غالب کی مُہریں

حنیف نقوی

غالب کی مُہریں

          اشیا کی قدروقیمت کا تعیّن بالعموم ان کی ماہیت اور کیفیتِ ظاہری کی بنیاد پر کیا جاتا ہے لیکن بعض اوقات کوئی نسبتِ خاص کسی شے کو اس کی حیثیتِ ظاہری سے بلند تر کرکے اس مرتبہ و مقام تک پہنچا دیتی ہے جہاں اس کے دوسرے تمام اوصاف ہیچ و بے مقدار ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سربرآوردہ اور نامور شخصیات سے تعلق رکھنے والی بعض معمولی چیزیں بھی محض ان کی ذات سے نسبت کی بناپر غیر معمولی اہمیت اختیار کرلیتی ہیں۔ جہاں تک اردو زبان و ادب کا تعلق ہے، غالب اس معاملے میں بھی اپنے تمام ہم مشربوں میں سابق وفائق ہیں کہ ان سے وابستہ ہر شے اس نسبتِ خاص کے انکشاف کے ساتھ از خود معتبر و محترم ہوجاتی ہے۔ ان کی مختلف مہریں جن کے نقش ان کی بے شمار تحریروں پر ثبت ہیں، اس ضمن میں بہ طورِ مثال پیش کی جاسکتی ہیں۔ مہروں کا رواج انیسویں صدی میں اور اس سے پہلے بہت عام تھا، چنانچہ یہ بات یقینی ہے کہ غالب کے بہت سے معروف و ممتاز معاصرین اور ان سے پہلے کے لاتعداد مشاہیر شعرا اور اہلِ علم نے اپنے ناموں کی مہریں تیار کرائی ہوں گی اور مرورِ ایام کے باوجود بعض کتابوں اور تحریروں پر ان کے نقوش کی موجودگی بھی خارج از امکان نہیں، تاہم ان کی تلاش و تحقیق اور ان سے متعلق گفتگو میں اہلِ علم کی دلچسپی کا ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا جیسی دلچسپی کا مظاہرہ غالب کی مہروں کے سلسلے میں کیاگیاہے۔ البتہ ان کے بعض ہم نام و ہم تخلص یا صرف ہم نام حضرات کی مہریں محض اس غلط فہمی یا شبہے کی بنا پر کہ وہ غالب سے نسبت رکھتی ہیں، ضرور معرضِ بحث میں آتی رہی ہیں۔ نسبتیں کبھی کبھی کتنی اہم ہوجاتی ہیں، یہ اس کا بیّن ثبوت ہے۔

          تازہ ترین معلومات کے مطابق غالب نے اپنی زندگی کے محتلف ادوار میں کم از کم آٹھ (۸) مہریں بنوائی تھیں۔ مالک رام صاحب نے مندرجہ بالا عنوان (غالب کی مہریں) ہی کے تحت اپنے ایک مضمون میں جو ان کے مجموعہ مضامین ”فسانہ غالب“ میں شامل ہے، ان میں سے چھ (۶) مہروں کا مفصّل تعارف سپردِ قلم فرمایاہے۔ بعد کے جن مصنفین اور توقیت نگاروں نے اپنی نگارشات میں ان مہروں کا ذکر کیاہے، ان کا ماخذ یہی مضمون ہے۔ ڈاکٹر گیان چند کے نزدیک ”اس مضمون کا سب سے قابلِ قدر پہلو ان مہروں کا نفسیاتی مطالعہ ہے۱۔“ خود مالک رام صاحب کے ارشاد کے مطابق ”میرزا کی یہ مہریں ان کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت اور عام حالت کی مادّی ترجمان ہیں(انہوں) نے ان میں اپنی زندگی کے اہم واقعات کو بھردیا ہے۲۔“ پیشِ نظرسطور میں یہ دیکھنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ تجزیہ جو بہ ظاہر بہت محققانہ اور عالمانہ معلوم ہوتا ہے، کس حد تک مبنی بر حقیقت ہے؟

          دریافت شدہ مہروں میں سے دو قدیم ترین مہریں غالب نے 1231ھ (1815-16ع) میں کندہ کرائیں تھیں۔ ان میں سے ایک مہر پر خطِ نستعلیق میں ”اسد اللہ خاں عرف مرزا نوشہ“ اور دوسری پر خطِ نسخ میں ”اسد اللہ الغالب“ نقش تھا۔ مالک رام صاحب کے مطابق پہلی مہر سے غالب کی ”اس زمانے کی سرمستی و رنگینی، رندی و ہوس پیشگی بہ درجہ اتم ظاہر ہے۔“ (ص81) جب کہ دوسری مہر”ان کے دلی خیالات و معتقدات کی مظہر ہے۔“(ص82) پہلے تاثر کی تائید میں منشی شیونرائن آرام اور مرزا حاتم علی مہر کے نام کے خطوط سے شطرنج کے کھیل سے دلچسپی، پتنگ بازی کے شوق اورایک ستم پیشہ ڈومنی کو مار رکھنے کے واقعات نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

“غالب کے والد میرزاعبداللہ بیگ خاں کا عرف ”میرزا دولھا“ تھا، اسی لیے لوگ میرزا غالب کو بچپن ہی سے ”میرزانوشہ“ کہنے لگے۔ اس عرف کی پستی ظاہر ہے اور خود میرزا کو بھی بعد کو اس ”نالائق“ عرف سے نفرت ہوگئی تھی۔ مگر اس طوفانی زمانے میں بھلا ثقاہت کہاں قریب پھٹک سکتی تھی۔ یہ باتیں شعور اور تجربے سے حاصل ہوتی ہیں اور وہ ان کی عمر اور گرد و پیش کا اقتضا نہ تھا۔“ (ص81)

دوسری مہر کے سلسلے میں محترم مضمون نگا رکا ارشاد ہے:

          “اس مہرکی بناحضرتِ علی کا لقب ہے۔ چوں کہ میرزا کا نام اسد اللہ تھا، اس لیے انہوں نے اس رعایت سے بہ طورِ سجع یہ نام کھدوا لیا اور بعد کو ان کے دوسرے تخلص کی بنا بھی یہی ہوئی۔ چوں کہ سامنے کی چیز تھی اس لیے جب انہوں نے تخلص تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تو اسد چھوڑ کر بلا تامّل غالب رکھ لیا“ (ص81)

          اس کے بعد حضرت علیؓ سے میرزا صاحب کی عقیدت اور ”شیعت سے شغف“ کو عبد الصمد سے زبانِ فارسی کی تحصیل اور ”ایران کے علوم و رسوم“ سے حصولِ واقفیت کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے علائی کے نام 17جولائی 1862ء کے ایک خط کے حوالے سے ان کے مذہب و مسلک کی وضاحت کی ہے، جس کا لُبِّ لباب خود میرزا صاحب کے الفاظ میں حسب ذیل ہے:

“محمد علیہ السّلام پر نبوت ختم ہوئی مقطع نبوّت کا مطلع امامت اور امامت نہ اجماعی بلکہ مِن اللہ ہے، اور امام مِن اللہ علی علیہ السّلام ہیں، ثمّ حسن، ثمّ حسین تامہدی موعود علیہ السّلام “ (ص82)

          ایک ہی سال میں تیارشدہ ان دو مہروں کو دو مختلف بلکہ متضاد مزاجی کیفیات اور طبعی میلانات کی علامت قرار دے کر مالک رام صاحب نے اجتماعِ ضدّین کی جو مثال پیش فرمائی ہے، وہ عقلاً ممکن الوقوع تو ہے لیکن عملاً بعید از قیاس نظر آتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پہلی مہر میں نام کے ساتھ عرف کی موجودگی نہ تو عنفوانِ شباب کی رنگ رلیوں یا لابالی پن کی مظہر تھی اور نہ ثقاہت کے منافی۔ جیسا کہ خود مالک رام صاحب نے فرمایاہے، غالب بچپن ہی سے ”میرزانوشہ“ کے عرف سے معروف تھے، لیکن واقعہ صرف اتنا ہی نہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ عرف شروع سے آخرِ عمر تک ان کے نام کا جزوِ لا ینفک بنارہا اور یہ بات ان کے لیے کسی بھی درجے میں ناگواری کا باعث نہ تھی۔ غالب کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے یہ بنیادی نکتہ ذہن نشیں رکھنا اشد ضروری ہے کہ مصلحت اندیشی ان کے مزاج کا لابُدی خاصّہ تھی۔ اس معاملہ میں وہ اس قدر حسّاس واقع ہوئے تھے کہ ان سے عمداً کسی ایسے کام کی توقعی ہی نہیں کی جاسکتی تھی جو خلافِ مصلحت یا مقتضاے وقت کے منافی ہو۔ عرف کا معاملہ بھی اس سے مستثنٰی نہیں، چنانچہ اس کے ترک و اختیار کے سلسلے میں بھی ان کی تمام تر ترجیحات بہ ظاہر وقتی ضرورت اور حالات کے تقاضوں کا ردِّ عمل معلوم ہوتی ہیں۔ 1231ھ (1815-16ع) میں اس مہر کے کندہ کرانے کے بعد انہوں نے جہاں جہاں اس عرف کو اپنے قلم سے اپنی شناخت کا وسیلہ بنایا، ان میں سے مندرجہ ذیل تحریریں اب بھی محفوظ ہیں:

          (1) درخواست بہ نام سائمن فریزر مورخہ 28 اپریل 1828 ع ”اسد اللہ خاں عرف مرزا نوشہ برادر زادہ نصر اللہ بیگ خاں جاگیردار سونک سونسا۔“3

          (2) عرضی دعویٰ پنشن مورخہ 28 اپریل 1828 ع ”میرا نام اسد اللہ خاں ہے اور عرف میرزا نوشہ“4

          (3) درخواست بہ نام ”سر حلقہ افرادِ دفتر کدہ کلکتہ“: ’اسمِ ایں فقیر اسد اللہ خان است و علَم مرزا نوشہ و تخلص غالب۔“5

          (4) عرضی بہ نام اینڈ ریواسٹرلنگ مورخہ 15 جولائی 1829 ع ”اسد اللہ خاں عرف میرزانوشہ برادر زادہ کلانِ نصراللہ بیگ خاں۔“6

(5) عرضداشت مورخہ 11 اگست 1829 ع ”اسد اللہ خاں عرف میرزا نوشہ برادر زادہ نصراللہ بیگ خاں جاگیردار سونک سونسا۔“7

(6) مکتوب بہ نام راے سدا سکھ مدیر اخبار جامِ جہاں نما مورخہ جمعہ، 25 صفر 1247ھ (5 اگست 1831ع) ”ایں ننگِ آفرینش کہ موسوم بہ اسد اللہ خاں و معروف بہ مرزا نوشہ و متخلص بہ غالب است۔“ 8

(7) دیباچہ دیوانِ اردو مرقوم بست و چہارم شہر ذی قعدہ 1248ھ (14 اپریل 1833ع) ”نگارندہ ایں نامہ بہ اسد اللہ خاں موسوم و بہ میرزا نوشہ معروف و بہ غالب متخلص است۔“9

(8) مکتوب بہ نام میر مہدی مجروح مورخہ 8 اگست1858ع ”وہ جو تم نے لکھا تھا کہ تیرا خط میرے نام کا میرے ہم نام کے ہاتھ جا پڑا، صاحب! قصور تمہارا ہے۔ کیوں ایسے شہر میں رہتے ہو جہاں دوسرا میر مہدی بھی ہو؟ مجھ کو دیکھو کہ میں کب سے دلّی میں رہتاہوں۔ نہ کوئی اپنا ہم نام ہونے دیا، نہ کوئی اپنا ہم عرف بننے دیا، نہ اپنا ہم تخلص بہم پہنچایا۔”

(9) خودنوشت براے تذکرہ شعرامرتبہ مولوی مظہر الحق مظہر: مرقومہ 1864ع ”اسد اللہ خاں عرف میرزا نوشہ، غالب تخلص۔“10

          ان تحریروں سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ پسند و ناپسند سے قطعِ نظر غالب کو اس اعتراف و اظہار میں کوئی تامل نہ تھا کہ وہ ”مرزانوشہ“ کے عرف سے معروف ہیں۔ اگر وہ اسے اپنی شخصیت کا ایک لازمی جزونہ سمجھتے اور اس سے متنفّر یا بیزار ہوتے تو اس طرح باربار اس کا ذکر ہرگز نہ کرتے۔ ان کے اعزا، احباب اور معاصرین میں بھی ایسے متعدد حضرات شامل ہیں جنہیں اس عرف کے حوالے سے ان کا ذکر کرنے میں کوئی عذر مانع نہ تھا۔ اگراس میں ان کی ناخوشی یابے ادبی کا شائبہ ہوتا تو ان میں سے بعض لوگ یقینا اس سے احتراز برتتے۔ مثلاً:

          (1)  مولانا فضلِ حق خیرآبادی کے بڑے بھائی مولوی فضل عظیم نے 1241ھ 1826ء میں ”افسانہ بھرتپور“ کے نام سے فارسی میں ایک مثنوی لکھی تھی۔ یہ مثنوی مرزا غالب کی نظر سے گزر چکی تھی اور انہوں نے اس کی تاریحِ تصنیف بھی کہی تھی جو ان کے کلیات فارسی میں موجود ہے۔ مصنف نے اس مثنوی کے خاتمے پر یہ تاریخ نقل کرنے سے پہلے مرزا غالب کی تعریف میں بائیس شعر کہہ کر شاملِ کتاب کیے ہیں۔ ان اشعار کا عنوان انہوں نے ”در تعریف مرزا نوشہ صاحب“ قائم کیا ہے اور ایک شعر میں بھی ان کا ذکر ان کے اسی عرف کے ساتھ کیا ہے۔ شعر حسبِ ذیل ہے:

ز اوصافِ او ہر کسے آگہ است

کہ معروف با میرزا نوشہ است11

(2) نواب مصطفی خاں شیفتہ نے 1250ھ 1835ء میں تذکرہ ”گلشنِ بے خار“ تالیف کیا۔ اس میں مرزا صاحب کے ترجمہ احوال کا آغاز ان الفاظ کے ساتھ کیاہے: ”غالب تخلص، اسمِ شریفش اسد اللہ خاں، المشتہر بہ مرزانوشہ“12

‘گلشنِ بے خار’ کا مسودہ طباعت سے پہلے مرزا صاحب کی نظر سے گزر چکا تھا۔ اگر نام کے ساتھ عرف کی شمولیت ان کے مزاج کے خلاف ہوتی تو وہ اس عبارت سے ”المشتہر بہ مرزا نوشہ“ کو بہ آسانی قلمزد کرسکتے تھے۔

          (3) سرسید کے برادرِ بزرگ سید محمد خاں بہادر نے اکتوبر 1841ء میں پہلی بار مرزا صاحب کا دیوانِ اردو اپنے لیتھوگرافک پریس سے شائع کیا تو اس کے سرورق پر ”دیوان اسداللہ خاں صاحب غالب تخلص، میرزا نوشہ صاحب مشہور کا“ لکھ کر گویا اس امر کی تصدیق کی کہ صاحبِ دیوان کا نام اسد اللہ خاں اور تخلص غالب ہے لیکن وہ عام طورپر مرزا نوشہ کے عرف سے مشہور ہیں۔

(4) دیوان کی اشاعت کے فوراً بعد سید محمد خاں بہادر کے لیتھوگرافک پریس ہی سے شائع ہونے والے ”سیدالاخبار“ کے 9 شوال 1357ھ 24 نومبر 1841ء کے شمارے میں ایک اشتہار شائع ہوا تھا جس میں شائقین کو ”پنج آہنگ“ کی اشاعت کے لیے تیاری کی خوش خبری سنائی گئی تھی۔ اس کی ابتدابھی ”مرزا اسد اللہ خاں صاحب غالب تخلص، مرزا نوشہ صاحب مشہور“ سے ہوئی تھی۔

          منشی بال مکند بے صبر،غالب کے شاگرد کی حیثیت سے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ انہوں نے اپنی اردو مثنوی ”لختِ جگر“ 1275ھ 1858ء میں نظر ثانی کے بعد بہ غرضِ اصلاح غالب کی خدمت میں پیش کی تھی۔ اس میں انہوں نے ”در شانِ مجمعِ کمالاتِ صوری و معنوی حضرت استادی جناب مولانا اسد اللہ خاں صاحب“ کے زیرِ عنوان جو اشعار کہے ہیں، ان میں ان کے نام، تخلص اور لقب (عرف) کا بیان اس طرح ہواہے:

نام اس کے سے کرتا ہوں میں آگاہ

اوّل ہے اسد اور آخر اللہ

مشہور تخلص اس کا غالب

مطلوبِ دلِ ہزار طالب

مرزا نوشہ لقب ہے اس کا

ثانی کوئی اور کب ہے اس کا16

(6) مکتوب بہ نام حسین مرزا مورخہ 29 اکتوبر 1859ء میں خود مرزا صاحب کا ارشاد ہے: “کاشی ناتھ بے پروا آدمی ہے۔ تم ایک خط تاکیدی اس کو بھی لکھ بھیجو۔ اکثر وہ کہا کرتا ہے کہ حسین مرزا صاحب جب لکھتے ہیں مرزا نوشہ ہی کو لکھتے ہیں۔”

          (7) مرزا یوسف کے انتقال کے پانچ برس بعد ان کی اہلیہ لاڈو بیگم نے یکم اکتوبر 1862ء کو ایک درخواست کے ذریعے ڈپٹی کمشنر سے یہ التجا کی کہ حکومت کی طرف سے ان کی مالی امداد کی جائے۔اس درخواست کے اندراجات کی روشنی میں ڈپٹی کمشنر نے ان کے کوائف کا جو گوشوارہ مرتب کرکے کمشنر کو بھیجا تھا، اس کا ایک اندراج یہ بھی تھا کہ ”کبھی کبھی اس کے مرحوم خاوند کا بھائی مرزا نوشہ اس کی مدد کرتاہے14۔“ ظاہرہے کہ لاڈو بیگم نے اپنی درخواست میں ”مرزانوشہ“ ہی لکھا ہوگا۔

(8) 1867ء کے اواخر میں غالب نے ”قاطع القاطع“ کے مصنف مولوی امین الدین کے خلاف دہلی کی ایک عدالت میں ازالہ حیثیتِ عرفی کا مقدمہ دائر کیا۔ اس مقدمے میں ان کے وکیل مولوی عزیزالدین تھے۔ انہوں نے 15 دسمبر 1867ء کو پیش کردہ ایک درخواست کے آخر میں اپنے دستخط کے تحت خود کو ”وکیلِ مرزا اسداللہ خاں پنشن دارِ سرکاری عرف مرزا نوشہ“ اور 20 فروری 1868ء کی اسی سلسلے کی ایک اور تحریر کے خاتمے پر ”وکیلِ مرزا اسد اللہ خاں عرف مرزانوشہ“ لکھاہے۔15

(9) غالب کی وفات کے تیسرے دن ان کے فرزندِ متبنّٰی حسین علی خاں شاداں (پسرِ عارف) نے نواب کلب علی خاں کو اس حادثے کی اطلاع دیتے ہوئے لکھا تھا:

 ”بہ تاریخ 15 فروری سالِ حال مطابق 2 ذی قعدہ روزِ دوشنبہ وقت ظہر جناب دادا جان صاحب قبلہ نواب اسد اللہ خاں غالب عرف میرزا نوشہ صاحب نے اس جہانِ فانی سے رحلت کی۔“16

(10) مولانا حالی نے جو غالب کے عزیز ترین شاگردوں میں سے تھے، ”یادگارِ غالب“ کا آغاز اس جملے سے کیا ہے:

“میرزا اسد اللہ خاں غالب المعروف بہ میرزانوشہ، المخاطب بہ نجم الدولہ، دبیر الملک، اسد اللہ خاں بہادر، نظام جنگ، المتخلص بہ غالب در فارسی واسد در ریختہ، شبِ ہشتمِ ماہِ رجب 1212 ہجری کو شہر آگرہ میں پیداہوئے۔“17

          عرف کے متواتر استعمال اور اس کے ساتھ شہرتِ عام کی ان مثالوں کے پیشِ نظر یہ باور کرنے کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی کہ غالب واقعتا اس سے بیزار ہوں گے یا اسے بہ نظرِ حقارت دیکھتے ہوں گے۔ اس کے باوجود یہ بھی واقعہ ہے کہ انہوں نے ایک دوبا راپنے احباب کو اس کے استعمال سے روکابھی ہے اور اسے ”نالائق“ قرار دے کر ایک اعتبار سے اس کی مذمّت بھی کی ہے، لیکن اس کی وجہ ان کی وہی مصلحت اندیشی اور احتیاط پسندی تھی جو انہیں بہ وقتِ ضرورت خلافِ معمول فیصلے لینے پر مجبور کرتی رہتی تھی۔فروری 1828ء میں جب وہ اپنی پنشن کا مقدمہ حکومتِ عالیہ کے سامنے پیش کرنے کی غرض سے کلکتے پہنچے تو ایک ”نکوہیدہ سیرت“ ہم وطن (مرزا افضل بیگ) نے حکّام کو ان کی طرف سے بدظن کرنے کی غرض سے یہ افواہ اڑادی کہ اس تازہ وارد شخص نے اپنا نام بھی بدل لیاہے اور تخلص بھی۔ گویا یہ شخص فریبی اور جعل ساز ہے۔ اسی افواہ کے زیرِ اثر اعیانِ دفتر کو ان کا نام بہ غرضِ ملاقات اپنے افسرِ اعلیٰ تک پہنچانے میں تامّل تھا، کیوں کہ سرکاری کاغذات کے مطابق خاندانی پنشن ”مرزا نوشاہ“ کے نام جاری ہوئی تھی اور وہ ”مرزانوشہ متخلص بہ اسد“ کی منزل سے آگے بڑھ کر اب ”اسد اللہ خاں غالب“ کے طور پر روشناسِ خلق تھے۔ اس مرحلہ دشوار سے نبٹنے کے لیے مرزاصاحب نے اپنے دیوانِ اردو کے ایک قلمی نسخے کا سہارا لیا جسے مرتب ہوئے سات سال سے کچھ زیادہ مدت گزر چکی تھی او راس سفر میں اتفاقاً ان کے ساتھ تھا۔ اس دیوان میں وہ غزلیں بھی شامل تھیں جن کے مقطعوں میں پرانا تخلص (اسد) موجود تھااور وہ غزلیں بھی جن میں نیا تخلص (غالب) نظم ہواتھا۔ مزید برآں اس کے خاتمے پر 1231ھ کی وہ مہر بھی ثبت تھی جس کے نگینے پر ”اسد اللہ خاں عرف مرزا نوشہ“ نقش تھا۔ غالب نے یہ دیوان ایک خط کے ساتھ ”سرحلقہ افرادِ دفتر“ (غالباً سائمن فریزر) کی خدمت میں پیش کردیا تا کہ وہ بہ طورِ خود فیصلہ کرسکیں کہ یہ افواہ کس حد تک درست ہے۔ خط میں انہوں نے لکھا تھا:

“آن مہر بہ ابطالِ دعویِ حداثتِ اسم مسکتِ مدعی است و در مسلّم نہ داشتنِ علَم برے سکوتِ ایں گمنام نیز کافی است۔ آرے اسمِ ایں فقیر اسد الہ خان است و علم مرزا نوشہ و تخلص غالب، لیکن ازیں جاکہ غالب کلمہ رباعی است و ظرفِ بعض بحور نشستِ آں رانیک برنتابد، فقیر لفظِ اسد راکہ مخففِ اسمِ عاصی است و معِ ہٰذا کلمہ ثلاثی، گاہ گاہ تخلص اختیار می کند۔“ 18

          اس تحریر سے غالب کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھاکہ اب سے بارہ سال پہلے بھی جب کہ یہ مہر تیار ہوئی تھی، وہ ”اسد اللہ خاں“ کے نام سے موسوم تھے۔ لہٰذا یہ مہر مدّعی کے اس دعوے کی تردید کے لیے کہ انہوں نے اپنا نام بدل لیا ہے، ایک مسکت دلیل کی حیثیت رکھتی ہے۔ نیز یہ کہ ”مرزانوشہ“ انھی کاعرف ہے اور یہ ان کا اختیارِ تمیزی ہے کہ وہ چاہیں تو اسے استعمال کریں اور چاہیں تو ترک کردیں۔ اس کے بعد کچھ دنوں تک وہ سرکاری خطوط اور عرضداشتوں میں اپنا نام ”اسد اللہ خاں عرف مرزانوشہ“ لکھتے رہے، بعد ازاں جب یہ قضیہ فیصل ہوگیاکہ ”مرزانوشہ“ بھی وہی ہیں اور ”اسد اللہ خاں“ بھی وہی تو انہوں نے اس دو عملی سے نجات پانے کے لیے آئندہ بہ نظر احتیاط صرف ”محمد اسد اللہ خاں“ یا ”اسد اللہ خاں“ لکھنے کا تہیّہ کرلیا۔ چنانچہ قیامِ کلکتہ کے اسی زمانے میں ایک بار اپنے دوست راے چھج مل کو خط لکھا تو پتے کے ذیل میں ان کے لکھے ہوئے مفصل نام کو موضوعِ گفتگو بناکر یہ سوال بھی کرڈالاکہ:

“برعنوانِ مکتوب کلمہ نواب راجزوِ اعظم (کذا=اسم) ساختن یعنی چہ و عرف پایانِ اسم رقم کردن چرا؟ سگِ دنیا را بہ اسد اللّٰہی شہرت دادن چہ کم است کہ نوابی و میرزائی برسرِ ہم باید افزود۔“19

          یہ بات بہ ظاہر انکسا رکے طورپر کہی گئی ہے لیکن اصل مقصد یہی معلوم ہوتاہے کہ نام کے ساتھ عرف نہ شامل کیا جائے تاکہ پڑھنے والے کا ذہن اس قضیہ نامرضیہ کی طرف منتقل ہی نہ ہو کہ مکتوب الیہ اب سے پہلے ”مرزانوشہ“ کے نام سے موسوم تھا اور اب اس نے اپنا نام بدل کر ”اسد اللہ خاں“ کر لیا ہے۔ اس کے بعد اگلے تیس (30) برسوں میں ان کی کوئی ایسی تحریر نہیں ملتی جس میں انہوں نے اس عرف سے بریّت کا اظہار کیا ہو یا کسی کو اس کے استعمال سے روکاہو۔ تا آن کہ یکم ستمبر 1858ء کو انہو ںنے مرزا ہرگوپال تفتہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا:

“صاحبِ مطبع (مفیدِ خلائق،آگرہ) نے خط کے لفافے پرلکھاہے:

”مرزانوشہ صاحب غالب“ للہ غور کرو، یہ کتنا بے جوڑ جملہ ہے۔ ڈرتاہوں کہ کہیں صفحہ اولِ کتاب پر بھی نہ لکھ دیں صرف اپنی نفرت عرف سے وجہ اس واویلا کی نہیں ہے بلکہ سبب یہ ہے کہ دلّی کے حکّام کو تو عرف معلوم ہے مگر کلکتے سے ولایت تک یعنی وزراکے محکمے میں اور ملکہ   عالیہ کے حضور میں کوئی اس نالائق عرف کو نہیں جانتا، پس اگر صاحبِ مطبع نے ”مرزانوشہ صاحب غالب“ لکھ دیاتو میں غارت ہوگیا، کھویاگیا، میری محنت رائگاں گئی، گویا کتاب کسی اور کی ہوگئی۔“

اس کے تیسرے دن ان سے دوبارہ یہ استدعا کی:

          منشی شیونرائن کو سمجھا دینا کہ زنہار عرف نہ لکھیں، نام اور تخلص بس، اجزاے خطابی کا لکھنا نامناسب بلکہ مضر ہے“۔

          ان بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ کتاب (دستنبو)کے سرورق پر صرف نام اور تخلص لکھنے اور عرف نہ لکھنے پر یہ اصرار فی الواقع اس مبیّنہ طورپر ”نالائق عرف“ سے نفرت کا نتیجہ نہیں بلکہ اس احتیاط اور پیش بندی پر مبنی ہے کہ سرکاری کاغذات میں درج ان کے نام کے ساتھ اس عرف کی شمولیت ”وزراکے محکمے اور ملکہ عالیہ کے حضور میں“ کسی غلط فہمی کا سبب نہ بن جائے اور پھر کوئی ایسی صورتِ حال پیش نہ آجائے جیسی ایک بار کلکتے میں پیش آچکی تھی۔ غدر کے بعد کے مخصوص حالات اور انگریز حکّام کی مطلق العنانی کو مدِّ نظر رکھا جائے تو یہ اندیشہ کچھ بے جابھی نہ تھا۔ کلکتے میں انہیں ذاتی طورپر جو تجربہ ہوچکاتھا، ممکن ہے کہ اس قسم کے کچھ اور واقعات بھی ان کے علم میں ہوں۔ کم سے کم ایک واقعے کا ذکر خود ان کے ایک خط میں موجود ہے۔ یہ خط یوسف مرزا کے نام ہے اور قیاساً 1859ء کے وسط میں لکھاگیاہے۔ لکھتے ہیں:

“ایک لطیفہ پرسوں کا سنو:حافظ ممّو بے گناہ ثابت ہوچکے۔ رہائی پاچکے۔ حاکم کے سامنے حاضر ہواکرتے ہیں۔ املاک اپنی مانگتے ہیں۔ قبض و تصرف ان کا ثابت ہوچکا ہے، صرف حکم کی دیر۔ پرسوں وہ حاضر ہیں۔ مسل پیش ہوئی۔ حاکم نے پوچھا:

حافظ محمد بخش کون؟ عرض کیا میں۔ پھر پوچھا کہ حافظ ممّو کون؟ عرض کیا کہ میں۔ اصل نام میرا محمد بخش ہے، ممّوم ممّو مشہور ہوں۔ فرمایا: یہ کچھ بات نہیں، حافظ محمد بخش بھی تم، حافظ ممّو بھی تم، سارا جہان بھی تم، جو کچھ دنیا میں ہے، وہ بھی تم۔ ہم مکان کس کو دیں؟ مسل داخلِ دفتر ہوئی۔ میاں ممّو اپنے گھر چلے آئے۔

          جہاں ایک معمولی سے شبہے کی بنا پر اس طرح ایک جیتا ہوا مقدمہ ہارا جا سکتا ہے، وہاں غالب کا اپنے مفادات کے تحفظ میں ہرممکن احتیاط برتنا مقتضاے حال کے عین مطابق تھا۔ وہ یہ خطرہ مول لینے کے لیے کسی صورت میں بھی تیار نہیں ہوسکتے تھے کہ نام اور عرف کے چکر میں حافظ محمد بخش عرف حافظ ممّو کی طرح ان کی مسل بھی داخلِ دفتر کردی جائے۔ تفتہ کے نام پنے محولّہ بالا دونوں خطوں میں سے پہلے خط میں انہوں نے جس تشویش کا اظہار کیا ہے اور دوسرے خط میں تاکید کی جو صورت اپنائی ہے، وہ بدیہی طورپر اسی قسم کے اندیشہ ہاے دور دراز کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔ اگر وہ واقعی اس ”نالائق عرف“ سے متنفّر ہوتے تو عام حالات میں بھی اپنے نام کے ساتھ اس کے الحاق کے خلاف کبھی نہ کبھی ضرور احتجاج کرتے، لیکن اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حد یہ ہے کہ 1865ء میں جب اسی کتاب (دستنبو) کا دوسرا ایڈیشن ”نسخہ صحیحہ مرسلہ مصنف“ کی بنیاد پر مطبع لٹریری سوسائٹی روہیل کھنڈ، بریلی سے شائع ہواتو اس کے سرورق پر ان کا پورا نام ”نجم الدولہ، دبیر الملک، اسد اللہ خاں بہادر، نظام جنگ، المتخلص بہ غالب عرف مرزانوشہ“ لکھا ہواتھا۔ نام کے ساتھ ”اجزاے خطابی“ اور ”عرف“ کے اس اندراج کو انہوں نے بعد کی کسی تحریر میں نہ تو ”نامناسب بلکہ مضر“ قرار دیا اورنہ اس پر کسی قسم کی ناگواری ظاہر کی۔

          دوسری مہر کے سلسلے میں مالک رام صاحب کا ارشاد ہے کہ ”اس کی بنا حضرت علی کا لقب ہے۔ چوں کہ میرزا کا نام اسد اللہ تھا، اس لیے انہوں نے اس رعایت سے بہ طورِ سجع یہ نام کھدوا لیا۔“ بعد میں جب انہوں نے تخلص تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تو اسی لقب کی رعایت سے اسد کو چھوڑ کر غالب اختیار کرلیا (ص81) غالب نے ایک منقبتی قصیدے میں خود بھی اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ تخلص کے اس انتخاب میں حضرت علی کے ”اسم و رسم“ کے اثرات شامل تھے۔ فرماتے ہیں:

اے کز نوازشِ اثرِ اسم و رسمِ تو

نامم زمانہ غالب معجز بیاں نہاد

          اس کے باوجود مالک رام صاحب کا یہ دعویٰ محتاجِ دلیل ہے کہ مرزا صاحب نے پہلے حضرت علی سے اپنی محبت و عقیدت کے اظہا رکے طورپر یہ مہر کھدوائی،اس کے بعد اپنا تخلص اسد سے بدل کر غالب کیا۔اس کے برخلاف مرحوم اکبر علی خاں عرشی زادہ کا یہ استدلال زیادہ قرینِ صحت معلوم ہوتاہے کہ رجب 1231ھ (جون 1861ع) میں دیوان کے اولین دستیاب نسخے کی ترتیب کے وقت تک مرزا صاحب اسد تخلص کرتے تھے۔ بعد میں اسی سال کی کسی تاریخ کو انہوں نے غالب تخلص اختیار کیاتو یہ نئی باتخلص مہر کندہ کرائی۔ 20

          اگر اس مہر کی وساطت سے صرف ”دلی خیالات و معتقدات“ کا اظہار مقصود ہوتا تو یہ کام اس سے قبل بھی کیا جاسکتا تھاکیوں کہ غالب 1231ھ سے پہلے بارہا اس امر کا اعتراف و اعلان کرچکے تھے کہ

امامِ ظاہر و باطن، امیرِ صورت و معنی

علی، ولی، اسد اللہ، جانشینِ نبی ہے

          ان حالات میں ایک ہی سال کے اندر دو مہروں کی تیاری کی اس کے علاوہ اور کوئی معقول توجیہہ نہیں کی جاسکتی کہ مرزا صاحب نے اسی سال اپنا تخلص تبدیل کیا ہوگا اور اس تبدیلی کی علامت کے طورپر بہ صورت سجع یہ دوسری مہر کندہ کرائی ہوگی۔ لیکن مالک رام صاحب کے نزدیک یہ استدلال قابلِ قبول نہیں، چنانچہ ”گلِ رعنا“ کے مقدمے میں انہو ںنے اس مسئلے کو ایک بار پھر اٹھایا ہے۔ عرشی زادہ کا نام لیے بغیر تحریر فرماتے ہیں:

بعض لوگوں نے استدلال کیاکہ ”اسد اللہ الغالب“ مہر سے ثابت ہوتاہے کہ انہوں نے اس سال (1231 میں) غالب تخلص اختیارکیا، حال آنکہ نہ ان کا نام ”اسد اللہ“ تھا نہ تخلص ”الغالب“۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس مہر میں لفظ ”غالب“ بہ طورِ تخلص استعمال ہی نہیں ہوا بلکہ یہ مہر انہوں نے بہ طورِ سجع تیار کرائی تھی۔ دراصل ”اسداللہ الغالب“ لقب ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا۔ چوں کہ میرزا کا نام ”اسد اللہ خاں“ تھا اور وہ عقیدے کے لحاظ سے شیعی تھے، اس لیے انہوں نے یہ سجع والی مہر بنوا کر گویا حضرت علی سے اپنی عقیدت کا اعلان بھی کردیا۔ غرض اس مہر سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ 1231ھ میں انہوں نے غالب تخلص اختیار کر لیا تھا۔ البتہ یہ درست ہے کہ بعد کو انہوں نے اسد تخلص سے بیزار ہوکر نیا تخلص رکھنے کا فیصلہ کیا تو اسی سجع نے ان کی مشکل حل کردی اور انہوں نے یہ سامنے کا لفظ بہ طورِ تخلص اختیار کرلیا۔“21

          اپنی بات پر بے جا اصرار کا رویّہ بعض اوقات بدیہّیات سے بھی چشم پوشی پر مجبور کردیتا ہے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت اس بیان کی بھی ہے۔ سجع کی خوبی یہ خیال کی جاتی ہے کہ اس میں صاحب سجع کا نام بھی آجائے اور کلمہ سجع کی معنوی بھی اپنی جگہ برقرار رہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ حشو و زوائد سے یکسر پاک ہو۔ غالب نے اپنے شاگرد حکیم سید احمد حسن فنا مودودی کی فرمائش پر ان کے نام کے دو سجعے کہے تھے۔ یہ سجعے بھیجتے ہوئے انہوں نے خط میں لکھاتھا:

“بہارِ گلستانِ احمد حسن، یہ سجع کیا برا ہے؟ دلِ حیدر و جانِ احمد حسن، یہ اس سے بھی بہتر ہے۔ انھی دونوں میں سے ایک سجع مہر پر کھدوا لیجیے۔“22

          ان دونوں سجعوں میں ایک لفظ بھی زائد از ضرورت نہیں۔”اسد اللہ الغالب“ کی بھی یہی کیفیت ہے۔ اگر اس وقت مرزا صاحب کا تخلص غالب نہ ہوتاتو یہ سجع کوئی معنی ہی نہ رکھتا، اور اگر اس مہر میں ”اسد اللہ“ کے ساتھ ”الغالب“ کی بجاے صرف ”غالب“ کندہ کیا گیا ہوتا تو یہ سجع نہ ہوتا، صرف نام ہوتا۔ رہ گیا یہ سوال کہ غالب کا اصل نام ”اسد اللہ“ نہیں ”اسد اللہ خاں“ تھا تو یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ میر، میرزا، سید، شیخ، خاں، بیگ، مودودی اور چشتی جیسے سابقے اور لاحقے کسی نام کے اجزاے اصلی نہیں، اجزاے اضافی ہوتے ہیں، علاوہ بریں الفاظ کے اس مخصوص تانے بانے سے بھی کوئی مناسبت نہیں رکھتے جس سے سجع کی تشکیل ہوتی ہے، اس لیے سجع کہتے وقت انہیں نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ چنانچہ غالب نے بھی سید احمد حسن کے نام کے مذکورہ بالا دونوں سجعوں میں ”سید“ کے سابقے سے صرفِ نظر کرکے صرف ”احمد حسن“ نظم کیاہے۔ قطعِ نظر اس سے اگر مالک رام صاحب کے نزدیک غالب کا اصل نام ”اسد اللہ خاں“ اور صرف ”اسد اللہ خاں“ تھاتو چند سال کے بعد ”محمد اسد اللہ خاں“ کے نام سے ایک تازہ مہر کندہ کرانے کا کیا جواز باقی رہتاہے؟

          صحیح بات یہ ہے کہ غالب کا اصل نام صرف ”اسد اللہ“ تھا، باقی تمام سابقے اور لاحقے فروعی یا اضافی حیثیت رکھتے تھے، چنانچہ انہوں نے اپنی بے شمار تحریروں میں، نظم میں بھی اور نثر میں بھی، اپنا نام صرف ”اسد اللہ“ لکھاہے۔ نظم کے چند نمو نے حسبِ ذیل ہیں:

حبسِ بازارِ معاصی، اسد اللہ اسد

کہ سوا تیرے کوئی اس کا خریدار نہیں

غالب نام آورم، نام و نشانم مپرس

ہم اسد اللّٰہم و ہم اسد اللّٰہیم

منصورِ فرقہ علی اللّٰہیاں منم

آوازہ انا اسداللہ درافگنم

فیضِ دمِ انا اسد اللہ بر آورم

منصورِ لا ابالیِ بے دار و بے رسن

‘پنج آہنگ’ کے خطوط میں بھی انہوں نے متعدد جگہ اپنا نام صرف ”اسد اللہ“ ہی لکھا ہے، حتّٰی کہ بعض خطوط کا آغاز ”از اسداللہ نامہ سیاہ“ یا ”نامہ نگار اسد اللہ“ سے ہوتاہے۔ میاں نوروز علی خاں کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:

“اگرنامہ فریسند و بہ عنوان نویسند کہ ایں مکتوب بہ دہلی بہ اسد اللہ رسد، دشوار نیست کہ آں نامہ بدیں روسیاہ برسد۔“23

22 مارچ 1852ء کے ایک خط میں تفتہ کو ہدایت کرتے ہیں:

“خط پر حاجت مکان کے نشان کی نہیں ہے۔ ”در دہلی بہ اسد اللہ برسد“ کافی ہے”

          اس سے بھی اہم تر بات یہ ہے کہ پنشن سے متعلق عرض داشتوں اور درخواستوں کے آخر میں بھی وہ کبھی کبھی اپنا نام صرف ”اسد اللہ“ ہی لکھا کرتے تھے۔ اس سلسلے کے دستاویزات میں ایسی اٹھائیس تحریریں ہماری نطر سے گزر چکی ہیں جن پر ان کے دستخط ثبت ہیں۔ ان میں سے بارہ تحریروں میں انہو ںنے اپنا نام ”اسد اللہ“ لکھاہے۔ ان میں قدیم ترین تحریر 25 نومبر 1831ء کی اور آخری تحریر 25 اکتوبر 1844ء کی ہے۔ نواب کلب علی خاں کے نام کے خطوط میں بھی جہاں انہوں نے بہ طورِ دستخط تخلص کی بجاے نام لکھا ہے، یہی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس سلسلے کا آخری خط 16 نومبر 1898ء کا تحریر کردہ ہے۔

          اس سلسلہ گفتگو کا آخری اور سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ”اسد اللہ“ کی حیثیت اسمی سے متعلق مالک رام صاحب کا زیر بحث بیان خود ان کے سابقہ موقف سے مطابقت نہیں رکھتا۔ گزشتہ سطور میں ان کا یہ قول نقل کیا جاچکاہے کہ”اس (دوسری) مہر کی بناحضرت علیؓ کا لقب ہے۔ چوں کہ میرزا کانام اسد اللہ تھا، اس لےے انہوں نے اس رعایت سے بہ طورِ سجع یہ نام کھدوا لیا۔“ اس طر ح ایک بار یہ کہنا کہ ”میرزا کا نام اسد اللہ تھا“ اور دوسری بار اس سے انکار کردینا ایک ایسی کیفیتِ ذہنی کی غمّازی کرتا ہے جو اعترافِ حق اور اعلانِ حق کی بجاے بہر صورت حریف کے دعووں کو باطل ٹھہرانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔

          غالب نے تیسری مہر 1238ھ میں تیار کرائی تھی۔ اس پر ”محمد اسد اللہ خاں“ کندہ تھا۔ مالک رام صاحب کے مطابق یہ ”معرکہ آرا مہر ایک عظیم الشان داخلی اور ذہنی انقلاب کی آئینہ دار ہے۔“ اس انقلاب کے محرکات میں انہوں نے اس مذہبی مباحثے کا بہ طورِ خاص حوالہ دیاہے جو ان کے بقول انیسویں صدی کے ربعِ اول میں شروع ہواتھااور جس کا موضوع مسئلہ امکان و امتناعِ نظیر تھا۔ اس مباحثے کے ایک فریق مولانا فضلِ حق خیرآبادی تھے۔ ان کی تحریک پر غالب نے بھی اس بحث میں حصّہ لیا تھا اور فارسی میں ایک مثنوی کہہ کر ان کی او ران کے ہم خیال علما کی تائید کی تھی۔ مذہبی معاملات سے غالب کی اس دلچسپی کا اوّلین محرک مالک رام صاحب نے نواب الٰہی بخش خاں معروف سے ان کی عزیز داری کو ٹھہرایاہے۔ نواب صاحب خود صوفی تھے اور اس حیثیت سے متصوفین کے درمیان ”خاصے معروف بھی تھے“۔ غالب کی طبیعت کے ”لاابالیانہ پن“ پر ”علم و عمل کے اس نمونے“ کے اثرات مرتب نہ ہوں، یہ اصولِ فطرت کے خلاف تھا۔اس تمہید کے بعد مالک رام صاحب نے اس سلسلے میں اپنے مجموعی تاثرات ان الفاظ میں قلمبند فرمائے ہیں:

“میرزا کی تحریروں سے ثابت ہے کہ وہ اس سے قبل فسق و فجور اور عیش و عشرت کی دلدل میں پھنس چکے تھے، لیکن اس نئے مذہبی ماحول نے اگر ان کی کایا بالکل پلٹ نہیں دی تو کم از کم اس کی شدت میں ضرور کمی آگئی اور وہ اخلاقی قدروں کے بھی شناسا ہوگئے۔اس سے پہلے انکی مہر پر کندہ تھا: اسد اللہ خاں عرف میرزانوشہ، انہوں نے جو نئی مہر تیار کرائی، اس پر لکھا ہے: محمد اسد اللہ خاں۔ کیا ان کی قلبِ ماہیت کا اس سے زیادہ کوئی اور ثبوت درکارہے۔“ (ص84)

          مسئلہ امکان و امتناعِ نظیر پر بحث کب شروع ہوئی اور اس کا آغاز کس نے کیا، فی الوقت اس موضوع پر گفتگو کا موقع نہیں۔ قابلِ غور مسئلہ یہ ہے کہ غالب اس بحث میں کب شریک ہوئے اور ان کی وہ نظم جو اس مسئلے سے متعلق ہے، کس زمانے میں معرضِ وجود میں آئی؟ مالک رام صاحب نے اس مباحثے کو انیسویں صدی کے ربعِ اوّل کا واقعہ قرار دیاہے۔ نہیں کہا جاسکتاکہ غالب کو اس ابتدائی مرحلے میں اس مسئلے سے کوئی دلچسپی تھی یانہیں۔ شواہد سے معلوم ہوتاہے کہ 1856ءکے اواخر تک اس بحث کا سلسلہ ختم نہیں ہواتھا۔ بعض قرائن کے بموجب یہی وہ زمانہ ہے جب کہ مولانا فضلِ حق نے الور سے رام پور جاتے ہوئے کچھ دنو ںکے لےے دہلی میں قیام کیا تھا اور اس دوران ان کی سرگرم شرکت کی بدولت یہ بحث ایک بار پھر تازہ ہوگئی تھی۔ چنانچہ غالب نے انھی ایام میں مولانا کی فرمائش پر وہ اشعار کہے تھے جو ان کی چھٹی فارسی مثنوی موسوم بہ ”بیانِ نموداریِ شانِ نوبت و ولایت“ میں شامل ہیں۔ سلطان العلما مولانا سید محمد مجتہد کے نام 21 جمادی الاول 1273ھ (17 جنوری 1857ع) کے خط میں اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“دریں ہنگام در شہر دو دانشمند باہم در آویختہ اند۔ یکے می سراید کہ آفریدگار ہمتاے حضرتِ خاتم الانبیا علیہ و آلہ السّلام می تواند آفرید۔ وایں یکے می فرماید کہ ایں ممتنعِ ذاتی و محالِ ذاتی است۔ بندہ چوں ہمیں عقیدہ دارد، نظمے در گیرندہ بدیں مدّعا سرانجام دادہ است۔ ہر آئینہ چشم دارد کہ سواد بہ نورِ نظرِ اصلاح روشن شود۔“ 24

          اس واضح بیان کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ 1273ھ 1856ء میں اس مذہبی مباحثے میں غالب کی شرکت اور اس سے پورے پینتیس (35) برس قبل 1238ھ 1823ء میں تیار شدہ ان کی زیرِ بحث مہرکے درمیان کسی ذہنی و جذباتی رشتے کی موجود گی قطعاً خارج از امکان ہے۔ یہی کیفیت تصوف کے اثرات کی بھی ہے کہ اس سے غالب کا واسطہ ”براے شعر گفتن“ سے زیادہ نہ تھا۔ علاوہ بریں مذہبی طورپر وہ شیعی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے تھے جس میں تصوف کے لیے یوں بھی کوئی گنجائش نہیں۔ البتہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ دوسری مہر کی طرح یہ تیسری مہربھی شیعت میں ان کے گہرے اعتقاد کی توثیق کرتی ہے۔ اس میں ان کے نام کے مختلف اجزا کی نشست میں جو ترتیب قائم کی گئی ہے، اسے محض اتفاق نہیں کہا جا سکتا۔ اس کی صورت یہ ہے کہ سب سے اوپر لفظ ”اللہ“ کندہ ہے، درمیان میں لفظ ”محمد“ نقش ہے اور تیسری اور آخری سطر میں لفظ ”اسد“ اور ”خان“ یعنی:

خدا کے بعد نبی اور نبی کے بعد امام

یہی ہے مذہبِ حق، والسّلام و الاکرام

          غالب کی خودنوشت تحریروں، سرکاری مراسلوں اور عرضداشتوں میںکہیں ان کا نام ”اسد اللہ خاں“، کہیں ”محمد اسد اللہ خاں“، کہیں ”محمد اسد اللہ“ اور کہیں صرف ”اسد اللہ“ لکھا ہوا ملتاہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ اس معاملے میں کسی طے شدہ ضابطے کے پابند نہیں تھے۔ دوسری اور تیسری صورتوں میں اصل نام ”اسد اللہ“ کے ساتھ لفظِ ”محمد کے اضافے کاایک سبب یہ بھی ہوسکتاہے کہ ان کے رشتے کے ایک سالے یعنی امراو بیگم کے عمِ حقیقی نبی بخش خاں کے ایک بیٹے کا نام بھی ”اسد اللہ خاں“ تھااور ان کی مہر پر یہی نام کندہ تھا۔چوں کہ غالب اپنے تشخّص کی نگہداری کے معاملے میں خاصے حسّاس تھے، اس لےے عین ممکن ہے کہ انہو ںنے اپنے اور اپنے ان برادرِ نسبتی کے درمیان امتیاز کی غرض سے اپنی مہر پر ”محمد اسد اللہ خاں“ کندہ کرالیاہو۔

          جیسا کہ گزشتہ سطور میں عرض کیاگیا، غالب اپنے نام کے معاملے میں کسی طے شدہ ضابطے کے پابندنہیں تھے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا غالب رجحان ”اسد اللہ خاں“ کی طرف تھا۔ جب اس نام کو سرکاری سطح پر سندِ اعتبار حاصل ہوگئی تو انہوں نے لفظ ”محمد“ کو ترک کرکے صرف ”اسد اللہ خاں“ لکھنا شروع کردیا۔چنانچہ مرزا ہرگوپال تفتہ کو 17 ستمبر1858ء کے خط میں لکھتے ہیں:

“لفظِ مبارک میم، حا، میم، دال“، اس کے ہر حرف پر میری جاں نثا رہے مگر چو نکہ یہاں سے ولایت تک حکّام کے ہاں سے یہ لفظ یعنی ”محمد اسد اللہ خاں“ نہیں لکھا جاتا، میں نے بھی موقوف کردیاہے۔”

          حکّام کاپاسِ خاطر غالب کو کس قدر عزیز تھا، اس کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتاہے، اس لیے ان کے کسی بھی فیصلے یا طرزِ عمل کو وقت اور حالات کے تقاضوں سے بلند ترہوکر دیکھنے کی کوشش کبھی صحیح سمت میں رہنمائی نہیں کرسکتی۔اسی مصلحت کوشی اور احتیاط پسندی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اپنی خاندانی پنشن اور دیگر امور سے متعلق درخواستوں اور مراسلوں پر کبھی اس مہر کے علاوہ کوئی اور مہر نہیں لگائی۔ چنانچہ اس سلسلے کے جو دستاویزات برصغیر اور یورپ کے مختلف محافظ خانوں میں محفوظ ہیں،ان میں سے سترہ (17) کاغذات پر دستخط کے ساتھ یہ مہر بھی ثبت ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ نام کے ساتھ ”محمد“ کا سابقہ موقوف کردینے کے اعلان کے بعد بھی وہ سرکاری نوعیت کی تمام تحریروں پر یہی مہر لگاتے رہے۔ چنانچہ جن سترہ تحریروں پر اس مہر کے نشانات ہماری نظر سے گزرے ہیں، ان میں اولین تحریر 7جولائی 1830ء کی اور آخری تحریر 7 فروری 1867ء کی ہے۔ اس آخری تحریر کی روشنی میں جناب کالی داس گپتا رضا کایہ ارشاد محلِّ نظر قرار پاتا ہے کہ ”غالب کی یہ مہر تقریباً تیس سال تک استعمال میں رہی25۔“ موجودہ شواہد کی بنیاد پر اس کا کم از کم پیتالیس (45) سال تک (1138ھ 1822-23ء تا 2شوال1283 7 فروری 1867ء استعمال میں رہنا ثابت ہے۔

          ہمارے نزدیک یہ مہر نہ تو مذہبی نقطہ نظر سے کسی ”داخلی اور ذہنی انقلاب“ کی آئینہ دا رہے اور نہ اخلاقی سطح پر کسی ”قلبِ ماہیت“ کی نشان دہی کرتی ہے۔ بہ ظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ بہ طورِ خاص سرکاری کاغذات پر ثبت کرنے کے لیے تیار کرائی گئی تھی، کیوں کہ اس سے پہلے کی دونوں مہریں اس کام کے لیے موزوں نہیں تھیں۔ پہلی مہر کا استعمال نام کے ساتھ عرف کے شمول کی وجہ سے خلافِ احتیاط تھا جب کہ دوسری مہریں اس کام کے لیے موزوں نہیں تھیں۔ پہلی مہر کا استعمال نام کے ساتھ عرف کے شمول کی وجہ سے خلافِ احتیاط تھا جب کہ دوسری مہر خالص مذہبی رنگ کی نمائندگی کرتی تھی۔

          اس سلسلے کی چوتھی مہر وہ ہے جسے مالک رام صاحب نے پانچویں نمبر پر جگہ دی ہے۔ اس پر ”یا اسدَاللہ الغالب“ کندہ ہے اور مالک رام صاحب کے مشاہدے یا تحقیق کے مطابق یہ 1269ھ 1852-53ء میں تیار ہوئی تھی۔ مصیبت یا پریشانی کے وقت حضرت علیؓ کو مدد کے لیے پکارنا شیعہ حضرات کے بنیادی عقائد اور روز مرّہ کے معمولات میں شامل ہے۔ یہ مہر اسی عقیدے کے اظہار کا ایک وسیلہ ہے۔ چنانچہ مالک رام صاحب نے اسے مناسب جواز فراہم کرنے کی غرض سے پہلے تویہ وضاحت فرمائی ہے کہ غالب اس زمانے میں یعنی 1852-53ءکے آس پاس مختلف قسم کی ذہنی و مالی پریشانیوں میں مبتلا تھے، جنہوں نے انہیں ”پراگندہ روزی، پراگندہ دل“ کا مصداق بنادیاتھا۔اس کے بعد 1854ء کے چند واقعات کے حوالے سے ان کی ”خوش اعتقادی اور نیک نیتی“ کے بار آور اور اس استعانت کے مقبول و مستجاب ہونے کے کئی ثبوت پیش کیے ہیں۔ یہ شواہد حسب ذیل ہیں:

(1) ذوق کے انتقال (4 نومبر 1845ع) کے بعد استادِ شاہ کے منصب پر تقرر۔

(2) ولی عہد مرزا غلام فحرالدین رمز کا حلقہ تلامذہ میں شامل ہونا اور چار سو روپے سالانہ وظیفہ مقرر کرنا۔

(3) طفر کے سب سے چھوٹے بیٹے مرزا خضر سلطان کا شاگرد ہونا۔

(4) سلطنتِ اودھ سے رسم و راہ میں استواری اور واجد علی شاہ کی طرف سے پانچ سو روپے سالانہ بہ طورِ وظیفہ مقرر ہونا۔

          یوں تو غالب کی زندگی میں کوئی دور ایسا نہیں گزراجب کہ انہوں نے اپنی خواہشات اور توقعات کے مطابق آسودگی اور مرفّہ الحالی کی زندگی گزاری ہو تاہم 1853ء میں یا اس سے کچھ پہلے آلام و مصائب کی کوئی ایسی غیر معمولی صورتِ حال نظر نہیں آتی جس میں وہ مالک رام صاحب کے بقول ”بہ آوازِ بلند فریاد“ پر مجبور ہوں اور حضرت علیؓ کو ان کی مشکل کشائی کا واسطہ دے کر مدد کے لیے پکاریں۔ اس کے برخلاف یہ وہ زمانہ ہے جب کہ بہادرشاہ ظفر کی سرکار سے ”نجم الدولہ، دبیر الملک، نظام جنگ“ کے خطابات اور پچاس روپے ماہوار کے مشاہرے کے ساتھ سلاطینِ مغلیہ کی تاریخ نویسی کے منصب پر تقررکے بعد ان کی اناکی تسکین اور اسبابِ معیشت کی بہتری کا اچھا خاصا سامان مہیا ہو گیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں مالک رام صاحب کی تمام تاویلات و توجیہات دوراز کار قیاسات پر مبنی ہیں،کیوں کہ یہ مہر 1269ھ میں نہیں، اس سے پورے بیس برس پہلے1269ھ 1833-34ء میں کندہ کرائی گئی تھی۔ اس کے دستیاب نقش میں چار کی دہائی واضح نہیں۔ مالک رام صاحب نے اسے پہلی نظر میں غلطی سے چھ پڑھ لیا، اس کے بعد دوبارہ اس پر غور کرنے اور دوسرے ذرائع سے اس کی تصدیق کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، حال آنکہ یہ زیادہ مشکل کام نہ تھا۔ غالب نے اپنا دیوانِ فارسی ”مے خانہ آرزو سرانجام“ کے نام سے 1250ھ 1834-35ء میں مرتب کیا تھا۔ اس کا دیباچہ ان کے کلیاتِ فارسی کے علاوہ ”کلیاتِ نثرِ غالب“ میں بھی شامل ہے۔ اس دیباچے میں ایک جگہ انہوں نے لکھا ہے

دل بہ شراکِ نعلینِ محمدی آویختن کیش و آئینِ من و طغراے والاے ”یا اسدَاللہ الغالب“ نقشِ نگینِ من۔“26

          اس سے ظاہرہے کہ یہ مہر اس دیوان کی ترتیب سے پہلے تیار ہوچکی تھی۔ 1250ھ سے پہلے اور اس کے بعد لیکن 1260ھ سے بہت پہلے کی غالب کی ایسی کئی تحریریں راقم الحروف کی نطر سے گزر چکی ہیں جن کا آغاز انہو ںنے ”یا اسداللہ الغالب“ سے کیا ہے۔ مثلاً:

(1) مکاتیبِ غالب کے اس مجموعے میں جو پہلے پروفیسر مسعود حسن رضوی کی ملکیت تھااو راب مولانا آزاد لائبریری،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ مخطوطات میں محفوظ ہے، مثنوی ”بادِ مخالف“ کے سرِ عنوان ”یا اسداللہ الغالب“ لکھا ہوا ہے۔ اس مجموعے کی تمام تحریریں غالب کے قیامِ کلکتہ کے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں۔

(2) “مآثرِ غالب” میں شامل فارسی خطوں میں سے ایک خط کا آغاز”یا اسداللہ الغالب“ سے ہواہے۔ یہ خط خواجہ فخراللہ کے نام ہے اور 10 رمضان 1148ھ مطابق 31 جنوری 1833ء کو لکھا گیا ہے۔

(3) خدابخش لائبریری، پٹنہ میں غالب کے کلیاتِ نظم فارسی کاایک قلمی نسخہ محفوظ ہے جسے ان کے دوست راے چھج مل نے لکھ کر 11 ربیع الآخر 1254ھ 4 جولائی 1838ء کو مکمل کیاہے۔ اس کے ایک صفحے کے حاشےے پر ”نامہ منظوم بہ نامِ جوہر“ کی ابتدابھی ”یا اسداللہ الغالب“ ہی سے ہوئی ہے۔

(4) دیوان غالب کے 1257ھ 1841ء میں شائع شدہ پہلے ایڈیشن کا آغاز بھی یا اسداللہ الغالب ہی سے ہوا ہے۔

          حضرت علیؓ سے استعانت کایہ متواتر عمل غالب کی اس زمانے کی ذہنی و مالی پریشانیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

          ان ایام میں وہ جن مسائل و مصائب سے دوچار تھے، ان کا انداز مندرجہ ذیل واقعات سے کیا جا سکتا ہے:

(1) 1826ع کے آس پاس میرزایوسف مرضِ جنون میں مبتلا ہوے اور انہوں نے تقریباً تیس برس اسی حالت میں گزارے۔ چھوٹے بھائی کی یہ علالت غالب کے لیے ہمیشہ سوہانِ روح بنی رہی لیکن شروع میں کئی برس وہ اس کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی پریشان رہے۔

(2) امراو بیگم کو اپنے چچا نواب احمد بخش خاں کی سرکار سے تیس روپے ماہوار وظیفہ ملتا تھا۔ اکتوبر 1827ء میں نواب صاحب کی وفات کے بعد جو حالات رونما ہوئے، ان کے زیرِ اثر ان کے جانشین نواب شمس الدین احمد خاں نے غالباً 1830ء یا 1831ء میں یہ وظیفہ منسوخ کردیا۔ بیوی کی اس مستقل آمدنی کے بند ہوجانے سے گھر کی اقتصادی حالت کا متاثر ہونا ناگزیر تھا۔

(3) معتمد براے گورنر جنرل کے خط مورخہ 27 جنوری 1831ء کے ذریعے اس فیصلے سے آگاہ ہونے کے بعد کہ حضورِ والا(گورنرجنرل)نصراللہ خاں کے متوسلین کی مالی امداد کے ضمن میں فیروزپور کے جاگیردار کے کےے ہوئے انتظام میں مداخلت پسند نہیں فرمائیں گے“غالب اپنے مقدمہ پنشن کی ناکامی پر عرصے تک بے حد افسردہ اور پریشان رہے۔ اس کے بعد اپریل 1844ء تک ان کا بیشتر وقت اس مقدمے کی اپیل کی کامیابی کے لیے تگ ودو میں صرف ہوا۔

(4) سقیم مالی حالت اور رئیسانہ طرزِ زندگی کی وجہ سے قرص کا بوجھ برابر بڑھتا جارہاتھا۔ پنشن کے مقدمے میں گورنر جنرل کے فیصلے کے بعد قرض خواہوں کے تقاضوں نے غالب کی زندگی اجیرن کررکھی تھی۔ انجامِ کار فروری 1835ء میں عدالتِ دیوانی سے ان کے خلاف پانچ ہزار کی ڈگری ہوگئی۔

          یہ تھاوہ پس منظر جس میں یہ مہر تیار ہوئی۔ یہ معلوم ہوجانے کے بعد کہ یہ1249ھ میں کندہ کرائی گئی تھی، یہ بات از خود طے ہوجاتی ہے کہ غالب کی اب تک دریافت شدہ مہروں میں اس کا چوتھا نمبر تھا۔

          محمد مشتاق تجاروی کابیان ہے کہ پروفیسرمختارالدین احمد کے خیال میں یہ مہر بدرالدین کے علاوہ کسی اور مہر کن کی کندہ کی ہوئی معلوم ہوتی ہے27۔ ہمیں اس خیال سے اتفاق کی بہ ظاہر کوئی معقول وجہ نظر نہیں و تی کیوں کہ اس کے حروف کی کشش اور نشست میں کوئی ایسا نقص موجود نہیں جو بدرالدین کی شانِ خط کے منافی ہو۔ البتہ اس کا جو نقش دستیاب ہواہے، وہ بہت صاف نہیں۔ یہی سبب ہے کہ مالک رام صاحب کو اس پر درج سنہ کے پڑھنے میں تسامح ہوا۔اس کیفیت کی وجہ سے بعض حروف کی ہیئتِ ظاہری بھی متاثر ہوئی ہے۔ غالباً اسی بناپر مختارالدین احمد صاحب کو یہ شبہ ہواکہ یہ بدرالدین کے علاوہ کسی اور کی بنائی ہوئی ہے۔

          پانچویں، چھٹی اور ساتویں، تینوں مہریں غالب کے شاہی خطاب ”نجم الدولہ، دبیرالملک، نظام جنگ“ سے تعلق رکھتی ہیں۔ مالک رام صاحب نے ان میں سے صرف آخری یعنی ساتویں مہرکا ذکر فرمایاہے اور اپنے حساب کے مطابق اسے چوتھے نمبر پر رکھاہے۔ چو ںکہ یہی مہر اس سلسلے کی باقی دو مہروں تک ہماری رسائی کا وسیلہ بنی ہے، اس لےے مناسب معلوم ہوتاہے کہ گفتگو کا آغاز اسی کے ذکر سے کیا جائے۔ اس ساتویں مہر پر غالب کا نام مع ان کے خطابات کے اس طرح کندہ تھا:

“نجم الدولہ، دبیر الملک، اسد اللہ خاں بہادر، نظام جنگ”

          دائیں طرف کے زیریں گوشے میں لکھے وئے سنہ کے مطابق یہ مہر 1267ھ میں تیار ہوئی تھی۔ غالب کو متذکرہ بالا خطابات بہادرشاہ ظفر نے 23 شعبان 1266ھ مطابق 4 جولائی 1850ء کو عطا کےے تھے اور ”تاریخ نویسی تاجدارانِ تیموریہ“ کی خدمت ان کے سپرد فرمائی تھی۔ مالک رام صاحب نے خود غالب کی ایک فارسی تحریر کے طویل اقتباس، ”اسعد الاخبار“ آگرہ کے 15 جولائی 1850ء کے شمارے میں شائع شدہ مفصل خبر اور مرزاہرگوپال تفتہ کے کہے ہوے قطعہ تاریخ کے حوالے سے اس سلسلے کی تمام تفصیلات اپنے مضمون میںیکجا فرمادی ہیں لیکن ایک پہلو کو بالکل نظرانداز کردیاہے کہ یہ خطابات تو 1266ھ میں ملے تھے پھر یہ مہر 1267ھ میں کیوں تیار ہوئی؟ خود اشتہاری غالب کے مزاج کاایک نمایاں عنصر تھی چنانچہ یہ بات ان کی نفسیات کے بالکل خلاف معلوم ہوتی ہے کہ وہ مہینوں نئی مہر کی تیاری کا انتظار کرتے اور اس اعزاز کے اعلان و اشتہار کے اس سہل الحصول اور موثر وسیلے سے اتنے دنوں تک محروم رہتے۔ اگر فاضل محقق کے ذہن میں یہ خلش پیداہوئی ہوتی اور انہوں نے اسے دور کرنے کے لےے غالب کی اس زمانے کی تحریروں پر بہ نظر غائر توجہ فرمائی ہوتی تو اس انکشاف میں زیادہ دیر نہ لگتی کہ وہ اس مہر سے پہلے ان خطابات پر مشتمل ایک نہیں، دو مہریں 1266ھ ہی میں تیار کراچکے تھے۔ لیکن چوں کہ یہ مہریں ان کے معیا رپر پوری نہیں اتریں اس لےے انہوں نے انہیں رد کرکے جلد ہی ایک اور مہر تیار کرالی جو عرصہ دراز تک ان کے استعمال میں رہی۔ اپنے شاگردِ عزیز منشی جواہر سنگھ جوہر کے نام 23 اکتوبر 1850ء(16 ذی قعدہ 1266ھ) کے خط میں لکھتے ہیں:

“روزے بودکہ نامہ بہ من رسیدکہ نگارش از شمابود و مہر از من۔ گفتم: سبحان اللہ شگرفیِ آثارِ یگانگی و اتحاد کہ ہم نامہ بہ نامِ من است وہم بہ مہرِ من چوں آں ورق بہ من رسید و من دراں وقت تنہا بودم، مشاہدہ نقشِ خاتمِ خویش برمکتوبِ موسومہ خویش مرابہ وجد آورد۔ بالجملہ چشم بہ راہِ نگینِ مہر داشتم، دی روز کہ سہ شنبہ و بست ودومِ اکتوبر بود، رسید۔ ہمانا مہر کن در کشمیر نہ ماند، ع مجلس چو برشکست، تماشا بہ مارسید۔ پس از پزوہش پدید آمد کہ قریبِ صد کس از ہوسناکانِ دہلی نگیں ہافرستادہ در کشمیر کند اندہ اندوہمہ شرمسار و پشیماں شدہ اند۔ حالیا آں سعادت نشاں راباید کہ دردِ سر نہ کشند و مہرِ دیگر بہ کندن نہ دہند۔ امروز دریں فن نظیر بدرالدین بہ گیتی نیست۔ چوں اوبدنوشت، پندارم کہ خوبیِ سرنوشتِ من است۔“28

          اس تحریر سے دوباتیں معلوم ہوتی ہیں، پہلی یہ کہ 4 جولائی اور 22 اکتوبر 1850ء کے درمیان غالب نے دلّی کے مشہور مہر کن بدرالدین سے اس خطاب کی یادگار کے طورپر ایک تازہ مہر تیار کرائی تھی جو انہیں کسی وجہ سے پسند نہیں آئی۔ دوسری یہ کہ اس مہر کو رد کردینے کے بعد انہوں نے اپنے شاگرد منشی جواہر سنگھ جوہر سے جو اس زمانے میں پنجاب میں کسی جگہ برسرِ روزگار تھے، یہ فرمائش کی کہ وہ کشمیر کے کسی مہرساز سے ان کی مہر تیار کرادیں۔ یہ دوسرانگینہ انہیں 22 اکتوبر 1850ء کو موصول ہوا، لیکن اس کی نقاشی سے بھی وہ مطمئن نہیں ہوئے۔ غالباً اس کے بعد ہی 1267ھ میں اس سلسلے کی وہ تیسری مہر تیا رہوئی جسے مالک رام صاحب نے چوتھے اور ہم نے ساتویں نمبر پررکھا ہے۔ احوالِ ظاہری کے اعتبارسے یہ مہر بھی بدرالدین ہی کی تیارکردہ معلوم ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ انہو ںنے پچھلی مہر کے بارے میں غالب کی ناپسندیدگی کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اس کی تیاری پر خصوصی توجہ صرف کی ہو۔

          پروفیسر مختارالدین احمد صاحب کابیان ہے کہ قیامِ آکسفورڈ کے دوران 1956ء میں انہوں نے ایک بار اس مہر کی زیارت کی تھی۔ تقریب یہ ہوئی کہ حیدرآباد سے ڈاکٹر نظام الدین صاحب اور آغا حیدر حسن صاحب کے داماد وہاں تشریف لائے ہوئے تھے۔ ایک روز جب وہ ان دونوں حضرات کو ایشمولین میوزیم کا وہ شوکیس دکھا رہے تھے جس میں مختلف قسم کی انگوٹھیاں اور مہریں رکھی ہوئی تھیں تو ڈاکٹر نظام الدین صاحب نے اپنے ہم سفر کی انگلی کی طرف اشارہ کیااو ران سے پوچھا: اس مہر کو آپ پہچانتے ہیں؟ یہ مرزا غالب کی مشہور مہر تھی۔ عقیق پر نہایت خوبصورت حروف میں ”نجم الدولہ، دبیر الملک، نظام جنگ“کے الفاظ منقوش تھے۔ مختلف کاغدوں پر متعدد بار اس کے نقوش دیکھنے میں آئے تھے۔29

          مختارالدین احمد صاحب کے علاوہ ڈاکٹر ضیاءالدین احمد شکیب نے بھی اپنی کتاب ”غالب اور حیدرآباد“ میں اس مہر کا ذکر کیاہے، جس سے اندازہ ہوتاہے کہ یہ 1969ء تک آغا حیدرحسن کے ہاں موجود تھی۔ شکیب صاحب لکھتے ہیں:

“پروفیسرآغاحیدرحسن کے یہاں میرزا غالب کاایک چغہ اور ان کی ایک مہر ہے۔ یہ مہر جگری عقیق پر کندہ ہے۔ اس مہر کی عبارت حسبِ ذیل ہے:

“نجم الدولہ، دبیرالملک، اسد اللہ خاں غالب، نظام جنگ”

1262ھ

آغا حیدرحسن صاحب کے بیان کے مطابق غالب کی یہ مہر شاہی مہر کن بدرالدین نے تیار کی تھی۔“30

          اس مہر سے متعلق یہ دونو ںبیانات تحقیقی اعتبار سے ناقص اور وضاحت طلب ہیں۔ مختارالدین احمد صاحب کے بیان کا نقص یہ ہے کہ انہو ںنے صرف اجزاے خطابی نقل فرمائے ہیں، مہر کے باقی اندراجات کو نظر انداز کردیاہے، جب کہ شکیب صاحب کی نقل کردہ عبارت میں ”اسد اللہ خاں“ اور ”نظام جنگ“ کے درمیان ”غالب“ کا اندراج او رنیچے دیاہوا سنہ مشکوک ہے۔ سنہ کے بارے میں یقین کے ساتھ کہا جاسکتاہے کہ اس کے نقل کرنے میں سہوہواہے، خواہ اس کے ذمّہ دار خود صاحبِ کتاب ہو ںیا ان کا کاتب۔ اسے ہرحال 1266ھ یا 1267ھ ہونا چاہیے۔ اگریہ 1266ھ ہے تویہ مہر یقینا اس مہر سے مختلف ہے جسے مالک رام صاحب نے اپنے مضمون میں متعارف کرایاہے اور اگر 1267ھ ہے تو اس میں نام کے بعد لفظِ ”بہادر“ کی بجاے تخلص یعنی ”غالب“ کا اندراج خلافِ واقعہ ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ دراصل یہ وہی مہر ہے جو منشی جواہر سنگھ جوہر نے کشمیر کے کسی مہرساز سے کندہ کراکے اکتوبر 1850ء میں غالب کو بھیجی تھی۔ اس کے رد کیے جانے کی وجہ بہ ظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس میں نام کے ساتھ ”بہادر“ کالاحقہ موجود نہیں تھا، جس کا شمول از روے قاعدہ بے حد ضروری تھا۔اس سلسلے میں منشی شیونرائن آرام کے نام ستمبر 1858ء کے ایک خط کا یہ اقتباس ملاحظہ طلب ہے:

“سنو، میری جان!نوابی کا مجھ کو خطاب ہے ”نجم الدولہ“ اور اطراف و جوانب کے امرا سب مجھ کو ”نواب“ لکھتے ہیں، بلکہ بعض انگریز بھی یاد رہے”نواب“ کے لفظ کے ساتھ ”میرزا“ یا ”میر“ نہیں لکھتے۔ یہ خلافِ دستور ہے۔ یا ”نواب اسد اللہ خاں“ لکھو یا ”میرزا اسد اللہ خاں“ اور ”بہادر“ کا لفظ تو دونوں حال میں واجب اور لازم ہے۔”

          یہ مہر چوں کہ شکیب صاحب کی نطر سے گزر چکی تھی، اس لیے نومبر 2004ء میں جب وہ لندن سے حیدرآباد تشریف لائے تو میں نے اپنے شبہات کا حوالہ دیتے ہوئے ان سے رجوع کیاکہ وہ صحیح صورتِ حال سے مطلع فرمائیں۔ موصوف نے اس کے جواب میں اپنے مکتوب مورخہ 29 نومبر 2004ء میں جو وضاحت فرمائی ہے وہ حسب ذیل ہے:

غالب کی یا غالب سے منسوخ جس مہر کاذکر ”غالب اور حیدرآباد“ میں ہے،وہ اب ہماری دسترس سے باہر ہے۔ یہ مہر پروفیسر آغا حیدرحسن کی ملکیت تھی۔ انہوں نے جناب محمد اشرف صاحب کو تحفةً دے دی تھی۔ محمد اشرف صاحب وہی ہیں جنہوں نے سالار جنگ میوزیم کے مخطوطات کا کیٹلاگ کئی جلدوں میں شائع کیامیں نے غالب کی یہ مہر محمد اشرف صاحب کے یہاں دیکھی تھی۔ جہاں تک یاد ہے وہ خود اس مہر سے مطمئن نہیں تھے۔ اس کاذکر میں نے پروفیسر آغا حیدر حسن صاحب سے کیا ۔آغا صاحب نے اپنی روایات کے مطابق وثوق سے کہا کہ یہ مرزا غالب کی ہے بلکہ یہ تک وضاحت کی، یہ بدرالدین مہر کن کی کندہ کی ہوئی ہے۔ آغا صاحب قلعہ معلّٰی کی یادگار تھے۔ ان کے گھرانے اور مرزا غالب کے گھرانے کے تعلقات قدیم تھے۔ میں کیاجواب دیتا۔ لہٰذا میں نے تمام اختلافات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ”غالب اور حیدرآباد“ میں اس کا ذکر کردیا۔اب یہ آپ جیسے محققین کا کام ہے کہ اس کے بارے میں کوئی قطعی راے قائم فرمائیں۔

          جہاں تک مجھے یقین ہے”غالب اور حیدرآباد“ میں مہر کا متن جو دیاگیاہے،و ہ درست ہے۔ اس میں سہوِ کتابت کو دخل نہیں۔ ممکن ہے کہ مہر میں تاریخ غلط کندہ ہوگئی ہو، اس لےے اس کو استعمال نہ کیاگیاہو۔ پڑی رہی ہو اور خاندانی تعلقات کی وجہ سے آغا حیدرحسن صاحب تک پہنچی ہو۔

جس وسیلے سے یہ مہر ہم تک پہنچی، اس کی وجہ سے ہم اس کو ‘فیک’ تو نہیں کہ سکتے، لیکن اگر غلط کندہ ہوگئی ہو تو

Discarded

کہہ سکتے ہیں۔

شکیب صاحب کی اس تحریر سے معلوم ہوجانے کے بعد کہ آغا حیدر حسن صاحب نے یہ مہر محمد اشرف صاحب کو تحفةً عنایت فرمادی تھی، یہ مناسب معلوم ہوا کہ آغا صاب کے داماد میرمعظم حسین صاحب سے درخواست کی جائے کہ وہ اس کے بارے میں حصول معلومات میں مدد فرمائیں۔ موصوف نے میرے 4 فروری 2005ء کے خط کے جواب میں 25 فروری 2005ء کو تحریر فرمایا:

“آپ نے خط میں جس مہر کا ذکر کیا ہے،اس کا مجھے علم نہیں ہے، لیکن میری شادی کے موقعہ پر میرے خسر پروفیسر آغا حیدرحسن مرزا نے مجھے ایک انگوٹھی عنایت کی تھی جس کو میں نے پچاس سال سے زائد اپنے ہاتھ پرپہنا۔ اُس انگوٹھی پر اسداللہ خاں غالب کے خطابات کندہ تھے۔ میں اس انگوٹھی کو اب محفوظ کروادیاہوں جس کی وجہ سے اس کا عکس بھیجنے سے قاصر ہوں۔”

          اس مایوس کن جواب کے بعد بہ ظاہر اب اس مہر تک رسائی کی کوئی امید نظر نہیں آتی، اس لےے باقی مہروں کی طرح اسے بھی متاعِ گم گشتہ تصور کرکے طاقِ نسیاں کے کسی گوشے میں ڈال دینا چاہےے۔ راقمِ سطور اپنے اس خیال پر بہر حال قائم ہے کہ غالب نے اسے نام کے بعد لفظِ ”بہادر“ کی عدم موجودگی کی وجہ سے مسترد کردیاہوگا۔شکیبصاحب کی راے کے مطابق سنہ کا غلط کندہ ہوجانا بھی اس کی وجہ ہوسکتی ہے لیکن اس کا امکان بہت کم ہے۔ اس کے برخلاف بے خیالی یا رواروی کے باعث اکائی کے عدد چھ (6) کا دو(2) پڑھ لیا جانا عملی تجربات کی روشنی میں زیادہ قرینِ قیاس معلوم ہوتا ہے۔

          جس طرح ساتویں مہر کے متعلق غوروخوض کے نتیجے میں اس چھٹی مہر کے وجود کا علم ہوا،اسی طرح اس چھٹی مہر کے حوالے سے یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ انہی خطابات پر مشتمل ایک مہر اس سے قبل بھی تیار ہوچکی تھی۔ ”امروز دریں فن نظیر بدرالدین بہ گیتی نیست۔ چوں اوبدنوشت، پندارم کہ خوبیِ سرنوشتِ من است۔“ سے اشارہ ملتاہے کہ یہ مہر بدرالدین نے کندہ کی تھی لیکن غالب اس سے مطمئن نہیں تھے۔ انہو ںنے اپنی اس بے اطمینانی یا ناپسندیدگی کا سبب مہر ساز کی بدنویسی کو ٹھہرایاہے، لیکن یہ بات اس لےے قابلِ قبول نہیں معلوم ہوتی کہ ”بدرالدین“ اور ”بدنویسی“ میں بہ ظاہر لفظِ ”بد“ کے سوا کوئی چیز مشترک نہیں تھی۔ غالب کی اس زمانے کی تحریریں تقریباً نایاب ہیں۔ کافی تلاش و جستجو کے بعد ہمیں صرف ایک خط دستیا ب ہواہے جس پر یہ مہر ثبت تھی، لیکن یہ اصل خط نہیں، اس کی نقل ہے، اس لےے اس کی روشنی میں اس مہر کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ خط مفتی سید احمد خاں بریلوی کے نام ہے اور پنجشنبہ 3 اکتوبر 1850 کو یعنی منشی جواہر سنگھ جوہر کے بھیجے ہوئے نگینے کے دہلی پہنچنے سے صرف انیس (19) دن پہلے لکھا گیاہے۔اسے محمد ابرار علی صدیقی نے اپنی کتاب ”آئینہ دلدار“ میں جو میاں دلدار علی مذاق بدایونی کی سوانح عمری ہے، دوسرے کئی خطوط کے ساتھ نقل کیاہے۔ خط کے آخر میں مہر کی عبارت بھی بہ ظاہر اس کی ہیئتِ اصلی کے مطابق ایک مستطیل کی شکل میں نقل کردی گئی ہے31۔ پانچویں مہر کی یہ دستی نقل ساتویں مہر کے دستیاب نقوش سے صرف اس قدر مختلف ہے کہ یہ سنہ کی قید سے عاری ہے جب کہ آخرالذکر میں اس کی تیاری کا سنہ (1267ھ) بھی موجود ہے۔ لیکن یہ محض اتفاق بھی ہوسکتاہے کیوں کہ ساتویں مہر جو 1267ھ کے بعد برابر زیرِ استعمال رہی، اس کی ایسی کئی نقلیں بھی ہمارے علم میں ہیں جن میں سنہ کا اندراج نہیں۔ ان حالات میں زیرِ بحث پانچویں مہر کی کیفیتِ ظاہری کے بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ کہنا دشوار ہے۔ البتہ مفتی سیّداحمد کے نام کے خط پر اس کے نقش کی موجودگی میں اس کے وجود پر کسی شبہے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

          غالب نے اپنی آخری مہر 1278ھ (1861-62) میں یعنی اپنی وفات سے تقریباً سات سال قبل تیار کرائی تھی۔ اس مہرکی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ ان کی دوسری تمام مہروں کی بہ نسبت کافی مختصر ہے یعنی اس پر صرف ان کا تخلص (غالب) اور تیاری کا سنہ (1278ھ) کندہ ہے۔ اس کا پس منظر بیان کرتے ہوئے مالک رام صاحب لکھتے ہیں:

“جو لوگ نفسیات سے واقف ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ نفسِ انسانی میں ”انا“ کے ارتقا کا انتہائی مقام یہ ہے کہ انسان کسی غیر معمولی کامیابی کے بعد اپنے تعارف کے لیے مختصر ”علَم“ کا استعمال کرنے لگتا ہے۔“(ص88)

          غالب کی اس نفسیاتی کیفیت کو انہوں نے جن دو غیر معمولی کامیابیوں کا نتیجہ قرار دیاہے، ان میں سے پہلی ”قاطعِ برہان“ کی اشاعت ہے جو ان کے بقول ”ہندوستان کے فارسی دانوں کے خلاف ساری عمر کے جہاد“ کا ایک عملی ثبوت بھی تھی اور ”علی الاعلان عام دعوتِ مبارزت بھی“۔ یہ کتاب 20 رمضان المبارک 1278ھ مطابق 22مارچ 1862ء کو اس زمانے کے سب سے مشہور و ممتاز طباعتی ادارے مطبعِ منشی نول کشور، لکھنو میں چھپ کر شائع ہوئی تھی۔ دوسری بڑی کامیابی یہ تھی کہ اسی سال مطبعِ نول کشور میں ان کے کلیاتِ فارسی کی طباعت شروع ہوئی جو اگلے سال یعنی 1863ء میں مکمل ہوگئی۔ اس سلسلے کی تمام ضروری تفصیلات قلمبند کرنے کے بعد محترم محقق اس نتیجے پر پہنچے ہیں:

“1862ع۔ 1863ء میرزا کی زندگی میں نہایت اہم سال ہیں۔ ”قاطعِ برہان“ اگر دوسروں کی شکست کا اعلان تھاتو کلیات ان کی فتح مندی کا ثبوت۔ اسی سال ان کا اپنے نگیں پر ”غالب“ کندہ کرانا اسی حقیقت کا ایک اور پیراے میں اظہارہے۔ اب گویا انہوں نے اس دعوے پر مہر لگادی کہ فارسی علم و زبان کے لحاظ سے میں ”علیٰ کلٍّ غالب“ ہوں۔“(ص90-91)

          کسی بھی معروف طباعتی و اشاعتی ادارے سے بہ یک وقت دو کتابوں کی اشاعت کسی بھی مصنف کے لیے فخر و مباہات کا باعث ہوسکتی ہے۔ غالب کو بھی اس سے مستثنٰی نہیںکیا جاسکتا۔لیکن یہ اتنی بڑی کامیابی یقینا نہیںکہ غالب جیسا یگانہ روزگار فن کار اس کی علامت کے طورپر ایک مہر تیار کراکے اسے یادگار بنادے۔ دنیا میں ہزاروں کام ایسے ہیں جن کی انجام پذیری میں وقت کا تعین کوئی اہمیت نہیں رکھتا، مگرجب وہ انجام پاجاتے ہیں تو وقت کے ساتھ ان کے تعلق کی متعدد توجیہات و تاویلات کی جاسکتی ہیں اور حسبِ اتفاق ان میں سے کوئی توجیہہ یا تاویل واقعے کے عین مطابق بھی ہوسکتی ہے۔ اس مہر کے سلسلے میں مالک رام صاحب قبلہ کے ارشادات بھی اسی ضمن میں آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غالب کو بیس پچیس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے اپنی انفرادیت کا بہ خوبی ادراک و احساس ہوگیاتھا۔ کلکتے میں قیام کے دوران قتیل کی زبان دانی پر ان کے اعتراضات کو بجاطورپر ہندوستانی فارسی دانوں کے خلاف ان کے مبیّنہ جہاد کا نقطہ آغاز کہا جاسکتاہے۔ اس وقت اپنے بیان کردہ سالِ ولادت (1212ھ) کی رو سے وہ عمر کی بتّیسویں منزل میں اور ہماری تحقیق کے مطابق چھتیسویں سال میں تھے۔ اس کے بعد انانیت کی یہ لے متواتر تیز ہوتی رہی۔ حتّی کہ نصف صدی پوری کرتے کرتے انہیں وہ مقام حاصل ہوگیاجہاں شہرت کے پرِ پرواز لگاکر اڑنے والے کسی رسمی تعارف کے محتاج نہیں رہتے۔ چنانچہ 1260ھ 1844ء میں انہوں نے نواب وزیرالدولہ والیِ ٹونک کی خدمت میں جو قصیدہ مدحیہ ارسال کیاتھا، اس کے ایک شعر میں یہ واضح اعلان موجود تھا:

نامم بہ سخن غالب و رشن ترم از روز

بے ہودہ چرا جلوہ دہم اسم و علم را

          تقریباً اسی زمانے میں (پنج آہنگ کی اشاعت سے قبل) انہوں نے میاں نوروز علی خاں کو پہلی بار خط لکھاتو جواب کے لےے پتے میں صرف ”بہ دہلی بہ اسد الہ برسد“ کو کافی قرار دیا۔22 مارچ 1858ء کے خط میں مرزا تفتہ کو بھی اسی مختصر پتے پر اکتفا کی ہدایت کی گئی ہے۔ان دونوں خطوط کے اقتباسات گزشتہ صفحات میں پیش کےے جاچکے ہیں۔ ایک اور خط مرزا حاتم علی مہر کے نام ہے جو 1861ء میں لکھا گیا تھا، اس میں لکھتے ہیں:

“آپ کو معلوم رہے کہ میرے خط کے سرنامے پر محّلے کا نام لکھنا ضروری نہیں۔شہر کا نام اور میرا نام، قصہ تمام”

          اسی ہدایت کا اعادہ چار برس کے بعد مولوی عبدالرزّاق شاکر کے نام کے ایک خط میں بھی کیا گیا ہے۔ یہ خط مرزا صاحب نے ستمبر 1865ء میں رام پور کے سفر پرروانگی سے قبل تحریر فرمایاتھا۔ مکتوب الیہ موصوف کو مطلع فرماتے ہیں:

          “اب کوئی خط آپ بھیجیں تو رام پور بھیجیں۔ مکان کا پتا لکھنا ضروری نہیں۔ شہر کا نام اور میرا نام کافی ہے۔”

          پیش کردہ مثالو ںمیں سے تین مثالیں 1278ھ 1862ء سے قبل کے زمانے سے متعلق ہیں۔ چوتھی اور آخری مثال اگرچہ 1278ھ سے بعد کی ہے لیکن اس اعتبار سے بے حد اہم ہے کہ یہ برونِ دہلی یعنی رام پور کے عارضی قیام کے زمانے سے تعلق رکھتی ہے۔ ان سبھی مثالوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ غالب اپنی شخصیت کی یکتائی سے بہ خوبی واقف تھے اور اپنے وقار کے تحفظ اور انا کی سربلندی کے لیے ہمہ وقت سرگرم و فکرمند رہتے تھے۔ ”ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے“ کسی شہر کی تخصیص کے بغیر ایک ایسا سوال تھاجس کا جواب ان کے تصور کے مطابق ”نہیں“ کے سوا کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ ایک اتفاقی امر ہے کہ ان کی یہ آخری مہر جس پر صرف ان کا تخلص کندہ ہے، 1278ھ میں تیارہوئی، ورنہ اس سے مالک رام صاحب کے بقول جس نفسیاتی کیفیت کا اظہارہوتاہے، وہ اس سے اٹھارہ برس قبل 1260ھ میں کہے ہوے ان کے اس شعر سے بھی ظاہر ہے جس میں ”اسم و علم“ سے بے نیازی اور صرف تخلص کے حوالے سے اَبَین مِنَ الامس(روشن تراز روز) ہونے کادعویٰ کیا گیاہے۔ ہا ںیہ امر بھی قابلِ لحاظ ہے کہ انہو ںنے اپنی بعض تحریروں میں شعروادب کے تناظر میں صرف تخلص کے حوالے سے اور مراسلت و مکاتبت کی حالت میں نام کی مختصر ترین شکل ”اسد اللہ“ کے ذریعے روشناسِ خلق ہونے پر جو اصرار کیاہے،وہ کسی داخلی مغائرت یا تضادکا مظہر نہیں۔ تعارف کی یہ دونوں صورتیں ”ہرسخن وقتے و ہر نکتہ مکانے دارد“ کے بہ مصداق ایک ہی باطنی کیفیت کی نشان دہی کرتی ہیں۔

          غالب کی جن مہروں کے نقوش اہلِ علم کی دسترس میں ہیں،ان میں یہ آخری مہر وہ واحد مہر ہے جس کے خط کی ناپختگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ بدرالدین کی بنائی ہوئی نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ غالب کے کسی دوست یا شاگرد نے یہ سوچ کرکہ شاعر کی حیثیت سے غیر معمولی شہرت و ناموری کے باوجود انہوں نے اپنے تخلص کے ساتھ کوئی مہر کندہ نہیں کرائی، یہ مہر بہ طورِ خود کسی معمولی مہر ساز سے تیار کراکے ان کی خدمت میں پیش کردی ہو اور انہوں نے اس دوست یا شاگرد کے پاسِ خاطر کی بناپر اسے رد کردینا مناسب نہ سمجھا ہو۔ اس سوال کا کہ ان کی نفاست پسندی کیوں کر اس کی متحمل ہوئی، اس کے علاوہ کوئی اور جواب سمجھ میں نہیں آتا۔

          مفصّلہ بالا تجزےے سے ظاہر ہے کہ مالک رام صاحب نے ان مہروں کی تیاری کے سلسلے میں جو تاویلات پیش فرمائیں ہیں، ان میں سے بیشتر قابلِ قبول نہیں۔ لیکن ان کے اس بنیادی موقف سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ ان میں سے ہر مہر اپنا ایک نفسیاتی، مذہبی یا تاریخی پس منطر رکھتی ہے۔ اس اعتبار سے غالب کی پر پیچ شخصیت اور ذہن و مزاج کی تفہیم میں دوسرے خارجی وسائل کے ساتھ ان مہروں کا کردار بھی مناسب توجہ کا مستحق ہے۔ یہی ایک بات ان کے بارے میں تحقیق و تنقید کا جواز فراہم کرتی ہے۔

حواشی:

1۔ غالب شناس مالک رام، از ڈاکٹر گیان چند، غالب اکیڈمی،نئی دہلی، 1996، ص67

2۔ فسانہ غالب، از مالک رام، مکتبہ جامعہ، نئی دہلی، 1977، ص81۔ آئندہ تمام مقامات پر اقتباسات کے آخر میں قوسین کے اندر صفحات کے حوالے دے دےے گئے ہیں۔

3۔ نامہ ہاے فارسیِ غالب، مربتہ سید اکبر علی ترمذی، غالب اکیڈمی، نئی دہلی، 1969، ص117۔ غالب کی خاندانی نشن اور دیگر امور، نیشنل ڈاکومینٹیشن سینٹر، مقتدرہ قومی زبان پاکستان، اسلام آباد، 1997، ص39

4۔ فسانہ غالب،ص115

5۔ نامہ ہاے فارسیِ غالب، ص103

6۔ غالب کی خاندانی پنشن،ص49

7۔ ایضاً،ص53

8۔ متفرقاتِ غالب، مرتبہ پروفیسر مسعود حسن رضوی، طبعِ ثانی، لکھنو1969، ص126

9۔ دیوانِ غالب، مرتبہ نظامی بدایونی، طبعِ ثانی، بدایوں، 1918، صفحہ ماقبلِ متن

10۔ احوالِ غالب، مربتہ پروفیسر مختارالدین احمد، طبعِ ثانی، دہلی، 1968،ص34

11۔ بہ حوالہ غالب نامہ، نئی دہلی، شمارہ جنوری 1989، ص215-16

12۔ گلشنِ بے خار، از نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ، طبعِ اول، دہلی، 1837، ص185

13۔ بہ حوالہ غالب نامہ، نئی دہلی، شمارہ مذکور الصدر، ص173

14۔ فسانہ غالب،ص49

15۔ احوالِ غالب، ص142۔143

16۔ مکاتیبِ غالب، مربتہ مولانا امتیاز علی عرشی، طبعِ دوم، رام پور، 1943، حاشیہ ص41

17۔ یادگارِ غالب(عکسی ایڈیشن)یو۔پی۔اردو اکاڈمی، لکھنو1986، ص9

18۔ نامہ ہائے فارسیِ غالب،ص103

19۔ پنج آہنگ، طبعِ ثانی، دہلی، 1853، ص334

20۔ دیوانِ غالب بہ خطِ غالب، مرتبہ اکبر علی خاں عرشی زادہ، رام پور، 1969،ص16

21۔ گلِ رعنا، مرتبہ مالک رام، دہلی، 1970، ص35

22۔ غالب کے خطوط، مرتبہ خلیق انجم، جلد سوم، دہلی،ص1029۔ 30

23۔ پنج آہنگ، ص389

24۔ تجلیات، از مرزامحمد ہادی عزیز لکھنوی، ص197-98، بہ حوالہ ماہنامہ نیادور، لکھنو شمارہ جولائی 1980، ص12

25۔ غالب درونِ خانہ، از کالی داس گپتا رضا، ساکار پبلشرز، بمبئی، 1989، ص43

26۔ پنج آہنگ، ص113

27۔ غالب نامہ، نئی دہلی، شمارہ جنوری 1996، ص164

28۔ باغِ دو در، مرتبہ سید وزیرالحسن عابدی، لاہور، 1970، ص120

29۔ گنجینہ غالب، پبلی کیشنز ڈویژن، نئی دہلی، 1995،ص168 تا ص170

30۔ غالب اور حیدرآباد، از ڈاکٹر ضیا ءالدین شکیب، نئی دہلی، 1969، ص223

31۔ آئینہ دلدار، از ابرار علی صدیقی، کراچی، 1956، ص93

مرزا دبیر عہد اور شعری کائنات

اردو کے دو بڑے مرثیہ نگاروں میں دبیر کا نام آتا ہے کسی نے انھیں انیس سے بڑا مرثیہ نگار ثابت کرنے میں زور صرف کیا تو اکثر نے انہیں انیس سے کمتر شاعر قرار دیا۔ انیس و دبیر میں بڑا شاعر کون ہے یہ اپنے اپنے ذوق و معیار شاعری کا معاملہ ہے۔ لیکن مرثیہ تنقید کا مطالعہ یہ بھی احساس کراتا ہے کہ ہم نے انیس کے مقابلے دبیر کا مطالعہ کم کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے محاسن کلام ابھی تک پوری طرح واضح نہیں ہو سکے ہیں۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ذمہ داران نے اس کمی کو محسوس کرتے ہوئے ایک قومی سمینار بعنوان ‘مرزا دبیر: عہد اور شعری کائنات’ 2-3 نومبر 2019 کو ایوان غالب میں منعقد کیا۔ اس سمینار کا کلیدی خطبہ اردو کے معروف نقاد و دانشور پروفیسر انیس اشفاق نے پیش کیا تھا۔ زیر نظر کتاب اس سمینار کے مقالات پر مشتمل ہے۔

