب عوامی دلچسپی کا باعث بنتے جا رہے ہیں۔آج اسلم جمشید پوری کے تازہ افسانوی مجموعے ’’ عید گاہ سے واپسی‘‘ پر مذاکرہ کر رہے ہیں۔اسلم جمشید پوری نئی نسل کے منفردافسانہ نگار ہیں۔ان کے افسانے روایت کی توسیع بھی ہیں اور اردو افسانے کا نیا منظر نامہ بھی۔ 

مہمانِ خصوصی معروف افسانہ نگار رتن سنگھ نے کہا کہ آج نئی نسل کہاں ہے؟ افسانوں کی محفل میں مجھے نئے لکھنے والوں کی تلاش ہوتی ہے۔ نگار عظیم ، ا سلم جمشید پوری کے بعد کی نسل کہاں ہے۔ ایک زمانہ تھا جب افسانے کے لئے ہم نوجوانوں میں جنون ہوتا تھا۔میں ریڈیو اسٹیشن میں ڈائریکٹر کے عہدے تک صرف افسانہ نگاری نے ہی پہنچایا۔

اسلم جمشید پوری کی کہانیاں ہمارے آس پاس کی کہانیاں ہیں جو ہمیں متاثر کرتی ہیں ۔ان کو میں دو سال بعد مبارکباد دوں گا جب ان کا اگلا مجموعہ منظر عام پر آئے گا۔

مہمان ذی وقار پروفیسر ارتضیٰ کریم نے اسلم جمشید پوری کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ آج کا یہ مذاکرہ معروف فکشن نگار کی موجودگی میں تاریخی اہمیت کا حامل ہو گیا ہے۔ اسلم نے کئی اچھے افسانے لکھے ہیں،لیکن ابھی انہوں نے وہ کہانی نہیں لکھی ہے جس کے لیے خدا نے انہیں افسانہ نگاری عطا کی ہے۔

صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے پرو فیسر شہپر رسول نے کہا کہ اسلم جمشید پوری کی افسانہ نگاری، ’’افق کی مسکراہٹ‘‘ سے’’ عید گاہ سے واپسی‘‘ تک فنی پختگی کا سفر ہے۔یوں تو مجمو عے کی کئی کہانیوں پر گفتگو ہونی چاہئے، لیکن میں خاص کر عید گاہ سے واپسی کی بات کی جائے تو اس میں شک نہیں کہ اسلم نے آج کے منظر میں ایک شاندار افسانہ قلم بند کیا ہے۔میرا خیال ہے کہ اس افسانے پر خاصی بحث ہو چکی ہے،پھر بھی بحث کے مزید امکانات ہیں ۔دراصل یہ متن کی توسیع نہیں ہے بلکہ کردار اور مناظر کی تو سیع ہے۔ 

اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر نگار عظیم نے کہا کہ اسلم جمشید پوری کی کہانیاں حقیقی کہانیاں ہیں۔ یہ روزمرہ کے فسانے ہیں۔ان کی کہانیاں ہمیں غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں۔یہ کبھی ہنساتی ہیں،تو کبھی رلاتی ہیں۔کبھی ہمیں غم و اندوہ میں ڈبوتی ہیں تو کبھی ہمارے چہروں پر مسکراہٹ کا سبب بنتی ہیں۔انہوں نے اسلم جمشید پوری کے کئی افسانوں بدلتا ہے رنگ آسماں، پانی اور پیاس،عید گاہ سے واپسی وغیر ہ پر بھر پور تجزیہ کیا ۔ اور اپنے موضوع پر لکھی گئی بہترین کہانیاں قرار دیا۔عید گاہ سے واپسی ،ترقی پسندی کے مینو فیسٹو کی توسیع ہے۔

معروف افسانہ نگار ابرار مجیب نے کہا کہ اسلم جمشیدپوری۱۹۸۰ میں ابھرنے والے افسانہ نگاروں میں ایک خاص اہمیت کے حامل ہیں ۔ اسلم جمشید پوری نے اردو فکشن کی تشکیک آلود فضا میں اپنی راہ خود متعین کی اور اردو کے صالح افسانوی ادب سے اپنا رشتہ استوار کیا، یعنی ایک طرف حقیقت پسندی کی اہمیت کو سمجھا اوردوسری طرف فکشن میں شفاف بیانیہ کی ضرورت کا ادراک کیا۔اسلم جمشید پوری کے افسانوں میں الجھاؤ ہے نہ وہ معروضی معلومات کی وضاحت کرتے ہیں۔ زندگی کی رنگا رنگی کو اصل شکل میں دکھانا ان کی خاصیت ہے۔ 

انجم عثمانی نے کہا کہ عید گاہ سے واپسی، میں کچھ اچھے افسانے ہیں،کچھ بہت اچھے اور کچھ غیر معمولی افسانے ہیں۔ہر افسانے پر خاصی طویل گفتگو ہو سکتی ہے۔وہ ایک ایسے افسانہ نگار ہیں جو جوہری بھی ہے اور جوہر بناتا بھی ہے۔ان کے افسانوں کے کئی کردار حامد، جفرو،شادمانی بیگم ،لینڈرا شبراتی یاد رہ جانے والے کردار ہیں ۔

پروفیسر کو ثر مظہری نے اپنے منفرد اندز میں کہا کہ اسلم جمشید پوری اب افسانہ نگاری کی باریکیوں سے نہ صرف واقف ہو گئے ہیں بلکہ ان کا بہتر استعمال بھی کرنے لگے ہیں۔ان کے اندر بھر پور ارتقائی عناصر موجوود ہیں۔اس سے قبل بھی انہوں نے لینڈرا اور دیگر بہتر کہانیاں تحریر کی ہیں۔ عید گاہ سے واپسی reconstruction کی کہا نی نہیں ہے بلکہ پریم چند کی توسیع ہے۔ بڑے قلم کار کی تخلیق کی توسیع آسان نہیں۔یہ وقت طے کرے گا یا اسلم خود بتائیں کہ کیا وہ اس سے مطمئن ہیں۔اسلم جمشید پوری سے توقع ہے کہ وہ مزید بہتر افسانے اردو کو دیں گے۔

ڈاکٹر ابو بکر عباد،ڈاکٹر آصف علی اور ڈا کٹر شاداب علیم نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس مو قع پر مہمانان کو مو منٹو پیش کیے گئے۔

پروگرام میں، نصرت ظہیر ،عذرا نقوی ،ڈاکٹر عابد زیدی، ڈا کٹر نشا زیدی،ڈاکٹر علا ء الدین خاں، ڈا کٹر نعیم صدیقی، ڈا کٹر شاہد حسنین، ڈا کٹرہاشم رضا، ڈا کٹر آمرین،ڈاکٹر اسلم قاسمی ،قاضی عقیل احمد، آفاق خاں، محمد ریاض عادل،علی شیر سیفی،سید سبطِ حسن ،محمدمنتظر علیگ، عزنما پروین ،امجد خان ، شہلا نواب ،ذیشان احمد، نوازش مہدی، علیم اختر، سلمان عبد الصمد ،محمد تابش،ظہیر انور، سمیع خان،ارقم شجاع، اکرام بالیان، مختار صدیقی،محمد آصف، سائرہ اسلم، مدیحہ اسلم، شنا ور اسلم،شوقین علی،محمدسہیل، محمد عامر، افرا خاتون،ارشاد سیانوی، عامر نظیر ڈار،حشمت علی، شاداب علی، طا ہرہ پروین اور کثیر تعداد میں عمائدین شہر اور طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔ 

