غالب کی شاعری میں محبوب کا تصور

فراق گورکھپوری

غالب کی شاعری میں محبوب کا تصور

          کہتے ہیں کہ پاربتی جی نے ایک بار شیوجی سے پوچھا کہ میں تمہیں کیسی لگتی ہوں۔ شیوجی نے جواب دیا کہ ”تم مجھے ایسی لگتی ہوجیسے آدھا سنا گانا یا وہ راگ جو کچھ سنائی پڑے اور کچھ نہ سنائی پڑے“، انگریزی شاعر کیٹس نے اپنی محبوبہ کوایک خط میں لکھا کہ میں تمہیں ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے آنکھ اوجھل پاتاہوں، کتنے حسین، لطیف اور نازک تصوّر ان روایتوں میں پیش کےے گئے ہیں۔ مخصوص انفرادی لذّات یا احساسات کی مصوری الفاظ میں ناممکن ہے۔ ہر تجربے میںایک نرالاپن ہوتاہے۔ ہراحساس میں ایک اچھوتاپن ہوتاہے۔ ہر تصورکی ایک انفرادیت ہوتی ہے۔ الفاظ کے ذریعہ سے شاعر یا ادیب ہمیں اس نرالے پن، اچھوتے پن اور انفرادیت کے قریب کردیتاہے لیکن بات جہاں کی تہاں رہ جاتی ہے، اگر وہ شخص ایک ہی معشوق کے عاشق ہوں تو بھی اس کے حسن وجمال کا جو عکس دونوں کے دلوں میں پڑے گاوہ یکساں نہیں ہوگا۔ انفرادیت دنیا کے اہم ترین رازوں میں سے ایک رازہے لیکن انفرادیت میں ایک آفاقی اور عالمگیر صفت بھی ہوتی ہے، جب ہی تو ہم شاعروں کے مخصوص اور اچھوتے تصورات سے مانوس اور ہم آہنگ ہوسکتے ہیں۔

          غالب کی عشقیہ شاعری میں محبوب کے تصور کا اندازہ لگاتے وقت ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ غالب کا یہ تصور مسلسل نظموں میں نہیں پیش کیا گیاہے بلکہ غزلوں میں پیش کیا گیاہے اور غالب کی غزلوں میں، جن سے کہیں زیادہ عشق اور زندگی اور کائنات کی مصوری کی گئی ہے۔ بجائے اس کے حُسن کیا ہے اور کیسا ہے ہمیں زیادہ تریہ بتایا گیا ہے کہ حسن نے عشق کے ساتھ کیا کیا اور حسن کے ہاتھوں عشق پر کیا گزری، بقول اصغرگونڈوی’کچھ فتنے اُٹھے حُسن سے کچھ حُسن نظر سے‘ لیکن پھر بھی جب ہم دیوان غالب کی سیر کرتے ہیں تو حُسن کی متعدد جھلکیاں اورمعشوق کے مزاج اور کردار کی کئی تصویریں ہمارے سامنے سے گزرتی ہیں۔ ان اشعار سے ہم کافی حد تک اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ غالب کی شاعری میں حسن کا تصور کیا ہے اور کیسا ہے، پہلے معشوق کے قد کو لیجیے۔ لمبے قد کا آدمی کس قد و قامت پر عاشق ہوگا؟ اس کے معشوق کا قد بوٹا سا ہو گا یا لمبا اور چھریرا تو اسے ماہر حسنیات ہی بتائیں۔ لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ اُردو شاعروں میں غالب خود بہت لمبے قد کے آدمی تھے۔ ایک شعر میں غالب نے معشوق کے درازی قدکاذکرکیاہے،کہتے ہیں:

بھرم کھُل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا

اگر اس طرہ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے

          غالب کا معشوق ،یاغالب کے معشوق، میانہ قدر، بوٹا سا قد یا لمبے قد کے تھے۔ ہمیں اس کا کوئی تاریخی علم نہیں لیکن جو شعر ابھی آپ نے سُنا ہے اس سے یہ پتا ضرور چلتا ہے کہ سرو قد معشوق کے حُسن کا احساس اور شدید احساس غالب کو تھا۔

          غالب کا معشوق نرم گام یا آہستہ خرام نہیں ہے۔ معشوق کی چال کی تصویر غالب نے یوں کھینچی ہے:

چال جیسے کڑی کمان کا تیر

دل میں ایسے کے جا کرے کوئی

بجلی کی تیزی اور تیر کی جست محبوب غالب کی چال میں ہے،ایک جگہ اور کہتے ہیں:

ثابت ہوا ہے گردنِ مینا پر خونِ خلق

لرزے ہے موج مَے تری رفتار دیکھ کر

          یہاں بھی چال کے جمالی پہلو کو جلالی شان و انداز سے پیش کیا گیا ہے۔ معشوق کی شوخ چال کی ایک اور تصویر دیکھیے:

دیکھو تو دل فریبی  انداز نقشِ پا

موجِ خرام یار بھی کیا گل کتر گئی

اس شعرمیں بجلی کی سی چال کا ذکرنہیں پھر بھی چال ہے نہایت شوخ

زلف سے متعلق بھی غالب نے دو تین ہی شعر کہے ہیں لیکن کیا شعر ہیں:

نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں

تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہوگئیں

          زلف کی درازی کا کچھ اندازہ تو غالب کے اس شعر سے ہم کو ہوجاتا ہے جسے قامت کی درازی کے سلسلے میں پیش کرچکے ہیں:

اگر اس طرہ پُر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے

          زلف کی رمزیت پر ایک شعر کہہ کے غالب نے کیا کچھ نہیں کہہ دیا

کٹے تو شب کہیں، کاٹے تو سانپ کہلاوے

کوئی بتاو


¿ کہ وہ زلف خم بہ خم کیا ہے

اوریہ شعر تونہ جانے ہمیں کہاں لےے جارہاہے:

تو اور آرائش خم کا کل

میں اور اندیشہ ہائے دور و دراز

          گورا دمکتا ہوا چہرہ دیکھ کر کبھی نگاہیں تڑپ جاتی ہیں اور کبھی شاداب ہوجاتی ہیں۔ معشوق کے چہرے کا تصور غالب یوں کرتے ہیں اور اسے یوں دیکھنا چاہتے ہیں:

اک نو بہار ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ

چہرہ فروغ مے سے گلستاں کےے ہوئے

اس شعر میں بھی معشوق کے چہرے کی جگمگاہٹ دیکھےے:

کیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے

کرے جو پرتوِ خورشید عالم شبنمستاں کا

معشوق کی نگاہ کا کتنا لطیف احساس و تصوّر غالب کو تھا۔

بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی

وہ اک نگہ جو بظاہر نگاہ سے کم ہے

          غالب کے ہاں محبوب کا جوتصور ہمیں ملتاہے وہ نہایت دھاردار،نوک دار، چنچل اور شوخ ہے۔ اس تصورمیں ایرانی کلچرکی رنگینیاں،لطافتیں اور نزاکتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں، غالب کے تصورکا کوئی خط دھندلایا مبہم نہیںہے۔ اس کے تصورکی ہر سنہری لکیر میں اُپی ہوئی تلوار کی دھار ہے۔اس کے احساس حُسن میں ایک ارتکاز وہم آہنگی ہے۔ اس کا معشوق بہت شوخ اور طرار ہے، ا س کی باتیں تک برق رفتاری کی مثالیں ہیں۔ ٹھہراوتو کہیں ہے ہی نہیں۔ معشوق کیسے باتیں کرتا ہے؟

بجلی اک کوند گئی آنکھوں کے آگے تو کیا

بات کرتے کہ میں لبِ تشنہ تقریر بھی تھا

          معشوق کی بے پناہ شوخیاں ان اشعار میں دیکھیے:

نکتہ چیں ہے غمِ دل اس کو سُنائے نہ بنے

کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے

میں نے کہا کہ بزم ناز چاہیے غیر سے تہی

سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اُٹھا دیا کہ یوں

معشوق کا نہ آنا ہی نہیں بلکہ اس کا آنا اور ملنا بھی فتنوں سے خالی نہیں

وہ آئیں گے مرے گھر، وعدہ کیسا، دیکھنا غالب

نئے فتنوں میں اب چرخِ کہن کی آزمائش ہے

خوش ہوتے ہیں پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے

آئی شب ہجراں کی تمنّا میرے آگے

میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں

وہ ستمگر مرے مرنے پہ راضی نہ ہوا

          عموماً شوخ و شنگ معشوق عاشِق کو مٹاتا اور رقیب کو نوازتا رہتاہے، لیکن غالب کے معشوق میں نہ عاشق کے لیے سپردگی و ہمدردی ہے نہ رقیب کے لیے۔ بہت نازک اور حسّاس لہجے میں غالب نے اس تکلیف دہ حقیقت کا اظہار کیا ہے۔

تو دوست کسی کا بھی ستمگر نہ ہوا تھا

اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا

          معشوق کی جفا کاری اور ستم گاری، اس کی شرارتیں اور چھیڑیں، اس کی حیا میں بھی جھلک رہی ہیں۔

کبھی نیکی بھی اُس کے دل میں گرآجائے ہے مجھ سے

جفائیں کرکے اپنی یاد شرما جائے ہے مجھ سے

جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا

کہتے ہیں ہم تجھ کو منہہ دکھلائیں کیا

معشوق ظلم و ستم سے توبہ بھی کرتاہے تو کب کرتا ہے۔

کی مرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

کبھی کبھی معشوق کی ستمگاری سے غالب کو فائدہ بھی پہنچ جاتاہے۔

ذکر میرا بہ بدی بھی اسے منظور نہیں

غیر کی بات بگڑ جائے تو کچھ دور نہیں

گرچہ ہے کس کس بُرائی سے ولے بہ ایں ہمہ

ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے

غالب اپنے معشوق میں پاتے تو ہیں انتہائی شوخی لیکن چاہتے ہیں اس میں سادگی۔

سادگی پر اس کی مر جانے ک حسرت دل میں ہے

بس نہیں چلتا، کہ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے

لیکن معشوق کی سادگی بھی قیامت ڈھاتی ہے:

اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا

لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوا ر بھی نہیں

اور جب معشوق ایک ہی ساتھ سادگی و شوخی کاملاطفہ ہے تو اور بھی جان پر بن جاتی ہے:

سادگی و پُرکاری، بے خودی و ہُشیاری

حُسن کو تغافل میں جرات آزما پایا

          معشوق کی شوخی کا شکایت آمیز بیان جیسا غالب کے ہاں ملتا ہے اس کی مثالیں کسی اور شاعر کے ہاں نظر نہیں آتیں اس بیان اور اس شکایت میں نہ تو میر کی دل گرفتگی و خستگی ہے نہ بہت سے اور شاعروں کی طرح سطحیت ور چھچھوراپن، غالب معشوق کی شوخیوں سے تنگ آکر بھی بالکل مٹ نہیں جاتا وہ اپنی آن بان قائم رکھتاہے اور اسی خودداری کے سبب سے وہ معشوق کی شوخی اور جفا کاری کو بہت رچا کے اور سنوار کے پیش کرتاہے۔ مثلاً معشوق عاشق کے خطوں کا جواب نہیں دیتا یا نہایت بے حسی او ربے دردی سے جواب لکھتا ہے، غالب نے کسی طنزیہ لہجے میں اس کا ذکر کیا ہے۔

قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں

میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں

یہ جانتا ہوں کہ تو،اور پاسخ مکتوب

مگر ستم زدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا

          لیکن ان تمام اشعار سے غالب کے تصور محبوب کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ نامکمل ہوگی،اگر ہم غالب کے کچھ اور اشعار پربھی نظرنہ ڈالیں جن میں معشوق کی فطرت کی نرمی یا اس کی عاشِق نوازی دکھائی گئی ہے۔ معشوق خطوں میں ہمیشہ جلی کٹی نہیں لکھتا، پیاربھرے خط بھی لکھتا ہے۔

پھر چاہتا ہوں نامہ دلدار کھولنا

جان نذرِ دلفریبی عنواں کیے ہوئے

معشوق محض رُلاتا ہی نہیں، کبھی کبھی اس کی آنکھیں بھی ڈبڈبا آتی ہیں، کیا شعر کہا ہے:

نہیں معلوم کِس کِس کا لہو پانی ہوا ہوگا

قیامت ہے سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا

          غالب کے ہاں محبوب کے تصور میں بلکہ حُسن و عشق اور زندگی ہی کے تصور میں رشک کا عنصر بہت تیز ہے، غالب کے مزاج میں خود غرضی تھی، کِس کے مزاج میں نہیں ہوتی اور یہ خودغرضی بہت تیز تھی۔ لیکن ان کی فطری مصلحت شناسی، رشک کے جذبے کوبھی بہت حسین بنا دیتی ہے۔

رات کے وقت مے پیئے، ساتھ رقیب کو لیے

آئے وہ یوں خدا کرے، پر نہ خدا کرے کہ یوں

          رقیب تو درکنار غالب کو خود اپنے آپ پر رشک آجاتاہے۔

دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آجائے ہے

میں اُسے دیکھوں بھلاکب مجھ سے دیکھا جائے ہے

          لیکن مجبوری سب کچھ کراتی ہے، باوجود رشک کے غالب یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو

مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو

          لیکن اگر کسی ایک غزل میں غالب نے محبوب کا معیاری تصور پیش کیا ہے تو اُس غزل میں جویوں شروع ہوتی ہے:

درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے

کیا ہوئی ظالم تِری غفلت شعاری ہائے ہائے

          یہ پوری غزل معشوق کا مرثیہ ہے اور غالب کے مغموم تصور کا مرقع۔

غالب اور نظیراکبرآبادی

کاظم علی خاں

غالب اور نظیراکبرآبادی

          مرزا غالب اور نظیراکبرآبادی پر بات کرتے وقت یہ امر ملحوظ رہنا چاہیے کہ غالب سن و سال میں نظیر سے کم و بیش 62 بانسٹھ سال چھوٹے تھے لیکن ہم سن نہ ہوکر بھی یہ دونوں شاعر اپنے مولد و مدفن کے اعتبار سے ایک خاص ربط رکھتے تھے۔ ان دونوں شاعروں میں سے ایک مولد دوسرے کا مدفن ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ غالب اس دہلی میں دفن ہیں جو نظیر کا مولد ہے اور نظیر اس اکبرآباد یعنی آگرے میں مدفون ہیں جو غالب کا مولد رہا ہے جیسا کہ تذکرہ ماہ و سال کے درجِ ذیل اندراجات سے ظاہر ہوتاہے۔ (1)

          غالب: ولادت آگرہ 27 دسمبر 1797۔ وفات دہلی 15 فروری 1869

          نظیر:۔ولادت دہلی تقریباً 1735 وفات آگرہ16 اگست1830

          غالب اور نظیر کی داستانِ حیات بتاتی ہے کہ غالب جس قدر سرکارودربار سے وابستگی کے شوق بے پایاں کے اسیر تھے نظیر اسی قدر سرکارو دربار سے دوری برقرار رکھنے کے عادی تھے۔ دہلی میں مغل بادشاہ بہادرشاہ ظفر کا دربار ہویا فرماں روایان اودھ و رام پورکی سرکاریں غالب نے ہر جگہ سے جتنا ہوسکاخوب فائدہ اٹھایا۔ نظیر اکبرآبادی نے اس کے برخلاف زندگی میں زیادہ تر یاتو معلّمی کاپیشہ اختیار کیا ہے یا فقیری اور قلندری کی ہے(2)۔

           غالب اور نظیر کی داستانِ حیات میں کئی ایسی قابلِ ذکر باتیں ملتی ہیں جن کا بیان دل چسپی سے خالی نہ ہوگا۔ کاروبارِ شعر وسخن میں نظیر اکبرآبادی کے کسی استاد کا نام نہیں ملتا اورغالب کے مستند سوانح نگا ربھی شاعری میں اُن کے کسی استاد کانام نہیں بتاتے۔ تذکرہ گلستان بے خزاں کی یہ روایت کہ شاعری میں غالب نظیر کے شاگرد تھے اب مشکوک مانی جاتی ہے۔(3)

          لسانی اعتبارسے غالب فارسی اور اردو صرف دو زبانوں میں نظم و نثر لکھنے پر قادر تھے اس کے برعکس نظیر اکبرآبادی کو جن متعدد زبانوں میں شاعری کرنے کی قدرت حاصل تھی۔ ان کی تفصیل آگے اپنے مقام پر آئے گی۔

          یہاں اس با ت کی نشان دہی بھی بے محل نہ ہوگی کہ غالب اور نظیر دونوں کا کلام مقبولیت کے اعتبار سے زمانے کے نشیب و فراز سے دوچار رہ چکا ہے۔ غالب کو تو اپنے کلام کی ناقدری پر جیتے جی یہ کہنا پڑاتھا:

شہرتِ شعرم بہ گیتی بعدِ من خواہشد شدن(4)

          اب رہا نظیر اکبرآبادی کا معاملہ تو یہ حقیقت اہلِ نظرسے مخفی نہیں کہ کلامِ نظیربرسوں کسادبازاری سے دوچار رہ کر دورِ حاضر میں شہرت و مقبولیت سے ہم کنار ہوا۔

          یہ درست ہے کہ دونوں شاعروں کی موت کا زمانہ و مقام الگ الگ رہا یعنی غالب نے 15 فروری 1869 کو دہلی میں وفات پائی اور نظیر16 اگست 1830 کو آگرے میں فوت ہوئے تھے لیکن یہ بھی غلط

نہیں کہ دونوں شاعرو ںکی وفات بہ عارضہ فالج ہوئی تھی۔ (5)

          غالب و نظیر کی اولاد و اخلا ف کے باب میں یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ غالب کے یہاں متعدد بچے ہوئے مگر بدقسمتی سے کوئی نہ بچ سکا اور غالب کو بے اولاد ہی دنیا سے سفرکرناپڑا، البتہ نظیراولاد کی نعمت سے مرحوم نہ رہے۔(6)

          ادبی آثار کی طباعت کے اعتبار سے بھی دونوں شاعروں کی قسمت ایک سی نہ تھی۔ غالب کے متعدد ادبی آثار اُن کی زندگی ہی میں چھپ گئے تھے اس کے برخلاف نظیر کے ادبی آثار (بیش تر) ان کی موت کے بعد نہ صرف چھپے تھے بلکہ ان کے جمع ہونے کا کام بھی قابلِ لحاظ حد تک اُن کی موت کے بعد ہی انجام دیا گیا تھا۔ نظیر کی وفات اگست 1830 میں ہوئی۔ ظاہر ہے کہ اس زمانے میں اردو کتابوں کے چھپنے کا چلن ہوگا ہی نہیں۔ دیکھئے:1۔ توقیتِ غالب: کاظم علی خاں باب نمبر11 2۔  نظیر اکبرآبادی: ڈاکٹر طلعت نقوی)

          غالب اور نظیراپنے دینی عقائد کے اعتبار سے بھی ایک جیسے تھے۔ دونوں شاعروں نے اپنے آبائی عقائد چھوڑکرشیعی مسلک اختیار کرلیاتھا۔ (7)

          غالب شناس اس بات سے باخبر ہیں کہ دہلی میں غالب ایک ڈومنی کے عشق میں گرفتار رہے ہیں اور ایک عرصے تک اُس ڈومنی کی یادوں کی کسک غالب کے دل میں باقی رہی ہے(توقیتِ غالب: ڈاکٹر کاظم علی خاں،ص19 ) تلاش کرنے پر پتاچلاکہ نظیر اکبرآبادی کی داستانِ زندگی بھی ان کی حیاتِ معاشقہ سے خالی نہیں اور ہم نظیر کی اُن معشوقہ کے نام سے بھی باخبرہیں۔ اس عورت کانام ”موتی“ ملتا ہے۔ (8)

          مال و دولت سے غالب کا غیر معمولی لگاؤ کوئی ڈھکی چھپی

 بات نہیں اگر کہیں سے غالب کو کچھ بھی ملنے کی امید ہوتی تو وہ اس کے حصول میں کسی تکلّف سے کام نہ لیتے جب کہ اس سلسلے میں نظیر خاصے محتاط رہتے تھے۔ (نظیر اکبرآبادی طلعت حسین نقوی، ص38۔ تا39) ظرافت غالب ونظیر دونوں کے مزاج کامشترک وصف نظر آتی ہے۔ دونوں شاعروں نے محرومیوں اور مایوسیوں سے گھری اپنی دکھ بھری زندگی کو ہنس کھیل کر گزارنے کا گُر سیکھ لیاتھا۔ دونوں شاعر آلامِ زندگی کو مردانہ وار جھیل جانے کے ہنر سے باخبر تھے۔

          غالب کایہ مشہور شعر ان کے اسی وصف کا غمّاز ہے:

قیدِ حیات و بندِ غم، اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے، آدمی غم سے نجات پائے کیوں

نظیر نے بھی نشاطیہ اور رجائی لہجے کو اپنایا۔

          تصوف کی جلوہ گری غالب اور نظیر دونوں کے کلام میں ملتی ہے مگر غالب تصوف سے شغف رکھنے کے باوجود خود صوفی نہ تھے جب کہ نظیر کے تصوف میں جابجا توکل کی جھلک ملتی ہے گویا نظیر صحیح معنوں میں فقیری اور قلندری کی راہوں پر گام زن رہنے کے عادی تھے۔

          غالب کے مزاج میں قناعت کی کارفرمائی دور دور تک نہیں ملتی، نظیر کے یہاں قناعت کی کمی نہیں۔

          کلام غالب و نظیر کے بہ غور مطالعے سے پتا چلتاہے کہ غالب مشکل زبان میں پیچیدہ خیال والے شاعر تھے لیکن نظیر کی شاعری میں عوامی زبان کی کوئی کمی نہیں بلکہ کہیں کہیں وہ بازاری زبان بھی استعمال کرجاتے ہیں۔ شاہی اور درباری دور میں بازاری زبان ان کی شاعری کو عوام سے قریب کرتی ہے۔ شاہی دور کی شاعری میں عوامی لب و لہجہ نظیر کی شاعری کو بے فصل کا میوہ بنا دیتا ہے۔ اور نظیر کا کلام جاڑوں والا ایسا آم معلوم ہوتا ہے جو بے مزہ ہونے کے باوجود قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

          نظیراکبرآبادی کے کلام میں ہندستانی عناصر کی جلوہ گری بھی نہایت اہم وصف ہے۔ ہندستان کے موسم ہوں یا ہندستان کے میلے ٹھیلے، یہ تمام عناصر عوام میں میل جول بڑھاتے ہیں دور حاضر میں نظیر کی شاعری کایہ پہلو بھی خاصی معنویت رکھتاہے۔ کلام غالب میں بھی یہ تمام پہلو تلاش کرنے پر مل جاتے ہیں۔ مگر انہیں کلام نظیر میں قدم قدم پر پایا جاتاہے۔

          وسیع النظری، بے تعصبی اور رواداری نظیر کی شاعری کاوہ جاندار حصہ ہے جو آج بھی ہمارے لیے کام کی شے ثابت ہوسکتی ہے۔ اس لیے دورِ حاضر میں کلامِ نظیرکی معنویت کے منکر نہیں۔ کلامِ نظیرکا اہم ترین پہلو اس ہندومسلم میل ملاپ کی تلقین ہے جس کی ضرورت سے آج بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تلاش کرنے پر ہمیں کلامِ غالب میں بھی یہ پہلو مل سکتے ہیں مگر نظیر کی شاعری میں ان کی ’بہتات‘ہے۔

          مذہبی میل ملاپ کے ساتھ ساتھ کلامِ نظیر میں ایک طرح کی لسانی روادری کی بھی جھلکیاں ملتی ہیں۔ نظیر کی شاعری ایک ایسا بوقلموں (رنگ برنگی) نگار خانہ نظر آتی ہے۔ جہاں دوچار نہیں آٹھ آٹھ زبانوں کی جلوہ گری ملتی ہے۔ نظیر کی شاعری میں ہمیں عربی، فارسی، پنجابی، ’بھاشا‘ مارواڑی، پوربی، ہندی اور اردو زبانوں کی جھلکیاں نظر آتی ہیں جبکہ لسانی اعتبار سے غالب صرف اردو اور فارسی نظم و نثر لکھنے پر قادر تھے۔ (بہ حوالہ نظیر اکبرآبادی: ڈاکٹر طلعت حسین،ص24)

          کلام نظیر میں آدمی اور دنیا کی بے ثباتی کے بھی سبق آموز حصّے موجود ہیں مگر یہاں اِس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ میاں نظیر کے کلام کی اصل شہرت ان کی غزلوں سے زیادہ نظموں کے باعث ہے اس کے برعکس غالب کے کلام میں نظم سے زیادہ غزلوں پر زور ملتا ہے۔

          نظیر نے بہترین شہر آشوب بھی لکھے ہیں جن میں جزئیات نگاری کے اچھے نمونے ملتے ہیں۔ غالب کے یہاں اس صنف کی کمی ہے۔

          نظیر کے کلام میں متعدد ایسے موضوعات پر بھی نظمیں ملتی ہیں جو عام طورپر شاعری کے دائرے سے خارج رکھے جاتے ہیں۔ مثلاً کلامِ نظیر میں اژدھے کا بچہ، گلہری کی بچہ، تربوز، تل کے لڈو، کورا برتن جیسے موضوعات پر دل چسپ نظمیں موجود ہیں، غالب کا جو کلام کاٹ چھانٹ سے بچ کر ہم تک آیاہے اس میں اس طرح کی نظمیں نہیں ملتی ہیں۔

          نظیراکبرآبادی کی مشہور اور مقبول نظموں کی تعداد اچھی خاصی ہے اور ان سے مثالیں پیش کرنا آسان نہیں، روٹیاں اور آدمی نامہ نظیر کی شاہ کارنظموں میں شامل ہیں۔ غالب کے ادبی آثار میں نظم کے ساتھ ساتھ اردو اور فارسی نثر کے بھی نمونے ملتے ہیں جو چھپ کر مقبول ہوچکے ہیں۔ نظیر کی نثرکا ذکر نظیرشناسوں تک محدود ملتا ہے غالب کی طرح نظیر کی نثر نہ تومشہور ہوسکی ہے اور نہ مقبول ہوئی ہے۔ غالب اور نظیر نے اپنی طویل ادبی زندگی میں کسی استاد کی شاگردی تو نہیں کی مگر یہ دونوں شاعر درجنوں شاگردوں کے استاد ضرور رہے تھے۔ غالب کے شاگردوں کی تعداد تو اتنی زیادہ تھی کہ ان کے ذکرپر مشتمل مالک رام ‘تلامذہ غالب’ کے نام سے ایک اچھی خاصی ضخیم کتاب چھپوا چکے ہیں جو ایک سے زیادہ بار چھپ چکی ہے(تفصیل کے لیے دیکھیے راقم الحروف کی کتاب توقیتِ غالب، ص74 تا 85) نظیر کے شاگردوں کی فہرست بھی تقریباً ایک درجن شاعروں کے نام پر مشتمل ہے۔ (10)

          مقالے کے اختتام میں غالب اور نظیر کے مزاروں پر بھی بات کرنا نامناسب نہ ہوگا۔ غالب نے دوشنبہ 15 فروری 1869 کو دوپہر ڈھلے دہلی میں وفات پائی تھی۔ ہجری تقویم کی رو سے ان کی تاریخ وفات ۲ ذی قعدہ 1285ھ ہے سببِ وفات دماغ پر فالج گرنا تھا۔ غالب کی تدفین اسی روز بستی نظام الدین دہلی میں واقع خاندانِ لوہارو کے قبرستان میں ہوئی تھی۔ (توقیتِ غالب،ص55)، گردشِ زمانہ کے باعث مزارغالب کی تعمیر متعدد بار ہوتی رہی ہے۔ ایک عرصے تک مزارکی حفاظت کا نا کافی انتظام رہاہے جس کی وجہ سے جواریوں وغیرہ جیسے ناپسندیدہ عناصر کی بے روک ٹوک آمدورفت کے باعث غالب شناسوں کی پریشانی اور الجھن کا سبب رہاہے۔ مزارِ غالب پر پھولوں کی چادر وغیرہ کو کھانے بکریوں کی بھی آمدورفت رہاکرتی تھی۔ مگر خداکاشکر ہے کہ اب غالب شناسوں کی توجہ سے مزار کی چوحدی میں مقفل دروازے کا انتظام ہوگیا ہے۔

          نظیراکبرآبادی 98 سال کی طویل عمرپاکر اگست 1830 مطابق 1246ھ میں بہ مقام آگرہ فوت ہوئے تھے اور آگرہ ہی میں اُن کا مدفن  ہے۔ مزارِ نظیر محلہ تاج گنج آگرہ میں واقع ہے۔

حواشی:

1۔  تذکرہ ماہ و سال:مالک رام نئی دہلی،نومبر1991،ص286،نیزص293

2۔ ملاحظہ ہوں:(1)توقیت غالب: ڈاکٹر کاظم علی خاں۔ انجمن ترقی اردو(ہند) نئی دہلی ابواب نمبر15۔16، نیز 17(2) نظیر اکبرآبادی الخ:ڈاکٹر سید طلعت حسین نقوی فیض آباد(ٹانڈہ)طبع فروری 1990، 27، 30 تا 40

 3۔ توقیتِ غالب،ص18

4۔ کلیاتِ غالب(فارسی نظم) مطبع نول کشور 1863، 514

5۔ برائے تفصیل؛دیکھےے تذکرہ ماہ و سال:مالک رام طبع نومبر 1991، ص286، نیزص 393

6۔ برائے تفصیل دیکھیے:(1)ذکرغالب:مالک رام(2) نظیر اکبرآبادی: طلعت نقوی،ص30 تا31

7۔ ملاحظہ ہوں:(1)دیوان غالب کامل نسخہ گپتا رضا: کالی داس گپتا رضا۔ ممبئی مطبوعہ 1990، ص26 نیز،ص 445 تا 447

 (2) نظیر اکبرآبادیڈاکٹر سید طلعت حسین نقوی،ص46

8۔ دیکھے:(1) نظیر اکبرآبادی کے کلام کا تنقیدی مطالعہ،ص22 (2)زندگانیِ بے نظیر:عبدالغفور شہباز؛نئی دہلی 1981، ص79 تا81

