غالب کی ایک نئی شرح

اشرف رفیع

غالبؔ کی ایک نئی شرح

غالب بہت پرانے شاعر نہیں ہیں لیکن اب تک غالب کا مطالعہ جن جن نقاط نظر سے کیاگیایا ان کے بعد کی نسلوں نے انہیں جس جس روپ میں دیکھا، سمجھا اور سمجھایاہے۔ اس سے پتا چلتاہے کہ غالب کی فکر میں نہ صرف غیر معمولی تنوع ہے بلکہ ان کی شخصیت میں مختلف زمانوں میں مختلف انداز سے دیکھے اور سمجھے جانے کا عجیب و غریب طلسم موجود ہے۔ غالب کو سمجھنے کاوہ زمانہ تھاجب ان کی بات وہ سمجھتے تھے یا خدا سمجھتا تھا او راب یہ بھی زمانہ ہے کہ شارحین غالب آگہی کا دام شنیدن بچھائے جارہے ہیں مگر ابھی تک غالب کے عنقائے مدعا کو گرفتار کرنے میں کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا۔

غالب نے اپنے خطوط میں اپنے بعض اشعار کی تشریح کی ہے۔ یعنی اپنے کلام کی سب سے پہلے شرح خود غالب نے کی ہے۔ غالب کے بعد حالیؔ نے ’مقدمہ شعروشاعری‘ اور ’یادگار غالب‘ میں غالب کے کلام کو سمجھانے کی کوشش کی۔ حالی کے بعد یہ سلسلہ دراز ہوتاگیا۔ چیدہ چیدہ اشعار کی شرح کو نظر انداز کربھی دیں تو غالب کے شارحین کی تعداد سترکے قریب پہنچ جاتی ہے۔ ۱۲۹۱ء میں دیوان غالب جدید المعروف بہ نسخہ حمیدیہ کا پہلا ایڈیشن مرتبہ مفتی محمد انوارالحق سامنے آیا تو فہم غالب کے نئی جہتوں کے امکانات روشن تر ہوتے گئے۔ غالب کا مروجہ دیوان در حقیقت ان کے سہل ترین اشعار کا انتخاب ہے۔ نسخہئ حمیدیہ سامنے آیاتو اندازہ ہواکہ غالب کے اُن اشعار کی تو شرح ہوئی ہی نہیں جو حقیقتاً تشریحِ طلب ہیں۔ غالب کی جتنی شرحیں ۰۴۹۱ تک لکھی گئیں تھیں وہ صرف ان کے مروجہ دیوان کی شرحیں تھیں۔ حیدرآباد کی ایک نامور علمی ادبی شخصیت سید ضامن کنتوری نے سب سے پہلے نسخہئ حمیدیہ کی شرح لکھی۔ اپنے ”پیش حرف“ میں وہ لکھتے ہیں کہ عزیزوں اور دوستوں کی فرمائش اور اصرار پر انہوں نے نسخہئ حمیدہ کی شرح کی۔ اس کے بعد انہیں خیال آیاکہ متعارف دیوان کی غزلیں رہ گئی ہیں انہیں بھی ادھورا کیوں چھوڑیں۔ ”ہوتے ہوتے یہ کام مکمل ہوگیا“۔ یہ کام انہوں نے سرسٹھ برس کی عمر میں مکمل کیا۔ اپنے ”پیش حرف“ میں اس کا اظہار کرتے ہیں کہ ”سرسٹھ برس کا فرسودہ دماغ اور جوان غالب کے کلام کی شرح!“ غالب کی شرح کرتے ہوئے اکثر شارحین نے کسی نہ کسی طرح اپنے عجز کا اظہار کیاہے، ضامن کنتوری بھی اس سے بری نہ رہ سکے وہ اپنی سرسٹھ برس کی عمر میں غالب کو جوان اور خود کو بوڑھا سمجھتے ہیں۔

سید محمد ضامن کنتوری،کنتور کے ضلع بارہ بنکی میں پیداہوئے چھ سات برس کی عمر میں اپنے والد کنتوری کے ساتھ حیدرآباد آئے۔ عربی، فارسی ادبیات کے مطالعہ کے بعد انگریزی پڑھی زبان و ادب کابھی گہرا مطالعہ کیا۔ شعرفہمی اور سخن سنجی ورثے میں ملی تھی۔ شاعری کے ساتھ ساتھ علمِ عروض و قوافی میں والد کی رہنمائی حاصل تھی۔ اُن کی زندگی ہی میں استادِ فن کی حیثیت حاصل کرلی اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتے تھے۔ دفتر بگی خانہ میں انگریزی کے مترجم ہوگئے۔ نیرنگ مقال (کلیات اردو) ار تنگ خیال (دیوان فارسی) طریق سعادت (نثر) بالک پھلواری(بچوں کی نظمیں) قواعد کنتوری (دوجلدوں میں) عبرت کدہئ سندھ (تاریخ) ارمغان فرنگ (انگریزی شعراء کا تذکرہ اور ان کی نظمو ں کے تراجم) شہید وفا (نظم کا ترجمہ) اور آوارہئ وطن (گولڈ اسمتھ کی نظم کا ترجمہ) ان کا وقیع سرمایہئ فکر و فن ہے۔ ایک ادبی رسالہ لسان الملک (۲۲۹۱) میں نکالنا شروع کیاتھاجو زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔

ضامن کنتوری کو نہ صرف عربی فارسی اور انگریزی ادبیات پر عبور حاصل تھا بلکہ وہ تاریخِ عرب، ایران و ہند پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ ان کی فکر مجتہدانہ اور منطق و فلسفہ کی مستحکم بنیادوں پر قائم تھی۔ ان میں غالب کے عہد، ان کے فن اور مرتبہئ فکر کو سمجھنے کی زبردست صلاحیت تھی جس کی وجہ سے ان کی شرح اپنے عصر کی بیشتر شرحوں میں وسعت فکر، ندرتِ توجیہہ اور معروضیت کی وجہ سے وقیع تر ہوگئی ہے۔ اکثر شارحین نے اپنی شرحیں رسائل اور اخبارات میں شائع کی ہیں مگر ضامن کنتوری کی یہ شرح ابھی تک منظر عام پر نہ آسکی۔ اس شرح کا تعارف سب سے پہلے ڈاکٹر ضیاء الدین شکیبؔ نے ۹۶۹۱ء میں اپنی مرکۃ الآرا تصنیف ”غالب اور حیدرآباد“ میں کروایاتھا۔

شرحِ ضامنؔ میں غزلوں کی جملہ تعداد (۶۷۳) ہے جبکہ نسخہئ حمیدیہ میں جملہ (۵۷۲) غزلیں شامل ہیں۔ سہ شنبہ ۱۲اگست ۴۳۹۱ کو غزلوں کی شرح مکمل ہوئی۔ اس کے بعد قصائد، مثنوی، قطعات اور رباعیات کی شرح سہ شنبہ ۵۲دسمبر ۴۳۹۱ کو پائے تکمیل کو پہنچی۔ یہ معلوم نہ ہوسکاکہ شرح لکھنے کا آغاز کب ہوا اور شرح کتنے عرصے میں مکمل ہوئی۔ بہرحال اس شرح کے مطالعہ سے اندازہ ہوتاہے کہ شرح طباطبائی کے بعد کئی اعتبار سے یہ ایک معتبر شرح ہے۔ اس کے کئی اسباب ہیں۔ چند اہم اسباب و نکات پر یہاں روشنی ڈالی جاتی ہے۔

۱۔ ضامن کنتوری نے تفہیم و تشریح کا بارگراں خود اٹھایاہے۔ اکثر اشعار کی تشریح کئی صفحات پر محیط ہے۔ ان کا مطلب مختلف زاویوں سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔

۲۔ بعض اشعار کی شرح میں سخن سنجی کا بوجھ قاری پر ہی ڈالاہے۔ مثلاً

زلف سیہ افعی نظر بد قلمی ہے

ہرچند خط سبز و زمرد رقمی ہے

کی شرح میں لکھتے ہیں ”اس شعر کے الفاظ تو نہایت قیمتی اور چمکدار ہیں لیکن ان میں بہم کیا ربط ہے؟ اور معنی شعر کے کیا ہیں؟ اسے سمجھنے والے ہی سمجھیں گے“

۳۔ کئی مقامات پر شرح کرنے کے ساتھ ساتھ مشروحہ شعر کے ہم معنی اشعار فارسی کے معروف شاعرو ں کے کلام سے نقل کیے ہیں، تاکہ غالب کی تفہیم میں آسانی ہو اور قاری کا ذہن وسعت پاسکے۔ ان شاعروں میں بیدلؔ، نظیریؔ، عرفیؔ، خاقانیؔ، قاآنیؔ، بلخیؔ، سعدیؔ، حافظؔ اور مولانا رومؔ سے استفادہ کیا ہے۔

۴۔ جہاں بطور دلیل،مثال یابرائے تفہیم مزید فارسی اشعار لائے ہیں بیشتر مقامات پر ان کا ترجمہ بھی کردیاہے۔

۵۔ فارسی میں شرح نویسی کی جو طاقتور روایت کارفرمارہ چکی ہے وہ کثیرالجہات تھی یعنی شرح لکھنے والا شعر کا مفہوم لکھنے کے ساتھ اس شعر سے متعلق ضروری نکات بھی لکھتا جاتا تھا، یہی انداز اس شرح کا بھی ہے۔ اشعار کی شرح کے ذیل میں زبان و بیان محاورہ دلی و لکھنو، بلاغت و فصاحت، عروض و قافیہ، فلسفہ و منطق کے بہت سے مسائل بکھرے ہوئے ہیں۔ مثلاً اس شعر میں:

بے پردہ سوئے وادیئ مجنوں گزر نہ کر

ہر ذرے کی نقاب میں دل بے قرار ہے

”نقاب“ کی تذکیر و تانیث میں لکھنو اور دلی کے فرق کی نشاندہی کی ہے، کہتے ہیں: ”نقاب کو چاہے مونث پڑھیے یا چاہے مذکر، اس لیے کہ لکھنو میں تانیث اور دہلی میں اب بھی بہ تذکیر بولتے ہیں“۔

آگے چل کر شرح کے ختم پر کہتے ہیں۔”بے پردہ کا لفظ اس شعر میں محض نقاب کی رعایت سے استعمال ہواہے لیکن بے محل ہے“۔

مآل اچھاہے، سال اچھاہے والی غزل کے ایک شعر میں تنافر لفظی کی شکایت اس طرح کی ہے۔

ہم سخن تیشہ نے فرہاد کو شیریں سے کیا

جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچھا ہے

شرح میں لکھتے ہیں ”صاف شعر ہے مصرع ثانی میں تین کاف کا، کہ، کسی یکجاہوگئے ہیں“۔

۶۔ اشعار کاوہی مفہوم عموماً لکھاگیاہے جس پر شعر کے الفاظ، ظاہری طورپر دلالت کرتے ہیں ایسی قیاس آرائی کو دخل نہیں دیاگیاہے جس کا تعلق شرح لکھنے والے کی اپنی جولانیئ طبع او رنکتہ آرائی سے ہوتاہے۔

۷۔ اس شرح کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انہو ں نے کلام غالب کے سارے الفاظ کی بہ استناد صراحت کردی ہے۔ خواہ وہ الفاظ آسان ہوں کہ مشکل اور ساتھ ہی متروک الفاظ کی بھی نشاندہی کی ہے۔ اس شرح سے مدد لے کر فرہنگِ غالب مرتب کی جاسکتی ہے۔

۸۔ غزل کی زبان اشارات کی زبان ہے۔ ان اشارات کا زندگی پر کب؟ کہاں اور کیسے اطلاق ہوتاہے جب تک اس کی وضاحت نہ ہو شعر کا صحیح عرفان حاصل نہیں ہوسکتا۔ ضامن کنتوری نے اس کی پوری کوشش کی ہے کہ ہر شعر کو زندگی کی تجربہ گاہ میں لاکے دیکھیں۔ مبالغہ آمیز اور پیش پا افتادہ تجربات پر انہوں نے صاف اعتراض کردیاہے۔ غالب کے اس مشہور شعر پر انہو ں نے بڑی سخت تنقید کی ہے:

پلادے اوک سے ساقی جو مجھ سے نفرت ہے

پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے، شراب تو دے

ان کی تنقید نہ لسانی ہے نہ فکری بلکہ طبقاتی تہذیب پر ہے۔طویل تشریح کے بعد دو ٹوک لہجے میں کہتے ہیں ”بہرحال یہ شعر کہنے کا نہیں تھااو رنہ اِسے شعر کہہ سکتے ہیں ہاں نظم واقعہ ہے“ اسی غزل کے مقطع پر طباطبائی نے محاورے اور زبان کی بحث کی ہے۔ ضامن کنتوری نے زبان اور محاورے کا کوئی مسئلہ نہیں اٹھایا بلکہ صاف صاف کہہ دیاکہ ”یہ بھی غزل کا شعرنہیں ہے اور کسی واقعہ پر مبنی معلوم ہوتاہے۔اگر غالب کہنا چاہتے تو اس سے بہتر پہلو نکال سکتے تھے“۔

ان اشارات سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ ضامن کا تنقیدی نقطہ نظر زندگی سے دوری پسند نہیں کرتااو ریہ بھی کہ وہ غالب سے مرعوب نہیں بلکہ انہیں اصلاح دینے کی جرأت بھی کرسکتے ہیں اور بھی کئی اشعار کی شرح میں یہی ان کا واضح اور متاثر کن رویہ ہے۔

۰۱۔ ایک اور شعر ہے جس کی شرح میں وہ غالب پر اعتراض کرتے ہیں۔ شعر ہے:

نہ پوچھ حال، شب و روز ہجر کا غالب

خیالِ زلف و رخِ دوست صبح و شام رہا

شرح میں صرف اتنا لکھتے ہیں ”زلف و رخ کو شب و روز سے تشبیہہ دینا مقصود ہے“ آگے کڑا اعتراض کرتے ہیں کہ ”او ریہ تشبیہہ درجہ ابتذال کو پہنچ گئی ہے“ یعنی تشبیہہ کے اس گئے گزرے معیار کی وہ غالب سے توقع نہیں رکھتے اس لیے اس کی مزید تشریح بھی انہوں نے گوارانہیں کی۔

۱۱۔ ضامن کنتوری نے بعض اشعار کی تعریف میں بھی کوئی کمی نہیں کی ہے۔ کہیں کہیں پوری غزل کوبھی سراہاہے۔اس تعریف و تحسین میں انہو ں نے فنی محاسن کے ساتھ ساتھ جذباتی بہاؤ کو بھی پیش نظر رکھاہے۔ اس موقع پر غالب کی مشہور غزل ”کوئی دن اور“ کی مثال دی جاسکتی ہے۔ لکھتے ہیں ”غالب کی یہ غزل جذباتی شاعری کی بے نظیر مثال ہے، صرف یہی ایک غزل کسی شاعر کے کمال شاعری اور صحتِ ذوق کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے‘ ایک اور شعر:

غم کھانے میں بودا دل ناکام بہت ہے

یہ رنج کہ کم ہے مئے گلفام بہت ہے

اس میں بندش کی تعریف کی ہے”اس شعر کی بندش مستحق ہزار آفریں ہے اگرچہ ہے کچھ نہیں، صرف لفظوں کی الٹ پھیر ہے“

۲۱۔ بعض فلسفیانہ اور صوفیانہ مزاج کے اشعار کی تشریح میں گئے بغیر صرف شعر کی ندرت زبان و بیان کی تعریف کردی ہے جیسے اس شعر کی شرح:

قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل

کھیل لڑکوں کا ہوا دیدہئ بینا نہ ہوا

میں طباطبائی نے بھی اختصار سے کام لیاہے۔ ضامن کنتوری نے صرف ایک ترکیب کی وضاحت کی ”دیدہئ بینا چشم عارف“ اور صرف اتنا کہہ دیا مضمون پرانا ہے مگر بندش نئی اور بالکل نئی ہے۔

۳۱۔ شرح نویسی میں ضامن کنتوری کا بنیادی رجحان نفس مضمون تک پہنچنے کا ہے اس کے لیے مشکل الفاظ کے معنی دیے ہیں پھر اصطلاحات، تلمیحات، تراکیب اور روایات کی وضاحت کی ہے لیکن جہاں انہوں نے ایسی وضاحت کو ضروری نہیں سمجھا وہاں صرف نفس مضمون کی طرف اشارہ کردیا۔ کہیں صرف اصطلاحات کی وضاحت کرکے بات ختم کردی جیسے یہ شعر:

نامہ بھی لکھتے ہو تو بہ خطِ غبار، حیف

رکھتے ہو مجھ سے اتنی کدورت ہزار حیف

شرح کے بغیر اتنا لکھ دیا ”خط غبار اقسام خط سے ہے جن کی پاشانی میں غبارکی صورت پیدا ہوتی ہے جیسے خط ریحان، خط گلزار، خط طغرا وغیرہ“

۴۱۔ شرح نویسی کے دوران جہاں جہاں املا، تلفظ اور نئے الفاظ کے تعارف کے مسائل آئے ہیں وہاں وہاں انہوں نے ان مسائل کی تشریح بھی کردی ہے۔ مثلاً ’پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے‘کے قطع کی تشریح میں جو بحث کی ہے وہ قابل توجہ ہے۔

۵۱۔ نسخہئ حمیدیہ کے بعض اشعار پر جنہیں متداول دیوان میں شامل نہیں کیاگیا”نظری“ کرنے کے اسباب کی تلاش بھی کی ہے جیسے مندرجہ ذیل شعر میں تشریح کے بعد ”شعر کو نظری کرنے کا باعث“ بتلایاہے:

شوخیئ مضراب جولاں آبیار نغمہ ہے

ہر گریز ناخن مطرب بہار نغمہ ہے ”شعر کو نظری کرنے کا باعث یہ معلوم ہوتاہے کہ جولاں مصدر ہے۔ اس کو صفت (اسم فاعل) کی جگہ استعمال کیاہے لیکن چاہتے تو پس و پیش سے سیدھا کرلیتے اس طرح: شوخی، جولانِ مضراب… الخ“

۶۱۔ ضامن کنتوری نے قواعد کنتوری دو جلدوں میں لکھی ہے جس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ اس فن میں ان کی نظر کتنی گہری ہے۔ شاید اسی لیے جہاں جہاں موقع ملتاہے فن عروض کے رموز اور فصاحت و بلاغت کے مسائل بیان کرنے سے بھی وہ نہیں چوکتے۔ شارحین غالب میں یہ جرأت مندانہ رویہ سب سے پہلے ہمیں طباطبائی کے یہاں ملتاہے۔ ضامن کنتوری بھی اس معاملے میں طباطبائی سے کم نہیں۔ ایسے میں وہ تشریح کی طرف زیادہ دھیان نہیں دیتے چنانچہ

بہ نالہ حاصل دل بستگی فراہم کر

متاع خانہئ زنجیر کی صدا معلوم

اس شعر کی تشریح پر اتنی توجہ نہیں کی جتنی فکر سخن کے مراحل پر۔ آمد و آورد کے مسئلے پر ایک تفصیلی بحث کے علاوہ فصاحت و بلاغت کے رموز کی تشریح کرتے ہوئے شعر کے مدارج متعین کیے ہیں۔ فصاحت و بلاغت کی مختصر اور دلچسپ تعریف اس طرح کی ہے ”بلاغت سوچو اور لکھو، فصاحت لکھو اور سوچو“ پھر کلام کی سجاوٹ کے لیے زرین مشورہ دیتے ہیں کہ اپنے کلام پر کلام غیر کی طرح نکتہ چینی کے لیے دماغ کو آمادہ کریں“ ان تمام مسائل کے منجملہ شعر کی تشریح چار پانچ صفحات پر محیط ہے۔

عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے

کہ اپنے سائے سے سر پانو سے ہے دو قدم آگے

اس شعر کی شرح میں تقطیع کرتے ہوئے عروضی بحث کی ہے اور تعقید پر اعتراض کیاہے۔ بحث ملاحظہ ہو۔

”عجب نشا=مفاعیلن؛تَ سِ جلّا=فعلاتن؛ دَ کے چلے= مفاعلن؛ ہَ ہم آگے= فعلاتن بحر محتبث مثمن مجنون الارکان۔ اصل اس بحر کی دایرہ میں مُس تفع لن فاعلاتن فاعلاتن ہے۔ فارسی والوں نے آخری رکن کو گراکر مس تفع لن فاعلاتن کو چاربار کرلیا۔ اس طرح یہ چھ رکن کی بحر آٹھ رکن ہوگئی یعنی مُس تفع لن فاعلاتن مس تفع لن فاعلاتن ایک مصرع اور پھر مُس تفع لن فاعلاتن مُس تفع لن فاعلاتن دوسرا مصرع۔ اس غزل کے وزن میں زحاف خُبن کا عمل کیاہے یعنی مُس کا س اور فا کی الف ہر جگہ سے گرادیا ہے۔ نشاط=بالفتح خوشی و شادمانی۔ پہلے مصرع میں نہایت ناگوار تعقید واقع ہوئی ہے۔ کہتا ہے کہ ہم کو اپنے قتل کی ایسی خوشی ہے کہ مقتل جارہے ہیں تو ہمارے سرکاسایہ پانو کے سائے سے دو قدم آگے آگے چلتاہے۔ اگر آفتاب رہرو کی پشت پر ہوتو سایہ سامنے پڑتاہے۔ اس کیفیت سے شاعر نے یہ مضمون پیداکیاہے جو ایک لطیفہ شاعرانہ ہے“۔ ”اسی طرح اڑتی پھرے ہے خاک مری کوے یا رمیں“ کی شرح میں حشو کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔

۶۱۔ غالب کے دیوان کا مطلع غالب فہمی میں بڑی اہمیت رکھتاہے۔ تمام شارحین نے اسے اپنے اپنے طورپر سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔خود مرزا غالب نے سب سے پہلے اس طرف توجہ کی اس کے باوجود شارحین کو کہنا پڑا ”المعنی فی باطن الشاعر“ عقدہ کھلا کہ عقدہ نہیں کھلا۔ ضامن کنتوری نے اس شعر کی تہہ داری اور لفظوں کی پرتیں کھولنے کے بجائے صرف لفظ ”نقش“ پر فکر کو مرکوز کیاہے۔ نقش پرہستی کا اطلاق کرکے عالم مشیت کی عقدہ کشائی کی ہے۔ دیگر شارحین نے اس شعر کے ایک ایک لفظ سے بحث کی ہے اس کے باوجود شعر سلجھنے کے بجائے الجھتا ہی گیا۔ ضامن کنتوری نے صرف ایک متصوفانہ پہلو پر غور کیاہے۔ طویل بحثوں سے قطع نظر طباطبائی کا نام لئے بغیر کہہ دیاکہ ”نقش اپنی ہستی کی بے اعتباری او ربے توقیری کا شاکی ہے پھر اب اعتراض ہی کیاباقی رہا“

۸۱۔ جہاں صوفیانہ مسائل آئے ہیں ضامن کنتوری ان کی بڑی تفصیل میں نکل گئے ہیں احادیث و آیات سے مدد لے کر صوفیانہ مسائل کی وضاحت کی ہے۔ کئی جگہوں پر صوفیانہ اصطلاحات اور استعاروں کے روایتی استعمال کا مذاق بھی اڑایاہے۔جیسے

شکستِ رنگ کی لائی سحر، شبِ سنبل

پہ زلفِ یار کا افسانہ ناتمام رہا

اس شعر کی تشریح کے بعد مصرع اولی کی تازہ ونادر ترکیب کی تعریف کرتے ہوئے زلف دراز کے افسانے کی حیثیت کے بھید کھولتے ہوئے لکھتے ہیں ”یہ شعرائے متصوفین کی نہایت بھونڈی نقالی ہے۔ ان کی اصطلاح میں زلف سے مراد صفات باری ہیں۔ زلف ان معنوں میں ہوتو اس کی درازی کا حساب ہی کیا۔ صفات باری کی داستاں کہیں ختم بھی ہوسکتی ہے“

قطرہ میں دجلہ دکھائی۔۔۔الخ والے شعری میں صرف اتنا لکھ دیتے ہیں کہ مضمون پراناہے مگر بندش نئی اور بالکل نئی ہے۔