اخلاق الرحمن قدوائی اور محمد شفیع قریشی کی یاد میں تعزیتی جلسہ

غالب انسٹی ٹیوٹ میں اخلاق الرحمن قدوائی اور محمد شفیع قریشی کی یاد میں تعزیتی جلسہ
غالب انسٹی ٹیوٹ اور انجمن ترقی اردو ہندکے زیر اہتمام ملک و قوم کے عظیم رہنما ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی اور محمد شفیع قریشی کے انتقال پر ایوانِ غالب میں ایک تعزیتی جلسے کا انعقاد کیاگیاجس میں پروفیسر اخترالواسع، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، ڈاکٹر اطہر فاروقی، مفتی عطاء الرحمن قاسمی، ڈاکٹر حنیف ترین، ڈاکٹر رضاحیدرکے علاوہ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کے صاحبزادے مونس قدوائی نے اظہارِ تعزیت پیش کی۔ پروفیسر اخترالواسع نے اپنی تعزیتی گفتگو میں فرمایاکہ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی بنیادی طوپرایک بڑے سائنس داں تھے مگر انہوں نے ملک و قوم کی ترقی کے لیے بڑے سے بڑاعہدہ قبول کیااور جس شعبے سے وابستہ رہے اپنی ذہانت و قابلیت سے اُس شعبے کو بلندیوں تک پہنچایا، انہوں نے مزید کہاکہ محمد شفیع قریشی بھی ایک بے باک انسان تھے اور انہوں نے بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے فرمایاکہ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کی خاصیت یہ تھی کہ وہ سماج کے ہر طبقے کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ جب وہ ہریانہ کہ گورنر ہوئے تو انہو ں نے اس ریاست کے سب سے پسماندہ علاقے میوات کی عوام کی ترقی کے لیے نہایت ہی اہم اور بنیادی امور انجام دیے۔ جس ریاست کے بھی گورنر رہے اُس ریاست کی ترقی، تعلیم اور اقتصادی خوشحالی اُن کی ترجیحات میں تھی۔ مرحوم محمد شفیع قریشی بھی ہمارے اُن اکابرین میں سے تھے جنہوں نے کبھی اصولوں سے سمجھوتا نہیں کیا۔ اِن دو عظیم رہنماکا ایک ساتھ رخصت ہوجانا ہم سب کے لیے کسی بڑے نقصان سے کم نہیں ہے۔ انجمن ترقی اردوکے جنرل سکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی نے فرمایاکہ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی بڑے سے بڑے منصب پررہے مگر اردوزبان و ادب کی ترقی کے لیے بھی ہمیشہ کام کرتے رہے۔ انجمن ترقی اردو ہند کے علمی معاملات میں کافی دلچسپی لیتے تھے اور ادارے کے لیے ان کی خدمات کا ہمیشہ اعتراف کیا جائے گا۔ مفتی عطاء الرحمن قاسمی نے کہاکہ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی جیسی ہستی صدیوں میں پیدا ہوتی ہے،بڑے عہدوں سے وابستگی کے باوجود، قناعت پسندی اور انسان دوستی اُن کی زندگی کا سب سے خاص عنصر تھا، بہا رکے گورنر رہتے ہوئے انہوں نے سماجی، علمی اور مذہبی شعبے میں جوگراں قدر خدمات انجام دی ہیں اُسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا،ڈاکٹر حنیف ترین نے اپنے تعزیتی کلمات میں فرمایاکہ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی نے انسانیت کی خدمات کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کردی تھی۔ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کے صاحبزادے مونس قدوائی نے بھی اپنے تاثراتی کلمات میں غالب انسٹی ٹیوٹ اور انجمن ترقی اردو ہندکا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اِن دوبڑے اداروں نے ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کی خدمات کااعتراف کیاجس کے لیے میں ذاتی طورپر شکریہ ادا کرتاہوں۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدرنے جلسے کی ابتدامیں اِن دونوں مرحومین کو اظہارِ تعزیت پیش کرتے ہوئے کہاکہ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی اور محمد شفیع قریشی کاسیاسی، سماجی اور علمی سفر اتنا طویل تھاکہ اُس پر جتنا بھی اظہارخیال کیا جائے کم ہے۔ ہندستانی سیاست میں ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی نے لمبے عرصے تک اپنی موجودگی کااحساس کرایااو ربہار،بنگال، ہریانہ کے گورنر، دلّی کے لیفٹننٹ گورنر، ممبرراجیہ سبھا، چیرمین، یونین پبلک سروس کمیشن کے علاوہ جن جن عہدوں سے وابستہ رہے آپ نے اپنی ذہانت، محنت، ایمانداری، دیانت داری، خلوص اور دلچسپی کے ساتھ تمام عہدوں کی عزت وآبرو کوبرقرار رکھا۔یہ دونوں حضرات غالب انسٹی ٹیوٹ سے بھی وابستہ تھے اور اِن کی وابستگی سے ادارے کے وقارمیں ہمیشہ اضافہ ہوتارہا۔ اس جلسے میں ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی اور محمد شفیع قریشی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لے بڑی تعداد میں مختلف شعبوں کے لوگ موجود تھے۔ 

سابق گورنراخلاق الرحمن قدوائی کی رحلت پر غالب انسٹی ٹیوٹ میں تعزیتی جلسہ

کئی صوبوں کے سابق گورنر، سابق ممبر راجیہ سبھا، سابق چیرمین یونین پبلک سروس کمیشن و ٹرسٹی، غالب انسٹی ٹیوٹ ، ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کے انتقال پر غالب انسٹی ٹیوٹ میں فوراً ایک تعزیتی جلسے کاانعقاد کیاگیا۔اس موقع پر غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنے تعزیتی کلمات میں کہاکہ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کی رحلت ہم سبھی کے لیے ایک بڑے المیے سے کم نہیں ہے۔ مرحوم ایک طویل مدت تک بڑے سے بڑے منصب پر فائز رہے مگر ہرایک کی خوشی و غم میں برابر شریک رہے، دوسروں کے دکھ میں خودکو اور اپنی خوشیوں میں دوسروں کو شریک رکھنا آپ کی زندگی کانصب العین تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ان کے انتقال سے اُن سے وابستہ تمام افراد پر سوگواری کا عالم ہے۔ جس ادارے سے بھی آپ وابستہ رہے اُس ادارے کواپنی ذہات اور لیاقت سے بلندیوں تک پہنچایا، بحیثیت گورنر آپ جس صوبے میں بھی رہے اُس کی ترقی میں آپ کازبردست کردار رہا۔ موت برحق ہے اور ہر شخص کو اُس کی گرفت میں آناہے۔ مگر ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کی موت صرف ان کی موت نہیں ہے بلکہ، ایک عہد اور ایک تہذیب کا خاتمہ ہے۔ آپ کی کمی ہمیں ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی۔میری دعا ہے کہ پروردرگار عالم اُن کے درجات کو بلند کرے اور ہم سبھی کو حوصلہ عطا کرے کہ ہم اس عظیم غم کو برداشت کرسکیں۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹررضاحیدرنے اپنے تعزیتی پیغام میں کہاکہ ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی مدتوں سے غالب انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ رہے اور آپ نے اس ادارے کو فروغ دینے میں نمایاں امور انجام دیے۔ بحیثیت ٹرسٹی اور ایکزیکٹو ممبر آپ ادارے کے تمام معاملات میں کافی دلچسپی لیتے تھے اور ہر ممکن آپ کی یہ کوشش رہتی تھی کہ غالب انسٹی ٹیوٹ اپنے اغراض ومقاصدکے ساتھ آگے بڑھتارہے۔ ہمیں بے انتہا افسوس ہے کہ آج ہم اپنے ایک بڑے محسن سے محروم ہوگئے۔ ہماری یہ کوشش ہوگی کہ ہم آنے والے دنوں میں اُن کے وژن کو لے کرادارے کوعلمی وادبی اعتبار سے مزید مضبوط بنائیں۔ اس تعزیتی جلسے میں ڈاکٹر ادریس احمد، ڈاکٹر سہیل انور، عبدالواحد، یاسمین فاطمہ، عبدالتوفیق، محمدعمر، پرویز عالم کے علاوہ غالب انسٹی ٹیوٹ کے تمام اسٹاف نے اپنے گہرے رنج و غم کااظہار کیا۔