9۔ دیوان غالب(نسخہ عرشی)طبع 1982، نئی دہلی ص241 (نوائے سروش)

10۔ شاگردانِ نظیر کے لےے دیکھیے نظیر اکبرآبادی ڈاکٹر طلعت حسین۔ فروری 1990، ص 48 تا49

غالب کی شاعری میں ہمہ زمانی معانی

انیس اشفاق 

 غالب کی شاعری میں ہمہ زمانی معانی

بڑا شاعر زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتا ہے۔ اس کی نگاہ میں اپنا زمانہ ہی نہیں آنے والا زمانہ بھی ہوتا ہے، اسی لیے اس کے شعروں میں یک عہدی نہیں، ہمہ زمانی معنویت ہوتی ہے۔ میر اور غالب ایسے ہی شاعر ہیں اور غالب تو ایک ایسا نابغہ لے کر پیدا ہوئے تھے جس کی آنکھ وہاں تک جارہی تھی جہاں تک کسی اور کی آنکھ کا جانا آسان نہ تھا۔ غالب نے کہا تو یہ تھا:

ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا رب

ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا

لیکن ان کی شاعری میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے اس شعر کے مفہوم پر نظر کیجیے: ‘دشت’ یہاں وسعت کے باوجود تنگی کا مفہوم ادا کررہا ہے اور ‘تمنّا’ اسرارِ وجود کو حل کرنے یعنی خدا اور کائنات کو سمجھنے کی تمنّا ہے۔ اس تمنّا میں ہم محوِ سفر ہیں اور اس سفر میں یہ پورا دشتِ امکاں ہمارا صرف ایک نقشِ قدم ہے۔ اصلاً یہ شعر علم اور لاعلمی کا مرکب ہے یعنی ہمارا سارا علم اس کائنات تک محدود ہے اور ماورائے کائنات کے بارے میں ہم کچھ بھی نہیں جانتے۔ یہاں ماورائے کائنات کے بارے میں کچھ نہ جاننے کی بات کہہ کر غالب دراصل ہم کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ ان کی شاعری میں عدم یعنی ماورائے کائنات کا ذکر اتنی بار آیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ معدوم زمانوں اور مکانوں کا بھی گہرا علم رکھتے ہیں۔

نقل کیے ہوئے شعر میں ہم سے مراد دراصل ہم اور آپ ہیں، غالب نہیں۔ اپنے غیر معمولی وجدان و ادراک کی بنا پر غالب کی نگاہ اِس دشتِ امکاں کے دوسرے نقشِ پا کو بھی دیکھ رہی تھی اور ’غیب‘ سے جو مضامین ان پر نازل ہورہے تھے وہ اسی دوسرے نقشِ پا کے الگ الگ جادوں کو روشن کررہے تھے جنہیں دیکھ کر ہمارا مبتلائے حیرت ہوجانا یقینی ہے۔ غالب کے معاملے میں ہمیں دو طرح کی حیرتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک حیرت تو وہ ہے جو ان کے بند شعروں کے معنی نہ کھل پانے کی وجہ سے ہم پر طاری ہوتی ہے۔ معنی خواہی کی خواہش میں جب ہم ان کے شعر کے سب دروازوں پر دستک دے کر کسی جواب کے بغیر لوٹتے ہیں تو جھنجھلاہٹ میں یہ سوچنے لگتے ہیں کہ آخر یہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ اور جب ہمارے بار بار کے سر ٹکرانے کے بعد اُن دروازوں کی درزوں سے معنی کی کوئی کرن پھوٹتی ہے تو دیر تک ہم اس حیرت میں مبتلا رہتے ہیں کہ اِس نے کیا کہہ دیا۔ یہ معنی تو دور دور تک ہمارے ذہن میں نہیں تھے۔ لائقِ رشک نابغے کے ساتھ ساتھ خلاّقی بھی غالب کو ایسی ملی جو کسی اور کے حصے میں نہ آئی۔ مشکل سے مشکل موضوع کو ذہن میں لانا اور پھر اسے ایسے پیرائے میں بیان کرنا کہ جتنی بار شعر کو پڑھیے اس کی نئی پرتیں کھلتی چلی جائیں۔

یہ تو ہم شروع سے سنتے آرہے ہیں کہ غالب کا ذہن عام شاعروں کا سا ذہن نہیں تھا۔ ازحالی تا شمس الرحمن فاروقی ہمارے غالب شناسوں نے غالب کو مشکل بتانے میں بہت زیادہ وقت صرف کیا۔ یعنی ہمیں ان سے ملایا کم گیا ڈرایا زیادہ گیا۔ اور یہی خوف غالب اور ہمارے درمیان دوری کا سبب بننے لگا۔ غالب کے مشکل ہونے کا سبب دراصل ان کی نگاہ کی وہ تیزی اور نیرنگی ہے جو اشیا و مظاہر کے ایک رخ کو دیکھنے کے بجائے سب رخوں کو دیکھ لیتی ہے۔ یعنی ہماری اور آپ کی آنکھ سےچھپی رہنے والی اشیا کی ماہیتیں اور معنویتیں غالب کے حلقۂ

 نگاہ میں خورشیدِ جہاںتاب کی مانند روشن رہتی ہیں۔ یہ جو انہوں نے اپنے بارے میں کہا ہے:

گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھئے

جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے

اس شعر میں ہر لفظ کے گنجینۂ معنی کے طلسم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ شعرِ غالب کے خزینے میں داخل ہوں گے تو ہر لفظ آپ کو اس طلسم کی طرف لے جائے گا جہاں کائنات اور ماورائے کائنات کی مختلف صورتیں اپنے مختلف رنگوں میں نظر آئیں گی۔ اپنی فارسی شاعری میں غالب نے اپنے ذہن کی پیچیدگی، اپنی فکر کی بلندی، اپنے معانی کی نیرنگی اور اپنے حلقۂ نگاہ کی وسعت کا بار بار ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ میں ایک پیچیدہ، حیرت آور اور طلسم آسا ذہن لے کر پیدا ہوا ہوں، اسی لیے میں ان زمانوں پر بھی حاوی ہوں جو ظاہری زمانوں سے پرے ہیں اور وہ معانی بھی میری گرفت میں ہیں جن تک کسی نگاہ کا پہنچنا محال ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:

ما ہمائے گرم پروازیم فیض از ما مجوئے

سایہ ہمچو دود بالا می رود از بالِ ما

اس شعر میں گرم پروازِ ہما سے ذہن ایک عالی فکر اور عالی دماغ ہستی کی طرف منتقل ہوتا ہے اور پرواز کی گرمی فکر کی وہ بلندی ہے جس تک عام آدمی کی رسائی آسانی سے نہیں ہوتی۔ اس مفہوم کا اطلاق خود غالب پر ہوتا ہے کہ میرے افکار اتنے بلند اور اتنے پیچیدہ ہیں کہ ان سے (عام آدمی کے) مستفیض ہونے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔

دوسرا شعر:

پایۂ من جزبہ چشمِ من نیاید در نظر

از بلندی اخترم روشن نیاید در نظر

میرا مرتبہ میرے سوا کسی اور کی نظر میں نہیں آسکتا۔ اس لیے کہ میرا ستارہ اتنی بلندی پر ہے کہ وہ میرے سوا کسی کو صاف نظر نہیں آتا۔

تیسرا شعر:

دیدہ ور آں کہ تا نہد دل بہ شمارِ دلبری

دردلِ سنگ بنگرد رقصِ بتانِ آذری

دیدہ ور وہ ہے کہ اگر دلبری (کے مظاہر) کا شمار کرنے کی ٹھان لیتا ہے تو اس کو پتھر کے دل کے اندر آذری بتوں کا رقص نظر آنے لگتا ہے۔

آخری شعر:

در دام بہرِ دانہ نیفتم مگر قفس

چنداں کنی بلند کہ تا آشیاں رسد

شعر کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ میں دانے کے لیے دام میں نہیں آؤں گا بلکہ قفس کو اتنا اونچا کرو کہ وہ میرے آشیاں تک پہنچ جائے۔ باطنی مفہوم یہ ہے کہ اگر مجھ کو سمجھنا چاہتے ہو تو وہ دانش اور ذکاوت پیدا کرو جس کا مطالبہ میرے شعروں کے معنی کرتے ہیں۔

فارسی کے یہ شعر اور ان کے مفاہیم اس لیے نقل کیے گئے ہیں کہ جو کچھ غالب کے نابغے، ان کے ذہنِ رسا اور ان کی ذکاوت کے بارے میں اوپر کہا گیا ہے اس کی توثیق ہوسکے۔

غالب کے غیر معمولی ذہن، بلا کی قوتِ پرواز، ان کی ہمہ دانی، ان کے معانی کی پیچیدگی اور تہہ داری کی بنا پر نکتہ شناسانِ شعر کو شعرِ غالب کی شرحیں لکھنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ شارحین کی ان شرحوں سے غالب کا اشکال کم ہوا اور ان کے شعروں کا ظاہری مفہوم بھی بڑی حد تک ہم پر ظاہر ہوگیا لیکن کلامِ غالب کے لامحدود معنوی امکانات تک رسائی کا راستہ پھر بھی پوری طرح نہ کھل سکا۔ اس کے لیے نیرمسعود، پروفیسر گیان چند جین، شمس الرحمن فاروقی اور پروفیسر گوپی چند نارنگ وغیرہ کو آگے آنا پڑا اور نئے زمانوں کی معنویتوں کے اعتبار سے غالب کو سمجھانا پڑا۔

درج بالا معروضات میں ہمارا اصل نکتہ یہ ہے کہ مفاہیم کی نیرنگی اور معانی کی کثرت کی بنا پر غالب کی شاعری کسی ایک زمانے کی اسیر نہیں ہے۔ وہ جی تورہے تھے انیسویں صدی میں لیکن ان کی نگاہ آئندہ کے زمانوں کو بھی دیکھ رہی تھی اسی لیے ہمیں ان کے یہاں آئندہ زمانوں کے معنی بھی دکھائی دیتے ہیں۔

اس سے پہلے کہ ہم مثالوں کے ذریعے اکیسویں صدی میں غالب کی معنویت کا محاکمہ کریں یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ وقت اور نوعیت کے اعتبار سے موضوعات ومسائل کی شکلیں کیا ہیں۔ بظاہر ان کی چار شکلیں ہمارے سامنے ہیں:

          1۔ ازلی اور آفاقی موضوعات و مسائل : یہ حدود اور نفوس کے امتیاز کے بغیر ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔

          2۔ یک عہدی یا عصری موضوعات : یہ ایک ہی زمانے اور بیشتر ایک ہی جگہ سے مخصوص ہوتے ہےں۔

          3۔ ہمہ زمانی موضوعات : یہ ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیں اور حدود و نفوس کے امتیاز کے بغیر ان کا تجربہ ہر زمین پر ہر شخص کو کم و بیش ایک ہی طرح سے ہوتا ہے۔

          4۔ انفرادی موضوعات : ان کا تعلق ایک مخصوص فرد، ایک مخصوص قوم اور ایک مخصوص علاقے سے ہوتا ہے۔ لیکن یہ انفرادی موضوعات بعض حالتوں میں انفرادی نہ رہ کر اجتماعی ہوجاتے ہیں۔

موضوعات (مسائل) کی یہ شکلیں بتانے کے بعد ہم آپ کو یہ بھی بتادیں کہ ایک تخلیق کار اپنی تخلیق میں انہیں موضوعات سے معنی کشید کرتا ہے۔ یعنی تخلیق سے باہر جو چیز موضوع کی شکل میں نظر آتی ہے تخلیق کے اندر وہی شے معنویت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔

ان معنویتوں/ موضوعوں کی شکلیں بتانے کے بعد یہیں پر ہم آپ کو یہ بھی بتادیں کہ غالب کی شاعری میں ہماری تقسیم والی چاروں معنویتیں موجود ہیں۔ غالب کے ساتھ اکیسویں صدی میں قدم رکھنے سے قبل اب ذرا یہ بھی دیکھ لیجیے کہ جن مختلف معنویتوں کی شکلیں ہم نے آپ کے سامنے پیش کی ہیں وہ اصلاً ہیں کیا۔ سب سے پہلے دائمی یا آفاقی یا ازلی معنویتوں یا مسئلوں کو دیکھےے۔ یہ معنویتیں اس طرح ہیں:

ذات اور کائنات کا طلسم، وجود کے تئیں ہمارا استفہام، دنیا میں ہمارے خلق ہونے کی غرض و غایت، موت کی ناگزیری، دنیا کی بے ثباتی، زندگی کا جبر، زیاں کا احساس، خوفِ مرگ، رنجِ رائیگاں، عدمِ تحفظ، تنہائی، مایوسی، بے یقینی، ذات کا انتشار، باطن کی پیکار، ہونے کا آزار، نہ ہونے کا وہم وغیرہ۔ یہ دائمی اور آفاقی مسائل ہیں اور یہ آج سے دو سو برس بعد یعنی تئیسویں صدی میں بھی اسی طرح موجود رہیں گے۔ یہ ضرور ہے کہ ان میں سے بعض کی حالتوں اور کیفیتوں میں بہ اعتبارِ وقت تبدیلی واقع ہوتی رہے گی۔ مثلاً مایوسی، بے یقینی، عدمِ تحفظ، عدم حوصلگی اور زیاں کا جو احساس ہمیں 1857 کے غدر یا پہلی جنگ عظیم میں ہوا تھا، اس سے کہیں زیادہ دوسری عالمگیر جنگ میں ہوا۔ جب تقسیم اور اس کے بعد فسادات کے المناک واقعات رونما ہوئے تو اس احساس میں پھر تیزی آئی اور بیسویں صدی کے آخری اور اکیسویں صدی کے پہلے دہے میں ایک عبادت گاہ کی مسماری اور بہ رضائے ریاست ایک صوبے میں ایک مخصوص جمیعت کی صف کُشی کے دل دہلادینے والے مناظر سامنے آئے تو ہم ایک نئے طرح کے آزار و اضطراب میں مبتلا ہوئے اور عدمِ تحفظ کے احساس نے ہمیں لرزہ براندام کردیا۔ اور آج اکیسویں صدی کے دوسرے دہے کا منظرنامہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ ایک مخصوص طبقہ پھر نشانے پر ہے۔ اس طبقے کو جس نوع کے انفرادی اور اجتماعی تشدد کا شکار ہونا پڑرہا ہے اور جس طرح ایک خاص خطے کے حدود کو بندی خانوں میں بدل کر محصور لوگوں کی زبانوں کو بند کردیا گیا ہے اس نے ہمیں ہونے اور نہ ہونے کے وہم میں مبتلا کردیا ہے۔

درج بالا بیان کے ذریعے ہم جس نکتے کو زیادہ نمایاں کرنا چاہ رہے ہیں وہ یہ کہ دائمی اور آفاقی مسئلوں یا معنویتوں کی حالتیں یا کیفیتیں تو بدل سکتی ہیں لیکن ان کی اصل میں کوئی تغیر نہیں ہوتا۔ مثلاً مایوسی، بے یقینی، تنہائی اور غم کی حالت ہر شخص پر طاری ہوتی ہے اور ہر زمانے میں طاری ہوتی ہے۔ مخصوص حالتوں میں کسی کو اس کا زیادہ احساس ہوتا ہے کسی کو کم۔ جب غالب یہ کہتے ہیں:

کیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواہ اہلِ بزم

ہو غم ہی جاں گداز تو غمخوار کیا کریں

تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کا غم بہ اعتبارِ حالت کم ہوتا ہے اورکسی کا جان کو گھلا دینے والا۔ دائمی اور آفاقی حالتوں یا معنویتوں کا ذکر کرنے کے بعد اب آئیے فوری، یک عہدی یا وقتی موضوعوں یا معنویتوں کی طرف۔ یہ معنویتیں عارضی اور مخصوص حالتوں کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا زمانہ کبھی بہت مختصر ہوتا ہے اور کبھی ان کا سلسلہ دراز ہوجاتا ہے۔ مثلاً بیسویں صدی کے آخری دہے میں بنیادپرستی اور مذہب زدگی میں شدت پیدا ہوگئی تھی، اقلیتوں کی وفاداری پر سوالیہ نشان قائم کئے جانے لگے تھے۔ قومی وقار و افتخار کی نئی تعریفیں وضع کی جانے لگی تھیں۔ نیز مذہب شناسی کے نام پر منافرت کو ہوا دی جارہی تھی۔ ذات پرست اور مذہب اساس سیاست کا کھیل کھیلا جانے لگا تھا۔ اکیسویں صدی کے دوسرے دہے میں اقتدار میں آنے کے لیے انہیں موضوعوں/ مسئلوں کو اور ہوا دی گئی اور اس ہوا کے تیز تھپیڑوں کو ہم آج بھی محسوس کررہے ہیں۔ لیکن یہاں ہم آپ کو ایک باریک فرق بھی بتاتے چلیں کہ فوری اور وقتی معنویتیں بعض صورتوں میں ہمہ زمانی بھی ہوجاتی ہیں مثلاً بیسویں صدی کے آخری دہے میں پیدا ہونے والے مسائل پر اگر کسی نے کوئی شعر کہا ہے اور اُس شعر میں زمانے کے تعین کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے تو چونکہ یہ حالتیں اکیسویں صدی کے دوسرے دہے میں بھی موجود ہیں اس لیے اس زمانے میں کہے جانے والے شعر کا اطلاق 2021 کے بعد کے زمانے پر بھی کیا جاسکتا ہے اور اس طرح وہ شعر وقتی نہ رہ کر ہمہ زمانی ہوجائے گا۔ مشہور ترقی پسند شاعر سردار جعفری کے دو شعروں سے یہ بات زیادہ واضح ہوجائے گی۔

شعر یہ ہیں:

کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سوا

راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا

تیغ منصف ہو جہاں دار و رسن ہوں شاہد

بے گنہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا

یہ شعر غالباً 1950 سے پہلے کسی مخصوص اور ہنگامی حالت کے نتیجے میں کہے گئے تھے۔ لیکن جب ایمرجنسی کے زمانے میں دہلی کے ایک بڑے مشاعرے میں سردار جعفری نے ان شعروں کو بقول شخصے حال ہی میں کہے ہوئے شعروں کے طور پر پڑھا تو مشاعرے کی چھتیں اڑ گئیں۔ اس کے برعکس غالب کا مشہور قطعہ : ’بس کہ فعّالِ ما یرید ہے آج….، اس میں انگلستاں اور دہلی کے لفظوں کے آجانے کی وجہ سے یہ قطعہ جگہ اور زمانے سے مخصوص ہوگیا ہے اور یہ اکہری اور وقتی معنویت سے آگے نہیں بڑھ سکا۔

موضوعوں اور معنویتوں کی اس تقسیم و تخصیص کے بعد اب آئیے دیکھیں کہ غالب کے شعروں میں یہ موضوع یا معنویتیں کس طرح نظر آتی ہیں۔ سب سے پہلے آفاقی معنویتوں کی طرف آتے ہیں اور ان میں بھی پہلے فنا، زوال اور دنیا کی بے ثباتی کا موضوع لیتے ہیں اور اس کے لیے اس شعر کے مفہوم کو غور سے ملاحظہ کیجیے:

کیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواہ اہلِ بزم

ہو غم ہی جاں گداز تو غمخوار کیا کریں

بظاہر شعر کا مفہوم یہ ہے کہ اہلِ بزم شمع کے خیرخواہ تو ہیں لیکن شمع کا غم ہی ایسا ہے جو لاعلاج ہے اس لیے اہلِ محفل بہی خواہی کے جذبے کے باوجود شمع کا غم دور نہیں کرسکتے۔

یعنی شمع کا کام اور اس کا انجام ہی یہ ہے کہ وہ پگھلتے پگھلتے ختم ہوجائے۔ ایسی صورت میں اس سے ہمدردی تو کی جاسکتی ہے لیکن اس کے لوازمِ ذاتی کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ شمع کا وجود عبارت ہے جلنے سے اور جل کر ختم ہوجانے سے۔ اس لیے ایسی شے کی غمخواری جس کا غم جاں گداز ہو حقیقتاً ممکن نہیں۔ شمع کی جاں گدازی کو ختم کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ شمع کو بجھادیا جائے لیکن اس طرح شمع کی موت ہوجائے گی اس لیے کہ شمع کی زندگی اپنی شمعیّت (روشن رہنے) کی وجہ سے ہے۔ اسے گل کردینے سے یہ شمعیّت ختم ہوجائے گی یعنی شمع کی موت واقع ہوجائے گی۔ اس طرح دونوںصورتوں میں شمع کی موت یقینی ہے۔ پہلی صورت میں جلتے جلتے ختم ہونا اس کا فنا ہونا ہے اور دوسری صورت میں اِس فنا کے سلسلے کو روک دینا دراصل اسے (شمع کو) مار ڈالنا ہے۔

غالب نے اپنے ایک شعر میں، جسے اوپر نقل کیا جاچکا ہے، اپنے ہر لفظ کو گنجینۂ معنی کا طلسم کہا تھا سو اس شعر میں بھی ہر لفظ معنی سے معمور ہے۔ اس کی مثال لفظ غمخواری ہے جس نے شعر کے مفہوم کو متحرک کردیا ہے۔

غمخواری کا مطلب ہے کسی کے غم میں شرکت کرنا یعنی اسے اپنا لینا۔ اس طرح اہلِ بزم کا شمع کی غمخواری کرنا خود بھی جاں گدازی کے مرحلے سے گزرنا ہے۔ چونکہ شمع کی جاں گدازی اس کے روشن ہونے کی بنا پر ہے اور شمع کا روشن ہونا بزم کے وجود یعنی اہلِ بزم کا موجب ہے۔ اگر شمع کے غم کی جاں گدازی ختم کردی جائے تو بزم باقی نہیں رہے گی اور اگر شمع کی غمخواری کی جائے تو اہلِ بزم خود اس کا شکار ہوجائیں گے اور اس طرح بھی بزم کا باقی رہنا مشکل ہے۔ یعنی جس المیہ نظام سے شمع دوچار ہے اسی نظام میں اہلِ بزم بھی مبتلا ہیں۔ اس لیے نہ صرف شمع بلکہ اہلِ بزم اور بزم کے تمام لوازم فنا کا شکار ہیں۔ اس طرح غالب کا یہ شعر اس پورے نظامِ کائنات کو ظاہر کرتا ہے جہاں ہر شے فنا میں مبتلا ہے۔

فنا اور بے ثباتی کا یہ المیہ نظام تئیسویں صدی بلکہ تیسرے ہزارے کے بعد بھی قائم رہے گا اور غالب اس وقت بھی بامعنی رہیں گے۔ غالب کو بامعنی بتانے میں میں بہت دور تک چلا گیا۔ چھوڑیے اتنے آگے کے زمانے کو۔ اس شعر میں جاں گدازی اور غمخواری کے الفاظ کو بالکل تازہ مفہوم تک لاتے ہیں۔ غالب کے اس شعر کی شمع وقت اورزمانہ بدل کر کوئی پینتالیس دن سے جاں سوزی اور جاں گدازی کے عالم میں ہے۔ اس شمع کی طرف آپ کا ذہن منتقل ہوا؟ اگر نہیں تو ہم بتاتے ہیں۔ یہ شمع ہری بھری وادیوں کے فانوس میں روشن ہے اور اس کی لَو کی نیلاہٹ روز بہ روز کم ہورہی ہے۔ ہم سب اس شمع کے غمخوار ہیں۔ اس شمع کی جاں سوزی ایک شب کی نہیں بلکہ ہزاروں شبوں کی ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہم اس کے غم میں شریک ہوتے ہیں تو موجودہ صورتحال ایسی ہے کہ ہمیں بھی جاں گدازی کے مرحلے سے گزرنا پڑے گا بلکہ ہماری جاں گدازی شمع کی جاں گدازی سے زیادہ بڑھ جائے گی۔ دوسری طرف وہ لوگ جو شمع کی جاں گدازی کو ختم یعنی اس کے دکھ کو دور کرنے کے بہانے اسے بجھادینے کے درپے ہیں، وہ شمع کو اس کی شمعیّت یعنی اس کی شناخت سے محروم کردینا چاہتے ہیں۔ یہ کھلے ہوئے اشارے آپ نے یقینا سمجھ لیے ہوں گے۔ تو دیکھیے انیسویں صدی میں کہا ہوا شعر اکیسویں صدی کے دوسرے دہے کی تازہ ترین صورتحال پر کس طرح منطبق ہوتا ہے۔

وجود و عدم کے مسائل فارسی میں بیدل اور اردو میں غالب کے یہاں سب سے زیادہ بیان کئے گئے ہیں۔ وجود کی بوالعجبیوں اور نیرنگیوں کی تفسیریں ہر عہد میں کی جاتی رہی ہیں۔ چنانچہ بیسویں صدی کے ربعِ ثالث میں فرانسیسی مفکر ژاں پال سارتر نے اپنی دانست میں وجود کی نئی تفسیر اس مشہور فقرے کے ذریعے کی: ”آزادی ہی انسان کی قید ہے۔“ ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ سارتر کے اس وجودی فقرے کے معنی کیا ہیں۔ ابھی ہم اس فقرے پر غور کرہی رہے تھے کہ ہماری نگاہ غالب کے اس شعر پر ٹھہری:

کشاکش ہائے ہستی سے کرے کیا سعیِ آزادی

ہوئی زنجیر موجِ آب کو فرصت روانی کی

یہ شعر پڑھ کر ہمیں معاً یہ محسوس ہوا جیسے ہم نے سارتر کے اس کلیدی فقرے کے مفہوم کو سمجھ لیا ہو۔ اب شعر کا مفہوم ملاحظہ کیجیے:

یہ دنیا سمندر ہے۔ ہم اس میں ایک موج کی مانند ہیں۔ جس طرح موج کو سمندر میں ہمیشہ بہتے رہنا ہے یعنی کشاکش سے گزرتے رہنا ہے اور جس طرح اب کنارہ اس کے مقدر میں نہیں ہے اسی طرح ہمیں بھی دنیا کی کشاکش سے آزادی نہیں مل سکتی ہے درحالیکہ ہم آزاد ہیں۔ جس طرح روانی کی فرصت موج کے لیے زنجیر بن گئی ہے اسی طرح اس دنیا میں آزادی ہمارے لیے زنجیر بن گئی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ اپنے زمانے میں کہے ہوئے شعر کے ذریعے غالب نے بیسویں صدی کے سب سے نمایاں فلسفی کے وجودی فقرے کو کتنی آسانی سے سمجھا دیا۔ اب اگر ہم فرانسیسیوں سے کہیں کہ وجود کی اس نوع کی تفسیر میں زمانی فضیلت غالب کو حاصل ہے تو کیا انہیں آسانی سے یقین آئے گا۔

انسانی ذہن میں جس دن سے ذکاوت پیدا ہوئی ہے، اسی دن سے کائنات کے اسباب و علل کو سمجھنے کی کوشش شروع ہوگئی ہے۔ غالب کے یہاں ان اسباب و علل کو سمجھنے کی سعی جگہ جگہ موجود ہے۔ یہ شعر ملاحظہ کیجیے:

شوق اُس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو کہ جہاں

جادہ غیر از نگہہِ دیدۂ تصویر نہیں

اس شعر میں غالب نے جادہ کو غیر از نگہہِ دیدہ تصویر کہہ کر مفہوم کو بالکل منفرد کردیا ہے۔ تصویر اگر سامنے دیکھتی ہے تو اس کی نگاہ جدھر سے بھی دیکھیے اپنی طرف معلوم ہوتی ہے۔ اگر یہ تصویر کسی اور رخ کو دیکھ رہی ہے تو اس رخ کی طرف کھسکتے جائیے، نگاہ بھی کھسکتی جائے گی۔ تصویر کی نگاہ کسی نہ کسی طرف جاتی ہوئی معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقتاً کسی بھی طرف نہیں جاتی۔ یہی حال دشت کا ہے جہاں راستہ مسدود نہ ہونے کی وجہ سے جس طرف دیکھیے راہ کھلی ہوئی نظر آتی ہے یعنی ہر طرف جادہ نظر آتا ہے مگر جادہ کہیں نہیں ہے۔

یعنی میں اس دشت میں دوڑ رہا ہوں جہاں راستے کا تعین بھی نہیں ہے اور جہاں مجھ سے پہلے کسی اور شخص کا گزر نہیں ہوا ہے، اگر مجھ سے پہلے کوئی شخص گزرا ہوتا تو یہاں جادہ ضرور بن جاتا اس لیے کہ جادہ انسان کے قدموں ہی سے بنتا ہے۔

اب اس جادے سے خالی دشت میں دوڑنے کے دو مفہوم ہیں۔ ایک یہ کہ میں شوق کے ہاتھوں سعیِ رائیگاں میں مبتلا ہوں اور دوسرے یہ کہ اس شوق نے مجھے سرگرمِ عمل کردیا کہ جہاں جادہ نہیں ہے اس دشت کو بھی چھانتا پھر رہا ہوں۔

یہ شعر ہمارے اس ذہنی اور مابعد الطبیعییاتی تجربے کو ظاہر کرتا ہے کہ ہم اس پوری کائنات کے اسباب و علل کو سمجھنے کے شوق میں مبتلا ہیں لیکن جس کا نتیجہ فقط حیرانی ہے۔ یہ مابعدالطبیعییاتی تجسس (Metaphysical curiosity) آپ کو افلاطون سے لے کر اسٹیفن ہاکنگ تک ہر جگہ نظر آئے گا۔ غالب کے ایسے شعروں کا سفر کیجیے تو ذہنی اور مابعدالطبیعییاتی مسائل سے ان کی پیکار و آویزش آئندہ زمانوں کو حیران کردینے والی ہے۔

اب چلتے ہیں ایک اور دلچسپ نکتے کی طرف۔ یہ بات کہ ”انسانی وجود اور کائنات کی پیچیدہ حقیقت کا احاطہ کرنے میں عقل ناکام ہے۔“ دنیا کے مشہور فلسفیوں پاسکل، کرکے گار، نطشے، یاسپرس، ہزرل، ہائیڈیگر اور سارتر وغیرہ میں مشترک ہے۔ لیکن اسی بات کو غالب ان فلسفیوں سے بہت پہلے اپنے بیسیوں شعروں میں بیان کرچکے ہیں۔

