انیس اشفاق 

 غالب کی شاعری میں ہمہ زمانی معانی

بڑا شاعر زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتا ہے۔ اس کی نگاہ میں اپنا زمانہ ہی نہیں آنے والا زمانہ بھی ہوتا ہے، اسی لیے اس کے شعروں میں یک عہدی نہیں، ہمہ زمانی معنویت ہوتی ہے۔ میر اور غالب ایسے ہی شاعر ہیں اور غالب تو ایک ایسا نابغہ لے کر پیدا ہوئے تھے جس کی آنکھ وہاں تک جارہی تھی جہاں تک کسی اور کی آنکھ کا جانا آسان نہ تھا۔ غالب نے کہا تو یہ تھا:

ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا رب

ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا

لیکن ان کی شاعری میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے اس شعر کے مفہوم پر نظر کیجیے: ‘دشت’ یہاں وسعت کے باوجود تنگی کا مفہوم ادا کررہا ہے اور ‘تمنّا’ اسرارِ وجود کو حل کرنے یعنی خدا اور کائنات کو سمجھنے کی تمنّا ہے۔ اس تمنّا میں ہم محوِ سفر ہیں اور اس سفر میں یہ پورا دشتِ امکاں ہمارا صرف ایک نقشِ قدم ہے۔ اصلاً یہ شعر علم اور لاعلمی کا مرکب ہے یعنی ہمارا سارا علم اس کائنات تک محدود ہے اور ماورائے کائنات کے بارے میں ہم کچھ بھی نہیں جانتے۔ یہاں ماورائے کائنات کے بارے میں کچھ نہ جاننے کی بات کہہ کر غالب دراصل ہم کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ ان کی شاعری میں عدم یعنی ماورائے کائنات کا ذکر اتنی بار آیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ معدوم زمانوں اور مکانوں کا بھی گہرا علم رکھتے ہیں۔

نقل کیے ہوئے شعر میں ہم سے مراد دراصل ہم اور آپ ہیں، غالب نہیں۔ اپنے غیر معمولی وجدان و ادراک کی بنا پر غالب کی نگاہ اِس دشتِ امکاں کے دوسرے نقشِ پا کو بھی دیکھ رہی تھی اور ’غیب‘ سے جو مضامین ان پر نازل ہورہے تھے وہ اسی دوسرے نقشِ پا کے الگ الگ جادوں کو روشن کررہے تھے جنہیں دیکھ کر ہمارا مبتلائے حیرت ہوجانا یقینی ہے۔ غالب کے معاملے میں ہمیں دو طرح کی حیرتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک حیرت تو وہ ہے جو ان کے بند شعروں کے معنی نہ کھل پانے کی وجہ سے ہم پر طاری ہوتی ہے۔ معنی خواہی کی خواہش میں جب ہم ان کے شعر کے سب دروازوں پر دستک دے کر کسی جواب کے بغیر لوٹتے ہیں تو جھنجھلاہٹ میں یہ سوچنے لگتے ہیں کہ آخر یہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ اور جب ہمارے بار بار کے سر ٹکرانے کے بعد اُن دروازوں کی درزوں سے معنی کی کوئی کرن پھوٹتی ہے تو دیر تک ہم اس حیرت میں مبتلا رہتے ہیں کہ اِس نے کیا کہہ دیا۔ یہ معنی تو دور دور تک ہمارے ذہن میں نہیں تھے۔ لائقِ رشک نابغے کے ساتھ ساتھ خلاّقی بھی غالب کو ایسی ملی جو کسی اور کے حصے میں نہ آئی۔ مشکل سے مشکل موضوع کو ذہن میں لانا اور پھر اسے ایسے پیرائے میں بیان کرنا کہ جتنی بار شعر کو پڑھیے اس کی نئی پرتیں کھلتی چلی جائیں۔

یہ تو ہم شروع سے سنتے آرہے ہیں کہ غالب کا ذہن عام شاعروں کا سا ذہن نہیں تھا۔ ازحالی تا شمس الرحمن فاروقی ہمارے غالب شناسوں نے غالب کو مشکل بتانے میں بہت زیادہ وقت صرف کیا۔ یعنی ہمیں ان سے ملایا کم گیا ڈرایا زیادہ گیا۔ اور یہی خوف غالب اور ہمارے درمیان دوری کا سبب بننے لگا۔ غالب کے مشکل ہونے کا سبب دراصل ان کی نگاہ کی وہ تیزی اور نیرنگی ہے جو اشیا و مظاہر کے ایک رخ کو دیکھنے کے بجائے سب رخوں کو دیکھ لیتی ہے۔ یعنی ہماری اور آپ کی آنکھ سےچھپی رہنے والی اشیا کی ماہیتیں اور معنویتیں غالب کے حلقۂ

 نگاہ میں خورشیدِ جہاںتاب کی مانند روشن رہتی ہیں۔ یہ جو انہوں نے اپنے بارے میں کہا ہے:

گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھئے

جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے

اس شعر میں ہر لفظ کے گنجینۂ معنی کے طلسم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ شعرِ غالب کے خزینے میں داخل ہوں گے تو ہر لفظ آپ کو اس طلسم کی طرف لے جائے گا جہاں کائنات اور ماورائے کائنات کی مختلف صورتیں اپنے مختلف رنگوں میں نظر آئیں گی۔ اپنی فارسی شاعری میں غالب نے اپنے ذہن کی پیچیدگی، اپنی فکر کی بلندی، اپنے معانی کی نیرنگی اور اپنے حلقۂ نگاہ کی وسعت کا بار بار ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ میں ایک پیچیدہ، حیرت آور اور طلسم آسا ذہن لے کر پیدا ہوا ہوں، اسی لیے میں ان زمانوں پر بھی حاوی ہوں جو ظاہری زمانوں سے پرے ہیں اور وہ معانی بھی میری گرفت میں ہیں جن تک کسی نگاہ کا پہنچنا محال ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:

ما ہمائے گرم پروازیم فیض از ما مجوئے

سایہ ہمچو دود بالا می رود از بالِ ما

اس شعر میں گرم پروازِ ہما سے ذہن ایک عالی فکر اور عالی دماغ ہستی کی طرف منتقل ہوتا ہے اور پرواز کی گرمی فکر کی وہ بلندی ہے جس تک عام آدمی کی رسائی آسانی سے نہیں ہوتی۔ اس مفہوم کا اطلاق خود غالب پر ہوتا ہے کہ میرے افکار اتنے بلند اور اتنے پیچیدہ ہیں کہ ان سے (عام آدمی کے) مستفیض ہونے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔

دوسرا شعر:

پایۂ من جزبہ چشمِ من نیاید در نظر

از بلندی اخترم روشن نیاید در نظر

میرا مرتبہ میرے سوا کسی اور کی نظر میں نہیں آسکتا۔ اس لیے کہ میرا ستارہ اتنی بلندی پر ہے کہ وہ میرے سوا کسی کو صاف نظر نہیں آتا۔

تیسرا شعر:

دیدہ ور آں کہ تا نہد دل بہ شمارِ دلبری

دردلِ سنگ بنگرد رقصِ بتانِ آذری

دیدہ ور وہ ہے کہ اگر دلبری (کے مظاہر) کا شمار کرنے کی ٹھان لیتا ہے تو اس کو پتھر کے دل کے اندر آذری بتوں کا رقص نظر آنے لگتا ہے۔

آخری شعر:

در دام بہرِ دانہ نیفتم مگر قفس

چنداں کنی بلند کہ تا آشیاں رسد

شعر کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ میں دانے کے لیے دام میں نہیں آؤں گا بلکہ قفس کو اتنا اونچا کرو کہ وہ میرے آشیاں تک پہنچ جائے۔ باطنی مفہوم یہ ہے کہ اگر مجھ کو سمجھنا چاہتے ہو تو وہ دانش اور ذکاوت پیدا کرو جس کا مطالبہ میرے شعروں کے معنی کرتے ہیں۔

فارسی کے یہ شعر اور ان کے مفاہیم اس لیے نقل کیے گئے ہیں کہ جو کچھ غالب کے نابغے، ان کے ذہنِ رسا اور ان کی ذکاوت کے بارے میں اوپر کہا گیا ہے اس کی توثیق ہوسکے۔

غالب کے غیر معمولی ذہن، بلا کی قوتِ پرواز، ان کی ہمہ دانی، ان کے معانی کی پیچیدگی اور تہہ داری کی بنا پر نکتہ شناسانِ شعر کو شعرِ غالب کی شرحیں لکھنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ شارحین کی ان شرحوں سے غالب کا اشکال کم ہوا اور ان کے شعروں کا ظاہری مفہوم بھی بڑی حد تک ہم پر ظاہر ہوگیا لیکن کلامِ غالب کے لامحدود معنوی امکانات تک رسائی کا راستہ پھر بھی پوری طرح نہ کھل سکا۔ اس کے لیے نیرمسعود، پروفیسر گیان چند جین، شمس الرحمن فاروقی اور پروفیسر گوپی چند نارنگ وغیرہ کو آگے آنا پڑا اور نئے زمانوں کی معنویتوں کے اعتبار سے غالب کو سمجھانا پڑا۔

درج بالا معروضات میں ہمارا اصل نکتہ یہ ہے کہ مفاہیم کی نیرنگی اور معانی کی کثرت کی بنا پر غالب کی شاعری کسی ایک زمانے کی اسیر نہیں ہے۔ وہ جی تورہے تھے انیسویں صدی میں لیکن ان کی نگاہ آئندہ کے زمانوں کو بھی دیکھ رہی تھی اسی لیے ہمیں ان کے یہاں آئندہ زمانوں کے معنی بھی دکھائی دیتے ہیں۔

اس سے پہلے کہ ہم مثالوں کے ذریعے اکیسویں صدی میں غالب کی معنویت کا محاکمہ کریں یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ وقت اور نوعیت کے اعتبار سے موضوعات ومسائل کی شکلیں کیا ہیں۔ بظاہر ان کی چار شکلیں ہمارے سامنے ہیں:

          1۔ ازلی اور آفاقی موضوعات و مسائل : یہ حدود اور نفوس کے امتیاز کے بغیر ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔

          2۔ یک عہدی یا عصری موضوعات : یہ ایک ہی زمانے اور بیشتر ایک ہی جگہ سے مخصوص ہوتے ہےں۔

          3۔ ہمہ زمانی موضوعات : یہ ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیں اور حدود و نفوس کے امتیاز کے بغیر ان کا تجربہ ہر زمین پر ہر شخص کو کم و بیش ایک ہی طرح سے ہوتا ہے۔

          4۔ انفرادی موضوعات : ان کا تعلق ایک مخصوص فرد، ایک مخصوص قوم اور ایک مخصوص علاقے سے ہوتا ہے۔ لیکن یہ انفرادی موضوعات بعض حالتوں میں انفرادی نہ رہ کر اجتماعی ہوجاتے ہیں۔

موضوعات (مسائل) کی یہ شکلیں بتانے کے بعد ہم آپ کو یہ بھی بتادیں کہ ایک تخلیق کار اپنی تخلیق میں انہیں موضوعات سے معنی کشید کرتا ہے۔ یعنی تخلیق سے باہر جو چیز موضوع کی شکل میں نظر آتی ہے تخلیق کے اندر وہی شے معنویت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔

ان معنویتوں/ موضوعوں کی شکلیں بتانے کے بعد یہیں پر ہم آپ کو یہ بھی بتادیں کہ غالب کی شاعری میں ہماری تقسیم والی چاروں معنویتیں موجود ہیں۔ غالب کے ساتھ اکیسویں صدی میں قدم رکھنے سے قبل اب ذرا یہ بھی دیکھ لیجیے کہ جن مختلف معنویتوں کی شکلیں ہم نے آپ کے سامنے پیش کی ہیں وہ اصلاً ہیں کیا۔ سب سے پہلے دائمی یا آفاقی یا ازلی معنویتوں یا مسئلوں کو دیکھےے۔ یہ معنویتیں اس طرح ہیں:

ذات اور کائنات کا طلسم، وجود کے تئیں ہمارا استفہام، دنیا میں ہمارے خلق ہونے کی غرض و غایت، موت کی ناگزیری، دنیا کی بے ثباتی، زندگی کا جبر، زیاں کا احساس، خوفِ مرگ، رنجِ رائیگاں، عدمِ تحفظ، تنہائی، مایوسی، بے یقینی، ذات کا انتشار، باطن کی پیکار، ہونے کا آزار، نہ ہونے کا وہم وغیرہ۔ یہ دائمی اور آفاقی مسائل ہیں اور یہ آج سے دو سو برس بعد یعنی تئیسویں صدی میں بھی اسی طرح موجود رہیں گے۔ یہ ضرور ہے کہ ان میں سے بعض کی حالتوں اور کیفیتوں میں بہ اعتبارِ وقت تبدیلی واقع ہوتی رہے گی۔ مثلاً مایوسی، بے یقینی، عدمِ تحفظ، عدم حوصلگی اور زیاں کا جو احساس ہمیں 1857 کے غدر یا پہلی جنگ عظیم میں ہوا تھا، اس سے کہیں زیادہ دوسری عالمگیر جنگ میں ہوا۔ جب تقسیم اور اس کے بعد فسادات کے المناک واقعات رونما ہوئے تو اس احساس میں پھر تیزی آئی اور بیسویں صدی کے آخری اور اکیسویں صدی کے پہلے دہے میں ایک عبادت گاہ کی مسماری اور بہ رضائے ریاست ایک صوبے میں ایک مخصوص جمیعت کی صف کُشی کے دل دہلادینے والے مناظر سامنے آئے تو ہم ایک نئے طرح کے آزار و اضطراب میں مبتلا ہوئے اور عدمِ تحفظ کے احساس نے ہمیں لرزہ براندام کردیا۔ اور آج اکیسویں صدی کے دوسرے دہے کا منظرنامہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ ایک مخصوص طبقہ پھر نشانے پر ہے۔ اس طبقے کو جس نوع کے انفرادی اور اجتماعی تشدد کا شکار ہونا پڑرہا ہے اور جس طرح ایک خاص خطے کے حدود کو بندی خانوں میں بدل کر محصور لوگوں کی زبانوں کو بند کردیا گیا ہے اس نے ہمیں ہونے اور نہ ہونے کے وہم میں مبتلا کردیا ہے۔

درج بالا بیان کے ذریعے ہم جس نکتے کو زیادہ نمایاں کرنا چاہ رہے ہیں وہ یہ کہ دائمی اور آفاقی مسئلوں یا معنویتوں کی حالتیں یا کیفیتیں تو بدل سکتی ہیں لیکن ان کی اصل میں کوئی تغیر نہیں ہوتا۔ مثلاً مایوسی، بے یقینی، تنہائی اور غم کی حالت ہر شخص پر طاری ہوتی ہے اور ہر زمانے میں طاری ہوتی ہے۔ مخصوص حالتوں میں کسی کو اس کا زیادہ احساس ہوتا ہے کسی کو کم۔ جب غالب یہ کہتے ہیں:

کیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواہ اہلِ بزم

ہو غم ہی جاں گداز تو غمخوار کیا کریں

تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کا غم بہ اعتبارِ حالت کم ہوتا ہے اورکسی کا جان کو گھلا دینے والا۔ دائمی اور آفاقی حالتوں یا معنویتوں کا ذکر کرنے کے بعد اب آئیے فوری، یک عہدی یا وقتی موضوعوں یا معنویتوں کی طرف۔ یہ معنویتیں عارضی اور مخصوص حالتوں کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا زمانہ کبھی بہت مختصر ہوتا ہے اور کبھی ان کا سلسلہ دراز ہوجاتا ہے۔ مثلاً بیسویں صدی کے آخری دہے میں بنیادپرستی اور مذہب زدگی میں شدت پیدا ہوگئی تھی، اقلیتوں کی وفاداری پر سوالیہ نشان قائم کئے جانے لگے تھے۔ قومی وقار و افتخار کی نئی تعریفیں وضع کی جانے لگی تھیں۔ نیز مذہب شناسی کے نام پر منافرت کو ہوا دی جارہی تھی۔ ذات پرست اور مذہب اساس سیاست کا کھیل کھیلا جانے لگا تھا۔ اکیسویں صدی کے دوسرے دہے میں اقتدار میں آنے کے لیے انہیں موضوعوں/ مسئلوں کو اور ہوا دی گئی اور اس ہوا کے تیز تھپیڑوں کو ہم آج بھی محسوس کررہے ہیں۔ لیکن یہاں ہم آپ کو ایک باریک فرق بھی بتاتے چلیں کہ فوری اور وقتی معنویتیں بعض صورتوں میں ہمہ زمانی بھی ہوجاتی ہیں مثلاً بیسویں صدی کے آخری دہے میں پیدا ہونے والے مسائل پر اگر کسی نے کوئی شعر کہا ہے اور اُس شعر میں زمانے کے تعین کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے تو چونکہ یہ حالتیں اکیسویں صدی کے دوسرے دہے میں بھی موجود ہیں اس لیے اس زمانے میں کہے جانے والے شعر کا اطلاق 2021 کے بعد کے زمانے پر بھی کیا جاسکتا ہے اور اس طرح وہ شعر وقتی نہ رہ کر ہمہ زمانی ہوجائے گا۔ مشہور ترقی پسند شاعر سردار جعفری کے دو شعروں سے یہ بات زیادہ واضح ہوجائے گی۔

شعر یہ ہیں:

کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سوا

راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا

تیغ منصف ہو جہاں دار و رسن ہوں شاہد

بے گنہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا

یہ شعر غالباً 1950 سے پہلے کسی مخصوص اور ہنگامی حالت کے نتیجے میں کہے گئے تھے۔ لیکن جب ایمرجنسی کے زمانے میں دہلی کے ایک بڑے مشاعرے میں سردار جعفری نے ان شعروں کو بقول شخصے حال ہی میں کہے ہوئے شعروں کے طور پر پڑھا تو مشاعرے کی چھتیں اڑ گئیں۔ اس کے برعکس غالب کا مشہور قطعہ : ’بس کہ فعّالِ ما یرید ہے آج….، اس میں انگلستاں اور دہلی کے لفظوں کے آجانے کی وجہ سے یہ قطعہ جگہ اور زمانے سے مخصوص ہوگیا ہے اور یہ اکہری اور وقتی معنویت سے آگے نہیں بڑھ سکا۔

موضوعوں اور معنویتوں کی اس تقسیم و تخصیص کے بعد اب آئیے دیکھیں کہ غالب کے شعروں میں یہ موضوع یا معنویتیں کس طرح نظر آتی ہیں۔ سب سے پہلے آفاقی معنویتوں کی طرف آتے ہیں اور ان میں بھی پہلے فنا، زوال اور دنیا کی بے ثباتی کا موضوع لیتے ہیں اور اس کے لیے اس شعر کے مفہوم کو غور سے ملاحظہ کیجیے:

کیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواہ اہلِ بزم

ہو غم ہی جاں گداز تو غمخوار کیا کریں

بظاہر شعر کا مفہوم یہ ہے کہ اہلِ بزم شمع کے خیرخواہ تو ہیں لیکن شمع کا غم ہی ایسا ہے جو لاعلاج ہے اس لیے اہلِ محفل بہی خواہی کے جذبے کے باوجود شمع کا غم دور نہیں کرسکتے۔

یعنی شمع کا کام اور اس کا انجام ہی یہ ہے کہ وہ پگھلتے پگھلتے ختم ہوجائے۔ ایسی صورت میں اس سے ہمدردی تو کی جاسکتی ہے لیکن اس کے لوازمِ ذاتی کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ شمع کا وجود عبارت ہے جلنے سے اور جل کر ختم ہوجانے سے۔ اس لیے ایسی شے کی غمخواری جس کا غم جاں گداز ہو حقیقتاً ممکن نہیں۔ شمع کی جاں گدازی کو ختم کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ شمع کو بجھادیا جائے لیکن اس طرح شمع کی موت ہوجائے گی اس لیے کہ شمع کی زندگی اپنی شمعیّت (روشن رہنے) کی وجہ سے ہے۔ اسے گل کردینے سے یہ شمعیّت ختم ہوجائے گی یعنی شمع کی موت واقع ہوجائے گی۔ اس طرح دونوںصورتوں میں شمع کی موت یقینی ہے۔ پہلی صورت میں جلتے جلتے ختم ہونا اس کا فنا ہونا ہے اور دوسری صورت میں اِس فنا کے سلسلے کو روک دینا دراصل اسے (شمع کو) مار ڈالنا ہے۔

غالب نے اپنے ایک شعر میں، جسے اوپر نقل کیا جاچکا ہے، اپنے ہر لفظ کو گنجینۂ معنی کا طلسم کہا تھا سو اس شعر میں بھی ہر لفظ معنی سے معمور ہے۔ اس کی مثال لفظ غمخواری ہے جس نے شعر کے مفہوم کو متحرک کردیا ہے۔

غمخواری کا مطلب ہے کسی کے غم میں شرکت کرنا یعنی اسے اپنا لینا۔ اس طرح اہلِ بزم کا شمع کی غمخواری کرنا خود بھی جاں گدازی کے مرحلے سے گزرنا ہے۔ چونکہ شمع کی جاں گدازی اس کے روشن ہونے کی بنا پر ہے اور شمع کا روشن ہونا بزم کے وجود یعنی اہلِ بزم کا موجب ہے۔ اگر شمع کے غم کی جاں گدازی ختم کردی جائے تو بزم باقی نہیں رہے گی اور اگر شمع کی غمخواری کی جائے تو اہلِ بزم خود اس کا شکار ہوجائیں گے اور اس طرح بھی بزم کا باقی رہنا مشکل ہے۔ یعنی جس المیہ نظام سے شمع دوچار ہے اسی نظام میں اہلِ بزم بھی مبتلا ہیں۔ اس لیے نہ صرف شمع بلکہ اہلِ بزم اور بزم کے تمام لوازم فنا کا شکار ہیں۔ اس طرح غالب کا یہ شعر اس پورے نظامِ کائنات کو ظاہر کرتا ہے جہاں ہر شے فنا میں مبتلا ہے۔

فنا اور بے ثباتی کا یہ المیہ نظام تئیسویں صدی بلکہ تیسرے ہزارے کے بعد بھی قائم رہے گا اور غالب اس وقت بھی بامعنی رہیں گے۔ غالب کو بامعنی بتانے میں میں بہت دور تک چلا گیا۔ چھوڑیے اتنے آگے کے زمانے کو۔ اس شعر میں جاں گدازی اور غمخواری کے الفاظ کو بالکل تازہ مفہوم تک لاتے ہیں۔ غالب کے اس شعر کی شمع وقت اورزمانہ بدل کر کوئی پینتالیس دن سے جاں سوزی اور جاں گدازی کے عالم میں ہے۔ اس شمع کی طرف آپ کا ذہن منتقل ہوا؟ اگر نہیں تو ہم بتاتے ہیں۔ یہ شمع ہری بھری وادیوں کے فانوس میں روشن ہے اور اس کی لَو کی نیلاہٹ روز بہ روز کم ہورہی ہے۔ ہم سب اس شمع کے غمخوار ہیں۔ اس شمع کی جاں سوزی ایک شب کی نہیں بلکہ ہزاروں شبوں کی ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہم اس کے غم میں شریک ہوتے ہیں تو موجودہ صورتحال ایسی ہے کہ ہمیں بھی جاں گدازی کے مرحلے سے گزرنا پڑے گا بلکہ ہماری جاں گدازی شمع کی جاں گدازی سے زیادہ بڑھ جائے گی۔ دوسری طرف وہ لوگ جو شمع کی جاں گدازی کو ختم یعنی اس کے دکھ کو دور کرنے کے بہانے اسے بجھادینے کے درپے ہیں، وہ شمع کو اس کی شمعیّت یعنی اس کی شناخت سے محروم کردینا چاہتے ہیں۔ یہ کھلے ہوئے اشارے آپ نے یقینا سمجھ لیے ہوں گے۔ تو دیکھیے انیسویں صدی میں کہا ہوا شعر اکیسویں صدی کے دوسرے دہے کی تازہ ترین صورتحال پر کس طرح منطبق ہوتا ہے۔

وجود و عدم کے مسائل فارسی میں بیدل اور اردو میں غالب کے یہاں سب سے زیادہ بیان کئے گئے ہیں۔ وجود کی بوالعجبیوں اور نیرنگیوں کی تفسیریں ہر عہد میں کی جاتی رہی ہیں۔ چنانچہ بیسویں صدی کے ربعِ ثالث میں فرانسیسی مفکر ژاں پال سارتر نے اپنی دانست میں وجود کی نئی تفسیر اس مشہور فقرے کے ذریعے کی: ”آزادی ہی انسان کی قید ہے۔“ ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ سارتر کے اس وجودی فقرے کے معنی کیا ہیں۔ ابھی ہم اس فقرے پر غور کرہی رہے تھے کہ ہماری نگاہ غالب کے اس شعر پر ٹھہری:

کشاکش ہائے ہستی سے کرے کیا سعیِ آزادی

ہوئی زنجیر موجِ آب کو فرصت روانی کی

یہ شعر پڑھ کر ہمیں معاً یہ محسوس ہوا جیسے ہم نے سارتر کے اس کلیدی فقرے کے مفہوم کو سمجھ لیا ہو۔ اب شعر کا مفہوم ملاحظہ کیجیے:

یہ دنیا سمندر ہے۔ ہم اس میں ایک موج کی مانند ہیں۔ جس طرح موج کو سمندر میں ہمیشہ بہتے رہنا ہے یعنی کشاکش سے گزرتے رہنا ہے اور جس طرح اب کنارہ اس کے مقدر میں نہیں ہے اسی طرح ہمیں بھی دنیا کی کشاکش سے آزادی نہیں مل سکتی ہے درحالیکہ ہم آزاد ہیں۔ جس طرح روانی کی فرصت موج کے لیے زنجیر بن گئی ہے اسی طرح اس دنیا میں آزادی ہمارے لیے زنجیر بن گئی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ اپنے زمانے میں کہے ہوئے شعر کے ذریعے غالب نے بیسویں صدی کے سب سے نمایاں فلسفی کے وجودی فقرے کو کتنی آسانی سے سمجھا دیا۔ اب اگر ہم فرانسیسیوں سے کہیں کہ وجود کی اس نوع کی تفسیر میں زمانی فضیلت غالب کو حاصل ہے تو کیا انہیں آسانی سے یقین آئے گا۔

انسانی ذہن میں جس دن سے ذکاوت پیدا ہوئی ہے، اسی دن سے کائنات کے اسباب و علل کو سمجھنے کی کوشش شروع ہوگئی ہے۔ غالب کے یہاں ان اسباب و علل کو سمجھنے کی سعی جگہ جگہ موجود ہے۔ یہ شعر ملاحظہ کیجیے:

شوق اُس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو کہ جہاں

جادہ غیر از نگہہِ دیدۂ تصویر نہیں

اس شعر میں غالب نے جادہ کو غیر از نگہہِ دیدہ تصویر کہہ کر مفہوم کو بالکل منفرد کردیا ہے۔ تصویر اگر سامنے دیکھتی ہے تو اس کی نگاہ جدھر سے بھی دیکھیے اپنی طرف معلوم ہوتی ہے۔ اگر یہ تصویر کسی اور رخ کو دیکھ رہی ہے تو اس رخ کی طرف کھسکتے جائیے، نگاہ بھی کھسکتی جائے گی۔ تصویر کی نگاہ کسی نہ کسی طرف جاتی ہوئی معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقتاً کسی بھی طرف نہیں جاتی۔ یہی حال دشت کا ہے جہاں راستہ مسدود نہ ہونے کی وجہ سے جس طرف دیکھیے راہ کھلی ہوئی نظر آتی ہے یعنی ہر طرف جادہ نظر آتا ہے مگر جادہ کہیں نہیں ہے۔

یعنی میں اس دشت میں دوڑ رہا ہوں جہاں راستے کا تعین بھی نہیں ہے اور جہاں مجھ سے پہلے کسی اور شخص کا گزر نہیں ہوا ہے، اگر مجھ سے پہلے کوئی شخص گزرا ہوتا تو یہاں جادہ ضرور بن جاتا اس لیے کہ جادہ انسان کے قدموں ہی سے بنتا ہے۔

اب اس جادے سے خالی دشت میں دوڑنے کے دو مفہوم ہیں۔ ایک یہ کہ میں شوق کے ہاتھوں سعیِ رائیگاں میں مبتلا ہوں اور دوسرے یہ کہ اس شوق نے مجھے سرگرمِ عمل کردیا کہ جہاں جادہ نہیں ہے اس دشت کو بھی چھانتا پھر رہا ہوں۔

یہ شعر ہمارے اس ذہنی اور مابعد الطبیعییاتی تجربے کو ظاہر کرتا ہے کہ ہم اس پوری کائنات کے اسباب و علل کو سمجھنے کے شوق میں مبتلا ہیں لیکن جس کا نتیجہ فقط حیرانی ہے۔ یہ مابعدالطبیعییاتی تجسس (Metaphysical curiosity) آپ کو افلاطون سے لے کر اسٹیفن ہاکنگ تک ہر جگہ نظر آئے گا۔ غالب کے ایسے شعروں کا سفر کیجیے تو ذہنی اور مابعدالطبیعییاتی مسائل سے ان کی پیکار و آویزش آئندہ زمانوں کو حیران کردینے والی ہے۔

