غالب کی ایک غزل کا ممکنہ محرک

محمدضیاء الدین احمد شکیب

 غالب کی ایک غزل کا ممکنہ محرک

:غالب نے ایک غزل

“غنچہ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں

بوسے کو پوچھتاہوں میں، منھ سے مجھے بتا کہ یوں”

          1816 اور 1821 کے درمیانی زمانے میں کہی ہے(1)۔ گویا جب ان کی عمر کم از کم انیس سال اور زیادہ سے زیادہ چوبیس سال تھی۔ گمانِ غالب یہی کہتا ہے کہ انیس، بیس یا اکیس سال کے ہوں گے کہ ابھی فارسی کی طرف ان کا میلان نہیں ہوا تھا اور وہ اردو ہی میں کمالِ فن کے حصول کے لیے کوشاں تھے۔ اس زمانے میں وہ اسد تخلص کیا کرتے تھے۔ چناں چہ اس غزل کا مقطع پہلے یوں تھا:

جو یہ کہے کہ ریختہ کیوں کہ ہو رشکِ فارسی

شعر اسد کے ایک دو پڑھ کے اسے سنا کہ یوں(2)

بعد میں انہوں نے مقطع کا دوسرا مصرع بدل دیا اور اس میں اسد کی جگہ غالب تخلص رکھ کر شعر کو یوں کردیا؎

جو یہ کہے کہ ریختہ کیوں کہ ہو رشکِ فارسی

گفتہ غالب اک بار پڑھ کے اسے سنا کہ یوں(3)

          اس تبدیلی سے پہلے والا مصرع شاعر کی ناپختگی کا غماز ہے۔ ساتھ ہی یہ وہ زمانہ تھاجب وہ بیدل کی پیروی میں دقیق مضامین کو اردو غزل میں باندھتے اور ریختے میں اظہا رکی نئی راہیں نکالنے اور گنجائش پیدا کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ اگرچہ اس وقت تک ولی، سراج، میر تقی میر اور سودا نے ریختے کو کہیں کا کہیں پہنچا دیاتھا اور ان سب کے یہاں یہ ادعا ملتا ہے کہ ان لوگوں نے ریختہ جیسی چیز پر توجہ دے کر اس کا مرتبہ اونچا کیا۔ ان کایہ ادعا غلط بھی نہیں تھا۔ لیکن غالب نے ریختے میں نئے امکانات محسوس کیے۔ یعنی اظہار کے ایسے امکانات جو فارسی کی نسبت اردو میں زیادہ ہیں۔ چناں چہ ریختے میں کہی ہوئی اس غزل کو انہوں نے رشکِ فارسی کے طور پر پیش کیا۔ ہر باصلاحیت شاعر اپنے لیے ایک نیا راستہ نکالنے کی کوشش کرتاہے۔

          اس غزل سے ایک اور بات ظاہر ہوتی ہے کہ غالب نے یہ غزل کسی فارسی غزل کے ردِّ عمل میں کہی۔ مقطع کے تیور یہ بھی بتاتے ہیں کہ جیسے کسی نے ان کو کوئی فارسی غزل سنائی ہو اور کہا ہو کہ ”دیکھو ریختے میں یہ بات کہاں آسکتی ہے“۔ اس بات کو غالب نے ایک چیلنج کے طور پر لیا۔ خاص طورپر اس زمانے میں جب وہ ریختے ہی کو اپنا وسیلہ اظہار بنائے ہوئے تھے۔ وہ فارسی کے توڑ پر اردو میں غزل کہنے بیٹھ گئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سی فارسی غزل تھی جس کے ردِّ عمل میں یہ سب کچھ ہوا۔

          فارسی میں”کہ یوں“ کی ردیف کے لیے ”ہم چناں“ یا ”ہم چنیں“ کی ردیف ہوسکتی ہے۔ چناں چہ حضرت امیر خسروؒ کے یہاں اس ردیف میں کئی غزلیں ہیں، مگر ایک غزل اسی بحر اور اسی مزاج کی ہے۔ اس کے اشعار یہاں نقل کیے جاتے ہیں:

تنگ نبات چوں بود لب بہ کشا کہ ہم چنیں

آبِ حیات چوں رود خیز و بیا کہ ہم چنیں

ہر کہ بگویدت کہ تو دل بچہ شکل میں بری

از سرِ کوی ناگہاں مست برآ کہ ہم چنیں

ہر کہ بہ گویدت کہ جان چوں بود اندرونِ تن

یک نفسے بیا نشین در برما کہ ہم چنیں

ہر کہ بگویدت کہ گل خندہ چگونہ می زند

 غنچہ شکرینِ خود باز کشا کہ ہم چنیں

ور بہ تو گویم ای پسرکت بہ کنار چون کشم

تنگ ببند برمیاں بندِ قبا کہ ہم چنیں

ہر کہ پری طلب کند چہرہ خود بد و نمای

ہر کہ ز زلف دم زند زلف کشا کہ ہم چنیں

لاف وفا زنی ولے نیست براے نام را

در تو نشان از وفا ہم بہ وفا کہ ہم چنیں

ہر کہ نخواند ہیچ گہ نامہ عشق چون بود

قصہ حالِ خسروش باز نما کہ ہم چنیں

          پروفیسر انامیری شمل نے مرزا غالب کے اپنے جرمن ترجمے میں یہی خیال ظاہر کیا ہے کہ غالب نے یہ غزل خسروؒ کی اس غزل سے متاثر ہو کر کہی ہے۔ لیکن یہ بات قرینِ قیاس نہیں ہے کہ غالب خسرو کی غزل کے مقابل اردو غزل پیش کرکے یہ کہیں کہ یہ ریختہ رشکِ فارسی ہے۔ ایسا دعویٰ وہ اپنے کسی معاصر یا ہم چشم کے کلام کے حوالے سے ہی کرسکتے تھے۔ ہمارا خیال ہے کہ غالب نے یہ غزل اپنے ایک معاصر نواب وجیہہ الدین خاں معنی کی ایک غزل کے جواب میں کہی تھی۔

          نواب وجیہہ الدین خاں معنی نواب تاج الدین خاں کے پڑ پوتے تھے۔ نواب تاج الدین خاں عمدة الامراء معین الملک اسدالدولہ خان بہادر ذوالفقار جنگ والا جاہ دوم، نواب آف آرکاٹ (وفات 15 جولائی 1810) کے ہم جد اور داماد تھے۔ یہ خاندان فاروقی الاصل اور حضرت فرید الدین گنج شکرؒ کی اولاد سے تھا اور یوپی کے قصبہ گوپامﺅ میں بس گیا تھا۔ والا جاہ اول کے والد نواب سراج الدولہ انورالدین خاں بہادر شہامت جنگ تھے جو نواب میر قمرالدین خاں آصف جاہ اول، بانیِ ریاستِ حیدرآباد کی دعوت پر گوپامﺅ سے دکن گئے اور ناظم ارکاٹ کے عہدے پر فائز ہوئے۔(4)

          وجیہہ الدین خاں معنی کی صحیح تاریخِ پیدائش تو معلوم نہیں ہوسکی تاہم قرائن سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ اٹھارویں صدی کے آخری دہے میں پیدا ہوئے۔ اور عمر میں غالب سے کسی قدر بڑے ہوں گے۔ وجیہہ الدین خاں معنی کا انتقال 27 ربیع الاول 1286ھ مطابق 2 دسمبر 1869ء کو گویا غالب کے انتقال کے کوئی دس مہینے بعد ہوا۔(5) حیدرآباد میں حضرت آغا داودؒ کی درگاہ میں تدفین ہوئیں۔ سنگِ سیاہ کی بنی ہوئی قبر ابھی موجود ہے۔

          اس سلسلے میں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ انیسویں صدی کی پہلی چوتھائی میں غالب کے خاندان کے تعلقات حیدرآباد سے کئی طرح کے رہے ہیں۔ اس زمانے کی ابتدا تک ان کے والد مرزاعبداللہ بیگ تین سو سواروں کی جمعیت سے برسوں حیدرآباد میں ملازم رہے۔ پھر انہوں نے یہ ملازمت چھوڑی۔ پہلے دہلی اور پھر الور چلے گئے جہاں وہ 1802ء میں مارے گئے۔ 1841ء اور 1827ء کی درمیانی مدت میں ان کے بھائی مرزا یوسف حیدرآباد میں نہایت مقتدر عہدے پر سرفراز رہے۔ اسی دوران ان کے بہنوئی مرزا اکبر بیگ حجِ بیت اللہ سے فارغ ہوکر حیدرآباد پہنچے اور مہاراجہ چندولال کے مہمان رہے۔ ظاہر ہے کہ ان روابط کی وجہ سے مرزا غالب کو حیدرآباد کے اور حالات سے واقفیت رہتی ہوگی۔(6)

          یہی زمانہ نواب وجیہہ الدین خاں معنی کی جوانی کا تھا۔ معنی کی تعلیم و تربیت اعلیٰ پیمانے پر ہوئی تھی۔ وہ فارسی میں اعلیٰ درجے کے شعر کہتے تھے۔ غالب کی طرح ان کی جوانی کے کلام میں رنگین مضامین ہیں لیکن رفتہ رفتہ ان کے مزاج اور شاعری دونوں میں ایک صوفیانہ رنگ پیدا ہو گیا۔ ان کی غزلیں جیسے:

          “من نیم واللہ یاراں من نیم” آج بھی برِصغیر میں جگہ جگہ قوالیوں میں گائی جاتی ہیں۔

          معنی کا کلام ان کے پڑپوتے اور میرے رفیق دیرینہ جناب یوسف الدین خاں صاحب، جو اب برطانیہ کے شہری ہیں، کے یہاں محفوظ تھا۔ میرے اصرار پر اب انہوں نے اس کی اشاعت کا اہتمام کیاہے۔ اسی دیوان سے یہاں وہ غزل نقل کی جاتی ہے جو اس گفتگو کی محرک ہے۔ (8)

صبح چگونہ در دمد رو بنما کہ ہم چنیں

شام چگونہ سر زند زلف کشا کہ ہم چنیں

فصلِ بہار یا سمن چوں برسد بہ چمن چمن

خندہ زنان بسوے من زود بیا کہ ہم چنیں

گفتمش ای کرشمہ دان نازِ تو خوں کند چساں

دست نہادہ برمیاں کرد ادا کہ ہم چنیں

دستِ زدین کشیدہ ام کفرِ تو برگزیدہ ام

ہیچ بتے نہ دیدہ ام نامِ خدا کہ ہم چنیں

شد بچہ رنگ غنچہ را دستِ صبا گرہ کشا

از سر ناز وا نما بند قبا کہ ہم چنیں

پیشِ مریضِ سکستہ دم چوں بود آئینہ بہم

بر رخِ من بنہ صنم روے صفا کہ ہم چنیں

پر سد اگر کسی ز تو شیفتہ چوں کنی بگو

برزدہ چشمکے بہ او دل بہ ربا کہ ہم چنیں

بر افقِ فلک چساں مہر بود ضیا فشاں

اے مہ آسمانِ جاں بام برآ کہ ہم چنیں

فتنہ بلند چوں شود حشر بپا چگوں شود

 خلق چساں زبوں شود خیز زجاکہ ہم چنیں

گفت کسے زیار مست جاں بہ بدن چگونہ ہست

 آمدہ ناگہاں نشست در برِ ماکہ ہم چنیں

رفت چگو نہ زین سرا معنی خاکسارِ ما

مشت غبار، خاک را دہ بہ ہوا کہ ہم چنیں

          صاف ظاہر ہے کہ یہ غزل امیر خسروؒ کی زمین اور انہیں کے اتباع میں کہی گئی۔ او ربعض اشعار میں تو خسرو ہی کے مضامین کی الٹ پھیر ہے۔ “مثلاً در برماکہ ہم چنیں” والا شعر۔

معنی نے غزل کو زیادہ شوخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کوشش میں بعض جگہ وہ ابتذال کی حد کو پہنچ گئے۔ جس کو غالب نے محسوس کیا۔ اس سے پہلے کہ ان غزلوں کے بارے میں اور کچھ کہا جائے غالب کی غزل کو بھی سامنے رہنے دیجیے۔ غنچہ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں بوسے کو پوچھتا ہوں میں منھ سے مجھے بتا کہ یوں

پرسشِ طرزِ دل بری کیجیے کیا؟ کہ بن کہے

 اس کے ہر ایک اشارے سے نکلے ہے یہ ادا کہ یوں

رات کے وقت مَے پیے، ساتھ رقیب کو لیے

آوے وہ یاں، خدا کرے، پر نہ کرے خدا کہ یوں

غیر سے رات کیا بنی؟ یہ جو کہا، تو دیکھیے

سامنے آن بیٹھا اور یہ دیکھنا کہ یوں

بزم میں اس کے رو بہ رو، کیوں نہ خموش بیٹھیے

اس کی تو خامشی میں بھی، ہے یہی مدعا کہ یوں

میں نے کہا کہ “بزمِ ناز چاہےے غیر سے تہی”

سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں

مجھ سے کہا جو یار نے “جاتے ہیں ہوش کس طرح؟”

دیکھ کے میری بیخودی چلنے لگی ہوا کہ یوں

کب مجھے کوئے یار میں رہنے کی وضع یاد تھی؟

آئینہ دار بن گئی حیرت نقش پا کہ یوں

گر ترے دل میں ہو خیال، وصل میں شوق کا زوال

موج محیطِ آب میں مارے ہے دست و پا کہ یوں

جو یہ کہے کہ “ریختہ کیوں کہ ہو رشکِ فارسی؟”

گفتہ غالب ایک با رپڑھ کے اسے سنا کہ یوں

          معنی اور غالب دونوں کی غزلیں ایک ہی بحر میں ہیں۔ دونوں کے قافیے اور ردیفیں ایک ہیں۔ ”ہم چنیں“ کاترجمہ ”کہ یوں“ نہایت سلیس اور خالص ریختہ ہے۔ تاہم نثار احمد فاروقی کی اطلاع کے مطابق یہ زمین غالب کے ایک پیش رو شاہ نصیرکی نکالی ہوئی ہے۔ (8) ریختے کی یہی شان ہے کہ اس میں عربی اور فارسی کے الفاظ کم سے کم ہوں۔ دونوں غزلوں میں بہت سے الفاظ مشترک ہیں جیسے:

غنچہ، ادا، ناز، ہوا، آئینہ، خدا، دل، پا۔

          کئی الفاظ اور فقرے ایسے ہیں کہ جو اس فارسی غزل میں آئے ہوئے لفظوں یا فقروں کاترجمہ ہیں جیسے:

بنما: دکھا؛ بیا؛آئیں؛ گفتمش: میں نے کہا(جویارسے)؛ کروادا: نکلے ہے یہ ادا۔

          چوں بود آئینہ بہم: آئینہ بہم: آئینہ دار بن گئی؛ پرسداگر کسی زتو(جویہ کہے کہ۔۔۔)

          آمدہ ناگہاں نشست: سامنے آن بیٹھنا؛ رفت چگونہ: جاتے ہیں(ہوش) کس طرح؛وہ بہ ہوا: (چلے لگی ہوا) لفظوں سے کہیں زیادہ تلازمات اور محاکات میں مماثلتیں ہیں۔ کہیں کہیں تو شعر کے جواب میں شعر کہا گیا ہے۔ الغرض غالب کی غزل میں معنی کی غزل کی گونج صاف سنائی دیتی ہے۔

          زیرِ نظر غزلوں میں وہ خسرو کی غزل ہو کہ غالب کی یا معنی کی سب میں جو بات مشترک ہے وہ مضامین کی شوخی ہے۔ شوخ مضامین کی ادایگی میں اس بات کا بڑا اندیشہ ہوتاہے کہ شوخی حدِ ابتذال میں نہ چلی جائے۔ یعنی بات صرف طریقہ اظہار کی ہے۔ ورنہ عریاں سے عریاں مضمون اس طرح ادا کیا جا سکتا ہے کہ اس سے اظہار پر ابتذال کا الزام نہ آئے۔ کم از کم اس زمانے کا معیارِ فکر و فن یہی تھا۔ غالب نے اپنے ریختے میں مضامین کو شوخ سے شوخ تر کردیا۔ لیکن انہیں اس طرح بیان کیاہے کہ وہ فارسی سے زیادہ شائستہ ہیں۔ یہ ایک نہایت مشکل کام تھا لیکن نوجوان غالب اس مہم سے بہ حسن و خوبی عہدہ برآ ہوا۔ معنی کایہ شعر لیجیے:

شد بچہ رنگ غنچہ را دستِ صبا گرہ کشا

از سرِ ناز وا نما بند قبا کہ ہم چنیں

          مطلب یہ ہواکہ جب معشوق کو یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ اگر اس سے کوئی یہ پوچھے کہ صبا کا ہاتھ کلی کی گرہ کس طرح کھولتا ہے تو معشوق کو چاہےے کہ ناز کے ساتھ اپنی قبا کے بند کھول کر دکھلائے کہ اس طرح۔ غالب نے مضمون کو زیادہ شوخ کر دیا لیکن ابتذال ایک دل کش معاملہ بندی میں چھپ کر رہ گیا۔

غنچہ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں

بوسے کو پوچھتا ہوں میں منھ سے مجھے بتا کہ یوں

یقینا غالب کے شعر میں اشارات کی جو زبان ہے اس میں ایک پوری تہذیب اور شائستگی ہے۔

          اسی طرح معنی کا ایک شعر ہے:

پرسد اگر کسی زتو شیفتہ چوں کنی بگو

بر زدہ چشمکی بہ او دل بربا کہ ہم چنیں

          مطلب یہ ہوا کہ معشوق کو پھر مشورہ دیا جا رہا کہ اگر کوئی اس سے پوچھے کہ ”کہو“ تم کسی کو عاشق کس طرح بناتے ہو؟ تو معشوق کو چاہیے کہ آنکھ مار کر اس کا دل اڑالے اور کہے کہ ”اس طرح“ یا ”یوں“۔ اس مضمون میں کئی طرح کا ابتذال ہے۔ معشوق کو اس طرح کے مشورے دینا حد درجہ گری ہوئی بات ہے۔ دوسرے یہ کہ آنکھ مارنا بجائے خود اک مبتذل فعل ہے۔ اس شعر میں ابتذال نے شوخی کی لطافت کو غارت کردیا۔ اس بات کا اندازہ اس وقت ہوتاہے جب اس کے مقابل غالب کایہ اردو شعر پڑھاجائے:

غیر سے رات کیا بنی؟ جو یہ کہا، تو دیکھیے

سامنے آن بیٹھنا اور یہ دیکھنا کہ یوں

اب اس شعر میں آنکھ مارنے کی بات ہے تو سہی لیکن لفظوں میں کہی نہیں گئی۔ مضمون میں شوخی بلاکی آگئی ہے۔ لیکن یہ شوخی، شوخی سے زیادہ شرارت لگتی ہے۔ اس لیے اس میں ابتذال کا احساس نہیں ہوتا بلکہ ہنسی آتی ہے۔

          بعض اشعار کے نفسِ مضمون میں کسی نہ کسی طرح مناسبت ہے۔ جیسے معنی نے کہا:

پیش مریضِ سکتہ دم چوں بود آئینہ بہم

بر رخِ من بنہ صنم روے صفا کہ ہم چنیں

          اس شعر میں ایک مضمون”حیرت“ کابھی مضمر ہے جو شعر کے ظاہری مضمون سے کہیں زیادہ لطیف ہے۔ گمان ہوتاہے کہ غالب کا ذہن حیرت کے لطیف مضمون کی طرف گیا اور انہو ںنے یہ شعر کہا:

کب مجھے کوے یار میں رہنے کی وضع یاد تھی

آئینہ دار بن گئی حیرتِ نقشِ پا کہ یوں

          ان چند باتوں کے علاوہ غالب کی اس غزل میں او رکئی ایسی باتیں ہیں جن سے اندازہ ہوتاہے کہ جب وہ یہ غزل کہہ رہے تھے، ان کے سامنے معنی کی یہ غزل تھی۔

          اس غزل سے غالب کا سارا ادعایہ رہاہے کہ ریختہ رشکِ فارسی ہوسکتاہے۔ یہ بات غالب اس زمانے میں کہہ رہے ہیں جب ایسا سوچنا بھی محال تھا۔ اچھے ریختے کے لےے یہ بھی ضروری تھاکہ اس میں ہندی زیادہ ہو اور عربی و فارسی کے الفاظ کم ہوں۔ اس غزل میں غالب نے ہندی روز مرہ اور محاوروں کو جس کثرت سے برتاہے وہ اس دور میں کہے ہوئے ان کے اور اشعار کے لفظوں کی نسبت بہت زیادہ ہیں۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے مضامین کو مقابلے کی فارسی غزل کے مضامین سے زیادہ بلند اور لطیف کردیا اور تیسرے شوخ سے شوخ مضمون کو اردو میں اس چابک دستی اور خوب صورتی سے پیش کیا ہے کہ فارسی اس کے سامنے مبتذل محسوس ہونے لگی۔

حواشی:

1۔ دیوانِ غالب کامل، تاریخی ترتیب سے، مرتبہ کالی داس گپتا رضا،اشاعت سوم، ممبئی۔ 1995

2۔ دیوانِ غالب، نسخہ حمیدیہ، مرتبہ حمید احمد خان، مجلس ترقی ادب، لاہور۔1983

3۔ کلیاتِ خسرو جلد سوم، مرتبہ اقبال صلاح الدین و سید وزیرالحسن عابدی، پیکیجز لمیٹڈ، لاہور، 1974

4۔ تواریخِ والاجاہی، مرتبہ چندر شیکھرن، گورنمنٹ پریس، مدراس۔ 1957، و نیز تزکِ والاجاہی مترجمہ ایس محمد حسین نینار۔ یونیورسٹی آف مدراس، مدراس۔ 1934

5۔ دیوانِ معنی، انسٹی ٹیوٹ آف انڈین پرشین اسٹڈیز، اقبال اکیڈمی، ماں صاحب ٹینک، حیدرآباد

6۔ غالب او رحیدرآباد از محمد ضیاءالدین احمد شکیب، ادبی ٹرسٹ، حیدرآباد۔ 1969

7۔ دیوانِ معنی محولہ بالا۔

8۔ نثار احمد فاروقی نے بہ حوالہ تذکرہ بے جگراز خیراتی لعل بے جگر لکھاہے کہ ”ایک بار شاہ نصیر میرٹھ آئے اور یہاں کے شاعروں کو یہ مصرعہِ طرح دیاکہ غزلیں کہیں۔ ع”کردے سخن میں تو ذرا بندِ قبا کو وا کہ یوں“ دیکھیے ماہ نامہ نگار، لکھنو ستمبر 1959

غالب کی ایک نئی شرح

اشرف رفیع

غالب کی ایک نئی شرح

                غالب بہت پرانے شاعر نہیں ہیں لیکن اب تک غالب کا مطالعہ جن جن نقاط نظر سے کیاگیایا ان کے بعد کی نسلوں نے انہیں جس جس روپ میں دیکھا، سمجھا اور سمجھایاہے۔ اس سے پتا چلتاہے کہ غالب کی فکر میں نہ صرف غیر معمولی تنوع ہے بلکہ ان کی شخصیت میں مختلف زمانوں میں مختلف انداز سے دیکھے اور سمجھے جانے کا عجیب و غریب طلسم موجود ہے۔ غالب کو سمجھنے کاوہ زمانہ تھاجب ان کی بات وہ سمجھتے تھے یا خدا سمجھتا تھا او راب یہ بھی زمانہ ہے کہ شارحین غالب آگہی کا دام شنیدن بچھائے جارہے ہیں مگر ابھی تک غالب کے عنقائے مدعا کو گرفتار کرنے میں کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا۔

                غالب نے اپنے خطوط میں اپنے بعض اشعار کی تشریح کی ہے۔ یعنی اپنے کلام کی سب سے پہلے شرح خود غالب نے کی ہے۔ غالب کے بعد حالی نے ’مقدمہ شعروشاعری‘ اور ’یادگار غالب‘ میں غالب کے کلام کو سمجھانے کی کوشش کی۔ حالی کے بعد یہ سلسلہ دراز ہوتاگیا۔ چیدہ چیدہ اشعار کی شرح کو نظر انداز کربھی دیں تو غالب کے شارحین کی تعداد سترکے قریب پہنچ جاتی ہے۔ 1921 میں دیوان غالب جدید المعروف بہ نسخہ حمیدیہ کا پہلا ایڈیشن مرتبہ مفتی محمد انوارالحق سامنے آیا تو فہم غالب کے نئی جہتوں کے امکانات روشن تر ہوتے گئے۔ غالب کا مروجہ دیوان در حقیقت ان کے سہل ترین اشعار کا انتخاب ہے۔ نسخہ حمیدیہ سامنے آیاتو اندازہ ہواکہ غالب کے اُن اشعار کی تو شرح ہوئی ہی نہیں جو حقیقتاً تشریحِ طلب ہیں۔ غالب کی جتنی شرحیں 1940 تک لکھی گئیں تھیں وہ صرف ان کے مروجہ دیوان کی شرحیں تھیں۔ حیدرآباد کی ایک نامور علمی ادبی شخصیت سید ضامن کنتوری نے سب سے پہلے نسخہ حمیدیہ کی شرح لکھی۔ اپنے ”پیش حرف“ میں وہ لکھتے ہیں کہ عزیزوں اور دوستوں کی فرمائش اور اصرار پر انہوں نے نسخہ حمیدہ کی شرح کی۔ اس کے بعد انہیں خیال آیاکہ متعارف دیوان کی غزلیں رہ گئی ہیں انہیں بھی ادھورا کیوں چھوڑیں۔ ”ہوتے ہوتے یہ کام مکمل ہوگیا“۔ یہ کام انہوں نے سرسٹھ برس کی عمر میں مکمل کیا۔ اپنے ”پیش حرف“ میں اس کا اظہار کرتے ہیں کہ ”سرسٹھ برس کا فرسودہ دماغ اور جوان غالب کے کلام کی شرح!“ غالب کی شرح کرتے ہوئے اکثر شارحین نے کسی نہ کسی طرح اپنے عجز کا اظہار کیاہے، ضامن کنتوری بھی اس سے بری نہ رہ سکے وہ اپنی سرسٹھ برس کی عمر میں غالب کو جوان اور خود کو بوڑھا سمجھتے ہیں۔

                سید محمد ضامن کنتوری ،کنتور کے ضلع بارہ بنکی میں پیداہوئے چھ سات برس کی عمر میں اپنے والد کنتوری کے ساتھ حیدرآباد آئے۔ عربی، فارسی ادبیات کے مطالعہ کے بعد انگریزی پڑھی زبان و ادب کابھی گہرا مطالعہ کیا۔ شعرفہمی اور سخن سنجی ورثے میں ملی تھی۔ شاعری کے ساتھ ساتھ علمِ عروض و قوافی میں والد کی رہنمائی حاصل تھی۔ اُن کی زندگی ہی میں استادِ فن کی حیثیت حاصل کرلی اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتے تھے۔ دفتر بگی خانہ میں انگریزی کے مترجم ہوگئے۔ نیرنگ مقال (کلیات اردو) ار تنگ خیال (دیوان فارسی) طریق سعادت (نثر) بالک پھلواری(بچوں کی نظمیں) قواعد کنتوری (دوجلدوں میں) عبرت کدہ سندھ (تاریخ) ارمغان فرنگ (انگریزی شعراءکا تذکرہ اور ان کی نظمو ںکے تراجم) شہید وفا (نظم کا ترجمہ) اور آوارہ وطن (گولڈ اسمتھ کی نظم کا ترجمہ) ان کا وقیع سرمایہ فکر و فن ہے۔ ایک ادبی رسالہ لسان الملک (1922) میں نکالنا شروع کیاتھاجو زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔

                ضامن کنتوری کو نہ صرف عربی فارسی اور انگریزی ادبیات پر عبور حاصل تھا بلکہ وہ تاریخِ عرب، ایران و ہند پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ ان کی فکر مجتہدانہ اور منطق و فلسفہ کی مستحکم بنیادوں پر قائم تھی۔ ان میں غالب کے عہد، ان کے فن اور مرتبہ فکر کو سمجھنے کی زبردست صلاحیت تھی جس کی وجہ سے ان کی شرح اپنے عصر کی بیشتر شرحوں میں وسعت فکر، ندرتِ توجیہہ اور معروضیت کی وجہ سے وقیع تر ہوگئی ہے۔ اکثر شارحین نے اپنی شرحیں رسائل اور اخبارات میں شائع کی ہیں مگر ضامن کنتوری کی یہ شرح ابھی تک منظر عام پر نہ آسکی۔ اس شرح کا تعارف سب سے پہلے ڈاکٹر ضیاءالدین شکیب نے 1969  میں اپنی مرکة الآرا تصنیف ”غالب اور حیدرآباد“ میں کروایاتھا۔

                شرحِ ضامن میں غزلوں کی جملہ تعداد (376) ہے جبکہ نسخہ حمیدیہ میں جملہ (275) غزلیں شامل ہیں۔ سہ شنبہ 21 اگست 1934 کو غزلوں کی شرح مکمل ہوئی۔ اس کے بعد قصائد، مثنوی، قطعات اور رباعیات کی شرح سہ شنبہ 25 دسمبر 1934  کو پائے تکمیل کو پہنچی۔ یہ معلوم نہ ہوسکاکہ شرح لکھنے کا آغاز کب ہوا اور شرح کتنے عرصے میں مکمل ہوئی۔ بہرحال اس شرح کے مطالعہ سے اندازہ ہوتاہے کہ شرح طباطبائی کے بعد کئی اعتبار سے یہ ایک معتبر شرح ہے۔ اس کے کئی اسباب ہیں۔ چند اہم اسباب و نکات پر یہاں روشنی ڈالی جاتی ہے۔

                1۔ ضامن کنتوری نے تفہیم و تشریح کا بارگراں خود اٹھایاہے۔ اکثر اشعار کی تشریح کئی صفحات پر محیط ہے۔ ان کا مطلب مختلف زاویوں سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔

                2۔ بعض اشعار کی شرح میں سخن سنجی کا بوجھ قاری پر ہی ڈالاہے۔ مثلاً

زلف سیہ افعی نظر بد قلمی ہے

ہرچند خط سبز و زمرد رقمی ہے

                کی شرح میں لکھتے ہیں ”اس شعر کے الفاظ تو نہایت قیمتی اور چمکدار ہیں لیکن ان میں بہم کیا ربط ہے؟ اور معنی شعر کے کیا ہیں؟ اسے سمجھنے والے ہی سمجھیں گے“

                3۔ کئی مقامات پر شرح کرنے کے ساتھ ساتھ مشروحہ شعر کے ہم معنی اشعار فارسی کے معروف شاعرو ںکے کلام سے نقل کےے ہیں، تاکہ غالب کی تفہیم میں آسانی ہو اور قاری کا ذہن وسعت پاسکے۔ ان شاعروں میں بیدل، نظیری، عرفی، خاقانی، قاآنی، بلخی، سعدی، حافظ اور مولانا روم سے استفادہ کیا ہے۔

                4۔ جہاں بطور دلیل ،مثال یابرائے تفہیم مزید فارسی اشعار لائے ہیں بیشتر مقامات پر ان کا ترجمہ بھی کردیاہے۔

                5۔ فارسی میں شرح نویسی کی جو طاقتور روایت کارفرمارہ چکی ہے وہ کثیرالجہات تھی یعنی شرح لکھنے والا شعر کا مفہوم لکھنے کے ساتھ اس شعر سے متعلق ضروری نکات بھی لکھتا جاتا تھا، یہی انداز اس شرح کا بھی ہے۔ اشعار کی شرح کے ذیل میں زبان و بیان محاورہ دلی و لکھنو، بلاغت و فصاحت، عروض و قافیہ، فلسفہ و منطق کے بہت سے مسائل بکھرے ہوئے ہیں۔ مثلاً اس شعر میں:

بے پردہ سوئے وادی مجنوں گزر نہ کر

ہر ذرے کی نقاب میں دل بے قرار ہے

“نقاب“ کی تذکیر و تانیث میں لکھنو اور دلی کے فرق کی نشاندہی کی ہے، کہتے ہیں: ”نقاب کو چاہے مونث پڑھےے یا چاہے مذکر، اس لےے کہ لکھنو میں تانیث اور دہلی میں اب بھی بہ تذکیر بولتے ہیں“۔

آگے چل کر شرح کے ختم پر کہتے ہیں ۔”بے پردہ کا لفظ اس شعر میں محض نقاب کی رعایت سے استعمال ہواہے لیکن بے محل ہے“۔

                مآل اچھاہے، سال اچھاہے والی غزل کے ایک شعر میں تنافر لفظی کی شکایت اس طرح کی ہے۔

ہم سخن تیشہ نے فرہاد کو شیریں سے کیا

جس طرح کا کہ کسی میںہو کمال اچھا ہے

شرح میں لکھتے ہیں ”صاف شعر ہے مصرع ثانی میں تین کاف کا، کہ، کسی یکجاہوگئے ہیں“۔

6۔ اشعار کاوہی مفہوم عموماً لکھاگیاہے جس پر شعر کے الفاظ، ظاہری طورپر دلالت کرتے ہیں ایسی قیاس آرائی کو دخل نہیں دیاگیاہے جس کا تعلق شرح لکھنے والے کی اپنی جولانی طبع او رنکتہ آرائی سے ہوتاہے۔

7۔ اس شرح کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انہو ںنے کلام غالب کے سارے الفاظ کی بہ استناد صراحت کردی ہے۔ خواہ وہ الفاظ آسان ہوں کہ مشکل اور ساتھ ہی متروک الفاظ کی بھی نشاندہی کی ہے۔ اس شرح سے مدد لے کر فرہنگِ غالب مرتب کی جاسکتی ہے۔