حیرت اور استفہام میں ڈوبے ہوئے یہ شعر تو آپ کی زبان پر فوراً آجاتے ہیں:

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

یہ اور ایسے بہت سے شعر بتاتے ہیں کہ غالب کا نابغہ زمان و مکان کے حدود و قیود سے آزاد ہے۔

 آفاقی معنویتوں میں وجودیت کا ذکر ابھی کیا جاچکا ہے۔ اب آئیے ایسی ہی کچھ اور معنویتوں کی طرف۔ یہ ہیں: اجنبیت، معدومیت اور مہملیت۔

معدومیت کی اصطلاح روس میں انیسویں صدی کے دوسرے ربع میں ایواں ترگینیو کے ناول

Fathers And Sons(1860)

کے وسیلے سے سامنے آئی۔ اس ناول کا مرکزی کردار بازاروف خود کو معدومیت پسند کہتا تھا۔ یہ ذہنی معدومیت تھی اور اس زمانے کی مخصوص حالتوں کے نتیجے میں سامنے آئی تھی۔ یہی معدومیت غالب کے یہاں بھی ہے لیکن غالب کے یہاں یہ معدومیت ذہنی بھی ہے اور روحانی بھی۔ اس معدومیت کے ضمن میں ہوسکتا ہے غالب کا یہ مشہور شعر مجھ سے پہلے آپ کے ذہن میں آگیا ہو:

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی

خود ہماری خبر نہیں آتی

سہلِ ممتنع کے سے انداز میں کہے جانے والے اس شعر کا ظاہری مفہوم تو آپ نے سمجھ ہی لیا ہوگا لیکن باطنی مفہوم میں سوال یہ ہے کہ ہم کہاں ہیں جہاں سے ہم کو ہماری خبر نہیں مل رہی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ہم عدم میں ہیں یعنی ہم نہیں ہیں۔ تو جو نہیں ہے اسے ’ہے‘ والی شے کی خبر کیونکر مل سکتی ہے۔ یعنی معدوم کو موجود کی خبر ملنا محال ہے اور موجود بھی وہ جو قیاسی، موہوم اور اعتباری ہے۔ اس کے لیے خود غالب کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے:

ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد

عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے

یا میر کا یہ شعر:

یہ توہم کا کارخانہ ہے

یاں وہی ہے جو اعتبار کیا

سارتر نے

 (Being and Nothingness)

 کے مسائل پر عالمانہ انداز میں بہت بعد میں غور کرنا شروع کیا لیکن غالب ”ہونے اور نہ ہونے“ کے معاملات کو بہت پہلے اپنے شعروں میں بیان کرچکے تھے۔

‘بیگانہ’ کے سے شہرۂ آفاق ناول کے خالق البیئر کامیو نے لغویت اور مہملیت

(Absurdity and Nihilism)

کے بارے میں بتایا ہے کہ اس کا احساس درج ذیل چار صورتوں میں ہوتا ہے:

          1۔ اس بات پر غور کرنا کہ ہمارے وجود کی غرض و غایت کیا ہے۔

          2۔ اس بات کا خاطر نشین ہوجانا کہ وقت ایک تخریبی قوت ہے۔

          3۔ اس بیگانہ دنیا میں لاکر چھوڑ دیے جانے کا احساس۔

          4۔ دوسروں سے بے تعلقی کا احساس۔

ان چاروں صورتوں کو غالب نے اپنے کلام میں بہ ہزار صورت بیان کیا ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:

جب کہ تجھ بِن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

ہرزہ ہے نغمۂ زیر و بم ہستی و عدم

لغو ہے آئینۂ فرقِ جنون و تمکیں

بیگانگیِ خلق سے بے دل نہ ہو غالب

کوئی نہیں تیرا تو مری جان خدا ہے

ان شعروں کے مفاہیم بیان کرنے میں بڑا وقت لگ جائے گا۔ شعروں کو سن کر آپ نے سمجھ لیا ہوگا کہ کامیو کی بتائی ہوئی چاروں صورتیں یہاں موجود ہیں اور بہت سے معنوی ارتعاشات کے ساتھ موجود ہیں۔

لغویت اور مہملیت کی وضاحت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان کے شدید احساس کی بنا پر انسان شدید ذہنی تنہائی

(Loneliness)

میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس تنہائی کا احساس غالب کے یہاں دیکھیے

وحشتِ آتشِ دل سے شبِ تنہائی میں

صورتِ دود رہا سایہ گریزاں مجھ سے

بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق

بیکسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں

اور ”کوئی نہ ہو“ ردیف والے وہ تین شعر تو ہم سب کی زبانوں پر ہیں جن میں غالب نے دنیا سے اپنی بے تعلقی، بے دلی اور بیزاری کا ذکر کیا ہے۔

اوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے اسے سننے کے بعد اب آپ خود فیصلہ کیجیے کہ ان دقیق، پیچیدہ اور مشکل موضوعات کے بیان میں زمانی سبقت کسے حاصل ہے۔ لیکن اسے کیا کیا جائے کہ اردو کے بعض مغرب زدہ نقاد اپنے علمی دبدبے کو ظاہر کرنے کے لیے مغربی فلسفیوں اور نقادوں کا ذکر کےے بغیر لقمہ نہیں توڑتے۔ مقامِ افسوس ہے کہ ہم اپنے خزانوں کو کھنگالنے کے بجائے دوسروں کے دفینوں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔

ہماری اب تک کی گفتگو غالب کے یہاں موجود آفاقی اور ہمہ زمانی موضوعات سے متعلق تھی۔ اب آئےے یک عہدی یعنی عصری اور انفرادی معنویتوںکی طرف لیکن اس سے پہلے کہ ہم ان معنویتوں کو ظاہر کریں، آپ کو بتادیں کہ غالب کے شعروں میں چونکہ زمانی اور مقامی تعین ہے ہی نہیں اس لیے اگر ان کے یہاں کوئی عصری یا مقامی موضوع ہوتا بھی ہے تو معنویت اس کی ہمہ زمانی ہوجاتی ہے۔ اب اسی شعر کو دیکھیے:

گلشن میں بندوبست برنگِ دگر ہے آج

قمری کا طوق حلقۂ بیرونِ در ہے آج

قیاس کہتا ہے کہ غالب نے یہ شعر مغلیہ سلطنت کے زوال پر کہا ہوگا لیکن اکیسویں صدی کے دوسرے دہے میں یہ شعر پڑھیے تو ایسا لگتا ہے کہ غالب نے حال ہی کے ایک واقعے (5 اگست 2020) کو نگاہ میں رکھ کر یہ شعر کہا ہے۔ خیر پہلے شعر کے مرکزی مفہوم پر نظر کیجیے۔ اس مرکزی مفہوم تک حلقۂ بیرونِ در کی تشریح کے بغیر نہیں پہنچا جاسکتا۔ قمری کا طوق حلقۂ بیرونِ در کا استعارہ ہے۔ حلقۂ بیرون در دروازے کے باہر کی زنجیر کا حلقہ ہے جسے کھٹکھٹاکر آمد کی اطلاع دی جاتی ہے اور داخلے کی اجازت طلب کی جاتی ہے۔

حلقۂ  بیرونِ در مکان سے بظاہر غیر متعلق ہونے کے باوجود متعلق ہوتا ہے۔ یعنی مکان میں داخل ہونے کے لیے پہلا وسیلہ ہی حلقہ  بیرونِ در ہے۔ یہ حلقہ قمری اور باغ کے درمیان قدرِ مشترک ہے۔ قمری کے گلے کا حلقہ باغ کے اندر ہوتا ہے یعنی وہ باغ کا لازمہ ہے اور وہ حلقہ جو دستک دینے کے کام آتا ہے، باغ کے باہر ہوتا ہے۔ لیکن نئے بندوبست میں یہ دونوں حلقے ایک ہوگئے ہیں۔ یعنی پہلے قمری باغ کے اندر تھی اور اب (نئے بندوبست میں) باغ کے باہر ہے۔

یہاں قمری کے طوق کو باغ میں رہنے یا باغ پر متصرف ہونے کی علامت بنادیا گیا ہے۔

دوسری طرف قمری کا طوق یعنی حلقۂ بیرونِ در بیک وقت آزادی، محرومی اور زوال کا مفہوم بھی ادا کرتا ہے۔ آزادی یہ کہ قمری جو عشقِ گل میں گرفتار تھی اب باغ سے باہر گو آزاد ہے مگر اس کی محرومی اور زوال یہ ہے کہ وہ باغ کا معزز اور ممتاز پرندہ اور عاشقِ گل تھی لیکن باغ سے باہر ہونے کی وجہ سے ایک طرف وہ عشقِ گل سے محروم ہوگئی اور دوسری طرف وہ اپنے اعزاز و امتیاز سے۔

اب محرومی اور زوال کے مفہوم کو سامنے رکھیے تو یہ شعر اس خطے کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں کے رہنے والوں کو حال ہی میں ان کی روایتی سہولتوں سے محروم کردیا گیا ہے۔ اور اگر آزادی کے مفہوم کو ملحوظ رکھیے تو شعر کی علامتی جہت یہ ہوگی کہ دوسروں کے زیرِانتظام آجانے کے بعد اگرچہ وہاں کے باشندے صوبائی امور کی تمام الجھنوں سے آزاد ہوجائیں گے لیکن یہ آزادی غلامی سے بدتر اور غلامی ہی کی ایک شکل ہوگی۔

درج بالا سطور میں ہم نے بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے اوائل کے اِن مشترک مسائل کا ذکر کیا تھا:

 ‘بنیادپرستی اور مذہب زدگی، قومی وقار و افتخار کی نئی تعریفوں کا وضع کیا جانا، مذہب شناسی کے نام پر منافرت کو ہوا دیا جانا، وفاداریوں پر سوالیہ نشان کا قائم کیا جانا، تاریخ اور ثقافت کی نئی تعبیر کے لیے تعلیم کو ایک مخصوص نظریے کا ترجمان بنایا جانا نیز انفرادی اور اجتماعی تشدد وغیرہ۔’

پچھلے پچاس ساٹھ برس کی تاریخ کے ورق الٹیے تو حکومتوں کی تخصیص و تفریق کے بغیر ایک مخصوص طبقہ ان مسائل کا شکار ہوتا رہا ہے۔ اب غالب کے اس شعر میں اس مخصوص طبقے کی فریاد سنیے:

خزاں کیا فصلِ گل کہتے ہیں کس کو کوئی موسم ہو

وہی ہم ہیں قفس ہے اور ماتم بال و پر کا ہے

عام طور پر بال و پر کا ماتم فصلِ گل میں ہوتا ہے لیکن غالب نے خزاں کو شامل کرکے مفہوم میں ندرت پیدا کردی ہے۔ فصلِ گل میں اڑنے کی خواہش زیادہ ہوتی ہے اسی لیے بال و پر کے نہ ہونے کا ماتم اسی فصل میں کیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں تو اسیری بلکہ دائمی اسیری ہے اس لیے ہم خزاں میں بھی وہی ماتم کررہے ہیں۔ یعنی زمانے کے سرد و گرم ہمارے لیے ایک سے ہیں۔

علامتی مفہوم یہ ہے کہ نظامِ حکومت کوئی بھی ہو محرومی اور ستم آزاری ہمارا مقدر ہے۔ اور ’ہمارا‘ سے مراد ایک مخصوص طبقہ ہے۔

یہاں تک آتے آتے منتخب مثالوں کے ذریعے ہم نے غالب کے یہاں قریب قریب ان تمام موضوعوں اور معنویتوں کا احاطہ کرلیا ہے جن کی ابتداً ہم نے درجہ بندی کی تھی۔

میں نے اپنے کسی مضمون میں لکھا ہے کہ جو منظم ادبی اور سماجی فلسفے ظہور میں آتے ہیں وہ غیر منظم شکل میں ہمارے بڑے فنکاروں کی تخلیقوں میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ تو غالب کے ساتھ ہم ایک ایسے ہی ادبی نظریے کی طرف چلتے ہیں جو بیسویں صدی کے اواخر میں باہر سے ہمارے یہاں لایا گیا اور ایک انوکھے ادبی نظریے کے طور پر اس کا خوب گُن گایا گیا۔

ژاک دریدا کا نام کوئی پینتیس چھتیس برس پہلے میں نے لکھنؤ کی برٹش کاؤنسل لائبریری میں بیٹھ کر اخبار ’گارجین‘ میں پڑھا تھا۔ اس وقت تک دریدا اردو میں پوری طرح نمودار نہیں ہوئے تھے۔ ’گارجین‘ نے دریدا کو پورا ایک صفحہ اس لیے دیا تھا کہ اس وقت کیمبرج یونیورسٹی کی انتظامیہ میں دریدا کی اعزازی رکنیت کے معاملے میں تنازعہ چھڑا ہوا تھا۔ دریدا پر ’گارجین‘ نے

Text Detective

 (مُفتّشِ متن) کے نام سے ایک مضمون شائع کیا تھا اور اسے اپنے عہد کا نابغہ قرار دیا تھا۔ اس وقت اس مضمون میں

Deconstruction

کا لفظ میری سمجھ میں نہ آیا اور سچ پوچھیے تو ابھی بھی میں اسے براہِ راست سمجھنے سے قاصر ہوں۔ بس اردو کے بعض بہت دانا اور زیرک نقادوں کے ذریعے جو کچھ میں نے سمجھا ہے وہ یہ کہ متن کو جتنی بار کھنگالیے، الٹیے، برہم کیجیے، جتنی بار اس کے وقفوں، درزوں اور جھروکوں میں جھانکیے ہر بار اس کے اندر نئے معنی بلکہ اصل معنی کے برعکس معنی نکلتے ہیں۔ کچھ دیر پہلے ہم نے سارتر کی وجودیت کی اصل کو غالب کے یہاں ڈھونڈ نکالا تھا۔ اب اس شعر میں دریدائی طریقۂ کار کو منکشف ہوتا ہوا دیکھیے۔ یہ بھی بتادیں کہ غالب کی تعبیروں میں اس طریقے کو سب سے پہلے طباطبائی نے رسمی طور پر اور نیرمسعود نے باقاعدہ اختیار کیا۔ شعر یہ ہے:

غم کھانے میں بودا دلِ ناکام بہت ہے

یہ رنج کہ کم ہے مئے گلفام بہت ہے

یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ متحرک معنویت غالب کے اشعار کی بنیادی خصوصیت ہے۔ اس شعر میں بھی غالب نے مفہوم کو متحرک کردیا ہے۔ دیکھیے کیسے۔

چونکہ دل غم کھانے میں بہت بودا ہے اس لیے شراب کی ضرورت ہے۔ لیکن جتنا غم ہے اس کے بقدر شراب نہیں ہے۔ مقابلتاً شراب کی اس کمی کے احساس کی وجہ سے رنج میں اور اضافہ ہورہا ہے اور رنج میں اس اضافے کے ساتھ شراب کی کمی اور زیادہ محسوس ہورہی ہے۔ اس طرح رنج برابر بڑھتا جارہا ہے اور شراب کی مقدار اس کے تناسب سے کم ہوتی جارہی ہے۔ اب متن کو برہم کیجیے تو متخالف

(Paradoxical)

 معنی بھی سامنے آئیں گے۔  یعنی یہاں حوصلہ بھی ہے اور عدمِ حوصلہ بھی۔ عدمِ حوصلہ یہ کہ غم کھانے میں دلِ ناکام بہت کمزور ہے اور حوصلہ یہ کہ مئے گلفام بہت کم ہے، اسے بقدرِ ظرف یعنی میرے غم کے مطابق ہونا چاہیے تھا۔

آپ نے دیکھا کہ متن کو برہم کرنے کے بعد شعر میں برعکس اور متخالف معنی موجود نظر آنے لگے اور یہ معنی اس لیے نظر آنے لگے کہ غالب نے تخالف اور تقلیب کی منطق ہی سے اس شعر کی تخلیق کی ہے۔

دریدا یہی تو کہتا ہے کہ متن جو دکھاتا ہے، بتاتا اس کے برعکس ہے۔ یہی بات غالب نے عملاً اپنے شعروں کے ذریعے بتادی۔ غالب کے یہاں دریدا کے نکتے کی وضاحت میں ہم نے بظاہر سامنے کا ایک سادہ شعر لیا ہے لیکن غالب کے مشکل اور پیچیدہ شعروں کی طرف جائیے تو متن کے اندر سے معنی کو منکشف کرنے کا دریدائی مطالبہ ہر طرح سے پورا ہوتا ہوا نظر آئے گا۔

اگر میں شعروں کی تشریح کے ذریعے اکیسویں صدی میں غالب کی معنویت کو روشن کرنا شروع کروں گا تو یہ مقالہ پھیلتا چلا جائے گا سو اس حرف دراز خامے کو گرفت میں رکھتے ہوئے آپ کو اپنے اس احساس میں شریک کرنا چاہتا ہوں کہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ہم بہت سنگین اور جاں سوز مراحل سے گزر رہے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم اور تقسیم کے المیے کے بعد ہم میر کی پناہ میں چلے گئے تھے۔ موجودہ صدی کے دوسرے دہے کے لیے ہمیں غالب کی طرف دیکھنا پڑرہا ہے۔ جو کچھ اس دہائی میں یا اس سے پہلے ہوا اس کا ذکر ہم سطور بالا میں کرچکے ہیں۔ یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بعض زمانی مسائل کو نگاہ میں رکھ کر شعر نقل کرکے ان کی معنویتیں بتادی جائیں۔

محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے

کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا

ایک مخصوص طبقے کی وفاداری پر سوالیہ نشان اٹھائے جانے پر اس طبقے کا ردِّ عمل۔

 آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے

کل تلک تیرا بھی دل مہر و وفا کا باب تھا

ایک حکمراں کا حکومت قائم کرتے وقت سب کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھنے کا وعدہ کرنا اور اس پر عمل نہ کرنا۔

کام اس سے آپڑا ہے کہ جس کا جہان میں

لیوے نہ کوئی نام ستمگر کہے بغیر

 ‘جنت نظیر’ خطے میں بہ حالتِ مجبوری نظریاتی سطح پر ایک دوسرے کی ضد سمجھی جانے والی جماعتوں کی یکجائی کے وقت کی بے بسی۔

باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر

ہر گلِ تر ایک چشمِ خوں فشاں ہوجائے گا

معنویت اپنے ہی باغ سے نکالے جانے والے کو اسی باغ میں سبزباغ دکھا کر لے جانے پر اصرار کے وقت نکالے جانے والے کا ردِّعمل۔

 ہر چند سبک دست ہوئے بت شکنی میں

ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور

معنویت اُن طاقتوں کے سامنے شدید اور مسلسل مزاحمت جن کا زور کسی طرح کم ہوتا ہوا نظر نہےں آتا۔

 روز اس شہر میں اک حکم نیا ہوتا ہے

کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا ہوتا ہے

 ایک مخصوص طبقے کے لیے منفی مقاصد کو نگاہ میں رکھ کر نافذ کیے جانے والے احکام۔

شعروں کے مقابل ان کی عصری معنویتیں رکھ دینے کے بعد عرض کرتا چلوں کہ ایسا میں نے اپنے موضوع کی مجبوری کی بنا پر کیا ہے ورنہ اپنے طریقۂ کار کے مطابق میں شعروں کو اکہرے مفاہیم میں نہیں باندھتا۔ نقل کیے ہوئے شعر اپنے معنوی امکانات کی وجہ سے متعدد موضوعات پر منطبق ہوسکتے ہیں۔

آخراً جو کچھ کہتے آئے ہیں اس کے ماحصل کے لیے یہ دو جوہر دار شعر اور ملاحظہ کرلیجیے:

کمالِ گرمیِ سعیِ تلاشِ دید نہ پوچھ

برنگِ خار مرے آئینے سے جوہر کھینچ

عرض کیجیے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں

کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا

پہلا شعر:

 کمالِ گرمیِ سعیِ تلاشِ دید نہ پوچھ

برنگِ خار مرے آئینے سے جوہر کھینچ

آئینہ اپنے جوہر کے ذریعے اشیا کو منعکس کرتا ہے۔ یعنی آئینے سے یہ جوہر نکل جانے سے اشیا کا انعکاس نہیں ہوسکتا۔

اشیا کا بہت زیادہ انعکاس آئینے کو حیرانی یعنی اذیت میں مبتلا کردیتا ہے۔ جس طرح (جسم سے) کانٹا نکل جانے کے بعد تکلیف ختم ہوجاتی ہے اسی طرح آئینے سے اس کا جوہر نکل جانے سے مشاہدے کی اذیت ختم ہوجاتی ہے۔

غالب نے اس شعر میں ایک ایسے شخص (سمجھ لیجےے کہ خود غالب) کی صورتحال کو پیش کیا ہے جو زیادہ سے زیادہ اشیا کا مشاہدہ کرنا چاہتا ہے اور چونکہ یہ مشاہدہ اس کے لیے تکلیف دہ بھی ہے اس لیے وہ چاہتا ہے کہ تکلیف ختم ہوجائے۔ بتادیں کہ غالب کے یہاں مشاہدے کی یہ اذیت ہرجگہ موجود ہے۔ کمالِ گرمیِ سعیِ تلاشِ دید دراصل مشاہدے کی وہ بے پناہی ہے جو انسان کو بالآخر پراگندہ

 (confuse)

 کرد یتی ہے اور پھر وہ اس پراگندگی سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے۔

کمالِ گرمیِ سعیِ تلاشِ دید کا اطلاق، بتایا جاچکا ہے، خود غالب پر ہوتا ہے۔ ان کا مشاہدہ بے پناہ بلکہ لازمانی ہے۔ ان کی آنکھ کئی زمانوں کی فصیلوں کے اُس طرف دیکھ لیتی ہے اور جو کچھ انہیں دکھائی دیتا ہے اس کی پراگندگی کا سبب یہ ہے کہ جو انہیں دکھائی دے رہا ہے وہ دوسروں کو کیوں نہیں دکھائی دیتا۔

دوسرا شعر:

عرض کیجیے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں

کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا

اس شعر کے مصرعہ اولیٰ میں لفظ ’کہاں‘ پر غور کیجیے:

وحشت کو بروئے کار لانے کی جگہ صحرا ہے اور صحرا میری وحشت کے تصور ہی سے جل گیا۔ تو اب (اس عالمِ امکان میں) کون سی جگہ ہے جہاں میں اپنی وحشت کو لے جاکر سماؤں یعنی جس کی گرمیِ فکر کا یہ عالم ہو کہ وہ عملِ تصور ہی میں صحرا (کائنات) کو جلادے اسے موجودات میں ہر شے ناقص اور نامکمل نظر آئے گی اور یہ ظرفِ کائنات ایسی فکر کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

اور یہ ظرفِ کائنات جس فکر کا متحمل نہیں ہوسکتا وہ دراصل غالب کی فکر ہے۔  ان کے دائرۂ  دانش میں ناموجود مکانوں اور غیر مرئی زمانوں کی ایسی ایسی نیرنگیاں اور بوالعجبیاں ہیں کہ ان کی معنی کشائی کے لیے غالب کی سی ہی دیدہ وری کی ضرورت ہے۔

اپنی گفتگو کے قطعی اور آخری مرحلے تک آتے آتے ہم نے معانی سے بھرے ہوئے غالب کے ذہن کی وسعت، ان کے شعروں میں خلق ہوتی ہوئی دور کے زمانوں کی دنیاوں، ان دنیاوں کے طلسم اور ان کی حیرت آوری کو بہ حدِّ بساط نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ ذیل میں یہ دیکھ لیجیے کہ آئندہ یعنی اکیسویں صدی اور اس سے آگے کے زمانوں میں کیا ہوگا اور ہم غالب کے آئینۂ کلام میں اس کی تمثالیں کس طرح دیکھ سکیں گے۔

          1۔ ازلی اور آفاقی معنویتیں ایک سی تھیں، ایک سی ہیں اور دنیا کے فنا ہونے تک ایک سی رہیں گی۔

          2۔ کائنات اور ماورائے کائنات کا استفہام و تجسس اسی طرح قائم رہے گا۔

          جبلتوں 3۔

(instincts)

سے آزادی حاصل کرنا انسان کے اختیار میں نہیں تاوقتیکہ ہمارے گوشت پوست والے جسم کو

Robotic

 نہ بنادیا جائے۔ سو اِن جبلتوں کا اظہار آئندہ زمانوں میں بھی اسی طرح ہوتا رہے گا۔

4۔ نئی روشنی انسانی ذہن کو منور کرتی رہے گی۔ نئے فلسفے اور نظریے وجود میں آتے رہیں گے اور پرانے فلسفوں اور نظریوں سے بھی رہنمائی حاصل کی جاتی رہے گی۔

5۔ کمپیوٹر نے اگر ہمارے دل اور دماغ کو اپنے اختیار میں نہیں لیا تو ہم اپنے بنیادی جذبوں، حسن، عشق اورغم سے محروم نہیں ہوں گے۔

6۔ دو سو برس بعد بفرضِ محال سارے نظاموں کو ضم کرکے ایک عالمی نظام قائم کردیا جائے تب بھی مابینِ حدود و نفوس پیکار و آویزش کا سلسلہ قائم رہے گا کہ یہ انسان کی جبلت میں شامل ہے۔

          7۔ جب تک جسم جسم کی صورت میں قائم رہے گا اور روح قفسِ عنصری سے پرواز نہیں کرے گی، جہانِ باطن کے اسرار ہمیں پریشان کرتے رہیں گے۔

اورجب تک آئندہ زمانوں میں یہ سب ہوتا رہے گا غالب ہمارے آگے آگے چلتے رہیں گے اور کہتے رہیں گے:

شمع ہوں لیکن بہ پا در رفتہ خارِ جستجو

مدعا گم کردہ ہر سو ہر طرف جلتا ہوں میں

۔۔۔۔۔۔۔۔

m

میرزا غالب کا کلام اردوو فارسی 

حافظ محمودشیرانی

         (مضمون ہذا رسالہ ‘غالب’، امرتسر کے جون 27، 1919 کے شمارے میں چھپا تھااور اپنے انداز تحریر کے لحاظ سے حافظ صاحب کے تمام مضامین میں انفرادی حیثیت رکھتاہے۔  وہ اپنے تحقیقی اور تنقیدی مضامین نہایت سادہ و سلیس نثر میں لکھا کرتے تھے لیکن یہ مضمون نثر رنگین میں ہے۔  ایسا معلوم ہوتاہے کہ ’غالب‘ کے مدیر کے تقاضوں کے تحت کیے گئے وعدے سے عہدہ براہونے کے لیے لکھاگیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں گیرائی ہے، گہرائی نہیں۔ اسی مضمون میں ایک جگہ ذریعۂ تعلیم کے متعلق اپنی رائے کا اظہار بدیں الفاظ کیاہے:

”راقم اس گروہ سے تعلق رکھتاہے جس کا اعتقاد ہے کہ انسان کے لیے اپنے اظہار خیالات کا سب سے بہتر ذریعہ صرف اس کی اپنی مادری زبان ہوسکتی ہے۔ نیز یہ کہ اکتسابی زبان میں خواہ وہ کتناہی کمال کیوں نہ حاصل کرلے،  وہ بے تکلفی اور لطافت پیدا نہیں کرسکتاجو اپنی زبان میں کرسکتاہے۔”  

حافظ محمود شیرانی صاحب کایہ مضمون ان کے ’مقالات شیرانی‘ جلد سوم میں شامل ہے۔)

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یادش بخیر میرزا غالب! جب یہ مغنی آتش نفس، غزل سرا ہوکر اپنے ترانوں سے بزم تماشا کو درہم برہم کرتاہے،  ا سکے موسیقا رسے دو قسم کے نغمے نکل کر ناخن زن دل و جگر ہوتے ہیں۔  پہلا مرحوم کا فارسی کلام جس نے آتش کدے کے زیرسایہ پرورش پائی ہے۔ دوسرا  اردو جو  بت خانے کی بہار آفریں آب و ہوا میں ہوش سنبھالتا ہے۔ اس لحاظ سے جہاں ایک طرف میرزا بت کدے میں جاکر پرستاران سومنات کو سرود برہمنی سناتے رہے، دوسری طرف مغوں کے حلقے میں داخل ہوکر قبلہ زردشت کے سامنے جبین سائی کرتے رہے۔ کمر میں زنار باندھی، گلے میں بت پہنا اور لباس برہمن میں کیش زردشتی کو تازہ فرماتے رہے

میرزاکایہ میکدہ بے خروش، یعنی ان کی بید خوانی و ژندخوانی، اگر دیکھا جائے تو حقیقت میں ’جنّت نگاہ و فردوس گوش‘ ہے، کیوں کہ جو نالہ ان کے شور نفس نے موزوں کیا، آرائش چاک گریباں کی دعوت دیتاہے اور جو نغمہ ان کے پردہ ساز سے نکلا، چشم مشتاق تماشا کے لیے ’دامان باغبان و کف گل فروش‘ ہے۔ ان کے ہم نوا معاصرین نے جب کہ ان کے زردشتی زمزموں کے آگے سرتسلیم خم کیا، ان کے ریختہ کو وقف تاراج بے التفاتی چھوڑا بلکہ بعض حریفوں نے تو صاف صاف کہہ دیا:

مگر ان کا لکھا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے

خود میرزا کی روش اپنے ریختہ کے ساتھ بے مہرانہ ہے۔فرماتے ہیں:

نیست نقصان یک دو جزو  است از سواد ریختہ

کان دژم برگی ز نخلستان فرہنگ منست

فارسی بین تا بہ بینی نقش ہای رنگ رنگ

بگذر از مجموعۂ اردو۱ کہ بیرنگ منست

        لیکن فی زمانناان کی شہرت کو بال پرواز دینے والاان کا یہی اردو کلام ہے۔ اس کا مطالعہ ایک فیشن بن گیاہے۔ ملک کے بہترین دماغ اس کی تشریح میں سرگرم کارہیں۔ آئے دن رسالوں میں اس پر تبصرے ہوتے رہتے ہیں۔ شرحیں لکھی جاتی ہیں اور ہرسال ایک نہ ایک جدید شرح اضافہ ہوتی رہتی ہے۔اگریہی حالت رہی تو وہ دن دور نہیں جب ’غالبیات‘ ہمارے ادب کی ایک اہم اور گراں قدر شاخ بن جائے گی۔

