غالب کی ایک نئی شرح

اشرف رفیع

غالبؔ کی ایک نئی شرح

غالب بہت پرانے شاعر نہیں ہیں لیکن اب تک غالب کا مطالعہ جن جن نقاط نظر سے کیاگیایا ان کے بعد کی نسلوں نے انہیں جس جس روپ میں دیکھا، سمجھا اور سمجھایاہے۔ اس سے پتا چلتاہے کہ غالب کی فکر میں نہ صرف غیر معمولی تنوع ہے بلکہ ان کی شخصیت میں مختلف زمانوں میں مختلف انداز سے دیکھے اور سمجھے جانے کا عجیب و غریب طلسم موجود ہے۔ غالب کو سمجھنے کاوہ زمانہ تھاجب ان کی بات وہ سمجھتے تھے یا خدا سمجھتا تھا او راب یہ بھی زمانہ ہے کہ شارحین غالب آگہی کا دام شنیدن بچھائے جارہے ہیں مگر ابھی تک غالب کے عنقائے مدعا کو گرفتار کرنے میں کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا۔

غالب نے اپنے خطوط میں اپنے بعض اشعار کی تشریح کی ہے۔ یعنی اپنے کلام کی سب سے پہلے شرح خود غالب نے کی ہے۔ غالب کے بعد حالیؔ نے ’مقدمہ شعروشاعری‘ اور ’یادگار غالب‘ میں غالب کے کلام کو سمجھانے کی کوشش کی۔ حالی کے بعد یہ سلسلہ دراز ہوتاگیا۔ چیدہ چیدہ اشعار کی شرح کو نظر انداز کربھی دیں تو غالب کے شارحین کی تعداد سترکے قریب پہنچ جاتی ہے۔ ۱۲۹۱ء میں دیوان غالب جدید المعروف بہ نسخہ حمیدیہ کا پہلا ایڈیشن مرتبہ مفتی محمد انوارالحق سامنے آیا تو فہم غالب کے نئی جہتوں کے امکانات روشن تر ہوتے گئے۔ غالب کا مروجہ دیوان در حقیقت ان کے سہل ترین اشعار کا انتخاب ہے۔ نسخہئ حمیدیہ سامنے آیاتو اندازہ ہواکہ غالب کے اُن اشعار کی تو شرح ہوئی ہی نہیں جو حقیقتاً تشریحِ طلب ہیں۔ غالب کی جتنی شرحیں ۰۴۹۱ تک لکھی گئیں تھیں وہ صرف ان کے مروجہ دیوان کی شرحیں تھیں۔ حیدرآباد کی ایک نامور علمی ادبی شخصیت سید ضامن کنتوری نے سب سے پہلے نسخہئ حمیدیہ کی شرح لکھی۔ اپنے ”پیش حرف“ میں وہ لکھتے ہیں کہ عزیزوں اور دوستوں کی فرمائش اور اصرار پر انہوں نے نسخہئ حمیدہ کی شرح کی۔ اس کے بعد انہیں خیال آیاکہ متعارف دیوان کی غزلیں رہ گئی ہیں انہیں بھی ادھورا کیوں چھوڑیں۔ ”ہوتے ہوتے یہ کام مکمل ہوگیا“۔ یہ کام انہوں نے سرسٹھ برس کی عمر میں مکمل کیا۔ اپنے ”پیش حرف“ میں اس کا اظہار کرتے ہیں کہ ”سرسٹھ برس کا فرسودہ دماغ اور جوان غالب کے کلام کی شرح!“ غالب کی شرح کرتے ہوئے اکثر شارحین نے کسی نہ کسی طرح اپنے عجز کا اظہار کیاہے، ضامن کنتوری بھی اس سے بری نہ رہ سکے وہ اپنی سرسٹھ برس کی عمر میں غالب کو جوان اور خود کو بوڑھا سمجھتے ہیں۔

سید محمد ضامن کنتوری،کنتور کے ضلع بارہ بنکی میں پیداہوئے چھ سات برس کی عمر میں اپنے والد کنتوری کے ساتھ حیدرآباد آئے۔ عربی، فارسی ادبیات کے مطالعہ کے بعد انگریزی پڑھی زبان و ادب کابھی گہرا مطالعہ کیا۔ شعرفہمی اور سخن سنجی ورثے میں ملی تھی۔ شاعری کے ساتھ ساتھ علمِ عروض و قوافی میں والد کی رہنمائی حاصل تھی۔ اُن کی زندگی ہی میں استادِ فن کی حیثیت حاصل کرلی اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتے تھے۔ دفتر بگی خانہ میں انگریزی کے مترجم ہوگئے۔ نیرنگ مقال (کلیات اردو) ار تنگ خیال (دیوان فارسی) طریق سعادت (نثر) بالک پھلواری(بچوں کی نظمیں) قواعد کنتوری (دوجلدوں میں) عبرت کدہئ سندھ (تاریخ) ارمغان فرنگ (انگریزی شعراء کا تذکرہ اور ان کی نظمو ں کے تراجم) شہید وفا (نظم کا ترجمہ) اور آوارہئ وطن (گولڈ اسمتھ کی نظم کا ترجمہ) ان کا وقیع سرمایہئ فکر و فن ہے۔ ایک ادبی رسالہ لسان الملک (۲۲۹۱) میں نکالنا شروع کیاتھاجو زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔

ضامن کنتوری کو نہ صرف عربی فارسی اور انگریزی ادبیات پر عبور حاصل تھا بلکہ وہ تاریخِ عرب، ایران و ہند پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ ان کی فکر مجتہدانہ اور منطق و فلسفہ کی مستحکم بنیادوں پر قائم تھی۔ ان میں غالب کے عہد، ان کے فن اور مرتبہئ فکر کو سمجھنے کی زبردست صلاحیت تھی جس کی وجہ سے ان کی شرح اپنے عصر کی بیشتر شرحوں میں وسعت فکر، ندرتِ توجیہہ اور معروضیت کی وجہ سے وقیع تر ہوگئی ہے۔ اکثر شارحین نے اپنی شرحیں رسائل اور اخبارات میں شائع کی ہیں مگر ضامن کنتوری کی یہ شرح ابھی تک منظر عام پر نہ آسکی۔ اس شرح کا تعارف سب سے پہلے ڈاکٹر ضیاء الدین شکیبؔ نے ۹۶۹۱ء میں اپنی مرکۃ الآرا تصنیف ”غالب اور حیدرآباد“ میں کروایاتھا۔

شرحِ ضامنؔ میں غزلوں کی جملہ تعداد (۶۷۳) ہے جبکہ نسخہئ حمیدیہ میں جملہ (۵۷۲) غزلیں شامل ہیں۔ سہ شنبہ ۱۲اگست ۴۳۹۱ کو غزلوں کی شرح مکمل ہوئی۔ اس کے بعد قصائد، مثنوی، قطعات اور رباعیات کی شرح سہ شنبہ ۵۲دسمبر ۴۳۹۱ کو پائے تکمیل کو پہنچی۔ یہ معلوم نہ ہوسکاکہ شرح لکھنے کا آغاز کب ہوا اور شرح کتنے عرصے میں مکمل ہوئی۔ بہرحال اس شرح کے مطالعہ سے اندازہ ہوتاہے کہ شرح طباطبائی کے بعد کئی اعتبار سے یہ ایک معتبر شرح ہے۔ اس کے کئی اسباب ہیں۔ چند اہم اسباب و نکات پر یہاں روشنی ڈالی جاتی ہے۔

۱۔ ضامن کنتوری نے تفہیم و تشریح کا بارگراں خود اٹھایاہے۔ اکثر اشعار کی تشریح کئی صفحات پر محیط ہے۔ ان کا مطلب مختلف زاویوں سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔

۲۔ بعض اشعار کی شرح میں سخن سنجی کا بوجھ قاری پر ہی ڈالاہے۔ مثلاً

زلف سیہ افعی نظر بد قلمی ہے

ہرچند خط سبز و زمرد رقمی ہے

کی شرح میں لکھتے ہیں ”اس شعر کے الفاظ تو نہایت قیمتی اور چمکدار ہیں لیکن ان میں بہم کیا ربط ہے؟ اور معنی شعر کے کیا ہیں؟ اسے سمجھنے والے ہی سمجھیں گے“

۳۔ کئی مقامات پر شرح کرنے کے ساتھ ساتھ مشروحہ شعر کے ہم معنی اشعار فارسی کے معروف شاعرو ں کے کلام سے نقل کیے ہیں، تاکہ غالب کی تفہیم میں آسانی ہو اور قاری کا ذہن وسعت پاسکے۔ ان شاعروں میں بیدلؔ، نظیریؔ، عرفیؔ، خاقانیؔ، قاآنیؔ، بلخیؔ، سعدیؔ، حافظؔ اور مولانا رومؔ سے استفادہ کیا ہے۔

۴۔ جہاں بطور دلیل،مثال یابرائے تفہیم مزید فارسی اشعار لائے ہیں بیشتر مقامات پر ان کا ترجمہ بھی کردیاہے۔

۵۔ فارسی میں شرح نویسی کی جو طاقتور روایت کارفرمارہ چکی ہے وہ کثیرالجہات تھی یعنی شرح لکھنے والا شعر کا مفہوم لکھنے کے ساتھ اس شعر سے متعلق ضروری نکات بھی لکھتا جاتا تھا، یہی انداز اس شرح کا بھی ہے۔ اشعار کی شرح کے ذیل میں زبان و بیان محاورہ دلی و لکھنو، بلاغت و فصاحت، عروض و قافیہ، فلسفہ و منطق کے بہت سے مسائل بکھرے ہوئے ہیں۔ مثلاً اس شعر میں:

بے پردہ سوئے وادیئ مجنوں گزر نہ کر

ہر ذرے کی نقاب میں دل بے قرار ہے

”نقاب“ کی تذکیر و تانیث میں لکھنو اور دلی کے فرق کی نشاندہی کی ہے، کہتے ہیں: ”نقاب کو چاہے مونث پڑھیے یا چاہے مذکر، اس لیے کہ لکھنو میں تانیث اور دہلی میں اب بھی بہ تذکیر بولتے ہیں“۔

آگے چل کر شرح کے ختم پر کہتے ہیں۔”بے پردہ کا لفظ اس شعر میں محض نقاب کی رعایت سے استعمال ہواہے لیکن بے محل ہے“۔

مآل اچھاہے، سال اچھاہے والی غزل کے ایک شعر میں تنافر لفظی کی شکایت اس طرح کی ہے۔

ہم سخن تیشہ نے فرہاد کو شیریں سے کیا

جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچھا ہے

شرح میں لکھتے ہیں ”صاف شعر ہے مصرع ثانی میں تین کاف کا، کہ، کسی یکجاہوگئے ہیں“۔

۶۔ اشعار کاوہی مفہوم عموماً لکھاگیاہے جس پر شعر کے الفاظ، ظاہری طورپر دلالت کرتے ہیں ایسی قیاس آرائی کو دخل نہیں دیاگیاہے جس کا تعلق شرح لکھنے والے کی اپنی جولانیئ طبع او رنکتہ آرائی سے ہوتاہے۔

۷۔ اس شرح کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انہو ں نے کلام غالب کے سارے الفاظ کی بہ استناد صراحت کردی ہے۔ خواہ وہ الفاظ آسان ہوں کہ مشکل اور ساتھ ہی متروک الفاظ کی بھی نشاندہی کی ہے۔ اس شرح سے مدد لے کر فرہنگِ غالب مرتب کی جاسکتی ہے۔

۸۔ غزل کی زبان اشارات کی زبان ہے۔ ان اشارات کا زندگی پر کب؟ کہاں اور کیسے اطلاق ہوتاہے جب تک اس کی وضاحت نہ ہو شعر کا صحیح عرفان حاصل نہیں ہوسکتا۔ ضامن کنتوری نے اس کی پوری کوشش کی ہے کہ ہر شعر کو زندگی کی تجربہ گاہ میں لاکے دیکھیں۔ مبالغہ آمیز اور پیش پا افتادہ تجربات پر انہوں نے صاف اعتراض کردیاہے۔ غالب کے اس مشہور شعر پر انہو ں نے بڑی سخت تنقید کی ہے:

پلادے اوک سے ساقی جو مجھ سے نفرت ہے

پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے، شراب تو دے

ان کی تنقید نہ لسانی ہے نہ فکری بلکہ طبقاتی تہذیب پر ہے۔طویل تشریح کے بعد دو ٹوک لہجے میں کہتے ہیں ”بہرحال یہ شعر کہنے کا نہیں تھااو رنہ اِسے شعر کہہ سکتے ہیں ہاں نظم واقعہ ہے“ اسی غزل کے مقطع پر طباطبائی نے محاورے اور زبان کی بحث کی ہے۔ ضامن کنتوری نے زبان اور محاورے کا کوئی مسئلہ نہیں اٹھایا بلکہ صاف صاف کہہ دیاکہ ”یہ بھی غزل کا شعرنہیں ہے اور کسی واقعہ پر مبنی معلوم ہوتاہے۔اگر غالب کہنا چاہتے تو اس سے بہتر پہلو نکال سکتے تھے“۔

ان اشارات سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ ضامن کا تنقیدی نقطہ نظر زندگی سے دوری پسند نہیں کرتااو ریہ بھی کہ وہ غالب سے مرعوب نہیں بلکہ انہیں اصلاح دینے کی جرأت بھی کرسکتے ہیں اور بھی کئی اشعار کی شرح میں یہی ان کا واضح اور متاثر کن رویہ ہے۔

۰۱۔ ایک اور شعر ہے جس کی شرح میں وہ غالب پر اعتراض کرتے ہیں۔ شعر ہے:

نہ پوچھ حال، شب و روز ہجر کا غالب

خیالِ زلف و رخِ دوست صبح و شام رہا

شرح میں صرف اتنا لکھتے ہیں ”زلف و رخ کو شب و روز سے تشبیہہ دینا مقصود ہے“ آگے کڑا اعتراض کرتے ہیں کہ ”او ریہ تشبیہہ درجہ ابتذال کو پہنچ گئی ہے“ یعنی تشبیہہ کے اس گئے گزرے معیار کی وہ غالب سے توقع نہیں رکھتے اس لیے اس کی مزید تشریح بھی انہوں نے گوارانہیں کی۔