مرزا غالب مستقبل کے نقیب ہیں۔ ان کے اشعار جتنے کھلتے جاتے ہیں اتنے ہی الجھتے بھی جاتے ہیں۔اسی لیے جتنی شرحیں غالب کی منظرعام پر آئی ہیں اتنی آج تک اردو کے کسی شاعر کی نہیں لکھی گئیں۔ ضامن کنتوری کی یہ شرح سات نوٹ بکس کے (۸۰۳۱) صفحات پر مشتمل ہے۔ پہلی دو جلدیں نہایت صاف اور خوش خط لکھی ہوئی ہیں تیسری جلد کی دوکاپیاں ہیں۔ جن میں شامل تشریحات کی جگہ جگہ تصحیح، ترمیم اور اضافہ کیاہے۔ کچھ حصوں کو قلم زد بھی کردیاہے۔ چوتھی جلد میں (۶۷۳) غزلیات کا حصہ تمام ہوتاہے اسی جلد کے آخری آٹھ صفحات پر قصائد و متفرقات کا سلسلہ شروع ہوتاہے جو پانچویں جلد پر ختم ہوتاہے اس کے آخری صفحہ (۸۰۳۱) پر ترقیمہ میں ہجری فصلی اور عیسوی تاریخِ تکمیل دی گئی ہے۔ عیسوی تاریخ ۵۲دسمبر ۴۳۹۱ روز سہ شنبہ ہے پیش حرف میں انہو ں نے صاف صاف لکھاہے کہ سرسٹھ سال کی عمر میں یہ شرح لکھی گئی ہے تو اس حساب سے ان کا سنہ پیدایش ۷۶۸۱ ہوتاہے۔ اس شرح کی تکمیل کے تقریباً دس سال بعد یعنی ۴۴۹۱، ستہتر برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوتاہے۔

ضامن کی شرح کا یہاں جو تعارف پیش کیاگیاہے وہ انتہائی مختصر مگر کئی لحاظ سے ضروری تھا۔اس اختصار میں بہت سی خوبیاں زیر بحث آنے سے رہ گئیں تفصیل کے خیال سے نمونے اور حوالے بھی زیادہ نہیں دیے جاسکے مگر ان اشاروں سے شارح کے علمی مقام و مرتبہ، غالب فہمی میں ان کی پیش رفت کا اندازہ ہوتاہے۔ یہ ضخیم شرح ضامن کنتوری کو غالبیات کے میدان میں ہمیشہ زندہ رکھے گی۔

عہد غالب کے کلکتہ کی اہم ادبی اور سیاسی شخصیات

شمیم طارق

عہد غالب کے کلکتہ کی اہم ادبی اور سیاسی شخصیات

۸۲/ نومبر ۵۲۸۱ء کو نواب احمد بخش خاں کی معیت میں غالب، سر چارلس مٹکاف اور ان کی فوجوں کے ہمراہ دہلی سے بھرت پور کی طرف روانہ ہوئے۔ یہی ان کے سفر کلکتہ کا آغاز ہے کہ اس سفر کو ختم کرکے وہ ۹۲/ نومبر ۹۲۸۱ء کو ہی دہلی پہنچے۔ ان کے کلکتہ پہنچنے کی تاریخ تو اور بعد کی یعنی ۹۱/ یا ۱۲/ فروری ۸۲۸۱ء ہے۔ کالی داس گپتا رضا نے غالب کے سفر کلکتہ کی جو توقیت تیار کی ہے اس میں انھوں نے غالب کے ایک خط کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ ۵۱/ اگست کو کلکتہ سے دہلی کے لیے روانہ ہونے والے تھے مگر وسط اکتوبر تک انھیں یہ سفر ملتوی کرنا پڑا۔ ۱؎ تاریخوں میں اختلاف ہوسکتا ہے مگر یہ تو طے ہے کہ غالب جتنی مدت کلکتہ میں قیام پذیر رہے اس کو ”عہد“ نہیں کہا جاسکتا، عہد تو ایک خاص عرصہ، طویل مدت یا زمانہئ حکومت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اس لیے عہد غالب سے وہ پورا زمانہ مراد لینا ضروری ہے جو غالب کی پیدائش (۷۲/ دسمبر ۷۹۷۱ء) سے موت (۵۱/ فروری ۹۶۸۱ء) تک کو محیط ہے۔

اس عہد کی خاص شخصیتوں کا ذکر کرنے سے پہلے چند اہم باتوں یا خصوصیتوں کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ پہلی یہ کہ ۹۹۷۱ء میں ٹیپو سلطان کو شکست دینے اور ان کی سلطنت کو ختم کردینے کے بعد اول پچیس برسوں میں انگریز اپنے اقتدار کے پائے مستحکم کرتے رہے۔ دوسری یہ کہ ۴۱۸۱ء سے ۷۵۸۱ء کے درمیانی عہد میں انگریزوں کو برما اور سکھ فوجیوں کے علاوہ سیّد احمد شہید کے معتقدین اور افغان مجاہدین سے جنگیں لڑنی پڑیں۔ اس لیے اس کو انگریزوں کے اضطراب و بے چینی کا زمانہ کہا جاسکتا ہے۔

تیسری یہ کہ اس مدت میں تحریک اصلاحِ مذہب اپنا دائرۂ اثر بڑھاتی رہی۔ چوتھی یہ کہ اس دوران بنگلہ زبان کا ادب جو فورٹ ولیم دور، راجہ رام موہن رائے دور، نوجوان بنگال اور سم واد پربھاکر دور اور پھر ودیا ساگرتتوبودھنی دور پر محیط ہے اور جو ۵۱۸۱ء سے ۶۵۸۱ء تک پھیلا ہوا ہے ایک تخلیقی کرب سے گزر رہا تھا جس کے انقلابی نتائج برآمد ہوئے۔ ان چاروں خصوصیتوں کے حوالے سے کلکتہ میں کئی اہم شخصیات کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ مگر ایک مضمون میں سب کی نشاندہی کرنا ممکن نہیں ہے۔

اردو زبان و تہذیب کے پس منظر میں یہ باور کرایا جاسکتا ہے کہ جنگ پلاسی کے بعد جب انگریزوں نے بنگال کو اپنے مستقر کی حیثیت دی، فورٹ ولیم کالج کا دائرۂ اثر بڑھا، شاعروں اور ادیبوں کے اجتماع نے کلکتہ کو دہلی اور لکھنؤ کے لیے قابل رشک بنایا تو کلکتہ کے علاوہ فرید پور، چاٹگام، ڈھاکا، منشی گنج، ھوگلی، پنڈوہ اور مالدہ وغیرہ میں اردو شاعروں اور ادیبوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ صرف کلکتہ کے اردو شاعروں اور ادیبوں کے حوالے سے جو نام لیے جاسکتے ہیں ان میں مولوی عبدالکریم آشنا، راجہ جنم جی متر ارماں، مولوی عبدالصمد عرف محبوب جانِ اعظم، پنڈت جوالہ ناتھ آگہ، مولوی وجہہ اللہ خاں داغ، منشی اتواری لعل ذرہ، منشی مسیح الدین تمنا، راجہ راج کشن راجہ، سیف اللہ سیف، منشی عبدالسبحان شاکر، مغل جان شور، اسحق یہودی عبری، منشی قادر بخش، بابو کشن چند گھوش، راجہ پورب کشن بہادر کنور، عالم علی خاں مست، سید محمود مسرور، فرزند علی مسلم، میاں محمد حسین مشہور، منشی عبدالرحمن مواج، عباس علی نایاب، مولوی محمد علی وحدت، مولوی محمد عبدالروؤف وحید، راجہ کشن بہادر مشفق وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔

یہاں انقلابیوں اور سماجی مذہبی اصلاح پسندوں کی ایک جماعت بھی ایک زمانہ سے سرگرم تھی۔ مثلاً کلکتہ کے گرد و نواح اور بنگال کے دور دراز علاقوں میں سنیاسیوں کی بغاوت (۰۰۸۱ء – ۳۶۷۱ء) یا چواروں کی شورش (۹۰۸۱ء – ۷۶۷۱ء) اس وقت جاری تھی جب غالب کے پاؤں پالنے میں پڑ چکے تھے۔ ایسے معمر لوگ بھی ان کے زمانے میں موجود تھے جو ان بغاوتوں یا شورشوں کو غلط نہیں سمجھتے تھے۔ سنتھالیوں نے تو ۵۵۸۱ء میں اس وقت بغاوت کی تھی جب غالب کی ’مہر نیم روز‘ (۵ – ۴۵۸۱ء) تین بار شائع ہوچکی تھی۔ سماجی اور مذہبی مصلحین میں راجہ رام موہن رائے (۳۳۸۱ء – ۲۷۷۱ء)، ہنری لوئس ویویان ڈیروزیو (۱۳۸۱ء – ۹۰۸۱ء) دیبیندر ناتھ ٹیگور (۵۰۹۱ء – ۷۱۸۱ء)، ایشور چند ودیا ساگر (۱۹۸۱ء – ۰۲۸۱ء)، بنکم چندر چٹوپادھیائے (۴۹۸۱ء – ۸۳۸۱ء)، مائیکل مدھو سودن دت (۳۷۸۱ء – ۴۲۸۱ء)، دین بندھو مترا (۵۰۹۱ء – ۷۱۸۱ء)، سائنس دانوں میں مہندر لال سرکار (۴۰۹۱ء – ۳۳۸۱ء) کلکتہ کے اس دور کی اہم شخصیات ہیں۔ ان کی طبیعتوں اور سرگرمیوں میں فرق کی نشاندہی کی جاسکتی ہے مگر سب نے غالب کے عہد کا ایک حصہ پایا اور الگ الگ شعبوں میں غیر معمولی ذہانت کے سبب شہرت حاصل کی۔ کوئی تعجب کرسکتا ہے کہ مرزا قتیل یا ان کے شاگردوں کے نام یہاں نہیں لیے گئے مگر اس اعتراض سے پہلے ’نقد غالب‘ مرتبہ مختار الدین احمد میں شامل قاضی عبدالودود کی تحریر کا ذہن میں ہونا ضروری ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر غالب نے صاحب ’برہانِ قاطع‘ کے تعلق سے وہ رویہ نہ اختیار کیا ہوتا جو اختیار کیا تو مرزا قتیل اتنا مشہور نہ ہوتے۔ غالب کلکتہ اس لیے گئے تھے کہ اپنے لاولد چچا کا وارث ہونے کے سبب اس پنشن میں اضافہ کراسکیں جو انھیں نواب احمد بخش خاں کے توسط سے ملا کرتی تھی مگر پوری نہیں۔ پنشن کی پوری رقم نہ ملنے کی وجہ یہ تھی کہ نواب احمد بخش خاں نے پنشن پانے والوں میں مرزا حاجی (خواجہ حاجی) کا نام شامل کروا دیا تھا۔ خواجہ حاجی غالب کے خاندان کے ملازم تھے مگر چونکہ ان کی شادی مرزا جیون بیگ کی بیٹی اور مرزا اکبر بیگ و مرزا افضل بیگ کی بہن امیر النساء بیگم سے ہوئی تھی اس لیے ان کا رتبہ بڑھ گیا تھا مگر غالب کا یہ کہنا درست تھا کہ وہ پنشن کے حصہ دار نہیں۔ پنشن کی رقم کم ملنے کے سبب وہ معاشی تنگی اور بھائی مرزا محمد یوسف کی دیوانگی کے سبب کئی مصیبتوں میں گھرے ہوئے تھے اس لیے وہ کلکتہ میں کچھ لوگوں سے ملے تو ضرور، حتی کہ خواجہ حاجی کے برادرِ نسبتی مرزا افضل بیگ سے بھی ملے، کچھ مشاعروں میں بھی شریک ہوئے مگر ان کی تمام تر توجہ اپنے مقصد پر مرکوز رہی۔ وہ کلکتہ پہنچے تو باندہ کے صدر امین دیوان محمد علی کا ھوگلی کے نواب سید اکبر علی خاں طباطبائی کے نام سفارشی خط ان کے ساتھ تھا نواب نے ہی ان کی مہمانداری اور مدد کی۔

۸۲/ اپریل ۸۲۸۱ء کو انھوں نے گورنر جنرل کو مفصل عرضی پیش کی۔ مختلف انگریز افسروں سے ملاقات کی جدوجہد کی اور ان کی مدح میں اشعار بھی کہے مگر وہ مقصد پورا نہ ہوا جس کے لیے وہ کلکتہ پہنچے تھے۔ غالب کو کلکتہ تو بہت پسند آیا، اس کا انھوں نے جابجا شعروں اور خطوں میں ذکر بھی کیا ہے مثلاً

• غالب نے اپنے ایک قطعہ میں جس کا پہلا مصرع ”کلکتے کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں“ ہے کلکتہ کے ’سبزہ زار‘، ’نازنیں بتانِ خود آرا‘، ’میوہ ہائے تازۂ شیریں‘ اور ’بادہ ہائے نابِ گوارا‘ کا ذکر تو اہتمام سے کیا ہے مگر اس اہتمام سے کسی شخصیت کا ذکر نہیں کیا ہے۔

• غالب نے وہ قطعہ جس کا پہلا مصرع

ہے جو صاحب کے کف دست پہ یہ چکنی ڈلی

ہے، کے بارے میں حاتم علی مہر کو اواخر نومبر ۸۵۸۱ء میں خود ہی لکھا تھا کہ

”…. میں نے کلکتے میں کہا تھا۔ تقریب یہ کہ مولوی کرم حسین صاحب میرے ایک دوست تھے انھوں نے ایک مجلس میں چکنی ڈلی بہت پاکیزہ اور بے ریشہ اپنے کف دست پر رکھ کر مجھ سے کہا کہ اس کی تشبیہات نظم کیجیے۔ میں نے وہاں بیٹھے بیٹھے نو دس شعر کا قطعہ لکھ کر ان کو دیا اور صلے میں ڈلی ان سے لی۔“ ۲؎

وہ شخصیت یعنی مولوی کرم حسین جنھوں نے غالب سے چکنی ڈلی پہ اشعار کہلوائے کوئی غیر اہم شخصیت نہیں ہوسکتی۔ بعد میں یعنی غالب کے کلکتہ سے واپس آنے کے بعد شاہِ اودھ واجد علی شاہ اختر یہاں جلا وطن کرکے لائے گئے۔ اس واقعہ کی تاریخی حیثیت سے انکار ممکن نہیں۔ مولانا عبدالحلیم شرر نے اس دور کے ’مٹیا برج‘ کو جب شاہِ اودھ واجد علی شاہ اختر وہاں مقیم تھے دوسرا لکھنؤ کہا ہے۔ یہ قیام دو چار روز کا نہیں ۲۳، ۳۳ سال کا تھا۔ یہاں انھیں اس شک کی بنیاد پر گرفتار بھی کیا گیا کہ کہیں ۷۵۸۱ء کے مجاہدین انھیں اپنی تحریک میں شامل نہ کرلیں۔ واجد علی شاہ نے یہ تفصیلات اپنی مثنوی ”حزنِ اختر“ میں خود بیان کردی ہیں۔ فورٹ ولیم کے قید خانے میں وہ ۵۱/ جون ۷۵۸۱ء سے ۹/ جولائی ۹۵۸۱ء تک رہے۔ اس دوران ان کے اپنوں نے بھی کئی زخم دیے۔ ۱۲/ ستمبر ۷۸۸۱ء کی شب میں آخری سانس لی۔

عبدالغفور نساخ (۹۸۸۱ء – ۴۳۸۱ء) کا شمار ان شخصیات میں ہے غالب نے جن کے نام چند خطوط لکھے تھے مگر نساخ کی حیثیت محض غالب کے ایک مکتوب الیہ کی نہیں۔ وہ شاعر بھی تھے اور تذکرہ نویس بھی، نقاد بھی تھے اور نصاب کی کتابوں کے مؤلف بھی، اس کے علاوہ وہ ایک خود نوشت کے مصنف بھی ہیں۔ جمیل الدین عالی کے اس تعارف میں مبالغہ نہیں کہ

”مولوی عبدالغفور نساخ نہ دہلوی تھے نہ لکھنؤی، نہ دکنی نہ لاہوری، وہ مستند اور خاندانی بنگالی تھے مگر اردو کے اہم ستونوں میں شمار ہوتے ہیں۔“ ۳؎

سخن شعراء قطعہئ منتخب، تذکرۃ المعاصرین، قند پارسی اور زبان ریختہ کے نام سے نساخ نے پانچ تذکرے مرتب کیے تھے۔ نساخ نواب عبداللطیف کے چھوٹے بھائی تھے، وہ بھی اپنے بڑے بھائی کی طرح مجسٹریٹ ہونے کے علاوہ دوسرے عہدوں پر فائز ہوئے۔ ان کی شادی مغل شاہزادے مرزا ہمایوں بخت کی صاحبزادی سے ہوئی تھی۔ شادی سے تقریباً ایک سال پہلے ہی ان کا دیوان ’دفتر بے مثال‘ کلکتہ کے ’مظہر العجائب پریس‘ سے شائع ہوچکا تھا۔ انھوں نے یہ دیوان غالب کو بھیجا بھی تھا جس کی رسید کے طور پر غالب نے جو تعریفی خط لکھا تھا نساخ اس کو اپنے لیے سند سمجھتے تھے۔ ۸۶۸۱ء میں تپ دق کے علاج کے لیے جب وہ دہلی گئے تو غالب سے بھی ملاقات کی۔ جنوری ۰۷۸۱ء میں جب غالب کا انتقال ہوچکا تھا، علاج کی غرض سے ہی وہ دوبارہ دہلی آئے تو غالب کی سونی پڑی ڈیوڑھی کا دیدار کیا۔ نساخ کے معاصر اور دوستوں میں سید محمد عصمت اللہ انسخ کا نام بھی آتا ہے۔ ۳۶۸۱ء میں مٹیا برج کے ایک مشاعرے میں دونوں کی شرکت کی روایت موجود ہے۔ یہاں کے لکھنوی شعراء سے ان کی نوک جھونک بھی ہوئی تھی۔

یہ تو محض چند نام بلکہ اشارے ہیں۔ عہد غالب کے کلکتہ کی مشہور ادبی اور سیاسی شخصیات کی فہرست بہت طویل ہے۔ سوامی وویکانند (۲۰۹۱ء – ۳۶۸۱ء)، رابندر ناتھ ٹیگور (۱۴۹۱ء – ۱۶۸۱ء) اور جگدیش چندر بوس (۷۳۹۱ء – ۸۵۸۱ء) اگرچہ کلکتہ میں ہی پیدا ہوئے تھے اور کلکتہ کے علاوہ عالمی سطح پر بھی ناموری حاصل کی تھی مگر جب غالب نے دارِ فانی سے کوچ کیا (۹۶۸۱ء) تو ان کی عمر بہت کم تھی اس لیے یہاں کلکتہ کی مشہور ادبی سیاسی شخصیات میں ان ہی کا ذکر کیا گیا ہے جن کی عمر غالب کے انتقال کے وقت کم سے کم ۵۲ برس کو پہنچ چکی تھی یا اس سے زیادہ تھی یا وہ دنیا سے کوچ کرچکے تھے۔ ان میں پہلا نام راجہ رام موہن رائے (۸۳۸۱ء – ۲۷۷۱ء) کا ہے جنھوں نے رسالے لکھے، ویدانت کا ترجمہ کیا، مذہبی مباحثے کیے، دس سال تک کمپنی کی ملازمت کرنے کے بعد ۴۱۸۱ء میں ’آتمیہ سبھا‘ قائم کی۔ ستی، توہم پرستی اور مورتی پوجا کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ عوامی فلاح کے کئی کام کیے۔ وحدانیت کے حامی راجہ رام موہن رائے نے ۸۲۸۱ء میں برہمو سماج کی بنیاد ڈالی۔

ہنری لوئس ویویان ڈیروزیو (۱۳۸۱ء – ۰۹۸۱ء) آپ کی پیدائش ایک یوریشین خاندان میں ہوئی تھی۔ کلکتہ میں تعلیم پائی اور ذہین طالب علم ہونے کا ثبوت دیا۔ وہ صرف ۲۲ سال کی عمر میں انتقال کرگئے مگر بنگال کے نوجوان طبقے کو اس طرح بیدار کرگئے کہ آج بھی ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ انھوں نے تقلید اور سماجی نا انصافی کے خلاف آواز بلند کی جس سے نوجوان طلبا کی ایک جماعت بن گئی جو ’ڈیروزی‘ کہلاتے تھے۔ وہ سنسکرت کالج میں مدرس ہوئے، صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔ ’ایسٹ انڈین‘ نامی اخبار جاری کیا۔ ان پر نوجوان طلبا کا اخلاق بگاڑنے کا الزام عائد کرکے استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا گیا۔

ایشور چندر ودیا ساگر (۱۹۸۱ء – ۰۲۸۱ء) غریبوں اور بے کسوں کے دوست تھے اور ملک میں ایسی تعلیم کے فروغ کے لیے جدوجہد کررہے تھے جو یورپ کی عقل پرستی پر مبنی ہو حالانکہ وہ سنسکرت کالج کے فارغ التحصیل اور اپنشدوں کے ایسے شارح تھے جس میں مسلک انسانیت کو مقدم رکھا گیا تھا۔ انھوں نے بھی کئی فلاحی کام بلکہ کارنامے انجام دیے۔

ایلن آکٹیون ہیوم (۲۱۹۱ء – ۹۲۸۱ء) اگرچہ اسکاٹ لینڈ میں پیدا ہوئے تھے مگر ۹۴۸۱ء میں بنگال سول سرورس میں لے لیے گئے تھے اور سماجی برائیوں کو دور کرنے کی طرف خصوصی توجہ دے رہے تھے۔ ۲۸۸۱ء میں انھوں نے کلکتہ یونیورسٹی کے گریجویٹس کو جمع کرکے انھیں تحریک دلائی تھی کہ وہ اپنے ملک کو آزادی دلائیں۔ ۵۸۸۱ء میں جب کانگریس کا قیام عمل میں آیا تو وہ خود لندن گئے اور انگریزوں میں کانگریس کو مقبول بنانے کی کوشش کی۔ وہ کانگریس کے جنرل سیکریٹری بھی ہوئے اور آخری سانس تک ہندوستان کی آزادی اور ہندوستانیوں کی فلاح کے لیے سرگرم رہے۔

رام کرشن پرم ہنس (۶۸۸۱ء – ۸۳۸۱ء) ھوگلی کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے اور ۱۲ سال کی عمر میں ۴۲ پرگنہ میں کالی مندر کے پروہت ہوگئے۔ آپ کے معتقدین میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعداد زیادہ تھی۔ آپ نے ان میں خود داری و خود اعتمادی کا احساس پیدا کیا۔ وہ تمام مذاہب کی سچائی کو تسلیم کرتے تھے۔ ان کو یقین تھا کہ مخلوق کی بے غرض خدمت خدا کی بے غرض خدمت ہے۔

بنکم چندر چٹوپادھیائے (۴۹۸۱ء – ۸۳۸۱ء) نے بنگلہ میں نثر نگاری کا معیار قائم کرنے کے ساتھ کئی تاریخی اور سماجی ناول لکھے اور قوم پرستی کے ایک خاص مزاج کی ترویج و اشاعت کی۔ ’بندے ماترم‘ ان ہی کی تخلیق ہے۔ انھوں نے یورپ کے سوشلسٹ مفکرین سے متاثر ہوکر معاشی اور معاشرتی مساوات کے لیے بھی جدوجہد کی۔ ومیش چندر بنرجی (۶۰۹۱ – ۴۴۸۱ء)، راش بہاری گھوش (۱۲۹۱ء – ۵۴۸۱ء)، دیبیندر ناتھ ٹیگور (۵۰۹۱ء – ۷۱۸۱ء)، موتی لال گھوش (۲۲۹۱ء – ۷۴۸۱ء)، مہندر لال سرکار (۴۰۹۱ء – ۳۸۸۱ء) کے علاوہ کئی اور نام بھی اس فہرست میں شامل کیے جاسکتے ہیں مگر یہاں جتنے نام لیے گئے ہیں یا اشارے کیے گئے ان سے بھی واضح ہوجاتا ہے کہ عہد غالب کے کلکتہ میں مختلف شعبہئ حیات سے تعلق رکھنے والی ایسی شخصیات کی پوری کہکشاں موجود تھی جنھوں نے مستقبل کے ہندوستان کی تعمیر کے تصور کو عمل میں ڈھالنے کی راہ استوار کی۔ غالب کے عہد میں کلکتہ صنعتی اور تمدنی ترقی کی اس راہ پر گامزن ہوچکا تھا جس راہ پر بعد میں پورے ہندوستان کو خاص طور پر آزاد ہندوستان کو گامزن ہونا تھا۔