جے پور میں ایک شام غالب کے نام

غالب انسٹی ٹیوٹ اور راجستھان کا اہم ادبی و ثقافتی ادارہ جواہر کلاکیندر، جے پور کے باہمی اشتراک سے ’’ایک شام غالب کے نام‘‘ کے موضوع پر جے پورمیں ایک بڑے جلسے کاانعقاد عمل میںآیا۔ اس جلسے میں راجستھان کے سابق وزیرِ صحت اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے وائس چیرمین جناب اعمادالدین احمد خاں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے موجود تھے اور پروفیسر علی احمد فاطمی، جناب جگروپ سنگھ یادو، جناب معظم علی، محترمہ انورادھا سنگھ کے علاوہ کئی ادیبو ں نے غالب او رعہدِ غالب کے تعلق سے گفتگو کی۔ اعمادالدین احمد خاں نے اس جلسے کا افتتاح کرتے ہوئے سب سے پہلے غالب انسٹی ٹیوٹ اور جواہر کلاکیندر کو مبارکباد پیش کیا اور فرمایاکہ آج ہم سب کے لیے بڑے اعزازکی بات ہے کہ سرزمین راجستھان پر ہم اُس عظیم شاعرکو یاد کر رہے ہیں جس نے اپنی شاعری کے ذریعے پوری عالمِ انسانیت کو محبت اور بھائی چارگی کا پیغام دیا۔اعماد الدین احمدخاں نے غالب کے حوالے سے فرمایاکہ غالب کی شاعری کی مقبولیت کس حد تک بڑھ رہی ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتاہے کہ ملک کے بڑے بڑے رہنمابھی اپنی گفتگو میں وزن پیدا کرنے کے لیے غالب کے اشعار کا استعمال کرتے ہیں۔ عام طورسے یہ خیال کیا جاتاہے کہ غالب کے کلام کو پسندکرنے والے صرف ایک طبقے کے لوگ ہیں لیکن یہ ہماری غلط فہمی ہے کیونکہ آج غیر اردوداں طبقے میں سب سے زیادہ غالب محبوب بنے ہوئے ہیں۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدرنے اپنی استقبالیہ گفتگو میں کہاکہ اس ادارے کے مقاصد میں اردو وفارسی زبان و ادب کی ترقی کے ساتھ یہ بھی ہے کہ ہم غالب،معاصرینِ غالب اور عہدِ غالب پرملک کے سبھی بڑے شہروں میں جلسے کا انعقاد کریں۔ ہم نے ملک کے متعدد شہروں میں غالب کو یاد کیاہے اور ہمیں خوشی ہورہی ہے کہ ہم جے پور میں بھی غالب پر گفتگو کے لیے موجود ہیں۔آپ نے مزید فرمایاکہ ملک اور بیرونِ ملک میں غالب پر بے شمار سمینار، سمپوزیم اور جلسوں کا انعقا دہوچکاہے، ایک ہزار سے زیادہ کتابیں مختلف زبانوں میں غالب پر شائع ہوچکی ہیں لیکن جب بھی ہم غالب کی شاعری پر گفتگو کرتے ہیں تو ہمیں تشنگی کااحساس ہوتاہے۔ آج بھی ہمارے علما کلامِ غالب میں نئے نئے معنی و مفاہیم تلاش کرلیتے ہیں۔ الٰہ آباد یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو پروفیسر علی احمد فاطمی نے فر مایا کہ غالب صرف عظیم شاعر ہی نہ تھے بلکہ بڑے ذہن کے مالک تھے۔ان کی زندگی کے تین واقعات بیحد اہم ہیں۔یتیم ہونا۔دہلی میں منتقل ہونااور کلکتہ کاسفر کرنا۔ زندگی کے رنج و غم اور جدوجہد نے اُن کے دل و دماغ میں حیات وکائنات کا وسیع ترین اور بلند ترین تصور پیش کیا۔ جس کے مختلف و بلیغ اشارے ان کی شاعری میں نظرآتے ہیں۔ کبھی وہ بربادی میں حسرت تعمیر دیکھتے ہیں، کبھی وہ دنیاکو بازیچۂ اطفال سمجھنے لگتے ہیں۔ اورکبھی بیاباں میں بہار کو تلاش کرنے لگتے ہیں۔ اسی لیے ان کی شاعری میں گہرائی کے ساتھ ساتھ دلنوازی بھی ہے۔انہوں نے اپنے ذاتی کرب کو دنیا کے کرب میں ڈھال دیا۔ اورجاتی ہوئی تہذیب کو رخصت کیا تو آنے والی تہذیب کا استقبال کیا۔اسی لیے وہ انسان اور انسانیت۔ تہذیب و معاشرت کے شاعرِ عظیم بن گیے۔اس جلسہ میں جگروپ سنگھ یادو(آئی۔اے۔ایس)، جناب معظم علی سکریٹری راجستھان اردو اکادمی اور اظہارمسرت نے بھی اپنے خیالات کااظہار کیا۔جلسے کے دوسرے حصّے میں بین الاقوامی شہرت یافتہ غزل سنگر استاد اقبال احمد خاں اور اُن کے شاگردوں نے اپنی خوبصورت آوازمیں غالب کی غزلوں کو پیش کرکے سامعین سے داد و تحسین حاصل کی۔اس جلسے میں بڑی تعداد میں سیاسی رہنما، بیوروکریٹس، وکلا، طلبا، طالبات کے علاوہ مختلف علوم و فنون کے افراد کثیر تعداد میں جمع تھے۔


 

غالب توسیعی خطبہ 2016

غالب کی شاعری نوائے سروش سے زیادہ امکانات کے دائرے میں آتی ہے

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام’’غالب توسیعی خطبہ‘‘میں الہ آبادیونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرآرایل ہانگلو کااظہارخیال

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام غالب توسیعی خطبہ بعنوان ’’غالب اور انیسویں صدی‘‘کا انعقاد کیا گیا، جس میں الہٰ آباد یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر آر ایل ہانگلو نے اپناخطبہ پیش کیا۔ ممتاز مورخ اورجے این یو کے سابق استاذپروفیسر ہربنس مکھیا نے صدارت کی۔ 

پروفیسر آر ایل ہانگلو نے اپنے توسیعی خطبے میں کہاکہ میرے پاس جو کچھ ہے وہ مکھیا صاحب کے قدموں سے اٹھایا ہے۔ اگر میرا دوسرا جنم ہوا تو میں اردو ادب پڑھنا پسند کروں گا۔ غالب کی حیثیت منفرد و ممتاز ہے، غالب کسی محدود مدت کا شاعر نہیں، وہ ہمیں صدیوں پیچھے بھی لے جاتا ہے اور صدیوں آگے بھی۔ کئی بار لوگوں نے غالب کے کلام کے سیاق و سباق کا خیال رکھے بغیر مفاہیم اخذ کر لیے ہیں۔ غالب نے جب آنکھیں کھولیں تو انگریزوں نے اپنے بال وپر پھیلا لیے تھے،غالب نے اپنے بچپن میں اکبر ثانی کی کسم پرسی دیکھی ،ہندوستان کے دگر گوں حالات دیکھے، حالاں کہ غالب کا بچپن نہایت ہی خوشحالی میں گزرا تھا، اس کے باوجود غالب کا سفر کلکتہ ہماری ادبی تاریخ کا المیہ ہے۔ جب ہم غالب کی تصویر دیکھتے ہیں توایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ دور رس فکری گتھیوں کو سلجھانے میں لگے ہیں۔اس کے باوجود کہ وہ انیسویں صدی میں موجود تھے یعنی وہ منظر کا حصہ تھے لیکن وہ کبھی منظر نہیں بنتے۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ غالب صرف اپنے زمانے کا نوحہ خواں تھا ، مشرقی تاریخ وادب میں غالب وسعت نظری اور فکری پرواز کا ایک کوہ گراں مایہ ہے۔ دہلی کے حالات کو دیکھ کر غالب سمجھ گئے تھے کہ دلی کے دلوں میں اب تیل باقی نہیں ہے اس لیے انہوں نے سفر کیا۔ غالب اپنے زمانے کے سیاسی حالات اور ماحول سے ناواقف نہیں تھے، چوں کہ وہ لال قلعے میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں آتے جاتے ماحول پر گہرائی کے ساتھ غور وفکر کیا کرتے تھے۔ غالب انگریزوں کی صنعتی ترقی پر حیران تھے غالب عارضی فتوحات سے خوش نہیں ہوتے تھے۔ غالب جانتے تھے کہ انگریزوں کی عمل داری بنگال سے پشاور تک محیط ہے۔ غالب اپنے زمانے کے اس فکر ی رجحان کی نشاط ثانیہ کے علم بردار تھے جس کی طلائی کڑی سر سید احمد خان تھے،جس طرح سر سید تبدیلیوں کے خواہاں تھے اسی طرح غالب بھی معاشرے میں تبدیلیوں کے لیے کوشاں تھے۔ غالب نے پہلی بار گلشن نہ آفریدہ کی بات کی، غالب کی شاعری نوائے سروش سے زیادہ امکانات کے دائرے میں آتی ہے اور ان کا یہ رویہ انہیں غیر روایتی شاعر بنا تا ہے۔ غالب کے افکارشیخ اکبرمحی الدین ابن عربی سے لیکر متاخرین کشمیری صوفی شعرا کی توسیع ہیں۔ 

اس توسیعی خطاب سے پہلیالہٰ آباد یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو پروفیسر علی احمد فاطمی نے تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے کہاکہ آج اس پروگرام میں دو بڑے مورخین شرکت کر رہے ہیں۔ پروفیسر ہانگلو کے خطبے کا اندازہ ان کی گفتگو کے بعد لگایا جا سکتا ہے۔ پروفیسر ہانگلو کا آبائی وطن کشمیر ہے وہ وہاں درس و تدریس کے پیشے سے بھی وابستہ رہے ۔ اس کے علاوہ مختلف اداروں سے بھی وابستگی رہی ہے۔ سیکڑوں مضامین اور تقریباً 8کتابیں بھی شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان کی خدمات کے عوض مختلف اعزازات سے بھی انہیں نوازا جا چکا ہے۔ آپ اردو ، ہندی ، کشمیری کے علاوہ فارسی سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔ انہی کامیابیوں کے پیش نظرحکومت ہندنےآپ کوالہٰ آباد یونیورسٹی کا وائس چانسلر منتخب کیا ہے۔ 

پروفیسر ہربنس مکھیا نے صدارتی گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ میں غالب کا مداح ہوں مگر میرا بہت زیادہ مطالعہ نہیں ہے، ہانگلو صاحب کاغالبیات پر عالمانہ اور خوبصورت مطالعہ ہے۔اردو کی اعلیٰ شاعری اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں ہی ہوئی ہے ۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے حوالے سے کسی شاعر کا مطالعہ دلکش ہو جاتا ہے۔ محبت کوجس طرح سے غالب نے سمجھاہے غالباً کسی اور شاعر نے نہیں سمجھا ہے۔ غالب کی غیر مشروط محبت مجھے بہت عزیز ہے۔ غالب کے یہاں زندگی کا درجہ اعلیٰ و ارفع ہے۔ زندگی کی وسعتیں ،اس کی محبت اور ان کے اعلی افکاران کی شاعری کومحدود نہیں ہونے دیتے ۔ 