۱۱۔ ضامن کنتوری نے بعض اشعار کی تعریف میں بھی کوئی کمی نہیں کی ہے۔ کہیں کہیں پوری غزل کوبھی سراہاہے۔اس تعریف و تحسین میں انہو ں نے فنی محاسن کے ساتھ ساتھ جذباتی بہاؤ کو بھی پیش نظر رکھاہے۔ اس موقع پر غالب کی مشہور غزل ”کوئی دن اور“ کی مثال دی جاسکتی ہے۔ لکھتے ہیں ”غالب کی یہ غزل جذباتی شاعری کی بے نظیر مثال ہے، صرف یہی ایک غزل کسی شاعر کے کمال شاعری اور صحتِ ذوق کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے‘ ایک اور شعر:

غم کھانے میں بودا دل ناکام بہت ہے

یہ رنج کہ کم ہے مئے گلفام بہت ہے

اس میں بندش کی تعریف کی ہے”اس شعر کی بندش مستحق ہزار آفریں ہے اگرچہ ہے کچھ نہیں، صرف لفظوں کی الٹ پھیر ہے“

۲۱۔ بعض فلسفیانہ اور صوفیانہ مزاج کے اشعار کی تشریح میں گئے بغیر صرف شعر کی ندرت زبان و بیان کی تعریف کردی ہے جیسے اس شعر کی شرح:

قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل

کھیل لڑکوں کا ہوا دیدہئ بینا نہ ہوا

میں طباطبائی نے بھی اختصار سے کام لیاہے۔ ضامن کنتوری نے صرف ایک ترکیب کی وضاحت کی ”دیدہئ بینا چشم عارف“ اور صرف اتنا کہہ دیا مضمون پرانا ہے مگر بندش نئی اور بالکل نئی ہے۔

۳۱۔ شرح نویسی میں ضامن کنتوری کا بنیادی رجحان نفس مضمون تک پہنچنے کا ہے اس کے لیے مشکل الفاظ کے معنی دیے ہیں پھر اصطلاحات، تلمیحات، تراکیب اور روایات کی وضاحت کی ہے لیکن جہاں انہوں نے ایسی وضاحت کو ضروری نہیں سمجھا وہاں صرف نفس مضمون کی طرف اشارہ کردیا۔ کہیں صرف اصطلاحات کی وضاحت کرکے بات ختم کردی جیسے یہ شعر:

نامہ بھی لکھتے ہو تو بہ خطِ غبار، حیف

رکھتے ہو مجھ سے اتنی کدورت ہزار حیف

شرح کے بغیر اتنا لکھ دیا ”خط غبار اقسام خط سے ہے جن کی پاشانی میں غبارکی صورت پیدا ہوتی ہے جیسے خط ریحان، خط گلزار، خط طغرا وغیرہ“

۴۱۔ شرح نویسی کے دوران جہاں جہاں املا، تلفظ اور نئے الفاظ کے تعارف کے مسائل آئے ہیں وہاں وہاں انہوں نے ان مسائل کی تشریح بھی کردی ہے۔ مثلاً ’پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے‘کے قطع کی تشریح میں جو بحث کی ہے وہ قابل توجہ ہے۔

۵۱۔ نسخہئ حمیدیہ کے بعض اشعار پر جنہیں متداول دیوان میں شامل نہیں کیاگیا”نظری“ کرنے کے اسباب کی تلاش بھی کی ہے جیسے مندرجہ ذیل شعر میں تشریح کے بعد ”شعر کو نظری کرنے کا باعث“ بتلایاہے:

شوخیئ مضراب جولاں آبیار نغمہ ہے

ہر گریز ناخن مطرب بہار نغمہ ہے ”شعر کو نظری کرنے کا باعث یہ معلوم ہوتاہے کہ جولاں مصدر ہے۔ اس کو صفت (اسم فاعل) کی جگہ استعمال کیاہے لیکن چاہتے تو پس و پیش سے سیدھا کرلیتے اس طرح: شوخی، جولانِ مضراب… الخ“

۶۱۔ ضامن کنتوری نے قواعد کنتوری دو جلدوں میں لکھی ہے جس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ اس فن میں ان کی نظر کتنی گہری ہے۔ شاید اسی لیے جہاں جہاں موقع ملتاہے فن عروض کے رموز اور فصاحت و بلاغت کے مسائل بیان کرنے سے بھی وہ نہیں چوکتے۔ شارحین غالب میں یہ جرأت مندانہ رویہ سب سے پہلے ہمیں طباطبائی کے یہاں ملتاہے۔ ضامن کنتوری بھی اس معاملے میں طباطبائی سے کم نہیں۔ ایسے میں وہ تشریح کی طرف زیادہ دھیان نہیں دیتے چنانچہ

بہ نالہ حاصل دل بستگی فراہم کر

متاع خانہئ زنجیر کی صدا معلوم

اس شعر کی تشریح پر اتنی توجہ نہیں کی جتنی فکر سخن کے مراحل پر۔ آمد و آورد کے مسئلے پر ایک تفصیلی بحث کے علاوہ فصاحت و بلاغت کے رموز کی تشریح کرتے ہوئے شعر کے مدارج متعین کیے ہیں۔ فصاحت و بلاغت کی مختصر اور دلچسپ تعریف اس طرح کی ہے ”بلاغت سوچو اور لکھو، فصاحت لکھو اور سوچو“ پھر کلام کی سجاوٹ کے لیے زرین مشورہ دیتے ہیں کہ اپنے کلام پر کلام غیر کی طرح نکتہ چینی کے لیے دماغ کو آمادہ کریں“ ان تمام مسائل کے منجملہ شعر کی تشریح چار پانچ صفحات پر محیط ہے۔

عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے

کہ اپنے سائے سے سر پانو سے ہے دو قدم آگے

اس شعر کی شرح میں تقطیع کرتے ہوئے عروضی بحث کی ہے اور تعقید پر اعتراض کیاہے۔ بحث ملاحظہ ہو۔

”عجب نشا=مفاعیلن؛تَ سِ جلّا=فعلاتن؛ دَ کے چلے= مفاعلن؛ ہَ ہم آگے= فعلاتن بحر محتبث مثمن مجنون الارکان۔ اصل اس بحر کی دایرہ میں مُس تفع لن فاعلاتن فاعلاتن ہے۔ فارسی والوں نے آخری رکن کو گراکر مس تفع لن فاعلاتن کو چاربار کرلیا۔ اس طرح یہ چھ رکن کی بحر آٹھ رکن ہوگئی یعنی مُس تفع لن فاعلاتن مس تفع لن فاعلاتن ایک مصرع اور پھر مُس تفع لن فاعلاتن مُس تفع لن فاعلاتن دوسرا مصرع۔ اس غزل کے وزن میں زحاف خُبن کا عمل کیاہے یعنی مُس کا س اور فا کی الف ہر جگہ سے گرادیا ہے۔ نشاط=بالفتح خوشی و شادمانی۔ پہلے مصرع میں نہایت ناگوار تعقید واقع ہوئی ہے۔ کہتا ہے کہ ہم کو اپنے قتل کی ایسی خوشی ہے کہ مقتل جارہے ہیں تو ہمارے سرکاسایہ پانو کے سائے سے دو قدم آگے آگے چلتاہے۔ اگر آفتاب رہرو کی پشت پر ہوتو سایہ سامنے پڑتاہے۔ اس کیفیت سے شاعر نے یہ مضمون پیداکیاہے جو ایک لطیفہ شاعرانہ ہے“۔ ”اسی طرح اڑتی پھرے ہے خاک مری کوے یا رمیں“ کی شرح میں حشو کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔

۶۱۔ غالب کے دیوان کا مطلع غالب فہمی میں بڑی اہمیت رکھتاہے۔ تمام شارحین نے اسے اپنے اپنے طورپر سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔خود مرزا غالب نے سب سے پہلے اس طرف توجہ کی اس کے باوجود شارحین کو کہنا پڑا ”المعنی فی باطن الشاعر“ عقدہ کھلا کہ عقدہ نہیں کھلا۔ ضامن کنتوری نے اس شعر کی تہہ داری اور لفظوں کی پرتیں کھولنے کے بجائے صرف لفظ ”نقش“ پر فکر کو مرکوز کیاہے۔ نقش پرہستی کا اطلاق کرکے عالم مشیت کی عقدہ کشائی کی ہے۔ دیگر شارحین نے اس شعر کے ایک ایک لفظ سے بحث کی ہے اس کے باوجود شعر سلجھنے کے بجائے الجھتا ہی گیا۔ ضامن کنتوری نے صرف ایک متصوفانہ پہلو پر غور کیاہے۔ طویل بحثوں سے قطع نظر طباطبائی کا نام لئے بغیر کہہ دیاکہ ”نقش اپنی ہستی کی بے اعتباری او ربے توقیری کا شاکی ہے پھر اب اعتراض ہی کیاباقی رہا“

۸۱۔ جہاں صوفیانہ مسائل آئے ہیں ضامن کنتوری ان کی بڑی تفصیل میں نکل گئے ہیں احادیث و آیات سے مدد لے کر صوفیانہ مسائل کی وضاحت کی ہے۔ کئی جگہوں پر صوفیانہ اصطلاحات اور استعاروں کے روایتی استعمال کا مذاق بھی اڑایاہے۔جیسے

شکستِ رنگ کی لائی سحر، شبِ سنبل

پہ زلفِ یار کا افسانہ ناتمام رہا

اس شعر کی تشریح کے بعد مصرع اولی کی تازہ ونادر ترکیب کی تعریف کرتے ہوئے زلف دراز کے افسانے کی حیثیت کے بھید کھولتے ہوئے لکھتے ہیں ”یہ شعرائے متصوفین کی نہایت بھونڈی نقالی ہے۔ ان کی اصطلاح میں زلف سے مراد صفات باری ہیں۔ زلف ان معنوں میں ہوتو اس کی درازی کا حساب ہی کیا۔ صفات باری کی داستاں کہیں ختم بھی ہوسکتی ہے“

قطرہ میں دجلہ دکھائی۔۔۔الخ والے شعری میں صرف اتنا لکھ دیتے ہیں کہ مضمون پراناہے مگر بندش نئی اور بالکل نئی ہے۔

مرزا غالب مستقبل کے نقیب ہیں۔ ان کے اشعار جتنے کھلتے جاتے ہیں اتنے ہی الجھتے بھی جاتے ہیں۔اسی لیے جتنی شرحیں غالب کی منظرعام پر آئی ہیں اتنی آج تک اردو کے کسی شاعر کی نہیں لکھی گئیں۔ ضامن کنتوری کی یہ شرح سات نوٹ بکس کے (۸۰۳۱) صفحات پر مشتمل ہے۔ پہلی دو جلدیں نہایت صاف اور خوش خط لکھی ہوئی ہیں تیسری جلد کی دوکاپیاں ہیں۔ جن میں شامل تشریحات کی جگہ جگہ تصحیح، ترمیم اور اضافہ کیاہے۔ کچھ حصوں کو قلم زد بھی کردیاہے۔ چوتھی جلد میں (۶۷۳) غزلیات کا حصہ تمام ہوتاہے اسی جلد کے آخری آٹھ صفحات پر قصائد و متفرقات کا سلسلہ شروع ہوتاہے جو پانچویں جلد پر ختم ہوتاہے اس کے آخری صفحہ (۸۰۳۱) پر ترقیمہ میں ہجری فصلی اور عیسوی تاریخِ تکمیل دی گئی ہے۔ عیسوی تاریخ ۵۲دسمبر ۴۳۹۱ روز سہ شنبہ ہے پیش حرف میں انہو ں نے صاف صاف لکھاہے کہ سرسٹھ سال کی عمر میں یہ شرح لکھی گئی ہے تو اس حساب سے ان کا سنہ پیدایش ۷۶۸۱ ہوتاہے۔ اس شرح کی تکمیل کے تقریباً دس سال بعد یعنی ۴۴۹۱، ستہتر برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوتاہے۔

ضامن کی شرح کا یہاں جو تعارف پیش کیاگیاہے وہ انتہائی مختصر مگر کئی لحاظ سے ضروری تھا۔اس اختصار میں بہت سی خوبیاں زیر بحث آنے سے رہ گئیں تفصیل کے خیال سے نمونے اور حوالے بھی زیادہ نہیں دیے جاسکے مگر ان اشاروں سے شارح کے علمی مقام و مرتبہ، غالب فہمی میں ان کی پیش رفت کا اندازہ ہوتاہے۔ یہ ضخیم شرح ضامن کنتوری کو غالبیات کے میدان میں ہمیشہ زندہ رکھے گی۔

عہد غالب کے کلکتہ کی اہم ادبی اور سیاسی شخصیات

شمیم طارق

عہد غالب کے کلکتہ کی اہم ادبی اور سیاسی شخصیات

۸۲/ نومبر ۵۲۸۱ء کو نواب احمد بخش خاں کی معیت میں غالب، سر چارلس مٹکاف اور ان کی فوجوں کے ہمراہ دہلی سے بھرت پور کی طرف روانہ ہوئے۔ یہی ان کے سفر کلکتہ کا آغاز ہے کہ اس سفر کو ختم کرکے وہ ۹۲/ نومبر ۹۲۸۱ء کو ہی دہلی پہنچے۔ ان کے کلکتہ پہنچنے کی تاریخ تو اور بعد کی یعنی ۹۱/ یا ۱۲/ فروری ۸۲۸۱ء ہے۔ کالی داس گپتا رضا نے غالب کے سفر کلکتہ کی جو توقیت تیار کی ہے اس میں انھوں نے غالب کے ایک خط کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ ۵۱/ اگست کو کلکتہ سے دہلی کے لیے روانہ ہونے والے تھے مگر وسط اکتوبر تک انھیں یہ سفر ملتوی کرنا پڑا۔ ۱؎ تاریخوں میں اختلاف ہوسکتا ہے مگر یہ تو طے ہے کہ غالب جتنی مدت کلکتہ میں قیام پذیر رہے اس کو ”عہد“ نہیں کہا جاسکتا، عہد تو ایک خاص عرصہ، طویل مدت یا زمانہئ حکومت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اس لیے عہد غالب سے وہ پورا زمانہ مراد لینا ضروری ہے جو غالب کی پیدائش (۷۲/ دسمبر ۷۹۷۱ء) سے موت (۵۱/ فروری ۹۶۸۱ء) تک کو محیط ہے۔