اب چلتے ہیں ایک اور دلچسپ نکتے کی طرف۔ یہ بات کہ ”انسانی وجود اور کائنات کی پیچیدہ حقیقت کا احاطہ کرنے میں عقل ناکام ہے۔“ دنیا کے مشہور فلسفیوں پاسکل، کرکے گار، نطشے، یاسپرس، ہزرل، ہائیڈیگر اور سارتر وغیرہ میں مشترک ہے۔ لیکن اسی بات کو غالب ان فلسفیوں سے بہت پہلے اپنے بیسیوں شعروں میں بیان کرچکے ہیں۔

حیرت اور استفہام میں ڈوبے ہوئے یہ شعر تو آپ کی زبان پر فوراً آجاتے ہیں:

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

یہ اور ایسے بہت سے شعر بتاتے ہیں کہ غالب کا نابغہ زمان و مکان کے حدود و قیود سے آزاد ہے۔

 آفاقی معنویتوں میں وجودیت کا ذکر ابھی کیا جاچکا ہے۔ اب آئیے ایسی ہی کچھ اور معنویتوں کی طرف۔ یہ ہیں: اجنبیت، معدومیت اور مہملیت۔

معدومیت کی اصطلاح روس میں انیسویں صدی کے دوسرے ربع میں ایواں ترگینیو کے ناول

Fathers And Sons(1860)

کے وسیلے سے سامنے آئی۔ اس ناول کا مرکزی کردار بازاروف خود کو معدومیت پسند کہتا تھا۔ یہ ذہنی معدومیت تھی اور اس زمانے کی مخصوص حالتوں کے نتیجے میں سامنے آئی تھی۔ یہی معدومیت غالب کے یہاں بھی ہے لیکن غالب کے یہاں یہ معدومیت ذہنی بھی ہے اور روحانی بھی۔ اس معدومیت کے ضمن میں ہوسکتا ہے غالب کا یہ مشہور شعر مجھ سے پہلے آپ کے ذہن میں آگیا ہو:

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی

خود ہماری خبر نہیں آتی

سہلِ ممتنع کے سے انداز میں کہے جانے والے اس شعر کا ظاہری مفہوم تو آپ نے سمجھ ہی لیا ہوگا لیکن باطنی مفہوم میں سوال یہ ہے کہ ہم کہاں ہیں جہاں سے ہم کو ہماری خبر نہیں مل رہی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ہم عدم میں ہیں یعنی ہم نہیں ہیں۔ تو جو نہیں ہے اسے ’ہے‘ والی شے کی خبر کیونکر مل سکتی ہے۔ یعنی معدوم کو موجود کی خبر ملنا محال ہے اور موجود بھی وہ جو قیاسی، موہوم اور اعتباری ہے۔ اس کے لیے خود غالب کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے:

ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد

عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے

یا میر کا یہ شعر:

یہ توہم کا کارخانہ ہے

یاں وہی ہے جو اعتبار کیا

سارتر نے

 (Being and Nothingness)

 کے مسائل پر عالمانہ انداز میں بہت بعد میں غور کرنا شروع کیا لیکن غالب ”ہونے اور نہ ہونے“ کے معاملات کو بہت پہلے اپنے شعروں میں بیان کرچکے تھے۔

‘بیگانہ’ کے سے شہرۂ آفاق ناول کے خالق البیئر کامیو نے لغویت اور مہملیت

(Absurdity and Nihilism)

کے بارے میں بتایا ہے کہ اس کا احساس درج ذیل چار صورتوں میں ہوتا ہے:

          1۔ اس بات پر غور کرنا کہ ہمارے وجود کی غرض و غایت کیا ہے۔

          2۔ اس بات کا خاطر نشین ہوجانا کہ وقت ایک تخریبی قوت ہے۔

          3۔ اس بیگانہ دنیا میں لاکر چھوڑ دیے جانے کا احساس۔

          4۔ دوسروں سے بے تعلقی کا احساس۔

ان چاروں صورتوں کو غالب نے اپنے کلام میں بہ ہزار صورت بیان کیا ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:

جب کہ تجھ بِن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

ہرزہ ہے نغمۂ زیر و بم ہستی و عدم

لغو ہے آئینۂ فرقِ جنون و تمکیں

بیگانگیِ خلق سے بے دل نہ ہو غالب

کوئی نہیں تیرا تو مری جان خدا ہے

ان شعروں کے مفاہیم بیان کرنے میں بڑا وقت لگ جائے گا۔ شعروں کو سن کر آپ نے سمجھ لیا ہوگا کہ کامیو کی بتائی ہوئی چاروں صورتیں یہاں موجود ہیں اور بہت سے معنوی ارتعاشات کے ساتھ موجود ہیں۔

لغویت اور مہملیت کی وضاحت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان کے شدید احساس کی بنا پر انسان شدید ذہنی تنہائی

(Loneliness)

میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس تنہائی کا احساس غالب کے یہاں دیکھیے

وحشتِ آتشِ دل سے شبِ تنہائی میں

صورتِ دود رہا سایہ گریزاں مجھ سے

بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق

بیکسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں

اور ”کوئی نہ ہو“ ردیف والے وہ تین شعر تو ہم سب کی زبانوں پر ہیں جن میں غالب نے دنیا سے اپنی بے تعلقی، بے دلی اور بیزاری کا ذکر کیا ہے۔

اوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے اسے سننے کے بعد اب آپ خود فیصلہ کیجیے کہ ان دقیق، پیچیدہ اور مشکل موضوعات کے بیان میں زمانی سبقت کسے حاصل ہے۔ لیکن اسے کیا کیا جائے کہ اردو کے بعض مغرب زدہ نقاد اپنے علمی دبدبے کو ظاہر کرنے کے لیے مغربی فلسفیوں اور نقادوں کا ذکر کےے بغیر لقمہ نہیں توڑتے۔ مقامِ افسوس ہے کہ ہم اپنے خزانوں کو کھنگالنے کے بجائے دوسروں کے دفینوں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔

ہماری اب تک کی گفتگو غالب کے یہاں موجود آفاقی اور ہمہ زمانی موضوعات سے متعلق تھی۔ اب آئےے یک عہدی یعنی عصری اور انفرادی معنویتوںکی طرف لیکن اس سے پہلے کہ ہم ان معنویتوں کو ظاہر کریں، آپ کو بتادیں کہ غالب کے شعروں میں چونکہ زمانی اور مقامی تعین ہے ہی نہیں اس لیے اگر ان کے یہاں کوئی عصری یا مقامی موضوع ہوتا بھی ہے تو معنویت اس کی ہمہ زمانی ہوجاتی ہے۔ اب اسی شعر کو دیکھیے:

گلشن میں بندوبست برنگِ دگر ہے آج

قمری کا طوق حلقۂ بیرونِ در ہے آج

قیاس کہتا ہے کہ غالب نے یہ شعر مغلیہ سلطنت کے زوال پر کہا ہوگا لیکن اکیسویں صدی کے دوسرے دہے میں یہ شعر پڑھیے تو ایسا لگتا ہے کہ غالب نے حال ہی کے ایک واقعے (5 اگست 2020) کو نگاہ میں رکھ کر یہ شعر کہا ہے۔ خیر پہلے شعر کے مرکزی مفہوم پر نظر کیجیے۔ اس مرکزی مفہوم تک حلقۂ بیرونِ در کی تشریح کے بغیر نہیں پہنچا جاسکتا۔ قمری کا طوق حلقۂ بیرونِ در کا استعارہ ہے۔ حلقۂ بیرون در دروازے کے باہر کی زنجیر کا حلقہ ہے جسے کھٹکھٹاکر آمد کی اطلاع دی جاتی ہے اور داخلے کی اجازت طلب کی جاتی ہے۔

حلقۂ  بیرونِ در مکان سے بظاہر غیر متعلق ہونے کے باوجود متعلق ہوتا ہے۔ یعنی مکان میں داخل ہونے کے لیے پہلا وسیلہ ہی حلقہ  بیرونِ در ہے۔ یہ حلقہ قمری اور باغ کے درمیان قدرِ مشترک ہے۔ قمری کے گلے کا حلقہ باغ کے اندر ہوتا ہے یعنی وہ باغ کا لازمہ ہے اور وہ حلقہ جو دستک دینے کے کام آتا ہے، باغ کے باہر ہوتا ہے۔ لیکن نئے بندوبست میں یہ دونوں حلقے ایک ہوگئے ہیں۔ یعنی پہلے قمری باغ کے اندر تھی اور اب (نئے بندوبست میں) باغ کے باہر ہے۔

یہاں قمری کے طوق کو باغ میں رہنے یا باغ پر متصرف ہونے کی علامت بنادیا گیا ہے۔

دوسری طرف قمری کا طوق یعنی حلقۂ بیرونِ در بیک وقت آزادی، محرومی اور زوال کا مفہوم بھی ادا کرتا ہے۔ آزادی یہ کہ قمری جو عشقِ گل میں گرفتار تھی اب باغ سے باہر گو آزاد ہے مگر اس کی محرومی اور زوال یہ ہے کہ وہ باغ کا معزز اور ممتاز پرندہ اور عاشقِ گل تھی لیکن باغ سے باہر ہونے کی وجہ سے ایک طرف وہ عشقِ گل سے محروم ہوگئی اور دوسری طرف وہ اپنے اعزاز و امتیاز سے۔

اب محرومی اور زوال کے مفہوم کو سامنے رکھیے تو یہ شعر اس خطے کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں کے رہنے والوں کو حال ہی میں ان کی روایتی سہولتوں سے محروم کردیا گیا ہے۔ اور اگر آزادی کے مفہوم کو ملحوظ رکھیے تو شعر کی علامتی جہت یہ ہوگی کہ دوسروں کے زیرِانتظام آجانے کے بعد اگرچہ وہاں کے باشندے صوبائی امور کی تمام الجھنوں سے آزاد ہوجائیں گے لیکن یہ آزادی غلامی سے بدتر اور غلامی ہی کی ایک شکل ہوگی۔

درج بالا سطور میں ہم نے بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے اوائل کے اِن مشترک مسائل کا ذکر کیا تھا:

 ‘بنیادپرستی اور مذہب زدگی، قومی وقار و افتخار کی نئی تعریفوں کا وضع کیا جانا، مذہب شناسی کے نام پر منافرت کو ہوا دیا جانا، وفاداریوں پر سوالیہ نشان کا قائم کیا جانا، تاریخ اور ثقافت کی نئی تعبیر کے لیے تعلیم کو ایک مخصوص نظریے کا ترجمان بنایا جانا نیز انفرادی اور اجتماعی تشدد وغیرہ۔’

پچھلے پچاس ساٹھ برس کی تاریخ کے ورق الٹیے تو حکومتوں کی تخصیص و تفریق کے بغیر ایک مخصوص طبقہ ان مسائل کا شکار ہوتا رہا ہے۔ اب غالب کے اس شعر میں اس مخصوص طبقے کی فریاد سنیے:

خزاں کیا فصلِ گل کہتے ہیں کس کو کوئی موسم ہو

وہی ہم ہیں قفس ہے اور ماتم بال و پر کا ہے

عام طور پر بال و پر کا ماتم فصلِ گل میں ہوتا ہے لیکن غالب نے خزاں کو شامل کرکے مفہوم میں ندرت پیدا کردی ہے۔ فصلِ گل میں اڑنے کی خواہش زیادہ ہوتی ہے اسی لیے بال و پر کے نہ ہونے کا ماتم اسی فصل میں کیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں تو اسیری بلکہ دائمی اسیری ہے اس لیے ہم خزاں میں بھی وہی ماتم کررہے ہیں۔ یعنی زمانے کے سرد و گرم ہمارے لیے ایک سے ہیں۔

علامتی مفہوم یہ ہے کہ نظامِ حکومت کوئی بھی ہو محرومی اور ستم آزاری ہمارا مقدر ہے۔ اور ’ہمارا‘ سے مراد ایک مخصوص طبقہ ہے۔

یہاں تک آتے آتے منتخب مثالوں کے ذریعے ہم نے غالب کے یہاں قریب قریب ان تمام موضوعوں اور معنویتوں کا احاطہ کرلیا ہے جن کی ابتداً ہم نے درجہ بندی کی تھی۔

میں نے اپنے کسی مضمون میں لکھا ہے کہ جو منظم ادبی اور سماجی فلسفے ظہور میں آتے ہیں وہ غیر منظم شکل میں ہمارے بڑے فنکاروں کی تخلیقوں میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ تو غالب کے ساتھ ہم ایک ایسے ہی ادبی نظریے کی طرف چلتے ہیں جو بیسویں صدی کے اواخر میں باہر سے ہمارے یہاں لایا گیا اور ایک انوکھے ادبی نظریے کے طور پر اس کا خوب گُن گایا گیا۔

ژاک دریدا کا نام کوئی پینتیس چھتیس برس پہلے میں نے لکھنؤ کی برٹش کاؤنسل لائبریری میں بیٹھ کر اخبار ’گارجین‘ میں پڑھا تھا۔ اس وقت تک دریدا اردو میں پوری طرح نمودار نہیں ہوئے تھے۔ ’گارجین‘ نے دریدا کو پورا ایک صفحہ اس لیے دیا تھا کہ اس وقت کیمبرج یونیورسٹی کی انتظامیہ میں دریدا کی اعزازی رکنیت کے معاملے میں تنازعہ چھڑا ہوا تھا۔ دریدا پر ’گارجین‘ نے

Text Detective

 (مُفتّشِ متن) کے نام سے ایک مضمون شائع کیا تھا اور اسے اپنے عہد کا نابغہ قرار دیا تھا۔ اس وقت اس مضمون میں

Deconstruction

کا لفظ میری سمجھ میں نہ آیا اور سچ پوچھیے تو ابھی بھی میں اسے براہِ راست سمجھنے سے قاصر ہوں۔ بس اردو کے بعض بہت دانا اور زیرک نقادوں کے ذریعے جو کچھ میں نے سمجھا ہے وہ یہ کہ متن کو جتنی بار کھنگالیے، الٹیے، برہم کیجیے، جتنی بار اس کے وقفوں، درزوں اور جھروکوں میں جھانکیے ہر بار اس کے اندر نئے معنی بلکہ اصل معنی کے برعکس معنی نکلتے ہیں۔ کچھ دیر پہلے ہم نے سارتر کی وجودیت کی اصل کو غالب کے یہاں ڈھونڈ نکالا تھا۔ اب اس شعر میں دریدائی طریقۂ کار کو منکشف ہوتا ہوا دیکھیے۔ یہ بھی بتادیں کہ غالب کی تعبیروں میں اس طریقے کو سب سے پہلے طباطبائی نے رسمی طور پر اور نیرمسعود نے باقاعدہ اختیار کیا۔ شعر یہ ہے:

غم کھانے میں بودا دلِ ناکام بہت ہے

یہ رنج کہ کم ہے مئے گلفام بہت ہے

یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ متحرک معنویت غالب کے اشعار کی بنیادی خصوصیت ہے۔ اس شعر میں بھی غالب نے مفہوم کو متحرک کردیا ہے۔ دیکھیے کیسے۔

چونکہ دل غم کھانے میں بہت بودا ہے اس لیے شراب کی ضرورت ہے۔ لیکن جتنا غم ہے اس کے بقدر شراب نہیں ہے۔ مقابلتاً شراب کی اس کمی کے احساس کی وجہ سے رنج میں اور اضافہ ہورہا ہے اور رنج میں اس اضافے کے ساتھ شراب کی کمی اور زیادہ محسوس ہورہی ہے۔ اس طرح رنج برابر بڑھتا جارہا ہے اور شراب کی مقدار اس کے تناسب سے کم ہوتی جارہی ہے۔ اب متن کو برہم کیجیے تو متخالف

(Paradoxical)

 معنی بھی سامنے آئیں گے۔  یعنی یہاں حوصلہ بھی ہے اور عدمِ حوصلہ بھی۔ عدمِ حوصلہ یہ کہ غم کھانے میں دلِ ناکام بہت کمزور ہے اور حوصلہ یہ کہ مئے گلفام بہت کم ہے، اسے بقدرِ ظرف یعنی میرے غم کے مطابق ہونا چاہیے تھا۔

آپ نے دیکھا کہ متن کو برہم کرنے کے بعد شعر میں برعکس اور متخالف معنی موجود نظر آنے لگے اور یہ معنی اس لیے نظر آنے لگے کہ غالب نے تخالف اور تقلیب کی منطق ہی سے اس شعر کی تخلیق کی ہے۔

دریدا یہی تو کہتا ہے کہ متن جو دکھاتا ہے، بتاتا اس کے برعکس ہے۔ یہی بات غالب نے عملاً اپنے شعروں کے ذریعے بتادی۔ غالب کے یہاں دریدا کے نکتے کی وضاحت میں ہم نے بظاہر سامنے کا ایک سادہ شعر لیا ہے لیکن غالب کے مشکل اور پیچیدہ شعروں کی طرف جائیے تو متن کے اندر سے معنی کو منکشف کرنے کا دریدائی مطالبہ ہر طرح سے پورا ہوتا ہوا نظر آئے گا۔

اگر میں شعروں کی تشریح کے ذریعے اکیسویں صدی میں غالب کی معنویت کو روشن کرنا شروع کروں گا تو یہ مقالہ پھیلتا چلا جائے گا سو اس حرف دراز خامے کو گرفت میں رکھتے ہوئے آپ کو اپنے اس احساس میں شریک کرنا چاہتا ہوں کہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ہم بہت سنگین اور جاں سوز مراحل سے گزر رہے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم اور تقسیم کے المیے کے بعد ہم میر کی پناہ میں چلے گئے تھے۔ موجودہ صدی کے دوسرے دہے کے لیے ہمیں غالب کی طرف دیکھنا پڑرہا ہے۔ جو کچھ اس دہائی میں یا اس سے پہلے ہوا اس کا ذکر ہم سطور بالا میں کرچکے ہیں۔ یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بعض زمانی مسائل کو نگاہ میں رکھ کر شعر نقل کرکے ان کی معنویتیں بتادی جائیں۔

محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے

کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا

ایک مخصوص طبقے کی وفاداری پر سوالیہ نشان اٹھائے جانے پر اس طبقے کا ردِّ عمل۔

 آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے

کل تلک تیرا بھی دل مہر و وفا کا باب تھا

ایک حکمراں کا حکومت قائم کرتے وقت سب کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھنے کا وعدہ کرنا اور اس پر عمل نہ کرنا۔

کام اس سے آپڑا ہے کہ جس کا جہان میں

لیوے نہ کوئی نام ستمگر کہے بغیر

 ‘جنت نظیر’ خطے میں بہ حالتِ مجبوری نظریاتی سطح پر ایک دوسرے کی ضد سمجھی جانے والی جماعتوں کی یکجائی کے وقت کی بے بسی۔

باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر

ہر گلِ تر ایک چشمِ خوں فشاں ہوجائے گا

معنویت اپنے ہی باغ سے نکالے جانے والے کو اسی باغ میں سبزباغ دکھا کر لے جانے پر اصرار کے وقت نکالے جانے والے کا ردِّعمل۔

 ہر چند سبک دست ہوئے بت شکنی میں

ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور

معنویت اُن طاقتوں کے سامنے شدید اور مسلسل مزاحمت جن کا زور کسی طرح کم ہوتا ہوا نظر نہےں آتا۔

 روز اس شہر میں اک حکم نیا ہوتا ہے

کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا ہوتا ہے

 ایک مخصوص طبقے کے لیے منفی مقاصد کو نگاہ میں رکھ کر نافذ کیے جانے والے احکام۔

شعروں کے مقابل ان کی عصری معنویتیں رکھ دینے کے بعد عرض کرتا چلوں کہ ایسا میں نے اپنے موضوع کی مجبوری کی بنا پر کیا ہے ورنہ اپنے طریقۂ کار کے مطابق میں شعروں کو اکہرے مفاہیم میں نہیں باندھتا۔ نقل کیے ہوئے شعر اپنے معنوی امکانات کی وجہ سے متعدد موضوعات پر منطبق ہوسکتے ہیں۔

آخراً جو کچھ کہتے آئے ہیں اس کے ماحصل کے لیے یہ دو جوہر دار شعر اور ملاحظہ کرلیجیے:

کمالِ گرمیِ سعیِ تلاشِ دید نہ پوچھ

برنگِ خار مرے آئینے سے جوہر کھینچ

عرض کیجیے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں

کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا

پہلا شعر:

 کمالِ گرمیِ سعیِ تلاشِ دید نہ پوچھ

برنگِ خار مرے آئینے سے جوہر کھینچ

آئینہ اپنے جوہر کے ذریعے اشیا کو منعکس کرتا ہے۔ یعنی آئینے سے یہ جوہر نکل جانے سے اشیا کا انعکاس نہیں ہوسکتا۔

اشیا کا بہت زیادہ انعکاس آئینے کو حیرانی یعنی اذیت میں مبتلا کردیتا ہے۔ جس طرح (جسم سے) کانٹا نکل جانے کے بعد تکلیف ختم ہوجاتی ہے اسی طرح آئینے سے اس کا جوہر نکل جانے سے مشاہدے کی اذیت ختم ہوجاتی ہے۔

غالب نے اس شعر میں ایک ایسے شخص (سمجھ لیجےے کہ خود غالب) کی صورتحال کو پیش کیا ہے جو زیادہ سے زیادہ اشیا کا مشاہدہ کرنا چاہتا ہے اور چونکہ یہ مشاہدہ اس کے لیے تکلیف دہ بھی ہے اس لیے وہ چاہتا ہے کہ تکلیف ختم ہوجائے۔ بتادیں کہ غالب کے یہاں مشاہدے کی یہ اذیت ہرجگہ موجود ہے۔ کمالِ گرمیِ سعیِ تلاشِ دید دراصل مشاہدے کی وہ بے پناہی ہے جو انسان کو بالآخر پراگندہ

 (confuse)

 کرد یتی ہے اور پھر وہ اس پراگندگی سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے۔

کمالِ گرمیِ سعیِ تلاشِ دید کا اطلاق، بتایا جاچکا ہے، خود غالب پر ہوتا ہے۔ ان کا مشاہدہ بے پناہ بلکہ لازمانی ہے۔ ان کی آنکھ کئی زمانوں کی فصیلوں کے اُس طرف دیکھ لیتی ہے اور جو کچھ انہیں دکھائی دیتا ہے اس کی پراگندگی کا سبب یہ ہے کہ جو انہیں دکھائی دے رہا ہے وہ دوسروں کو کیوں نہیں دکھائی دیتا۔

دوسرا شعر:

عرض کیجیے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں

کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا

اس شعر کے مصرعہ اولیٰ میں لفظ ’کہاں‘ پر غور کیجیے:

وحشت کو بروئے کار لانے کی جگہ صحرا ہے اور صحرا میری وحشت کے تصور ہی سے جل گیا۔ تو اب (اس عالمِ امکان میں) کون سی جگہ ہے جہاں میں اپنی وحشت کو لے جاکر سماؤں یعنی جس کی گرمیِ فکر کا یہ عالم ہو کہ وہ عملِ تصور ہی میں صحرا (کائنات) کو جلادے اسے موجودات میں ہر شے ناقص اور نامکمل نظر آئے گی اور یہ ظرفِ کائنات ایسی فکر کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

اور یہ ظرفِ کائنات جس فکر کا متحمل نہیں ہوسکتا وہ دراصل غالب کی فکر ہے۔  ان کے دائرۂ  دانش میں ناموجود مکانوں اور غیر مرئی زمانوں کی ایسی ایسی نیرنگیاں اور بوالعجبیاں ہیں کہ ان کی معنی کشائی کے لیے غالب کی سی ہی دیدہ وری کی ضرورت ہے۔

اپنی گفتگو کے قطعی اور آخری مرحلے تک آتے آتے ہم نے معانی سے بھرے ہوئے غالب کے ذہن کی وسعت، ان کے شعروں میں خلق ہوتی ہوئی دور کے زمانوں کی دنیاوں، ان دنیاوں کے طلسم اور ان کی حیرت آوری کو بہ حدِّ بساط نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ ذیل میں یہ دیکھ لیجیے کہ آئندہ یعنی اکیسویں صدی اور اس سے آگے کے زمانوں میں کیا ہوگا اور ہم غالب کے آئینۂ کلام میں اس کی تمثالیں کس طرح دیکھ سکیں گے۔

          1۔ ازلی اور آفاقی معنویتیں ایک سی تھیں، ایک سی ہیں اور دنیا کے فنا ہونے تک ایک سی رہیں گی۔

          2۔ کائنات اور ماورائے کائنات کا استفہام و تجسس اسی طرح قائم رہے گا۔

          جبلتوں 3۔

(instincts)

سے آزادی حاصل کرنا انسان کے اختیار میں نہیں تاوقتیکہ ہمارے گوشت پوست والے جسم کو

Robotic

 نہ بنادیا جائے۔ سو اِن جبلتوں کا اظہار آئندہ زمانوں میں بھی اسی طرح ہوتا رہے گا۔

4۔ نئی روشنی انسانی ذہن کو منور کرتی رہے گی۔ نئے فلسفے اور نظریے وجود میں آتے رہیں گے اور پرانے فلسفوں اور نظریوں سے بھی رہنمائی حاصل کی جاتی رہے گی۔

5۔ کمپیوٹر نے اگر ہمارے دل اور دماغ کو اپنے اختیار میں نہیں لیا تو ہم اپنے بنیادی جذبوں، حسن، عشق اورغم سے محروم نہیں ہوں گے۔

6۔ دو سو برس بعد بفرضِ محال سارے نظاموں کو ضم کرکے ایک عالمی نظام قائم کردیا جائے تب بھی مابینِ حدود و نفوس پیکار و آویزش کا سلسلہ قائم رہے گا کہ یہ انسان کی جبلت میں شامل ہے۔

          7۔ جب تک جسم جسم کی صورت میں قائم رہے گا اور روح قفسِ عنصری سے پرواز نہیں کرے گی، جہانِ باطن کے اسرار ہمیں پریشان کرتے رہیں گے۔

اورجب تک آئندہ زمانوں میں یہ سب ہوتا رہے گا غالب ہمارے آگے آگے چلتے رہیں گے اور کہتے رہیں گے:

شمع ہوں لیکن بہ پا در رفتہ خارِ جستجو

مدعا گم کردہ ہر سو ہر طرف جلتا ہوں میں

۔۔۔۔۔۔۔۔

m

Ghalib’s poetry emerges from the soul of a free man: Khalil Mamun

غالب کی شاعری آزاد انسان کی روح سے ابھرتی ہے: خلیل مامون
✅غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام بہ اشتراک محمود ایاز میموریل ٹرسٹ دو روزہ قومی سمینار کا انعقاد
14مئی بنگلور، غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام بہ اشتراک محمود ایاز میموریل ٹرسٹ دو روزہ قومی سمینار بعنوان ’غالب اور عالمی انسانی قدریں‘ کا افتتاحی اجلاس حسنات کالج آدیٹوریم ڈینکینسن روڈمیں ہوا۔ سمینار کا کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے اردو کے معروف دانشور جناب خلیل مامون نے کہا کہ غالب کی شاعری ایک غیر متعصب غیر منضبط آزادانسان کی روح سے ابھرتی ہے، جو اپنی تمام روحانی اور جسمانی زنجیروں کو توڑ کر باہر نکلتی ہے۔ غالب نے اپنی اردو غزل میں پرانی قدروں کو توڑ کر جمالیاتی حقائق کو جنم دیاہے۔
سمینار کا افتتاح پروفیسر اختر الواسع (سابق صدر مالانا آزاد یونیورسٹی، ادے پور)نے کیا۔ انھوں نے اپنے خطاب میں کہا غالب انسٹی ٹیوٹ اردو کا ایسا ادارہ ہے جس نے اردو دنیا میں اپنی ممتاز شناخت قائم کی ہے۔ محمود ایازمیموریل ٹرسٹ کے ذمہ داران قابل مبارکباد ہیں کہ انھوں نے غالب انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ اشتراک کیا اور ایک اہم موضوع پر سمینار کا انعقاد کیا۔ آپ لوگوں کے جذبے اور مقالہ نگارں کی فہرست کو دیکھتے میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایک کامیاب سمینار ہوگا اور جب یہ مقالے کتابی شکل میں میں شائع ہوں گے تو غالبیات میں ایک اہم گوشے کا اضافہ ہوگا۔
جناب عزیز اللہ بیگ (صدر محمود ایاز میموریل ٹرسٹ) نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ جناب محمود ایاز صاحب نے ادب اور ادبی صحافت میں اپنی منفرد شناخت قائم کی، وہ بہت مصروف انسان تھے اس کے باوجود ان کا مطالعہ قابل رشک تھا۔’سوغات‘ نے پوری اردو دنیا میں جو اعتبار حاصل کیا وہ ادبی صحافت کی دنیا میں ایک و اقعہ ہے۔ مجھے خیال تھا کہ بنگلور کی سرزمین پرغالب کے تعلق سے ایک معیاری سمینار کاانعقاد کیا جائے جس کا کوئی رشتہ محمود ایاز سے بھی قائم ہو۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ محمود ایاز کی یاد میں قائم اس ادارے اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے درمیان اشتراک سے یہ سمینار منعقد ہو رہا ہے اور ملک کے مختلف گوشوں سے اہل علم اس سمینار میں اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔ ہم مستقبل میں بھی ایسے ہی ادبی اجلاس منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس اجلاس کے مہمان خصوصی جناب این ڈی ملا (سابق ڈپٹی کمشنر آف پولیس) نے کہا غالب انسٹی ٹیوٹ اور محمود ایاز میموریل ٹرسٹ کے ذمہ داران قابل مبارک باد ہیں کہ انھوں نے غالب کی یاد میں ایسے سمینار کا انعقاد کیا جس کا موضوع ہی اتنا پر کشش اور معنی خیز ہے۔ غالب کے یہاں انسانی اقدار کا احساس اتنی فنکارانہ ادبی بصیرت کے ساتھ ظاہر ہوا ہے جس کی مثال غالب سے قبل نظر نہیں آتی۔
تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے اردو کے جدید ممتاز ناقدپروفیسر سرور الہدیٰ نے کہا کہ بنگلور کی ادبی زندگی کا خیال محمود ایاز کے بغیر نہیںآتا۔ انھوں نے ادب میں جو سلسلہ قائم کیا تھا وہ آج اس صورت میں نہ بھی ہو لیکن وہ کسی نہ کسی شکل میں باقی ضرور ہے کسی لمحے میں وہ توسیع کے ساتھ ظاہر ہوگی۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریساحمد نے کہاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ اردو کا ایک فعال ادارہ ہے اس ادارے نے اب تک تقریباً تین سو کتابیںشائع کی ہیں اور تقریباً دو سو سمینار کا انعقاد بھی کیا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کی ایک خوبصورت روایت یہ ہے ہم سال میں دو سمینار دہلی سے باہر کرتے ہیں۔اب تک ملک کے مختلف گوشوں میں نہایت کامیاب سمینار کر چکے ہیں جن کی روداد بھی کتابی شکل میں شائع ہو چکی ہے۔ مجھے عرصے سے یہ احساس تھا کہ جنوبی ہندستان مین اب تک اس طرح کا سمینار منعقد نہیں ہو سکا۔ جناب عزیز اللہ بیگ اور محترمہ شائستہ یوسف صاحبہ جن کی سر پرستی میں محمود ایاز میموریل ٹرسٹ خدمات انجام دے رہاہے ، جب ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے اپنے خواہش کا اظہار کیا اور انھوں نے نہ صرف اس تجویز کو پسند کیا بلکہ اپنے اشراک سے اس سمینار کا خاکہ تیا کیا۔ دوران ملاقات میں نے محمسوس کیا کہ وہ اردو اور محمود ایاز میموریل ٹرسٹ کی ترقی کے سلسلے میں بہت فعال ہیں۔
محترمہ شائستہ یوسف نے کہا کہ آج کے اس کامیاب افتتاح کے بعد سمینار کا ایک رخ متعن ہو گیا ہے کل پورے دن مقالے پیش کیے جائیں گے جس بعد میں کتابی شکل میں بھی شائع ہوں گے۔ میں غالب انسٹی ٹیوٹ اور تمام شرکا کی شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اس سمینار میں شرکت کی۔ افتتاحی اجلاس کے بعد شام غزل کا اہتمام کیا گیا جس میں محترمی کھنک جوشی نے اپنے خوبصور آواز میں غالب اور دوسرے اہم شاعروں کی غزل پیش کی جسے سامعین نے بہت پسند کیا۔ شام غزل کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر صبیحہ زبیر نے انجام دیے۔ اس اجلاس میں ادبی دنیا کی اہم شخصیات اور غالب کے شائقین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
دوسرے دن سمینار کے پہلے اجلاس کی صدارت پروفیسر شمس الہدیٰ نے کی اپنے صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ اور محمود ایاز میموریل ٹرسٹ کے ذمہ داران قابل مبارک باد ہیں کہ انھوں نے ایسا موقع فراہم کیا کہ اردو کی معتبر شخصیات سے ملاقات ہو گئی۔ سمینار کا بنیادی موضوع بہت اہم ہے اور یہ موضوع اس دنیا کے بیشتر مشائل سے بھی متعلق ہے۔ اس اجلاس میں جناب ملنسار اطہراحمد نے ’غالب اور عالمی انسانی قدریں‘ ڈاکٹر ادریس احمد نے کلام غالب اور عالمی انسانی قدروں کی تلاش، ڈاکٹر فجیہہ سلطانہ نے غالب کی شاعری میں عالمی انسانی قدریں، محترمہ مہر فاطمہ نے ’غالب اور عالمی انسانی قدریں‘کے موضورع پر مقالات پیش کیے۔
دوسرے اجلاس کی صدارت جناب ملنسار اطہر صاحب نے کی۔ اپنی صدارتی تقریر میں انھوں نے کہا کہ اس اجلاس کے تمام مقالے موضوع کے علاوہ اسلوب کی سطح پر بھی ہمیں متاثر کرتے ہیں۔ یہ وصف غالب کی شاعری کا بھی ہے کہ ان کے یہاں فکر و اسلوب دونوں کی معراج نظر آتی ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ اور محمود ایاز میموریل ٹرسٹ نے ایک مبارک قدم یہ بھی اٹھایا ہے کہ اس سمینار میں بزرگوں کے علاوہ نئی نسل کی بھی نمائندگی کو ممکنبنایا۔ اس اجلاس میں جناب راہی فدائی نے ’کلام غالب اور انسانی اقدار‘ پروفیسر شمس الہدیٰ نے ’عالمی انسانی قدیں کلام غالب کی روشنی میں، ڈاکٹر غضنفر اقبال نے ’کلام غالب میں انسانی قدروں کی تلاش‘ ڈاکٹر زبید ہ بیگم نے غالب اور عالمی انسانی قدریں (خطوط کے حوالے سے)‘ کے موضوع پر مقالے پیش کیے۔
تیسرے اور آخری اجلاس کے صدر جناب راہی فدائی نے کی۔ صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا کہ آج جو بھی مقالے پیش کیے گئے مجموعی طور پران کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ بڑی محنت سے لکھے گئے ہیں۔ ادب ہماری سماجی زندگی کا ایسا گوشہ ہے جس سے صرف جمالیاتی ذوق کی تسکین نہیں ہوتی بلکہ وہ ہمیں گفتگو، نشست و برخواست اور باہمی سلوک کا سلیقہ بھی سکھاتاہے۔ اس اجلاس میں پروفیسر میم نون سعید نے ’غالب کی بہو‘ جناب اکرم نقاش نے ’غالب ایک اسکیچ‘ پروفیسر سرورالہدیٰ نے ’گلشن ویمر میں تیرا ہمنوا خوابیدہ ہے‘ ڈاکٹر کوثر پروین نے ’غالب اور عالمی انسانی قدریں‘ اور ڈاکٹر فرزانہ فرح نے ’غالب اور انسان دوستی‘ کے موضوع پر مقالات پیش کیے۔ شکریے کی رسم ادا کرتے ہوئے پروفیسر سرورالہدیٰ نے کہا کہ غالب کی شاعری پیراڈاکس سے بھری ہوئی ہے ہم لاکھ موضوع قائم کر لیں لیکن غالب کی شاعری ساری حدبندیوں سے پھسلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور یہی ان کی عظمت کا راز ہے۔ محمود ایاز میموریل ٹرسٹ کے صدر جناب عزیز اللہ بیگ نے کہا کہ ہم بنگلور میں اردو ادب کے فروغ اور محمود ایاز صاحب کی یاد کو باقی رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے اراکین کا تہ دل سے شکریہ ادا کرنا اپنا فریضہ سمجھتا ہوں کہ انھوں نے دکن کی طرف توجہ کی اور ایک کامیاب سمینار کا انعقاد کیا۔ میں تمام حاضرین کا بھی شکر گزار ہوں کہ انھوں اتنی دلچسپی سے تمام مقالات سنے۔سمینار کے بعد مشاعرے کا انعقاد ہوا جس کی صدارت اردو کے ممتاز شاعر و ادیب جناب خلیل مامون نے کی، جناب ایم ایچ اعجاز علی جوہری نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی اور نظامت کے فرائض جناب شفیق عابدی نے انجام دیے۔ جن شعرا نے مشاعرے میں شرکت کی ان کے نام اس طرح ہیں: ڈاکٹر شائستہ یوسف، جناب راہی فدائی، جناب اکرم نقاش، جناب ساجد حمید، ڈاکٹر فرزانہ فرح، جناب غفران امجد، جناب شفیق عابدی، اور جناب حافظ کرناٹکی

Felicitation to the Distinguished Urdu Scholar Prof. Gopi Chand Narang

غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے پروفیسر گوپی چند نارنگ کی ادبی خدمات کے اعتراف میں استقبالیہ
اردو کے معروف نقادودانشور پروفیسر گوپی چند نارنگ کی ادبی خدمات کے اعتراف میں غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے ایک استقبالیہ تقریب کا انعقاد کیاگیا۔ اس موقع پر پروفیسر گوپی چند نارنگ (مقیم حال امریکہ) نے آن لائن شرکت کی۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے کہا کہ اردو میرے لےے ایک بھید بھرا بستہ ہے میں حیران ہوں کہ مجھے سرائیکی، فارسی، ہندی، سنسکرت اور انگریزی زبانیں آتی ہیں لیکن نہ معلوم اس زبان میں کیا جادو ہے کہ مجھے کسی زبان کی طرف ایسی رغبت نہیں جیسی اردو کی طرف ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ اردو غزل نے ۰۲سے زیادہ ممالک کاسفرکیالیکن کسی دوسرے ملک میں ایک ثقافتی مطہرکے طورپر لوگوں کے ذہن میں اپنی جڑیںاس طرح پیدا نہیں کرسکی جیسا ہندستاں میں کیا۔ میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے تمام اراکین اور جلسے میں موجود تمام حاضرین کا تہ دل سے شکرگزار ہوں کہ آپ نے میری اتنی عزت افزائی فرمائی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر جناب سید شاہد مہدی نے کہاکہ پروفیسر گوپی چند نارنگ اردو کے ایسے دانشور ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ شاید ایسا کوئی طالب علم نہ ہوگاجس نے ان سے استفادہ نہ کیاہواور کوئی ایسا ادیب نہ ہوگاجس نے ان سے تعلق پر فخر نہ کیاہو۔ انہوں نے اردو میں بہت کچھ لکھااور جو کچھ لکھااس میں بڑی تازگی اور بصیرت ہے۔کملیشور صاحب نے کہاتھاکہ ہر ہندستانی زبان کو ایک گوپی چند نارنگ کی ضرورت ہے۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمدنے تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے کہاکہ غالب انسٹی ٹیو کی روایت رہی ہے کہ وہ بزرگ ادیبوں کی خدمات کے اعتراف میں استقبالیہ تقریب کا انعقاد کرتاہے۔ قاضی عبدالودود، آل احمد سرور، مالک رام اور شمس الرحمن فاروقی جیسی علمی شخصیات اس خوبصورت روایت کاحصہ بن چکی ہیں۔ اس مرتبہ ہمیں خوشی ہے کہ ہم یہ جلسہ پروفیسر نارنگ صاحب کی علمی خدمات کے اعتراف میں منعقد کر رہے ہیں،نارنگ صاحب اس دور کے اردو کے ممتاز ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں، انہوں نے جو کچھ لکھا اس میں بڑی بصیرت اور ریاضت شامل ہے، میں اپنی جانب سے اور انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے ان کا اور تمام مقررین اور حاضرین کاشکرگزار ہوں کہ آپ نے اس استقبالیہ میں شرکت منظور فرمائی۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کہاکہ پروفیسر گوپی چند نارنگ سے میرے دیرینہ مراسم ہیںاور میںنے انہیں علمی سفرمیں ہمیشہ تازہ دم دیکھا۔ انہوں نے ہمیشہ ریاضت پر بھروساکیااور شخصی تنقید سے گریزکیا۔ یہی سبب ہے کہ آج پوری دنیا میں جہاںجہاں اردو بولی اور پڑھی جاتی ہے ان کا نام بطور رہنما لیا جاتاہے۔ جناب سیفی سرونجی نے کہاکہ میں زندگی میں ایسا شخص نہیں دیکھاجو اردو سے ٹوٹ کے محبت کرتاہو۔وہ بڑے عالم ہی نہیں بڑے انسان بھی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ نارنگ صاحب بولیں تو منھ سے پھول جھڑتے ہیں میں کہتاہوںکہ پھول ہی نہیں پھل بھی جھڑتے ۔ اردو میں پھولوں کی بارش تو بہت ہوتی ہے ایک ایسے شخص کی بھی ضرورت تھی جس کے یہاں پھلوں کی بارش ہواور اب شخص نارنگ صاحب کی صورت میں ہمارے یہاں موجود ہے۔ پروفیسر شافع قدائی نے کہاکہ بڑا آدمی وہی ہوتاہے جوایسی بات کہتاہے جو سب سے ہٹ کر ہواور بصیرت میں جلا پیدا کرے۔ یہ وصف نارنگ صاحب کے یہاں بخوبی موجود ہے۔ مثلاً پریم چند اردو اور ہندی کے سب سے مقبول افسانہ نگار ہیں ان پر شاید ہی کوئی ناقد ہو جس نے مضمون نہ لکھا ہو۔ ان کے افسانے کفن کا بہت ذکر ہوتاہے اور کفن کی الگ الگ تعبیریں کی جاتی ہیں، لیکن نارنگ صاحب نے یہ نکتہ پیداکیاکہ بدھیاکے شکم میں جوبچہ تھاجواصل میں گہوارہ ہوناچاہےے تھالین وہی اس بچے کا کفن بن گیا۔ اسی طرح غالب ایک ایسا موضوع ہے جو سب سے زیادہ عام ہے لیکن نارنگ صاحب نے اس موضوع میں نئے گوشے اور نئے پہلو سے گفتگو کی۔ پروفیسر شہزاد انجم نے کہاکہ مجھے نارنگ صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملاہے اور انہوں نے مجھے کئی سطح پر بہت متاثر کیامثلاً وہ جید عالم ، بہترین مقرر اور اچھے منتظم ہیں۔ انہوں نے جس ادارے کی باگ ڈور سنبھالی اسے بام عروج پر پہنچا دیا۔ مجھے اردو میں تین مقررین نے بہت متاثرکیاجن میں علی سردار جعفری، پروفیسر آل احمد سرور اور گوپی چند نارنگ شامل ہیں۔ اردو میں بے شمار سمینار اور مذاکرے ہوئے ہیں لیکن پروفیسر نارنگ نے جن سمینار کا انعقاد کیاوہ آج بھی بطور حوالہ یاد کےے جاتے ہیں۔ وہ ایک صاحب اسلوب ادیب ہیں اگر ان کی کتاب کا ایک پیراگراف نکال کرالگ سے پڑھاجائے تو اندازہ ہوجائے گاکہ وہ نارنگ صاحب کی نثر ہے۔
اس موقع پر غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے پروفیسر گوپی چند نارنگ کو سپاس نامہ، شال، مومنٹو اور پچاس ہزار روپے کا چیک پیش کیا گیاجس کو ان کی غیر موجودگی میں جناب موسیٰ رضا صاحب نے حاصل کیا۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے سہ ماہی انتساب اور ماہنامہ عالمی زبان کی چیف ایڈیٹر محترمہ استوتی اگروال صاحبہ کو اردو میں نمایاں کارکردگی اور ۰۱ویں کلاس میں اردو مضمون میں ۵۹فیصد نمبر حاصل کرنے کے لےے اردو دنیا کی جانب سے ایک سال اور گلدستہ پیش کیااور انہیں روشن مستقبل کے لےے دعائیں دی۔ اس اجلاس میں اردو کی بڑی نامور شخصیات کے علاوہ دیگر علوم و فنون سے تعلق رکھنے والے افراد اور طلبانے بڑی تعداد میں شرکت فرمائی۔
تصویرمیں ڈائس پربائیں سے سیفی سرونجی،ڈاکٹرادریس احمد، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی،جناب شاہد مہدی،پروفیسر شافع قدوائی اور پروفیسر شہزاد انجم

From left to right are Dr. Dris Ahmed, Mr. Saifi Saronji, Prof. Sadik-ur-Rehman Kidwai, Mr. Shahid Mehdi, Prof. Shafi Qadwai, and Prof. Shehzad Anjum.

