ONE DAY NATIONAL SEMINAR (On “Prof. Ibn-e-Kanwal: Hayat-o-Adabi Khidmaat”)

ابن کنول معروف ادیب، مشفق استاذ، مقبول افسانہ نگار اور نکتہ سنج محقق تھے: پروفیسر صغیر افراہیم

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام بہ اشتراک شاگردان پروفیسر ابن کنول یک روزہ قومی سمینار ’ابن کنول: حیات و ادبی خدمات‘ منعقد

خصوصی رپورٹ: ڈاکٹر افضل مصباحی، شاگرد پروفیسر ابن کنول و اسسٹنٹ پروفیسر آف اردو، ایم ایم وی، بی ایچ یو، وارانسی۔

ابن کنول کو داستان کا شوق خاندانی وراثت کے طور پر ملا تھا، ان کے افسانوں میں رشتوں کے بچھڑنے کا غم اور تہذیبی اقدار کے زوال کو محسوس کیا جا سکتا ہے، وہ ایک مخلص استاذ، معروف ادیب، مقبول افسانہ نگار، نکتہ سنج محقق اور شریف الطبع انسان تھے۔ ان خیالات کااظہار آج غالب انسٹی ٹیوٹ اور شاگردان پروفیسر ابن کنول کے اشتراک سے غالب انسٹی ٹیوٹ کے سمینار ہال میں’ابن کنول: حیات و ادبی خدمات‘ کے موضوع پر منعقد یک روزہ قومی سمینار میں معاصر اساتذہ، معروف تخلیق کاروں اور ادیبوں نے کیا۔ افتتاحی اجلاس کی صدارت پروفیسر شہپر رسول نے کی، مہمان ذی وقار کے طور پروفیسر اسلم پرویز، مہمانان خصوصی کے طور پروفیسر طارق چھتاری اور پروفیسر غضنفر نے شرکت کی۔ کلیدی خطبہ پروفیسر صغیر افراہیم نے پیش کیا۔پروفیسر افراہیم نے ابن کنول کی حیات و خدمات پر تفصیلی گفتگو کی۔ انھوں نے دور طالب علمی سے لے کر عملی زندگی کا پورا نقشہ پیش کیا۔ اس موقع پر استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے پروفیسر محمد کاظم نے کہا کہ پروفیسر ابن کنول کا نام لیتے ہی جن احباب سے ان پر سمینار کا تذکرہ کیا؛ سب نے کہا کہ میرے لائق جو خدمت ہے؛ اس کے لیے ہم حاضر ہیں۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ ان کے چاہنے والوں کی تعداد بے شمار ہے۔انھوں نے بتایا کہ ابن کنول کی علمی وادبی خدمات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ ان کی ہمہ جہت شخصیت پر چار یونیورسٹیز میں تحقیقی مقالات لکھے جارہے ہیں۔پروفیسر فاروق بخشی نے افتتاحی کلمات پیش کرتے ہوئے کہاکہ ابن کنول کو یاد کرکے آج بھی آنکھیں چھلک جاتی ہیں۔ انھوں نے ابن کنول کی شخصیت پر ایک شعر پڑھا:
عمیق گہرے سمندر کے پانیوں جیسا
عجیب شخص تھا قصے کہانیوں جیسا
معروف ناول نگار پروفیسر غضنفر نے ابن کنول پر تحریر کردہ اپنا خاکہ ’بند راستے‘ پیش کیا۔ مذکورہ خاکے میں غضنفر نے ابن کنول کی حیات و خدمات کو انتہائی فنکاری کے ساتھ پیش کیا۔ معروف تخلیق کار پروفیسر طارق چھتاری نے ابن کنول کے افسانوں پر تفصیلی بحث کی۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ ابن کنول نے سب سے پہلے افسانہ لکھنا شروع کیا۔ ان کے مزاج میں داستانیں تھیں، اس کی وجہ سے ان کے مزاج میں یہ رنگ شامل ہوگیا تھا؛ جو ان کے افسانوں میں نظرآتاہے۔ انھوں نے داستان کی کاپی نہیں کی۔ سمینار میں مہمان ذی وقار کے طور پر پروفیسر اسلم پرویز نے اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ابن کنول کو میں نے ہمیشہ مخلص، ایماندار اور دیانتدار محسوس کیا۔ ایک کامیاب انسان ہونے کے لیے حساس ہونا ضروری ہے۔ ابن کنول بہت ہی حساس انسان تھے۔ وہ رشتوں کو جوڑ کر رکھنے میں یقین رکھتے تھے۔ میں نے بہت سے اساتذہ کی تدفین میں شرکت کی لیکن کہیں بھی شاگردوں کی اتنی تعداد نہیں دیکھی؛ جتنی ابن کنول کے جنازے میں دیکھی۔ اس سے ان کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ اس موقع پر صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر شہپر رسول نے کہاکہ ابن کنول دوستوں کے دوست تھے، وہ بہت خوش گفتار تھے، شعر وسخن سے ان کا گہرا رستہ تھا۔ انھوں نے ابن کنول کی ادبی سرگرمیوں پر تفصیلی گفتگو کی۔اظہار تشکر ڈاکٹر ادریس احمد ڈائرکٹر غالب انسٹی، دہلی نے پیش کیا۔ افتتاحی اجلاس کی نظامت ڈاکٹر امتیاز احمد نے کی۔اس یک روزہ قومی سمینار میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، مانو حیدرآباد، خواجہ معین الدیں چشتی یونیورسٹی لکھنو ¿، دہلی یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ،کے اساتذہ، ریسرچ اسکالرز اور طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔ اس موقع پر ابن کنول کی کتاب ’مزید شگفتگی‘ کی رسم اجرا بھی ادا کی گئی، جسے ابن کنول کی صاحبزادی صبیحہ ناصر نے مرتب کی ہے۔ سمینار میں جن مقالہ نگاروں نے مقالے پیش کیے ان میں ڈاکٹر ابو شہیم خان، ڈاکٹر افضل مصباحی، ڈاکٹر اکمل شاداب، ڈاکٹر ممتاز عالم رضوی،ڈاکٹر یامین انصاری، ڈاکٹر عزیر اسرائیل، ڈاکٹر محمد ارشد، ڈاکٹر شمس الدین، ڈاکٹروصی احمد اعظمی، ڈاکٹر عالیہ، ڈاکٹر نثار احمد، ڈاکٹر طفیل، ڈاکٹر عبد الحفیظ، ڈاکٹر غلام اخصر، شیزہ سہیل، واحدہ کوثر، ڈاکٹر امیر حمزہ، ڈاکٹر اشرف یاسین وغیرہ کے نام شامل ہیں۔اس موقع پر ابن کنول کی شریک حیات، صاحبزادیاں اور ملک کے کونے کونے سے بڑی تعداد میں ان کے شاگردوں، احباب، رشتہ داروں نے شرکت کی۔ اس موقع پر پروفیسر خالد علوی، پروفیسر محب اللہ، اردو اخبارات کے صحافی، ماہر تعلیم، اساتذہ و طلبا نے شرکت کی۔