اس عہد کی خاص شخصیتوں کا ذکر کرنے سے پہلے چند اہم باتوں یا خصوصیتوں کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ پہلی یہ کہ ۹۹۷۱ء میں ٹیپو سلطان کو شکست دینے اور ان کی سلطنت کو ختم کردینے کے بعد اول پچیس برسوں میں انگریز اپنے اقتدار کے پائے مستحکم کرتے رہے۔ دوسری یہ کہ ۴۱۸۱ء سے ۷۵۸۱ء کے درمیانی عہد میں انگریزوں کو برما اور سکھ فوجیوں کے علاوہ سیّد احمد شہید کے معتقدین اور افغان مجاہدین سے جنگیں لڑنی پڑیں۔ اس لیے اس کو انگریزوں کے اضطراب و بے چینی کا زمانہ کہا جاسکتا ہے۔

تیسری یہ کہ اس مدت میں تحریک اصلاحِ مذہب اپنا دائرۂ اثر بڑھاتی رہی۔ چوتھی یہ کہ اس دوران بنگلہ زبان کا ادب جو فورٹ ولیم دور، راجہ رام موہن رائے دور، نوجوان بنگال اور سم واد پربھاکر دور اور پھر ودیا ساگرتتوبودھنی دور پر محیط ہے اور جو ۵۱۸۱ء سے ۶۵۸۱ء تک پھیلا ہوا ہے ایک تخلیقی کرب سے گزر رہا تھا جس کے انقلابی نتائج برآمد ہوئے۔ ان چاروں خصوصیتوں کے حوالے سے کلکتہ میں کئی اہم شخصیات کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ مگر ایک مضمون میں سب کی نشاندہی کرنا ممکن نہیں ہے۔

اردو زبان و تہذیب کے پس منظر میں یہ باور کرایا جاسکتا ہے کہ جنگ پلاسی کے بعد جب انگریزوں نے بنگال کو اپنے مستقر کی حیثیت دی، فورٹ ولیم کالج کا دائرۂ اثر بڑھا، شاعروں اور ادیبوں کے اجتماع نے کلکتہ کو دہلی اور لکھنؤ کے لیے قابل رشک بنایا تو کلکتہ کے علاوہ فرید پور، چاٹگام، ڈھاکا، منشی گنج، ھوگلی، پنڈوہ اور مالدہ وغیرہ میں اردو شاعروں اور ادیبوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ صرف کلکتہ کے اردو شاعروں اور ادیبوں کے حوالے سے جو نام لیے جاسکتے ہیں ان میں مولوی عبدالکریم آشنا، راجہ جنم جی متر ارماں، مولوی عبدالصمد عرف محبوب جانِ اعظم، پنڈت جوالہ ناتھ آگہ، مولوی وجہہ اللہ خاں داغ، منشی اتواری لعل ذرہ، منشی مسیح الدین تمنا، راجہ راج کشن راجہ، سیف اللہ سیف، منشی عبدالسبحان شاکر، مغل جان شور، اسحق یہودی عبری، منشی قادر بخش، بابو کشن چند گھوش، راجہ پورب کشن بہادر کنور، عالم علی خاں مست، سید محمود مسرور، فرزند علی مسلم، میاں محمد حسین مشہور، منشی عبدالرحمن مواج، عباس علی نایاب، مولوی محمد علی وحدت، مولوی محمد عبدالروؤف وحید، راجہ کشن بہادر مشفق وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔

یہاں انقلابیوں اور سماجی مذہبی اصلاح پسندوں کی ایک جماعت بھی ایک زمانہ سے سرگرم تھی۔ مثلاً کلکتہ کے گرد و نواح اور بنگال کے دور دراز علاقوں میں سنیاسیوں کی بغاوت (۰۰۸۱ء – ۳۶۷۱ء) یا چواروں کی شورش (۹۰۸۱ء – ۷۶۷۱ء) اس وقت جاری تھی جب غالب کے پاؤں پالنے میں پڑ چکے تھے۔ ایسے معمر لوگ بھی ان کے زمانے میں موجود تھے جو ان بغاوتوں یا شورشوں کو غلط نہیں سمجھتے تھے۔ سنتھالیوں نے تو ۵۵۸۱ء میں اس وقت بغاوت کی تھی جب غالب کی ’مہر نیم روز‘ (۵ – ۴۵۸۱ء) تین بار شائع ہوچکی تھی۔ سماجی اور مذہبی مصلحین میں راجہ رام موہن رائے (۳۳۸۱ء – ۲۷۷۱ء)، ہنری لوئس ویویان ڈیروزیو (۱۳۸۱ء – ۹۰۸۱ء) دیبیندر ناتھ ٹیگور (۵۰۹۱ء – ۷۱۸۱ء)، ایشور چند ودیا ساگر (۱۹۸۱ء – ۰۲۸۱ء)، بنکم چندر چٹوپادھیائے (۴۹۸۱ء – ۸۳۸۱ء)، مائیکل مدھو سودن دت (۳۷۸۱ء – ۴۲۸۱ء)، دین بندھو مترا (۵۰۹۱ء – ۷۱۸۱ء)، سائنس دانوں میں مہندر لال سرکار (۴۰۹۱ء – ۳۳۸۱ء) کلکتہ کے اس دور کی اہم شخصیات ہیں۔ ان کی طبیعتوں اور سرگرمیوں میں فرق کی نشاندہی کی جاسکتی ہے مگر سب نے غالب کے عہد کا ایک حصہ پایا اور الگ الگ شعبوں میں غیر معمولی ذہانت کے سبب شہرت حاصل کی۔ کوئی تعجب کرسکتا ہے کہ مرزا قتیل یا ان کے شاگردوں کے نام یہاں نہیں لیے گئے مگر اس اعتراض سے پہلے ’نقد غالب‘ مرتبہ مختار الدین احمد میں شامل قاضی عبدالودود کی تحریر کا ذہن میں ہونا ضروری ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر غالب نے صاحب ’برہانِ قاطع‘ کے تعلق سے وہ رویہ نہ اختیار کیا ہوتا جو اختیار کیا تو مرزا قتیل اتنا مشہور نہ ہوتے۔ غالب کلکتہ اس لیے گئے تھے کہ اپنے لاولد چچا کا وارث ہونے کے سبب اس پنشن میں اضافہ کراسکیں جو انھیں نواب احمد بخش خاں کے توسط سے ملا کرتی تھی مگر پوری نہیں۔ پنشن کی پوری رقم نہ ملنے کی وجہ یہ تھی کہ نواب احمد بخش خاں نے پنشن پانے والوں میں مرزا حاجی (خواجہ حاجی) کا نام شامل کروا دیا تھا۔ خواجہ حاجی غالب کے خاندان کے ملازم تھے مگر چونکہ ان کی شادی مرزا جیون بیگ کی بیٹی اور مرزا اکبر بیگ و مرزا افضل بیگ کی بہن امیر النساء بیگم سے ہوئی تھی اس لیے ان کا رتبہ بڑھ گیا تھا مگر غالب کا یہ کہنا درست تھا کہ وہ پنشن کے حصہ دار نہیں۔ پنشن کی رقم کم ملنے کے سبب وہ معاشی تنگی اور بھائی مرزا محمد یوسف کی دیوانگی کے سبب کئی مصیبتوں میں گھرے ہوئے تھے اس لیے وہ کلکتہ میں کچھ لوگوں سے ملے تو ضرور، حتی کہ خواجہ حاجی کے برادرِ نسبتی مرزا افضل بیگ سے بھی ملے، کچھ مشاعروں میں بھی شریک ہوئے مگر ان کی تمام تر توجہ اپنے مقصد پر مرکوز رہی۔ وہ کلکتہ پہنچے تو باندہ کے صدر امین دیوان محمد علی کا ھوگلی کے نواب سید اکبر علی خاں طباطبائی کے نام سفارشی خط ان کے ساتھ تھا نواب نے ہی ان کی مہمانداری اور مدد کی۔

۸۲/ اپریل ۸۲۸۱ء کو انھوں نے گورنر جنرل کو مفصل عرضی پیش کی۔ مختلف انگریز افسروں سے ملاقات کی جدوجہد کی اور ان کی مدح میں اشعار بھی کہے مگر وہ مقصد پورا نہ ہوا جس کے لیے وہ کلکتہ پہنچے تھے۔ غالب کو کلکتہ تو بہت پسند آیا، اس کا انھوں نے جابجا شعروں اور خطوں میں ذکر بھی کیا ہے مثلاً

• غالب نے اپنے ایک قطعہ میں جس کا پہلا مصرع ”کلکتے کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں“ ہے کلکتہ کے ’سبزہ زار‘، ’نازنیں بتانِ خود آرا‘، ’میوہ ہائے تازۂ شیریں‘ اور ’بادہ ہائے نابِ گوارا‘ کا ذکر تو اہتمام سے کیا ہے مگر اس اہتمام سے کسی شخصیت کا ذکر نہیں کیا ہے۔

• غالب نے وہ قطعہ جس کا پہلا مصرع

ہے جو صاحب کے کف دست پہ یہ چکنی ڈلی

ہے، کے بارے میں حاتم علی مہر کو اواخر نومبر ۸۵۸۱ء میں خود ہی لکھا تھا کہ

”…. میں نے کلکتے میں کہا تھا۔ تقریب یہ کہ مولوی کرم حسین صاحب میرے ایک دوست تھے انھوں نے ایک مجلس میں چکنی ڈلی بہت پاکیزہ اور بے ریشہ اپنے کف دست پر رکھ کر مجھ سے کہا کہ اس کی تشبیہات نظم کیجیے۔ میں نے وہاں بیٹھے بیٹھے نو دس شعر کا قطعہ لکھ کر ان کو دیا اور صلے میں ڈلی ان سے لی۔“ ۲؎

وہ شخصیت یعنی مولوی کرم حسین جنھوں نے غالب سے چکنی ڈلی پہ اشعار کہلوائے کوئی غیر اہم شخصیت نہیں ہوسکتی۔ بعد میں یعنی غالب کے کلکتہ سے واپس آنے کے بعد شاہِ اودھ واجد علی شاہ اختر یہاں جلا وطن کرکے لائے گئے۔ اس واقعہ کی تاریخی حیثیت سے انکار ممکن نہیں۔ مولانا عبدالحلیم شرر نے اس دور کے ’مٹیا برج‘ کو جب شاہِ اودھ واجد علی شاہ اختر وہاں مقیم تھے دوسرا لکھنؤ کہا ہے۔ یہ قیام دو چار روز کا نہیں ۲۳، ۳۳ سال کا تھا۔ یہاں انھیں اس شک کی بنیاد پر گرفتار بھی کیا گیا کہ کہیں ۷۵۸۱ء کے مجاہدین انھیں اپنی تحریک میں شامل نہ کرلیں۔ واجد علی شاہ نے یہ تفصیلات اپنی مثنوی ”حزنِ اختر“ میں خود بیان کردی ہیں۔ فورٹ ولیم کے قید خانے میں وہ ۵۱/ جون ۷۵۸۱ء سے ۹/ جولائی ۹۵۸۱ء تک رہے۔ اس دوران ان کے اپنوں نے بھی کئی زخم دیے۔ ۱۲/ ستمبر ۷۸۸۱ء کی شب میں آخری سانس لی۔

عبدالغفور نساخ (۹۸۸۱ء – ۴۳۸۱ء) کا شمار ان شخصیات میں ہے غالب نے جن کے نام چند خطوط لکھے تھے مگر نساخ کی حیثیت محض غالب کے ایک مکتوب الیہ کی نہیں۔ وہ شاعر بھی تھے اور تذکرہ نویس بھی، نقاد بھی تھے اور نصاب کی کتابوں کے مؤلف بھی، اس کے علاوہ وہ ایک خود نوشت کے مصنف بھی ہیں۔ جمیل الدین عالی کے اس تعارف میں مبالغہ نہیں کہ

”مولوی عبدالغفور نساخ نہ دہلوی تھے نہ لکھنؤی، نہ دکنی نہ لاہوری، وہ مستند اور خاندانی بنگالی تھے مگر اردو کے اہم ستونوں میں شمار ہوتے ہیں۔“ ۳؎

سخن شعراء قطعہئ منتخب، تذکرۃ المعاصرین، قند پارسی اور زبان ریختہ کے نام سے نساخ نے پانچ تذکرے مرتب کیے تھے۔ نساخ نواب عبداللطیف کے چھوٹے بھائی تھے، وہ بھی اپنے بڑے بھائی کی طرح مجسٹریٹ ہونے کے علاوہ دوسرے عہدوں پر فائز ہوئے۔ ان کی شادی مغل شاہزادے مرزا ہمایوں بخت کی صاحبزادی سے ہوئی تھی۔ شادی سے تقریباً ایک سال پہلے ہی ان کا دیوان ’دفتر بے مثال‘ کلکتہ کے ’مظہر العجائب پریس‘ سے شائع ہوچکا تھا۔ انھوں نے یہ دیوان غالب کو بھیجا بھی تھا جس کی رسید کے طور پر غالب نے جو تعریفی خط لکھا تھا نساخ اس کو اپنے لیے سند سمجھتے تھے۔ ۸۶۸۱ء میں تپ دق کے علاج کے لیے جب وہ دہلی گئے تو غالب سے بھی ملاقات کی۔ جنوری ۰۷۸۱ء میں جب غالب کا انتقال ہوچکا تھا، علاج کی غرض سے ہی وہ دوبارہ دہلی آئے تو غالب کی سونی پڑی ڈیوڑھی کا دیدار کیا۔ نساخ کے معاصر اور دوستوں میں سید محمد عصمت اللہ انسخ کا نام بھی آتا ہے۔ ۳۶۸۱ء میں مٹیا برج کے ایک مشاعرے میں دونوں کی شرکت کی روایت موجود ہے۔ یہاں کے لکھنوی شعراء سے ان کی نوک جھونک بھی ہوئی تھی۔

