غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام آن لائن اردو، فارسی اور موسیقی کلاسز کا افتتاح

غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی میں یکم جولائی سے آن لائن اردو، فارسی اور موسیقی کلاسز کا آغاز ہوگیا ہے۔ ان کلاسز کا مقصد اردو ، فارسی اور موسیقی کی مبادیات سے لوگوں کو واقف کرانا ہے۔ کلاسز کا افتتاح لنک لیگل کمپنی کے مینیجنگ پاٹنر جناب اتل شرما نے ایوان غالب میں یکم جولائی کو شام ۵ بجے کیا۔ جناب اتل شرما نے اپنے خطاب میں کہا کہ زبان ہماری بنیادی ضرورت ہے، مثلاً میں پیشے سے ایک وکیل ہوں اگر مجھے اس زبان پر قابو نہیں ہوگا جس میں مجھے اپنی بات کہنی ہے یا دوسرے کو سمجھانی ہے تو میں اپنے پیشے کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ انسان جتنی زیادہ زبانوں کو جانتا ہے اس کی شخصیت میں انتا ہی نکھار پیدا ہوتا ہے۔ میں چوں کہ پرانی دہلی کا رہنے والا ہوں لہٰذا مجھے یہ احساس ہے کہ ہندستانی مشترکہ کلچر کس طرح ہماری معاشرت میں رچا بسا ہے اور اسے کسی طرح ہم خود سے الگ نہیں کر سکتے۔ میں غالب انسٹی ٹیوٹ کو مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں کہ انھوں نے بیسک تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے آن لائن کورسز کا نتظام کیا اور اس میں موسیقی کو بھی شامل کیا۔ کیوں کہ موسیقی کے بغیر ہندستان کی تصویر مکمل نہیں ہوسکتی۔ اس اجلاس کی صدارت غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے کی۔ اپنے صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ غالب انسٹی ٹیوٹ کی سرگرمیاں صرف علمی مذاکروں اور سمیناروں تک محدود نہیں، بلکہ اردو، فارسی اور موسیقی کی بنیادی تعلیم کا بھی یہاں انتظام کیا جاتا ہے۔ گزشتہ کلاسز کا تجربہ بہت اچھا رہا اور طلبا کی طرف سے ہی یہ مطالبہ ہوا کہ اس طرح کے کورسز کو جاری رہنا چاہیے لہٰذا ایک بار پھر کلاسز کا آغاز ہو رہا ہے اس مرتبہ یہ کورس چار ماہ کا ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ پچھلی بار کی طرح یہ کورس بھی کامیابی کے ساتھ مکمل ہوگا۔ عالمی سہارا کے ایڈیٹر ڈاکٹر لئیق رضوی نے اس اجلاس میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ انھوں نے جلسے کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ اردو کا ایک فعال ادارہ ہے اور یہاں کی سرگرمیوں سے ہم سب واقف ہیں لیکن آج جس کورس کا آغاز ہو رہا ہے مجھے بے انتہا خوشی ہے کہ یہاں کے منتظمین نے اس ضرورت کو محسوس کیا کہ بنیادی تعلیم کے بغیر اعلیٰ تعلیم کا خواب مکمل نہیں ہو سکتا۔ اردو کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کو سننے والا اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ گنگا جمنی تہذیب کو سمجھنے کے لیے اور اس کو باقی رکھنے کے لیے اردو سے واقفیت بہت ضروری ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ میں اردو، فارسی کی کلاسز کا سلسلہ نیا نہیں ہے ، بس یہ ہے کہ بیچ میں یہ سلسلہ منقطع ہو گیا تھا اور اس کو دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت محسوس کی جار ہی تھی۔ پچھلی بار جن لوگوں نے اس کورس میں حصہ لیا ان کی پیش رفت کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اور حوصلہ بھی ملا۔ اردو، فارسی کے استاد جناب طاہر الحسن نے اور موسیقی کے استاد جناب عبدالرحمٰن نے بڑی محنت سے طلبا کو تعلیم دی اور مشق کرائی ۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اس بار کا سیشن بھی پہلے کی طرح کامیاب رہے گا۔ اردو فارسی کے استاد جناب طاہرالحسن نے کہا کہ اردو ایک شیریں زبان ہے اس کے سیکھنے سے شخصیت میں کشش پیدا ہو جاتی ہے اور فارسی کے ساتھ سیکھنا زبان کی کئی باریکیوں کا آسان بنا دیتا ہے۔ پچھلی بار کے طلبا کی کارکردگی بہت حوصلہ بخش رہی مجھے یقین ہے کہ اس مرتبہ بھی میرا تجربہ مختلف نہیں ہوگا۔ موسیقی کے استاد جناب عبدالرحمٰن نے کہا کہ موسیقی انسان کو انسان سے جوڑتی ہے لیکن یہ جتنی آسان دکھائی دیتی ہے اتنی آسان نہیں ہے۔ در اصل اس کی ایک گرامر ہے جس سے واقفیت کے بغیر اچھی سے اچھی آواز بری معلوم ہوتی ہے۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ طلبا کو آسان سے آسان طریقے سے سمجھا سکوں کہ سر کس طرح بنتا ہے اس کے خاندان کون کون سے ہیں۔ میں غالب انسٹی ٹیوٹ کو مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں کہ انھوں نے یہاں موسیقی کلاسز کا انعقاد کیا۔

غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے جاوید دانش کی کتاب ’ہجرت کے تماشے‘ کی رسم اجرا و مذاکرہ

غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے اردو کے ممتاز ڈرامہ نگار اور تھیٹر آرٹسٹ جناب جاوید دانش کی کتاب ’ہجرت کے تماشے‘کی رسم رونمائی اور مذاکرے کا انعقاد کیا گےا۔ اس جلسے کے صدارت غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے کی۔ اپنے صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ غالب انسٹی ٹیوٹ نے ہمارے عہد کے ایک ممتاز ڈرامہ نگار اور تھیٹر کی دنیا میں منفرد شناخت رکھنے والے ادیب و فنکار جناب جاوید دانش کی کتاب پر مذاکرے کا اہتمام کیا۔ جاوید دانش کی کامیابی کا راز اس بات میںبھی پوشیدہ ہے کہ وہ اردو ڈرامے کی روایت سے جس طرح واقف ہیںاسی طرح دوسری زبانوں کے ڈرامائی ادب پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ خدا نے انھیں تخلیقی صلاحیت عطا کی ہے جس میں ان کے تجربات اور مطالعے نے چار چاند لگا دیے ہیں۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے کہا کہ جاوید دانش صاحب نے ایسے خانوادے ،میں آنکھ کھولی جہاں پہلے سے علم و ادب کا چرچا تھا ۔ ان کے والد خود مصنف تھے جنھوں نے انھیںلکھنے پڑھنے کی طرف راغب کیا۔ جاوید دانش کے شوق سفر نے انھیں کنیڈا میں بسا دیا ۔ وہ ملک سے دور تو ہوئے لیکن اس سر زمیں نے ان کے قلم کو ایسی آزادی دی کہ شاید وہ کہیں اور میسر نہیں ہوسکتی تھی۔میں ان کی کتاب ’ہجرت کے تماشے‘ کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ جناب جاوید دانش نے کہا کہ میں غالب انسٹی ٹیوٹ اور تمام شرکا ، خصوصاً پروفیسر محمد کاظم اور ڈاکٹر جاوید حسن کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری کتاب کے سلسلے میں ایسی بزم آراستہ کی اور اس پر گفتگو کے لیے آمادگی طاہر کی۔ اردو میری مادری زبان ہے اور مجھے ہمیشہ یہ فکر رہتی ہے جس زبان نے مجھے ساری دنیا میں شناخت دی ہے اپنے امکان بھر اس میں کچھ ایساکر سکوں جس میں تازگی ہو۔ میرے خیال میں ادب میں اضافہ اسی کو مانا جاتا ہے جس میں روایت کی آگہی بھی ہو اور نئی دریافت بھی ہو۔ میں نے اس دنیا میں رہتے ہوئے اسے جیسا محسوس کیا اسے اپنی تخلیق میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ پروفیسر محمد کاظم نے کہا کہ جاوید دانش سے میری پرانی رفاقت ہے میں نے ان میں اپنے کا کے تئیں ایسی سپردگی دیکھی کہ اس کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان کے لیے لکھنا ایک روحانی غذا ہے جس کے بغیر وہ رہ نہیں سکتے۔ وہ اپنی گفتگو میں کم اور تحریر میں زیادہ واضح ہوتے ہیں۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جو ڈرامے ہیں ان میں ایک نئی دنیا سے ہمارا تعارف ہوتا ہے۔ یعنی وہ ایسے موضوعات نہیں جن پر ہر کس و ناکس قلم اٹھاسکے۔ ڈاکٹر جاوید حسن نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر زبان کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں کچھ اصناف زیادہ ترقی کرتی ہیں اور ان کی بہ نسبت دیگر اصناف کو ترقی کا کم موقع ملتا ہے۔ اردو کا مزاج ہے کہ اس میں شاعری خصوصاً غزل نے زیادہ مقبولیت حاصل کی ۔ ہمیں جاوید دانش جیسے فنکاروں کی اس لیے بھی قدر کرنی چاہیے کہ ان جیسے فنکار وں کی وجہ سے اردو ڈرامہ اس لائق ہے کہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے جدید مثائل کی پیشکش میں اردو کسی سے کم نہیں ہے۔ جاوید دانش جتنا فن سے واقف ہیں موجودہ دنیا کے مسائل سے بھی اسی طرح آگاہ ہیں۔ مسائل سے آگہی، ان کو تخلیقی تجربہ بنانا اور فنی تقاضوںکی تکمیل کا بہترین امتزاج دیکھنا ہو تو ’ہجرت کے تماشے‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ میں اس کتاب کے مصنف اور غالب انسٹی ٹیوٹ کو مبارکباد پیش کرتاہوں۔ اس جلسے میں علم ادب سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