        آخر یہی اردو دیوان جو خود مصنف کی رائے میں متاع قابل عرض نہ تھا اور ان کے ’نخلستان فرہنگ‘ کا ایک ’دژم برگ‘ تھا، آج ہماری نگاہ میں کیوں سرمہ بخش چشم قبول ہوا۔ اس کے جواب توبہت سے ہیں لیکن میں اپنے مضمون کے محتصر ظرف کو مدنظر رکھ کر صرف ایک جواب پر اکتفاکرتاہوں۔ وہ یہ ہے کہ ہم میں قدرتاً شوق دریافت کا مادہ موجود ہے اور غالب نے میرزا بیدل کی طرز کو اردو کے قالب میں منتقل کردینے سے ہماری اشتیاق انگیزی کی رگ کو جنبش دے کر ہمیں اپنا مسخر کرلیاہے۔ یہ ایک حقیقت مسلمّہ ہے کہ میرزا ہر میدان میں اپنی شان یک رنگی کو برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ میرا رنگ کسی سے نہ ملے اور میں سب سے مختلف نظر آوں۔ان ایام میں جو روش خاص اردو میں چمن طراز دامان قبول تھی، ان کو ایک آنکھ منظور نہ تھی۔ طبیعت تھی دشوار پسند، اس کی مناسبت سے مرزابیدل کی طرز کو رواج دیااو ربزم رنگ و بو میں اندازنو بروے کار لائے۔ فارسی زبان میں یہ استعداد موجود ہے کہ جب ایک مدعا ایک لفظ کے ذریعے سے منتقل نہیں ہوسکتا،دو لفظوں کے ترکیب دینے سے آسانی کے ساتھ ادا کیا جاسکتاہے اور ترکیبوں کے ذریعے مختلف مقاصداور جدید خیالات بلاکسی دقت کے ظاہر کےے جاسکتے ہیں۔ بایں ہمہ دیکھا جاتاہے کہ بیدل کے باد تندو تلخ کے لےے فارسی زبان کا ظرف ایک شیشۂ شکستہ سے زیادہ درخور وقعت نہیں اور ان کے کاوش جگر کی مخلوق یعنی اصنام خیالی، شہر بند الفاظ کے زندانی بننا نہیں چاہتے۔۔۔! شمیم گل جس طرح ریاحین کے ساغر تنک ظرف سے ابل پڑتی ہے، یہی حالت اردو کے میدان میں مرزا غالب کے ساتھ گذری ہے؛  انہیں اپنے خیالات کو الفاظ کا جامہ پہناتے وقت مجبوراً زیادہ تر فارسی تراکیب کا منت کش ہونا پڑا ہے۔ تاہم ہماری زبان اپنی تہی مائیگی کی وجہ سے ان کے عالی خیالات کا چربہ اتارنے سے قاصر رہی ہے۔ معانی اور الفاظ میں تصادم نظر آتاہے۔ کہنا کچھ چاہتے ہیں او رکہا کچھ ہے۔ ’دو اور دو‘کہہ دیےاور فرض کرلیے کہ مستمع سمجھ لے گا، چار ہوئے۔ ادراک اپنا ’دام شنیدن‘ خواہ کتناہی وسیع کیو ں نہ بچھائے لیکن ان کے ’عالم تقریر‘ کا مرغ زیرک یعنی مدعا،رشتہ برپاہونے سے گریز کرتاہے۔

        قصہ مختصر الفاظ و معانی کی اس کشمکش و کشاکش نے ایک ایسی ابتری و درہمی کا عالم پیدا کردیاہے کہ جلد باز اذہان نے جو کاوش و تلاش کے خوگر نہیں اور سہل نظری کے رفیق طریق ہیں، فتویٰ لگادیاہے کہ میرزاکا کلام مہمل ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ یہی نقائص ان کی شاعری کے سب سے زیادہ دلکش خط و خال ہیں۔ یہ انداز شاعری در حقیقت ساحری ہے او رمیرزا غالب کی کامیابی کا راز یہی ہے کہ وہ ہماری حیرت کو حرکت دیتے ہیں اور ان نامعلوم اسرار کی دریافت کے لےے، جو ان کے الفاظ کے ایوان بے در میں مقفل ہیں، ہمارے اشتیاق کو گدگداتے ہیں۔ اسی بناپر دشوار پسند طبائع، جو ذوق سعی سے لذت یاب ہیں، ان کے کلام کے گرد پروانہ وار جمع ہوکر اپنے شوق جگر کاوی اور دماغ سوزی کی رہبری میں آشناے مقصود ہوتے رہیں گے۔ ان کے فارسی کلام میں اس قسم کا عنصر قریب قریب غیر حاضرہے اور غالباً اسی لےے وہ اس قدر ہمارا عناں گیر توجہ نہیں ہے۔

        اس خامی کے باوجود جس کا ذکر اوپر آچکاہے، جب میرزا کے دونوں کلاموں کو رو در رو رکھ کر مطالعہ کیا جاتاہے تو کوئی ایسا نمایاں فرق دامن گیر نظر نہیں ہوتا۔ میرزا کا فارسی کے لےے اس قدر توغل اور اردو سے صرف نظر کوئی قابل ذکر ممتاز نتیجہ پیدا نہیں کرتے۔ ہمیں یہی محسوس ہوتاہے کہ وہی بادہ سرجوش ہے جو ایک ہی خم سے نکالا گیاہے۔ جس کی تندی و تلخی میں کوئی فرق نہیں۔ ہاں البتہ ساقی نے اس کو دو مختلف رنگین پیمانوں میں بھردیاہے۔

بادہ صاف است مپندا رکہ رنگین شدہ است

ایں ز ہمرنگی جام است کہ شد سرخ و کبود

        لیکن یہ یاد رہے کہ راقم اس گروہ سے تعلق رکھتاہے جس کا اعتقاد ہے کہ انسان کے لےے اپنے اظہار خیالات کا سب سے بہتر ذریعہ صرف اس کی اپنی مادری زبان ہوسکتی ہے۔ نیز یہ کہ اکتسابی زبان میں خواہ وہ کتناہی کمال کیوں نہ حاصل کرلے، وہ بے تکلفی اور لطافت پیدا نہیں کرسکتاجو اپنی زبان میں کرسکتاہے۔ ایرانیوں نے ہماری فارسی کو باوجود آٹھ سو سال کے انہماک اور مزاولت کے، فارسی نہیں مانا۔  ہماری انگریزی دانی کی قابلیت کا راز کسی قدر ان قصوں سے منکشف ہوسکتاہے جو وقتاً فوقتاً انگریزی جرائد میں انگریزو ں کی خوش وقتی اور تفریح کا سامان مہیا کرنے کے لیے نقل کےے جاتے ہیں۔ ہماری عمر کا نصف بہتر حصہ ضائع کرنے کے بعد ہمارے معیار تحصیل کو ’بابوانگلش‘ کے ناقابل رشک خطاب سے یاد کیا جاتاہے۔ اگر غیر قوموں کے اس خیال میں راستی کا عنصر موجود ہے اور اس کو اہل زبان کی گزاف تسلیم نہ کی جائے، تو میں اس کی روشنی میں یہ عقیدہ ظاہر کروں گا کہ میرزا غالب اگر اس التفات کا نصف حصہ بھی اردو پر صرف کرتے جو انہوں نے فارسی کے لیے مخصوص کیاتھا، تو ان کی اردو ان کی فارسی سے بلاشبہ گوے سبقت لے جاتی۔ تاہم میں اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتاکہ میرے قلب پر جو وجدانی کیفیت ان کے اردو کلام سے طاری ہوتی وہی لذت ان کے میخانے کی شراب شیراز سے حاصل نہیں ہوتی۔ یہ عقیدہ ممکن ہے کہ ملحدانہ مانا جائے اور بہ نظر امعان بے بنیاد ثابت ہولیکن میں جانتاہوں ذوق و وجدان کے معاملات میں بحث کرناایک بے سود فعل ہے۔ اس لیے اس سے اجتناب کرکے میرزاکے ایسے فارسی اور اردو اشعار جو قریب المعنی اور ہم آہنگ ہیں اور سرسری نظر میں مجھ کو بغیر دقت تلاش دستیاب ہوسکے،ذیل میں حوالہ قلم کرتا ہوں:

ہر حجابی کہ دہد روی بہ ہنگامۂ شوق

پردۂ ساز بود زمزمہ سنجان ترا

محرم نہیں ہے تو ہی نواہاے راز کا

یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا

عہد و وفا ز سوی تو نا استوار بود

بشکستی و ترا بشکستن گزند نیست

تیری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا

کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

پیش ما دوزخ جاوید بہشت است بہشت

باد آباد دیاری کہ وفا خیزد ازو

وفاداری بشرط اُستواری اصل ایماں ہے

مرے بتخانہ میں تو کعبہ میں گاڑو برہمن کو

اختلاط شبنم و خورشید تابان دیدہ ام

جراتی باید کہ عرض شوق دیدارش کنم

پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم

میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک

تاچند نشنوی تو و ما حسب حال خویش

افسانہ ہای غیر مکرر کنیم طرح

بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک

ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرمائیں گے کیا

ایمان اگر بخوف و رجا کردم استوار

اخلاص در نمود وفایم دو رو گرفت

طاعت میں تار ہے نہ مے و انگبیں کی لاگ

دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو

حق شناس صحبت بے تابی پروانہ ایم

گرچہ مشق نالہ با مرغ غزلخوان کردہ ایم

کعبہ میں جا رہا تو نہ دو طعنہ کیا کہیں

بھولا ہوں حق صحبت اہل کنشت کو

دہد بمجلسیان بادہ و بہ نوبت من

بمن نماید و در انجمن فرو ریزد

مجھ تک کب اس کی بزم میں آتا تھا دور جام

ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں

کف خاکم از مابر نخیزد جز غبار آنجا

فزون از صرصری نبود قیامت خاکسار انرا

بجز پرواز شوق ناز کیا باقی رہا ہوگا

قیامت اک ہواے تند ہے خاک شہیداں پر

در آغوش تغافل عرض یکرنگی توان دادن

تہی تا  میکنی پہلو بما بنمودۂ جارا

تغافل دوست ہوں میرا دماغ عجز عالی ہے

اگر پہلو تہی کیجے تو جا میری بھی خالی ہے

بنازم سادگی طفل است و خونریزی نمی داند

بہ گلچیدن، ہمان ذوق شمار کشتگاں دارد

ہواے سیر گل، آئینہ بے مہری قاتل

کہ انداز بخوں غلطیدن بسمل پسند آیا

بسکہ لبریز است زاندوہ تو سرتاپای من

نالہ میروید چو خار ماہی از اعضای من

پر ہوں میں شکوہ سے یوں راگ سے جیسے باجہ

اک ذرا چھیڑےے پھر دیکھےے کیا ہوتا ہے

تا حسن بہ بے پردگی جلوہ صلازد

دیدیم کہ تاری ز نقابست نظر ہم

نظارہ نے بھی کام کیا واں نقاب کا

مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی

مدتی ضبط شرر کردم بپاس غم ولی

خوں چکیدن دارد اکنون از رگ خارای من

رنگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا

جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا

تا خود از بہر نثا رکیست می میرم ز رشک

خضر و چندین کوشش و عمر دراز آوردنش

وہ زندہ ہم ہیں کہیں روشناس خلق اے خضر

نہ تم کہ چور بنے عمر جاوداں کے لےے

ننگ فرہادم بہ فرسنگ از وفا دور افگند

عشق کافر شغل جاندادن بمزدور افگنند

عشق و مزدوری عشرتگہ خسرو کیا خوب

ہم کو تسلیم نکونامی فرہاد نہیں

در آئینہ ما کہ ناساز بختیم

خط عکس طوطی بزنگار ماند

کیا بدگماں ہے مجھ سے کہ آئینہ میں مرے

طوطی کا عکس سمجھے ہے زنگار دیکھ کر

فغان کہ رحم بد آموز یار شد غالب

روا نداشت کہ بر من ستم روا دارد

نہ مارا جان کر بے جرم قاتل تیری گردن پر

رہا مانند خون بے گنہ حق آشنائی کا

با تغافل بر نیابد طاقتم لیک از ہوس

در تمنای نگاہ بی محابایم ہنوز

نگاہ بے محابا چاہتا ہوں

تغافل ہاے تمکیں آزما کیا

بنای خانہ ام ذوق خرابی داشت پنداری

کز آمد آمد سیلاب در رقص است دیوارش

مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی

ہیولا برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا

بہر کہ نوبت ساغر نمی رسد ساقی

خراب گردش چشمیست میتوان گردن

نفس موج محیط بے خودی ہے

تغافل ہاے ساقی کا گلہ کیا

تو داری دین و ایمانی بترس از دیو و نیرنگش

چو نبود توشۂ راہی چہ باک از رہزنم باشد

نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا

رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو

جنگ نکند چارۂ افسردگی دل

تعمیر باندازۂ ویرانی ما نیست

دیتے ہیں جنت حیات دہر کے بدلے

نشہ باندازۂ خمار نہیں ہے

گفتنی نیست کہ بر غالب ناکام چہ رفت

میتواں گفت کہ این بندہ خداوند نداشت

زندگی اپنی جب اس رنگ سے گزری غالب

ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے

۔۔۔۔

غالب کی شاعری میں نفی و اثبات کی کشمکش

ابوالکلام قاسمی

مرزاغالب کی شاعری میں نفی و اثبات کی ثنویت دراصل ادبی اور شعری اظہار کی تہہ داری، اجتماع النقیضین اور تضاد کی بوالعجبی پر قائم ہے۔ شاعری میں بالواسطہ اظہار کے بیش تر وسائل تضاد کی صنعت اور پیراڈوکس میں موجود لسانی تناؤ اور استعاراتی کشمکش کے کسی نہ کسی طریق کار پر مبنی ہوا کرتے ہیں۔مرزاغالب کے کلام کا امتیاز یہی ہے کہ غیرشعوری طور پر بھی، وہ برہنہ گفتاری سے اجتناب برتتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ شاعری ان کے یہاں پوری طرح صناعی، ہنرمندی اور حسن آفرینی کا وسیلہ بن جایا کرتی ہے۔ اس لےے بھی غالب کی شاعری میں موضوعاتی پہلو کے مقابلے میں فنی کارکردگی اورپیش کش کے نت نئے اسالیب اور بالواسطہ طرز اظہار کے مختلف وسائل کا استعمال زیادہ حاوی اورنمایاں نظر آتا ہے۔ غالب کی شاعری میں نفی اور اثبات کی نوعیت کا مطالعہ کلام غالب میں موجود مضامین اور موضوعات سے کہیں زیادہ شاعر کے فنی طریق کار کے مطالعہ کا متقاضی بن جاتا ہے۔ اس سے پہلے کہ مرزا کے یہاں نفی و اثبات کی ثنویت کو شعری طریق کار کے طور پر استعمال کرنے کی نوعیت اور اس نوعیت پر مبنی قدرے گہری اور سنجیدہ کارکردگی کی بعض مثالیں پیش کی جائیں، مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ سہل ممتنع کی نمائندگی کرنے والے اور کسی صنّاعانہ ہیبت میں مبتلا نہ کرنے والے دو تین اشعار ملاحظہ کرلیے جائیں:
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
ناامیدی اس کی دیکھا چاہےے
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
ہاں، کھائیو مت فریبِ ہستی
ہرچند کہیں کہ ہے، نہیں ہے
اتفاق سے ان تینوں اشعار کی بنیاد نفی و اثبات کی کشمکش پر قائم ہے، مرنے کو ایک متوقع کیفیت بتاکر اسے نا امیدی کا شاخسانہ ثابت کرنا ہو، یا مرنے کی آرزو میں مرمر کے جینے کو موت کا آنا، لیکن گویا کہ نہ آنا کہناہو،یا فریب ہستی کا احساس دلاکر پوری ہستی کو ایک ایسا التباس ثابت کرنا کہ جوہے بھی اور نہیں بھی ہے— طرزاظہار کی یہ تمام صورتیں مرنا، جینا، موت، زندگی اور ہستی کا وجود اور فریب ہستی کہہ کر اس کا التباس قائم کرنا، ایسے طلسمی بیانیہ کو جنم دیتا ہے جس میں ان اشعار میں بیان کےے گئے مضامین یا شاعرکا مافی الضمیرثانوی ہوکر رہ جاتا ہے اور حاصل جمع کے طور پر قاری کے پاس جو کچھ باقی رہ جاتا ہے وہ شاعر کے بیان کی صناعی ہے یا پھر نفی و اثبات پر قائم متوازن، متقابل اور جدلیاتی لفظیات کے درمیان موجود کشمکش اور تناؤ ہے جو بالآخر مرزاغالب کے شعری لہجے کو تمام اردو اور فارسی کے شعرا سے مختلف او رمنفرد ثابت کرنے کے لےے کافی دکھائی دینے لگتا ہے۔
ان اشعار کے برخلاف مرزا کے ان گنت اشعار ایک طرف کائنات کی لامتناہی عظمت، امکانات اور ناقابل یقین بلندی اور ارتفاع تک پہنچنے کی حسرت اور اس حسرت کو فنی اظہار کے گورکھ دھندھوں میں الجھا کر خود کو مطمئن کرلینے جیسی کیفیات غالب کے متعدد اشعار میں بہ آسانی تلاش کی جاسکتی ہے۔ وجود اور غیب کا معاملہ ہو، ظاہر اور باطن کے اسرار و رموز ہوں، مرکز کی مرکزیت سے انکار اور غیر مرکز میں مرکزیت کی تلاش کا رویہ ہو، یہ تمام روےے غالب کے ذہنی محرکات کا حصہ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ حضرت غالب ہیں تو وہ اپنے احساسات یا ردعمل کا اظہار کچھ ایسے اظہار میں تو کرنے سے رہے جو غیرغالبانہ، تعمیمی، نثری منطق پر مبنی اوراپنے موضوع کو بنیاد بناکر اس کی مختلف الجہاتی کو گرفت میں لینے سے گریز کرنے سے ہو۔ اب ذرا چند اشعار ملاحظہ کیجےے جن میں وجود و عدم، غیب و شہودیا بقا و فنا کے معاملات، نفی و اثبات کو بنیاد بناکر نقیضین والی کیفیت پیداکرنے سے ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ ان تمام اشعار میں حقیقت کو پہلے محلول کردینے اور پھر اس محلول صورت حال کو لسانی، منطقی اور فنی ہنرمندیوں کے نتیجے میں ایک نئی دنیا تخلیق کرلینے کے انداز میں بھی دیکھا جاسکتا ہے:
اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
ہے غیبِ غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں
میں عدم کے بھی پرے ہوں ورنہ غافل بارہا
مری آہِ آتشیں سے بال عنقا جل گیا
لطافت بے کثافت جلوہ پیداکر نہیں سکتی
چمن رنگار ہے آئینۂ باد بہاری کا
پہلے شعر میں شہود کا عمل، شاہد کا زاویہ نظر اور مشہود کے دیکھے جانے کا التباس اس حد تک ایک دوسرے سے مدغم ہوجاتے ہیں کہ فاعل، فعل او رمفہوم کی تثلیث تو تثلیث ثنویت کی طرف بھی قاری کی توجہ مبذول نہیں ہوپاتی کہ تینوں کو الگ الگ اثبات کو نفی کے عمل سے گزار کرایک وجدانی تجربے میں تبدیل کردیا گیا ہے اور پھر شاعر، شاہد اورمشاہدہ کے حوالے سے تمام زاویوں کو ایک دوسرے میں محلول کردیتا ہے۔
دوسرا شعر بہ ظاہر یوں تو شہود اور غیب کی جدلیاتی کشمکش پر مبنی ہے مگر جیسے ہی پہلے مصرعے میں شاعر نے غیب کو غیبِ غیب کہاتو پھر وہ غیب، محض شہود کا متضاد نہیں رہ گیا، بلکہ دونوں کے درمیان کئی مراتب اور مدارج کے پردے حائل ہوگئے۔ تاہم دیکھنے کا نکتہ یہ ہے کہ غیب غیب میں غیب کی نفی اور شہود سے اس کے اشتباہ سے انکار دراصل محض غیب و شہود سے انکار نہیں بلکہ خواب میں کسی چیز کا مشاہدہ کرنے یا خواب میں جاگتی آنکھوں سے دیکھنے کی دونوں کیفیات میں مشاہدہ کے عمل میں کامیاب ہونے کی بھی اس لےے نفی کردی گئی ہے کہ صحیح معنوں میں غیب و شہود کا معاملہ نری بصارت سے زیادہ بصیرت اور انکشاف کا متقاضی ہوا کرتا ہے
مرزاغالب نے یوں تو اپنی شاعری کے بڑے حصے میں وجود و عدم کے تضاد سے الجھنے، اعتراف کرنے اور انکار سے کہیں زیادہ اپنے وجود پر اصرار کرنے کا ثبوت پیش کیا ہے۔ تعلّی، اثبات ذات، ذات و صفات کی نزاکتوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنا، بہ ظاہر غالب کا عام شیوہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ”میں عدم سے بھی پرے ہوں“، تو ایسا لگتا ہے کہ متذکرہ شعر ہی کی طرح غیب غیب کی وہ کیفیت یہاں بھی در آئی ہے جس میں وہ وجود پر اصرار تو دور کی بات ہے وہ اپنے وجود سے بھی خود کو کئی مراتب دور کرلینے کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔اس کے باوجود نفی و اثبات کی ثنویت کو معنوی امکانات کی انتہا کے ساتھ استعمال کا ثبوت مرزاغالب اس وقت نمایاں طور پر دیتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں جب اس شعر کی قرات مکرر کے دوران یہ اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی کی تمام شرائط کے ساتھ اس انسان کی آہ و زاری، نالہ وفریاد اور گرمیِ گفتار کا اندازہ ایسے کیوں کر لگایاجاسکتا ہے جب وہ عدم سے پَرے ہونے کے باوجود اپنی آہِ آتشیں سے بال عنقا کے جلنے کے اندیشے سے دوچارہی نہیں بلکہ اس اندیشے میں شامل منفی احتمالات سے بھی متصادم ہے اور اندیشہ بلکہ اندیشہ کو خبربناکر پیش کرنے کے اس مقام پر فائز ہے۔
کم و بیش تضاد و تناقض کی اسی صورت حال سے ہمارا سامنا ع ”لطافت بے کثافت جلوہ پیداکر نہیں سکتی“ میں ہوتا ہے۔ لطافت کے بعد کثافت، چمن کے بعد زنگار اور اگر پورا چمن زنگار ہے تو اس کے متقابل آئینہ بادِبہاری، ایک بار پھر ہمیں جدلیاتی کیفیت سے دوچار کرتا ہے اور اس طرح شاعر جس نکتے یعنی لطافت اور آئینہ بادبہاری کے حسی اور ارتفاعی عمل سے گزارنا چاہتا ہے اس میں وہ پوری طرح کامیاب نظر آتا ہے۔ اس طریق کار کے برخلاف اگر محض لطافت اور بادبہاری کو چمن کے حوالے سے بیان کیاجاتا تو اس کے اندر تضاد وتناقض کا وہ دریچہ وا نہیں ہوپاتا جس کے وسیلے سے لطافت اور بادبہاری کی کیفیات غیرمعمولی طور پر نمایاں اور قابل وثوق بن گئی ہیں۔
تاہم مرزاغالب کے شعری طریق کار کے سلسلے میں ہمیں اس بات کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہےے کہ نفی و اثبات، یا تضاد یا لفظوں کی جدلیاتی کشمکش کو باہم متصادم کرکے اپنے مدعا کو نمایاں اور روشن کرنے کا عمل غالب کے مختلف اورمتنوع شعری طریق کار میں سے ایک ایسا طریقہ ہے جو ان کی ایجاد کردہ شعری منطق میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر ایسا بالکل نہیں کہ مرزا اپنے تخلیق عمل میں اس طرح کی پیچیدہ منطق کے ساتھ سادہ، روایتی اورخالص بیانیہ اسالیب سے خود کو کم آہنگ رکھا ہو۔ محض سپاٹ، سادہ بیانی یا صرف روزمرہ اور محاورہ پر مبنی لسانی روایت پر قائم رہتے ہوئے بھی غالب نے اپنے لہجے او راندازِ بیان کی مدد سے اپنے اشعار میں مختلف جہات پیدا کرنے کی جیسی اورجتنی کوششیں کی ہیں ان کی تفصیل تحصیل حاصل کے علاوہ اور کچھ نہیں۔(اس ضمن میں راقم الحروف کے ایک مضمون ”غالب کا شعری لہجہ“ سے رجوع کیاجاسکتا ہے) مگر غالب کی اصل شناخت بالواسطہ اندازبیان، استعارے، کناےے اورعلامتوں کے استعمال کے ساتھ ان گنت مروج اورکثرت استعمال سے پامال لفظیات تک کو گنجینۂ معنی کا طلسم بنانے اور اس طلسم کاری کے لےے نت نئے اسالیب اور صناعانہ طریقے ایجادکرنے میںمضمر ہیں جن کے مطالعے اور دریافت کی کاوش غالب تنقید آج تک کرتی رہی ہے اور شاید اس کی ضرورت تفہیم غالب کے ہر طالب علم کو عرصہ دراز تک محسوس ہوتی رہے گی۔اس موقع پر اس اعتراف میں ہمیں کسی تکلف سے کام نہیں لیناچاہےے کہ معاملہ نفی و اثبات کا ہو، تحت البیان کا ہو، بالواسطہ طرزاظہار اختیارکرنے کی خاطر استعارہ سازی یا کسی دوسری صنعت کاری کا، ان نکات اور شعری طریق کار پر مبنی ہماری تنقیدی کاوشیں غالب کی مکمل تفہیم کا حق ادا کرتی نظر نہیں آتیں۔
مرزاغالب نے علیٰ ہٰذالقیاس اپنے ایک عارفانہ او ربعض لوگوں کے لےے محض جمالیاتی تجربے کے شعر میں جمال حقیقی یا وجود مطلق کی قوت تخلیق کے تسلسل اور ارتقا کا جو نقشہ:
آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں
میں کھینچا ہے اس میں ’نہیں‘ کا لفظ نہ تو نفی کے لےے استعمال ہوا ہے او رنہ اس میں کسی طرح کا استفہامِ انکاری کا انداز پایا جاتا ہے۔ پورا شعر جمالِ مطلق کے عدم فراغت یا لگاتار مصروف عمل رہنے اور داخلی طور پر غیرمتحرک نظر آنے کے باوجود بننے، سنورنے، نکھرنے، ارتقاپذیر رہنے پر دال ہے یا بہ صورت دیگر کائنات کے پس منظر میںحرکت و عمل کا محرک بنے رہنے یا ذات حقیقی کے ننانوے صفاتی ناموں میں شامل تمام صفات کو عملی طور پر انجام پذیر کرنے کے کام کو بالقوہ سے بالفعل تک کے عمل میں تبدیل کردینے کا احاطہ کرلیتا ہے۔ شاید اس بات کا اندازہ کرلینا مشکل نہیں کہ اگر وضاحت کے ساتھ ’آرائش جمال میں مصروف رہنے‘ کے الفاظ استعمال کےے جاتے تو بیان میں وہ شدت تاکید اور تسلسل کی کیفیت پیدا نہ ہوپاتی جو ’آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز‘ کے استعمال سے روبہ عمل آئی ہے۔ذراغور کرنے سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ زیربحث شعر کا یہ پس منظر بھی کسی نہ کسی روپ میں نفی و اثبات کا مرہون منت ہے۔اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ زیربحث شعر کے مقابلے میں نفی کی نوعیت مرزا کے ایک اور شعر:
جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی مشکل کہ تجھ سے راہ سخن وا کرے کوئی
میں ’نہ‘ کے لفظ سے اور اس سے بھی کہیں زیادہ ’مشکل‘ کے لفظ سے نفی کی شدت میں مزید اضافہ کردیا گیا ہے۔ اس شعر میں زخم، دہان زخم، راہ سخن اور اس کو وا کرنے میں جس قسم کی مناسبت موجود ہے اس کو کلاسیکی اردو اورفارسی غزل میں مستعمل دہان زخم کی معنویت یا اس ترحم آمیز صورت حال میں محبوب سے راہ سخن کے وا ہونے کی امید بارآور ہونے کے امکان کی ایک الگ جہت تو پید اہوتی ہی ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ محبوب سے توجہ یا تکلم کا امکان پوری طرح ”جب تک دہان زخم نہ پیداکرے“ میں موجود ’نہ‘ کے لفظ پر مبنی ہوکر رہ گیا ہے اور جب غیرمتوقع طورپر اس نفی آمیز اثبات کا مترادف دوسرے مصرعے میں ’مشکل‘ کے لفظ کو بنایاجاتا ہے تو مترادف نہ ہوتے ہوئے بھی ’نہ‘ اور ’مشکل‘ کے جزوی طور پر مترادف الفاظ اس شعر کے تاثر کو قدرے زیادہ کارآمد اور دور رس بنادیتے ہیں۔
ان اشعار کے بعد اگر دو ایسے اشعار کو آمنے سامنے رکھاجائے تونفی و اثبات کے استعمال کا ایک دوسرا ہی منظرنامہ سامنے آتا ہے۔ غالب کاایک مشہور شعر ہے:
محبت میںنہیں ہے فرق جینے اورمرنے کا اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
یہ شعر اپنی لسانی منطق کے اعتبار سے ایک روزمرہ اور ایک محاورے پرمبنی ہے۔ روزمرہ میں لفظوں کے بنیادی معنوں سے سرموانحراف نہیں ہوتا۔ اس لےے محبوب کو دیکھ کے عاشق جیتا ہے اور نہ دیکھے تو اس کے لےے جینا دشوار ہوتا ہے۔ مگر ’دم نکلنے‘ کا فقرہ لفظی معنوں میں تو جان نکلنے کے معنی کی ترسیل کرتا ہے۔ مگر محاورتاً یا استعارتاً، جان دینے، قربان جانے اورعاشق ہونے کے معنی کو ظاہر کرتا ہے…. مگر شاعر نے روزمرہ اور محاورہ کی آمیزش کو ایک قول محال یا پیراڈوکس بناکر تضاد یا تناقض کی صورت پیدا کردی ہے۔ یعنی کسی شخص کو دیکھ کے جینا اور اس پر د م نکلنا بمعنی عشق کرنا جینے اورمرنے کے متضادمعنی کے بجائے لسانی اعتبار سے بھی قابل اعتبار معنی کی ترسیل کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جیسا کہ شعر کی لفظیات سے ظاہر ہے کہ دونوں مصرعوں میں نہیں بھی نفی یا نفی کا مترادف کوئی لفظ موجودنہیں، اورنہ نفی و اثبات کی کسی کشمکش کو آسانی سے محسوس کیاجاسکتا ہے۔ مگر شاعرنے تناقص اور جینے کے ساتھ مرنے (دم نکلنے) کی ثنویت، روزمرہ اورمحاورہ پر قائم کرکے بالآخر نفی واثبات کی صورت حال بھی پیدا کردی ہے اور ایک سادہ سی بات کو حددرجہ قابل توجہ بھی بنادیا ہے۔
اس شعر کے بالمقابل اگر ایک اور شعر کو ملاحظہ کیاجائے جو نہ توموضوع کے اعتبار سے زیربحث شعر سے کوئی تعلق رکھتا ہے،نہ شعری منطق کے اعتبار سے اس سے کوئی خاص مناسبت رکھتا ہے اورنہ زیربحث نقطۂ نظر یعنی نفی واثبات کی کشمکش سے کوئی خاص علاقہ رکھتا دکھائی دیتا ہے۔ شعر ہے:
ہے خیالِ حسن میں حسن عمل کا ساخیال خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا
جیسا کہ عرض کیا گیا ہے دونوں مصرعوں میں کہیں نفی کا کوئی شائبہ نظر آتا ہے اورنہ اثبات کا امکان،مگر حیرت انگیزبات یہ ہے کہ ’خیالِ حسن‘ کے متبادل کے طور پر ’حسنِ عمل کا سا خیال‘ کا فقرہ اپنے آپ میں ایک دوسرے کی تقلیب اور تقلیب کے حوالے سے نفی کواثبات سے بدلنے یا اثبات کو نفی سے بدلنے کی صورت حال پیدا کردیتا ہے۔ خیال حسن، یا احساس جمال فنی اورجمالیاتی سرگرمی کااصل الاصول ہے اس لےے خیال حسن کا معاملہ ایک ہمہ گیر اور آفاقی قدر کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ جب اس آفاقی اورجمالیاتی تجربے کی سرحدیں دنیا اور آخرت، دونوں سے جاکر مل جاتی ہیں اور دارالعمل اوردارالجزا دونوں کا تجربہ ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔ تو اس کے ثبوت کے طورپر دوسرے مصرعے ’خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا‘ کے علاوہ کسی اورداخلی شہادت کو پیش کرنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی۔
مرزاغالب کے استفہامیہ مزاج کے مظاہر کبھی استعجاب کے اظہار میں، کبھی نفی اور اثبات کے مابین کشاکش کو برقراررکھنے میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اکثر اثبات اور اعتراف کو بھی پہلے انکار اورنفی کے حوالے سے بیان کرنے اور اس لسانی تناو ¿ میں اپنے بیان کی شدت میں اضافہ کرنے کا اسلوب مرزاغالب کے لےے اتنا پسندیدہ ہے کہ وہ اپنے مشہور منقبتی قصیدے کی تشبیب کے مطلع تک کی بنیاد نفی اور انکارپر قائم کرتے ہیں:
دہرجز جلوۂ یکتائیِ معشوق نہیں ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خودبیں
یہ غالب کی مشکل پسندی کی انتہا نہیں تو اورکیا ہے کہ ان کا ہر اثبات، نفی کا روپ لے کر نمودار ہوتا ہے۔اسی طرح اپنے ایک شعر میں محبوب سے ملنے کی دشواری کو بیان کی حد تک آسان اور سہل کے لفظوں سے تعبیر کرنے کے ساتھ ہی وہ اسے ایک ایسی دشواری بتادیتے ہیں جس کو پوری طرح دشواری کا نام بھی نہیں دیاجاسکتا۔ شاید یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ غالب کے اس نوع کے بیش تر بہ ظاہر منفی انداز فکر کی نمائندگی کرنے والے اشعار دراصل اپنی ذات پر اصرار کا متبادل ہیں جن میں نفی و اثبات کی کشمکش کے سبب حیرت و استعجاب کی بھی افراط ہے اور کثرت معنی کے امکانات بھی مضمر ہیں۔ چنانچہ مرزاغالب کی اس شخصیت میں جو شعری اظہار میں ظاہر ہوتی ہے، ظرافت، بذلہ سنجی، زندہ دلی اور غمِ روزگار کوشکست دینے کا حوصلہ بھی نفی و اثبات کی کشمکش سے کسب فیض کرنے کا سراغ دیتا ہے۔