8۔ غزل کی زبان اشارات کی زبان ہے۔ ان اشارات کا زندگی پر کب؟ کہاں اور کیسے اطلاق ہوتاہے جب تک اس کی وضاحت نہ ہو شعر کا صحیح عرفان حاصل نہیں ہوسکتا۔ ضامن کنتوری نے اس کی پوری کوشش کی ہے کہ ہر شعر کو زندگی کی تجربہ گاہ میں لاکے دیکھیں۔ مبالغہ آمیز اور پیش پا افتادہ تجربات پر انہوں نے صاف اعتراض کردیاہے۔ غالب کے اس مشہور شعر پر انہو ںنے بڑی سخت تنقید کی ہے:

پلادے اوک سے ساقی جو مجھ سے نفرت ہے

پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے، شراب تو دے

                ان کی تنقید نہ لسانی ہے نہ فکری بلکہ طبقاتی تہذیب پر ہے۔طویل تشریح کے بعد دو ٹوک لہجے میں کہتے ہیں ”بہرحال یہ شعر کہنے کا نہیں تھااو رنہ اِسے شعر کہہ سکتے ہیں ہاں نظم واقعہ ہے“ اسی غزل کے مقطع پر طباطبائی نے محاورے اور زبان کی بحث کی ہے۔ ضامن کنتوری نے زبان اور محاورے کا کوئی مسئلہ نہیں اٹھایا بلکہ صاف صاف کہہ دیاکہ ”یہ بھی غزل کا شعرنہیں ہے اور کسی واقعہ پر مبنی معلوم ہوتاہے۔اگر غالب کہنا چاہتے تو اس سے بہتر پہلو نکال سکتے تھے“۔

ان اشارات سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ ضامن کا تنقیدی نقطہ نظر زندگی سے دوری پسند نہیں کرتااو ریہ بھی کہ وہ غالب سے مرعوب نہیں بلکہ انہیں اصلاح دینے کی جرات بھی کرسکتے ہیں اور بھی کئی اشعار کی شرح میں یہی ان کا واضح اور متاثر کن رویہ ہے۔

10۔ ایک اور شعر ہے جس کی شرح میں وہ غالب پر اعتراض کرتے ہیں۔ شعر ہے:

نہ پوچھ حال، شب و روز ہجر کا غالب

خیالِ زلف و رخِ دوست صبح و شام رہا

                شرح میں صرف اتنا لکھتے ہیں ”زلف و رخ کو شب و روز سے تشبیہہ دینا مقصود ہے“ آگے کڑا اعتراض کرتے ہیں کہ ”او ریہ تشبیہہ درجہ ابتذال کو پہنچ گئی ہے“ یعنی تشبیہہ کے اس گئے گزرے معیار کی وہ غالب سے توقع نہیں رکھتے اس لےے اس کی مزید تشریح بھی انہوں نے گوارانہیں کی۔

۱۱۔          ضامن کنتوری نے بعض اشعار کی تعریف میں بھی کوئی کمی نہیں کی ہے۔ کہیں کہیں پوری غزل کوبھی سراہاہے۔اس تعریف و تحسین میں انہو ںنے فنی محاسن کے ساتھ ساتھ جذباتی بہاوکو بھی پیش نظر رکھاہے۔ اس موقع پر غالب کی مشہور غزل ”کوئی دن اور“ کی مثال دی جاسکتی ہے۔ لکھتے ہیں ”غالب کی یہ غزل جذباتی شاعری کی بے نظیر مثال ہے، صرف یہی ایک غزل کسی شاعر کے کمال شاعری اور صحتِ ذوق کو ثابت کرنے کے لےے کافی ہے‘ ایک اور شعر:

غم کھانے میں بودا دل ناکام بہت ہے

یہ رنج کہ کم ہے مئے گلفام بہت ہے

                اس میں بندش کی تعریف کی ہے” اس شعر کی بندش مستحق ہزار آفریں ہے اگرچہ ہے کچھ نہیں، صرف لفظوں کی الٹ پھیر ہے“

12۔ بعض فلسفیانہ اور صوفیانہ مزاج کے اشعار کی تشریح میں گئے بغیر صرف شعر کی ندرت زبان و بیان کی تعریف کردی ہے جیسے اس شعر کی شرح:

قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل

کھیل لڑکوں کا ہوا دیدہ بینا نہ ہوا

                میں طباطبائی نے بھی اختصار سے کام لیاہے۔ ضامن کنتوری نے صرف ایک ترکیب کی وضاحت کی ”دیدہ بینا چشم عارف“ اور صرف اتنا کہہ دیا مضمون پرانا ہے مگر بندش نئی اور بالکل نئی ہے۔

13۔ شرح نویسی میں ضامن کنتوری کا بنیادی رجحان نفس مضمون تک پہنچنے کا ہے اس کے لیے مشکل الفاظ کے معنی دےے ہیں پھر اصطلاحات، تلمیحات، تراکیب اور روایات کی وضاحت کی ہے لیکن جہاں انہوں نے ایسی وضاحت کو ضروری نہیں سمجھا وہاں صرف نفس مضمون کی طرف اشارہ کردیا۔ کہیں صرف اصطلاحات کی وضاحت کرکے بات ختم کردی جیسے یہ شعر:

نامہ بھی لکھتے ہو تو بہ خطِ غبار، حیف

رکھتے ہو مجھ سے اتنی کدورت ہزار حیف

                شرح کے بغیر اتنا لکھ دیا ”خط غبار اقسام خط سے ہے جن کی پاشانی میں غبارکی صورت پیدا ہوتی ہے جیسے خط ریحان، خط گلزار، خط طغرا وغیرہ“

14۔ شرح نویسی کے دوران جہاں جہاں املا، تلفظ اور نئے الفاظ کے تعارف کے مسائل آئے ہیں وہاں وہاں انہوں نے ان مسائل کی تشریح بھی کردی ہے۔ مثلاً ’پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے‘کے قطع کی تشریح میں جو بحث کی ہے وہ قابل توجہ ہے۔

15۔ نسخہ حمیدیہ کے بعض اشعار پر جنہیں متداول دیوان میں شامل نہیں کیاگیا”نظری“ کرنے کے اسباب کی تلاش بھی کی ہے جیسے مندرجہ ذیل شعر میں تشریح کے بعد ”شعر کو نظری کرنے کا باعث“ بتلایاہے:

شوخی مضراب جولاں آبیار نغمہ ہے

ہر گریز ناخن مطرب بہار نغمہ ہے

”شعر کو نظری کرنے کا باعث یہ معلوم ہوتاہے کہ جولاں مصدر ہے۔ اس کو صفت (اسم فاعل) کی جگہ استعمال کیاہے لیکن چاہتے تو پس و پیش سے سیدھا کرلیتے اس طرح: شوخی، جولانِ مضراب الخ“

16۔ ضامن کنتوری نے قواعد کنتوری دو جلدوں میں لکھی ہے جس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ اس فن میں ان کی نظر کتنی گہری ہے۔ شاید اسی لےے جہاں جہاں موقع ملتاہے فن عروض کے رموز اور فصاحت و بلاغت کے مسائل بیان کرنے سے بھی وہ نہیں چوکتے۔ شارحین غالب میں یہ جرات مندانہ رویہ سب سے پہلے ہمیں طباطبائی کے یہاں ملتاہے۔ ضامن کنتوری بھی اس معاملے میں طباطبائی سے کم نہیں۔ ایسے میں وہ تشریح کی طرف زیادہ دھیان نہیں دیتے چنانچہ

بہ نالہ حاصل دل بستگی فراہم کر

متاع خانہ زنجیر کی صدا معلوم

                اس شعر کی تشریح پر اتنی توجہ نہیں کی جتنی فکر سخن کے مراحل پر۔ آمد و آورد کے مسئلے پر ایک تفصیلی بحث کے علاوہ فصاحت و بلاغت کے رموز کی تشریح کرتے ہوئے شعر کے مدارج متعین کےے ہیں۔ فصاحت و بلاغت کی مختصر اور دلچسپ تعریف اس طرح کی ہے ”بلاغت سوچو اور لکھو، فصاحت لکھو اور سوچو“ پھر کلام کی سجاوٹ کے لےے زرین مشورہ دیتے ہیں کہ اپنے کلام پر کلام غیر کی طرح نکتہ چینی کے لےے دماغ کو آمادہ کریں“ ان تمام مسائل کے منجملہ شعر کی تشریح چار پانچ صفحات پر محیط ہے۔

عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے

کہ اپنے سائے سے سر پانو سے ہے دو قدم آگے

                اس شعر کی شرح میں تقطیع کرتے ہوئے عروضی بحث کی ہے اور تعقید پر اعتراض کیاہے۔ بحث ملاحظہ ہو۔

                ”عجب نشا=مفاعیلن؛تَ سِ جلّا=فعلاتن؛ دَ کے چلے= مفاعلن؛ ہَ ہم آگے= فعلاتن بحر محتبث مثمن مجنون الارکان۔ اصل اس بحر کی دایرہ میں مُس تفع لن فاعلاتن فاعلاتن ہے۔ فارسی والوں نے آخری رکن کو گراکر مس تفع لن فاعلاتن کو چاربار کرلیا۔ اس طرح یہ چھ رکن کی بحر آٹھ رکن ہوگئی یعنی مُس تفع لن فاعلاتن مس تفع لن فاعلاتن ایک مصرع اور پھر مُس تفع لن فاعلاتن مُس تفع لن فاعلاتن دوسرا مصرع۔ اس غزل کے وزن میں زحاف خُبن کا عمل کیاہے یعنی مُس کا س اور فا کی الف ہر جگہ سے گرادیا ہے۔ نشاط=بالفتح خوشی و شادمانی۔ پہلے مصرع میںنہایت ناگوار تعقید واقع ہوئی ہے۔ کہتا ہے کہ ہم کو اپنے قتل کی ایسی خوشی ہے کہ مقتل جارہے ہیں تو ہمارے سرکاسایہ پانو کے سائے سے دو قدم آگے آگے چلتاہے۔ اگر آفتاب رہرو کی پشت پر ہوتو سایہ سامنے پڑتاہے۔ اس کیفیت سے شاعر نے یہ مضمون پیداکیاہے جو ایک لطیفہ شاعرانہ ہے“۔ ”اسی طرح  ”اڑتی پھرے ہے خاک مری کوے یا رمیں“ کی شرح میں حشو کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔

16۔ غالب کے دیوان کا مطلع غالب فہمی میں بڑی اہمیت رکھتاہے۔ تمام شارحین نے اسے اپنے اپنے طورپر سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔خود مرزا غالب نے سب سے پہلے اس طرف توجہ کی اس کے باوجود شارحین کو کہنا پڑا ”المعنی فی باطن الشاعر“ عقدہ کھلا کہ عقدہ نہیں کھلا۔ ضامن کنتوری نے اس شعر کی تہہ داری اور لفظوں کی پرتیں کھولنے کے بجائے صرف لفظ ”نقش“ پر فکر کو مرکوز کیاہے۔ نقش پرہستی کا اطلاق کرکے عالم مشیت کی عقدہ کشائی کی ہے۔ دیگر شارحین نے اس شعر کے ایک ایک لفظ سے بحث کی ہے اس کے باوجود شعر سلجھنے کے بجائے الجھتا ہی گیا۔ ضامن کنتوری نے صرف ایک متصوفانہ پہلو پر غور کیاہے۔ طویل بحثوں سے قطع نظر طباطبائی کا نام لئے بغیر کہہ دیاکہ ”نقش اپنی ہستی کی بے اعتباری او ربے توقیری کا شاکی ہے پھر اب اعتراض ہی کیاباقی رہا“

18۔ جہاں صوفیانہ مسائل آئے ہیں ضامن کنتوری ان کی بڑی تفصیل میں نکل گئے ہیں احادیث و آیات سے مدد لے کر صوفیانہ مسائل کی وضاحت کی ہے۔ کئی جگہوں پر صوفیانہ اصطلاحات اور استعاروں کے روایتی استعمال کا مذاق بھی اڑایاہے۔جیسے

                شکستِ رنگ کی لائی سحر، شبِ سنبل

                پہ زلفِ یار کا افسانہ ناتمام رہا

                اس شعر کی تشریح کے بعد مصرع اولی کی تازہ ونادر ترکیب کی تعریف کرتے ہوئے زلف دراز کے افسانے کی حیثیت کے بھید کھولتے ہوئے لکھتے ہیں ”یہ شعرائے متصوفین کی نہایت بھونڈی نقالی ہے۔ ان کی اصطلاح میں زلف سے مراد صفات باری ہیں۔ زلف ان معنوں میں ہوتو اس کی درازی کا حساب ہی کیا۔ صفات باری کی داستاں کہیں ختم بھی ہوسکتی ہے“

                قطرہ میں دجلہ دکھائی۔۔۔الخ والے شعری میں صرف اتنا لکھ دیتے ہیں کہ مضمون پراناہے مگر بندش نئی اور بالکل نئی ہے۔

مرزا غالب مستقبل کے نقیب ہیں۔ ان کے اشعار جتنے کھلتے جاتے ہیں اتنے ہی الجھتے بھی جاتے ہیں۔اسی لےے جتنی شرحیں غالب کی منظرعام پر آئی ہیں اتنی آج تک اردو کے کسی شاعر کی نہیں لکھی گئیں۔ ضامن کنتوری کی یہ شرح سات نوٹ بکس کے (1308) صفحات پر مشتمل ہے۔ پہلی دو جلدیں نہایت صاف اور خوش خط لکھی ہوئی ہیں تیسری جلد کی دوکاپیاں ہیں۔ جن میں شامل تشریحات کی جگہ جگہ تصحیح، ترمیم اور اضافہ کیاہے۔ کچھ حصوں کو قلم زد بھی کردیاہے۔ چوتھی جلد میں (386) غزلیات کا حصہ تمام ہوتاہے اسی جلد کے آخری آٹھ صفحات پر قصائد و متفرقات کا سلسلہ شروع ہوتاہے جو پانچویں جلد پر ختم ہوتاہے اس کے آخری صفحہ (1308) پر ترقیمہ میں ہجری فصلی اور عیسوی تاریخِ تکمیل دی گئی ہے۔ عیسوی تاریخ 25 دسمبر 1934 روز سہ شنبہ ہے پیش حرف میں انہو ںنے صاف صاف لکھاہے کہ سرسٹھ سال کی عمر میں یہ شرح لکھی گئی ہے تو اس حساب سے ان کا سنہ پیدایش 1867 ہوتاہے۔ اس شرح کی تکمیل کے تقریباً دس سال بعد یعنی 1944، ستہتر برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوتاہے۔

                ضامن کی شرح کا یہاں جو تعارف پیش کیاگیاہے وہ انتہائی مختصر مگر کئی لحاظ سے ضروری تھا۔اس اختصار میں بہت سی خوبیاں زیر بحث آنے سے رہ گئیں تفصیل کے خیال سے نمونے اور حوالے بھی زیادہ نہیں دےے جاسکے مگر ان اشاروں سے شارح کے علمی مقام و مرتبہ، غالب فہمی میں ان کی پیش رفت کا اندازہ ہوتاہے۔ یہ ضخیم شرح ضامن کنتوری کو غالبیات کے میدان میں ہمیشہ زندہ رکھے گی۔

غالب کی مُہریں

حنیف نقوی

غالب کی مُہریں

          اشیا کی قدروقیمت کا تعیّن بالعموم ان کی ماہیت اور کیفیتِ ظاہری کی بنیاد پر کیا جاتا ہے لیکن بعض اوقات کوئی نسبتِ خاص کسی شے کو اس کی حیثیتِ ظاہری سے بلند تر کرکے اس مرتبہ و مقام تک پہنچا دیتی ہے جہاں اس کے دوسرے تمام اوصاف ہیچ و بے مقدار ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سربرآوردہ اور نامور شخصیات سے تعلق رکھنے والی بعض معمولی چیزیں بھی محض ان کی ذات سے نسبت کی بناپر غیر معمولی اہمیت اختیار کرلیتی ہیں۔ جہاں تک اردو زبان و ادب کا تعلق ہے، غالب اس معاملے میں بھی اپنے تمام ہم مشربوں میں سابق وفائق ہیں کہ ان سے وابستہ ہر شے اس نسبتِ خاص کے انکشاف کے ساتھ از خود معتبر و محترم ہوجاتی ہے۔ ان کی مختلف مہریں جن کے نقش ان کی بے شمار تحریروں پر ثبت ہیں، اس ضمن میں بہ طورِ مثال پیش کی جاسکتی ہیں۔ مہروں کا رواج انیسویں صدی میں اور اس سے پہلے بہت عام تھا، چنانچہ یہ بات یقینی ہے کہ غالب کے بہت سے معروف و ممتاز معاصرین اور ان سے پہلے کے لاتعداد مشاہیر شعرا اور اہلِ علم نے اپنے ناموں کی مہریں تیار کرائی ہوں گی اور مرورِ ایام کے باوجود بعض کتابوں اور تحریروں پر ان کے نقوش کی موجودگی بھی خارج از امکان نہیں، تاہم ان کی تلاش و تحقیق اور ان سے متعلق گفتگو میں اہلِ علم کی دلچسپی کا ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا جیسی دلچسپی کا مظاہرہ غالب کی مہروں کے سلسلے میں کیاگیاہے۔ البتہ ان کے بعض ہم نام و ہم تخلص یا صرف ہم نام حضرات کی مہریں محض اس غلط فہمی یا شبہے کی بنا پر کہ وہ غالب سے نسبت رکھتی ہیں، ضرور معرضِ بحث میں آتی رہی ہیں۔ نسبتیں کبھی کبھی کتنی اہم ہوجاتی ہیں، یہ اس کا بیّن ثبوت ہے۔

          تازہ ترین معلومات کے مطابق غالب نے اپنی زندگی کے محتلف ادوار میں کم از کم آٹھ (۸) مہریں بنوائی تھیں۔ مالک رام صاحب نے مندرجہ بالا عنوان (غالب کی مہریں) ہی کے تحت اپنے ایک مضمون میں جو ان کے مجموعہ مضامین ”فسانہ غالب“ میں شامل ہے، ان میں سے چھ (۶) مہروں کا مفصّل تعارف سپردِ قلم فرمایاہے۔ بعد کے جن مصنفین اور توقیت نگاروں نے اپنی نگارشات میں ان مہروں کا ذکر کیاہے، ان کا ماخذ یہی مضمون ہے۔ ڈاکٹر گیان چند کے نزدیک ”اس مضمون کا سب سے قابلِ قدر پہلو ان مہروں کا نفسیاتی مطالعہ ہے۱۔“ خود مالک رام صاحب کے ارشاد کے مطابق ”میرزا کی یہ مہریں ان کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت اور عام حالت کی مادّی ترجمان ہیں(انہوں) نے ان میں اپنی زندگی کے اہم واقعات کو بھردیا ہے۲۔“ پیشِ نظرسطور میں یہ دیکھنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ تجزیہ جو بہ ظاہر بہت محققانہ اور عالمانہ معلوم ہوتا ہے، کس حد تک مبنی بر حقیقت ہے؟

          دریافت شدہ مہروں میں سے دو قدیم ترین مہریں غالب نے 1231ھ (1815-16ع) میں کندہ کرائیں تھیں۔ ان میں سے ایک مہر پر خطِ نستعلیق میں ”اسد اللہ خاں عرف مرزا نوشہ“ اور دوسری پر خطِ نسخ میں ”اسد اللہ الغالب“ نقش تھا۔ مالک رام صاحب کے مطابق پہلی مہر سے غالب کی ”اس زمانے کی سرمستی و رنگینی، رندی و ہوس پیشگی بہ درجہ اتم ظاہر ہے۔“ (ص81) جب کہ دوسری مہر”ان کے دلی خیالات و معتقدات کی مظہر ہے۔“(ص82) پہلے تاثر کی تائید میں منشی شیونرائن آرام اور مرزا حاتم علی مہر کے نام کے خطوط سے شطرنج کے کھیل سے دلچسپی، پتنگ بازی کے شوق اورایک ستم پیشہ ڈومنی کو مار رکھنے کے واقعات نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

“غالب کے والد میرزاعبداللہ بیگ خاں کا عرف ”میرزا دولھا“ تھا، اسی لیے لوگ میرزا غالب کو بچپن ہی سے ”میرزانوشہ“ کہنے لگے۔ اس عرف کی پستی ظاہر ہے اور خود میرزا کو بھی بعد کو اس ”نالائق“ عرف سے نفرت ہوگئی تھی۔ مگر اس طوفانی زمانے میں بھلا ثقاہت کہاں قریب پھٹک سکتی تھی۔ یہ باتیں شعور اور تجربے سے حاصل ہوتی ہیں اور وہ ان کی عمر اور گرد و پیش کا اقتضا نہ تھا۔“ (ص81)

دوسری مہر کے سلسلے میں محترم مضمون نگا رکا ارشاد ہے:

          “اس مہرکی بناحضرتِ علی کا لقب ہے۔ چوں کہ میرزا کا نام اسد اللہ تھا، اس لیے انہوں نے اس رعایت سے بہ طورِ سجع یہ نام کھدوا لیا اور بعد کو ان کے دوسرے تخلص کی بنا بھی یہی ہوئی۔ چوں کہ سامنے کی چیز تھی اس لیے جب انہوں نے تخلص تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تو اسد چھوڑ کر بلا تامّل غالب رکھ لیا“ (ص81)

          اس کے بعد حضرت علیؓ سے میرزا صاحب کی عقیدت اور ”شیعت سے شغف“ کو عبد الصمد سے زبانِ فارسی کی تحصیل اور ”ایران کے علوم و رسوم“ سے حصولِ واقفیت کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے علائی کے نام 17جولائی 1862ء کے ایک خط کے حوالے سے ان کے مذہب و مسلک کی وضاحت کی ہے، جس کا لُبِّ لباب خود میرزا صاحب کے الفاظ میں حسب ذیل ہے:

“محمد علیہ السّلام پر نبوت ختم ہوئی مقطع نبوّت کا مطلع امامت اور امامت نہ اجماعی بلکہ مِن اللہ ہے، اور امام مِن اللہ علی علیہ السّلام ہیں، ثمّ حسن، ثمّ حسین تامہدی موعود علیہ السّلام “ (ص82)

          ایک ہی سال میں تیارشدہ ان دو مہروں کو دو مختلف بلکہ متضاد مزاجی کیفیات اور طبعی میلانات کی علامت قرار دے کر مالک رام صاحب نے اجتماعِ ضدّین کی جو مثال پیش فرمائی ہے، وہ عقلاً ممکن الوقوع تو ہے لیکن عملاً بعید از قیاس نظر آتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پہلی مہر میں نام کے ساتھ عرف کی موجودگی نہ تو عنفوانِ شباب کی رنگ رلیوں یا لابالی پن کی مظہر تھی اور نہ ثقاہت کے منافی۔ جیسا کہ خود مالک رام صاحب نے فرمایاہے، غالب بچپن ہی سے ”میرزانوشہ“ کے عرف سے معروف تھے، لیکن واقعہ صرف اتنا ہی نہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ عرف شروع سے آخرِ عمر تک ان کے نام کا جزوِ لا ینفک بنارہا اور یہ بات ان کے لیے کسی بھی درجے میں ناگواری کا باعث نہ تھی۔ غالب کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے یہ بنیادی نکتہ ذہن نشیں رکھنا اشد ضروری ہے کہ مصلحت اندیشی ان کے مزاج کا لابُدی خاصّہ تھی۔ اس معاملہ میں وہ اس قدر حسّاس واقع ہوئے تھے کہ ان سے عمداً کسی ایسے کام کی توقعی ہی نہیں کی جاسکتی تھی جو خلافِ مصلحت یا مقتضاے وقت کے منافی ہو۔ عرف کا معاملہ بھی اس سے مستثنٰی نہیں، چنانچہ اس کے ترک و اختیار کے سلسلے میں بھی ان کی تمام تر ترجیحات بہ ظاہر وقتی ضرورت اور حالات کے تقاضوں کا ردِّ عمل معلوم ہوتی ہیں۔ 1231ھ (1815-16ع) میں اس مہر کے کندہ کرانے کے بعد انہوں نے جہاں جہاں اس عرف کو اپنے قلم سے اپنی شناخت کا وسیلہ بنایا، ان میں سے مندرجہ ذیل تحریریں اب بھی محفوظ ہیں:

          (1) درخواست بہ نام سائمن فریزر مورخہ 28 اپریل 1828 ع ”اسد اللہ خاں عرف مرزا نوشہ برادر زادہ نصر اللہ بیگ خاں جاگیردار سونک سونسا۔“3

          (2) عرضی دعویٰ پنشن مورخہ 28 اپریل 1828 ع ”میرا نام اسد اللہ خاں ہے اور عرف میرزا نوشہ“4

          (3) درخواست بہ نام ”سر حلقہ افرادِ دفتر کدہ کلکتہ“: ’اسمِ ایں فقیر اسد اللہ خان است و علَم مرزا نوشہ و تخلص غالب۔“5

          (4) عرضی بہ نام اینڈ ریواسٹرلنگ مورخہ 15 جولائی 1829 ع ”اسد اللہ خاں عرف میرزانوشہ برادر زادہ کلانِ نصراللہ بیگ خاں۔“6

(5) عرضداشت مورخہ 11 اگست 1829 ع ”اسد اللہ خاں عرف میرزا نوشہ برادر زادہ نصراللہ بیگ خاں جاگیردار سونک سونسا۔“7

(6) مکتوب بہ نام راے سدا سکھ مدیر اخبار جامِ جہاں نما مورخہ جمعہ، 25 صفر 1247ھ (5 اگست 1831ع) ”ایں ننگِ آفرینش کہ موسوم بہ اسد اللہ خاں و معروف بہ مرزا نوشہ و متخلص بہ غالب است۔“ 8

(7) دیباچہ دیوانِ اردو مرقوم بست و چہارم شہر ذی قعدہ 1248ھ (14 اپریل 1833ع) ”نگارندہ ایں نامہ بہ اسد اللہ خاں موسوم و بہ میرزا نوشہ معروف و بہ غالب متخلص است۔“9

(8) مکتوب بہ نام میر مہدی مجروح مورخہ 8 اگست1858ع ”وہ جو تم نے لکھا تھا کہ تیرا خط میرے نام کا میرے ہم نام کے ہاتھ جا پڑا، صاحب! قصور تمہارا ہے۔ کیوں ایسے شہر میں رہتے ہو جہاں دوسرا میر مہدی بھی ہو؟ مجھ کو دیکھو کہ میں کب سے دلّی میں رہتاہوں۔ نہ کوئی اپنا ہم نام ہونے دیا، نہ کوئی اپنا ہم عرف بننے دیا، نہ اپنا ہم تخلص بہم پہنچایا۔”

(9) خودنوشت براے تذکرہ شعرامرتبہ مولوی مظہر الحق مظہر: مرقومہ 1864ع ”اسد اللہ خاں عرف میرزا نوشہ، غالب تخلص۔“10

          ان تحریروں سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ پسند و ناپسند سے قطعِ نظر غالب کو اس اعتراف و اظہار میں کوئی تامل نہ تھا کہ وہ ”مرزانوشہ“ کے عرف سے معروف ہیں۔ اگر وہ اسے اپنی شخصیت کا ایک لازمی جزونہ سمجھتے اور اس سے متنفّر یا بیزار ہوتے تو اس طرح باربار اس کا ذکر ہرگز نہ کرتے۔ ان کے اعزا، احباب اور معاصرین میں بھی ایسے متعدد حضرات شامل ہیں جنہیں اس عرف کے حوالے سے ان کا ذکر کرنے میں کوئی عذر مانع نہ تھا۔ اگراس میں ان کی ناخوشی یابے ادبی کا شائبہ ہوتا تو ان میں سے بعض لوگ یقینا اس سے احتراز برتتے۔ مثلاً:

          (1)  مولانا فضلِ حق خیرآبادی کے بڑے بھائی مولوی فضل عظیم نے 1241ھ 1826ء میں ”افسانہ بھرتپور“ کے نام سے فارسی میں ایک مثنوی لکھی تھی۔ یہ مثنوی مرزا غالب کی نظر سے گزر چکی تھی اور انہوں نے اس کی تاریحِ تصنیف بھی کہی تھی جو ان کے کلیات فارسی میں موجود ہے۔ مصنف نے اس مثنوی کے خاتمے پر یہ تاریخ نقل کرنے سے پہلے مرزا غالب کی تعریف میں بائیس شعر کہہ کر شاملِ کتاب کیے ہیں۔ ان اشعار کا عنوان انہوں نے ”در تعریف مرزا نوشہ صاحب“ قائم کیا ہے اور ایک شعر میں بھی ان کا ذکر ان کے اسی عرف کے ساتھ کیا ہے۔ شعر حسبِ ذیل ہے:

ز اوصافِ او ہر کسے آگہ است

کہ معروف با میرزا نوشہ است11

(2) نواب مصطفی خاں شیفتہ نے 1250ھ 1835ء میں تذکرہ ”گلشنِ بے خار“ تالیف کیا۔ اس میں مرزا صاحب کے ترجمہ احوال کا آغاز ان الفاظ کے ساتھ کیاہے: ”غالب تخلص، اسمِ شریفش اسد اللہ خاں، المشتہر بہ مرزانوشہ“12

‘گلشنِ بے خار’ کا مسودہ طباعت سے پہلے مرزا صاحب کی نظر سے گزر چکا تھا۔ اگر نام کے ساتھ عرف کی شمولیت ان کے مزاج کے خلاف ہوتی تو وہ اس عبارت سے ”المشتہر بہ مرزا نوشہ“ کو بہ آسانی قلمزد کرسکتے تھے۔

          (3) سرسید کے برادرِ بزرگ سید محمد خاں بہادر نے اکتوبر 1841ء میں پہلی بار مرزا صاحب کا دیوانِ اردو اپنے لیتھوگرافک پریس سے شائع کیا تو اس کے سرورق پر ”دیوان اسداللہ خاں صاحب غالب تخلص، میرزا نوشہ صاحب مشہور کا“ لکھ کر گویا اس امر کی تصدیق کی کہ صاحبِ دیوان کا نام اسد اللہ خاں اور تخلص غالب ہے لیکن وہ عام طورپر مرزا نوشہ کے عرف سے مشہور ہیں۔

(4) دیوان کی اشاعت کے فوراً بعد سید محمد خاں بہادر کے لیتھوگرافک پریس ہی سے شائع ہونے والے ”سیدالاخبار“ کے 9 شوال 1357ھ 24 نومبر 1841ء کے شمارے میں ایک اشتہار شائع ہوا تھا جس میں شائقین کو ”پنج آہنگ“ کی اشاعت کے لیے تیاری کی خوش خبری سنائی گئی تھی۔ اس کی ابتدابھی ”مرزا اسد اللہ خاں صاحب غالب تخلص، مرزا نوشہ صاحب مشہور“ سے ہوئی تھی۔

          منشی بال مکند بے صبر،غالب کے شاگرد کی حیثیت سے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ انہوں نے اپنی اردو مثنوی ”لختِ جگر“ 1275ھ 1858ء میں نظر ثانی کے بعد بہ غرضِ اصلاح غالب کی خدمت میں پیش کی تھی۔ اس میں انہوں نے ”در شانِ مجمعِ کمالاتِ صوری و معنوی حضرت استادی جناب مولانا اسد اللہ خاں صاحب“ کے زیرِ عنوان جو اشعار کہے ہیں، ان میں ان کے نام، تخلص اور لقب (عرف) کا بیان اس طرح ہواہے:

نام اس کے سے کرتا ہوں میں آگاہ

اوّل ہے اسد اور آخر اللہ

مشہور تخلص اس کا غالب

مطلوبِ دلِ ہزار طالب

مرزا نوشہ لقب ہے اس کا

ثانی کوئی اور کب ہے اس کا16

(6) مکتوب بہ نام حسین مرزا مورخہ 29 اکتوبر 1859ء میں خود مرزا صاحب کا ارشاد ہے: “کاشی ناتھ بے پروا آدمی ہے۔ تم ایک خط تاکیدی اس کو بھی لکھ بھیجو۔ اکثر وہ کہا کرتا ہے کہ حسین مرزا صاحب جب لکھتے ہیں مرزا نوشہ ہی کو لکھتے ہیں۔”

          (7) مرزا یوسف کے انتقال کے پانچ برس بعد ان کی اہلیہ لاڈو بیگم نے یکم اکتوبر 1862ء کو ایک درخواست کے ذریعے ڈپٹی کمشنر سے یہ التجا کی کہ حکومت کی طرف سے ان کی مالی امداد کی جائے۔اس درخواست کے اندراجات کی روشنی میں ڈپٹی کمشنر نے ان کے کوائف کا جو گوشوارہ مرتب کرکے کمشنر کو بھیجا تھا، اس کا ایک اندراج یہ بھی تھا کہ ”کبھی کبھی اس کے مرحوم خاوند کا بھائی مرزا نوشہ اس کی مدد کرتاہے14۔“ ظاہرہے کہ لاڈو بیگم نے اپنی درخواست میں ”مرزانوشہ“ ہی لکھا ہوگا۔

(8) 1867ء کے اواخر میں غالب نے ”قاطع القاطع“ کے مصنف مولوی امین الدین کے خلاف دہلی کی ایک عدالت میں ازالہ حیثیتِ عرفی کا مقدمہ دائر کیا۔ اس مقدمے میں ان کے وکیل مولوی عزیزالدین تھے۔ انہوں نے 15 دسمبر 1867ء کو پیش کردہ ایک درخواست کے آخر میں اپنے دستخط کے تحت خود کو ”وکیلِ مرزا اسداللہ خاں پنشن دارِ سرکاری عرف مرزا نوشہ“ اور 20 فروری 1868ء کی اسی سلسلے کی ایک اور تحریر کے خاتمے پر ”وکیلِ مرزا اسد اللہ خاں عرف مرزانوشہ“ لکھاہے۔15