تصویرمیں ڈائس پربائیں سے ڈاکٹرادریس احمد،سیفی سرونجی، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی،جناب شاہد مہدی،پروفیسر شافع قدوائی اور پروفیسر شہزاد انجم

اُردو نثرکی تاریخ میں غالب کا عہد

پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی
(پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی اردو کے بزرگ استاد اور مستند نقاد ہیں۔ انھوں نے دہلی یونیورسٹی اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں طویل مدت تک درس و تدریس کے فرائض انجام دیے. پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی کی تحریروں میں ٹھہراؤ، مسائل کی سنجیدگی اور اس کی بنیادوں کو تلاش کرنے کا طریق سب سے زیادہ متاثر کن وصف ہے۔ یہ مضمون عہد غالب کی نثر اور نثر کے ارتقا پر بحث کرتا ہے۔ عام طور پر جدید نثر کی بنیادی شناخت کے سلسلے میں ذہن صاف نہیں ہیں۔ اُردو نثر کی تاریخ میں غالب کے عہد کے مطالعے کامقصد ان اسباب کی شناخت کرنا ہے جنہوں نے اس عہد کی نثر کی زبان اور اسالیب کی ساخت اور ان کے ارتقا کے رُخ کو متعین کرنے میں حصہ لیا۔ غالب کے عہد سے مراد غالب کاپورا عرصۂ حیات ہے۔ اس مضمون سے ان اسباب پر روشنی پڑتی ہے جنھوں نے اردو نثر کے رخ کو بدلا اور اس کی ساخت کو متعین کیا۔)

اُردو نثرکی تاریخ میں غالب کا عہد
غالب کے عہد کے بارے میں سیاست، معاشیات اور تاریخ کے زاویے سے بہت کچھ لکھا جاچکاہے۔ ان کی ہم عصر ادبی شخصیات اور ان کے کارناموں پر بھی اہم تحقیقی کام ہوا ہے، مگر تاریخِ ادب کے نقطۂ نظر سے اس عہد کے اردو ادب پر کم اور اردو نثر پر اور کم توجہ دی گئی۔ چنانچہ غالب کے دور کی ادبی اہمیت کا کوئی مربوط اور جامع تصور ابھی تک ہمارے سامنے نہیں۔ ادب میں نمودار ہونے والی عہد بہ عہد تبدیلیوں کے اسباب کا ذکر بس عمومی اور سرسری طور پر ملتا ہے، جوبسا اوقات خود ادب سے غیر متعلق ہوتا ہے۔ کتابوں میں سیاسی و سماجی پس منظر کے عنوانات کے تحت صفحات کا اضافہ تو ہوا مگر یہاں بھی محض تاریخ و تہذیب کی معروف کتابوں کے بیانات کو دہرا دینے پر ہی اکتفا کر لیا گیا اور ادب کی سماجی تبدیلیوں کے رشتوں اور ان رشتوں کی پیچیدگیوں کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ تاریخ ادب کے ادوار کاذکر عام طور سے ملتا ہے مگر یہ ذکر جدید اور قدیم کے تصوّر سے بالکل عاری ہوتا ہے۔ اس مفروضے کی بنا پر کہ سادہ اور سلیس نثر کا پایا جانا ہی جدید نثر کا نقطۂ آغاز ہوسکتا ہے، فورٹ ولیم کالج کو اس کی پہلی کڑی مان کر غالب کو اور پھر سرسیّد کو اس سے جوڑ دیا گیا، اور یہ سمجھا جانے لگا کہ فورٹ ولیم کالج کی نثر سے غالب متاثر ہوئے اور غالب کی نثر سے سرسید؛ جب کہ اس کی کوئی شہادت نہیں ملتی۔ یہ بھی کہا گیا کہ فورٹ ولیم کالج ایک جزیرہ تھا جس نے ہندستان میں فروغ پانے والی ادبی اقدار سے نہ کوئی اثر لیا اور نہ اس کا کوئی اثر اوروں پر پڑا۱۔ یہ سب تصورات ادھوری سچائیوں پر تکیہ کرتے ہیں۔ تاریخ کے تسلسل اور ارتقا کو دریافت کرنے کی کوشش کا پتا تو دیتے ہیں مگر ایک عہد سے دوسرے عہد تک روایت میں تبدیلی کے عمل پر روشنی نہیں ڈالتے، جس کی بنا پر ادبی تاریخ کے سارے رشتے بظاہر میکانکی معلوم ہونےلگتے ہیں۔
اگر ہم سادہ اور سلیس نثر کو جدید نثر مان لیں توپھر نثر کا جدید دور فورٹ ولیم کالج سے کیوں شروع کیا جائے، ملّا وجہی کی سب رس سے کیوں نہ مانا جائے اور پھر قصۂ مہر افروز و دل بر کو جدید نثر کا نمونہ مان لینے میں کیا قباحت ہے۔ یعنی جدید نثر ہمارے ہاں روز اوّل سے موجود تھی۔ اگر صنعت گری اور قافیہ اور سجع کو قدیم نثرکا بنیادی وصف مان لیں تو فورٹ ولیم کالج کے مصنفین اور غالب دونوں کے ہاں صنعتوں کی نہ صرف کمی نہیں بلکہ وہ ان کااستعمال اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق نہایت فن کارانہ طورپر کرتے ہیں۔ توپھر انہیں قدیم کیوں نہ مانا جائے۔ اور اگر یہ مان لیاجائے کہ فورٹ ولیم کالج ہندستان کی ادبی فضا میں ایک جزیرے سے زیادہ نہیں تھا تو رجب علی بیگ سرور نے میر امن کے طرز کو اپنے لیے ایک چیلنج کے طورپر کیوں قبول کیا اور اس کا جواب فسانۂ عجائب کی شکل میں دینا کیوں ضروری سمجھا۔ ان کے علاوہ اس طرح کے بیانات کہ “اگر مرزا کے لیے ممکن ہوتا تو وہ یقینا ناول کا فن اختیار کرتے۔ مگر ناول کا ان کے سامنے کوئی نمونہ موجود نہ تھا۔ پس انہوں نے خطوط کو ذاتی اور عصری تجربات کے اظہار کا ذریہ بنایا۲۔ “غالب کی ادبی شخصیت اور ان کے عہد پر روشنی ڈالنے کی بجاۓ انہیں خود اپنی خواہشات کے دُھندلکوں میں لا کر کھو دیتے ہیں۔
اُردو نثر کی تاریخ میں غالب کے عہد کے مطالعے کامقصد ان اسباب کی شناخت کرنا ہے جنہوں نے اس عہد کی نثر کی زبان اور اسالیب کی ساخت اور ان کے ارتقا کے رُخ کو متعین کرنے میں حصہ لیا۔ غالب کے عہد سے مراد غالب کاپورا عرصۂ حیات ہے۔ غالب کی ادبی تخلیقات کا سلسلہ ظاہر ہے کہ ان کے روز ولادت سے شروع نہیں ہوا۔ اور نہ اُردو نثرکی تاریخ میں 1797 اور 1869 کی بجز اس کے کہ وہ ایک عظیم ادبی شخصیت کی ولادت و وفات کی تاریخیں ہیں کوئی اور اہمیت ہے۔ غالب کی پہلی نثری تحریر جس دن بھی ظہور میں آئی ہو، انہوں نے جس قسم کی نثر لکھی اس کو وجود میں لانے والے عناصر اٹھارہویں صدی کے اواخر اور غالب کی ولادت سے پہلے نمایاں ہونے لگے تھے۔ ان عناصر نے اُردو ادب پراپنے اثرات مختلف صورتوں میں ڈالے ہیں جن میں سے ایک صورت وہ ہے جس کی نمایندگی غالب کے خطوط کرتے ہیں، مگر غالب کے خطوط میں یہ عناصر اتنے ڈھلے ہوئے، اتنے ترشے ہوئے ہیں کہ غالب اوروں پر چھا جاتے ہیں اور خود اپنے عہد کے ادبی کلچر کے عروج کی علامت بن جاتے ہیں۔ غالب کے عہد کےایک سرے پر اگر میرامن ہیں تو دوسرے سرے پر سرسید، حالی، آزاد اور نذیر احمد اور درمیان میں انشاءاللہ خاں، رجب علی بیگ سرور اور قدیم دہلی کالج کے مصنفین۔ ہماری سیاسی اور تہذیبی تاریخ کی طرح اُردو نثر کی تاریخ میں بھی غالب کا دور عبوری دور ہے۔ چنانچہ یہ بات قابلِ غور ہے کہ یہ عبوری منزل کس طرح آئی اور پھر کیسے سرہوئی۔ اُردو نثر ‘قدیم’ سے ‘جدید’ کس طرح بنی۔
عہدغالب کی تہذیبی زندگی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس وقت ہندستان کی بہت سی زبانیں جوآج جدید زبانیں کہلاتی ہیں، اپنے ارتقا کی ایک ایسی منزل میں پہنچ رہی تھیں جہاں وہ اس خلا کو پُر کرسکیں جو کلاسیکی زبانوں کےاثرمیں کمی واقع ہونے سے پیدا ہو رہا تھا۔ ان زبانوں کے نقش توبارہویں تیرہویں صدی سے ملتے ہیں مگر ان کی تیز رفتار ترقی کا زمانہ عہدِ مغلیہ اور خصوصاً اُس کا عہدِ زوال ہے۔ اس زمانے میں دہلی کی مرکزیت کے کمزور ہونے سے سیاسی طورپر خود مختار علاقائی وحدتوں میں وہ طبقے ابھرنے شروع ہوئے جو علاقائی تہذیبوں کے حامل تھے۔ چنانچہ یہی وہ زمانہ ہے جب مصوّری، موسیقی، رقص، فنِ تعمیر غرض کہ ہر شعبے میں علاقائی اسکولوں کے طرز ظہور میں آنے لگے، یہ لوگ سنسکرت اور فارسی سے زیادہ اپنی علاقائی زبانوں سے وابستگی رکھتے تھے جو ان کی شناخت کی علامتیں بھی تھیں۳۔ اُردو زبان بھی اس تاریخی عمل سے متاثر ہوئی۔ اس وقت کے ہندستان میں کسی بھی قومی زبان کے لیے فارسی کی جگہ لینا ناممکن تھا۔ فارسی اس وقت ایشیا کے مختلف ملکوں کے درمیان علمی، سیاسی، ثقافتی اور مذہبی رابطے اور تبادلۂ خیال کی زبان تھی اور پڑھے لکھوں کی سماجی حیثیت ان کے فارسی میں علم و استعداد سے ہی متعین ہوتی تھی۔ اس کی بدولت سرکار و دربار میں اعلا مراتب بھی مل سکتے تھے؛ عام لوگوں میں وقاربھی اور صلاحیت ہوتو ہندستان سے باہر شہرت بھی۔ مگر فارسی کا اثر کچھ تو ہندستان کے مرکزی نظام کی برہمی کے ساتھ اور کچھ خود فارسی زبان کو پروان چڑھانے اور مقبول بنانے والے خطّے یعنی ایران کے پچھڑ جانے کے سبب کم ہورہا تھا کیوں کہ اب وہاں کے لوگ اُسے پہلے کی طرح ہر لحظہ تازہ تر علمی، فنّی اور فکری خزانوں سے مالامال نہیں کر رہے تھے۔ عالمی تہذیب کے نئے مراکز مشرق سے مغرب کی طرف منتقل ہورہے تھے۔ فارسی اب اُن سرچشموں سے دور ہوتی جارہی تھی جو کبھی اُسے سیراب کرتے رہے۔ پھر وہ ہندستان میں بہرحال ایک بیرونی زبان تھی اور اس کا سکّہ یہاں کے پڑھے لکھے اور بااثر طبقے میں چلتاتھا۴۔جب اس طبقے کا اثر ختم ہونے لگا تو نئے طبقے اُبھرے جن کی زبانیں غیر ترقی یافتہ تھیں اور ان زبانوں کو زندگی کی مختلف سطحوں پر پھیلنے اور بڑھنے کا پورا موقع ملا۔ مگریہ بھی ممکن نہ تھا کہ کوئی نئی زبان اچانک کسی ترقی یافتہ اور مقبول زبان کی جگہ حاصل کرلے۔ چنانچہ شمالی ہندستان کی زبانوں نے خصوصاً اردو نے جو دہلی اور اس کے نواح کی زبان ہونے کے باعث سارے ملک کے بڑے شہروں اور راجدھانیوں میں بولی اور سمجھی جاتی تھی فارسی زبان و ادب کے قابلِ قبول اقدار و عناصر کو جذب کرنا شروع کیا اور عام بول چال کی سطح سے ادبی علمی اور رسمی استعمال کی سطح تک پہنچنے کے لیے اپنا زور اور دباؤ بڑھانے لگی۔ رسمِ خط، آوازیں، اصولِ شعریات، اصناف، پیرایہ ہاے اظہار، الفاظ، تلمیحات وغیرہ اردو زبان نے فارسی سے لے کر اپنے علاقائی جینئیس کے مطابق ڈھال لیے اور اس طرح ایک تغیر پذیر تہذیبی فضا کے ساتھ ساتھ ایک نیا ادبی ماحول تشکیل پانے لگا۔ دوسری ہندستانی زبانوں کے ساتھ اُردو زبان کے فروغ کا یہ عمل 1857 کے بعد پھر دھیما پڑگیا۔ کیوں کہ اب ایک اور ترقی یافتہ زبان انگریزی جوکہ عہد وسطا کی فارسی سے بھی زیادہ قوت رکھتی تھی، برطانوی سامراج کے جلومیں ہندستان آئی اور تیزی کے ساتھ چھاگئی۔ غالب کا عہد تبدیلی کے اسی عمل سے گزر رہاتھا۔ ملک کے مختلف خطّوں میں اردو میں تصنیف و تالیف اور تراجم کی سرگرمیاں اس تبدیلی کی نشان دہی کرتی ہیں۔ اُردو ادب میں اٹھارہویں صدی کے آخر تک فارسی ادب کے اثرات نمایاں اور اُنیسویں صدی میں کم ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اُنیسویں صدی کے ابتدائی برسوں سے ہی انگریزی زبان اور ادب سے آشنائی کی شہادتیں ملنے لگتی ہیں اور اس کے بعد انگریزی سے استفادے بلکہ مرعوبیت کے واضح نشانات بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ نوطرزِ مرصّع فارسی کے بوجھ سے ہلکان ہونے کے باوجود ایک ایسی ادبی منزل کی نشان دہی کرتی ہے جب اس کا مصنف، جو پہلے محض فارسی میں لکھا کرتا تھا۔ اب خود کو اس بات پر آمادہ پاتا ہے کہ بقول اپنے اس ‘کندۂ نا تراش’ کو خراد پر چڑھا کر شرفا کی مجلسوں میں باریاب ہونے کے قابل بنائے۔ تحسین کو اس کا علم نہیں کہ اُن سے پہلے سب رس، کربل کتھا اور مہرافروز دلبر کا قصہ لکھا جا چکاہے۔ چنانچہ انہوں نے اس کا دعوا کیا کہ ان سے پہلے “کوئی موجد اس ایجاد تازہ کا نہ ہوا۔” اس دور کے شاعروں کی طرح بیشتر نثر نگاروں کے سوانح سے بھی یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان کے آباو اجداد دودمانِ تیموریہ یا اس کے قبل سے حکمرانوں کی ملازمت میں ہندستان آئے۔ مقرب بارگاہ ہوئے۔ اونچے مرتبے اور خطابات سے سرافراز ہوئے، جاگیریں پائیں اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ان کا خاندان فلکِ کج رفتار کی گردش کی بدولت دربدر ہوا پھرمدتوں بعد کسی نواب وزیر کی عمل داری میں صاحبانِ والاشان، کی سرپرستی سے دن پھرے اور کرم فرماؤں کی خواہش، اپنی ضرورت اور ساتھ ہی ساتھ طبیعت کی جولانی نے اُردو زبان میں داستان یا کوئی اور کتاب لکھنے کی طرف راغب کیا۔ چنانچہ یہ محض اتفاق نہیں کہ جب مغل سلطنت اور اس کے ساتھ عہد وسطاکی تہذیب زوال پذیر ہوئی تو اسی افراتفری نے ان قوتوں کو بھی جنم دیا،جو مستقبل میں فروغ پانے والی تھیں۔ دوسری ہندستانی زبانوں کی طرح اُردو بھی انھی میں سے ایک تھی۔