غالب کی شاعری

غلام رسول مہر

غالب کی شاعری

(غوروفکر کے بعض نئے پہلو)

شعرِغالب نبود وحی و نگوئیم ولے

تو ویزداں نتواں گفت کہ الہامے ہست

          مرزاغالب کی زندگی اور شاعری کے متعلق اتنی کتابیں، رسالے اور مقالے لکھے جاچکے ہیں کہ اردو اور فارسی کے شاعروں میں سے شاید ہی کسی کے ساتھ اتنا اعتنا کیا گیا ہو، ایک علامہ اقبال کو غالباً مستثنیٰ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم میں سمجھتاہوں کہ اب بھی مرزا کی شاعری کے بعض پہلو مزید غوروتوجہ کے محتاج ہیں اور جس حد تک مجھے علم ہے بے تکلّف اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ بہت محدود ہے۔ کہہ سکتا ہوں کہ ان پر اگر کچھ لکھا گیا ہے تو وہ بہت کم ہے۔

          ان میں سے ایک پہلو کا ذکر میں نے”ماہِ نو“ کے گزشتہ ”غالب نمبر“ میں سرسری طورپر کیا تھا۔ یعنی مرزا غالب کے جو شعر پیشتر کے اساتذہ سے استفادے یا ”توارد“ کے تحت آتے ہیں، ان کی چھان بین کی جائے اور جائزہ لیا جائے کہ آیا مرزا نے سابقہ مضامین میں کوئی خاص اضافہ کیا، جس سے ان کا حسن پوری طرح نکھر گیا؟ خواہ وہ اضافہ نفسِ مضمون میں ہو یا بیان میں۔ میں نے چند مثالیں بھی دی تھیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اصل معاملے کا دامن زیادہ وسیع ہے اور مرزا کے کلام سے شغف رکھنے والوں کی خدمت میں مودبانہ التماس ہے کہ وہ اس سلسلے میں غوروتحقیق کا قدم آگے بڑھائیں۔

          ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جومضامین و مطالب کلیاتِ فارسی اور دیوانِ اردو دونوں میں موجود ہیں، ان کاموازنہ کیا جائے اور دیکھا جائے کہ کیا فارسی کے مضامین اردو میں یا اردو کے مضامین فارسی میں بعینہ لے لئے یا ان میںکچھ اضافہ کیا؟ ایک دوسرے کا ترجمہ ہے یا کسی ایک میں زیادہ وضاحت،زیادہ حسن اور زیادہ دل آویزی پیدا کردی ہے؟ اس ضمن میں یہ اندازہ بھی کیا جاسکتاہے کہ اصل مضمون کے لئے فارسی کا قالب زیادہ موزوں رہا یا اردو کا؟

          خود اردو میں بعض اشعار بہ لحاظِ نفس مضمون مترادف ہیں، اگرچہ اسلوب بیان ایک نہیں۔ ان پر الگ غور کرنا چاہیے۔ مثلاً:

۱۔

دریائے معاصی تنگ آبی سے ہوا خشک

میرا سرِ دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا

۲۔

بقدر حسرت دل چاہیے ذوقِ معاصی بھی

بھروں یک گوشہ دامن گر آبِ ہفت دریا ہو

یا

۱۔

وارستہ اس سے ہیں کہ محبت ہی کیوں نہ ہو

کیجے ہمارے ساتھ عداوت ہی کیوں نہ ہو

۲۔

قطع کیجے نہ تعلق ہم سے

کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی

۳۔

لاگ ہو تو اس کو ہم سمجھیں لگاؤ

جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا

مرزاکی شاعری کے اس پہلو پرغور وتدبّر یقینی منفعت بخش ہوگا۔

          ایک پہلویہ بھی ہے کہ مرزا کے بعض اشعار پرایک سرسری سی نظر ڈالتے ہوئے ایسا تاثر قبول کرلیا گیا جو صحیح نہ تھا یا کم از کم اس کا دوسرا پہلو بالکل نظرانداز کردیا گیا۔ مثلاً مرزا کا ایک مشہور شعرہے:

خوشی کیا کھیت پر میرے اگر سوبار ابر آئے

سمجھتا ہوں کہ ڈھونڈے ہے ابھی سے برق خرمن کو

یہ شعر عموماً مرزاکی قنوطیت کے ثبوت میں پیش کیا جاتاہے۔ اگرمزیدغور کیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ مرزانے اس میں قنوطیت کااظہارنہیں کیا، بلکہ ایک معاملے کے دو پہلو پیش کیے ہیں تاکہ اہلِ نظر دونوں کوسامنے رکھیں۔ ابرکے دامن میں وہ پانی بھی ہوتا ہے جو کھیتوں، فصلوں اور باغوں کے لئے آبِ حیات ہے، بجلی بھی ہوتی ہے، جو سب کچھ جلا کر راکھ بنا دیتی ہے۔ اسی طرح یہاں کی مختلف چیزوں کے دوہی پہلو ہیں، جو متضاد نظر آتے ہیں۔ حقیقت شناس وہ ہے، جو دونوں پہلووں کویکساں پیشِ نظر رکھے۔ نہ ابرکی آب رسانی کے جوشِ شادمانی میں بجلی کی تباہ کاری سے اعراض کرے اور نہ بجلی کی دہشت انگیزی سے ہراس زدہ ہوکر ابرکے فیضان سے استفادے کا رشتہ کاٹ دے۔ اسے چاہیے کہ خیرسے فائدہ اٹھائے اور شر سے محفوظ رہنے کے لئے تمام ممکن تدبیروں پر عمل پیرا رہے۔

          ہم کیوں سمجھیں کہ مرزا نے یہاں قنوطیت کا اظہار کیا ہے اور ان کی نظراچھی چیزوں میں بھی بُرے پہلو ہی پررہتی ہے؟ کیوں یہ نہ سمجھیں کہ انہوں نے دنیا کو بصیرت کی دعوت دی ہے؟ یعنی انسانوں کوصرف اچھے پہلو ہی پر قانع نہ رہنا چاہیے، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس اچھی چیز سے برائی ظہورکرےگی تو امیدو رجائیت کی پوری متاع برباد ہوجائے گی۔ ضروری ہے کہ بُراپہلو بھی نگاہوں سے اوجھل نہ ہوتاکہ پہلے ہی اس کا انسداد کرلیا جائے۔

          ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مرزا نے ”رشک“ کی طرح بعض دوسرے مضامین میںبھی حیرت انگیز نکتہ آفرینیاں کی ہیں،مثلاً ”شراب“۔ میرے اندازے کے مطابق ”شراب“ کے متعلق سیکڑوں شعرکہے۔ہر شعر میںاس موضوع کے متعلق نئی بات کہی اور کوئی بھی بات ایسی نہ کہی جو اس دائرے میں حقیقت و واقعیت کی صحیح تصویر نہ ہو۔ مضامین شراب میں اتنا تنوع حافظ اور خیام کے ہاں بھی نہ ملے گا،جو خمریات، میں امام مانے جاتے ہیں۔ ایسے مضامین بھی بے شمارہیں، ن کے متعلق بے تکلف کہا جاسکتاہے کہ:

ہرچند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو

بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

          بعض اور پہلو بھی ہیں، لیکن میں اس گفتگو کو پھیلانا نہیں چاہتا اور جو کچھ اور پیش کرچکا ہوں، اس کی چند ملی جلی مثالیں عرض کروں گا۔

          مرزا کا ایک فارسی شعر ہے:

تا نیفتد ہرکہ تن پرور بود

خوش بود گر دانہ نبود دام را

پرندے پکڑنے کے لئے پھندا لگاتے ہیں تو اس پردانے بکھیر دیتے ہیں تاکہ پرندے دانے کے لالچ میں درختوں سے زمین پر اتریں اور پھنس جائیں۔ مرزا کہتے ہیں کہ دانے کی خاطر اترنا ”تن پروری“ ہے۔ کیا اچھا ہوتا کہ جال بچھاتے وقت اس پر دانے نہ بکھیرے جاتے تاکہ تن پروری کاذوق پرندوں کے لئے گرفتاری کا موجب نہ ہوتا۔

          یہی مضمون طاعت و عبادت کے سلسلے میں ذرا کھول کربیان کیاتو فرمایا:

طاعت میں تا رہے نہ مے و انگبیں کی لاگ

دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو

          جو لوگ خداکی عبادت کرتے ہیں، اس کے حکموں کے پابند رہتے ہیں، ان میں سے اکثر کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اعمال حسنہ کی جزا پائیں گے اور بہشت میں جائیں گے، جہاں شہد کی نہر بھی ہوگی، شراب طہور بھی ملے گی اور دوسری نعمتوں سے بھی مستفید ہوں گے۔ مرزا فرماتے ہیں کہ یہ طاعت خالصتہً خدا کے لئے نہ رہی بلکہ بہشت اور اس کی نعمتوں کے لئے ہوگئی۔ مرزا کے نزدیک حقیقی اور خالص طاعت وہ ہے، جو غیر اللہ کی تمام خواہشوں سے بالکل پاک ہو۔

          پھر فرماے ہیں:

کیا زہد کو مانوں کہ نہ ہو گرچہ ریائی

پاداشِ عمل کی طمع خام بہت ہے

یعنی زہد اگر ریا سے پاک بھی ہوتومیں اس کا معتقد کیوں کر ہوسکتاہوں۔ آخراپنے اعمال کی جزا کا معاملہ توساتھ ساتھ چلاجارہاہے۔ جب تک اس طمع خام سے زہد پاک نہ ہو، وہ ایسا زہد کیوں کر بن سکتا ہے جسے میں قابلِ احترام مانوں؟

          اب فارسی اور اردو کے متعدد ہم معنی اشعار پرایک نظر ڈال لیجیے جنہیں میں نے سرسری نظرمیں چُناہے۔ دقتِ نظرسے کام لیا جائے تو اور بہت سے اشعار مل جائیں گے:

۱۔

گریہ کرد از فریب وزارم کُشت

نگہ از تیغ آبدار تراست

کرے ہے قتل لگاوٹ میں تیرا رو دینا

تری طرح کوئی تیغ نگہ کو آب تو دے

۲۔

ہفت آسماں بہ گردش و ما درمیانہ ایم

غالب و گرمپرس کہ برماچہ مے رود

رات دن گردش میں ہیں ہفت آسماں

ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

۳۔

ہر رشحہ بہ اندازہ ہر ہر حوصلہ دادند

مے خانہ توفیق خم و جام نہ دارد

توفیق بہ اندازہ ہمّت ہے ازل سے

آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا

گرتی تھی ہم پہ برقِ تجلی، نہ طورپر

دیتے ہیں بادہ،ظرفِ قدح خوار دیکھ کر

۴۔

لالہ و گل ومداز طرفِ مزارش پسِ مرگ

تا چہا در دلِ غالب ہوسِ روئے تو بود

مشہدِ عاشق سے کوسوں تک جو اگتی ہے حنا

کس قدر یارب ہلاکِ حسرتِ پابوس تھا

۵۔

رمز بشناس کہ ہر نکتہ ادائے دارد

محرم آن است کہ رہ جز بہ اشارت نہ رود

چاک مت کر جیب بے ایّام گُل

کچھ ادھر کا بھی اشارہ چاہےے

۶۔

فغاں کہ نیست سرد برگ دہن افشانی

بہ بند خویش فرد ماندہ ام بہ عریانی

دیکھ کر درپردہ گرمِ دامن افشانی مجھے

کر گئی وابستہ تن میری عریانی مجھے

۷۔

ناکس زتنومندی ظاہر نہ شود کس

چوں سنگِ سرِ رہ کہ گران است و گراں نیست

قدر سنگِ سرِ رہ رکھتا ہوں

سخت ارزاں ہے گرانی میری

۸۔

ناداں حریف مستیِ غالب مشوکہ او

دردی کش پیالہ جمشید بودہ است

صاف دُردی کشِ پیمانہ جم ہیں ہم لوگ

وائے وہ بادہ کہ افشردہ انگور نہیں

۹۔

از جوئے شیر و عشرتِ خسرو نشاں نہ ماند

غیرت ہنوز طعنہ بہ فرہاد می زند

عشق و مزدوریِ عشرت گہ خسرو؟ کیا خوب

ہم کو تسلیم نکو نامیِ فرہاد نہیں

10۔

فرصت از کف مدہ و وقت غنیمت پندار

نیست گر صبح بہارے، شب ماہے دریاب

غالب چھٹی شراب،پر اب بھی کبھی کبھی

پیتا ہوں روز ابر و شبِ ماہتاب میں

پی جس قدر ملے شبِ مہتاب میں شراب

اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے

          مرزاکاایک خاص مضمون یہ ہے کہ گناہوں کی پرسش میں انہیں اپنی حسرتیں یادآجاتی ہیں۔ اس سلسلے میں فارسی کاایک نہایت عمدہ شعرہے:

اندر آں روز کہ پرسشش رود ام ہرچہ گزشت

کاش باما سخن از حسرت ما نیز کنند

پھر یہی مضمون ایک رباعی میں یوں پیش کیا ہے:

اے آنکہ وہی مایہ کم و خواہش بیش

آں روز کہ وقت باز پرس آید پیش

بگزار مرا کہ من خیالے دارم

با حسرت عیشہائے ناکردہ خویش

          مثنوی ”ابرگہربار“ کی مناجات کے آخرمیں کم و بیش اَسّی شعر صرف اس موضوع پر کہے ہیں اور ایسا انداز اختیار کیاہے کہ وہ شعر پڑھتے وقت دل ہل جاتاہے۔

          دیوان اردو میں بھی دو شعر اس مضمون کے موجود ہیں:

۱۔

ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد

یارب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے

۳۔

آتا ہے داغ حسرتِ دل کا شمار یاد

مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ

          آخر میں اتنااور عرض کرنا چاہتاہوں کہ مختلف اصحاب نے مرزاکے بعض اردو اشعار کو کسی نہ کسی فارسی شعر کے ہم مطلب قرار دے لیااور اس حقیقت پر غور نہ کیاکہ دونوں میں حقیقتہً کتنافر ق ہے۔ مثلاً بیگی دختر علی حیدرکایہ شعر ملاحظہ فرمائیے:

من اگر توبہ زمے کردہ ام اے سردِ سہی

تو خود ایں توبہ نہ کردی کہ مرا مے نہ دہی

یعنی اے سروِ سہی! اگر میں نے شراب سے توبہ کرلی تو تونے کب توبہ کی تھی کہ مجھے شراب نہ دے گا؟ کہا گیاہے کہ مرزاکا مندرجہ ذیل شعراسی سے ماخوذ ہے:

میں اور بزمِ مے سے یوں تشنہ کام آوں؟

گر میں نے کی تھی توبہ، ساقی کو کیا ہوا تھا؟

          بلاشبہ شراب سے توبہ کرنے اور ساقی کی طرف سے شراب نہ ملنے کاذکر دونوں میں موجود ہے، مگر بیتی کا شعر محض ذکر پر ختم ہوگیااور شراب کے سلسلے میں ساقی یا محبوب کو ”سروِ سہی“ کہنا کچھ لطف نہیں رکھتا۔اورآپ مرزا کے شعرکی معنویت پر غور فرمائیے:

۱۔”میں اور“ سے ظاہرہوتاہے،میکش اتنا پینے والاہے کہ ساقی اور رند سب اس سے بخوبی آگا ہیں۔ اسی لئے”میں“ پرخاص زور دیااور صرف ”میں“ کہہ کریہ پوری حقیقت واضح کردی۔

          ۲۔ پھر شراب نہ ملنے سے جو تکلیف ہوئی، وہ محتاج بیان نہیں۔ علاوہ بریں میکش کو اس بات پربھی سخت غصّہ ہے کہ عرق نوشی میں درجہ کمال حاصل کرلینے کے باوصف ساقی نے قدرنہ پہچانی۔

          ۳۔ بے شک شراب سے توبہ کرلی تھی،مگر بزم مے میں جانے سے صاف ظاہرہوگیاتھاکہ توبہ کچھ ایسی پختہ واستوارنہیں کہ ٹوٹنے نہ پائے یا شراب پیش کردی جائے تو اسے قبول کرنے میں ہچکچاہٹ ہو۔

          ۴۔”بزم مے“ سے روشن ہے کہ شراب نہ ملنے کاواقعہ خلوت میں پیش نہ آیا،جسے طوراً و کرہاً برداشت کیا جاسکتاتھا،بلکہ بھری محفل میں پیش آیا، جہاں حریفوں کا پورا گروہ موجود تھا۔ گویا سبکی اور بے عزتی رندوں کے مجمع میں ہوئی جس سے میکش کے غصّے کی آگ برابر تیز ہورہی ہے۔

          ۵۔ ”یوں تشنہ کام آوں“ سے پتا چلتاہے کہ رفعِ خمار کی بڑی امیدیں اور آرزوئیں لے کر بزمِ مے میں شریک ہواتھا،مگر ساقی نے آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھااور دور شروع ہواتو اسے تشنہ کام و نامراد لوٹا دیا۔

          ۶۔پھر کہتے ہیں اچھا بھئی مانا، میں نے توبہ کرلی تھی۔آخر ساقی کو تو خیال ہونا چاہےے تھاکہ توبہ محض نمائشی اور ریائی ہے، کیونکہ وہ تو عمربھرسے میکشی کو دیکھ رہاتھا، توبہ کامعاملہ تو ایک معمولی معاملہ تھا، یہ معمولی معاملہ یاد رکھااوراسی کو معیار سلوک بنالیا۔عمر بھر کی ہم مشربی یک قلم فراموش کردی۔

          ۷۔ سب سے آخر میں کہتے ہیں کہ”ساقی کو کیاہواتھا؟“ یعنی میں نے توبہ کرلی تھی تو اس نے کیوں یہ ناقابلِ تصوّر و تیرہ اختیار کرلیا؟

          پھر لطف یہ کہ کوئی معین بات نہیںبتاتے،”کیاہواتھا“ کہہ کر معاملہ ختم کردیا،جس کی بیسیوں تعبیریں ہوسکتی ہیں۔ مثلاً:

          ا۔ کیاوہ اس پر ناراض تھاکہ میں نے توبہ کیوں کی؟

          ب۔ کیاحریفوں نے اسے مختلف باتیں کہہ کہہ کر میرے خلاف برانگیختہ کردیاتھا؟

          ج۔کیاوہ ہوش میں نہ تھااور اس نے مجھے پہچانا نہیں تھا؟

          د۔ کیاوہ چاہتاتھاکہ یوں مجھ سے بھری محفل میں توبہ کابدلہ لے؟

          ہ۔ کیااس کے سے دیرینہ رند کے ساتھ ایسا برتاو مناسب تھا۔

          و۔ کیابیگی کے قول کے مطابق اس نے مجھے شراب دینے سے توبہ کرلی تھی؟

          غرض سوچتے جائےے اور مختلف پہلو نکلتے آئیں گے،بیگی کے شعر میں معنویت کے اتنے پہلو کہاں موجود ہیں؟

          غرض میری گزارشات کامدّعایہ ہے کہ مرزاغالب کی شاعری کے ان پہلووں پربھی اربابِ ذوق کو خاص توجہ فرمانی چاہےے اور مجھے یقین ہے کہ یہ توجہ بہرحال سودمند ہوگی، اغلب ہے کئی ایسے نکتے روشنی میں آجائیں جواب تک عام نظروں کی گرفت سے باہر رہے۔

غالب کی شاعری میں محبوب کا تصور

فراق گورکھپوری

غالب کی شاعری میں محبوب کا تصور

          کہتے ہیں کہ پاربتی جی نے ایک بار شیوجی سے پوچھا کہ میں تمہیں کیسی لگتی ہوں۔ شیوجی نے جواب دیا کہ ”تم مجھے ایسی لگتی ہوجیسے آدھا سنا گانا یا وہ راگ جو کچھ سنائی پڑے اور کچھ نہ سنائی پڑے“، انگریزی شاعر کیٹس نے اپنی محبوبہ کوایک خط میں لکھا کہ میں تمہیں ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے آنکھ اوجھل پاتاہوں، کتنے حسین، لطیف اور نازک تصوّر ان روایتوں میں پیش کےے گئے ہیں۔ مخصوص انفرادی لذّات یا احساسات کی مصوری الفاظ میں ناممکن ہے۔ ہر تجربے میںایک نرالاپن ہوتاہے۔ ہراحساس میں ایک اچھوتاپن ہوتاہے۔ ہر تصورکی ایک انفرادیت ہوتی ہے۔ الفاظ کے ذریعہ سے شاعر یا ادیب ہمیں اس نرالے پن، اچھوتے پن اور انفرادیت کے قریب کردیتاہے لیکن بات جہاں کی تہاں رہ جاتی ہے، اگر وہ شخص ایک ہی معشوق کے عاشق ہوں تو بھی اس کے حسن وجمال کا جو عکس دونوں کے دلوں میں پڑے گاوہ یکساں نہیں ہوگا۔ انفرادیت دنیا کے اہم ترین رازوں میں سے ایک رازہے لیکن انفرادیت میں ایک آفاقی اور عالمگیر صفت بھی ہوتی ہے، جب ہی تو ہم شاعروں کے مخصوص اور اچھوتے تصورات سے مانوس اور ہم آہنگ ہوسکتے ہیں۔

          غالب کی عشقیہ شاعری میں محبوب کے تصور کا اندازہ لگاتے وقت ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ غالب کا یہ تصور مسلسل نظموں میں نہیں پیش کیا گیاہے بلکہ غزلوں میں پیش کیا گیاہے اور غالب کی غزلوں میں، جن سے کہیں زیادہ عشق اور زندگی اور کائنات کی مصوری کی گئی ہے۔ بجائے اس کے حُسن کیا ہے اور کیسا ہے ہمیں زیادہ تریہ بتایا گیا ہے کہ حسن نے عشق کے ساتھ کیا کیا اور حسن کے ہاتھوں عشق پر کیا گزری، بقول اصغرگونڈوی’کچھ فتنے اُٹھے حُسن سے کچھ حُسن نظر سے‘ لیکن پھر بھی جب ہم دیوان غالب کی سیر کرتے ہیں تو حُسن کی متعدد جھلکیاں اورمعشوق کے مزاج اور کردار کی کئی تصویریں ہمارے سامنے سے گزرتی ہیں۔ ان اشعار سے ہم کافی حد تک اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ غالب کی شاعری میں حسن کا تصور کیا ہے اور کیسا ہے، پہلے معشوق کے قد کو لیجیے۔ لمبے قد کا آدمی کس قد و قامت پر عاشق ہوگا؟ اس کے معشوق کا قد بوٹا سا ہو گا یا لمبا اور چھریرا تو اسے ماہر حسنیات ہی بتائیں۔ لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ اُردو شاعروں میں غالب خود بہت لمبے قد کے آدمی تھے۔ ایک شعر میں غالب نے معشوق کے درازی قدکاذکرکیاہے،کہتے ہیں:

بھرم کھُل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا

اگر اس طرہ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے

          غالب کا معشوق ،یاغالب کے معشوق، میانہ قدر، بوٹا سا قد یا لمبے قد کے تھے۔ ہمیں اس کا کوئی تاریخی علم نہیں لیکن جو شعر ابھی آپ نے سُنا ہے اس سے یہ پتا ضرور چلتا ہے کہ سرو قد معشوق کے حُسن کا احساس اور شدید احساس غالب کو تھا۔

          غالب کا معشوق نرم گام یا آہستہ خرام نہیں ہے۔ معشوق کی چال کی تصویر غالب نے یوں کھینچی ہے:

چال جیسے کڑی کمان کا تیر

دل میں ایسے کے جا کرے کوئی

بجلی کی تیزی اور تیر کی جست محبوب غالب کی چال میں ہے،ایک جگہ اور کہتے ہیں:

ثابت ہوا ہے گردنِ مینا پر خونِ خلق

لرزے ہے موج مَے تری رفتار دیکھ کر

          یہاں بھی چال کے جمالی پہلو کو جلالی شان و انداز سے پیش کیا گیا ہے۔ معشوق کی شوخ چال کی ایک اور تصویر دیکھیے:

دیکھو تو دل فریبی  انداز نقشِ پا

موجِ خرام یار بھی کیا گل کتر گئی

اس شعرمیں بجلی کی سی چال کا ذکرنہیں پھر بھی چال ہے نہایت شوخ

زلف سے متعلق بھی غالب نے دو تین ہی شعر کہے ہیں لیکن کیا شعر ہیں:

نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں

تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہوگئیں

          زلف کی درازی کا کچھ اندازہ تو غالب کے اس شعر سے ہم کو ہوجاتا ہے جسے قامت کی درازی کے سلسلے میں پیش کرچکے ہیں:

اگر اس طرہ پُر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے

          زلف کی رمزیت پر ایک شعر کہہ کے غالب نے کیا کچھ نہیں کہہ دیا

کٹے تو شب کہیں، کاٹے تو سانپ کہلاوے

کوئی بتاو


¿ کہ وہ زلف خم بہ خم کیا ہے

اوریہ شعر تونہ جانے ہمیں کہاں لےے جارہاہے:

تو اور آرائش خم کا کل

میں اور اندیشہ ہائے دور و دراز

          گورا دمکتا ہوا چہرہ دیکھ کر کبھی نگاہیں تڑپ جاتی ہیں اور کبھی شاداب ہوجاتی ہیں۔ معشوق کے چہرے کا تصور غالب یوں کرتے ہیں اور اسے یوں دیکھنا چاہتے ہیں:

اک نو بہار ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ

چہرہ فروغ مے سے گلستاں کےے ہوئے

اس شعر میں بھی معشوق کے چہرے کی جگمگاہٹ دیکھےے:

کیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے

کرے جو پرتوِ خورشید عالم شبنمستاں کا

معشوق کی نگاہ کا کتنا لطیف احساس و تصوّر غالب کو تھا۔

بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی

وہ اک نگہ جو بظاہر نگاہ سے کم ہے

          غالب کے ہاں محبوب کا جوتصور ہمیں ملتاہے وہ نہایت دھاردار،نوک دار، چنچل اور شوخ ہے۔ اس تصورمیں ایرانی کلچرکی رنگینیاں،لطافتیں اور نزاکتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں، غالب کے تصورکا کوئی خط دھندلایا مبہم نہیںہے۔ اس کے تصورکی ہر سنہری لکیر میں اُپی ہوئی تلوار کی دھار ہے۔اس کے احساس حُسن میں ایک ارتکاز وہم آہنگی ہے۔ اس کا معشوق بہت شوخ اور طرار ہے، ا س کی باتیں تک برق رفتاری کی مثالیں ہیں۔ ٹھہراوتو کہیں ہے ہی نہیں۔ معشوق کیسے باتیں کرتا ہے؟

بجلی اک کوند گئی آنکھوں کے آگے تو کیا

بات کرتے کہ میں لبِ تشنہ تقریر بھی تھا

          معشوق کی بے پناہ شوخیاں ان اشعار میں دیکھیے:

نکتہ چیں ہے غمِ دل اس کو سُنائے نہ بنے

کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے

میں نے کہا کہ بزم ناز چاہیے غیر سے تہی

سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اُٹھا دیا کہ یوں

معشوق کا نہ آنا ہی نہیں بلکہ اس کا آنا اور ملنا بھی فتنوں سے خالی نہیں

وہ آئیں گے مرے گھر، وعدہ کیسا، دیکھنا غالب

نئے فتنوں میں اب چرخِ کہن کی آزمائش ہے

خوش ہوتے ہیں پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے

آئی شب ہجراں کی تمنّا میرے آگے

میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں

وہ ستمگر مرے مرنے پہ راضی نہ ہوا

          عموماً شوخ و شنگ معشوق عاشِق کو مٹاتا اور رقیب کو نوازتا رہتاہے، لیکن غالب کے معشوق میں نہ عاشق کے لیے سپردگی و ہمدردی ہے نہ رقیب کے لیے۔ بہت نازک اور حسّاس لہجے میں غالب نے اس تکلیف دہ حقیقت کا اظہار کیا ہے۔

تو دوست کسی کا بھی ستمگر نہ ہوا تھا

اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا

          معشوق کی جفا کاری اور ستم گاری، اس کی شرارتیں اور چھیڑیں، اس کی حیا میں بھی جھلک رہی ہیں۔

کبھی نیکی بھی اُس کے دل میں گرآجائے ہے مجھ سے

جفائیں کرکے اپنی یاد شرما جائے ہے مجھ سے

جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا

کہتے ہیں ہم تجھ کو منہہ دکھلائیں کیا

معشوق ظلم و ستم سے توبہ بھی کرتاہے تو کب کرتا ہے۔

کی مرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

کبھی کبھی معشوق کی ستمگاری سے غالب کو فائدہ بھی پہنچ جاتاہے۔

ذکر میرا بہ بدی بھی اسے منظور نہیں

غیر کی بات بگڑ جائے تو کچھ دور نہیں

گرچہ ہے کس کس بُرائی سے ولے بہ ایں ہمہ

ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے

غالب اپنے معشوق میں پاتے تو ہیں انتہائی شوخی لیکن چاہتے ہیں اس میں سادگی۔

سادگی پر اس کی مر جانے ک حسرت دل میں ہے

بس نہیں چلتا، کہ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے

لیکن معشوق کی سادگی بھی قیامت ڈھاتی ہے:

اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا

لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوا ر بھی نہیں

اور جب معشوق ایک ہی ساتھ سادگی و شوخی کاملاطفہ ہے تو اور بھی جان پر بن جاتی ہے:

سادگی و پُرکاری، بے خودی و ہُشیاری

حُسن کو تغافل میں جرات آزما پایا

          معشوق کی شوخی کا شکایت آمیز بیان جیسا غالب کے ہاں ملتا ہے اس کی مثالیں کسی اور شاعر کے ہاں نظر نہیں آتیں اس بیان اور اس شکایت میں نہ تو میر کی دل گرفتگی و خستگی ہے نہ بہت سے اور شاعروں کی طرح سطحیت ور چھچھوراپن، غالب معشوق کی شوخیوں سے تنگ آکر بھی بالکل مٹ نہیں جاتا وہ اپنی آن بان قائم رکھتاہے اور اسی خودداری کے سبب سے وہ معشوق کی شوخی اور جفا کاری کو بہت رچا کے اور سنوار کے پیش کرتاہے۔ مثلاً معشوق عاشق کے خطوں کا جواب نہیں دیتا یا نہایت بے حسی او ربے دردی سے جواب لکھتا ہے، غالب نے کسی طنزیہ لہجے میں اس کا ذکر کیا ہے۔

قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں

میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں

یہ جانتا ہوں کہ تو،اور پاسخ مکتوب

مگر ستم زدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا

          لیکن ان تمام اشعار سے غالب کے تصور محبوب کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ نامکمل ہوگی،اگر ہم غالب کے کچھ اور اشعار پربھی نظرنہ ڈالیں جن میں معشوق کی فطرت کی نرمی یا اس کی عاشِق نوازی دکھائی گئی ہے۔ معشوق خطوں میں ہمیشہ جلی کٹی نہیں لکھتا، پیاربھرے خط بھی لکھتا ہے۔

پھر چاہتا ہوں نامہ دلدار کھولنا

جان نذرِ دلفریبی عنواں کیے ہوئے

معشوق محض رُلاتا ہی نہیں، کبھی کبھی اس کی آنکھیں بھی ڈبڈبا آتی ہیں، کیا شعر کہا ہے:

نہیں معلوم کِس کِس کا لہو پانی ہوا ہوگا

قیامت ہے سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا

          غالب کے ہاں محبوب کے تصور میں بلکہ حُسن و عشق اور زندگی ہی کے تصور میں رشک کا عنصر بہت تیز ہے، غالب کے مزاج میں خود غرضی تھی، کِس کے مزاج میں نہیں ہوتی اور یہ خودغرضی بہت تیز تھی۔ لیکن ان کی فطری مصلحت شناسی، رشک کے جذبے کوبھی بہت حسین بنا دیتی ہے۔

رات کے وقت مے پیئے، ساتھ رقیب کو لیے

آئے وہ یوں خدا کرے، پر نہ خدا کرے کہ یوں

          رقیب تو درکنار غالب کو خود اپنے آپ پر رشک آجاتاہے۔

دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آجائے ہے

میں اُسے دیکھوں بھلاکب مجھ سے دیکھا جائے ہے

          لیکن مجبوری سب کچھ کراتی ہے، باوجود رشک کے غالب یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو

مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو

          لیکن اگر کسی ایک غزل میں غالب نے محبوب کا معیاری تصور پیش کیا ہے تو اُس غزل میں جویوں شروع ہوتی ہے:

درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے

کیا ہوئی ظالم تِری غفلت شعاری ہائے ہائے

          یہ پوری غزل معشوق کا مرثیہ ہے اور غالب کے مغموم تصور کا مرقع۔

غالب اور نظیراکبرآبادی

کاظم علی خاں

غالب اور نظیراکبرآبادی

          مرزا غالب اور نظیراکبرآبادی پر بات کرتے وقت یہ امر ملحوظ رہنا چاہیے کہ غالب سن و سال میں نظیر سے کم و بیش 62 بانسٹھ سال چھوٹے تھے لیکن ہم سن نہ ہوکر بھی یہ دونوں شاعر اپنے مولد و مدفن کے اعتبار سے ایک خاص ربط رکھتے تھے۔ ان دونوں شاعروں میں سے ایک مولد دوسرے کا مدفن ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ غالب اس دہلی میں دفن ہیں جو نظیر کا مولد ہے اور نظیر اس اکبرآباد یعنی آگرے میں مدفون ہیں جو غالب کا مولد رہا ہے جیسا کہ تذکرہ ماہ و سال کے درجِ ذیل اندراجات سے ظاہر ہوتاہے۔ (1)

          غالب: ولادت آگرہ 27 دسمبر 1797۔ وفات دہلی 15 فروری 1869

          نظیر:۔ولادت دہلی تقریباً 1735 وفات آگرہ16 اگست1830

          غالب اور نظیر کی داستانِ حیات بتاتی ہے کہ غالب جس قدر سرکارودربار سے وابستگی کے شوق بے پایاں کے اسیر تھے نظیر اسی قدر سرکارو دربار سے دوری برقرار رکھنے کے عادی تھے۔ دہلی میں مغل بادشاہ بہادرشاہ ظفر کا دربار ہویا فرماں روایان اودھ و رام پورکی سرکاریں غالب نے ہر جگہ سے جتنا ہوسکاخوب فائدہ اٹھایا۔ نظیر اکبرآبادی نے اس کے برخلاف زندگی میں زیادہ تر یاتو معلّمی کاپیشہ اختیار کیا ہے یا فقیری اور قلندری کی ہے(2)۔

           غالب اور نظیر کی داستانِ حیات میں کئی ایسی قابلِ ذکر باتیں ملتی ہیں جن کا بیان دل چسپی سے خالی نہ ہوگا۔ کاروبارِ شعر وسخن میں نظیر اکبرآبادی کے کسی استاد کا نام نہیں ملتا اورغالب کے مستند سوانح نگا ربھی شاعری میں اُن کے کسی استاد کانام نہیں بتاتے۔ تذکرہ گلستان بے خزاں کی یہ روایت کہ شاعری میں غالب نظیر کے شاگرد تھے اب مشکوک مانی جاتی ہے۔(3)

          لسانی اعتبارسے غالب فارسی اور اردو صرف دو زبانوں میں نظم و نثر لکھنے پر قادر تھے اس کے برعکس نظیر اکبرآبادی کو جن متعدد زبانوں میں شاعری کرنے کی قدرت حاصل تھی۔ ان کی تفصیل آگے اپنے مقام پر آئے گی۔

          یہاں اس با ت کی نشان دہی بھی بے محل نہ ہوگی کہ غالب اور نظیر دونوں کا کلام مقبولیت کے اعتبار سے زمانے کے نشیب و فراز سے دوچار رہ چکا ہے۔ غالب کو تو اپنے کلام کی ناقدری پر جیتے جی یہ کہنا پڑاتھا:

شہرتِ شعرم بہ گیتی بعدِ من خواہشد شدن(4)

          اب رہا نظیر اکبرآبادی کا معاملہ تو یہ حقیقت اہلِ نظرسے مخفی نہیں کہ کلامِ نظیربرسوں کسادبازاری سے دوچار رہ کر دورِ حاضر میں شہرت و مقبولیت سے ہم کنار ہوا۔

          یہ درست ہے کہ دونوں شاعروں کی موت کا زمانہ و مقام الگ الگ رہا یعنی غالب نے 15 فروری 1869 کو دہلی میں وفات پائی اور نظیر16 اگست 1830 کو آگرے میں فوت ہوئے تھے لیکن یہ بھی غلط

نہیں کہ دونوں شاعرو ںکی وفات بہ عارضہ فالج ہوئی تھی۔ (5)

          غالب و نظیر کی اولاد و اخلا ف کے باب میں یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ غالب کے یہاں متعدد بچے ہوئے مگر بدقسمتی سے کوئی نہ بچ سکا اور غالب کو بے اولاد ہی دنیا سے سفرکرناپڑا، البتہ نظیراولاد کی نعمت سے مرحوم نہ رہے۔(6)

          ادبی آثار کی طباعت کے اعتبار سے بھی دونوں شاعروں کی قسمت ایک سی نہ تھی۔ غالب کے متعدد ادبی آثار اُن کی زندگی ہی میں چھپ گئے تھے اس کے برخلاف نظیر کے ادبی آثار (بیش تر) ان کی موت کے بعد نہ صرف چھپے تھے بلکہ ان کے جمع ہونے کا کام بھی قابلِ لحاظ حد تک اُن کی موت کے بعد ہی انجام دیا گیا تھا۔ نظیر کی وفات اگست 1830 میں ہوئی۔ ظاہر ہے کہ اس زمانے میں اردو کتابوں کے چھپنے کا چلن ہوگا ہی نہیں۔ دیکھئے:1۔ توقیتِ غالب: کاظم علی خاں باب نمبر11 2۔  نظیر اکبرآبادی: ڈاکٹر طلعت نقوی)

          غالب اور نظیراپنے دینی عقائد کے اعتبار سے بھی ایک جیسے تھے۔ دونوں شاعروں نے اپنے آبائی عقائد چھوڑکرشیعی مسلک اختیار کرلیاتھا۔ (7)

          غالب شناس اس بات سے باخبر ہیں کہ دہلی میں غالب ایک ڈومنی کے عشق میں گرفتار رہے ہیں اور ایک عرصے تک اُس ڈومنی کی یادوں کی کسک غالب کے دل میں باقی رہی ہے(توقیتِ غالب: ڈاکٹر کاظم علی خاں،ص19 ) تلاش کرنے پر پتاچلاکہ نظیر اکبرآبادی کی داستانِ زندگی بھی ان کی حیاتِ معاشقہ سے خالی نہیں اور ہم نظیر کی اُن معشوقہ کے نام سے بھی باخبرہیں۔ اس عورت کانام ”موتی“ ملتا ہے۔ (8)

          مال و دولت سے غالب کا غیر معمولی لگاؤ کوئی ڈھکی چھپی

 بات نہیں اگر کہیں سے غالب کو کچھ بھی ملنے کی امید ہوتی تو وہ اس کے حصول میں کسی تکلّف سے کام نہ لیتے جب کہ اس سلسلے میں نظیر خاصے محتاط رہتے تھے۔ (نظیر اکبرآبادی طلعت حسین نقوی، ص38۔ تا39) ظرافت غالب ونظیر دونوں کے مزاج کامشترک وصف نظر آتی ہے۔ دونوں شاعروں نے محرومیوں اور مایوسیوں سے گھری اپنی دکھ بھری زندگی کو ہنس کھیل کر گزارنے کا گُر سیکھ لیاتھا۔ دونوں شاعر آلامِ زندگی کو مردانہ وار جھیل جانے کے ہنر سے باخبر تھے۔

          غالب کایہ مشہور شعر ان کے اسی وصف کا غمّاز ہے:

قیدِ حیات و بندِ غم، اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے، آدمی غم سے نجات پائے کیوں

نظیر نے بھی نشاطیہ اور رجائی لہجے کو اپنایا۔

          تصوف کی جلوہ گری غالب اور نظیر دونوں کے کلام میں ملتی ہے مگر غالب تصوف سے شغف رکھنے کے باوجود خود صوفی نہ تھے جب کہ نظیر کے تصوف میں جابجا توکل کی جھلک ملتی ہے گویا نظیر صحیح معنوں میں فقیری اور قلندری کی راہوں پر گام زن رہنے کے عادی تھے۔

          غالب کے مزاج میں قناعت کی کارفرمائی دور دور تک نہیں ملتی، نظیر کے یہاں قناعت کی کمی نہیں۔

          کلام غالب و نظیر کے بہ غور مطالعے سے پتا چلتاہے کہ غالب مشکل زبان میں پیچیدہ خیال والے شاعر تھے لیکن نظیر کی شاعری میں عوامی زبان کی کوئی کمی نہیں بلکہ کہیں کہیں وہ بازاری زبان بھی استعمال کرجاتے ہیں۔ شاہی اور درباری دور میں بازاری زبان ان کی شاعری کو عوام سے قریب کرتی ہے۔ شاہی دور کی شاعری میں عوامی لب و لہجہ نظیر کی شاعری کو بے فصل کا میوہ بنا دیتا ہے۔ اور نظیر کا کلام جاڑوں والا ایسا آم معلوم ہوتا ہے جو بے مزہ ہونے کے باوجود قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

          نظیراکبرآبادی کے کلام میں ہندستانی عناصر کی جلوہ گری بھی نہایت اہم وصف ہے۔ ہندستان کے موسم ہوں یا ہندستان کے میلے ٹھیلے، یہ تمام عناصر عوام میں میل جول بڑھاتے ہیں دور حاضر میں نظیر کی شاعری کایہ پہلو بھی خاصی معنویت رکھتاہے۔ کلام غالب میں بھی یہ تمام پہلو تلاش کرنے پر مل جاتے ہیں۔ مگر انہیں کلام نظیر میں قدم قدم پر پایا جاتاہے۔

          وسیع النظری، بے تعصبی اور رواداری نظیر کی شاعری کاوہ جاندار حصہ ہے جو آج بھی ہمارے لیے کام کی شے ثابت ہوسکتی ہے۔ اس لیے دورِ حاضر میں کلامِ نظیرکی معنویت کے منکر نہیں۔ کلامِ نظیرکا اہم ترین پہلو اس ہندومسلم میل ملاپ کی تلقین ہے جس کی ضرورت سے آج بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تلاش کرنے پر ہمیں کلامِ غالب میں بھی یہ پہلو مل سکتے ہیں مگر نظیر کی شاعری میں ان کی ’بہتات‘ہے۔

          مذہبی میل ملاپ کے ساتھ ساتھ کلامِ نظیر میں ایک طرح کی لسانی روادری کی بھی جھلکیاں ملتی ہیں۔ نظیر کی شاعری ایک ایسا بوقلموں (رنگ برنگی) نگار خانہ نظر آتی ہے۔ جہاں دوچار نہیں آٹھ آٹھ زبانوں کی جلوہ گری ملتی ہے۔ نظیر کی شاعری میں ہمیں عربی، فارسی، پنجابی، ’بھاشا‘ مارواڑی، پوربی، ہندی اور اردو زبانوں کی جھلکیاں نظر آتی ہیں جبکہ لسانی اعتبار سے غالب صرف اردو اور فارسی نظم و نثر لکھنے پر قادر تھے۔ (بہ حوالہ نظیر اکبرآبادی: ڈاکٹر طلعت حسین،ص24)

          کلام نظیر میں آدمی اور دنیا کی بے ثباتی کے بھی سبق آموز حصّے موجود ہیں مگر یہاں اِس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ میاں نظیر کے کلام کی اصل شہرت ان کی غزلوں سے زیادہ نظموں کے باعث ہے اس کے برعکس غالب کے کلام میں نظم سے زیادہ غزلوں پر زور ملتا ہے۔

          نظیر نے بہترین شہر آشوب بھی لکھے ہیں جن میں جزئیات نگاری کے اچھے نمونے ملتے ہیں۔ غالب کے یہاں اس صنف کی کمی ہے۔

          نظیر کے کلام میں متعدد ایسے موضوعات پر بھی نظمیں ملتی ہیں جو عام طورپر شاعری کے دائرے سے خارج رکھے جاتے ہیں۔ مثلاً کلامِ نظیر میں اژدھے کا بچہ، گلہری کی بچہ، تربوز، تل کے لڈو، کورا برتن جیسے موضوعات پر دل چسپ نظمیں موجود ہیں، غالب کا جو کلام کاٹ چھانٹ سے بچ کر ہم تک آیاہے اس میں اس طرح کی نظمیں نہیں ملتی ہیں۔

          نظیراکبرآبادی کی مشہور اور مقبول نظموں کی تعداد اچھی خاصی ہے اور ان سے مثالیں پیش کرنا آسان نہیں، روٹیاں اور آدمی نامہ نظیر کی شاہ کارنظموں میں شامل ہیں۔ غالب کے ادبی آثار میں نظم کے ساتھ ساتھ اردو اور فارسی نثر کے بھی نمونے ملتے ہیں جو چھپ کر مقبول ہوچکے ہیں۔ نظیر کی نثرکا ذکر نظیرشناسوں تک محدود ملتا ہے غالب کی طرح نظیر کی نثر نہ تومشہور ہوسکی ہے اور نہ مقبول ہوئی ہے۔ غالب اور نظیر نے اپنی طویل ادبی زندگی میں کسی استاد کی شاگردی تو نہیں کی مگر یہ دونوں شاعر درجنوں شاگردوں کے استاد ضرور رہے تھے۔ غالب کے شاگردوں کی تعداد تو اتنی زیادہ تھی کہ ان کے ذکرپر مشتمل مالک رام ‘تلامذہ غالب’ کے نام سے ایک اچھی خاصی ضخیم کتاب چھپوا چکے ہیں جو ایک سے زیادہ بار چھپ چکی ہے(تفصیل کے لیے دیکھیے راقم الحروف کی کتاب توقیتِ غالب، ص74 تا 85) نظیر کے شاگردوں کی فہرست بھی تقریباً ایک درجن شاعروں کے نام پر مشتمل ہے۔ (10)

          مقالے کے اختتام میں غالب اور نظیر کے مزاروں پر بھی بات کرنا نامناسب نہ ہوگا۔ غالب نے دوشنبہ 15 فروری 1869 کو دوپہر ڈھلے دہلی میں وفات پائی تھی۔ ہجری تقویم کی رو سے ان کی تاریخ وفات ۲ ذی قعدہ 1285ھ ہے سببِ وفات دماغ پر فالج گرنا تھا۔ غالب کی تدفین اسی روز بستی نظام الدین دہلی میں واقع خاندانِ لوہارو کے قبرستان میں ہوئی تھی۔ (توقیتِ غالب،ص55)، گردشِ زمانہ کے باعث مزارغالب کی تعمیر متعدد بار ہوتی رہی ہے۔ ایک عرصے تک مزارکی حفاظت کا نا کافی انتظام رہاہے جس کی وجہ سے جواریوں وغیرہ جیسے ناپسندیدہ عناصر کی بے روک ٹوک آمدورفت کے باعث غالب شناسوں کی پریشانی اور الجھن کا سبب رہاہے۔ مزارِ غالب پر پھولوں کی چادر وغیرہ کو کھانے بکریوں کی بھی آمدورفت رہاکرتی تھی۔ مگر خداکاشکر ہے کہ اب غالب شناسوں کی توجہ سے مزار کی چوحدی میں مقفل دروازے کا انتظام ہوگیا ہے۔

          نظیراکبرآبادی 98 سال کی طویل عمرپاکر اگست 1830 مطابق 1246ھ میں بہ مقام آگرہ فوت ہوئے تھے اور آگرہ ہی میں اُن کا مدفن  ہے۔ مزارِ نظیر محلہ تاج گنج آگرہ میں واقع ہے۔

حواشی:

1۔  تذکرہ ماہ و سال:مالک رام نئی دہلی،نومبر1991،ص286،نیزص293

2۔ ملاحظہ ہوں:(1)توقیت غالب: ڈاکٹر کاظم علی خاں۔ انجمن ترقی اردو(ہند) نئی دہلی ابواب نمبر15۔16، نیز 17(2) نظیر اکبرآبادی الخ:ڈاکٹر سید طلعت حسین نقوی فیض آباد(ٹانڈہ)طبع فروری 1990، 27، 30 تا 40

 3۔ توقیتِ غالب،ص18

4۔ کلیاتِ غالب(فارسی نظم) مطبع نول کشور 1863، 514

5۔ برائے تفصیل؛دیکھےے تذکرہ ماہ و سال:مالک رام طبع نومبر 1991، ص286، نیزص 393

6۔ برائے تفصیل دیکھیے:(1)ذکرغالب:مالک رام(2) نظیر اکبرآبادی: طلعت نقوی،ص30 تا31

7۔ ملاحظہ ہوں:(1)دیوان غالب کامل نسخہ گپتا رضا: کالی داس گپتا رضا۔ ممبئی مطبوعہ 1990، ص26 نیز،ص 445 تا 447