(9) غالب کی وفات کے تیسرے دن ان کے فرزندِ متبنّٰی حسین علی خاں شاداں (پسرِ عارف) نے نواب کلب علی خاں کو اس حادثے کی اطلاع دیتے ہوئے لکھا تھا:

 ”بہ تاریخ 15 فروری سالِ حال مطابق 2 ذی قعدہ روزِ دوشنبہ وقت ظہر جناب دادا جان صاحب قبلہ نواب اسد اللہ خاں غالب عرف میرزا نوشہ صاحب نے اس جہانِ فانی سے رحلت کی۔“16

(10) مولانا حالی نے جو غالب کے عزیز ترین شاگردوں میں سے تھے، ”یادگارِ غالب“ کا آغاز اس جملے سے کیا ہے:

“میرزا اسد اللہ خاں غالب المعروف بہ میرزانوشہ، المخاطب بہ نجم الدولہ، دبیر الملک، اسد اللہ خاں بہادر، نظام جنگ، المتخلص بہ غالب در فارسی واسد در ریختہ، شبِ ہشتمِ ماہِ رجب 1212 ہجری کو شہر آگرہ میں پیداہوئے۔“17

          عرف کے متواتر استعمال اور اس کے ساتھ شہرتِ عام کی ان مثالوں کے پیشِ نظر یہ باور کرنے کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی کہ غالب واقعتا اس سے بیزار ہوں گے یا اسے بہ نظرِ حقارت دیکھتے ہوں گے۔ اس کے باوجود یہ بھی واقعہ ہے کہ انہوں نے ایک دوبا راپنے احباب کو اس کے استعمال سے روکابھی ہے اور اسے ”نالائق“ قرار دے کر ایک اعتبار سے اس کی مذمّت بھی کی ہے، لیکن اس کی وجہ ان کی وہی مصلحت اندیشی اور احتیاط پسندی تھی جو انہیں بہ وقتِ ضرورت خلافِ معمول فیصلے لینے پر مجبور کرتی رہتی تھی۔فروری 1828ء میں جب وہ اپنی پنشن کا مقدمہ حکومتِ عالیہ کے سامنے پیش کرنے کی غرض سے کلکتے پہنچے تو ایک ”نکوہیدہ سیرت“ ہم وطن (مرزا افضل بیگ) نے حکّام کو ان کی طرف سے بدظن کرنے کی غرض سے یہ افواہ اڑادی کہ اس تازہ وارد شخص نے اپنا نام بھی بدل لیاہے اور تخلص بھی۔ گویا یہ شخص فریبی اور جعل ساز ہے۔ اسی افواہ کے زیرِ اثر اعیانِ دفتر کو ان کا نام بہ غرضِ ملاقات اپنے افسرِ اعلیٰ تک پہنچانے میں تامّل تھا، کیوں کہ سرکاری کاغذات کے مطابق خاندانی پنشن ”مرزا نوشاہ“ کے نام جاری ہوئی تھی اور وہ ”مرزانوشہ متخلص بہ اسد“ کی منزل سے آگے بڑھ کر اب ”اسد اللہ خاں غالب“ کے طور پر روشناسِ خلق تھے۔ اس مرحلہ دشوار سے نبٹنے کے لیے مرزاصاحب نے اپنے دیوانِ اردو کے ایک قلمی نسخے کا سہارا لیا جسے مرتب ہوئے سات سال سے کچھ زیادہ مدت گزر چکی تھی او راس سفر میں اتفاقاً ان کے ساتھ تھا۔ اس دیوان میں وہ غزلیں بھی شامل تھیں جن کے مقطعوں میں پرانا تخلص (اسد) موجود تھااور وہ غزلیں بھی جن میں نیا تخلص (غالب) نظم ہواتھا۔ مزید برآں اس کے خاتمے پر 1231ھ کی وہ مہر بھی ثبت تھی جس کے نگینے پر ”اسد اللہ خاں عرف مرزا نوشہ“ نقش تھا۔ غالب نے یہ دیوان ایک خط کے ساتھ ”سرحلقہ افرادِ دفتر“ (غالباً سائمن فریزر) کی خدمت میں پیش کردیا تا کہ وہ بہ طورِ خود فیصلہ کرسکیں کہ یہ افواہ کس حد تک درست ہے۔ خط میں انہوں نے لکھا تھا:

“آن مہر بہ ابطالِ دعویِ حداثتِ اسم مسکتِ مدعی است و در مسلّم نہ داشتنِ علَم برے سکوتِ ایں گمنام نیز کافی است۔ آرے اسمِ ایں فقیر اسد الہ خان است و علم مرزا نوشہ و تخلص غالب، لیکن ازیں جاکہ غالب کلمہ رباعی است و ظرفِ بعض بحور نشستِ آں رانیک برنتابد، فقیر لفظِ اسد راکہ مخففِ اسمِ عاصی است و معِ ہٰذا کلمہ ثلاثی، گاہ گاہ تخلص اختیار می کند۔“ 18

          اس تحریر سے غالب کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھاکہ اب سے بارہ سال پہلے بھی جب کہ یہ مہر تیار ہوئی تھی، وہ ”اسد اللہ خاں“ کے نام سے موسوم تھے۔ لہٰذا یہ مہر مدّعی کے اس دعوے کی تردید کے لیے کہ انہوں نے اپنا نام بدل لیا ہے، ایک مسکت دلیل کی حیثیت رکھتی ہے۔ نیز یہ کہ ”مرزانوشہ“ انھی کاعرف ہے اور یہ ان کا اختیارِ تمیزی ہے کہ وہ چاہیں تو اسے استعمال کریں اور چاہیں تو ترک کردیں۔ اس کے بعد کچھ دنوں تک وہ سرکاری خطوط اور عرضداشتوں میں اپنا نام ”اسد اللہ خاں عرف مرزانوشہ“ لکھتے رہے، بعد ازاں جب یہ قضیہ فیصل ہوگیاکہ ”مرزانوشہ“ بھی وہی ہیں اور ”اسد اللہ خاں“ بھی وہی تو انہوں نے اس دو عملی سے نجات پانے کے لیے آئندہ بہ نظر احتیاط صرف ”محمد اسد اللہ خاں“ یا ”اسد اللہ خاں“ لکھنے کا تہیّہ کرلیا۔ چنانچہ قیامِ کلکتہ کے اسی زمانے میں ایک بار اپنے دوست راے چھج مل کو خط لکھا تو پتے کے ذیل میں ان کے لکھے ہوئے مفصل نام کو موضوعِ گفتگو بناکر یہ سوال بھی کرڈالاکہ:

“برعنوانِ مکتوب کلمہ نواب راجزوِ اعظم (کذا=اسم) ساختن یعنی چہ و عرف پایانِ اسم رقم کردن چرا؟ سگِ دنیا را بہ اسد اللّٰہی شہرت دادن چہ کم است کہ نوابی و میرزائی برسرِ ہم باید افزود۔“19

          یہ بات بہ ظاہر انکسا رکے طورپر کہی گئی ہے لیکن اصل مقصد یہی معلوم ہوتاہے کہ نام کے ساتھ عرف نہ شامل کیا جائے تاکہ پڑھنے والے کا ذہن اس قضیہ نامرضیہ کی طرف منتقل ہی نہ ہو کہ مکتوب الیہ اب سے پہلے ”مرزانوشہ“ کے نام سے موسوم تھا اور اب اس نے اپنا نام بدل کر ”اسد اللہ خاں“ کر لیا ہے۔ اس کے بعد اگلے تیس (30) برسوں میں ان کی کوئی ایسی تحریر نہیں ملتی جس میں انہوں نے اس عرف سے بریّت کا اظہار کیا ہو یا کسی کو اس کے استعمال سے روکاہو۔ تا آن کہ یکم ستمبر 1858ء کو انہو ںنے مرزا ہرگوپال تفتہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا:

“صاحبِ مطبع (مفیدِ خلائق،آگرہ) نے خط کے لفافے پرلکھاہے:

”مرزانوشہ صاحب غالب“ للہ غور کرو، یہ کتنا بے جوڑ جملہ ہے۔ ڈرتاہوں کہ کہیں صفحہ اولِ کتاب پر بھی نہ لکھ دیں صرف اپنی نفرت عرف سے وجہ اس واویلا کی نہیں ہے بلکہ سبب یہ ہے کہ دلّی کے حکّام کو تو عرف معلوم ہے مگر کلکتے سے ولایت تک یعنی وزراکے محکمے میں اور ملکہ   عالیہ کے حضور میں کوئی اس نالائق عرف کو نہیں جانتا، پس اگر صاحبِ مطبع نے ”مرزانوشہ صاحب غالب“ لکھ دیاتو میں غارت ہوگیا، کھویاگیا، میری محنت رائگاں گئی، گویا کتاب کسی اور کی ہوگئی۔“

اس کے تیسرے دن ان سے دوبارہ یہ استدعا کی:

          منشی شیونرائن کو سمجھا دینا کہ زنہار عرف نہ لکھیں، نام اور تخلص بس، اجزاے خطابی کا لکھنا نامناسب بلکہ مضر ہے“۔

          ان بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ کتاب (دستنبو)کے سرورق پر صرف نام اور تخلص لکھنے اور عرف نہ لکھنے پر یہ اصرار فی الواقع اس مبیّنہ طورپر ”نالائق عرف“ سے نفرت کا نتیجہ نہیں بلکہ اس احتیاط اور پیش بندی پر مبنی ہے کہ سرکاری کاغذات میں درج ان کے نام کے ساتھ اس عرف کی شمولیت ”وزراکے محکمے اور ملکہ عالیہ کے حضور میں“ کسی غلط فہمی کا سبب نہ بن جائے اور پھر کوئی ایسی صورتِ حال پیش نہ آجائے جیسی ایک بار کلکتے میں پیش آچکی تھی۔ غدر کے بعد کے مخصوص حالات اور انگریز حکّام کی مطلق العنانی کو مدِّ نظر رکھا جائے تو یہ اندیشہ کچھ بے جابھی نہ تھا۔ کلکتے میں انہیں ذاتی طورپر جو تجربہ ہوچکاتھا، ممکن ہے کہ اس قسم کے کچھ اور واقعات بھی ان کے علم میں ہوں۔ کم سے کم ایک واقعے کا ذکر خود ان کے ایک خط میں موجود ہے۔ یہ خط یوسف مرزا کے نام ہے اور قیاساً 1859ء کے وسط میں لکھاگیاہے۔ لکھتے ہیں:

“ایک لطیفہ پرسوں کا سنو:حافظ ممّو بے گناہ ثابت ہوچکے۔ رہائی پاچکے۔ حاکم کے سامنے حاضر ہواکرتے ہیں۔ املاک اپنی مانگتے ہیں۔ قبض و تصرف ان کا ثابت ہوچکا ہے، صرف حکم کی دیر۔ پرسوں وہ حاضر ہیں۔ مسل پیش ہوئی۔ حاکم نے پوچھا:

حافظ محمد بخش کون؟ عرض کیا میں۔ پھر پوچھا کہ حافظ ممّو کون؟ عرض کیا کہ میں۔ اصل نام میرا محمد بخش ہے، ممّوم ممّو مشہور ہوں۔ فرمایا: یہ کچھ بات نہیں، حافظ محمد بخش بھی تم، حافظ ممّو بھی تم، سارا جہان بھی تم، جو کچھ دنیا میں ہے، وہ بھی تم۔ ہم مکان کس کو دیں؟ مسل داخلِ دفتر ہوئی۔ میاں ممّو اپنے گھر چلے آئے۔

          جہاں ایک معمولی سے شبہے کی بنا پر اس طرح ایک جیتا ہوا مقدمہ ہارا جا سکتا ہے، وہاں غالب کا اپنے مفادات کے تحفظ میں ہرممکن احتیاط برتنا مقتضاے حال کے عین مطابق تھا۔ وہ یہ خطرہ مول لینے کے لیے کسی صورت میں بھی تیار نہیں ہوسکتے تھے کہ نام اور عرف کے چکر میں حافظ محمد بخش عرف حافظ ممّو کی طرح ان کی مسل بھی داخلِ دفتر کردی جائے۔ تفتہ کے نام پنے محولّہ بالا دونوں خطوں میں سے پہلے خط میں انہوں نے جس تشویش کا اظہار کیا ہے اور دوسرے خط میں تاکید کی جو صورت اپنائی ہے، وہ بدیہی طورپر اسی قسم کے اندیشہ ہاے دور دراز کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔ اگر وہ واقعی اس ”نالائق عرف“ سے متنفّر ہوتے تو عام حالات میں بھی اپنے نام کے ساتھ اس کے الحاق کے خلاف کبھی نہ کبھی ضرور احتجاج کرتے، لیکن اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حد یہ ہے کہ 1865ء میں جب اسی کتاب (دستنبو) کا دوسرا ایڈیشن ”نسخہ صحیحہ مرسلہ مصنف“ کی بنیاد پر مطبع لٹریری سوسائٹی روہیل کھنڈ، بریلی سے شائع ہواتو اس کے سرورق پر ان کا پورا نام ”نجم الدولہ، دبیر الملک، اسد اللہ خاں بہادر، نظام جنگ، المتخلص بہ غالب عرف مرزانوشہ“ لکھا ہواتھا۔ نام کے ساتھ ”اجزاے خطابی“ اور ”عرف“ کے اس اندراج کو انہوں نے بعد کی کسی تحریر میں نہ تو ”نامناسب بلکہ مضر“ قرار دیا اورنہ اس پر کسی قسم کی ناگواری ظاہر کی۔

          دوسری مہر کے سلسلے میں مالک رام صاحب کا ارشاد ہے کہ ”اس کی بنا حضرت علی کا لقب ہے۔ چوں کہ میرزا کا نام اسد اللہ تھا، اس لیے انہوں نے اس رعایت سے بہ طورِ سجع یہ نام کھدوا لیا۔“ بعد میں جب انہوں نے تخلص تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تو اسی لقب کی رعایت سے اسد کو چھوڑ کر غالب اختیار کرلیا (ص81) غالب نے ایک منقبتی قصیدے میں خود بھی اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ تخلص کے اس انتخاب میں حضرت علی کے ”اسم و رسم“ کے اثرات شامل تھے۔ فرماتے ہیں:

اے کز نوازشِ اثرِ اسم و رسمِ تو

نامم زمانہ غالب معجز بیاں نہاد

          اس کے باوجود مالک رام صاحب کا یہ دعویٰ محتاجِ دلیل ہے کہ مرزا صاحب نے پہلے حضرت علی سے اپنی محبت و عقیدت کے اظہا رکے طورپر یہ مہر کھدوائی،اس کے بعد اپنا تخلص اسد سے بدل کر غالب کیا۔اس کے برخلاف مرحوم اکبر علی خاں عرشی زادہ کا یہ استدلال زیادہ قرینِ صحت معلوم ہوتاہے کہ رجب 1231ھ (جون 1861ع) میں دیوان کے اولین دستیاب نسخے کی ترتیب کے وقت تک مرزا صاحب اسد تخلص کرتے تھے۔ بعد میں اسی سال کی کسی تاریخ کو انہوں نے غالب تخلص اختیار کیاتو یہ نئی باتخلص مہر کندہ کرائی۔ 20

          اگر اس مہر کی وساطت سے صرف ”دلی خیالات و معتقدات“ کا اظہار مقصود ہوتا تو یہ کام اس سے قبل بھی کیا جاسکتا تھاکیوں کہ غالب 1231ھ سے پہلے بارہا اس امر کا اعتراف و اعلان کرچکے تھے کہ

امامِ ظاہر و باطن، امیرِ صورت و معنی

علی، ولی، اسد اللہ، جانشینِ نبی ہے

          ان حالات میں ایک ہی سال کے اندر دو مہروں کی تیاری کی اس کے علاوہ اور کوئی معقول توجیہہ نہیں کی جاسکتی کہ مرزا صاحب نے اسی سال اپنا تخلص تبدیل کیا ہوگا اور اس تبدیلی کی علامت کے طورپر بہ صورت سجع یہ دوسری مہر کندہ کرائی ہوگی۔ لیکن مالک رام صاحب کے نزدیک یہ استدلال قابلِ قبول نہیں، چنانچہ ”گلِ رعنا“ کے مقدمے میں انہو ںنے اس مسئلے کو ایک بار پھر اٹھایا ہے۔ عرشی زادہ کا نام لیے بغیر تحریر فرماتے ہیں:

بعض لوگوں نے استدلال کیاکہ ”اسد اللہ الغالب“ مہر سے ثابت ہوتاہے کہ انہوں نے اس سال (1231 میں) غالب تخلص اختیارکیا، حال آنکہ نہ ان کا نام ”اسد اللہ“ تھا نہ تخلص ”الغالب“۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس مہر میں لفظ ”غالب“ بہ طورِ تخلص استعمال ہی نہیں ہوا بلکہ یہ مہر انہوں نے بہ طورِ سجع تیار کرائی تھی۔ دراصل ”اسداللہ الغالب“ لقب ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا۔ چوں کہ میرزا کا نام ”اسد اللہ خاں“ تھا اور وہ عقیدے کے لحاظ سے شیعی تھے، اس لیے انہوں نے یہ سجع والی مہر بنوا کر گویا حضرت علی سے اپنی عقیدت کا اعلان بھی کردیا۔ غرض اس مہر سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ 1231ھ میں انہوں نے غالب تخلص اختیار کر لیا تھا۔ البتہ یہ درست ہے کہ بعد کو انہوں نے اسد تخلص سے بیزار ہوکر نیا تخلص رکھنے کا فیصلہ کیا تو اسی سجع نے ان کی مشکل حل کردی اور انہوں نے یہ سامنے کا لفظ بہ طورِ تخلص اختیار کرلیا۔“21

          اپنی بات پر بے جا اصرار کا رویّہ بعض اوقات بدیہّیات سے بھی چشم پوشی پر مجبور کردیتا ہے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت اس بیان کی بھی ہے۔ سجع کی خوبی یہ خیال کی جاتی ہے کہ اس میں صاحب سجع کا نام بھی آجائے اور کلمہ سجع کی معنوی بھی اپنی جگہ برقرار رہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ حشو و زوائد سے یکسر پاک ہو۔ غالب نے اپنے شاگرد حکیم سید احمد حسن فنا مودودی کی فرمائش پر ان کے نام کے دو سجعے کہے تھے۔ یہ سجعے بھیجتے ہوئے انہوں نے خط میں لکھاتھا:

“بہارِ گلستانِ احمد حسن، یہ سجع کیا برا ہے؟ دلِ حیدر و جانِ احمد حسن، یہ اس سے بھی بہتر ہے۔ انھی دونوں میں سے ایک سجع مہر پر کھدوا لیجیے۔“22

          ان دونوں سجعوں میں ایک لفظ بھی زائد از ضرورت نہیں۔”اسد اللہ الغالب“ کی بھی یہی کیفیت ہے۔ اگر اس وقت مرزا صاحب کا تخلص غالب نہ ہوتاتو یہ سجع کوئی معنی ہی نہ رکھتا، اور اگر اس مہر میں ”اسد اللہ“ کے ساتھ ”الغالب“ کی بجاے صرف ”غالب“ کندہ کیا گیا ہوتا تو یہ سجع نہ ہوتا، صرف نام ہوتا۔ رہ گیا یہ سوال کہ غالب کا اصل نام ”اسد اللہ“ نہیں ”اسد اللہ خاں“ تھا تو یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ میر، میرزا، سید، شیخ، خاں، بیگ، مودودی اور چشتی جیسے سابقے اور لاحقے کسی نام کے اجزاے اصلی نہیں، اجزاے اضافی ہوتے ہیں، علاوہ بریں الفاظ کے اس مخصوص تانے بانے سے بھی کوئی مناسبت نہیں رکھتے جس سے سجع کی تشکیل ہوتی ہے، اس لیے سجع کہتے وقت انہیں نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ چنانچہ غالب نے بھی سید احمد حسن کے نام کے مذکورہ بالا دونوں سجعوں میں ”سید“ کے سابقے سے صرفِ نظر کرکے صرف ”احمد حسن“ نظم کیاہے۔ قطعِ نظر اس سے اگر مالک رام صاحب کے نزدیک غالب کا اصل نام ”اسد اللہ خاں“ اور صرف ”اسد اللہ خاں“ تھاتو چند سال کے بعد ”محمد اسد اللہ خاں“ کے نام سے ایک تازہ مہر کندہ کرانے کا کیا جواز باقی رہتاہے؟

          صحیح بات یہ ہے کہ غالب کا اصل نام صرف ”اسد اللہ“ تھا، باقی تمام سابقے اور لاحقے فروعی یا اضافی حیثیت رکھتے تھے، چنانچہ انہوں نے اپنی بے شمار تحریروں میں، نظم میں بھی اور نثر میں بھی، اپنا نام صرف ”اسد اللہ“ لکھاہے۔ نظم کے چند نمو نے حسبِ ذیل ہیں:

حبسِ بازارِ معاصی، اسد اللہ اسد

کہ سوا تیرے کوئی اس کا خریدار نہیں

غالب نام آورم، نام و نشانم مپرس

ہم اسد اللّٰہم و ہم اسد اللّٰہیم

منصورِ فرقہ علی اللّٰہیاں منم

آوازہ انا اسداللہ درافگنم

فیضِ دمِ انا اسد اللہ بر آورم

منصورِ لا ابالیِ بے دار و بے رسن

‘پنج آہنگ’ کے خطوط میں بھی انہوں نے متعدد جگہ اپنا نام صرف ”اسد اللہ“ ہی لکھا ہے، حتّٰی کہ بعض خطوط کا آغاز ”از اسداللہ نامہ سیاہ“ یا ”نامہ نگار اسد اللہ“ سے ہوتاہے۔ میاں نوروز علی خاں کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:

“اگرنامہ فریسند و بہ عنوان نویسند کہ ایں مکتوب بہ دہلی بہ اسد اللہ رسد، دشوار نیست کہ آں نامہ بدیں روسیاہ برسد۔“23

22 مارچ 1852ء کے ایک خط میں تفتہ کو ہدایت کرتے ہیں:

“خط پر حاجت مکان کے نشان کی نہیں ہے۔ ”در دہلی بہ اسد اللہ برسد“ کافی ہے”

          اس سے بھی اہم تر بات یہ ہے کہ پنشن سے متعلق عرض داشتوں اور درخواستوں کے آخر میں بھی وہ کبھی کبھی اپنا نام صرف ”اسد اللہ“ ہی لکھا کرتے تھے۔ اس سلسلے کے دستاویزات میں ایسی اٹھائیس تحریریں ہماری نطر سے گزر چکی ہیں جن پر ان کے دستخط ثبت ہیں۔ ان میں سے بارہ تحریروں میں انہو ںنے اپنا نام ”اسد اللہ“ لکھاہے۔ ان میں قدیم ترین تحریر 25 نومبر 1831ء کی اور آخری تحریر 25 اکتوبر 1844ء کی ہے۔ نواب کلب علی خاں کے نام کے خطوط میں بھی جہاں انہوں نے بہ طورِ دستخط تخلص کی بجاے نام لکھا ہے، یہی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس سلسلے کا آخری خط 16 نومبر 1898ء کا تحریر کردہ ہے۔

          اس سلسلہ گفتگو کا آخری اور سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ”اسد اللہ“ کی حیثیت اسمی سے متعلق مالک رام صاحب کا زیر بحث بیان خود ان کے سابقہ موقف سے مطابقت نہیں رکھتا۔ گزشتہ سطور میں ان کا یہ قول نقل کیا جاچکاہے کہ”اس (دوسری) مہر کی بناحضرت علیؓ کا لقب ہے۔ چوں کہ میرزا کانام اسد اللہ تھا، اس لےے انہوں نے اس رعایت سے بہ طورِ سجع یہ نام کھدوا لیا۔“ اس طر ح ایک بار یہ کہنا کہ ”میرزا کا نام اسد اللہ تھا“ اور دوسری بار اس سے انکار کردینا ایک ایسی کیفیتِ ذہنی کی غمّازی کرتا ہے جو اعترافِ حق اور اعلانِ حق کی بجاے بہر صورت حریف کے دعووں کو باطل ٹھہرانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔

          غالب نے تیسری مہر 1238ھ میں تیار کرائی تھی۔ اس پر ”محمد اسد اللہ خاں“ کندہ تھا۔ مالک رام صاحب کے مطابق یہ ”معرکہ آرا مہر ایک عظیم الشان داخلی اور ذہنی انقلاب کی آئینہ دار ہے۔“ اس انقلاب کے محرکات میں انہوں نے اس مذہبی مباحثے کا بہ طورِ خاص حوالہ دیاہے جو ان کے بقول انیسویں صدی کے ربعِ اول میں شروع ہواتھااور جس کا موضوع مسئلہ امکان و امتناعِ نظیر تھا۔ اس مباحثے کے ایک فریق مولانا فضلِ حق خیرآبادی تھے۔ ان کی تحریک پر غالب نے بھی اس بحث میں حصّہ لیا تھا اور فارسی میں ایک مثنوی کہہ کر ان کی او ران کے ہم خیال علما کی تائید کی تھی۔ مذہبی معاملات سے غالب کی اس دلچسپی کا اوّلین محرک مالک رام صاحب نے نواب الٰہی بخش خاں معروف سے ان کی عزیز داری کو ٹھہرایاہے۔ نواب صاحب خود صوفی تھے اور اس حیثیت سے متصوفین کے درمیان ”خاصے معروف بھی تھے“۔ غالب کی طبیعت کے ”لاابالیانہ پن“ پر ”علم و عمل کے اس نمونے“ کے اثرات مرتب نہ ہوں، یہ اصولِ فطرت کے خلاف تھا۔اس تمہید کے بعد مالک رام صاحب نے اس سلسلے میں اپنے مجموعی تاثرات ان الفاظ میں قلمبند فرمائے ہیں:

“میرزا کی تحریروں سے ثابت ہے کہ وہ اس سے قبل فسق و فجور اور عیش و عشرت کی دلدل میں پھنس چکے تھے، لیکن اس نئے مذہبی ماحول نے اگر ان کی کایا بالکل پلٹ نہیں دی تو کم از کم اس کی شدت میں ضرور کمی آگئی اور وہ اخلاقی قدروں کے بھی شناسا ہوگئے۔اس سے پہلے انکی مہر پر کندہ تھا: اسد اللہ خاں عرف میرزانوشہ، انہوں نے جو نئی مہر تیار کرائی، اس پر لکھا ہے: محمد اسد اللہ خاں۔ کیا ان کی قلبِ ماہیت کا اس سے زیادہ کوئی اور ثبوت درکارہے۔“ (ص84)

          مسئلہ امکان و امتناعِ نظیر پر بحث کب شروع ہوئی اور اس کا آغاز کس نے کیا، فی الوقت اس موضوع پر گفتگو کا موقع نہیں۔ قابلِ غور مسئلہ یہ ہے کہ غالب اس بحث میں کب شریک ہوئے اور ان کی وہ نظم جو اس مسئلے سے متعلق ہے، کس زمانے میں معرضِ وجود میں آئی؟ مالک رام صاحب نے اس مباحثے کو انیسویں صدی کے ربعِ اوّل کا واقعہ قرار دیاہے۔ نہیں کہا جاسکتاکہ غالب کو اس ابتدائی مرحلے میں اس مسئلے سے کوئی دلچسپی تھی یانہیں۔ شواہد سے معلوم ہوتاہے کہ 1856ءکے اواخر تک اس بحث کا سلسلہ ختم نہیں ہواتھا۔ بعض قرائن کے بموجب یہی وہ زمانہ ہے جب کہ مولانا فضلِ حق نے الور سے رام پور جاتے ہوئے کچھ دنو ںکے لےے دہلی میں قیام کیا تھا اور اس دوران ان کی سرگرم شرکت کی بدولت یہ بحث ایک بار پھر تازہ ہوگئی تھی۔ چنانچہ غالب نے انھی ایام میں مولانا کی فرمائش پر وہ اشعار کہے تھے جو ان کی چھٹی فارسی مثنوی موسوم بہ ”بیانِ نموداریِ شانِ نوبت و ولایت“ میں شامل ہیں۔ سلطان العلما مولانا سید محمد مجتہد کے نام 21 جمادی الاول 1273ھ (17 جنوری 1857ع) کے خط میں اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“دریں ہنگام در شہر دو دانشمند باہم در آویختہ اند۔ یکے می سراید کہ آفریدگار ہمتاے حضرتِ خاتم الانبیا علیہ و آلہ السّلام می تواند آفرید۔ وایں یکے می فرماید کہ ایں ممتنعِ ذاتی و محالِ ذاتی است۔ بندہ چوں ہمیں عقیدہ دارد، نظمے در گیرندہ بدیں مدّعا سرانجام دادہ است۔ ہر آئینہ چشم دارد کہ سواد بہ نورِ نظرِ اصلاح روشن شود۔“ 24

          اس واضح بیان کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ 1273ھ 1856ء میں اس مذہبی مباحثے میں غالب کی شرکت اور اس سے پورے پینتیس (35) برس قبل 1238ھ 1823ء میں تیار شدہ ان کی زیرِ بحث مہرکے درمیان کسی ذہنی و جذباتی رشتے کی موجود گی قطعاً خارج از امکان ہے۔ یہی کیفیت تصوف کے اثرات کی بھی ہے کہ اس سے غالب کا واسطہ ”براے شعر گفتن“ سے زیادہ نہ تھا۔ علاوہ بریں مذہبی طورپر وہ شیعی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے تھے جس میں تصوف کے لیے یوں بھی کوئی گنجائش نہیں۔ البتہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ دوسری مہر کی طرح یہ تیسری مہربھی شیعت میں ان کے گہرے اعتقاد کی توثیق کرتی ہے۔ اس میں ان کے نام کے مختلف اجزا کی نشست میں جو ترتیب قائم کی گئی ہے، اسے محض اتفاق نہیں کہا جا سکتا۔ اس کی صورت یہ ہے کہ سب سے اوپر لفظ ”اللہ“ کندہ ہے، درمیان میں لفظ ”محمد“ نقش ہے اور تیسری اور آخری سطر میں لفظ ”اسد“ اور ”خان“ یعنی:

خدا کے بعد نبی اور نبی کے بعد امام

یہی ہے مذہبِ حق، والسّلام و الاکرام

          غالب کی خودنوشت تحریروں، سرکاری مراسلوں اور عرضداشتوں میںکہیں ان کا نام ”اسد اللہ خاں“، کہیں ”محمد اسد اللہ خاں“، کہیں ”محمد اسد اللہ“ اور کہیں صرف ”اسد اللہ“ لکھا ہوا ملتاہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ اس معاملے میں کسی طے شدہ ضابطے کے پابند نہیں تھے۔ دوسری اور تیسری صورتوں میں اصل نام ”اسد اللہ“ کے ساتھ لفظِ ”محمد کے اضافے کاایک سبب یہ بھی ہوسکتاہے کہ ان کے رشتے کے ایک سالے یعنی امراو بیگم کے عمِ حقیقی نبی بخش خاں کے ایک بیٹے کا نام بھی ”اسد اللہ خاں“ تھااور ان کی مہر پر یہی نام کندہ تھا۔چوں کہ غالب اپنے تشخّص کی نگہداری کے معاملے میں خاصے حسّاس تھے، اس لےے عین ممکن ہے کہ انہو ںنے اپنے اور اپنے ان برادرِ نسبتی کے درمیان امتیاز کی غرض سے اپنی مہر پر ”محمد اسد اللہ خاں“ کندہ کرالیاہو۔

          جیسا کہ گزشتہ سطور میں عرض کیاگیا، غالب اپنے نام کے معاملے میں کسی طے شدہ ضابطے کے پابندنہیں تھے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا غالب رجحان ”اسد اللہ خاں“ کی طرف تھا۔ جب اس نام کو سرکاری سطح پر سندِ اعتبار حاصل ہوگئی تو انہوں نے لفظ ”محمد“ کو ترک کرکے صرف ”اسد اللہ خاں“ لکھنا شروع کردیا۔چنانچہ مرزا ہرگوپال تفتہ کو 17 ستمبر1858ء کے خط میں لکھتے ہیں:

“لفظِ مبارک میم، حا، میم، دال“، اس کے ہر حرف پر میری جاں نثا رہے مگر چو نکہ یہاں سے ولایت تک حکّام کے ہاں سے یہ لفظ یعنی ”محمد اسد اللہ خاں“ نہیں لکھا جاتا، میں نے بھی موقوف کردیاہے۔”

          حکّام کاپاسِ خاطر غالب کو کس قدر عزیز تھا، اس کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتاہے، اس لیے ان کے کسی بھی فیصلے یا طرزِ عمل کو وقت اور حالات کے تقاضوں سے بلند ترہوکر دیکھنے کی کوشش کبھی صحیح سمت میں رہنمائی نہیں کرسکتی۔اسی مصلحت کوشی اور احتیاط پسندی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اپنی خاندانی پنشن اور دیگر امور سے متعلق درخواستوں اور مراسلوں پر کبھی اس مہر کے علاوہ کوئی اور مہر نہیں لگائی۔ چنانچہ اس سلسلے کے جو دستاویزات برصغیر اور یورپ کے مختلف محافظ خانوں میں محفوظ ہیں،ان میں سے سترہ (17) کاغذات پر دستخط کے ساتھ یہ مہر بھی ثبت ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ نام کے ساتھ ”محمد“ کا سابقہ موقوف کردینے کے اعلان کے بعد بھی وہ سرکاری نوعیت کی تمام تحریروں پر یہی مہر لگاتے رہے۔ چنانچہ جن سترہ تحریروں پر اس مہر کے نشانات ہماری نظر سے گزرے ہیں، ان میں اولین تحریر 7جولائی 1830ء کی اور آخری تحریر 7 فروری 1867ء کی ہے۔ اس آخری تحریر کی روشنی میں جناب کالی داس گپتا رضا کایہ ارشاد محلِّ نظر قرار پاتا ہے کہ ”غالب کی یہ مہر تقریباً تیس سال تک استعمال میں رہی25۔“ موجودہ شواہد کی بنیاد پر اس کا کم از کم پیتالیس (45) سال تک (1138ھ 1822-23ء تا 2شوال1283 7 فروری 1867ء استعمال میں رہنا ثابت ہے۔