قبل ازیں خیر مقدمی کلمات پیش کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رضا حیدر نے کہاکہ اس صدی کو سمجھنے کے لیے غالب کو سمجھنا اشد ضروری ہے ، یہ غالب کی ہی نہیں بلکہ زبان و ادب کی صدی ہے۔ اس صدی کی اپنی تاریخی نوعیت ہے ۔آج کا یہ خطبہ اہمیت و افادیت کا حامل ہے ، خطبے کی اشاعت بہت جلد ہوگی۔ اور اس خطبے سے استفادہ کیا جا سکے گا۔ 

غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اظہار تشکر ادا کرتے ہوئے کہاکہ غالب کے اشعار ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ جانتا ہے کہ وہ کس طرح کے پر آشوب زمانے میں جی رہا ہے۔ ایک شخص جو اپنی شاعری میں سوالات کرتا ہے اس کا جواب ہم اب تک تلاش کر رہے ہیں اور آئندہ سو برسوں تک تلاش جاری رہے گی۔ غالب صرف واہ واہ کا شاعر نہیں غور وفکر پر مجبور کرنے والا شاعر ہے۔اس توسیعی خطاب میں دلی کی اہم علمی وادبی شخصیات نے شرکت کی،جن میں بالخصوص پروفیسر شمیم حنفی، پروفیسر شاہد حسین، گلزار دہلوی ،پروفیسر وہاج الدین علوی، پروفیسر انور پاشا، پروفیسر خواجہ اکرام الدین، پروفیسر مظہر مہدی، شاہد ماہلی، ڈاکٹر حسنین اختر،ڈاکٹر ابوبکر عباد،ڈاکٹر محمد کاظم،ڈاکٹر نگار عظیم، ڈاکٹر خالد علوی،ڈاکٹر خالد اشرف،پروفیسر شہزاد انجم،پروفیسراحمد محفوظ،ڈاکٹرسرور الہدی، آصف اعظمی، وسیم راشد،ڈاکٹرممتازعالم رضوی ،نورین علی حق اور سید عینین علی حق وغیرہ قابل ذکرہیں ۔

غالب انسٹی ٹیوٹ میں منعقد فخرالدین علی احمد میموریل لکچر

تہذیبی ومذہبی اورثقافتی تصادم کے خاتمے کافلسفہ صرف صوفیوں کے پاس:جسپال سنگھ
غالب انسٹی ٹیوٹ میں منعقد فخرالدین علی احمد میموریل لکچرمیں پنجابی یونیورسٹی ،پٹیالہ کے وائس چانسلر کااظہارخیال
نئی دہلی :غالب انسٹی ٹیوٹ میں سابق صدرجمہوریہ ہنداور غالب انسٹی ٹیوٹ کے بانی فخرالدین علی احمد کی یاد میں۲۸ مئی کو میموریل لکچر کا انعقاد کیا گیا ۔تصوف اورسماج پراس کے اثرات کے موضوع پراپناتوسیعی خطبہ دیتے ہوئے پنجابی یونیورسٹی ،پٹیالہ کے وائس چانسلر ڈاکٹرجسپال سنگھ نے کہاکہ تصوف کی مزید تفہیم کے لیے میں نے اس موضوع پرتقریر کے لیے خود کوتیارکیا ہے۔مذاہب اورروحانیت کی دنیا میں تصوف کا جو اپنا منفردو ممتاز مقام ہے اس سے سرموانحراف کی گنجائش قطعی نہیں ہے۔ہرمذہب میں کسی نہ کسی صورت میں صوفی ازم موجود ہے ۔دراصل خداسے مربوط ہونے اور اس کے عرفان کو یقینی بنانے کے لیے عشق ومحبت کی راہ پرچلنے کا نام ہی صوفی ازم ہے ۔محبت اورمٹھاس کی راہ تصوف اورصوفیوں کی راہ ہے ۔نظریہ وحدۃ الوجود صوفیت کی بنیاد ہے ۔تصوف مخصوص طرز حیات کانام ہے۔تصوف وحدت میں کثرت کاترجمان اور طالب وکیل ہے ۔مجھے لگتا ہے کہ تکثیریت خداکی دین ہے کہ اس نے اپنی اس دنیا کے لیے مختلف ومنفرد مذاہب کوپیداکیا ۔مختلف رنگ ونسل کے افراد کی تخلیق کی اورتکثیریت کے جولوگ مخالف ومعاند ہیں وہ دراصل خداکے مخالف ہیں ،اس کے فیصلوں کے مخالف ہیں ۔تصوف کی راہ میں رسم ورسوم تعلیم سے اعلی وافضل اخلاقیات کی عملی تعلیم ہے ۔سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے فرمایاکہ انسان کو دریاکی سی سخاوت ،سورج کی سی شفقت اورزمین کی سی تواضع اختیارکرنی چاہیے ۔خواجہ ہند کے یہ اقوال بالخصوص اس زمانے کے لیے بہت ہی اہم ہیں ۔غیروں کی غیریت کواہمیت دینا تصوف ہے ۔یہی وجہ ہے کہ صوفیوں کے یہاں مکالمے کی بڑی اہمیت ہے وہ خود کو ہی اعلی وارفع گمان نہیں کرتے دوسروں کی شناخت ،ان کی اہمیت اوران کی شخصیت کے تحفظ اورقدردانی کو اپنافرض منصبی قراردیتے ہیں ۔اس لیے یہ کہاجاسکتا ہے کہ اس جدید تردنیا میں جاری وساری اختلافات وتصادم تصوف کے نظریہ کو اختیارکرکے ہی ختم کیا ساسکتا ہے اورجب ہم ان عادتوں کو اختیارکرلیتے ہیں تو صوفی کہلاتے ہیں ۔تصوف کو اختیارکرنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ہندو،مسلم ،سکھ ،عیسائی کوئی بھی صوفی ہوسکتا ہے ۔صوفیوں کے سجدے نمائشی نہیں ہوتے ان کے سروں کے ساتھ دل بھی بارگاہ خدابندی میں جھک جاتے ہیں ۔جب سرجھک جائے اوردل نہ جھکے توسجدہ نہیں ہوتا۔وفاداری کے بغیر سجدہ کبھی سچا نہیں ہوتا ۔صوفی عملی زندگی اختیارکرتے ہیں ان کے اقوال وافعال میں تضادات نہیں پائے جاتے نہ وہ تضادات کو کسی صورت میں برداشت کرتے ہیں ۔تہذیبی ومذہبی اورثقافتی تضادات کواگرکوئی چیز ختم کرسکتی ہے تووہ تصوف ہے ۔صرف اورصرف صوفیوں کے پاس وہ فلسفہ ہے ،جودنیا کو ٹکراؤ اورتصادم سے دورکرسکتا ہے ۔اگرہم آپسی نزدیکیوں کے خواہاں ہیں تو ہمیں صوفیوں کی راہ پرچلنا ہوگا۔ہماراطرزحیات اورنظریہ حیات میں مثبت تبدیلی آسکتی ہے اگرہم صوفیوں کی راہ پرچلنے لگیں ۔ڈاکٹر جسپال سنگھ نے اس موقع پرپنجاب اور ،سکھوں اور تصوف کی مستحکم باہمی روایت کو بھی بیان کیا۔انہوں نے متقدمین صوفیہ میں سے معروف صوفی بزرگ ،پنجابی شاعر ،دانش ور اورخواجہ نظام الدین اولیا کے شیخ حضرت بابافریدالدین گنج شکر کی شاعری اورگروگرنتھ میں شامل ان کے دوہوں کو پڑھ کرسنایا اور اس کے فنی وہیئتی اور اسلوبی خصوصیات کے علاوہ ان میں پائی جانے والی صوفی تعلیمات کو بھی بیان کیا۔اس کے علاوہ گرونانگ ،گروگرنتھ صاحب اور بابافرید کی اولاد وجانشین سے گرونانک صاحب کے باہمی مستحکم تعلقات کوبھی واضح کیا۔اس موقع پراپنی صدارتی گفتگومیں سابق صدرجمہوریہ فخرالدین علی احمد کے صاحبزادے اورغالب انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین ڈاکٹرپرویزعلی احمد نے بابافریدسے اپنے نانی ہالی شجرے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ موجودہ زمانے میں اگر کوئی چیز سب سے زیادہ مناسب ہے اوروہ ہمارے مسائل کاحل تلاش کرسکتی ہے تووہ تصوف ہے ۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ آج کے لکچرنے نہ صرف ہمارے مسائل اوران کاحل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ اس سے ہمیں کئی باتیں معلوم ہوئی ہیں ۔بابافرید کے دوہے ،ان کے کلام اورسکھوں سے بابافرید کے خاندان کے تعلقات سن کر محظوظ ہواہوں ۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسرصدیق الرحمان قدوائی نے اپنے تعارفی کلمات میں کہاکہ ڈاکٹرجسپال سنگھ ہمارے کے لیے نئے نہیں ہیں ۔انہوں نے دہلی سے ہی اپنے اکیڈمک کیریئر کا آغاز کیا ہے اوربرسوں یہاں رہے ان سے ہم متعارف ہیں اور ان کی کتابیں دیکھتے اورلکچرسنتے رہے ہیں ۔اکیڈمک سطح کے اعلی عہدوں کے ساتھ ہی ساتھ یہ ڈپلومیٹ بھی رہ چکے ہیں ۔بھارت کی جانب سے دوممالک میں سفیر بھی رہے ہیں ۔ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی نیت سے انہیں غالب انسٹی ٹیوٹ کے اس اہم فخرالدین علی احمد میموریل لکچر کے لیے مدعو کیاگیا ہے ۔انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹرسید رضا حیدرنے جلسہ کے افتتاح میں کہاکہ ہندوستانی صوفیہ کی خدمات اورمذاہب کے تئیں ان کے جذبات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔خانقاہیں ایسے مراکز ہیں جہاں ذرّہ برابر بھی امتیاز نہیں پایاجاتا ہے۔ وہاں سے مذہب وملت کی تفریق کے بغیرتمام مذاہب کے پیروکار کسب فیض کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ خانقاہوں کی اہمیت وافادیت ہردورمیں مسلّم رہی ہے ۔انہوں نے میموریل لکچر کے لیے منتخب موضوع پرگفتگوکرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ آج جس شخصیت کو لکچرکے لیے مدعو کیا گیا ہے وہ تصوف سے خاصی دلچسپی رکھتے ہیں اورتصوف کے حوالے سے ان کے متعدداہم کام سامنے آچکے ہیں ۔ڈاکٹرجسپال سنگھ کا تعلق پنجاب سے ہے اورپنجاب ہندوستان میں صوفیوں کاسب سے بڑااوراہم مرکز رہا ہے ۔ ڈاکٹرجسپال سنگھ کو غالب انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین اوراس پروگرام کے صدرڈاکٹرپرویزعلی احمد نے اس خاص موقع پرغالب انسٹی ٹیوٹ سے شائع ہونے والی کتابوں کا تحفہ بھی پیش کیا۔اس پروگرام میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے جسٹس بدردریزعلی احمد بھی موجود تھے ۔ان کے علاوہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر شاہد مہدی، اے رحمان ،پروفیسرشریف حسین قاسمی ،متین امروہوی ،پنجابی یونیورسٹی کے بابافرید صوفی اسٹڈیز کے ڈائرکٹرپروفیسرناشرنقوی ،پاکستان ہائی کمشنرکے نمائندہ طارق کریم،ڈاکٹرجمیل اختر،ڈاکٹرابوبکرعباد،مولانانبیل اختر، ڈاکٹراشفاق عارفی ، ڈاکٹر شعیب رضا خاں اورغالب انسٹی ٹیوٹ کے تمام اراکین کے علاوہ بڑی تعداد میں مختلف علوم و فنون کے افراد موجود تھے۔