29Mahzar Raza, Gh Nabi Kumar and 27 others

2 comments

Like

Comment

Share

Ghalib’s poetry emerges from the soul of a free man: Khalil Mamun

غالب کی شاعری آزاد انسان کی روح سے ابھرتی ہے: خلیل مامون
✅غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام بہ اشتراک محمود ایاز میموریل ٹرسٹ دو روزہ قومی سمینار کا انعقاد
14مئی بنگلور، غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام بہ اشتراک محمود ایاز میموریل ٹرسٹ دو روزہ قومی سمینار بعنوان ’غالب اور عالمی انسانی قدریں‘ کا افتتاحی اجلاس حسنات کالج آدیٹوریم ڈینکینسن روڈمیں ہوا۔ سمینار کا کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے اردو کے معروف دانشور جناب خلیل مامون نے کہا کہ غالب کی شاعری ایک غیر متعصب غیر منضبط آزادانسان کی روح سے ابھرتی ہے، جو اپنی تمام روحانی اور جسمانی زنجیروں کو توڑ کر باہر نکلتی ہے۔ غالب نے اپنی اردو غزل میں پرانی قدروں کو توڑ کر جمالیاتی حقائق کو جنم دیاہے۔
سمینار کا افتتاح پروفیسر اختر الواسع (سابق صدر مالانا آزاد یونیورسٹی، ادے پور)نے کیا۔ انھوں نے اپنے خطاب میں کہا غالب انسٹی ٹیوٹ اردو کا ایسا ادارہ ہے جس نے اردو دنیا میں اپنی ممتاز شناخت قائم کی ہے۔ محمود ایازمیموریل ٹرسٹ کے ذمہ داران قابل مبارکباد ہیں کہ انھوں نے غالب انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ اشتراک کیا اور ایک اہم موضوع پر سمینار کا انعقاد کیا۔ آپ لوگوں کے جذبے اور مقالہ نگارں کی فہرست کو دیکھتے میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایک کامیاب سمینار ہوگا اور جب یہ مقالے کتابی شکل میں میں شائع ہوں گے تو غالبیات میں ایک اہم گوشے کا اضافہ ہوگا۔
جناب عزیز اللہ بیگ (صدر محمود ایاز میموریل ٹرسٹ) نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ جناب محمود ایاز صاحب نے ادب اور ادبی صحافت میں اپنی منفرد شناخت قائم کی، وہ بہت مصروف انسان تھے اس کے باوجود ان کا مطالعہ قابل رشک تھا۔’سوغات‘ نے پوری اردو دنیا میں جو اعتبار حاصل کیا وہ ادبی صحافت کی دنیا میں ایک و اقعہ ہے۔ مجھے خیال تھا کہ بنگلور کی سرزمین پرغالب کے تعلق سے ایک معیاری سمینار کاانعقاد کیا جائے جس کا کوئی رشتہ محمود ایاز سے بھی قائم ہو۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ محمود ایاز کی یاد میں قائم اس ادارے اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے درمیان اشتراک سے یہ سمینار منعقد ہو رہا ہے اور ملک کے مختلف گوشوں سے اہل علم اس سمینار میں اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔ ہم مستقبل میں بھی ایسے ہی ادبی اجلاس منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس اجلاس کے مہمان خصوصی جناب این ڈی ملا (سابق ڈپٹی کمشنر آف پولیس) نے کہا غالب انسٹی ٹیوٹ اور محمود ایاز میموریل ٹرسٹ کے ذمہ داران قابل مبارک باد ہیں کہ انھوں نے غالب کی یاد میں ایسے سمینار کا انعقاد کیا جس کا موضوع ہی اتنا پر کشش اور معنی خیز ہے۔ غالب کے یہاں انسانی اقدار کا احساس اتنی فنکارانہ ادبی بصیرت کے ساتھ ظاہر ہوا ہے جس کی مثال غالب سے قبل نظر نہیں آتی۔
تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے اردو کے جدید ممتاز ناقدپروفیسر سرور الہدیٰ نے کہا کہ بنگلور کی ادبی زندگی کا خیال محمود ایاز کے بغیر نہیںآتا۔ انھوں نے ادب میں جو سلسلہ قائم کیا تھا وہ آج اس صورت میں نہ بھی ہو لیکن وہ کسی نہ کسی شکل میں باقی ضرور ہے کسی لمحے میں وہ توسیع کے ساتھ ظاہر ہوگی۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریساحمد نے کہاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ اردو کا ایک فعال ادارہ ہے اس ادارے نے اب تک تقریباً تین سو کتابیںشائع کی ہیں اور تقریباً دو سو سمینار کا انعقاد بھی کیا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کی ایک خوبصورت روایت یہ ہے ہم سال میں دو سمینار دہلی سے باہر کرتے ہیں۔اب تک ملک کے مختلف گوشوں میں نہایت کامیاب سمینار کر چکے ہیں جن کی روداد بھی کتابی شکل میں شائع ہو چکی ہے۔ مجھے عرصے سے یہ احساس تھا کہ جنوبی ہندستان مین اب تک اس طرح کا سمینار منعقد نہیں ہو سکا۔ جناب عزیز اللہ بیگ اور محترمہ شائستہ یوسف صاحبہ جن کی سر پرستی میں محمود ایاز میموریل ٹرسٹ خدمات انجام دے رہاہے ، جب ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے اپنے خواہش کا اظہار کیا اور انھوں نے نہ صرف اس تجویز کو پسند کیا بلکہ اپنے اشراک سے اس سمینار کا خاکہ تیا کیا۔ دوران ملاقات میں نے محمسوس کیا کہ وہ اردو اور محمود ایاز میموریل ٹرسٹ کی ترقی کے سلسلے میں بہت فعال ہیں۔
محترمہ شائستہ یوسف نے کہا کہ آج کے اس کامیاب افتتاح کے بعد سمینار کا ایک رخ متعن ہو گیا ہے کل پورے دن مقالے پیش کیے جائیں گے جس بعد میں کتابی شکل میں بھی شائع ہوں گے۔ میں غالب انسٹی ٹیوٹ اور تمام شرکا کی شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اس سمینار میں شرکت کی۔ افتتاحی اجلاس کے بعد شام غزل کا اہتمام کیا گیا جس میں محترمی کھنک جوشی نے اپنے خوبصور آواز میں غالب اور دوسرے اہم شاعروں کی غزل پیش کی جسے سامعین نے بہت پسند کیا۔ شام غزل کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر صبیحہ زبیر نے انجام دیے۔ اس اجلاس میں ادبی دنیا کی اہم شخصیات اور غالب کے شائقین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
دوسرے دن سمینار کے پہلے اجلاس کی صدارت پروفیسر شمس الہدیٰ نے کی اپنے صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ اور محمود ایاز میموریل ٹرسٹ کے ذمہ داران قابل مبارک باد ہیں کہ انھوں نے ایسا موقع فراہم کیا کہ اردو کی معتبر شخصیات سے ملاقات ہو گئی۔ سمینار کا بنیادی موضوع بہت اہم ہے اور یہ موضوع اس دنیا کے بیشتر مشائل سے بھی متعلق ہے۔ اس اجلاس میں جناب ملنسار اطہراحمد نے ’غالب اور عالمی انسانی قدریں‘ ڈاکٹر ادریس احمد نے کلام غالب اور عالمی انسانی قدروں کی تلاش، ڈاکٹر فجیہہ سلطانہ نے غالب کی شاعری میں عالمی انسانی قدریں، محترمہ مہر فاطمہ نے ’غالب اور عالمی انسانی قدریں‘کے موضورع پر مقالات پیش کیے۔