 (2) نظیر اکبرآبادیڈاکٹر سید طلعت حسین نقوی،ص46

8۔ دیکھے:(1) نظیر اکبرآبادی کے کلام کا تنقیدی مطالعہ،ص22 (2)زندگانیِ بے نظیر:عبدالغفور شہباز؛نئی دہلی 1981، ص79 تا81

9۔ دیوان غالب(نسخہ عرشی)طبع 1982، نئی دہلی ص241 (نوائے سروش)

10۔ شاگردانِ نظیر کے لےے دیکھیے نظیر اکبرآبادی ڈاکٹر طلعت حسین۔ فروری 1990، ص 48 تا49

دارالمصنفین،معارف اور غالب

پروفیسر خالد محمود

دارالمصنفین سے میری غائبانہ واقفیت کاآغاز طالب علمی کے زمانے میں ہوا تھا۔ آغاز میں نے اس لیے کہا کہ دارالمصنفین ایسا ادارہ نہیں جسے کوئی طالب علم یا استاد

بھی ایک ہی مرحلے میں سمجھنے کا دعویٰ کر سکے۔دوران تعلیم ہم طلبا آہستہ آہستہ اس سے واقف ہوتے گئے اور جس رفتار سے واقف ہوتے گئے اسی رفتار سے ہل من مزید کی صدا ہمارے سمند شوق کو مہمیز کرتی رہی۔ میری خوش بختی کہیے کہ بھوپال کے جس کالج میں نے اعلیٰ تعلیم کی ابتدا کی تھی اور جس کا نام نامی سیفیہ کالج ہے اس میں اقبال ، سرسید، آزاد ، حالی اور شبلی کے عاشق زار اور سید سلیمان ندوی کے ہم وطن استاد محترم پروفیسر عبدالقوی دسنوی صاحب اردو طلبا کے لیے روشنی کا مینار بنے ہوئے تھے انھیں اردو اور اردو کے طلبا سے عشق تھا انھیں سے میں نے دارالمصنفین اور ارباب دارالمصنفین کی کہانیاں سنی تھیں۔ استاد محترم ان ہستیوں کا جن میں شبلی اور سید سلیمان ندوی کے علاوہ مولانا عبدالماجد دریاآبادی، مولانا حمید الدین فراہی، شاہ معین الدین ندوی، سید صباح الدین عبدالرحمن، مولانا مسعود علی ندوی، مولانا عبدالسلام ندوی، پروفیسر نجیب اشرف ندوی، سید ابو ظفر ندوی، مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانی، مولانا ضیاالدین اصلاحی، سید شہاب الدین دسنوی، مولانا مجیب اللہ ندوی، مولانا ضیاالدین اصلاحی اور مولانا ابوالکلام وغیرہ کے اسمائے گرامی شامل تھے موقع و محل کی مناسبت سے اور کبھی اس کے برخلاف بھی اتنی محبت سے ذکر کرتے کہ ہم سبھی کو ان سے محبت ہوگئی تھی۔ دارالمصنفین کے توسط سے ہم اعظم گڑھ سے واقف ہوئے ۔ انھیں دنوں سیفیہ کالج کے شعبۂ اردو کی لائبیریری میںرسالہ ’’معارف‘‘ سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ ملاقات کیا دیدار و درشن کہہ لیجیے۔ مگر اس کے سادے سے سرورق نے کچھ زیادہ متاثر نہیں کیا۔ میں نے اسے دیکھا ، اٹھایا، ورق گردانی کی اور احترام سے رکھ دیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہم طلبااختر شیرانی کی ریشمی نظموں اور جوش ملیح آبادی کی گرج دار رومانی شاعری کے حصار میں تھے۔ تعجب ہوتا ہے کہ غالب نے اس نوعمری میں نسخۂ حمیدیہ جیسی بالائے فہم غزلیں جنھوں نے بہت سے عالموں اور فاضلوں کو خوف زدہ اور غضب ناک کرکے رکھ دیا کیسے کہی ہوں گیکچھ عرصے کے بعد معارف کو دوبارہ دیکھا تو اندر سے بھی دیکھا اس وقت میں ایم۔اے کر رہا تھا اور شاید اس کو سمجھنے کے لائق ہوچکا تھا۔ چنانچہ جب میں نے اس کو پڑھا تو اس نے مجھے شیشے میں اتار لیا۔ مجھے اعتراف ہے کہ علم و ادب کی جو تھوڑی بہت سوجھ بوجھ میرے حصے میںآئی اس میں اور تاریخ اسلام کی شُد بُد کے حصول میں دارالمصنفین کی تصانیف و رسالہ معارف نے میری بڑی رہنمائی کی ہے ۔ دارالمصنفین کی علمی اور ادبی خدمات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ فلسفۂ تاریخ و تحقیق کے قدیم وسائل اور عصری مسائل کے حوالے سے اس نے جو معرکے سر کیے ہیں ان پر اب بہت کام ہوچکا ہے اور ساری علمی دنیا اس کا اعتراف کرچکی ہے۔ اس کی دو سو سے زیادہ گراں قدر تصنیفات اور تالیفات اردو دوستوں خصوصاً اہل ایمان کے قلوب کی روشنی، حافظے کی دولت اور آنکھوں کا سرمہ ہیں۔ مولانا کلیم صفات اصلاحی نے اپنی کتاب ’’دارالمصنفین کے سو سال‘‘ میں بالکل صحیح لکھا ہے کہ :

’’دارالمصنفین علامہ شبلی نعمانی کی سب سے آخری اور مہتم بالشان یادگار ہے اور یسا عظیم کارنامہ ہے جس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ اپنی علمی شناخت اور منفرد طرز و انداز کے سبب یہ ملک وملت کے لیے مایۂ ناز علمی و تحقیقی ادارے کی حیثیت سے نہ صرف برصغیر پاک و ہند میں مشہور معروف ہے بلکہ اپنی بلند پایہ علمی خدمات کی وجہ سے اس کی شہرت و ناموری کا دائرہ دنیائے مغرب کے بیشتر ممالک تک وسیع ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جنوبی افریقہ، اسکاٹ لینڈ، آسٹریلیا، ترکی وغیرہ جیسے ممالک میں بھی اس ادارے سے واقف ہونے والوں کی اچھی خاصی تعداد موجود اور اس کے اہم کارناموں کی معروف و قدرداں ہے۔‘‘

دارالمصنفین کے اشاعتی سرمائے میں کتابوں کی محض تعداد ہی قابلِ ذکر نہیں ۔ تعداد کے لحاظ سے تو دوسرے ادارے بھی اس کی ہمسری کا دعوا کرسکتے ہیں۔ بعض مطابع اور اداروں نے اس سے زیادہ کتب شائع کی ہوں گی۔ دارالمصنفین کی اشاعتی سرگرمیوں کا امتیاز یہ ہے کہ اس ادارے نے جو کتابیں شائع کی ہیں وہ موضوع، مواد، معیار، اہمیت ، افادیت اور تحقیق و تدوین کے مستند حوالوں کی روشنی میں اس پائے کی ہیں کہ اگر کسی اور نے اس معیار کی دس بیس کتابیں بھی شائع کی ہوں تو اسے بھی اپنے اس کارنامے پر فخر کرنے کا حق حاصل ہوگا۔

اسلامی نقطۂ نظر سے دارالمصنفین کی مطبوعات اور معارف کے مشمولات کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لیے مولانا سید سلیمان ندوی نے ایک دلچپ واقعہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں:

’’میں نے سفر افغانستان کے دوران ایک دن علامہ اقبال سے کہا کہ جب تک آپ کی شاعری زندہ رہے گی ہندوستان میں اسلام باقی رہے گا۔ علامہ نے فرمایا نہیں جب تک دارالمصنفین کی تصنیفات باقی رہیں گی ہندوستان میں اسلام باقی رہے گا۔ سرراس مسعود بھی شریک بزم تھے انھوں نے کہا کہ اسے یوں کہہ لیجیے کہ جب تک اقبال کی شاعری اور دارالمصنفین باقی ہیں ہندوستان میں اسلام باقی رہے گا۔ اسی طرح علامہ نے ایک دوسرے موقع پر معارف کے تعلق سے فرمایا تھا کہ یہی ایک رسالہ ہے جس کے پڑھنے سے حرارت ایمانی میں ترقی ہوتی ہے۔‘‘  ۱؎

یہی رسالہ ’معارف‘اور غالب ہے جو گزشتہ سو سال سے دارالمصنفین کی ترجمانی کا حق ادا کررہا ہے۔ دارالمصنفین کی طرح اس کے ترجمان ’’معارف ‘‘نے بھی اردو رسائل کی دنیا میں جو سر بلندی اور نیک نامی حاصل کی ہے وہ کسی اور کے حصے میں نہ آسکی۔ یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ اردو جیسی مظلوم زبان میں جسے خود اردو والوں کی اکثریت عرصہ ہوا کہ اپنے گھروں میں ممنوع قرار دے چکی ہے ۔ کسی بیرونی امداد کے بغیر یہ رسالہ سو سال تک نہ صرف زندہ رہا (الحمداللہ آج بھی زندہ ہے) بلکہ اس نے بحیثیت مجموعی اپنی پالیسی اور معیار و مقاصد سے بھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔

معارف کے آغاز پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر شباب الدین لکھتے ہیں:

’’۱۸؍نومبر ۱۹۱۴ کو علامہ شبلی اپنے بہت سے کاموں کو ادھورا چھوڑ کر اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے ان کے انتقال کے بعد ان کے شاگردوں نے ’’اخوان الصفا‘‘ کے نام سے ایک جماعت بنائی جس کے ارکان حسب ذیل تھے:

۱۔  مولانا حمیدالدین فراہی     (صدر) (م ۱۹۳۰)

۲۔  مولانا سید سلیمان ندوی(ناظم)      (م ۱۹۵۳)

۳۔  مولانا عبدالسلام ندوی     (رکن)  (م ۱۹۵۶)

۴۔  مولوی مسعود علی ندوی    (رکن)  (م ۱۹۶۷)

۵۔  مولوی شبلی متکلم ندوی     (رکن)  (م ۱۹۷۳)

اس ’’اخوان الصفا‘‘ نے علامہ شبلی کے خوابوں کے مطابق اعظم گڑھ میں دارالمصنفین کے باقاعدہ کاموں کا بیڑا اٹھایا اور جولائی ۱۹۱۵ئ میں اس کی رجسٹری بھی کرائی گئی۔ جب دارالمصنیفن کا کام ذرا چل نکلا تو اس کے ترجمان کی ضرورت محسوس ہوئی چنانچہ یہ طے پایا کہ ’’معارف‘‘ کے نام سے اس کا ماہانہ ترجمان شائع کیا جائے۔ جب دارالمصنفین کے اپنے پریس نے معارف پریس کے نام سے کام کرنا شروع کیا تو جولائی ۱۹۱۶ میں معارف کا پہلا شمارہ منظر عام پر آیا۔‘‘ پہلے مدیر اعلیٰ سید سلیمان ندوی تھے۔‘‘

یہاں یہ بتانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ شبلی نے دارالمصنفین اور معارف کا محض خواب ہی نہیں دیکھا تھا بلکہ اپنے خواب کو روبہ عمل لانے کا آغاز کرتے ہوئے اپنی زندگی ہی میں ایک خاکہ بھی تیار کرلیا تھا جس میں ایک علمی رسالے کا اجرا شامل تھا اور انھوں نے خود اس کا نام معارف تجویز کیا تھا۔ علامہ شبلی کی ایک قلمی یادداشت کے مطابق:

’’ رسالے کا نام معارف چیف ایڈیٹر شبلی، اسٹاف: مولوی سیدسلیمان (یعنی سید سلیمان ندوی ) مولوی عبدالماجد دریابادی، مسٹر حفیظ، مولوی عبدالسلام، تعداد صفحات تقطیع و کاغذ ۲۰x۲۹ ضخامت ۴۰صفحے، قیمت ۳ ؍روپے ، تنوعات مضامین فلسفۂ تاریخ و قدیم و جدید، سائنس، ادبیات، شعر ، اردو شاعری کی تاریخ اور اسالیب ، اقتباسات ، مجلات علمیہ یوروپ ، مصر وبیروت ، فن تعلیم کتب نادرہ کا ذکر اور ان کے اقتباسات یا ان پر اظہار رائے۔کتب یا معلوم قدیمہ پر تنقید۔‘‘  ۲؎

افسوس کہ شبلی کی حیات میں ان کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ ان کے انتقال کے تقریباً دو برس بعد جولائی ۱۹۱۶ میں معارف کا پہلا شمارہ منظر عام پر آیا۔معارف کی اشاعت سے قبل متعدد رسائل شائع ہوچکے تھے مگر معارف نے اپنی پالیسی الگ بنائی اور منزل مقصود بھی علیحدہ متعین کی۔ دراصل معارف کو اس کے موسسین جدید و قدیم علوم کا سنگم اور فلسفۂ تاریخ و تحقیق کا مستحکم رسالہ بنانا چاہتے تھے اور انھوں نے اپنے ان مقاصد کی وضاحت ابتدا ہی میں کردی تھی ۔ چنانچہ معارف جولائی ۱۹۱۶ میں سید سلیمان ندوی رقم طراز ہیں:

’’فلسفۂ حال کے اصول اور اس کا معتد بہ حصہ پبلک میں لایا جائے۔ عقائد اسلام کو دلائل عقلی سے ثابت کیا جائے۔ علوم قدیمہ کو جدید طرز پر از سرنو ترتیب دیا جائے۔ علوم اسلامی کی تاریخ لکھی جائے اور بتایا جائے کہ اصل حصہ کہاں تک تھا اور مسلمانوں نے اس پر کیا اضافہ کیا۔ علوم مذہبی کی تدوین اور اس کے عہد بہ عہد ترقیوں کی تاریخ تریب دی جائے۔ اکابر سلف کی سوانح عمریاں لکھی جائیں جن میں زیادہ تر ان کے مجتہدات اور ایجادات سے بحث ہو۔ عربی زبان کی نادر الفن اور کمیاب کتابوں پرریویو لکھا جائے اور دیکھا جائے کہ ان خزانوں میں ہمارے اسلاف نے کیا کیا زرو جواہر امانت رکھے ہیں اور سب سے آخر لیکن سب سے اول قرآن مجید کے متعلق عقلی، ادبی، تاریخی ، تمدنی اور اخلاقی مباحث جو پیدا ہوگئے ہیں ان پر محققانہ مضامین شائع کیے جائیں۔ ‘‘

ڈاکٹر شباب الدین کے مطابق سید سلیمان ندوی کے زمانۂ ادارت میں معارف اپنے قائم کردہ معیار پر قائم رہا ان کے بعد آنے والے مدیران تھوڑی بہت کتر بیونت کرتے رہے مگر معارف کے بنیادی مزاج اور عقائد میں کوئی بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ کلیم صفات اصلاحی نے اپنی کتاب ’’دارالمصنفین کے سو سال‘‘ میں صفحہ نمبر ۴۰۴ پر یہ معلومات بھی فراہم کی ہیں :

’’رسائل کی دنیا میں معارف پہلا رسالہ ہے جس نے مضامین کو مختلف ابواب ، کالم، عناوین کے تحت شائع کرنے کا آغاز کیا۔ شروع کے ابواب میں شذرات، مقالات، تقریظ و انتقاد، آثار علمیہ وتاریخیہ و ادبیہ مسائل فتاوی اور ادبیات اور مطبوعات تھے۔‘‘

کلیم صفات اصلاحی نے معارف کے مستقل کالموں کا تعارف بھی پیش کیا ہے یہاں اشارتاً ان کے صرف عنوانات نقل کیے جاتے ہیں تاکہ معارف کی ندرت و انفرادیت کا علم ہوسکے۔

۱۔  اخبار علمیہ:               اس کالم کا آغاز ۱۹۱۹ سے کیا گیا ۔

۲۔  ادبیات:                 یہ کالم اولین شمارے سے جاری ہے۔

۳۔  استفسار:                 اس کی ابتدا ۱۹۳۱ سے ہوئی اس کے تحت علمی سوالوں کے

جوابات دیے جاتے تھے۔

۴۔  باب المراسلہ والمناظرہ:   اس عنوان کے تحت مطبوعہ مقالوں کی خامیوں کی نشاندہی کی

جاتی ہے۔

۵۔  تلخیص و تبصرہ:           اس کے تحت انگریزی اور عربی کے اہم علمی و ادبی مقالوں

کی تلخیص کی جاتی ہے۔

۶۔  شذرات:                یہ مدیر کا کالم ہے۔ اس کی ابتدا اولین شمارے سے ہوئی اور اس میں کبھی ناغہ نہیں ہوا۔

۷۔  ترجمات:    اس کے تحت مقالات کی تلخیص یا ترجمے کیے جاتے ہیں۔

یہ کالم ۱۹۱۷ میں شروع ہوااور ۱۹۲۴  میں بند ہوگیا۔

۸۔  معارف کی ڈاک:     اس کے تحت معارف کے نام وہ خطوط شائع کیے جاتے ہیں

جن میں کسی غلطی کی جانب توجہ دلائی گئی ہو۔

۹۔  مطبوعات جدیدہ:                   اس کالم کے تحت مختلف کتابوں یا رسالوں کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے۔

۱۰۔  وفیات:        اس عنوان کے تحت عالم وادیب و شاعر کی وفات کی تاریخ و تعارف پیش کیاجاتا ہے۔

ان عناوین کے توسط سے ہمیں معارف کے ادبی سروکار سے آگاہی حاصل ہوتی ہے اور یہ سمجھنے میں آسانی ہوجاتی ہے کہ معارف کے پالیسی سازوں نے اصناف ادب کی اشاعت کے سلسلے میں رد و قبول کے کون سے معیارات قائم کیے ہیں اور ادب کے تعلق سے ان کی ترجیحات کیا ہیں۔ اس پہلو سے معارف کا مطالعہ کرنے اور اس کے اراکین کے بیانات سے اشاعتوں کا تقابل و تجزیہ کرنے کے بعد ڈاکٹر عتیق احمد جیلانی کے ان نتائج سے پورا اتفاق کرنا ہوگا:

’’معارف کا تصور ادب اسلامی، اخلاقی اور افادی ہے۔ تخلیقی نثر اور نقد و نظر کے جدید رجحانات کی اس میں کوئی گنجائش نہیں یہی وجہ ہے کہ ناول افسانہ اور ڈراموں وغیرہ کی شمولیت سے گریز کیا گیا ہے۔شعر و سخن کے اسی حصے کو اس کی اشاعتوں میں جگہ ملی ہے جس میں اسلامی اخلاقی اور افادی اصولوں کی پاسداری کی گئی ہو۔ معارف کا بنیادی مزاج تحقیقی ہے اس لیے اس میں شامل درجنوں تحقیقی مقالے تازہ انکشافات پر مبنی ہیں ان مقالات سے محققین برابر استفادہ کرتے رہے۔ چنانچہ سیکڑوں مضامین و کتب میں ان کے حوالے ملتے ہیں۔ اس جریدے نے اپنے مقصد سے کبھی روگردانی نہیں کی۔ نظری تنقید کے شعبے میں معارف کا کوئی قابل ذکر حصہ نہیں البتہ شعرا کے حوالے سے عملی تنقید کے چند نمونے موجود ہیں۔ اس کی ادبی جہتیںوحدت تاثر کی حامل ہیں۔ خالص ادبی جریدہ نہ ہونے کے باوجود معارف نے ایک تسلسل اور استقامت کے ساتھ اپنی جہت کو قائم رکھا  اور کبھی اپنے بنیادی مقاصد سے انحراف نہیں کیا۔ سادگی اس کی ایک اہم خصوصیت ہے اور یہ رسالہ آج بھی اپنی قدیم وضع پر قائم ہے۔‘‘

معارف کو جن اہم لکھنے والوں کا قلمی تعاون حاصل رہا ان میں سے چند نام یہ ہیں۔

اکبر الہ آبادی، علامہ اقبال، حامد حسن قادری، اثر لکھنوی، ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں ، احمد میاں اختر جونا گڑھی، پروفیسر محمد دین تاثیر، پیر حسام الدین راشدی، حبیب الرحمن خاں شیروانی، جگن ناتھ آزاد، محمد ابراہیم ڈار، ابوالحسن علی ندوی، ابواللیث صدیقی، خواجہ احمد فاروقی، احمد علی شوق، پروفیسر اکبر حیدری کشمیری، پروفیسر اکبر حمانی ، امتیاز علی خاں عرشی، امیر حسن عابدی، پروفیسر نذیر احمد، ڈاکٹر ایوب قادری، تحسین سروری، تمکین کاظمی، حامد اللہ ندوی، سید حسن، ڈاکٹر محمد حمید اللہ، خلیق احمد نظامی، رشید احمد صدیقی، رفیع الدین ہاشمی، سخاوت مرزا، پروفیسر محمد سلیم، شاد عظیم آبادی، شبیر احمد خاں غوری، شرف الدین اصلاحی، ڈاکٹر شریف حسین قاسمی، ڈاکٹر محمد حمید، ڈاکٹر شوکت سبزواری، ضیا الدین احمد، ضیا الدین برنی، عابد رضا بیدار، ڈاکٹر عبدالمغنی، عبدالباری ندوی، خواجہ عبدالحمید یزدانی، عبدالحئی ندوی، عبدالرحمن ندوی نگرامی، عبداللہ چغتائی، عبدالماجد دریاآبادی، ڈاکٹر عطش درانی، علی جواد زیدی، غلام رسول مہر، خواجہ غلام السیدین، صوفی غلام مصطفی تبسم، کالی داس گپتا رضا، کبیر احمد جائسی، کلب علی خاں، گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر لطیف حسین ادیب، مالک رام، مولوی محفوظ الحق، حافظ نجیب اللہ ندوی، محمد علی اثر رامپوری، مختار الدین احمد آرزو، پروفیسرمسعود احمد، پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب، مسعود عالم ندوی، ڈاکٹر معین الدین عقیل، سید مقبول احمد ہمدانی، مولانا مناظر حسن گیلانی، مولانا عبدالعزیز میمنی، نجیف اشرف ندوی، حافظ نذیر احمد ، نصیر الدین ہاشمی، ڈاکٹرنورالحسن ہاشمی، سید وحیداشرف ندوی، سید وقار عظیم، سید ہاشمی فرید آبادی۔

دارالمصنفین اور معارف کے خصوصی مقاصد عمومی تعارف کے ساتھ جب ہم ادب اور معارف کے رشتوں کی نوعیت پر غور کرتے ہیں تو اس کے پہلے ہی شمارے جولائی ۱۹۱۶ میں مدیر اوّل  سید سلیمان ندوی کی یہ تحریری وضاحت ہماری بڑی رہنمائی کرتی ہے۔ سید صاحب معارف کے علمی مقاصد بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

’’اگر صرف انھیں پیش نظر مقاصد کی تکمیل پر قناعت کرلیں تو بھی ہمارے نزدیک بہت بڑا کام ہے۔ لیکن چوں کہ یہ مضامین قدرتاً روکھے پھیکے اور بے مزہ ہوں گے اس لیے مذاق عام کی رعایت کے خیال سے ادبیات، مباحث حاضرہ، انتقادو تقریظ ، استفسارات علمیہ، مطبوعات جدیدہ وغیرہ کے دلچسپ عنوانات کے تحت مضامین شائع کر کے ان کی تلخی دور کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘

اس اقتباس سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ معارف میں ادب کی حیثیت ثانوی ہے اور چوں کہ معارف دارالمصنفین کا ترجمان ہے، جس کی پالیسی اظہر من الشمس ہے۔ اس لیے فطری طور پر اسلامی اقدار و روایات کا حامل ادب ہی اس کے مشمولات میں جگہ پانے کا حقدار ہوگا۔اس حقیقت کے باوجود کہ معارف میں ادب بنیادی حیثیت کا حامل نہیں۔ معارف نے اردو ادب کو روز اوّل سے اپنا رفیق سفر بنایا ہے اور شعر و ادب کے تعلق سے کئی تحقیقی انکشافات بھی کیے ہیں۔ ڈاکٹر عتیق احمد جیلانی نے اپنے تحقیقی مقالے رسالہ معارف کی اردو ادبی خدمات میں اولیات معارف کے تحت ان مضامین کو قدرے تفصیل سے متعارف کرایا ہے۔یہاں بطور نمونہ چند کا ذکر مختصراً کیا جاتا ہے۔

۱۔  کلیات بالک جی نایک ذرہ ۔ ایک گمنام شاعر کا غیر مطبوعہ کلام مکتوبہ ۱۱۹۲ (معارف جلد۔۱، شمارہ۔۲۲)

۲۔  کلات عشق عظیم آبادی ، سودا کے معاصر کا غیر مطبوعہ کلام (معارف ، جلد۔۵، شمارہ ۔۳۳)

۳۔  غلام ہمدانی مصحفی کے دیوان پنجم کے حوالے سے قاضی عبدالودود کی تحریر (معارف، جلد۔ ۱،شمارہ ۔۴۰)

۴۔  حبیب گنج میں موجود قلمی دیوان خاکی کا تعارف بقلم ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں اولاً معارف، جلد۔۳، شمارہ۔۴۹ میں شائع ہوا۔

۵۔  اشرف علی خاں فغاں کا قلمی دیوان (معارف، جلد۔ ۳۔۲۔۱، شمارہ۔۶۱)

۶۔  مولانا حالی کی غیر مطبوعہ خودنوشت سوانح عمری (معارف جلد۔ ۵، شمارہ۔۱۹)

۷۔  محمد حسین آزاد اور علامہ شبلی کی دو نادر تحریریں (معارف، جلد۔۶، شمارہ۔ ۸۹)

۸۔  روہیلکھنڈ کے نواب حافظ رحمت خاں کے فرزند محبت خاں کی زندگی اور شاعری پر مقالہ (معارف، جلد۔۶۔۵، شمارہ۔۹۳)

۹۔ مرزا محمد رفیع سودا اور مرزا فاخرمکیں کی معرکہ آرائیوں کے بارے میں اہم انکشافات (معارف، جلد۔ ۲، شمارہ۔۱۳۱)

۱۰۔  قلمی تذکرۂ ریخۃ گویاں مکتوبہ ۱۱۷۳ھ پر مقالہ (معارف، جلد۔ ۲، شمارہ۔۲۱)

معارف میں تقریباً پچاس سے زائد مقالے  ہیں جو اس کی تحقیقی ترجیحات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ ان مقالوں میں نادر و نایاب مطبوعات ، مخطوطات ، ادیبوں اور شاعروں کے احوال اور اردو شعرا کے تذکروں سے متعلق مضامین کا طویل سلسلہ ہے جو معارف کے اوراق کی زینت بنا۔ ان مختلف النوع تحقیقی مقالوں کے علاوہ غالب اور اقبال دو ایسی ادبی شخصیات ہیں جن پر معارف نے خصوصی توجہ صرف کی ہے۔ اقبال چوں کہ معارف اور دبستان شبلی سے فکری وابستگی رکھتے تھے اس لیے معارف کے تحقیقی اور تنقیدی سرمائے کا بڑا حصہ اقبالیات پر مشتمل ہے۔ یہ ذخیرہ علمی اور ادبی لحاظ سے نہایت قابل قدر اور اردو ادب کے سرمائے میں اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹرعتیق احمد لکھتے ہیں:

’’معارف نے اقبال کی زندگی ہی مین ان کے فلسفے اور شاعری پر مقالوں کی اشاعت کا آغاز کردیا تھا۔ یہ مضامین و مقالات اقبال کی تفہیم اور اقبالیات کے تشکیل میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ علامہ کی شخصیت اور فنی حیثیت کے مقابلے میں معارف نے ان کی فکر اور فلسفے پر زیادہ توجہ دی ہے۔‘‘

اقبال کے بعد معارف کے سرمایہ ادب میں غالب کا نمبر آتا ہے۔ غالب اردو کے سب سے بڑے شاعر تسلیم کیے جاتے ہیں۔ بااستثنائے چند سبھی نے ان کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ ان کی زندگی خواہ وہ نجی ہو یا ادبی دو انتہائوں کے درمیان گزری اور مرنے کے بعد بھی ان کی عظمت کا سفر دو انتہائوں کے درمیان گزرتا رہا۔ ایک طرف معترفین ہیں ۔ دوسری جانب معترضین اور دونوں سمتوں میں کچھ ایسے افراد ہیں جن کی انتہا پسندانہ طبیعتوں نے غالب کے شعری اور ذاتی کردار کوہمیشہ نزاعی بنا ئے رکھا۔ اردو شعر و ادب کی دنیا میں غالب کے کلام اور کردار پر جس قدر اور جتنے سخت اعتراضات وارد ہوتے رہے ہیں اتنے شاید کسی پر نہیں ہوئے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام اعتراضات کے باوجود ان کی شہرت اور مقبولیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔ اگر شخصی طور پر غالب کو دروغ گو، خود غرض، موقع پرست، خوشامدی، چاپلوس، مے خوار، مفاد پرست، انگریزدوست، مصلحت پسند اور پکا دنیا دار کہا گیا تو ان کے مداحوں نے انھیں وسیع القلب، دوست نواز، انسانیت پرست، خود دار، وضعدار، فیاض، غریب پرور اور صوفی منش ثابت کرنے کی کوشش کی۔ دونوں اپنے اپنے ثبوتوں اور حوالوں سے لیس ہیں۔ کسی نے انھیں صوفی و صافی کہا اور کسی نے شیطانی صفات سے متصف قرار دیا۔ انسان سمجھنے والوں کی تعداد سب سے کم رہی۔ کلام غالب کے نکتہ چینوں کا ذکر کرتے ہوئے نظیر صدیقی اپنے مضمون ’’کلام غالب کے نکتہ چین‘‘ مطبوعہ ’’انتخاب مقالاتِ غالب نامہ ’’تنقیدات‘‘ مرتبہ نذیر احمد غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی میں لکھتے ہیں:

’’آغا جان سے لے کر سلیم احمد تک غالب کے نکتہ چینوں کی طویل فہرست ہے۔ جس میں محمد حسین آزاد، نظم طباطبائی، آسی لکھنوی، بیخود موہانی، سہا رام پوری، یگانہ چنگیزی، نیاز فتح پوری، اثر لکھنوی، پروفیسر عبداللطیف، پروفیسر کلیم الدین احمد، ڈاکٹرآفاق احمد، ہنس راج رہبر اور حسن عسکری جیسے ماہرین فن ، سخن شناس اور تنقید نگار آتے ہیں۔‘‘  (اقتباس ختم)

تاہم آغا جان عیش نے غالب کی زندگی میں جو ہجویہ شعر کہا تھا   ؎

کلام میر سمجھے اور زبان میرزا سمجھے

مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے

وہ بھی غالب کے نام پر شہرت دوام حاصل کرچکا ہے۔

گویا غالب کی شہرت و مقبولیت کے عروج کی انتہا یہ ہے کہ ان پر اعتراضات کے جو تیر چلائے گئے تھے وہ بھی شہرت پاچکے ہیں۔ جس غالب کو عبدالرحمن بجنوری نے ’’رب النوع‘‘ کہا تھا اور جس کے دیوان کو سر تا سر الہام قرار دیاتھا اسی کوکم علم ، سارق اور چٹکلے باز مسخرا تک کہہ دیا گیا۔ نظیر صدیقی نے غالب بیزاروں کی اس ٹولی میں ایک ایسے نکتہ چیں کا ذکر بھی کیا ہے جو غالب کا نام سنتے ہی چیں بہ جبیں ہوگئے تھے۔ نظیر صدیقی کے مطابق پروفیسر مسعود حسن رضوی نے اپنے ایک مضمون ’’غالب تب اور اب‘‘ میں لکھا ہے:

’’جب میں یونیورسٹی میں ملازم ہوا تو ایک دن شعبہ مشرقی علوم کے فاضل استاد مولانا اصغر علی صاحب جو میرے بھی استاد رہ چکے تھے ۔ ان کے دریافت کرنے پرمیں نے اردو کے بڑے بڑے شاعروں کے نام لینا شروع کیے۔ میر،انیس ، غالب ۔ نام سنتے ہی مولانا کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور بگڑ کر بولے یہ میر و انیس کے ساتھ غالب کا کیا جوڑ۔ نہ اس کو اردو پر عبور تھا نہ فارسی پر۔‘‘

اس طرح کی دلچسپ باتیں غالب کے معترضین میں عام ہیں۔ غالب کے بعض مخالفین تو ان کی مخالفت میں اخلاقیات  کی سطح سے بھی نیچے اترآتے ہیں۔جیسا کہ ہنس راج رہبرؔ کا یہ جملہ ’’ایسا لگتا ہے غالب نے اپنے جن شعروں میں نمرود ، خضر اور جنت سے آدم کو نکلنے تک کی جو تلمیحات استعمال کی ہیں وہ بھی ان کی خباثت نفس کا نتیجہ ہیں۔‘‘

غالب کو مہمل گو یا مشکل پسند بہت کہا گیا ہے۔ حالاں کہ جرمنی کے جس عظیم شاعر گوئٹے سے غالب کو مماثل کیا جاتا ہے جب اس سے ان مشکلات کی بابت استفسار کیا گیا تو اس کا جواب تھا:

’’یہی تاریکی ہی تو ہے جس پر لوگ فریفتہ ہیں لوگ ان مقامات پر لایخل مسائل کی مثال غور کرتے ہیں اور اپنی ناکامی سے نہیں اکتاتے ۔ انسانی طلب کی انتہا تحیرہے۔ اگر کسی فعل سے حیرت پیدا ہو تو وہ کمال فن ہے۔‘‘

(بحوالہ تفہیم غالب کے مدارج، ڈاکٹر شمس بدایونی)

غالب بھی اپنے کلام سے قاری کو حیران کردیتے ہیں۔ حالی اور بجنوری نے غالب کی مشکل پسندی کو کمال فن قرار دیا ہے اور بے شمار لوگ ان کے ہم خیال ہیں۔ پروفیسر مسعود حسین خاں اپنے مضمون ’’غالب کے نکتہ چیں۔ نظم طباطبائی ‘‘میں دوٹوک کہتے ہیں :

’’ہر چند غالب اپنے سہل ممتنع کا ذکر کرتے ہیں لیکن یہ ان کے انداز بیان کا طرۂ امتیاز نہیں مشکل گوئی اور مشکل پسندی سے ان کا کلام تہ دار بنتا ہے۔ اس سے ان کا وہ منفرد اسلوب شعر ترتیب پاتا ہے جس کی وجہ سے اردو غزل میں غلبۂ غالب آج تک قائم ہے۔‘‘

لطف کی بات یہ ہے کہ صرف  ان مخالفین کوچھوڑ کر جنھیں غالب سے للّہی بغض ہے تقریباً تمام نکتہ چیں غالب کی شعری عظمت کے قائل ہیں یا کم از کم ان کو بڑا شاعر ضرور مانتے ہیں۔ ان میں یگانہ چنگیزی بھی شامل ہیں۔ جو اپنے آپ کو غالب شکن کہتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں :

’’ایشیائی شاعری میں غزل گوئی کی صنف سب سے مشکل ، سب سے زیادہ آسان، سب سے زیادہ بکار آمد، سب سے زیادہ فضول بھی ہے۔ اب یہ شاعر کی استعدا د پر موقوف ہے کہ وہ غزل کو ذلیل کردے یا معراج پر پہنچا دے ۔ غالب نے غزل کو ذلیل بھی کیا ہے اور اس کے معیار کو بلند بھی کیا ہے۔‘‘

یہی وہ غالب ہیں جنھیں معارف نے اپنے تحقیقی حصے میں اقبال کے بعد سب سے نمایاں جگہ دی ہے اور اس باب میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہوسکتا کہ غالب اس کے مستحق بھی تھے۔ غالب سے متعلق معارف میں جو تحقیقی اور تنقیدی مضامین و مقالے شائع ہوئے ہیں ان میں غالب کی سوانح، شاعری، ان کے تلامذہ اور غالب پر شائع ہونے والی کتابوں پر تبصرے سبھی کچھ شامل ہے۔ مضامین کے علاوہ شذرات میں بھی غالب کا ذکر آیا ہے۔ چنانچہ معارف کی ابتدا (جولائی ۱۹۱۶) کے صرف دو برس بعد ستمبر ۱۹۱۸ کے شذرات میں سید سلیمان ندوی نسخۂ حمیدیہ کی بابت یہ اہم اطلاع فراہم کرتے ہیں :

’’ہمارے دوست مولانا عبدالسلام ندوی شعرالہند کی خاطر آج کل کتب خانوں کی خاک چھان رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں وہ بھوپال بھی پہنچے۔ وہاں کے کتب خانۂ حمیدیہ میں انھیں ایک انمول جواہر ملا یعنی مرزا غالب کا ایک مکمل اردو دیوان بلاحذف و انتخاب جو موجودہ دیوان سے ضخامت میں دونا ہے۔ نہایت عمدہ مطلّا نسخہ ہے کسی خوش خط کے ہاتھ وہ پڑا تھا اس نے ان غزلوں کا مطبوعہ غزلوں سے مقابلہ کر کے اختلاف نسخ بھی لکھ دیا ہے۔ یہ نسخہ ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری مشیر تعلیمات بھوپال کے مطالعہ میں ہے۔ موصوف آج کل دیوان غالب کی خدمت گزاری میں مصروف ہیں اور عنقریب ان کے نتائج فکر ترقیٔ اردو کے ذریعے سے منظر عام پر آئیں گے۔‘‘

واضح ہو کہ یہ وہی نسخۂ حمیدیہ ہے جس نے اردو تحقیق و تنقید کی دنیا میں ایک ہنگامہ برپا کردیا تھا۔ جو کئی برس جاری رہا۔ نسخۂ حمیدیہ کی اس ہنگامہ خیز دریافت کے بعد اردو کے تقریباً سبھی صف اول کے محققین اور ناقدین نے بقدر توفیق و استعداد اس کے مباحث میں حصہ لیا۔ معارف کی مذکورہ تحریر کے دوماہ بعد ہی ۷؍نومبر ۱۹۱۸ کو عبدالرحمن بجنوری کا انتقال ہوگیا اور یہ پروجیکٹ ادھورا رہ گیا۔ عبدالرحمن بجنوری کے مقدمہ ’’محاسن کلام غالب‘ ‘کی اولین اشاعت کا قضیہ بعد از خوابیٔ بسیار ڈاکٹر حدیقہ بیگم کی کتاب ’’نقد بجنوری‘‘ کے حوالے سے ان نتائج کے ساتھ اختتام پذیر ہوا کہ بجنوری کا زیربحث مقدمہ ’’محاسن کلام غالب‘‘ کے عنوان سے پہلے پہل ’’رسالہ اردو‘‘ اورنگ آباد کے پہلے شمارے جنوری ۱۹۲۱ کی اشاعت میں شامل ہوا۔ بعد میں انجمن ترقی اردو نے اسے کتابی صورت میں اسی نام سے شائع کیا۔ اور اسی سال یعنی ۱۹۲۱ میں مفتی محمد انوار الحق کے مرتبہ دیوان غالب جدید المعروف بہ نسخۂ حمیدیہ مطبوعہ مفید عام اسٹیم پریس آگرہ میں شائع ہوا۔

کتب خانۂ بھوپال کے بارے میں دسمبر ۱۹۳۶ کے معارف میں ایک مقالہ شائع ہوا ہے جس میں مفتی انوارالحق کے مرتبہ ’’دیوان غالب جدید پر تبصرہ کرتے ہوئے سید صباح الدین عبدالرحمن نے اس کی اشاعت کے جواز پر سوال اٹھائے تھے لکھتے ہیں:

’’غالب نے جن اشعار کو منتشر اور پراگندہ سمجھ کر اپنے دیوان سے نکال دیا تھا اور ان کو ان کی طرف منسوب نہ کرنے کی التجا بھی کی تھی تو پھران کو ان کے کلام کے ساتھ شائع کرنا کہاں تک درست ہے۔ ممکن ہے آگے چل کر اہل نظر ان کو یا تو ایک غلط قسم کی ذہنی عیاشی قرار دیں یا نہیں تو کار بے کاراں‘‘

ہمیں اس سلسلے میں صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ ممکن ہے کوئی ایسا برا وقت آجائے جب مذکورہ بالا خدشات درست ثابت ہوں فی الحال تو غالب کے قلم زدہ اشعار کی ایک بڑی تعداد کو اہل نظر نے حرز جاں بنا لیا ہے۔ ہمارے خیال میں  اگر غالب نے غیر متداول کلام کے صرف یہی اشعار کہے ہوتے جنھیں سخن شناسوں نے دوبارہ متداول دیوان میں بطور ضمیمہ شامل کرلیا ہے تو بھی غالب بڑے شاعر تسلیم کیے جاتے۔ غالب ہمیشہ اپنے کلام میں وحشت کی باتیں کرتے رہے۔ نہ جانے ان کی وحشت کا وہ کون سا لمحہ تھا جس میں انھوں نے خس و خاشاک کے ساتھ ہیرے جواہرات بھی خاک دان کی نذر کر دیے۔ ذرا یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے۔ کیا انھیں کوئی نظر انداز کرسکتا ہے۔

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب

ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

تماشائے گلشن تمنائے چیدن

بہار آفرینا! گنہگار ہیں ہم

مرا شمول ہر اک دل کے پیچ و تاب میں ہے

میں مدعا ہوں طپش نامۂ تمنا کا

ملی نہ وسعتِ جولانِ یک جنوں ہم کو

عدم کو لے گئے دل میں غبار صحرا کا

کس کا خیال آئینۂ انتظار تھا

ہر برگِ گل کے پردے میں دل بے قرار تھا

ربط یک شہرازۂ وحشت ہیں اجزائے بہار

سبزہ بے گانہ، صبا آوارہ، گل نا آشنا

اسدؔ سودائے سر سبزی سے ہے تسلیم رنگیں تر

کہ کشتِ خشک اس کا ابرِ بے پروا خرام اس کا

عشق میں ہم نے ہی ابرام سے پرہیز کیا

ورنہ جو چاہیے اسبابِ تمنا سب تھا

دیوانگی اسدؔ کی حسرتِ کش طرب ہے

سر میں ہوائے گلشن دل میں غبارِ صحرا

پھر وہ سوئے چمن آتا ہے خدا خیر کرے

رنگ اڑتا ہے گلستاں کے ہوا داروں کا

ان دل فریبیوں سے نہ کیوں اس پہ پیار آئے

روٹھا جو بے گناہ تو بے عذر من گیا

ہم نے سو زخمِ جگر پر بھی زباں پیدا نہ کی

گل ہوا ہے ایک زخم سینہ پر خواہان داد

تیغ در کف، کف بہ لب آتا ہے قاتل اس طرف

مژدہ باد اے آرزوئے مرگِ غالب مژدہ باد

تو پست فطرت اور خیالِ بسا بلند

اے طفلِ خود معاملہ قد سے عصا بلند

اے اسد ہم خود اسیرِ رنگ و بوئے باغ ہیں

ظاہرا صیادِ ناداں ہے گرفتارِ ہوس

گل کھلے غنچے چٹکنے لگے اور صبح ہوئی

سر خوشِ خواب ہے وہ نرگسِ مخمور ہنوز

کون آیا جو چمن بے تابِ استقبال ہے

جنبشِ موج صبا ہے شوخیٔ رفتارِ باغ

دیر و حرم آئینۂ تکرارِ تمنا

داماندگیٔ شوق تراشے ہے پناہیں

ہوں گرمئی نشاط تصور سے نغمہ سنج

میں عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ ہوں

ہے تماشا گاہِ سوزِ ناز ہریک عضوِ تن

جوں چراغانِ دوالی صف بہ صف چلتا ہوں میں

جنون فرقتِ یارانِ رفتہ ہے غالب

بسان دشت دلِ پر غبار رکھتے ہیں

فلکِ سفلہ بے محابہ ہے

اس ستم گر کو انفعال کہاں

کوئی آگاہ نہیں باطن ہم دیگر سے

ہے ہر اک فرد جہاں میں ورق ناخواندہ

بے چشم دل نہ کر ہوس سیر لالہ زار

یعنی یہ ہر ورق، ورقِ انتخاب ہے

اسد اٹھنا قیامت قامتوں کا وقتِ آرائش

لباسِ نظم میں بالیدنِ مضمونِ عالی ہے

اسد بند قبائے یار ہے فردوس کا غنچہ

اگر وا ہو تو دکھلادوں کہ یک عالم گلستاں ہے

تمثالِ جلوہ عرض کراے حسن کب تلک

آئینۂ خیال کو دیکھا کرے کوئی

یارب ہمیں تو خواب میں بھی مت دکھائیو!