دو روزہ قومی سمینار

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام فارسی و اردو کے ممتاز نقاد،محقق ، دانشور اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے 

سابق چیئرمین پروفیسر نذیراحمدکی علمی وادبی خدمات کے اعتراف میں دو روزہ سمینار بعنوان ’’1947 کے بعد فارسی زبان و ادب اور پروفیسر نذیراحمد‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔سمینار کے افتتاحی اجلاس میں انسٹی ٹیوٹ آف پرشین ریسرچ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ڈائرکٹر پروفیسر آذر میدُخت صفوی نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ میں ان کی شاگرد ہوں اور مجھے یہاں کلیدی خطبے کے لیے مدعو کیا گیا ہے یہی میرے لیے اعزاز و افتحار ہے۔ میں نے اپنی زندگی کا پہلا مقالہ نذیر صاحب کی سرپرستی میں غالب انسٹی ٹیوٹ ہی میں پیش کیاتھا۔ اس ادارے کے استحکام جہاں تمام اکابرین کا اہم رول ہے وہیں غالب انسٹی ٹیوں کے مقاصد کو مستحکم اور فروغ دینے میں پروفیسر نذیر احمد کابھی اہم کردار رہا ہے۔ ان کے علم و تحقیق کا دائرہ نہایت ہی وسیع تھا۔ وہ کلاس میں جو نصاب پڑھاتے تھے وہ آج طلباء کو نہیں پڑھائے جاتے ہیں۔ زبان شناسی کا سبق وہ ہمیں پڑھاتے تھے جو آج نہین پڑھائے جاتے ہیں جو کہ بہت ضروری ہے۔ محقق کے مزاج میں جو دیانت داری ہونی چاہئے وہ نذیر احمد میں تھی۔ 

خانۂ فرہنگ، جمہوری اسلامی ایران، نئی دہلی کے کلچرل کونسل ڈاکٹر علی دہگائی نے صدارتی خطبے میں ہند و ایران کے تہذیب ، ثقافتی اور ادبی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے اسے قدیم قرار دیا۔ انہیں نے مزید کہاکہ پروفیسر نذیر احمد ایک جید عالم تھے جن سے بڑا حافظ شناس کوئی نہیں تھا۔ پروفیسر نذیر نے حافظ کے حوالے سے جو کار نامہ ہندوستان میں انجام دیا اس کی ستائش آج بھی ایران میں کی جاتی ہے۔ مخطوطہ شناسی کے تعلق سے بھی ان کی خدمات کا احاطہ اشد ضروری ہے جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ نئی نسل پروفیسر نذیر احمد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تحقیق کے کارنامے اور فارسی زبان کو فروغ دینے کی مسلسل کوشش کرے گی۔ 

غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنے استقبالیہ کلمات میں کہاکہ پروفیسر نذیر احمد صرف میرے ہی نہیں بلکہ کئی نسلوں کے استاذ تھے۔ فارسی و اردو کی علمی دنیا کا ان کے بغیر تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ مختلف ممالک میں ان کے شاگردوں کی بڑی تعداد موجو دہے۔ وہ غالب انسٹی ٹیوٹ کی ہر سرگرمی میں دلچسپی لیتے تھے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ جس بلندی پر پہنچا ہے وہ نذیر صاحب کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے۔ یہ سمینار ہمارے لیے ہمیشہ یاد گار رہے گا، اس سمینار کی بڑی اہمیت یہ بھی ہے کہ فارسی ادب کا جتنا گہرا رشتہ ہماری تہذیب سے ہے وہ ہم سب جانتے ہیں ، فارسی ہماری رنگوں میں بسی ہوئی ہے۔ فارسی غیر ملکی نہیں بلکہ ملکی زبان بھی ہے۔ عرصہ دراز تک فارسی کے بغیر ہمارا کوئی بھی علمی کا م مکمل نہیں ہو سکتا تھا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ نے اردو کے ساتھ ساتھ فارسی زبان و ادب کے حوالے سے بھی اہم کار نامے انجام دیے ہیں اور ضرورت ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے۔ 

فارسی کے اہم دانشور پروفیسر شریف حسین قاسمی نے تعارفی کلمات میں کہاکہ میں پروفیسر نذیر احمد کے ان ہزاروں شاگردوں میں شامل ہوں جو آج بھی ان کی تحریروں سے استفادہ کرتے ہیں۔ نذیر صاحب نے تین چار فرہنگیں بھی لکھی ہیں ان کا یہ کام ناقابل فراموش اور ادب کے سرمائے میں بڑا اضافہ ہے۔ نذیر صاحب نے یہاں سے پی ایچ ڈی کی اور ایران گئے، جہاں ان کی قدر و منزلت کا عالم یہ تھا کہ ان کے اساتذہ بھی انہیں دیکھ کر اٹھ جایا کرتے تھے۔ ایرانیوں نے انہیں اس قدر توجہ سے پڑھا کہ ہم اس کا حق بھی ادا نہیں کر سکتے۔ ایرانی حضرات ان سے وابستہ لوگوں کی بھی قدر کرتے ہیں۔ نذیر صاحب کے بارے میں ایرانی حضرات کہتے ہیں کہ وہ ایران کے پہلے محقق تھے۔ ہمیں اپنے فارسی ادبا کو بھلانا اور فراموش نہیں کرنا چاہئے کیوں کہ ان لوگوں کا اپنے اپنے عہد میں اہم تعاون رہا ہے۔ شعب�ۂ فارسی دہلی یونیورسٹی کے صدر پروفیسر چندر شیکھرجواس جلسہ میں مہمانِ اعزازی کے طورپر موجود تھے، انہوں نے کہاکہ پروفیسر نذیر احمد وہ قد آورمحقق تھے اور انہوں نے تحقیق کے میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں اسے علمی دنیا میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے مزید کہاکہ میں غالب انسٹی ٹیوٹ سے درخواست کروں گا کہ وہ فارسی کے اساتذہ اور علماکا سوانحی خاکہ مرتب کریں تاکہ ان کی یادیں تازہ رہ سکیں۔ اس میں وہ تمام اساتذہ شامل ہوں جنہوں نے کسی بھی طور پر فارسی کی خدمت کی ہو۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سید رضاحیدر نے افتتاحی اجلاس کی نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے کہاکہ پروفیسر نذیراحمدفارسی زبان وادب کے ایک جیّد عالم تھے انہو ں نے بیک وقت مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی اگر ہم پروفیسر نذیراحمدکواردو و فارسی ادب کی آبرو کہیں تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے سوسے زیادہ کتابیں تحریر کیں اور ان کے بے شمار مضامین ہمیں آج بھی علمی روشنی عطا کر رہے ہیں۔ جب ہم ان کے علمی کارناموں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں دورِ جدید میں ان کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا۔انہوں نے اردو اور فارسی کااتنا قیمتی ذخیرہ چھوڑاہے جس سے کئی نسلیں فیضیاب ہوتی رہیں گی۔ ہمیں بے انتہا خوشی ہے کہ آج ہم اس شخص کو یاد کر رہے ہیں جس نے غالب انسٹی ٹیوٹ کی شکل میں ایک ایسا علمی پودااُگایاجو آج ایک تناوردخت کی شکل اختیار کرچکاہے اور جس کے سائے میں بیٹھ کر ہم اردو اور فارسی دنیاکوعلمی پیغام دے رہے ہیں۔ افتتاحی اجلاس کے اختتام پر پروفیسر نذیر احمد کی صاحبزادی اور دہلی یونیورسٹی،شعبۂ فارسی کی سابق صدر،پروفیسر ریحانہ خاتون نے تمام حضرات کا اظہارِتشکّر ادا کیا۔افتتاحی اجلاس کے بعدسمینار کا پہلا اجلاس منعقد کیا گیا جس کی صدارت پروفیسر آذرمی دخت صفوی، پروفیسر قمر غفار اور پروفیسر علیم اشرف نے کی جب کہ نظامت کے فرائض شعبہ فارسی دہلی یونیو رسٹی کے استاذ ڈاکٹر اکبر علی شاہ نے انجام دیے۔ اس اجلاس میں پروفیسر عراق رضا زیدی، ڈاکٹر اخلاق احمدآہن ، پروفیسر سید محمد اسد علی خورشید، ڈاکٹر جمشید خان اور ڈاکٹر قمر عالم نے اپنے مقالوں میں پروفیسر نذیر احمد اورسمینار کے موضوع کے تعلق سے علمی گفتگو پیش کی۔ 