دوسرے اجلاس کی صدارت جناب ملنسار اطہر صاحب نے کی۔ اپنی صدارتی تقریر میں انھوں نے کہا کہ اس اجلاس کے تمام مقالے موضوع کے علاوہ اسلوب کی سطح پر بھی ہمیں متاثر کرتے ہیں۔ یہ وصف غالب کی شاعری کا بھی ہے کہ ان کے یہاں فکر و اسلوب دونوں کی معراج نظر آتی ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ اور محمود ایاز میموریل ٹرسٹ نے ایک مبارک قدم یہ بھی اٹھایا ہے کہ اس سمینار میں بزرگوں کے علاوہ نئی نسل کی بھی نمائندگی کو ممکنبنایا۔ اس اجلاس میں جناب راہی فدائی نے ’کلام غالب اور انسانی اقدار‘ پروفیسر شمس الہدیٰ نے ’عالمی انسانی قدیں کلام غالب کی روشنی میں، ڈاکٹر غضنفر اقبال نے ’کلام غالب میں انسانی قدروں کی تلاش‘ ڈاکٹر زبید ہ بیگم نے غالب اور عالمی انسانی قدریں (خطوط کے حوالے سے)‘ کے موضوع پر مقالے پیش کیے۔
تیسرے اور آخری اجلاس کے صدر جناب راہی فدائی نے کی۔ صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا کہ آج جو بھی مقالے پیش کیے گئے مجموعی طور پران کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ بڑی محنت سے لکھے گئے ہیں۔ ادب ہماری سماجی زندگی کا ایسا گوشہ ہے جس سے صرف جمالیاتی ذوق کی تسکین نہیں ہوتی بلکہ وہ ہمیں گفتگو، نشست و برخواست اور باہمی سلوک کا سلیقہ بھی سکھاتاہے۔ اس اجلاس میں پروفیسر میم نون سعید نے ’غالب کی بہو‘ جناب اکرم نقاش نے ’غالب ایک اسکیچ‘ پروفیسر سرورالہدیٰ نے ’گلشن ویمر میں تیرا ہمنوا خوابیدہ ہے‘ ڈاکٹر کوثر پروین نے ’غالب اور عالمی انسانی قدریں‘ اور ڈاکٹر فرزانہ فرح نے ’غالب اور انسان دوستی‘ کے موضوع پر مقالات پیش کیے۔ شکریے کی رسم ادا کرتے ہوئے پروفیسر سرورالہدیٰ نے کہا کہ غالب کی شاعری پیراڈاکس سے بھری ہوئی ہے ہم لاکھ موضوع قائم کر لیں لیکن غالب کی شاعری ساری حدبندیوں سے پھسلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور یہی ان کی عظمت کا راز ہے۔ محمود ایاز میموریل ٹرسٹ کے صدر جناب عزیز اللہ بیگ نے کہا کہ ہم بنگلور میں اردو ادب کے فروغ اور محمود ایاز صاحب کی یاد کو باقی رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے اراکین کا تہ دل سے شکریہ ادا کرنا اپنا فریضہ سمجھتا ہوں کہ انھوں نے دکن کی طرف توجہ کی اور ایک کامیاب سمینار کا انعقاد کیا۔ میں تمام حاضرین کا بھی شکر گزار ہوں کہ انھوں اتنی دلچسپی سے تمام مقالات سنے۔سمینار کے بعد مشاعرے کا انعقاد ہوا جس کی صدارت اردو کے ممتاز شاعر و ادیب جناب خلیل مامون نے کی، جناب ایم ایچ اعجاز علی جوہری نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی اور نظامت کے فرائض جناب شفیق عابدی نے انجام دیے۔ جن شعرا نے مشاعرے میں شرکت کی ان کے نام اس طرح ہیں: ڈاکٹر شائستہ یوسف، جناب راہی فدائی، جناب اکرم نقاش، جناب ساجد حمید، ڈاکٹر فرزانہ فرح، جناب غفران امجد، جناب شفیق عابدی، اور جناب حافظ کرناٹکی