غالب ،بنارس اور مثنوی چراغ دیر

(پروفیسر یعقوب یاور جیسی جامع کمالات شخصیت اردو کیا دیگر زبانوں میں کم ہیں۔ وہ شاعر ، ناول نگار، نقاد ، محقق، مترجم اور ایک اچھے استاد کے طور پر اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ ان کی ہر تحریر غور و فکر، زبان و بیان پر قدرت کی وجہ سے اہل علم کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ پرو فیسر یعقوب یاور نے اپنے بین العلومی مطالعے کی بنا پر نہایت فکر انگیز مقالات لکھے ہیں۔ زیر نظر مقالہ اسی دعوے کی دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے 17-18 نومبر 2006 میں بنارس میں ایک قومی سمینار کاانعقاد کیا گیا تھا۔ یہ مقالہ اسی سمینار میں پیش کیا گیا تھا جو بعد میں غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے شائع ہونے والی کتاب ‘غالب اور بنارس’ میں شامل ہوا۔ پروفیسر یعقوب یاور نے اس مضمون میں عہد غالب کے بنارس کی سماجی اور ثقافتی صورت حال کو پیش کرتے ہوئے مثنوی ‘چراغ دیر’ کے فنی اور فکری پہلووں کو واضح کیا ہے۔ )