          ہمارے نزدیک یہ مہر نہ تو مذہبی نقطہ نظر سے کسی ”داخلی اور ذہنی انقلاب“ کی آئینہ دا رہے اور نہ اخلاقی سطح پر کسی ”قلبِ ماہیت“ کی نشان دہی کرتی ہے۔ بہ ظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ بہ طورِ خاص سرکاری کاغذات پر ثبت کرنے کے لیے تیار کرائی گئی تھی، کیوں کہ اس سے پہلے کی دونوں مہریں اس کام کے لیے موزوں نہیں تھیں۔ پہلی مہر کا استعمال نام کے ساتھ عرف کے شمول کی وجہ سے خلافِ احتیاط تھا جب کہ دوسری مہریں اس کام کے لیے موزوں نہیں تھیں۔ پہلی مہر کا استعمال نام کے ساتھ عرف کے شمول کی وجہ سے خلافِ احتیاط تھا جب کہ دوسری مہر خالص مذہبی رنگ کی نمائندگی کرتی تھی۔

          اس سلسلے کی چوتھی مہر وہ ہے جسے مالک رام صاحب نے پانچویں نمبر پر جگہ دی ہے۔ اس پر ”یا اسدَاللہ الغالب“ کندہ ہے اور مالک رام صاحب کے مشاہدے یا تحقیق کے مطابق یہ 1269ھ 1852-53ء میں تیار ہوئی تھی۔ مصیبت یا پریشانی کے وقت حضرت علیؓ کو مدد کے لیے پکارنا شیعہ حضرات کے بنیادی عقائد اور روز مرّہ کے معمولات میں شامل ہے۔ یہ مہر اسی عقیدے کے اظہار کا ایک وسیلہ ہے۔ چنانچہ مالک رام صاحب نے اسے مناسب جواز فراہم کرنے کی غرض سے پہلے تویہ وضاحت فرمائی ہے کہ غالب اس زمانے میں یعنی 1852-53ءکے آس پاس مختلف قسم کی ذہنی و مالی پریشانیوں میں مبتلا تھے، جنہوں نے انہیں ”پراگندہ روزی، پراگندہ دل“ کا مصداق بنادیاتھا۔اس کے بعد 1854ء کے چند واقعات کے حوالے سے ان کی ”خوش اعتقادی اور نیک نیتی“ کے بار آور اور اس استعانت کے مقبول و مستجاب ہونے کے کئی ثبوت پیش کیے ہیں۔ یہ شواہد حسب ذیل ہیں:

(1) ذوق کے انتقال (4 نومبر 1845ع) کے بعد استادِ شاہ کے منصب پر تقرر۔

(2) ولی عہد مرزا غلام فحرالدین رمز کا حلقہ تلامذہ میں شامل ہونا اور چار سو روپے سالانہ وظیفہ مقرر کرنا۔

(3) طفر کے سب سے چھوٹے بیٹے مرزا خضر سلطان کا شاگرد ہونا۔

(4) سلطنتِ اودھ سے رسم و راہ میں استواری اور واجد علی شاہ کی طرف سے پانچ سو روپے سالانہ بہ طورِ وظیفہ مقرر ہونا۔

          یوں تو غالب کی زندگی میں کوئی دور ایسا نہیں گزراجب کہ انہوں نے اپنی خواہشات اور توقعات کے مطابق آسودگی اور مرفّہ الحالی کی زندگی گزاری ہو تاہم 1853ء میں یا اس سے کچھ پہلے آلام و مصائب کی کوئی ایسی غیر معمولی صورتِ حال نظر نہیں آتی جس میں وہ مالک رام صاحب کے بقول ”بہ آوازِ بلند فریاد“ پر مجبور ہوں اور حضرت علیؓ کو ان کی مشکل کشائی کا واسطہ دے کر مدد کے لیے پکاریں۔ اس کے برخلاف یہ وہ زمانہ ہے جب کہ بہادرشاہ ظفر کی سرکار سے ”نجم الدولہ، دبیر الملک، نظام جنگ“ کے خطابات اور پچاس روپے ماہوار کے مشاہرے کے ساتھ سلاطینِ مغلیہ کی تاریخ نویسی کے منصب پر تقررکے بعد ان کی اناکی تسکین اور اسبابِ معیشت کی بہتری کا اچھا خاصا سامان مہیا ہو گیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں مالک رام صاحب کی تمام تاویلات و توجیہات دوراز کار قیاسات پر مبنی ہیں،کیوں کہ یہ مہر 1269ھ میں نہیں، اس سے پورے بیس برس پہلے1269ھ 1833-34ء میں کندہ کرائی گئی تھی۔ اس کے دستیاب نقش میں چار کی دہائی واضح نہیں۔ مالک رام صاحب نے اسے پہلی نظر میں غلطی سے چھ پڑھ لیا، اس کے بعد دوبارہ اس پر غور کرنے اور دوسرے ذرائع سے اس کی تصدیق کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، حال آنکہ یہ زیادہ مشکل کام نہ تھا۔ غالب نے اپنا دیوانِ فارسی ”مے خانہ آرزو سرانجام“ کے نام سے 1250ھ 1834-35ء میں مرتب کیا تھا۔ اس کا دیباچہ ان کے کلیاتِ فارسی کے علاوہ ”کلیاتِ نثرِ غالب“ میں بھی شامل ہے۔ اس دیباچے میں ایک جگہ انہوں نے لکھا ہے

دل بہ شراکِ نعلینِ محمدی آویختن کیش و آئینِ من و طغراے والاے ”یا اسدَاللہ الغالب“ نقشِ نگینِ من۔“26

          اس سے ظاہرہے کہ یہ مہر اس دیوان کی ترتیب سے پہلے تیار ہوچکی تھی۔ 1250ھ سے پہلے اور اس کے بعد لیکن 1260ھ سے بہت پہلے کی غالب کی ایسی کئی تحریریں راقم الحروف کی نطر سے گزر چکی ہیں جن کا آغاز انہو ںنے ”یا اسداللہ الغالب“ سے کیا ہے۔ مثلاً:

(1) مکاتیبِ غالب کے اس مجموعے میں جو پہلے پروفیسر مسعود حسن رضوی کی ملکیت تھااو راب مولانا آزاد لائبریری،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ مخطوطات میں محفوظ ہے، مثنوی ”بادِ مخالف“ کے سرِ عنوان ”یا اسداللہ الغالب“ لکھا ہوا ہے۔ اس مجموعے کی تمام تحریریں غالب کے قیامِ کلکتہ کے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں۔

(2) “مآثرِ غالب” میں شامل فارسی خطوں میں سے ایک خط کا آغاز”یا اسداللہ الغالب“ سے ہواہے۔ یہ خط خواجہ فخراللہ کے نام ہے اور 10 رمضان 1148ھ مطابق 31 جنوری 1833ء کو لکھا گیا ہے۔

(3) خدابخش لائبریری، پٹنہ میں غالب کے کلیاتِ نظم فارسی کاایک قلمی نسخہ محفوظ ہے جسے ان کے دوست راے چھج مل نے لکھ کر 11 ربیع الآخر 1254ھ 4 جولائی 1838ء کو مکمل کیاہے۔ اس کے ایک صفحے کے حاشےے پر ”نامہ منظوم بہ نامِ جوہر“ کی ابتدابھی ”یا اسداللہ الغالب“ ہی سے ہوئی ہے۔

(4) دیوان غالب کے 1257ھ 1841ء میں شائع شدہ پہلے ایڈیشن کا آغاز بھی یا اسداللہ الغالب ہی سے ہوا ہے۔

          حضرت علیؓ سے استعانت کایہ متواتر عمل غالب کی اس زمانے کی ذہنی و مالی پریشانیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

          ان ایام میں وہ جن مسائل و مصائب سے دوچار تھے، ان کا انداز مندرجہ ذیل واقعات سے کیا جا سکتا ہے:

(1) 1826ع کے آس پاس میرزایوسف مرضِ جنون میں مبتلا ہوے اور انہوں نے تقریباً تیس برس اسی حالت میں گزارے۔ چھوٹے بھائی کی یہ علالت غالب کے لیے ہمیشہ سوہانِ روح بنی رہی لیکن شروع میں کئی برس وہ اس کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی پریشان رہے۔

(2) امراو بیگم کو اپنے چچا نواب احمد بخش خاں کی سرکار سے تیس روپے ماہوار وظیفہ ملتا تھا۔ اکتوبر 1827ء میں نواب صاحب کی وفات کے بعد جو حالات رونما ہوئے، ان کے زیرِ اثر ان کے جانشین نواب شمس الدین احمد خاں نے غالباً 1830ء یا 1831ء میں یہ وظیفہ منسوخ کردیا۔ بیوی کی اس مستقل آمدنی کے بند ہوجانے سے گھر کی اقتصادی حالت کا متاثر ہونا ناگزیر تھا۔

(3) معتمد براے گورنر جنرل کے خط مورخہ 27 جنوری 1831ء کے ذریعے اس فیصلے سے آگاہ ہونے کے بعد کہ حضورِ والا(گورنرجنرل)نصراللہ خاں کے متوسلین کی مالی امداد کے ضمن میں فیروزپور کے جاگیردار کے کےے ہوئے انتظام میں مداخلت پسند نہیں فرمائیں گے“غالب اپنے مقدمہ پنشن کی ناکامی پر عرصے تک بے حد افسردہ اور پریشان رہے۔ اس کے بعد اپریل 1844ء تک ان کا بیشتر وقت اس مقدمے کی اپیل کی کامیابی کے لیے تگ ودو میں صرف ہوا۔

(4) سقیم مالی حالت اور رئیسانہ طرزِ زندگی کی وجہ سے قرص کا بوجھ برابر بڑھتا جارہاتھا۔ پنشن کے مقدمے میں گورنر جنرل کے فیصلے کے بعد قرض خواہوں کے تقاضوں نے غالب کی زندگی اجیرن کررکھی تھی۔ انجامِ کار فروری 1835ء میں عدالتِ دیوانی سے ان کے خلاف پانچ ہزار کی ڈگری ہوگئی۔

          یہ تھاوہ پس منظر جس میں یہ مہر تیار ہوئی۔ یہ معلوم ہوجانے کے بعد کہ یہ1249ھ میں کندہ کرائی گئی تھی، یہ بات از خود طے ہوجاتی ہے کہ غالب کی اب تک دریافت شدہ مہروں میں اس کا چوتھا نمبر تھا۔

          محمد مشتاق تجاروی کابیان ہے کہ پروفیسرمختارالدین احمد کے خیال میں یہ مہر بدرالدین کے علاوہ کسی اور مہر کن کی کندہ کی ہوئی معلوم ہوتی ہے27۔ ہمیں اس خیال سے اتفاق کی بہ ظاہر کوئی معقول وجہ نظر نہیں و تی کیوں کہ اس کے حروف کی کشش اور نشست میں کوئی ایسا نقص موجود نہیں جو بدرالدین کی شانِ خط کے منافی ہو۔ البتہ اس کا جو نقش دستیاب ہواہے، وہ بہت صاف نہیں۔ یہی سبب ہے کہ مالک رام صاحب کو اس پر درج سنہ کے پڑھنے میں تسامح ہوا۔اس کیفیت کی وجہ سے بعض حروف کی ہیئتِ ظاہری بھی متاثر ہوئی ہے۔ غالباً اسی بناپر مختارالدین احمد صاحب کو یہ شبہ ہواکہ یہ بدرالدین کے علاوہ کسی اور کی بنائی ہوئی ہے۔

          پانچویں، چھٹی اور ساتویں، تینوں مہریں غالب کے شاہی خطاب ”نجم الدولہ، دبیرالملک، نظام جنگ“ سے تعلق رکھتی ہیں۔ مالک رام صاحب نے ان میں سے صرف آخری یعنی ساتویں مہرکا ذکر فرمایاہے اور اپنے حساب کے مطابق اسے چوتھے نمبر پر رکھاہے۔ چو ںکہ یہی مہر اس سلسلے کی باقی دو مہروں تک ہماری رسائی کا وسیلہ بنی ہے، اس لےے مناسب معلوم ہوتاہے کہ گفتگو کا آغاز اسی کے ذکر سے کیا جائے۔ اس ساتویں مہر پر غالب کا نام مع ان کے خطابات کے اس طرح کندہ تھا:

“نجم الدولہ، دبیر الملک، اسد اللہ خاں بہادر، نظام جنگ”

          دائیں طرف کے زیریں گوشے میں لکھے وئے سنہ کے مطابق یہ مہر 1267ھ میں تیار ہوئی تھی۔ غالب کو متذکرہ بالا خطابات بہادرشاہ ظفر نے 23 شعبان 1266ھ مطابق 4 جولائی 1850ء کو عطا کےے تھے اور ”تاریخ نویسی تاجدارانِ تیموریہ“ کی خدمت ان کے سپرد فرمائی تھی۔ مالک رام صاحب نے خود غالب کی ایک فارسی تحریر کے طویل اقتباس، ”اسعد الاخبار“ آگرہ کے 15 جولائی 1850ء کے شمارے میں شائع شدہ مفصل خبر اور مرزاہرگوپال تفتہ کے کہے ہوے قطعہ تاریخ کے حوالے سے اس سلسلے کی تمام تفصیلات اپنے مضمون میںیکجا فرمادی ہیں لیکن ایک پہلو کو بالکل نظرانداز کردیاہے کہ یہ خطابات تو 1266ھ میں ملے تھے پھر یہ مہر 1267ھ میں کیوں تیار ہوئی؟ خود اشتہاری غالب کے مزاج کاایک نمایاں عنصر تھی چنانچہ یہ بات ان کی نفسیات کے بالکل خلاف معلوم ہوتی ہے کہ وہ مہینوں نئی مہر کی تیاری کا انتظار کرتے اور اس اعزاز کے اعلان و اشتہار کے اس سہل الحصول اور موثر وسیلے سے اتنے دنوں تک محروم رہتے۔ اگر فاضل محقق کے ذہن میں یہ خلش پیداہوئی ہوتی اور انہوں نے اسے دور کرنے کے لےے غالب کی اس زمانے کی تحریروں پر بہ نظر غائر توجہ فرمائی ہوتی تو اس انکشاف میں زیادہ دیر نہ لگتی کہ وہ اس مہر سے پہلے ان خطابات پر مشتمل ایک نہیں، دو مہریں 1266ھ ہی میں تیار کراچکے تھے۔ لیکن چوں کہ یہ مہریں ان کے معیا رپر پوری نہیں اتریں اس لےے انہوں نے انہیں رد کرکے جلد ہی ایک اور مہر تیار کرالی جو عرصہ دراز تک ان کے استعمال میں رہی۔ اپنے شاگردِ عزیز منشی جواہر سنگھ جوہر کے نام 23 اکتوبر 1850ء(16 ذی قعدہ 1266ھ) کے خط میں لکھتے ہیں:

“روزے بودکہ نامہ بہ من رسیدکہ نگارش از شمابود و مہر از من۔ گفتم: سبحان اللہ شگرفیِ آثارِ یگانگی و اتحاد کہ ہم نامہ بہ نامِ من است وہم بہ مہرِ من چوں آں ورق بہ من رسید و من دراں وقت تنہا بودم، مشاہدہ نقشِ خاتمِ خویش برمکتوبِ موسومہ خویش مرابہ وجد آورد۔ بالجملہ چشم بہ راہِ نگینِ مہر داشتم، دی روز کہ سہ شنبہ و بست ودومِ اکتوبر بود، رسید۔ ہمانا مہر کن در کشمیر نہ ماند، ع مجلس چو برشکست، تماشا بہ مارسید۔ پس از پزوہش پدید آمد کہ قریبِ صد کس از ہوسناکانِ دہلی نگیں ہافرستادہ در کشمیر کند اندہ اندوہمہ شرمسار و پشیماں شدہ اند۔ حالیا آں سعادت نشاں راباید کہ دردِ سر نہ کشند و مہرِ دیگر بہ کندن نہ دہند۔ امروز دریں فن نظیر بدرالدین بہ گیتی نیست۔ چوں اوبدنوشت، پندارم کہ خوبیِ سرنوشتِ من است۔“28

          اس تحریر سے دوباتیں معلوم ہوتی ہیں، پہلی یہ کہ 4 جولائی اور 22 اکتوبر 1850ء کے درمیان غالب نے دلّی کے مشہور مہر کن بدرالدین سے اس خطاب کی یادگار کے طورپر ایک تازہ مہر تیار کرائی تھی جو انہیں کسی وجہ سے پسند نہیں آئی۔ دوسری یہ کہ اس مہر کو رد کردینے کے بعد انہوں نے اپنے شاگرد منشی جواہر سنگھ جوہر سے جو اس زمانے میں پنجاب میں کسی جگہ برسرِ روزگار تھے، یہ فرمائش کی کہ وہ کشمیر کے کسی مہرساز سے ان کی مہر تیار کرادیں۔ یہ دوسرانگینہ انہیں 22 اکتوبر 1850ء کو موصول ہوا، لیکن اس کی نقاشی سے بھی وہ مطمئن نہیں ہوئے۔ غالباً اس کے بعد ہی 1267ھ میں اس سلسلے کی وہ تیسری مہر تیا رہوئی جسے مالک رام صاحب نے چوتھے اور ہم نے ساتویں نمبر پررکھا ہے۔ احوالِ ظاہری کے اعتبارسے یہ مہر بھی بدرالدین ہی کی تیارکردہ معلوم ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ انہو ںنے پچھلی مہر کے بارے میں غالب کی ناپسندیدگی کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اس کی تیاری پر خصوصی توجہ صرف کی ہو۔

          پروفیسر مختارالدین احمد صاحب کابیان ہے کہ قیامِ آکسفورڈ کے دوران 1956ء میں انہوں نے ایک بار اس مہر کی زیارت کی تھی۔ تقریب یہ ہوئی کہ حیدرآباد سے ڈاکٹر نظام الدین صاحب اور آغا حیدر حسن صاحب کے داماد وہاں تشریف لائے ہوئے تھے۔ ایک روز جب وہ ان دونوں حضرات کو ایشمولین میوزیم کا وہ شوکیس دکھا رہے تھے جس میں مختلف قسم کی انگوٹھیاں اور مہریں رکھی ہوئی تھیں تو ڈاکٹر نظام الدین صاحب نے اپنے ہم سفر کی انگلی کی طرف اشارہ کیااو ران سے پوچھا: اس مہر کو آپ پہچانتے ہیں؟ یہ مرزا غالب کی مشہور مہر تھی۔ عقیق پر نہایت خوبصورت حروف میں ”نجم الدولہ، دبیر الملک، نظام جنگ“کے الفاظ منقوش تھے۔ مختلف کاغدوں پر متعدد بار اس کے نقوش دیکھنے میں آئے تھے۔29

          مختارالدین احمد صاحب کے علاوہ ڈاکٹر ضیاءالدین احمد شکیب نے بھی اپنی کتاب ”غالب اور حیدرآباد“ میں اس مہر کا ذکر کیاہے، جس سے اندازہ ہوتاہے کہ یہ 1969ء تک آغا حیدرحسن کے ہاں موجود تھی۔ شکیب صاحب لکھتے ہیں:

“پروفیسرآغاحیدرحسن کے یہاں میرزا غالب کاایک چغہ اور ان کی ایک مہر ہے۔ یہ مہر جگری عقیق پر کندہ ہے۔ اس مہر کی عبارت حسبِ ذیل ہے:

“نجم الدولہ، دبیرالملک، اسد اللہ خاں غالب، نظام جنگ”

1262ھ

آغا حیدرحسن صاحب کے بیان کے مطابق غالب کی یہ مہر شاہی مہر کن بدرالدین نے تیار کی تھی۔“30

          اس مہر سے متعلق یہ دونو ںبیانات تحقیقی اعتبار سے ناقص اور وضاحت طلب ہیں۔ مختارالدین احمد صاحب کے بیان کا نقص یہ ہے کہ انہو ںنے صرف اجزاے خطابی نقل فرمائے ہیں، مہر کے باقی اندراجات کو نظر انداز کردیاہے، جب کہ شکیب صاحب کی نقل کردہ عبارت میں ”اسد اللہ خاں“ اور ”نظام جنگ“ کے درمیان ”غالب“ کا اندراج او رنیچے دیاہوا سنہ مشکوک ہے۔ سنہ کے بارے میں یقین کے ساتھ کہا جاسکتاہے کہ اس کے نقل کرنے میں سہوہواہے، خواہ اس کے ذمّہ دار خود صاحبِ کتاب ہو ںیا ان کا کاتب۔ اسے ہرحال 1266ھ یا 1267ھ ہونا چاہیے۔ اگریہ 1266ھ ہے تویہ مہر یقینا اس مہر سے مختلف ہے جسے مالک رام صاحب نے اپنے مضمون میں متعارف کرایاہے اور اگر 1267ھ ہے تو اس میں نام کے بعد لفظِ ”بہادر“ کی بجاے تخلص یعنی ”غالب“ کا اندراج خلافِ واقعہ ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ دراصل یہ وہی مہر ہے جو منشی جواہر سنگھ جوہر نے کشمیر کے کسی مہرساز سے کندہ کراکے اکتوبر 1850ء میں غالب کو بھیجی تھی۔ اس کے رد کیے جانے کی وجہ بہ ظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس میں نام کے ساتھ ”بہادر“ کالاحقہ موجود نہیں تھا، جس کا شمول از روے قاعدہ بے حد ضروری تھا۔اس سلسلے میں منشی شیونرائن آرام کے نام ستمبر 1858ء کے ایک خط کا یہ اقتباس ملاحظہ طلب ہے:

“سنو، میری جان!نوابی کا مجھ کو خطاب ہے ”نجم الدولہ“ اور اطراف و جوانب کے امرا سب مجھ کو ”نواب“ لکھتے ہیں، بلکہ بعض انگریز بھی یاد رہے”نواب“ کے لفظ کے ساتھ ”میرزا“ یا ”میر“ نہیں لکھتے۔ یہ خلافِ دستور ہے۔ یا ”نواب اسد اللہ خاں“ لکھو یا ”میرزا اسد اللہ خاں“ اور ”بہادر“ کا لفظ تو دونوں حال میں واجب اور لازم ہے۔”

          یہ مہر چوں کہ شکیب صاحب کی نطر سے گزر چکی تھی، اس لیے نومبر 2004ء میں جب وہ لندن سے حیدرآباد تشریف لائے تو میں نے اپنے شبہات کا حوالہ دیتے ہوئے ان سے رجوع کیاکہ وہ صحیح صورتِ حال سے مطلع فرمائیں۔ موصوف نے اس کے جواب میں اپنے مکتوب مورخہ 29 نومبر 2004ء میں جو وضاحت فرمائی ہے وہ حسب ذیل ہے:

غالب کی یا غالب سے منسوخ جس مہر کاذکر ”غالب اور حیدرآباد“ میں ہے،وہ اب ہماری دسترس سے باہر ہے۔ یہ مہر پروفیسر آغا حیدرحسن کی ملکیت تھی۔ انہوں نے جناب محمد اشرف صاحب کو تحفةً دے دی تھی۔ محمد اشرف صاحب وہی ہیں جنہوں نے سالار جنگ میوزیم کے مخطوطات کا کیٹلاگ کئی جلدوں میں شائع کیامیں نے غالب کی یہ مہر محمد اشرف صاحب کے یہاں دیکھی تھی۔ جہاں تک یاد ہے وہ خود اس مہر سے مطمئن نہیں تھے۔ اس کاذکر میں نے پروفیسر آغا حیدر حسن صاحب سے کیا ۔آغا صاحب نے اپنی روایات کے مطابق وثوق سے کہا کہ یہ مرزا غالب کی ہے بلکہ یہ تک وضاحت کی، یہ بدرالدین مہر کن کی کندہ کی ہوئی ہے۔ آغا صاحب قلعہ معلّٰی کی یادگار تھے۔ ان کے گھرانے اور مرزا غالب کے گھرانے کے تعلقات قدیم تھے۔ میں کیاجواب دیتا۔ لہٰذا میں نے تمام اختلافات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ”غالب اور حیدرآباد“ میں اس کا ذکر کردیا۔اب یہ آپ جیسے محققین کا کام ہے کہ اس کے بارے میں کوئی قطعی راے قائم فرمائیں۔

          جہاں تک مجھے یقین ہے”غالب اور حیدرآباد“ میں مہر کا متن جو دیاگیاہے،و ہ درست ہے۔ اس میں سہوِ کتابت کو دخل نہیں۔ ممکن ہے کہ مہر میں تاریخ غلط کندہ ہوگئی ہو، اس لےے اس کو استعمال نہ کیاگیاہو۔ پڑی رہی ہو اور خاندانی تعلقات کی وجہ سے آغا حیدرحسن صاحب تک پہنچی ہو۔

جس وسیلے سے یہ مہر ہم تک پہنچی، اس کی وجہ سے ہم اس کو ‘فیک’ تو نہیں کہ سکتے، لیکن اگر غلط کندہ ہوگئی ہو تو

Discarded

کہہ سکتے ہیں۔

شکیب صاحب کی اس تحریر سے معلوم ہوجانے کے بعد کہ آغا حیدر حسن صاحب نے یہ مہر محمد اشرف صاحب کو تحفةً عنایت فرمادی تھی، یہ مناسب معلوم ہوا کہ آغا صاب کے داماد میرمعظم حسین صاحب سے درخواست کی جائے کہ وہ اس کے بارے میں حصول معلومات میں مدد فرمائیں۔ موصوف نے میرے 4 فروری 2005ء کے خط کے جواب میں 25 فروری 2005ء کو تحریر فرمایا:

“آپ نے خط میں جس مہر کا ذکر کیا ہے،اس کا مجھے علم نہیں ہے، لیکن میری شادی کے موقعہ پر میرے خسر پروفیسر آغا حیدرحسن مرزا نے مجھے ایک انگوٹھی عنایت کی تھی جس کو میں نے پچاس سال سے زائد اپنے ہاتھ پرپہنا۔ اُس انگوٹھی پر اسداللہ خاں غالب کے خطابات کندہ تھے۔ میں اس انگوٹھی کو اب محفوظ کروادیاہوں جس کی وجہ سے اس کا عکس بھیجنے سے قاصر ہوں۔”

          اس مایوس کن جواب کے بعد بہ ظاہر اب اس مہر تک رسائی کی کوئی امید نظر نہیں آتی، اس لےے باقی مہروں کی طرح اسے بھی متاعِ گم گشتہ تصور کرکے طاقِ نسیاں کے کسی گوشے میں ڈال دینا چاہےے۔ راقمِ سطور اپنے اس خیال پر بہر حال قائم ہے کہ غالب نے اسے نام کے بعد لفظِ ”بہادر“ کی عدم موجودگی کی وجہ سے مسترد کردیاہوگا۔شکیبصاحب کی راے کے مطابق سنہ کا غلط کندہ ہوجانا بھی اس کی وجہ ہوسکتی ہے لیکن اس کا امکان بہت کم ہے۔ اس کے برخلاف بے خیالی یا رواروی کے باعث اکائی کے عدد چھ (6) کا دو(2) پڑھ لیا جانا عملی تجربات کی روشنی میں زیادہ قرینِ قیاس معلوم ہوتا ہے۔

          جس طرح ساتویں مہر کے متعلق غوروخوض کے نتیجے میں اس چھٹی مہر کے وجود کا علم ہوا،اسی طرح اس چھٹی مہر کے حوالے سے یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ انہی خطابات پر مشتمل ایک مہر اس سے قبل بھی تیار ہوچکی تھی۔ ”امروز دریں فن نظیر بدرالدین بہ گیتی نیست۔ چوں اوبدنوشت، پندارم کہ خوبیِ سرنوشتِ من است۔“ سے اشارہ ملتاہے کہ یہ مہر بدرالدین نے کندہ کی تھی لیکن غالب اس سے مطمئن نہیں تھے۔ انہو ںنے اپنی اس بے اطمینانی یا ناپسندیدگی کا سبب مہر ساز کی بدنویسی کو ٹھہرایاہے، لیکن یہ بات اس لےے قابلِ قبول نہیں معلوم ہوتی کہ ”بدرالدین“ اور ”بدنویسی“ میں بہ ظاہر لفظِ ”بد“ کے سوا کوئی چیز مشترک نہیں تھی۔ غالب کی اس زمانے کی تحریریں تقریباً نایاب ہیں۔ کافی تلاش و جستجو کے بعد ہمیں صرف ایک خط دستیا ب ہواہے جس پر یہ مہر ثبت تھی، لیکن یہ اصل خط نہیں، اس کی نقل ہے، اس لےے اس کی روشنی میں اس مہر کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ خط مفتی سید احمد خاں بریلوی کے نام ہے اور پنجشنبہ 3 اکتوبر 1850 کو یعنی منشی جواہر سنگھ جوہر کے بھیجے ہوئے نگینے کے دہلی پہنچنے سے صرف انیس (19) دن پہلے لکھا گیاہے۔اسے محمد ابرار علی صدیقی نے اپنی کتاب ”آئینہ دلدار“ میں جو میاں دلدار علی مذاق بدایونی کی سوانح عمری ہے، دوسرے کئی خطوط کے ساتھ نقل کیاہے۔ خط کے آخر میں مہر کی عبارت بھی بہ ظاہر اس کی ہیئتِ اصلی کے مطابق ایک مستطیل کی شکل میں نقل کردی گئی ہے31۔ پانچویں مہر کی یہ دستی نقل ساتویں مہر کے دستیاب نقوش سے صرف اس قدر مختلف ہے کہ یہ سنہ کی قید سے عاری ہے جب کہ آخرالذکر میں اس کی تیاری کا سنہ (1267ھ) بھی موجود ہے۔ لیکن یہ محض اتفاق بھی ہوسکتاہے کیوں کہ ساتویں مہر جو 1267ھ کے بعد برابر زیرِ استعمال رہی، اس کی ایسی کئی نقلیں بھی ہمارے علم میں ہیں جن میں سنہ کا اندراج نہیں۔ ان حالات میں زیرِ بحث پانچویں مہر کی کیفیتِ ظاہری کے بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ کہنا دشوار ہے۔ البتہ مفتی سیّداحمد کے نام کے خط پر اس کے نقش کی موجودگی میں اس کے وجود پر کسی شبہے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

          غالب نے اپنی آخری مہر 1278ھ (1861-62) میں یعنی اپنی وفات سے تقریباً سات سال قبل تیار کرائی تھی۔ اس مہرکی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ ان کی دوسری تمام مہروں کی بہ نسبت کافی مختصر ہے یعنی اس پر صرف ان کا تخلص (غالب) اور تیاری کا سنہ (1278ھ) کندہ ہے۔ اس کا پس منظر بیان کرتے ہوئے مالک رام صاحب لکھتے ہیں:

“جو لوگ نفسیات سے واقف ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ نفسِ انسانی میں ”انا“ کے ارتقا کا انتہائی مقام یہ ہے کہ انسان کسی غیر معمولی کامیابی کے بعد اپنے تعارف کے لیے مختصر ”علَم“ کا استعمال کرنے لگتا ہے۔“(ص88)

          غالب کی اس نفسیاتی کیفیت کو انہوں نے جن دو غیر معمولی کامیابیوں کا نتیجہ قرار دیاہے، ان میں سے پہلی ”قاطعِ برہان“ کی اشاعت ہے جو ان کے بقول ”ہندوستان کے فارسی دانوں کے خلاف ساری عمر کے جہاد“ کا ایک عملی ثبوت بھی تھی اور ”علی الاعلان عام دعوتِ مبارزت بھی“۔ یہ کتاب 20 رمضان المبارک 1278ھ مطابق 22مارچ 1862ء کو اس زمانے کے سب سے مشہور و ممتاز طباعتی ادارے مطبعِ منشی نول کشور، لکھنو میں چھپ کر شائع ہوئی تھی۔ دوسری بڑی کامیابی یہ تھی کہ اسی سال مطبعِ نول کشور میں ان کے کلیاتِ فارسی کی طباعت شروع ہوئی جو اگلے سال یعنی 1863ء میں مکمل ہوگئی۔ اس سلسلے کی تمام ضروری تفصیلات قلمبند کرنے کے بعد محترم محقق اس نتیجے پر پہنچے ہیں:

“1862ع۔ 1863ء میرزا کی زندگی میں نہایت اہم سال ہیں۔ ”قاطعِ برہان“ اگر دوسروں کی شکست کا اعلان تھاتو کلیات ان کی فتح مندی کا ثبوت۔ اسی سال ان کا اپنے نگیں پر ”غالب“ کندہ کرانا اسی حقیقت کا ایک اور پیراے میں اظہارہے۔ اب گویا انہوں نے اس دعوے پر مہر لگادی کہ فارسی علم و زبان کے لحاظ سے میں ”علیٰ کلٍّ غالب“ ہوں۔“(ص90-91)