یہ تو محض چند نام بلکہ اشارے ہیں۔ عہد غالب کے کلکتہ کی مشہور ادبی اور سیاسی شخصیات کی فہرست بہت طویل ہے۔ سوامی وویکانند (۲۰۹۱ء – ۳۶۸۱ء)، رابندر ناتھ ٹیگور (۱۴۹۱ء – ۱۶۸۱ء) اور جگدیش چندر بوس (۷۳۹۱ء – ۸۵۸۱ء) اگرچہ کلکتہ میں ہی پیدا ہوئے تھے اور کلکتہ کے علاوہ عالمی سطح پر بھی ناموری حاصل کی تھی مگر جب غالب نے دارِ فانی سے کوچ کیا (۹۶۸۱ء) تو ان کی عمر بہت کم تھی اس لیے یہاں کلکتہ کی مشہور ادبی سیاسی شخصیات میں ان ہی کا ذکر کیا گیا ہے جن کی عمر غالب کے انتقال کے وقت کم سے کم ۵۲ برس کو پہنچ چکی تھی یا اس سے زیادہ تھی یا وہ دنیا سے کوچ کرچکے تھے۔ ان میں پہلا نام راجہ رام موہن رائے (۸۳۸۱ء – ۲۷۷۱ء) کا ہے جنھوں نے رسالے لکھے، ویدانت کا ترجمہ کیا، مذہبی مباحثے کیے، دس سال تک کمپنی کی ملازمت کرنے کے بعد ۴۱۸۱ء میں ’آتمیہ سبھا‘ قائم کی۔ ستی، توہم پرستی اور مورتی پوجا کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ عوامی فلاح کے کئی کام کیے۔ وحدانیت کے حامی راجہ رام موہن رائے نے ۸۲۸۱ء میں برہمو سماج کی بنیاد ڈالی۔

ہنری لوئس ویویان ڈیروزیو (۱۳۸۱ء – ۰۹۸۱ء) آپ کی پیدائش ایک یوریشین خاندان میں ہوئی تھی۔ کلکتہ میں تعلیم پائی اور ذہین طالب علم ہونے کا ثبوت دیا۔ وہ صرف ۲۲ سال کی عمر میں انتقال کرگئے مگر بنگال کے نوجوان طبقے کو اس طرح بیدار کرگئے کہ آج بھی ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ انھوں نے تقلید اور سماجی نا انصافی کے خلاف آواز بلند کی جس سے نوجوان طلبا کی ایک جماعت بن گئی جو ’ڈیروزی‘ کہلاتے تھے۔ وہ سنسکرت کالج میں مدرس ہوئے، صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔ ’ایسٹ انڈین‘ نامی اخبار جاری کیا۔ ان پر نوجوان طلبا کا اخلاق بگاڑنے کا الزام عائد کرکے استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا گیا۔

ایشور چندر ودیا ساگر (۱۹۸۱ء – ۰۲۸۱ء) غریبوں اور بے کسوں کے دوست تھے اور ملک میں ایسی تعلیم کے فروغ کے لیے جدوجہد کررہے تھے جو یورپ کی عقل پرستی پر مبنی ہو حالانکہ وہ سنسکرت کالج کے فارغ التحصیل اور اپنشدوں کے ایسے شارح تھے جس میں مسلک انسانیت کو مقدم رکھا گیا تھا۔ انھوں نے بھی کئی فلاحی کام بلکہ کارنامے انجام دیے۔

ایلن آکٹیون ہیوم (۲۱۹۱ء – ۹۲۸۱ء) اگرچہ اسکاٹ لینڈ میں پیدا ہوئے تھے مگر ۹۴۸۱ء میں بنگال سول سرورس میں لے لیے گئے تھے اور سماجی برائیوں کو دور کرنے کی طرف خصوصی توجہ دے رہے تھے۔ ۲۸۸۱ء میں انھوں نے کلکتہ یونیورسٹی کے گریجویٹس کو جمع کرکے انھیں تحریک دلائی تھی کہ وہ اپنے ملک کو آزادی دلائیں۔ ۵۸۸۱ء میں جب کانگریس کا قیام عمل میں آیا تو وہ خود لندن گئے اور انگریزوں میں کانگریس کو مقبول بنانے کی کوشش کی۔ وہ کانگریس کے جنرل سیکریٹری بھی ہوئے اور آخری سانس تک ہندوستان کی آزادی اور ہندوستانیوں کی فلاح کے لیے سرگرم رہے۔

رام کرشن پرم ہنس (۶۸۸۱ء – ۸۳۸۱ء) ھوگلی کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے اور ۱۲ سال کی عمر میں ۴۲ پرگنہ میں کالی مندر کے پروہت ہوگئے۔ آپ کے معتقدین میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعداد زیادہ تھی۔ آپ نے ان میں خود داری و خود اعتمادی کا احساس پیدا کیا۔ وہ تمام مذاہب کی سچائی کو تسلیم کرتے تھے۔ ان کو یقین تھا کہ مخلوق کی بے غرض خدمت خدا کی بے غرض خدمت ہے۔

بنکم چندر چٹوپادھیائے (۴۹۸۱ء – ۸۳۸۱ء) نے بنگلہ میں نثر نگاری کا معیار قائم کرنے کے ساتھ کئی تاریخی اور سماجی ناول لکھے اور قوم پرستی کے ایک خاص مزاج کی ترویج و اشاعت کی۔ ’بندے ماترم‘ ان ہی کی تخلیق ہے۔ انھوں نے یورپ کے سوشلسٹ مفکرین سے متاثر ہوکر معاشی اور معاشرتی مساوات کے لیے بھی جدوجہد کی۔ ومیش چندر بنرجی (۶۰۹۱ – ۴۴۸۱ء)، راش بہاری گھوش (۱۲۹۱ء – ۵۴۸۱ء)، دیبیندر ناتھ ٹیگور (۵۰۹۱ء – ۷۱۸۱ء)، موتی لال گھوش (۲۲۹۱ء – ۷۴۸۱ء)، مہندر لال سرکار (۴۰۹۱ء – ۳۸۸۱ء) کے علاوہ کئی اور نام بھی اس فہرست میں شامل کیے جاسکتے ہیں مگر یہاں جتنے نام لیے گئے ہیں یا اشارے کیے گئے ان سے بھی واضح ہوجاتا ہے کہ عہد غالب کے کلکتہ میں مختلف شعبہئ حیات سے تعلق رکھنے والی ایسی شخصیات کی پوری کہکشاں موجود تھی جنھوں نے مستقبل کے ہندوستان کی تعمیر کے تصور کو عمل میں ڈھالنے کی راہ استوار کی۔ غالب کے عہد میں کلکتہ صنعتی اور تمدنی ترقی کی اس راہ پر گامزن ہوچکا تھا جس راہ پر بعد میں پورے ہندوستان کو خاص طور پر آزاد ہندوستان کو گامزن ہونا تھا۔

حواشی

۱۔ کالی داس گپتا رضا غالب درون خانہ ممبئی ۹۸۹۱ء ص ۰۹

۲۔ کالی داس گپتا رضا دیوان غالب کامل نسخہئ رضا ممبئی ۵۹۹۱ء، ص ۸۷۳

۳۔ جمیل الدین عالی حرف چند مشمولہ ’نساخ – حیات و تصانیف‘ ڈاکٹر محمد صدر الحق کراچی ۹۷۹۱ء، ص ۱

غالب کا سفر اور ان کی تخلیقی زندگی

پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی

غالب کا ایک شعر ہے:
مری تعمیر میں مُضمر ہے،اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برقِ خَرمن کا ہے خونِ گرمِ دہقاں کا
یہ شعر پورے انسانی وجود کا ارشاد ہے۔تفصیل میں جائیے تو فلسفیانہ موشگافیوں کے گورکھ دھندے میں پھنستے چلے جائیں گے لیکن جس شاعرانہ حسن کے ساتھ زندگی کے تجربات کے بارے میں غالب نے اپنے احساس کی شدت کا اظہار کیا ہے۔تعمیر اور خرابی کو برقِ خرمن اور دہقاں کے خون گرم کے استعارے کے ذریعے تاثرات کی ایک وسیع دنیا سامنے آجاتی ہے اور وہیں کہیں ہمیں وہ غالب ملتے ہیں جن کے اردو فارسی خطوط میں خارجی دنیا سے ان کے رشتے اور ان میں کئی مقامات پر ان کی انا کے ساتھ تصادم نظر آتا ہے۔
کسی شاعر کی ز ندگی کے اصل واقعات اور اس کے تخلیقی مزاج کے درمیان رشتہ تلاش کرنا کس حد تک مناسب ہے اور اس کی تخلیقات کو سمجھنے میں کہاں تک کار آمد ہو سکتا ہے۔یہ ایک مستقل سوال ہے جس کا کوئی سیدھا جواب شاید ممکن نہیں۔اس کا ایک عام سبب تو یہی ہو سکتا ہے کہ شاعروں کی اصل زندگی اور ان کی اُس شاعرانہ شخصیت میں جوان کی تخلیقات میں نظر آتی ہے اکثر تضاد ہوتا ہے۔فرائڈ کے مطابق تو زندگی کی نا آسودگیوں کو ہی دراصل اپنے اظہار کی راہ اس کے فن میں مل جاتی ہے۔گویا اس طرح وہ اپنی شخصیت کی تکمیل کرتا ہے۔بہر حال یہ بحث بڑی طویل ہو سکتی ہے مگر سب باتوں کے باوجود کسی جواب سے پورے طور پر تشفی اس لئے نہیں ہوتی کہ اگر کسی شاعر کی زندگی اور شخصیت کے بارے میں بیشتر حقائق سامنے آجائیں تو ان کے اور ان کی تخلیقات کے درمیان کسی نہ کسی قسم کا سلسلہ بھی نظر آتا ہے،خواں وہ کتنا ہی موہوم کیوں نہ ہو اور پھر زندگی کے بہت سے واقعات وحادثات ایسے ہوتے ہیں جنہیں خود شاعر شعوری طور سے فنی روپ دیتا ہے ایسے فن پاروں کا داخلی تجزیہ کیا جائے تو اس میں بہت کچھ ایسا بھی مل سکتا ہے جس کا خاموش محرک وہ واقعہ ضرور تھا،مگر جو اس واقعے سے الگ ہوکر بھی پڑھنے والوں کے ذہن کو دوسری سمتوں میں لے جاتا ہے۔
غالب اتفاق سے ہمارے کلاسیکی شاعروں میں اکیلے شاعر ہیں جن کی زندگی اور شخصیت سے متعلق بہت کچھ معلومات آج فراہم ہو چکی ہیں۔جن میں سے زیادہ تر تو انہوں نے خود اپنے خطوط یا دوسرے بیانات کی شکل میں چھوڑی ہیں۔چنانچہ غالب کا کلام پڑھتے وقت اکثر ذہن ان سمتوں میں سفر کرتا ہے جدھر خود غالب اشارہ کرتے ہیں۔غالب کا وہ سفر جس کی ایک منزل بنارس تھا وہ کلکتہ پر بظاہر تو ختم ہوا مگر دراصل اس کے بعد بھی جاری رہا اور اس طویل سفر میں جوزادِراہ انہوں نے کانپور،باندہ،الہٰ آباد،لکھنؤ اور بھر بنارس میں حاصل کیا وہ آئندہ کے لیے محفوظ ہوتا رہا۔اس زادِ راہ میں دوسروں سے لیا ہوا قرض،لڑھیا، گھوڑا،چھکڑا،اور”بخیل کی طبیعت جیسا مکان“وغیرہ شامل تو ہیں دلچسپ بھی ہیں مگر وہ باہر کی دنیا کے ہیں۔ان سب کے نتیجے میں غالب کے اندروں میں جو کچھ واقع ہو رہا تھا۔وہ ہمارے لیے زیادہ معنی خیز ہے۔
غالب کی نا آسودگی جو اشعار میں ڈھل کر ایک تہ بہ تہ مغنیاتی نظام کو ساتھ لے کر آئی اس کا ایک سبب خارجی دنیا میں ہونے والے واقعات سے ان کی انا کا وہ تصادم تھا جس میں بار بار ان کا احساس مجروح ہوتا مگر جس دولت سے اندر ہی اندر ان کے ذہن ودل کو بے چین رکھ کر ان کی تخلیقی جبلت بھی متحرک ہوتی تھی۔پنشن کے معاملات،جیل کی اذیت ناک اور ذلت آمیز زندگی،قرض خواہوں کے معاملات ہوں۔کلکتہ کا معرکہ پھر فارسی دانوں کی طرف سے ان کی لیاقت پر لعن طعن۔ذوق اور اپنے دوسرے ہم عصروں سے چشمکیں ہوں۔ان سب میں غلطی ان کی ہو یا نہ ہو اُن کی ذاتی زندگی کے دکھوں کا سبب یہی سب باتیں نہیں۔اس نے ان کے اندر اندر ایک حشر برپا کر رکھا تھا جو کبھی انہیں ذلت کے اس احساس پر پہنچا دیتا تھا جس میں شدید طنز بھی تھا۔
سو پشت سے ہے پیشہئ آبا سپہ گرمی
کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے
یہ کیفیت ان کے خطوط میں بارہا آتی ہے۔مگر پھر ان کی انایوں بھی کار فرما تھی:
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخیِ فرشتہ ہماری جناب میں
جس شخص کو اپنے حسب نسب پر اتنا فخر ہو جو غالب کو تھا اورجسے شاعرانہ کمال پر ان جیسا اعتماد ہو،اسے ہر ہر قدم پر ان دونوں پہلوؤں کو نظر انداز ہوتا دیکھے۔پھر بھی اُن پر بار بار اصرار کرے اور اس کے باوجود شکست کھاتا رہے اس کی شخصیت کی اندرونی کیفیت جو آن بان کے ساتھ زندہ رہنے پر بھی مصر ہے۔فقدانِ راحت کی شکوہ گزار رہتی ہے۔وہ جس رئیس سے سرپرستی اور مالی مدد کی اُمید کرتا ہے اس کو نو دولتیہ قرار دے کر اس لیے نظر انداز کر دیتا ہے کہ وہ اُن سے کھڑے ہو کر معانقہ کرنے اور نذرانہ کی رسم معاف کرنے پر تیار نہیں ہوتا ہے۔اسے فاقہ مستی گوارا ہے لکھنؤ کو چھوڑ کر چلا جانا منظو ر ہے مگر وہ پیسہ قبول