غالب ،بنارس اور مثنوی چراغ دیر


(1)
28 سال کے جوان العمر مرزا اسد اللہ خاں غالب نے 1825 میں اپنی خاندانی پنشن کی بازیافت کی کاوشوں کے تسلسل میں کلکتہ کا سفر کیا ۔اس دوران وہ بھرت پور،فیروز پور، فرخ آباد،کانپور،لکھنو،باندہ اور الہ آباد کی خاک چھانتے ہوئے 1826 کے اواخر میں بنارس بھی آئے ۔الہ آباد سے بنارس کا سفر انہوں نے بذریعہ کشتی طے کیا ،حالانکہ کچھ محققین کا خیا ل ہے کہ وہ بیل گاڑی سے آئے تھے (یہ شبہہ دراصل گذشتم کے اردو ترجمے کی ستم ظریفی ہے ۔لطیف الزماں خاں اور پر تو روہیلہ جیسے مترجمین نے اس کا ترجمہ ’پار کیا ‘کیا ہے ۔جب کہ اس کا صحیح ترجمہ’گزرے ‘ہونا چاہیے تھا ۔سچ یہ ہے کہ انہوں نے الہ آباد میں صرف قیام گاہ سے گنگا گھاٹ کی دوری بیل گاڑی سے طے کی تھی ۔بہر حال وہ بنارس آئے ،یہاں تقریباً ایک ماہ قیام کیا اور پھر کشتی کا انتظام نہ ہوپانے کے سبب بے دلی سے خشکی کے راستے عظیم آباد (پٹنہ) کے لیے روانہ ہوگئے ،جہاں سے مرشد آباد ہوتے ہوئے وہ فروری 1828 میں کلکتہ پہنچے ۔غالب کا قیام بنارس اپنے اندر کئی اسرار کا امین ہے جس پر سے محققین کی کوششوں کے باوجود ابھی تک پردہ نہیں اٹھایا جا سکا ہے ۔یہاں شاہراہ عام پر نہ چلنے کا عادی غالب اپنے مزاج اور رکھ رکھاؤکے خلاف ایک معمولی سرائے اورنگ آباد (بقول غالب نیرنگ آباد نو رنگ آباد)میں اترتے ہیں اور پانچ دن قیام کرنے کے بعد اسی سراے کی پشت پر ایک ایسی بڑھیا کا معمولی سا مکان کرائے پر لے کر رہتے ہیں جس کے پاس بقول خود غالب کے چراغ کے لیے تیل تک میسر نہ تھا اور جو کسی بخیل کی قبر سے بھی زیادہ تنگ تھا ۔اس وقت ان کے پاس پیسے کی کمی رہی ہو ایسی بات نہیں ہے ۔قرض کے ہی سہی وہ باندہ سے دو ہزار روپے لے کر آگے کے سفر پر روانہ ہوئے تھے ۔اپنے اس بظاہر بے سبب طویل قیام کے دوران وہ یہاں کی کسی قابل ذکر شخصیت سے ملے ہوں اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ قیام بنارس کی واحد شہادت خود مرزا کے خطوط ہیں۔بنارس سے متعلق تاریخ کی کسی بھی کتاب میں ان کی آمد کا نہ تو ذکر ہے نہ دوسری تفصیلات۔ہاں کچھ قصے کہانیاں ضرور ہیں جو بہت بعد میں گڑھی گئی معلوم ہوتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ غالب کی بنارس آمد اور قیام کو کسی مورخ نے لائق توجہ نہیں گردانا۔ وہ یہاں ایک اجنبی کی طرح نہایت خاموشی سے آئے ،رہے اور آگے کے سفر پر روانہ ہوگئے۔ممکن ہے غالب نے شعوری طور پر ایسا کیا ہو کہ لوگ اس شہر میں ان کی آمد اور موجودگی سے بے خبر رہیں۔شاید انہیں یہاں خاطر خواہ پذیر ائی کی امید نہ رہی ہو۔شاید الہ آباد میں رونما ہونے والے واقعات نے انہیں مردم بیزار بنا دیا ہوا ور کسی اجنبی سے ملنا انہیں خوفزدہ کر رہا ہو۔یا کچھ محققین کے خیال کے مطابق نوجوان غالب کسی حسین معشوقہ کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوگئے ہوں ،ایک شبہہ یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ وہ سرے سے اس شہر میں آئے ہی نہ ہوں اور مثنوی اور وہ خطوط جن میں اس شہر کی قصیدہ خوانی ہے وہ غالب کی دروغ بیانی کا ادنیٰ کرشمہ ہو،جسے انہوں نے یہاں سے گذرتے ہوئے غائبانہ قلم بند کر لیا ہو۔لیکن غالب کا یہاں سرے سے نہ آنا قرین عقل نہیں معلوم ہوتا ۔یہ بے حد کمزور شبہ ہے ۔کیونکہ غالب نے بنارس خصو صاً اورنگ آباد سرائے اور اس کے آس پاس کا منظر جس طرح بیان کیا ہے وہ غائبانہ ممکن نہ تھا ۔غالب نے اس شہر کی تعریف میں بڑی فراخ دلی سے کام لیا ہے۔ اس شہر کے تقدس ،قدرتی حسن اور خوش اخلاقی کا قصیدہ تو ان کی مثنوی ‘چراغ دیر’ اور احبا اور اقربا کو لکھے گئے مختلف خطوط ہیں ہی،ادبی اعتبار سے بھی یہ شہر ان کے لیے اہمیت رکھتا تھا۔ یہ ان کے روحانی استاد شیخ علی حزیں کا شہر تھا۔ انہیں یہاں کے عمایدین سے ملنا چاہیے تھا ۔ اس کے علاوہ بھی یہاں اس وقت ایسے لوگو ں کی کمی نہیں تھی جن سے وہ مختلف وجوہ کی بنا پر ملنا پسند کرتے ۔ غالب کی آمد کاز مانہ بنارس میں امن وامان کا زمانہ تھا ۔لوگ اطمینان اور سکون سے اپنے اپنے کاموں میں منہمک تھے ۔انگریزوں کے اقتدار کا عمل مکمل ہوئے یہاں کافی عرصہ ہو چکا تھا ۔اور مقامی مہارا جا اُدِت نارائن سنگھ اس حقیقت کو نہ صرف تسلیم کر چکے تھے بلکہ ایک طرح سے وہ انگریزوں کا ہی انتخاب تھے ۔اسرار کی ان تہوں کو ممکن حد تک کریدنے کے لیے غالب کی نفسیات ،صحت،ہندوستان میں سیاست کا بحرانی دور اور اس وقت کے بنارس کے سماجی،سیاسی،مذہبی اورادبی حالات کی واقفیت ضروری ہے۔اس مختصر مقالے میں ایسی ہی کچھ تفصیلات فراہم کر نے کی کوشش کی گئی ہے جو شاید آنے والے محققین کے لیے چراغ راہ ثابت ہو سکیں۔
غالب کے سفر کلکتہ کا یہ عہد جہاں ایک طرف دہلی میں سیاسی طور پر ہنگامہ آرائی اور انقلابی تبدیلیوں کا تھا وہیں بنارس میں ان ہنگاموں کے بعد کا سکوت طاری تھا ۔ بہ الفاظ دیگر یہاں چاروں طرف امن وامان کا دور دورہ تھا ۔جب غالب 18 نومبر 1825 کو دہلی سے نواب احمد بخش کی معیت میں مٹکاف سے ملاقات کی غرض سے ان کی فوج کے ہمراہ بھرت پور کے لیے نکلے تھے ،تو شمالی ہندوستان اور دہلی کے آس پاس کے علاقوں میں انگریزوں کی ریشہ دوانیاں اور غاصبانہ سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔ یہاں کے بیشتر علاقے ان کی تحویل میں آ چکے تھے ۔اور اب ان کی بری نگاہ تخت دہلی پر مرکوز تھی لیکن اس کام میں ابھی ایک آنچ کی کسر باقی تھی اور اس کے لیے انگریز ابھی مناسب وقت اورحالات کے اپنے حق میں ساز گار ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ دوسری طرف دہلی میں ہی نہیں سارے ہندوستان میں اجتماعی دفاعی لائحہ عمل کا فقدان تھا ۔مر کز کمزور تھا اور سارا ہندوستان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم تھا ۔ ہر حکمراں کی نظر میں وطن کی حفاظت کا مفہوم صرف اپنی ریاست کی حفاظت تھااور ہر شخص اس کے لیے کوشاں بھی تھا لیکن یہ چھوٹے چھوٹے راجا مہا راجا اور نواب اپنی چھوٹی چھوٹی فوجوں کی مدد سے انگریزوں کی بے پناہ طاقت کے سامنے بے بس تھے۔جن علاقوں پر انگریزوں کا قبضہ مکمل ہو چکا تھا وہاں تو ان کی حکمرانی تھی ہی لیکن جہاں ابھی یہ کام ہونا باقی تھا وہاں کے صاحب اقتدار لوگ کسی بھی وقت معزول کر دیے جانے کے خوف کے سائے میں مقامی ریزیڈنٹوں کی ناز برداری کرتے ہوئے کسی نہ کسی طرح اپنی حکومت کا نظم چلا رہے تھے ۔انہیں میں دہلی کا بد نصیب بادشاہ اکبر ثانی بھی تھا۔اگرچہ اورنگ زیب کے بعد سب سے زیادہ دنوں تک تخت پر بیٹھے رہنے کی خوش نصیبی انہیں کے حصے میں آئی تھی لیکن ان کے روز مرہ کا کام انگریزوں کی پنشن سے چل رہا تھا۔ ان کی تمام سرگرمیاں اور حکمت عملی اپنے لیے مزید مراعات حاصل کرنے تک محدود تھیں ۔ایسے میں رعایا کی فکر کون کرتا۔چنانچہ دہلی کے دوسرے پریشان حال لوگوں کی طرح غالب بھی اپنے روز مرہ کی ضروریات کی تکمیل میں مصروف تھے ۔ان کاموں میں ان کی اپنی خاندانی پنشن کے حصول کی تگ ودو بھی شامل تھی، جس کے وہ جائز طور پر مستحق تھے لیکن جو بدخواہوں کی بری نظر کا شکار ہو چکی تھی ۔ منظور شدہ دس ہزار روپے سالانہ کی پنشن بد دیانت سرپرستوں کے طفیل پہلے تو پانچ ہزار قرار پائی ۔ بعدہ ٗاس کی تقسیم میں چالیس فیصد یعنی دو ہزار روپے سالانہ پہنچ رہی تھی اس نا انصافی کے ازالے کے لیے وہ دہلی کے ریزیڈنٹ چارلس مٹکاف سے ملاقات کرنا چاہتے تھے ۔وسیلے کے طور پر انہوں نے نواب احمد بخش کی مدد لی جو ان کی سادہ لوحی پر دلالت کرتا ہے ۔ اس کا جو نتیجہ نکلنا تھا وہی نکلا۔نواب احمد بخش غالب کو مٹکاف سے ملوانا نہیں چاہتے تھے ۔ اور جب تک غالب کو یہ بات سمجھ میں آتی مٹکاف کہیں کا کہیں پہنچ چکا تھا ۔اور وہ فیروز پور میں بیٹھے احمد بخش کا انتظار کر رہے تھے ۔
مایوس ہو کر غالب نے خود اپنے طور پر مٹکاف سے ملاقات کا تہیہ کیا ۔انہیں معلوم ہوا کہ وہ جلد ہی کانپور پہنچنے والا ہے ۔انہوں نے بغیر وافرزاد سفر کے کانپور جانے کا ارادہ کر لیا۔ شایددہلی ہوتے ہوئے کانپور جانا ان کے لیے اس لیے ممکن نہ رہا کہ وہ قرض خواہوں سے بچنا چاہتے تھے جو اب اس امید میں تھے کہ غالب کو ان کی پنشن مل جائے اور ان کا قرض وصو ل ہو۔فرخ آباد کے راستے غالب کانپور پہنچے تو سخت علیل ہوگئے ۔اتنے بیمار کہ ان کا اٹھنا بیٹھنا اور چلنا پھرنا دو بھر ہو گیا ۔کانپور میں علاج کی سہولتوں کا فقدان کہیے یا لکھنو سے کچھ یافت کی امید،وہ لشتم پشتم کانپور سے لکھنو پہنچے۔وہاں چنددر چند وجوہ کی بنا پر ان کی مراد تو پوری نہ ہو سکی لیکن انہیں علاج کی سہولت میسر آگئی ۔چارلس مٹکاف کانپور آئے بھی اور گئے بھی لیکن ان سے ملاقات کا سوال ہی پیدا نہ ہوا ۔ اس نا کامی کے بعد غالب کلکتہ جانے کے بارے میں سوچنے لگے تھے ۔تاکہ وہاں براہ راست گورنر جنرل سے ملاقات کرکے اپنی عرض داشت پیش کر سکیں۔یہاں انہیں باندہ کے نواب ذوالفقار علی بہادر کی یاد آئی جن سے ان کے دیرینہ خاندانی مراسم تھے ۔ انہیں یقین تھا کہ نواب باندہ نہ صرف ان کا خاطر خواہ علاج کرا دیں گے بلکہ ان کے کلکتہ جانے کا بندوبست بھی کردیں گے ۔ انہوں نے سوچا کہ وہ کچھ دن باندہ میں آرام کرنے کے بعد سیدھے کلکتہ جاکر اپنی پنشن جاری کرانے کی کوشش کریں گے۔ چنانچہ وہ فوراً کانپور کے لیے روانہ ہوگئے اور وہاں سے فتح پور ہوتے ہوئے باندہ پہنچ گئے ۔یہاں کے طویل قیام میں بہتر علاج اور تیمارداری کا ان کی صحت پر خوشگواراثر پڑا ۔اب وہ اپنے اندر نیا حوصلہ محسوس کر رہے تھے ۔انہو ں نے نواب باندہ کی وساطت سے ایک مہاجن سیٹھ امین چند سے دو ہزار روپے کا قرض لیا اور کلکتہ کے لیے روانہ ہوگئے۔
باندہ سے روانہ ہوتے وقت ان کا ارادہ چلہ تارا کے پاس سے ،جو جمنا کنارے ایک چھوٹا سا گاؤں ہے ،دریائے جمنا عبور کر کے فتح پور جانے کا تھا ۔وہاں سے خشکی کے راستے الہ آباد جانے والے تھے ۔لیکن جس بیل گاڑی سے وہ چلہ تارا کے لیے روانہ ہوئے تھے شاید اس کی سست رفتاری نے ان کو اپنے منصوبے پر نظر ثانی پر مجبور کر دیا تھا ۔یہاں انہوں نے اپنے پروگرام میں دو نمایاں تبدیلیاں کیں۔اول یہ کہ اب ان کا ارادہ فتح پور جا کر خشکی کے راستے سفر کرنے کا نہیں رہا ۔اس کے بجائے انہوں نے دریائے جمنا میں بذریعہ کشتی سفر کو ترجیح دی۔کشتی سے سفر کرنا خشکی کے مقابلے نسبتاً آرام دہ بھی تھا ۔اس کی ایک وجہ برسات کی طغیانی کے بعد دریائے جمنا کے بہاو کا تیز ہو جانا بھی رہا ہوگا ۔کیونکہ اس طرح کم وقت میں زیادہ فاصلہ طے کیا جا سکتا تھا۔ انہوں نے اپنے سابقہ منصوبے میں دوسری تبدیلی یہ کی کہ وہ اب بنارس میں قیام نہیں کریں گے اور بنارس کا وقت الہ آباد میں گزاریں گے۔ جیسا کہ یہاں سے باندہ کے محمد علی خاں کے نام لکھے گئے ان کے خط سے ظاہر ہوتا ہے۔ یعنی کم از کم یہاں پہنچنے تک غالب کی نظر میں بہشت خرم وفردوس معمور،آئینہ گنگ بدست محبوب خوش رنگ ،عبادت خانہ ناقوسیاں وکعبہ ہندوستاں اور ممدوح ومحسوددہلی ،بنارس کی تقدیس ،اہمیت اور وقعت کم اور شہر ملعون،صحن جہنم ،بھوتوں کی ویران بستی ،محبت وحیا سے عاری پیروجواں کا خطہ ،اور وادی ہولناک الہ آباد میں وقت گزارنے کی خواہش زیادہ تھی۔ غالب بنارس کیوں آنا چاہتے تھے؟ اور بعد میں انہوں نے اپنا یہ ارادہ کیوں بدل دیا؟ ارادے کے باوجود وہ الہ آباد میں کیوں نہ رکے اور دوبارہ بنارس آنے اور یہاں ٹھہرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟یہ سب باتیں ابھی تشنہ تحقیق ہیں۔لیکن یہی باتیں ہیں جن کا تجزیہ کر کے ہم غالب کی نفسیات کو سمجھ سکتے ہیں ۔
بہتر ہوگا کہ آگے بڑھنے سے پہلے ہم مرزا غالب کے اس فارسی خط کے اردو ترجمہ کے کچھ ضروری اقتباسات کا مطالعہ کر تے چلیں جو انہوں نے باندہ کے اپنے رفیق محمد علی خاں کو الہ آباد اوربنارس کے بارے میں لکھا تھا ۔لکھتے ہیں:
”الہ آباد بھی کیا واہیات جگہ ہے ۔خدا اس ویران جگہ پر لعنت کرے کہ اس میں نہ کسی بیمار کے لائق دواہے اور نہ کسی مہذب انسان کے لائق کوئی شے ملتی ہے ۔ اس میں نہ مردوزن کا وجود ہے اور نہ اس کے پیرو جوان کے دل میں محبت ومروت ہے۔اس کی آبادی دنیا کے لیے روسیاہی کا باعث ہے ۔اس کی ویران بستی قابل کاشت زمین ہے ….اس ہولناک وادی کو شہر کہنا کتنی نا انصافی ہے اور کتنی بے حیائی ہے کہ انسان اس بھوتوں کی بستی میں رہے ۔صحن جہنم ….چونکہ اس شہر نے یہ سن لیا ہے کہ نیکوں کے صدقے میں بدوں کو بھی بخش دیں گے اس لیے اپنے تئیں ہزاروں امیدوں کے ساتھ بلکہ بصد ہزار خواری بنارس کے پہلو میں ڈال دیا ہے اور دریائے گنگا کو شفاعت کے لیے اس کی طرف روانہ کردیا ہے ۔
ہر چند کہ بنار س کی نازک طبیعت پر اس شہر روسیاہ کی طرف دیکھنا گراں ہے مگر اس اعتماد پر اس کادل قوی ہے کہ گنگا کا واسطہ درمیان میں ہے ۔بخدا اگر کلکتہ سے واپسی الہ آباد کے راستے ہوئی تو میں وطن آنے کا ارادہ ہی ترک کر دوں گا اور کبھی واپس نہ ہوؤں گا ۔بالجملہ ایک رات اور دن اس دیووں(بھوتوں) کی بستی میں ذریعہ بار برداری کے فقدان کے جرم میں قید رہ کر جب دوسرے روز ایک گاڑی مل گئی ،صبح کے وقت گنگا کنارے پہنچ کر بہت جلد ہوا کی طرح دریا پار کر لیا اور پائے شوق سے بنارس کی طرف چل دیا۔”
”بنارس میں ورود کے روز باد جاں فزا اور بہشت آسانسیم مشرق کی طرف سے چلی جس نے میری جاں کو توانائی بخشی اور دل میں ایک تازہ روح پھونک دی ۔اس ہوا کے اعجاز نے میرے غبار کو فتح کے جھنڈوں کی طرح بلند کر دیا اور اس نسیم کی لہروں نے میرے جسم میں ضعف کا اثر نہ چھوڑا۔
کیا کہنے ہیں شہر بنارس کے ۔اگر میں اس کو فرط دل نشینی کی وجہ سے قلب عالم کا سویدائے قلب کہوں تو بجا ہے ۔کیا کہنے ہیں اس آبادی کے اطراف کے ۔اگر جوش سبزو گل کی وجہ سے میں اسے بہشت روے زمین کہوں تو بجا ہے ۔اس کی ہوا مردوں کے بدن میں روح پھونک دیتی ہے ۔ اس کی خاک کے ہر ذرے کا یہ منصب ہے کہ مقناطیس کی طرح راہ روکے پاؤں سے پیکان خار کو کھینچ لے۔اگر دریائے گنگا اس کے قدموںپر اپنی پیشانی نہ ملتا تو وہ ہماری نظر میں اس قدر معزز نہ ہوتا ۔اور اگرخورشید اس کے درودیوار کے اوپر سے نہ گذرتا تو وہ اس طرح روشن اور تابناک نہ ہوتا ۔دریائے گنگا بہ حالت روانی گویا کہ بحر طوفاں خروش ہے۔ دریائے گنگا کا کنارا ملاءاعلیٰ کے ساکنین کا گھر ہے ۔سبزہ رنگ پری چہرہ حسینوں کی جلوہ گاہ کے مقابلے میں (یا اس کا عکس پڑ کر ) قدسیان ماہتابی کے گھر کتان کے ہوگئے ہیں (یہ شاعرانہ مفروضہ ہے کہ کتان کا لباس چاند کی روشنی میں پھٹ جاتا ہے) ۔اگر میں اس شہر کی کثرت عمارات کا ذکر کروں تو وہ سراسر مستوں کے ٹھکانے ہیں اور اگر میں اس کے اطراف کے سبزہ وگل کا ذکر
کروں تو وہ گویا سراسر بہار ستان ہے۔”
”اب ایک بہت بڑا مسئلہ میرے پیش نظر ہے اور اس بارے میں اگر دل شماتت اعدا سے زخمی نہ ہوتا تو بے خوف دین کو ترک کر دیتا ۔تسبیح کو توڑ دیتا،تلک لگا لیتا ۔جنیو پہن لیتا اور اس وضع سے اتنے عرصے گنگا کے کنارے بیٹھا رہتا کہ اپنے آپ سے آلائش ہستی کی گرد دھو ڈالتا اور قطرے کی طرح دریا میں گم ہو جاتا۔اس ارم آباد میں قدم رکھتے ہی کوئی علاج کیے یا کوئی دوا پیے بغیر ہی نئے عوارض کی تکلیف رفع ہوگئی ہے بلکہ میں یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ اصل مرض کا کچھ حصہ بھی کم ہوگیا ہے ۔مرکبات معمول میں سے جتنی بھی میں فراہم کر پاتا ہوں اس کا سبب مستقبل میں مرض سے تحفظ سے بطور حزم واحتیاط ہے ورنہ اب نہ تو تلافی ماضی منظور ہے اور نہ رعایت حال۔”
”ہر چند کہ مجھے اس امر پر سخت اصرار ہے کہ آپ جلد از جلد جواب دیں ،لیکن دل گم نامی اور ہیچ کسی کی شرم سے ہزار چھریوں سے زخمی ہے ،کیونکہ میں جس مکان میں مقیم ہوں وہ ایک ضعیفہ کا ہے جو روغن چراغ سے بھی محتاج ہے ۔اس کے گھر میں جو کا دانہ تک نہیں ہے ۔اس گاؤں کی طرح ویران ہے جس کے ساکنین خراج کے خوف سے گھر چھوڑ بھاگے۔نہ تو اس کے پہلو میں بازار نام کی کوئی چیز ہے اور نہ اس کے قریب کوئی شاندار محل۔لہٰذا خط کے پتے پر کیا لکھا جائے اور خود پیک خیال ہی نامہ بر ہو تو وہ تلاش میں آخر کس دروازہ پر جائے گا ؟میر ے مخدوم !مکتوب کو اس کے مکتوب الیہ کے ساتھ خدا کے سپرد کر کے لفافہ پر پتہ لکھ دیجیے ۔محلّہ نورنگ آباد ،عقب سرائے نورنگ آباد ،قریب حویلی گوسی خانساماں ،درحویلی مٹھالی ومیاں رمضان،اسد اللہ غریب الوطنی تازہ وارد کوملے۔”
(تمام اقتباسات’مکتوبات غالب،نامہ ہائے فارسی غالب مرتبہ سیدا کبر علی ترمذی مترجمہ لطیف الزماں،صفحہ ۵۷ تا ۳۸ سے ماخوذ)
غالب کی نفسیات کو سمجھنے کے لیے مندرجہ بالا حالات اور ان کے فارسی مکتوب کے درج بالااقتباسات کے ساتھ ان کے دل میں ہونے والی کشمکش کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے ۔خود ان کے بقول وہ اس وقت بیس ہزار روپے کے مقروض تھے اور دہلی میں قرض خواہوں کو منھ دکھانے کے لائق نہیں رہ گئے تھے ۔ کم از کم وہ ایسا سمجھ رہے تھے ۔گھر کے حالات بھی دگرگوں تھے ۔ان کے بھائی مرزا یوسف کے جنون اور علاج کا معاملہ ساتھ ساتھ چل ہی رہا تھا اور ایسے نا گفتہ بہ حالات میں ان سب کو چھوڑ کر کلکتہ کے سفر کا ارادہ کرنے کا عمل ان کے لیے سفر کی صعوبتوں سے کم اذیت ناک نہیں تھا ۔انہوں نے یہ سفر کیا تو یہ بات خودبہ خود واضح ہو جاتی ہے کہ وہ پیسوں کی قلت کس شدت سے محسوس کر رہے تھے۔بنارس آنے کے بعد اس طرف سے تو ان کو بے فکری تھی کہ یہاں ان کا کوئی ایسا شناسا نہیں تھا جسے دیکھ کر انہیں شرمندہ ہونا پڑتا ۔پھر قیام بنارس کے دوران ان کا کسی قابل ذکر شخص سے ملاقات نہ کرنا یہ ظاہر کرتاہے کہ نا معلوم وجوہ کی بنا پر وہ یہاں کسی سے ملنا نہیں چاہتے تھے ۔اورنگ آباد سرائے جیسی نامانوس جگہ پر خاموش قیام اسے مزید پر اسرار بنا دیتا ہے ۔ان حالات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے اس وقت کے بنارس پر ایک نظر ڈال لیں تو کم از کم یہ اندازہ ہو کہ کیا اس وقت کچھ ایسے لوگ اس شہر میں تھے جن سے غالب کو ملنا چاہیے تھا؟
انیسویں صدی کا آغاز بنارس کے لیے اچھا ثابت ہوا تھا ۔پہلی دہائی میں ہی یہاں دو بڑے ہندو مسلم فسادات ہو چکے تھے ،جن میں لا تعداد لوگوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتا اور متعددعمارات نذر آتش یا مسمار کر دی گئیں ۔پہلا فساد اس وقت ہوا جب محرم کے جلوس کے دوران لاٹ کی عید گاہ کو امام باڑے کے طور پر استعمال کیے جانے سے روکنے پر وہاں ایستادہ ستون کو مسلمانوں نے ہٹانے کی کوشش کی۔پتھر کا یہ ستون (لاٹ بھیرو) ہندؤں میں بڑا مقدس سمجھا جاتا تھا۔مسلمانوں کی اس کو شش سے ہندو بگڑ گئے اور اس کے نتیجے میں سارے شہر میں مسلمانوں کی اجتماعی مار کاٹ کا سلسلہ شروع ہوا جو اس وقت کے مجسٹریٹ
ڈبلیو ڈبلیو برڈ کی کوشش کے باوجود کافی دنوں تک جاری رہا۔
مصنفہ کبیر ناتھ سگل )Down the Ages Varanasi)
چند سال بعد 1809 میں دوسرا اور پہلے سے کچھ زیادہ تباہ کن فساد ہوا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ کچھ راجپوت ہندؤں نے وشوناتھ مندر کے سامنے ،گیان واپی مسجد کی قبلہ رخ دیوار سے ملحق ایک نئے مندر کی تعمیر شروع کر دی تھی جسے مسلمانوں نے گرا دیا۔ دوسرے دن یہاں پر ہندؤں کی بھیڑ جمع ہوئی ۔جسے اس وقت کے مجسٹریٹ نے سمجھا بھجا کر واپس کر دیا ۔اسی دوران یہ افواہ پھیل گئی کہ مسلمانوں نے لاٹ کاستون گرا دیا اور اس مقدس مقام پر ایک گائے کی قربانی دی ہے ۔اس خبر سے گائے گھاٹ پر مسلمانوں اور ہندؤں کے درمیان شدید جھڑپ ہوئی جس میں80 مسلمان مارے گئے ۔یہ تو محض شروعات تھی بعد میں یہ فساد دونوں طرف کے سینکڑوں لوگو ں کی جان لے کرٹلا۔ (کاشی کا اتہاس:مصنفہ ڈاکٹر موتی چندر) ۔اس فساد کے بعد 1852 تک یہاں کسی قسم کا تناؤنہیں رہا ۔یعنی غالب کے یہاں آنے کے وقت بنارس کے حالات معمول پر تھے اور یہاں چاروں طرف امن وامان تھا۔
بنارس میں رونما ہونے والے ان ناگوار واقعات کے اسباب دراصل اٹھارہویں صدی کے اواخر میں پوشیدہ تھے ۔وارن ہیسٹنگز کے دوسرے حملے میں مہار اجا چیت سنگھ کی شکست اور فرار کے بعد انگریز سازش کے تحت شعوری طور پر یہاں کے ہندؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفاق پیدا کرنا چاہتے تھے ۔اس کے لیے انہوں نے مذہب جیسے نازک ہتھیار کا استعمال کیا ۔یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ شاہ عالم کے بیٹے جواں بخت جہاندار شاہ نے بنارس کو اپنا مستقل مسکن بنا لیا تھا ۔اول اول انہیں انگریز حاکم کچھ احترام دے رہے تھے لیکن بعد میں لارڈ کارن والس نے ان سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ وہ اپنی پرانی شان وشوکت بھول جائیں اور انہیں پنشن کی مد میں جو 25000 روپے ماہانہ مل رہے ہیں اسی میں اپنی گزر بسر کریں ۔وہ ان کے بنارس میں رہنے سے بھی خوش نہیں تھا۔لیکن جلد ہی جہاندار شاہ کی موت ہوگئی ۔ان کی موت کے بعد ان کی اولادوں کی پنشن میں مزید تخفیف کرتے ہوئے اسے 25000 ماہانہ سے 18000 کر دیا گیا ۔اس میں سے ان کی بیگم قتلک سلطان کو 11000 روپے ماہانہ ،جس میں مرزا خرم بیگ اور مرزا مظفر بیگ کی پرورش کی رقم بھی شامل تھی ،بڑے بیٹے مرزا شگفتہ بیگ کو 4000 روپے ماہانہ اور بیٹی جہان آبادی بیگم کو 2000 روپے ماہانہ طے ہوئے۔ان تفصیلات سے محض یہ بتانا مقصود ہے کہ غالب کی بنارس آمد کے وقت جہاندار شاہ کے افراد خاندان مرزا شگفتہ بیگ اور مرزا خرم بیگ وغیرہ یہاں موجود تھے ۔جو اگرچہ انگریزوں کے معمولی پنشن خوار اور مالی اعتبار سے کمزور ہو چکے تھے لیکن جن میں اب بھی لارڈ کارن والس جیسوں کو خلعت سے نوازنے کا جذبہ موجود تھا۔ یہ مغل شہزاد گان تخت دہلی اب بھی شہر کے معززین میں شمار کیے جاتے تھے اور غالب کو ان سے ملاقات کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہونا چاہیے تھی ۔
اس وقت بنارس کی دنیائے قرطاس وقلم بھی خاصی آباد تھی ۔ یہاں فارسی وارد وادبیات کے مختلف میدانوں سے تعلق رکھنے والے ایک سے ایک اعلیٰ مرتبہ لوگ موجود تھے۔ممکن ہے غالب اس دوران یہاں کے کچھ سنسکرت علما سے ملے ہوں ۔کیونکہ ان سے ایک عام انسان،ایک عام طالب علم کی حیثیت سے ملنے میں ان کے قیام کے راز کے طشت ازبام ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں ہو سکتا تھا ۔لیکن چونکہ اس کی کوئی شہادت نہ تو غالب کے خطوط سے ملتی ہے اور نہ کسی دوسرے ذریعے سے ۔اس لیے اس شعبے کو نظر انداز کر دینا ہی بہتر ہوگا۔فارسی علم وادب کی دنیا میں یہاں اس وقت سب سے بڑا نام مفتی محمد ابراہیم بنارسی کا ہے جو ملا محمد عمر سابق بنارسی کے صاحبزادے تھے۔یہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ علم ہئیت وہندسہ کے زبردست ماہر تھے ۔ پیشے کے اعتبار سے پہلے لارڈلیک کے میر منشی رہے اور بعد میں عدالت عالیہ کے منصب افتا پر فائز ہوئے۔
اپنے فرائض منصبی کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کے جذبے کے تحت یہ درس وتدریس کا کام بھی کرتے رہے ۔ان کے والد ملا سابق بنارسی شیخ علی حزین کے قریبی دوستوں میں سے تھے ۔اور علم وادب کے میدان میں مختلف زاویوں سے اپنی ایک علاحدہ شناخت رکھتے ہیں۔
محمد ابراہیم کے صاحبزادے مفتی محمد اسمٰعیل المتخلص بہ ثابت بنارسی بھی اس وقت سر گرم عمل تھے ۔جو اپنے والد کے سبکدوش ہونے کے بعد عدالت عالیہ میں منصب افتا پر فائز رہے ۔آگے چل کر سر سید احمد خاں سے بھی ان کے اچھے دوستانہ مراسم استوار ہوئے۔ وہ شاعر تھے اور اپنے کلام پر مصحفی سے اصلاح لیتے تھے ۔ ان کے علاوہ اکرم علی واسطی اور مولانا عنایت علی جیسے لوگ بھی اس وقت بنارس میں موجود تھے جو غالب کی قدرافزائی کر سکتے تھے ۔لیکن وہ ملے کسی سے نہیں ۔ظاہر ہے غالب نے شاید یہ تہیہ کر رکھا تھا کہ وہ بنارس میں کسی سے نہیں ملیں گے ۔
اپنے کچھ خطوط اور’ مثنوی چراغ’ دیر میں غالب نے بنارس کی تعریف کے ساتھ ساتھ یہاں دلکش عمارتوں کی کثرت ،سبزہ زار اور قدرتی حسن کا بھی ذکر کیا ہے ۔غالب جب یہاں آئے تھے تو یہ شہر واقعتاً خوبصورت باغات اور گھنے جنگلات کا شہر تھا ۔شہر میں جگہ جگہ متعدد خوبصورت کنڈ موجود تھے ۔بیشتر کوٹھیوں سے ملحق باغات تھے ۔جن کے گھروں میں یہ سہولت میسر نہ تھی انہوں نے شہر کے باہر اپنے باغات بنا رکھے تھے ،جہاں فرصت کے اوقات جاکر رہائش اختیار کرتے تھے ۔مقامی اصطلاح میں اس عمل کو ’بہری النگ‘ کہا جاتا ہے ۔سارا شہر ہرے بھرے درختوں سے پر تھا۔یہ تمام باتیں ہمیں ان پینٹنگس کو دیکھنے سے
معلوم ہوتی ہیں جو مصور بنارس جیمس پر نسپ(james prinsep ) نے بنائی تھیں۔واضح رہے کہ پرنسپ کا بنارس میں رہائش کا زمانہ وہی ہے جو غالب کے بنارس میں ورود کا زمانہ ہے ۔ اس زمانے میں بنارس کا ایک رائج نام ’آنندکانن‘بھی تھا یعنی گلشن مسرت یا بقول غالب بہشت خرم ۔آنند محض خوشی کا متبادل نہیں ہے بلکہ روحانیت کی ایک اصطلاح بھی ہے ۔معبود برحق کے لیے سچدا نند (ست،چت اور آنند) کا نام اسی مفہوم میں رائج ہے ۔مختلف معاصر انگریز مورخین نے اسے بجا طور پر کہیں،فارسٹ پیراڈئزآف گارڈنز‘(forest paradises)کہیں ’فارسٹ آف بلس(forest of Bliss)‘اور کہیں ’پیراڈائز آف گارڈنز ‘(paradises of gardens)کے نام سے یاد کیا ہے ۔اُس زمانے میں آج کالہرابیر(Lahurabir)اور درگاکنڈ (Durga Kund)جنگلات تھے ۔ بکامحال،چوکھمبااور ٹھٹھیری بازار کے بارے میں تواب بھی بیشتر لوگ جانتے ہیں کہ یہ جنگلوں کو کاٹ کر بسائے گئے محلے ہیں۔ ان کے لیے اب بھی ’بن کٹی ‘کی اصطلاح سننے میں آجاتی ہے ۔موجودہ ’گودولیا ‘(Godowlia)اور’لکسا‘(Laxa)اس عہد میں رئیسوں کے اسطبلوں کے لیے مخصوص تھا۔ جب وہ گنگا کے دشاشومیدہ گھاٹ پر آتے تھے تو یہاں ان کے گھوڑے باندھے جاتے تھے ۔سارے بنارس میں چاروں طرف روحانیت کا دور دورہ تھا۔دریائے گنگا کے کنارے دور دراز سے آئے ہوے تارک الدنیا سنیاسی دھونی رمائے دکھائی دیتے تھے۔ گھاٹوں پر صفائی کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا ۔ فرصت کے اوقات میں لوگ دریا کنارے بیٹھ کر لوگوں کو غسل کرتے ،ورزش کرتے ،سوریہ نمسکار کرتے ،گنگا پوجا کرتے،طلوع وغروب آفتاب کا نظارہ کرتے ،بجڑوں ،ناؤں کو دریا میں آتے جاتے ،رقص وسرود کی ثقافتی محافل آراستہ کرتے دیکھا کرتے تھے ۔غالب نے یہی بنارس دیکھا ہوگا۔عین ممکن ہے کہ ایسا بنارس دیکھ کر غالب کا روحانیت پسند دل مبہوت ہوگیا ہو اور یہاں حاصل ہونے والے ’آنند ‘ میں وہ کسی کو مخل ہونے دینا نہ چاہتا ہو ۔ اسی لیے اس نے یہاں گوشہ نشینی اختیار کر لی ہو ،کہ لوگ تو آئندہ بھی ملتے رہیں گے لیکن روحانیت کا یہ مرکز پھر کہاں ملے گا ۔
یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ1801 میں بنارس کے کلکٹر مسٹرڈین نے شہر کو توال ذوالفقار علی خاں کے ذریعے بنارس کی مردم شماری کروائی تھی ۔ اس کے رو سے اس وقت بنارس میں کل انتیس ہزار نو سو پنیتیس(29،935)مکانات تھے ،جن میں بارہ ہزار ایک سو پچپن (12155) پختہ تھے اور سترہ ہزار سات سواسی (17780) کھپر یل والے۔ان میں پختہ مکانوں کو مزید تفصیل اس طرح درج ہے ۔پہلے درجے کے ایک منزلہ مکان پانچ سو (500)،دوسرے درجے کے دوتلے مکان پانچ ہزار پانچ سو (5500) تیسرے درجے کے سہ تلے مکان تین ہزار چھ سو(3600) ،چوتھے درجے کے چوتلے مکان ایک ہزار پانچ سو (1500)،پانچویں درجے کے پانچ تلے مکان سات سو پچپن (755) اور چھٹے درجے کے چھ تلے مکان تین سو (300) تھے ۔کچے اور کھپر یل والے مکانوں کی مزید تفصیل اس طرح ہے ۔پہلے درجے کے ایک تلے مکان دس ہزار دوسو (10200)،دوسرے درجے کے دوتلے مکان چھ ہزار چھتیر (6076)،کچی مڑیاں ایک ہزار تین سو پچیس ،باغیچے کے ساتھ مکان اٹھتر (78)، صرف کھپریل والے ایک سو ایک (101)۔ اس وقت یہاں کی آبادی کل پانچ لاکھ چھ سو پچیس (500625) نفوس پر مشتمل تھی۔ اس مردم شماری میں شرفا،روسا،مختلف دیسی ریاستوں کے نو واردشہزادگان،ہتھیاربند سپاہیوں، مہاجنوں،تاجروں، چوبداروں، خدمتگاروں، مانجھیوں، حکیموں، ویدوں، کہاروں، دھوبیوں، نائیوں، رنڈیوں، طالب علموں،فقیروں وغیرہ کی بھی الگ الگ گنتی کی گئی تھی ۔ اور ان سب میں ہندؤں اور مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی بنیاد پر ہر ایک کی الگ الگ تعداد درج کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ جعل سازوں(40) جھوٹی گواہی دینے والوں (400) چوری کا سامان خریدنی والوں (50) صرف چوری کرنے والوں (200) جواریوں (40) عدالت سے چوری کے جرم میں سزا پانے والوں(100) اور غنڈوں (200) کی بھی مردم شماری کی گئی تھی۔ اس مردم شماری میں دوسرے امرا و روسا کے علاوہ مرزا جواں بخت جہاندا رکی اولاد میں مرزا خرم بیگ اور ان کے افراد خاندان اور ملازمین کی تعداد ایک ہزار، مرزاشگفتہ بیگ اور ان کے افراد خاندان معہ ملازمان تین سو بتائی گئی ہے ۔ اس مردم شماری کی نوعیت نہ تو سرکاری تھی اور نہ ہی اس کے ذریعہ فراہم کردہ اعداد وشمارپر مورخین اعتبار کرتے ہیں ۔اس کا سبب غالباً یہ ہے کہ یہ کام فرمان کے جاری ہونے کے بعد اتنے کم وقت میں تکمیل کو پہنچا کہ اس بات پر یقین کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ اس میں ذہین کوتوال ذوالفقار علی خان کا اندازہ زیادہ کام کر رہا ہے ، حقیقی مردم شماری کا عمل کم۔ اس میں مردم شماری کے مروجہ اصول وضوابط کا بھی کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا تھا ۔ البتہ آگے چل کر عظیم مصورومو رخ جیمس پرنسپ نے ، جو بنارس کی تاریخ نویسی کے عمل میں غالباً سب سے اہم شخصیت ہے29 – 1828 میں جو مردم شماری کرائی گئی تھی اسے مورخین کی اکثریت اعتبار کی نظر سے دیکھتی ہے ۔اور یہ غالب کے قیام بنارس کے عہد سے بالکل قریب کا زمانہ بھی ہے۔ پرنسپ کے مطابق اس وقت بنارس کی آبادی ایک لاکھ اکیاسی ہزار چار سو بیاسی (1,81,482) تھی،جس میں مسلمانوں کی تعداد اکتیس ہزار دو سو اڑتالیس (31,248) برہمن بتیس ہزار تین سوا کیاسی (32381) راجپوت ،بھومیہاراور کھتری ملا کر چودہ ہزار چوارنوے (14094)، بنیے آٹھ ہزار تین سو (8300) اور شودر ساٹھ ہزار تین سو دو(60302) تھے ۔ اس مردم شماری میں بچوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا ۔ (بہ حوالہ کاشی کا اتہاس مصنفہ ڈاکٹر موتی چندر)
‘مثنوی چراغ’ دیر پر گفتگو شروع کرنے سے پہلے یہ جان لینا مفید ہوگا کہ اس مثنوی کی تخلیق کے دوران غالب کے جذبات کیا رہے ہوں گے ۔ عام طور پر شاعر کسی موضوع کا انتخاب کرنے کے بعد اس میں خالصتاً شاعرانہ انداز میں حسن وجمال کی تلاش کرتا ہے اور پھر اپنی مہارت کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے جمالیات کے جملہ لوازم کو برتتے ہوئے شعر کہتا ہے ۔اس ضمن میں وہ تمام اشعار بھی آجاتے ہیں جو کسی کی فرمائش پر یا کسی کو کسی خاص مقصد کے لیے خوش کرنے کے لیے کہے جاتے ہیں ۔ایسے اشعار میں شاعر کی مشاقی اور استادانہ کمال کے وافر ثبوت تو مل جاتے ہیں لیکن اس کے دل کی ترجمانی یا حقیقت حال کا شائبہ نظر نہیں آتا ۔ لیکن یہ بھی ہوتا ہے کہ شاعری کسی شے کے جمال سے متاثر ہو جائے اور اپنے کو شعر کہنے پر مجبور پائے۔ ایسی شاعری کی مثالیں بھی ہمارے شعری ذخائر میں وافر تعداد میں موجود ہیں ۔اول الذ کر شاعری لفاظی ہوتی ہے۔اور آخر الذ کر دلی جذبات وکیفیات کی ترجمان ۔ دونوں کی تاثر پذیری میں بھی فرق ہوتا ہے ۔ عام طور پر جب شاعر کسی شخص یا جگہ کی تعریف کرتا ہے تو اس کی کچھ غرض ہوتی ہے ۔یا تواسے اس شخص یا جگہ سے کچھ حاصل کرنا ہوتا ہے ، یا وہ کسی مصلحت کی بنا پر اس شخص یا اس جگہ کے لوگوں کو خوش کرنا چاہتا ہے ۔اس مثنوی کے مطالعے اور غالب کی اس وقت کی داخلی کیفیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس تخلیق کے پس پشت ان دونوں میں سے کوئی سبب نہیں ہے۔ یہاں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس مثنوی کا خالق شہر بنارس کے حسن اور یہاں سے باشندوں کے سلوک سے بے حد متاثر ہوا ہے ۔
اس مثنوی میں کل ایک سو آٹھ شعر ہیں ۔یہ عدد ہندؤں یا باشندگان بنارس کی اکثریت کے عقاید کی روسے بے حد مقدس سمجھا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ انسان کی روحانی دولت ’آٹھ سدھیوں ،نوندھیوں اور متعددردھیوں،کی کل جمع بھی ایک سوآٹھ ہوتی ہے۔عموماً کسی مقدس شخصیت کے نام کے پہلے بھی شری شری ایک سو آٹھ کا سابقہ لگا دیا جاتا ہے ۔ یہاں شری کا مفہوم اس شخص کے تقدس کے اظہار کے ساتھ ساتھ یہ تاثر دینا بھی ہے کہ اس پر خدا کی بے پنا ہ رحمتوں کا نزول ہوا ہے ۔ غالب نے شعوری طورپر اس مثنوی میں اشعار تعداد ایک سو آٹھ رکھ کر اس شہر کے تقدس کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یہی تاثر دینے کی کوشش کی ہے ۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ غالب بھلے ہی بنارس میں اردو اور فارسی کے اکابرین سے نہ ملے ہوں لیکن ایک اجنبی کی حیثیت سے ہی سہی یہاں کے ہندو علما سے ضرور ملے تھے اور ان سے ہندو مذہب کا کچھ درس بھی لیا تھا ۔اس مذہب سے ان کا تعلق محض دلچسپی تک محدود نظر نہیں آتا بلکہ اگر محمد علی خاں کو مرسلہ ان کے خط کی بات کو مبالغہ نہ مانیں تو وہ بنارس اور یہاں کے عقاید سے اس حد تک متاثر ہوگئے تھے کہ اگر کلکتہ کا سفر در پیش نہ ہوتا تو وہ اپنا مذہب ترک کر کے مستقلاً یہاں رہنے پر بھی آمادہ تھے ۔ غالب کے مزاج کو دیکھتے ہوے اس میں کوئی حیرت کی بات بھی نہیں ہے ۔ وہ مذہبی مساوات، صلح کل اور رواداری کے مبلغ اور انسانیت کے قدر دان تھے۔ انہیں جہاں بھی انسانیت کے قدر شناس نظر آجاتے تھے وہ ان کے گرویدہ ہو جاتے تھے ۔ بنارس میں شاید کچھ ایسا ہی ہوا تھا جس نے ان کے دل کی گہرائیوں میں اپنی جگہ بنالی تھی ۔ غالب نے کبھی کسی دوسرے شہر کے بارے ایسے جذباتی لگاو اور اس طرح کے دالہانہ خیالات کا اظہار نہیں کیا۔ دہلی جیسے شہر کے بارے میں بھی نہیں ،جو بہ وجوہ غالب کو پسند تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بنارس نے غالب کے دل ودماغ پر کتنے گہرے اثرات مرتب کیے ہوں گے ۔ اور اس کے نتیجے میں غالب کا یہ شاہکار ’مثنوی چراغ دیر‘ وجود میں آیا ہوگا۔
یہ مثنوی شدت آلام میں دل کے اندر برپا آتش فشاں کے پھوٹ پڑنے اور اس میں پوشیدہ اسرار کے طشت ازبام کر دینے پر آمادگی کے ذکر سے شروع ہوتی ہے ۔ ظاہر ہے غالب جس امیدوبیم کی حالت میں دہلی سے کلکتہ کے لیے رونہ ہوے تھے اس نے تذبذب کی ایسی شکل اختیار کر لی تھی کہ ناکامی کا خوف اور کامیابی کی مبہم سی امید میں باہم ٹکراو ہو رہا تھا ۔دہلی میں قرض خواہوں نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا اور اب یہی واحد امید رہ گئی تھی کہ کلکتہ میں ان کی داد خواہی کسی مثبت نتیجے تک پہنچے گی اور ان کے ساتھ ہوئی نا انصافی کا ازالہ ہو جائے گا ۔ نتیجے میں ان کے سارے مسائل پلک جھپکتے حل ہو جائیں گے ۔ اس مہم میں ناکامی کا تصور ہی غالب کے لیے سوہان روح رہا ہوگا ۔ مثنوی کا پہلا شعر غالب کی اسی کیفیت کی بھر پور ترجمانی کرتا ہے ۔ تاثرات کایہ سلسلہ پانچویں شعر تک گیا ہے جس میں غالب نے مختلف تشبیہات کا سہارا لیا ہے اور ہر شعر ان کی جدت پسندی اور تلاش ترکیب کا ثبوت ہے ۔ پتھر کی رگو ں سے چنگاریوں کا نکلنا،مٹھی بھر خاک سے غبار کا اٹھنا،شکایتوں کی زیادتی سے دل میں ابال، ایک حقیر بلبلے میں سمندری طوفان کی شدت ۔ دل کا لبوں تک آنا،سانسوں کو خون میں ڈبو دینے والی فریاد کا نکلنا، کیونکہ اس میں جگر کی قاشیں ہیں،ذہنی الجھنوں کو زلف سے زیادہ الجھی ہوئی داستان قرار دینا ، ایک ایک بال کے زباں بن جانے کا ذکر کرنے جیسی تشبیہات ظاہر ہے غالب کے اندر برپا طوفان تلاطم خیز کا بخوبی اظہار کرتی ہیں ۔ غالب کے ان اشعار س ان کے دل کی ہلچل کو محسوس کیا جا سکتا ہے ۔
غالب مثنوی کے چھٹے سے انیسویں شعر تک دوستوں کی بے التفاتی کے شاکی ہیں یہ شکایات ان اخلاقی روایات کی پابند ہیں جو اس عہد کا طرہ امتیاز رہیں ہیں ۔صاف جھلکتا ہے کہ غالب کچھ اور کہنا چاہتے ہیں لیکن ان کی شرافت نفس ہر ہر قدم پر ان کی دامن کش ہے ۔ اسی مجبوری نے ان کے ان اشعار میں شعریت اور ان کی تاثیر میں اضافہ کر دیا ہے ۔ دوستوں سے شکایت کرنے کو کتاں کو چاندنی میں دھونے کا عمل قرار دے کر خود اس کی بے معنویت کا اعتراف کیا ہے۔ یہ کہنا کہ میں اپنے ہی ساز کے سوز میں جل کر کباب ہو گیا ہوں، اپنی فریاد کو ساز قرار دینا اور سانسوں کو اس کا تار بتانا اور کہنا کہ اس کی ہڈیوں میں بانسری کی طرح آنچ بھری ہے، دہلی کی شکایت کرتے ہوے کہنا کہ اس سمندر نے مجھ جیسے موتی کو نکال کر پھینک دیا ہے اور اس آہن نے مجھے گردکی طرح جھاڑ دیا ہے ،تقدیر پر الزام کہ اس نے جب سے اسے دہلی سے نکالا ہے اس کا سرو سامان طوفان کے حوالے کر دیا ہے، دہلی کی اس وقت کی صورت حال اور خود غالب کی کیفیات کی جانب بڑا بلیغ اشارہ ہے۔ یہ کہنا کہ اب وہاں کوئی میرا ہمدرد نہیں رہا یا یہ کہ اب دنیا میں کہیں میرا وطن ہی نہیں ہے۔ پھر تین لوگوں ،فضل حق خیر آبادی،حسام الدین حیدر خاں اور امین الدین احمد خاں کو نام بہ نام یاد کرنا جو انہیں عزیز تھے۔ایسے وقت اپنے ان ہمدردوں کو اتنی شدت سے یاد کرنا اشارے کرتا ہے کہ غالب اس دوران ذہنی طور پر کتنی پریشانی محسوس کر رہے تھے ۔ غالب کو شکایت ہے کہ مانا کہ میں دہلی سے چلاآیا لیکن یہ تینوں دوست مجھے کیسے بھو ل گئے ۔ وہ کہتا ہے کہ وطن کی جدائی سے پریشان نہیں، دوستوں کی بے مروتی اور عدم التفات کا مارا ہوا ہوں۔ کیونکہ اگر دہلی نہیں ہے توکوئی غم نہیں ، دنیا سلامت جگہ کی کیا کمی ہے ۔ چاہے جس باغ میں کسی درخت کی ٹہنی میں آشیانہ بنایا جا سکتا ہے ۔ یہ اشعار توجہ طلب ہیں ۔ جس شخص یا جگہ سے محبت میں شدت ہو اس سے امیدوں کی وابستگی بھی بڑ ھ جاتی ہے ۔ اور ان کے پورا نہ ہونے پر شاید ان لوگوں کو غیرت دلانے کے لیے شکایت کچھ زیادہ پیدا ہو جاتی ہے ۔ اس بات کو وہ شخص زیادہ بہتر طورپر سمجھ سکتا ہے جو خود ان حالات سے گزرا ہو۔ شاید غالب جب بنار س کی تعریف میں رطب اللسان تھے ، اس وقت اہل دہلی با لخصوص ان تین احباب کو غیرت دلانے کا یہ عمل بھی کار فرما رہا ہو۔
اس کے بعد شعر20تا 81 وہ باسٹھ اشعار ہیں جن میں غالب نے بنارس کی تعریف کی ہے۔ چونکہ مثنوی کا اصل موضوع یہی ہے اس لیے ان پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔کہتے ہیں :
’پھولوں کی اس سر زمین پر میرا دل آیا ہے ۔کیا اچھی آبادی ہے جہاں بہار کا چلن ہے ۔ یہ وہ مقام ہے کہ مقام تفاخر میں دہلی اس کا طواف کرنے آتا ہے ۔ اس مبارک اور عزیز بہار سے نگا ہ کو ادائے گلشن کا دعویٰ ہے ۔ کاشی کی تعریف میں خوش بیانی کی بدولت کلام کو یہ فخر ہوتا ہے کہ فردوس ساماں ہوگیا ۔ سبحان اللہ،بنارس کو خدا نظر بد سے بچائے، یہ ایک مبار ک جنت ہے، بھرا پرا فردوس ہے ۔ کسی نے کہہ دیا کہ بنارس حسن میں چین کے مثل ہے تو یہ تشبیہ بنارس کو ایسی ناگوار گزری کہ آج تک گنگا کی موج اس کے ماتھے کابل بنی ہوئی ہے ۔ اس کے وجود کا اندازہ ایسا خوش گوار ہے کہ دہلی ہمیشہ اس پر درود بھیجتا رہتا ہے۔ شاید دہلی نے بنارس کو خواب میں دیکھ لیا ، تبھی تو دہلی کے منھ میں نہر (سعادت خاں) کا پانی بھر آیا ہے ۔ دہلی کو حاسد کہنا بے ادبی ہے تاہم اگر بنارس پر رشک آتا ہو تعجب نہیں۔ آوا گون کا عقیدہ رکھنے والے لب کھولتے ہیں تو اپنے مذہب کے مطابق کاشی کی تعریف یوں کرتے ہیں ۔ کہ جو شخص اس باغ پر ان چھوڑے اس کی آتما نروان حاصل کر لیتی ہے ۔ پھر سے جسم مادیت سے میل نہیں کھاتی ۔ اُس کی امید (نجات) کا سرمایہ چمن بن جاتا ہے کہ وہ مر کر زندہ جاوید ہو جائے گا ۔ روح کو راحت بخشنے والے اس مقام کے کیا کہنے جو روحوں سے نظر بد کا اثر بھی دھوڈالتا ہے ۔
بنارس کی آب وہوا کو دیکھتے ہوئے کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اس کی فضا میں صرف آتما رہے۔ اے شخص جو ناز کی کیفیت سے غافل ہے،ذرا بنارس کے پریزادوں پر نگاہ ڈال ۔اُن آتماؤں کو دیکھو جن پر تن کا خول نہیں ہے ، وہ روپ ہے جسے پانی مٹی سے کوئی تعلق نہیں ۔ اُن کی فطرت ہلکی پھلکی ہے، پھول کی باس کی طرح یہ لوگ جان ہی جان ہیں،جسم حائل نہیں۔ اس شہر کا گھاس پھوس بھی گویا باغ ہے اور اس کا گردوغبار بھی روح کا لطیف غبار ہے ۔ دنیا کے اس پرانے بت کدے میں جو ہمیشہ رنگ بدلتا رہتا ہے بنارس کی بہار رنگ کی تبدیلی سے محفوظ ہے۔ چاہے بہار کا موسم ہو،خزاں کا ہو یا گرمی کا ، ہر موسم میں یہاں کی فضا جنت بنی رہتی ہے ۔ سخت سردی اور سخت گرمی کے موسم میں دنیا بھر سے بہار اپنا سامان لپیٹ کر سردی وگرمی گزارنے بنارس آجاتی ہے ۔ خزاں کا موسم جب یہاں ظہور کرتا ہے تو وہ بنارس کے لیے چندن کا ٹیکہ ہوتا ہے ۔ اس چمن زار کی ہوا کے آگے سر جھکاتے ہوئے بہار موج گل کا جنیوباندھ لیتی ہے۔ اگر آسمان نے ماتھے پر اس کا تلک نہیں لگایا تو پھر یہ شفق کی لہروں کی رنگینی کیا ہے؟ اس شہر کی ہر مٹھی خاک مستی کی وجہ سے عبادت گاہ ہے اور اس کا ہر ایک کانٹا سبزی میں بہشت ہے۔ اس شہر کی آزادی بت پرستوں کی راجدھانی ہے، اور شروع سے آخر تک وہ مستوں کاتیرتھ ہے، سنکھ پھونکنے والوں کا عبادت خانہ ،اور واقعی ہندوستان کا کعبہ ہے ۔
اس کے حسینوں کا بدن جلوہ طور سے بنا ہے ، سر سے پاؤں تک خدا کا ہی نور ہے ، اسے نظر نہ لگے ۔ اُن کی کمر یں نازک اور دل مضبوط ، الھڑ پن ہوتے ہوئے بھی اپنے معاملے میں ہوشیار۔ چونکہ ان کے لبوں پر آپ سے آپ مسکراہٹ رہتی ہے، اس لیے ان کے منھ بہار کے پھولوں سے زیادہ پر بہار ہیں۔ ان کی ادا ایک پورے باغ کا جلوہ ہے اور ان کی چال میں سوقیا متوں کے فتنے جاگتے ہیں ۔ لطافت میں وہ موج گوہر سے زیادہ نرم رفتار اور بانکپن میں وہ عاشق کے لہو سے زیادہ تیز رو۔ قد کی اٹھان سے چال کا وہ البیلا انداز ہے کہ گویا پھولوں کے تھالے میں جال بچھا ہو۔ اپنے رنگین جلووں سے وہ ہوش اڑا لے جائیں ، بستر کے لیے بہار اور گود کے لیے نوروز ہیں ۔ اپنے جلوے کی دمک سے شعلہ اٹھا دینے والی ایسی مورتیاں جو خود مورتی پوجا کریں لیکن برہمن کو جلائیں۔
دونوں دنیاؤں کے سروسامان کے ساتھ وہ باغ کی رنگینی ہیں ،ایسی کہ ان کے چہروں کی روشنی سے گنگا کے کنارے چراغاں ہوتا ہے ۔اشنان کرنے کی وہ ادا کہ ہر ایک موج دریا کوآبرو کی نوید پہنچ جائے۔اس کے قدوقامت کیا ہیں،قیامت ہیں ،لمبی لمبی پلکیں، جن پلکوں سے دل کی صف پر برچھیاں لگیں۔بدن ایسے کہ دل کو بڑھا واملے اور سر سے پاؤں تک دل کی راحت کی خوش خبری۔ اپنی مستی سے موج کو آرام عطا کرنے اور حسن ولطافت سے پانی کو جسم وجسمانیت دینے والی، یعنی ان کا عالم مستی دیکھ کر موج ساکن ہو جاتی ہے اور ان کی خوش بدنی سے پانی مجسم ہو جاتا ہے ۔ پانی کے بدن میں ان کے اتر آنے سے آفت برپا ہو جائے اور سینے میں مچھلیوں کے سے سو دل تڑپیں۔ دریائے گنگا چونکہ اپنی تمنا کے اظہار کو بے تاب ہے اس لیے موج کی صورت میں ایک نہیں کئی آغوشیں کھول دیتا ہے۔حسینوں کے جلوے دیکھ کر موتی ایسے بے قرار ہوتے ہیں کہ سیپ کے اندر ہی پانی پانی ہو جاتے ہیں ۔ یوں کہو کہ بنارس اک دل ربا حسین ہے ،جس کے ہاتھ میں صبح وشام سنگار کے لیے گنگا کا آئینہ رہتا ہے ۔ اس پری چہرہ شہر کے چہرے کا عکس اتانے کے لیے آسمان نے سورج کا آئینہ سونے سے بنایا ہے۔ نام خدا،کیااس کا حسن وجمال ہے کہ آئینے میں اس کا عکس رقص کرتا ہے ۔ یہ شہر حسن بے پروا کا بہارستان ہے ، اور لاجواب ہونے میں ملکوں ملکوں اس کی کہانیاں مشہور ہیں ۔ جب دریائے گنگا میں شہر نے اپنا عکس ڈالا تو بنارس آپ ہی بے نظیر ہوگیا۔ جب پانی کے آئینے میں اس کی صورت دکھا دی تو یہ شکون پورا ہوگیا کہ نظر بد لگنے کا اندیشہ نہیں رہا۔ چین کے ملک میں بنارس جیسا نگار ستان نہیں ہوگا اور چین کیا ساری دنیا میں اس جیسی عمارتوں کا شہر نایاب ہے ۔ اس کے لالہ زار جنگل جنگل بھرے ہیں اور اس کے بسنت چمن در چمن پھولتے ہیں۔
’میں نے ایک رات کسی روشن ضمیر شخص سے جو زمانے کی گردشوں کا راز جانتا تھا ، سوال کیا کہ آپ دیکھ رہے ہیں ، دنیا سے نیکی غائب ہوگئی، وفا، محبت اور دل جوئی کا پتہ نہیں۔ ایمان کا صرف نام ہی نام رہ گی ہے ،جعل وفریب کے سوا کام نہیں چلتا۔ باپ بیٹوں کے خون کے پیاسے ہیں اور بیٹے باپ کی جان کے دشمن ۔ بھائی بھائی سے الجھا ہوا ہے ۔ میل محبت ساری دنیا سے فرار ہوا جاتا ہے۔ قیامت کی ایسی کھلی نشانیاں موجود ہیں پھر قیامت کیوں نہیں آجاتی؟ صور پھونکنے میں اب کا ہے کی دیر ہے؟ قیامت کو راہ میں کون روکے ہوئے ہے ؟ وہ کاشی کی طرف اشارہ کر کے مسکرا دیا اور بولا ۔ یہ آبادی قیامت کو روکے ہوئے ہے۔ صانع عالم کو در حقیقت یہ گوارا نہیں کہ ایسی رنگین آبادی ویران ہوجائے۔ بنارس کا وقار اتنا بلند ہے کہ قوت خیال اس کی چوٹی تک نہیں پہنچتی۔
(نثر میں یہ اردو ترجمہ ظ انصاری کا ہے)
درج بالاسطور میں غالب نے بنارس کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اور اس کے لیے جیسی مخصوص اسلامی اصطلاحات کا استعمال روا رکھا ہے ، یہ محض ان کی ہمت یا مذہب سے بغاوت کا ثبوت نہیں ہے بلکہ کئی اور زاویوں سے بھی توجہ طلب ہیں ۔ ان پر غور کر کے یہ سراغ لگایا جا سکتا ہے کہ ان دگرگوں حالات میں بھی غالب بنارس کے حسن سے کیوں اتنے مسحور ہیں ۔ان اشعار میں ہی ان اسباب کی طرح بھی اشارہ ملتا ہے ،جو غالب کی بنارس میں پوشیدہ رہائش کا سبب بنے ہوں گے۔
شعر82تا 102، غالب نے بنارس کی خوش حالی کے مقابلے میں اپنی بد حالی کا ماتم کیا ہے کہ تم ایک نا کارہ انسان ہو جو اپنوں اور بے گانوں کی نظر سے گر چکے ہو۔ وہ اسے اپنی دیوانگی قرار دیتا ہے کہ وہ خود بھی دوستوں اور احباب کو بھول بیٹھا ہے ۔ یہ امر خاص طور پر لائق توجہ ہے کہ بنارس کی تعریف کے فوراً بعد انہیں احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے دہلی اور اہل دہلی کے ساتھ ناانصافی ہی نہیں ، غداری کی ہے ۔ وہ اسے اپنی دیوانگی قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تمہارے خمیر سے یہ کس قیامت نے سر اٹھایا ہے۔ وہ اپنے اور اپنے دل پر اظہار افسوس کرتے ہیں ۔ شاید اس لیے کہ انہوں نے اپنے وطن عزیز کے مقابلے دوسرے شہر کی تعریف ضرورت سے زیادہ کر دی ہے ۔ پھر کہتا ہے کہ بنارس کی ان رنگینیوں سے تمھیں کیا لینا دینا ۔ تم تو غم کھاؤ اوراپنا خون پیو اور اسی میں اپنی جنت تلاش کرو۔ ظاہر ہے یہ ان کی مایوسی کی جانب ایک بلیغ اشارہ ہے ۔ وہ پھول کی خوشبو کی طرح لباس ظاہری سے باہر آنا چاہتے ہیں جہاں جسم کی قید سے رہائی ملے اور آزادی نصیب ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ کاشی میں رہ پڑنا کم ہمتی اور کافرانہ حرکت ہے ۔ انہیں یہ بھی یاد آتا ہے کہ دہلی میں ان کے اہل خانہ ان کے آنے کے منتظر ہیں جن سے ان کے مستقبل کی خوشیاں وابستہ ہیں ۔ یہ خیال آتے ہی وہ اپنے پر لعنت ملامت کرنے لگتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ افسوس وطن میں لوگ مصیبت میں مبتلا ہیں اور تم آنکھوں کے لہو میں کشتی کھے رہے ہو یعنی فرضی باتوں کی جانب توجہ دے رہے ہو۔ تم سے متعلق لوگ اپنی دل کی خواہشوں کو مار کر بیٹھے ہیں اور تم نے ان کی طرف سے آنکھیں بند کر لی ہیں۔ ان کی تمام پریشانیوں کا سبب تم ہو۔ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں اور حرف شکایت زبان تک نہیں لاتے ۔ تم سے وہ بیزار سہی لیکن تمہارا بھرم وہ رکھنا چاہتے ہیں ۔ان کے دلوں کو زخمی کر کے تم پھولوں کے متمنی ہو یہ جائز نہیں ہے ۔ پھر انہیں یاد آتا ہے کہ وہ عازم کلکتہ ہیں جہاں سب کچھ ابھی مبہم اور پریشان کن ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ان حالات میں تم کو دیوانہ ہی ہو جانا چاہیے تھا ۔ ظاہر ہے وہ اپنی دیوانگی کی یاد دلاکر اپنی کہی گئی باتوں کا کفارہ ادا کرنا چاہتے ہیں ۔
یہاں تک پہنچنے کے بعد غالب اشعار 103تا 108 ایک صوفی کی طرح ’فنا‘کی بات کرنے لگتے ہیں ۔کہ اپنے جسم کو مصائب کے ہاتھوں میں سونپ دو اورمصائب پر اپنی جان نچھاور کردو۔ اپنی ہوس کو فنا کے حوالے کردو یعنی خواہشات سے دست بردار ہو جاؤ اور اگر یہ سب عقل کے ساتھ ممکن نہیں ہوتا تو دیوانگی قبول کر لو۔ جب تک دم میں دم ہے محترک رہو، چلتے رہو اور لمحہ بھر کے لیے بھی تھک کر آرام کے لیے نہ رکو۔ چنگاری کی طرح فنا ہو جانے پر کمر بستہ رہو اور دامن جھاڑ کر آزاد ہوجاؤ۔ ’لا‘ یعنی نفی کو مان لو،تسلیم کر لو اور ’الا‘ یعنی اثبات کا نعرہ لگاؤ۔ اللہ اللہ کرو اور اس کے سوا جو کچھ ہے اسے پھونک دو۔ اور اس کے ساتھ ہی مثنوی اپنے اختتام کو پہنچ جاتی ہے۔
اگر ہم بنارس کی تہذیب اور یہاں کی مذہبی اور اخلاقی صورت حال کے پس منظر میں غالب کی اس مثنوی کا مطالعہ کریں تو عقدہ کشائی کی کچھ سبیل بنتی ہے۔ کچھ اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں آنے کے بعد غالب کا قیام طویل کیوں ہو ا اور اپنے مزاج کے بر خلاف غالب نے یہاں کسی سے ملاقات کی زحمت کیوں نہ کی ۔ ہم جانتے ہیں کہ غالب کو دوستوں سے ملنا اچھا لگتا تھا ، ان کی معیت سے انہیں مسرت کا احساس ہوتا تھا۔ ان کی بے التفاتی،بے مروتی اور ان کا فراق ان کے لیے سوہان روح بن جاتا تھا۔ پھر بنارس میں ایسا کیا ہوا کہ ایسا دوست دار انسان ان تمام لوگوں سے دور رہا جن سے ملاقات کر کے اسے خوشی ہو سکتی تھی۔ اگر ہم مثنوی کے اس حصے پر توجہ دیں جہاں غالب نے بنارس کی روحانیت اور اس کی تقدیس کا بیان کیا ہے تو یہ چیز بہ خوبی واضح ہوتی ہے کہ غالب جو بھی کہہ رہے ہیں وہ رسمی نہیں ہے ۔ وہ واقعی بنارس کی روحانیت سے متاثر ہوئے تھے ۔ وہی بنارس جس کے بارے میں پرانوں میں درج ہے کہ ’یہاں شب باشی یوگ ہے ، شہر میں چہل قدمی کرنا یگیہ ہے ، جو مل جائے اسی پر قانع ہو کر خوش رہنا دیوتاؤں کو دیا گیا تحفہ ہے اور کھیل کھیل میں کچھ کرنا دان دینا ہے اور روزمرہ کی گفتگو ایشور کا نام لینا ہے اور بستر پر دراز ہو جانا خدا کے لیے روانہ ہو جانا ہے لیکن کرائے کا مکان لے کر ایک ماہ تک یہاں رکے رہنا اسی علم کا نتیجہ تھا ،جو یقینا یہاں کے کسی عالم کے ذریعے اسے حاصل ہوا تھا ۔ بنارس کی اس عظمت کا احساس انہیں بنارس آنے کے پہلے نہیں تھا ۔ یہ یقینااس پہلے ہفتے کا کرشمہ تھا جو غالب نے سرائے میں رہ کر تفریح میں گزارا تھا ۔
دراصل بنارس کے تناظر میں ہمیں غالب کو ایک عظیم شاعر کی حیثیت سے نہیں ایک ایسے انسان کی حیثیت سے دیکھناچاہیے جو تصوف اور روحانیت کا دلدادہ ہو۔ جو ہم جانتے ہیں کہ غالب تھے۔تو ہمیں یہ بہ آسانی دکھائی دینے لگے گا کہ معاشی تنگی میں مبتلا، پریشان حال غالب جب بنارس آتا ہے تو اسے یہاں کی روحانی فضا میں اپنا درد واقعی کچھ کم ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ ’چنا،چبینا، گنگ جل، کے شیدائی بنارس اور ’رنگ لائے لگی ہماری فاقہ مستی ایک دن’والے غالب کے اندر قناعت پسندی کی ایک قدر مشترک تو تھی ہی۔ جب وہ تسبیح توڑ کر زنار اور قشقہ لگا کر گنگا کے کنارے بیٹھنے کی بات کرتے ہیں تو یہ بات رسمی نہیں، حقیقی ہے۔ وہ واقعی ایسا ہی چاہتے تھے۔ جب وہ دریائے گنگا میں غسل کرتے حسین معشوقوں کو بدن سے عاری روح کی شکل میں دیکھتے ہیں تو غالب کی روحانیت پسندی میں شبہ نہیں رہ جاتا۔ دراصل ماضی کا بنارس آج کی طرح پتھروں اور اینٹوں کا جنگل نہیں تھا بلکہ سچ مچ یہ گھنے جنگلات اور سروربخش دلکش باغات سے پر روحانیت کا ایک عظیم مرکز تھا۔ حقیقتاً بہشت خرم۔ غالب بنارس کی تعریف جس والہانہ اندازمیں کرتا ہے، اس سے یہ بات واضح ہے کہ وہ واقعی یہاں روحانیت کے دریائے حسن میں غرق ہو گئے تھے ۔ اُس ’دویہ آنند‘یا روحانی مسرت کے سامنے اسے ساری دنیا ہیچ معلوم ہو رہی تھی ۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان جیسے لوگوں سے جن سے وہ ہمیشہ ہی ملتے رہے ہیں ، مل کر اِس ’آنندمے‘ اور پر مسرت وقت کو ضائع کردیں۔ غالب واقعی یہاں کسی سے ملنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ وہ یہاں کی روحانیت سے فیضیاب ہونا چاہتا تھا ۔ اور یہ فیض اسے حاصل بھی ہوا۔