حواشی

۱۔ کالی داس گپتا رضا غالب درون خانہ ممبئی ۹۸۹۱ء ص ۰۹

۲۔ کالی داس گپتا رضا دیوان غالب کامل نسخہئ رضا ممبئی ۵۹۹۱ء، ص ۸۷۳

۳۔ جمیل الدین عالی حرف چند مشمولہ ’نساخ – حیات و تصانیف‘ ڈاکٹر محمد صدر الحق کراچی ۹۷۹۱ء، ص ۱

غالب کی شاعری میں محبوب کا تصور

فراق گورکھپوری

کہتے ہیں کہ پاربتی جی نے ایک بار شیوجی سے پوچھاکہ میں تمہیں کیسی لگتی ہوں۔ شیوجی نے جواب دیاکہ ”تم مجھے ایسی لگتی ہوجیسے آدھا سنا گانایا وہ راگ جو کچھ سنائی پڑے اور کچھ نہ سنائی پڑے“، انگریزی شاعر کیٹس (Keats)نے اپنی محبوبہ کوایک خط میں لکھاکہ میں تمہیں ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے آنکھ اوجھل پاتاہوں، کتنے حسین، لطیف اور نازک تصوّر ان روایتوں میں پیش کیے گئے ہیں۔ مخصوص انفرادی لذّات یا احساسات کی مصوری الفاظ میں ناممکن ہے۔ ہر تجربے میں ایک نرالاپن ہوتاہے۔ہراحساس میں ایک اچھوتاپن ہوتاہے۔ہر تصورکی ایک انفرادیت ہوتی ہے۔ الفاظ کے ذریعہ سے شاعر یا ادیب ہمیں اس نرالے پن، اچھوتے پن اور انفرادیت کے قریب کردیتاہے لیکن بات جہاں کی تہاں رہ جاتی ہے، اگر وہ شخص ایک ہی معشوق کے عاشق ہوں تو بھی اس کے حسن وجمال کا جو عکس دونوں کے دلو ں میں پڑے گاوہ یکساں نہیں ہوگا۔ انفرادیت دنیاکے اہم ترین رازوں میں سے ایک رازہے لیکن انفرادیت میں ایک آفاقی اور عالمگیر صفت بھی ہوتی ہے، جب ہی تو ہم شاعروں کے مخصوص اور اچھوتے تصورات سے مانوس اور ہم آہنگ ہوسکتے ہیں۔
غالب کی عشقیہ شاعری میں محبوب کے تصور کا اندازہ لگاتے وقت ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ غالب کا یہ تصور مسلسل نظموں میں نہیں پیش کیاگیاہے بلکہ غزلوں میں پیش کیا گیاہے اور غالب کی غزلوں میں، جن سے کہیں زیادہ عشق اور زندگی اور کائنات کی مصوری کی گئی ہے۔ بجائے اس کے حُسن کیا ہے اور کیسا ہے ہمیں زیادہ تریہ بتایاگیاہے کہ حسن نے عشق کے ساتھ کیا کیااور حسن کے ہاتھوں عشق پر کیا گزری،بقول اصغرگونڈوی’کچھ فتنے اُٹھے حُسن سے کچھ حُسن نظر سے‘لیکن پھر بھی جب ہم دیوان غالب کی سیر کرتے ہیں تو حُسن کی متعدد جھلکیااورمعشوق کے مزاج اور کردار کی کئی تصویریں ہمارے سامنے سے گزرتی ہیں۔ ان اشعار سے ہم کافی حد تک اس کا اندازہ لگاسکتے ہیں کہ غالب کی شاعری میں حسن کا تصور کیاہے اور کیسا ہے، پہلے معشوق کے قدکو لیجیے۔ لمبے قدکاآدمی کس قدوقامت پر عاشق ہوگا؟ اس کے معشوق کاقد بوٹاساہوگا یا لمبااور چھریرا تو اسے ماہر حسنیات ہی بتائیں۔ لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ اُردو شاعروں میں غالب خود بہت لمبے قد کے آدمی تھے۔ایک شعر میں غالب نے معشوق کے درازی قدکاذکرکیاہے،کہتے ہیں:

بھرم کھُل جائے ظالم تیرے قامت کے درازی کا
اگر اس طرہئ پُر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
غالب کا معشوق،یاغالب کے معشوق، میانہ قدر، بوٹاساقد یالمبے قدکے تھے۔ ہمیں اس کا کوئی تاریخی علم نہیں لیکن جو شعرابھی آپ نے سُناہے اس سے یہ پتاضرور چلتاہے کہ سروقد معشوق کے حُسن کا احساس اور شدید احساس غالب کو تھا۔
غالب کا معشوق نرم گام یا آہستہ خرام نہیں ہے۔ معشوق کی چال کی تصویر غالب نے یوں کھینچی ہے:
چال جیسے کڑی کمان کا تیر
دل میں ایسے کے جاکرے کوئی
بجلی کی تیزی اور تیر کی جست محبوب غالب کی چال میں ہے،ایک جگہ اور کہتے ہیں:
ثابت ہوا ہے گردنِ مینا پر خونِ خلق
لرزے ہے موج مَے تری رفتار دیکھ کر
یہا ں بھی چال کے جمالی پہلو کو جلالی شان و انداز سے پیش کیاگیاہے۔ معشوق کی شوخ چال کی ایک اور تصویر دیکھیے:
دیکھو تو دل فریبی ئ انداز نقشِ پا
موجِ خرام یار بھی کیا گل کتر گئی
اس شعرمیں بجلی کی سی چال کاذکرنہیں پھر بھی چال ہے نہایت شوخ:
زلف سے متعلق بھی غالب نے دو تین ہی شعر کہے ہیں لیکن کیاشعر ہیں:
نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہوگئیں
زلف کی درازی کا کچھ اندازہ تو غالب کے اس شعر سے ہم کو ہوجاتاہے جسے قامت کی درازی کے سلسلے میں پیش کرچکے ہیں:
اگر اس طرہئ پُر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
زلف کی رمزیت پر ایک شعرکہہ کے غالب نے کیا کچھ نہیں کہہ دیا:
کٹے تو شب کہیں، کاٹے تو سانپ کہلاوے
کوئی بتاؤ کہ وہ زلف خم بہ خم کیا ہے
اوریہ شعر تونہ جانے ہمیں کہاں لیے جارہاہے:
تو اور آرائش خم کا کل
میں اور اندیشہ ہائے دور و دراز
گورا دمکتا ہوا چہرہ دیکھ کر کبھی نگاہیں تڑپ جاتی ہیں اور کبھی شاداب ہوجاتی ہیں۔ معشوق کے چہرے کا تصور غالب یوں کرتے ہیں اور اسے یوں دیکھنا چاہتے ہیں:
اک نو بہار ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ
چہرہ فروغ مے سے گلستاں کیے ہوئے
اس شعر میں بھی معشوق کے چہرے کی جگمگاہٹ دیکھیے:
کیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے
کرے جو پرتوِ خورشید عالم شبنمستاں کا
معشوق کی نگاہ کا کتنا لطیف احساس و تصوّر غالب کو تھا۔
بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی
وہ اک نگہ جو بظاہر نگاہ سے کم ہے
غالب کے ہاں محبوب کا جوتصور ہمیں ملتاہے وہ نہایت دھاردار،نوک دار، چنچل اور شوخ ہے۔ اس تصورمیں ایرانی کلچرکی رنگینیاں،لطافتیں اور نزاکتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں، غالب کے تصورکا کوئی خط دھندلایا مبہم نہیں ہے۔ اس کے تصورکی ہر سنہری لکیر میں اُپی ہوئی تلوار کی دھار ہے۔اس کے احساس حُسن میں ایک ارتکاز وہم آہنگی ہے۔ اس کا معشوق بہت شوخ اور طرار ہے،ا س کی باتیں تک برق رفتاری کی مثالیں ہیں۔ ٹھہراؤ تو کہیں ہے ہی نہیں۔ معشوق کیسے باتیں کرتا ہے؟
بجلی اک کوند گئی آنکھوں کے آگے تو کیا
بات کرتے کہ میں لبِ تشنہئ تقریر بھی تھا
معشوق کی بے پناہ شوخیاں ان اشعار میں دیکھیے:
نکتہ چیں ہے غمِ دل اس کو سُنائے نہ بنے
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
میں نے کہا کہ بزم ناز چاہیے غیر سے تہی
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اُٹھا دیا کہ یوں
معشوق کا نہ آناہی نہیں بلکہ اس کا آنااور ملنابھی فتنوں سے خالی نہیں:
وہ آئیں گے مرے گھر، وعدہ کیسا، دیکھنا غالب
نئے فتنوں میں اب چرخِ کہن کی آزمائش ہے
۔
خوش ہوتے ہیں پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے
آئی شب ہجراں کی تمنّا میرے آگے
میں نے چاہا تھاکہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر مرے مرنے پہ راضی نہ ہوا
عموماً شوخ و شنگ معشوق عاشِق کو مٹاتا اور رقیب کو نوازتا رہتاہے، لیکن غالب کے معشوق میں نہ عاشق کے لیے سپردگی و ہمدردی ہے نہ رقیب کے لیے۔ بہت نازک اور حسّاس لہجے میں غالب نے اس تکلیف دہ حقیقت کا اظہارکیاہے۔
تو دوست کسی کا بھی ستمگر نہ ہواتھا
اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا
معشوق کی جفاکاری اور ستم گاری، اس کی شرارتیں اور چھیڑیں، اس کی حیا میں بھی جھلک رہی ہیں۔
کبھی نیکی بھی اُس کے دل میں گرآجائے ہے مجھ سے
جفائیں کرکے اپنی یاد شرما جائے ہے مجھ سے
جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا
کہتے ہیں ”ہم تجھ کو منہہ دکھلائیں کیا“
معشوق ظلم و ستم سے توبہ بھی کرتاہے تو کب کرتاہے۔
کی مرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
کبھی کبھی معشوق کی ستمگاری سے غالب کو فائدہ بھی پہنچ جاتاہے۔
ذکر میرا بہ بدی بھی اسے منظور نہیں
غیر کی بات بگڑ جائے تو کچھ دور نہیں
گرچہ ہے کس کس بُرائی سے ولے باایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
غالب اپنے معشوق میں پاتے تو ہیں انتہائی شوخی لیکن چاہتے ہیں اس میں سادگی۔
سادگی پر اس کی مر جانے ک حسرت دل میں ہے
بس نہیں چلتا، کہ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے
لیکن معشوق کی سادگی بھی قیامت ڈھاتی ہے:
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں او رہاتھ میں تلوا ربھی نہیں
اور جب معشوق ایک ہی ساتھ سادگی و شوخی کاملاطفہ ہے تو اور بھی جان پر بن جاتی ہے:
سادگی و پُرکاری، بے خودی و ہُشیاری
حُسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا
معشوق کی شوخی کا شکایت آمیز بیان جیسا غالب کے ہاں ملتاہے اس کی مثالیں کسی اور شاعر کے ہاں نظر نہیں آتیں اس بیان اور اس شکایت میں نہ تو میر کی دل گرفتگی و خستگی ہے نہ بہت سے اور شاعروں کی طرح سطحیت ور چھچھوراپن، غالب معشوق کی شوخیوں سے تنگ آکر بھی بالکل مٹ نہیں جاتا وہ اپنی آن بان قائم رکھتاہے اور اسی خودداری کے سبب سے وہ معشوق کی شوخی اور جفاکاری کو بہت رچاکے اور سنوار کے پیش کرتاہے۔ مثلاًمعشوق عاشق کے خطوں کا جواب نہیں دیتایانہایت بے حسی او ربے دردی سے جواب لکھتاہے، غالب نے کسی طنزیہ لہجے میں اس کاذکرکیاہے۔
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
یہ جانتا ہوں کہ تو،اور پاسخ مکتوب
مگر ستم زدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا
لیکن ان تمام اشعار سے غالب کے تصور محبوب کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ نامکمل ہوگی،اگر ہم غالب کے کچھ اور اشعار پربھی نظرنہ ڈالیں جن میں معشوق کی فطرت کی نرمی یا اس کی عاشِق نوازی دکھائی گئی ہے۔ معشوق خطوں میں ہمیشہ جلی کٹی نہیں لکھتا، پیاربھرے خط بھی لکھتاہے۔
پھر چاہتا ہوں نامہئ دلدار کھولنا
جان نذرِ دلفریبیئ عنواں کیے ہوئے
معشوق محض رُلاتا ہی نہیں، کبھی کبھی اس کی آنکھیں بھی ڈبڈبا آتی ہیں، کیاشعرکہاہے:
نہیں معلوم کِس کِس کا لہو پانی ہوا ہوگا
قیامت ہے سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا
غالب کے ہاں محبوب کے تصور میں بلکہ حُسن و عشق اور زندگی ہی کے تصور میں رشک کا عنصر بہت تیز ہے، غالب کے مزاج میں خود غرضی تھی، کِس کے مزاج میں نہیں ہوتی اور یہ خودغرضی بہت تیز تھی۔لیکن ان کی فطری مصلحت شناسی، رشک کے جذبے کوبھی بہت حسین بنادیتی ہے۔
رات کے وقت مے پیئے، ساتھ رقیب کو لیے
آئے وہ یوں خدا کرے، پر نہ خدا کرے کہ یوں
رقیب تو درکنار غالب کو خود اپنے آپ پر رشک آجاتاہے۔
دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آجائے ہے
میں اُسے دیکھوں بھلاکب مجھ سے دیکھا جائے ہے
لیکن مجبوری سب کچھ کراتی ہے، باوجود رشک کے غالب یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو
لیکن اگر کسی ایک غزل میں غالب نے محبوب کا معیاری (Ideal)تصور پیش کیا ہے تو اُس غزل میں جویوں شروع ہوتی ہے۔
درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے
کیا ہوئی ظالم تِری غفلت شعاری ہائے ہائے
یہ پوری غزل معشوق کا مرثیہ ہے اور غالب کے مغموم تصور کا مرقع۔

غالب کا سفر اور ان کی تخلیقی زندگی

پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی

غالب کا ایک شعر ہے:
مری تعمیر میں مُضمر ہے،اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برقِ خَرمن کا ہے خونِ گرمِ دہقاں کا
یہ شعر پورے انسانی وجود کا ارشاد ہے۔تفصیل میں جائیے تو فلسفیانہ موشگافیوں کے گورکھ دھندے میں پھنستے چلے جائیں گے لیکن جس شاعرانہ حسن کے ساتھ زندگی کے تجربات کے بارے میں غالب نے اپنے احساس کی شدت کا اظہار کیا ہے۔تعمیر اور خرابی کو برقِ خرمن اور دہقاں کے خون گرم کے استعارے کے ذریعے تاثرات کی ایک وسیع دنیا سامنے آجاتی ہے اور وہیں کہیں ہمیں وہ غالب ملتے ہیں جن کے اردو فارسی خطوط میں خارجی دنیا سے ان کے رشتے اور ان میں کئی مقامات پر ان کی انا کے ساتھ تصادم نظر آتا ہے۔
کسی شاعر کی ز ندگی کے اصل واقعات اور اس کے تخلیقی مزاج کے درمیان رشتہ تلاش کرنا کس حد تک مناسب ہے اور اس کی تخلیقات کو سمجھنے میں کہاں تک کار آمد ہو سکتا ہے۔یہ ایک مستقل سوال ہے جس کا کوئی سیدھا جواب شاید ممکن نہیں۔اس کا ایک عام سبب تو یہی ہو سکتا ہے کہ شاعروں کی اصل زندگی اور ان کی اُس شاعرانہ شخصیت میں جوان کی تخلیقات میں نظر آتی ہے اکثر تضاد ہوتا ہے۔فرائڈ کے مطابق تو زندگی کی نا آسودگیوں کو ہی دراصل اپنے اظہار کی راہ اس کے فن میں مل جاتی ہے۔گویا اس طرح وہ اپنی شخصیت کی تکمیل کرتا ہے۔بہر حال یہ بحث بڑی طویل ہو سکتی ہے مگر سب باتوں کے باوجود کسی جواب سے پورے طور پر تشفی اس لئے نہیں ہوتی کہ اگر کسی شاعر کی زندگی اور شخصیت کے بارے میں بیشتر حقائق سامنے آجائیں تو ان کے اور ان کی تخلیقات کے درمیان کسی نہ کسی قسم کا سلسلہ بھی نظر آتا ہے،خواں وہ کتنا ہی موہوم کیوں نہ ہو اور پھر زندگی کے بہت سے واقعات وحادثات ایسے ہوتے ہیں جنہیں خود شاعر شعوری طور سے فنی روپ دیتا ہے ایسے فن پاروں کا داخلی تجزیہ کیا جائے تو اس میں بہت کچھ ایسا بھی مل سکتا ہے جس کا خاموش محرک وہ واقعہ ضرور تھا،مگر جو اس واقعے سے الگ ہوکر بھی پڑھنے والوں کے ذہن کو دوسری سمتوں میں لے جاتا ہے۔
غالب اتفاق سے ہمارے کلاسیکی شاعروں میں اکیلے شاعر ہیں جن کی زندگی اور شخصیت سے متعلق بہت کچھ معلومات آج فراہم ہو چکی ہیں۔جن میں سے زیادہ تر تو انہوں نے خود اپنے خطوط یا دوسرے بیانات کی شکل میں چھوڑی ہیں۔چنانچہ غالب کا کلام پڑھتے وقت اکثر ذہن ان سمتوں میں سفر کرتا ہے جدھر خود غالب اشارہ کرتے ہیں۔غالب کا وہ سفر جس کی ایک منزل بنارس تھا وہ کلکتہ پر بظاہر تو ختم ہوا مگر دراصل اس کے بعد بھی جاری رہا اور اس طویل سفر میں جوزادِراہ انہوں نے کانپور،باندہ،الہٰ آباد،لکھنؤ اور بھر بنارس میں حاصل کیا وہ آئندہ کے لیے محفوظ ہوتا رہا۔اس زادِ راہ میں دوسروں سے لیا ہوا قرض،لڑھیا، گھوڑا،چھکڑا،اور”بخیل کی طبیعت جیسا مکان“وغیرہ شامل تو ہیں دلچسپ بھی ہیں مگر وہ باہر کی دنیا کے ہیں۔ان سب کے نتیجے میں غالب کے اندروں میں جو کچھ واقع ہو رہا تھا۔وہ ہمارے لیے زیادہ معنی خیز ہے۔
غالب کی نا آسودگی جو اشعار میں ڈھل کر ایک تہ بہ تہ مغنیاتی نظام کو ساتھ لے کر آئی اس کا ایک سبب خارجی دنیا میں ہونے والے واقعات سے ان کی انا کا وہ تصادم تھا جس میں بار بار ان کا احساس مجروح ہوتا مگر جس دولت سے اندر ہی اندر ان کے ذہن ودل کو بے چین رکھ کر ان کی تخلیقی جبلت بھی متحرک ہوتی تھی۔پنشن کے معاملات،جیل کی اذیت ناک اور ذلت آمیز زندگی،قرض خواہوں کے معاملات ہوں۔کلکتہ کا معرکہ پھر فارسی دانوں کی طرف سے ان کی لیاقت پر لعن طعن۔ذوق اور اپنے دوسرے ہم عصروں سے چشمکیں ہوں۔ان سب میں غلطی ان کی ہو یا نہ ہو اُن کی ذاتی زندگی کے دکھوں کا سبب یہی سب باتیں نہیں۔اس نے ان کے اندر اندر ایک حشر برپا کر رکھا تھا جو کبھی انہیں ذلت کے اس احساس پر پہنچا دیتا تھا جس میں شدید طنز بھی تھا۔
سو پشت سے ہے پیشہئ آبا سپہ گرمی
کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے
یہ کیفیت ان کے خطوط میں بارہا آتی ہے۔مگر پھر ان کی انایوں بھی کار فرما تھی:
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخیِ فرشتہ ہماری جناب میں
جس شخص کو اپنے حسب نسب پر اتنا فخر ہو جو غالب کو تھا اورجسے شاعرانہ کمال پر ان جیسا اعتماد ہو،اسے ہر ہر قدم پر ان دونوں پہلوؤں کو نظر انداز ہوتا دیکھے۔پھر بھی اُن پر بار بار اصرار کرے اور اس کے باوجود شکست کھاتا رہے اس کی شخصیت کی اندرونی کیفیت جو آن بان کے ساتھ زندہ رہنے پر بھی مصر ہے۔فقدانِ راحت کی شکوہ گزار رہتی ہے۔وہ جس رئیس سے سرپرستی اور مالی مدد کی اُمید کرتا ہے اس کو نو دولتیہ قرار دے کر اس لیے نظر انداز کر دیتا ہے کہ وہ اُن سے کھڑے ہو کر معانقہ کرنے اور نذرانہ کی رسم معاف کرنے پر تیار نہیں ہوتا ہے۔اسے فاقہ مستی گوارا ہے لکھنؤ کو چھوڑ کر چلا جانا منظو ر ہے مگر وہ پیسہ قبول