          کسی بھی معروف طباعتی و اشاعتی ادارے سے بہ یک وقت دو کتابوں کی اشاعت کسی بھی مصنف کے لیے فخر و مباہات کا باعث ہوسکتی ہے۔ غالب کو بھی اس سے مستثنٰی نہیںکیا جاسکتا۔لیکن یہ اتنی بڑی کامیابی یقینا نہیںکہ غالب جیسا یگانہ روزگار فن کار اس کی علامت کے طورپر ایک مہر تیار کراکے اسے یادگار بنادے۔ دنیا میں ہزاروں کام ایسے ہیں جن کی انجام پذیری میں وقت کا تعین کوئی اہمیت نہیں رکھتا، مگرجب وہ انجام پاجاتے ہیں تو وقت کے ساتھ ان کے تعلق کی متعدد توجیہات و تاویلات کی جاسکتی ہیں اور حسبِ اتفاق ان میں سے کوئی توجیہہ یا تاویل واقعے کے عین مطابق بھی ہوسکتی ہے۔ اس مہر کے سلسلے میں مالک رام صاحب قبلہ کے ارشادات بھی اسی ضمن میں آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غالب کو بیس پچیس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے اپنی انفرادیت کا بہ خوبی ادراک و احساس ہوگیاتھا۔ کلکتے میں قیام کے دوران قتیل کی زبان دانی پر ان کے اعتراضات کو بجاطورپر ہندوستانی فارسی دانوں کے خلاف ان کے مبیّنہ جہاد کا نقطہ آغاز کہا جاسکتاہے۔ اس وقت اپنے بیان کردہ سالِ ولادت (1212ھ) کی رو سے وہ عمر کی بتّیسویں منزل میں اور ہماری تحقیق کے مطابق چھتیسویں سال میں تھے۔ اس کے بعد انانیت کی یہ لے متواتر تیز ہوتی رہی۔ حتّی کہ نصف صدی پوری کرتے کرتے انہیں وہ مقام حاصل ہوگیاجہاں شہرت کے پرِ پرواز لگاکر اڑنے والے کسی رسمی تعارف کے محتاج نہیں رہتے۔ چنانچہ 1260ھ 1844ء میں انہوں نے نواب وزیرالدولہ والیِ ٹونک کی خدمت میں جو قصیدہ مدحیہ ارسال کیاتھا، اس کے ایک شعر میں یہ واضح اعلان موجود تھا:

نامم بہ سخن غالب و رشن ترم از روز

بے ہودہ چرا جلوہ دہم اسم و علم را

          تقریباً اسی زمانے میں (پنج آہنگ کی اشاعت سے قبل) انہوں نے میاں نوروز علی خاں کو پہلی بار خط لکھاتو جواب کے لےے پتے میں صرف ”بہ دہلی بہ اسد الہ برسد“ کو کافی قرار دیا۔22 مارچ 1858ء کے خط میں مرزا تفتہ کو بھی اسی مختصر پتے پر اکتفا کی ہدایت کی گئی ہے۔ان دونوں خطوط کے اقتباسات گزشتہ صفحات میں پیش کےے جاچکے ہیں۔ ایک اور خط مرزا حاتم علی مہر کے نام ہے جو 1861ء میں لکھا گیا تھا، اس میں لکھتے ہیں:

“آپ کو معلوم رہے کہ میرے خط کے سرنامے پر محّلے کا نام لکھنا ضروری نہیں۔شہر کا نام اور میرا نام، قصہ تمام”

          اسی ہدایت کا اعادہ چار برس کے بعد مولوی عبدالرزّاق شاکر کے نام کے ایک خط میں بھی کیا گیا ہے۔ یہ خط مرزا صاحب نے ستمبر 1865ء میں رام پور کے سفر پرروانگی سے قبل تحریر فرمایاتھا۔ مکتوب الیہ موصوف کو مطلع فرماتے ہیں:

          “اب کوئی خط آپ بھیجیں تو رام پور بھیجیں۔ مکان کا پتا لکھنا ضروری نہیں۔ شہر کا نام اور میرا نام کافی ہے۔”

          پیش کردہ مثالو ںمیں سے تین مثالیں 1278ھ 1862ء سے قبل کے زمانے سے متعلق ہیں۔ چوتھی اور آخری مثال اگرچہ 1278ھ سے بعد کی ہے لیکن اس اعتبار سے بے حد اہم ہے کہ یہ برونِ دہلی یعنی رام پور کے عارضی قیام کے زمانے سے تعلق رکھتی ہے۔ ان سبھی مثالوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ غالب اپنی شخصیت کی یکتائی سے بہ خوبی واقف تھے اور اپنے وقار کے تحفظ اور انا کی سربلندی کے لیے ہمہ وقت سرگرم و فکرمند رہتے تھے۔ ”ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے“ کسی شہر کی تخصیص کے بغیر ایک ایسا سوال تھاجس کا جواب ان کے تصور کے مطابق ”نہیں“ کے سوا کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ ایک اتفاقی امر ہے کہ ان کی یہ آخری مہر جس پر صرف ان کا تخلص کندہ ہے، 1278ھ میں تیارہوئی، ورنہ اس سے مالک رام صاحب کے بقول جس نفسیاتی کیفیت کا اظہارہوتاہے، وہ اس سے اٹھارہ برس قبل 1260ھ میں کہے ہوے ان کے اس شعر سے بھی ظاہر ہے جس میں ”اسم و علم“ سے بے نیازی اور صرف تخلص کے حوالے سے اَبَین مِنَ الامس(روشن تراز روز) ہونے کادعویٰ کیا گیاہے۔ ہا ںیہ امر بھی قابلِ لحاظ ہے کہ انہو ںنے اپنی بعض تحریروں میں شعروادب کے تناظر میں صرف تخلص کے حوالے سے اور مراسلت و مکاتبت کی حالت میں نام کی مختصر ترین شکل ”اسد اللہ“ کے ذریعے روشناسِ خلق ہونے پر جو اصرار کیاہے،وہ کسی داخلی مغائرت یا تضادکا مظہر نہیں۔ تعارف کی یہ دونوں صورتیں ”ہرسخن وقتے و ہر نکتہ مکانے دارد“ کے بہ مصداق ایک ہی باطنی کیفیت کی نشان دہی کرتی ہیں۔

          غالب کی جن مہروں کے نقوش اہلِ علم کی دسترس میں ہیں،ان میں یہ آخری مہر وہ واحد مہر ہے جس کے خط کی ناپختگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ بدرالدین کی بنائی ہوئی نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ غالب کے کسی دوست یا شاگرد نے یہ سوچ کرکہ شاعر کی حیثیت سے غیر معمولی شہرت و ناموری کے باوجود انہوں نے اپنے تخلص کے ساتھ کوئی مہر کندہ نہیں کرائی، یہ مہر بہ طورِ خود کسی معمولی مہر ساز سے تیار کراکے ان کی خدمت میں پیش کردی ہو اور انہوں نے اس دوست یا شاگرد کے پاسِ خاطر کی بناپر اسے رد کردینا مناسب نہ سمجھا ہو۔ اس سوال کا کہ ان کی نفاست پسندی کیوں کر اس کی متحمل ہوئی، اس کے علاوہ کوئی اور جواب سمجھ میں نہیں آتا۔

          مفصّلہ بالا تجزےے سے ظاہر ہے کہ مالک رام صاحب نے ان مہروں کی تیاری کے سلسلے میں جو تاویلات پیش فرمائیں ہیں، ان میں سے بیشتر قابلِ قبول نہیں۔ لیکن ان کے اس بنیادی موقف سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ ان میں سے ہر مہر اپنا ایک نفسیاتی، مذہبی یا تاریخی پس منطر رکھتی ہے۔ اس اعتبار سے غالب کی پر پیچ شخصیت اور ذہن و مزاج کی تفہیم میں دوسرے خارجی وسائل کے ساتھ ان مہروں کا کردار بھی مناسب توجہ کا مستحق ہے۔ یہی ایک بات ان کے بارے میں تحقیق و تنقید کا جواز فراہم کرتی ہے۔

حواشی:

1۔ غالب شناس مالک رام، از ڈاکٹر گیان چند، غالب اکیڈمی،نئی دہلی، 1996، ص67

2۔ فسانہ غالب، از مالک رام، مکتبہ جامعہ، نئی دہلی، 1977، ص81۔ آئندہ تمام مقامات پر اقتباسات کے آخر میں قوسین کے اندر صفحات کے حوالے دے دےے گئے ہیں۔

3۔ نامہ ہاے فارسیِ غالب، مربتہ سید اکبر علی ترمذی، غالب اکیڈمی، نئی دہلی، 1969، ص117۔ غالب کی خاندانی نشن اور دیگر امور، نیشنل ڈاکومینٹیشن سینٹر، مقتدرہ قومی زبان پاکستان، اسلام آباد، 1997، ص39

4۔ فسانہ غالب،ص115

5۔ نامہ ہاے فارسیِ غالب، ص103

6۔ غالب کی خاندانی پنشن،ص49

7۔ ایضاً،ص53

8۔ متفرقاتِ غالب، مرتبہ پروفیسر مسعود حسن رضوی، طبعِ ثانی، لکھنو1969، ص126

9۔ دیوانِ غالب، مرتبہ نظامی بدایونی، طبعِ ثانی، بدایوں، 1918، صفحہ ماقبلِ متن

10۔ احوالِ غالب، مربتہ پروفیسر مختارالدین احمد، طبعِ ثانی، دہلی، 1968،ص34

11۔ بہ حوالہ غالب نامہ، نئی دہلی، شمارہ جنوری 1989، ص215-16

12۔ گلشنِ بے خار، از نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ، طبعِ اول، دہلی، 1837، ص185

13۔ بہ حوالہ غالب نامہ، نئی دہلی، شمارہ مذکور الصدر، ص173

14۔ فسانہ غالب،ص49

15۔ احوالِ غالب، ص142۔143

16۔ مکاتیبِ غالب، مربتہ مولانا امتیاز علی عرشی، طبعِ دوم، رام پور، 1943، حاشیہ ص41

17۔ یادگارِ غالب(عکسی ایڈیشن)یو۔پی۔اردو اکاڈمی، لکھنو1986، ص9

18۔ نامہ ہائے فارسیِ غالب،ص103

19۔ پنج آہنگ، طبعِ ثانی، دہلی، 1853، ص334

20۔ دیوانِ غالب بہ خطِ غالب، مرتبہ اکبر علی خاں عرشی زادہ، رام پور، 1969،ص16

21۔ گلِ رعنا، مرتبہ مالک رام، دہلی، 1970، ص35

22۔ غالب کے خطوط، مرتبہ خلیق انجم، جلد سوم، دہلی،ص1029۔ 30

23۔ پنج آہنگ، ص389

24۔ تجلیات، از مرزامحمد ہادی عزیز لکھنوی، ص197-98، بہ حوالہ ماہنامہ نیادور، لکھنو شمارہ جولائی 1980، ص12

25۔ غالب درونِ خانہ، از کالی داس گپتا رضا، ساکار پبلشرز، بمبئی، 1989، ص43

26۔ پنج آہنگ، ص113

27۔ غالب نامہ، نئی دہلی، شمارہ جنوری 1996، ص164

28۔ باغِ دو در، مرتبہ سید وزیرالحسن عابدی، لاہور، 1970، ص120

29۔ گنجینہ غالب، پبلی کیشنز ڈویژن، نئی دہلی، 1995،ص168 تا ص170

30۔ غالب اور حیدرآباد، از ڈاکٹر ضیا ءالدین شکیب، نئی دہلی، 1969، ص223

31۔ آئینہ دلدار، از ابرار علی صدیقی، کراچی، 1956، ص93

غالب کی مُہریں

حنیف نقوی

غالب کی مُہریں

          اشیا کی قدروقیمت کا تعیّن بالعموم ان کی ماہیت اور کیفیتِ ظاہری کی بنیاد پر کیا جاتا ہے لیکن بعض اوقات کوئی نسبتِ خاص کسی شے کو اس کی حیثیتِ ظاہری سے بلند تر کرکے اس مرتبہ و مقام تک پہنچا دیتی ہے جہاں اس کے دوسرے تمام اوصاف ہیچ و بے مقدار ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سربرآوردہ اور نامور شخصیات سے تعلق رکھنے والی بعض معمولی چیزیں بھی محض ان کی ذات سے نسبت کی بناپر غیر معمولی اہمیت اختیار کرلیتی ہیں۔ جہاں تک اردو زبان و ادب کا تعلق ہے، غالب اس معاملے میں بھی اپنے تمام ہم مشربوں میں سابق وفائق ہیں کہ ان سے وابستہ ہر شے اس نسبتِ خاص کے انکشاف کے ساتھ از خود معتبر و محترم ہوجاتی ہے۔ ان کی مختلف مہریں جن کے نقش ان کی بے شمار تحریروں پر ثبت ہیں، اس ضمن میں بہ طورِ مثال پیش کی جاسکتی ہیں۔ مہروں کا رواج انیسویں صدی میں اور اس سے پہلے بہت عام تھا، چنانچہ یہ بات یقینی ہے کہ غالب کے بہت سے معروف و ممتاز معاصرین اور ان سے پہلے کے لاتعداد مشاہیر شعرا اور اہلِ علم نے اپنے ناموں کی مہریں تیار کرائی ہوں گی اور مرورِ ایام کے باوجود بعض کتابوں اور تحریروں پر ان کے نقوش کی موجودگی بھی خارج از امکان نہیں، تاہم ان کی تلاش و تحقیق اور ان سے متعلق گفتگو میں اہلِ علم کی دلچسپی کا ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا جیسی دلچسپی کا مظاہرہ غالب کی مہروں کے سلسلے میں کیاگیاہے۔ البتہ ان کے بعض ہم نام و ہم تخلص یا صرف ہم نام حضرات کی مہریں محض اس غلط فہمی یا شبہے کی بنا پر کہ وہ غالب سے نسبت رکھتی ہیں، ضرور معرضِ بحث میں آتی رہی ہیں۔ نسبتیں کبھی کبھی کتنی اہم ہوجاتی ہیں، یہ اس کا بیّن ثبوت ہے۔

          تازہ ترین معلومات کے مطابق غالب نے اپنی زندگی کے محتلف ادوار میں کم از کم آٹھ (۸) مہریں بنوائی تھیں۔ مالک رام صاحب نے مندرجہ بالا عنوان (غالب کی مہریں) ہی کے تحت اپنے ایک مضمون میں جو ان کے مجموعہ مضامین ”فسانہ غالب“ میں شامل ہے، ان میں سے چھ (۶) مہروں کا مفصّل تعارف سپردِ قلم فرمایاہے۔ بعد کے جن مصنفین اور توقیت نگاروں نے اپنی نگارشات میں ان مہروں کا ذکر کیاہے، ان کا ماخذ یہی مضمون ہے۔ ڈاکٹر گیان چند کے نزدیک ”اس مضمون کا سب سے قابلِ قدر پہلو ان مہروں کا نفسیاتی مطالعہ ہے۱۔“ خود مالک رام صاحب کے ارشاد کے مطابق ”میرزا کی یہ مہریں ان کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت اور عام حالت کی مادّی ترجمان ہیں(انہوں) نے ان میں اپنی زندگی کے اہم واقعات کو بھردیا ہے۲۔“ پیشِ نظرسطور میں یہ دیکھنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ تجزیہ جو بہ ظاہر بہت محققانہ اور عالمانہ معلوم ہوتا ہے، کس حد تک مبنی بر حقیقت ہے؟

          دریافت شدہ مہروں میں سے دو قدیم ترین مہریں غالب نے 1231ھ (1815-16ع) میں کندہ کرائیں تھیں۔ ان میں سے ایک مہر پر خطِ نستعلیق میں ”اسد اللہ خاں عرف مرزا نوشہ“ اور دوسری پر خطِ نسخ میں ”اسد اللہ الغالب“ نقش تھا۔ مالک رام صاحب کے مطابق پہلی مہر سے غالب کی ”اس زمانے کی سرمستی و رنگینی، رندی و ہوس پیشگی بہ درجہ اتم ظاہر ہے۔“ (ص81) جب کہ دوسری مہر”ان کے دلی خیالات و معتقدات کی مظہر ہے۔“(ص82) پہلے تاثر کی تائید میں منشی شیونرائن آرام اور مرزا حاتم علی مہر کے نام کے خطوط سے شطرنج کے کھیل سے دلچسپی، پتنگ بازی کے شوق اورایک ستم پیشہ ڈومنی کو مار رکھنے کے واقعات نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

“غالب کے والد میرزاعبداللہ بیگ خاں کا عرف ”میرزا دولھا“ تھا، اسی لیے لوگ میرزا غالب کو بچپن ہی سے ”میرزانوشہ“ کہنے لگے۔ اس عرف کی پستی ظاہر ہے اور خود میرزا کو بھی بعد کو اس ”نالائق“ عرف سے نفرت ہوگئی تھی۔ مگر اس طوفانی زمانے میں بھلا ثقاہت کہاں قریب پھٹک سکتی تھی۔ یہ باتیں شعور اور تجربے سے حاصل ہوتی ہیں اور وہ ان کی عمر اور گرد و پیش کا اقتضا نہ تھا۔“ (ص81)

دوسری مہر کے سلسلے میں محترم مضمون نگا رکا ارشاد ہے:

          “اس مہرکی بناحضرتِ علی کا لقب ہے۔ چوں کہ میرزا کا نام اسد اللہ تھا، اس لیے انہوں نے اس رعایت سے بہ طورِ سجع یہ نام کھدوا لیا اور بعد کو ان کے دوسرے تخلص کی بنا بھی یہی ہوئی۔ چوں کہ سامنے کی چیز تھی اس لیے جب انہوں نے تخلص تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تو اسد چھوڑ کر بلا تامّل غالب رکھ لیا“ (ص81)

          اس کے بعد حضرت علیؓ سے میرزا صاحب کی عقیدت اور ”شیعت سے شغف“ کو عبد الصمد سے زبانِ فارسی کی تحصیل اور ”ایران کے علوم و رسوم“ سے حصولِ واقفیت کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے علائی کے نام 17جولائی 1862ء کے ایک خط کے حوالے سے ان کے مذہب و مسلک کی وضاحت کی ہے، جس کا لُبِّ لباب خود میرزا صاحب کے الفاظ میں حسب ذیل ہے:

“محمد علیہ السّلام پر نبوت ختم ہوئی مقطع نبوّت کا مطلع امامت اور امامت نہ اجماعی بلکہ مِن اللہ ہے، اور امام مِن اللہ علی علیہ السّلام ہیں، ثمّ حسن، ثمّ حسین تامہدی موعود علیہ السّلام “ (ص82)

          ایک ہی سال میں تیارشدہ ان دو مہروں کو دو مختلف بلکہ متضاد مزاجی کیفیات اور طبعی میلانات کی علامت قرار دے کر مالک رام صاحب نے اجتماعِ ضدّین کی جو مثال پیش فرمائی ہے، وہ عقلاً ممکن الوقوع تو ہے لیکن عملاً بعید از قیاس نظر آتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پہلی مہر میں نام کے ساتھ عرف کی موجودگی نہ تو عنفوانِ شباب کی رنگ رلیوں یا لابالی پن کی مظہر تھی اور نہ ثقاہت کے منافی۔ جیسا کہ خود مالک رام صاحب نے فرمایاہے، غالب بچپن ہی سے ”میرزانوشہ“ کے عرف سے معروف تھے، لیکن واقعہ صرف اتنا ہی نہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ عرف شروع سے آخرِ عمر تک ان کے نام کا جزوِ لا ینفک بنارہا اور یہ بات ان کے لیے کسی بھی درجے میں ناگواری کا باعث نہ تھی۔ غالب کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے یہ بنیادی نکتہ ذہن نشیں رکھنا اشد ضروری ہے کہ مصلحت اندیشی ان کے مزاج کا لابُدی خاصّہ تھی۔ اس معاملہ میں وہ اس قدر حسّاس واقع ہوئے تھے کہ ان سے عمداً کسی ایسے کام کی توقعی ہی نہیں کی جاسکتی تھی جو خلافِ مصلحت یا مقتضاے وقت کے منافی ہو۔ عرف کا معاملہ بھی اس سے مستثنٰی نہیں، چنانچہ اس کے ترک و اختیار کے سلسلے میں بھی ان کی تمام تر ترجیحات بہ ظاہر وقتی ضرورت اور حالات کے تقاضوں کا ردِّ عمل معلوم ہوتی ہیں۔ 1231ھ (1815-16ع) میں اس مہر کے کندہ کرانے کے بعد انہوں نے جہاں جہاں اس عرف کو اپنے قلم سے اپنی شناخت کا وسیلہ بنایا، ان میں سے مندرجہ ذیل تحریریں اب بھی محفوظ ہیں:

          (1) درخواست بہ نام سائمن فریزر مورخہ 28 اپریل 1828 ع ”اسد اللہ خاں عرف مرزا نوشہ برادر زادہ نصر اللہ بیگ خاں جاگیردار سونک سونسا۔“3

          (2) عرضی دعویٰ پنشن مورخہ 28 اپریل 1828 ع ”میرا نام اسد اللہ خاں ہے اور عرف میرزا نوشہ“4

          (3) درخواست بہ نام ”سر حلقہ افرادِ دفتر کدہ کلکتہ“: ’اسمِ ایں فقیر اسد اللہ خان است و علَم مرزا نوشہ و تخلص غالب۔“5

          (4) عرضی بہ نام اینڈ ریواسٹرلنگ مورخہ 15 جولائی 1829 ع ”اسد اللہ خاں عرف میرزانوشہ برادر زادہ کلانِ نصراللہ بیگ خاں۔“6

(5) عرضداشت مورخہ 11 اگست 1829 ع ”اسد اللہ خاں عرف میرزا نوشہ برادر زادہ نصراللہ بیگ خاں جاگیردار سونک سونسا۔“7

(6) مکتوب بہ نام راے سدا سکھ مدیر اخبار جامِ جہاں نما مورخہ جمعہ، 25 صفر 1247ھ (5 اگست 1831ع) ”ایں ننگِ آفرینش کہ موسوم بہ اسد اللہ خاں و معروف بہ مرزا نوشہ و متخلص بہ غالب است۔“ 8

(7) دیباچہ دیوانِ اردو مرقوم بست و چہارم شہر ذی قعدہ 1248ھ (14 اپریل 1833ع) ”نگارندہ ایں نامہ بہ اسد اللہ خاں موسوم و بہ میرزا نوشہ معروف و بہ غالب متخلص است۔“9

(8) مکتوب بہ نام میر مہدی مجروح مورخہ 8 اگست1858ع ”وہ جو تم نے لکھا تھا کہ تیرا خط میرے نام کا میرے ہم نام کے ہاتھ جا پڑا، صاحب! قصور تمہارا ہے۔ کیوں ایسے شہر میں رہتے ہو جہاں دوسرا میر مہدی بھی ہو؟ مجھ کو دیکھو کہ میں کب سے دلّی میں رہتاہوں۔ نہ کوئی اپنا ہم نام ہونے دیا، نہ کوئی اپنا ہم عرف بننے دیا، نہ اپنا ہم تخلص بہم پہنچایا۔”

(9) خودنوشت براے تذکرہ شعرامرتبہ مولوی مظہر الحق مظہر: مرقومہ 1864ع ”اسد اللہ خاں عرف میرزا نوشہ، غالب تخلص۔“10

          ان تحریروں سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ پسند و ناپسند سے قطعِ نظر غالب کو اس اعتراف و اظہار میں کوئی تامل نہ تھا کہ وہ ”مرزانوشہ“ کے عرف سے معروف ہیں۔ اگر وہ اسے اپنی شخصیت کا ایک لازمی جزونہ سمجھتے اور اس سے متنفّر یا بیزار ہوتے تو اس طرح باربار اس کا ذکر ہرگز نہ کرتے۔ ان کے اعزا، احباب اور معاصرین میں بھی ایسے متعدد حضرات شامل ہیں جنہیں اس عرف کے حوالے سے ان کا ذکر کرنے میں کوئی عذر مانع نہ تھا۔ اگراس میں ان کی ناخوشی یابے ادبی کا شائبہ ہوتا تو ان میں سے بعض لوگ یقینا اس سے احتراز برتتے۔ مثلاً:

          (1)  مولانا فضلِ حق خیرآبادی کے بڑے بھائی مولوی فضل عظیم نے 1241ھ 1826ء میں ”افسانہ بھرتپور“ کے نام سے فارسی میں ایک مثنوی لکھی تھی۔ یہ مثنوی مرزا غالب کی نظر سے گزر چکی تھی اور انہوں نے اس کی تاریحِ تصنیف بھی کہی تھی جو ان کے کلیات فارسی میں موجود ہے۔ مصنف نے اس مثنوی کے خاتمے پر یہ تاریخ نقل کرنے سے پہلے مرزا غالب کی تعریف میں بائیس شعر کہہ کر شاملِ کتاب کیے ہیں۔ ان اشعار کا عنوان انہوں نے ”در تعریف مرزا نوشہ صاحب“ قائم کیا ہے اور ایک شعر میں بھی ان کا ذکر ان کے اسی عرف کے ساتھ کیا ہے۔ شعر حسبِ ذیل ہے:

ز اوصافِ او ہر کسے آگہ است

کہ معروف با میرزا نوشہ است11

(2) نواب مصطفی خاں شیفتہ نے 1250ھ 1835ء میں تذکرہ ”گلشنِ بے خار“ تالیف کیا۔ اس میں مرزا صاحب کے ترجمہ احوال کا آغاز ان الفاظ کے ساتھ کیاہے: ”غالب تخلص، اسمِ شریفش اسد اللہ خاں، المشتہر بہ مرزانوشہ“12

‘گلشنِ بے خار’ کا مسودہ طباعت سے پہلے مرزا صاحب کی نظر سے گزر چکا تھا۔ اگر نام کے ساتھ عرف کی شمولیت ان کے مزاج کے خلاف ہوتی تو وہ اس عبارت سے ”المشتہر بہ مرزا نوشہ“ کو بہ آسانی قلمزد کرسکتے تھے۔

          (3) سرسید کے برادرِ بزرگ سید محمد خاں بہادر نے اکتوبر 1841ء میں پہلی بار مرزا صاحب کا دیوانِ اردو اپنے لیتھوگرافک پریس سے شائع کیا تو اس کے سرورق پر ”دیوان اسداللہ خاں صاحب غالب تخلص، میرزا نوشہ صاحب مشہور کا“ لکھ کر گویا اس امر کی تصدیق کی کہ صاحبِ دیوان کا نام اسد اللہ خاں اور تخلص غالب ہے لیکن وہ عام طورپر مرزا نوشہ کے عرف سے مشہور ہیں۔

(4) دیوان کی اشاعت کے فوراً بعد سید محمد خاں بہادر کے لیتھوگرافک پریس ہی سے شائع ہونے والے ”سیدالاخبار“ کے 9 شوال 1357ھ 24 نومبر 1841ء کے شمارے میں ایک اشتہار شائع ہوا تھا جس میں شائقین کو ”پنج آہنگ“ کی اشاعت کے لیے تیاری کی خوش خبری سنائی گئی تھی۔ اس کی ابتدابھی ”مرزا اسد اللہ خاں صاحب غالب تخلص، مرزا نوشہ صاحب مشہور“ سے ہوئی تھی۔

          منشی بال مکند بے صبر،غالب کے شاگرد کی حیثیت سے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ انہوں نے اپنی اردو مثنوی ”لختِ جگر“ 1275ھ 1858ء میں نظر ثانی کے بعد بہ غرضِ اصلاح غالب کی خدمت میں پیش کی تھی۔ اس میں انہوں نے ”در شانِ مجمعِ کمالاتِ صوری و معنوی حضرت استادی جناب مولانا اسد اللہ خاں صاحب“ کے زیرِ عنوان جو اشعار کہے ہیں، ان میں ان کے نام، تخلص اور لقب (عرف) کا بیان اس طرح ہواہے:

نام اس کے سے کرتا ہوں میں آگاہ

اوّل ہے اسد اور آخر اللہ

مشہور تخلص اس کا غالب

مطلوبِ دلِ ہزار طالب

مرزا نوشہ لقب ہے اس کا

ثانی کوئی اور کب ہے اس کا16

(6) مکتوب بہ نام حسین مرزا مورخہ 29 اکتوبر 1859ء میں خود مرزا صاحب کا ارشاد ہے: “کاشی ناتھ بے پروا آدمی ہے۔ تم ایک خط تاکیدی اس کو بھی لکھ بھیجو۔ اکثر وہ کہا کرتا ہے کہ حسین مرزا صاحب جب لکھتے ہیں مرزا نوشہ ہی کو لکھتے ہیں۔”

          (7) مرزا یوسف کے انتقال کے پانچ برس بعد ان کی اہلیہ لاڈو بیگم نے یکم اکتوبر 1862ء کو ایک درخواست کے ذریعے ڈپٹی کمشنر سے یہ التجا کی کہ حکومت کی طرف سے ان کی مالی امداد کی جائے۔اس درخواست کے اندراجات کی روشنی میں ڈپٹی کمشنر نے ان کے کوائف کا جو گوشوارہ مرتب کرکے کمشنر کو بھیجا تھا، اس کا ایک اندراج یہ بھی تھا کہ ”کبھی کبھی اس کے مرحوم خاوند کا بھائی مرزا نوشہ اس کی مدد کرتاہے14۔“ ظاہرہے کہ لاڈو بیگم نے اپنی درخواست میں ”مرزانوشہ“ ہی لکھا ہوگا۔

(8) 1867ء کے اواخر میں غالب نے ”قاطع القاطع“ کے مصنف مولوی امین الدین کے خلاف دہلی کی ایک عدالت میں ازالہ حیثیتِ عرفی کا مقدمہ دائر کیا۔ اس مقدمے میں ان کے وکیل مولوی عزیزالدین تھے۔ انہوں نے 15 دسمبر 1867ء کو پیش کردہ ایک درخواست کے آخر میں اپنے دستخط کے تحت خود کو ”وکیلِ مرزا اسداللہ خاں پنشن دارِ سرکاری عرف مرزا نوشہ“ اور 20 فروری 1868ء کی اسی سلسلے کی ایک اور تحریر کے خاتمے پر ”وکیلِ مرزا اسد اللہ خاں عرف مرزانوشہ“ لکھاہے۔15

(9) غالب کی وفات کے تیسرے دن ان کے فرزندِ متبنّٰی حسین علی خاں شاداں (پسرِ عارف) نے نواب کلب علی خاں کو اس حادثے کی اطلاع دیتے ہوئے لکھا تھا:

 ”بہ تاریخ 15 فروری سالِ حال مطابق 2 ذی قعدہ روزِ دوشنبہ وقت ظہر جناب دادا جان صاحب قبلہ نواب اسد اللہ خاں غالب عرف میرزا نوشہ صاحب نے اس جہانِ فانی سے رحلت کی۔“16

(10) مولانا حالی نے جو غالب کے عزیز ترین شاگردوں میں سے تھے، ”یادگارِ غالب“ کا آغاز اس جملے سے کیا ہے:

“میرزا اسد اللہ خاں غالب المعروف بہ میرزانوشہ، المخاطب بہ نجم الدولہ، دبیر الملک، اسد اللہ خاں بہادر، نظام جنگ، المتخلص بہ غالب در فارسی واسد در ریختہ، شبِ ہشتمِ ماہِ رجب 1212 ہجری کو شہر آگرہ میں پیداہوئے۔“17

          عرف کے متواتر استعمال اور اس کے ساتھ شہرتِ عام کی ان مثالوں کے پیشِ نظر یہ باور کرنے کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی کہ غالب واقعتا اس سے بیزار ہوں گے یا اسے بہ نظرِ حقارت دیکھتے ہوں گے۔ اس کے باوجود یہ بھی واقعہ ہے کہ انہوں نے ایک دوبا راپنے احباب کو اس کے استعمال سے روکابھی ہے اور اسے ”نالائق“ قرار دے کر ایک اعتبار سے اس کی مذمّت بھی کی ہے، لیکن اس کی وجہ ان کی وہی مصلحت اندیشی اور احتیاط پسندی تھی جو انہیں بہ وقتِ ضرورت خلافِ معمول فیصلے لینے پر مجبور کرتی رہتی تھی۔فروری 1828ء میں جب وہ اپنی پنشن کا مقدمہ حکومتِ عالیہ کے سامنے پیش کرنے کی غرض سے کلکتے پہنچے تو ایک ”نکوہیدہ سیرت“ ہم وطن (مرزا افضل بیگ) نے حکّام کو ان کی طرف سے بدظن کرنے کی غرض سے یہ افواہ اڑادی کہ اس تازہ وارد شخص نے اپنا نام بھی بدل لیاہے اور تخلص بھی۔ گویا یہ شخص فریبی اور جعل ساز ہے۔ اسی افواہ کے زیرِ اثر اعیانِ دفتر کو ان کا نام بہ غرضِ ملاقات اپنے افسرِ اعلیٰ تک پہنچانے میں تامّل تھا، کیوں کہ سرکاری کاغذات کے مطابق خاندانی پنشن ”مرزا نوشاہ“ کے نام جاری ہوئی تھی اور وہ ”مرزانوشہ متخلص بہ اسد“ کی منزل سے آگے بڑھ کر اب ”اسد اللہ خاں غالب“ کے طور پر روشناسِ خلق تھے۔ اس مرحلہ دشوار سے نبٹنے کے لیے مرزاصاحب نے اپنے دیوانِ اردو کے ایک قلمی نسخے کا سہارا لیا جسے مرتب ہوئے سات سال سے کچھ زیادہ مدت گزر چکی تھی او راس سفر میں اتفاقاً ان کے ساتھ تھا۔ اس دیوان میں وہ غزلیں بھی شامل تھیں جن کے مقطعوں میں پرانا تخلص (اسد) موجود تھااور وہ غزلیں بھی جن میں نیا تخلص (غالب) نظم ہواتھا۔ مزید برآں اس کے خاتمے پر 1231ھ کی وہ مہر بھی ثبت تھی جس کے نگینے پر ”اسد اللہ خاں عرف مرزا نوشہ“ نقش تھا۔ غالب نے یہ دیوان ایک خط کے ساتھ ”سرحلقہ افرادِ دفتر“ (غالباً سائمن فریزر) کی خدمت میں پیش کردیا تا کہ وہ بہ طورِ خود فیصلہ کرسکیں کہ یہ افواہ کس حد تک درست ہے۔ خط میں انہوں نے لکھا تھا:

“آن مہر بہ ابطالِ دعویِ حداثتِ اسم مسکتِ مدعی است و در مسلّم نہ داشتنِ علَم برے سکوتِ ایں گمنام نیز کافی است۔ آرے اسمِ ایں فقیر اسد الہ خان است و علم مرزا نوشہ و تخلص غالب، لیکن ازیں جاکہ غالب کلمہ رباعی است و ظرفِ بعض بحور نشستِ آں رانیک برنتابد، فقیر لفظِ اسد راکہ مخففِ اسمِ عاصی است و معِ ہٰذا کلمہ ثلاثی، گاہ گاہ تخلص اختیار می کند۔“ 18

          اس تحریر سے غالب کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھاکہ اب سے بارہ سال پہلے بھی جب کہ یہ مہر تیار ہوئی تھی، وہ ”اسد اللہ خاں“ کے نام سے موسوم تھے۔ لہٰذا یہ مہر مدّعی کے اس دعوے کی تردید کے لیے کہ انہوں نے اپنا نام بدل لیا ہے، ایک مسکت دلیل کی حیثیت رکھتی ہے۔ نیز یہ کہ ”مرزانوشہ“ انھی کاعرف ہے اور یہ ان کا اختیارِ تمیزی ہے کہ وہ چاہیں تو اسے استعمال کریں اور چاہیں تو ترک کردیں۔ اس کے بعد کچھ دنوں تک وہ سرکاری خطوط اور عرضداشتوں میں اپنا نام ”اسد اللہ خاں عرف مرزانوشہ“ لکھتے رہے، بعد ازاں جب یہ قضیہ فیصل ہوگیاکہ ”مرزانوشہ“ بھی وہی ہیں اور ”اسد اللہ خاں“ بھی وہی تو انہوں نے اس دو عملی سے نجات پانے کے لیے آئندہ بہ نظر احتیاط صرف ”محمد اسد اللہ خاں“ یا ”اسد اللہ خاں“ لکھنے کا تہیّہ کرلیا۔ چنانچہ قیامِ کلکتہ کے اسی زمانے میں ایک بار اپنے دوست راے چھج مل کو خط لکھا تو پتے کے ذیل میں ان کے لکھے ہوئے مفصل نام کو موضوعِ گفتگو بناکر یہ سوال بھی کرڈالاکہ:

“برعنوانِ مکتوب کلمہ نواب راجزوِ اعظم (کذا=اسم) ساختن یعنی چہ و عرف پایانِ اسم رقم کردن چرا؟ سگِ دنیا را بہ اسد اللّٰہی شہرت دادن چہ کم است کہ نوابی و میرزائی برسرِ ہم باید افزود۔“19

          یہ بات بہ ظاہر انکسا رکے طورپر کہی گئی ہے لیکن اصل مقصد یہی معلوم ہوتاہے کہ نام کے ساتھ عرف نہ شامل کیا جائے تاکہ پڑھنے والے کا ذہن اس قضیہ نامرضیہ کی طرف منتقل ہی نہ ہو کہ مکتوب الیہ اب سے پہلے ”مرزانوشہ“ کے نام سے موسوم تھا اور اب اس نے اپنا نام بدل کر ”اسد اللہ خاں“ کر لیا ہے۔ اس کے بعد اگلے تیس (30) برسوں میں ان کی کوئی ایسی تحریر نہیں ملتی جس میں انہوں نے اس عرف سے بریّت کا اظہار کیا ہو یا کسی کو اس کے استعمال سے روکاہو۔ تا آن کہ یکم ستمبر 1858ء کو انہو ںنے مرزا ہرگوپال تفتہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا:

“صاحبِ مطبع (مفیدِ خلائق،آگرہ) نے خط کے لفافے پرلکھاہے:

”مرزانوشہ صاحب غالب“ للہ غور کرو، یہ کتنا بے جوڑ جملہ ہے۔ ڈرتاہوں کہ کہیں صفحہ اولِ کتاب پر بھی نہ لکھ دیں صرف اپنی نفرت عرف سے وجہ اس واویلا کی نہیں ہے بلکہ سبب یہ ہے کہ دلّی کے حکّام کو تو عرف معلوم ہے مگر کلکتے سے ولایت تک یعنی وزراکے محکمے میں اور ملکہ   عالیہ کے حضور میں کوئی اس نالائق عرف کو نہیں جانتا، پس اگر صاحبِ مطبع نے ”مرزانوشہ صاحب غالب“ لکھ دیاتو میں غارت ہوگیا، کھویاگیا، میری محنت رائگاں گئی، گویا کتاب کسی اور کی ہوگئی۔“

اس کے تیسرے دن ان سے دوبارہ یہ استدعا کی:

          منشی شیونرائن کو سمجھا دینا کہ زنہار عرف نہ لکھیں، نام اور تخلص بس، اجزاے خطابی کا لکھنا نامناسب بلکہ مضر ہے“۔

          ان بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ کتاب (دستنبو)کے سرورق پر صرف نام اور تخلص لکھنے اور عرف نہ لکھنے پر یہ اصرار فی الواقع اس مبیّنہ طورپر ”نالائق عرف“ سے نفرت کا نتیجہ نہیں بلکہ اس احتیاط اور پیش بندی پر مبنی ہے کہ سرکاری کاغذات میں درج ان کے نام کے ساتھ اس عرف کی شمولیت ”وزراکے محکمے اور ملکہ عالیہ کے حضور میں“ کسی غلط فہمی کا سبب نہ بن جائے اور پھر کوئی ایسی صورتِ حال پیش نہ آجائے جیسی ایک بار کلکتے میں پیش آچکی تھی۔ غدر کے بعد کے مخصوص حالات اور انگریز حکّام کی مطلق العنانی کو مدِّ نظر رکھا جائے تو یہ اندیشہ کچھ بے جابھی نہ تھا۔ کلکتے میں انہیں ذاتی طورپر جو تجربہ ہوچکاتھا، ممکن ہے کہ اس قسم کے کچھ اور واقعات بھی ان کے علم میں ہوں۔ کم سے کم ایک واقعے کا ذکر خود ان کے ایک خط میں موجود ہے۔ یہ خط یوسف مرزا کے نام ہے اور قیاساً 1859ء کے وسط میں لکھاگیاہے۔ لکھتے ہیں:

“ایک لطیفہ پرسوں کا سنو:حافظ ممّو بے گناہ ثابت ہوچکے۔ رہائی پاچکے۔ حاکم کے سامنے حاضر ہواکرتے ہیں۔ املاک اپنی مانگتے ہیں۔ قبض و تصرف ان کا ثابت ہوچکا ہے، صرف حکم کی دیر۔ پرسوں وہ حاضر ہیں۔ مسل پیش ہوئی۔ حاکم نے پوچھا:

حافظ محمد بخش کون؟ عرض کیا میں۔ پھر پوچھا کہ حافظ ممّو کون؟ عرض کیا کہ میں۔ اصل نام میرا محمد بخش ہے، ممّوم ممّو مشہور ہوں۔ فرمایا: یہ کچھ بات نہیں، حافظ محمد بخش بھی تم، حافظ ممّو بھی تم، سارا جہان بھی تم، جو کچھ دنیا میں ہے، وہ بھی تم۔ ہم مکان کس کو دیں؟ مسل داخلِ دفتر ہوئی۔ میاں ممّو اپنے گھر چلے آئے۔

          جہاں ایک معمولی سے شبہے کی بنا پر اس طرح ایک جیتا ہوا مقدمہ ہارا جا سکتا ہے، وہاں غالب کا اپنے مفادات کے تحفظ میں ہرممکن احتیاط برتنا مقتضاے حال کے عین مطابق تھا۔ وہ یہ خطرہ مول لینے کے لیے کسی صورت میں بھی تیار نہیں ہوسکتے تھے کہ نام اور عرف کے چکر میں حافظ محمد بخش عرف حافظ ممّو کی طرح ان کی مسل بھی داخلِ دفتر کردی جائے۔ تفتہ کے نام پنے محولّہ بالا دونوں خطوں میں سے پہلے خط میں انہوں نے جس تشویش کا اظہار کیا ہے اور دوسرے خط میں تاکید کی جو صورت اپنائی ہے، وہ بدیہی طورپر اسی قسم کے اندیشہ ہاے دور دراز کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔ اگر وہ واقعی اس ”نالائق عرف“ سے متنفّر ہوتے تو عام حالات میں بھی اپنے نام کے ساتھ اس کے الحاق کے خلاف کبھی نہ کبھی ضرور احتجاج کرتے، لیکن اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حد یہ ہے کہ 1865ء میں جب اسی کتاب (دستنبو) کا دوسرا ایڈیشن ”نسخہ صحیحہ مرسلہ مصنف“ کی بنیاد پر مطبع لٹریری سوسائٹی روہیل کھنڈ، بریلی سے شائع ہواتو اس کے سرورق پر ان کا پورا نام ”نجم الدولہ، دبیر الملک، اسد اللہ خاں بہادر، نظام جنگ، المتخلص بہ غالب عرف مرزانوشہ“ لکھا ہواتھا۔ نام کے ساتھ ”اجزاے خطابی“ اور ”عرف“ کے اس اندراج کو انہوں نے بعد کی کسی تحریر میں نہ تو ”نامناسب بلکہ مضر“ قرار دیا اورنہ اس پر کسی قسم کی ناگواری ظاہر کی۔

          دوسری مہر کے سلسلے میں مالک رام صاحب کا ارشاد ہے کہ ”اس کی بنا حضرت علی کا لقب ہے۔ چوں کہ میرزا کا نام اسد اللہ تھا، اس لیے انہوں نے اس رعایت سے بہ طورِ سجع یہ نام کھدوا لیا۔“ بعد میں جب انہوں نے تخلص تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تو اسی لقب کی رعایت سے اسد کو چھوڑ کر غالب اختیار کرلیا (ص81) غالب نے ایک منقبتی قصیدے میں خود بھی اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ تخلص کے اس انتخاب میں حضرت علی کے ”اسم و رسم“ کے اثرات شامل تھے۔ فرماتے ہیں:

اے کز نوازشِ اثرِ اسم و رسمِ تو

نامم زمانہ غالب معجز بیاں نہاد

          اس کے باوجود مالک رام صاحب کا یہ دعویٰ محتاجِ دلیل ہے کہ مرزا صاحب نے پہلے حضرت علی سے اپنی محبت و عقیدت کے اظہا رکے طورپر یہ مہر کھدوائی،اس کے بعد اپنا تخلص اسد سے بدل کر غالب کیا۔اس کے برخلاف مرحوم اکبر علی خاں عرشی زادہ کا یہ استدلال زیادہ قرینِ صحت معلوم ہوتاہے کہ رجب 1231ھ (جون 1861ع) میں دیوان کے اولین دستیاب نسخے کی ترتیب کے وقت تک مرزا صاحب اسد تخلص کرتے تھے۔ بعد میں اسی سال کی کسی تاریخ کو انہوں نے غالب تخلص اختیار کیاتو یہ نئی باتخلص مہر کندہ کرائی۔ 20

          اگر اس مہر کی وساطت سے صرف ”دلی خیالات و معتقدات“ کا اظہار مقصود ہوتا تو یہ کام اس سے قبل بھی کیا جاسکتا تھاکیوں کہ غالب 1231ھ سے پہلے بارہا اس امر کا اعتراف و اعلان کرچکے تھے کہ

امامِ ظاہر و باطن، امیرِ صورت و معنی

علی، ولی، اسد اللہ، جانشینِ نبی ہے

          ان حالات میں ایک ہی سال کے اندر دو مہروں کی تیاری کی اس کے علاوہ اور کوئی معقول توجیہہ نہیں کی جاسکتی کہ مرزا صاحب نے اسی سال اپنا تخلص تبدیل کیا ہوگا اور اس تبدیلی کی علامت کے طورپر بہ صورت سجع یہ دوسری مہر کندہ کرائی ہوگی۔ لیکن مالک رام صاحب کے نزدیک یہ استدلال قابلِ قبول نہیں، چنانچہ ”گلِ رعنا“ کے مقدمے میں انہو ںنے اس مسئلے کو ایک بار پھر اٹھایا ہے۔ عرشی زادہ کا نام لیے بغیر تحریر فرماتے ہیں:

بعض لوگوں نے استدلال کیاکہ ”اسد اللہ الغالب“ مہر سے ثابت ہوتاہے کہ انہوں نے اس سال (1231 میں) غالب تخلص اختیارکیا، حال آنکہ نہ ان کا نام ”اسد اللہ“ تھا نہ تخلص ”الغالب“۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس مہر میں لفظ ”غالب“ بہ طورِ تخلص استعمال ہی نہیں ہوا بلکہ یہ مہر انہوں نے بہ طورِ سجع تیار کرائی تھی۔ دراصل ”اسداللہ الغالب“ لقب ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا۔ چوں کہ میرزا کا نام ”اسد اللہ خاں“ تھا اور وہ عقیدے کے لحاظ سے شیعی تھے، اس لیے انہوں نے یہ سجع والی مہر بنوا کر گویا حضرت علی سے اپنی عقیدت کا اعلان بھی کردیا۔ غرض اس مہر سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ 1231ھ میں انہوں نے غالب تخلص اختیار کر لیا تھا۔ البتہ یہ درست ہے کہ بعد کو انہوں نے اسد تخلص سے بیزار ہوکر نیا تخلص رکھنے کا فیصلہ کیا تو اسی سجع نے ان کی مشکل حل کردی اور انہوں نے یہ سامنے کا لفظ بہ طورِ تخلص اختیار کرلیا۔“21

          اپنی بات پر بے جا اصرار کا رویّہ بعض اوقات بدیہّیات سے بھی چشم پوشی پر مجبور کردیتا ہے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت اس بیان کی بھی ہے۔ سجع کی خوبی یہ خیال کی جاتی ہے کہ اس میں صاحب سجع کا نام بھی آجائے اور کلمہ سجع کی معنوی بھی اپنی جگہ برقرار رہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ حشو و زوائد سے یکسر پاک ہو۔ غالب نے اپنے شاگرد حکیم سید احمد حسن فنا مودودی کی فرمائش پر ان کے نام کے دو سجعے کہے تھے۔ یہ سجعے بھیجتے ہوئے انہوں نے خط میں لکھاتھا:

“بہارِ گلستانِ احمد حسن، یہ سجع کیا برا ہے؟ دلِ حیدر و جانِ احمد حسن، یہ اس سے بھی بہتر ہے۔ انھی دونوں میں سے ایک سجع مہر پر کھدوا لیجیے۔“22

          ان دونوں سجعوں میں ایک لفظ بھی زائد از ضرورت نہیں۔”اسد اللہ الغالب“ کی بھی یہی کیفیت ہے۔ اگر اس وقت مرزا صاحب کا تخلص غالب نہ ہوتاتو یہ سجع کوئی معنی ہی نہ رکھتا، اور اگر اس مہر میں ”اسد اللہ“ کے ساتھ ”الغالب“ کی بجاے صرف ”غالب“ کندہ کیا گیا ہوتا تو یہ سجع نہ ہوتا، صرف نام ہوتا۔ رہ گیا یہ سوال کہ غالب کا اصل نام ”اسد اللہ“ نہیں ”اسد اللہ خاں“ تھا تو یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ میر، میرزا، سید، شیخ، خاں، بیگ، مودودی اور چشتی جیسے سابقے اور لاحقے کسی نام کے اجزاے اصلی نہیں، اجزاے اضافی ہوتے ہیں، علاوہ بریں الفاظ کے اس مخصوص تانے بانے سے بھی کوئی مناسبت نہیں رکھتے جس سے سجع کی تشکیل ہوتی ہے، اس لیے سجع کہتے وقت انہیں نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ چنانچہ غالب نے بھی سید احمد حسن کے نام کے مذکورہ بالا دونوں سجعوں میں ”سید“ کے سابقے سے صرفِ نظر کرکے صرف ”احمد حسن“ نظم کیاہے۔ قطعِ نظر اس سے اگر مالک رام صاحب کے نزدیک غالب کا اصل نام ”اسد اللہ خاں“ اور صرف ”اسد اللہ خاں“ تھاتو چند سال کے بعد ”محمد اسد اللہ خاں“ کے نام سے ایک تازہ مہر کندہ کرانے کا کیا جواز باقی رہتاہے؟

          صحیح بات یہ ہے کہ غالب کا اصل نام صرف ”اسد اللہ“ تھا، باقی تمام سابقے اور لاحقے فروعی یا اضافی حیثیت رکھتے تھے، چنانچہ انہوں نے اپنی بے شمار تحریروں میں، نظم میں بھی اور نثر میں بھی، اپنا نام صرف ”اسد اللہ“ لکھاہے۔ نظم کے چند نمو نے حسبِ ذیل ہیں:

حبسِ بازارِ معاصی، اسد اللہ اسد

کہ سوا تیرے کوئی اس کا خریدار نہیں

غالب نام آورم، نام و نشانم مپرس

ہم اسد اللّٰہم و ہم اسد اللّٰہیم

منصورِ فرقہ علی اللّٰہیاں منم

آوازہ انا اسداللہ درافگنم

فیضِ دمِ انا اسد اللہ بر آورم

منصورِ لا ابالیِ بے دار و بے رسن

‘پنج آہنگ’ کے خطوط میں بھی انہوں نے متعدد جگہ اپنا نام صرف ”اسد اللہ“ ہی لکھا ہے، حتّٰی کہ بعض خطوط کا آغاز ”از اسداللہ نامہ سیاہ“ یا ”نامہ نگار اسد اللہ“ سے ہوتاہے۔ میاں نوروز علی خاں کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:

“اگرنامہ فریسند و بہ عنوان نویسند کہ ایں مکتوب بہ دہلی بہ اسد اللہ رسد، دشوار نیست کہ آں نامہ بدیں روسیاہ برسد۔“23

22 مارچ 1852ء کے ایک خط میں تفتہ کو ہدایت کرتے ہیں:

“خط پر حاجت مکان کے نشان کی نہیں ہے۔ ”در دہلی بہ اسد اللہ برسد“ کافی ہے”

          اس سے بھی اہم تر بات یہ ہے کہ پنشن سے متعلق عرض داشتوں اور درخواستوں کے آخر میں بھی وہ کبھی کبھی اپنا نام صرف ”اسد اللہ“ ہی لکھا کرتے تھے۔ اس سلسلے کے دستاویزات میں ایسی اٹھائیس تحریریں ہماری نطر سے گزر چکی ہیں جن پر ان کے دستخط ثبت ہیں۔ ان میں سے بارہ تحریروں میں انہو ںنے اپنا نام ”اسد اللہ“ لکھاہے۔ ان میں قدیم ترین تحریر 25 نومبر 1831ء کی اور آخری تحریر 25 اکتوبر 1844ء کی ہے۔ نواب کلب علی خاں کے نام کے خطوط میں بھی جہاں انہوں نے بہ طورِ دستخط تخلص کی بجاے نام لکھا ہے، یہی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس سلسلے کا آخری خط 16 نومبر 1898ء کا تحریر کردہ ہے۔

          اس سلسلہ گفتگو کا آخری اور سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ”اسد اللہ“ کی حیثیت اسمی سے متعلق مالک رام صاحب کا زیر بحث بیان خود ان کے سابقہ موقف سے مطابقت نہیں رکھتا۔ گزشتہ سطور میں ان کا یہ قول نقل کیا جاچکاہے کہ”اس (دوسری) مہر کی بناحضرت علیؓ کا لقب ہے۔ چوں کہ میرزا کانام اسد اللہ تھا، اس لےے انہوں نے اس رعایت سے بہ طورِ سجع یہ نام کھدوا لیا۔“ اس طر ح ایک بار یہ کہنا کہ ”میرزا کا نام اسد اللہ تھا“ اور دوسری بار اس سے انکار کردینا ایک ایسی کیفیتِ ذہنی کی غمّازی کرتا ہے جو اعترافِ حق اور اعلانِ حق کی بجاے بہر صورت حریف کے دعووں کو باطل ٹھہرانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔

          غالب نے تیسری مہر 1238ھ میں تیار کرائی تھی۔ اس پر ”محمد اسد اللہ خاں“ کندہ تھا۔ مالک رام صاحب کے مطابق یہ ”معرکہ آرا مہر ایک عظیم الشان داخلی اور ذہنی انقلاب کی آئینہ دار ہے۔“ اس انقلاب کے محرکات میں انہوں نے اس مذہبی مباحثے کا بہ طورِ خاص حوالہ دیاہے جو ان کے بقول انیسویں صدی کے ربعِ اول میں شروع ہواتھااور جس کا موضوع مسئلہ امکان و امتناعِ نظیر تھا۔ اس مباحثے کے ایک فریق مولانا فضلِ حق خیرآبادی تھے۔ ان کی تحریک پر غالب نے بھی اس بحث میں حصّہ لیا تھا اور فارسی میں ایک مثنوی کہہ کر ان کی او ران کے ہم خیال علما کی تائید کی تھی۔ مذہبی معاملات سے غالب کی اس دلچسپی کا اوّلین محرک مالک رام صاحب نے نواب الٰہی بخش خاں معروف سے ان کی عزیز داری کو ٹھہرایاہے۔ نواب صاحب خود صوفی تھے اور اس حیثیت سے متصوفین کے درمیان ”خاصے معروف بھی تھے“۔ غالب کی طبیعت کے ”لاابالیانہ پن“ پر ”علم و عمل کے اس نمونے“ کے اثرات مرتب نہ ہوں، یہ اصولِ فطرت کے خلاف تھا۔اس تمہید کے بعد مالک رام صاحب نے اس سلسلے میں اپنے مجموعی تاثرات ان الفاظ میں قلمبند فرمائے ہیں:

“میرزا کی تحریروں سے ثابت ہے کہ وہ اس سے قبل فسق و فجور اور عیش و عشرت کی دلدل میں پھنس چکے تھے، لیکن اس نئے مذہبی ماحول نے اگر ان کی کایا بالکل پلٹ نہیں دی تو کم از کم اس کی شدت میں ضرور کمی آگئی اور وہ اخلاقی قدروں کے بھی شناسا ہوگئے۔اس سے پہلے انکی مہر پر کندہ تھا: اسد اللہ خاں عرف میرزانوشہ، انہوں نے جو نئی مہر تیار کرائی، اس پر لکھا ہے: محمد اسد اللہ خاں۔ کیا ان کی قلبِ ماہیت کا اس سے زیادہ کوئی اور ثبوت درکارہے۔“ (ص84)

          مسئلہ امکان و امتناعِ نظیر پر بحث کب شروع ہوئی اور اس کا آغاز کس نے کیا، فی الوقت اس موضوع پر گفتگو کا موقع نہیں۔ قابلِ غور مسئلہ یہ ہے کہ غالب اس بحث میں کب شریک ہوئے اور ان کی وہ نظم جو اس مسئلے سے متعلق ہے، کس زمانے میں معرضِ وجود میں آئی؟ مالک رام صاحب نے اس مباحثے کو انیسویں صدی کے ربعِ اوّل کا واقعہ قرار دیاہے۔ نہیں کہا جاسکتاکہ غالب کو اس ابتدائی مرحلے میں اس مسئلے سے کوئی دلچسپی تھی یانہیں۔ شواہد سے معلوم ہوتاہے کہ 1856ءکے اواخر تک اس بحث کا سلسلہ ختم نہیں ہواتھا۔ بعض قرائن کے بموجب یہی وہ زمانہ ہے جب کہ مولانا فضلِ حق نے الور سے رام پور جاتے ہوئے کچھ دنو ںکے لےے دہلی میں قیام کیا تھا اور اس دوران ان کی سرگرم شرکت کی بدولت یہ بحث ایک بار پھر تازہ ہوگئی تھی۔ چنانچہ غالب نے انھی ایام میں مولانا کی فرمائش پر وہ اشعار کہے تھے جو ان کی چھٹی فارسی مثنوی موسوم بہ ”بیانِ نموداریِ شانِ نوبت و ولایت“ میں شامل ہیں۔ سلطان العلما مولانا سید محمد مجتہد کے نام 21 جمادی الاول 1273ھ (17 جنوری 1857ع) کے خط میں اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“دریں ہنگام در شہر دو دانشمند باہم در آویختہ اند۔ یکے می سراید کہ آفریدگار ہمتاے حضرتِ خاتم الانبیا علیہ و آلہ السّلام می تواند آفرید۔ وایں یکے می فرماید کہ ایں ممتنعِ ذاتی و محالِ ذاتی است۔ بندہ چوں ہمیں عقیدہ دارد، نظمے در گیرندہ بدیں مدّعا سرانجام دادہ است۔ ہر آئینہ چشم دارد کہ سواد بہ نورِ نظرِ اصلاح روشن شود۔“ 24

          اس واضح بیان کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ 1273ھ 1856ء میں اس مذہبی مباحثے میں غالب کی شرکت اور اس سے پورے پینتیس (35) برس قبل 1238ھ 1823ء میں تیار شدہ ان کی زیرِ بحث مہرکے درمیان کسی ذہنی و جذباتی رشتے کی موجود گی قطعاً خارج از امکان ہے۔ یہی کیفیت تصوف کے اثرات کی بھی ہے کہ اس سے غالب کا واسطہ ”براے شعر گفتن“ سے زیادہ نہ تھا۔ علاوہ بریں مذہبی طورپر وہ شیعی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے تھے جس میں تصوف کے لیے یوں بھی کوئی گنجائش نہیں۔ البتہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ دوسری مہر کی طرح یہ تیسری مہربھی شیعت میں ان کے گہرے اعتقاد کی توثیق کرتی ہے۔ اس میں ان کے نام کے مختلف اجزا کی نشست میں جو ترتیب قائم کی گئی ہے، اسے محض اتفاق نہیں کہا جا سکتا۔ اس کی صورت یہ ہے کہ سب سے اوپر لفظ ”اللہ“ کندہ ہے، درمیان میں لفظ ”محمد“ نقش ہے اور تیسری اور آخری سطر میں لفظ ”اسد“ اور ”خان“ یعنی:

خدا کے بعد نبی اور نبی کے بعد امام

یہی ہے مذہبِ حق، والسّلام و الاکرام

          غالب کی خودنوشت تحریروں، سرکاری مراسلوں اور عرضداشتوں میںکہیں ان کا نام ”اسد اللہ خاں“، کہیں ”محمد اسد اللہ خاں“، کہیں ”محمد اسد اللہ“ اور کہیں صرف ”اسد اللہ“ لکھا ہوا ملتاہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ اس معاملے میں کسی طے شدہ ضابطے کے پابند نہیں تھے۔ دوسری اور تیسری صورتوں میں اصل نام ”اسد اللہ“ کے ساتھ لفظِ ”محمد کے اضافے کاایک سبب یہ بھی ہوسکتاہے کہ ان کے رشتے کے ایک سالے یعنی امراو بیگم کے عمِ حقیقی نبی بخش خاں کے ایک بیٹے کا نام بھی ”اسد اللہ خاں“ تھااور ان کی مہر پر یہی نام کندہ تھا۔چوں کہ غالب اپنے تشخّص کی نگہداری کے معاملے میں خاصے حسّاس تھے، اس لےے عین ممکن ہے کہ انہو ںنے اپنے اور اپنے ان برادرِ نسبتی کے درمیان امتیاز کی غرض سے اپنی مہر پر ”محمد اسد اللہ خاں“ کندہ کرالیاہو۔

          جیسا کہ گزشتہ سطور میں عرض کیاگیا، غالب اپنے نام کے معاملے میں کسی طے شدہ ضابطے کے پابندنہیں تھے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا غالب رجحان ”اسد اللہ خاں“ کی طرف تھا۔ جب اس نام کو سرکاری سطح پر سندِ اعتبار حاصل ہوگئی تو انہوں نے لفظ ”محمد“ کو ترک کرکے صرف ”اسد اللہ خاں“ لکھنا شروع کردیا۔چنانچہ مرزا ہرگوپال تفتہ کو 17 ستمبر1858ء کے خط میں لکھتے ہیں:

“لفظِ مبارک میم، حا، میم، دال“، اس کے ہر حرف پر میری جاں نثا رہے مگر چو نکہ یہاں سے ولایت تک حکّام کے ہاں سے یہ لفظ یعنی ”محمد اسد اللہ خاں“ نہیں لکھا جاتا، میں نے بھی موقوف کردیاہے۔”

          حکّام کاپاسِ خاطر غالب کو کس قدر عزیز تھا، اس کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتاہے، اس لیے ان کے کسی بھی فیصلے یا طرزِ عمل کو وقت اور حالات کے تقاضوں سے بلند ترہوکر دیکھنے کی کوشش کبھی صحیح سمت میں رہنمائی نہیں کرسکتی۔اسی مصلحت کوشی اور احتیاط پسندی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اپنی خاندانی پنشن اور دیگر امور سے متعلق درخواستوں اور مراسلوں پر کبھی اس مہر کے علاوہ کوئی اور مہر نہیں لگائی۔ چنانچہ اس سلسلے کے جو دستاویزات برصغیر اور یورپ کے مختلف محافظ خانوں میں محفوظ ہیں،ان میں سے سترہ (17) کاغذات پر دستخط کے ساتھ یہ مہر بھی ثبت ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ نام کے ساتھ ”محمد“ کا سابقہ موقوف کردینے کے اعلان کے بعد بھی وہ سرکاری نوعیت کی تمام تحریروں پر یہی مہر لگاتے رہے۔ چنانچہ جن سترہ تحریروں پر اس مہر کے نشانات ہماری نظر سے گزرے ہیں، ان میں اولین تحریر 7جولائی 1830ء کی اور آخری تحریر 7 فروری 1867ء کی ہے۔ اس آخری تحریر کی روشنی میں جناب کالی داس گپتا رضا کایہ ارشاد محلِّ نظر قرار پاتا ہے کہ ”غالب کی یہ مہر تقریباً تیس سال تک استعمال میں رہی25۔“ موجودہ شواہد کی بنیاد پر اس کا کم از کم پیتالیس (45) سال تک (1138ھ 1822-23ء تا 2شوال1283 7 فروری 1867ء استعمال میں رہنا ثابت ہے۔

          ہمارے نزدیک یہ مہر نہ تو مذہبی نقطہ نظر سے کسی ”داخلی اور ذہنی انقلاب“ کی آئینہ دا رہے اور نہ اخلاقی سطح پر کسی ”قلبِ ماہیت“ کی نشان دہی کرتی ہے۔ بہ ظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ بہ طورِ خاص سرکاری کاغذات پر ثبت کرنے کے لیے تیار کرائی گئی تھی، کیوں کہ اس سے پہلے کی دونوں مہریں اس کام کے لیے موزوں نہیں تھیں۔ پہلی مہر کا استعمال نام کے ساتھ عرف کے شمول کی وجہ سے خلافِ احتیاط تھا جب کہ دوسری مہریں اس کام کے لیے موزوں نہیں تھیں۔ پہلی مہر کا استعمال نام کے ساتھ عرف کے شمول کی وجہ سے خلافِ احتیاط تھا جب کہ دوسری مہر خالص مذہبی رنگ کی نمائندگی کرتی تھی۔

          اس سلسلے کی چوتھی مہر وہ ہے جسے مالک رام صاحب نے پانچویں نمبر پر جگہ دی ہے۔ اس پر ”یا اسدَاللہ الغالب“ کندہ ہے اور مالک رام صاحب کے مشاہدے یا تحقیق کے مطابق یہ 1269ھ 1852-53ء میں تیار ہوئی تھی۔ مصیبت یا پریشانی کے وقت حضرت علیؓ کو مدد کے لیے پکارنا شیعہ حضرات کے بنیادی عقائد اور روز مرّہ کے معمولات میں شامل ہے۔ یہ مہر اسی عقیدے کے اظہار کا ایک وسیلہ ہے۔ چنانچہ مالک رام صاحب نے اسے مناسب جواز فراہم کرنے کی غرض سے پہلے تویہ وضاحت فرمائی ہے کہ غالب اس زمانے میں یعنی 1852-53ءکے آس پاس مختلف قسم کی ذہنی و مالی پریشانیوں میں مبتلا تھے، جنہوں نے انہیں ”پراگندہ روزی، پراگندہ دل“ کا مصداق بنادیاتھا۔اس کے بعد 1854ء کے چند واقعات کے حوالے سے ان کی ”خوش اعتقادی اور نیک نیتی“ کے بار آور اور اس استعانت کے مقبول و مستجاب ہونے کے کئی ثبوت پیش کیے ہیں۔ یہ شواہد حسب ذیل ہیں:

(1) ذوق کے انتقال (4 نومبر 1845ع) کے بعد استادِ شاہ کے منصب پر تقرر۔

(2) ولی عہد مرزا غلام فحرالدین رمز کا حلقہ تلامذہ میں شامل ہونا اور چار سو روپے سالانہ وظیفہ مقرر کرنا۔

(3) طفر کے سب سے چھوٹے بیٹے مرزا خضر سلطان کا شاگرد ہونا۔

(4) سلطنتِ اودھ سے رسم و راہ میں استواری اور واجد علی شاہ کی طرف سے پانچ سو روپے سالانہ بہ طورِ وظیفہ مقرر ہونا۔