بنارسی کی دوستی

قاضی عبد الودودکے بعد جن محققین نے اردو تحقیق کی روایت کو مستحکم کیا اور اپنی نگارشات سے نئے حقائق کی نقاب کشائی کی ان میں پروفیسر حنیف نقوی کا نام سر فہرست ہے۔ حنیف نقوی کی پیدائش اکتوبر 1936 سہسوان ضلع بدایوں (اتر پردیش، بھارت) میں ہوئی۔ 1970 سے 2000 تک وہ بنارس ہندو یونیورسٹی (بنارس)کے شعبۂ اردو میں درس و تدریس کےفرائض انجام دیتے رہے۔   انھوں نے غالب اور دیگر اہم موضوعات پر تحقیقی  مقالات لکھ کرنئے ھقائق کو پیش کیا  جن سے ان کی تحقیقی بصیرت اور وسعت مطالعہ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ عام طور پر یہ باور کیا جاتا ہے کہ قاضی عبدالودود کی تحریر پرکوئی اضافہ تقریباً ناممکن ہے لیکن حنیف نقوی کے تحقیقی مقالات نے اس رائے کو کلیہ بننے سے روک دیا۔ انھوں نے قاضی عبدالودود کی ‘مآثر غالب’ پر نہایت عالمانہ حواشی لکھے جس سے ان کتاب کی افادیت دہ چند ہو گئی۔ یہاں حنیف نقوی کا ایک ایسا ہی تحقیقی  مقالہ پیش کیا جا رہا ہے۔ در اصل قاضی عبد الودود نے 1969 میں غالب تقریبات کے صدارتی خطاب میں کہا تھا کہ غالب کے بعض بیانات مجمل ہیں مثلاً ایک خط میں انھوں نے ‘بنارسی’ کا ذکر کیا ہے لیکن یہ واضح نہیں ہوتا کہ یہ بنارسی کون ہے۔ خود قاضی عبدالودود بھی اس سوال کا جواب نہیں تلاش سکےتھے۔ حنیف نقوی نے اس مقالے میں بدلیل یہ ثابت کیا ہے کہ ‘بنارسی’ سے مراد مرزا یوسف علی خاں عزیز ہیں۔ یہ مقالہ پہلی مرتبہ غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے منعقدہ سمینار ‘غالب اور بنارس’میں پیش کیا گیا تھا بعد میں حنیف نقوی کی کتاب ‘غالب اور جہان غالب’ شائع کردہ غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی 2012 میں شامل ہوا۔ 

پروفیسر حنیف نقوی

بنارسی کی دوستی

مرحوم قاضی عبدالودود نے 1969 کے غالب صدی سمینار کے غالب صدی سمینار کے خطبۂ افتتاحیہ  میں غالب کی بعض تحریروں کے ابہام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا :

”بہت سی باتیں محض اشاروں میں ہیں ۔مثلاً علائی کے نام سے ایک خط میں ہے کہ میں نے بنارسی کی حمایت میں گالیاں کھائیں۔ علائی کسی شخص کو سائیسوں سے پٹوانا چاہتے تھے۔غالب مانع ہیں ۔خبر نہیں وہ شخص کون تھا اور علائی کی ناراضی کا سبب کیا تھا؟“

          اس کے تقریباً تیس سال کے بعد شمس الرحمن فاروقی نے ماہنامہ”شب خون“الہ آباد کے اکتوبر1998 کے شمارے میں بینی مادھو رسوا کے فرضی نام سے اپنی ایک نہایت دلچسپ تحریر  ”غالب افسانہ “شائع کی۔اس سوانحی افسانے میں رسوااور غالب کی ملاقات کے دوران ملا محمد عمر سابق بنارسی کے بارے میں غالب کا ایک مکالمہ ان الفاظ میں نقل ہوا ہے :

”ملا سابق علیہ الرحمہ کے نام سے واقف ہوں۔ان کی مثنوی ”تاثیرِ محبت“میں نے اپنے بنارس کے قیام میں دیکھی تھی۔بڑے جیّد آدمی تھے “۔(2)

          رسالے کے مئی جون 1999 کے مشترک شمارے میں ”کہتی ہے خلقِ خدا “کے مستقل عنوان کے تحت ڈاکٹر گیان چند جین کا ایک طویل خط شائع ہوا ہے ۔اس میں انہوں نے منقولۂ بالا دونوں تحریروں کے حوالے سے اپنے مشاہدات وتاثرات سپردِ قلم کرتے ہوئے فرمایا ہے :

”آج کل میں قاضی عبد الودود کی تحریروں میں مستغرق ہوں،بالخصوص ان کی غالبیات میں ۔(اس سلسلے میں ) آپ سے جو مدد ملی ہے ،اس کا ذکر کرتا ہوں۔قاضی صاحب نے دہلی میں غالب انٹر نیشنل سمینار 1969میں اپنا طویل افتتاحی خطبہ پڑھا۔اس میں کہا کہ غالب نے علائی کے نام کے ایک خط میں کہا ہے کہ میں نے بنارسی کی حمایت میں گالیاں کھائیں ۔انہوں نے خط کی تفصیل نہیں دی ۔ بہر حال میں نے تلاش کیا ۔خلیق انجم کے مرتبہ ”غالب کے خطوط“جلد اول ،خط ۳۵ میں لکھا ہے :”ایک بار میں نے دکنی کی دشمنی میں گالیاں کھائیں ،ایک بار بنارسی کی دوستی میں گالیاں کھاؤں گا ۔“یہاں دکنی سے مراد فارسی کی لغت ”برہانِ قاطع“ کا مولف محمد حسین برہان ہے۔بنارسی کون ہے ؟ قاضی عبدالودود کو معلوم نہ تھا ۔جاننا چاہتے تھے۔میں بھی واقف نہ تھا ۔نومبر ”شب خون“کے ”سوانحی گوشے“میں آپ نے خان آرزو کے شاگرد ملاسابق بنارسی (1730۔1810)  کا ذکر کیا ہے ۔اب بات صاف ہوگئی۔جنوری کے ”شب خون“  میں قاضی افضال حسین نے اپنے مراسلے میں لکھا ہے :

          ”….ملا سابق بنارسی شمس الرحمن فاروقی کے نانہالی جِدّ اعلیٰ تھے ،اور اگرچہ مشہور آدمی تھے مگر غالباً مرزا غالب سے ان کا کوئی معاملہ نہ تھا ۔“

          معاملہ تو تھا ۔غالب نے علائی کے نام کے خط میں بنارسی کا ذکر کیا ہے ۔آپ نے رسوا کے نام کے ”غالب افسانہ“میں غالب کی زبانی کہلایا ہے :

          ”ملا سابق علیہ الرحمہ کے نام سے واقف ہوں ۔ان کی مثنوی ”تاثیرِ محبت“میں نے اپنے بنار س کے قیام میں دیکھی تھی۔ بڑے جیّد آدمی تھے ۔“

          لکھیے کہ یہ سب آپ نے کہاں سے لیا ہے ؟یہ حوالہ بنارسی کی شناخت اور غالب سے ان کی دوستی کے ثبوت کے لیے مفید ہوگا ۔قاضی عبدالودود  فارسی ادبیات کے بڑے عالم تھے ۔آپ نے تو انہیں بھی زک دے دی ۔“(3)

          جین صاحب کے ان ارشادات پر اظہار خیال سے پہلے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ علائی کے نام غالب کے اس خط پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے جس کے حوالے سے ”بنارسی “کی شناخت کا یہ مسئلہ زیرِ بحث آیا ہے ۔مرزا غالب نے اس خط میں لکھا ہے :

”ضمناً ذکر ایک مدبر کا لکھا جاتا ہے ۔جو تم نے اس مدبر کے صفات لکھے،سب سچ ہیں ۔احمق ،خبیث النفس،حاسد،طبیعت بری،سمجھ بری،قسمت بری۔ایک بار میں نے دکنی کی دشمنی میں گالیاں کھائیں ،ایک بار بنارسی کی دوستی میں گالیاں کھاؤں گا۔میں نے جو تمہیں اس کے باب میں لکھا تھا ، وجہ اس کی یہ تھی کہ میں نے سنا تھا کہ تم نے اپنے سائیسوں سے کہہ دیا ہے یا کہا چاہتے ہو کہ اس کو بازار میں بے حرمت کریں۔یہ خلافِ ِشیوۂ مومنین ہے۔خلاصہ یہ کہ یہ قصد نہ کرنا ۔یہ مویّد اُس قول کا ہے جو میں نے تم سے پہلے کہا تھا کہ تم یوں تصور کرو کہ اس نام کا آدمی اس  محلّے میں بلکہ اس شہر میں کوئی نہیں ۔“(4)

          اس خط میں تین اہم باتیں معلوم ہوتی ہیں ،پہلی یہ کہ اس میں جس ”بنارسی “کی دوستی میں گالیاں کھانے کا ذکر آیا ہے، وہ اس وقت بہ قیدِحیات تھا اور دہلی میں موجود تھا۔دوسری یہ کہ غالب اور علائی کی طرح عقائد کے اعتبار سے وہ بھی اثنا عشری تھا۔ اس کی سرکوبی کو”خلاف ِ شیوۂ مومنین“ قرار دینا اسی جانب اشارہ کرتا ہے ۔تیسری یہ کہ وہ دہلی میں غالب اور علائی کا ہم محلہ یعنی بلّی ماران کا باشندہ تھا ۔اس پس منظر میں غور کیا جائے تو جین صاحب کے فرمودات سے اتفاق کی مطلقاً کوئی گنجائش نظر نہیں آتی ۔ کیوں کہ ملا محمد عمر سابق بنارسی نہ تو غالب کے ہم محلّہ تھے اور نہ ہم عصر۔وہ1810  میں یعنی اس خط کی تحریر سے تقریباً ساٹھ سال پہلے وفات پا چکے تھے ۔ علاوہ بریں وہ سنّی العقیدہ تھے اور اہلِ علم ان کی کسی ایسی کار گزاری سے واقف نہیں جس کی تائید یا حمایت کا خمیازہ ان کے کسی دوست کو گالیوں کی صورت میں بھگتنا پڑا ہو۔ اس وصاحت کے بعد جین صاحب کے یہ مزعومات از خود بے معنی ہو جاتے ہیں کہ فاروقی صاحب نے ملا محمد عمر سابق بنارسی کی شخصیت سے پردہ اٹھا کر بنارسی کی شناخت اور غالب سے ان کی دوستی کا مسئلہ بڑی حد تک حل کر دیا ہے اور اپنی اس دریافت کے ذریعے انہوں نے قاضی عبدالودود کو بھی جو فارسی ادبیات کے بڑے عالم تھے،زک دے دی ہے ۔