کرنا گوارا نہیں جس کی خاطر اُسے اپنا نسلی وقار اور شاعرانہ کمال کم ترہوتا ہوا محسوس ہو۔غالب کے یہ الفاظ ان کے اس مزاج کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں خارجی دنیا میں ان کی انا متصادم ہے مگر اندر اندر وہ اسے سینہ سے لگائے رکھتے ہیں
”……خدا گواہ ہے وہ قصیدہ جو میں نے آغا میر کی مدح میں لکھا ہے،میرے خاندان کے لیے باعثِ رسوائی ہے۔اب لطف یہ ہے کہ قصیدے کے ان اشعار کو کاغذ سے مٹا نہیں سکتا۔نواب مرشد آباد بھی سیّد زادے ہیں۔اس قصیدے کو اُن کے نام سے مشہور کر رہا ہوں۔اگرچہ اُن کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع نہیں ملا لیکن ہمایوں جاہ کی مدح مجھے ناگوار نہیں ہے۔جب تک اس قصیدے کے ممدوح سے مختص اشعار شامل نہ کرلوں۔یہ اشعار کسی کو نہ دکھائیں اور بزرگوں کی طرح چھوٹوں کے عیب پوشیدہ رکھیں۔“
”معانقے کے سلسلے میں ملاقات کے لیے اُن (معتمدالدولہ) کی طرف سے کچھ ایسی باتیں ہوئیں کہ ذہنی معاملے نے عملی صورت اختیار نہیں کی۔چوں کہ اُن معاملات کی وجہ سے جن کا میں نے ذکر کیا ہے۔میرا دل زخمی تھا،نیز طویل اور دشوار مقصد درپیش تھے۔میں نے پاسِ ناموسِ خاکساری کی وجہ سے استغنیٰ سے کام لیا تھا اور اُن نو دولتیوں کے اختلاط سے اپنا دامن بچا لیا۔اگرچہ اُس خواہش کا نقش دل پر باقی نہیں،لیکن وہ تحریر کاغذ پر محفوظ ہے۔چناں چہ ہزیاں نگار قلم سے وہ (عرض داشت) نقل کر رہا ہوں“۔(فارسی سے ترجمہ)
اس طرح خود کو دربار میں پاکر بھی وہ خود کو اس کے حاشیہ نشینوں سے الگ اور دوسروں سے ممتاز قرار دیتے ہیں
نوابوں اور رئیسوں سے اُن کو ہمیشہ اُمید رہتی تھی کہ ان کے اس مرتبے کے مطابق پیش آئیں جس کا شدید احساس خود ان کے مزاج میں اتنا ڈھل گیا تھا کہ اگر اس میں کہیں کوئی کسر دیکھتے تو اس سے ذلت کا احساس اور زیادہ ہوتا۔ان کی مفلسی اس دکھ کو اور بڑھا دیتی ہوگی۔حالات ان کو مجبور کرتے تھے۔کہ وہ ان ہی لوگوں کے پاس جائیں۔اُن سے قصاید کے ذریعے رابطہ بھی قائم کریں اور داد خواہی بھی۔اپنے مرتبے کی بلندی کا احساس اور بھر دنیا کے رواج کے مطابق سرکار دربار سے لے کر کو چہ وبازار تک خود کو رسوا ہوتا محسوس کرنا معمولی حادثہ نہیں تھا۔بار بار انہیں اپنے دل ودماغ کے اندر کی دنیا میں سمٹ کر ان کو بہت سے سوالات سے روبرو کرتا ہوگا۔مثال کے طور پر ان کا میرولایت علی شرف الدولہ کو لکھا ہوا یہ مکتوب دیکھیے:
بنام میر ولایت علی صاحب مخاطب بہ شرف الدولہ
خط۔۱
خدا کی لعنت مجھ پر کہ (میں نے) شاہزادہ ماہ لقا(نصیر الدین حیدرولی عہد شاہ اودھ) کے حضور زمین بوسی کی آرزو کی اور وہ بھی آپ کی وساطت سے مجھے بہر طور یقین ہے کہ اہل عقل کو اس کا علم ہے کہ میرے گوہر تاباں کی تابانی میں کہ جس کی چمک دمک ایک عطیہ الٰہی ہے اس تقصیر کے باعثکہ جو قدر ناشناسوں کی جانب سے ہوئی،کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔لیکن وہ ادا کہ جو طور طریقے کے مطابق نہ ہو بھلا (میری) طبیعت کو کس طرح گوارا ہو سکتی ہے۔اس ہی دفعہ شاہزادے سے نہیں ملا ہوں بلکہ اس سے پہلے بھی دوبار اس نشیمن باسعادت میں گیا ہوں۔اور ہر دوبار (انہوں نے مجھے) فوراً باریابی بخشی ہے اور دیر تک بٹھایا ہے اور میری عزت افزائی کی ہے لیکن اس بار شاہزادے کے رویے کو فطری نہیں کہا جا سکتا۔یقینا میرے آنے سے پیشتر ہی اس بات کا فیصلہ کیا جا چکا تھا کہ تھوڑی دیر مجھے پاسبانوں کے ساتھ بٹھایا جائے اور جب تک کہ شہزادہ کو صندوقچے کے مشغلے میں نہ لگا لیا جائے مجھے حضور میں نہ بلایا جائے اور جب سامنے آؤں حضرت صاحب عالم اظہار التفات نہ کریں اور مجھے بیٹھنے کی اجازت نہ دیں۔گویا کہ شاہزادہ ایک ورق سادہ ہے کہ نقاشوں اوررنگ آمیزوں کے ہاتھ میں آپڑا ہے تاکہ رنگ رنگ کے ڈول ڈالیں اور طرح طرح کے نقش بنائیں۔قصہ مختصر تقریب اور چیز ہے اور تخریب اور۔ہم تو آپ سے مقرب (کاکردار)چاہتے تھے نہ کہ مخرب کا۔
ع:خود غلط بود انچہ ماپنداشتیم
ترجمہ: دراصل جو ہم سمجھ رہے تھے وہی غلط تھا۔
افسوس شہزادہ کی زمین بوسی کا ارادہ کرنا اور پھر آپ مروت کی امید رکھنا۔ہم شاہ پرستوں میں ہیں اور کشور کشاؤں کے دست تیغ آزماہی سے اپنا رزق حاصل کرتے ہیں۔(بھلا)زاویہ نشینوں سے ہمارا کیا تعلق اور رشتہ شکستگاں سے کیا علاقہ۔آپ یہ نہ سمجھئے گا کہ میں اس تحریر کے ذریعے آپ سے تلافی کا خواہشمند ہوں۔(نہیں) میرا مقصد تو آپ کو صرف یہ بتانا ہے کہ آپ یہ نہ جانیں کہ میں نہیں جانتا۔والسلام
غالب نے اپنے سفر کے دوران جہاں جہاں قیام کیا اس وقت کے ہندوستان کے اہم ترین شہر تھے۔کلکتہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا صدر مقام ہی نہیں تھا وہ یورپ کی اُن ساری نو آبادیوں میں جو امریکہ سے لے کر ایشیا اور افریقہ تک پھیلی ہوئی تھیں سب سے پر کشش ساحلی شہر تھا۔ہندوستان کی ہی نہیں سارے جنوب ایشیا کے دولت پر یہاں سے قابو رکھا جاتا۔یہاں عیش وعشرت کا جو بازار گرم تھا اس کی بنا پر یورپ کے زیادہ تر مہم باز نو جوانوں کی نظر میں یہی منزل آخر تھی۔ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازموں کی زندگی اُن سب کے لیے قابل رشک تھی۔یہاں وہ عموماً خالی ہاتھ آتے تھے اور لندن واپس جانے کے بعد وہاں کی سیاسی ومعاشی زندگی میں کلیدی حیثیت اختیار کر چکے ہوتے تھے۔کلایواور ہسٹنگز کے بارے میں تو جو حقائق سامنے آئے وہ سب جانتے ہیں۔نوجوان عیسائی انگریزوں کی عام بے راہ روی کے پیش نظر وہاں مسیحی مبلغوں نے بھی آنا شروع کیا کہ وہ نوواردوں کی نگرانی اور اصلاح کریں۔فورٹ ولیم کالج بھی دراصل اس خاص مقصد سے قائم کیا گیا تھا کہ انگریز نوجوانوں کو نا پختہ عمر میں ایک سخت ڈسپلن میں بھی رکھا جائے تاکہ وہ فرانس کے لوگوں کی شہنشاہیت مخالف جمہوری خیالات سے بھی متاثر نہ ہو جائیں۔غالب نے جب مشرقی ہندوستان کے برباد،افلاس زدہ علاقوں سے گزرتے ہوئے زوال کے شکار رئیسوں کے درباروں کو دیکھا ہوگا اور پھر جب کلکتے پہنچے ہوں گے اور وہاں کے قیام کے دوران میں انہیں اچنبھے میں ڈال دینے والے مناظر نظر آئے ہوں گے تو آئین اکبری کی تقریظ اوراور ایک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے‘والی غزل سے کہیں زیادہ اشارات ان کے ذہن ونظر کو متوجہ کرنے کے لیے ملے ہوں گے۔ان کے کلام میں تشکیک،استفہام،بے یقینی،
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے۔

حیراں ہوں پر مشاہدہ ہے کس حساب میں
جیسے سوالات کہیں اندر اندر پروان چڑھ رہے ہوں گے۔جو اُن کی شاعری کا بہترین حصہ قرار پائے۔
غالب کا بنارس میں قیام ان کے اس سفر کے دوسرے مقامات کے قیام سے اس اعتبار سے زیادہ اہم ہے کہ اور مقامات پر تو انہیں وہ ساری باتیں ملی ہوں گی جو اجنبی بستیوں اور راستوں میں عموماً ملتی ہیں اور ہر نئے مسافر کو حیرت میں ڈالتی ہے مگر بنارس دہلی کی طرح اس ملک کا ایک تاریخی شہر ہونے کے باوجود اس پوری تہذہبی روایت سے بہت کچھ مختلف بھی تھا جس کے درمیان غالب دہلی اور آگرہ میں پلے تھے۔خصوصاً اس علاقے کے اشرافیہ کا اپنا ایک الگ طرز کی زندگی تھا۔بنارس ہندوستان کی قدیم ویدک تہذیب اور ہندو عقاید کے مطابق ایک مقدس ترین شہر تھا۔یہاں اس ملک کے قدیم علوم کے مراکز تھے۔ گنگا کا گھاٹ دہلی میں جمنا کے گھاٹ سے ہی لیں ساری دنیا کے دیاروں کے ساحل سے کتنا مختلف ہوگا۔اور وہ صرف گھاٹ نہیں ہوگا۔اس کے پیچھے ہزاروں سال کی جیتی جاگتی تہذیب ہوگی۔اس کا اندازہ بنارس آئے بغیر کیسے ہوسکتا تھا۔پھر دہلی کی طرح یہاں بھی ایک طرح کی ہموار تہذیبی زندگی بھی تھی جو تاریخ کے تمام نشیب وفراز گزرنے کے باوجود ہر بار پھر اپنی وضع پر واپس آجاتی تھی۔چنانچہ غالب کے لیے حیرتوں کا ایک نیا سماں تھا جو بنارس میں اُنہیں ملا۔جیسا کہ اُن کی اس دور کی تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے۔شہر کے حسُن،اس کے حسینوں کی ادائیں،گنگا کے گھاٹ کے مناظر اور ان سب سے زیادہ وہاں کے عالموں،سادھوؤں اور سنتوں کی گفتگو کی گہرائی،غرض کہ ایک ایسی زندگی ملی جس سے وہ آشنا توتھے کہ ہندوستان میں کون اس نا آشنا ہوگا مگر جس کے درمیان رہ کر اس سے اس قدر ہم کنار ہوئے کہ اُن کی شاعری میں ”ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہوگئیں“یا”نہیں کچھ سبحہ وزنّا ر کے پھندے میں گیرائی“جیسی باتیں آگئیں چنانچہ ان کے ہاں تصوف اور ویدانت کے اثرات محض روایتی اور ”برائے شعر گفتن“ہی نہیں آئے ہوں گے۔
ان سب باتوں پر اور غالب کی زندگی کے اس اہم دور پرزیادہ گہرائی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ان کی شاعری کی خوبصورتی اور ان کے افکار پر بہت سے اثرات کو اس وقت تک نہ پورے طور پر سمجھا جا سکتا ہے نہ لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے جب تک ان متعدد عناثر کو ہم رشتہ کر کے نہ دیکھا جائے۔

Aalami Mushaira 2023

Aalami Mushaira Part 1 Jashne Ghalib 2023

https://www.youtube.com/watch?v=Y6PxbhtgDgU


Part 2
https://www.youtube.com/watch?v=_cvGED7Cj_E

Part 3
https://www.youtube.com/watch?v=fHzzhqUEY60

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام بہ اشتراک خصوصی تربیتی مرکز، دہلی پولیس اکیڈمی اردو فارسی کلاسز کا چوتھا بیچ مکمل