دوسرے دن تین اجلاس کا انعقاد ہوا۔ سمینار کے دوسرے دن کے پہلے اجلاس میں صدارت پروفیسر عبدالقادر جعفری اور پروفیسر ریحانہ خاتون نے کی جب کہ نظامت کا فریضہ ڈاکٹر سرفراز احمد خان نے انجام دیا۔ پروفیسر آصف نعیم، ڈاکٹر محمود فیاض ہاشمی، ڈاکٹر احتشام الدین اورڈاکٹر نکہت فاطمہ نے اپنے مقالات پیش کیے۔ پروفیسر عبدالقادر جعفری نے صدارتی گفتگو میں کہاکہ تمام مقالات میں پروفیسر نذیر احمد اور فارسی زبان و ادب کے حوالے سے مکمل گفتگو کی گئی ، خصوصاً پروفیسر آصف نعیم کا مقالہ اپنی نوعیت کا منفرد مقالہ تھا۔پروفیسر ریحانہ خاتون نے بھی موضوع کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی۔ تیسرے اجلاس میں پروفیسر شریف حسین قاسمی ، پروفیسر آصف نعیم اور پروفیسر اختر مہدی نے صدارتی فریضے کو انجام دیااور نظامت ڈاکٹر کلیم اصغر نے کی۔ اس سیشن میں پروفیسر عبدالقادرجعفری، پروفیسر علیم اشرف،پروفیسر ریحانہ خاتون اور ڈاکٹر سرفراز احمدخان نے مقالات پیش کیے۔تیسرے اجلاس کے تمام مقالات موضوع اور معنی کے اعتبار سے کافی اہم تھے جس پر سامعین حضرات نے بھی وقفہ سوالات میں اظہار خیال کیا۔ صدارتی گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کہاکہ ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہم اگر سبھی ایک موضوع پر مقالے پیش کر رہے ہیں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ مختلف علمی گوشوں پر بھی روشنی ڈالی جائے تاکہ سمینار کا حق ادا ہوسکے۔سمینار کے جہاں کئی مقاصد ہوتے ہیں وہاں ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم مقالات کو آنے والی نسلوں کے لیے ایک دستاویز کی شکل میں پیش کریں۔آپ نے مزید کہاپروفیسر نذیر احمدکبھی اعزازات کے متلاشی نہیں رہے بلکہ انہیں جو اعزازات ملے وہ ان کے لیے نہیں بلکہ ان تمام اعزازات کے لیے اعزاز کی بات تھی۔ نذیر صاحب بڑے صاحب نظر تھے،ان کی ہمیشہ کوشش رہتی تھی کہ غالب انسٹی ٹیوٹ فارسی کے اہم علماء اور ادبا پر مسلسل علمی و تحقیقی کام کرتا رہے اور آج یہ سب کچھ انہی کی خواہشوں کا نتیجہ ہے۔ پروفیسر اختر مہدی نے کہاکہ پروفیسر نذیر احمد علم و ادب کے وہ درخشاں ستارہ تھے جنہیں جہان فارسی میں کبھی بھلایا نہیں جا سکتا ہے۔ میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ذمہ داران کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اہم موضوع پر سمینار منعقد کیا ہے۔ پروفیسر آصف نعیم نے بھی اپنے مقالے میں پر مغز گفتگو کی۔ تیسرے اور اختتامی اجلاس میں بطور صدر پروفیسر محمد یوسف ، ڈاکٹر اخلاق آہن موجود تھے اس اجلاس میں نظامت کا فریضہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی،شعبہ فارسی کی ریسرچ اسکالر رفعت مہدی رضوی نے انجام دیا۔پروفیسر شریف حسین قاسمی، پروفیسر قمر غفار، ڈاکٹر کلیم اصغر، ڈاکٹر مہتاب جہاں، ڈاکٹر اکبر شاہ اور ڈاکٹر مسرت فاطمہ نے اس اجلاس میں مقالے پیش کیے۔ان دو دنوں کے سمینار میں تقریباً ۲۵ سے زائد مقالات پیش کیے گئے۔اس سمینار کی خاص بات یہ تھی کہ تمام مقالہ نگار اور صدور حضرات نے پروفیسر نذیر احمد کے علم و دانش کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ ان کی متعدد کتابوں کے تعلق سے بھی اہم گفتگو کی۔ سمینار میں پروفیسر نذیر احمد کی علمی خدمات کے ساتھ ساتھ 1947کے بعد کے فارسی کے علماء اورپرفیسر نذیاراحمد کے معاصرین کی علمی خدمات پربھی روشنی ڈالی گئی جنہوں نے فارسی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس سمینار میں دہلی و بیرون دہلی کے اساتذہ ، ریسرچ اسکالر کے علاوہ مختلف علوم و فنون کے افراد کثیر تعداد میں موجود تھے۔ سمینار کے اختتام سے پہلے غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سید رضا حیدر نے تمام سامعین ، مقالہ نگار کا شکریہ ادا کیا۔