          یوں تو غالب کی زندگی میں کوئی دور ایسا نہیں گزراجب کہ انہوں نے اپنی خواہشات اور توقعات کے مطابق آسودگی اور مرفّہ الحالی کی زندگی گزاری ہو تاہم 1853ء میں یا اس سے کچھ پہلے آلام و مصائب کی کوئی ایسی غیر معمولی صورتِ حال نظر نہیں آتی جس میں وہ مالک رام صاحب کے بقول ”بہ آوازِ بلند فریاد“ پر مجبور ہوں اور حضرت علیؓ کو ان کی مشکل کشائی کا واسطہ دے کر مدد کے لیے پکاریں۔ اس کے برخلاف یہ وہ زمانہ ہے جب کہ بہادرشاہ ظفر کی سرکار سے ”نجم الدولہ، دبیر الملک، نظام جنگ“ کے خطابات اور پچاس روپے ماہوار کے مشاہرے کے ساتھ سلاطینِ مغلیہ کی تاریخ نویسی کے منصب پر تقررکے بعد ان کی اناکی تسکین اور اسبابِ معیشت کی بہتری کا اچھا خاصا سامان مہیا ہو گیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں مالک رام صاحب کی تمام تاویلات و توجیہات دوراز کار قیاسات پر مبنی ہیں،کیوں کہ یہ مہر 1269ھ میں نہیں، اس سے پورے بیس برس پہلے1269ھ 1833-34ء میں کندہ کرائی گئی تھی۔ اس کے دستیاب نقش میں چار کی دہائی واضح نہیں۔ مالک رام صاحب نے اسے پہلی نظر میں غلطی سے چھ پڑھ لیا، اس کے بعد دوبارہ اس پر غور کرنے اور دوسرے ذرائع سے اس کی تصدیق کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، حال آنکہ یہ زیادہ مشکل کام نہ تھا۔ غالب نے اپنا دیوانِ فارسی ”مے خانہ آرزو سرانجام“ کے نام سے 1250ھ 1834-35ء میں مرتب کیا تھا۔ اس کا دیباچہ ان کے کلیاتِ فارسی کے علاوہ ”کلیاتِ نثرِ غالب“ میں بھی شامل ہے۔ اس دیباچے میں ایک جگہ انہوں نے لکھا ہے

دل بہ شراکِ نعلینِ محمدی آویختن کیش و آئینِ من و طغراے والاے ”یا اسدَاللہ الغالب“ نقشِ نگینِ من۔“26

          اس سے ظاہرہے کہ یہ مہر اس دیوان کی ترتیب سے پہلے تیار ہوچکی تھی۔ 1250ھ سے پہلے اور اس کے بعد لیکن 1260ھ سے بہت پہلے کی غالب کی ایسی کئی تحریریں راقم الحروف کی نطر سے گزر چکی ہیں جن کا آغاز انہو ںنے ”یا اسداللہ الغالب“ سے کیا ہے۔ مثلاً:

(1) مکاتیبِ غالب کے اس مجموعے میں جو پہلے پروفیسر مسعود حسن رضوی کی ملکیت تھااو راب مولانا آزاد لائبریری،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ مخطوطات میں محفوظ ہے، مثنوی ”بادِ مخالف“ کے سرِ عنوان ”یا اسداللہ الغالب“ لکھا ہوا ہے۔ اس مجموعے کی تمام تحریریں غالب کے قیامِ کلکتہ کے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں۔

(2) “مآثرِ غالب” میں شامل فارسی خطوں میں سے ایک خط کا آغاز”یا اسداللہ الغالب“ سے ہواہے۔ یہ خط خواجہ فخراللہ کے نام ہے اور 10 رمضان 1148ھ مطابق 31 جنوری 1833ء کو لکھا گیا ہے۔

(3) خدابخش لائبریری، پٹنہ میں غالب کے کلیاتِ نظم فارسی کاایک قلمی نسخہ محفوظ ہے جسے ان کے دوست راے چھج مل نے لکھ کر 11 ربیع الآخر 1254ھ 4 جولائی 1838ء کو مکمل کیاہے۔ اس کے ایک صفحے کے حاشےے پر ”نامہ منظوم بہ نامِ جوہر“ کی ابتدابھی ”یا اسداللہ الغالب“ ہی سے ہوئی ہے۔

(4) دیوان غالب کے 1257ھ 1841ء میں شائع شدہ پہلے ایڈیشن کا آغاز بھی یا اسداللہ الغالب ہی سے ہوا ہے۔

          حضرت علیؓ سے استعانت کایہ متواتر عمل غالب کی اس زمانے کی ذہنی و مالی پریشانیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

          ان ایام میں وہ جن مسائل و مصائب سے دوچار تھے، ان کا انداز مندرجہ ذیل واقعات سے کیا جا سکتا ہے:

(1) 1826ع کے آس پاس میرزایوسف مرضِ جنون میں مبتلا ہوے اور انہوں نے تقریباً تیس برس اسی حالت میں گزارے۔ چھوٹے بھائی کی یہ علالت غالب کے لیے ہمیشہ سوہانِ روح بنی رہی لیکن شروع میں کئی برس وہ اس کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی پریشان رہے۔

(2) امراو بیگم کو اپنے چچا نواب احمد بخش خاں کی سرکار سے تیس روپے ماہوار وظیفہ ملتا تھا۔ اکتوبر 1827ء میں نواب صاحب کی وفات کے بعد جو حالات رونما ہوئے، ان کے زیرِ اثر ان کے جانشین نواب شمس الدین احمد خاں نے غالباً 1830ء یا 1831ء میں یہ وظیفہ منسوخ کردیا۔ بیوی کی اس مستقل آمدنی کے بند ہوجانے سے گھر کی اقتصادی حالت کا متاثر ہونا ناگزیر تھا۔

(3) معتمد براے گورنر جنرل کے خط مورخہ 27 جنوری 1831ء کے ذریعے اس فیصلے سے آگاہ ہونے کے بعد کہ حضورِ والا(گورنرجنرل)نصراللہ خاں کے متوسلین کی مالی امداد کے ضمن میں فیروزپور کے جاگیردار کے کےے ہوئے انتظام میں مداخلت پسند نہیں فرمائیں گے“غالب اپنے مقدمہ پنشن کی ناکامی پر عرصے تک بے حد افسردہ اور پریشان رہے۔ اس کے بعد اپریل 1844ء تک ان کا بیشتر وقت اس مقدمے کی اپیل کی کامیابی کے لیے تگ ودو میں صرف ہوا۔

(4) سقیم مالی حالت اور رئیسانہ طرزِ زندگی کی وجہ سے قرص کا بوجھ برابر بڑھتا جارہاتھا۔ پنشن کے مقدمے میں گورنر جنرل کے فیصلے کے بعد قرض خواہوں کے تقاضوں نے غالب کی زندگی اجیرن کررکھی تھی۔ انجامِ کار فروری 1835ء میں عدالتِ دیوانی سے ان کے خلاف پانچ ہزار کی ڈگری ہوگئی۔

          یہ تھاوہ پس منظر جس میں یہ مہر تیار ہوئی۔ یہ معلوم ہوجانے کے بعد کہ یہ1249ھ میں کندہ کرائی گئی تھی، یہ بات از خود طے ہوجاتی ہے کہ غالب کی اب تک دریافت شدہ مہروں میں اس کا چوتھا نمبر تھا۔

          محمد مشتاق تجاروی کابیان ہے کہ پروفیسرمختارالدین احمد کے خیال میں یہ مہر بدرالدین کے علاوہ کسی اور مہر کن کی کندہ کی ہوئی معلوم ہوتی ہے27۔ ہمیں اس خیال سے اتفاق کی بہ ظاہر کوئی معقول وجہ نظر نہیں و تی کیوں کہ اس کے حروف کی کشش اور نشست میں کوئی ایسا نقص موجود نہیں جو بدرالدین کی شانِ خط کے منافی ہو۔ البتہ اس کا جو نقش دستیاب ہواہے، وہ بہت صاف نہیں۔ یہی سبب ہے کہ مالک رام صاحب کو اس پر درج سنہ کے پڑھنے میں تسامح ہوا۔اس کیفیت کی وجہ سے بعض حروف کی ہیئتِ ظاہری بھی متاثر ہوئی ہے۔ غالباً اسی بناپر مختارالدین احمد صاحب کو یہ شبہ ہواکہ یہ بدرالدین کے علاوہ کسی اور کی بنائی ہوئی ہے۔

          پانچویں، چھٹی اور ساتویں، تینوں مہریں غالب کے شاہی خطاب ”نجم الدولہ، دبیرالملک، نظام جنگ“ سے تعلق رکھتی ہیں۔ مالک رام صاحب نے ان میں سے صرف آخری یعنی ساتویں مہرکا ذکر فرمایاہے اور اپنے حساب کے مطابق اسے چوتھے نمبر پر رکھاہے۔ چو ںکہ یہی مہر اس سلسلے کی باقی دو مہروں تک ہماری رسائی کا وسیلہ بنی ہے، اس لےے مناسب معلوم ہوتاہے کہ گفتگو کا آغاز اسی کے ذکر سے کیا جائے۔ اس ساتویں مہر پر غالب کا نام مع ان کے خطابات کے اس طرح کندہ تھا:

“نجم الدولہ، دبیر الملک، اسد اللہ خاں بہادر، نظام جنگ”

          دائیں طرف کے زیریں گوشے میں لکھے وئے سنہ کے مطابق یہ مہر 1267ھ میں تیار ہوئی تھی۔ غالب کو متذکرہ بالا خطابات بہادرشاہ ظفر نے 23 شعبان 1266ھ مطابق 4 جولائی 1850ء کو عطا کےے تھے اور ”تاریخ نویسی تاجدارانِ تیموریہ“ کی خدمت ان کے سپرد فرمائی تھی۔ مالک رام صاحب نے خود غالب کی ایک فارسی تحریر کے طویل اقتباس، ”اسعد الاخبار“ آگرہ کے 15 جولائی 1850ء کے شمارے میں شائع شدہ مفصل خبر اور مرزاہرگوپال تفتہ کے کہے ہوے قطعہ تاریخ کے حوالے سے اس سلسلے کی تمام تفصیلات اپنے مضمون میںیکجا فرمادی ہیں لیکن ایک پہلو کو بالکل نظرانداز کردیاہے کہ یہ خطابات تو 1266ھ میں ملے تھے پھر یہ مہر 1267ھ میں کیوں تیار ہوئی؟ خود اشتہاری غالب کے مزاج کاایک نمایاں عنصر تھی چنانچہ یہ بات ان کی نفسیات کے بالکل خلاف معلوم ہوتی ہے کہ وہ مہینوں نئی مہر کی تیاری کا انتظار کرتے اور اس اعزاز کے اعلان و اشتہار کے اس سہل الحصول اور موثر وسیلے سے اتنے دنوں تک محروم رہتے۔ اگر فاضل محقق کے ذہن میں یہ خلش پیداہوئی ہوتی اور انہوں نے اسے دور کرنے کے لےے غالب کی اس زمانے کی تحریروں پر بہ نظر غائر توجہ فرمائی ہوتی تو اس انکشاف میں زیادہ دیر نہ لگتی کہ وہ اس مہر سے پہلے ان خطابات پر مشتمل ایک نہیں، دو مہریں 1266ھ ہی میں تیار کراچکے تھے۔ لیکن چوں کہ یہ مہریں ان کے معیا رپر پوری نہیں اتریں اس لےے انہوں نے انہیں رد کرکے جلد ہی ایک اور مہر تیار کرالی جو عرصہ دراز تک ان کے استعمال میں رہی۔ اپنے شاگردِ عزیز منشی جواہر سنگھ جوہر کے نام 23 اکتوبر 1850ء(16 ذی قعدہ 1266ھ) کے خط میں لکھتے ہیں:

“روزے بودکہ نامہ بہ من رسیدکہ نگارش از شمابود و مہر از من۔ گفتم: سبحان اللہ شگرفیِ آثارِ یگانگی و اتحاد کہ ہم نامہ بہ نامِ من است وہم بہ مہرِ من چوں آں ورق بہ من رسید و من دراں وقت تنہا بودم، مشاہدہ نقشِ خاتمِ خویش برمکتوبِ موسومہ خویش مرابہ وجد آورد۔ بالجملہ چشم بہ راہِ نگینِ مہر داشتم، دی روز کہ سہ شنبہ و بست ودومِ اکتوبر بود، رسید۔ ہمانا مہر کن در کشمیر نہ ماند، ع مجلس چو برشکست، تماشا بہ مارسید۔ پس از پزوہش پدید آمد کہ قریبِ صد کس از ہوسناکانِ دہلی نگیں ہافرستادہ در کشمیر کند اندہ اندوہمہ شرمسار و پشیماں شدہ اند۔ حالیا آں سعادت نشاں راباید کہ دردِ سر نہ کشند و مہرِ دیگر بہ کندن نہ دہند۔ امروز دریں فن نظیر بدرالدین بہ گیتی نیست۔ چوں اوبدنوشت، پندارم کہ خوبیِ سرنوشتِ من است۔“28

          اس تحریر سے دوباتیں معلوم ہوتی ہیں، پہلی یہ کہ 4 جولائی اور 22 اکتوبر 1850ء کے درمیان غالب نے دلّی کے مشہور مہر کن بدرالدین سے اس خطاب کی یادگار کے طورپر ایک تازہ مہر تیار کرائی تھی جو انہیں کسی وجہ سے پسند نہیں آئی۔ دوسری یہ کہ اس مہر کو رد کردینے کے بعد انہوں نے اپنے شاگرد منشی جواہر سنگھ جوہر سے جو اس زمانے میں پنجاب میں کسی جگہ برسرِ روزگار تھے، یہ فرمائش کی کہ وہ کشمیر کے کسی مہرساز سے ان کی مہر تیار کرادیں۔ یہ دوسرانگینہ انہیں 22 اکتوبر 1850ء کو موصول ہوا، لیکن اس کی نقاشی سے بھی وہ مطمئن نہیں ہوئے۔ غالباً اس کے بعد ہی 1267ھ میں اس سلسلے کی وہ تیسری مہر تیا رہوئی جسے مالک رام صاحب نے چوتھے اور ہم نے ساتویں نمبر پررکھا ہے۔ احوالِ ظاہری کے اعتبارسے یہ مہر بھی بدرالدین ہی کی تیارکردہ معلوم ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ انہو ںنے پچھلی مہر کے بارے میں غالب کی ناپسندیدگی کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اس کی تیاری پر خصوصی توجہ صرف کی ہو۔

          پروفیسر مختارالدین احمد صاحب کابیان ہے کہ قیامِ آکسفورڈ کے دوران 1956ء میں انہوں نے ایک بار اس مہر کی زیارت کی تھی۔ تقریب یہ ہوئی کہ حیدرآباد سے ڈاکٹر نظام الدین صاحب اور آغا حیدر حسن صاحب کے داماد وہاں تشریف لائے ہوئے تھے۔ ایک روز جب وہ ان دونوں حضرات کو ایشمولین میوزیم کا وہ شوکیس دکھا رہے تھے جس میں مختلف قسم کی انگوٹھیاں اور مہریں رکھی ہوئی تھیں تو ڈاکٹر نظام الدین صاحب نے اپنے ہم سفر کی انگلی کی طرف اشارہ کیااو ران سے پوچھا: اس مہر کو آپ پہچانتے ہیں؟ یہ مرزا غالب کی مشہور مہر تھی۔ عقیق پر نہایت خوبصورت حروف میں ”نجم الدولہ، دبیر الملک، نظام جنگ“کے الفاظ منقوش تھے۔ مختلف کاغدوں پر متعدد بار اس کے نقوش دیکھنے میں آئے تھے۔29

          مختارالدین احمد صاحب کے علاوہ ڈاکٹر ضیاءالدین احمد شکیب نے بھی اپنی کتاب ”غالب اور حیدرآباد“ میں اس مہر کا ذکر کیاہے، جس سے اندازہ ہوتاہے کہ یہ 1969ء تک آغا حیدرحسن کے ہاں موجود تھی۔ شکیب صاحب لکھتے ہیں:

“پروفیسرآغاحیدرحسن کے یہاں میرزا غالب کاایک چغہ اور ان کی ایک مہر ہے۔ یہ مہر جگری عقیق پر کندہ ہے۔ اس مہر کی عبارت حسبِ ذیل ہے:

“نجم الدولہ، دبیرالملک، اسد اللہ خاں غالب، نظام جنگ”

1262ھ

آغا حیدرحسن صاحب کے بیان کے مطابق غالب کی یہ مہر شاہی مہر کن بدرالدین نے تیار کی تھی۔“30

          اس مہر سے متعلق یہ دونو ںبیانات تحقیقی اعتبار سے ناقص اور وضاحت طلب ہیں۔ مختارالدین احمد صاحب کے بیان کا نقص یہ ہے کہ انہو ںنے صرف اجزاے خطابی نقل فرمائے ہیں، مہر کے باقی اندراجات کو نظر انداز کردیاہے، جب کہ شکیب صاحب کی نقل کردہ عبارت میں ”اسد اللہ خاں“ اور ”نظام جنگ“ کے درمیان ”غالب“ کا اندراج او رنیچے دیاہوا سنہ مشکوک ہے۔ سنہ کے بارے میں یقین کے ساتھ کہا جاسکتاہے کہ اس کے نقل کرنے میں سہوہواہے، خواہ اس کے ذمّہ دار خود صاحبِ کتاب ہو ںیا ان کا کاتب۔ اسے ہرحال 1266ھ یا 1267ھ ہونا چاہیے۔ اگریہ 1266ھ ہے تویہ مہر یقینا اس مہر سے مختلف ہے جسے مالک رام صاحب نے اپنے مضمون میں متعارف کرایاہے اور اگر 1267ھ ہے تو اس میں نام کے بعد لفظِ ”بہادر“ کی بجاے تخلص یعنی ”غالب“ کا اندراج خلافِ واقعہ ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ دراصل یہ وہی مہر ہے جو منشی جواہر سنگھ جوہر نے کشمیر کے کسی مہرساز سے کندہ کراکے اکتوبر 1850ء میں غالب کو بھیجی تھی۔ اس کے رد کیے جانے کی وجہ بہ ظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس میں نام کے ساتھ ”بہادر“ کالاحقہ موجود نہیں تھا، جس کا شمول از روے قاعدہ بے حد ضروری تھا۔اس سلسلے میں منشی شیونرائن آرام کے نام ستمبر 1858ء کے ایک خط کا یہ اقتباس ملاحظہ طلب ہے:

“سنو، میری جان!نوابی کا مجھ کو خطاب ہے ”نجم الدولہ“ اور اطراف و جوانب کے امرا سب مجھ کو ”نواب“ لکھتے ہیں، بلکہ بعض انگریز بھی یاد رہے”نواب“ کے لفظ کے ساتھ ”میرزا“ یا ”میر“ نہیں لکھتے۔ یہ خلافِ دستور ہے۔ یا ”نواب اسد اللہ خاں“ لکھو یا ”میرزا اسد اللہ خاں“ اور ”بہادر“ کا لفظ تو دونوں حال میں واجب اور لازم ہے۔”

          یہ مہر چوں کہ شکیب صاحب کی نطر سے گزر چکی تھی، اس لیے نومبر 2004ء میں جب وہ لندن سے حیدرآباد تشریف لائے تو میں نے اپنے شبہات کا حوالہ دیتے ہوئے ان سے رجوع کیاکہ وہ صحیح صورتِ حال سے مطلع فرمائیں۔ موصوف نے اس کے جواب میں اپنے مکتوب مورخہ 29 نومبر 2004ء میں جو وضاحت فرمائی ہے وہ حسب ذیل ہے:

غالب کی یا غالب سے منسوخ جس مہر کاذکر ”غالب اور حیدرآباد“ میں ہے،وہ اب ہماری دسترس سے باہر ہے۔ یہ مہر پروفیسر آغا حیدرحسن کی ملکیت تھی۔ انہوں نے جناب محمد اشرف صاحب کو تحفةً دے دی تھی۔ محمد اشرف صاحب وہی ہیں جنہوں نے سالار جنگ میوزیم کے مخطوطات کا کیٹلاگ کئی جلدوں میں شائع کیامیں نے غالب کی یہ مہر محمد اشرف صاحب کے یہاں دیکھی تھی۔ جہاں تک یاد ہے وہ خود اس مہر سے مطمئن نہیں تھے۔ اس کاذکر میں نے پروفیسر آغا حیدر حسن صاحب سے کیا ۔آغا صاحب نے اپنی روایات کے مطابق وثوق سے کہا کہ یہ مرزا غالب کی ہے بلکہ یہ تک وضاحت کی، یہ بدرالدین مہر کن کی کندہ کی ہوئی ہے۔ آغا صاحب قلعہ معلّٰی کی یادگار تھے۔ ان کے گھرانے اور مرزا غالب کے گھرانے کے تعلقات قدیم تھے۔ میں کیاجواب دیتا۔ لہٰذا میں نے تمام اختلافات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ”غالب اور حیدرآباد“ میں اس کا ذکر کردیا۔اب یہ آپ جیسے محققین کا کام ہے کہ اس کے بارے میں کوئی قطعی راے قائم فرمائیں۔

          جہاں تک مجھے یقین ہے”غالب اور حیدرآباد“ میں مہر کا متن جو دیاگیاہے،و ہ درست ہے۔ اس میں سہوِ کتابت کو دخل نہیں۔ ممکن ہے کہ مہر میں تاریخ غلط کندہ ہوگئی ہو، اس لےے اس کو استعمال نہ کیاگیاہو۔ پڑی رہی ہو اور خاندانی تعلقات کی وجہ سے آغا حیدرحسن صاحب تک پہنچی ہو۔

جس وسیلے سے یہ مہر ہم تک پہنچی، اس کی وجہ سے ہم اس کو ‘فیک’ تو نہیں کہ سکتے، لیکن اگر غلط کندہ ہوگئی ہو تو

Discarded

کہہ سکتے ہیں۔

شکیب صاحب کی اس تحریر سے معلوم ہوجانے کے بعد کہ آغا حیدر حسن صاحب نے یہ مہر محمد اشرف صاحب کو تحفةً عنایت فرمادی تھی، یہ مناسب معلوم ہوا کہ آغا صاب کے داماد میرمعظم حسین صاحب سے درخواست کی جائے کہ وہ اس کے بارے میں حصول معلومات میں مدد فرمائیں۔ موصوف نے میرے 4 فروری 2005ء کے خط کے جواب میں 25 فروری 2005ء کو تحریر فرمایا:

“آپ نے خط میں جس مہر کا ذکر کیا ہے،اس کا مجھے علم نہیں ہے، لیکن میری شادی کے موقعہ پر میرے خسر پروفیسر آغا حیدرحسن مرزا نے مجھے ایک انگوٹھی عنایت کی تھی جس کو میں نے پچاس سال سے زائد اپنے ہاتھ پرپہنا۔ اُس انگوٹھی پر اسداللہ خاں غالب کے خطابات کندہ تھے۔ میں اس انگوٹھی کو اب محفوظ کروادیاہوں جس کی وجہ سے اس کا عکس بھیجنے سے قاصر ہوں۔”

          اس مایوس کن جواب کے بعد بہ ظاہر اب اس مہر تک رسائی کی کوئی امید نظر نہیں آتی، اس لےے باقی مہروں کی طرح اسے بھی متاعِ گم گشتہ تصور کرکے طاقِ نسیاں کے کسی گوشے میں ڈال دینا چاہےے۔ راقمِ سطور اپنے اس خیال پر بہر حال قائم ہے کہ غالب نے اسے نام کے بعد لفظِ ”بہادر“ کی عدم موجودگی کی وجہ سے مسترد کردیاہوگا۔شکیبصاحب کی راے کے مطابق سنہ کا غلط کندہ ہوجانا بھی اس کی وجہ ہوسکتی ہے لیکن اس کا امکان بہت کم ہے۔ اس کے برخلاف بے خیالی یا رواروی کے باعث اکائی کے عدد چھ (6) کا دو(2) پڑھ لیا جانا عملی تجربات کی روشنی میں زیادہ قرینِ قیاس معلوم ہوتا ہے۔

          جس طرح ساتویں مہر کے متعلق غوروخوض کے نتیجے میں اس چھٹی مہر کے وجود کا علم ہوا،اسی طرح اس چھٹی مہر کے حوالے سے یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ انہی خطابات پر مشتمل ایک مہر اس سے قبل بھی تیار ہوچکی تھی۔ ”امروز دریں فن نظیر بدرالدین بہ گیتی نیست۔ چوں اوبدنوشت، پندارم کہ خوبیِ سرنوشتِ من است۔“ سے اشارہ ملتاہے کہ یہ مہر بدرالدین نے کندہ کی تھی لیکن غالب اس سے مطمئن نہیں تھے۔ انہو ںنے اپنی اس بے اطمینانی یا ناپسندیدگی کا سبب مہر ساز کی بدنویسی کو ٹھہرایاہے، لیکن یہ بات اس لےے قابلِ قبول نہیں معلوم ہوتی کہ ”بدرالدین“ اور ”بدنویسی“ میں بہ ظاہر لفظِ ”بد“ کے سوا کوئی چیز مشترک نہیں تھی۔ غالب کی اس زمانے کی تحریریں تقریباً نایاب ہیں۔ کافی تلاش و جستجو کے بعد ہمیں صرف ایک خط دستیا ب ہواہے جس پر یہ مہر ثبت تھی، لیکن یہ اصل خط نہیں، اس کی نقل ہے، اس لےے اس کی روشنی میں اس مہر کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ خط مفتی سید احمد خاں بریلوی کے نام ہے اور پنجشنبہ 3 اکتوبر 1850 کو یعنی منشی جواہر سنگھ جوہر کے بھیجے ہوئے نگینے کے دہلی پہنچنے سے صرف انیس (19) دن پہلے لکھا گیاہے۔اسے محمد ابرار علی صدیقی نے اپنی کتاب ”آئینہ دلدار“ میں جو میاں دلدار علی مذاق بدایونی کی سوانح عمری ہے، دوسرے کئی خطوط کے ساتھ نقل کیاہے۔ خط کے آخر میں مہر کی عبارت بھی بہ ظاہر اس کی ہیئتِ اصلی کے مطابق ایک مستطیل کی شکل میں نقل کردی گئی ہے31۔ پانچویں مہر کی یہ دستی نقل ساتویں مہر کے دستیاب نقوش سے صرف اس قدر مختلف ہے کہ یہ سنہ کی قید سے عاری ہے جب کہ آخرالذکر میں اس کی تیاری کا سنہ (1267ھ) بھی موجود ہے۔ لیکن یہ محض اتفاق بھی ہوسکتاہے کیوں کہ ساتویں مہر جو 1267ھ کے بعد برابر زیرِ استعمال رہی، اس کی ایسی کئی نقلیں بھی ہمارے علم میں ہیں جن میں سنہ کا اندراج نہیں۔ ان حالات میں زیرِ بحث پانچویں مہر کی کیفیتِ ظاہری کے بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ کہنا دشوار ہے۔ البتہ مفتی سیّداحمد کے نام کے خط پر اس کے نقش کی موجودگی میں اس کے وجود پر کسی شبہے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

          غالب نے اپنی آخری مہر 1278ھ (1861-62) میں یعنی اپنی وفات سے تقریباً سات سال قبل تیار کرائی تھی۔ اس مہرکی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ ان کی دوسری تمام مہروں کی بہ نسبت کافی مختصر ہے یعنی اس پر صرف ان کا تخلص (غالب) اور تیاری کا سنہ (1278ھ) کندہ ہے۔ اس کا پس منظر بیان کرتے ہوئے مالک رام صاحب لکھتے ہیں:

“جو لوگ نفسیات سے واقف ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ نفسِ انسانی میں ”انا“ کے ارتقا کا انتہائی مقام یہ ہے کہ انسان کسی غیر معمولی کامیابی کے بعد اپنے تعارف کے لیے مختصر ”علَم“ کا استعمال کرنے لگتا ہے۔“(ص88)

          غالب کی اس نفسیاتی کیفیت کو انہوں نے جن دو غیر معمولی کامیابیوں کا نتیجہ قرار دیاہے، ان میں سے پہلی ”قاطعِ برہان“ کی اشاعت ہے جو ان کے بقول ”ہندوستان کے فارسی دانوں کے خلاف ساری عمر کے جہاد“ کا ایک عملی ثبوت بھی تھی اور ”علی الاعلان عام دعوتِ مبارزت بھی“۔ یہ کتاب 20 رمضان المبارک 1278ھ مطابق 22مارچ 1862ء کو اس زمانے کے سب سے مشہور و ممتاز طباعتی ادارے مطبعِ منشی نول کشور، لکھنو میں چھپ کر شائع ہوئی تھی۔ دوسری بڑی کامیابی یہ تھی کہ اسی سال مطبعِ نول کشور میں ان کے کلیاتِ فارسی کی طباعت شروع ہوئی جو اگلے سال یعنی 1863ء میں مکمل ہوگئی۔ اس سلسلے کی تمام ضروری تفصیلات قلمبند کرنے کے بعد محترم محقق اس نتیجے پر پہنچے ہیں:

“1862ع۔ 1863ء میرزا کی زندگی میں نہایت اہم سال ہیں۔ ”قاطعِ برہان“ اگر دوسروں کی شکست کا اعلان تھاتو کلیات ان کی فتح مندی کا ثبوت۔ اسی سال ان کا اپنے نگیں پر ”غالب“ کندہ کرانا اسی حقیقت کا ایک اور پیراے میں اظہارہے۔ اب گویا انہوں نے اس دعوے پر مہر لگادی کہ فارسی علم و زبان کے لحاظ سے میں ”علیٰ کلٍّ غالب“ ہوں۔“(ص90-91)

          کسی بھی معروف طباعتی و اشاعتی ادارے سے بہ یک وقت دو کتابوں کی اشاعت کسی بھی مصنف کے لیے فخر و مباہات کا باعث ہوسکتی ہے۔ غالب کو بھی اس سے مستثنٰی نہیںکیا جاسکتا۔لیکن یہ اتنی بڑی کامیابی یقینا نہیںکہ غالب جیسا یگانہ روزگار فن کار اس کی علامت کے طورپر ایک مہر تیار کراکے اسے یادگار بنادے۔ دنیا میں ہزاروں کام ایسے ہیں جن کی انجام پذیری میں وقت کا تعین کوئی اہمیت نہیں رکھتا، مگرجب وہ انجام پاجاتے ہیں تو وقت کے ساتھ ان کے تعلق کی متعدد توجیہات و تاویلات کی جاسکتی ہیں اور حسبِ اتفاق ان میں سے کوئی توجیہہ یا تاویل واقعے کے عین مطابق بھی ہوسکتی ہے۔ اس مہر کے سلسلے میں مالک رام صاحب قبلہ کے ارشادات بھی اسی ضمن میں آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غالب کو بیس پچیس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے اپنی انفرادیت کا بہ خوبی ادراک و احساس ہوگیاتھا۔ کلکتے میں قیام کے دوران قتیل کی زبان دانی پر ان کے اعتراضات کو بجاطورپر ہندوستانی فارسی دانوں کے خلاف ان کے مبیّنہ جہاد کا نقطہ آغاز کہا جاسکتاہے۔ اس وقت اپنے بیان کردہ سالِ ولادت (1212ھ) کی رو سے وہ عمر کی بتّیسویں منزل میں اور ہماری تحقیق کے مطابق چھتیسویں سال میں تھے۔ اس کے بعد انانیت کی یہ لے متواتر تیز ہوتی رہی۔ حتّی کہ نصف صدی پوری کرتے کرتے انہیں وہ مقام حاصل ہوگیاجہاں شہرت کے پرِ پرواز لگاکر اڑنے والے کسی رسمی تعارف کے محتاج نہیں رہتے۔ چنانچہ 1260ھ 1844ء میں انہوں نے نواب وزیرالدولہ والیِ ٹونک کی خدمت میں جو قصیدہ مدحیہ ارسال کیاتھا، اس کے ایک شعر میں یہ واضح اعلان موجود تھا:

نامم بہ سخن غالب و رشن ترم از روز

بے ہودہ چرا جلوہ دہم اسم و علم را

          تقریباً اسی زمانے میں (پنج آہنگ کی اشاعت سے قبل) انہوں نے میاں نوروز علی خاں کو پہلی بار خط لکھاتو جواب کے لےے پتے میں صرف ”بہ دہلی بہ اسد الہ برسد“ کو کافی قرار دیا۔22 مارچ 1858ء کے خط میں مرزا تفتہ کو بھی اسی مختصر پتے پر اکتفا کی ہدایت کی گئی ہے۔ان دونوں خطوط کے اقتباسات گزشتہ صفحات میں پیش کےے جاچکے ہیں۔ ایک اور خط مرزا حاتم علی مہر کے نام ہے جو 1861ء میں لکھا گیا تھا، اس میں لکھتے ہیں:

“آپ کو معلوم رہے کہ میرے خط کے سرنامے پر محّلے کا نام لکھنا ضروری نہیں۔شہر کا نام اور میرا نام، قصہ تمام”

          اسی ہدایت کا اعادہ چار برس کے بعد مولوی عبدالرزّاق شاکر کے نام کے ایک خط میں بھی کیا گیا ہے۔ یہ خط مرزا صاحب نے ستمبر 1865ء میں رام پور کے سفر پرروانگی سے قبل تحریر فرمایاتھا۔ مکتوب الیہ موصوف کو مطلع فرماتے ہیں:

          “اب کوئی خط آپ بھیجیں تو رام پور بھیجیں۔ مکان کا پتا لکھنا ضروری نہیں۔ شہر کا نام اور میرا نام کافی ہے۔”

          پیش کردہ مثالو ںمیں سے تین مثالیں 1278ھ 1862ء سے قبل کے زمانے سے متعلق ہیں۔ چوتھی اور آخری مثال اگرچہ 1278ھ سے بعد کی ہے لیکن اس اعتبار سے بے حد اہم ہے کہ یہ برونِ دہلی یعنی رام پور کے عارضی قیام کے زمانے سے تعلق رکھتی ہے۔ ان سبھی مثالوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ غالب اپنی شخصیت کی یکتائی سے بہ خوبی واقف تھے اور اپنے وقار کے تحفظ اور انا کی سربلندی کے لیے ہمہ وقت سرگرم و فکرمند رہتے تھے۔ ”ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے“ کسی شہر کی تخصیص کے بغیر ایک ایسا سوال تھاجس کا جواب ان کے تصور کے مطابق ”نہیں“ کے سوا کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ ایک اتفاقی امر ہے کہ ان کی یہ آخری مہر جس پر صرف ان کا تخلص کندہ ہے، 1278ھ میں تیارہوئی، ورنہ اس سے مالک رام صاحب کے بقول جس نفسیاتی کیفیت کا اظہارہوتاہے، وہ اس سے اٹھارہ برس قبل 1260ھ میں کہے ہوے ان کے اس شعر سے بھی ظاہر ہے جس میں ”اسم و علم“ سے بے نیازی اور صرف تخلص کے حوالے سے اَبَین مِنَ الامس(روشن تراز روز) ہونے کادعویٰ کیا گیاہے۔ ہا ںیہ امر بھی قابلِ لحاظ ہے کہ انہو ںنے اپنی بعض تحریروں میں شعروادب کے تناظر میں صرف تخلص کے حوالے سے اور مراسلت و مکاتبت کی حالت میں نام کی مختصر ترین شکل ”اسد اللہ“ کے ذریعے روشناسِ خلق ہونے پر جو اصرار کیاہے،وہ کسی داخلی مغائرت یا تضادکا مظہر نہیں۔ تعارف کی یہ دونوں صورتیں ”ہرسخن وقتے و ہر نکتہ مکانے دارد“ کے بہ مصداق ایک ہی باطنی کیفیت کی نشان دہی کرتی ہیں۔