Felicitation to the Distinguished Urdu Scholar Prof. Gopi Chand Narang

غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے پروفیسر گوپی چند نارنگ کی ادبی خدمات کے اعتراف میں استقبالیہ
اردو کے معروف نقادودانشور پروفیسر گوپی چند نارنگ کی ادبی خدمات کے اعتراف میں غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے ایک استقبالیہ تقریب کا انعقاد کیاگیا۔ اس موقع پر پروفیسر گوپی چند نارنگ (مقیم حال امریکہ) نے آن لائن شرکت کی۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے کہا کہ اردو میرے لےے ایک بھید بھرا بستہ ہے میں حیران ہوں کہ مجھے سرائیکی، فارسی، ہندی، سنسکرت اور انگریزی زبانیں آتی ہیں لیکن نہ معلوم اس زبان میں کیا جادو ہے کہ مجھے کسی زبان کی طرف ایسی رغبت نہیں جیسی اردو کی طرف ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ اردو غزل نے ۰۲سے زیادہ ممالک کاسفرکیالیکن کسی دوسرے ملک میں ایک ثقافتی مطہرکے طورپر لوگوں کے ذہن میں اپنی جڑیںاس طرح پیدا نہیں کرسکی جیسا ہندستاں میں کیا۔ میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے تمام اراکین اور جلسے میں موجود تمام حاضرین کا تہ دل سے شکرگزار ہوں کہ آپ نے میری اتنی عزت افزائی فرمائی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر جناب سید شاہد مہدی نے کہاکہ پروفیسر گوپی چند نارنگ اردو کے ایسے دانشور ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ شاید ایسا کوئی طالب علم نہ ہوگاجس نے ان سے استفادہ نہ کیاہواور کوئی ایسا ادیب نہ ہوگاجس نے ان سے تعلق پر فخر نہ کیاہو۔ انہوں نے اردو میں بہت کچھ لکھااور جو کچھ لکھااس میں بڑی تازگی اور بصیرت ہے۔کملیشور صاحب نے کہاتھاکہ ہر ہندستانی زبان کو ایک گوپی چند نارنگ کی ضرورت ہے۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمدنے تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے کہاکہ غالب انسٹی ٹیو کی روایت رہی ہے کہ وہ بزرگ ادیبوں کی خدمات کے اعتراف میں استقبالیہ تقریب کا انعقاد کرتاہے۔ قاضی عبدالودود، آل احمد سرور، مالک رام اور شمس الرحمن فاروقی جیسی علمی شخصیات اس خوبصورت روایت کاحصہ بن چکی ہیں۔ اس مرتبہ ہمیں خوشی ہے کہ ہم یہ جلسہ پروفیسر نارنگ صاحب کی علمی خدمات کے اعتراف میں منعقد کر رہے ہیں،نارنگ صاحب اس دور کے اردو کے ممتاز ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں، انہوں نے جو کچھ لکھا اس میں بڑی بصیرت اور ریاضت شامل ہے، میں اپنی جانب سے اور انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے ان کا اور تمام مقررین اور حاضرین کاشکرگزار ہوں کہ آپ نے اس استقبالیہ میں شرکت منظور فرمائی۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کہاکہ پروفیسر گوپی چند نارنگ سے میرے دیرینہ مراسم ہیںاور میںنے انہیں علمی سفرمیں ہمیشہ تازہ دم دیکھا۔ انہوں نے ہمیشہ ریاضت پر بھروساکیااور شخصی تنقید سے گریزکیا۔ یہی سبب ہے کہ آج پوری دنیا میں جہاںجہاں اردو بولی اور پڑھی جاتی ہے ان کا نام بطور رہنما لیا جاتاہے۔ جناب سیفی سرونجی نے کہاکہ میں زندگی میں ایسا شخص نہیں دیکھاجو اردو سے ٹوٹ کے محبت کرتاہو۔