’’کلیات کلیم عاجز‘‘ پر مذاکرہ

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام شامِ شہریاراں کے موقع پرمعروف ادیب و نقاد اور محقق فاروق ارگلی کی مرتبہ کتاب ’’کلیات کلیم عاجز‘‘پر شامِ شہریاراں کے موقع پر ۲۸ اپریل،شام چھے بجے ایک اہم مذاکرے کااہتمام کیا گیا۔ اس مذاکرے کی صدارت کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے فرمایاکہ پروفیسر کلیم عاجز ایک مقبول لب و لہجے کے شاعر تھے۔ چونکہ عوامی زندگی سے بہت قریب تھے لہٰذا اُن کی شاعری میں سماجی پہلو بھی کافی نظر آیاہے۔ اس بات کے سبھی معترف ہیں کہ وہ اپنے عہد کے بڑے شاعر تھے۔ مجھے بے انتہا خوشی ہے کہ شام شہریاراں کے موقع پر ہم اُن کو یاد کر رہے ہیں۔ہمیں پوری امید ہے کہ فاروقی ارگلی کی اس کاوش کو علمی دنیا میں عزت کی نظروں سے دیکھا جائے گا۔
پروفیسر اخترالواسع جواس جلسے میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے موجود تھے آپ نے بھی اس کلیات پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ کلیم عاجز کے کلام کو پڑھ کر یہ احساس ہوتاہے کہ ان کی غزوں میں دکھ بھروں کی حکایتیں اور حزن و ملال کی کہانیاں ہیں۔انہوں نے اپنی غزلوں میں ترتیب کابھی خیال رکھاہے جب وہ اپنے جذبات و خیالات کو شعرکے پیرائے میں ڈھالتے ہیں تو وہ ایک ہی نہج پر گفتگو کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں تسلسل کا احساس ہوتاہے۔ آپ نے فاروق ارگلی کے اس اہم کام پر انہیں مبارکباد دیتے ہوئے کہاکہ آپ جوبھی علمی کام کرتے ہیں وہ بڑے سلیقے سے کرتے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال کلیات کلیم عاجز ہے جو بارہ سو صفحات پر محیط ہے۔بہار اردو اکادمی کے سکریٹری جناب مشتاق احمد نوری بھی اس محفل میں خاص طور سے تشریف لائے تھے اور انہوں نے فرمایا کہ کلیم عاجز کے اشعار بچپن ہی سے میرے حافظے میں محفوظ ہیں ان کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ ایک اچھے شاعرکے ساتھ ساتھ دین و شریعت کے پابند بھی تھے۔ یونیورسٹی کے پروفیسر رہے،انگریزی زبان و ادب پرانہیں عبور حاصل تھا۔ انہوں نے اپنا کوئی نظریاتی گروہ بنایااور نہ خود کسی گروہ میں شامل ہوئے۔ اردو زبان و ادب اور علم و ادب کا فروغ و اصلاحِ معاشرہ ان کا ہمیشہ سے نصب العین رہا۔
ڈاکٹر خالد علوی نے اپنی تقریر میں کلیم عاجز کوخراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ ان کی شاعری اس لیے بھی انفرادیت کی حامل ہے کہ ان کے کلام میں تازگی کا احساس ہوتاہے۔ آپ نے کلیم عاجز کے متعدد شعر بھی پیش کیے اورچند معروف شعراء کے کلام سے ان کے کلام کاتقابلی مطالعہ بھی پیش کیا۔ ڈاکٹر خالد علوی نے کلیم عاجز کی شاعری کے اُن نکات کی بھی نشان دہی کی جس پرعام طورسے گفتگو کم ہوتی ہے۔اس موقع پر کلیات کلیم عاجز کے مرتب فاروق ارگلی نے بھی اس بات کااظہارکیاکہ کلیم عاجز ہمیشہ سے میرے پسندیدہ شاعر رہے، اُن کی تخلیقات منتشر تھیں میں نے فرید بُک ڈھو کے تعاون سے اُن کے تمام مجموعوں کوایک جگہ جمع کردیاہے۔ یہ کام اس لیے بھی ضروری تھاکہ کلیم عاجز ہمارے شعری ادب کے اُن تاریخ ساز تخلیق کاروں میں سے تھے جواپنے معجزانہ کلام اور لازوال علمی کارناموں میں زندہ جاوید ہیں۔فاروق ارگلی نے دبستانِ عظیم آباد کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ راسخ عظیم آبادی، شاد عظیم آبادی، مبارک عظیم آبادی، جمیل مظہری سے لے کر کلیم عاجز تک زندہ رہنے والی شاعری تخلیق کرنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں درد،غالب،ناسخ اور آتش کا انداز نمایاں ہے۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدرنے جلسے کی ابتدا میں کتاب کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہاکہ کلیم عاجز ہمارے عہدکے ممتاز غزل گوشعراء میں تھے۔ ان کا کلام اردو شاعری کے خزانے میں ایک قیمتی اضافے کی حیثیت رکھتاہے۔ برصغیر ہندوپاک ہی نہیں بلکہ اردودنیا میں کلیم عاجز کی شاعری کے پرستار موجود ہیں۔ میں تہنیت پیش کرتاہوں فاروقی ارگلی کوکہ انہوں نے کلیم عاجز کے شعری سرمائے کو یکجا کرکے ہمیں ایسا علمی تحفہ دیاہے جسے ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔ معروف شاعرمتین امرہوی نے بھی اس محفل میں اپنے منظوم کلام سے کلیم عاجزکو خراجِ عقیدت پیش کی۔اس جلسے میں مختلف علوم و فنون کے افرا دبڑی تعداد میں موجود تھے۔
تصویر میں دائیں سے:ڈاکٹر رضاحیدر،فاروقی ارگلی،پروفیسر اخترالواسع،پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی،مشتاق احمد نوری اورڈاکٹر خالدعلوی، کلیات کلیم عاجز کی رسم رونمائی کرتے ہوئے۔