تحسین ہی کے ہاں نہیں اس عہد کے تمام مصنفین کے ہاں فارسی ادب کی روایات کسی نہ کسی لحاظ سے ایک مثالی حیثیت رکھتی ہیں۔ میرامن سے غالب تک سب ہی کی نثرمیں اس کے واضح نقوش ملتے ہیں۔ خود غالب، رجب علی بیگ سرور کے طرز کے مداحوں میں تھے۔ چنانچہ بول چال کی نثرنہ صرف فارسی آمیز نثرکے دوش بدوش موجود تھی بلکہ وہ فارسی انشا پردازی کی روایت سے بھی خاصی متاثر تھی۔ پیچیدہ اور دقیق طرز فرصت و فراغت رکھنے والے طبقوں میں مقبول تھااور یہ گنجلک انداز آج بُرا نہیں بلکہ اہلِ مذاق کی صلاحیتوں کو جانچنے کاپیمانہ تھا۔ عام بول چال کی زبان میں علم و ادب کی ضروریات کوپورا کرنے والی روایات ابھی تھیں ہی نہیں۔ لہٰذا اس نے فارسی کا سہارالیا۔ مگر وہ اس سہارے کے ساتھ ہی خود اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کر رہی تھی اور اس کے لیے اُسے اپنی ہی زمین سے قوت بھی حاصل ہورہی تھی۔چنانچہ نوطرزِ مرصع اور فسانہ عجائب جیسی کتابیں آج اپنے اسلوب کی دقتوں کی بناپر کتنی ہی فارسی آمیز ہوں، یہ ہماری تاریخِ ادب کے اس عبوری دورکی شہادتیں ہیں جب نثر کی روایات ایک سیال حالت میں نمودار ہونا شروع ہوئی تھیں۔ تاریح کے پورے تناطرمیں دیکھا جائے تو تحسین، میرامن، غالب، سرور، دہلی کالج اور بعدمیں سرسیّد احمد خاں کی تحریک نثر کی ایک ہی سفرکی مختلف مگر باہم مربوط منزلیں ہیں۔
نثرمیں سادہ اور سلیس طرز کا  ارتقا جوپہلے رُک رُک کر ہو رہا تھا انیسویں صدی کے وسط سے تیز رفتار ہوگیا۔اب اس کے راستے سے نہ صرف رکاوٹیں دور ہورہی تھیں بلکہ اُسے فروغ دینے والے نئے نئے اسباب بھی پیداہورہے تھے۔ اب سادہ طرز خلّاق ذہنو ں کے لیے ایک چیلنج بن گیاتھا۔ ہمارے شاعر اس آزمایش سے بہت پہلے کامیاب گزر چکے تھے۔نثر میں یہ منزل بہت دیر سے آئی۔ اتنی دیر سے کہ جس وقت اردو شاعری میروسودا جیسے باکمالوں پر فخر کرسکتی تھی اردو نثر محض عطاخاں تحسین تک ہی پہنچی تھی۔ خود تحسین نے نوطرزمرصع میں جا بجا سودا کے اشعار پروکر نثر و نظم کے ارتقائی مدارج کے درمیان خلیج کو عیاں کردیاہے۔مگر اس عہد کی اردو شاعری سے اس زبان کی لچک اور قوتِ نموکابھی اندازہ ہوتاہےا ور یہی وجہ تھی کہ جب برطانوی سامراج نے سوداگری سے ملک گیری کی منزل میں قدم رکھاتو ان کی سیاسی حکمتِ عملی کے خاکے میں اس زبان کو بہت اہمیت دی گئی۔ اس زمانے کے یورپی تاجروں، سیّاحوں، مسیحی مبلّغوں اور مہم جو نوجوانو ں نے اپنی تصانیف میں باربار اس حقیقت کاانکشاف کیاہے کہ ہندستان کے ہر علاقے میں اس ایک زبان سے کام چل جاتاتھاجوان کی اصطلاح میں ’ہندستانی تھی‘۔ گل کرسٹ نے جب1828 میں سورت کی بندرگاہ سے کلکتہ تک کا سفر کیاتو اُسے جو مشترک زبان ہرجگہ ملی اس کا بہترین نمونہ اس کے نزدیک کلیات سودا تھی۔ فورٹ ولیم کالج اور اس کی نثر اسی لسانی اور ادبی صورت حال کے ادراک کاپتا دیتی ہے۔ ہماری تاریخ ادب میں فورٹ ولیم کالج کے بارے میں ادبی مورخوں نے اب تک جو کچھ لکھا ہے وہ اس مفروضے پرمبنی ہے کہ سادہ اور سلیس بلکہ جدید نثر فورٹ ولیم کالج کی ایجاد ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ فورٹ ولیم کالج نے ایک تہذیبی عمل کی جو عرصے سے جاری تھا واضح شہادت دی، اُسے تسلیم کیا اور اپنے ذرائع اور وسائل کی بدولت نہایت منظم طورپر اس کاعملی اظہار کیا۔ کالج کے مقاصد میں ادب کی خدمت کرنانہیں بلکہ سامراجی مقاصد کے حصول کے لیے ہندستانیوں کی ایک بڑی تعداد سے رابطے کا وسیلہ دریافت کرنا تھا۔ اس صورت حال کواُس عہد کے سب ہی لوگ تسلیم کررہے تھے۔ انشا کی رانی کیتکی کی کہانی کی زبان محض ان کی ندرت پسندی اور طباعی کانتیجہ تھی اور کسی عہدمیں بھی نہ رائج تھی نہ رہ سکتی تھی مگر اس طرح کا تجربہ خود اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتاہے کہ ایک تغیر پذیر لسانی صورت حال کو سب ہی ذہین تخلیق کار کسی نہ کسی طورپر دیکھ رہے تھے اوراپنے اظہارکے لیے نثر کے ایک ایسے طرز کی طرف آنے کی کامیاب یاناکام کوشش ضرور کر رہے تھے جس کی اساس عام بول چال کی زبان ہو۔زبان کے اس نئے طرز کے زیادہ حقیقت پسندانہ ادراک کااندازہ انشاہی کی 'دریاے لطافت' کے ان صفحات سے ہوتا ہے جہاں انہو ںنے اپنے عہد کی زبان کا تجزیہ زیادہ وضاحت سے کیاہے۔ ان کے علاوہ فقیر محمد گویا، غلام غوث بیخبر، غلام امام شہید اور دوسرے چھوٹے بڑے مصنفین کے ہاں بھی اسی طرز کی نثر نظر آتی ہے جو ادبی اعتبار سے میرامن اور غالب کے پائے کے نہ سہی،مگر تاریخِ ادب کے نقطہ نظر سے ان کی اس اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ وہ اس تیز رفتار سفرکے نقوش و آثارہیں اور گواہی دیتے ہیں کہ نثرکایہ طرز اچانک نہیں ابھرا اور نہ کسی خاص فردیاتحریک کی ایجاد تھابلکہ یہ ایک تاریخی تقاضا تھاجسے اس عہدکاہر ادیب، خواہ وہ کہیں ہو اور کسی بھی مقصد کے تحت لکھ رہاہو، اپنی نگارشات کے ذریعے تسلیم کرتاتھا۔
اس دورکاایک اہم اور انقلاب آفریں واقعہ پرنٹنگ پریس کا استعمال ہے۔ اس سے پہلے ادب کی رسائی صرف صاحبِ استطاعت لوگوں تک تھی۔ پرنٹنگ پریس نے ادبی تخلیقات کو اس نئے اور بڑھتے ہوئے متوسط طبقے تک پہنچا یاجو انیسویں صدی میں تیزی کے ساتھ فروغ پانے لگا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو زندگی کی آسایشوں کے لیے بڑی بڑی جایدادوں یا سرکار دربار کی سرپستی پر زیادہ انحصارنہیں کرتے تھے۔ انہیں اُن نئے پیشوں کی کشش کھینچ رہی