کرنا گوارا نہیں جس کی خاطر اُسے اپنا نسلی وقار اور شاعرانہ کمال کم ترہوتا ہوا محسوس ہو۔غالب کے یہ الفاظ ان کے اس مزاج کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں خارجی دنیا میں ان کی انا متصادم ہے مگر اندر اندر وہ اسے سینہ سے لگائے رکھتے ہیں
”……خدا گواہ ہے وہ قصیدہ جو میں نے آغا میر کی مدح میں لکھا ہے،میرے خاندان کے لیے باعثِ رسوائی ہے۔اب لطف یہ ہے کہ قصیدے کے ان اشعار کو کاغذ سے مٹا نہیں سکتا۔نواب مرشد آباد بھی سیّد زادے ہیں۔اس قصیدے کو اُن کے نام سے مشہور کر رہا ہوں۔اگرچہ اُن کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع نہیں ملا لیکن ہمایوں جاہ کی مدح مجھے ناگوار نہیں ہے۔جب تک اس قصیدے کے ممدوح سے مختص اشعار شامل نہ کرلوں۔یہ اشعار کسی کو نہ دکھائیں اور بزرگوں کی طرح چھوٹوں کے عیب پوشیدہ رکھیں۔“
”معانقے کے سلسلے میں ملاقات کے لیے اُن (معتمدالدولہ) کی طرف سے کچھ ایسی باتیں ہوئیں کہ ذہنی معاملے نے عملی صورت اختیار نہیں کی۔چوں کہ اُن معاملات کی وجہ سے جن کا میں نے ذکر کیا ہے۔میرا دل زخمی تھا،نیز طویل اور دشوار مقصد درپیش تھے۔میں نے پاسِ ناموسِ خاکساری کی وجہ سے استغنیٰ سے کام لیا تھا اور اُن نو دولتیوں کے اختلاط سے اپنا دامن بچا لیا۔اگرچہ اُس خواہش کا نقش دل پر باقی نہیں،لیکن وہ تحریر کاغذ پر محفوظ ہے۔چناں چہ ہزیاں نگار قلم سے وہ (عرض داشت) نقل کر رہا ہوں“۔(فارسی سے ترجمہ)
اس طرح خود کو دربار میں پاکر بھی وہ خود کو اس کے حاشیہ نشینوں سے الگ اور دوسروں سے ممتاز قرار دیتے ہیں
نوابوں اور رئیسوں سے اُن کو ہمیشہ اُمید رہتی تھی کہ ان کے اس مرتبے کے مطابق پیش آئیں جس کا شدید احساس خود ان کے مزاج میں اتنا ڈھل گیا تھا کہ اگر اس میں کہیں کوئی کسر دیکھتے تو اس سے ذلت کا احساس اور زیادہ ہوتا۔ان کی مفلسی اس دکھ کو اور بڑھا دیتی ہوگی۔حالات ان کو مجبور کرتے تھے۔کہ وہ ان ہی لوگوں کے پاس جائیں۔اُن سے قصاید کے ذریعے رابطہ بھی قائم کریں اور داد خواہی بھی۔اپنے مرتبے کی بلندی کا احساس اور بھر دنیا کے رواج کے مطابق سرکار دربار سے لے کر کو چہ وبازار تک خود کو رسوا ہوتا محسوس کرنا معمولی حادثہ نہیں تھا۔بار بار انہیں اپنے دل ودماغ کے اندر کی دنیا میں سمٹ کر ان کو بہت سے سوالات سے روبرو کرتا ہوگا۔مثال کے طور پر ان کا میرولایت علی شرف الدولہ کو لکھا ہوا یہ مکتوب دیکھیے:
بنام میر ولایت علی صاحب مخاطب بہ شرف الدولہ
خط۔۱
خدا کی لعنت مجھ پر کہ (میں نے) شاہزادہ ماہ لقا(نصیر الدین حیدرولی عہد شاہ اودھ) کے حضور زمین بوسی کی آرزو کی اور وہ بھی آپ کی وساطت سے مجھے بہر طور یقین ہے کہ اہل عقل کو اس کا علم ہے کہ میرے گوہر تاباں کی تابانی میں کہ جس کی چمک دمک ایک عطیہ الٰہی ہے اس تقصیر کے باعثکہ جو قدر ناشناسوں کی جانب سے ہوئی،کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔لیکن وہ ادا کہ جو طور طریقے کے مطابق نہ ہو بھلا (میری) طبیعت کو کس طرح گوارا ہو سکتی ہے۔اس ہی دفعہ شاہزادے سے نہیں ملا ہوں بلکہ اس سے پہلے بھی دوبار اس نشیمن باسعادت میں گیا ہوں۔اور ہر دوبار (انہوں نے مجھے) فوراً باریابی بخشی ہے اور دیر تک بٹھایا ہے اور میری عزت افزائی کی ہے لیکن اس بار شاہزادے کے رویے کو فطری نہیں کہا جا سکتا۔یقینا میرے آنے سے پیشتر ہی اس بات کا فیصلہ کیا جا چکا تھا کہ تھوڑی دیر مجھے پاسبانوں کے ساتھ بٹھایا جائے اور جب تک کہ شہزادہ کو صندوقچے کے مشغلے میں نہ لگا لیا جائے مجھے حضور میں نہ بلایا جائے اور جب سامنے آؤں حضرت صاحب عالم اظہار التفات نہ کریں اور مجھے بیٹھنے کی اجازت نہ دیں۔گویا کہ شاہزادہ ایک ورق سادہ ہے کہ نقاشوں اوررنگ آمیزوں کے ہاتھ میں آپڑا ہے تاکہ رنگ رنگ کے ڈول ڈالیں اور طرح طرح کے نقش بنائیں۔قصہ مختصر تقریب اور چیز ہے اور تخریب اور۔ہم تو آپ سے مقرب (کاکردار)چاہتے تھے نہ کہ مخرب کا۔
ع:خود غلط بود انچہ ماپنداشتیم
ترجمہ: دراصل جو ہم سمجھ رہے تھے وہی غلط تھا۔
افسوس شہزادہ کی زمین بوسی کا ارادہ کرنا اور پھر آپ مروت کی امید رکھنا۔ہم شاہ پرستوں میں ہیں اور کشور کشاؤں کے دست تیغ آزماہی سے اپنا رزق حاصل کرتے ہیں۔(بھلا)زاویہ نشینوں سے ہمارا کیا تعلق اور رشتہ شکستگاں سے کیا علاقہ۔آپ یہ نہ سمجھئے گا کہ میں اس تحریر کے ذریعے آپ سے تلافی کا خواہشمند ہوں۔(نہیں) میرا مقصد تو آپ کو صرف یہ بتانا ہے کہ آپ یہ نہ جانیں کہ میں نہیں جانتا۔والسلام
غالب نے اپنے سفر کے دوران جہاں جہاں قیام کیا اس وقت کے ہندوستان کے اہم ترین شہر تھے۔کلکتہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا صدر مقام ہی نہیں تھا وہ یورپ کی اُن ساری نو آبادیوں میں جو امریکہ سے لے کر ایشیا اور افریقہ تک پھیلی ہوئی تھیں سب سے پر کشش ساحلی شہر تھا۔ہندوستان کی ہی نہیں سارے جنوب ایشیا کے دولت پر یہاں سے قابو رکھا جاتا۔یہاں عیش وعشرت کا جو بازار گرم تھا اس کی بنا پر یورپ کے زیادہ تر مہم باز نو جوانوں کی نظر میں یہی منزل آخر تھی۔ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازموں کی زندگی اُن سب کے لیے قابل رشک تھی۔یہاں وہ عموماً خالی ہاتھ آتے تھے اور لندن واپس جانے کے بعد وہاں کی سیاسی ومعاشی زندگی میں کلیدی حیثیت اختیار کر چکے ہوتے تھے۔کلایواور ہسٹنگز کے بارے میں تو جو حقائق سامنے آئے وہ سب جانتے ہیں۔نوجوان عیسائی انگریزوں کی عام بے راہ روی کے پیش نظر وہاں مسیحی مبلغوں نے بھی آنا شروع کیا کہ وہ نوواردوں کی نگرانی اور اصلاح کریں۔فورٹ ولیم کالج بھی دراصل اس خاص مقصد سے قائم کیا گیا تھا کہ انگریز نوجوانوں کو نا پختہ عمر میں ایک سخت ڈسپلن میں بھی رکھا جائے تاکہ وہ فرانس کے لوگوں کی شہنشاہیت مخالف جمہوری خیالات سے بھی متاثر نہ ہو جائیں۔غالب نے جب مشرقی ہندوستان کے برباد،افلاس زدہ علاقوں سے گزرتے ہوئے زوال کے شکار رئیسوں کے درباروں کو دیکھا ہوگا اور پھر جب کلکتے پہنچے ہوں گے اور وہاں کے قیام کے دوران میں انہیں اچنبھے میں ڈال دینے والے مناظر نظر آئے ہوں گے تو آئین اکبری کی تقریظ اوراور ایک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے‘والی غزل سے کہیں زیادہ اشارات ان کے ذہن ونظر کو متوجہ کرنے کے لیے ملے ہوں گے۔ان کے کلام میں تشکیک،استفہام،بے یقینی،
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے۔

حیراں ہوں پر مشاہدہ ہے کس حساب میں
جیسے سوالات کہیں اندر اندر پروان چڑھ رہے ہوں گے۔جو اُن کی شاعری کا بہترین حصہ قرار پائے۔
غالب کا بنارس میں قیام ان کے اس سفر کے دوسرے مقامات کے قیام سے اس اعتبار سے زیادہ اہم ہے کہ اور مقامات پر تو انہیں وہ ساری باتیں ملی ہوں گی جو اجنبی بستیوں اور راستوں میں عموماً ملتی ہیں اور ہر نئے مسافر کو حیرت میں ڈالتی ہے مگر بنارس دہلی کی طرح اس ملک کا ایک تاریخی شہر ہونے کے باوجود اس پوری تہذہبی روایت سے بہت کچھ مختلف بھی تھا جس کے درمیان غالب دہلی اور آگرہ میں پلے تھے۔خصوصاً اس علاقے کے اشرافیہ کا اپنا ایک الگ طرز کی زندگی تھا۔بنارس ہندوستان کی قدیم ویدک تہذیب اور ہندو عقاید کے مطابق ایک مقدس ترین شہر تھا۔یہاں اس ملک کے قدیم علوم کے مراکز تھے۔ گنگا کا گھاٹ دہلی میں جمنا کے گھاٹ سے ہی لیں ساری دنیا کے دیاروں کے ساحل سے کتنا مختلف ہوگا۔اور وہ صرف گھاٹ نہیں ہوگا۔اس کے پیچھے ہزاروں سال کی جیتی جاگتی تہذیب ہوگی۔اس کا اندازہ بنارس آئے بغیر کیسے ہوسکتا تھا۔پھر دہلی کی طرح یہاں بھی ایک طرح کی ہموار تہذیبی زندگی بھی تھی جو تاریخ کے تمام نشیب وفراز گزرنے کے باوجود ہر بار پھر اپنی وضع پر واپس آجاتی تھی۔چنانچہ غالب کے لیے حیرتوں کا ایک نیا سماں تھا جو بنارس میں اُنہیں ملا۔جیسا کہ اُن کی اس دور کی تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے۔شہر کے حسُن،اس کے حسینوں کی ادائیں،گنگا کے گھاٹ کے مناظر اور ان سب سے زیادہ وہاں کے عالموں،سادھوؤں اور سنتوں کی گفتگو کی گہرائی،غرض کہ ایک ایسی زندگی ملی جس سے وہ آشنا توتھے کہ ہندوستان میں کون اس نا آشنا ہوگا مگر جس کے درمیان رہ کر اس سے اس قدر ہم کنار ہوئے کہ اُن کی شاعری میں ”ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہوگئیں“یا”نہیں کچھ سبحہ وزنّا ر کے پھندے میں گیرائی“جیسی باتیں آگئیں چنانچہ ان کے ہاں تصوف اور ویدانت کے اثرات محض روایتی اور ”برائے شعر گفتن“ہی نہیں آئے ہوں گے۔
ان سب باتوں پر اور غالب کی زندگی کے اس اہم دور پرزیادہ گہرائی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ان کی شاعری کی خوبصورتی اور ان کے افکار پر بہت سے اثرات کو اس وقت تک نہ پورے طور پر سمجھا جا سکتا ہے نہ لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے جب تک ان متعدد عناثر کو ہم رشتہ کر کے نہ دیکھا جائے۔

غالب اور بجنوری بوطیقا

انیس اشفاق

غالب اور بجنوری بوطیقا
بجنوری کو دوبارہ دریافت کرنے کے لےے میں کوئی پندرہ-سولہ برس قبل لکھے ہوئے اپنے اس مضمون کے اقتباس سے اپنی گفتگو کا آغاز کرنا چاہتا ہوں جو اردو اکادمی (دہلی) کے تنقید سیمینار میں پڑھا گیا تھا اور شمس الرحمن فاروقی کے اُن مقدمات کے جائزے پر مشتمل تھا جو انہوں نے میر و غالب کی تفہیموں سے متعلق تحریر فرمائے تھے۔ یہ مضمون میرے تنقیدی مجموعے ”بحث و تنقید“ (۹۰۰۲ئ) میں شامل ہے۔
اقتباس یہ ہے:
”لیکن قدیم و جدید شعریات کے بارے میں فاروقی کی بتائی ہوئی بعض خصوصیتیں اُن بیانات کی طرف بھی ہمارے ذہن کو منتقل کرتی ہیں جن میں قریب قریب وہی نکتے نظر آتے ہیں جنہےں فاروقی اپنی تعبیروں کا محرک بتاتے ہےں۔ مثلاً جوش اور عقیدت کے زور میں قابو سے باہر ہوتی ہوئی اپنی غیر تنقیدی نثر میں بھی بجنوری بعض بڑی اہم باتیں کہہ گئے ہےں…. (وہ) بے ربطی اور بے نظمی کے ساتھ کچھ ایسے معیار بھی قائم کرنا چاہتے ہےں جو بڑی شاعری کا حوالہ بن سکیں۔ یہ چند فقرے ملاحظہ کیجےے:
۱- شاعری انکشافِ حیات ہے۔ جس طرح زندگی اپنی نمود میں محدود نہیں، شاعری بھی اپنے اظہار میں لاتعین ہے۔
۲- تقلیلِ الفاظ بلا اختلالِ معنی اس سے زیادہ محال ہے۔ کہیں کوئی لفظ بھی ایسا نہےں جس کو پُرکن کہا جاسکے۔
۳- انسانی طلب کی انتہا تحیر ہے۔ اگر کسی فصل سے حیرت پیدا ہو تو وہ کمالِ فن ہے اور اس بات پر اصرار نہ کرنا چاہےے کہ اس کے پسِ پشت کیا ہے۔
۴- بہت سے دشوار اور غریب اشعار حل نہےں ہوتے لیکن ایک مقابل شعر فوراً مضمون کو آئینہ بنا دیتا ہے۔
اِن بیانات مےں معنی کی غیر قطعیت، الفاظ کی تقلیل، غالب کی شاعری سے مخصوص حیرت کے عنصر اور متن کے مقابل دوسرے متن کو لاکر مفہوم کو واضح کرنے کی طرف صاف اشارے کےے گئے ہےں۔“
آگے بڑھنے سے قبل یہ بتانا ضروری ہے کہ بجنوری سے قبل غالب خانہ¿ شرح میں اپنے شعروں کے صرف اوپری مفاہیم میں سانس لے رہے تھے۔ حالی بھی اس راہ میں حقِ شاگردی ادا کرنے سے عاجز رہے۔ اسی زمانے میں جدید علوم سے آگاہ اور نئی روشنی سے بہرہ یاب ایک نوجوان غالب کو وہاں دیکھ رہا تھا جہاں شارحینِ غالب کی نگاہ کا پہنچنا محال تھا۔ اُس نے غالب کے دیدہ ورانہ مطالعے میں کچھ ایسی روشنیوں کو دیکھ لیا تھا جن کی طرف کسی اور شاعر کی آنکھ کا جانا ممکن نہ تھا اور اسی لےے اس نے کتابِ غالب کو اس کتابِ نور کے پہلو میں رکھ دیا جسے ایک مخصوص مسلک کی جمعیت میں خدا کی جانب سے اتارا ہوا تصور کیا جاتا ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ اپنی زبان کے شاہکاروں کے مطالعے مےں ہم کم خوانی یا نیم خوانی تک محدود رہے ہےں۔ اور آج بھی اسی وبا کا شکار ہیں۔ اس کا مظاہرہ اکثر و بیشتر سیمیناروں میں ہوتا رہتا ہے جہاں نوواردان بلکہ جمے جمائے لوگ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنے کے لےے اس موضوع کے متن سے براہِ راست رجوع کرنے کے بجائے اس موضوع پر لکھی ہوئی تحریروں کا سہارا لے کر مضمون سازی کے ہنر کا بخوبی مظاہرہ کرتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ’محاسنِ کلامِ غالب‘ کی حمایت یا مخالفت میں قلم اٹھانے والوں نے اسے حرفاً حرفاً تو کیا ورق ورق بھی ٹھیک سے نہےں پڑھا اور بفرضِ محال پڑھا بھی تو سمجھ کر نہےں پڑھا ورنہ وہ نکتے جو خاکسار نے پندرہ برس قبل اپنے مضمون میں پیش کےے تھے، ان تک اُن کی نگاہ بہت پہلے پہنچ گئی ہوتی۔
’محاسن‘ کے بغور مطالعے کے بعد مجھے اس بات کے یقین کرلینے میں کوئی تامل نہ رہا کہ یہ مقدمہ بجنوری نے غالب پر ایک بڑی کتاب لکھنے کی خاکہ سازی کے طور پر لکھا تھا۔ اس خیال کو تقویت ملنے کے دو معروضی سبب ہیں۔ ایک یہ کہ ’محاسن‘ کو مولوی عبدالحق کی فرمائش پر دیوانِ غالب کے اعلیٰ ایڈیشن میں شامل کرنے کے لےے مقدمے کے طور پر لکھا گیا تھا۔ اس مقدمے کی تصنیف میں بجنوری نے کلامِ غالب کی معنوی تعبیر کا پہلا دروازہ اس لےے کھولا ہوگا کہ ’مقدمے‘ میں قائم کےے ہوئے نکات کے ذریعے وہ غالب کی آئندہ تعبیروں کے لےے اور دروازے کھول سکیں۔ اس خیال کو تسلیم کرلینے کا دوسرا سبب یہ ہے کہ اگر ’محاسن‘ لکھنے کے بعد ۳۳برس کی مختصر سی عمر میں بجنوری کا انتقال نہ ہوگیا ہوتا تو وہ سب اہم اور معنوی مباحث جن کی شکل سازی انہوں نے سترہ نکتوں میں کی تھی، انہےں پھیلاکر ایک بڑی کتاب کی شکل بہ آسانی دی جاسکتی تھی اور اس میں بجنوری کی آنکھ سے دیکھے جانے والے پورے غالب ہمیں دکھائی دے سکتے تھے۔
ابھی کچھ دیر پہلے درج بالا سطور میں کہا گیا ہے کہ ’محاسن‘ کے مختصر مندرجات کا مطالعہ بھی ہم نے محویت اور معروضیت کے ساتھ نہیں کیا ورنہ مجنوں گورکھپوری، شیخ محمداکرام، ابومحمدسحر اور باقر مہدی وغیرہ نے ’محاسن‘ کی تائید و تردید میں جو بیانات دیے ہیں وہ کم فہمی اور کم خوانی کا ثبوت نہ فراہم کرتے۔پروفیسر نارنگ کی مشہور زمانہ کتاب ”غالب….“ کے مندرجات کے مطابق مجنوں گورکھپوری غالب اور بجنوری پر الہام کے دوچار چھینٹے ڈال کر آگے بڑھ گئے۔
شیخ محمد اکرام بجنوری کے نقد و نظر کو ’نعرہ¿ مستانہ‘ کہہ کر مستانہ وار آگے نکل گئے۔ ابومحمد سحر محاسن کے الہامی فقرے کو سب سے زیادہ الہامی قرار دینے کے باوجود اس کی تہ تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ وہ غالب کی الہامیت اور بجنوری کے چونکادینے والے پیرائے کی تحسین تو کرتے ہےں لیکن اس تحسین کے ذریعے تعبیر کی راہداری میں داخل نہےں ہوتے۔ اور باقر مہدی ’محاسن©‘ کو تنقیدی کارنامہ قرار نہ دے کر اسی سانس میں قولِ محال والا یہ جملہ نقل کرجاتے ہےں کہ (بجنوری نے) ”غالب کی عظمت کی نشاندہی ضرور کردی تھی۔“
اگرچہ بجنوری کے یہاں بلند آہنگی، جوش اور زورِ تحریر زیادہ ہے لیکن ان سب کے سیل میں ان کی بصیرت بہنے نہےں پاتی۔ ذرا سوچےے اس زمانے میں جب شعر کو لفظوں کے اکہرے قالب میں رکھ کر سامنے کے مفاہیم پر صبر کرلیا جاتا تھا اور اسی کو حقِ تحسین کے زمرے میں شمار کیا جاتا تھا، اس وقت بجنوری کلامِ غالب کی تعبیر کے لےے اسے الگ الگ خانوں میں رکھ کر دیکھ رہے تھے اور اکہرے اور یک سطحی مفاہیم کے بجائے اسے معنی کی وسعتوں کی طرف لارہے تھے۔ کیا بجنوری سے قبل غالب کے کسی رسالہ¿ تعبیر میں اتنے کم صفحوں والے مقدمے میں ایسے مرحلہ وار طریقے سے غالب کو سمجھنے کی کوشش کی گئی اور کیا کسی اور شرح یا تعبیر میں غالب کی ذکاوت، دانش اور ظرافت کی ایسی روشنی نظر آتی ہے۔ کیا شاعری کے (معنی کے) لاتعین ہونے کی طرف بجنوری سے قبل کسی اور نے اشارہ کیا تھا۔ اور تحیر، تقلیل اور متن کے مقابل دوسرے متن کو لاکر معنی کے سمجھنے کی بات کسی اور نے کہی تھی۔ جواب ظاہر ہے نفی میں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ جوشِ بیان کی جلالت اور مقدمہ جلد مکمل کرلینے کی عجلت میں ان کے یہاں تکرار، اور اعادے کی صورت پیدا ہوگئی۔ یعنی جن سترہ ستونوں پر انہوں نے غالب کی عمارت کھڑی کی ہے ان میں سے کئی ستون کم بھی کےے جاسکتے تھے۔
اب کچھ دیر یہاں ٹھہر کر مختصراً یہ بھی سن لیجےے کہ اپنے بنائے ہوئے سترہ نکتوں کے مباحث میں انہوں نے وہ کیا دکھایا ہے جو ان سے پہلے دوسرے اس طور نہےں دکھا سکے۔ یہ نکات کچھ اس طرح ہےں:
۱- شاعری بالخصوص غالب کی شاعری میں معنی کی غیر قطعیت، تقلیل، تحیر کی اہمیت اور متحد المضمون اشعار کے ذریعے شعر کے معنی کو مزید روشن کرنا۔
۲- شاعری کی فلسفیانہ جہت۔
۳- شاعری کی ماہیت اور اس کے خلق ہونے کی صورت۔
۴- شاعری میں استعمالِ الفاظ کی منطق۔
۵- شاعری میں صنائع بدائع کی اہمیت، استعارے کی معنویت اور اس کا دائرہ¿ عمل۔
۶- شاعری اور مصوری کا رشتہ اور دونوں کی ہم رشتگی سے منفرد اور عمیق مفاہیم کا پیدا کیا جانا۔
۷- مشاہدے اور بصیرت کی اہمیت۔ سادگی کا انتہاے اشکال ہونا اور کلام کو سہلِ ممتنع کی صورت دینے کے لےے جگر کاوی کی ضرورت۔
۸- مشہور مصوروں کا حوالہ دے کر یہ بتانا کہ شاعری کا جامہ زیبِ تن کےے ہوئے غالب سر تا پا ایک فلسفی ہےں۔
۹- نظریہ¿ وحدت الوجود اور غالب کے صوفیانہ خیالات۔
۰۱- باطنی رموز اور ان کی بوالعجبیاں۔
۱۱- ذات اور کائنات سے متعلق مشہور فلسفیوں کے خیالات کی روشنی میں یقین و وہم، وحدت اور دوئی اور ہستی و عدم کے اسرار و رموز کی وضاحت۔
۲۱- انہےں فلسفیوں کے افکار کو بنیاد بناکر غالب کے ترکِ رسوم والے مسلک کو بجا ٹھہرانا۔
۳۱- ظرافت، سرمستی اور تحسینِ حسن کی گفتگو کلامِ غالب کی روشنی میں۔
۴۱- آخراً یہ سوال اٹھانا کہ کیا شاعری مصوری ہے۔
ان نکات کے علاوہ بجنوری اس پوری گفتگو میں کچھ بہت معنی خیز فقرے بھی لکھ گئے ہیں جیسے:
۱- بوطیقا کی رو سے دیوانِ غالب آپ اپنا جواب ہے۔ یعنی غالب نے اپنی بوطیقا خود تشکیل دی ہے۔
۲- محض وزن کا التزام شاعری نہےں ہے۔
۳- شاعری موسیقی ہے اور موسیقی شاعری۔
۴- غالب کی طبیعت میں رحم ہے وہ انسانی کمزوریوں پر لب آسا ہنستے نہےں بلکہ چشم آسا روتے ہےں۔
۵- مصوری اور شاعری دونوں ایک دوسرے سے بہت قریب ہےں۔ دونوں کا کام غیر موجود اشیاءکو حاضر اور واقع دکھلانا ہے۔
۶- خوب سے خوب محاورہ بلحاظِ عمرِ آخر ضعیف ہوکر بے جان ہوجاتا ہے۔
۷- جہاں نیا خیال پیدا ہوتا ہے وہاں نیا لفظ خود بخود پیدا ہوجاتا ہے۔
۸- تشبیہ یا استعارے کا پہلا کام معنی آفرینی ہے۔
درج بالا نکات اور فقرے غالب کی شاعری کی قریب قریب سب طرفوں کا احاطہ کرتے ہےں اور کہا جاچکا ہے کہ اگر اِن نکات کو وسعت دی جاتی اور ان پر عجلت کے بجائے ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کی جاتی یا اس مقدمے کے بعد فوراً ان کی وفات نہ ہوجاتی اور وہ ہر ہر نکتے کو پھیلاکر اس پر سیر حاصل گفتگو کرتے اور شعروں کے تجزیوں کو طول دیتے تو کوئی تعجب نہےں کہ اس گفتگو میں سے وہ غالب نکل کر سامنے آجاتے جن تک پہنچنے کے عمل میں ہماری تعبیر ہنوز مصروف ہے۔ یہاں وقت نہےں ہے کہ ان نکتوں پر تفصیل سے بحث کی جائے، اس تفصیل کو ہم کسی اور موقع کے لےے اٹھا رکھتے ہےں، سردست یہ سن لیجےے اور ’محاسن‘ کی ورق گردانی میں آپ نے اسے دیکھ بھی لیا ہوگا کہ اپنی تعبیر کے طریقہ¿ کار کو زیادہ منطقی اور قابلِ قبول بنانے کے لےے بجنوری نے کس طرح عملی تنقید کا سہارا لیا ہے۔ ترقی پسند تنقید سے لے کر آج تک ہم بیشتر قولِ فیصل سناکر آگے بڑھ جاتے ہیں اور دعوے کو دلیل بنانے سے عاجز رہتے ہےں۔ تنقید میں دعوے کو دلیل بنانا اس وقت تک ممکن نہےں جب تک متن کے اندر سے گزر کر ثبوت نہ سامنے لائے جائیں۔ بجنوری صرف نکتے بناکر اور اُن کی اصل کو بتاکر آگے نہےں بڑھے بلکہ انہوں نے ایسے تمام نکتوں کی وضاحت میں منتخب اور موزوں مثالیں بھی سامنے رکھی ہیں اور کہیں کہیں تو کثرت سے رکھی ہیں۔ اب یہ بات الگ ہے کہ مثالوں کی شکل میں جن شعروں کا انہوں نے عاجلانہ تجزیہ کیا ہے وہ اپنے معنی پوری طرح نہیں کھولتے کہ اشارے دے کر وہ بہت کچھ پڑھنے والے کی فہم پر چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
بجنوری نے اپنا مقدمہ ختم کرتے کرتے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا شاعری مصوری ہے اور اسی استفسار کے ذیل میں انہوں نے غالب کے ان چار شعروں کو نقل کرکے اپنے مبحث کا باب بند کردیا ہے۔ شعر یہ ہےں:
پھر اس انداز سے بہار آئی