وہ بڑے عالم ہی نہیں بڑے انسان بھی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ نارنگ صاحب بولیں تو منھ سے پھول جھڑتے ہیں میں کہتاہوںکہ پھول ہی نہیں پھل بھی جھڑتے ۔ اردو میں پھولوں کی بارش تو بہت ہوتی ہے ایک ایسے شخص کی بھی ضرورت تھی جس کے یہاں پھلوں کی بارش ہواور اب شخص نارنگ صاحب کی صورت میں ہمارے یہاں موجود ہے۔ پروفیسر شافع قدائی نے کہاکہ بڑا آدمی وہی ہوتاہے جوایسی بات کہتاہے جو سب سے ہٹ کر ہواور بصیرت میں جلا پیدا کرے۔ یہ وصف نارنگ صاحب کے یہاں بخوبی موجود ہے۔ مثلاً پریم چند اردو اور ہندی کے سب سے مقبول افسانہ نگار ہیں ان پر شاید ہی کوئی ناقد ہو جس نے مضمون نہ لکھا ہو۔ ان کے افسانے کفن کا بہت ذکر ہوتاہے اور کفن کی الگ الگ تعبیریں کی جاتی ہیں، لیکن نارنگ صاحب نے یہ نکتہ پیداکیاکہ بدھیاکے شکم میں جوبچہ تھاجواصل میں گہوارہ ہوناچاہےے تھالین وہی اس بچے کا کفن بن گیا۔ اسی طرح غالب ایک ایسا موضوع ہے جو سب سے زیادہ عام ہے لیکن نارنگ صاحب نے اس موضوع میں نئے گوشے اور نئے پہلو سے گفتگو کی۔ پروفیسر شہزاد انجم نے کہاکہ مجھے نارنگ صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملاہے اور انہوں نے مجھے کئی سطح پر بہت متاثر کیامثلاً وہ جید عالم ، بہترین مقرر اور اچھے منتظم ہیں۔ انہوں نے جس ادارے کی باگ ڈور سنبھالی اسے بام عروج پر پہنچا دیا۔ مجھے اردو میں تین مقررین نے بہت متاثرکیاجن میں علی سردار جعفری، پروفیسر آل احمد سرور اور گوپی چند نارنگ شامل ہیں۔ اردو میں بے شمار سمینار اور مذاکرے ہوئے ہیں لیکن پروفیسر نارنگ نے جن سمینار کا انعقاد کیاوہ آج بھی بطور حوالہ یاد کےے جاتے ہیں۔ وہ ایک صاحب اسلوب ادیب ہیں اگر ان کی کتاب کا ایک پیراگراف نکال کرالگ سے پڑھاجائے تو اندازہ ہوجائے گاکہ وہ نارنگ صاحب کی نثر ہے۔
اس موقع پر غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے پروفیسر گوپی چند نارنگ کو سپاس نامہ، شال، مومنٹو اور پچاس ہزار روپے کا چیک پیش کیا گیاجس کو ان کی غیر موجودگی میں جناب موسیٰ رضا صاحب نے حاصل کیا۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے سہ ماہی انتساب اور ماہنامہ عالمی زبان کی چیف ایڈیٹر محترمہ استوتی اگروال صاحبہ کو اردو میں نمایاں کارکردگی اور ۰۱ویں کلاس میں اردو مضمون میں ۵۹فیصد نمبر حاصل کرنے کے لےے اردو دنیا کی جانب سے ایک سال اور گلدستہ پیش کیااور انہیں روشن مستقبل کے لےے دعائیں دی۔ اس اجلاس میں اردو کی بڑی نامور شخصیات کے علاوہ دیگر علوم و فنون سے تعلق رکھنے والے افراد اور طلبانے بڑی تعداد میں شرکت فرمائی۔
تصویرمیں ڈائس پربائیں سے سیفی سرونجی،ڈاکٹرادریس احمد، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی،جناب شاہد مہدی،پروفیسر شافع قدوائی اور پروفیسر شہزاد انجم

From left to right are Dr. Dris Ahmed, Mr. Saifi Saronji, Prof. Sadik-ur-Rehman Kidwai, Mr. Shahid Mehdi, Prof. Shafi Qadwai, and Prof. Shehzad Anjum.

تصویرمیں ڈائس پربائیں سے ڈاکٹرادریس احمد،سیفی سرونجی، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی،جناب شاہد مہدی،پروفیسر شافع قدوائی اور پروفیسر شہزاد انجم

English Hindi Urdu