گم شدہ معنی کی تلاش

محمد حسن عسکری کا تنقیدی مطالعہ

روایت کا ادراک اور اس سے بغایت جیسے جملوں کا ہم استعمال نہیں اصراف بلکہ استحصال کرتے ہیں۔ یہ رویہ کس قدر مطالعہ اور غور و فکر چاہتا ہے اس کا اندازہ محمد حسن عسکری کی تحریروں کو پڑھنے کے بعد ہوتا ہے۔ محمد حسن عسکری کسی خاص تحریک یا نظریے کی قید سے آزاد تھے۔ یہی آزادی ان کے یہاں ایسے جہان کی سیر کراتی ہے جس آنے والے مفکرین کے زاویوں پر گہرا اثر ڈالا اور انھیں ایک مضبوط فکری سلسلے کا پابند بنایا۔ پروفیسر سرور الہدیٰ کی یہ کتاب عسکری کی تحریروں کی روشنی میں ان کے رویے کو نشان زد بھی کرتی ہے اور ان کے ذریعے قائم کیے گئے مباحث کو آگے بھی بڑھاتی ہے۔ ایک اچھی تصنیف کی اس سے بہتر شناخت کیا ہو سکتی ہے۔ کتاب کے مشمولات اس طرح ہیں:
محمد حسن عسکری دلی میں
lعسکری اور متحدہ ہندوستان
lعسکری کا تصورِ روایت
lعسکری کی نظریاتی تنقید
lعسکری: ادب اور معروضیت کے مباحث
lعسکری اوراردو ادب کی موت کا اعلان
lمحمدحسن عسکری اور فنونِ لطیفہ کے مباحث
lفکشن سے متعلق عسکری کے خیالات
lجزیرے کا اختتامیہ
lعسکری کے خیالات نثر سے متعلق
lجدید نظم کے بارے میں عسکری کے خیالات
lعسکری کی میر تنقید
lعسکری کی غالب تنقید
lمحمد حسن عسکری اور اکبر الہ آبادی
lمحمد حسن عسکری کے ’مشرق‘ کی جیت اور ہار
lکلیم الدین احمد، محمد حسن عسکری اور شمس الرحمن فاروقی
lعسکری اور رینے گینوں
lمحمد حسن عسکری اور محمدحسن
lعسکری اور بودلیئر
lمحمد حسن عسکری اور جیمز جوئس
lعسکری اور ٹامس مان
lژید کے روزنامچے کا ایک ورق
lعسکری، سرمایہ داری اور تنقید
lعسکری اور کامیو کا ’طاعون‘
lعسکری اور ژولیاں باندا
lیونگ اور عسکری
lحسن عسکری سے متعلق شمس الرحمن فاروقی سے ایک گفتگو
lمحمد حسن عسکری: حالات و کوائف
mکتابیات

غالب کا خود منتخب فارسی کلام اور اس کا طالب علمانہ مطالعہ

جناب بیدار بخت صاحب کی شخصیت اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کے لیے بڑی جاذبیت رکھتی ہے۔ ان کی کتاب ’غالب کا خود منتخب فارسی کلام اور اس کا طالب علمانہ مطالعہ‘ غالب فہمی میں خوبصورت اضافہ ہے۔ غالب نے اپنی اردو اور فارسی شاعر ی کے دو انتخاب کےے تھے۔ دونوں ہی ان کی زندگی مےں شائع نہ ہو سکے۔ پہلا ذو لسانی انتخاب ’گل رعنا‘ کے نام سے 1828 مےں کےا تھا جب وہ اپنی پنشن کے سلسلے مےں کلکتہ گئے ہوئے تھے۔ گل رعنا کے اےک قلمی نسخے کی درےافت مالک رام (1906-1993) نے 1957 مےںکی تھی۔ ان کا مرتب کےا ہوا انتخاب 1970 مےں چھپا۔ گل رعنا کے انتخاب کے اےک مدت بعد غالب نے 1966 مےں نواب کلب علی خاں (1835-1887)، والیِ رام پور، کی فرمائش پر اپنی شاعری کا اےک اور ذو لسانی انتخاب کےا تھا۔ اسے امتےاز علی خاں عرشی (1904-1981) نے 1942مےں ’انتخاب غالب‘ کے نام سے مےں شائع کےا تھا۔یہ کتاب ’انتخاب غالب‘ کے متن کو ترجمے کے ساتھ متعارف کراتی ہے۔ مصنف نے اشعار کے معنی کے ساتھ ان کا زمانہ¿ تحریر بھی درج کیا ہے جس سے مفاہیم کے ساتھ غالب کے تخلیقی سفر کا بھی بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔

غالب: دنیائے معانی کا مطالعہ

پروفیسر انیس اشفاق اردو کے ان دانشوروں میں ہیں جو اپنی جامعیت اور اس جامعیت کے اعلیٰ معیار کو نبھانے کا حوصلہ و ہنر رکھتے ہیں۔ شاعری، ناول نگاری اور تنقید ان کا خاص میدان ہے۔ انھوں نے کلاسیکی اور جدید مباحث پر جو کچھ لکھا وہ صحیح معنوں میں اضافہ کہے جانے کے لائق ہے۔ زیر نظر کتاب ان کے ایسے مضامین کو مجموعہ ہے جو غالب سے متعلق ہیں۔ اس کتاب میں آٹھ فکر انگیز مضامین شامل ہیں۔
۱۔ غالب اور ہم
۲۔ غالب کے شعری اسالب کا ارتقا
۳۔ غالب کی شاعری کا علامتی نظام
۴۔ اردو شاعری غالب کے بغیر
۵۔ غالب، ادب شناسی اور ایوان غالب
۶۔ غالب کی شاعری میں ہمہ زمانی معانی
۷۔ غالب اور بجنوری بوطیقا
۸۔ میر و غالب کی تعبیریں اور شمس الرحمٰن فاروق کے مقدمات
صفحات 129، قیمت 200 روپے