کہ ہوئے مہر و مہ تماشائی
دیکھو اے ساکنانِ خطہ¿ خاک

اس کو کہتے ہےں عالم آرائی
کہ زمیں ہوگئی ہے سر تا سر

روکشِ سطح چرخِ مینائی
سبزہ کو جب کہےں جگہ نہ ملی

بن گیا روے آب پر کائی
ان شعروں کی تجزیاتی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہےں:
”یہ کل اشعار ایک نظارہ¿ قدرت پیش کرتے ہیں جس میں متصل اور مسلسل واقعات نہےں بلکہ صرف ایک دلفریب خاموش منظر ہے۔ عقب مےں نیلگوں افق ہے۔ آفتاب چمک رہا ہے اور قرصِ ماہتاب بھی بیتاب اور ماند موجود ہے۔
بارش نے زمین کو آئینہ یاب بنادیا ہے۔ سامنے ایک تالاب ہے۔ سبزہ کی یہ زیادتی ہے کہ سطحِ آب تک دست دراز ہے۔ اشجار گلپوش اور گلبار ہےں۔ سب سے آگے شاخِ نرگس گویا چشمِ نرگس مشغولِ تماشا ہے۔ ایک چڑیا یا تتلی تک بھی تو نہےں جو اس خاموشی میں شور یا حرکت پیدا کرے۔ غالب نے حقیقت میں ورجل کو بھی جس کی نظم ’کنارِ دیار‘ مشہور ہے، مات کردیا ہے۔“
آپ نے دیکھا بجنوری نے کس خوبی سے اس خاموشی کو پالیا جو اِن شعروں کے اندر دم سادھے بیٹھی ہے۔
نقدِ غالب میں پیش پیش رہنے والے علماے ادب نے بجنوری کے مقدمے کو تنقید سے عاری بتاکر یہ جتانے کی کوشش کی ہے کہ ’محاسن‘ محض تاثرات کا مرقع ہے جو حد سے بڑھی ہوئی غالب پرستی کے نتیجے میں سامنے آیا ہے اور یہ کہ بجنوری غالب کی واقعی معنویت کو نمایاں کرنے میں ناکام رہے ہےں۔
برایں عقل و دانش بباید گریست
بجنوری کے جو نکتے اور فقرے اوپر پیش کےے گئے ہیں کیا وہ سب غیر تنقیدی ہےں اور کیا ان میں طلسم غالب کو واکرنے کی صورتیں موجود نہےں ہیں اورکیا تجزےے کی جو صورت ابھی ابھی آپ کے سامنے آئی ہے، اس مےں اشعار کے بطن میں چھپا ہوا اسرار موجود نہےں ہے۔ ’محاسن‘ میں اتنا سب کچھ موجود ہونے کے باوجود بجنوری کو غالب شناسی کے اوّلین جادے سے ہٹادینا غالب شناسوں کا سنگین جرم ہے۔ ہماری ادبی دیانت کا تقاضا ہے کہ ہم بجنوری کو پس منظر سے پیش منظر میں لاکر ان کی واقعی اہمیت کو نمایاں کریں۔

گم شدہ معنی کی تلاش

محمد حسن عسکری کا تنقیدی مطالعہ

روایت کا ادراک اور اس سے بغایت جیسے جملوں کا ہم استعمال نہیں اصراف بلکہ استحصال کرتے ہیں۔ یہ رویہ کس قدر مطالعہ اور غور و فکر چاہتا ہے اس کا اندازہ محمد حسن عسکری کی تحریروں کو پڑھنے کے بعد ہوتا ہے۔ محمد حسن عسکری کسی خاص تحریک یا نظریے کی قید سے آزاد تھے۔ یہی آزادی ان کے یہاں ایسے جہان کی سیر کراتی ہے جس آنے والے مفکرین کے زاویوں پر گہرا اثر ڈالا اور انھیں ایک مضبوط فکری سلسلے کا پابند بنایا۔ پروفیسر سرور الہدیٰ کی یہ کتاب عسکری کی تحریروں کی روشنی میں ان کے رویے کو نشان زد بھی کرتی ہے اور ان کے ذریعے قائم کیے گئے مباحث کو آگے بھی بڑھاتی ہے۔ ایک اچھی تصنیف کی اس سے بہتر شناخت کیا ہو سکتی ہے۔ کتاب کے مشمولات اس طرح ہیں:
محمد حسن عسکری دلی میں
lعسکری اور متحدہ ہندوستان
lعسکری کا تصورِ روایت
lعسکری کی نظریاتی تنقید
lعسکری: ادب اور معروضیت کے مباحث
lعسکری اوراردو ادب کی موت کا اعلان
lمحمدحسن عسکری اور فنونِ لطیفہ کے مباحث
lفکشن سے متعلق عسکری کے خیالات
lجزیرے کا اختتامیہ
lعسکری کے خیالات نثر سے متعلق
lجدید نظم کے بارے میں عسکری کے خیالات
lعسکری کی میر تنقید
lعسکری کی غالب تنقید
lمحمد حسن عسکری اور اکبر الہ آبادی
lمحمد حسن عسکری کے ’مشرق‘ کی جیت اور ہار
lکلیم الدین احمد، محمد حسن عسکری اور شمس الرحمن فاروقی
lعسکری اور رینے گینوں
lمحمد حسن عسکری اور محمدحسن
lعسکری اور بودلیئر
lمحمد حسن عسکری اور جیمز جوئس
lعسکری اور ٹامس مان
lژید کے روزنامچے کا ایک ورق
lعسکری، سرمایہ داری اور تنقید
lعسکری اور کامیو کا ’طاعون‘
lعسکری اور ژولیاں باندا
lیونگ اور عسکری
lحسن عسکری سے متعلق شمس الرحمن فاروقی سے ایک گفتگو
lمحمد حسن عسکری: حالات و کوائف
mکتابیات

غالب کا خود منتخب فارسی کلام اور اس کا طالب علمانہ مطالعہ

جناب بیدار بخت صاحب کی شخصیت اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کے لیے بڑی جاذبیت رکھتی ہے۔ ان کی کتاب ’غالب کا خود منتخب فارسی کلام اور اس کا طالب علمانہ مطالعہ‘ غالب فہمی میں خوبصورت اضافہ ہے۔ غالب نے اپنی اردو اور فارسی شاعر ی کے دو انتخاب کےے تھے۔ دونوں ہی ان کی زندگی مےں شائع نہ ہو سکے۔ پہلا ذو لسانی انتخاب ’گل رعنا‘ کے نام سے 1828 مےں کےا تھا جب وہ اپنی پنشن کے سلسلے مےں کلکتہ گئے ہوئے تھے۔ گل رعنا کے اےک قلمی نسخے کی درےافت مالک رام (1906-1993) نے 1957 مےںکی تھی۔ ان کا مرتب کےا ہوا انتخاب 1970 مےں چھپا۔ گل رعنا کے انتخاب کے اےک مدت بعد غالب نے 1966 مےں نواب کلب علی خاں (1835-1887)، والیِ رام پور، کی فرمائش پر اپنی شاعری کا اےک اور ذو لسانی انتخاب کےا تھا۔ اسے امتےاز علی خاں عرشی (1904-1981) نے 1942مےں ’انتخاب غالب‘ کے نام سے مےں شائع کےا تھا۔یہ کتاب ’انتخاب غالب‘ کے متن کو ترجمے کے ساتھ متعارف کراتی ہے۔ مصنف نے اشعار کے معنی کے ساتھ ان کا زمانہ¿ تحریر بھی درج کیا ہے جس سے مفاہیم کے ساتھ غالب کے تخلیقی سفر کا بھی بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔

خاتمہ’ گلِ رعنا‘ اور غالب کاسفر کلکتہ

ابو محمد سحر

خاتمہ’ گلِ رعنا‘ اور غالب کاسفر کلکتہ

غالبیات کی اکثر لاینحل گتھیاں خود غالب کے بیانات کی کوتاہیوںا ور اختلافات کے علاوہ تاریخوں کے اندراج کے سلسلے میں ان کے حیران کن روےّے کا نتیجہ ہیں۔ بیشتر تحریروں میں تاریخوں کے محذوف ہونے یا ناقص رہ جانے سے معلوم ہوتاہے کہ وہ تاریخوں کے ٹھیک ٹھیک اندراج کو کوئی خاص اہمیت نہ دیتے تھے۔ بعض تحریروں پر پہلے تاریخیں درج تھیں لیکن جب غالب نے ان کو کتابی شکل میں مرتب کیاتو تاریخیں خارج کردیں۔ جابجا یہ صورت بھی ہے کہ تاریخ اور مہینہ تو ہے لیکن سنہ غائب ہے۔ اب کوئی اللہ کا بندہ ان سے پوچھتا کہ کسی کتاب کے مندرجات میں سنہ کے بغیر صرف تاریخ اور مہینہ برقرار رکھنے کا کیا منشا تھا۔ جیساکہ راقم الحروف نے ایک اور مضمون میں لکھاہے ”تاریخوں کے معاملے میں انہوں نے ماہرین غالبیات کے ساتھ ستم ہی نہیں بلکہ ستم ظریفی بھی کی ہے، ستم اس لحاظ سے کہ تاریخ بالکل حذف کردی ہے اور ستم ظریفی اس لحاظ سے کہ دن ،تاریخ اور مہینہ لکھ کر چھوڑ دیاہے۔“کلّیاتِ نثرغالب میں دیباچہ¿ ’گل رعنا‘ سے تاریخ مطلقاً محذوف ہے تو خاتمہ¿ گلِ رعنا میں آغامیر کی مدح کی نثر کے بعد صرف ”دوم محرم الحرام“لکھا ہواہے۔ ’گلِ رعنا‘کے قلمی نسخے مملوکہ¿ خواجہ محمد حسن میں دیباچے کی پوری تاریخ درج ہے لیکن خاتمے میں آغامیرکی مدح کی نثرکے آخر میں دوم محرّم الحرام کا بھی پتانہیں۔ خاتمہ¿ ’گلِ رعنا‘میں مولوی فضل حق کے نام غالب کاایک فارسی خط بھی شامل ہے جو انہوں نے فیروزپور جھرکہ سے لکھا تھا۔ اس کی تاریخِ تحریر گلِ رعنایا ’کلّیاتِ نثر غالب‘ کے کسی نسخے میں نہیں ملتی۔ باندہ کے محمد علی خاں کے نام اپنے قیامِ باندہ ہی کے ایک خط میں غالب نے ان دونوں فارسی تحریروں کو نقل کیاہے لیکن اس میں بھی تاریخیں سرے سے مفقود ہیں۔1
معتمدالدّولہ آغامیر، وزیراودھ، کی مدح کی نثر در صعنتِ تعطیل غالب نے کلکتے جاتے ہوئے لکھنو¿ کے قیام کے زمانے میں ان سے ملاقات کے دوران پیش کرنے کے لےے لکھی تھی۔ جانبین کی شانِ ریاست اس ملاقات کی تاب نہ لاسکی لیکن نثر محفوظ رہ گئی اور غالب نے اسے’ گلِ رعنا‘کے خاتمے میں شامل کردیا۔ اگر دہلی سے غالب کی روانگی اور لکھنو میں قیام کی تاریخوں کاصحیح علم ہتاتواس نثرکا سنہ آسانی سے اخذ کیاجاسکتاتھا۔ سوءاتفاق کہ یہاں بھی واقعات تو اکثر معلوم ہیں لیکن تاریخیں گوشہ¿ گمنامی میں ہیں۔ شیخ اکرام کا قیاس ہے کہ غالب دوم محرم الحرام1242ھ (اگست1826ئ) سے پہلے دہلی سے روانہ ہوچکے تھے2۔مولانا غلام رسول مہر کے مطابق ”اغلب یہ ہے ہ وہ عید شوال 1242ھ کے بعد یعنی اپریل 1827 میں روانہ ہوئے ہوں3۔مالک رام صاحب کی رائے میں وہ نومبر دسمبر1826 (جمادی الاوّل1242ھ) میں دہلی سے روانہ ہوئے تھے۔4 ان قیاسات میں دہلی سے غالب کی روانگی کے زمانے میں جتنا اختلاف پیدا ہوتاہے اسی نسبت سے لکھنو¿ میں قیام کی مدّت میںبھی فرق رونماہوجاتاہے جس کی وجہ سے اس نثر کے لکھنے کا سنہ1242ھ (۶۲۸۱ئ) بھی ہوسکتاہے اور 1243ھ (1827ئ) بھی۔ چنانچہ شیخ محمد اکرام 1242ھ کے حق میں معلوم ہوتے ہیں تو مولانامہر کا رجحان 1243ھ کی طرف ہے۔ سیّد اکبرعلی ترمذی اور ان کی تقلید میں سیّد وزیرالحسن عابدی نے اس مسئلے کی پیچیدگیوں کو نظرانداز کرکے اس نثرکی تاریخ 2 محرم الحرام 1242ھ (5اگست1826) مان لی ہے5۔کچھ ایسی ہی صورتِ حال میں سید وزیرالحسن عابدی نے مولوی فضل حق کے نام خط کا زمانہ¿ تحریر 1825ءکے وسط میں قرار دیا ہے۔6 جیساکہ آئندہ سطور سے واضح ہوگاتاریخ وزمانہ کا تعین پہلی صورت میں صحیح اور دوسری صورت میں تقریباً صحیح ہے لیکن کچھ ایسے شواہدو دلائل کامحتاج ہے جن کی طرف اب تک خاطرخواہ توجہ نہیں کی گئی ہے۔
خاتمہ ’گلِ رعنا‘میں غالب نے لکھاہے کہ وہ نواب احمد بخش خاں سے ملاقا ت کے لےے فیروزپور جھرکہ گئے تھے چونکہ مولوی فضلِ حق کی اجازت کے بغیر سفرکرناان کی طبیعت پر بار گزراتھااس لےے ان کو بڑا دکھ ہوااور جب وہ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچے اور سفر کی تکان دور ہوئی توانہوں نے مولوی فضل حق کو صنعتِ تعطیل میں ایک خط لکھا۔فیروزپور میں ان کا مقصد حاصل نہ ہوااور وہ دہلی واپس آگئے۔ اس کے ایک عرصے کے بعد انہیں پھر سفرکا خیال دامن گیر ہوا۔ ہونا تو یہ چاہےے تھاکہ وہ کلکتے جاتے لیکن پہلے لکھنو¿ پہنچنے کااتفاق ہوا۔7 لیکن اپنی پنشن کے سلسلے میں 28 اپریل 1828 کو کلکتے میں انہوں نے جودرخواست گورنر جنرل کے دفترمیں پیش کی تھی اس میں یہ بیان کیاہے کہ ایک بارجو وہ دہلی سے فیروزپور کے لےے نکلے تو قرض خواہوں کے خوف کی وجہ سے دہلی واپس نہ جاسکے بلکہ فرّخ آباد ہوتے ہوئے کانپور پہنچے اور پھر لکھنو اور باندے میں قیام کرنے کے بعد کلکتے کا رخ کیا۔8 مالک رام صاحب خاتمہ ’گلِ رعنا‘ (کلّیاتِ نثرِ غالب) کے بیان کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

”وہ جب سفر پرروانہ ہوئے تو چونکہ روانگی سے پہلے مولوی فضل حق خیرآبادی سے وداعی ملاقات نہیں کرسکے تھے اس لےے ان سے ملنے کو واپس گئے اور پھر دوبارہ سفر پر روانہ ہوئے۔ کلّیات کابیان صحیح معلوم ہوتاہے۔ درخواست میں انہوں نے اختصار سے کام لیااور اس کاذکر مناسب خیال نہیں کیا“۔9
چونکہ خاتمہ¿ ’گل رعنا‘ میں غالب نے یہ نہیں لکھاکہ وہ مولوی فضل حق سے وداعی ملاقات کے لےے فیروزپور سے دہلی واپس آئے تھے اس لےے ڈاکٹر محمود الٰہی نے دہلی آنے کے سلسلے میں مالک رام صاحب کے بیان کردہ اس سبب کو بے بنیاد قرار دیاہے۔ انہوں نے غالب کی درخواست کی تفصیلات اورنواب احمد بخش خاں کے بعض حالات کی مناسبت سے یہ استدلال بھی کیاہے کہ خاتمہ¿ گلِ رعنامیں غالب نے فیروزپورکے جس سفرکاذکرکیاہے اس سے وہ دہلی واپس آگئے تھے لیکن اس کے بعد انہوں نے فیروزپورکاایک اور سفرکیا۔وہاں سے نواب احمد بخش خاں کے اصرار پر وہ بھرت پورگئے اور پھر فیروزپور آئے تو دہلی واپس نہیں آئے بلکہ وہیں سے کلکتے کی طرف روانہ ہوگئے10۔ لیکن خاتمہ¿ گلِ رعنامیں کلکتے کے سفر سے قبل فیروزپور کے کسی اور سفرکاذکر نہیں کیاگیا۔ باندے کے مولوی محمدعلی خاں کے نام اپنے ایک خط میں انہوں نے مولوی فضل حق کے نام اس خط کو نقل کرنے سے پہلے جوصراحت کی ہے اس سے خاتمہ¿ ’گلِ رعنا‘کی طرح صرف اتنا معلوم نہیں ہوتاکہ یہ خط انہوں نے فیروزپور سے لکھا تھابلکہ یہ بھی پتا چلتا ہے کہ فیروزپورکے جس سفرسے یہ خط متعلق ہے وہ انہوں نے ”درمبادیِ بسیج سفرِ مشرق“ یعنی سفرِ مشرق کے ارادے کے اوائل میں کیا تھا11۔چنانچہ خاتمہ¿ ’گل رعنا‘میں فیروزپورکے جس سفرکاذکر ہے اس کو سفرِ کلکتہ کے سلسلے سے الگ نہیں کیا جاسکتااور یہ ماننے کے سواچارہ نہیں کہ کلکتے جانے سے پہلے فیروزپورکایہ آخری سفر تھاجو غالب نے کیاتھا۔اس کے برعکس ڈاکٹر محمود الٰہی نے اپنے قیاس کی بنیاددرخواست کے ان بیانات پر رکھی ہے۔
”سرچارلس مٹکاف کے آنے کے بعد بھرت پورکا معاملہ پیش آگیااور وہ راجہ بھرت پورکو بچانے اور راج کے شورہ پشتوں کو سزادینے میں مصروف ہوگئے۔ نواب احمدبخش خاںبھی وہاں جارہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے بھی ساتھ چلنے کوکہا۔
میں اس زمانے میں اپنے بھائی کی بیماری کی وجہ سے ایک مصیبت میں گرفتار تھا۔مزیدبرآں قرض خواہوں نے تقاضوں اور شوروغوغا سے میرا ناک میں دم کر رکھا تھا۔ اس لےے میں اس سفرکے لےے کسی طرح تیار نہیں تھا۔
اس کے باوجود اس توقع پرکہ مجھے مٹکاف صاحب کی خدمت میں سلام کرنے کا موقع مل جائے میں نے اپنے بھائی کوبخاراور ہذیان کی حالت میں چھوڑا، چارآدمیوں کو اس کی نگہداشت کے لےے مقرر کیا۔کچھ قرض خواہوں کو طرح طرح کے وعدوں سے چپ کرایا۔دوسروں کی نظرسے چوری چھپے بھیس بدل کر کسی طرح کاسازوسامان لےے بغیر سومشکلوں سے نواب احمد بخش خاں کے ساتھ بھرت پور کے لےے روانہ ہوگیا۔“12
اگر اس وقت قرض خواہوں کی طرح مرزایوسف بھی دہلی میں تھے اور بھرت پور جانے سے پہلے ان کی تیمارداری اور قرض خواہوں کی تسلی کاانتظام غالب نے خود دہلی آکر کیاتھاتوہ نہایت عجلت میں دہلی آئے ہوں گے اور وہاں ان کے قیام کی مدت بہت مختصر رہی ہوگی۔اس سے خاتمہ¿’ گلِ رعنا‘کے ”بیخودی گریبانم گرفت و بازم بہ دہلی آورد“ اور ”روزگاری دراز بخاک نشینی سپری شد“13 یعنی واپس آنے اورپھر ایک عرصے کے بعد سفر پر روانہ ہونے کی توجیہہ نہیں ہوسکتی۔ فیروزپورسے دہلی کی وہ واپسی جس کا خاتمہ¿ گلِ رعنامیںذکر ہے بلاشبہ کسی ایسی ہنگامی واپسی سے مختلف ہے جس کا درخواست سے گمان ہوتاہے۔ چنانچہ کسی وقتی پریشانی میں غالب فیروزپورسے دہلی واپس آئے ہوں یا نہ آئے ہوں وہ بالآخر فیروزپور سے دہلی اس طرح واپس آئے کہ کلکتے جانے سے قبل پھر فیروزپور نہیں گئے اور اس لحاظ سے خاتمہ¿ ’گلِ رعنا‘کااظہار حقیقت پر مبنی ہے۔
خاتمہ¿ ’گل رعنا‘ کی عدمِ صحت پر اگر اختصارکی دلیل لائی جاسکتی ہے تو درخواست کے مفصل بیانات کی عدمِ صحت پر مقدمہ بازی کی مصلحتوں کے پیش نظر استدلال کیاجاسکتاہے۔ واقعہ یہ ہے کہ کلکتے پہنچتے ہی غالب کویہ احساس دلایا جاچکاتھاکہ ان کو اپنا مقدمہ پہلے دہلی کے رزیڈنٹ کے سامنے پیش کرنا چاہےے تھا۔رائے چھج مل کے نام کلکتے سے اپنے پہلے ہی خط میں انہوں نے یہ استفسارکیا تھا:
”اگر بندہ رادر پیچ و خمِ استغاثہ حاجت بداں افتد کہ دردارالخلافت وکیلی از جانبِ خود قرارباید داد صاحب این زحمت گوارا خواہند کردیانے۔ہرچہ دراین مادہ مضمر ِضمیر باشد بے تکلف باید نوشت۔“14
چنانچہ انہوں نے اپنی درخواست میں سب سے زیادہ زور اسی پر صرف کیاہے کہ دہلی میں ان کے لےے دوبھر ہوگیاتھااور وہ وہاں کسی کو منھ دکھانے کے قابل نہ تھے۔اسی وجہ سے وہ فیروزپور سے بالارادہ کلکتے روانہ ہونے کے بجائے سرچارلس مٹکاف سے ملاقا ت کی جستجومیں سیدھے کانپور پہنچے تھے۔ مقصد یہ تھاکہ کانپورسے ان کی معیت میں دہلی واپس آئیں گے اور کسی مناسب موقع پر ان سے اپنا احوال بیان کریں گے لیکن کانپور پہنچتے ہی وہ بیمار پڑگئے اور انہیں علاج کی غرض سے لکھنو¿ جانا پڑا۔ سوال پیدا ہوتاتھاکہ اگر وہ پہلے سے کلکتے جانے کا ارادہ نہ رکھتے تھے تو باندے سے دہلی کیوں نہ لوٹ گئے۔ اس کا جواز انہوں نے یہ پیش کیاکہ جب قرض خواہوں کے ڈراور مالی مشکلات کی وجہ سے وہ فیروزپور سے دہلی نہ جاسکے تھے تو اب باندے سے دہلی کیونکر جاسکتے تھے۔ اس کے علاوہ انہیں یہ خیال بھی آیاکہ دہلی ہویاکلکتہ، دونوں جگہ قانون توایک ہی ہے15۔گویا کلکتے جانے کا خیال انہیں باندے میں آیاتھالیکن رائے جھج مل کے نام ان کے اس خط سے جوانہوںنے لکھنو¿ سے کانپور پہنچنے کے بعدلکھاتھایہ بات بھی ثابت ہے کہ یہ ارادہ پہلے سے تھا:
”بتاریخِ بست و ششم ذیقعدہ روز جمعہ ازاں ستم آباد برآمدم و بتاریخِ بست ونہم در دارالسّرور کانپور رسیدم و اینجادوسہ مقام گزیدہ رہگرایِ باندہ میشوم در آنجا چند روز آرامیدہ۔ اگر خدا می خواہد و مرگ اماں میدہد بکلکتہ می رسم“16
غرض یہ کہ درخواست کی ساری تفصیل و تاویل کا منشاگورنر جنرل کویہ باور کراناتھاکہ دہلی میں چارہ جوئی کرناان کے لےے ممکن نہ تھااوروہ بڑی مصیبتوں اور مجبوریوں میں کلکتے پہنچے تھے تاکہ مقامی حکام کو نظرانداز کرکے ان کی درخواست قبول کرلی جائے۔ لیکن جیساکہ اندیشہ تھا 20 جون 1828 17 کوان کی درخواست پریہی حکم صادرہواکہ مقدمہ پہلے دہلی میں پیش کیا جائے۔
سرکاری پنشن کے سلسلے میں غالب کی درخواست کی ایسی باتوںکو آنکھ بند کرکے قبول نہیں کیا جاسکتاجوان کے مفادپر کسی طرح اثرانداز ہوسکتی تھیں۔ تاہم بے ضرر حالات یا ایسے واقعات کے بیان میں وہ پہلو تہی نہیںکرسکتے تھے جوانگریز حکّام کے علم میں ہوسکتے تھے۔ درخواست میںغالب کے اس قسم کے بیانات کو اگرکچھ ایسے تاریخی واقعات سے مطابق کیا جائے جن کا صحیح زمانہ معلوم ہوسکتاہے تو ان کی نقل و حرکت کے بارے میں غیر تحقیقی قیاسات کی دھند بہت کچھ چھٹ سکتی ہے۔ مثلاً غالب فیروزپور اس وقت پہنچتے تھے جب نواب احمد بخش خاں قاتلانہ حملے کے بعد بسترِ علالت سے اٹھے تھے اور ان کی الورکی مختیاری جاتی رہی تھی۔ اس کے فوراً بعد کازمانہ وہ ہے جب دہلی کے رزیڈنٹ سرڈیوڈآکٹرلونی بھرت پور پر فوج کشی کے حکم کے خلاف گورنر جنرل لارڈ ایمبرسٹ کے ردِّ عمل کی وجہ سے اپنے عہدے سے استعفادے چکے18 تھے اور ان کی وفات کے بعد ان کی جگہ 26 اگست 1825 کو سرچارلس مٹکاف کا تقرر ہوچکاتھا19۔اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ غالب اپریل1825 کے لگ بھگ فیروزپور پہنچ گئے تھے اور مولوی فضل حق کے نام صنعتِ تعطیل میں ان کا خط اسی زمانے کاہے۔یہ تعیّنِ زمانی اس خط کے مندرجہ ذیل اقتباس کے بھی عین مطابق ہے:
”امّاعمِ کامگاردروہم و ہراسِ مکرواسدِ اعداودردِ عدمِ محاصلِ سرکارِ الور وملال در آمدِ دگرہا سرگرم و سو گوار و گم کردہ¿ آرام“20
دہلی سے میرزاعلی بخش خاں کے نام دوفارسی خطوں سے معلوم ہوتاہے کہ کسی زمانے میں غالب نواب احمدبخش خاں سے ملنے کے لےے بہت بے چین تھے اورفیروزپورجانے میں اس لےے متامل تھے کہ انہیں یہ اطلاع ملی تھی کہ نواب احمد بخش خاں دہلی آنے والے تھے۔اسی بے چینی میں انہوں نے کسی میرامام علی کی معرفت نواب احمد بخش خاں کوایک عرضداشت بھی بھیجی تھی۔ نواب سے ان کو توقع نہ تھی لیکن ان کے بعض احباب کہتے تھے کہ وہ نواب سے اپنا دردِ دل نہیں بیان کرتے ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ وہ اس کاتدارک نہ کریں، اس لےے وہ کوشاں تھے تھے کہ نواب سے انہیں جواب مل جائے اور وہ ان دوستانِ ناصح کو خیرباد کہہ کر مشرق کی سمت روانہ ہوجائیں۔ پھر اس صورت میں کہ نواب کے دہلی آنے کی خبرغلط ہووہ چاہتے تھے کہ ان سے ملاقات کے لےے خود فیروزپور چلے جائیں:
”یک چندبامیدِ نواب صاحب ساختم وازتاب آتشِ انتظارگداختم نشستہ ام بعد ا بیکہ مجرم بزنداں نشیند و می بینم انچہ کافر بجہنم بیند۔ بہ فیروزپور بہر آں نیامدہ بودم کہ بازم بدہلی باید آمد۔نواب صاحب مرا بلطفِ زبانی فریفتند و بکرشمہ¿ ستمی کہ بالتفات میمانست از راہ بردند میرامام علی را با عرضداشت بخدمتِ نواب فرستادہ ام یاراں میگفتند کہ توبہ نواب نمیگرائی و دردِ دل باوی نمیگوئی ورنہ از کجاکہ نواب بچارہ برنخیزد اینہا کہ میکنم از بہرِ زباں بندی ایں اداناشناسانست۔ خدا را طرح آن افگنید کہ میرامام علی زودبرگردند و بمن پیوندند تا دوستانِ ناصح را خیرباد گویم و بسر و برگی کہ ندارم بشرق پویم۔“