          ہمارا خیال یہ ہے کہ اس معاملے میں تحقیق کا دائرہ اگر صرف علائی کے نام غالب کے خط تک محدود رکھا جائے تو زیرِ بحث مسئلے کا حل بہ آسانی دریافت کیا جا سکتا ہے ۔اس خط کے پس منظر میں ہمارا ذہن بار بار جس شخص کی طرف منتقل ہوتا ہے وہ صرف اور صرف مرزا یوسف علی خاں عزیز بنارسی ہیں ۔اس کا پہلا سبب تو یہ ہے کہ غالب کے حلقۂ احباب وتلامذہ میں ان کے علاوہ ایسا کوئی اور شخص نظر نہیں آتا جو بنارس سے وطنی نسبت رکھتا ہو اورجس کی خاطر انہیں بے حد عزیز ہو۔دوسری وجہ یہ ہے کہ دہلی میں ان کا قیام محلّہ بلّی ماران میں غالب کے پڑوس ہی میں تھا ۔تیسری وجہ یہ ہے کہ غالب کی طرح وہ بھی اثنا عشری عقیدے کے پیرو  تھے اور ایاّمِ عزا میں باقاعدہ مرثیہ خوانی کیا کرتے تھے ۔ چوتھا اور سب سے اہم سبب یہ ہے کہ غالب کو زبان ولغت کے بعض مسائل میں ”برہانِ قاطع“ کے مولّف محمد حسین دکنی سے اختلاف کی بنا پر ان کے حامیوں کی مذمّت وملامت کا ہدف بننا پڑا تھا۔ عزیز کو بھی اپنے زمانے کے معروف اساتذۂ سخن اور زبان دانوں پر خواہ مخواہ اعتراض اور ان کی اصلاح کا عارضہ لاحق تھا جس کے نتیجہ میں کبھی کبھی نوبت بحث و تکرار اور منافشے اور معارضے تک پہنچ جاتی تھی۔

          مرزا غالب یوسف علی خاں عزیز کو کس قدر عزیز رکھتے تھے ،اس کا اندازہ ان کے مندرجہ ذیل بیانات سے کیا جا سکتا ہے۔ منشی نبی بخش حقیر کو23  جنوری1852  خط میں لکھتے ہیں :

          ”مرزا نجف علی خاں مرحوم….کے فرزندِ ارجمند مرزا یوسف علی خاں کو میں اپنے فرزند کی جگہ مانتا ہوں ،اور ان کی سعادت مندیاں اور خوبیاں کیا بیان کروں کہ میں ان کا عاشق ہوں۔“

منشی شیو نرائن آرام کے نام 6 نومبر 1859 کے خط میں رقم طراز ہیں:

          ”مرزا یوسف علی خاں عزیز….عالی خاندان اور ناز پروردہ آدمی ہیں۔ان کو جو راحت پہنچاؤ گے اور جو ان کی خدمت بجا لاؤ گے ،اس کا خدا سے اجر پاؤ گے۔“

 مرزا حاتم علی مہر کو 1860  کے ایک خط میں لکھتے ہیں :

”مرزا  یوسف علی خاں آٹھ دس مہینے سے مع عیال واطفال اسی شہر میں مقیم ہیں۔ایک ہندو امیر کے گھر پر مکتب کا ساطور کر لیا ہے۔ میرے مسکن کے پاس ایک مکان کرائے کو لے لیا ہے،اس میں رہتے ہیں ….وہ اب ہر وقت یہیں تشریف رکھتے ہیں۔رات کو تو پہر چھے گھڑی کی نشست روز رہتی ہے ۔“

حبیب اللہ ذکا کے نام 24د سمبر1866 کے خط میں لکھتے ہیں :

”یوسف علی خاں شریف وعالی خاندان ہیں۔بادشاہِ دہلی کی سرکار سے تیس روپے مہینا پاتے تھے ۔جہاں سلطنت گئی ،وہاں تنخواہ بھی گئی ۔ شاعر ہیں ،ریختہ کہتے ہیں ،ہوس پیشہ ہیں ، مضطر ہیں۔ہر مدّعا کے حصول کو آسان سمجھتے ہیں علم اسی قدر ہے کہ لکھ پڑھ لیتے ہیں ۔ ان کا باپ میرا دوست تھا ۔میں ان کو بجاے فرزند سمجھتا ہوں ۔ بہ قدر اپنی دستگاہ کے کچھ مہینا مقرر کر دیا ہے مگر بہ سببِ کثرتِ عیال وہ ان کو مکتفی نہیں ۔“

          ان کے علاوہ مختلف دوستوں اور شاگردوں کے نام کے اور بھی کئی خطوط میں عزیز کا ذکر موجود ہے ،جس سے ان کی بے روز گاری اور پریشاں حالی پر غالب کی فکرمندی کا اظہار ہوتا ہے ۔خود عزیز کے نام غالب کے خطوط کی مجموعی تعداد کل تین ہے۔ ان میں دو خطوں میں صرف زبان اور لغت کے مسائل زیرِ بحث آئے ہیں۔دوسرے خط میں ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ”پورب کے ملک میں جہاں تک چلے جاؤ گے، تذکیر وتانیث کا جھگڑا بہت پاؤگے۔“اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عزیز اس وقت بنارس آئے ہوئے تھے اور حسب ِعادت کسی لفظ کی تذکیروتانیث پر اپنے کسی شناسا یا بزرگ سے جھگڑا کر بیٹھے تھے ۔چناں چہ اس خط کے آخر میں مرزا صاحب نے انہیں یہ نصیحت بھی فرمائی ہے کہ :

”تم اپنی تکمیل کی فکر میں رہا کرو۔زنہار کسی پر اعتراض نہ کیا کرو۔“

          لیکن انہوں نے اس نصیحت یا مشورے پر کبھی سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور تا عمر اپنی اسی مخصوص روش پر قائم رہے ۔عبدالغفورنسّاخ ا ن کی اس سلسلے کی ایک کار گزاری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

          ”انیس و دبیر کے مرثیوں میں بہت سی غلطیاں نکالی ہیں اور ان کے بہت سے مرثیوں کا جواب لکھا ہے ۔“(5)

          لالہ سری رام نے یہی بات ان الفاظ میں دوہرائی ہے :

”مرثیہ گوئی کا بڑا شوق تھا ۔انیس ودبیر کے مرثیوں میں اکثر جگہ جاوبے جا غلطیاں نکالی ہیں ۔“(6)

اسی قسم کا ایک اور واقعہ انہوں نے کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ،لکھتے ہیں :

”قصۂ شہزادہ ممتاز کو فارسی سے زبانِ سلیس ِ اردو سید ظہیر الدین حسین صاحب ظہیردہلوی نے بہ فرمائش حکیم صاحب موصوف (حکیم احسن اللہ خاں)ترجمہ کیا تھا ،جس کے صلے میں بادشاہِ دہلی نے خطاب وخلعت عنایت فرمایا تھا ۔اتفاق سے وہ قصّہ حکیم صاحب سے بندامل عطاّر چھانپے کے لیے لے آئے اورمرزا صاحب کے حوالے کیا کہ روز مرّہ درست کردیں۔پنیتیس روپے اجرت کے ٹھہرے ۔حضرت نے قصۂ مذکورکو گھر لے جا کر جا و بے جا خوب اصلاح کی۔ جب اپنے زعم میں عیوب ونقائض سے پاک کر چکے، لالہ صاحب کو دے آئے۔ان سے لے کر جنابِ ظہیر نے بھی ملاحظہ کیا اور ایک کاغذ پر جو غلطیاں سمجھ کر مرزا صاحب نے اصلاح دی تھی ،اس کو اور اپنے ترجمے کو بہ طور محضر لکھ کر فصحا وبلغاے دہلی کو دکھایا ۔ازراہِ اتفاق سب نے میر صاحب کے محاورات کو درست و صحیح قرار دیا۔اب میر صاحب کا ارادہ ہوا کہ بہ ذریعہ اخبار وخطوط اہلِ لکھنؤ سے اس کی تصدیق کرائیں ۔ مرزا عزیز نے جو سنا ،فوراً ان کے پاس آئے اور بہ منّت کہا کہ میں غریب آدمی ہوں۔ جو کچھ ہوا ،ازراہِ ضرورت ہوا۔ آپ معاف فرمائیں۔ میر صاحب نے مروّت کی رو سے در گزر کی اور وہ محضر چاک کر ڈالا۔ قصّہ مختصر ان کے مزاج میں کسی قدر مراق تھا ۔“(7)

          لالہ سری رام کے اس بیان کے ساتھ یہ دیکھ لینا بھی مناسب ہوگا کہ ظہیر کے اس ترجمے کی اصلاح کے سلسلے میں خود مرزا  یوسف علی خاں عزیز نے کن خیالات کا اظہار کیا ہے۔”قصۂ ممتاز“کے دیباچے میں ”نواسنجیِ بلبلِ خوش صفیرِ کلک بہ اضطراب معِ باعثِ تصحیح ِ اغلاطِ فقراتِ کتاب“کے زیرِ عنوان اپنے حسنِ بیان ولطفِ زبان کی ستائش کے بعد رقم طراز ہیں:

”قدر افزاے اہلِ ہنر ،سخن شناسِ نکتہ پرور….احترام الدولہ، عمدةالملک ،حاذق الزماں،حکیم محمد احسن اللہ خاں بہادر ثابت جنگ کہ انہوں نے بہ متقضاے عنایت وبہ راہِ عاطفت،بادشاہِ جم جاہ،ولیِ نعمت،حضرت ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہِ غازی سے مجھ ننگِ خاندان ،عار دودمان کو بہ نذر مرثیہ وقصیدہ خلعتِ فاخرۂ چار پار چہ وسہ رقم جواہر جیغہ وسرپیچ وگوشوارہ بہ خطابِ باصوابِ سلطان الذا کرین و سراج الشعر انامِ نامی حضرت سے دلوایا۔نا گاہ بہ ذریعہ رقصۂ فیض مرقعہ وقتِ تشریف بری سمتِ قصبۂ کرولی مجھ ہیچ مداں ضعیف البنیان کو خدمتِ عالی درجت میں بلا کر واسطے تصحیح وتبدیل الفاظِ غیر مانوس اور فقراتِ نامربوطِ قصۂ عجیب وفسانۂ غریب ممتاز شاہِ انجم سپاہ کے کہ اس کو زبانِ فارسی سے زبانِ اردو میں بہ موجبِ فرمانِ واجب الاذعان جناب حکمت مآب ممدوح کے اور بہ نظر حصولِ صلۂ موعود کے سید ظہیر الدین حسین متخلص بہ ظہیر نے بہ فصاحتِ تمام وملاحتِ مالا کلام ترجمہ کیا ہے ،اکثر وبیشتر سخن فہموں کو بہ سبب بے محاورہ ہونے عبارت کے پسند نہ آیا اور موعودِ مفّوضہ رائگاں گیا،اس نظر سے فرمایا ۔چناں چہ حسب الارشاد ان کے اور موافقِ استعداداپنی بہ ہزاردقت وخرابی وبسیار محنت واضطرابی جو کچھ میرے فہمِ ناقص میں آیا ،دیباچہ براعت الاستہلال میں،سببِ تصحیح حزن وملال میں لکھ کر تصرف کیا اور جا بہ جا بنایا۔ ہر چند وہ ترجمہ بادی النظر میں بہ ہمہ صفت موصوف اور عیوب ونقصِ ظاہری سے پاک وصاف تھا ولیکن ہر گاہ بہ نظر امتحان دیکھا تو محاورۂ اردو کے بر خلاف تھا ۔واضح ہوا کہ اکثر مقامات میں حاجتِ اصلاح تھی اور اس میں تصحیح کرنے والے کی فلاح تھی ۔لاجرم اس بے نام ونشاں نے بنابرِ امتثالِ امرِجلیل القدر مجبور ،غلطیوں کو دور کیا اور حتی المقدور صحتِ کاملہ ہے معمور کیا۔“(8)

          مثنوی ”حقیقتِ حال“(9) میں بھی عزیزنے اپنے اس بیان کو دوہرایا ہے کہ ظہیردہلوی کے ترجمے کی اصلاح کا یہ کام بہ ذاتِ خود حکیم احسن اللہ خاں نے ان کے سپرد کیا تھا ۔لکھتے ہیں :

حسن اللہ خانِ با اعزاز

دے گئے مجھ کو قصۂ ممتاز

تامیں اغلاط اس کی دور کروں

نورِ معنی سے رشکِ طور کروں

          ان بیانات سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ تصحیح ِ اغلاط واصلاحِ عبارات کے اس کام میں لالہ سری رام کی روایت کے بر خلاف لالہ بنداصل عطاّر کی فرمائش کا کوئی دخل نہ تھا ۔عزیز نے یہ خدمت اپنے مربی وسرپرست حکیم احسن اللہ خاں کے حسبِ خواہش انجام دی تھی ۔البتہ ”قصۂ ممتاز“کے میورپریس ،دہلی سے1883  میں شائع شدہ ایک ایڈیشن کے خاتمتہ الطبع میں یہ صراحت موجود ہے کہ یہ ”قصۂ لاجواب ….حسبِ اجازتِ محب ِ بے بدل ،جناب حکیم بندا مل صاحب، شاگردِ رشیدِ احترام الدولہ ….حکیم محمد احسن اللہ خاں بہادر مرحوم….رونقِ انطباع پاکر فائدہ بخشِ خاص وعام ہوا ہے “  اس بنا پر ہمارا خیال یہ ہے کہ حکیم صاحب نے ازراہِ شاگرد نوازی لالہ بند امل کو اس قصّے کی اشاعت کی اجازت عطا فرمادی ہوگی اور اس پر نظر ثانی کی خدمت عزیز کے سپرد کر کے لالہ صاحب کو پابند کر دیا ہوگا کہ وہ انہیں اس کا مناسب حق المحنت ادا کردیں۔

          ”قصۂ ممتاز“ کی اصلاح اور طباعت کے اس کام میں لالہ بند امل عطاّر کی اعانت میں حکیم صاحب کی توجہ خاص کا ذکر مجملا ً مثنوی ”حقیقتِ حال“میں بھی موجود ہے۔کرلی میں مختصر قیام کے بعد جب عزیز وہاں سے دہلی واپس آرہے تھے تو حکیم صاحب نے انہیں رات کے کھانے پر مدعو کیا تھا ۔اس دعوت کا حال بیان کرنے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں :

ہاتھ دھو،پان کھا،پیا حقّہ

بندامل کے لیے لیا شقّہ

ہے  یہ دلّی میں نامور عطّار

اس سے اس نسخے کا  مجھے تھا  کار

          ”قصۂ ممتاز“کے تین مختلف ایڈیشن اس وقت ہمارے پیش ِ نظر ہیں ۔ان میں سے ایک تو وہی 1883 کا ایڈیشن ہے جس کا ابھی ذکر کیا جا چکا ہے۔ایک اور ایڈیشن اسی مطبع میورپریس ،دہلی سے ”قصۂ ممتاز باتصویر“کے نام سے شائع ہوا تھا ۔اس میں کسی جگہ اس کا سالِ طباعت درج نہیں اور کسی غلط فہمی کے باعث سرورق پر کتاب کو ”من تصنیفِ جناب حکیم احسن اللہ خاں صاحب، وزیر اعظم بہادر شاہ مرحوم شاہِ دہلی“ لکھ دیا گیا ہے ۔اس بیان سے ضمناً یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اشاعت بہادر شاہ ظفر کی وفات (7نومبر 1862) کے بعد لیکن حکیم احسن اللہ خان کے انتقال (ستمبر 1873) سے قبل منظرِ عام پر آچکی تھی۔تیسرا ایڈیشن 1891 کا مطبوعہ ہے۔اسے مطبعِ جیون پر کا ش ،دہلی نے شائع کیا تھا ۔ثانی الذکر ایڈیشن کی طرح یہ بھی ”قصۂ ممتاز با تصویر “ہی کے نام سے شائع ہوا ہے ۔اس کا سر ورق”شبیہِ مبارک حضرت ابو ظفر محمد سراج الدین ،بہادر شاہ، بادشاہ دہلی،نوراللہ مضجعہ“سے مزیّن ہے۔ان تینوں ایڈیشنوں میں عزیز کے دیباچے کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ لالہ سری رام کا یہ بیان بھی پوری طرح درست نہیں کہ ”جب عزیز اس قصے کو عیوب ونقائص سے پاک کر کے لالہ (بندامل) صاحب کو دے آئے تو ان سے لے کر جناب ظہیر نے بھی دیکھا۔“قیاس یہ کہتا ہے کہ ظہیر کو عزیز کی اس کار گزاری کا علم اصلاح شدہ مسودہ لالہ بندامل کے حوالے کرنے کے فوراً بعد نہیں ،کتاب کی اشاعت کے بعد ہوا ہوگا ورنہ عزیز کے معافی مانگ لینے کی صورت میں اس کا علی حالہ شائع ہو جانا ممکن نہ ہوتا۔

          قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ لالہ سری رام نے اپنے بیان میں ظہیر دہلوی کے تیار کیے ہوئے جس محضر کا ذکر کیا ہے، غالباً وہی اس فساد کا اصل محرک تھا جو ایک طرف علائی کی برافروختگی کا سبب بنا اور دوسری طرف معاندینِ غالب کو ان کے خلافِ طنز وتعریض کا ایک حربہ فراہم کر گیا ۔اس محضر پر جن ”فصحاوبلغاے دہلی“سے استصوابِ راے کیا گیا تھا،یقین ہے کہ ان میں غالب بھی شامل ہوں گے اور علائی بھی۔قیاس یہ کہتا ہے کہ غالب نے ذوق کے شاگرد ظہیر کے مقابلے میں کھل کر اپنے شاگرد کا ساتھ دیا ہوگا یا کم ازکم تاویلات سے کام لے کر بالواسطہ ان کی تائید کی ہوگی ۔اس کے بر خلاف علائی نے جو عزیز کی کج طبعی اور کج بحثی سے بہ خوبی واقف تھے ،صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے ظہیر کی حمایت کی ہوگی ۔عزیز کو اپنے خواجہ تاش کا یہ طرزِ عمل یقیناً شاق گزرا ہوگا ۔ممکن ہے کہ انہوں نے حسبِ عادت ادھر ادھر ان کے خلاف دو چار جملے بھی کہہ دیے ہوں،جن کاردِّعمل اس برہمی کی صورت میں ظاہر ہوا ہو جس کی طرف غالب نے اپنے خط میں اشارہ کیا ہے۔

          علائی کے نام غالب کے اس خط کے تمام مندرجات کا مصداق صرف یوسف علی خاں عزیز کی ذات ہے ،اس خیال کی تائید کا ایک اور قرینہ بھی موجود ہے ۔غالب نے”بنارسی کی دوستی“کے اس قضیے کی ابتدا ان جملوں سے کی ہے :

          ”ضمناً ذکر ایک مُدبِر“کا کیا جاتا ہے ۔جو تم نے اس مُدبِرکے صفات لکھے ہیں،سب سچ ہیں۔“

          ان دو  جملوں میں لفظ ”مُدبِر“ (بہ سکونِ دال و کسرِ با) دوبار آیا ہے ۔پڑھنے والے اسے عام طور پر ”مُدبّر“(بہ فتحِ دال وتشدیِد باے مکسور)پڑھتے ہیں اور یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ اس کا اشارہ کس شخص کی طرف ہے ۔چنانچہ قاضی عبدالودود نے بھی 1969 کے خطبۂ افتتاحیہ کے علاوہ ایک اور تحریر میں جہاں اس خط کے حوالے سے اپنے اس قول کا اعادہ کیا ہے کہ ”معلوم نہیں کہ بنارسی کون ہے اور اس کے ساتھ علائی کے کیا معاملات تھے“،وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ ”مدبر کے متعلق (اس خط میں ) جو کچھ ہے ،بنارسی سے یا کسی اور شخص سے اس کا تعلق ہے،میں اس کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔“(10) واقعہ یہ ہے کہ یہ لفظ حتمی طور پر مُدَبّر (بہ فتحِ دال وتشدیِد باے مکسور) نہیں ، ”مُدبِر“ (بہ سکونِ دال کسرِبا) ہے اور یہ اس شخص کی صفت کے طور پر استعمال ہوا ہے جس کا مفصل ذکر آئندہ سطور میں آیا ہے ۔لغت کے مطابق مُدبِراُس شخص کو کہتے ہیں جسے اقبال مندی پیٹھ دکھا چکی ہو،یعنی جو شخص جاہ وثروت اور عیش وآسائش کے دن دیکھنے کے بعد افلاس وتنگ دستی کی زندگی گزار رہا ہو ۔گذشتہ سطور میں غالب کے خطوط کے جو اقتباسات پیش کیے گئے ہیں ،ان سے جہاں عزیز کی مفلوک الحال کلا اندازہ ہوتا ہے ،وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ”عالی خاندان اور ناز پروردہ آدمی “تھے مثنوی”حقیقت حال“میں خود عزیز نے”شکایت ازسپہرِ بے مہر“کے زیرِ عنوان اپنی اس برگشتہ طالعی پر اس طرح خون کے آنسو بہائے ہیں :

کیوں فلک! جس کا جد ہو صوبے دار

وہ پھرے تیرے دور میں ناچار

کیوں فلک !جس کے جد کو ہو جاگیر

ہو وہ زندانِ حزن وغم میں اسیر

کیوں فلک ! جس کا جد عطا کرے راج

ہو وہ نانِ شبینہ کو محتاج

کیوں فلک! جو کہ خاندانی ہو

اس پہ خلقت کی ظلم رانی ہو

کیوں فلک! جو رہا ہو خود حاکم

ظلم اس پر روا رکھیں ظالم

کیوں فلک!عقلِ کل پڑھائے جسے

خلق ”خود سر معلّم“اس کو کہے

          ”غالب نے ایک لفظ کے پردے میں اجمالاً کیفیت کی طرف اشارہ کیا ہے ،ان اشعار میں اس کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے ۔یہ ایک اور ثبوت ہے اس با ت کا کہ اس خط میں عزیز کے علاوہ کوئی اور شخص غالب کا مشارٌالیہ نہیں۔

          غالب کے زیرِ بحث خط پر کوئی تاریخ درج نہیں۔ڈاکٹر خلیق انجم نے اسے مجملاً 28 جولائی 1865 کے بعد کی تحریر قرار دیا ہے ۔ان کی دلیل یہ ہے کہ اس خط میں غالب نے ”کمیٹی “کا ذکر کیا ہے اور اس سے غالباً دہلی سوسائٹی مراد ہے جس کا پہلا جلسہ 28جولائی 1865  کو ہوا تھا ۔ (11) اس سلسلے میں غالب کا اپنا بیان حسبِ ذیل ہے:

”مدّعا اصلی ان سطور کی تحریر سے یہ ہے کہ اگر کل کمیٹی میں گئے ہو تو میرے سوال کے پڑھے جانے کا حال لکھو۔“

          کمیٹی میں علائی کی شرکت اور غالب کا سوال پڑھے جانے کے پس منظر میں سوسائٹی کی مختلف کارروائیوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ استفسار  21 جولائی 1868 کے جلسے سے متعلق ہے اور یہ خط اس کے دوسرے دن یعنی 22 جولائی 1868  کو لکھا گیا تھا۔اس جلسے کی روداد میں کہا گیا ہے کہ:

”سکریٹری نے روبکار محکمۂ ڈائرکٹر ی مورخہ 17  اپریل دربابِ راے کتاب”مَفرَ غَةُ العَمَلَہ“اور کیفیت ِ جناب مرزا نوشہ صاحب ونواب علاءالدین احمد خاں صاحب پڑ ھ کر سنائی۔جناب مرزا صاحب کی راے کو سب نے پسند کیا اور جملہ ممبروں کی راے سے طے ہوا کہ ممبرانِ سوسائٹی میں سے جو صاحب اور اپنی راے اس باب میں لکھیں ،وہ اور نیز یہ جو اب پڑھی گئی ہیں ،ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں بعدِ ترمیم مرسل ہوں۔“(12)

          غالب نے اپنے خط میں جس سوال کے پڑھے جانے کے متعلق دریافت کیا ہے،اس سے بہ ظاہر کتاب”مَفرَ غَةُ العَمَلَہ“ کے بارے میں ان کی تحریر کردہ یہی ”کیفیت “یا ”راے “مراد ہے ،جو 21 جولائی1868 کے جلسے میں پڑھی گئی تھی ۔خیال رہے کہ برطانوی دور میں ہر اس تحریر کو جو کسی حاکم کے حضور میں پیش کی جاتی تھی،”سوال“کہا جاتا تھا۔یہاں یہ وضاحت بھی بے محل نہ ہوگی کہ 28  جولائی 1868 کو سوسائٹی کی تاسیس کے بعد اس کا پہلا باقاعدہ جلسہ 11 اگست 1865 کو ہوا تھا ۔غالب نے اس جلسے میں شرکت کی تھی اور ایک مضمون بھی پڑھا تھا،لیکن اسی جلسے کے دوران انہوں نے اپنی ضعیف العمری اور ناتوانی کا عذر پیش کر کے اس وعدے کے ساتھ آئندہ جلسوں میں شرکت سے معذرت کر لی تھی کہ”اگرکسی امر میں بہ ذریعہ خط مجھ سے کچھ پوچھا جائے تو وہ لکھ سکتا ہوں جو میری راے میں آئے۔“(13) اس کے بعد سوسائٹی کے صرف تین جلسوں کی روداد میں ان کا نام آیا ہے ۔21 جولائی 1868 کے مذکورۂ بالا جلسے کے علاوہ باقی دو جلسے 22  اکتوبر 1867 اور 12 مارچ 1869 کو منعقد ہوئے تھے ۔22  اکتوبر1867 کے جلسے میں ”سبدچیں “کی چھے جلدیں سوسائٹی کو پیش کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا گیا تھا اور12 مارچ 1869 کو انجمنِ تہذیب ،لکھنؤ کی طرف سے موصول شدہ خط”دربابِ تعزیتِ مرزا نوشہ صاحب مرحوم“ ان کے فرزنِد متبنّٰی مرزا حسین علی خاں کے روبرو جلسۂ عام میں پڑھ کر سنایا گیا تھا ۔

          ”قصۂ ممتاز“سے متعلق یہ معاوضہ21 جولائی 1868 سے کچھ ہی دن پہلے کا واقعہ ہے ،اس کی تائید مثنوی ”حقیقتِ حال“کے بعض بیانات سے بھی ہوتی ہے۔اس کے ایک بیت کے مطابق عزیز ”آٹھویں جنوری کی ،سنہ سٹسٹھ “کے بعد کر ولی گئے تھے اور 18  ذی الحجہ 1283  ھ مطابق 23 اپریل 1867 کو مثنوی کی تکمیل سے قبل وہاں سے دہلی واپس آچکے تھے ۔کرولی کے اس قیام کے زمانے میں وہ برابر اس قصّے کی تصحیح واصلاح کے کام میں مصروف رہے تھے اور وہاں سے واپس آتے وقت لالہ بند امل عطّار کے نام حکیم احسن اللہ خاں کا خط اپنے ساتھ لائے تھے ۔ظاہر ہے کہ بندامل کے زیرِ اہتمام اس کی کتابت وطباعت کا  کام اس کے بعد ہی شروع ہوا ہوگا۔

          ان قرائن وشواہد کی روشنی میں جو باتیں شکوک وشبہات سے ماورایا تقریباً طے شدہ معلوم ہوتی ہیں ،وہ حسبِ ذیل ہیں:

(1)     قصۂ ممتاز کا پہلا ایڈیشن اپریل1867 اور جولائی1868 کے درمیان کسی وقت شائع ہوا تھا۔

(2)     اس قصے کی تصحیح اغلاط اور اصلاحِ زبان کا کام مرزا یوسف علی خاں عزیز بنارسی نے انجام دیا تھا ،جس پر اس کے مترجم ظہیر دہلوی کو سخت اعتراضات تھے اور انہوں نے ایک محضر کے ذریعے دہلی کے مشاہیر اہلِ علم سے اس باب میں ان کی رائیں بھی طلب کی تھیں۔

(3)     علائی کے نام کے جس خط میں بنارسی کی دوستی میں گالیاں کھانے کا ذکر آیا ہے ،وہ 22 جولائی 1868 کو لکھا گیا تھا۔ حالات و واقعات کی اس ترتیب اور تسلسل کے پیشِ نظر یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ غالب کے متذکرہ خط میں ”بنارسی “سے مرزا یوسف علی خاں عزیز کے علاوہ اور کوئی شخص مراد نہیں۔غالب کے شاگردوں اور دوستوں میں وہی تنہا ایسے شخص تھے جو بنارس وطنی نسبت رکھتے تھے اور جن کے ساتھ غالب کا غیر معمولی تعلقِ خاطر ان کی مختلف تحریروں سے ظاہر ہے ۔

حواشی:

1۔ مقالاتِ بین الاقوامی غالب سمینار ،مرتبہ ڈاکٹر یوسف حسین خاں ،شائع کردہ یاد گارِ غالب کمیٹی ،نئی دہلی ،1969، ص 47

2۔ ماہ نامہ شب خون،الہ آباد ،شمارہ نمبر220،اکتوبر 1998 ءص15

3۔ ایضاً ،ماہ شب خون،الہ آباد،شمارہ نمبر 226،مئی جون 1999،ص74

4۔ غالب کے خطوط ،جلد ِاول ،مرتبہ ڈاکٹر خلیق انجم ،شائع کردہ غالب انسٹی ٹیوٹ ،نئی دہلی، 1984 ،ص 424

5۔ سخنِ شعرا، مطبعِ نول کشور ،لکھنؤ، 1874 ،ص329

6و 7۔  خم خانۂ جاوید،جلد پنجم ،مرتبہ پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی ،دہلی ،1940 ،ص577

8۔  قصۂ ممتازو قصۂ ممتاز باتصویر،میورپریس ،دہلی ،ص4 و3

9۔ مثنوی ”حقیقت حال“کا واحد قلمی نسخہ رضا لائبریری ،رام پور میں محفوظ ہے ۔یہ خود عزیز کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے ۔

10۔ جہانِ غالب،از قاضی عبد الودود ،شائع کردہ خدا بخش اور ینٹل پبلک لائبریری،پٹنہ،1995 ، ص 168

11۔      غالب کے خطوط ،جلد ِاول ،ص481

12۔ احوالِ غالب ،مرتبہ پروفیسر مختار الدین احمد،شائع کردہ انجمن ترقی ِ اردو(ہند)،نئی دہلی،1986،ص 180

13۔ ایضاً ،احوالِ غالب ،ص 174

English Hindi Urdu