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام بہ اشتراک خصوصی تربیتی مرکز، دہلی پولیس اکیڈمی اردو فارسی کلاسز کورس کا چوتھا بیچ مکمل ہو گیا ہے۔ یہ کورس یکم مئی 2023 سے شروع ہوا تھا اور جون میں ہونے والے امتحان کے بعد کامیاب ہونے والے طلبا کے لیے تقسیم اسناد کا پروگرام خصوصی تربیتی مرکز، دہلی پولیس اکیڈمی، راجندر نگر،نئی دہلی میں منعقد کیا گیا۔ جناب جتندر منی ترپاٹھی، ڈی۔سی۔ پی نے اس جلسے میں بطور مہمان خصوصی شرکت فرمائی اور اپنے ہاتھوں سے طلبا کو اسناد تقسیم کیں۔ اس موقع پر انھوں نے کہا کہ مجھے یہ جان کے بہت خوشی ہوئی کہ غالب انسٹی ٹیوٹ نے خصوصی تربیتی مرکز کے اشتراک سے اردو اور فارسی کی تعلیم کا بھی بندوبست کیا۔ اصل میں بیسک تعلیم ہی سب سے اہم ہوتی ہے کیوں کہ اگر بیسک واضح ہو جائیں اور سیکھنے والے میں ذوق اور حوصلہ ہو تو وہ آگے کا راستہ خود بھی تلاش کر سکتا ہے۔ میں کامیابی حاصل کرنے والے تمام طلبا کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ اس سلسلے کو مزید آگے لے جائیں گے۔ میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد ، اردو فارسی کے استاد جناب طاہر الحسن اور خصوصی تربیتی مرکز پولیس اکیڈمی کے اراکین کو بھی مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں کہ آپ سب کی کوششوں سے اردو فارسی کلاسز کا چوتھا بیچ کامیابی کے ساتھ مکمل ہوا۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے کہا کہ جب ہم نے یہ کورس شروع کیا تھا اس وقت یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ کورس اتنا کامیاب ہوگا اور لوگ اس میں اتنی دلچسپی لیں گے، لیکن جب یہ کورس شروع ہوا تو شائقین کی تعداد دیکھ کر ہمیں بھی حوصلہ ملا اور سچ یہ ہے کہ انھیں کے جذبے کے سبب یہ بیچ اتنی کامیابی کے ساتھ مکمل ہوا۔ اس موقع پر میں خصوصی تربیتی مرکز، دہلی پولیس کے تمام اراکین کا دل سے شکریہ ادا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں ۔ آپ لوگوں نے ہر ممکنہ تعاون فراہم کرنے کی کوشش کی۔ اردو فارسی کلاس کے استاد جناب طاہر الحسن صاحب نے کہا کہ میں ایک زمانے سے درس و تدریس سے وابستہ ہوں لیکن اس مرکز میں پڑھانے کا تجربہ بالکل مختلف تھا یہاں مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے طلبا شرکت کرتے ہیں اور ان کے جذبے سے ہمیں بھی کام کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ میں کامیابی حاصل کرنے والے تمام طلبا کو دلی مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں۔ تقسیم اسناد کے بعد ’شام غزل‘ کا اہتمام کیا گیا جس میں استاد عبدالرحمٰن نے اپنے مخصوص انداز میں غالب اور چند جدید شعرا کی غزلیں پیش کیں۔

مرقع چغتائی

محمد عبدالرحمن چغتائی

مرقع چغتائی

غالب کے مصور نسخہ کی داستان تخلیق

            غالب کے مصور ایڈیشن، مرقع چغتائی کی تخلیق کے سلسلے میں اس سے قبل بھی کچھ گزارشات پیش کرچکا ہوں اور اس موقع پر بھی چند نئے اضافوں اور وضاحتوں کے بعد یہی داستان دہراتا ہوں۔ اس عظیم اور فنی پیش کش کی اہمیت پر اس بیان سے بھی کافی روشنی پڑے گی۔

            میری زندگی اورمیرے فن کی داستان میں 1919 بہت اہم سال ہے۔ یہ سال وہ ہے جب میرے فن کی ابتدا ہوئی۔ یہی زمانہ ہے جب مجھے اپنے مستقبل سے روشناس ہونے کا موقع ملااور یہ احساس زندگی کاجزو بن گیا۔ احساس یہ تھا کہ مجھے آئندہ ایک بڑا فنکار بننا ہے اور اسی کے لیے  جینا ہے۔ یہ خودی کی بیداری تھی۔ اس سے قبل میں کچھ افسانے اور کہانیاں بھی لکھتا تھا اور اب بھی لکھتا ہوں، لیکن یہ محض ایک شوقیہ مشغلہ تھا اور ہے۔

            1924 میرے امتحان اور خود اعتمادی کی آزمائش کا سال تھا اور اس کے اظہار کاموقع بھی پیدا ہوا۔ میں ان دنوں میو اسکول آف آرٹ لاہورمیں ایک انچارج کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ اس عہدہ سے جب گلوخلاصی کی نوبت آئی تو اس وقت میں رخصت پر تھا۔ چھٹیاں گزار کر جب ادارے میں واپس آیاتو کالج کے پرنسپل سے آمنا سامنا ہوا۔ یہ ایک انگریز افسر تھا۔ فنکار اور منتظم بھی بہت اچھا تھا۔ اس نے مجھ پر ظاہرکیا کہ چھٹیوں کے دوران میں سنیما دیکھتا رہاہوں!۔ یہ ایک چغل خور کی حرکت تھی۔ چغل خور کون تھا، میں اس کو اچھی طرح جانتا تھا۔ یہ شخص میری فنی کامیابی اور ہردلعزیزی کو دیکھ دیکھ کر جلتا تھا اور میرے پیچھے پڑا ہوا تھا اورایسے موقع کی تلاش میں تھا کہ میرے خلاف کان بھرسکے۔ بلکہ مجھے نقصان پہنچنے کا امکان بھی پیدا ہوا۔

            یہ وہ زمانہ تھا کہ میری بنائی ہوئی تصاویر کی نمائش ہو رہی تھی۔”پنجاب فائن آرٹ سوسائٹی“ کی پہلی نمائش ہوئی تو اس میں کام کی غیر معمولی قدر کی گئی۔ کئی تصاویر کم وبیش چھ سات ہزار میں فروخت بھی ہوئیں۔ ان کا بیشتر حصہ ہزہائینس میر صادق عباسی بہاول پورنے خرید فرمایا تھا۔ یہ پہلا فاتحانہ معرکہ تھا۔ جس وجہ سے قدرتاً حاسدوں کابھی ایک گروہ پیدا ہوگیا۔ میں نے موقع پراپنے آپ کو ایسے حاسدوں کے بیچ میں کھڑا ہوا پایا۔ مگر حاسدانہ کوششوں اور کشاکش کے ساتھ حقیقی قدر افزائی نے بھی میری ذات، فن اور مستقبل پر گہرا اثرڈالا۔

            ذکر انگریز پرنسپل کا تھا میں نے اس کے سامنے کہا کہ اطلاع غلط ہے۔ میرے اس انکار پروہ تن گیا کہنے لگا۔ بڑے قابل اعتماد آدمی نے مجھے باوثوق طریقہ پر بتایا ہے اس کی اطلاع غلط نہیں ہے میں نے دہرایا وہ مجھ سے زیادہ تو نہیں ہوسکتا۔ میں اپنے آپ پرکامل اعتماد رکھتا ہوں اور ذمہ دار بھی سمجھتا ہوں۔

            ممکن ہے گفتگو طول پکڑ جاتی لیکن میں بات کو ادھورا چھوڑ کر واپس چلا آیا اور راستے ہی میں اس بات کا فیصلہ کیا کہ ان حالات میں مجھے اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوجانا چاہیے۔ اس خود اعتمادی کی بنا پر ہی میں نے استعفیٰ دے دیا۔ انگریز پرنسپل کے لیے یہ پہلا موقع تھا کہ کسی نے ایسی جرات سے کام لیا۔ میرا استعفیٰ دیکھ کر وہ کچھ پریشان بھی ہوا۔ کالج کے اساتذہ کوبلا لیا اور بڑے خلوص سے سمجھانے لگا کہ میں استعفیٰ واپس لوں۔

            اس نے میرے روشن مستقبل پربھی روشنی ڈالی اور کہنے لگا ہو سکتا ہے تم ایک دن اس انسٹی ٹیوشن کے پرنسپل ہوجاو مگر زیادہ حجت نہ کی اور ایک ماہ کی تنخواہ چھوڑ کر گھر بیٹھ گیا۔ یہ مالی قربانی اس وقت میرے اور میرے خاندان کے لیے معنی رکھتی تھی، بالخصوص اس وجہ سے کہ یہاں تک پہنچنے کے لیے جتنے پاپڑ بیلے تھے، بہت فاصلے طے کیے تھے، بڑی ریاضت اور انتھک کوششیں کرنے کے بعد ہی یہاں تک پہنچا تھا۔

            اس کے بعد میں ملازمت کے پھندے میں کبھی نہ پھنسا ہمیشہ اس جال سے بچ کر نکل گیا۔ خدا کے فضل سے کامیاب، مجھے اس وقت مدراس، حیدرآباد دکن اور میواسکول آرٹ (موجودہ نیشنل آرٹ کالج) کے پرنسپل کی اسامی کے لیے پیش کش کی گئی۔ مگر میں ملازمت کوکبھی ترجیح نہ دے سکتا تھا۔ اس لیے اس طرف سے نفور رہا۔

            ملازمت سے سبکدوشی کے بعد میرے کانوں میں عجیب قسم کی طرح کی پیشنگوئیاں بلکہ بدگوئیاں پڑتی رہیں۔ مگر میں سنی ان سنی کر دیتا تھا۔ صحیح تھا کہ اس وقت میری گھریلو زندگی ان جرات مندانہ اقدام کی اجازت نہ دیتی تھی۔ صرف اس ملازمت واحد کا سلسلہ تھا جس سے زندگی کو سہارا مل رہا تھا۔ مگر آفریں ہے میری محترمہ والدہ کو کہ انہوں نے میری ڈھارس بندھائی اور اس جرات کو میرے حق میں فال نیک قرار دیا اور دعا دی کہ اللہ ہمیں کسی کا محتاج نہ کرے گا۔

            ہم تین بھائی ہیں۔میں بڑاہوں ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی منجھلے اور عبدالرحیم چغتائی سب سے چھوٹے ہیں۔ ڈاکٹر عبداللہ میری اس جرات پر مشوّش تھے۔ ایک طرح عبداللہ کا سوچنا بھی ٹھیک تھا۔ اس کا تعلق حالات کی سفاکی، غربت اور ضروریات زندگی سے تھا۔ بعض اور ذہنی عوامل بھی تھے اور یہ مزاجوں، نیز اقدار زندگی کے باب میں زاویہ نظر کے فرق سے بھی تعلق رکھتا ہے۔

            بہرکیف یہ ان دنوں کی بات ہے جب ویمبلے، انگلستان میں سرکاری اہتمام سے ایک بہت بڑی نمائش فن منعقد ہورہی تھی اور برطانوی نوآبادیات کے فنکار اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔ یہ 1923 کا واقعہ ہے۔ میرے کام کے نمونے بھی اس نمائش میں شریک تھے، بلکہ حصہ لینے والے فنکاروں کی تصاویر میں سب سے زیادہ میری ہی تصویریں تھیں۔ میرے فن کی شہرت اور قدردانی اب اس منزل پر پہنچ چکی تھی کہ کوئی بھی فنکار اس پر فخر کرسکتا ہے۔ خود میرے پرنسپل نے جس سے بعد کو میرا جھگڑا بھی ہوا، میرے فن کا قدردان تھا اور بڑے خوش آہنگ الفاظ میں میرے ہنر پر اظہار خیال بھی کرچکا تھا۔ اس نے سچ کہا تھا کہ میں ایک نئے دبستان فن کا خالق بنوں گا اور اس طرح جدید ہندستانی فن میں ایک نئے ردعمل کی پیشینگوئی کی جاسکتی ہے۔ ان واقعات نے میرے دل پر گہرا اثر ڈالا میں سوچتا تھا مجھے فن کی عظمت کو اونچا لے جانا چاہیے۔ میرے معاشرے میں صدیوں سے جو فنی اقدار نظر انداز کی جارہی ہیں ان کی حفاظت کی ضرورت ہے۔ 1924 میں جب میں نے استعفیٰ دیا تو یہی رجحانات اور محرکات ذہنی تھے جو مجھے اکسا رہے تھے اور میں نے سود و زیاں کے چکروں میں پڑے بغیر مستقبل سے اپنا رشتہ جوڑ لیا۔ عقل محو تماشائے لب بام ہی رہی اور میرا عشق فن سفاک حالات کی آتش نمرود میں بے جھجک کود پڑا۔

            معاش کا چکر، ایک کبھی نہ ختم  ہونے والا چکر، اپنے محور پر گھوم رہا تھا اور کئی سوتے پھوٹ رہے تھے۔ گھریلو مشکلات اور خاندانی مسائل میرے لیے آزمائش و امتحان کے مرحلے تھے میں سوچتا تھا یہ ذاتی انسانی فرائض بھی کچھ کم اہم نہیں۔ مگر صرف ملازمت بھی کوئی بڑا شرف و مرتبہ نہ تھا میں سوچتا فن کے فرائض بھی تو ہیں۔ وہ بھی تو میرا دامن کھینچتے ہیں۔

            وہ جب میرا دامن کھینچتے تومیں پنسل پکڑ لیتا، سامنے سفید کاغذ ہوتا، تصور ابھرتے، اپنا پیکر ڈھونڈتے اور فن کے پیکر و پیراہن وجود میں آتے چلے جاتے۔ اس دور آزمائش میں قناعت سب سے بڑا سہارا ثابت ہوئی۔ میں ضمیر کی آواز کو لبیک کہتا رہا اور جذبے روشن سے روشن تر ہوتے چلے گئے۔ میں محسوس کرتا یہ گھاٹیاں طے کرنا اور یہ فراز عبور کرجانا کچھ بھی مشکل نہیں۔ مجھے یقین تھاکہ بہت جلد اس منزل تک پہنچ جاوں گا جہاں زندگی فراواں چشموں سے عبارت ہوگی۔ ہرشے شاداب و شادکام ہوگی، جہاں مدوجزرتو ہوں گے مگر الجھنوں کی یہ کیفیت نہ ہوگی۔