”شنیدہ میشودکہ نواب بدہلی می آیند باری از صدق و کذب این خبررقم کنید من آں میخواہم کہ اگر خبرِ عزیمتِ نواب دروغ بودہ باشد خود بہ فیروز پور رسم و شرف قدمبوسِ عم عالی مقدار و مسرتِ دیدارِ شما در یابم“21
یہ حالات اور خطوط بھی اپریل 1825 کے لگ بھگ غالب کے فیروزپورجانے سے قبل کے سواکسی اور زمانے کے نہیں ہوسکتے۔ فیروزپور میں نواب احمد بخش خاں کی حالت دیکھنے کے بعد غالب کی مایوسیاں اور پختہ ہوگئی تھیں۔ چنانچہ انہوں نے مولوی فضل حق کو لکھاتھاکہ :
”او را مہر کو کہ کس را دل دہد و ہمم در اصلاحِ حال کس گمارد و مرا دلِ آسودہ¿ رام و طورِ آرام کوکہ سرِصداع آلودہ درکوہسار مالم و دل را درطمع امدادِ کار سالہا در ورطہ¿ طولِ امل دارم۔“22
لیکن معلوم ہوتاہے کہ نواب احمد بخش خاں کی باتوں سے پھر کچھ امید بندھی اور وہ ان کے کہنے پر بھرت پور روانہ ہوگئے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے بھرت پورکاسفرکیاتھا۔ ’پنج آہنگ‘ کے پہلے دو حصے یعنی آہنگِ اوّل اور آہنگِ دوم اسی سفرکے دوران لکھے گئے تھے۔ غالب نے آہنگِ اوّل کی تمہید میں لکھا ہے:
”در سالِ یکہزارودوصدوچہل و یک ہجری کہ گیتی ستانانِ انگلشیہ بھرت پور لشکر کشیدہ وہ آں روئیں دژرا درمیان گرفتہ اند من دریں یورش باجناب مستطاب عمِ عالی مقدار فخرالدولہ دلاورالملک نواب احمد بخش خاں بہادر و گرامی بردار ستودہ خوی مرزا علی بخش خاں بہادر ہم سفر ست روزانہ برفتار ہم قدیم و شبانہ بیک خیمہ فرود می آئیم۔“ 23
دہلی کے رزیڈنٹ اور راجپوتانے میں گورنرجنرل کے ایجنٹ کی حیثیت سے سرچارلس مٹکاف کا تقرر تو 26 اگست 1825 کو ہواتھالیکن دہلی میں ان کے وارد ہونے کی تاریخ 21 اکتوبر 1825 ہے۔ نومبر میں شہرکے باہران کاکیمپ لگایا گیااور انہوں نے بھرت پورکی مسافت شروع کی24۔ چنانچہ نواب احمد بخش خاں کے ساتھ غالب بھی اسی زمانے میں بھرت پور گئے ہوں گے۔ 6 دسمبر کو مٹکاف متھرا پہنچااور کمانڈر انچیف لارڈ کمبر میئرکی فوجوں سے مل گیا25۔18جنوری 1826کو ایک بڑے قتلِ عام کے بعد بھرت پورمیں انگریزوں کو ’شاندار کامیابی‘ حاصل ہوئی۔26
اس مقام پر رائے جھج مل کے نام غالب کاایک اور خط غورطلب ہے۔جیساکہ اس کے مضمون سے منکشف ہوتاہے یہ خط فتحِ بھرپور کے بعد فیروزپور سے لکھا گیاتھا۔ نواب احمد بخش خاں کی واپسی میں تاخیر ہونے کی وجہ سے غالب اس وقت بھی بڑی کشمکش اور بیچارگی میں مبتلا تھے۔ رائے جھج مل، غالب کے دیگر دوستوں کی طرح نواب احمدبخش خاں کے ہمرکاب تھے۔ لہٰذا غالب نے اپنی پریشاں خاطری کا حال لکھ کر ان سے یہ معلوم کرنا چاہاتھاکہ نواب احمد بخش خاں فیروزپور کب واپس آرہے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
”ہرچند در وطن نیم اماقربِ وطن نیز قیامت است۔ ہنوز بااہلِ کاشانہ راہِ نامہ و پیام داشت۔ ہرچہ دیدہ میشود آشوبِ چشم بود و ہرچہ شنیدہ میشود زحمتِ گوش است۔ نیم جانی کہ ازاں ورطہ بروں آوردہ ام ودیعتِ خاکِ فیروزپور است کہ مراایں ہمہ اقامتِ اضطراری اتفاق افتاد و مرگی کہ منش بہزار آرزواز خدامیخواہم مگر ہمدریں سرزمین موعوداست کہ ایں قدردرنگ درافتادگیہا روداد۔ ہرچہ از اخبارِ معاودتِ نواب شنیدہ میشود راہی بحرف مدعا ی ِمن ندارد چہ سربسر آں افسانہ نکبتِ الوریاں و آرائش صفوفِ قتال وازگوں۔ گشتن کارہاے اعداد درست آمدن فال سگالانِ دولت فخریہ است۔ کلمہ¿ مختصر یکہ نواب صاحب دراینقدر عرصہ رونق افزایِ فیروزپور خواہند گشت از کسی شنیدہ نمیشود و دلِ مضطرتسلّی نمی پذیر و دوستانیکہ در رکابِ نواب صاحب اند وازین جملہ آں مہرباں بصفتِ اسد نوازی غالب پروری بیشتراز بیشتر متّصف اند واماندگانِ تنگنائے اضطراب بسلامی یاد نمی فرمایند خدارا کرم نمایند۔ واز تعیّنِ زمانِ معاودت رقم فرمایند۔“26
اگرغالب کایہ خط فتح بھرت پور اور نواب احمد بخش خاں کے فیروزپور واپس آنے کے درمیانی زمانے کاہے تو اس سے قیاس کیا جاسکتاہے کہ غالب نواب احمد بخش خاں سے پہلے بھرت پور سے فیروزپور واپس آگئے تھے اور اس صورت میں انہیں نواب احمد بخش خاں کے فیروزپور واپس آنے کاشدت سے انتظار تھا۔
بھرت پورسے سرچارلس مٹکاف کے دہلی واپس آنے کی صحیح تاریخ کاتو علم نہیں لیکن جان ولیم کے مطابق بھرت پورمیں انتظامات مکمل کرلینے کے بعد گرم ہواو¿ں کے آغاز نے ان کو لازمی طورسے دہلی واپس آنے پر مجبور کیا۔27غالب کی درخواست کے مطابق واپسی میں وہ تین دن فیروزپور میں بھی رہے تھے۔ غالب اس وقت فیروزپورمیں تے اور چونکہ نواب احمد بخش خاں نے خلافِ وعدہ غالب کا ان سے تعارف نہیں کرایاتھااس لےے ان کے دہلی جانے کے بعد وہ نواب احمد بخش خاں سے بالکل مایوس ہوچکے تھے28۔ چنانچہ خاتمہ¿ ’گل رعنا‘کی روسے مارچ 1826 یا اس کے آس پاس غالب کا فیروزپور سے دہلی واپس آجانا یقینی ہے۔
آغامیرکی مدح کی نثرکی تاریخ کے لےے دہلی سے غالب کی روانگی سے زیادہ لکھنو¿ میں ان کے قیام کے زمانے کا تعیّن اہمیت رکھتا ہے لیکن اس سلسلے میںبھی اب تک رائے جھج مل کے نام ان کے ایک خط اور بعض قرائن سے صرف اتنا ثابت ہے کہ وہ ذیقعدہ 1242ھ (جون 1827ئ) میں لکھنو¿ میں تھے اور 26 ذیقعدہ1242ھ جو جمعہ کے دن وہاں سے روانہ ہوکر 29 ذیقعدہ1242ھ کو کانپور پہنچے تھے، نیز یہ کہ کانپور سے باندے اور پھر کلکتے جانے کاارادہ تھا29۔اس روشنی میں اگر آغامیر کی مدح کی نثرکی تاریخِ تصنیف2 محرم الحرام1242ھ فرض کی جائے تو لکھنو¿ میں ان کے قیام کا زمانہ جیساکہ شیخ محمد اکرام نے صراحت کی ہے تقریباً گیارہ ماہ ہوجاتاہے30۔مولانا غلام رسول مہرکے نزدیک یہ امر مستبعد ہے اور زیادہ قرینِ قیاس یہ ہے کہ غالب 26ذیقعدہ 1242ھ (27جون 1828ئ) کو لکھنو¿ سے جانے کے بعد آغامیرکے دربار میں باریابی کی توقع میں کانپور سے پھر لکھنو¿ واپس آئے اور انہوں نے2 محرم الحرام1243ھ (26 جولائی1827) کو یہ نثر سرانجام دی31۔مالک رام صاحب جب دہلی سے غالب کی روانگی کی تاریخ نومبر، دسمبر1826 قرار دیتے ہیں تو اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ وہ نثرکی تاریخ کے سلسلے میں مولانا مہرکے ہم خیال ہیں۔ لیکن ایک تو لکھنو¿ سے چل دینے کے بعد دوبارہ غالب کے وہاں جانے کے لےے کوئی ثبوت موجود نہیں، دوسرے رائے جھج مل کے نام ان کے جس خط کی بناپر لکھنو¿ سے ان کی روانگی کی تاریخ 26 ذیقعدہ1242ھ (27جون 1827) قرار پاتی ہے اسی میں انہوں نے آغامیرکاذکر بڑی حقارت سے کیاہے اور اشارةً ان سے شرفِ ملاقات حاصل نہ ہونے کے اس واقعے کابھی ذکرکیاہے جوان کے ساتھ پیش آیا تھا:
”خلاصہ¿ گفتگو ایں کہ اعیانِ سرکار لکھنو¿ بامن گرم جوشید ندانچہ درباب ملازمت قرار یافت خلاف آئینِ خویشتن داری وننگ شیوہ¿ خاکساری بود۔ تفصیل ایں اجمال جزبہ تقریر ادا نتواں کردہرچہ درآں بلاد از کرم پیشگی و فیض رسانیِ ایں گدا طبع سلطان صورت یعنی معتمدالدّولہ آغامیرشنیدہ مشیود بخداکہ حال برعکس است“ 32
ان حالات میں نثر پیش کرنے کے لےے ان کے دوبارہ لکھنو¿ جانے کا کوئی امکان نہیں تھا۔
درخواست کے مطابق غالب گورنر جنرل کے ورود کی خبر پھیلنے کے بعد کانپور روانہ ہوئے تھے اور جب گورنر جنرل کانپورمیں وارد ہوئے تو وہ لکھنو¿ میں صاحب فراش تھے:
”انہی دنوں نواب گورنر جنرل بہادرکے ورود کی خبر پھیلی۔ یقین تھاکہ سرچارلس مٹکاف بھی ان کی پذیرائی اور استقبال کے لےے جائیںگے۔ لہٰذامیں نے فیصلہ کیاکہ کانپور جاو¿ں اور وہاں سے ان کی معیّت میں واپس آو¿ں اور راستے میں کسی مناسب موقع پر ان کی خدمت میںحاضر ہوکر اپنی مصیبت اور بے بسی اور قرض کاسارا افسوسناک احوال ان سے کہوں اور انصاف کا طالب ہوں۔
غرض میں اس ارادے سے فرخ آباداور کانپور کی طرف روانہ ہوگیا۔ بدقسمتی سے جوں ہی کانپور پہنچا میں یہاں بیمارپڑگیا، یہاں تک کہ ہلنے جلنے کی سکت بھی جاتی رہی۔ چونکہ اس شہرمیں ڈھنگ کاکوئی معالج نہیں ملا اس لےے مجبوراً ایک کرائے کی پالکی میں گنگاپارلکھنو¿ جانا پڑا۔یہاں میں پانچ مہینے سے کچھ اوپر بستر پر پڑا رہا۔ یہیں میں نے نواب گورنر جنرل بہادرکے ورود اور بادشاہِ اودھ کے ان کے استقبال کو جانے کی خبر سنی۔ لیکن ان دونوں میں چارپائی سے اٹھنے تک کے قابل نہیں تھا۔ غرض کہ لکھنو¿ کی آب و ہوابالکل میرے راس نہیں آئی۔33
لارڈایمہرسٹ جو اس زمانے میں گورنرجنرل تھے4 اگست 1826 ءکو کلکتے سے روانہ ہوئے تھے۔ بھاگل پور، غازی پور، رام نگر، مرزاپور، الٰہ آباد اور فتح پور ہوتے ہوئے 18نومبر 1826ءکو وہ کانپور پہنچے 20 نومبر کو بادشاہِ اودھ (غازی الدین حیدر) نے ان سے ماقا ت کی۔ دوسرے دن انگریزوں نے بادشاہِ اودھ سے جوابی ملاقات کی یکم دسمبرکو یہ قافلہ لکھنو¿ پہنچااور سال کے اختتام پر برطانوی علاقعے میں واپس آگیا۔ 8 جنوری1827کو اس کاورود آگرے میں ہوا۔34 چونکہ غالب گورنر جنرل کے ورودکی خبر پھیلنے پر کانپورکی طرف روانہ ہوئے تھے اس لےے قیاس کیاجاسکتاہے کہ وہ دہلی سے جولائی 1826 میں روانہ ہوئے ہوں گے۔ لارڈ ایمہرسٹ کے کانپور پہنچنے کی تاریخ معلوم ہونے سے اس میں کوئی شبہہ نہیں رہتاکہ وہ 18 نومبر 1826 کو نہ صرف یہ کہ لکھنو¿ میں تھے بلکہ وہاں کافی پہلے سے ٹھہرے ہوئے تھے اور وہ تمام قیاسات جن میں نومبر 1826 کے بعد دہلی سے ان کی روانگیِ سفر بیان کی گئی ہے مطلقاً ردہوجاتے ہیںچونکہ وہ 26 ذیقعدہ 1242 ھ (27جون 1827) کو لکھنو¿ سے کانپور چلے گئے تھے اور ان کے دوبارہ لکھنو¿ جانے کے بارے میں کوئی اشارہ موجود نہیں اس لےے یہ بھی یقینی ہے کہ آغامیر کی مدح کی نثر انہوں نے2 محرم الحرام 1242ھ (5 اگست 1826) کو مکمل کی تھی۔
ان مباحث کا ماحصل یہ ہے کہ غالب اپریل 1825 کے لگ بھگ فیروزپور گئے تھے۔اسی زمانے میں انہوں نے مولوی فضل حق کے نام صنعتِ تعطیل میں اپنا فارسی خط لکھا۔ نومبر 1825 میں انہوں نے نواب احمد بخش خاں کے ساتھ بھرت پورکاسفرکیااورمارچ 1826 سے کچھ قبل فیروزپور آگئے بھرت پورجانے کی تیاری میں اگر وہ نہایت عجلت میں فیروزپورسے دہلی آئے تھے تو اس سے اس سفرکے سلسلے کو منقطع نہیں کیا جاسکتاجوکلکتے روانہ ہونے سے پہلے فیروزپور کا آخری سفر تھا۔ تقریباً ایک سال کے بعد غالب مارچ 1826 میں کانپور روانہ ہوئے اور جلدہی لکھنو¿ پہنچ گئے جہاں انہوں نے 2 محرم الحرام 1242ھ (5اگست 1826) کو صنعت تعطیل میں آغامیر کی مدح میں فارسی نثر سرانجام دی۔ نومبر 1826 سے جون 1827(ذیقعدہ1242ھ) تک تقریباً آٹھ ماہ وہ یقینی طورپر لکھنو¿ میں تھے۔ جس طرح انہوں نے اپنی درخواست میں مصلحةًکلکتے کے سفر سے پہلے فیروزپورسے دہلی آنے کااظہارنہیں کیااسی طرح ان کایہ بیان کہ وہ لکھنو¿ میںپانچ ماہ سے کچھ اوپر مقیم رہے کسی مصلحت پر مبنی ہے اور جب ان کے بیان کے برخلاف لکھنو¿ میں ان کے قیام کی مدّت کم سے کم آٹھ ماہ ثابت ہے تو یہ مدّت ایک سال بھی تسلیم کی جاسکتی ہے۔
مالک رام صاحب کا قیاس ہے کہ خواجہ حاجی نے غالب کے خسر نواب الٰہی بخش خاں معروف کے انتقال (1826۔1242ھ) کے شاید ایک ہی سال پہلے وفات پائی تھی35۔سید اکبر علی ترمذی نے غالباً اسی بناپر یہ لکھ دیا ہے کہ خواجہ حاجی کاانتقال 1825 میں ہوا36۔خاندانی پنشن کے سلسلے میں غالب کی باقاعدہ کوشش کا آغاز خواجہ حاجی کی وفات سے قبل ممکن نہیں لیکن غالب کے بعض سوانح نگاروں کا یہ خیال درست نہیں کہ اس کی نوبت نواب الٰہی بخش خاں معروف کی وفات کے بعد آئی۔ 1242ھ یعنی معروف کا سالِ وفات اگست 1826 سے شروع ہوکر جولائی 1827 میں ختم ہوا تھا۔ موجودہ تفصیلات سے ثابت ہوتاہے کہ انہوں نے نہ صرف اپنی کوششیں اس سے قبل ہی تیز کردی تھیں اور کلکتے جانے کاارادہ کرلیاتھابلکہ وہ اس سے پہلے دہلی سے روانہ ہوچکے تھے۔ تعجب ہے کہ اثنائے سفرکے کسی خط میں انہوں نے معروف کی وفات کاذکرنہیں کیا۔ اس کے علاوہ کلکتے میںایک طرف تو وہ اس بنیادپر چارہ جوئی کر رہے تھے کہ فیروزپور سے دہلی جانا ان کے لےے ممکن نہ تھا اور دوسری طرف خاتمہ¿ ’گلِ رعنا‘ میں یہ لکھ رہے تھے کہ وہ فیروزپورسے دہلی واپس آئے تھے۔ فیروزپور سے دہلی واپس آنے کے تقریباً پانچ ماہ کے بعدوہ کلکتے کے لےے روانہ ہوئے تو اس مدت پر بھی خاتمہ¿ ’گلِ رعنا‘کایہ فقرہ کہ ”روزگاری دراز بہ خاک نشینی سپری شد“ پوری طرح منطبق نہیںہوتا۔لیکن ان وجوہ سے اگر غالب کے سفروحضرکے بعض مراحل کے تعینِ زمانی میں کچھ شکوک باقی رہ جاتے ہیں تو انہیں نئی معلومات او رمآخذ کی دستیابی کے بغیر دور نہیں کیا جاسکتا۔ محقق کے لےے دستیاب مواد کے حدود کاادراک اوراپنی تلاشِ نارساکا اعتراف ضروری ہے۔ غیر تحقیقی قیاس آرائی سے بات بٹھانے کے رجحان نے غالبیات میں ایسے گل کھلائے ہیں کہ اب اس سے جتنا اجتناب برتاجائے اتناہی بہتر ہے۔

(’غالبیات اور ہم ‘ازابو محمد سحر)