تصویر میں دائیں سے: پروفیسر اسلم پرویز، ڈاکٹر احمد امتیاز،پروفیسر غضنفر، پروفیسر طارق چھتاری، پروفیسر شہپر رسول،پروفیسر صغیر افراہیم،پروفیسر فاروقی بخشی، پروفیسر محمد کاظم

Ghalib Institute to receive Sir Syed Excellence Awards 2024

Frances W. Pritchett, Ghalib Institute to receive Sir Syed Excellence Awards 2024

Internationally acclaimed Scholar, Translator, Critic and Author Professor Frances W. Pritchett, Professor Emerita, Department of South Asian, Middle Eastern and African Studies, Columbia University, New York will receive this year’s Sir Syed Excellence Award in the international category

Aligarh: Internationally acclaimed Scholar, Translator, Critic and Author Professor Frances W. Pritchett, Professor Emerita, Department of South Asian, Middle Eastern and African Studies, Columbia University, New York will receive this year’s Sir Syed Excellence Award in the international category, the Aligarh Muslim University (AMU) said.

The university also said Sir Syed Excellence National Award will be conferred upon Ghalib Institute, New Delhi – a reputed literary and cultural organisation of the country based in New Delhi.

Both the awards will be conferred at the Sir Syed Day Commemorative Meeting to be held at Aligarh Muslim University (AMU) on October 17, 2024.

October 17, the birth anniversary of Sir Syed Ahmad Khan, founder of AMU, is celebrated every year as Sir Syed Day.

Sir Syed Excellence Awards

The yearly International and National Sir Syed Excellence Awards, given by AMU to renowned scholars or organizations that produce outstanding and intellectually stimulating works in the areas of Sir Syed Studies, South Asian Studies, Muslim Issues, Urdu Literature, Medieval History, Social Reform, Communal Harmony, Journalism, and Inter-Faith Dialogue, carry cash prizes of Rs. 200,000 and Rs. 100,000 respectively.

AMU Vice Chancellor, Professor Naima Khatoon, on the recommendation of a jury headed by Prof Azarmi Dukht Safavi, Prof A R Kidwai, Prof Shafey Kidwai, Prof Anisur Rehman, Prof Akhtarul Wasey, Prof Asim Siddiqui and Prof Qazi Obaidur Rehman Hashmi, finalised the awardees.

About Professor Pritchett

According to Professor Shafey Kidwai, Director of Sir Syed Academy and Convenor of the jury, Professor Pritchett is regarded as the most profound scholar of Modern Indic languages and literature.

She completed her Ph.D. in South Asian Languages and Civilizations at the University of Chicago. She taught at Columbia and wrote a plethora of articles, monographs and seminal books including Nets of Awareness: Urdu Poetry and its Critics; The Romance Tradition in Urdu, and A Desertful of Roses: the Urdu Ghazals of Mirza Ghalib.

About Ghalib Institute

Ghalib Institute, New Delhi, is one of the most respected literary and cultural organizations in the subcontinent. Its annual awards, international and national seminars, and publications are held in high esteem across the globe.

The Institute was established by a trust in 1971, which organizes national and international seminars, Ghalib Extension lectures, Amir Khusro and Fakhruddin Ali Ahmad lectures, Yaum e Ghalib, Yaum e Zauq events etc.

Ghalib Institute confers awards to seven distinguished Urdu and Persian scholars every year. The recipients include Shamsur Rehman Farooqui, Gopi Chand Narang, Qazi Abdul Wadood, Malik Ram, Qurratul Ain Haider, Kaleemuddin Ahmad, Gyan Chand Jain, Asloob Ahmad Ansari, Ale Ahmad Suroor, Nazir Ahmad, Ismat Chughtai, Krishan Chander, Jazbi, Khalilur Rehman Azmi and the like.

Ghalib Institute publishes scholarly books frequently and has brought out over 500 titles.

Thanks

https://www.ummid.com/news/2024/september/30-09-2024/frances-w-pritchett-ghalib-institute-to-receive-sir-syed-excellence-awards-2024.html?fbclid=IwY2xjawFwWy5leHRuA2FlbQIxMQABHQmXT4ocoFhw-tSNg38zCuGvY70OxUxd_elHEFRRjmngzM_jN6ALKAjlOw_aem_JESAzDJ2Wn3UH6y6hZjLsw

English Hindi Urdu