            ڈاکٹر تاثیر سے میرا رابطہ بہت شروع سے تھا اور یہ زندگی کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہا۔ اس میں زندگی کی امنگیں اور بلند نظری کے اتنے امکانات کروٹیں لیتے تھے کہ ہم دیکھتے ہی دیکھتے ایک دوسرے کے قریب آگئے، دھندلے نقوش ابھرابھر کر پختگی اور انفرادیت پاتے چلے گئے پھر ان روابط نے معین اشکال اختیار کرنی شروع کیں، انفرادیت اور افادیت کے پہلووں پر روشنی کی چھوٹ پڑنے لگی۔ ہم ان امکانات کو شناخت بھی کرنے لگے ایسے نشانات زندگی جس سے آشنا ہوئے بغیر انسان ان کے قریب نہیں آسکتا۔

            تاثیر بجائے خود ایک انجمن تھا اپنی ذات میں اور ایک انجمن وہ تھی جواس کے دائیں بائیں جلو میں رہتی۔ میرے چھوٹے بھائی عبدالرحیم جن کا ابھی ذکر آیا، ایک دن غالب کا کوئی شعر پڑھ رہے تھے۔ تاثیر بھی بیٹھے تھے۔ رحیم کہنے لگے، تاثیر صاحب یہ تصویر ”سیاہ پوش“ غالب کے شعرکی مفسر ہے۔ اس تصور کی ترجمانی اس تصویر میں دیکھیے۔ اپنی عادت کے موافق تاثیر نے پہلے تو کچھ تامل کیا، پھر نقش کو دیکھا اور ایک دم تائید میں کلمات ادا کیے۔ کہنے لگے! رحیم صاحب آپ نے بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ چغتائی صاحب کو غالب کے اشعار اپنی مخصوص طرزنگارش میں مصور کرنے چاہئیں۔ یہ بڑا کام ہوگا۔

            بات کافی آگے بڑھی اور کچھ ہیولی بننے لگا۔ اس سے قبل میں علامہ اقبال کے بعض اشعار کومصور کرنے کی کوشش کربھی چکا تھا مگر غالب کے باب میں میں نے عرض کیا کہ اس کا مطالعہ نہیں، اس لیے بہتر ہوگا کہ پہلے اقبال کے کلام کو مصور صورت میں پیش کروں۔

            مگر کسی نے میری ایک نہ سنی۔ میں تصویریں برابر بناتا رہا اور یہ تصویریں جب وجود میں آجاتیں تو ڈاکٹر تاثیر اور رحیم غالب کے اشعار پر ان تصویروں کو منطبق کرتے۔ ان کی برجستگی و ابلاغ پر گفتگو کرتے اور بہت سے فیصلے کیے جاتے، خیالات کا تبادلہ بہت سے نئے نکتے سمجھاتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ گزرا ہوا دن آنے والے دن کے لیے بہت سے نئے گلہائے شگفتہ دے جاتا عملی سرگرمی کا دور برابر قائم رہا۔ یہ وہ دن تھے جب اردو صحافت بالخصوص ہمارے رسائل، نئی زندگی سے روشناس ہو رہے تھے، بڑی سرگرمی اور گہماگہمی تھی۔ میرا گھر، ادب کے  ادا شناسوں اور احباب کے لیے ایک مرکزی جگہ بن چکا تھا، عجیب حیات پرور ماحول تھا، جدھر نظر اٹھتی زندگی نئی کروٹ لیتی اور مچلتی نظر آتی، ہرایک کچھ نہ کچھ کر رہا تھا اور ادب و فن نئی نئی راہیں ڈھونڈ رہے تھے۔

            انہیں دنوں دیوان غالب کا ایک نیا ایڈیشن جرمنی سے طبع ہوکر آیا۔ لوگ اس کی بہت تعریف کر رہے تھے، اب میں سوچتا ہوں وہ ایڈیشن ہی میری اور تاثیر کی گہری دوستی کا موجب بنا۔ اس میں غالب کی ایک شبیہہ بھی لگی ہوئی تھی۔ تاثیر نے جب مجھے وہ تصویردکھائی تومیں نے اس کی بہت بری طرح مذمت کی اور کہا کہ اس تصویر کا چھپنا شاعر کے دونِ مرتبت ہے۔ اس بات کا تاثیر پر بڑا اثر ہوا اور اس نے گھر پہنچنے سے پہلے اس تصویر کو پھاڑ کر دیوان سے الگ کردیا اور دوسرے دن اپنے اس ردعمل کی کہانی مجھے سنائی۔ اس کے بعد آرٹ سے اس کا لگاو بڑھتا چلاگیا۔ ”بنگال اسکول“ کی تحریک فن اس وقت زوروں پر تھی۔ جدید ہندستانی آرٹ پر اس کا جادو چل رہا تھا۔ ہر جگہ اس کاچرچا تھا۔ فنی نقطہ نظر سے ہم نے بھی اسے پرکھا جانا اور حسب موقع خالص مشرقی نقطہ نگاہ سے اسے سراہا بھی۔

            میرے فن میں تاثیر کی دلچسپی برابر بڑھ رہی تھی اور اس نے ”نیرنگ خیال“ ہی کے ذریعے نہیں اور بہت سی جگہوں پربھی اس سلسلے کو بڑھایا۔ ہر موقع پر اس کا وسیع مطالعہ علم و فن اپنا نقش چھوڑ جاتا تھا میرا خیال ہے کہ فن پر لکھنے والوں میں اس جیسی پہنچ اور سوجھ بوجھ کا کسی اور نے ثبوت نہیں دیا۔

            میں غالب کے اشعار کی تصویری تفسیر کا ذکر کر رہا تھا یہ تصاویر برابر بن رہی تھیں، اچھی خاصی تعداد جمع ہوگئی۔ مگر میں ابھی تک اس خیال کا ہی موید تھا کہ اگرہمیں کچھ کرنا ہی ہے تو پہلے اقبال کے کلام کو مصور کرنا چاہیے تاکہ وہ روایات جو تین چار سو سال سے نظر انداز کی جارہی تھیں ان میں پھر سے زندگی پیدا ہو۔ مگر اس مرحلہ پر علامہ اقبال کے ایک قریبی محسن و محب نے رائیلٹی کا سوال پیدا کر دیا تھا اور یہاں سے مسئلہ دوسرا رخ اختیار کرتا ہے۔

            جیسا کہ عرض کیا میرے فن نے کافی شہرت حاصل کرلی تھی پھر بھی ہم حالات کی تنگنائے میں سے بہت مشکل سے گزر رہے تھے اور ایسے مراحل سے دوچار تھے جن کا علم ہم تینوں بھائیوں کے سوا کسی کونہ تھا۔ زندگی کے تقاضوں نے بری طرح زچ کر رکھاتھا۔ شب و روز ہم اونچی پرواز کے لیے پر تولتے تھے، اڑنے کو بہت جی چاہتا تھا۔ مگر پھر مسکرا کر رہ جاتے تھے۔ زندگی ایسی ہی افتادوں کا نام ہے۔

            غالب کا مصور نسخہ مکمل کرنے کا خیال میرے چھوٹے بھائی، رحیم کے دل میں ایسا سمایا کہ وہ برابر اس دھن میں لگا رہا اور اس لگن نے ہی مجھے بھی کام پر لگائے رکھا، غیب سے ”مضامین“ خیال میں آتے رہے اور مرقع کی شکل بنتی چلی گئی۔ ایکا ایکی مدراس کے مشہور نقاد فن، ڈاکٹر جیمز کزنزنے میری کچھ تصویریں حاصل کرنے کا تقاضا کیا۔ وہ یہ تصاویر مہارانی کوچ بہار کے محل کے لیے خریدنا چاہتے تھے۔ میں نے ان کے سامنے ایک پبلیکیشن کا تصور پیش کیا اور کچھ تجویزیں سامنے رکھیں۔ مگر ابھی یہ خط و کتابت آپس میں رہی تھی کہ مہارانی کوچ بہار نے ایک قدرشناس کی حیثیت سے مجھے پانچ ہزار کا چیک روانہ کردیا تا کہ میں اپنے پروگرام پر دلجمعی کے ساتھ کام کرسکوں۔ حالات کے پیش نظر اس وقت کے یہ پانچ ہزار ہمارے لیے گویا پانچ لاکھ سے کم نہ تھے۔ اس کی خبر جب میری والدہ صاحبہ کو پہنچی تو وہ فرمانے لگیں کہ یہی تو میرا وہ سہانا خواب تھاجو میں دیکھ رہی تھی۔

            ”نیرنگ خیال“ کی مقبولیت حکیم یوسف حسن کے تعاون اور ڈاکٹر تاثیر کی کاوشوں نے بڑی مدد کی اور ہرموڑ پر اپنی ہمدردی، خلوص اور پاک طینتی کا ثبوت دیا۔ ان دنوں ڈاکٹر تاثیر، بدرالدین بدر، ڈاکٹر نذیراور غلام عباس تقریباً ہر وقت میرے گھر پرموجود رہتے کبھی کبھار حفیظ جالندھری، ہری چند اختر، مجید ملک، پطرس بخاری اور سید امتیاز علی تاج بھی رونق بزم بنتے اور غالب کی اشاعت کے سلسلے میں اپنی دلچسپی کا اظہار فرماتے۔ اکثر کوئی نہ کوئی نئی بات ہاتھ آتی وہ ہمدردیاں، خلوص، وہ ہنگامہ پرور فضائیں جن کی طرف ایک دنیا کی نظریں لگی رہتی تھیں جب یاد آتی ہیں تو دل کہتا ہے کاش وہ ماضی واپس آسکتا۔ مگر ماضی کبھی واپس نہیں آتا۔ کسی قیمت پر یہ جنس حاصل نہیں ہوسکتی۔ میں ان دوستوں کی بلند نگاہی کے طفیل اپنی دھن میں لگارہا اور ایسا ڈول ڈالتا رہا کہ مرقع چغتائی اپنا معیار آپ ہو، اس کی مقبولیت کاعالم یہ ہو کہ اک خلق ”اس کے گرد آوے“ پورا برصغیر یک زباں ہوکر اس کی داد دے اور باہر بھی وہ قدرومنزلت ہو کہ فن کی لاج رہے اور یہ کہا جا سکے کہ اب تک اس بلند معیار اور ذوق کی کوئی دوسری کتاب اس برصغیر سے پیش نہ ہوئی تھی۔

            میری تصاویر کا چرچا اب کافی دور دور پہنچ چکا تھا مہاراجہ پٹیالہ کوبھی میرے فن نے اپنی طرف متوجہ کیا اور میرے ارادوں کا علم ہونے پر انہوں نے میری تصویریں خریدیں اور اچھی خاصی رقم عنایت کی جس کی وجہ سے یہ قطعی ہو گیا کہ ”مرقع چغتائی“ شائع ہو سکے گا۔

            ”نیرنگ خیال“ کی سرگرمیاں تو اس سلسلے میں جاری تھیں کہ ”انقلاب“، ”احسان“، ”زمیندار“، ”ہمایوں“، ”عالمگیر“ ”مخزن“۔ نیز دہلی اور حیدرآباد دکن کے اخبارات و رسائل نے بھی میری تحریک فن کا پر جوش خیرمقدم کیا اور ان سب نے اپنا تعاون بھی دیا۔ پھر یہ تحریک و تصور اس قدر آگے بڑھ گیا کہ اگر ہم چاہتے بھی کہ مرقع چغتائی طبع نہ ہو، تو ایسا نہ کرسکتے تھے! اس کے بعد ایسے حالات خود بخود ظہور میں آئے کہ سوائے دیوان غالب مصور کی تکمیل کے اور کوئی کام میرے لیے نہ رہا میں جو کبھی مصروفیتوں کی تلاش میں رہتا تھا،اب اتنامصروف تھا اور کام میں ایسا گھراہوامحسوس کرنے لگا کہ سارے فرائض کو سرانجام دینے میں دشواری معلوم ہوئی۔

            تصویروں کے بلاک، تصویروں کی حفاظت، دیوان کی تصحیح۔ دیوان کو کسی اعلیٰ خطاط سے لکھوانا پھر اس کتابت سے بلاک بنوانا، آرائش و حسن کاری کے لیے نئے نئے ڈیزائن تیار ہونا ایک دوسرا درد سر تھا۔ پھر کتاب کی جلد بندی کا کام تھا۔ طباعت کے لیے خاص الخاص قسم کے کاغذ کی فراہمی راہ کا ایک اور سنگ گراں تھا۔ غرض ہر قدم توجہ اور کوششوں کا محتاج تھا۔ ذوق نظر اور کدوکاوش کے علاوہ بے دریغ خرچ کا بھی سوال تھا۔ واقعات و ضرورت نے مل کر حسب ضرورت روپیہ بھی فراہم کردیا۔ غالب کے مصور ایڈیشن کے سلسلے میں زر تبادلہ کا مسئلہ رائیلٹی کا قصہ بھی نہ تھا۔ غرض کلام اقبال کے سلسلے میں جو حائیلات تھے وہ اگر غالب کے سلسلے پیش آتے تو بھلایہ مرقع کیسے منصہ شہود پر آتا۔

            رحیم نے اگرمرقع چغتائی شائع کرنے کے لیے مجھے اکسایا تھا تو اس نے اس کا سارا بار خود اٹھایا اور بڑے سلیقے سے ان کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے کہ مرقع چغتائی جیسی کتاب اس وقت اردو کی سفیر بنی ہوئی ہے اور دنیا کے ہراہم مرکز علم، ادب و فن نیز لائبریریوں، عجائب خانوں اور فنی نگارخانوں میں موجود ہے اس کے معیار نے مشرق کے آرٹ اور اردو کو پہلو بہ پہلو پیش کیا ہے اور اس کی اہمیت نے اردوکو بین الاقوامی مرتبہ پر پہنچا دیا ہے۔