مرزا دبیر عہد اور شعری کائنات

اردو کے دو بڑے مرثیہ نگاروں میں دبیر کا نام آتا ہے کسی نے انھیں انیس سے بڑا مرثیہ نگار ثابت کرنے میں زور صرف کیا تو اکثر نے انہیں انیس سے کمتر شاعر قرار دیا۔ انیس و دبیر میں بڑا شاعر کون ہے یہ اپنے اپنے ذوق و معیار شاعری کا معاملہ ہے۔ لیکن مرثیہ تنقید کا مطالعہ یہ بھی احساس کراتا ہے کہ ہم نے انیس کے مقابلے دبیر کا مطالعہ کم کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے محاسن کلام ابھی تک پوری طرح واضح نہیں ہو سکے ہیں۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ذمہ داران نے اس کمی کو محسوس کرتے ہوئے ایک قومی سمینار بعنوان ‘مرزا دبیر: عہد اور شعری کائنات’ 2-3 نومبر 2019 کو ایوان غالب میں منعقد کیا۔ اس سمینار کا کلیدی خطبہ اردو کے معروف نقاد و دانشور پروفیسر انیس اشفاق نے پیش کیا تھا۔ زیر نظر کتاب اس سمینار کے مقالات پر مشتمل ہے۔

مرزا دبیر: عہد اور شعری کائنات

مرزا سلامت علی دبیر عموماً اردو کے دوسرے سب سے بڑے شاعر تسلیم کیے جاتے ہیں، لیکن ان کے کلام کی معنوی گہرائی پر نظر کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اس کی تفہیم و تعبیر خاطر خواہ نہیں ہو سکی۔ اس احساس نارسائی کو کم کرنے لے لیے غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے 2۔3 نومبر 2019 کو ایک پر وقار سمینار کا انعقاد کیا گیا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے سابق ڈائرکٹر ڈاکٹر سید رضا حیدر مرحوم نے اس سمینار کے انعقاد میں خاص اہتمام کیا تھا۔ تمام مقالہ نگاروں نے اپنے موضوع پر معلوماتی مقالے پیش کیے، خصوصاً پروفیسر انیس اشفاق کے کلیدی خطبے نے اہل علم سے خراج تحسین پیش کیا۔ زیر نظر کتاب انھیں مقالات کا مجموعہ ہے۔  

غالب کی شاعری

غالب کی شاعری میں زندگی کے مختلف رنگ اور کائنات کو سمجھنے کے مختلف زاویوں کو جس طرح تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس کی مثال دوسرے کسی شاعر کے یہاں نہیں ملتی۔ نفی و اثبات انسانی زندگی کے ایسے رویے ہیں جن کے وسیلے سے بھی بہت سے آفاقی حقائق کا انکشاف ہوتا ہے۔ اس کائنات کی موجودگی خود میں نفی بھی ہے اور اثبات بھی۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے 13-14- 15 مارچ 2022 کو ایک بین الاقوامی سمینار کا انعقاد اس غرض سے کیا گیا کہ غالب کی شاعری میں ‘نفی و اثبات’ کی مختلف شکلوں کو تلاش کیا جائے۔ زیر نظر کتاب اسی مقالات میں پیش کیے گئے مقالات ک مجموعہ ہے۔

Zikr-e-Hafiz

سجاد ظہیر کی ولادت 1905 میں اودھ کے ایک معزز خانوادے میں ہوئی۔ ان کے والد جسٹس سر وزیر خاں چیف جسٹس تھے۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے ادبیات کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سجاد ظہیر نے برطانیہ جاکر قانون کی پڑھائی کی اور بیرسٹر بن کے واپس آئے۔ سجاد ظہیر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بانی ارکان میں سے تھے۔ اردو میں ترقی پسند تحریک انھیں کی منظم کوششوں سے کامیاں ہو سکی۔ اس تحریک کی کامیابی کے ساتھ ایک غلط رجحان بھی پنپنے لگا جس کے زیر اثر بعض ناقدین نے کلاسیکی ادب اور بعض اصناف کو از کار رفتہ شمار کیا اور ان کے سلسلے میں بعض ایسے خیالات کا اظہار کیا جو نا کافی غور و فکر کی وجہ سے غلط رجحان کو فروغ دینے میں معاون ہوئے۔ ‘ذکر حافظ’ ایسے خیالات کی مدلل تردید اور معروضی جواب بھی فراہم کرتی ہے۔ کلاسیکی ادب کے سلسے میں انھوں نے یہ واضح موقف اختیار کیا ہے کہ ہر دور کی فنی اور ادبی تخلیقات کو پرکھتے ہوئے اس دور میں مروج اقدار و روایات، تاریخی اور معاشرتی حالات کو مد نظر رکھے بغیر تنقیدی فیصلے گمراہی کا باعث ہوتے ہیں۔ اس کتاب میں نہ صرف فارسی کے بڑے شاعر حافظ کی شاعری کے فنی اور فکری پہلو سامنے آتے ہیں بلکہ اردو ادب کے مطالعے کے رہنما اصول بھی بڑی حد تک واضح ہو جاتے ہیں۔ سجاد ظہیر نے نہایت بصیرت مندی کے ساتھ حافظ کا ایک انتخاب بھی تیار کر کے اس کتاب کی افادتیت کو دوبالا کر دیا ہے۔ سجاد ظہیر کے رہنما تنقیدی اصولوں کو اس کتاب کی روشنی میں زیادہ خوبی کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے۔