حواشی:
1۔ دیکھےے نامہاے فارسیِ غالب،مرتبہ سید اکبر علی ترمذی،ص11-15
2۔غالب نامہ،طبع دوم، ص25
3۔غالب از مہر، طبع سوم، ص92
4۔گل رعنامرتبہ¿ مالک رام، مقدمہ،ص7
5۔دیکھےے نامہائے فارسی غالب مرتبہ سید اکبرعلی ترمذی، مقدمہ¿ انگلیسی، ص21 اور گل رعنامرتبہ سید وزیرالحن عابدی، مقدمہ، ص50
6۔گل رعنامرتبہ سید وزیرالحسن عابدی، مقدمہ، ص50
7۔کلیاتِ نثرِ غالب،کانپور، 1888،ص64-65
8۔ذکرِ غالب کچھ نئے حالات از مالک رام، افکار، غالب نمبر، 1969، ص46 تا54 اور ذکر غالب از مالک رام، طبع چہارم، ص 60تا69
9۔ذکر غالب، کچھ نئے حالات از مالک رام، افکار، غالب نمبر، 1969، حاشیہ، ص51
10۔غالب کا سفر کلکتہ از ڈاکٹر محمود الٰہی، اردو، کراچی، شمارہ خصوصی بیادِ غالب، حصہ دوم، 1969، ص83 تا88 نیز کتاب، لکھنو¿، اکتوبر 1969، ص29 تا 31
11۔ملاحظہ ہو نامہاے فارسیِ غالب،10
12۔ذکر غالب کچھ نئے حالات، افکار، کراچی، غالب نمبر، ص49،50
13۔ کلیات نثر غالب،ص64
14۔کلیات نثر،غالب،ص159
15۔ذکر غالب کچھ نئے حالات، افکار، غالب نمبر،1969،ص51
16۔کلیات نثر غالب،ص158
17۔نامہ ہاے فارسی غالب، مقدمہ انگلیسی،ص32
18۔ The cambride history of India, vol. V. second indian print, 1963, p. 577
19۔ Selections from the papers of lord Metcalfe by Jhon William Kaye
ذکرِ غالب،ص 61کے مطابق آکٹرلونی کاانتقال 15جولائی 1825 کو ہوا۔
20۔کلیاتِ نثر غالب،ص64
21۔ایضاً،98-99
22۔کلیات نثر غالب،ص64
23۔ایضاً،ص4
24۔The life and corespondence of charles, lord netcalfe by Jhon Willian Kaye, Vol. II, 1858, p. 139
25۔The life and correspondence of Charles, Lord Metcalfe, Vol. II, p. 156.
26۔ کلیاتِ نثر غالب،ص155-156
27۔The life and correspondence of Charles, Lord Metcalfe, Vol. II, p. 156.
28۔ذکر غالب کچھ نئے حالات، افکار، غالب نمبر، 1969،ص50
29۔کلیاتِ نثر غالب، ص158۔ خط میں سنہ درج نہیں ہے لیکن غالب 1243ھ سے پہلے لکھنو¿ پہنچ گے تھے۔ اس لےے یہ واقعات لازمی طورپر 1242ھ سے متعلق ہیں۔
30۔غالب نامہ،ص25
31۔غالب،ص92
32۔کلیاتِ نثرِ غالب،ص157۔ An Oriental Biographical Dictionaryمیں معتمدالدولہ آغامیرکی معزولی کاسنہ 1826 درج ہے جس کا اعادہ نامہاے فارسیِ غالب (مقدمہ¿ انگلیسی۔ص21) میں بھی کیاگیاہے۔
33۔ذکرِ غالب، کچھ نئے حالات، افکار، غالب نمبر، 1969،ص50
34۔Lord Amherst By Mrs. Thackery Ritchie and Mr. Richardson Evans, pp. 176,177,179 and 180 and A Comprehensive History of India by Henry Beveridge, Vol. III, pp. 187-188
35۔ذکرِ غالب، ص57-58 ۔ مالک رام صاحب نے معروف کا سالِ وفات گلشن بے خار، ص184 کے حوالے سے درج کیاہے۔ گلشنِ بے خارمیں صرف 1242ھ ہے اور یہی سنہ ہجری بزمِ سخن مرتبہ¿ سید علی حسن خاں (ص106) اور این اورینٹل باﺅگرافیکل ڈکشنری مرتبہ¿ ٹامس ولیم بیل (ص244) میںبھی ملتاہے۔
36۔نامہاے فارسیِ غالب، مقدمہ¿ انگلیسی،ص19

غالب: دنیائے معانی کا مطالعہ

پروفیسر انیس اشفاق اردو کے ان دانشوروں میں ہیں جو اپنی جامعیت اور اس جامعیت کے اعلیٰ معیار کو نبھانے کا حوصلہ و ہنر رکھتے ہیں۔ شاعری، ناول نگاری اور تنقید ان کا خاص میدان ہے۔ انھوں نے کلاسیکی اور جدید مباحث پر جو کچھ لکھا وہ صحیح معنوں میں اضافہ کہے جانے کے لائق ہے۔ زیر نظر کتاب ان کے ایسے مضامین کو مجموعہ ہے جو غالب سے متعلق ہیں۔ اس کتاب میں آٹھ فکر انگیز مضامین شامل ہیں۔
۱۔ غالب اور ہم
۲۔ غالب کے شعری اسالب کا ارتقا
۳۔ غالب کی شاعری کا علامتی نظام
۴۔ اردو شاعری غالب کے بغیر
۵۔ غالب، ادب شناسی اور ایوان غالب
۶۔ غالب کی شاعری میں ہمہ زمانی معانی
۷۔ غالب اور بجنوری بوطیقا
۸۔ میر و غالب کی تعبیریں اور شمس الرحمٰن فاروق کے مقدمات
صفحات 129، قیمت 200 روپے