            اب مراحل تیاری کی داستان بھی سن لیجیے۔ سب سے پہلے کاتب کی تلاش ہوئی۔ ڈاکٹر تاثیر اور میں نے لاہور کے کئی مشہور خطاطوں کواس کام کی اہمیت جتلائی اور منہ مانگی رقم دینے کابھی یقین دلایا مگر ہوا یہ کہ ہمارے الفاظ یہاں آکر بے اثر ہو گئے، جب ایسا نظر آیا تو بھائی عبدالرحیم نے خود ہی قدیم طرز خط کے استاد منشی اسد اللہ کا انتخاب کیا اور یہ بیل منڈھے چڑھی۔ انہوں نے ہماری ضرورت کو سمجھا، کام کی نوعیت کوجانا اور پھر ایسی جانفشانی و محبت سے اس کام میں شریک ہوئے کہ آخری لفظ لکھنے تک ان کاوہی شوق و جذبہ کارفرمارہا۔ بحمداللہ آج بھی دنیا ان کے اس کام سے مطمئن ہے۔ اس وقت مرقع چغتائی کے ان کاتب، بابا اسداللہ صاحب کی عمر 65 سال کے لگ بھگ تھی۔

            آج بلاک بنوانے اور ایسی کتابیں چھاپنے کے لیے کافی سہولتیں موجود ہیں۔ ایسے پریس اور بلاک ساز وصناع بھی ہیں جن پر پورا بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ مگرمیں جن دنوں کی بات کررہا ہوں وہ اور وقت تھا اس وقت اپنی نوعیت کا یہ کام اکیلا ہی تھا اور اتنا مشکل اور پیچیدہ کہ اس کا حل سوائے اس کے اور کچھ نہ تھا کہ بلاک سازی اور چھپائی کی اعلیٰ مشینیں خود فراہم کریں اور یہ سارا فنی کام بھی خود سنبھالیں اس ضمن میں جو جوپریشانیاں، تکلیفیں اور سنگ گراں حائل ہوئے ان کا آج تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مگر ہم نے ہمت نہ ہاری اور مشکلوں کے حل تلاش کرتے رہے۔ میرے ماموں زاد بھائی معراج الدین صاحب اور میرے چھوٹے بھائی عبدالرحیم چغتائی نے جس تندہی اور حق شناسی کا ثبوت دیا وہ میری انتہائی عزیز یاد ہے۔ یہ علمی ادبی اور فنی نوعیت کی خدمت تھی، کوئی خزانہ ہاتھ نہیں آرہا تھا۔

            اس کام کے سلسلے میں جب پر وقار الفاظ اور وقیع آوازوں نے فضا میں ارتعاش پیدا کیا تو اس وقت کی انگریز حکومت بھی کچھ متوجہ ہوئی۔ لارڈ لن لتھ گواورلارڈ پیلی فوکس وائسراوں نے جہاں سر فضل حسین اور سرسکندرحیات خاں جیسے مشیروں سے میری بابت مشورہ کیا اور ان بزرگوں نے حکومت انگلشیہ سے میرے لیے ”نائٹ ہڈ“ کی سفارش بھی کی مگر لطیفہ یہ ہوا کہ فن کی منزلت تو دھری رہ گئی اور میری ناداری اور پرانے لاہور کی چاردیواری میں رہائش کی قید سامنے آگئی۔ چنانچہ ”سر“ بدل کر خان بہادر کی شکل اختیار کر گیا! مگراس پر بھی علمی حلقوں نے یہ احساس دلایا کہ فن کی کچھ توپوچھ ہوئی مثلاً ”ٹائمز آف انڈیا“ نے ہی لکھا کہ اس ایک صدی کے عرصہ میں یہ تیسرا خطاب ہے جو علم و فن کے سلسلے میں حکومت ہند نے جدید ہندستانی آرٹ کے ایک نامور فنکار کو دیا ہے۔ یہ اعزاز تو خیر تھا ہی مگر میں جسے عزیز تر سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ میرے مخلص دوستوں اور رفقائے کارنے آخری دم تک میرا ساتھ نہ چھوڑا اور جو بھی برگ و بار آئے انہیں کی مساعی خلوص کا نتیجہ تھا۔

            جن دنوں غالب کا مصور ایڈیشن ارتقا کی منزلیں طے کررہا تھا میں تاثیر کو باربار یاد دلا رہا تھا کہ وہ وقت کے تقاضے کے مطابق اس پروگرام کو عملی شکل دیں جو ان کے ذہن میں تھی۔ عبدالرحمن بجنوری کی بعض ابتدائی کوششوں کے پیش نظر وہ کچھ اور کام سوچ رہے تھے۔ وہ بعض ایسی باتوں کو سامنے لانے والے تھے جن پر پہلے عمل نہ ہوا تھا مگر افسوس کہ آرزووں کی بلندی کے باوجود انہیں سرانجام نہ دے سکے۔ علم و ادب کا توخیر نقصان ہوا ہی مگر مجھے اس کابڑا افسوس رہا۔ مگر ان کی ذات سے مجھے یہ فائدہ برابر ہوتا رہا کہ کام کے سلسلے میں وہ مہمیز ثابت ہوئے میں نے ضرورت کا لحاظ کرتے ہوئے اس مرقع کے لیے سخن ہائے گفتنی خود تحریر کیا تھا۔ یہ ایک تعارف ہے اس تعارف کا مقصد یہ تھاکہ ایک خاص طبقہ اہل ذوق و نظر اس نہج فن کی طرف کھنچے اور اس میں وہ فنی شعورو ادراک پیدا ہو جو میرا زاویہ فکر تھا اس میں شک نہیں کہ یہ سخن ہائے گفتنی اس بارہ خاص میں کامیاب ہوا یعنی یہ کہ ترقی پسند عناصر فن اور ذوق جمال کی تسکین و تلاش کرنے والوں میں احساس پیدا ہوگیا۔

            میرے بھائی عبدالرحیم اور ڈاکٹر تاثیر نے مصور نسخہ غالب کی جو داغ بیل ڈالی تھی وہ چھ سات روپے کا ایک مصور ایڈیشن تھا مگر کتاب پر پچیس ہزار کے قریب خرچ آچکاتھا۔ جب نوبت یہ پہنچی توپھر قیمت کا سوال ایک اور ہی طرف ذہن میں آیا میرے سامنے یورپ کی بعض فنی مطبوعات تھیں۔ مگر میں نے فیصلہ کیا کہ اگر اپنے ملک میں بدذوقی یا کم مائیگی کے باعث پوری طرح خیر مقدم نہ ہوا اور یہ ایڈیشن یونہی پڑا رہاتب بھی وہ ایک یادگار چیز ضرور ہوگا، ایک ناقابل فراموش یادگار۔ اس بات پر کافی سوچتا رہا اور آخرالامر یہ تجویز پیش کی کہ اس کا ایک خاص الخاص (ڈی لکس) ایڈیشن الگ تیار ہو جس کی قیمت ایک سو دس روپے مقرر کی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ اس کی صرف دوسودس کاپیاں شائع ہوں گی۔ بعض دوستوں نے اس پر مجھے آنکھیں دکھائیں، کسی نے ہنسی اڑائی اور بعض نے کہا اردو پڑھنے والے ابھی چھ سات روپے کی کتاب پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ ایسا گراں قیمت نسخہ کیسے خریدیں گے؟ میں نے جواب دیا یہ سب ٹھیک، مگر میں نے اپنے فن کے بل بوتے پر اتنا بڑا حوصلہ کیا ہے اور اسے ایسا ہی بنا رہا ہوں اب یہ مرقع ایسے سانچے میں ڈھل چکا ہے کہ اردو نہ جاننے والے بھی اس کی طرف متوجہ ہوں گے اور خلوص کے ہاتھ اس کی طرف پھیلیں گے۔ غالب کے پرستاروں کی دنیا بھی ایسی گئی گزری نہیں ہے وہ بھی شعروفن سے اپنے لگاو کاعملی ثبوت دیں گے۔

            بہرکیف غالب کے مرقع چغتائی خاص ایڈیشن کا اعلان کردیا گیا۔ آرڈر آنے شروع ہوگئے ہر مذہب و ملت کے لوگوں، غریبوں اور امیروں نے سب نے ہی آرڈر بھیجے۔ یہ خاص ایڈیشن شائع ہونے سے پہلے ہی فروخت ہوچکا تھا۔ ایک تاجر کو اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانے کا پورا حق بھی تھا اور موقع بھی۔ مگر ہم کاروباری ہتھکنڈوں سے قطعی ناواقف اور تجارت کے فن میں کورے تھے اس لیے یہ موقع بھی ہمیں کچھ نہ دے سکا۔

            میں اپنے قدردانوں اور ان ذی شعور لوگوں کا ذکر کیا کروں جن میں سے ہر ایک کا خلوص، دیدہ وری اور فن آگاہی میرے لیے معاون ثابت ہوئی اور میرا آرٹ پنپا، بہر نوع یہ ضرور ہے کہ میرے خاندان کے مسائل اور بے اطمینانی ایک حد تک ضرور ختم ہو گئی۔ غالب کی شاعرانہ عظمت کے ساتھ میرے فن کے تقاضے مجھے برابر یہی کہتے رہے کہ ان دیانت دارانہ کوششوں میں ایسی کوئی بات نہ آنے پائے جو انتشار حالات کا باعث ہواور میں پھر ایسی جرات ہی نہ کرسکوں یوں تو ہرایک خواہاں تھا کہ میری یہ تخلیقی کوششیں ایک مرتب کتاب کی شکل میں آجائیں اور یہی عوامی تقاضے میرے لیے بہت بڑی ڈھارس تھی۔ مرقع چغتائی جیسی کوئی کتاب اردو میں نہ تھی مگر جب اس کا غلغلہ بلند ہوا تو اس جنس کے خریدار بھی نہ جانے کہاں کہاں سے پیدا ہوگئے۔ فن کاعالم یہ تھا کہ میری تکنیک بالکل نئی اور جدا تھی، نگارش کا انداز اجنبی پراسرار خطوں کی کشش اپنا انفرادی اپیل رکھتی تھی۔ یہ سب باتیں چونکانے والی تھیں۔ انہوں نے اپنی جگہ خود بنائی اور جدید ہندستانی آرٹ میں ایک نئے تجربہ کااضافہ ہوا۔ فن میں وہ قنوطیت جوبدھ اور بدھ کی سمادھی سے آگے نہ بڑھ سکی تھی، اس سے گریز شروع ہوا۔ ہم عصر مصوروں کے سامنے یہ انوکھی چیز لاکر کچھ کام کر دکھانا ویسے بھی کوئی آسان مرحلہ نہ تھا مگر ایرانی، مغل اور اجنتا روایات کے سہارے میں نے اپنے فنی موقف کے لیے وہ جگہ ضرور نکالی جوایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوئی یہ تحسین فن کی ایک نئی کاوش تھی، اس نے رمزنگاری اور رمز شناسی کا چلن پیدا کیا اور آرٹ نے نیا مرتبہ پایا۔

            اپنے فن کے سلسلے میں چند باتیں عرض کروں۔ میرے بعض نقوش بالکل انفرادی ہیں۔ میں نے اپنے نقوش میں مشرق رموز بھی پیدا کیے ہیں۔ نیز علامتیں ہیں جو ہماری ثقافتی ثروت کی نشانیاں ہیں۔ میں نے بعد میں بھی کچھ تجربے کیے اور انہیں نیاپن دیا۔ لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو نئی نئی تحریکوں، نئی باتوں، رجحانوں اور انکشافات سے دلچسپی لیتے ہیں۔ وہ فن اور ثقافت کے دائرہ کار کو وسیع کرنا چاہتے ہیں اور اس ضمن میں وہ کبھی کوتاہی نہیں کرتے۔ ذوق نظر نے ہمیشہ روح حیات کا ساتھ دیاہے اور دیتا رہے گا مگر کام کرنے کا وہ زمانہ شاید اب مشکل ہی سے ہاتھ آئے جیسا کہ عرض کیا میں سب قدر دانوں اور مداحوں کے خلوص دل کا معترف ہوں۔ خواص بھی اور عوام بھی۔ انہیں نے اس مرقع کو پیش کرنے کے اسباب پیدا کیے۔ خواص کے ذکر میں میں مہارانی کوچ بہارکا نام لے چکا ہوں، جو سرفہرست ہے پھر ان کی والدہ محترمہ مہارانی بڑودہ ہیں۔ مہاراجہ پٹیالہ، سراکبرحیدری وزیراعظم حیدرآباد دکن، مہارانا شمشیر جنگ بہادر نیپال وغیرہ۔ ان لوگوں کی قدردانی سے مرقع کو وجود بخشنے میں مدد ملی بعض وہ نام بھی ہیں جن کا ذکر بصد احترام کرنا ضروری ہے۔ مثلاً سرتیج بہادر سپرو، سرسالار جنگ بہادر، سرعبدالقادر، نواب احمد یار خاں دولتانہ، سرکرشن پرشاد شاد، میاں نظام الدین بارود خانہ لاہور وغیرہ ان سب نے میری کوششوں کوسراہا۔

            جب مرقع چغتائی پہلی بار تیار ہواتواس کی ایک جلد دربار غالب میں اس طرح پیش کی گئی کہ حضرت نظام الدین اولیاؒ کے پائیں شاعر کے مرقد پر نذرانہ عقیدت رکھ دیا گیا یہ ان کی خدمت میں خراج تھا ایک فنکار کا اور یہ امانت ان تک پہنچادی گئی۔ مگرمعلوم نہیں وہ کون بے باک تھاجواس خراج عقیدت کوبیتا بیٹھا۔ معلوم نہیں اس وقت یہ امانت کس کے پاس ہے؟

            یہ سب توہوا۔ امیدوں سے بڑھ کر قدرافزائی ہوئی مگر تجارتی چکر سمجھ میں نہیں آیا اور دیدے پھاڑ پھاڑ کر ہم ان باتوں کی طرف دیکھتے رہے اور عجب احوال رہا۔ عام ایڈیشن سے بڑے بڑے امکانات وابستہ تھے۔ مگر ہوا وہی کہ سرمایہ دارتاجر اپنا کام کر گیا اور ان باتوں کی نافہمی سب کچھ چٹ کرگئی، جمالیاتی قدریں اور امنگیں ترستی رہیں۔

English Hindi Urdu