Umar
غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام آن لائن اردو، فارسی اور موسیقی کلاسز کا افتتاح
غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی میں یکم جولائی سے آن لائن اردو، فارسی اور موسیقی کلاسز کا آغاز ہوگیا ہے۔ ان کلاسز کا مقصد اردو ، فارسی اور موسیقی کی مبادیات سے لوگوں کو واقف کرانا ہے۔ کلاسز کا افتتاح لنک لیگل کمپنی کے مینیجنگ پاٹنر جناب اتل شرما نے ایوان غالب میں یکم جولائی کو شام ۵ بجے کیا۔ جناب اتل شرما نے اپنے خطاب میں کہا کہ زبان ہماری بنیادی ضرورت ہے، مثلاً میں پیشے سے ایک وکیل ہوں اگر مجھے اس زبان پر قابو نہیں ہوگا جس میں مجھے اپنی بات کہنی ہے یا دوسرے کو سمجھانی ہے تو میں اپنے پیشے کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ انسان جتنی زیادہ زبانوں کو جانتا ہے اس کی شخصیت میں انتا ہی نکھار پیدا ہوتا ہے۔ میں چوں کہ پرانی دہلی کا رہنے والا ہوں لہٰذا مجھے یہ احساس ہے کہ ہندستانی مشترکہ کلچر کس طرح ہماری معاشرت میں رچا بسا ہے اور اسے کسی طرح ہم خود سے الگ نہیں کر سکتے۔ میں غالب انسٹی ٹیوٹ کو مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں کہ انھوں نے بیسک تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے آن لائن کورسز کا نتظام کیا اور اس میں موسیقی کو بھی شامل کیا۔ کیوں کہ موسیقی کے بغیر ہندستان کی تصویر مکمل نہیں ہوسکتی۔ اس اجلاس کی صدارت غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے کی۔ اپنے صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ غالب انسٹی ٹیوٹ کی سرگرمیاں صرف علمی مذاکروں اور سمیناروں تک محدود نہیں، بلکہ اردو، فارسی اور موسیقی کی بنیادی تعلیم کا بھی یہاں انتظام کیا جاتا ہے۔ گزشتہ کلاسز کا تجربہ بہت اچھا رہا اور طلبا کی طرف سے ہی یہ مطالبہ ہوا کہ اس طرح کے کورسز کو جاری رہنا چاہیے لہٰذا ایک بار پھر کلاسز کا آغاز ہو رہا ہے اس مرتبہ یہ کورس چار ماہ کا ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ پچھلی بار کی طرح یہ کورس بھی کامیابی کے ساتھ مکمل ہوگا۔ عالمی سہارا کے ایڈیٹر ڈاکٹر لئیق رضوی نے اس اجلاس میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ انھوں نے جلسے کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ اردو کا ایک فعال ادارہ ہے اور یہاں کی سرگرمیوں سے ہم سب واقف ہیں لیکن آج جس کورس کا آغاز ہو رہا ہے مجھے بے انتہا خوشی ہے کہ یہاں کے منتظمین نے اس ضرورت کو محسوس کیا کہ بنیادی تعلیم کے بغیر اعلیٰ تعلیم کا خواب مکمل نہیں ہو سکتا۔ اردو کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کو سننے والا اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ گنگا جمنی تہذیب کو سمجھنے کے لیے اور اس کو باقی رکھنے کے لیے اردو سے واقفیت بہت ضروری ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ میں اردو، فارسی کی کلاسز کا سلسلہ نیا نہیں ہے ، بس یہ ہے کہ بیچ میں یہ سلسلہ منقطع ہو گیا تھا اور اس کو دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت محسوس کی جار ہی تھی۔ پچھلی بار جن لوگوں نے اس کورس میں حصہ لیا ان کی پیش رفت کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اور حوصلہ بھی ملا۔ اردو، فارسی کے استاد جناب طاہر الحسن نے اور موسیقی کے استاد جناب عبدالرحمٰن نے بڑی محنت سے طلبا کو تعلیم دی اور مشق کرائی ۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اس بار کا سیشن بھی پہلے کی طرح کامیاب رہے گا۔ اردو فارسی کے استاد جناب طاہرالحسن نے کہا کہ اردو ایک شیریں زبان ہے اس کے سیکھنے سے شخصیت میں کشش پیدا ہو جاتی ہے اور فارسی کے ساتھ سیکھنا زبان کی کئی باریکیوں کا آسان بنا دیتا ہے۔ پچھلی بار کے طلبا کی کارکردگی بہت حوصلہ بخش رہی مجھے یقین ہے کہ اس مرتبہ بھی میرا تجربہ مختلف نہیں ہوگا۔ موسیقی کے استاد جناب عبدالرحمٰن نے کہا کہ موسیقی انسان کو انسان سے جوڑتی ہے لیکن یہ جتنی آسان دکھائی دیتی ہے اتنی آسان نہیں ہے۔ در اصل اس کی ایک گرامر ہے جس سے واقفیت کے بغیر اچھی سے اچھی آواز بری معلوم ہوتی ہے۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ طلبا کو آسان سے آسان طریقے سے سمجھا سکوں کہ سر کس طرح بنتا ہے اس کے خاندان کون کون سے ہیں۔ میں غالب انسٹی ٹیوٹ کو مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں کہ انھوں نے یہاں موسیقی کلاسز کا انعقاد کیا۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے جاوید دانش کی کتاب ’ہجرت کے تماشے‘ کی رسم اجرا و مذاکرہ
غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے اردو کے ممتاز ڈرامہ نگار اور تھیٹر آرٹسٹ جناب جاوید دانش کی کتاب ’ہجرت کے تماشے‘کی رسم رونمائی اور مذاکرے کا انعقاد کیا گےا۔ اس جلسے کے صدارت غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے کی۔ اپنے صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ غالب انسٹی ٹیوٹ نے ہمارے عہد کے ایک ممتاز ڈرامہ نگار اور تھیٹر کی دنیا میں منفرد شناخت رکھنے والے ادیب و فنکار جناب جاوید دانش کی کتاب پر مذاکرے کا اہتمام کیا۔ جاوید دانش کی کامیابی کا راز اس بات میںبھی پوشیدہ ہے کہ وہ اردو ڈرامے کی روایت سے جس طرح واقف ہیںاسی طرح دوسری زبانوں کے ڈرامائی ادب پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ خدا نے انھیں تخلیقی صلاحیت عطا کی ہے جس میں ان کے تجربات اور مطالعے نے چار چاند لگا دیے ہیں۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے کہا کہ جاوید دانش صاحب نے ایسے خانوادے ،میں آنکھ کھولی جہاں پہلے سے علم و ادب کا چرچا تھا ۔ ان کے والد خود مصنف تھے جنھوں نے انھیںلکھنے پڑھنے کی طرف راغب کیا۔ جاوید دانش کے شوق سفر نے انھیں کنیڈا میں بسا دیا ۔ وہ ملک سے دور تو ہوئے لیکن اس سر زمیں نے ان کے قلم کو ایسی آزادی دی کہ شاید وہ کہیں اور میسر نہیں ہوسکتی تھی۔میں ان کی کتاب ’ہجرت کے تماشے‘ کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ جناب جاوید دانش نے کہا کہ میں غالب انسٹی ٹیوٹ اور تمام شرکا ، خصوصاً پروفیسر محمد کاظم اور ڈاکٹر جاوید حسن کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری کتاب کے سلسلے میں ایسی بزم آراستہ کی اور اس پر گفتگو کے لیے آمادگی طاہر کی۔ اردو میری مادری زبان ہے اور مجھے ہمیشہ یہ فکر رہتی ہے جس زبان نے مجھے ساری دنیا میں شناخت دی ہے اپنے امکان بھر اس میں کچھ ایساکر سکوں جس میں تازگی ہو۔ میرے خیال میں ادب میں اضافہ اسی کو مانا جاتا ہے جس میں روایت کی آگہی بھی ہو اور نئی دریافت بھی ہو۔ میں نے اس دنیا میں رہتے ہوئے اسے جیسا محسوس کیا اسے اپنی تخلیق میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ پروفیسر محمد کاظم نے کہا کہ جاوید دانش سے میری پرانی رفاقت ہے میں نے ان میں اپنے کا کے تئیں ایسی سپردگی دیکھی کہ اس کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان کے لیے لکھنا ایک روحانی غذا ہے جس کے بغیر وہ رہ نہیں سکتے۔ وہ اپنی گفتگو میں کم اور تحریر میں زیادہ واضح ہوتے ہیں۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جو ڈرامے ہیں ان میں ایک نئی دنیا سے ہمارا تعارف ہوتا ہے۔ یعنی وہ ایسے موضوعات نہیں جن پر ہر کس و ناکس قلم اٹھاسکے۔ ڈاکٹر جاوید حسن نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر زبان کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں کچھ اصناف زیادہ ترقی کرتی ہیں اور ان کی بہ نسبت دیگر اصناف کو ترقی کا کم موقع ملتا ہے۔ اردو کا مزاج ہے کہ اس میں شاعری خصوصاً غزل نے زیادہ مقبولیت حاصل کی ۔ ہمیں جاوید دانش جیسے فنکاروں کی اس لیے بھی قدر کرنی چاہیے کہ ان جیسے فنکار وں کی وجہ سے اردو ڈرامہ اس لائق ہے کہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے جدید مثائل کی پیشکش میں اردو کسی سے کم نہیں ہے۔ جاوید دانش جتنا فن سے واقف ہیں موجودہ دنیا کے مسائل سے بھی اسی طرح آگاہ ہیں۔ مسائل سے آگہی، ان کو تخلیقی تجربہ بنانا اور فنی تقاضوںکی تکمیل کا بہترین امتزاج دیکھنا ہو تو ’ہجرت کے تماشے‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ میں اس کتاب کے مصنف اور غالب انسٹی ٹیوٹ کو مبارکباد پیش کرتاہوں۔ اس جلسے میں علم ادب سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
29Mahzar Raza, Gh Nabi Kumar and 27 others
2 comments
Like
Comment
Share