تھی جو انگریز سرکار اور اس کے لائے ہوئے تاجرانہ اور صنعتی نظام کے طفیل وجود میں آرہے تھے اور جن کے لیے نئی قسم کی استعداد رکھنے والے لوگ درکار تھے۔ادب کے نئے قارئین اباسی طبقے سے اُبھر رہے تھے۔ انگریزوں کی سرپرستی میں نئی تعلیم نے اس طبقے کونہ صرف سہارا دیا بلکہ اُن پر علم و ادب اور فنون کی ایک نئی دنیا کے دروازے کھول دیے۔ چنانچہ اب ایک ایسی زبان اورایسے طرز کانشو و نماپانالازم ہوگیاجو نہ تو محض کسی دربار کی رونق ہوکر رہ جائے اور نہ صرف ’صاحبانِ نوآموز‘ کی درسی ضرورتوں تک محدود ہو۔اب وہ زبان درکار تھی جو روز مرّہ کی بول چال میں بھی کام آسکے اور علم و ہُنر کی ان جہتوں اور افکار و خیالات کی ان بلندیوں اور گہرائیوں کوبھی ناپ سکے جومغرب سے رابطے کے نتیجے میں نئے نظام کی بدولت وجود میں آ رہے تھے۔اردو زبان کی راجدھانی دہلی عملاً 1830 میں انگریز کے قبضے میں آچکی تھی اور دہلی کی زندگی میں یہ عناصراپنے قدم جماتے چلے جارہے تھے جو دہلی کالج میں اپنے نقطہ عروج کو پہنچے۔ 1830 اور 1857 کے درمیان کی دہلی پرایک طرف ایک سورج کے ڈوبنے کی سُرخی تھی تو دوسری طرف ایک نئے اُبھرنے والے طبقے کی امیدوں کاسویرابھی جھلک رہاتھا۔ یہ امیدیں پوری ہوئیں یا نہیں، تفصیلی بحث کاتویہاں موقع نہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ اس عہدکے اُردو ادب پر اس فضا کا بہت گہرااثر پڑا۔ اور افردو نثرکے سادہ و سلیس طرز کے رواج میں بھی اس نئے شعور کا بڑا دخل ہے۔ غالب کے اردو مکاتیب کے ظہورمیں آنے سے بہت پہلے 23 مئی 1941 کودہلی اُردو اخبارمیں ایک مکتوب نگار ’محمد‘ کایہ خط قلعہ معلّی کے حالات کے بارے میں نظر آتاہے۔
”کہتے ہیں کہ مختارِ نوتجربہ کار اور بظاہر نام مرزا شاہ رُح بہادرکا لیکن ایک حکیم جواب معالج حضور والاکے۔ اور دوایک لڑکے راجا جے سُکھ راے کے اور کوئی ملّا زادہ جو حافظ کرکے مشہورہے، اور چند حواشی اس قسم کے مجتمع ہیں۔جو چاہتے ہیں سوکرتےہیں۔ اموراتِ سلطنت میں اب یہ لوگ اختیار تام رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ طبیب نبض دیکھنی جانے، قارورہ پہچانے، بنیا مہاجن دکان داری جانے ۔ ملّا زادہ لڑکے پڑھنے پڑھانا جانے،اموراتِ مہمات سلطنت سے ان کو کیا نسبت۔ جب یہ لوگ مدارِ سلطنت ہوں تو کیا حال ہووے؟“(5)
مقدمہ شعروشاعری اور تہذیب الاخلاق سے بہت پہلے ستمبر 1847 میں خیر خواہ ہند کے صفحات پر اور اس کے بعد فوائد الناظرین کے شماروں میں ماسٹر رام چندر اُردو شعروادب پر سماجی اثر پذیری کے نقطہ نظر سے بہت تفصیل کے ساتھ تنقیدی مضامین لکھ چکے تھے۔ مکتوب نگاری کے بارے میں بھی ان کاایک مضمون 1849ءمیں شائع ہواتھاجس میں انہوںنے خط کو ’نائب وخلیفہ تقریرکا‘ کہا تھااور مکتوب نگاری کے رائج طرز پر کڑی تنقید کی تھی۔ اسی کو دیکھ کر پنڈت برج موہن کیفی کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ غالب نے سادہ اندازمیں خطوط لکھنے کا خیال ماسٹر رام چندر سے ہی لیا ہوگا۔ (6) دراصل ہمارے ہاں ادبی تاریخ سے متعلق غلط فہمیوں کاایک سبب ہماری ہیروپرستی بھی ہے۔ ہم غالب یا کسی اور عظیم شخصیت کی عظمت کو ان کے عہدکی تہذیبی تاریخ کے تناظر میں دیکھنے کی بجاے ہر اچھی بات کو اُن سے غلط یا صحیح منسوب کردیتے ہیں۔ غالب کی عظمت کاانحصاراس پرہرگز نہیں کہ انہوں نے سادہ طرز میں خطوط لکھنے میں پہل کی۔ کیونکہ یہ سب تو ان سے پہلے موجود تھا مگر اس کے باوجود غالب کی تاریخی اور ادبی اہمیت کم نہیں ہو سکتی۔ اُردو نثر کی تاریخ کے نقطہ¿ نظر سے اس زمانے کاایک اور اہم عنصر صحافت ہے۔ پرنٹنگ پریس کی بدولت اُردو صحافت وجودمیں آئی۔ صحافت نے بھی بڑی تیزی کے ساتھ فروغ پایااور تھوڑے ہی عرصے کے اندر ملک کے ہر بڑے شہر سے جرائد نکنے لگے۔ صحافت کاایک تقاضا تو یہ ہے کہ بڑے سے بڑے حلقے تک اخبار کی رسائی ہو،اس کی اشاعت کا عرصہ اور وقت مقرر ہو۔ خبروں اور مضامین کے بارے میں قارئین کے ردعمل کو اہمیت دی جائے۔ یہ ایک ایسا وسیلہ ترسیل ہے جس کی نوعیت کو طے کرنے میں پڑھنے والوں کا ایک رول ہوتاہے اور کسی نہ کسی منصوبے کے تحت اسےاس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے کہ وہ پڑھنے والوں کے روّیوں پر اثر انداز ہو۔ چنانچہ اردو میں پہلی بار ایک ایسا وسیلہ اظہار وجود میں آیا جو مصنف اور اس کے لاتعداد اَن دیکھے قارئین کوایک رشتے میں جوڑتا تھا۔ اس کے ذریعے نہ صرف ملک کے مختلف حصّوں کے لوگ ایک دوسرے سے منسلک اور باخبر ہوئے بلکہ مغرب میں ہونے والی اصلاحوں، سائنسی ایجادوں اور دریافتوں، صنعتی دورکی برکتوں، حکومت اور طرز حکومت سے متعلق بحثوں کے اور آزادیِ اظہار کے چرچے یہاں تک پہنچے۔ یہ باتیں ہندستان کی ضعیف و بیمار بادشاہت کے زیرنگیں رہنے والوں کے لیے بالکل نئی تھیں۔ صحافت نے پہلی بار ہندستانیوں کے لیے بے باکانہ اظہار کے راستے کھولے۔ چنانچہ اس کا دائرہ اثر تیزی کے ساتھ بڑھنے لگا۔ اس کے سائے میں پلنے والی نثر میں صرف سادگی اور سلاست ہی نہیں تھی، وہ صنعت گری کوبھی برداشت نہیں کرسکتی تھی، وہ کوئی بھی ایسا پیرایہ نہیں اپنا سکتی تھی جو وسیع حلقوں میں اس کی رسائی کو کم کر دے۔ مضمون نگاری کی صنف صحافت کے راستے ہی سے ہمارے ادب میں آئی۔ماسٹر رام چندر اور ان کے ہم عصروں نے لاتعداد مضامین لکھے۔ اسے انہوں نےاپنے اصلاحی خیالات کے پرچار کاذریعہ بنایا۔ اس عہد کی صحافتی نثر میں بڑا کچّاپن ہے مگر ماسٹر رام چندرکے بعدکے عہدمیں یہ نثر سرسید، شبلی، آزاد اور حالی کے ہاں تراش خراش کے بعد زیادہ دل کش ہوکر ایک اعلا منزل تک پہنچی۔
نظریات کے اعتبار سے اس عہدکے روشن خیال طبقے پر مغربی لبرل ازم اور افادیت پر ستی utilitarianism کا گہرا اثر پڑا۔ انگلستان میں اس وقت اسی کاچرچا تھا اور جو با اثر انگریز ہندستان آئے، وہ یہ نظریہ بھی اپنے ساتھ لائے۔ صحافت کے علاوہ شخصی رابطے کے ذریعے بھی ہندستان میں یہ نقطہ نظر پھیلا۔اُردو میں ماسٹر رام چندرسے لے کر سرسیّد تحریک کے مصنّفین تک اس کابڑا گہرا اثر ہے۔اس نقطہ نظرکے مطابق انسانی زندگی کاہر پہلو، اس کے اعمال و اقوال، اس کا مذہب اور فلسفہ آرٹ اور ادب، اس کا نظام معاشرت و سیاست غرض کہ سب کچھ سماجی افادیت کے معیار پر پرکھا جانا چاہےے۔ چنانچہ اس فکر کو ادب پر بی منطبق کیا گیا۔اگر ادب کوزیادہ سے زیادہ لوگوں کے لےے مفید ہونا ہے تو اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں کی زبان کے ذریعے ہی ان تک پہنچنا بھی ہوگا، اور اس ادب میں مفید باتیں بھی پیش کرنی ہوں گی۔انیسویں صدی کے وسط سے اس سماجی نقطہ نظر کاادب پر اثر پڑنا شروع ہوا اور بڑھتا گیا۔ اس کی سب سے واضح اور نمایندہ مثالیں سرسیّد تحریک کے مصنفین کے ہاں ملتی ہیں۔ یہ نظریہ غالب کے عہدکے پڑھے لکھے طبقے میں خصوصاً دہلی کالج سے وابستہ لوگوں میں بہت مقبول ہوا اور اسے پہلی بار انہی اخبارات کے ذریعے برے پیمانے پر پھیلایا گیا۔ سرسید تحریک کے تین اہم رُکن آزاد، نذیراحمداور ذکاءاللہ دہلی کالج کے اسی دور کے سرگرم طالب علموں میں تھے۔غالب کے احباب اور مداحوں کے حلقے میں دہلی کالج کے حلقے کے بہت لوگ تھے۔ مگر غالب کی کسی بھی تحریر سے ان کے اثرات کاپتا نہیں چلتا۔ غالب خود اس قسم کی نثر نہ لکھتے تھے اور نہ شاید پسند کرتے تھے۔ مگر ان کے عہدکی تہذیب کا یہ اہم جُزو تھا اور اس میں پروان چڑھنے والی نثر اس سے بہت متاثر تھی۔
غالب ان تبدیلیوں کے درمیان رہ رہے تھے۔وہ قدیم و جدید کے درمیان کھڑے تھے۔وہ اس جاہ و منصب پر بھی نازاں تھے جوانہیں مغل شہنشاہت نے عطا کیے اور انگریزوں کے کرم کے طلب گار بھی تھے۔جیسا کہ ان کے خطوط سے پتاچلتا ہے۔ وہ مستقبل کا ایک دُھندلا سا تصوّر رکھتے تھے۔ معروضی طور پر وہ نئے عہدکی برکتوں کاخیر مقدم بھی کرتے تھے جیساکہ ان کی آئینِ اکبری والی تقریظ سے ظاہر ہے مگر وہ اس کشاکش کے درمیان حیران و ششدر تھے۔ خاص طورسے دہلی شہرکی سماجی زندگی کاجو ڈھانچہ بن رہا تھا وہ انہیں ایک آنکھ نہیں بھایا۔ ان کی بہت سی شکایتوں میں ایک یہ بھی تھی کہ دہلی میں شرفا کی جگہ اہل حرفہ زیادہ آباد ہوگئے۔ جس دہلی میں میر کو اپنی پگڑی سنبھالنی دشوار تھی، وہاں غالب کی کلاہِ پاپاخ کتنے جتن سے بچی اس کا حال تو سب پر عیاں ہے۔مگر غالب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے یہ سب کچھ نہ صرف جھیلا بلکہ ان کے اس کرب نے ان کی شاعری کے ساتھ ان کے مکاتیب میں بھی اظہار کی وہ صورت پائی جو ان کے عہد میں کسی کونصیب نہ ہوسکی۔ غالب دوسروں سےاس لیے بلند نہیں کہ انہوں نے سادہ اور سہل انداز میں پہلے پہل خطوط لکھے نہ وہ اس لیے اہم ہیں کہ ان کی نثر جدید تھی۔ ان کی عظمت اس میں ہے کہ انہوں نے اپنی شخصیت اور اپنی شخصیت کے ذریعے اپنے عہد کے خلفشار کے اظہار کے لیے جو تخلیقی کاوش کی وہ شاعری کی طرح نثر میں بھی کامیاب ہوئی۔ اگر ان کے ہاں محض سادہ نثر لکھنے کادرک ہوتاتو وہ غلام غوث بیخبر اور غلام امام شہید سے بس اُنیس بیس ہوتے۔ اگر ان کی دانش و آگہی آسمانوں کو چھو رہی ہوتی اور تخلیقی شخصیت یہ نہ ہوتی تو اُن کے خطوط میں خیالات، اطلاعات و معلومات کاخزانہ تو مل جاتا مگر یہ جادو نہ ہوتا۔ اور ان کی حیثیت ہمارے ہاں ادبی سے زیادہ تاریخی ہوتی۔ غالب کے ہاں فارسی انشا کی تقلید بھی ہے۔ صنعتوں کاخاص التزام بھی، قدیم روایات سے یہ وابستگی محض اتفاقی نہیں بلکہ یہ ان کے جمالیاتی مزاج کا جزو لازم ہے۔ فارسی ادب کے علم پر انہیں ناز تھا اور فارسی سے آئی ہوئی اقدار و روایات سے انحراف ان کے مزاج کے خلاف بھی تھامگر اسے اُردو کے مزاج کے مطابق اپنانے کی کوشش کرنا اور اس میں زیادہ تر کامیاب ہونا ان کے کمال فن کی دلیل ہے۔ مکتوب نگاری کی صنف جو آزادیاں عطا کرتی ہے۔ غالب نے اس سے پورا پورا فائدہ اُٹھایااور اس میں اظہار کے جتنے پیرائے ممکن تھے ان کے حُسن کوانہوں نے عیاں کردیا۔ غالب کے عہدکی سادہ اور سلیس نثرمیں اسالیب کا تنوع نہ ہونے کے برابر ہے۔ تحریریں سپاٹ اور مصنّف کی شخصیت کے نقش سے بالکل عاری ہیں۔ غالب سے پہلے صرف میر امن کی نثر اپنا الگ رنگ رکھتی ہے۔ انشا کی نثر دل کش اور ان کی ذہانت اور فن کارانہ چابک دستی کی دلیل تو ہے مگر وہ تمام تر مصنوعی ہے۔ رجب علی بیگ سرور تکلّف اور صنعت آرائی کو ادبی حسن سمجھتے ہیں مگر اس پر بھی سادہ اور سلیس ہونے کادعوا کرتے ہیں۔ سرور نے لکھنئو کی عام زبان کی طرز و انداز جس خوبصورتی کے ساتھ پیش کیے ہیں اس سے ظاہر ہوتاہے کہ خود ان کے لیے بھی بول چال کی فطری بے تکلفی سے بچ کرنکلنا مکن نہ تھابلکہ اس پراپنی قدرت کااظہار نہ کرنا اس وقت ان کاعجز بیان سمجھا جاتا۔یہ بھی اس عہدکی عام فضا کااشاریہ ہے کہ جس مصنّف نے مصنوعی اور پُرتکلف طرز کو کمال تک پہنچایاوہ بھی روزمرّہ اور محاورے پر اپنی قدرت کامظاہرہ ضروری سمجھتا ہے۔ اس سے یہی نتیجہ نکلتاہے کہ اب نثرکی روایت نے ایک قطعاً نیا رُخ اختیار کرلیاتھاجسے کہیں بلا تکلف اپنایا جا رہا تھا اور کہیں تامّل کے ساتھ۔ ڈاکٹر محمود الٰہی کے مرتب کیے ہوئے فسانہ عجائب کے متن کومدِّنظر رکھیں تو یہ بات اور صاف ہو جاتی ہے کہ سادہ نثرکی قوت اور حسن دونوں کا اندازہ سرور کو تھا۔اگرچہ ان کے اپنے ادبی مذاق کی میزان میں روایتی انداز کاپلّہ بھاری ہی نکلا۔
غالب کے بعد کے عہد میں فارسی کی تقلید سے انحراف ملتا ہے۔ سرسید اور ان کے حلقے کے لوگوں کو اس انحراف پراصرار ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کا پڑھنے والا عبارت کے حسن میں محوہوکر معانی سے بہک جائے۔ چنانچہ ظاہری آرایش سے اجتناب، معانی اور مفید معانی پر زور اور ان حدود کے اندر حسن و تاثیر پیدا کرنے کے لیے انفرادی ذوق اور تخلیقی صلاحتیوں کی اہمیت اس جدید نثرکی علامت قرار پائی جس کے عناصرغالب کے عہدمیں جنم لینے لگے تھے مگر جس کا زمانہ غالب کے بعد آیا۔

حواشی:
2،1 ۔ڈاکٹر سید عبداللہ:اطرافِ غالب۔علی گڑھ 1984،ص269۔
3۔فرٹرزلیہسن: اردو لٹریچراینڈ مغل ڈکلائن:شکاگوVI، 3،2،۰197ص131۔125
4۔ہمارے ہا ں بہت سی کہاوتیں زبان زد ہیں جو فارسی کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں، مثلاً: ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے۔ پڑھے لکھے کو فارسی کیا ہے۔ یا پڑھے فارسی بیچے تیل وغیرہ۔
5۔ صدیق الرحمن قدوائی: ماسٹر رام چندر، دہلی 1960،صفحہ21
6۔ صدیق الرحمن قدوائی:ماسٹر رام چندر،دہلی 1960،صفحات 14۔144

English Hindi Urdu