یہ محشرِ خیال کہ دنیا کہیں جسے

رشک ہے آسائشِ اربابِ غفلت پر اسدؔ

پیچ و تابِ دل نصیبِ خاطرِ آگاہ ہے

توڑ بیٹھے جب کہ ہم جام و سبو پھر ہم کو کیا

آسماں سے بادۂ گلفام گر برسا کرے

کثرتِ انشائے مضمونِ تحیّر سے اسد

ہر سرِ انگشت  نوکِ خامۂ فرسودہ ہے

عجز و نیاز سے تو نہ آیا وہ راہ پر

دامن کو اس کے آج حریفانہ کھینچیے

لالہ و گل بہم آئینۂ اخلاقِ بہار

ہوں میں وہ داغ کے پھولوں میں بسایا ہے مجھے

جامِ ہر ذرہ ہے سرشارِ تمنا مجھ سے

کس کا دل ہوں کہ دو عالم سے لگایا ہے مجھے

کمال حسن اگر موقوفِ انداز تغافل ہو

تکلف بر طرف تجھ سے تری تصویر بہتر ہے

جو چاہیے نہیں وہ مری قدر و منزلت

میں یوسفِ بہ قیمتِ اول خریدہ ہوں

نہ حشر و نشر کا قائل نہ کیش و ملت کا

خدا کے واسطے ایسے کی پھر قسم کیا ہے

مسجد کے زیر سایہ اک گھر بنا لیا ہے

یہ بندۂ کمینہ ہم سایۂ خدا ہے

غیر سے دیکھیے کیا خوب نبھائی اس نے

نہ سہی ہم سے پر اس بت میں وفا ہے تو سہی

غالب کے ساتھ تنازعات کا بڑا گہر ا تعلق رہا ہے کچھ تو وہ خود بھی لوگوں کو اپنے خلاف کرنے میںکم نہ تھے کچھ ان کے حاسدوں کی کرم فرمائیاں تھیں اور کچھ ایسی مجبوریاں جن میں ان کی مروت ، وضع داری، شرافت نفسی کا دخل ہوتا ۔ کبھی معاش و مذہب اور مقام و مرتبے کے معاملات بھی انھیں کسی نہ کسی قضیے میں گرفتار کردیتے ۔ سہرے کا مقطع ہو یا کوتوال دہلی سے رنجش، قمار بازی کے شوق میں سیر زنداں ہو یا مختلف مقدمات میں ہزیمت کا سامنا، سب کا دامن ان کی زندگی کے کیل کانٹوں میں الجھا ہوا ہے۔ اسی قسم کے ایک اور معاملے میں غالب کا پیر پھنسا ہوا نظر آتا ہے۔ اس معاملے کا تعلق ایک مثنوی سے ہے جو بہادر شاہ ظفر نے غالب سے لکھوائی تھی۔ معارف اپریل ۱۹۲۲ئ اور مئی ۱۹۲۲ئ میں حافظ احمد علی خاں، ناظر کتب خانۂ رام پور کا ایک مقالہ بعنوان ’’سراج الدین ظفر شاہ دہلی اور مرزا غالب کی زندگی کا ایک گم شدہ ورق‘‘دو قسطوں میں شائع ہوا ہے۔اس مقالے کے ذریعے انھوں نے غالب کی زندگی کے ایک اہم اور نازک پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ معلومات فراہم کی ہیں ۔

’’دلی کے انحطاط اور لکھنؤ کے دور عروج میں دلی کے چند شہزادوں نے لکھنؤ پہنچ کر مشہور کردیا تھا کہ بہادر شاہ ظفر نے شیعہ مذہب اختیار کرلیا ہے۔ یہ خبر جب دہلی پہنچی تو دہلی کے اعیان وا کابرین میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ بادشاہ نے اس افواہ کی اعلانیہ تردید کی اور غالب سے اس کی تردید میں ایک فارسی مثنوی لکھوائی۔ اہل لکھنؤ کو جب اس مثنوی کے مصنف کا علم ہوا تو وہ غالب سے خفا ہو بیٹھے۔اس واقعے کے تقریباً نو ماہ بعد غالب نے بطور تلافی اپنا ایک قصیدہ دربار لکھنؤ بھیجا۔‘‘

غالب کی الجھن یہ تھی کہ وہ ایک کوخوش کرتے ہیں تو دوسرا خفا ہوجاتا ہے اور غالب کے لیے دونوں کو خوش رکھنا ضروری، لیکن خاصا مشکل کام تھا۔ معارف نے غالب کی اہمیت کے خیال سے اس واقعے کو اپنے دوشماروں میں جگہ دی ہے۔

غالب سے متعلق معارف کے تحقیقی مضامین میں جو نئے انکشافات ہوئے ہیںاور بعد میں جن کے حوالے سے ماہرین غالب نے اپنی تحقیق کو وسعت دی ہے ان میں سے چند یہ ہیں۔

۱۔    ڈاکٹر خلیق انجم کے مرتب کردہ خطوط غالب (جلد اول) مطبوعہ غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی کے صفحہ ۲۴۵ پر غالب کا ایک خط علائوالدین خاں علائی کے نام ہے۔ یہ خط معارف کے شمارہ نمبر ۴، جلد۔۱۰ مورخہ دسمبر ۱۹۲۲ میں ’’آثار علمیہ‘‘ کے تحت پہلی مرتبہ شائع ہوا تھا۔ ڈاکٹر خلیق انجم مرحوم نے اسے معارف ہی کے حوالے سے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔

غالب کے دوسرے خطوط کی طرح یہ بھی ایک دلچسپ خط ہے۔ اس میں نواب علاوالدین خاں علائی کی لوہارو آنے کی دعوت کے جواب میں غالب یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ وہاں آم کہاں ملیں گے جو میرے سفر کا سبب بن سکیںجواباً علائی نے بھی انھیں منظوم خط لکھا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ وہاں غالب کی ہر فرمائش پوری کی جائے گی۔ غالب کے قطعات دو ہیں ایک اردو میں دوسرا فارسی میں۔ یہاں اردو قطعہ پیش ہے:

خوشی ہے یہ آنے کی برسات کی

پیئں بادۂ ناب اور آم کھائیں

سر آغازِ موسم میں اندھے ہیں ہم

کے دلی کو چھوڑیں لوہارو کو جائیں

سوا ناج کے جو ہے مقلوب جاں

نہ واں آم پائیں نہ انگور پائیں

ہوا حکم باورچیوں کو کہ ہاں

ابھی جا کے پوچھو کہ کل کیا پکائیں

وہ کھٹے کہاں پائیں املی کے پھول

وہ کڑوے کریلے کہاں سے منگائیں

فقط گوشت سو بھیڑ کا ریشے دار

کہو، اس کو کیا، کھا کے ہم حظ اٹھائیں

۲۔    معارف مئی ۱۹۲۶ میں حافظ نذیر احمد کا ایک مضمون بعنوان ’’مرزا غالب کے بچپن کی ایک تحریر‘‘ موجود ہے۔ اس مضمون کے مطابق:

’’یہ تحریر مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی کے کتب خانۂ حبیب گنج (علی گڑھ) میں محفوظ ہے۔ یہ ایک قسم کی دستاویز ہے جس کو ۱۲۹۱ھ مطابق ۱۸۰۴ میں غالب مرحوم نے خدا داد خاں ولی داد خاں کے پاس اپنا مکان گروی رکھ کر جو روپیہ لیا تھا اس کے عوض میں لکھ کر ان کے حوالے کیا۔‘‘

معارف کے اس مضمون کی اہمیت یہ ہے کہ ہم اس کے ذریعے نہ صرف غالب کی ایک نو دریافت تحریر سے واقف ہوتے ہیںبلکہ  اسی خط کے ذریعے ہمیں پہلی بار علم ہواکہ غالب کی والدہ کا نام عزت النسا بیگم تھا۔

۳۔    معارف مارچ ۱۹۲۸ئ میں مولوی ضیاالدین احمد برنی کاایک مضمون ’’غالب و صہبائی کے خطوط‘‘ شائع ہوا۔ اس مضمون میں تمہید و تعارف کے ساتھ غالب اور امام بخش صہبائی کاایک ایک خط نقل کیا گیا ہے۔ غالب کا خط مولوی ضیالدین خاں کے نام ہے۔ اس خط میں غالب نے فارسی اور عربی زبان کی وسعت کا تقابل کیا ہے اور فارسی کی بہ نسبت عربی زبان کو زیادہ وسیع قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں:

’’مولوی صاحب جمیل المناقب ۔ مولوی ضیاالدین احمد خاں کی خدمت میں بعد سلام عرض کیا جاتا ہے کہ میں عالم نہیں مگر شرف اور فضیلت علما میرے دل میں نقش ہے اور علم کو زبان عربی میں منحصر جانتا ہوں۔ اللہ اللہ علم عربی کی وسعت، صرف ، نحو، منطق ، فلسفہ، تفسیر، حدیث ، فقہ پانچ سات برس تک آدمی اس کو تحصیل کرسکتا ہے۔یعنی طب و نجوم و ہیئت و ہندسہ و ریاضی اور اس کے سوا اور علوم سب عربی زبان میں ہیں ۔ فارسی زبان بعد تباہ ہونے یزدجرد کی سلطنت کے مٹتی گئی یہاں تک کہ بہ قدر ایک بولی کے رہ گئی۔‘‘

مولوی ضیا الدین احمد خاں کے نام غالب کے جو دوسرے خطوط ہیں جن کا ذکر اس مضمون میں نہیں ان میں غالب نے اردو فارسی کی لغت و قواعد کی بحث اٹھائی ہے اور مرزا قتیل، غیاث الدین رام پوری اور روشن جونپوری پر چھینٹا کشی کی ہے۔ دراصل یہ ’’برہان قاطع ‘‘ کے قضیہ کا تسلسل ہے۔

۴۔   معارف جلد ۔۲۹، شمارہ۔۳ مورخہ ۱۹۳۲  میں پروفیسر شیخ عبدالقادر سرفراز کے انگریزی مضمون برائے انگلش میگزین ’’رائل ایشیاٹک سوسائٹی‘‘ بمبئی جنوری ۱۹۲۸ئ کا اردو ترجمہ بعنوان ’’بمبئی یونیورسٹی کے چند فارسی مخطوطات‘‘ مترجم محمد علی شائع ہوا ہے۔ اس مضمون کے مطابق گجرات کے ریختہ گویوں کا ایک فارسی تذکرہ ’’مخزن الشعرا‘‘ مصنفہ قاضی نورالدین فائق کی تصنیف ہے۔ یہ تذکرہ بغرض تصحیح  وتبصرہ غالب کی خدمت میں ارسال کیا گیا تھا ۔ غالب نے کلمات خیر اور ان الفاظ کے ساتھ کہ ’’مجھ کو یہ پایہ نہیں کہ آپ کی نثر میں دخل دوں۔‘‘ مرحبا اور آفریں سے نوازا ہے غالب کی اس رائے پر جولائی ۱۸۷۲ئ کی تاریخ رقم ہے۔ تذکرے کے صفحۂ آخر کے حاشیے پر غالب کی رائے کے ساتھ یہ نوٹ بھی شامل کیا گیا ہے :

’’عبارت کہ جناب مرزا اسد اللہ خاں غالب صاحب بعد مطالعۂ این اوراق و اصلاح آن تحریر فرمود برائے یادگار تحریر نمود۔‘‘

معارف جلد۔ ۷۷، شمارہ۔ ۳ ا مارچ ۱۹۵۶ میں خواجہ احمد فاروقی کا مقالہ بعنوان ’’خوب چند ذکا اور مرزا غالب‘‘ شائع ہوا۔ مقالہ نگار نے خوب چند ذکا کے تذکرے ’’عیار الشعرا‘‘ کی عبارت سے یہ نتائج اخذ کیے ہیں کہ ’’عیارالشعرا ‘‘ کی تالیف کے وقت غالب آگرہ ہی میں تھے اور ذکا نے جو اشعار نمونتاً نقل کیے ہیں وہ بھی آگرہ ہی کی تخلیق ہیں۔ ان میں چار ایسے شعر بھی شامل ہیں جو نسخہ حمیدیہ سمیت دیگر مروجہ دواوین میں نہیں تھے۔

۶۔    معارف جلد۔ ۸۲، شمارہ۔ ۵،نومبر ۱۹۵۸، جلد۔ ۸۳، شمارہ۔۲، فروری ۱۹۵۹ئ، جلد۔ ۸۳، شمارہ۔۵، مئی ۱۹۵۲ اور جلد۔ ۸۴، شمارہ۔۲، اگست ۱۹۵۹ئ کی چار اشاعتوں میں ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کے بعد بہادر شاہ ظفر کی شنہشاہی کے اعلان کے ساتھ سکّۂ شعرکے تنازعہ پر اردو کے دونامور ادیبوں خواجہ احمد فاروقی اور مالک رام کے دو دو معرکۃ الآرا مقالے شائع ہوئے۔ مذکورہ بحث کا آغاز خواجہ احمد فاروقی کے مقالے ’’غالب کا سکّۂ شعر‘‘ سے ہوتا ہے۔ اس میں انھوں نے غالب کے ایک مکتوب بنام حسین مرزا جون ۱۹۵۹ کے حوالے سے یہ ثابت کر نے کی کوشش کی ہے کہ ایک سرکاری جاسوس گوری شنکر کی مخبری سے غالب پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ بادشاہ کا یہ سکہ غالب کی تصنیف ہے۔

بہ زر زد سکۂ کشور ستانی

سراج الدیں بہادر شاہ ثانی

جب کہ غالب اس الزام سے اپنی برات کا اظہار کرتے رہے۔ خواجہ احمد فاروقی غالب کے اس خیال کی تائید کرتے ہیں کہ مذکورہ سکہ غالب کا نہیں مگر وہ ایک دوسرے سکے کو فکر غالب کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جو یہ ہے   ؎

بر زر آفتاب و نقرۂ ماہ

سکہ زد درجہاں بہادر شاہ

اور کہتے ہیں:

’’یہ شعر پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ اس کا مصنف غالب کے سوا دوسرا نہیں۔‘‘

اپنے اس خیال کو تقویت پہنچانے کی غرض سے وہ معین الدین حسن خاں کی تصنیف ’’خدنگ غدر‘‘ اور جیون لال کے روزنامچے کا حوالہ دیتے ہیں:

اس مضمون کے جواب میں مالک رام کا مقالہ ’’ غالب پر سکہ کا الزام اور اس کی حقیقت‘‘ شا ئع ہوا۔ مالک رام کی تحقیق کے مطابق  گوری شنکر نے جوسکہ غالب سے منسوب کیا تھا اور جسے غالب، ذوق کا سمجھ رہے تھے ۔ وہ دراصل ذوق کے شاگرد حافظ غلام رسول ویراں کا تھا۔ غالب اس الزام کی تردید کے لیے ’’اردو اخبار‘‘کے متلاشی رہے ۔ مگر یہ سکہ ’’صادق الاخبار‘‘ دہلی ۱۳؍ ذی قعدہ ۱۲۷۳ھ کے صفحۂ اول پر شائع ہوا تھا۔

خواجہ احمد فاروقی نے دوسرا مضمون لکھا اور اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ جس سکہ کو وہ غالب کا سمجھتے ہیں ان کے نزدیک وہ غالب ہی کا ہے اور وہ اس بابت اب بھی اپنی رائے پر قائم ہیں۔ خواجہ احمد فاروقی کے اس مضمون کے تین ماہ بعد مالک رام کا ایک اور مضمون ’’غالب سے منسوب دوسرا سکہ اور اس کی حقیقت‘‘ شائع ہوا۔ اپنے اس مضمون میں مالک رام نے دوسرے سکے کے راوی منشی جیون لعل کو ناقابل اعتبار ثابت کیا اور ان کے بیان کی صحت سے صاف انکار کردیا۔

۷۔    معارف دسمبر ۱۹۵۶ میں ’’نگارستان سخن‘‘ از عطاالرحمن کاکوی کے ایک نایاب نسخے کا تعارف شامل ہے۔ یہ کتاب مطبع احمدی شاہدرہ دہلی سے شائع ہوئی۔ اس میں ذوق مومن اور غالب کا انتخاب یکجا کیا گیا ہے۔ ۱۷۶ صفحات پر مشتمل اس مجموعے کا ہر صفحہ تین کالمی ہے۔ ہر کالم میں علی الترتیب ذوق غالب اور مومن کا کلام شامل کیا گیا ہے۔ ذوق اور مومن کا کلام تو انتخاب ہے مگر غالب کا کلام جو متداول نسخوں میں پایا جاتا ہے سب کا سب اس میں موجود ہیں۔ عطا کاکوی لکھتے ہیں:

’’اب تک جو یہ سمجھا جاتا تھاکہ غالب کے اردو دیوان کے کل پانچ ایڈیشن خود ان کی حیات میں چھپے ، یہ غلط ہے۔ ان میں ایک اوراضافہ ہوا اور اب ان کی ترتیب بھی بدل گئی جو پانچواں ایڈیشن تھا وہ چھٹا ہوگیا اور پانچویں کی جگہ ’’نگارستان سخن‘‘ نے لے لی۔ اب ان کی ترتیب یہ ہے

پہلا ایڈیشن مطبوعہ چھاپا خانہ سید محمد خان، دہلی، اکتوبر ۱۸۴۱

دوسرا ایڈیشن مطبوعہ دارالسلام حوض قاضی ،دہلی، ۱۸۴۷

تیسرا یڈیشن مطبوعہ مطبع احمدی شاہدرہ ،دہلی، جولائی ۱۸۱۶

چوتھا ایڈیشن مطبوعہ نظامی پریس، کانپور، ۱۸۶۲

پانچواں ایڈیشن مطبوعہ مطبع احمدی شاہدرہ، دہلی بہ نام ’’نگارستان سخن‘‘ بہ شمول کلام ذوق و مومن اگست ۱۸۶۲

چھٹا ایڈیشن مطبوعہ مطبع مفید خلائق، آگرہ، ۱۸۶۳

۸۔   معارف مئی ۱۹۶۱ئ میں پروفیسر محمد مسعود احمد کا ایک مقالہ بعنوان ’’حضرت غمگین اور مرزا غالب کے جواب میں ان کا ایک غیر مطبوعہ مکتوب‘‘ شامل ہے۔ اس مقالے میں میر سید علی غمگین کے حالات زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے اور مرزا غالب سے ان کے تعلق خاطر اور دونوں کے درمیان فارسی مراسلت کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ غمگین غالب کے محسنوں میں تھے۔ غالب ان کی بہت عزت کرتے اور غمگین غالب پر شفقت فرماتے تھے۔

۹۔    معارف نومبر ۲۰۰۴ئ میں اکبر حیدری کشمیری کی ایک دلچسپ تحریر بعنوان ’’بیاض غالب بخط غالب‘‘ شائع ہوئی تھی جس میں کلام غالب میں جعل سازی اورا لحاق کی پوری تاریخ یک جا کردی گئی ہے ۔ ڈاکٹر عتیق احمد جیلانی نے اپنے مقالے ’’رسالہ معارف کی اردو ادبی خدمات‘‘میں جن پہلوئوں کی نشاندہی کی ہے وہ یہ ہیں:

الف۔   ’’بیاض غالب بخط غالب‘‘ (غالب نمبر دو) مرتبہ نثار احمد فاروقی نسخہ لاہور ، مطبوعہ اکتوبر

۱۹۲۹جعلی ہے۔

ب۔    مذکورہ بالا نسخہ ’’دیوان غالب بخط غالب‘‘ (نسخۂ عرشی زادہ) کے نام سے بھی شائع ہوا۔

مولانا امتیاز علی خاں عرشی اور پروفسیر آل احمد سرور نے اپنے مضامین میں اسے مستند قرار دیا۔

ج۔     مجمع الاشعار (کان پور نولکشور ۱۸۷۲) میں صفحہ ۴۴ اور صفحہ۸۳ پر غالب کی دو غزلیں ہیں۔ پہلی غزل مکرم الدولہ غالب کی ہے اور دوسری بھی الحاقی ہے۔

د۔           ’’چمن بے نظیر‘‘ (بمبئی مطبع محمدی فروری ۱۸۹۲ میں صفحہ ۵۶ اور صفحہ ۲۴۶ پر شائع شدہ دونوں غزلیں جعلی ہیں۔

ہ۔        ’’مخزن‘‘ لاہور کے ابتدائی پرچوں میں غالب کا الحاقی کلام شامل کیا گیا ہے۔

و۔         ’’الہلال‘‘ کلکتہ یکم جولائی اور ۲۲؍جولائی ۱۹۴۱ میں غالب کا الحاقی کلام موجود ہے۔

ز۔         مولانا عبدالباری آسی نے غالب کا کلام ’’بنانا‘‘ شروع کردیا جسے نیاز فتح پوری نے

’’نگار‘‘ لکھنؤ،(فروری ۱۹۳۱ ، شمارہ ۔۲۰) میں اپنے مضمون کے ساتھ شائع کیا۔ مجنوں گورکھپوری بھی یہ غزلیں دیکھ کر دھوکا کھا گئے۔

ح۔      آسی نے مکمل شرح غالب اور غالب کا غیر مطبوعہ کلام ، غالب کی ایک رنگین فرضی تصویر کے ساتھ۱۹۳۱ میں صدیق بک ڈپو لکھنؤ سے شائع کیا۔ اس کام میں انھیں نیاز فتح پوری اور وصل بلگرامی کا تعاون حاصل تھا۔

ط۔         مذکورہ جعلی کلام دیوان غالب نسخہ عرشی (دہلی انجمن ترقی اردو ۱۹۵۸) میں بعنوان ’’یادگار نالہ‘‘

شامل ہے۔

ی۔        محمد ابراہیم خلیل کی ’’اپریل فول‘‘ والی غزل جو پہلے گوہر تعلیم بھوپال (اپریل ۱۹۳۷) اور پھر ’’ہمایوں‘‘ لاہور (اپریل ۱۹۳۹) میں چھپی تھی دیوان غالب نسخۂ عرشی اور نسخۂ مالک رام میں شامل ہے۔

ک۔   صاحب مضمون کی نظر میں نسخۂ حمیدیہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

میرے خیال سے مذکورہ باتیں غالب کی عظمت کی دلیل ہیں اور ان کے غیر معمولی اعتراف کے ذیل میں آتی ہیں۔ اس طرح کے واقعات جن کا ذکر کیا گیا ہے ایک ایسے شخص یا شخصیت کے وجود کا احساس دلاتے ہیں جو شعوری اور غیر شعوری طور پر لوگوں کے دل و دماغ پر چھا گیا ہو اور جس نے کائنات ادب کو تسخیر کرلیا ہو۔ غالب کے جعلی کلام کے شرارت آمیز ادبی کھیل اور اس کے نتیجے میں بعض سنجیدہ نقادوں کے دھوکا کھا جانے کا اثر یہ ہوا کہ بعض  محقق اور نقاد اس حد تک محتاط بلکہ خوف زدہ ہوگئے کہ انھیں سچ پر بھی جھوٹ کا گمان گزرنے لگا۔ نسخۂ حمیدیہ کو جعلی قرار دینا خوف کی اسی نفسیات کا نتیجہ ہے۔

ل۔        معارف جنوری ۱۹۲۲ میں مولوی عبدالماجد دریاآبادی کا ایک مضمون بعنوان ’’مرزا غالب کا ایک فرنگی شاگرد آزاد فرانسیسی‘‘ شائع ہوا ہے۔ اس مقالے میں عبدالماجد دریابادی نے الیگزینڈر ہیدرلے آزاد (Elexender Heatherly Azad) کا تعارف ان کے مطبوعہ دیوان کے حوالے سے کرا یا ہے۔ ان کی فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق یہ نسخہ رام پور کے سرکاری کتب خانے میں موجود ہے۔

م۔     معارف اپریل ۱۹۵۶ میں محمد علی خاں اثر رامپوری کا مضمون فتح یاب خاں اخگر مینائی شاگرد غالب شامل اشاعت ہے۔ امیر مینائی کے تذکرہ ’’انتخاب یادگار‘‘ میں ان کے حالات کے تحت صرف دو سطریں اور چار شعر شامل کیے گئے ہیں۔ البتہ اثر رام پوری کے مضمون میں شخصی تعارف کے بعد یہ اطلاع بہم پہنچتی ہے کہ اخگر کا بیشتر کلام تلف ہوچکا ہے بطور یادگار غزلوں کے بیس شعر ایک رباعی اور مرثیے کے چھ بند شامل مضمون ہیں۔ رہوار امام عالی مقام کی تعریف میں اخگر کے دو بندوں کا تقابل میر انیس سے کیا گیا ہے اور حق یہ ہے کہ تشبیہات کی ندرت ، خیال کی بہجت، ذہن شاعری کی بلند پروازی میں یہ بند ہندی کے مقولے ’’جہاں نہ پہنچے روی وہاں پہنچے کوی‘‘ کی یاد تازہ کردیتے ہیں۔ بند یہ ہیں جن کے ایک مصرع پر عجب نہیں کفر کا فتویٰ بھی صادر کردیا گیا ہو۔ خود شاعر بھی اپنی اس جسارت پر معذرت خواہ ہے۔

رکھیں معاف طعن سے گر مجھ کو اہل دیں

لکھوں میں اس کے حق میں یہ مضمون دلنشیں

ممکن اگرچہ روئے عقیدت سے یہ نہیں

پر اس کی جست و خیز سے ہوتا ہے یہ یقیں

اک جست میں احاطۂ علم خدا سے وہ

جاتا نکل احاطۂ علم خدا سے وہ

کس سے بیاں ہو تیز روی اس سمند کی

کیا اصل برق و باد و چرند و پرند کی

چستی پہ دال وضع ہوئی بند بند کی

چال اس کی دشمنوں نے بھی دل سے پسند کی

جس وقت کوئی جلد خدا اس سے کام لے

سرعت کو اس سے شہپر جبریل وام لے

ن۔       معارف فروری ۱۹۶۹ میں ڈاکٹر سید لطیف حسین ادیب کامقالہ ’’بریلی میں غالب کے تلامذہ‘‘ شائع ہوا ہے۔ اس مقالے کے مطابق ۱۸۵۷کے آس پاس بریلی کے دو خاندانوں کو شعر و ادب سے گہری وابستگی تھی ان میں سے ایک خاندان نوابین روہیلہ کا تھا اور دوسرا مفتیان کا۔ روہیلہ، دبستانِ لکھنؤ سے زیادہ متاثر تھے اور خاندان مفتیان کے شعرا غالب کے شاگرد ہوئے۔ اس مقالے میں غالب کے چھ بریلوی تلامذہ کا احوال درج ہے۔ جن کے اسمائے گرامی ہیں : (۱) مفتی سلطان خاں احسن (۲) مفتی سید احمد خاں سید  (۳) قاضی عبدالجیل جنوں (۴) قاضی عبدالرحمن وحشی (۵)غلام بسم اللہ سجل (۶) محمد حسین حاجب۔ ان تلامذہ میں اولین چار شعرا کا تعلق خاندان مفتیان سے ہے۔

س۔    معارف اکتوبر ۱۹۳۰ میں سید مقبول حسین احمد پوری کا تنقیدی مضمون ’’عیش مایوسی‘‘ شریک اشاعت ہے۔ اس میں فکر غالب کے ان اساسی پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے جنھیں ان کے تصورات شعر میں بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔ مضمون نگار کے خیال میں:

’’مرزا صاحب ناکامی میں کامیابی کے جویا ہیں۔ شکست میں ان کو فتح نظرآتا ہے۔ رنج وغم سے ان کو فرح حاصل ہوتی ہے اور منتہائے مایوسی ان کے نزدیک عیش و عشرت کی منزل ہے۔ یہی وہ فلسفہ ہے جس کو افادیت کے تحت ’’عیش مایوسی‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہے۔‘‘

ع۔       معارف اکتوبر ۱۹۶۳ میں جنا ب عبدالمغنی  کا مضمون ’’موازنۂ اقبال و غالب‘‘ شامل ہے۔ اس میں صاحب مضمون نے یہ تاثر پیش کیا ہے کہ اقبال اردو کے شعرا میں سب سے زیادہ غالب سے متاثر ہیں۔ اس تاثر کو ثابت کرنے کے لیے انھوں نے دونوں کے درمیان شوخیٔ اندیشہ ، رفعت خیال، ندرت فکر، شوکت اسلوب اور آتش نوائی جیسی مماثلتوں کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔ مگر جب وہ دونوں کا فکری موازنہ کرتے ہیں تو انھیں اقبال کی فکر میں تسلسل اور فکر غالب میں انتشار ، رطب و یابس اور تضاد کا احساس ہوتا ہے ۔ چنانچہ ان کا خیال ہے کہ:

’’غالب اپنی فکری توانائیوں کے باوجود زندگی کا کوئی واضح تصور نہیں رکھتے ان کا شعور اجتماعی درد سے خالی تھا۔ سنجیدہ اور ہموار تفکر ان کے یہاں نہیں ملتا ۔ ان کے کلام میں تحریک عمل مفقود ہے۔‘‘

مضمون نگار کے خیال میں فکر وفلسفہ کی مختلف جہتوں اور شعری محاسن کے لحاظ سے غالب پر اقبال کو فوقیت حاصل ہے۔صاحب مضمون کی ان دونوں آرا پر کہ غالب کے کلام میں تحریک عمل مفقود ہے اور شعری محاسن کے حوالے سے اقبال کو فوقیت حاصل ہے خاصی گفتگو ہوچکی ہے اور ماہرین نے عموماً ان خیالات سے اختلاف کیا ہے۔

ف۔     معارف اکتوبر ۱۹۹۴ میں ڈاکٹر محمدحسین فطرت کا مضمون ’’غالب کا مذاق اجتہاد‘‘ خاصے کی چیز ہے۔ اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ :

’’غالب کے اجتہادی ذہن کو لکیرکا فقیر بننا گوارہ نہ تھا۔ ان کی پرواز تخیل نے شاعری کے ہر موڑ پر فکر و استدلال اور بصیرت و فراست کے رنگ برنگ پھول کھلائے ہیں روایتی مضامین کا اعادہ غالب کے مجتہدانہ ذہن کے شایان شان نہ تھا ۔ ان کی پوری شاعری مروجہ روایتی شاعری کے خلاف ایک صدائے احتجاج کے مترادف ہے۔‘‘

ص۔    معارف: ۱۵/۱۲۱۔ مئی ۱۹۷۸  میں صوفی نذیر احمد کاشمیری کا ایک مضمون بعنوان ’’اقبال کے مداح اور نقاد‘‘ شائع ہوا ہے۔ یہ مضمون بظاہر تو اقبال پر ہے مگر اس میں دل کا غبار غالب پر نکالا گیاہے اور طنز و تعریض کے جتنے تیر تھے بلکہ طنز و تعریض ہی کیوں؟ لعنت ، ملامت، تلخی، ترشی اور حقارت کے بھی جتنے تیر تھے ان سب کا نشانہ غالب بنے ہیں۔ غالب کے بارے میں ان کے خیالات انھیں کی زبانی سنیے ۔ فرماتے ہیں:

’’ساری دنیا کے اباحیت پسندوں کے محبوب ترین شاعر غالب کے دیوان کو اخلاق کی کسوٹی پرپرکھیں تو انھیں نشااللہ ندامت سے سرجھکا دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہے گا۔ غالب کی شاعری کا بہت بڑا حصہ تمسخر اور عوامی واہ واہ حاصل کرنے کے چٹکلوں کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اس شخص کی شاعری کا بڑا حصہ اسی مسخرہ پن پر مشتمل ہے۔‘‘

صوفی صاحب نے اسی پربس نہیں کیا ابھی شاید ان کے دل کا غبارپوری طرح نہیں نکلا تھا یا شاید غالب کی شان میں اپنے سابقہ الفاظ انھیں ہلکے او رکم مایہ محسوس ہوئے تھے ۔ اس لیے مضمون کے آخر میں رومی، ٹیگور اور غالب کا اقبال سے موازنہ کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر وہ غالب پر حملہ آور ہونے کا موقع نکال لیتے ہیں اور غالب کی شاعری اور شخصیت پر یوں اظہار خیال کرتے  ہیں:

’’غالب ایک بڑی بھاری اور نہایت ٹوٹی ہوئی تہذیب کے کھنڈرات کا نام ہے جہاں سانپ، بچھو، چوہے، چھپکلی، الّو، شہباز، چڑیا، کبوتر سبھی نے اپنے اپنے گھونسلے بنا رکھے ہیں۔ مگران کھنڈرات کی اور وہاں رہائش کرنے والوں کی انسانی دنیا کے لیے کوئی افادیت نہیں۔ غالب کے یہاں زندگی کے کردار و گفتگو کو کسی آئین و ضبط کا پابند کرنا بے جا رکھ رکھائو اور رسوم پر ستی ہے۔ وہ تو ایک پاگل کی سڑی ہوئی لاش ہے جو کھلے ہوئے میدان میں پڑی ہے اور جس میں ابھی کچھ رمق حیات موجود ہے۔ لہٰذا کبھی تو اس سے مجنونانہ ہنسی اور کبھی تکلیف دہ کراہنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ مگر زیادہ بے معنی ہوں ہاں کا سماں رہتا ہے۔ بے مقصد یاس اور لا اخلاقیت کے تین حیات کش عناصر سے غالب خستہ تن کی لاش بنی ہے اور یہ تینوں چیزیں انسانی معاشرے کے لیے پیام مرگ کا حکم رکھتی ہیں۔‘‘

مدیر معارف سید صباح الدین عبدالرحمن کا ایک وضاحتی نوٹ بھی اس مضمون کے ساتھ شامل اشاعت ہے جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ :

’’اس مقالے میں فاضل مقالہ نگار کا لہجہ ان کااپنا ہے جو معارف کے روایتی لب ولہجے سے مختلف ہے ۔ مگرا ن کے احترام میں اس میں تبدیلی نہیں کی گئی۔ غالب کے متعلق انھوں نے جو کچھ فرمایا ہے اس سے معارف کو پورا اتفاق نہیں مگر غالب کی مدح کے ساتھ ان کی قدح بھی بہت کی گئی ہے۔ ان کی قدح کا ایک نمونہ اور بھی سامنے آئے گا۔‘‘

ہمارے نزدیک یہ وضاحتی نوٹ عذر گناہ بدتراز گناہ کے مترادف ہے۔ اگر یہ مضمون اور اس کا لب و لہجہ معارف کے مزاج سے مختلف بلکہ متصادم تھا تو کسی دوسرے کے احترام پر معارف کے احترام کو قربان کرنا کسی طرح مناسب نہ تھا۔ معلوم نہیں کہ مدیر معارف کو قدح کا یہ نمونہ اتنا کیوں پسند آیا۔

ق۔       معارف جلد ۱۰۳ ، شمارہ۔۲،۳،۴ اور ۵ (فروری، مارچ، اپریل، مئی ۱۹۶۹) کے چار شماروں میں مدیر معارف سید صباح الدین عبدالرحمن کا ایک طویل مقالہ ’’غالب مدح و قدح کی روشنی میں‘‘ قسط وار شائع ہوا۔ بعد ازاں ترمیمات و اضافوں کے ساتھ یہی مقالہ ۱۹۷۷ میں بصورتِ کتاب منظر عام پرآیا۔ یہ کتاب دارالمصنفین کے سلسلہ مطبوعات کے تحت معارف پریس سے شائع ہوئی۔ اس کتاب میں غالب پر لکھی جانے والی مخالفانہ اور موافقانہ تحریروں کا ذاتی اور انفرادی نقطۂ نظر سے جائزہ لیا گیا ہے۔ بطور نمونہ ’’محاسن کلام غالب‘‘ پر ان کا نظریہ اور طرز استدلال پیش ہیں۔ لکھتے ہیں:

’’ تحریر کی اس قسم کی آن بان سے پڑھنے والا دبتا چلا جاتا ہے اور اس کو غور کرنے کا موقع نہیں ملتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں بلکہ وہ اسی میں کھو یا رہتا ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں کس شان و شکوہ سے کہہ رہے ہیں ، لیکن جب وہ ٹھہر کر غور کرتا ہے تو پھران کی پرشکوہ تحریروں کے بار سے ہلکا ہوکر یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ان کی بعض باتوں میں حقیقت سے زیادہ عقیدت کو دخل ہے۔‘‘

ان بلند پایہ تحقیقی اور تنقیدی مقالات کے علاوہ معارف نے غالبیات سے متعلق تقریباً سو سے زیادہ کتابوں پر تبصرے اور جائزے شائع کیے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

Categories Uncategorized

غالب نے اردو میں خط و کتابت کب سے شروع کی؟

قاضی عبدالودود

غالب نے اردو میں خط و کتابت کب سے شروع کی؟

       غالب نے اردو میں خط و کتابت کب سے شروع کی؟ اس سوال کاجواب سب سے پہلے حالی کی یادگار غالب میں تلاش :کرناچاہیے۔ حالی لکھتے ہیں

”معلوم ہوتاہے کہ مرزا1850  تک ہمیشہ فارسی میں خط و کتابت کرتے تھے مگر سنہ مذکور میں جب کہ وہ تاریخ نویسی کی خدمت پر مامور کیے گئے اور ہمہ تن مہر نیم روز کے لکھنے میں مصروف ہوگئے۔اس وقت بہ ضرورت ان کو اردو میں خط وکتابت کرنی پڑی ہوگی۔ وہ فارسی نثریں اور اکثر فارسی خطوط جن میں قوت متخیلہ کا عمل اور شاعری کاعنصر نظم سے بھی کسی قدر غالب معلوم ہوتاہے، نہایت کاوش سے لکھتے تھے۔ پس جب ان کی ہمت مہر نیم روز کی ترتیب و انشا میں مصروف تھی، ضرورہے کہ اس وقت ان کو فارسی زبان میں خط و کتابت کرنی اور وہ یہی اپنی طرز خاص میں شاق ہوئی ہوگی۔ اس لیے قیاس چاہتا ہے کہ انہوں نے غالباً 50 ءکے بعد سے اردو زبان میں خط لکھنے شروع کیے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ”زبان فارسی میں خطوں کا لکھنا پہلے سے متروک ہے۔پیرانہ سری اور ضعف کے صدموں سے منت پژوہی اور جگرکاوی کی قوت مجھ میں نہ رہی۔”

       حالی نے غالب(۱) کا جو قول نقل کیاوہ غدر کے بعدکاہے اور اس سے صرف اسی قدر ثابت ہوتاہے کہ ضعف پیری کی وجہ سے غالب نے فارسی میں خط لکھنا ترک کردیاتھا۔ اردومیں پہلے پہل کب خط لکھااور کیوں لکھااس کے متعلق کسی نتیجے پرپہنچنے میں اس سے مطلق مدد نہیں ملتی۔ حالی کایہ دعویٰ کہ اردومیں خط لکھناشروع کیا،جب مہرنیم روز کی تصنیف میں مصروف تھے، محض قیاس پر مبنی ہے اور کوئی ایسی روایت اس کے موید ہو، موجود نہیں۔ اس سے قطع نظر یہ سمجھ میں نہیں آتاکہ جب بہ ظاہر مہر نیم روز کی تصنیف اواسط(۲) 50 ءسے شروع ہوئی تو حالی نے یہ کیوں لکھاکہ غالب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ 50 ءتک غالب نے کبھی اردو میں خط لکھا ہی نہیں۔یا  ان کا یہ مطلب ہے کہ عموماً فارسی میں لیکن کبھی کبھی اردومیں بھی لکھا کرتے تھے۔ حالی نے یادگار غالب  میں ایک جگہ ہمیشہ کو عموماً(۳) کے معنی میں استعمال کیاہے لیکن اس سے لازمی طورپر نتیجہ نہیں نکلتاکہ اس موقع پربھی ان کایہی مطلب ہے۔ایک بات اور بھی قابل توجہ ہے۔اقتباس بالا میں شاید ہی کوئی بات حالی نے قطعی طورپر کہی ہو۔ معلوم ہوتاہے کہ غالباً قیاس چاہتاہے اور اس قسم کے دوسرے الفاظ جابجا ملتے ہیں۔

       غلام رسول صاحب مہر کی رائے (۵) میں ”غالب 1850 سے قبل اردو میں خط و کتابت شروع کرچکے تھے۔لیکن چونکہ اس زمانہ میں اردونثر کو اہل قلم بلند پایہ نہیں دیتے تھے اس لیے وہ خطوط محفوظ نہ رہ سکے لیکن جیسے جیسے اردو کا رواج بڑھتاگیااور فارسی کا رواج کم ہوتاگیا، غالب کی خط و کتابت فارسی کے بجائے اردومیں زیادہ ہوگئی۔ (غالب طبع اول صفحہ 308)۔ انہوں نے اردو کے ایک خط کا بھی ذکرکیاہے جو ان کے نزدیک یکم دسمبر 1845 کے کچھ بعد لکھا گیاہے۔ مہر صاحب حالی کے اس نظریے کو مہر نیم روز کی تصنیف میں مصروفیت اور خط و کتابت شروع کرنے کا باعث ہو کوئی تسلیم نہیں کرتے۔مہرنیم روز کوئی ضخیم کتاب نہیں اور کئی سال کی مدت میں لکھی گئی ہے۔ غالب کے فارسی خطوط اردو کے خطوط کی طرح تکلفات سے عموماً  آزاد ہیں اور ان کے لکھنے میں زیادہ کاوش نہیں کی گئی۔ اس کتاب کی تصنیف غالب سے ”قادرالکلام اور مشاق نثر نگار“کو فارسی خط لکھنے سے مانع نہیں ہوسکتی۔صفحہ 307(308)

       امتیاز علی خاں صاحب عرشی اسے ناممکن نہیں سمجھتے کہ غالب نے 50ءسے قبل بھی اردو میں مراسلت کی ہو،لیکن وہ اس کے قائل نہیں کہ اس سنہ سے قبل کاکئی اردو خط موجود ہے۔ یہ امکان بھی محض فلسفیانہ امکان ہے، ورنہ اس کا اصلی خیال(۶) یہ معلوم ہوتاہے کہ غالب نے 50ءسے پہلے اردو میں کوئی خط لکھاہی نہیں۔ مہر نیم روز کے معاملہ میں وہ حالی کے ہمنوا ہیں۔ (دیباچہ مکاتب غالب طبع ثانی صفحہ 138و145)

       مہیش پرشاد صاحب نے کوئی رائے ظاہر نہیں کی لیکن غالب کی زندگی کو تین ادوا رمیں تقسیم کرنا مناسب ہوگا۔

        1۔ تقریباً 1850 تک

       غالب نے دوجگہ(۷) فخریہ یہ لکھ دیاہے کہ میری زبان فارسی ہے مگر یہ ان کا اصلی خیال نہیں، فارسی سے ان کا تعلق کس قسم کا ہے اس کے بارے میں ان کی حقیقی رائے قاطع برہان میں ملتی ہے

”نیاز مے آرم پوزش مے گسترم تا مردم نہ گویند کہ خود ہندستان زابودن و ہندستان زایان دیگر رامسلم نہ داشت و خود علم پندار زباں دانی افراشن چہ معنی دارد۔ گویم مے گویم کہ نیائے من ازماوراءالنہر بود و پدرم دردہلی پیکر پذیرفت و من در آگرہ منشور ہستی یافتم، حاشا کہ خود را از اہل زبان گیرم زبان دانی من بہ فرہ سہ فروزدہ فدا آفریدوسہ گوہر ازل آوردست۔“ (قاطع طبع ثانی ،ص۱۳۱)

       فارسی غالب کی مادری زبان نہ تھی۔اسے انہوں نے استاد ہی سے سیکھا تھا۔ اپنی تعلیم کے ابتدائی زمانے میں وہ لکھنا پڑھنا جاننے پر بھی فارسی سے ناوقف رہے ہوں گے اور ایسا زمانہ بھی یہی ہوگاجب وہ فارسی اتنی کم جانتے ہوں کہ اس زبان میں خط نہ لکھ سکتے ہوں۔ اس زمانہ کا کوئی خط موجود نہیں اور نہ اس کی شہادت پیش کی جاسکتی ہے کہ کسی کو خط لکھا۔لیکن قیاس چاہتا ہے کہ خود لکھے ہوں اور وہ اردو میں ہوں۔ غالب نے شعر بھی پہلے اردو میں کہے ہیں ، پھر فارسی میں۔

       1۔ اواسط 50ءتک

       اس دور میں غالب نے رفتہ رفتہ فارسی پر قدرت حاصل کی، اور کچھ مدت کی مشق کے بعد صاحب طرز انشاپرداز قرار پائے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہےے کہ اس دورکے آخرمیں غالب کی عمر 50سے اوپر تھی اور ان کے قوائے جسمانی کا انحطاط شروع ہوچکاتھا۔ زمانے کی روش کے مطابق غالب نے عموماً فارسی میں خط لکھے ہوں گے۔لیکن کبھی کبھی اردو میں لکھنے کی بھی ضرورت پیش آئی ہوگی۔ اس کی دو وجہیں ہیں

       (1) غالب سے سروکار رکھنے والوںمیں ایسے لوگ جو لکھنا پڑھنا جاننے کے باوجود فارسی سے بالکل ناواقف ہوں یااس سے کافی واقفیت نہ رکھتے ہوں، ضرور ہوں گے۔ اور وقتاً  فوقتاً  ایسے لوگوں سے مراسلت بھی ہوئی ہوگی۔ انہیں فارسی میں خط لکھنے کے معنی یہ ہوئے کہ خواہ مخواہ ترجمہ کرانے کی زحمت دی جائے۔ناچار اردو ہی میں خط لکھناپڑاہوگا۔ اس طرح کبھی کبھی ناخواندہ لوگوں کو بھی خط لکھنے کی ضرورت پڑی ہوگی اور انہیں بھی فارسی کی جگہ اردومیں خط لکھاہوگا۔ غالب کی زوجہ امراو


بیگم (۸) ، گمان غالب ہے کہ ناخواندہ ہوں، بنارس و کلکتہ سے جو خط غالب نے انہیں بھیجے تھے اور جن کاذکر چھج مل (۹) کے نام کے خطوط  میں ہے،وہ کس زبان میں ہوں گے؟

(۲)   پنج آہنگ کے ڈیڑھ دوسو خطوں میں بہت کم خط ایسے ہیں جن میں غالب نے انشاپردازی کا کمال دکھانے کی کوشش نہ کی ہو۔ایسے خط ”محنت پژوہی اور جگرکاوی“ کے بغیر نہیں لکھے جاسکتے۔ کم از کم غالب کے لیے یہ ممکن نہ تھااور اس کا خود انہیں اعتراف ہے۔ (خط بنام شاکر) ان کی زندگی میں ایسے لمحات جب وہ محنت سے گھبراتے ہوں، ضرور ہوں گے۔ایسی صورت میں اگر مراسلت کی ضرورت پیش آئی ہوتو اس کے سوا چارہ نہ تھاکہ یاتو”سرسری“ اور عامیانہ(10)فارسی میں خط لکھیں یا اردو کو نوازیں۔ پنج آہنگ میں ایسے (۱۱) خط جن میں شاعری کا عنصر کم یا وہی مفقود ہیں ضرور۔لیکن ایسے خط نہیں جو ”قلم سنبھال کر“ نہ لکھے گئے ہوں۔ ”سرسری“ اور عامیانہ فارسی پر غالب کا اردو ترجیح دنیا بالکل قرین قیاس ہے اس لیے کہ معمولی فارسی لکھنا ان کے ادبی شکوہ کے منافی تھااو راردو ایسی زبان ہی نہ تھی جس میں کسی کو یہ امید ہوکہ غالب یا کوئی اور شخص انشاپردازی کا کمال دکھا سکے گا۔ غالب حسام الدین حیدرخاں نامی کو لکھتے ہیں:

“جواب ایں نامہ سرسری باید نہ پہلوی دوری، واگر خواہم کہ روش بہ گردانم ہر آئینہ ناموس سخن دری مرازیاں دارد امید کہ ملازمان(؟)بندہ خود را دریں کشاکش نہ پسندند ”پنج آہنگ“ صفحہ 114و115 )

       اردو خطوں اور اردو زبان کے متعلق غالب کی رائے ”کوئی رقعہ ایسا ہوگاجومیں نے قلم سنبھال کر اور دل لگاکر لکھاہو“ (خطوط غالب صفحہ 30) میں اردومیں اپنا کمال کیاظاہر کرسکتاہوں؟ اس میں گنجائش عبارت آرائی کی کہاں ہے؟ (خطوط ، صفحہ 391)

       اس دور کے اواخرمیں انحطاط قویٰ کی وجہ سے اردو خطوں کی تعداد بڑھ گئی ہوگی۔اس زمانے کے کم از کم دو خط موجود بھی ہیں۔پہلا خط اردوئے معلی میں ہے مگر اس پر تاریخ ثبت نہیں ہے۔ تبصرہ خطوط غالب میں جو معاصر نے شائع کیاتھامیں نے اس کے متعلق لکھا تھا”غالب نے دیوان تفتہ کا دیباچہ تحریر کیاتھا۔ تفتہ کواپنی تعریف امید سے کم نظر آئی۔ غالب سے شکایت کی تو غالب نے دیباچے کاایک فقرہ بدل دیا۔ خط میں اسی کی اطلاع ہے۔اس کا زمانہ مرتب نے اسعدالاخبار آگرہ کے20 اگست کے پرچے سے متعین کیاہے۔“ اس لےے کہ اس میں غالب کی تقریظ 13)کاذکر ہے“ دیل میں اسعدالاخبار کے دواقتباس اور عرشی صاحب کے خط کا ایک ٹکڑا نقل کیا جاتاہے۔ان سے جو نتائج نکلتے ہیں ان سے مرتب کے بتائے ہوئے زمانے کی قطعی طورپر تغلیط ہوتی ہے۔

(۱)دیوان (14)تفتہ جو اس مطبع میں چھپاہے ربع سے زیادہ چھپ چکاہے،وہ بھی اس موسم سرمامیں انشاءاللہ تعالیٰ تمام ہوگا۔ اس کی ضخامت ۵۴جزوکے قریب ہے اور قیمت چار روپے بعد اختتام کے پانچ ہوجائیں گے۔اکثر شائقانِ سخن نے اس کی درخواست مع زرثمن داخلِ مطبع کی ہے کیونکہ وہ دیوان عجب فصاحت خیز اور لطف انگیز ہے۔ اکثر اشخاص اس کے طبع ہونے کی خبرسن کر بہت خوش ہوئے ہیں۔ خصوصاً اسداللہ خاں غالب دہلوی تواس کے بہت ثناخواں ہیں۔ (اسعدالاخبار 20اگست 1849ءمطابق 29رمضان 1265ھ)۔

(۲)ان دنوں میں دیوان تفتہ سکندرآبادی اس مطبع میں چھپنا شروع ہواہے او ریہ وہی دیوان ہے جس کا اشتہار اخبار ہذامیں اواخر 1847ءمیں دیاگیاتھا۔یہ سبب عدیم الفرصتی کے اب تک ملتوی رہا۔اب اس کی تدبیر کی گئی ہے۔ (اسعدالاخبار 18دسمبر1848ءمطابق ۱۲محرم 1265ھ)۔

(۳)تفتہ کے دو دیوان ہیں (15)۔ان میں سے پہلے کے شروع میں میرزا صاحب کی تقریظ ہے۔اس کا چھاپا اواخر 1265ھ میں شروع ہوااور اوائل 1268ھ میں انجام کو پہنچا۔ تقریظ میں تاریخ نہیں دی۔جس صفحے پر یہ ختم ہوتی ہے اس کی باقیماندہ جگہ میں ”حقیر کا قطعہ آغاز طباعت ہے جس سے 1265ھ برآمد ہوتے ہیں۔

       ان اقتباسات سے حسب ذیل نتائج نکلتے ہیں:

       1۔ دیوان اور اس کی تقریظ غالباً اواخر ۷۴ءہی میں صاحب مطبع کے پاس پہنچ گئی تھی۔اگر یہ قیاس صحیح ہے تو تقریظ 47ءیا اس سے بھی قبل کی لکھی ہوئی ہے۔

       2۔ دیوان تفتہ کا چھاپا اوائل 1265ھ (اواخر 48ء ) میں شروع ہوگیاتھا (جناب عرشی(16) نے اواخر سہواً لکھا ہے)

       203۔ اگست1849ءتک 12جز کے قریب چھپ چکاتھا۔

       4۔ تقریظ آغاز دیوان میں ہے اور اس کے آخری صفحے میں حقیرکاقطعہ تاریخ، اس لیے دیوان کایہ حصہ سب سے پہلے چھپا،اور اس کا زمانہ انطباع اواخر 48ءہے۔

       یہ متحقق ہوجانے کے بعد کہ تقریظ کا زمانہ اطباع اواخر48ءہے۔ یہ قطعی طورپر معلوم ہوگیاکہ غالب نے اسے اواخر 48ءسے پیشتر لکھاہوگا۔اس کے بعد یہ تسلیم کرناناممکن ہے کہ خط اگست 49ءمیں تحریر ہوا۔

       عرشی صاحب نے دیباچہ مکاتیب غالب طبع ثانی میں (ص141تاص143میرے بیان پر ناقدانہ نظر ڈالی ہے اور خط زیربحث کے زمانہ کتابت کے متعلق بالکل مختلف رائے ظاہر کی ہے۔ عرشی صاحب کی تنقیدکا خلاصہ یہ ہے:

       1۔ تقریظ سرورق کے دوسرے رخ سے شروع ہوتی ہے اور سرورق پر مہتمم مطبع نے لکھا ہے:

       ایں نسخہ دیوان تفتہ در مطبع اسعد الاخبار بہ اواخر 1265ھ شروع گردیدہ باوصف انواع موانع و عوائق در اوائل 1267ھ بہ اختتام رسید۔

       2۔ 20 اگست کے بعد اسعدالاخبار میں بظاہر تقریظ ہی کی طرف اشارہ ہے۔چونکہ غالب نے پسندیدگی کاذکر پہلی بار اواسط 49ءمیں ہوا، لازماً اس کااظہار اسی زمانہ میں کیاگیاہوگا۔ (یعنی یہ تقریظ اسی زمانے کی لکھی ہوئی ہے۔

3۔ غالب نے 10فروری 49ءاو ر20اگست 50ءمذکور ہی کی درمیانی مدت میں یہ تقریظ لکھی ہے اس لیے کہ 10فروری کو فارسی خط میں غالب نے تفتہ کو لکھاہے:

ازاں دوہزار بیت کہ نوشتہ اند کہ دراکبر آباد گفتہ ام، ماہم دراوراق اخبار اکبر آبادی شاہدہ کردم ایم، خوش گفتہ اندوبہ راہے کہ مامے خواستیم رفتہ اند،

       10فروری تک غالب نے دوہزار اشعار دیکھے تھے۔ غالب اظہار رائے میں بڑے محتاط تھے۔ تفتہ نے ان اشعار کی اصلاح کے بعد تقریظ کی درخواست کی ہوگی۔

       4۔ تقریظ کی ترمیم اواخر 1850ءمیں تقریظ کے چھاپے جانے سے کچھ قبل ہوئی۔ غالب اس زمانہ میں زیادہ تر اردو میں خط لکھنے لگے تھے۔ ترمیم کی اطلاع اردو خط کے ذریعہ دی۔

       میری گزارش حسب ذیل ہے:

       1۔ عرشی صاحب نے دیوان تفتہ کے متعلق جو خط مجھے لکھا تھااس میں سرورق کا حال نہ تھا۔ ورنہ میں کبھی یہ دعویٰ نہ کرتاکہ تقریظ دیوان سے پہلے اواخر 48ءمیں چھپی تھی۔ سرورق کی عبارت سے صرف یہ نتیجہ نکلتاہے کہ تقریظ اواخر 50ءمیں طبع ہوئی اور اس میں ترمیم اس سے قبل ہوچکی تھی۔کس قدر قبل؟ اس پر یہ عبارت مطلق روشنی نہیں ڈالتی۔

       2۔ دیوان تفتہ کااشتہاراسعدالاخبار میں پہلی بار اواخر 48ءمیں چھپا تھا۔ میری نظر سے ۱۱دسمبر 48ءسے قبل کے پرچے نہیں گزرے۔اس لےے مجھے علم نہیں کہ اشتہار اول میں غالب کے متعلق کچھ تھایانہیں۔ عرشی صاحب 20اگست 49ءپرچہ میں جو اشتہارہے اس کی بنا پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس سے پہلے تقریظ کی طرف اشارہ ہواہی نہیں۔ مزید تحقیق سے ثابت بھی ہوجائے جب بھی یہ لازم نہیں کہ تقریظ کے دیکھتے ہی صاحب مطبع نے اس کا ذکر کردیاہو۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتاہے کہ صاحب مطبع کو تقریظ کا علم 20اگست 49ءکویا اس سے پہلے ہوچکاتھا۔یہ تقریظ اصلی تھی یا ترمیم شدہ، اشتہار اس کے بارے میں ساکت ہے۔ یہ بھی قطعی نہیں کہ تقریظ ہی کی طرف اشارہ ہے مگر قیاس یہی چاہتاہے۔)

3۔ اواخر 47ءمیں دیوان کا اشتہارچھپا تھامگر دیوان اس وقت کس شکل میں تھااس کا مطلق علم نہیں۔ قیاس چاہتا ہے کہ مکمل ہواور اس میں زیادہ(17)ردوبدل کی گنجائش نہ ہو۔ اس صورت میں یہ دوہزار اشعار دیوان دوم میں داخل ہوئے ہوں گے۔اس کے خلاف بھی ہوتو تقریظ ایسی نہیں کہ اس کے لکھنے سے قبل کل کلام کامطالعہ ضروری ہو۔ تفتہ غالب کے شاگرد تھے اور غالب اس سے واقف تھے کہ شاعری میں تفتہ کا کیا پایہ ہے۔ تقریظ کے لےے یہ بالکل کافی تھا۔ذیل میں تقریظ کی وہ عبارت جس کاتعلق کلام تفتہ سے ہے، نقل کی جاتی ہے:

”رہ رو را بہ رہ گزارے مرغزارے در نظر آوردہ و دربیابانے بہ خیابانے در آوردہ اند کہ دراں تماشاگاہ بہ پویہ نیم گام زند موج سبزہ را بیند تا بہ کمر رسیدہ و گوشہ دستار را نگر واز گرانی بار گل خمیدہ ہمانا رہ گزارے کہ بہ سبزہ زارے انگشت نماشدہ و پیا بانے کہ بہ خیابانے روشناس آمدہ ہمیں غالیہ اندودہ سواد مردمک مرادوہمیں ریحاں رقم صحیفہ مشکیں سواد است کہ در نظر داشتہ ایم دنی(؟) بے نوا را بہ دیباچہ نگاری آن گماشتہ یارب ابن سخن پیونددنش مند در فن فرزانگی یگانہ و درآئیں یگانگی فرزانہ آسمان سخن را ماہ دو ہفتہ، منشی ہرگوپال تفتہ کہ ایں فہرست گنج خانہ راز راقم کردہ اوست وایں مجموعہ سوزوگداز فراہم آوردہ او، چہ ماہ دیدہ و دل باہم آمیختہ باشد تا ایں نقش بدیع انگیختہ باشد۔ سخن عشق و عشق سخن کلام حسن و حسن کلام را بہ یک وگر سرشتد تاچار آخیشج ہستی شیوابیانی سرانجام یافت کہ ازگرمی نفس و تشنگی جگر کہ درخسن بہ سخنداشت بہ مناسبت برستگی حسن گفتار تفتہ نام یافت، داد شناساں شناسند و اندازہ داناں وانند کہ باآں کہ خامہ در کف سخن دراز فراوانی آزروزش سخن لاابالی پوئے و بے پرداخرام است، سخن بہ نغزی و خوبی در داتی در نفس خویش تمام است لاجرم با چنیں دم گرم کہ ہیچ گہ دلش را از گفتار سردنہ داروسیہ مست مے سخن تفتہ از خود رفتہ در سخن ہائے آمدہ ہم آوردنہ دارد زیں پس گزاردن حق ستائش خوبی سخن بہ دیدہ وراں مے گزارم۔“ (پنج آہنگ صفحہ 39،40)

       تعریف یاتوبہت عام لفظوں میں ہے یاایسی ہے کہ تفتہ کا کلام اس کا بالکل مستحق نہیں۔ غالب یہی الفاظ ہراس شاعرکے لیے جسے وہ ناراض نہ کرنا چاہتے ہو استعمال کرسکتے تھے۔ اظہار رائے میں بڑے محتاط ہونے سے اگر عرشی صاحب کایہ مطلب ہے کہ غالب جچی تلی، بے لاگ رائے ظاہر کیاکرتے تھے تو اس سے اختلاف کی بہت کچھ گنجائش ہے جہاں تک معاصرین کا تعلق ہے ان کی ناقدانہ رائیں زیادہ تر مصلحت وقت کی تابع نظر آتی ہیں۔مثالیں بہت دی جاسکتی ہیں مگر طوالت کے خوف سے صرف چند پر اکتفاکیا جاتاہے۔

       حیا کے متعلق لکھا ہے:

سخنش رائے زندگی سیمائے کلام الملوک الکلام است وکمرش را از رخشندگی فروغ جوہر الہام’ پنج آہنگ ‘ صفحہ 38)

میر حسن خاں بسمل کو خاقانی پایہ کہہ کر مخاطب کیا ہے، پنج آہنگ صفحہ ۹۹قلق کی شاعری کے متعلق لکھاہے:

امیر خسرووسعدی وجامی کی روش کو سرحد کمال کو پہنچایاہے۔“ (خطوط غالب،صفحہ 152)

       شفق، ہاشمی اور عسکری کی شاعری، متاخرین یعنی صائب و کلیم و قدسی کے انداز کو آسمان پر لے گئے ہیں۔ (خطوط غالب ،صفحہ 152)

       4۔ عرشی صاحب کی رائے میں تقریظ کی ترمیم اواخر ۰۵ءمیں تقریظ کے چھاپے جانے سے کچھ قبل ہوئی ہے اس کے معنی یہ ہوئے کہ تقریظ اگست 1849ءمیں یا اس سے بھی کچھ پہلے تفتہ کے پاس پہنچ گئی۔ اور باوجود اس کے کہ وہ اس سے مطمئن نہ تھے، انہوں نے اسے بعض اصحاب کو دکھابھی دیا۔ لیکن غالب سے ترمیم کی درخواست برس ڈیڑھ برس کے بعد کی، عرشی صاحب کے پاس اس کا ثبوت اس کے سوااور کچھ نہیں کہ خط جس میں ترمیم کا ذکر ہے،اردو میں ہے۔ یہ رائے کہ غالب 1850ءسے قبل اردو میں خط نہیں لکھتے تھے پہلے ہی قائم کرلی گئی تھی۔خط زیر بحث کا زمانہ تحریر 1850ءسے قبل قرار نہ دینا ناگزیر تھا۔ ترمیم جیسا کہ خود غالب نے لکھا ہے کہ بہت کم تھی۔ غالب نے صرف ایک فقرہ بدل دیاتھا۔میرے لےے یہ باور کرنا بہت مشکل ہے کہ تقریظ کی ترمیم اس کی تصنیف کے برس ڈیڑھ برس بعد ہوئی۔ میری رائے میں تقریظ کی ترمیم اس کی تصنیف کے کچھ ہی بعدہوئی، اوراس زمانہ میں خط بھی لکھا گیا۔ یہ زمانہ 20اگست 49ءسے قبل ہے لیکن یہ فیصلہ نہیں کیا جاسکتاکہ کس قدر قبل ہے۔(18)

       دوسرا خط جواہر سنگھ جوہر خلف لالہ چھج مل کے نام کا ہے۔ خطوط غالب میں جو ہر کے نام سے جو تین خط ہیں ان میں یہ پہلاہے۔خط یہ ہے:

خط تمہارا پہنچا قطعے جو تم کو مطلوب تھے اس (کذا) کے حصول میں جو کوشش ہیراسنگھ نے کی ہے میں تم سے نہیں کہہ سکتا پانچ پانچ اور چار چار روپے اور دو روپے کو قطعے محل لےے اور بنوائے دوڑتاپھرا۔ کلیم صاحب کے پاس کئی بار جاکر حضوروالا کا قطعہ لایا۔ اب دوڑرہاہے۔ ولی عہد بہادر کے قطعے کے واسطے یقین ہے کہ دوچار دن میں وہ بھی ہاتھ آئے اور بعد اس قطعے کے آنے کے وہ سب کو یکجا کرکے تمہارے پاس بھیج دے گا۔ مدد  میں بھی اس کی کررہاہوں لیکن اس نے بڑی مشقت کی کیوں صاحب وہ ہماری لنگی اب تک کیوں نہیں آئی؟ بہت دن ہوئے جب تم نے لکھا تھااسی ہفتے میں بھیجوں گا۔

مہر صاحب نے کے ایک فارسی خط کی مدد سے اس خط کا زمانہ کتابت 1845ءکے لگ بھگ مقررکیاہے۔وہ لکھتے ہیں:

”فارسی مکاتیب میں ایک خط جوہر کے نام ہے جس میں لنگی کی فرمائش کی ہے۔اس خط کے آخرمیں مطبوعہ پنج آہنگ میں یکم دسمبر 1848ءمطابق چہارم محرم 1251ھ ثبت ہے۔ ہجری اور عیسوی تاریخ میں مطابقت نہیں ہوتی کم از کم ایک تاریخ ضرور غلط ہے اگر تاریخ ہجری کو 1251ھ کے بجائے 1261ھ رکھا جائے تو عیسوی تاریخ 1841 ءہونی چاہےے۔ میرا خیال ہے کہ یہی صحیح ہے۔ ان کے اردوئے معلیٰ کے ایک خط میں بھی لنگی کا تقاضہ موجود ہے یہ دونوں خطوط لازماً ایک دوسرے سے قریب کے زمانے میں لکھے گئے ہوں۔“ (غالب طبع اول،صفحہ 308)

       پنج آہنگ غدر سے قبل دوبار طبع ہوئی تھی لیکن غدر کے بعد کلیات نثر میں شامل کرلی گئی۔ کلیات پہلی بارغالب کی زندگی ہی میں شائع ہواتھا۔اس کی پہلی اشاعت میں ”آدینہ یکم دسمبر 1848ءچہارم محرم 1215ھ مرقوم ہے۔ 1215ھ دراصل 1665ھ ہے اور اس طرح عیسوی اور ہجری تاریخوں اور سنین میں مطابقت ہوجاتی ہے۔ مہر صاحب نے 1251ھ کلیات کی تیسری اشاعت میں دیکھا ہوگا۔ دونوں سنین کو بدلنے کی مطلق ضرورت نہ تھی۔ان کا یہ قول کہ فارسی اور اردو خط لازماً ایک دوسرے سے قریب قریب زمانے میں لکھے گئے ہیں البتہ قابل قبول ہے۔

       عرشی صاحب کی رائے میں خط زیربحث کا زمانہ تحریر کیاہے،اس کا ٹھیک پتا نہیں ملتا۔ ان کا بیان حسب  ذیل ہے:

”پنج آہنگ اور اردوئے معلیٰ میں چھ خط جوہر کے نام پائے جاتے ہیں(اس کے بعد خطوں کی فہرست دی ہے) ان میں سے پہلے اور تیسرے خط میں ساڑھے تین سال چوتھے اور پانچویں میں آٹھ مہینے اور پانچویں اور چھٹے میں دس سال سے زیادہ کافرق ہی کم تر مدت تیسرے اور چوتھے مکتوب کے درمیان ہے جو تین ماہ ہوتی ہے۔اب محولہ بالا مکتوب کی اصل عبارت ملاحظہ ہو کیوں صاحب وہ ہماری لنگی اب تک کیوں نہیں آئی؟ بہت دن ہوئے جب تم نے لکھاتھاکہ اس ہفتے بھیجوں گا“ اس عبارت کا جملہ ”بہت دن ہوئے“ غورطلب ہے۔ چونکہ میرزا صاحب کے فارسی خطوط نمبری ۲ اور ۴میں یہ شکایت کی گئی ہے کہ بہت دنوں سے تمہارا خط نہیں آیا؟جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جوہر خطوں کے جواب میں بے حد سست تھے اور ان کے نام کے خطوط کے درمیانی وقفے ہمیں معلوم ہیں۔ لہٰذا کچھ بعید نہیں کہ انہوں نے لنگی بھیجنے میں ڈیڑھ دو برس گزار دےے ہوں۔ یہا ںایک اور امرقابل بیان ہے کہ جہاں تک میں نے جستجو کی ہے بہ استثنائے نواب فردوس مکان ایسا کوئی مکتوب الیہ نہیں ہے جس کو میرزا صاحب فارسی میں خط لکھتے ہوں اور پھر فارسی مراسلت کے درمیان میں کوئی اور خط اسے لکھا ہو۔جب وہ کسی سے اردو میں مراسلت شروع کردیتے ہیں تو اس کے بعد اس کو فارسی خط نہیں لکھتے۔ جوہر کے نام 48ءمیں ایک اور اس کے بعد 52ءدوفارسی خط لکھے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتاکہ یہ درمیان میں اردو کاخط کیوں تحریر کیاگیا۔

       اس خط میں میرزا صاحب نے یہ بھی لکھاہے کہ ہیراسنگھ نے بڑی کوشش سے بادشاہ کے ہاتھ کے قطعے مہیا کرلےے ہیں۔اب ولی عہد کے دستحظی قطعا ت کی فکر میں ہے۔ میں بھی اس کی مدد کر رہاہوں۔میرے نزدیک ولی عہد سے مراد میرزافتح الملک ہیں جو1849ءمیں دارابخت کے انتقال کے بعد ولی عہد اور 1845ءمیں میرزاصاحب کے شاگرد ہوئے تھے۔ اس لےے ان کے دستحظی قطعوں کی تحصیل میں مرزاصاحب نے مدد دی ہے۔ان وجوہ کی بناپر لنگی کے تقاضے والے اردو خط کو فارسی کے خط مورخہ اگست 1852ءکے بعدکا مانتاہوں اور ایک دواور تقاضائی خطوں کو گمشدہ تصور کرتاہوں۔“(دیباچہ صفحہ 138 تا صفحہ 140)

       میں عرض کرچکاہوں کہ خط زیربحث کے زمانہ تحریرکے متعلق عرشی صاحب کی اصلی رائے کاپتا نہیں ملتا۔اس اجمال کی تفصیل ملاحظہ ہو:

       عرشی صاحب فرماتے ہیں کہ جوہرنے لنگی بھیجنے میں ڈیڑھ دوبرس گزار دےے ہوں گے۔ فارسی خط کی تاریخ تحریر یکم دسمبر 48ءہے۔عرشی صاحب کے بتائے ہوئے حساب سے اردو خط کی آخری تاریخ تحریر 21مئی 50ءہوسکتی ہے۔ گواس کابھی امکان رہتاہے کہ اس سے مہینوں قبل لکھا گیاہو۔ان کے اس قول سے کہ غالب اردو خط لکھنے کے بعد فارسی خط نہیں لکھتے۔یہ نتیجہ نکلتاہے اور خودانہوں نے نکالا بھی ہے کہ اردو خط اگست 53ءوالے فارسی خط کے بعدکاہے۔ آخرمیں انہوں نے بتایاہے کہ خط اس زمانہ کاہے جب غالب میرزا فتح الملک کے نوکر ہوچکے تھے۔یہ مسلم ہے کہ ملازمت کا زمانہ 1854ءتا 1856ءہے۔ خط کے زمانہ کتابت کے متعلق اس سے جو نتیجہ نکلتاہے، ظاہر ہے۔ گوخود انہوں نے صراحتاً لکھاکہ اس حساب سے خط کا زمانہ تحریر کیاہے۔

       خطوں کے درمیانی وقفے اور جوہر کی کاہل قلمی کی نسبت عرشی صاحب نے لکھاہے کہ اس کے متعلق میں یہ کہنا چاہتاہوںکہ خطوں کے درمیانی وقفے محض مطبوعہ خطوں کی مدد سے ثابت نہیں کےے جاسکتے۔مطبوعہ مجموعوںمیں جو خط ملتے ہیں، وہ ان خطوط کے مقابلے میں جوشائع نہ ہوسکے بہت کم ہیں۔ جوہرکے والد غالب کے دوست، خود جوہر(19) ان کے ”عزیز شاگرد“ اور مخصوصین میں تھے (یادگار صفحہ 107،113) اور مدتوں دلی سے باہر بھی رہے۔ غالب نے انہیں ۶سے بہت زیادہ خط لکھے ہوں گے۔ 1848ءتا 1846ءکے کل خط ہیں کہاں کے خطوں کے درمیانی وقفوں کا صحیح علم ہوسکے،اور اس سے کوئی نتیجہ نکالا جاسکے؟ عرشی صاحب کا قول ہے کہ دو خطوں میں بہت دنوں سے خط نہ آنے کی شکایت ہے۔ذیل میں دونوں خطوں کی ضروری عبارتیںدرج کی جاتی ہیں:

1۔ دریراست کہ مارا یاد نہ کردہ اند و ماجگر تشنہ خود را بہ زلال خیرے کہ از کنا رنامہ موسومہ رائے چھج مل ترا دو تسکین مے دہیم (پنج آہنگ،صفحہ 120)

       2۔ نامہ شما دیر است تا بہ من رسیدہ است، پاسخ جونہ بود، ورنہ دریں روز سیاہ نیز بنشستن نامہ دریغ نہ داشتمے (ہنج آہنگ صفحہ 120،121)

       پہلے خط میں جوہرکی شکایت ہے لیکن دوسرے میں معاملہ برعکس ہے۔ غالب نے خود جواب نہ دینے کی معذرت پیش کی ہے۔ صرف اس بناپر کہ ایک خط میں غالب نے دیرسے یاد نہ کرنے کی شکایت کی ہے۔عرشی صاحب یہ کہنے میں حق بجانب نہیں کہ ”جوہر جواب میں بے حد سست تھے“ غالب نے اپنے لےے بھی وہی دیرکا لفظ استعمال کیاہے،کیایہی حکم غالب پر بھی لگایا جاسکتاہے؟غالب اس کے زیادہ مستحق ہیں اس لےے کہ غالب جواب نہ دینے کے معترف ہیں اور جوہر کے بارے میں صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ خط لکھنے میں سبقت نہ کی۔ مزید یہ کہ اگر ایک خط میں یاد نہ کرنے کی شکایت ہے تو ایک میں جوہرکے متواتر خطوں کاذکر ہے:

“نامہ ہائے شما پیہم رسیدہ، پاسخ آں ہا(20) نیز پے ہم بہ پدر بزرگوار شماسپردہ شد۔ ایں نامہ کہ امروزمی نگارم ومے خواہم کہ بہ سبیل ڈاک رواں دارم بہ پاسخ دو صحیفہ بازپشین است نگاشتہ، 22نومبر و رقم زدہ 26نومبرکہ ہردوبہ ہنگام خویش بہ من رسیدہ نحستین چوں شوقیہ بود جواب نہ خواہد دو میں را پاسخ ازیں است (پنج آہنگ صفحہ 120)

       بہت دن ہوئے چند دنوں کے لےے بھی مستعمل ہوسکتاہے، چند مہینو ں کے لےے بھی۔ اور چند برسوں کے لےے بھی مجروح کے نام ایک خط ہے جس میں غالب نے اپنااور میرن صاحب کااصلی یا فرضی مکالمہ نقل کیاہے، اس میں یہ الفاظ محض چند دنو ں کے لےے آئے ہیں“ اس کے (مجروح کے) خط کو آئے ہوئے بہت دن ہوئے ہیں وہ خفا ہواہوگاجواب لکھنا ضرور ہے‘ حضرت،وہ آپ کے فرزند ہیں، خفاکیا ہوں گے؟ (خطوط صفحہ 269)

       خط زیربحث میں کس مدت کے واسطے استعمال ہواہے اس کے فیصلے میں وہ خط جس میں لنگی کی فرمائش کی تھی مدد دے سکتاہے۔ضروری عبارت یہ ہے:

کلمے از پوست برہ داشتنم، حالیا آں راکرم خود سرم بے کلاہ ماند۔اگرچہ کلہ نہ مے جویم اتالنگ ابریشمی چناں کہ در پشاور و ملتان سازند داعیان آں قلم روبہ سر پچند و غالب کہ دراں و یار ایں چنیں متاع زودو و آساں بہ دست آیدبہ جویند و بہم رسانند و سوئے من در ڈاک رواں دارند و قیمت آں برنگارند۔ تابہانہ خواہند نوشت نہ خوافرست درفرستادن لنگ و رنگ و نگاشتن قیمت تکلف نہ کنند ۰پنج آہنگ صفحہ 120)

       غالب کو لنگی کی ضرورت فوری استعمال کے لےے ہے،اسی لےے وہ ایک جگہ یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ جلد مل جائے گی اور دوسری جگہ جلد بھیجنے کی تاکید کرتے ہیں۔ لنگی کوئی نایاب چیز نہیں۔ غالب قیمت ادا کرنے کو تیار بلکہ اس پرمصر،غالب اور جوہر کے تعلقات بزرگانہ اور خودارانہ۔ یقین ہے کہ غالب کا خط ملتے ہی جوہر نے لکھاہوگاکہ اسی ہفتے بھیجوں گا۔ کسی سبب سے وعدہ وفانہ ہواتو غالب نے یاد دہانی کی۔ میرے لےے یہ باور کرنابہت مشکل ہے کہ فرمائش اور یاددہانی کے درمیان، برس ڈیڑھ برس کا وقفہ ہے، چند ہفتے بہت ہیں۔

       عرشی صاحب کایہ نظریہ کہ غالب کسی شخص سے اردو میں خط و کتابت شروع کرنے کے بعد اسے فارسی خط نہیں لکھتے تھے، غالب کی طبیعت کو دیکھتے ہوئے قابل قبول نہیں۔ اس قسم کے خودساختہ قاعدوں کی سختی کے ساتھ پابندی ان سے بعید ہے۔ یوں بھی بے شمار فارسی خط غائب ہیں۔ غالب کے عمل کا پتا کیونکر چلے؟ اس کا اعتراف خود عرشی صاحب کو ہے کہ اس کلےے کااستثنا موجود ہے۔ جہاں ایک مستثنی ہے وہاں ایک اور سہی! غالب جب یوسف علی خاں کو اردو میں خط لکھنے کے بعد فارسی خط لکھ سکتے تھے تو جوہر سے اس طرح مراسلت میں کونسا امر مانع ہوسکتاتھا؟

       اب رہا معا ملہ قطعوں کا،عرشی صاحب کے پاس کون سا ثبوت اس دعوے کاہے کہ ولی عہدسے مرزافتح الملک ہی مراد ہیں۔ دارابخت دارا بھی خطاط تھے (خم خانہ جاوید جلد ۳ صفحہ ۱۰۱) ممکن ہے کہ انہی کے قطعے کی تلاش ہو۔ مرزا فتح الملک ہوں جب بھی، یہ کیونکر معلوم ہوسکتاہے کہ قطعے کی تلاش غالب کی نوکری کے بعد کا واقعہ ہے۔ میرے نزدیک تو غالب کی اعانت کو کسی خاص قطعے کی تلاش پر محدود کردیناہی صحیح نہیں۔ غالب نے اپنی مدد کاذکرکیاہے،اس کی تصریح نہیں کی کہ کسی خاص قطعے کے حصول میں مدد دے رہے ہیں۔

       میری رائے میں جوہرکے نام کا اردوخط ان کے نام کے فارسی خط مورخہ یکم دسمبر 1848ءکے چند ہفتے بعدکاہے۔اس کا امکان ہے کہ چند مہینے بعدکاہو،لیکن میرے لےے یہ باور کرناکہ لنگی کی فرمائش یاجوہرکے وعدے اور غالب کی یاددہانی میں پانچ چھ (21) برس کاو قفہ ہے،مشکل نہیں، ناممکن ہے۔

3۔تیسرا دور بادشاہ کی ملازمت

       یعنی جولائی 50ءسے شروع ہوتاہے۔مہرنیمروزکی تصنیف کاآغازاس کے بعدہی ہواہوگا۔ اس کی عبارت میں ”قوت متخیلہ“ کاعمل بہت زیادہ ہے اور اس کی تصنیف میں مصروفیت ضرور ہے کہ اردو خطوں کی تعداد میں معتدبہ اضافے کاباعث ہوئی ہو۔رفتہ رفتہ کس طرح فارسی کم اور اردو زیادہ ہوتی گئی اورآخر میں صرف اردو پر انحصار رہ گیا۔اس کی تفصیلات کے لےے مکاتیب غالب طبع ثانی کا دیباچہ (ص143تا صفحہ 145) ملاحظہ ہو۔اس مبحث پر اس بہتر بیان میری نظر سے نہیں گزرا۔خلاصہ بحث یہ ہے:

       1۔ قیاس چاہتا ہے کہ غالب نے فارسی سے پہلے اردو میں خط لکھے ہوں۔

       2۔ غالب جس زمانے میں بالعموم فارسی میں مراسلت کرتے تھے، کبھی کبھی اردو میں بھی خط لکھا کرتے تھے۔

       3۔ کم از کم دوخط 1850ءسے قبل کے موجود ہیں۔

حواشی:

۱۔غالب کا قول ایک خط سے ماخوذ ہے جوشاکر کے نام عودہندی میں ہے۔اس خط پرکوئی تاریخ ثبت نہیں لیکن شاکر غالباً غدرکے بعد غالب کے شاگرد ہوئے ہیں۔ ”شدت نسیاں“ اور جان کنی کے خیالات کاذکرہے۔ یہ باتیں غدر کے بعدکی ہیں۔

۲۔مہرنیم روز۔کلیات نثر غالب،طبع اول صفحہ 132

۳۔ان کے گھرمیں کتاب کا کہیں نشان نہ تھا۔ ہمیشہ کرائے کی کتابیں منگوالیتے تھے اور ان کو دیکھ کر واپس کردیتے تھے۔ ”یادگار غالب،شائع کردہ دائرہ ادبیہ صفحہ 68، اسی کتاب میں صفحہ 19پر ”کبھی کوئی کتاب نہیں خریدتے تھے۔الاماشاءاللہ)۔

۴۔نادر خطوط غالب مرتبہ جناب رساہمدانی میں مرتب کے پردادا کرامت کے نام کاایک خط ہے۔جناب رسامقدمہ نادر خطوط صفحہ 13تا15میں مدعی ہیں کہ یہ پہلا خط اردوکاہے (یہ اور کرامت کے نام کے دوسرے خط جعلی ہیں۔ تبصرہ نادر خطوط نوشتہ راقم جنوری 1943ء) کے معاصر ”ندیم“ میں ملاحظہ ہو)بعد کواپنے ایک مضمون میں جواپریل ۴۴ءکے ”ندیم‘ میں چھپاہے، بغیرکسی ثبوت کے انہوں نے یہ لکھاہے کہ یہ خط جویکم جنوری 1851ءکاہے۔ حالی کی نظر سے گزراتھا،اور حالی نے اسی کودیکھ کر یادگار غالب میں تحریرکیاتھاکہ اردو خط میں خط و کتابت 50ءکے بعد سے شروع ہوئی۔

۵۔طبع ثانی میں مہرصاحب نے اپنی رائے میں ترمیم کی ہے۔

۶۔دیباچہ صفحہ 145۔1850ءتک میرزا صاحب تقریباً اسی زبان (یعنی فارسی) میں خامہ فرسائی کرتے رہے۔ ”تقریباً سے عرشی صاحب کی کیا مراد ہے؟

۷۔تقریظ گلشن بے خار و نامہ غالب۔

۸۔ایسی شریف خواتین جوبالکل پڑھی لکھی نہیں یاصرف قرآن مجید پڑھ سکتی ہیں اب بھی موجود ہیں اور غالب کے زمانے میں آج کل کی بہ نسبت بہت زیادہ ہوں گی۔ غالب رامپور سے غلام نجف خاں کو لکھتے ہیں”یہ تم کیا لکھتے ہوکہ گھرمیں خط جلد جلد لکھاکرو تم کو جو خط لکھتاہوں گویا تمہاری استانی جی کو لکھتاہوں۔ کیا تم سے اتنا نہیں ہوتاکہ جاو


 اور پڑھ کر سناؤ (خط نمبر13) خط پڑھ کر سنادینے کی ہدایت خط نمبر۱۱،۹۱ میں بھی ہے، ثاقب کے نام کے خط ۹ میں بھی یہی لکھا ہے۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ غالب کا یہ عام انداز تھا۔ خط 18بنام غلام نجف خاں میں یہ عبارت ہے”لڑکے بہ خیروعافیت ہیں۔ اپنی استانی سے کہہ دینا۔ میرزاشہاب الدین خاں کو دعا۔نواب ضیاءالدین خاں کو سلام۔ میرا رقعہ ان دونوں صاحبوں کو پڑھا دینا۔ ”امراوبیگم اگر خط پڑھ سکتیں توان کے بارے میں بھی یہ ہوتاکہ خط پڑھوا دیتا۔ امراو


 بیگم کے خطوط بنام کلب علی خاں خود امراو


 بیگم کے لکھے ہوئے نہیں۔ (عرشی صاحب کا خط بنام راقم)۔

9۔پنج آہنگ صفحہ 74

10۔ عود ہندی، الہ آباد۔

11۔شفاءالملک حکیم حبیب الرحمن صاحب کے ایک خط سے معلوم ہوتاہے کہ ان کے پا س غالب کے چند غیر مطبوعہ فارسی خطوط ہیں جن کی عبارت بالکل معمولی ہے۔

12۔نامی غالب سے فارسی میں ایک خط کا جواب لکھوانا چاہتے تھے۔ غالب کی طبیعت شاعرانہ نثر لکھنے پراس وقت مائل نہ تھی۔ انہوں نے بہانہ کردیاکہ خط اس کا مستحق نہیں کہ اس کا جواب ”پہلوی و دری میں دیاجائے نثرکے بدلے ۴ رباعیاں بھیجتاہوں۔اپنی طرز خاص نثرلکھنے سے رباعیاں لکھنے میں زیادہ سہولت نظر آئی ہوگی۔(عود ہندی،صفحہ 223)

13۔خط میں دیباچے کاذکر ہے اور پنج آہنگ میںبھی دیباچہ لکھا ہے۔دیوان میں یہ دیباچہ تقریظ کے نام سے چھپاہے۔اس طرف اشارہ کردیا جاتا تو بہتر تھا۔

14۔اقتباس مرتب نے نقل نہیں کےا۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس میں تقریظ کاذکر ہی نہیں۔

15۔دونہیں،تین دیوان ہیں۔

16۔سہو دراصل کارپردازان مطبع کاہے، رمضان 65ھ تک ایک ربع چھپ چکاتھا۔یہ کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ اس کا چھاپا اواخر 65ھ میں شروع ہوا؟ تقطیع بڑی تھی، ۴ صفحوں سے زیادہ ایک پتھر میں نہیں آتے ہوں گے۔ایک ربع ۱ ۱جزہی ہوں تو ۴۴پتھر کی ضرورت ہوئی ہوگی۔

17۔متفرقات سے بحث نہیں۔

18۔تفتہ کے نام کے خط ۲(خطوط صفحہ 302) کازمانہ تحریر مہیش پرشاد صاحب نے اگست 50ءلکھا ہے۔میں نے غالب کے ان الفاظ کی بناپر کہ ”جب تمہارا دیوان چھاپاجائے گایہ قطعہ بھی چھپ جائے گا“ یہ رائے ظاہر کی تھی کہ عجب نہیں یہ خط 50ءسے پہلے کا ہو۔ عرشی صاحب لکھتے ہیں کہ وہ قطعہ جس کاذکراس خط میں ہے دیوان تفتہ موجود ہے اور 50ءکا لکھاہواہے۔ ظاہر ہے کہ مہیش پرشاد صاحب کے قول صحت میں مشتبہ میں نے ظاہر کیاتھا،اس کے لیے کوئی سبب نہیں۔

19۔جوہر اور مے کش کے حق میں غالب کی رباعی کلیات نظم میں ہے، یادگا رمیں بھی نقل ہوئی ہے

تانے کش و جوہر دو سخن در داریم

شان دگر و شوکت دیگر داریم

در میکدہ پیریم کہ مے کش ام ماست

در معرکہ تیغیم کہ جوہر داریم

20۔یہ خط پنج آہنگ میں کہاں ہیں۔

21۔ بہ شرط ضرورت معاصرین کی شہادت پیش کی جاسکتی ہے۔

Categories Uncategorized

مرزا دبیر: عہد اور شعری کائنات

مرزا سلامت علی دبیر عموماً اردو کے دوسرے سب سے بڑے شاعر تسلیم کیے جاتے ہیں، لیکن ان کے کلام کی معنوی گہرائی پر نظر کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اس کی تفہیم و تعبیر خاطر خواہ نہیں ہو سکی۔ اس احساس نارسائی کو کم کرنے لے لیے غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے 2۔3 نومبر 2019 کو ایک پر وقار سمینار کا انعقاد کیا گیا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے سابق ڈائرکٹر ڈاکٹر سید رضا حیدر مرحوم نے اس سمینار کے انعقاد میں خاص اہتمام کیا تھا۔ تمام مقالہ نگاروں نے اپنے موضوع پر معلوماتی مقالے پیش کیے، خصوصاً پروفیسر انیس اشفاق کے کلیدی خطبے نے اہل علم سے خراج تحسین پیش کیا۔ زیر نظر کتاب انھیں مقالات کا مجموعہ ہے۔  

غالب کی شاعری میں ہمہ زمانی معانی

انیس اشفاق 

 غالب کی شاعری میں ہمہ زمانی معانی

بڑا شاعر زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتا ہے۔ اس کی نگاہ میں اپنا زمانہ ہی نہیں آنے والا زمانہ بھی ہوتا ہے، اسی لیے اس کے شعروں میں یک عہدی نہیں، ہمہ زمانی معنویت ہوتی ہے۔ میر اور غالب ایسے ہی شاعر ہیں اور غالب تو ایک ایسا نابغہ لے کر پیدا ہوئے تھے جس کی آنکھ وہاں تک جارہی تھی جہاں تک کسی اور کی آنکھ کا جانا آسان نہ تھا۔ غالب نے کہا تو یہ تھا:

ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا رب

ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا

لیکن ان کی شاعری میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے اس شعر کے مفہوم پر نظر کیجیے: ‘دشت’ یہاں وسعت کے باوجود تنگی کا مفہوم ادا کررہا ہے اور ‘تمنّا’ اسرارِ وجود کو حل کرنے یعنی خدا اور کائنات کو سمجھنے کی تمنّا ہے۔ اس تمنّا میں ہم محوِ سفر ہیں اور اس سفر میں یہ پورا دشتِ امکاں ہمارا صرف ایک نقشِ قدم ہے۔ اصلاً یہ شعر علم اور لاعلمی کا مرکب ہے یعنی ہمارا سارا علم اس کائنات تک محدود ہے اور ماورائے کائنات کے بارے میں ہم کچھ بھی نہیں جانتے۔ یہاں ماورائے کائنات کے بارے میں کچھ نہ جاننے کی بات کہہ کر غالب دراصل ہم کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ ان کی شاعری میں عدم یعنی ماورائے کائنات کا ذکر اتنی بار آیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ معدوم زمانوں اور مکانوں کا بھی گہرا علم رکھتے ہیں۔

نقل کیے ہوئے شعر میں ہم سے مراد دراصل ہم اور آپ ہیں، غالب نہیں۔ اپنے غیر معمولی وجدان و ادراک کی بنا پر غالب کی نگاہ اِس دشتِ امکاں کے دوسرے نقشِ پا کو بھی دیکھ رہی تھی اور ’غیب‘ سے جو مضامین ان پر نازل ہورہے تھے وہ اسی دوسرے نقشِ پا کے الگ الگ جادوں کو روشن کررہے تھے جنہیں دیکھ کر ہمارا مبتلائے حیرت ہوجانا یقینی ہے۔ غالب کے معاملے میں ہمیں دو طرح کی حیرتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک حیرت تو وہ ہے جو ان کے بند شعروں کے معنی نہ کھل پانے کی وجہ سے ہم پر طاری ہوتی ہے۔ معنی خواہی کی خواہش میں جب ہم ان کے شعر کے سب دروازوں پر دستک دے کر کسی جواب کے بغیر لوٹتے ہیں تو جھنجھلاہٹ میں یہ سوچنے لگتے ہیں کہ آخر یہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ اور جب ہمارے بار بار کے سر ٹکرانے کے بعد اُن دروازوں کی درزوں سے معنی کی کوئی کرن پھوٹتی ہے تو دیر تک ہم اس حیرت میں مبتلا رہتے ہیں کہ اِس نے کیا کہہ دیا۔ یہ معنی تو دور دور تک ہمارے ذہن میں نہیں تھے۔ لائقِ رشک نابغے کے ساتھ ساتھ خلاّقی بھی غالب کو ایسی ملی جو کسی اور کے حصے میں نہ آئی۔ مشکل سے مشکل موضوع کو ذہن میں لانا اور پھر اسے ایسے پیرائے میں بیان کرنا کہ جتنی بار شعر کو پڑھیے اس کی نئی پرتیں کھلتی چلی جائیں۔

یہ تو ہم شروع سے سنتے آرہے ہیں کہ غالب کا ذہن عام شاعروں کا سا ذہن نہیں تھا۔ ازحالی تا شمس الرحمن فاروقی ہمارے غالب شناسوں نے غالب کو مشکل بتانے میں بہت زیادہ وقت صرف کیا۔ یعنی ہمیں ان سے ملایا کم گیا ڈرایا زیادہ گیا۔ اور یہی خوف غالب اور ہمارے درمیان دوری کا سبب بننے لگا۔ غالب کے مشکل ہونے کا سبب دراصل ان کی نگاہ کی وہ تیزی اور نیرنگی ہے جو اشیا و مظاہر کے ایک رخ کو دیکھنے کے بجائے سب رخوں کو دیکھ لیتی ہے۔ یعنی ہماری اور آپ کی آنکھ سےچھپی رہنے والی اشیا کی ماہیتیں اور معنویتیں غالب کے حلقۂ

 نگاہ میں خورشیدِ جہاںتاب کی مانند روشن رہتی ہیں۔ یہ جو انہوں نے اپنے بارے میں کہا ہے:

گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھئے

جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے

اس شعر میں ہر لفظ کے گنجینۂ معنی کے طلسم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ شعرِ غالب کے خزینے میں داخل ہوں گے تو ہر لفظ آپ کو اس طلسم کی طرف لے جائے گا جہاں کائنات اور ماورائے کائنات کی مختلف صورتیں اپنے مختلف رنگوں میں نظر آئیں گی۔ اپنی فارسی شاعری میں غالب نے اپنے ذہن کی پیچیدگی، اپنی فکر کی بلندی، اپنے معانی کی نیرنگی اور اپنے حلقۂ نگاہ کی وسعت کا بار بار ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ میں ایک پیچیدہ، حیرت آور اور طلسم آسا ذہن لے کر پیدا ہوا ہوں، اسی لیے میں ان زمانوں پر بھی حاوی ہوں جو ظاہری زمانوں سے پرے ہیں اور وہ معانی بھی میری گرفت میں ہیں جن تک کسی نگاہ کا پہنچنا محال ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:

ما ہمائے گرم پروازیم فیض از ما مجوئے

سایہ ہمچو دود بالا می رود از بالِ ما

اس شعر میں گرم پروازِ ہما سے ذہن ایک عالی فکر اور عالی دماغ ہستی کی طرف منتقل ہوتا ہے اور پرواز کی گرمی فکر کی وہ بلندی ہے جس تک عام آدمی کی رسائی آسانی سے نہیں ہوتی۔ اس مفہوم کا اطلاق خود غالب پر ہوتا ہے کہ میرے افکار اتنے بلند اور اتنے پیچیدہ ہیں کہ ان سے (عام آدمی کے) مستفیض ہونے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔

دوسرا شعر:

پایۂ من جزبہ چشمِ من نیاید در نظر

از بلندی اخترم روشن نیاید در نظر

میرا مرتبہ میرے سوا کسی اور کی نظر میں نہیں آسکتا۔ اس لیے کہ میرا ستارہ اتنی بلندی پر ہے کہ وہ میرے سوا کسی کو صاف نظر نہیں آتا۔

تیسرا شعر:

دیدہ ور آں کہ تا نہد دل بہ شمارِ دلبری

دردلِ سنگ بنگرد رقصِ بتانِ آذری

دیدہ ور وہ ہے کہ اگر دلبری (کے مظاہر) کا شمار کرنے کی ٹھان لیتا ہے تو اس کو پتھر کے دل کے اندر آذری بتوں کا رقص نظر آنے لگتا ہے۔

آخری شعر:

در دام بہرِ دانہ نیفتم مگر قفس

چنداں کنی بلند کہ تا آشیاں رسد

شعر کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ میں دانے کے لیے دام میں نہیں آؤں گا بلکہ قفس کو اتنا اونچا کرو کہ وہ میرے آشیاں تک پہنچ جائے۔ باطنی مفہوم یہ ہے کہ اگر مجھ کو سمجھنا چاہتے ہو تو وہ دانش اور ذکاوت پیدا کرو جس کا مطالبہ میرے شعروں کے معنی کرتے ہیں۔

فارسی کے یہ شعر اور ان کے مفاہیم اس لیے نقل کیے گئے ہیں کہ جو کچھ غالب کے نابغے، ان کے ذہنِ رسا اور ان کی ذکاوت کے بارے میں اوپر کہا گیا ہے اس کی توثیق ہوسکے۔

غالب کے غیر معمولی ذہن، بلا کی قوتِ پرواز، ان کی ہمہ دانی، ان کے معانی کی پیچیدگی اور تہہ داری کی بنا پر نکتہ شناسانِ شعر کو شعرِ غالب کی شرحیں لکھنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ شارحین کی ان شرحوں سے غالب کا اشکال کم ہوا اور ان کے شعروں کا ظاہری مفہوم بھی بڑی حد تک ہم پر ظاہر ہوگیا لیکن کلامِ غالب کے لامحدود معنوی امکانات تک رسائی کا راستہ پھر بھی پوری طرح نہ کھل سکا۔ اس کے لیے نیرمسعود، پروفیسر گیان چند جین، شمس الرحمن فاروقی اور پروفیسر گوپی چند نارنگ وغیرہ کو آگے آنا پڑا اور نئے زمانوں کی معنویتوں کے اعتبار سے غالب کو سمجھانا پڑا۔

درج بالا معروضات میں ہمارا اصل نکتہ یہ ہے کہ مفاہیم کی نیرنگی اور معانی کی کثرت کی بنا پر غالب کی شاعری کسی ایک زمانے کی اسیر نہیں ہے۔ وہ جی تورہے تھے انیسویں صدی میں لیکن ان کی نگاہ آئندہ کے زمانوں کو بھی دیکھ رہی تھی اسی لیے ہمیں ان کے یہاں آئندہ زمانوں کے معنی بھی دکھائی دیتے ہیں۔

اس سے پہلے کہ ہم مثالوں کے ذریعے اکیسویں صدی میں غالب کی معنویت کا محاکمہ کریں یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ وقت اور نوعیت کے اعتبار سے موضوعات ومسائل کی شکلیں کیا ہیں۔ بظاہر ان کی چار شکلیں ہمارے سامنے ہیں:

          1۔ ازلی اور آفاقی موضوعات و مسائل : یہ حدود اور نفوس کے امتیاز کے بغیر ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔

          2۔ یک عہدی یا عصری موضوعات : یہ ایک ہی زمانے اور بیشتر ایک ہی جگہ سے مخصوص ہوتے ہےں۔

          3۔ ہمہ زمانی موضوعات : یہ ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیں اور حدود و نفوس کے امتیاز کے بغیر ان کا تجربہ ہر زمین پر ہر شخص کو کم و بیش ایک ہی طرح سے ہوتا ہے۔

          4۔ انفرادی موضوعات : ان کا تعلق ایک مخصوص فرد، ایک مخصوص قوم اور ایک مخصوص علاقے سے ہوتا ہے۔ لیکن یہ انفرادی موضوعات بعض حالتوں میں انفرادی نہ رہ کر اجتماعی ہوجاتے ہیں۔

موضوعات (مسائل) کی یہ شکلیں بتانے کے بعد ہم آپ کو یہ بھی بتادیں کہ ایک تخلیق کار اپنی تخلیق میں انہیں موضوعات سے معنی کشید کرتا ہے۔ یعنی تخلیق سے باہر جو چیز موضوع کی شکل میں نظر آتی ہے تخلیق کے اندر وہی شے معنویت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔

ان معنویتوں/ موضوعوں کی شکلیں بتانے کے بعد یہیں پر ہم آپ کو یہ بھی بتادیں کہ غالب کی شاعری میں ہماری تقسیم والی چاروں معنویتیں موجود ہیں۔ غالب کے ساتھ اکیسویں صدی میں قدم رکھنے سے قبل اب ذرا یہ بھی دیکھ لیجیے کہ جن مختلف معنویتوں کی شکلیں ہم نے آپ کے سامنے پیش کی ہیں وہ اصلاً ہیں کیا۔ سب سے پہلے دائمی یا آفاقی یا ازلی معنویتوں یا مسئلوں کو دیکھےے۔ یہ معنویتیں اس طرح ہیں:

ذات اور کائنات کا طلسم، وجود کے تئیں ہمارا استفہام، دنیا میں ہمارے خلق ہونے کی غرض و غایت، موت کی ناگزیری، دنیا کی بے ثباتی، زندگی کا جبر، زیاں کا احساس، خوفِ مرگ، رنجِ رائیگاں، عدمِ تحفظ، تنہائی، مایوسی، بے یقینی، ذات کا انتشار، باطن کی پیکار، ہونے کا آزار، نہ ہونے کا وہم وغیرہ۔ یہ دائمی اور آفاقی مسائل ہیں اور یہ آج سے دو سو برس بعد یعنی تئیسویں صدی میں بھی اسی طرح موجود رہیں گے۔ یہ ضرور ہے کہ ان میں سے بعض کی حالتوں اور کیفیتوں میں بہ اعتبارِ وقت تبدیلی واقع ہوتی رہے گی۔ مثلاً مایوسی، بے یقینی، عدمِ تحفظ، عدم حوصلگی اور زیاں کا جو احساس ہمیں 1857 کے غدر یا پہلی جنگ عظیم میں ہوا تھا، اس سے کہیں زیادہ دوسری عالمگیر جنگ میں ہوا۔ جب تقسیم اور اس کے بعد فسادات کے المناک واقعات رونما ہوئے تو اس احساس میں پھر تیزی آئی اور بیسویں صدی کے آخری اور اکیسویں صدی کے پہلے دہے میں ایک عبادت گاہ کی مسماری اور بہ رضائے ریاست ایک صوبے میں ایک مخصوص جمیعت کی صف کُشی کے دل دہلادینے والے مناظر سامنے آئے تو ہم ایک نئے طرح کے آزار و اضطراب میں مبتلا ہوئے اور عدمِ تحفظ کے احساس نے ہمیں لرزہ براندام کردیا۔ اور آج اکیسویں صدی کے دوسرے دہے کا منظرنامہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ ایک مخصوص طبقہ پھر نشانے پر ہے۔ اس طبقے کو جس نوع کے انفرادی اور اجتماعی تشدد کا شکار ہونا پڑرہا ہے اور جس طرح ایک خاص خطے کے حدود کو بندی خانوں میں بدل کر محصور لوگوں کی زبانوں کو بند کردیا گیا ہے اس نے ہمیں ہونے اور نہ ہونے کے وہم میں مبتلا کردیا ہے۔

درج بالا بیان کے ذریعے ہم جس نکتے کو زیادہ نمایاں کرنا چاہ رہے ہیں وہ یہ کہ دائمی اور آفاقی مسئلوں یا معنویتوں کی حالتیں یا کیفیتیں تو بدل سکتی ہیں لیکن ان کی اصل میں کوئی تغیر نہیں ہوتا۔ مثلاً مایوسی، بے یقینی، تنہائی اور غم کی حالت ہر شخص پر طاری ہوتی ہے اور ہر زمانے میں طاری ہوتی ہے۔ مخصوص حالتوں میں کسی کو اس کا زیادہ احساس ہوتا ہے کسی کو کم۔ جب غالب یہ کہتے ہیں:

کیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواہ اہلِ بزم

ہو غم ہی جاں گداز تو غمخوار کیا کریں

تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کا غم بہ اعتبارِ حالت کم ہوتا ہے اورکسی کا جان کو گھلا دینے والا۔ دائمی اور آفاقی حالتوں یا معنویتوں کا ذکر کرنے کے بعد اب آئیے فوری، یک عہدی یا وقتی موضوعوں یا معنویتوں کی طرف۔ یہ معنویتیں عارضی اور مخصوص حالتوں کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا زمانہ کبھی بہت مختصر ہوتا ہے اور کبھی ان کا سلسلہ دراز ہوجاتا ہے۔ مثلاً بیسویں صدی کے آخری دہے میں بنیادپرستی اور مذہب زدگی میں شدت پیدا ہوگئی تھی، اقلیتوں کی وفاداری پر سوالیہ نشان قائم کئے جانے لگے تھے۔ قومی وقار و افتخار کی نئی تعریفیں وضع کی جانے لگی تھیں۔ نیز مذہب شناسی کے نام پر منافرت کو ہوا دی جارہی تھی۔ ذات پرست اور مذہب اساس سیاست کا کھیل کھیلا جانے لگا تھا۔ اکیسویں صدی کے دوسرے دہے میں اقتدار میں آنے کے لیے انہیں موضوعوں/ مسئلوں کو اور ہوا دی گئی اور اس ہوا کے تیز تھپیڑوں کو ہم آج بھی محسوس کررہے ہیں۔ لیکن یہاں ہم آپ کو ایک باریک فرق بھی بتاتے چلیں کہ فوری اور وقتی معنویتیں بعض صورتوں میں ہمہ زمانی بھی ہوجاتی ہیں مثلاً بیسویں صدی کے آخری دہے میں پیدا ہونے والے مسائل پر اگر کسی نے کوئی شعر کہا ہے اور اُس شعر میں زمانے کے تعین کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے تو چونکہ یہ حالتیں اکیسویں صدی کے دوسرے دہے میں بھی موجود ہیں اس لیے اس زمانے میں کہے جانے والے شعر کا اطلاق 2021 کے بعد کے زمانے پر بھی کیا جاسکتا ہے اور اس طرح وہ شعر وقتی نہ رہ کر ہمہ زمانی ہوجائے گا۔ مشہور ترقی پسند شاعر سردار جعفری کے دو شعروں سے یہ بات زیادہ واضح ہوجائے گی۔

شعر یہ ہیں:

کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سوا

راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا

تیغ منصف ہو جہاں دار و رسن ہوں شاہد

بے گنہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا

یہ شعر غالباً 1950 سے پہلے کسی مخصوص اور ہنگامی حالت کے نتیجے میں کہے گئے تھے۔ لیکن جب ایمرجنسی کے زمانے میں دہلی کے ایک بڑے مشاعرے میں سردار جعفری نے ان شعروں کو بقول شخصے حال ہی میں کہے ہوئے شعروں کے طور پر پڑھا تو مشاعرے کی چھتیں اڑ گئیں۔ اس کے برعکس غالب کا مشہور قطعہ : ’بس کہ فعّالِ ما یرید ہے آج….، اس میں انگلستاں اور دہلی کے لفظوں کے آجانے کی وجہ سے یہ قطعہ جگہ اور زمانے سے مخصوص ہوگیا ہے اور یہ اکہری اور وقتی معنویت سے آگے نہیں بڑھ سکا۔

موضوعوں اور معنویتوں کی اس تقسیم و تخصیص کے بعد اب آئیے دیکھیں کہ غالب کے شعروں میں یہ موضوع یا معنویتیں کس طرح نظر آتی ہیں۔ سب سے پہلے آفاقی معنویتوں کی طرف آتے ہیں اور ان میں بھی پہلے فنا، زوال اور دنیا کی بے ثباتی کا موضوع لیتے ہیں اور اس کے لیے اس شعر کے مفہوم کو غور سے ملاحظہ کیجیے:

کیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواہ اہلِ بزم

ہو غم ہی جاں گداز تو غمخوار کیا کریں

بظاہر شعر کا مفہوم یہ ہے کہ اہلِ بزم شمع کے خیرخواہ تو ہیں لیکن شمع کا غم ہی ایسا ہے جو لاعلاج ہے اس لیے اہلِ محفل بہی خواہی کے جذبے کے باوجود شمع کا غم دور نہیں کرسکتے۔

یعنی شمع کا کام اور اس کا انجام ہی یہ ہے کہ وہ پگھلتے پگھلتے ختم ہوجائے۔ ایسی صورت میں اس سے ہمدردی تو کی جاسکتی ہے لیکن اس کے لوازمِ ذاتی کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ شمع کا وجود عبارت ہے جلنے سے اور جل کر ختم ہوجانے سے۔ اس لیے ایسی شے کی غمخواری جس کا غم جاں گداز ہو حقیقتاً ممکن نہیں۔ شمع کی جاں گدازی کو ختم کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ شمع کو بجھادیا جائے لیکن اس طرح شمع کی موت ہوجائے گی اس لیے کہ شمع کی زندگی اپنی شمعیّت (روشن رہنے) کی وجہ سے ہے۔ اسے گل کردینے سے یہ شمعیّت ختم ہوجائے گی یعنی شمع کی موت واقع ہوجائے گی۔ اس طرح دونوںصورتوں میں شمع کی موت یقینی ہے۔ پہلی صورت میں جلتے جلتے ختم ہونا اس کا فنا ہونا ہے اور دوسری صورت میں اِس فنا کے سلسلے کو روک دینا دراصل اسے (شمع کو) مار ڈالنا ہے۔

غالب نے اپنے ایک شعر میں، جسے اوپر نقل کیا جاچکا ہے، اپنے ہر لفظ کو گنجینۂ معنی کا طلسم کہا تھا سو اس شعر میں بھی ہر لفظ معنی سے معمور ہے۔ اس کی مثال لفظ غمخواری ہے جس نے شعر کے مفہوم کو متحرک کردیا ہے۔

غمخواری کا مطلب ہے کسی کے غم میں شرکت کرنا یعنی اسے اپنا لینا۔ اس طرح اہلِ بزم کا شمع کی غمخواری کرنا خود بھی جاں گدازی کے مرحلے سے گزرنا ہے۔ چونکہ شمع کی جاں گدازی اس کے روشن ہونے کی بنا پر ہے اور شمع کا روشن ہونا بزم کے وجود یعنی اہلِ بزم کا موجب ہے۔ اگر شمع کے غم کی جاں گدازی ختم کردی جائے تو بزم باقی نہیں رہے گی اور اگر شمع کی غمخواری کی جائے تو اہلِ بزم خود اس کا شکار ہوجائیں گے اور اس طرح بھی بزم کا باقی رہنا مشکل ہے۔ یعنی جس المیہ نظام سے شمع دوچار ہے اسی نظام میں اہلِ بزم بھی مبتلا ہیں۔ اس لیے نہ صرف شمع بلکہ اہلِ بزم اور بزم کے تمام لوازم فنا کا شکار ہیں۔ اس طرح غالب کا یہ شعر اس پورے نظامِ کائنات کو ظاہر کرتا ہے جہاں ہر شے فنا میں مبتلا ہے۔

فنا اور بے ثباتی کا یہ المیہ نظام تئیسویں صدی بلکہ تیسرے ہزارے کے بعد بھی قائم رہے گا اور غالب اس وقت بھی بامعنی رہیں گے۔ غالب کو بامعنی بتانے میں میں بہت دور تک چلا گیا۔ چھوڑیے اتنے آگے کے زمانے کو۔ اس شعر میں جاں گدازی اور غمخواری کے الفاظ کو بالکل تازہ مفہوم تک لاتے ہیں۔ غالب کے اس شعر کی شمع وقت اورزمانہ بدل کر کوئی پینتالیس دن سے جاں سوزی اور جاں گدازی کے عالم میں ہے۔ اس شمع کی طرف آپ کا ذہن منتقل ہوا؟ اگر نہیں تو ہم بتاتے ہیں۔ یہ شمع ہری بھری وادیوں کے فانوس میں روشن ہے اور اس کی لَو کی نیلاہٹ روز بہ روز کم ہورہی ہے۔ ہم سب اس شمع کے غمخوار ہیں۔ اس شمع کی جاں سوزی ایک شب کی نہیں بلکہ ہزاروں شبوں کی ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہم اس کے غم میں شریک ہوتے ہیں تو موجودہ صورتحال ایسی ہے کہ ہمیں بھی جاں گدازی کے مرحلے سے گزرنا پڑے گا بلکہ ہماری جاں گدازی شمع کی جاں گدازی سے زیادہ بڑھ جائے گی۔ دوسری طرف وہ لوگ جو شمع کی جاں گدازی کو ختم یعنی اس کے دکھ کو دور کرنے کے بہانے اسے بجھادینے کے درپے ہیں، وہ شمع کو اس کی شمعیّت یعنی اس کی شناخت سے محروم کردینا چاہتے ہیں۔ یہ کھلے ہوئے اشارے آپ نے یقینا سمجھ لیے ہوں گے۔ تو دیکھیے انیسویں صدی میں کہا ہوا شعر اکیسویں صدی کے دوسرے دہے کی تازہ ترین صورتحال پر کس طرح منطبق ہوتا ہے۔

وجود و عدم کے مسائل فارسی میں بیدل اور اردو میں غالب کے یہاں سب سے زیادہ بیان کئے گئے ہیں۔ وجود کی بوالعجبیوں اور نیرنگیوں کی تفسیریں ہر عہد میں کی جاتی رہی ہیں۔ چنانچہ بیسویں صدی کے ربعِ ثالث میں فرانسیسی مفکر ژاں پال سارتر نے اپنی دانست میں وجود کی نئی تفسیر اس مشہور فقرے کے ذریعے کی: ”آزادی ہی انسان کی قید ہے۔“ ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ سارتر کے اس وجودی فقرے کے معنی کیا ہیں۔ ابھی ہم اس فقرے پر غور کرہی رہے تھے کہ ہماری نگاہ غالب کے اس شعر پر ٹھہری:

کشاکش ہائے ہستی سے کرے کیا سعیِ آزادی

ہوئی زنجیر موجِ آب کو فرصت روانی کی

یہ شعر پڑھ کر ہمیں معاً یہ محسوس ہوا جیسے ہم نے سارتر کے اس کلیدی فقرے کے مفہوم کو سمجھ لیا ہو۔ اب شعر کا مفہوم ملاحظہ کیجیے:

یہ دنیا سمندر ہے۔ ہم اس میں ایک موج کی مانند ہیں۔ جس طرح موج کو سمندر میں ہمیشہ بہتے رہنا ہے یعنی کشاکش سے گزرتے رہنا ہے اور جس طرح اب کنارہ اس کے مقدر میں نہیں ہے اسی طرح ہمیں بھی دنیا کی کشاکش سے آزادی نہیں مل سکتی ہے درحالیکہ ہم آزاد ہیں۔ جس طرح روانی کی فرصت موج کے لیے زنجیر بن گئی ہے اسی طرح اس دنیا میں آزادی ہمارے لیے زنجیر بن گئی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ اپنے زمانے میں کہے ہوئے شعر کے ذریعے غالب نے بیسویں صدی کے سب سے نمایاں فلسفی کے وجودی فقرے کو کتنی آسانی سے سمجھا دیا۔ اب اگر ہم فرانسیسیوں سے کہیں کہ وجود کی اس نوع کی تفسیر میں زمانی فضیلت غالب کو حاصل ہے تو کیا انہیں آسانی سے یقین آئے گا۔

انسانی ذہن میں جس دن سے ذکاوت پیدا ہوئی ہے، اسی دن سے کائنات کے اسباب و علل کو سمجھنے کی کوشش شروع ہوگئی ہے۔ غالب کے یہاں ان اسباب و علل کو سمجھنے کی سعی جگہ جگہ موجود ہے۔ یہ شعر ملاحظہ کیجیے:

شوق اُس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو کہ جہاں

جادہ غیر از نگہہِ دیدۂ تصویر نہیں

اس شعر میں غالب نے جادہ کو غیر از نگہہِ دیدہ تصویر کہہ کر مفہوم کو بالکل منفرد کردیا ہے۔ تصویر اگر سامنے دیکھتی ہے تو اس کی نگاہ جدھر سے بھی دیکھیے اپنی طرف معلوم ہوتی ہے۔ اگر یہ تصویر کسی اور رخ کو دیکھ رہی ہے تو اس رخ کی طرف کھسکتے جائیے، نگاہ بھی کھسکتی جائے گی۔ تصویر کی نگاہ کسی نہ کسی طرف جاتی ہوئی معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقتاً کسی بھی طرف نہیں جاتی۔ یہی حال دشت کا ہے جہاں راستہ مسدود نہ ہونے کی وجہ سے جس طرف دیکھیے راہ کھلی ہوئی نظر آتی ہے یعنی ہر طرف جادہ نظر آتا ہے مگر جادہ کہیں نہیں ہے۔

یعنی میں اس دشت میں دوڑ رہا ہوں جہاں راستے کا تعین بھی نہیں ہے اور جہاں مجھ سے پہلے کسی اور شخص کا گزر نہیں ہوا ہے، اگر مجھ سے پہلے کوئی شخص گزرا ہوتا تو یہاں جادہ ضرور بن جاتا اس لیے کہ جادہ انسان کے قدموں ہی سے بنتا ہے۔

اب اس جادے سے خالی دشت میں دوڑنے کے دو مفہوم ہیں۔ ایک یہ کہ میں شوق کے ہاتھوں سعیِ رائیگاں میں مبتلا ہوں اور دوسرے یہ کہ اس شوق نے مجھے سرگرمِ عمل کردیا کہ جہاں جادہ نہیں ہے اس دشت کو بھی چھانتا پھر رہا ہوں۔

یہ شعر ہمارے اس ذہنی اور مابعد الطبیعییاتی تجربے کو ظاہر کرتا ہے کہ ہم اس پوری کائنات کے اسباب و علل کو سمجھنے کے شوق میں مبتلا ہیں لیکن جس کا نتیجہ فقط حیرانی ہے۔ یہ مابعدالطبیعییاتی تجسس (Metaphysical curiosity) آپ کو افلاطون سے لے کر اسٹیفن ہاکنگ تک ہر جگہ نظر آئے گا۔ غالب کے ایسے شعروں کا سفر کیجیے تو ذہنی اور مابعدالطبیعییاتی مسائل سے ان کی پیکار و آویزش آئندہ زمانوں کو حیران کردینے والی ہے۔

اب چلتے ہیں ایک اور دلچسپ نکتے کی طرف۔ یہ بات کہ ”انسانی وجود اور کائنات کی پیچیدہ حقیقت کا احاطہ کرنے میں عقل ناکام ہے۔“ دنیا کے مشہور فلسفیوں پاسکل، کرکے گار، نطشے، یاسپرس، ہزرل، ہائیڈیگر اور سارتر وغیرہ میں مشترک ہے۔ لیکن اسی بات کو غالب ان فلسفیوں سے بہت پہلے اپنے بیسیوں شعروں میں بیان کرچکے ہیں۔

حیرت اور استفہام میں ڈوبے ہوئے یہ شعر تو آپ کی زبان پر فوراً آجاتے ہیں:

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

یہ اور ایسے بہت سے شعر بتاتے ہیں کہ غالب کا نابغہ زمان و مکان کے حدود و قیود سے آزاد ہے۔

 آفاقی معنویتوں میں وجودیت کا ذکر ابھی کیا جاچکا ہے۔ اب آئیے ایسی ہی کچھ اور معنویتوں کی طرف۔ یہ ہیں: اجنبیت، معدومیت اور مہملیت۔

معدومیت کی اصطلاح روس میں انیسویں صدی کے دوسرے ربع میں ایواں ترگینیو کے ناول

Fathers And Sons(1860)

کے وسیلے سے سامنے آئی۔ اس ناول کا مرکزی کردار بازاروف خود کو معدومیت پسند کہتا تھا۔ یہ ذہنی معدومیت تھی اور اس زمانے کی مخصوص حالتوں کے نتیجے میں سامنے آئی تھی۔ یہی معدومیت غالب کے یہاں بھی ہے لیکن غالب کے یہاں یہ معدومیت ذہنی بھی ہے اور روحانی بھی۔ اس معدومیت کے ضمن میں ہوسکتا ہے غالب کا یہ مشہور شعر مجھ سے پہلے آپ کے ذہن میں آگیا ہو:

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی

خود ہماری خبر نہیں آتی

سہلِ ممتنع کے سے انداز میں کہے جانے والے اس شعر کا ظاہری مفہوم تو آپ نے سمجھ ہی لیا ہوگا لیکن باطنی مفہوم میں سوال یہ ہے کہ ہم کہاں ہیں جہاں سے ہم کو ہماری خبر نہیں مل رہی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ہم عدم میں ہیں یعنی ہم نہیں ہیں۔ تو جو نہیں ہے اسے ’ہے‘ والی شے کی خبر کیونکر مل سکتی ہے۔ یعنی معدوم کو موجود کی خبر ملنا محال ہے اور موجود بھی وہ جو قیاسی، موہوم اور اعتباری ہے۔ اس کے لیے خود غالب کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے:

ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد

عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے

یا میر کا یہ شعر:

یہ توہم کا کارخانہ ہے

یاں وہی ہے جو اعتبار کیا

سارتر نے

 (Being and Nothingness)

 کے مسائل پر عالمانہ انداز میں بہت بعد میں غور کرنا شروع کیا لیکن غالب ”ہونے اور نہ ہونے“ کے معاملات کو بہت پہلے اپنے شعروں میں بیان کرچکے تھے۔

‘بیگانہ’ کے سے شہرۂ آفاق ناول کے خالق البیئر کامیو نے لغویت اور مہملیت

(Absurdity and Nihilism)

کے بارے میں بتایا ہے کہ اس کا احساس درج ذیل چار صورتوں میں ہوتا ہے:

          1۔ اس بات پر غور کرنا کہ ہمارے وجود کی غرض و غایت کیا ہے۔

          2۔ اس بات کا خاطر نشین ہوجانا کہ وقت ایک تخریبی قوت ہے۔

          3۔ اس بیگانہ دنیا میں لاکر چھوڑ دیے جانے کا احساس۔

          4۔ دوسروں سے بے تعلقی کا احساس۔

ان چاروں صورتوں کو غالب نے اپنے کلام میں بہ ہزار صورت بیان کیا ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:

جب کہ تجھ بِن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

ہرزہ ہے نغمۂ زیر و بم ہستی و عدم

لغو ہے آئینۂ فرقِ جنون و تمکیں

بیگانگیِ خلق سے بے دل نہ ہو غالب

کوئی نہیں تیرا تو مری جان خدا ہے

ان شعروں کے مفاہیم بیان کرنے میں بڑا وقت لگ جائے گا۔ شعروں کو سن کر آپ نے سمجھ لیا ہوگا کہ کامیو کی بتائی ہوئی چاروں صورتیں یہاں موجود ہیں اور بہت سے معنوی ارتعاشات کے ساتھ موجود ہیں۔

لغویت اور مہملیت کی وضاحت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان کے شدید احساس کی بنا پر انسان شدید ذہنی تنہائی

(Loneliness)

میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس تنہائی کا احساس غالب کے یہاں دیکھیے

وحشتِ آتشِ دل سے شبِ تنہائی میں

صورتِ دود رہا سایہ گریزاں مجھ سے

بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق

بیکسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں

اور ”کوئی نہ ہو“ ردیف والے وہ تین شعر تو ہم سب کی زبانوں پر ہیں جن میں غالب نے دنیا سے اپنی بے تعلقی، بے دلی اور بیزاری کا ذکر کیا ہے۔

اوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے اسے سننے کے بعد اب آپ خود فیصلہ کیجیے کہ ان دقیق، پیچیدہ اور مشکل موضوعات کے بیان میں زمانی سبقت کسے حاصل ہے۔ لیکن اسے کیا کیا جائے کہ اردو کے بعض مغرب زدہ نقاد اپنے علمی دبدبے کو ظاہر کرنے کے لیے مغربی فلسفیوں اور نقادوں کا ذکر کےے بغیر لقمہ نہیں توڑتے۔ مقامِ افسوس ہے کہ ہم اپنے خزانوں کو کھنگالنے کے بجائے دوسروں کے دفینوں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔

ہماری اب تک کی گفتگو غالب کے یہاں موجود آفاقی اور ہمہ زمانی موضوعات سے متعلق تھی۔ اب آئےے یک عہدی یعنی عصری اور انفرادی معنویتوںکی طرف لیکن اس سے پہلے کہ ہم ان معنویتوں کو ظاہر کریں، آپ کو بتادیں کہ غالب کے شعروں میں چونکہ زمانی اور مقامی تعین ہے ہی نہیں اس لیے اگر ان کے یہاں کوئی عصری یا مقامی موضوع ہوتا بھی ہے تو معنویت اس کی ہمہ زمانی ہوجاتی ہے۔ اب اسی شعر کو دیکھیے:

گلشن میں بندوبست برنگِ دگر ہے آج

قمری کا طوق حلقۂ بیرونِ در ہے آج

قیاس کہتا ہے کہ غالب نے یہ شعر مغلیہ سلطنت کے زوال پر کہا ہوگا لیکن اکیسویں صدی کے دوسرے دہے میں یہ شعر پڑھیے تو ایسا لگتا ہے کہ غالب نے حال ہی کے ایک واقعے (5 اگست 2020) کو نگاہ میں رکھ کر یہ شعر کہا ہے۔ خیر پہلے شعر کے مرکزی مفہوم پر نظر کیجیے۔ اس مرکزی مفہوم تک حلقۂ بیرونِ در کی تشریح کے بغیر نہیں پہنچا جاسکتا۔ قمری کا طوق حلقۂ بیرونِ در کا استعارہ ہے۔ حلقۂ بیرون در دروازے کے باہر کی زنجیر کا حلقہ ہے جسے کھٹکھٹاکر آمد کی اطلاع دی جاتی ہے اور داخلے کی اجازت طلب کی جاتی ہے۔

حلقۂ  بیرونِ در مکان سے بظاہر غیر متعلق ہونے کے باوجود متعلق ہوتا ہے۔ یعنی مکان میں داخل ہونے کے لیے پہلا وسیلہ ہی حلقہ  بیرونِ در ہے۔ یہ حلقہ قمری اور باغ کے درمیان قدرِ مشترک ہے۔ قمری کے گلے کا حلقہ باغ کے اندر ہوتا ہے یعنی وہ باغ کا لازمہ ہے اور وہ حلقہ جو دستک دینے کے کام آتا ہے، باغ کے باہر ہوتا ہے۔ لیکن نئے بندوبست میں یہ دونوں حلقے ایک ہوگئے ہیں۔ یعنی پہلے قمری باغ کے اندر تھی اور اب (نئے بندوبست میں) باغ کے باہر ہے۔

یہاں قمری کے طوق کو باغ میں رہنے یا باغ پر متصرف ہونے کی علامت بنادیا گیا ہے۔

دوسری طرف قمری کا طوق یعنی حلقۂ بیرونِ در بیک وقت آزادی، محرومی اور زوال کا مفہوم بھی ادا کرتا ہے۔ آزادی یہ کہ قمری جو عشقِ گل میں گرفتار تھی اب باغ سے باہر گو آزاد ہے مگر اس کی محرومی اور زوال یہ ہے کہ وہ باغ کا معزز اور ممتاز پرندہ اور عاشقِ گل تھی لیکن باغ سے باہر ہونے کی وجہ سے ایک طرف وہ عشقِ گل سے محروم ہوگئی اور دوسری طرف وہ اپنے اعزاز و امتیاز سے۔

اب محرومی اور زوال کے مفہوم کو سامنے رکھیے تو یہ شعر اس خطے کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں کے رہنے والوں کو حال ہی میں ان کی روایتی سہولتوں سے محروم کردیا گیا ہے۔ اور اگر آزادی کے مفہوم کو ملحوظ رکھیے تو شعر کی علامتی جہت یہ ہوگی کہ دوسروں کے زیرِانتظام آجانے کے بعد اگرچہ وہاں کے باشندے صوبائی امور کی تمام الجھنوں سے آزاد ہوجائیں گے لیکن یہ آزادی غلامی سے بدتر اور غلامی ہی کی ایک شکل ہوگی۔

درج بالا سطور میں ہم نے بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے اوائل کے اِن مشترک مسائل کا ذکر کیا تھا:

 ‘بنیادپرستی اور مذہب زدگی، قومی وقار و افتخار کی نئی تعریفوں کا وضع کیا جانا، مذہب شناسی کے نام پر منافرت کو ہوا دیا جانا، وفاداریوں پر سوالیہ نشان کا قائم کیا جانا، تاریخ اور ثقافت کی نئی تعبیر کے لیے تعلیم کو ایک مخصوص نظریے کا ترجمان بنایا جانا نیز انفرادی اور اجتماعی تشدد وغیرہ۔’

پچھلے پچاس ساٹھ برس کی تاریخ کے ورق الٹیے تو حکومتوں کی تخصیص و تفریق کے بغیر ایک مخصوص طبقہ ان مسائل کا شکار ہوتا رہا ہے۔ اب غالب کے اس شعر میں اس مخصوص طبقے کی فریاد سنیے:

خزاں کیا فصلِ گل کہتے ہیں کس کو کوئی موسم ہو

وہی ہم ہیں قفس ہے اور ماتم بال و پر کا ہے

عام طور پر بال و پر کا ماتم فصلِ گل میں ہوتا ہے لیکن غالب نے خزاں کو شامل کرکے مفہوم میں ندرت پیدا کردی ہے۔ فصلِ گل میں اڑنے کی خواہش زیادہ ہوتی ہے اسی لیے بال و پر کے نہ ہونے کا ماتم اسی فصل میں کیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں تو اسیری بلکہ دائمی اسیری ہے اس لیے ہم خزاں میں بھی وہی ماتم کررہے ہیں۔ یعنی زمانے کے سرد و گرم ہمارے لیے ایک سے ہیں۔

علامتی مفہوم یہ ہے کہ نظامِ حکومت کوئی بھی ہو محرومی اور ستم آزاری ہمارا مقدر ہے۔ اور ’ہمارا‘ سے مراد ایک مخصوص طبقہ ہے۔

یہاں تک آتے آتے منتخب مثالوں کے ذریعے ہم نے غالب کے یہاں قریب قریب ان تمام موضوعوں اور معنویتوں کا احاطہ کرلیا ہے جن کی ابتداً ہم نے درجہ بندی کی تھی۔

میں نے اپنے کسی مضمون میں لکھا ہے کہ جو منظم ادبی اور سماجی فلسفے ظہور میں آتے ہیں وہ غیر منظم شکل میں ہمارے بڑے فنکاروں کی تخلیقوں میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ تو غالب کے ساتھ ہم ایک ایسے ہی ادبی نظریے کی طرف چلتے ہیں جو بیسویں صدی کے اواخر میں باہر سے ہمارے یہاں لایا گیا اور ایک انوکھے ادبی نظریے کے طور پر اس کا خوب گُن گایا گیا۔

ژاک دریدا کا نام کوئی پینتیس چھتیس برس پہلے میں نے لکھنؤ کی برٹش کاؤنسل لائبریری میں بیٹھ کر اخبار ’گارجین‘ میں پڑھا تھا۔ اس وقت تک دریدا اردو میں پوری طرح نمودار نہیں ہوئے تھے۔ ’گارجین‘ نے دریدا کو پورا ایک صفحہ اس لیے دیا تھا کہ اس وقت کیمبرج یونیورسٹی کی انتظامیہ میں دریدا کی اعزازی رکنیت کے معاملے میں تنازعہ چھڑا ہوا تھا۔ دریدا پر ’گارجین‘ نے

Text Detective

 (مُفتّشِ متن) کے نام سے ایک مضمون شائع کیا تھا اور اسے اپنے عہد کا نابغہ قرار دیا تھا۔ اس وقت اس مضمون میں

Deconstruction

کا لفظ میری سمجھ میں نہ آیا اور سچ پوچھیے تو ابھی بھی میں اسے براہِ راست سمجھنے سے قاصر ہوں۔ بس اردو کے بعض بہت دانا اور زیرک نقادوں کے ذریعے جو کچھ میں نے سمجھا ہے وہ یہ کہ متن کو جتنی بار کھنگالیے، الٹیے، برہم کیجیے، جتنی بار اس کے وقفوں، درزوں اور جھروکوں میں جھانکیے ہر بار اس کے اندر نئے معنی بلکہ اصل معنی کے برعکس معنی نکلتے ہیں۔ کچھ دیر پہلے ہم نے سارتر کی وجودیت کی اصل کو غالب کے یہاں ڈھونڈ نکالا تھا۔ اب اس شعر میں دریدائی طریقۂ کار کو منکشف ہوتا ہوا دیکھیے۔ یہ بھی بتادیں کہ غالب کی تعبیروں میں اس طریقے کو سب سے پہلے طباطبائی نے رسمی طور پر اور نیرمسعود نے باقاعدہ اختیار کیا۔ شعر یہ ہے:

غم کھانے میں بودا دلِ ناکام بہت ہے

یہ رنج کہ کم ہے مئے گلفام بہت ہے

یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ متحرک معنویت غالب کے اشعار کی بنیادی خصوصیت ہے۔ اس شعر میں بھی غالب نے مفہوم کو متحرک کردیا ہے۔ دیکھیے کیسے۔

چونکہ دل غم کھانے میں بہت بودا ہے اس لیے شراب کی ضرورت ہے۔ لیکن جتنا غم ہے اس کے بقدر شراب نہیں ہے۔ مقابلتاً شراب کی اس کمی کے احساس کی وجہ سے رنج میں اور اضافہ ہورہا ہے اور رنج میں اس اضافے کے ساتھ شراب کی کمی اور زیادہ محسوس ہورہی ہے۔ اس طرح رنج برابر بڑھتا جارہا ہے اور شراب کی مقدار اس کے تناسب سے کم ہوتی جارہی ہے۔ اب متن کو برہم کیجیے تو متخالف

(Paradoxical)

 معنی بھی سامنے آئیں گے۔  یعنی یہاں حوصلہ بھی ہے اور عدمِ حوصلہ بھی۔ عدمِ حوصلہ یہ کہ غم کھانے میں دلِ ناکام بہت کمزور ہے اور حوصلہ یہ کہ مئے گلفام بہت کم ہے، اسے بقدرِ ظرف یعنی میرے غم کے مطابق ہونا چاہیے تھا۔

آپ نے دیکھا کہ متن کو برہم کرنے کے بعد شعر میں برعکس اور متخالف معنی موجود نظر آنے لگے اور یہ معنی اس لیے نظر آنے لگے کہ غالب نے تخالف اور تقلیب کی منطق ہی سے اس شعر کی تخلیق کی ہے۔

دریدا یہی تو کہتا ہے کہ متن جو دکھاتا ہے، بتاتا اس کے برعکس ہے۔ یہی بات غالب نے عملاً اپنے شعروں کے ذریعے بتادی۔ غالب کے یہاں دریدا کے نکتے کی وضاحت میں ہم نے بظاہر سامنے کا ایک سادہ شعر لیا ہے لیکن غالب کے مشکل اور پیچیدہ شعروں کی طرف جائیے تو متن کے اندر سے معنی کو منکشف کرنے کا دریدائی مطالبہ ہر طرح سے پورا ہوتا ہوا نظر آئے گا۔

اگر میں شعروں کی تشریح کے ذریعے اکیسویں صدی میں غالب کی معنویت کو روشن کرنا شروع کروں گا تو یہ مقالہ پھیلتا چلا جائے گا سو اس حرف دراز خامے کو گرفت میں رکھتے ہوئے آپ کو اپنے اس احساس میں شریک کرنا چاہتا ہوں کہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ہم بہت سنگین اور جاں سوز مراحل سے گزر رہے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم اور تقسیم کے المیے کے بعد ہم میر کی پناہ میں چلے گئے تھے۔ موجودہ صدی کے دوسرے دہے کے لیے ہمیں غالب کی طرف دیکھنا پڑرہا ہے۔ جو کچھ اس دہائی میں یا اس سے پہلے ہوا اس کا ذکر ہم سطور بالا میں کرچکے ہیں۔ یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بعض زمانی مسائل کو نگاہ میں رکھ کر شعر نقل کرکے ان کی معنویتیں بتادی جائیں۔

محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے

کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا

ایک مخصوص طبقے کی وفاداری پر سوالیہ نشان اٹھائے جانے پر اس طبقے کا ردِّ عمل۔

 آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے

کل تلک تیرا بھی دل مہر و وفا کا باب تھا

ایک حکمراں کا حکومت قائم کرتے وقت سب کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھنے کا وعدہ کرنا اور اس پر عمل نہ کرنا۔

کام اس سے آپڑا ہے کہ جس کا جہان میں

لیوے نہ کوئی نام ستمگر کہے بغیر

 ‘جنت نظیر’ خطے میں بہ حالتِ مجبوری نظریاتی سطح پر ایک دوسرے کی ضد سمجھی جانے والی جماعتوں کی یکجائی کے وقت کی بے بسی۔

باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر

ہر گلِ تر ایک چشمِ خوں فشاں ہوجائے گا

معنویت اپنے ہی باغ سے نکالے جانے والے کو اسی باغ میں سبزباغ دکھا کر لے جانے پر اصرار کے وقت نکالے جانے والے کا ردِّعمل۔

 ہر چند سبک دست ہوئے بت شکنی میں

ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور

معنویت اُن طاقتوں کے سامنے شدید اور مسلسل مزاحمت جن کا زور کسی طرح کم ہوتا ہوا نظر نہےں آتا۔

 روز اس شہر میں اک حکم نیا ہوتا ہے

کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا ہوتا ہے

 ایک مخصوص طبقے کے لیے منفی مقاصد کو نگاہ میں رکھ کر نافذ کیے جانے والے احکام۔

شعروں کے مقابل ان کی عصری معنویتیں رکھ دینے کے بعد عرض کرتا چلوں کہ ایسا میں نے اپنے موضوع کی مجبوری کی بنا پر کیا ہے ورنہ اپنے طریقۂ کار کے مطابق میں شعروں کو اکہرے مفاہیم میں نہیں باندھتا۔ نقل کیے ہوئے شعر اپنے معنوی امکانات کی وجہ سے متعدد موضوعات پر منطبق ہوسکتے ہیں۔

آخراً جو کچھ کہتے آئے ہیں اس کے ماحصل کے لیے یہ دو جوہر دار شعر اور ملاحظہ کرلیجیے:

کمالِ گرمیِ سعیِ تلاشِ دید نہ پوچھ

برنگِ خار مرے آئینے سے جوہر کھینچ

عرض کیجیے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں

کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا

پہلا شعر:

 کمالِ گرمیِ سعیِ تلاشِ دید نہ پوچھ

برنگِ خار مرے آئینے سے جوہر کھینچ

آئینہ اپنے جوہر کے ذریعے اشیا کو منعکس کرتا ہے۔ یعنی آئینے سے یہ جوہر نکل جانے سے اشیا کا انعکاس نہیں ہوسکتا۔

اشیا کا بہت زیادہ انعکاس آئینے کو حیرانی یعنی اذیت میں مبتلا کردیتا ہے۔ جس طرح (جسم سے) کانٹا نکل جانے کے بعد تکلیف ختم ہوجاتی ہے اسی طرح آئینے سے اس کا جوہر نکل جانے سے مشاہدے کی اذیت ختم ہوجاتی ہے۔

غالب نے اس شعر میں ایک ایسے شخص (سمجھ لیجےے کہ خود غالب) کی صورتحال کو پیش کیا ہے جو زیادہ سے زیادہ اشیا کا مشاہدہ کرنا چاہتا ہے اور چونکہ یہ مشاہدہ اس کے لیے تکلیف دہ بھی ہے اس لیے وہ چاہتا ہے کہ تکلیف ختم ہوجائے۔ بتادیں کہ غالب کے یہاں مشاہدے کی یہ اذیت ہرجگہ موجود ہے۔ کمالِ گرمیِ سعیِ تلاشِ دید دراصل مشاہدے کی وہ بے پناہی ہے جو انسان کو بالآخر پراگندہ

 (confuse)

 کرد یتی ہے اور پھر وہ اس پراگندگی سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے۔

کمالِ گرمیِ سعیِ تلاشِ دید کا اطلاق، بتایا جاچکا ہے، خود غالب پر ہوتا ہے۔ ان کا مشاہدہ بے پناہ بلکہ لازمانی ہے۔ ان کی آنکھ کئی زمانوں کی فصیلوں کے اُس طرف دیکھ لیتی ہے اور جو کچھ انہیں دکھائی دیتا ہے اس کی پراگندگی کا سبب یہ ہے کہ جو انہیں دکھائی دے رہا ہے وہ دوسروں کو کیوں نہیں دکھائی دیتا۔

دوسرا شعر:

عرض کیجیے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں

کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا

اس شعر کے مصرعہ اولیٰ میں لفظ ’کہاں‘ پر غور کیجیے:

وحشت کو بروئے کار لانے کی جگہ صحرا ہے اور صحرا میری وحشت کے تصور ہی سے جل گیا۔ تو اب (اس عالمِ امکان میں) کون سی جگہ ہے جہاں میں اپنی وحشت کو لے جاکر سماؤں یعنی جس کی گرمیِ فکر کا یہ عالم ہو کہ وہ عملِ تصور ہی میں صحرا (کائنات) کو جلادے اسے موجودات میں ہر شے ناقص اور نامکمل نظر آئے گی اور یہ ظرفِ کائنات ایسی فکر کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

اور یہ ظرفِ کائنات جس فکر کا متحمل نہیں ہوسکتا وہ دراصل غالب کی فکر ہے۔  ان کے دائرۂ  دانش میں ناموجود مکانوں اور غیر مرئی زمانوں کی ایسی ایسی نیرنگیاں اور بوالعجبیاں ہیں کہ ان کی معنی کشائی کے لیے غالب کی سی ہی دیدہ وری کی ضرورت ہے۔

اپنی گفتگو کے قطعی اور آخری مرحلے تک آتے آتے ہم نے معانی سے بھرے ہوئے غالب کے ذہن کی وسعت، ان کے شعروں میں خلق ہوتی ہوئی دور کے زمانوں کی دنیاوں، ان دنیاوں کے طلسم اور ان کی حیرت آوری کو بہ حدِّ بساط نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ ذیل میں یہ دیکھ لیجیے کہ آئندہ یعنی اکیسویں صدی اور اس سے آگے کے زمانوں میں کیا ہوگا اور ہم غالب کے آئینۂ کلام میں اس کی تمثالیں کس طرح دیکھ سکیں گے۔

          1۔ ازلی اور آفاقی معنویتیں ایک سی تھیں، ایک سی ہیں اور دنیا کے فنا ہونے تک ایک سی رہیں گی۔

          2۔ کائنات اور ماورائے کائنات کا استفہام و تجسس اسی طرح قائم رہے گا۔

          جبلتوں 3۔

(instincts)

سے آزادی حاصل کرنا انسان کے اختیار میں نہیں تاوقتیکہ ہمارے گوشت پوست والے جسم کو

Robotic

 نہ بنادیا جائے۔ سو اِن جبلتوں کا اظہار آئندہ زمانوں میں بھی اسی طرح ہوتا رہے گا۔

4۔ نئی روشنی انسانی ذہن کو منور کرتی رہے گی۔ نئے فلسفے اور نظریے وجود میں آتے رہیں گے اور پرانے فلسفوں اور نظریوں سے بھی رہنمائی حاصل کی جاتی رہے گی۔

5۔ کمپیوٹر نے اگر ہمارے دل اور دماغ کو اپنے اختیار میں نہیں لیا تو ہم اپنے بنیادی جذبوں، حسن، عشق اورغم سے محروم نہیں ہوں گے۔

6۔ دو سو برس بعد بفرضِ محال سارے نظاموں کو ضم کرکے ایک عالمی نظام قائم کردیا جائے تب بھی مابینِ حدود و نفوس پیکار و آویزش کا سلسلہ قائم رہے گا کہ یہ انسان کی جبلت میں شامل ہے۔

          7۔ جب تک جسم جسم کی صورت میں قائم رہے گا اور روح قفسِ عنصری سے پرواز نہیں کرے گی، جہانِ باطن کے اسرار ہمیں پریشان کرتے رہیں گے۔

اورجب تک آئندہ زمانوں میں یہ سب ہوتا رہے گا غالب ہمارے آگے آگے چلتے رہیں گے اور کہتے رہیں گے:

شمع ہوں لیکن بہ پا در رفتہ خارِ جستجو

مدعا گم کردہ ہر سو ہر طرف جلتا ہوں میں

۔۔۔۔۔۔۔۔

m

انیس اشفاق 

 غالب کی شاعری میں ہمہ زمانی معانی

بڑا شاعر زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتا ہے۔ اس کی نگاہ میں اپنا زمانہ ہی نہیں آنے والا زمانہ بھی ہوتا ہے، اسی لیے اس کے شعروں میں یک عہدی نہیں، ہمہ زمانی معنویت ہوتی ہے۔ میر اور غالب ایسے ہی شاعر ہیں اور غالب تو ایک ایسا نابغہ لے کر پیدا ہوئے تھے جس کی آنکھ وہاں تک جارہی تھی جہاں تک کسی اور کی آنکھ کا جانا آسان نہ تھا۔ غالب نے کہا تو یہ تھا:

ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا رب

ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا

لیکن ان کی شاعری میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے اس شعر کے مفہوم پر نظر کیجیے: ‘دشت’ یہاں وسعت کے باوجود تنگی کا مفہوم ادا کررہا ہے اور ‘تمنّا’ اسرارِ وجود کو حل کرنے یعنی خدا اور کائنات کو سمجھنے کی تمنّا ہے۔ اس تمنّا میں ہم محوِ سفر ہیں اور اس سفر میں یہ پورا دشتِ امکاں ہمارا صرف ایک نقشِ قدم ہے۔ اصلاً یہ شعر علم اور لاعلمی کا مرکب ہے یعنی ہمارا سارا علم اس کائنات تک محدود ہے اور ماورائے کائنات کے بارے میں ہم کچھ بھی نہیں جانتے۔ یہاں ماورائے کائنات کے بارے میں کچھ نہ جاننے کی بات کہہ کر غالب دراصل ہم کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ ان کی شاعری میں عدم یعنی ماورائے کائنات کا ذکر اتنی بار آیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ معدوم زمانوں اور مکانوں کا بھی گہرا علم رکھتے ہیں۔

نقل کیے ہوئے شعر میں ہم سے مراد دراصل ہم اور آپ ہیں، غالب نہیں۔ اپنے غیر معمولی وجدان و ادراک کی بنا پر غالب کی نگاہ اِس دشتِ امکاں کے دوسرے نقشِ پا کو بھی دیکھ رہی تھی اور ’غیب‘ سے جو مضامین ان پر نازل ہورہے تھے وہ اسی دوسرے نقشِ پا کے الگ الگ جادوں کو روشن کررہے تھے جنہیں دیکھ کر ہمارا مبتلائے حیرت ہوجانا یقینی ہے۔ غالب کے معاملے میں ہمیں دو طرح کی حیرتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک حیرت تو وہ ہے جو ان کے بند شعروں کے معنی نہ کھل پانے کی وجہ سے ہم پر طاری ہوتی ہے۔ معنی خواہی کی خواہش میں جب ہم ان کے شعر کے سب دروازوں پر دستک دے کر کسی جواب کے بغیر لوٹتے ہیں تو جھنجھلاہٹ میں یہ سوچنے لگتے ہیں کہ آخر یہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ اور جب ہمارے بار بار کے سر ٹکرانے کے بعد اُن دروازوں کی درزوں سے معنی کی کوئی کرن پھوٹتی ہے تو دیر تک ہم اس حیرت میں مبتلا رہتے ہیں کہ اِس نے کیا کہہ دیا۔ یہ معنی تو دور دور تک ہمارے ذہن میں نہیں تھے۔ لائقِ رشک نابغے کے ساتھ ساتھ خلاّقی بھی غالب کو ایسی ملی جو کسی اور کے حصے میں نہ آئی۔ مشکل سے مشکل موضوع کو ذہن میں لانا اور پھر اسے ایسے پیرائے میں بیان کرنا کہ جتنی بار شعر کو پڑھیے اس کی نئی پرتیں کھلتی چلی جائیں۔

یہ تو ہم شروع سے سنتے آرہے ہیں کہ غالب کا ذہن عام شاعروں کا سا ذہن نہیں تھا۔ ازحالی تا شمس الرحمن فاروقی ہمارے غالب شناسوں نے غالب کو مشکل بتانے میں بہت زیادہ وقت صرف کیا۔ یعنی ہمیں ان سے ملایا کم گیا ڈرایا زیادہ گیا۔ اور یہی خوف غالب اور ہمارے درمیان دوری کا سبب بننے لگا۔ غالب کے مشکل ہونے کا سبب دراصل ان کی نگاہ کی وہ تیزی اور نیرنگی ہے جو اشیا و مظاہر کے ایک رخ کو دیکھنے کے بجائے سب رخوں کو دیکھ لیتی ہے۔ یعنی ہماری اور آپ کی آنکھ سےچھپی رہنے والی اشیا کی ماہیتیں اور معنویتیں غالب کے حلقۂ

 نگاہ میں خورشیدِ جہاںتاب کی مانند روشن رہتی ہیں۔ یہ جو انہوں نے اپنے بارے میں کہا ہے:

گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھئے

جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے

اس شعر میں ہر لفظ کے گنجینۂ معنی کے طلسم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ شعرِ غالب کے خزینے میں داخل ہوں گے تو ہر لفظ آپ کو اس طلسم کی طرف لے جائے گا جہاں کائنات اور ماورائے کائنات کی مختلف صورتیں اپنے مختلف رنگوں میں نظر آئیں گی۔ اپنی فارسی شاعری میں غالب نے اپنے ذہن کی پیچیدگی، اپنی فکر کی بلندی، اپنے معانی کی نیرنگی اور اپنے حلقۂ نگاہ کی وسعت کا بار بار ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ میں ایک پیچیدہ، حیرت آور اور طلسم آسا ذہن لے کر پیدا ہوا ہوں، اسی لیے میں ان زمانوں پر بھی حاوی ہوں جو ظاہری زمانوں سے پرے ہیں اور وہ معانی بھی میری گرفت میں ہیں جن تک کسی نگاہ کا پہنچنا محال ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:

ما ہمائے گرم پروازیم فیض از ما مجوئے

سایہ ہمچو دود بالا می رود از بالِ ما

اس شعر میں گرم پروازِ ہما سے ذہن ایک عالی فکر اور عالی دماغ ہستی کی طرف منتقل ہوتا ہے اور پرواز کی گرمی فکر کی وہ بلندی ہے جس تک عام آدمی کی رسائی آسانی سے نہیں ہوتی۔ اس مفہوم کا اطلاق خود غالب پر ہوتا ہے کہ میرے افکار اتنے بلند اور اتنے پیچیدہ ہیں کہ ان سے (عام آدمی کے) مستفیض ہونے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔

دوسرا شعر:

پایۂ من جزبہ چشمِ من نیاید در نظر

از بلندی اخترم روشن نیاید در نظر

میرا مرتبہ میرے سوا کسی اور کی نظر میں نہیں آسکتا۔ اس لیے کہ میرا ستارہ اتنی بلندی پر ہے کہ وہ میرے سوا کسی کو صاف نظر نہیں آتا۔

تیسرا شعر:

دیدہ ور آں کہ تا نہد دل بہ شمارِ دلبری

دردلِ سنگ بنگرد رقصِ بتانِ آذری

دیدہ ور وہ ہے کہ اگر دلبری (کے مظاہر) کا شمار کرنے کی ٹھان لیتا ہے تو اس کو پتھر کے دل کے اندر آذری بتوں کا رقص نظر آنے لگتا ہے۔

آخری شعر:

در دام بہرِ دانہ نیفتم مگر قفس

چنداں کنی بلند کہ تا آشیاں رسد

شعر کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ میں دانے کے لیے دام میں نہیں آؤں گا بلکہ قفس کو اتنا اونچا کرو کہ وہ میرے آشیاں تک پہنچ جائے۔ باطنی مفہوم یہ ہے کہ اگر مجھ کو سمجھنا چاہتے ہو تو وہ دانش اور ذکاوت پیدا کرو جس کا مطالبہ میرے شعروں کے معنی کرتے ہیں۔

فارسی کے یہ شعر اور ان کے مفاہیم اس لیے نقل کیے گئے ہیں کہ جو کچھ غالب کے نابغے، ان کے ذہنِ رسا اور ان کی ذکاوت کے بارے میں اوپر کہا گیا ہے اس کی توثیق ہوسکے۔

غالب کے غیر معمولی ذہن، بلا کی قوتِ پرواز، ان کی ہمہ دانی، ان کے معانی کی پیچیدگی اور تہہ داری کی بنا پر نکتہ شناسانِ شعر کو شعرِ غالب کی شرحیں لکھنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ شارحین کی ان شرحوں سے غالب کا اشکال کم ہوا اور ان کے شعروں کا ظاہری مفہوم بھی بڑی حد تک ہم پر ظاہر ہوگیا لیکن کلامِ غالب کے لامحدود معنوی امکانات تک رسائی کا راستہ پھر بھی پوری طرح نہ کھل سکا۔ اس کے لیے نیرمسعود، پروفیسر گیان چند جین، شمس الرحمن فاروقی اور پروفیسر گوپی چند نارنگ وغیرہ کو آگے آنا پڑا اور نئے زمانوں کی معنویتوں کے اعتبار سے غالب کو سمجھانا پڑا۔

درج بالا معروضات میں ہمارا اصل نکتہ یہ ہے کہ مفاہیم کی نیرنگی اور معانی کی کثرت کی بنا پر غالب کی شاعری کسی ایک زمانے کی اسیر نہیں ہے۔ وہ جی تورہے تھے انیسویں صدی میں لیکن ان کی نگاہ آئندہ کے زمانوں کو بھی دیکھ رہی تھی اسی لیے ہمیں ان کے یہاں آئندہ زمانوں کے معنی بھی دکھائی دیتے ہیں۔

اس سے پہلے کہ ہم مثالوں کے ذریعے اکیسویں صدی میں غالب کی معنویت کا محاکمہ کریں یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ وقت اور نوعیت کے اعتبار سے موضوعات ومسائل کی شکلیں کیا ہیں۔ بظاہر ان کی چار شکلیں ہمارے سامنے ہیں:

          1۔ ازلی اور آفاقی موضوعات و مسائل : یہ حدود اور نفوس کے امتیاز کے بغیر ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔

          2۔ یک عہدی یا عصری موضوعات : یہ ایک ہی زمانے اور بیشتر ایک ہی جگہ سے مخصوص ہوتے ہےں۔

          3۔ ہمہ زمانی موضوعات : یہ ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیں اور حدود و نفوس کے امتیاز کے بغیر ان کا تجربہ ہر زمین پر ہر شخص کو کم و بیش ایک ہی طرح سے ہوتا ہے۔

          4۔ انفرادی موضوعات : ان کا تعلق ایک مخصوص فرد، ایک مخصوص قوم اور ایک مخصوص علاقے سے ہوتا ہے۔ لیکن یہ انفرادی موضوعات بعض حالتوں میں انفرادی نہ رہ کر اجتماعی ہوجاتے ہیں۔

موضوعات (مسائل) کی یہ شکلیں بتانے کے بعد ہم آپ کو یہ بھی بتادیں کہ ایک تخلیق کار اپنی تخلیق میں انہیں موضوعات سے معنی کشید کرتا ہے۔ یعنی تخلیق سے باہر جو چیز موضوع کی شکل میں نظر آتی ہے تخلیق کے اندر وہی شے معنویت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔

ان معنویتوں/ موضوعوں کی شکلیں بتانے کے بعد یہیں پر ہم آپ کو یہ بھی بتادیں کہ غالب کی شاعری میں ہماری تقسیم والی چاروں معنویتیں موجود ہیں۔ غالب کے ساتھ اکیسویں صدی میں قدم رکھنے سے قبل اب ذرا یہ بھی دیکھ لیجیے کہ جن مختلف معنویتوں کی شکلیں ہم نے آپ کے سامنے پیش کی ہیں وہ اصلاً ہیں کیا۔ سب سے پہلے دائمی یا آفاقی یا ازلی معنویتوں یا مسئلوں کو دیکھےے۔ یہ معنویتیں اس طرح ہیں:

ذات اور کائنات کا طلسم، وجود کے تئیں ہمارا استفہام، دنیا میں ہمارے خلق ہونے کی غرض و غایت، موت کی ناگزیری، دنیا کی بے ثباتی، زندگی کا جبر، زیاں کا احساس، خوفِ مرگ، رنجِ رائیگاں، عدمِ تحفظ، تنہائی، مایوسی، بے یقینی، ذات کا انتشار، باطن کی پیکار، ہونے کا آزار، نہ ہونے کا وہم وغیرہ۔ یہ دائمی اور آفاقی مسائل ہیں اور یہ آج سے دو سو برس بعد یعنی تئیسویں صدی میں بھی اسی طرح موجود رہیں گے۔ یہ ضرور ہے کہ ان میں سے بعض کی حالتوں اور کیفیتوں میں بہ اعتبارِ وقت تبدیلی واقع ہوتی رہے گی۔ مثلاً مایوسی، بے یقینی، عدمِ تحفظ، عدم حوصلگی اور زیاں کا جو احساس ہمیں 1857 کے غدر یا پہلی جنگ عظیم میں ہوا تھا، اس سے کہیں زیادہ دوسری عالمگیر جنگ میں ہوا۔ جب تقسیم اور اس کے بعد فسادات کے المناک واقعات رونما ہوئے تو اس احساس میں پھر تیزی آئی اور بیسویں صدی کے آخری اور اکیسویں صدی کے پہلے دہے میں ایک عبادت گاہ کی مسماری اور بہ رضائے ریاست ایک صوبے میں ایک مخصوص جمیعت کی صف کُشی کے دل دہلادینے والے مناظر سامنے آئے تو ہم ایک نئے طرح کے آزار و اضطراب میں مبتلا ہوئے اور عدمِ تحفظ کے احساس نے ہمیں لرزہ براندام کردیا۔ اور آج اکیسویں صدی کے دوسرے دہے کا منظرنامہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ ایک مخصوص طبقہ پھر نشانے پر ہے۔ اس طبقے کو جس نوع کے انفرادی اور اجتماعی تشدد کا شکار ہونا پڑرہا ہے اور جس طرح ایک خاص خطے کے حدود کو بندی خانوں میں بدل کر محصور لوگوں کی زبانوں کو بند کردیا گیا ہے اس نے ہمیں ہونے اور نہ ہونے کے وہم میں مبتلا کردیا ہے۔

درج بالا بیان کے ذریعے ہم جس نکتے کو زیادہ نمایاں کرنا چاہ رہے ہیں وہ یہ کہ دائمی اور آفاقی مسئلوں یا معنویتوں کی حالتیں یا کیفیتیں تو بدل سکتی ہیں لیکن ان کی اصل میں کوئی تغیر نہیں ہوتا۔ مثلاً مایوسی، بے یقینی، تنہائی اور غم کی حالت ہر شخص پر طاری ہوتی ہے اور ہر زمانے میں طاری ہوتی ہے۔ مخصوص حالتوں میں کسی کو اس کا زیادہ احساس ہوتا ہے کسی کو کم۔ جب غالب یہ کہتے ہیں:

کیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواہ اہلِ بزم

ہو غم ہی جاں گداز تو غمخوار کیا کریں

تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کا غم بہ اعتبارِ حالت کم ہوتا ہے اورکسی کا جان کو گھلا دینے والا۔ دائمی اور آفاقی حالتوں یا معنویتوں کا ذکر کرنے کے بعد اب آئیے فوری، یک عہدی یا وقتی موضوعوں یا معنویتوں کی طرف۔ یہ معنویتیں عارضی اور مخصوص حالتوں کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا زمانہ کبھی بہت مختصر ہوتا ہے اور کبھی ان کا سلسلہ دراز ہوجاتا ہے۔ مثلاً بیسویں صدی کے آخری دہے میں بنیادپرستی اور مذہب زدگی میں شدت پیدا ہوگئی تھی، اقلیتوں کی وفاداری پر سوالیہ نشان قائم کئے جانے لگے تھے۔ قومی وقار و افتخار کی نئی تعریفیں وضع کی جانے لگی تھیں۔ نیز مذہب شناسی کے نام پر منافرت کو ہوا دی جارہی تھی۔ ذات پرست اور مذہب اساس سیاست کا کھیل کھیلا جانے لگا تھا۔ اکیسویں صدی کے دوسرے دہے میں اقتدار میں آنے کے لیے انہیں موضوعوں/ مسئلوں کو اور ہوا دی گئی اور اس ہوا کے تیز تھپیڑوں کو ہم آج بھی محسوس کررہے ہیں۔ لیکن یہاں ہم آپ کو ایک باریک فرق بھی بتاتے چلیں کہ فوری اور وقتی معنویتیں بعض صورتوں میں ہمہ زمانی بھی ہوجاتی ہیں مثلاً بیسویں صدی کے آخری دہے میں پیدا ہونے والے مسائل پر اگر کسی نے کوئی شعر کہا ہے اور اُس شعر میں زمانے کے تعین کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے تو چونکہ یہ حالتیں اکیسویں صدی کے دوسرے دہے میں بھی موجود ہیں اس لیے اس زمانے میں کہے جانے والے شعر کا اطلاق 2021 کے بعد کے زمانے پر بھی کیا جاسکتا ہے اور اس طرح وہ شعر وقتی نہ رہ کر ہمہ زمانی ہوجائے گا۔ مشہور ترقی پسند شاعر سردار جعفری کے دو شعروں سے یہ بات زیادہ واضح ہوجائے گی۔

شعر یہ ہیں:

کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سوا

راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا

تیغ منصف ہو جہاں دار و رسن ہوں شاہد

بے گنہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا

یہ شعر غالباً 1950 سے پہلے کسی مخصوص اور ہنگامی حالت کے نتیجے میں کہے گئے تھے۔ لیکن جب ایمرجنسی کے زمانے میں دہلی کے ایک بڑے مشاعرے میں سردار جعفری نے ان شعروں کو بقول شخصے حال ہی میں کہے ہوئے شعروں کے طور پر پڑھا تو مشاعرے کی چھتیں اڑ گئیں۔ اس کے برعکس غالب کا مشہور قطعہ : ’بس کہ فعّالِ ما یرید ہے آج….، اس میں انگلستاں اور دہلی کے لفظوں کے آجانے کی وجہ سے یہ قطعہ جگہ اور زمانے سے مخصوص ہوگیا ہے اور یہ اکہری اور وقتی معنویت سے آگے نہیں بڑھ سکا۔

موضوعوں اور معنویتوں کی اس تقسیم و تخصیص کے بعد اب آئیے دیکھیں کہ غالب کے شعروں میں یہ موضوع یا معنویتیں کس طرح نظر آتی ہیں۔ سب سے پہلے آفاقی معنویتوں کی طرف آتے ہیں اور ان میں بھی پہلے فنا، زوال اور دنیا کی بے ثباتی کا موضوع لیتے ہیں اور اس کے لیے اس شعر کے مفہوم کو غور سے ملاحظہ کیجیے:

کیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواہ اہلِ بزم

ہو غم ہی جاں گداز تو غمخوار کیا کریں

بظاہر شعر کا مفہوم یہ ہے کہ اہلِ بزم شمع کے خیرخواہ تو ہیں لیکن شمع کا غم ہی ایسا ہے جو لاعلاج ہے اس لیے اہلِ محفل بہی خواہی کے جذبے کے باوجود شمع کا غم دور نہیں کرسکتے۔

یعنی شمع کا کام اور اس کا انجام ہی یہ ہے کہ وہ پگھلتے پگھلتے ختم ہوجائے۔ ایسی صورت میں اس سے ہمدردی تو کی جاسکتی ہے لیکن اس کے لوازمِ ذاتی کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ شمع کا وجود عبارت ہے جلنے سے اور جل کر ختم ہوجانے سے۔ اس لیے ایسی شے کی غمخواری جس کا غم جاں گداز ہو حقیقتاً ممکن نہیں۔ شمع کی جاں گدازی کو ختم کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ شمع کو بجھادیا جائے لیکن اس طرح شمع کی موت ہوجائے گی اس لیے کہ شمع کی زندگی اپنی شمعیّت (روشن رہنے) کی وجہ سے ہے۔ اسے گل کردینے سے یہ شمعیّت ختم ہوجائے گی یعنی شمع کی موت واقع ہوجائے گی۔ اس طرح دونوںصورتوں میں شمع کی موت یقینی ہے۔ پہلی صورت میں جلتے جلتے ختم ہونا اس کا فنا ہونا ہے اور دوسری صورت میں اِس فنا کے سلسلے کو روک دینا دراصل اسے (شمع کو) مار ڈالنا ہے۔

غالب نے اپنے ایک شعر میں، جسے اوپر نقل کیا جاچکا ہے، اپنے ہر لفظ کو گنجینۂ معنی کا طلسم کہا تھا سو اس شعر میں بھی ہر لفظ معنی سے معمور ہے۔ اس کی مثال لفظ غمخواری ہے جس نے شعر کے مفہوم کو متحرک کردیا ہے۔

غمخواری کا مطلب ہے کسی کے غم میں شرکت کرنا یعنی اسے اپنا لینا۔ اس طرح اہلِ بزم کا شمع کی غمخواری کرنا خود بھی جاں گدازی کے مرحلے سے گزرنا ہے۔ چونکہ شمع کی جاں گدازی اس کے روشن ہونے کی بنا پر ہے اور شمع کا روشن ہونا بزم کے وجود یعنی اہلِ بزم کا موجب ہے۔ اگر شمع کے غم کی جاں گدازی ختم کردی جائے تو بزم باقی نہیں رہے گی اور اگر شمع کی غمخواری کی جائے تو اہلِ بزم خود اس کا شکار ہوجائیں گے اور اس طرح بھی بزم کا باقی رہنا مشکل ہے۔ یعنی جس المیہ نظام سے شمع دوچار ہے اسی نظام میں اہلِ بزم بھی مبتلا ہیں۔ اس لیے نہ صرف شمع بلکہ اہلِ بزم اور بزم کے تمام لوازم فنا کا شکار ہیں۔ اس طرح غالب کا یہ شعر اس پورے نظامِ کائنات کو ظاہر کرتا ہے جہاں ہر شے فنا میں مبتلا ہے۔

فنا اور بے ثباتی کا یہ المیہ نظام تئیسویں صدی بلکہ تیسرے ہزارے کے بعد بھی قائم رہے گا اور غالب اس وقت بھی بامعنی رہیں گے۔ غالب کو بامعنی بتانے میں میں بہت دور تک چلا گیا۔ چھوڑیے اتنے آگے کے زمانے کو۔ اس شعر میں جاں گدازی اور غمخواری کے الفاظ کو بالکل تازہ مفہوم تک لاتے ہیں۔ غالب کے اس شعر کی شمع وقت اورزمانہ بدل کر کوئی پینتالیس دن سے جاں سوزی اور جاں گدازی کے عالم میں ہے۔ اس شمع کی طرف آپ کا ذہن منتقل ہوا؟ اگر نہیں تو ہم بتاتے ہیں۔ یہ شمع ہری بھری وادیوں کے فانوس میں روشن ہے اور اس کی لَو کی نیلاہٹ روز بہ روز کم ہورہی ہے۔ ہم سب اس شمع کے غمخوار ہیں۔ اس شمع کی جاں سوزی ایک شب کی نہیں بلکہ ہزاروں شبوں کی ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہم اس کے غم میں شریک ہوتے ہیں تو موجودہ صورتحال ایسی ہے کہ ہمیں بھی جاں گدازی کے مرحلے سے گزرنا پڑے گا بلکہ ہماری جاں گدازی شمع کی جاں گدازی سے زیادہ بڑھ جائے گی۔ دوسری طرف وہ لوگ جو شمع کی جاں گدازی کو ختم یعنی اس کے دکھ کو دور کرنے کے بہانے اسے بجھادینے کے درپے ہیں، وہ شمع کو اس کی شمعیّت یعنی اس کی شناخت سے محروم کردینا چاہتے ہیں۔ یہ کھلے ہوئے اشارے آپ نے یقینا سمجھ لیے ہوں گے۔ تو دیکھیے انیسویں صدی میں کہا ہوا شعر اکیسویں صدی کے دوسرے دہے کی تازہ ترین صورتحال پر کس طرح منطبق ہوتا ہے۔

وجود و عدم کے مسائل فارسی میں بیدل اور اردو میں غالب کے یہاں سب سے زیادہ بیان کئے گئے ہیں۔ وجود کی بوالعجبیوں اور نیرنگیوں کی تفسیریں ہر عہد میں کی جاتی رہی ہیں۔ چنانچہ بیسویں صدی کے ربعِ ثالث میں فرانسیسی مفکر ژاں پال سارتر نے اپنی دانست میں وجود کی نئی تفسیر اس مشہور فقرے کے ذریعے کی: ”آزادی ہی انسان کی قید ہے۔“ ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ سارتر کے اس وجودی فقرے کے معنی کیا ہیں۔ ابھی ہم اس فقرے پر غور کرہی رہے تھے کہ ہماری نگاہ غالب کے اس شعر پر ٹھہری:

کشاکش ہائے ہستی سے کرے کیا سعیِ آزادی

ہوئی زنجیر موجِ آب کو فرصت روانی کی

یہ شعر پڑھ کر ہمیں معاً یہ محسوس ہوا جیسے ہم نے سارتر کے اس کلیدی فقرے کے مفہوم کو سمجھ لیا ہو۔ اب شعر کا مفہوم ملاحظہ کیجیے:

یہ دنیا سمندر ہے۔ ہم اس میں ایک موج کی مانند ہیں۔ جس طرح موج کو سمندر میں ہمیشہ بہتے رہنا ہے یعنی کشاکش سے گزرتے رہنا ہے اور جس طرح اب کنارہ اس کے مقدر میں نہیں ہے اسی طرح ہمیں بھی دنیا کی کشاکش سے آزادی نہیں مل سکتی ہے درحالیکہ ہم آزاد ہیں۔ جس طرح روانی کی فرصت موج کے لیے زنجیر بن گئی ہے اسی طرح اس دنیا میں آزادی ہمارے لیے زنجیر بن گئی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ اپنے زمانے میں کہے ہوئے شعر کے ذریعے غالب نے بیسویں صدی کے سب سے نمایاں فلسفی کے وجودی فقرے کو کتنی آسانی سے سمجھا دیا۔ اب اگر ہم فرانسیسیوں سے کہیں کہ وجود کی اس نوع کی تفسیر میں زمانی فضیلت غالب کو حاصل ہے تو کیا انہیں آسانی سے یقین آئے گا۔

انسانی ذہن میں جس دن سے ذکاوت پیدا ہوئی ہے، اسی دن سے کائنات کے اسباب و علل کو سمجھنے کی کوشش شروع ہوگئی ہے۔ غالب کے یہاں ان اسباب و علل کو سمجھنے کی سعی جگہ جگہ موجود ہے۔ یہ شعر ملاحظہ کیجیے:

شوق اُس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو کہ جہاں

جادہ غیر از نگہہِ دیدۂ تصویر نہیں

اس شعر میں غالب نے جادہ کو غیر از نگہہِ دیدہ تصویر کہہ کر مفہوم کو بالکل منفرد کردیا ہے۔ تصویر اگر سامنے دیکھتی ہے تو اس کی نگاہ جدھر سے بھی دیکھیے اپنی طرف معلوم ہوتی ہے۔ اگر یہ تصویر کسی اور رخ کو دیکھ رہی ہے تو اس رخ کی طرف کھسکتے جائیے، نگاہ بھی کھسکتی جائے گی۔ تصویر کی نگاہ کسی نہ کسی طرف جاتی ہوئی معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقتاً کسی بھی طرف نہیں جاتی۔ یہی حال دشت کا ہے جہاں راستہ مسدود نہ ہونے کی وجہ سے جس طرف دیکھیے راہ کھلی ہوئی نظر آتی ہے یعنی ہر طرف جادہ نظر آتا ہے مگر جادہ کہیں نہیں ہے۔

یعنی میں اس دشت میں دوڑ رہا ہوں جہاں راستے کا تعین بھی نہیں ہے اور جہاں مجھ سے پہلے کسی اور شخص کا گزر نہیں ہوا ہے، اگر مجھ سے پہلے کوئی شخص گزرا ہوتا تو یہاں جادہ ضرور بن جاتا اس لیے کہ جادہ انسان کے قدموں ہی سے بنتا ہے۔

اب اس جادے سے خالی دشت میں دوڑنے کے دو مفہوم ہیں۔ ایک یہ کہ میں شوق کے ہاتھوں سعیِ رائیگاں میں مبتلا ہوں اور دوسرے یہ کہ اس شوق نے مجھے سرگرمِ عمل کردیا کہ جہاں جادہ نہیں ہے اس دشت کو بھی چھانتا پھر رہا ہوں۔

یہ شعر ہمارے اس ذہنی اور مابعد الطبیعییاتی تجربے کو ظاہر کرتا ہے کہ ہم اس پوری کائنات کے اسباب و علل کو سمجھنے کے شوق میں مبتلا ہیں لیکن جس کا نتیجہ فقط حیرانی ہے۔ یہ مابعدالطبیعییاتی تجسس (Metaphysical curiosity) آپ کو افلاطون سے لے کر اسٹیفن ہاکنگ تک ہر جگہ نظر آئے گا۔ غالب کے ایسے شعروں کا سفر کیجیے تو ذہنی اور مابعدالطبیعییاتی مسائل سے ان کی پیکار و آویزش آئندہ زمانوں کو حیران کردینے والی ہے۔

اب چلتے ہیں ایک اور دلچسپ نکتے کی طرف۔ یہ بات کہ ”انسانی وجود اور کائنات کی پیچیدہ حقیقت کا احاطہ کرنے میں عقل ناکام ہے۔“ دنیا کے مشہور فلسفیوں پاسکل، کرکے گار، نطشے، یاسپرس، ہزرل، ہائیڈیگر اور سارتر وغیرہ میں مشترک ہے۔ لیکن اسی بات کو غالب ان فلسفیوں سے بہت پہلے اپنے بیسیوں شعروں میں بیان کرچکے ہیں۔

حیرت اور استفہام میں ڈوبے ہوئے یہ شعر تو آپ کی زبان پر فوراً آجاتے ہیں:

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

یہ اور ایسے بہت سے شعر بتاتے ہیں کہ غالب کا نابغہ زمان و مکان کے حدود و قیود سے آزاد ہے۔

 آفاقی معنویتوں میں وجودیت کا ذکر ابھی کیا جاچکا ہے۔ اب آئیے ایسی ہی کچھ اور معنویتوں کی طرف۔ یہ ہیں: اجنبیت، معدومیت اور مہملیت۔

معدومیت کی اصطلاح روس میں انیسویں صدی کے دوسرے ربع میں ایواں ترگینیو کے ناول

Fathers And Sons(1860)

کے وسیلے سے سامنے آئی۔ اس ناول کا مرکزی کردار بازاروف خود کو معدومیت پسند کہتا تھا۔ یہ ذہنی معدومیت تھی اور اس زمانے کی مخصوص حالتوں کے نتیجے میں سامنے آئی تھی۔ یہی معدومیت غالب کے یہاں بھی ہے لیکن غالب کے یہاں یہ معدومیت ذہنی بھی ہے اور روحانی بھی۔ اس معدومیت کے ضمن میں ہوسکتا ہے غالب کا یہ مشہور شعر مجھ سے پہلے آپ کے ذہن میں آگیا ہو:

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی

خود ہماری خبر نہیں آتی

سہلِ ممتنع کے سے انداز میں کہے جانے والے اس شعر کا ظاہری مفہوم تو آپ نے سمجھ ہی لیا ہوگا لیکن باطنی مفہوم میں سوال یہ ہے کہ ہم کہاں ہیں جہاں سے ہم کو ہماری خبر نہیں مل رہی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ہم عدم میں ہیں یعنی ہم نہیں ہیں۔ تو جو نہیں ہے اسے ’ہے‘ والی شے کی خبر کیونکر مل سکتی ہے۔ یعنی معدوم کو موجود کی خبر ملنا محال ہے اور موجود بھی وہ جو قیاسی، موہوم اور اعتباری ہے۔ اس کے لیے خود غالب کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے:

ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد

عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے

یا میر کا یہ شعر:

یہ توہم کا کارخانہ ہے

یاں وہی ہے جو اعتبار کیا

سارتر نے

 (Being and Nothingness)

 کے مسائل پر عالمانہ انداز میں بہت بعد میں غور کرنا شروع کیا لیکن غالب ”ہونے اور نہ ہونے“ کے معاملات کو بہت پہلے اپنے شعروں میں بیان کرچکے تھے۔

‘بیگانہ’ کے سے شہرۂ آفاق ناول کے خالق البیئر کامیو نے لغویت اور مہملیت

(Absurdity and Nihilism)

کے بارے میں بتایا ہے کہ اس کا احساس درج ذیل چار صورتوں میں ہوتا ہے:

          1۔ اس بات پر غور کرنا کہ ہمارے وجود کی غرض و غایت کیا ہے۔

          2۔ اس بات کا خاطر نشین ہوجانا کہ وقت ایک تخریبی قوت ہے۔

          3۔ اس بیگانہ دنیا میں لاکر چھوڑ دیے جانے کا احساس۔

          4۔ دوسروں سے بے تعلقی کا احساس۔

ان چاروں صورتوں کو غالب نے اپنے کلام میں بہ ہزار صورت بیان کیا ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:

جب کہ تجھ بِن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

ہرزہ ہے نغمۂ زیر و بم ہستی و عدم

لغو ہے آئینۂ فرقِ جنون و تمکیں

بیگانگیِ خلق سے بے دل نہ ہو غالب

کوئی نہیں تیرا تو مری جان خدا ہے

ان شعروں کے مفاہیم بیان کرنے میں بڑا وقت لگ جائے گا۔ شعروں کو سن کر آپ نے سمجھ لیا ہوگا کہ کامیو کی بتائی ہوئی چاروں صورتیں یہاں موجود ہیں اور بہت سے معنوی ارتعاشات کے ساتھ موجود ہیں۔

لغویت اور مہملیت کی وضاحت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان کے شدید احساس کی بنا پر انسان شدید ذہنی تنہائی

(Loneliness)

میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس تنہائی کا احساس غالب کے یہاں دیکھیے

وحشتِ آتشِ دل سے شبِ تنہائی میں

صورتِ دود رہا سایہ گریزاں مجھ سے

بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق

بیکسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں

اور ”کوئی نہ ہو“ ردیف والے وہ تین شعر تو ہم سب کی زبانوں پر ہیں جن میں غالب نے دنیا سے اپنی بے تعلقی، بے دلی اور بیزاری کا ذکر کیا ہے۔

اوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے اسے سننے کے بعد اب آپ خود فیصلہ کیجیے کہ ان دقیق، پیچیدہ اور مشکل موضوعات کے بیان میں زمانی سبقت کسے حاصل ہے۔ لیکن اسے کیا کیا جائے کہ اردو کے بعض مغرب زدہ نقاد اپنے علمی دبدبے کو ظاہر کرنے کے لیے مغربی فلسفیوں اور نقادوں کا ذکر کےے بغیر لقمہ نہیں توڑتے۔ مقامِ افسوس ہے کہ ہم اپنے خزانوں کو کھنگالنے کے بجائے دوسروں کے دفینوں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔

ہماری اب تک کی گفتگو غالب کے یہاں موجود آفاقی اور ہمہ زمانی موضوعات سے متعلق تھی۔ اب آئےے یک عہدی یعنی عصری اور انفرادی معنویتوںکی طرف لیکن اس سے پہلے کہ ہم ان معنویتوں کو ظاہر کریں، آپ کو بتادیں کہ غالب کے شعروں میں چونکہ زمانی اور مقامی تعین ہے ہی نہیں اس لیے اگر ان کے یہاں کوئی عصری یا مقامی موضوع ہوتا بھی ہے تو معنویت اس کی ہمہ زمانی ہوجاتی ہے۔ اب اسی شعر کو دیکھیے:

گلشن میں بندوبست برنگِ دگر ہے آج

قمری کا طوق حلقۂ بیرونِ در ہے آج

قیاس کہتا ہے کہ غالب نے یہ شعر مغلیہ سلطنت کے زوال پر کہا ہوگا لیکن اکیسویں صدی کے دوسرے دہے میں یہ شعر پڑھیے تو ایسا لگتا ہے کہ غالب نے حال ہی کے ایک واقعے (5 اگست 2020) کو نگاہ میں رکھ کر یہ شعر کہا ہے۔ خیر پہلے شعر کے مرکزی مفہوم پر نظر کیجیے۔ اس مرکزی مفہوم تک حلقۂ بیرونِ در کی تشریح کے بغیر نہیں پہنچا جاسکتا۔ قمری کا طوق حلقۂ بیرونِ در کا استعارہ ہے۔ حلقۂ بیرون در دروازے کے باہر کی زنجیر کا حلقہ ہے جسے کھٹکھٹاکر آمد کی اطلاع دی جاتی ہے اور داخلے کی اجازت طلب کی جاتی ہے۔

حلقۂ  بیرونِ در مکان سے بظاہر غیر متعلق ہونے کے باوجود متعلق ہوتا ہے۔ یعنی مکان میں داخل ہونے کے لیے پہلا وسیلہ ہی حلقہ  بیرونِ در ہے۔ یہ حلقہ قمری اور باغ کے درمیان قدرِ مشترک ہے۔ قمری کے گلے کا حلقہ باغ کے اندر ہوتا ہے یعنی وہ باغ کا لازمہ ہے اور وہ حلقہ جو دستک دینے کے کام آتا ہے، باغ کے باہر ہوتا ہے۔ لیکن نئے بندوبست میں یہ دونوں حلقے ایک ہوگئے ہیں۔ یعنی پہلے قمری باغ کے اندر تھی اور اب (نئے بندوبست میں) باغ کے باہر ہے۔

یہاں قمری کے طوق کو باغ میں رہنے یا باغ پر متصرف ہونے کی علامت بنادیا گیا ہے۔

دوسری طرف قمری کا طوق یعنی حلقۂ بیرونِ در بیک وقت آزادی، محرومی اور زوال کا مفہوم بھی ادا کرتا ہے۔ آزادی یہ کہ قمری جو عشقِ گل میں گرفتار تھی اب باغ سے باہر گو آزاد ہے مگر اس کی محرومی اور زوال یہ ہے کہ وہ باغ کا معزز اور ممتاز پرندہ اور عاشقِ گل تھی لیکن باغ سے باہر ہونے کی وجہ سے ایک طرف وہ عشقِ گل سے محروم ہوگئی اور دوسری طرف وہ اپنے اعزاز و امتیاز سے۔

اب محرومی اور زوال کے مفہوم کو سامنے رکھیے تو یہ شعر اس خطے کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں کے رہنے والوں کو حال ہی میں ان کی روایتی سہولتوں سے محروم کردیا گیا ہے۔ اور اگر آزادی کے مفہوم کو ملحوظ رکھیے تو شعر کی علامتی جہت یہ ہوگی کہ دوسروں کے زیرِانتظام آجانے کے بعد اگرچہ وہاں کے باشندے صوبائی امور کی تمام الجھنوں سے آزاد ہوجائیں گے لیکن یہ آزادی غلامی سے بدتر اور غلامی ہی کی ایک شکل ہوگی۔

درج بالا سطور میں ہم نے بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے اوائل کے اِن مشترک مسائل کا ذکر کیا تھا:

 ‘بنیادپرستی اور مذہب زدگی، قومی وقار و افتخار کی نئی تعریفوں کا وضع کیا جانا، مذہب شناسی کے نام پر منافرت کو ہوا دیا جانا، وفاداریوں پر سوالیہ نشان کا قائم کیا جانا، تاریخ اور ثقافت کی نئی تعبیر کے لیے تعلیم کو ایک مخصوص نظریے کا ترجمان بنایا جانا نیز انفرادی اور اجتماعی تشدد وغیرہ۔’

پچھلے پچاس ساٹھ برس کی تاریخ کے ورق الٹیے تو حکومتوں کی تخصیص و تفریق کے بغیر ایک مخصوص طبقہ ان مسائل کا شکار ہوتا رہا ہے۔ اب غالب کے اس شعر میں اس مخصوص طبقے کی فریاد سنیے:

خزاں کیا فصلِ گل کہتے ہیں کس کو کوئی موسم ہو

وہی ہم ہیں قفس ہے اور ماتم بال و پر کا ہے

عام طور پر بال و پر کا ماتم فصلِ گل میں ہوتا ہے لیکن غالب نے خزاں کو شامل کرکے مفہوم میں ندرت پیدا کردی ہے۔ فصلِ گل میں اڑنے کی خواہش زیادہ ہوتی ہے اسی لیے بال و پر کے نہ ہونے کا ماتم اسی فصل میں کیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں تو اسیری بلکہ دائمی اسیری ہے اس لیے ہم خزاں میں بھی وہی ماتم کررہے ہیں۔ یعنی زمانے کے سرد و گرم ہمارے لیے ایک سے ہیں۔

علامتی مفہوم یہ ہے کہ نظامِ حکومت کوئی بھی ہو محرومی اور ستم آزاری ہمارا مقدر ہے۔ اور ’ہمارا‘ سے مراد ایک مخصوص طبقہ ہے۔

یہاں تک آتے آتے منتخب مثالوں کے ذریعے ہم نے غالب کے یہاں قریب قریب ان تمام موضوعوں اور معنویتوں کا احاطہ کرلیا ہے جن کی ابتداً ہم نے درجہ بندی کی تھی۔

میں نے اپنے کسی مضمون میں لکھا ہے کہ جو منظم ادبی اور سماجی فلسفے ظہور میں آتے ہیں وہ غیر منظم شکل میں ہمارے بڑے فنکاروں کی تخلیقوں میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ تو غالب کے ساتھ ہم ایک ایسے ہی ادبی نظریے کی طرف چلتے ہیں جو بیسویں صدی کے اواخر میں باہر سے ہمارے یہاں لایا گیا اور ایک انوکھے ادبی نظریے کے طور پر اس کا خوب گُن گایا گیا۔

ژاک دریدا کا نام کوئی پینتیس چھتیس برس پہلے میں نے لکھنؤ کی برٹش کاؤنسل لائبریری میں بیٹھ کر اخبار ’گارجین‘ میں پڑھا تھا۔ اس وقت تک دریدا اردو میں پوری طرح نمودار نہیں ہوئے تھے۔ ’گارجین‘ نے دریدا کو پورا ایک صفحہ اس لیے دیا تھا کہ اس وقت کیمبرج یونیورسٹی کی انتظامیہ میں دریدا کی اعزازی رکنیت کے معاملے میں تنازعہ چھڑا ہوا تھا۔ دریدا پر ’گارجین‘ نے

Text Detective

 (مُفتّشِ متن) کے نام سے ایک مضمون شائع کیا تھا اور اسے اپنے عہد کا نابغہ قرار دیا تھا۔ اس وقت اس مضمون میں

Deconstruction

کا لفظ میری سمجھ میں نہ آیا اور سچ پوچھیے تو ابھی بھی میں اسے براہِ راست سمجھنے سے قاصر ہوں۔ بس اردو کے بعض بہت دانا اور زیرک نقادوں کے ذریعے جو کچھ میں نے سمجھا ہے وہ یہ کہ متن کو جتنی بار کھنگالیے، الٹیے، برہم کیجیے، جتنی بار اس کے وقفوں، درزوں اور جھروکوں میں جھانکیے ہر بار اس کے اندر نئے معنی بلکہ اصل معنی کے برعکس معنی نکلتے ہیں۔ کچھ دیر پہلے ہم نے سارتر کی وجودیت کی اصل کو غالب کے یہاں ڈھونڈ نکالا تھا۔ اب اس شعر میں دریدائی طریقۂ کار کو منکشف ہوتا ہوا دیکھیے۔ یہ بھی بتادیں کہ غالب کی تعبیروں میں اس طریقے کو سب سے پہلے طباطبائی نے رسمی طور پر اور نیرمسعود نے باقاعدہ اختیار کیا۔ شعر یہ ہے:

غم کھانے میں بودا دلِ ناکام بہت ہے

یہ رنج کہ کم ہے مئے گلفام بہت ہے

یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ متحرک معنویت غالب کے اشعار کی بنیادی خصوصیت ہے۔ اس شعر میں بھی غالب نے مفہوم کو متحرک کردیا ہے۔ دیکھیے کیسے۔

چونکہ دل غم کھانے میں بہت بودا ہے اس لیے شراب کی ضرورت ہے۔ لیکن جتنا غم ہے اس کے بقدر شراب نہیں ہے۔ مقابلتاً شراب کی اس کمی کے احساس کی وجہ سے رنج میں اور اضافہ ہورہا ہے اور رنج میں اس اضافے کے ساتھ شراب کی کمی اور زیادہ محسوس ہورہی ہے۔ اس طرح رنج برابر بڑھتا جارہا ہے اور شراب کی مقدار اس کے تناسب سے کم ہوتی جارہی ہے۔ اب متن کو برہم کیجیے تو متخالف

(Paradoxical)

 معنی بھی سامنے آئیں گے۔  یعنی یہاں حوصلہ بھی ہے اور عدمِ حوصلہ بھی۔ عدمِ حوصلہ یہ کہ غم کھانے میں دلِ ناکام بہت کمزور ہے اور حوصلہ یہ کہ مئے گلفام بہت کم ہے، اسے بقدرِ ظرف یعنی میرے غم کے مطابق ہونا چاہیے تھا۔

آپ نے دیکھا کہ متن کو برہم کرنے کے بعد شعر میں برعکس اور متخالف معنی موجود نظر آنے لگے اور یہ معنی اس لیے نظر آنے لگے کہ غالب نے تخالف اور تقلیب کی منطق ہی سے اس شعر کی تخلیق کی ہے۔

دریدا یہی تو کہتا ہے کہ متن جو دکھاتا ہے، بتاتا اس کے برعکس ہے۔ یہی بات غالب نے عملاً اپنے شعروں کے ذریعے بتادی۔ غالب کے یہاں دریدا کے نکتے کی وضاحت میں ہم نے بظاہر سامنے کا ایک سادہ شعر لیا ہے لیکن غالب کے مشکل اور پیچیدہ شعروں کی طرف جائیے تو متن کے اندر سے معنی کو منکشف کرنے کا دریدائی مطالبہ ہر طرح سے پورا ہوتا ہوا نظر آئے گا۔

اگر میں شعروں کی تشریح کے ذریعے اکیسویں صدی میں غالب کی معنویت کو روشن کرنا شروع کروں گا تو یہ مقالہ پھیلتا چلا جائے گا سو اس حرف دراز خامے کو گرفت میں رکھتے ہوئے آپ کو اپنے اس احساس میں شریک کرنا چاہتا ہوں کہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ہم بہت سنگین اور جاں سوز مراحل سے گزر رہے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم اور تقسیم کے المیے کے بعد ہم میر کی پناہ میں چلے گئے تھے۔ موجودہ صدی کے دوسرے دہے کے لیے ہمیں غالب کی طرف دیکھنا پڑرہا ہے۔ جو کچھ اس دہائی میں یا اس سے پہلے ہوا اس کا ذکر ہم سطور بالا میں کرچکے ہیں۔ یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بعض زمانی مسائل کو نگاہ میں رکھ کر شعر نقل کرکے ان کی معنویتیں بتادی جائیں۔

محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے

کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا

ایک مخصوص طبقے کی وفاداری پر سوالیہ نشان اٹھائے جانے پر اس طبقے کا ردِّ عمل۔

 آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے

کل تلک تیرا بھی دل مہر و وفا کا باب تھا

ایک حکمراں کا حکومت قائم کرتے وقت سب کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھنے کا وعدہ کرنا اور اس پر عمل نہ کرنا۔

کام اس سے آپڑا ہے کہ جس کا جہان میں

لیوے نہ کوئی نام ستمگر کہے بغیر

 ‘جنت نظیر’ خطے میں بہ حالتِ مجبوری نظریاتی سطح پر ایک دوسرے کی ضد سمجھی جانے والی جماعتوں کی یکجائی کے وقت کی بے بسی۔

باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر

ہر گلِ تر ایک چشمِ خوں فشاں ہوجائے گا

معنویت اپنے ہی باغ سے نکالے جانے والے کو اسی باغ میں سبزباغ دکھا کر لے جانے پر اصرار کے وقت نکالے جانے والے کا ردِّعمل۔

 ہر چند سبک دست ہوئے بت شکنی میں

ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور

معنویت اُن طاقتوں کے سامنے شدید اور مسلسل مزاحمت جن کا زور کسی طرح کم ہوتا ہوا نظر نہےں آتا۔

 روز اس شہر میں اک حکم نیا ہوتا ہے

کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا ہوتا ہے

 ایک مخصوص طبقے کے لیے منفی مقاصد کو نگاہ میں رکھ کر نافذ کیے جانے والے احکام۔

شعروں کے مقابل ان کی عصری معنویتیں رکھ دینے کے بعد عرض کرتا چلوں کہ ایسا میں نے اپنے موضوع کی مجبوری کی بنا پر کیا ہے ورنہ اپنے طریقۂ کار کے مطابق میں شعروں کو اکہرے مفاہیم میں نہیں باندھتا۔ نقل کیے ہوئے شعر اپنے معنوی امکانات کی وجہ سے متعدد موضوعات پر منطبق ہوسکتے ہیں۔

آخراً جو کچھ کہتے آئے ہیں اس کے ماحصل کے لیے یہ دو جوہر دار شعر اور ملاحظہ کرلیجیے:

کمالِ گرمیِ سعیِ تلاشِ دید نہ پوچھ

برنگِ خار مرے آئینے سے جوہر کھینچ

عرض کیجیے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں

کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا

پہلا شعر:

 کمالِ گرمیِ سعیِ تلاشِ دید نہ پوچھ

برنگِ خار مرے آئینے سے جوہر کھینچ

آئینہ اپنے جوہر کے ذریعے اشیا کو منعکس کرتا ہے۔ یعنی آئینے سے یہ جوہر نکل جانے سے اشیا کا انعکاس نہیں ہوسکتا۔

اشیا کا بہت زیادہ انعکاس آئینے کو حیرانی یعنی اذیت میں مبتلا کردیتا ہے۔ جس طرح (جسم سے) کانٹا نکل جانے کے بعد تکلیف ختم ہوجاتی ہے اسی طرح آئینے سے اس کا جوہر نکل جانے سے مشاہدے کی اذیت ختم ہوجاتی ہے۔

غالب نے اس شعر میں ایک ایسے شخص (سمجھ لیجےے کہ خود غالب) کی صورتحال کو پیش کیا ہے جو زیادہ سے زیادہ اشیا کا مشاہدہ کرنا چاہتا ہے اور چونکہ یہ مشاہدہ اس کے لیے تکلیف دہ بھی ہے اس لیے وہ چاہتا ہے کہ تکلیف ختم ہوجائے۔ بتادیں کہ غالب کے یہاں مشاہدے کی یہ اذیت ہرجگہ موجود ہے۔ کمالِ گرمیِ سعیِ تلاشِ دید دراصل مشاہدے کی وہ بے پناہی ہے جو انسان کو بالآخر پراگندہ

 (confuse)

 کرد یتی ہے اور پھر وہ اس پراگندگی سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے۔

کمالِ گرمیِ سعیِ تلاشِ دید کا اطلاق، بتایا جاچکا ہے، خود غالب پر ہوتا ہے۔ ان کا مشاہدہ بے پناہ بلکہ لازمانی ہے۔ ان کی آنکھ کئی زمانوں کی فصیلوں کے اُس طرف دیکھ لیتی ہے اور جو کچھ انہیں دکھائی دیتا ہے اس کی پراگندگی کا سبب یہ ہے کہ جو انہیں دکھائی دے رہا ہے وہ دوسروں کو کیوں نہیں دکھائی دیتا۔

دوسرا شعر:

عرض کیجیے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں

کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا

اس شعر کے مصرعہ اولیٰ میں لفظ ’کہاں‘ پر غور کیجیے:

وحشت کو بروئے کار لانے کی جگہ صحرا ہے اور صحرا میری وحشت کے تصور ہی سے جل گیا۔ تو اب (اس عالمِ امکان میں) کون سی جگہ ہے جہاں میں اپنی وحشت کو لے جاکر سماؤں یعنی جس کی گرمیِ فکر کا یہ عالم ہو کہ وہ عملِ تصور ہی میں صحرا (کائنات) کو جلادے اسے موجودات میں ہر شے ناقص اور نامکمل نظر آئے گی اور یہ ظرفِ کائنات ایسی فکر کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

اور یہ ظرفِ کائنات جس فکر کا متحمل نہیں ہوسکتا وہ دراصل غالب کی فکر ہے۔  ان کے دائرۂ  دانش میں ناموجود مکانوں اور غیر مرئی زمانوں کی ایسی ایسی نیرنگیاں اور بوالعجبیاں ہیں کہ ان کی معنی کشائی کے لیے غالب کی سی ہی دیدہ وری کی ضرورت ہے۔

اپنی گفتگو کے قطعی اور آخری مرحلے تک آتے آتے ہم نے معانی سے بھرے ہوئے غالب کے ذہن کی وسعت، ان کے شعروں میں خلق ہوتی ہوئی دور کے زمانوں کی دنیاوں، ان دنیاوں کے طلسم اور ان کی حیرت آوری کو بہ حدِّ بساط نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ ذیل میں یہ دیکھ لیجیے کہ آئندہ یعنی اکیسویں صدی اور اس سے آگے کے زمانوں میں کیا ہوگا اور ہم غالب کے آئینۂ کلام میں اس کی تمثالیں کس طرح دیکھ سکیں گے۔

          1۔ ازلی اور آفاقی معنویتیں ایک سی تھیں، ایک سی ہیں اور دنیا کے فنا ہونے تک ایک سی رہیں گی۔

          2۔ کائنات اور ماورائے کائنات کا استفہام و تجسس اسی طرح قائم رہے گا۔

          جبلتوں 3۔

(instincts)

سے آزادی حاصل کرنا انسان کے اختیار میں نہیں تاوقتیکہ ہمارے گوشت پوست والے جسم کو

Robotic

 نہ بنادیا جائے۔ سو اِن جبلتوں کا اظہار آئندہ زمانوں میں بھی اسی طرح ہوتا رہے گا۔

4۔ نئی روشنی انسانی ذہن کو منور کرتی رہے گی۔ نئے فلسفے اور نظریے وجود میں آتے رہیں گے اور پرانے فلسفوں اور نظریوں سے بھی رہنمائی حاصل کی جاتی رہے گی۔

5۔ کمپیوٹر نے اگر ہمارے دل اور دماغ کو اپنے اختیار میں نہیں لیا تو ہم اپنے بنیادی جذبوں، حسن، عشق اورغم سے محروم نہیں ہوں گے۔

6۔ دو سو برس بعد بفرضِ محال سارے نظاموں کو ضم کرکے ایک عالمی نظام قائم کردیا جائے تب بھی مابینِ حدود و نفوس پیکار و آویزش کا سلسلہ قائم رہے گا کہ یہ انسان کی جبلت میں شامل ہے۔

          7۔ جب تک جسم جسم کی صورت میں قائم رہے گا اور روح قفسِ عنصری سے پرواز نہیں کرے گی، جہانِ باطن کے اسرار ہمیں پریشان کرتے رہیں گے۔

اورجب تک آئندہ زمانوں میں یہ سب ہوتا رہے گا غالب ہمارے آگے آگے چلتے رہیں گے اور کہتے رہیں گے:

شمع ہوں لیکن بہ پا در رفتہ خارِ جستجو

مدعا گم کردہ ہر سو ہر طرف جلتا ہوں میں

۔۔۔۔۔۔۔۔

m

English Hindi Urdu