غالب اور وفاکا تصوّر

ظ۔انصاری

غالب اور وفاکا تصوّر

دہر میں نقش وفا وجہِ تسلّی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ، جو شرمندہ معنی نہ ہوا
دیوان اردو کے شروع کی غزلوں میں یہ شعر آتاہے اور یہ اس قدر مشہور ہے کہ پڑھنے والے اس پر سے سرسری گزر جاتے ہیں، حالاں کہ اگر غالب کی پوری زندگی، پورے کلام اور گہری سوچ کے پورے اُتار چڑھاو¿ کو اوّل تاآخر غور سے دیکھا اور جانچا جائے تو اس شعرکوبھی شروع سے آخر تک پھیلایا جاسکتاہے؛ یہاں تک کہ ہم اِسے اُن کاآخری شعربھی کہہ سکتے ہیں۔ ’نقشِ وفا“ ”شرمندہ¿ معنی“ ضرورہوا،لیکن ہر سطح اورہر ایک صورتِ حال میں اس کے معانی بدلتے گئے۔اِس درجہ بدلتے گئے کہ عام فہوم میں وہ اپنے مقررّہ معانی سے محروم ہوگیااوربالآخر پتاچلاکہ سوالیہ علامتوں کے درمیان اور اُن کے ساتھ بسر کرنے والا ہمارایہ عظیم شاعر ”وفا“ کے طے شدہ تصوّر کو ”وجہِ تسلّی “ نہیں سمجھتا۔
آگے کی غلط فہمی سے بچاو کی خاطر،اور راے عامّہ کی رعاتی کرتے ہوئے، یہیں اتنا کہتے چلیں کہ ”وفا“ کوفی الحال نہ Loyaltyکالفظ پورا پڑتاہے، نہ Faithfulnessکا، Devotionکا، اور نہ Total Commitmentکا، البتّہ یہ تینوں پرحاوری ہے۔ بے وفائی کا مطلب غدّاری یابے ایمانی بھی نہیںہے۔ نہ یہ فکری سطح پربے ایمانی کے مرادف ہے۔بلکہ یہ ایک رویّہ ہے فرماں برداری اور سعادت مندی کے برعکس۔ مان لینے اور تسلّی پانے کے برخلاف؛ اس میں خیال اور برتاو کا مسلسل تغیّر، لگاتار اَدَل بدل، ترمیم اور ردّوقبول کی پے در پے کشمکش شامل ہے۔
یوں دیکھےے تو بلاخوفِ تردید کہا جاسکتاہے کہ غالب بے وفاشخص، ایک بے وفا شاعر، بے وفا فنکار ہے۔ زندگی کی آزمائش میں پورااترنے کے سوااس کے نزدیک ”وفا“ کا کوئی تصور نہیں؛ وفاداری کووہ آدمی کے زندہ، توانااور داناوجودکے لےے بے معنی قرار دیتاہے۔
آگرے میں آنکھ کھولی توباپ، چچااور نانا سب کے سب فوجی افسر تھے۔ باپ شاہ عالم کی نکمّی فوج میں رسالداری کر رہے ہیں، کل حیدرآباد جاکر نظام الملک کے ہاں تین سو سواروں کے افسر، تین برس بعدمہاراجہ الورکی فوج میں اور وہیں مارے گئے۔
”در خاک راج گڑھ پدرم را بود مزار“ (قصیدہ ۵۸۵)
چچاکاحال بھی معلوم ہے۔ مراٹھا راج کی طرف سے آگرے کے صوبیدارہیں، اور جیسے ہی دیکھتے ہیں کہ جنرل لارڈلیک کافوجی پلّہ بھاریہے،وہ شہرکو دشمن کے حوالے کرکے پنا منصب بچا لیتے ہیں۔
آگرے پرلارڈلیک کے طوفانی حملے سے پہلے کشمیری رئیس غلام حسین اپنی بیٹی مراٹھوں کے مغل صوبیدارنصراللہ بیگ کے بھائی سے بیاہ دیتے ہیں اور خودبھی پہلے مغلوںسے، پھر مراٹھوں سے اورپھر فوراً انگریزوں سے معاملہ کرلیتے ہیں۔ پہلے وہ مراٹھوں کی طرف سے کمیدان Commandantتھے؛ بعدمیں انگریزوں نے ان کی جاگیر بحال رکھی۔ یہ وہ نانا ہیں جن کے گھرمیں تبداللہ بیگ کا یتیم پلابڑھا۔
جن لڑوں کے ساتھ غالب کااٹھنابیٹھنا، پتنگیں لڑانا، پینگیں بڑھانا معمول تھاان میں مہاراجہ بنارس، چیت سنگھ کے جلاوطن وارث کنور بلوان سنگھ شامل ہیں۔جن کے بزرگوں نے شاہِ اودھکے زیرسایہ رہتے ہوئے اندرخانہ ایسٹ انڈیا کمپنی سے معاملہ کرلیاتھا،یہاں تک کہ آگے چل کر، جب وارن ہیسٹٹنگز کے چھوٹے سے لشکرکواہلِ بنارس نے مارپیٹ کرختم کردیاتو ہیسٹٹنگزکوبمشکل زندہ سلامت رکھابلکہ ایک بڑی رقم سے خفیہ طورپر مدد بھی کی۔
ننھیال اور ددھیال اور ہم عمر عزیوں کی حویلیوں میں یتیم، مگر نازپروردہ اسداللہ یہ سب دیکھتا، سنتااور سوچتاہوگا،اثر لیتاہوگا۔ جس خاندان میں شادی ہوئی، وہاں بزرگ خاندان مغل شاہی منصبدار فخرالدولہ نواب احمد بخش خاں اپنی چھوٹی سی میواتی ریاست سنبھالنے کی خاطر انگریز کمپنی کے جنگ جو مہم پسندوں سے معاملہ کرلیتاہے اورحملہ آوروں کے اشارے بلکہ سپورٹ سے بھرت پورریاست پراچانک حملہ کردیتاہے۔ بھرت پور کی لوٹ اور حصّے بخرے میں اُسے بھی جاگیر انعام ملتی ہے۔ کمپنی دہلی کے نواح میںاپنے ایک طاقتور مخالف، راجہ بھرتپورکو کچل ڈالتی ہے۔
سسرال کاسب سے باعزت امیرخوداپنے قریبی رشتہ دار عبداللہ بیگ اور نصراللہ بیگ کے وارثوں کے نام کی جاگیر صاحب ایجنٹ سے مل کراپنی جاگیرمیں ملالیتاہے۔ اور لڑکوں لڑکیوں کاحق مارنے میں دریغ نہیں کرتا۔ وہ بھی جب اسداللہ کااس کی بھتیجی سے رشتہ طے ہوچکاہے۔
چودہ پندرہ برس کی عمر سے،شادی کے بعد غالب کا مستقل ٹھکانا سسرالی عزیزوں، یا لوہارو والوں میں ہوگیا۔ ان کا منچلا برادرِ نسبتی، جوبیوی کا سوتیلابھائی تھا،نواب شمس الدین، ظاہر ہے کہ یوں ہی دوسرے بھائیوں سے بگڑا ہواتھا، مرزا نوشہ کو کیا خاطر میں لاتاجو باپ دادا کے گھرسے کوئی جاگیر بھی نہ رکھتے تھے اوراپنا حق جتاتے تھے۔ سسرال میں اوّلین دشمن انہیں وہی نظر آیا۔ او ریہ ذاتی دشمن ایسا تھاکہ ایک طرف سپرنٹنڈنٹ ولیم فریزرکواپنے باپ فخرالدولہ کے رشتے سے چچا کہتاتھا، دوسری طرف اس کے قتل کی سازش کی اور قتل کرادیا۔ جس کی سرگوشیاں قریب کے عزیزوں میںہوتی ہوں گی۔غالب کے کان تک بھی ضرور پہنچی ہوں گی اور پھر انہیں دنوں انگریز سٹی مجسٹریٹ کا لوہارو والوں کے داماد مرزانوشہ کے گھر آنا جانا۔ عجب نہیں کہ دلّی والوں میں جو افواہ غالب کے مخبرہونے کی پھیلی، اس میں کسی قدر سچائی بھی ہو۔وہ اپنے حصے کی جاگیر کا روپیہ کمپنی کے سرکاری خزانے سے طلب کر رہے تھے۔
اسی وسیع اور پے چیدہ منظر میں نوعمراسداللہ، اور بعدکے مرزانوشہ کی اٹھان کازمانہ اور ماحول بٹی ہوئی وفاداریوں، بدلتی ہوئی وفاداریوں سے پارہ پارہ ہے۔ جوان امیرزادے کے پاو¿ں تلے ریتیلی زمین ہے،اور جدھر نظر اٹھتی ہے اُدھر باربار بدلتاہوا منظر۔ اوروں کی طرح، اپنی پائدار حیثیت اور ہم چشمو ںمیں عزت آبرو بنائے رکھن کی خاطر مرزانوشہ کو وفاداری کے تصوّر میں ضرور جھول نظر آتا ہوگا۔
”وفا“ پہلے قبائلی اور پھر جاگیرداری نظا کا کلیدی لفظ رہا ہے۔ وفاکس سے؟ خاندان سے، قبیلے سے، جس کا نمک کھایااُس سے، جس ذات یا برادری، یا جاتی میںجنم لیا، پَلے بڑھے، اُس سے۔ جس دھرتی کو بویا جوتااُس سے۔ جو مذہب، عقیدہ یا سنسکار اوپرسے ملااُس سے؟ رہن سہن، پیشہ و توشہ، طور رطریقے سے وفا؟ ایک حال پر صدیوں چلنے والے سماج کے لےے یہ وفاداری بیچ کی کیلی تھی جس نے اپنے بندھن پکّے پکڑے تھے۔ لیکن وقت کی رفتار نے جب چال بڑھائی، ہندسستانی بھی وسطی دَور سے نکل کر مَرکنٹائل رشتوں کی طرف پہلے بڑھا،پھر لپکااور اس نے بوژوازی کے اقتدار کے لےے راہ بنانی شروع کی تو ذات برادری، گاو¿ں گراو¿ں کے رشتے ڈھیلے پڑے رعیت اور مزارع شہری کاروبار کی جانب بڑھنے کو آزادہوئے۔ پچھلی دو صدیوں کی معاشی سماجی سرگرمیوں کاچارٹ دیکھتے چلے جائےے تو یہ عقدہ کھلے گاکہ وفاداریوں کی گڑھیاں ڈھیتی چلتی گئیں اور کمرشیل دولت اندوزی کے اِنڈسٹریل پیداوار میں لگنے سے وفاکا تصورایسا بدلاکہ ٹھیک ایسے وقت جب ۷۵۸۱ءمیں ہندوستانی زبان کاعلاقہ جنگ آزادی کے شعلوں میں لپٹا ہواتھا، بمبئی، کلکتہ اور مدراس کی پری سی ڈینسیوں میں کارخانے اور کالج کھولے جارہے تھے اور یونیورسٹیاںقائم ہورہی تھیں۔ ہندوستانی سرمایہ کھلے بندوں ایسٹ انڈیا کمپنی کے سرمائے اور سرگرمی سے ہم آغوش ہورہاتھااوراس بالکل شروع کی Multinational سرمایہ کاری میں کوئی شرم کی بات بھی نہ تھی۔یہ صرف موٹی سی مثال ہے وفا کے مقررہ اور قدیم تصور کی ہولناک شکست کی۔ ۷۵ءکے بعدکے چالیس پچاس برس بعد تک جو ہوتارہاوہ کل کی سی بات ہے۔ بزرگوں کی نظراور کالج کے دَرنے ہمیں اس کا علم دے رکھاہے اسے بھی نظر میں رکھےے۔
۰۳برس کے غالب دہلی سے نکلتے ہیں۔ لکھنو ٹھیرتے ہیں۔ منزل کلکتہ کاگورنر جنرل سکریٹریٹ ہے۔ لیکن تھمتے ہوئے جارہے ہیں۔ لکھنو¿ میں صفات کاوہ مجموعہ جسے ”مشرقی“ کہتے ہیں کن کن صورتوں میں اُن صفات کے مجموعے سے سنگم بنارہاتھا جسے ’مغربی“ کے لیبل سے پہچانا جاتا ہے۔ کمپنی نے نواب سعادت علی خاں کے زمانے سے غالب کی آمدیاغازی الدین اور نصیرالدین حیدرکی براے نام ”شاہی“ حکومت سے کروڑوں روپیہ ہی سودی قرض نہیں لے رکھا تھابلکہ کاری گری دستکاری اور فنکاری کوبھی متاثر کیاتھا۔(اس پہلوپر تفصیل سے لکھا جاچکاہے)
لکھنو¿ کی اس دھوپ چھاو¿ں، فضااور طاقت کی دوعملی نے بھی یقینا غالب کوکافی کچھ سجھایاہوگا۔ پھر بنارس، ”عبادت خانہ ناقوسیاں اور کعبہ¿ ہندوستاں“ کا تفصیلی نظارہ، پھر باندہ کی طرّرار اور سُست رفتار نوابی، جو ۷۵ءمیں باغیوں کی چھاو¿نی بنی]اور نواب کو پھانسی دی گئی[عظیم آباد پٹنہ تو ۱۶۷۱ئ ۵۶۷۱ءکے معاہدوں میں ہی ایسٹ انڈیا کمپنی کے راج دُلاروں کی شکارگاہ بن چکاتھا۔ اور بالآخر کلکتہ جہاں گورنر جنرل کے محل کے سامنے ایران کا سفارت خانہ اور مدرسہ¿ عالیہ براجمان تھے۔ کلکتے سے غالب کے جوان، اثرپذیر اور زودرنج ذہن نے کیاسیکھا، کیا سمجھا،اس پراوروں نے کافی لکھاہے۔ ڈھائی برسکایہ غرضمندانہ بلکہ آرزومندانہ سفر جو”تَن کا سفر“ ہی نہیں، ’مَن“ کا سفر بھی تھا، جسمانی نہیں ،ذہنیسفر بھی ثابت ہوا،اوراس نے نئے قسم کے ایڈمنسٹریشن کی بے دردی اور وفاکے ہرتصورسے ناآشنائی اُن پر روشن کردی۔ یہاں برسبیلِ تذکرہ ان کے د و غیر معروف شعر نقل کرنابے محل نہ ہوگا:
آں کہ جوید از تو شرم و آں کہ خواہد از تو مہر
تقویٰ از مے خانہ و داد از فرنگ آرد ہمی
یا کلکتہ کے تاثرات پر ان کا قطعہ(۰۱)جویوں ختم ہوتاہے:
گفتم از بہرداد آمدہ ام گفت بگریز و سَر بسنگ مزن
غالب ۰۳۸۱ءمیں بکھرے ہوئے اپنے گھر لوٹ ےہیں۔ یہاں انگریزی تعلیم کی شروعات ہے۔ انگریزی علم و دانش کاچرچااوراس کے خلاف علوم قدیمہ سے وفاداری کا محاذ گرم ہے۔ اُدھر سے زمین کے گول ہونے اور زمین کے گھومنے کی خبر گھوم رہی ہے، اِدھر مولوی فضل حق خیرآبادی، غالب کے بزرگ دوست ”ابطال حرکة الارض“ تصنیف فرمارہے ہیں۔ شاہ ولی اللّہی مجاہدین کی جماعت میں فدائیوں کی سروسامان کی اور چندے کی رقموںکی ریل پیل ہے۔وہ تحریک جس کی موجودہ صورت کو آج کل Fundamentalکہا جاتاہے۔ غالب کے کئی ہم عصر اور ہم سَر اس تحریک کے ہمدرد ہیں یااس تحریک کے ہمنوا ہیں، مثلاً حکیم مومن خاں؛اس کے سیاسی پہلو سے ہمدردی، مگر ذہنی اور نظریاتی پہلو سے شدید اختلاف رکھتے ہیں مثلاً مفتی صدرالدین آزردہ، غالب کو مولوی فضل حق اپنے پروپگینڈے کاایک ہتھیار بنانا چاہتے ہیں، مروّت میں غالب پیچھے پیچھے ہولیتے ہیں، لیکن نتیج میں اُلٹی بات کہہ جاتے ہیں۔ ڈانٹ سن کر پھر اسے سیدھا کرتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے ک دانستہ یا نادانستہ ذہن ”غیر مقلدوں“ کی طرف جاتاہے یا نسبتہً آزادانہ بھٹکتا ہے۔
اتنی بڑی مذہبی سماجی تحریک جو دینی عقائدکی اصلاح کے ساتھ ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی کی اَندادُھند معاشی لوٹ کا توڑ کرنے کے لےے اٹھی تھی، پنجاب کی سکھ حکومت کے خلاف کس ہوشیاری سے موڑ دی گئی وار پھر دوتین سال میں خود ٹوٹ پھوٹ کربرابر ہوگئی۔ یہ غالب کی جوانی کے زمانے کا، اُن کی دہلی کا، ان کے طبقے کااور ماحول کااتنا زبردست ہیجان انگیز واقعہ تھاجو کہ کم و بیش دس برس دہلی سے کلکتہ تک گونجتارہامگر ان کے ہاں اس سے نہ وابستگی ملتی ہے،نہ نابستگی۔ دو راز کارچنداشارے ہیں، مثلاً:
عشرتِ قتل گہِ اہلِ تمنّا مت پوچھ
عید نظّارہ ہے شمشیر کا عُریاں ہونا
اُن دنوں ،اپنے بیان کے مطابق، وہ پچاس ہزارکے مقروض ہیں۔ گھر بیچا، زیور بیچا،اور کیا بیچا، کیسے قرض اداکیا،کیابھی یانہیں، ہمیں نہیں معلوم، صرف یہ معلوم ہے کہ ایک بار مقروض ہونے کی بناپر گرفتار ہوئے، دوسری بار خلافِ قانون جُوا کھیلنے اور جُوا کھلانے کی علّت میں قید خانے پہنچے۔اس حالت میں وہ ایک طرف اُس دربارِ بے بہار سے چلتے چلاتے کچھ نچوڑ لینے کی فکر میں ہیں جہاں ان کے ذوقِ سخن کی سچی داد دینے والاکوی نہیں، دوسری طرف ہرایک آیندوروند انگریز عہدہ دار سے رشتہ جوڑنے میں، جس کے متعلق کچھ امید ہے کہ اگر شاعری کی نہیں توث کم از کم رئیسی شان کی ہی قدر کرے گا۔ قصیدے اور قطعے لکھ لکھ کر دونوں سمتوں میں رَواں کرتے ہیں، اس خیال سے کہ ایک دربار دار شاعرکے پاس کلام منظوم کے علاوہ نذر کرنے کو اور ہے بھی کیا! وہ ”رَسن تابیِ آواز“ کو قید حیات کی ایک مشقت اور وفاداری کے اظہار کو محض ایک سلسلہ جنبانی شمار کرتے ہیں۔
یہی بیس برس ہیں۔ (۰۳۸۱ءسے ۰۵۸۱ءتک) جب وہ تمام وفاو¿ں اور وفاداریوں سے قطعی بدگمان اور اگلے پچھلے تمام بندھنوں سے بدعہدہوکر محض اپنی تکمیل میں لگ جاتے ہیں(”ترکِ صحبت کردم و دربند تکمیل خودم“) عین پختگی کے ززانے میں وہ اب اس مقام پر کھڑے ہیں، جہاں کعبہ اُن کے پیچھے ہے اور کلیسا اُن کے آگے۔ دونوں سے رشتہ ہے اور دونوں سے آزادگی۔ چناں چہ بے قراری اور بے یقینی کے بخشے ہوئے اِس قرار نے انہیں فارسی شعر گوئی میںاوراپنے کلام کی ترمیم و تصحیح میں لگارکھاہے۔ یہاں تک کہ اتفاق سے اُن پر شاہِ اودھ اور لال قلعے کی نظرالتفات پڑتی ہے۔ اور وہ زمانے کی اس شوخی کا مجبوراً استقبال کرتے ہیں۔ نتیجہ ان کے اردو خطوط اور اردو کلام میں ظاہر ہے۔ جو یقینا تب تک کے روےّے سے ہٹی ہوئی بات تھی۔
غالب اپنے گھرمیںہیں۔ ملنا جلنا، آنا جانا، محفلیں اور چُہلیں کرناموقوف۔ اخبار اور کتاب سے سروکار ہے۔ محل سرامیں صرف ایک برا دم بھرکو کھانا کھانے جاتے ہیں۔ دن بھر مردانے میں رہتے ہیں۔ یہ کون سی ازدواجی زندگی ہے؟
نوجوانی تک، جب انہیں ننھیالی اور ددھیالی عزیزوں کی شفقت میسر تھی، جیسی بھی لااُبالی زندگی گزاری ہو، لیکن گھر بار سنبھالنے کے بعدسے انہیں نئی ذمّہ داریوں کااحساس ہوگیااور جہاں تک بن پڑااِدھر سے غفلت نہیں برتی۔ غفلت تو نہیں، البتہ ”بے وفائی“ ضرور کرتے رہے۔ شادی شدہ زندگی میں ازدواجی بے وفائی کے دوواقعے ایسے ہیں جن کا اقرار خود غالب نے کیاہے اور چوں کہ دونوں کا انجام جان لیوا حادثوں پر ہوا۔ غالب کی بیوی اُمراو¿ بیگم کو ضرور ان کی خب تھی۔ (ملاحظہ ہوچراغِ دیر مثنوی میں”زتونالاں ولے درپدہ¿ تو“)
ایک وہ تعلق جو رئیسانہ شان میں شامل تھا۔ خوش مذاق مگر پابند قسم کی طواف مغل جان کے مکان پر حاضری، دل لگی اور خوش وقتی۔ ایک اور خوب رو خوشحال حاتم علی مہر پہلے وہیںآتے جاتے رہے ہوں گے۔ اس خاتون نے مہر کاذکر تعریفی لفظوں میں غالب سے بھی کیاجس سے اُن میں رقابت نہ سلگی۔ تعلق کی نوعیت ظاہر ہے۔ مغل جان کے انتقال پر حاتم علی مہر نے دردِ دل غالب کو لکھاتو وہ تسلی دے رہے ہیں، درد میں شریک ہیں مگر اس واقعے کو دل پر نہیں لیتے۔ بلکہ اُلٹاسمجھاتے ہیں کہ ان کاتوشروع سے کسی بزرگ کی نصیحت پر عمل رہاے کہ ”زہدووَرَع ہمیں منظور نہیں، ہم مانعِ فِسق و فجور نہیں، مصری کی مکھی بنو، شہدکی مکھی نہ بنو“ یہ بات غالب نے گھُماپھراکر کئی بار کہی ہے،مثلاً:
در دَہر فرو رفتہ¿ لذّت نتواں بود
برقند، نہ بر شہد نشیند مگسِ ما
مغل جان کے واقعے کو افسانوی حیثیت مل گئی۔ غالب ویسے ہی بے وفائی میں بدنام تھے، اس واقعے نے کچھ کمی بیشی نہ کی ہوگی۔
دوسرا واقعہ کسی خاندانی خاتون کاہے۔ جن کی وپری تصویر، غالب کے ایسے اشعار میں ملتی ہے جنہیں محفل تخیلی تجربہ یا دورکا جلوہ نہیں کہا جاسکتا۔ ہم سب یکساں طورپر جانتے ہیں کہ کسی بھی فنکارکاہرایک نقش اس کے ذاتی تجربے کا نشان مندنہیںہوا کرتا۔ لیکن ایسے اشعرااور اشاروں سے کہاں تک نظرچُرائےے جو صاف صاف چلتی پھرتی تصویریں دکھاتے اور غالب کی ذہنی کیفیت سمجھنے میںہماری مدد کرتے ہیں۔ مثلاً بیوی سے بے وفائی کا یہ دوسرا واقعہ۔جوسایہ¿ دیوارمیں ایک زمانے تک چلتارہا،سُلگتا رہا۔
کشیدہ قامت، تیکھے نقوش، گورے رنگ، بَرق چشم، دراز گیسواور نازک مزاج کوئی ہم قبیلہ نوجوان خاتون تھیں جنہیں ذوقِ سخن بی میسر تھااور غالب کواپناکلام بغرض اصلاح بھیجا کرتی تھی۔ حمیدہ سلطان نے اپنی نانی کی زبانی اس خاتون کا تخلص ”ترک“ بتایاہے۔ موصوفہ نے اس خاتون کو دیکھابھی ہوگا۔اگر انہوں نے نہیں دیکھا،صرف سنا تو ہم نے غالب کی زبانی سنااور اس کے کلام میں ”تُرک“ کودیکھابھی کیوں کہ ہم نے غالب کے زخمِ جگر کو دیکھا۔
”تُرک“نام یا تخلص کی کسی شاعرہ کا کلم آج تک دیکھنے میں نہیں آیا، عین ممکن ہے یہ استادی شاگردی شاعرانہ اور برے بیت ہواور اس پردے میں غالب خاندان کی کسی معزّز خاتون سے ایسے ٹوٹ کر ملے ہوں، ملتے رہے ہوں کہ گھر والوں کو خبر ہوگئی۔ نہ صرف اِس اختلاط کی خبر، بلکہ اس کے نتیجے کی بھی۔ خود غالب کے دےے ہوئے اشاروں سے ، ایک مدّت بعد جب افواہ سرد ہوچکی، وہ غزل، جس میں واقعی شاعر نے پورے حادثے کا ماتم کیا ہے ۔
”ہاے ہاے“ کی ردیف کے ساتھ انجام سنادیتی ہے۔ اردو فارسی کے کوئی چودہ ہزار اشعار میں یہ واحد غزل ہے جس میں محبوبہ کی موت کاانہوں نے ایک Monumantمونومنٹ نصب کیا ہے اور وہ بھی اپنے مزاج کے خلاف”ہاے ہاے“ کی صداپر۔
اس غزل اور اس سے رشتہ رکھن والے چندفارسی اشعار کو غور سے پڑھنے والوں پر یہ جتانا کچھ ضرور نہیں کہ غالب سے اس خاتون کے تعلقات یہاں تک پڑھنے والوں پر یہ جتانا کچھ ضرور نہیں کہ غالب سے اس خاتون کے تعلقات یہاں تک بڑھے کہ بالآخر وہ حاملہ ہوگئی اور چوں کہ معاملہ ایک معزز خاندان کی بیٹی کاتھا،اور غالب نے اپنی ذمہ داری میں اضافہ قبول کرنے سے پہلوتہی کی۔اُس نے خاموشی سے جان دے دی اور اس جواں مرگی پر معاملہ دب گیا۔ حمیدہ سلطان لکھتی ہیں کہ جب اس شاعرہ کا انقال ہوا، غالب بیمارپڑگئے تھے۔ ہاں ایساہی ہوگا۔ غالب کو البتہ اس بیماری سے کبھی شفا نہ ہوئی کیوں کہ سالہاسال اُن کے ضمیر میں اُس کی وفااراپنی بے وفائی کاکانٹا کھٹکتارہا،ورنہ اِن اشعار کاکیا مطلب؟
شرم رسوائی سے جا چھپنا نقابِ خاک میں
ختم ہے اُلفت کی تجھ پر پردہ داری ہاے ہاے
خاک میں ناموسِ پیمان محبت مل گئی
اُٹھ گئی دنیا سے راہ رسمِ یاری ہاے ہاے
بہتر ہوگاکہ ہم وفااور بے وفائی کے اصل مفہوم کی جڑ تک پہنچنے یااپنے طورپر اس کو Defineکرنے میں کسی قدر غالب کے اشعار سے بھی کام لیتے چلیں۔
اُن کی ایک فارسی غزل ہے جسے قریب ک لوگ بھی پوری طرح نہ سمجھ پائے تھے اور خود شاعرکو مطلع کامفہوم بیان کرناپڑا:
من بَوفا مُردم و رقیب بَدَر زد
نیمہ لبَش اَنگبین و نیم تَبرزَد
وفااور رقیب کے ساتھ شہد اور مصری کے تلازمے یہاں بھی دہرائے گئے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ شاعر نے وفامیں جان دینااپنے لےے اور مصری کی ڈلی چکھ کر اُڑ جانا رقیب کے لےے فرض کرلیاہے۔ یہ بات انہوں نے دوسرے طریقے ایک آدھ بار کہی ضرور ہے:
جو منکرِ وفا ہو فریب اس پہ کیا چلے
کیوں بدگماں ہوں دوست سے دشمن کے باب میں
یہاں رقیب وفانہیں کرتا،وفاکافریب دیتاہے اور محبوب وفاکے ہر دعوے سے منکر ہے اس لےے وہ رقیب کے فریب میں بھی نہیں آنے والا۔ رقیب اور وفاکے سارے تلازمے اور متعلقات کوایک ساتھ رکھ کر دیکھےے تو کھُلے گاکہ یہ خود غالب ہیں جن سے وفا کی اُمید نہیں کی جاتی اور ان کے ہردعوای وفاکو فریبِ وفا شمار کیا جاتاہے۔ یہاں تک کہ وہ خود وفاکی اصلیت سے بدگماں ہوجاتے ہیں۔
وفا، محبوب اور رقیب کے مثلّث کوانہوں نے روشنی اور تاریکی کے زاوےے بدل بدل کردیکھاہے،کوئی گوشہ چھوڑا نہیں۔
۷۴۹۱ ءمیں دہلی دروازے کے باہر جیل میں ہیں اور عام مجرموں کے ساتھ رکھے گئے ہیں۔ جان عذاب میں ہے۔ عزیزوں نے بدنامی کے خوف سے منھ پھیر لیاہے، کوئی خبرگیری تک کا روادار نہیں (رواے مصطفٰے خاں شیفتہ کے)غضب کا ”حبسیّہ“لکھاہے جوپہلے ہی بندمیں شکایت سے شروع ہوتاہے:
ہلہ دُزدانِ گرفتار وفا نیست بشہر
خویشتن را بہ شمار ہمدم و ہمراز کنم
قصیدہ (۹۴)در مدح فرماں رواے اوَدھ میں تشبیب ہی میں وفاکی جنسِ ناروا کا روناہے:
ناروا بود بہ بازار جہاں جنسِ وفا
رونقے گشتم و از طالع دُکاں رفتم
مشہور و مقبول غزل ہے جسے ایرانی موسیقار نے بھی گایا ہے:
زماگسستی و با دیگراں گرو بستی
بیا کہ عہدِ وفا نیست اُستوار بیا
اور اس کایہ ضرب المثل شعر:
وداع و وصل جدگانہ لذّتے دارد
ہزار بار برو صد ہزار بار بیا
رفتہ رفتہ ایسا وقت آگیاہے کہ غالب نہ محبوب سے وفاکے طالبہیں، نہ احباب سے، نہ زمانے سے:
نہ آں بودکہ وفا خواہد از جہاں غالب
بدیںکہ پُرسد و گویند ہست، خُرسندست
”جومنکرِ وفاہو“والاخیال ایک بارسے زیادہ دہرایاگیاہے اور وفاکے مثلث میں خود شاعرکارویّہ یا تصوّر ہم پر روشن ہوتاہے:
خوشم کہ دوست خود و¿ں مایہ بے وفا باشد
کہ در گماں نسگالم اُمیدگاہِ کسش
حدہوگئی کہا یک غزل میں ”غلط بود غلط“ کی ردیف رکھ کر وفاکے ہرایک تصور کو اس تار میں پرودیاہے:
تکیہ بر عہد زبان تو غلط بود علط
کایں خود از طرزِ بیانِ تو غلط بود غلط
دل نہادن بہ پیامِ تو خطا بود خطا
کام جُستن زلبان تو غلط بود غلط
آخر اے بوقلموں جلوہ کجائی؟ کا ینجا
ہرچہ دادند نشانِ تو غلط بود غلط
وفا کا مقررّہ مفہوم غالب کے لےے زدگی کے ہرحال، ہرمرحلے، ہر ماحول میں جگہ چھوڑتاچلا جاتاہے۔ حسن محبوب کی وفاسے بھی ان کی تسلی نہیں ہوتی، کیوں کہ وہ ان کا مقصود نہیں:
تیری وفاسے کیا ہو تسلّی کہ دہر میں
تیرے سوا بھی ہم پہ ہزاروں ستم ہوئے بہت سے؟
اور خوداپنی وفا سے دست بردار ہوتے ہیں:
وفا کیسی، کہاں کاع شق، جب سر پھوڑنا ٹھیرا
تو پھر اسے سنگ دل تیر ہی سنگ آستاں کیوں ہو!
یہ ان کا عملی نقطہ نظر ہے، زندگی اور فن کے بارے میں ایک سوچا سمجھا، نپا تفلا رویّہ۔ایک مستحکم، قائم بالذّات
مجبوری و دعواے گرفتاریِ الفت
دستِ تہِ سنگ آمدہ پیمانِ وفا ہے
عین ممکن ہے کہ یہاں،ہمارے خیال کو رَد کرنے کے لےے غالب کا کوئی پرستاراس قسم کے اشعار یاد دلائے جو پہلے سے کافی مشہور ہیں وار وفاکی عظمت جتاتے ہیں،مثلاً
وفاداری بشرطِ اُستواری اصل ایماں ہے
مرے بُت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
نہیں کچھ سبحہ و زُنّارکے پھندے میں گیرائی
وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے
غور کیجےے تو یہاں بھی انہوںنے وفاکے اس تصورکو، اس کے انتہاسے کمال کو شیخ و برہمن کے سپرد کرکے پنی جان چھڑائی ہے۔برہمن اگر اپنی وفامیں اُستوارہے تو اسے صلہ دیجے۔ اول تو برہمن گاڑانہیں، جلایا جاتاہے، پھر کعبے میں کسی کو دفن نہیں کرتے۔ برہمن کووہاں دفن کیجےے کیوں کہ وہ اپنی آزمائش میں ”زنّارکے پھندے کی گرفتاری“ میں سارا جیون بِتاگیاہے یعنی وہ عمل اس سے سرزد ہواہے جسے لوگ وفاکی استواری کا آئڈیل سمجھتے ہیں۔جو لوگ وفاکی عظمت کے ایسے ہی قائل ہیں اب وہ برہمن کی ارتھی چتاکے لےے نہیں دفنانے کے لےے تیار کریں۔ اور وہ بھی کہاں؟ توپھر غالب اپنے لےے کیا پسند کرتے ہیں؟ بے وفائی؟ بد عہدی؟مصری کی مکّھی بن کر لذّت چکھنااو راڑ جانا؟ نہیں۔ وہ زندگی کو اس سے زیادہ گہرائی کے ساتھ، جدلیاتی تجزےے کے ساتھ دیکھتے ہیں اور رنگارنگ تقاضوں کی ملک میں دیکھتے ہیں۔ ہم یہاں وفاکے اس پہلو کواشارةً عرض کریں گے۔
(صاحبو،سمی نارکے معزز حاضرین! آپ جو فلسفے اور عمرانیات کا سُتھراذوق رکھتے ہیں، آپ کے سامنے خیال اور عمل کے دیرینہ اور باہمی تعلق پر روشنی ڈالنا کچھ ضرور نہیں) خیال اور عمل میں کون اول ہے،یہ وہی مسئلہ ہے کہ Being(وجود) اور (Thinking)(شعور) میں کون فیصلہ کن ہے۔ سائنسی مادیت کانظریہ ماننے والے عمل وک، خارجی حالات (پیداواری طرز و تعلقات) یا ماحول کے عمل کو انسان کے ذہن و شعورپر حاوی بلکہ اُن کا راہنمامانتے ہیں۔ اسی سبب سے ہم نے غالب اور وفاکے تصور میں خارجی حالات کو پس منظرکے طورپر پیش کیا۔ اب خود خیال اور عمل کے رشتے سے دانش وَر فنکارکا وطیرہ بھی دیکھےے۔
اوّل یہ کہ ”رِچا“ (fjpk)اور Rifnalمیں دونوں دست و گریباں ہیں۔”رِچا“ یا خیال، بلکہ دستوئیفسکی کے طرز فکری نظام میں Ideaہے جو کسی شحص اور سماج کی روح میں رواں رہتاہے۔ آئڈیااپنی شناخت کے ساتھ عملی رسوم کی شاخت طلب کرتاہے اوراسے جنم دیتاہے۔ جب کوئی ”رچا“ بڑھ کر ”ری چوئل“ میں نشوونما پاتاہے تو نظریہ سماجی عمل بن جاتاہے۔ اب سنےے کہ خیال وفا بیزار ہےا ور ایکشن وفا طلب۔ خیال یا آئیڈیاکوایکشن میں، انفرادیاور اجتماعی عمل میں ڈھلنے، فرداور جماعت کوہم آہنگ کرنے اور ہمنوا رکھنے کے لےے وفاپرزور دنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ وفاکے مشروط تصورکے بغیر کوئی ”رِچا“ پھیل کر ”رِچوئل“ نہیں بنتا، نہیں بن سکتا۔اور جو نظرےّے کسی سماجی نظام کو جنم دے کریہ اضرار کرتے ہیں کہ پارٹییا سوسائٹی ان کا مقصود ہے، وہ فرد کو ثانوی حقیقت دے دیتے ہیں،جو اقبال کے لفظوں میں:
فرد قائم ربط ملّت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
آپ نے دیکھابرتاہوگاکہ خیال کی لچک یا عقیدے کی آوارگی سے بے مروَتی برتنے والے سماجی نظام مُرتدکو سنگسارDissenterاور کو Exoellکر دیتے ہیں۔ عمل کی اجتماعی نوعیت کی خاطر انہیں اصرار ہوتاہے کہ خیال کے سوتے سے پھوٹاہوااور زمانے بھرکی آلائشیں لپیٹے ہوئے جو عقیدہ طے شدہ ہے اسے جوں کا توں قبول یا تمامتر رد کردیا جائے۔ اسے وہ ”وفاداری بشرطِ استوار“ یعنی مشروط و وفاقرار دیتے ہیں۔ جب کہ خیال بجاے خود غیر مشروط ہے اور بے وفائی کی روح لےے بغیر توانااور تازہ دم نہیں رہتا۔
اب ذراغالب کاوہ مشہور زمانہ شعر پڑھ کر سوچےے کہ وہ کیا کہہ رہاہے:
”ترکِ رسوم“ دراصل ایک معنی میں ترکِ وفاہے۔کیوں کہ رسوم ہی تو ہی ںجو عمل میںوفا کا اظہار کرتی ہیں یہ ”رِچا“ نہیں ”ری چوئل‘ کا مجموعہ ہیں۔ فنکار اور وفادار نظریہ ساز اور نظریہ پرست میں یہیں آکے انترپڑتا ہے۔ فنکار اپنے عہداور ماحول میں سانس لے کر، ”ہر رنگ میں بہارکے اثبات“ پر زوردیتاہے۔وہ ایسا دانش ور ہے جو پوری دیانت داری کے باوجود، بلکہ دیانت داری کے ساتھ کسی بھی مسلمہ عقیدے، طے شدہ سانچے، یا طاقتِ فرماں رواسے، وقت کے عام چلن سے، یا بستگیِ رسم و رہِ عام“ سے جزوی یا کلّی، عارضی یا مستقل بے وفائی کرنے پر مجبور ہے۔ وہ خود اپنے سودوزیاں سے غافل یا بے نیاز بلکہ ذاتی مفادکا کھلا دشمن ہوکر بھی وفاکے معمول سے بگڑ بیٹھتا ہے اور راہِ صواب کے بجاے بھٹکنے اور تلاش کرتے رہنے کو ترجیح دیتاہے۔ وہ خود کو بالآخر اپنا غیر فرض کرلیتاہے۔ جیساکہ غالب نے اپنے بارے میں ایک آٹوبائیگرفیکل (سوانحی) بے تکلف خط میں لکھاہے۔وہ جب کہتاہے:
عیش و غم در دل نمی اِستد خوشا آزادگی
بادہ و خونابہ یکسانست در غربالِ ما
یا
ایماں بہ غیب تفرقہ ہا رُفت از ضمیر
ز اسما گمشتہ ایم و مفسمّی نوشتہ ایم
تو اَس ”آزادگی“ کے خدوخال اُبھارتاہے جوخیال کے بدلتے ہوئے بھاو¿ (Hkko)کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔وہ ”اسما“ یا Ritualsکی پوٹلی دریاکنارے چھوڑ کر خیال کے گرداب میں اُترتا ہے اور مسمّی کی تلاش جاری رکھتاہے۔ اس کی وفا صرف اپنی فکرکے تقاضوں سے ہوتی ہے۔ جو گلوب کی طرح گردش کرتی اور روشنی و تاریکی کے عالم میں مبتلا رہتی ہے۔
فنکار اپنی عصری سطح سے بلند تبھی ہوگاجب وہ دانش وری میں قدم رکھے اور اپنے وقت کے وانش وَر ہوتے ہیں جن کی وفااپنی دانش کے تقاضوں سے برقرار رہے۔ ان تقاضوں سے جوہر عہد، ہرایک دَور اور سماجی ارتقاکے ہر ایک مرحلے میں تغیر پسنداور ”بے وفا“ رہے ہیں۔ جسے غالب کے متعلق اس سلسلے میں کچھ کلام ہو وہ ان کے قصیدوں کی تشبیبیں دیکھے، بعض مثنویاں دیکھے جہںا اس دانش ور فنکارنے اپنا سوچا سمجھا رویّہ یا Atitudeایک تسلسل کے ساتھ بیان کردیاہے،مثلاً بینند“ کی ردیف والا قصیدہ(نمبر۶۲)
دل نہ بندند بہ نیرنگ و دریں دیرِ دو رنگ
ہرچہ بینند بہ عنوان تماشا بینند
خود تصوف کا نظریہ ،جس میں غالب نے فقیہوںکی بحثابحثی سے بچنے کے لےے پناہ لی تھی، ان کے ہاں ایک مکمل عقیدہ یا اعتقادی نظام نہیں، بلکہ ایک اخلاقی برتاو ہے۔ اپنے خطوں میں یہ راز افشابھی کردیاہے۔ کسی کوکبھی مشورہ نہ دیاکہ تم تصوف اختیار کرو، کھل کرکہہد یاکہ تصوف و نجوم، انہوں نے بس یوں ہی لگارکھاہے۔ ورنہ ان باتوںم یںکیا رکھاہے۔
”بے وفائی“ کے اس برتاو میں ہمارا دانش ور فنکار اس مقام کو پہنچ جاتاہے جہاں فرانس کے روسو اور بالزاک جیسے انسائیکلوپیڈسٹ اپنے وقتوں میں پہنچے تھے۔ وہ صرف قافیہ پیمائی کی خاطر نہیں کہتاکہ:
بامن میا ویز اے پدر، فرزند آزر رانگر
ہرکس کہ شد صاحب نظر، دینِ بزرگاں خوش نکرد
یہاں پدر سچ مچ کاپدرنہیں بلکہ رسوم اور سکّہ بند عقائد کے پاسبان یا کوتوال ہیں جو پہلے رسمی مذاہب کی تقدیر میں لکھے تھے اب ”اِزموں“ کے حصے میںآرہے ہیں۔
کفر و دیں چیست، ُز آلائشِ پندارِ وجود
پاک شو پاک کہ ہم کفرِ تو دینِ تو شود
غالب کے اس ”بے وفایانہ، تصوراور برتاو میں کفر و دیں کے تمام مروجہ تصورات کی دیواریں دھنس گئی ہیں اور مادرپدر آزاد انسانی تفکر سربلندہوجاتاہے:
محفلیں برہم کرے ہے گنجفہ بازِ خیال
ہیں وَرَق گردانیِ نیرنگِ یک بت خانہ ہم

English Hindi Urdu