discussion and Seminar

غالب ممکنات کے نہیں ناممکنات کے شاعر :اشوک واجپئی 
دیوان غالب کی پہلی اشاعت کے ۱۷۵ سال مکمل ہونے پر غالب انسٹی ٹیوٹ میں پُروقار سمینارومذاکرہ کا آج افتتاح ہوا۔اس افتتاحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے سابق چیف الیکشن کمشنر ڈاکٹرایس وائی قریشی نے کہاکہ غالب کی طرح کسی شاعرکووہ شہرت حاصل نہیں ہوئی جتنی غالب کوہوئی ۔غالب کے اندربہادری اورحمیت بہت تھی ۔ہمیں یہ سوچنا ہوگاکہ غالب کی شاعری اور ان کے پیغامات کو ہم کس طرح عام کرسکتے ہیں ۔اس پروگرام میں معروف اردو ناقد وناول نگارپروفیسر شمس الرحمان فاروقی نے بھی شرکت کی اور پرمغز تقریر فرمائی ۔فاروقی نے کہا کہ یہ سال غالب کے حوالے سے ایک اورطرح سے اہم ہے وہ یہ کہ غالب نے پہلی بار ۱۹۱۶ء میں دیوان غالب مرتب کیاتھا۔معروف ہندی ادیب اشوک واجپئی دیوان غالب بھارتی تہذیب کا اساسی صحیفہ ہے ۔چند اہم بھارتی تہذیبی کتابوں میں دیوان غالب کو شامل کرنا ناگزیر ہے۔گوکہ غالب فلسفی نہیں لیکن اس کے اشعارمیں اس کا مخصوص فلسفہ ہرجگہ نماں ہے ۔مجھے لگتا ہے غالب ہندوستانی شاعری میں بہت بڑا قنوطی شاعر ہے ۔اس کی شاعری میں بڑے اہم اورہندوستانی اساسی شعراکی طرح بڑکپن پایا جاتا ہے ۔غالب کے یہاں اپنے وجودکے بے فائدہ ہونے کا احساس بہت نمایاں طورپرپایا جاتا ہے ۔غالب ممکنات کے نہیں ناممکنات کے شاعر ہیں ۔پروفیسروشوناتھ ترپاٹھی نے کہاکہ غالب ہندی والوں میں بھی خاصے مشہورہیں ۔مجھے لگتا ہے کہ شاید ہی کوئی شاعرہو جسے ہندی والے اتنا پڑھتے ہیں جتنا غالب کو ،لوگوں نے اپنے اپنے غالب کو تلاش کرلیا ہے میں نے بھی اپنے غالب کو تلاش کیا ہے ۔غالب نے اپنے حوالے سے بہت دردناک باتیں بھی اپنے خطوط میں درج کی ہیں ۔ غالب کے علاوہ مجھے ایسا کوئی دوسراشخص نظرنہیں آتا جو بیک وقت نثر ونظم میں ماہر ہو ۔غالب کی شاعری میں مجھے دوچیزوں بہت متاثر کرتی ہیں ایک تو وہ سوال بہت کرتے ہیں ۔غالب اپنی بے بسی کو عجیب تیورمیں بیان کرتاہے ۔ہرجگہ شک وشبہ پیداکرتاہے ۔وہ چاہتاہے کہ ہر چیز اس کے مطابق ہو۔راجیہ سبھا کے رکن اور ماہرغالبیات پون ورمانے کہاکہ میں نے اپنی کتاب جس کا اردو ترجمہ ہوچکا ہے اور اس اردو ترجمے کو ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔جب میں نے لکھی تو کوئی اسے چھاپنے کو تیارنہیں تھا۔میں نے اپنی کتاب میں ان کی متعدد غزلوں کاانگلش میں ترجمہ بھی کیا ہے ۔میں چاہتاہوں کہ غالب پرجتنا کام ہورہا ہے ۔ا س سے زیادہ کام ہوناچاہئے ۔چوں کہ غالب ہماری گنگاجمنی تہذیب کے علمبردارہیں اور ان سے ہمیں اپنی تہذیبی وراثت کوآگے بڑھانے میں مدد ملتی ہے ۔پروفیسرمہرافشاں فاروقی نے کہاکہ دیوان غالب کے نسخہ حمیدیہ کی ڈجیٹل کاپی غالب انسٹی ٹیوٹ کوپیش کرتے ہوئے میں فخرمحسوس کررہی ہوں۔۱۹۲۱میں اس دیوان کی اشاعت کے بعد خاصی گفتگو ہوئی ۔شہاب ستارنے نسخہ حمیدیہ کی اصل کاپی مجھے دی اور انہوں نے کہاکہ میں اسے شائع کرناچاہتاہوں آپ مقدمہ لکھ دیں ۔اب یہ نسخہ شائع ہوچکا ہے مجھے امید ہے کہ آپ حضرات اس سے استفادہ کریں گے ۔ڈاکٹررخشندہ جلیل نے کہاکہ غالب نے چارسالہ سفرکیا ،جس پر میں نے کام بھی کیا ہے۔غالب کلکتہ جس مقصدکے لیے گئے وہ مقصدپورانہیں ہوتا۔وہاں کی ناکامی کے باوجود وہ دلی آکر خط وکتابت بھی کرتے ہیں ۔مجھے لگتا ہے کہ غالب کو چھوٹے موٹے نوابوں اور راجاوں کو قصیدہ خوانی میں دشواری ہوتی تھی ۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹرڈاکٹرسیدرضاحیدرنے نظامت کرتے ہوئے کہاکہ دنیائے شاعری کے چند ممتاز شعرا کے شعری سرمائے کو جمع کیا جائے تو یقیناًدیوانِ غالب اُن میں سے ایک ہوگا۔ ملک و بیرون ملک کی جتنی بھی اہم زبانیں ہیں اُن میں کلامِ غالب کا ترجمہ ہوچکاہے۔ ہندوستان کے جتنے بھی بڑے ادباء و شعراء ہیں وہ غالب کے اشعار کواپنی تقریروں میں کوڈ کرنا اعزاز سمجھتے ہیں۔ غالب کے دیوان کی شہرت صرف خواص میں ہی نہیں ہے بلکہ عوام کی بہت بڑی تعداد بھی دیوان غالب کو اپنے گھروں میں سجا کر رکھتی ہے۔ ان ہی تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ نے غالب کی مزید بازیافت کے لیے ایک عمدہ موقع تلاش کیاہے۔ دیوانِ غالب کی پہلی اشاعت ۱۸۴۱ء میں غالب کی زندگی ہی میں دلّی کے مشہور پریس سیدالاخبار سے ہوئی تھی۔ ۱۸۴۱ء سے لے کر ۲۰۱۶ء تک کے اس ۱۷۵سالہ سفر میں آج بھی دیوانِ غالب پوری ادبی توانائی اور تازگی کے ساتھ سبھی کے دلوں میں رچا بسا ہے۔مذاکرے کے بعدنوجوان فن کارفوزیہ اور فضل کی داستان گوئی بھی جلسہ کی زینت میں اضافہ کیا ۔مہمانوں کی خدمت میں دیوان غالب ،غالب اور عہد غالب اور مومینٹوپیش کیا گیا ۔
دوسردن سمینارکے تین سیشنز ہوئے جس کے پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کہاکہ ۱۷۵سال دیوان غالب کی ترتیب کو مکمل ہوچکے ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک سمینارفارسی دیوان کے حوالے سے بھی منعقد کیا جائے ۔غالب کی شاعری میں متعدد مقامات پر اسلامی تلمیحات بھی ملتی ہیں ۔ہمیں شاعری کی اہمیت وافادیت کو سمجھنا چاہئے چوں کہ شاعری کی موت زبان کی موت ہے اورشاعری اردوکی زندگی ہے ۔اس اجلاس کے دوسرے صدرپروفیسرانیس اشفاق نے کہاکہ غالب کے تعلق سے تحقیق طلب چیزیں ابھی سامنے آتی رہیں گی ۔ابھی غالب پرتحقیق وتنقید کا سلسلہ رکنے والا نہیں ہے۔متن خوانی کے حوالے سے بہت اہم لوگوں سے بھی غلطیاں سرزدہوجاتی ہیں ،جس کا اظہارغالب کے دیوان کی ترتیب وتدوین کے دوران بھی ہوتا رہاہے ۔گہرائی کے ساتھ مطالعے کی شرط یہ ہے کہ متن اپنی اصل شکل میں موجود ہو ۔یہ مقام مسرت ہے کہ شمس بدایونی اور ظفر احمد صدیقی ہمارے درمیان موجود ہیں ،بزرگوں کی عدم موجودگی میں ان حضرات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے،جو متن پرغوروخوض کرتے ہیں ۔پہلے اجلاس میں جے این یو کے ریسرچ اسکالرعبدالرحیم نے غالب کی شاعری میں سائنسی تصورات،ڈاکٹرمحمد کاظم نے غزلیات غالب کامعشوق اورشاعری کی اخلاقیات ونفسیات ،ڈاکٹرشمس بدایونی نے دیوان غالب کی پہلی اشاعت اورپروفیسرظفراحمد صدیقی نے نسخۂ حمیدیہ :دریافت ،گم شدگی اوربازیافت کے موضوعات پر اپنے مقالات پیش کیے ۔پہلے اجلاس کی نظامت کے فرائض سیدعینین علی حق نے بخوبی انجام دیے ۔ دوسرے سیشن میں صدارتی تقریرکرتے ہوئے معروف ناقد وناول نگاراورمحقق پروفیسرشمس الرحمان فاروقی نے مقالہ نگاروں کی کاوشوں، ان کے مقالات اور غالب انسٹی ٹیوٹ کی کاوشوں کو سراہا۔اس موقع پرانہوں نے کہاکہ ہماری زبان کی اپنی مخصوصی شناخت ہے اس کے مطابق ادائیگی کو یقینی بنانا چاہئے ۔یہاں آکرمجھے خوشی ہوئی کہ مقالات آج اچھے پڑھے گئے میری سوچ غلط ثابت ہوئی ۔قصیدہ ،غزل ،رباعی کی شعریات ایک ہی ہے ۔شعربننے کا طریقہ ایک ہی ہے ۔کئی بارقصیدے کا شعرغزل میں ڈال دیا جائے اور غزل کا شعرقصیدے میں تو حیرت نہیں ہوتی ہے ۔مجھے خوشی ہے کہ متن پرغورکرنے والے افراد موجود ہیں ۔نئی نسل کے لوگ شاعرکے دماغ میں داخل ہوناچاہتے ہیں ۔اس سے ان کی دلچسپی کا اظہارہوتا ہے اور یہ بھی سوچنے کا ایک طریقہ ہے ۔فاروقی نے اپنی صدارتی گفتگو میں پرنٹنگ پریس کی ایجاد اور اس کے ارتقاپربھی پرمغز باتیں کیں۔انہوں نے کہاکہ اکبر کے زمانے میں پریس بھارت آیاتھامگرانہوں نے اس پرتوجہ نہیں دی شاید ان کے پیش نظرفن خطاطی کی اہمیت تھی ۔وہ خطاطی کو جاری رکھنا چاہتے تھے ۔اس اجلاس کے دوسرے صدرسیدشاہد مہدی نے سیشن میں پڑھے گئے مقالات کوسراہااورکہاکہ اس سمینارمیں عبدالرحمان بجنوری پربھی کوئی مقالہ ہوناچاہئے چوں کہ غالبیات کے حوالے سے تمام تراختلافات کے باوجود انہیں نظراندازنہیں کیا جاسکتااورایسے وقت میں جب نسخہ حمیدیہ پرگفتگوہورہی ہے ہم بجنوری کوکیوں کرفراموش کرسکتے ہیں ۔اس اجلاس میں سیدثاقب فریدی نے نسخہ حمیدیہ میں غالب کے مقطعے،ڈاکٹرسرورالہدی نے غالب کی غزل میں غبارکااستعارہ،پروفیسرمہرافشاں فاروقی نے غالب کادیوان مطبوعہ کتابوں کارواج ،پروفیسرانیس اشفاق نے اردوشاعری غالب کے بغیر کے عناوین پراورپروفیسرمولابخش نے اپنے مقالات پیش کیے۔دوسرے اجلاس کی نظامت ڈاکٹرممتازعالم رضوی نے کی ۔تیسرے اجلاس میں دلی یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر عالیہ،ڈاکٹرابوبکرعبادنے اردوشاعری کاہندی مجددغالب ،مشتاق تجاری نے دیوان غالب خطوط غالب کے آئینہ میں ،پروفیسراحمدمحفوظ نے غالب کی مقبولیت اورغالب کی مشکل پسندی اورپروفیسرعلی احمد فاطمی نے غالب اورجدیدذہن کے موضوعات پراپنے اپنے مقالات پیش کیے ۔سمینارکے تیسرے اورآخری اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسرصادق نے کہاکہ ایک وقت تھاجب اردوکے فروغ اور اس کے ارتقاکے امکانات روشن ہونے کے باوجود ہماراشاعرفارسی کو اہمیت دے رہاتھااورفارسی کے کلام کے زیادہ اہم گمان کرتاتھا۔اس موقع پرانہوں نے شمس الرحمان کی علمی اورمشاہداتی صلاحیتوں کو بھی سراہا۔پروفیسرصدیق الرحمان قدوائی نے اپنی صدارتی تقریرمیں کہاکہ غالب غیرمعمولی ذہن اور ذہنیت کا انسان تھااورغیرمعمولی باتیں غیرمعمولی ذہنوں سے ہی نکلتی ہیں ۔غالب نے اپنے عہد کی تبدیلیوں کو محسوس کیا اور آئندہ دنیا کو بھی اپنی نگاہوں سے دیکھ لیا تھا۔ سمینارکے اختتام پر غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹرڈاکٹرسید رضاحیدرنے تمام مہمانوں کا شکریہ اداکیااورناقابل فراموش مقالات پیش کرنے کے لیے مقالہ نگاروں کو مبارک باد دی ۔آخری اجلاس کی نظامت محمد محضررضانے کی ۔واضح رہے کہ غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے تماما مہمانوں اورمقالہ نگاروں کی خدمت میں غالب انسٹی ٹیوٹ کامومینٹوبھی پیش کیا ۔

English Hindi Urdu