          غالب کی جن مہروں کے نقوش اہلِ علم کی دسترس میں ہیں،ان میں یہ آخری مہر وہ واحد مہر ہے جس کے خط کی ناپختگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ بدرالدین کی بنائی ہوئی نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ غالب کے کسی دوست یا شاگرد نے یہ سوچ کرکہ شاعر کی حیثیت سے غیر معمولی شہرت و ناموری کے باوجود انہوں نے اپنے تخلص کے ساتھ کوئی مہر کندہ نہیں کرائی، یہ مہر بہ طورِ خود کسی معمولی مہر ساز سے تیار کراکے ان کی خدمت میں پیش کردی ہو اور انہوں نے اس دوست یا شاگرد کے پاسِ خاطر کی بناپر اسے رد کردینا مناسب نہ سمجھا ہو۔ اس سوال کا کہ ان کی نفاست پسندی کیوں کر اس کی متحمل ہوئی، اس کے علاوہ کوئی اور جواب سمجھ میں نہیں آتا۔

          مفصّلہ بالا تجزےے سے ظاہر ہے کہ مالک رام صاحب نے ان مہروں کی تیاری کے سلسلے میں جو تاویلات پیش فرمائیں ہیں، ان میں سے بیشتر قابلِ قبول نہیں۔ لیکن ان کے اس بنیادی موقف سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ ان میں سے ہر مہر اپنا ایک نفسیاتی، مذہبی یا تاریخی پس منطر رکھتی ہے۔ اس اعتبار سے غالب کی پر پیچ شخصیت اور ذہن و مزاج کی تفہیم میں دوسرے خارجی وسائل کے ساتھ ان مہروں کا کردار بھی مناسب توجہ کا مستحق ہے۔ یہی ایک بات ان کے بارے میں تحقیق و تنقید کا جواز فراہم کرتی ہے۔

حواشی:

1۔ غالب شناس مالک رام، از ڈاکٹر گیان چند، غالب اکیڈمی،نئی دہلی، 1996، ص67

2۔ فسانہ غالب، از مالک رام، مکتبہ جامعہ، نئی دہلی، 1977، ص81۔ آئندہ تمام مقامات پر اقتباسات کے آخر میں قوسین کے اندر صفحات کے حوالے دے دےے گئے ہیں۔

3۔ نامہ ہاے فارسیِ غالب، مربتہ سید اکبر علی ترمذی، غالب اکیڈمی، نئی دہلی، 1969، ص117۔ غالب کی خاندانی نشن اور دیگر امور، نیشنل ڈاکومینٹیشن سینٹر، مقتدرہ قومی زبان پاکستان، اسلام آباد، 1997، ص39

4۔ فسانہ غالب،ص115

5۔ نامہ ہاے فارسیِ غالب، ص103

6۔ غالب کی خاندانی پنشن،ص49

7۔ ایضاً،ص53

8۔ متفرقاتِ غالب، مرتبہ پروفیسر مسعود حسن رضوی، طبعِ ثانی، لکھنو1969، ص126

9۔ دیوانِ غالب، مرتبہ نظامی بدایونی، طبعِ ثانی، بدایوں، 1918، صفحہ ماقبلِ متن

10۔ احوالِ غالب، مربتہ پروفیسر مختارالدین احمد، طبعِ ثانی، دہلی، 1968،ص34

11۔ بہ حوالہ غالب نامہ، نئی دہلی، شمارہ جنوری 1989، ص215-16

12۔ گلشنِ بے خار، از نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ، طبعِ اول، دہلی، 1837، ص185

13۔ بہ حوالہ غالب نامہ، نئی دہلی، شمارہ مذکور الصدر، ص173

14۔ فسانہ غالب،ص49

15۔ احوالِ غالب، ص142۔143

16۔ مکاتیبِ غالب، مربتہ مولانا امتیاز علی عرشی، طبعِ دوم، رام پور، 1943، حاشیہ ص41

17۔ یادگارِ غالب(عکسی ایڈیشن)یو۔پی۔اردو اکاڈمی، لکھنو1986، ص9

18۔ نامہ ہائے فارسیِ غالب،ص103

19۔ پنج آہنگ، طبعِ ثانی، دہلی، 1853، ص334

20۔ دیوانِ غالب بہ خطِ غالب، مرتبہ اکبر علی خاں عرشی زادہ، رام پور، 1969،ص16

21۔ گلِ رعنا، مرتبہ مالک رام، دہلی، 1970، ص35

22۔ غالب کے خطوط، مرتبہ خلیق انجم، جلد سوم، دہلی،ص1029۔ 30

23۔ پنج آہنگ، ص389

24۔ تجلیات، از مرزامحمد ہادی عزیز لکھنوی، ص197-98، بہ حوالہ ماہنامہ نیادور، لکھنو شمارہ جولائی 1980، ص12

25۔ غالب درونِ خانہ، از کالی داس گپتا رضا، ساکار پبلشرز، بمبئی، 1989، ص43

26۔ پنج آہنگ، ص113

27۔ غالب نامہ، نئی دہلی، شمارہ جنوری 1996، ص164

28۔ باغِ دو در، مرتبہ سید وزیرالحسن عابدی، لاہور، 1970، ص120

29۔ گنجینہ غالب، پبلی کیشنز ڈویژن، نئی دہلی، 1995،ص168 تا ص170

30۔ غالب اور حیدرآباد، از ڈاکٹر ضیا ءالدین شکیب، نئی دہلی، 1969، ص223

31۔ آئینہ دلدار، از ابرار علی صدیقی، کراچی، 1956، ص93

غالب کی مُہریں

حنیف نقوی

غالب کی مُہریں

          اشیا کی قدروقیمت کا تعیّن بالعموم ان کی ماہیت اور کیفیتِ ظاہری کی بنیاد پر کیا جاتا ہے لیکن بعض اوقات کوئی نسبتِ خاص کسی شے کو اس کی حیثیتِ ظاہری سے بلند تر کرکے اس مرتبہ و مقام تک پہنچا دیتی ہے جہاں اس کے دوسرے تمام اوصاف ہیچ و بے مقدار ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سربرآوردہ اور نامور شخصیات سے تعلق رکھنے والی بعض معمولی چیزیں بھی محض ان کی ذات سے نسبت کی بناپر غیر معمولی اہمیت اختیار کرلیتی ہیں۔ جہاں تک اردو زبان و ادب کا تعلق ہے، غالب اس معاملے میں بھی اپنے تمام ہم مشربوں میں سابق وفائق ہیں کہ ان سے وابستہ ہر شے اس نسبتِ خاص کے انکشاف کے ساتھ از خود معتبر و محترم ہوجاتی ہے۔ ان کی مختلف مہریں جن کے نقش ان کی بے شمار تحریروں پر ثبت ہیں، اس ضمن میں بہ طورِ مثال پیش کی جاسکتی ہیں۔ مہروں کا رواج انیسویں صدی میں اور اس سے پہلے بہت عام تھا، چنانچہ یہ بات یقینی ہے کہ غالب کے بہت سے معروف و ممتاز معاصرین اور ان سے پہلے کے لاتعداد مشاہیر شعرا اور اہلِ علم نے اپنے ناموں کی مہریں تیار کرائی ہوں گی اور مرورِ ایام کے باوجود بعض کتابوں اور تحریروں پر ان کے نقوش کی موجودگی بھی خارج از امکان نہیں، تاہم ان کی تلاش و تحقیق اور ان سے متعلق گفتگو میں اہلِ علم کی دلچسپی کا ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا جیسی دلچسپی کا مظاہرہ غالب کی مہروں کے سلسلے میں کیاگیاہے۔ البتہ ان کے بعض ہم نام و ہم تخلص یا صرف ہم نام حضرات کی مہریں محض اس غلط فہمی یا شبہے کی بنا پر کہ وہ غالب سے نسبت رکھتی ہیں، ضرور معرضِ بحث میں آتی رہی ہیں۔ نسبتیں کبھی کبھی کتنی اہم ہوجاتی ہیں، یہ اس کا بیّن ثبوت ہے۔

          تازہ ترین معلومات کے مطابق غالب نے اپنی زندگی کے محتلف ادوار میں کم از کم آٹھ (۸) مہریں بنوائی تھیں۔ مالک رام صاحب نے مندرجہ بالا عنوان (غالب کی مہریں) ہی کے تحت اپنے ایک مضمون میں جو ان کے مجموعہ مضامین ”فسانہ غالب“ میں شامل ہے، ان میں سے چھ (۶) مہروں کا مفصّل تعارف سپردِ قلم فرمایاہے۔ بعد کے جن مصنفین اور توقیت نگاروں نے اپنی نگارشات میں ان مہروں کا ذکر کیاہے، ان کا ماخذ یہی مضمون ہے۔ ڈاکٹر گیان چند کے نزدیک ”اس مضمون کا سب سے قابلِ قدر پہلو ان مہروں کا نفسیاتی مطالعہ ہے۱۔“ خود مالک رام صاحب کے ارشاد کے مطابق ”میرزا کی یہ مہریں ان کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت اور عام حالت کی مادّی ترجمان ہیں(انہوں) نے ان میں اپنی زندگی کے اہم واقعات کو بھردیا ہے۲۔“ پیشِ نظرسطور میں یہ دیکھنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ تجزیہ جو بہ ظاہر بہت محققانہ اور عالمانہ معلوم ہوتا ہے، کس حد تک مبنی بر حقیقت ہے؟

          دریافت شدہ مہروں میں سے دو قدیم ترین مہریں غالب نے 1231ھ (1815-16ع) میں کندہ کرائیں تھیں۔ ان میں سے ایک مہر پر خطِ نستعلیق میں ”اسد اللہ خاں عرف مرزا نوشہ“ اور دوسری پر خطِ نسخ میں ”اسد اللہ الغالب“ نقش تھا۔ مالک رام صاحب کے مطابق پہلی مہر سے غالب کی ”اس زمانے کی سرمستی و رنگینی، رندی و ہوس پیشگی بہ درجہ اتم ظاہر ہے۔“ (ص81) جب کہ دوسری مہر”ان کے دلی خیالات و معتقدات کی مظہر ہے۔“(ص82) پہلے تاثر کی تائید میں منشی شیونرائن آرام اور مرزا حاتم علی مہر کے نام کے خطوط سے شطرنج کے کھیل سے دلچسپی، پتنگ بازی کے شوق اورایک ستم پیشہ ڈومنی کو مار رکھنے کے واقعات نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

“غالب کے والد میرزاعبداللہ بیگ خاں کا عرف ”میرزا دولھا“ تھا، اسی لیے لوگ میرزا غالب کو بچپن ہی سے ”میرزانوشہ“ کہنے لگے۔ اس عرف کی پستی ظاہر ہے اور خود میرزا کو بھی بعد کو اس ”نالائق“ عرف سے نفرت ہوگئی تھی۔ مگر اس طوفانی زمانے میں بھلا ثقاہت کہاں قریب پھٹک سکتی تھی۔ یہ باتیں شعور اور تجربے سے حاصل ہوتی ہیں اور وہ ان کی عمر اور گرد و پیش کا اقتضا نہ تھا۔“ (ص81)

دوسری مہر کے سلسلے میں محترم مضمون نگا رکا ارشاد ہے:

          “اس مہرکی بناحضرتِ علی کا لقب ہے۔ چوں کہ میرزا کا نام اسد اللہ تھا، اس لیے انہوں نے اس رعایت سے بہ طورِ سجع یہ نام کھدوا لیا اور بعد کو ان کے دوسرے تخلص کی بنا بھی یہی ہوئی۔ چوں کہ سامنے کی چیز تھی اس لیے جب انہوں نے تخلص تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تو اسد چھوڑ کر بلا تامّل غالب رکھ لیا“ (ص81)

          اس کے بعد حضرت علیؓ سے میرزا صاحب کی عقیدت اور ”شیعت سے شغف“ کو عبد الصمد سے زبانِ فارسی کی تحصیل اور ”ایران کے علوم و رسوم“ سے حصولِ واقفیت کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے علائی کے نام 17جولائی 1862ء کے ایک خط کے حوالے سے ان کے مذہب و مسلک کی وضاحت کی ہے، جس کا لُبِّ لباب خود میرزا صاحب کے الفاظ میں حسب ذیل ہے:

“محمد علیہ السّلام پر نبوت ختم ہوئی مقطع نبوّت کا مطلع امامت اور امامت نہ اجماعی بلکہ مِن اللہ ہے، اور امام مِن اللہ علی علیہ السّلام ہیں، ثمّ حسن، ثمّ حسین تامہدی موعود علیہ السّلام “ (ص82)

          ایک ہی سال میں تیارشدہ ان دو مہروں کو دو مختلف بلکہ متضاد مزاجی کیفیات اور طبعی میلانات کی علامت قرار دے کر مالک رام صاحب نے اجتماعِ ضدّین کی جو مثال پیش فرمائی ہے، وہ عقلاً ممکن الوقوع تو ہے لیکن عملاً بعید از قیاس نظر آتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پہلی مہر میں نام کے ساتھ عرف کی موجودگی نہ تو عنفوانِ شباب کی رنگ رلیوں یا لابالی پن کی مظہر تھی اور نہ ثقاہت کے منافی۔ جیسا کہ خود مالک رام صاحب نے فرمایاہے، غالب بچپن ہی سے ”میرزانوشہ“ کے عرف سے معروف تھے، لیکن واقعہ صرف اتنا ہی نہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ عرف شروع سے آخرِ عمر تک ان کے نام کا جزوِ لا ینفک بنارہا اور یہ بات ان کے لیے کسی بھی درجے میں ناگواری کا باعث نہ تھی۔ غالب کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے یہ بنیادی نکتہ ذہن نشیں رکھنا اشد ضروری ہے کہ مصلحت اندیشی ان کے مزاج کا لابُدی خاصّہ تھی۔ اس معاملہ میں وہ اس قدر حسّاس واقع ہوئے تھے کہ ان سے عمداً کسی ایسے کام کی توقعی ہی نہیں کی جاسکتی تھی جو خلافِ مصلحت یا مقتضاے وقت کے منافی ہو۔ عرف کا معاملہ بھی اس سے مستثنٰی نہیں، چنانچہ اس کے ترک و اختیار کے سلسلے میں بھی ان کی تمام تر ترجیحات بہ ظاہر وقتی ضرورت اور حالات کے تقاضوں کا ردِّ عمل معلوم ہوتی ہیں۔ 1231ھ (1815-16ع) میں اس مہر کے کندہ کرانے کے بعد انہوں نے جہاں جہاں اس عرف کو اپنے قلم سے اپنی شناخت کا وسیلہ بنایا، ان میں سے مندرجہ ذیل تحریریں اب بھی محفوظ ہیں:

          (1) درخواست بہ نام سائمن فریزر مورخہ 28 اپریل 1828 ع ”اسد اللہ خاں عرف مرزا نوشہ برادر زادہ نصر اللہ بیگ خاں جاگیردار سونک سونسا۔“3

          (2) عرضی دعویٰ پنشن مورخہ 28 اپریل 1828 ع ”میرا نام اسد اللہ خاں ہے اور عرف میرزا نوشہ“4

          (3) درخواست بہ نام ”سر حلقہ افرادِ دفتر کدہ کلکتہ“: ’اسمِ ایں فقیر اسد اللہ خان است و علَم مرزا نوشہ و تخلص غالب۔“5

          (4) عرضی بہ نام اینڈ ریواسٹرلنگ مورخہ 15 جولائی 1829 ع ”اسد اللہ خاں عرف میرزانوشہ برادر زادہ کلانِ نصراللہ بیگ خاں۔“6

(5) عرضداشت مورخہ 11 اگست 1829 ع ”اسد اللہ خاں عرف میرزا نوشہ برادر زادہ نصراللہ بیگ خاں جاگیردار سونک سونسا۔“7

(6) مکتوب بہ نام راے سدا سکھ مدیر اخبار جامِ جہاں نما مورخہ جمعہ، 25 صفر 1247ھ (5 اگست 1831ع) ”ایں ننگِ آفرینش کہ موسوم بہ اسد اللہ خاں و معروف بہ مرزا نوشہ و متخلص بہ غالب است۔“ 8

(7) دیباچہ دیوانِ اردو مرقوم بست و چہارم شہر ذی قعدہ 1248ھ (14 اپریل 1833ع) ”نگارندہ ایں نامہ بہ اسد اللہ خاں موسوم و بہ میرزا نوشہ معروف و بہ غالب متخلص است۔“9

(8) مکتوب بہ نام میر مہدی مجروح مورخہ 8 اگست1858ع ”وہ جو تم نے لکھا تھا کہ تیرا خط میرے نام کا میرے ہم نام کے ہاتھ جا پڑا، صاحب! قصور تمہارا ہے۔ کیوں ایسے شہر میں رہتے ہو جہاں دوسرا میر مہدی بھی ہو؟ مجھ کو دیکھو کہ میں کب سے دلّی میں رہتاہوں۔ نہ کوئی اپنا ہم نام ہونے دیا، نہ کوئی اپنا ہم عرف بننے دیا، نہ اپنا ہم تخلص بہم پہنچایا۔”

(9) خودنوشت براے تذکرہ شعرامرتبہ مولوی مظہر الحق مظہر: مرقومہ 1864ع ”اسد اللہ خاں عرف میرزا نوشہ، غالب تخلص۔“10

          ان تحریروں سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ پسند و ناپسند سے قطعِ نظر غالب کو اس اعتراف و اظہار میں کوئی تامل نہ تھا کہ وہ ”مرزانوشہ“ کے عرف سے معروف ہیں۔ اگر وہ اسے اپنی شخصیت کا ایک لازمی جزونہ سمجھتے اور اس سے متنفّر یا بیزار ہوتے تو اس طرح باربار اس کا ذکر ہرگز نہ کرتے۔ ان کے اعزا، احباب اور معاصرین میں بھی ایسے متعدد حضرات شامل ہیں جنہیں اس عرف کے حوالے سے ان کا ذکر کرنے میں کوئی عذر مانع نہ تھا۔ اگراس میں ان کی ناخوشی یابے ادبی کا شائبہ ہوتا تو ان میں سے بعض لوگ یقینا اس سے احتراز برتتے۔ مثلاً:

          (1)  مولانا فضلِ حق خیرآبادی کے بڑے بھائی مولوی فضل عظیم نے 1241ھ 1826ء میں ”افسانہ بھرتپور“ کے نام سے فارسی میں ایک مثنوی لکھی تھی۔ یہ مثنوی مرزا غالب کی نظر سے گزر چکی تھی اور انہوں نے اس کی تاریحِ تصنیف بھی کہی تھی جو ان کے کلیات فارسی میں موجود ہے۔ مصنف نے اس مثنوی کے خاتمے پر یہ تاریخ نقل کرنے سے پہلے مرزا غالب کی تعریف میں بائیس شعر کہہ کر شاملِ کتاب کیے ہیں۔ ان اشعار کا عنوان انہوں نے ”در تعریف مرزا نوشہ صاحب“ قائم کیا ہے اور ایک شعر میں بھی ان کا ذکر ان کے اسی عرف کے ساتھ کیا ہے۔ شعر حسبِ ذیل ہے:

ز اوصافِ او ہر کسے آگہ است

کہ معروف با میرزا نوشہ است11

(2) نواب مصطفی خاں شیفتہ نے 1250ھ 1835ء میں تذکرہ ”گلشنِ بے خار“ تالیف کیا۔ اس میں مرزا صاحب کے ترجمہ احوال کا آغاز ان الفاظ کے ساتھ کیاہے: ”غالب تخلص، اسمِ شریفش اسد اللہ خاں، المشتہر بہ مرزانوشہ“12

‘گلشنِ بے خار’ کا مسودہ طباعت سے پہلے مرزا صاحب کی نظر سے گزر چکا تھا۔ اگر نام کے ساتھ عرف کی شمولیت ان کے مزاج کے خلاف ہوتی تو وہ اس عبارت سے ”المشتہر بہ مرزا نوشہ“ کو بہ آسانی قلمزد کرسکتے تھے۔

          (3) سرسید کے برادرِ بزرگ سید محمد خاں بہادر نے اکتوبر 1841ء میں پہلی بار مرزا صاحب کا دیوانِ اردو اپنے لیتھوگرافک پریس سے شائع کیا تو اس کے سرورق پر ”دیوان اسداللہ خاں صاحب غالب تخلص، میرزا نوشہ صاحب مشہور کا“ لکھ کر گویا اس امر کی تصدیق کی کہ صاحبِ دیوان کا نام اسد اللہ خاں اور تخلص غالب ہے لیکن وہ عام طورپر مرزا نوشہ کے عرف سے مشہور ہیں۔

(4) دیوان کی اشاعت کے فوراً بعد سید محمد خاں بہادر کے لیتھوگرافک پریس ہی سے شائع ہونے والے ”سیدالاخبار“ کے 9 شوال 1357ھ 24 نومبر 1841ء کے شمارے میں ایک اشتہار شائع ہوا تھا جس میں شائقین کو ”پنج آہنگ“ کی اشاعت کے لیے تیاری کی خوش خبری سنائی گئی تھی۔ اس کی ابتدابھی ”مرزا اسد اللہ خاں صاحب غالب تخلص، مرزا نوشہ صاحب مشہور“ سے ہوئی تھی۔

          منشی بال مکند بے صبر،غالب کے شاگرد کی حیثیت سے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ انہوں نے اپنی اردو مثنوی ”لختِ جگر“ 1275ھ 1858ء میں نظر ثانی کے بعد بہ غرضِ اصلاح غالب کی خدمت میں پیش کی تھی۔ اس میں انہوں نے ”در شانِ مجمعِ کمالاتِ صوری و معنوی حضرت استادی جناب مولانا اسد اللہ خاں صاحب“ کے زیرِ عنوان جو اشعار کہے ہیں، ان میں ان کے نام، تخلص اور لقب (عرف) کا بیان اس طرح ہواہے:

نام اس کے سے کرتا ہوں میں آگاہ

اوّل ہے اسد اور آخر اللہ

مشہور تخلص اس کا غالب

مطلوبِ دلِ ہزار طالب

مرزا نوشہ لقب ہے اس کا

ثانی کوئی اور کب ہے اس کا16

(6) مکتوب بہ نام حسین مرزا مورخہ 29 اکتوبر 1859ء میں خود مرزا صاحب کا ارشاد ہے: “کاشی ناتھ بے پروا آدمی ہے۔ تم ایک خط تاکیدی اس کو بھی لکھ بھیجو۔ اکثر وہ کہا کرتا ہے کہ حسین مرزا صاحب جب لکھتے ہیں مرزا نوشہ ہی کو لکھتے ہیں۔”

          (7) مرزا یوسف کے انتقال کے پانچ برس بعد ان کی اہلیہ لاڈو بیگم نے یکم اکتوبر 1862ء کو ایک درخواست کے ذریعے ڈپٹی کمشنر سے یہ التجا کی کہ حکومت کی طرف سے ان کی مالی امداد کی جائے۔اس درخواست کے اندراجات کی روشنی میں ڈپٹی کمشنر نے ان کے کوائف کا جو گوشوارہ مرتب کرکے کمشنر کو بھیجا تھا، اس کا ایک اندراج یہ بھی تھا کہ ”کبھی کبھی اس کے مرحوم خاوند کا بھائی مرزا نوشہ اس کی مدد کرتاہے14۔“ ظاہرہے کہ لاڈو بیگم نے اپنی درخواست میں ”مرزانوشہ“ ہی لکھا ہوگا۔

(8) 1867ء کے اواخر میں غالب نے ”قاطع القاطع“ کے مصنف مولوی امین الدین کے خلاف دہلی کی ایک عدالت میں ازالہ حیثیتِ عرفی کا مقدمہ دائر کیا۔ اس مقدمے میں ان کے وکیل مولوی عزیزالدین تھے۔ انہوں نے 15 دسمبر 1867ء کو پیش کردہ ایک درخواست کے آخر میں اپنے دستخط کے تحت خود کو ”وکیلِ مرزا اسداللہ خاں پنشن دارِ سرکاری عرف مرزا نوشہ“ اور 20 فروری 1868ء کی اسی سلسلے کی ایک اور تحریر کے خاتمے پر ”وکیلِ مرزا اسد اللہ خاں عرف مرزانوشہ“ لکھاہے۔15

(9) غالب کی وفات کے تیسرے دن ان کے فرزندِ متبنّٰی حسین علی خاں شاداں (پسرِ عارف) نے نواب کلب علی خاں کو اس حادثے کی اطلاع دیتے ہوئے لکھا تھا:

 ”بہ تاریخ 15 فروری سالِ حال مطابق 2 ذی قعدہ روزِ دوشنبہ وقت ظہر جناب دادا جان صاحب قبلہ نواب اسد اللہ خاں غالب عرف میرزا نوشہ صاحب نے اس جہانِ فانی سے رحلت کی۔“16

(10) مولانا حالی نے جو غالب کے عزیز ترین شاگردوں میں سے تھے، ”یادگارِ غالب“ کا آغاز اس جملے سے کیا ہے:

“میرزا اسد اللہ خاں غالب المعروف بہ میرزانوشہ، المخاطب بہ نجم الدولہ، دبیر الملک، اسد اللہ خاں بہادر، نظام جنگ، المتخلص بہ غالب در فارسی واسد در ریختہ، شبِ ہشتمِ ماہِ رجب 1212 ہجری کو شہر آگرہ میں پیداہوئے۔“17

          عرف کے متواتر استعمال اور اس کے ساتھ شہرتِ عام کی ان مثالوں کے پیشِ نظر یہ باور کرنے کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی کہ غالب واقعتا اس سے بیزار ہوں گے یا اسے بہ نظرِ حقارت دیکھتے ہوں گے۔ اس کے باوجود یہ بھی واقعہ ہے کہ انہوں نے ایک دوبا راپنے احباب کو اس کے استعمال سے روکابھی ہے اور اسے ”نالائق“ قرار دے کر ایک اعتبار سے اس کی مذمّت بھی کی ہے، لیکن اس کی وجہ ان کی وہی مصلحت اندیشی اور احتیاط پسندی تھی جو انہیں بہ وقتِ ضرورت خلافِ معمول فیصلے لینے پر مجبور کرتی رہتی تھی۔فروری 1828ء میں جب وہ اپنی پنشن کا مقدمہ حکومتِ عالیہ کے سامنے پیش کرنے کی غرض سے کلکتے پہنچے تو ایک ”نکوہیدہ سیرت“ ہم وطن (مرزا افضل بیگ) نے حکّام کو ان کی طرف سے بدظن کرنے کی غرض سے یہ افواہ اڑادی کہ اس تازہ وارد شخص نے اپنا نام بھی بدل لیاہے اور تخلص بھی۔ گویا یہ شخص فریبی اور جعل ساز ہے۔ اسی افواہ کے زیرِ اثر اعیانِ دفتر کو ان کا نام بہ غرضِ ملاقات اپنے افسرِ اعلیٰ تک پہنچانے میں تامّل تھا، کیوں کہ سرکاری کاغذات کے مطابق خاندانی پنشن ”مرزا نوشاہ“ کے نام جاری ہوئی تھی اور وہ ”مرزانوشہ متخلص بہ اسد“ کی منزل سے آگے بڑھ کر اب ”اسد اللہ خاں غالب“ کے طور پر روشناسِ خلق تھے۔ اس مرحلہ دشوار سے نبٹنے کے لیے مرزاصاحب نے اپنے دیوانِ اردو کے ایک قلمی نسخے کا سہارا لیا جسے مرتب ہوئے سات سال سے کچھ زیادہ مدت گزر چکی تھی او راس سفر میں اتفاقاً ان کے ساتھ تھا۔ اس دیوان میں وہ غزلیں بھی شامل تھیں جن کے مقطعوں میں پرانا تخلص (اسد) موجود تھااور وہ غزلیں بھی جن میں نیا تخلص (غالب) نظم ہواتھا۔ مزید برآں اس کے خاتمے پر 1231ھ کی وہ مہر بھی ثبت تھی جس کے نگینے پر ”اسد اللہ خاں عرف مرزا نوشہ“ نقش تھا۔ غالب نے یہ دیوان ایک خط کے ساتھ ”سرحلقہ افرادِ دفتر“ (غالباً سائمن فریزر) کی خدمت میں پیش کردیا تا کہ وہ بہ طورِ خود فیصلہ کرسکیں کہ یہ افواہ کس حد تک درست ہے۔ خط میں انہوں نے لکھا تھا:

“آن مہر بہ ابطالِ دعویِ حداثتِ اسم مسکتِ مدعی است و در مسلّم نہ داشتنِ علَم برے سکوتِ ایں گمنام نیز کافی است۔ آرے اسمِ ایں فقیر اسد الہ خان است و علم مرزا نوشہ و تخلص غالب، لیکن ازیں جاکہ غالب کلمہ رباعی است و ظرفِ بعض بحور نشستِ آں رانیک برنتابد، فقیر لفظِ اسد راکہ مخففِ اسمِ عاصی است و معِ ہٰذا کلمہ ثلاثی، گاہ گاہ تخلص اختیار می کند۔“ 18

          اس تحریر سے غالب کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھاکہ اب سے بارہ سال پہلے بھی جب کہ یہ مہر تیار ہوئی تھی، وہ ”اسد اللہ خاں“ کے نام سے موسوم تھے۔ لہٰذا یہ مہر مدّعی کے اس دعوے کی تردید کے لیے کہ انہوں نے اپنا نام بدل لیا ہے، ایک مسکت دلیل کی حیثیت رکھتی ہے۔ نیز یہ کہ ”مرزانوشہ“ انھی کاعرف ہے اور یہ ان کا اختیارِ تمیزی ہے کہ وہ چاہیں تو اسے استعمال کریں اور چاہیں تو ترک کردیں۔ اس کے بعد کچھ دنوں تک وہ سرکاری خطوط اور عرضداشتوں میں اپنا نام ”اسد اللہ خاں عرف مرزانوشہ“ لکھتے رہے، بعد ازاں جب یہ قضیہ فیصل ہوگیاکہ ”مرزانوشہ“ بھی وہی ہیں اور ”اسد اللہ خاں“ بھی وہی تو انہوں نے اس دو عملی سے نجات پانے کے لیے آئندہ بہ نظر احتیاط صرف ”محمد اسد اللہ خاں“ یا ”اسد اللہ خاں“ لکھنے کا تہیّہ کرلیا۔ چنانچہ قیامِ کلکتہ کے اسی زمانے میں ایک بار اپنے دوست راے چھج مل کو خط لکھا تو پتے کے ذیل میں ان کے لکھے ہوئے مفصل نام کو موضوعِ گفتگو بناکر یہ سوال بھی کرڈالاکہ:

“برعنوانِ مکتوب کلمہ نواب راجزوِ اعظم (کذا=اسم) ساختن یعنی چہ و عرف پایانِ اسم رقم کردن چرا؟ سگِ دنیا را بہ اسد اللّٰہی شہرت دادن چہ کم است کہ نوابی و میرزائی برسرِ ہم باید افزود۔“19

          یہ بات بہ ظاہر انکسا رکے طورپر کہی گئی ہے لیکن اصل مقصد یہی معلوم ہوتاہے کہ نام کے ساتھ عرف نہ شامل کیا جائے تاکہ پڑھنے والے کا ذہن اس قضیہ نامرضیہ کی طرف منتقل ہی نہ ہو کہ مکتوب الیہ اب سے پہلے ”مرزانوشہ“ کے نام سے موسوم تھا اور اب اس نے اپنا نام بدل کر ”اسد اللہ خاں“ کر لیا ہے۔ اس کے بعد اگلے تیس (30) برسوں میں ان کی کوئی ایسی تحریر نہیں ملتی جس میں انہوں نے اس عرف سے بریّت کا اظہار کیا ہو یا کسی کو اس کے استعمال سے روکاہو۔ تا آن کہ یکم ستمبر 1858ء کو انہو ںنے مرزا ہرگوپال تفتہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا:

“صاحبِ مطبع (مفیدِ خلائق،آگرہ) نے خط کے لفافے پرلکھاہے:

”مرزانوشہ صاحب غالب“ للہ غور کرو، یہ کتنا بے جوڑ جملہ ہے۔ ڈرتاہوں کہ کہیں صفحہ اولِ کتاب پر بھی نہ لکھ دیں صرف اپنی نفرت عرف سے وجہ اس واویلا کی نہیں ہے بلکہ سبب یہ ہے کہ دلّی کے حکّام کو تو عرف معلوم ہے مگر کلکتے سے ولایت تک یعنی وزراکے محکمے میں اور ملکہ   عالیہ کے حضور میں کوئی اس نالائق عرف کو نہیں جانتا، پس اگر صاحبِ مطبع نے ”مرزانوشہ صاحب غالب“ لکھ دیاتو میں غارت ہوگیا، کھویاگیا، میری محنت رائگاں گئی، گویا کتاب کسی اور کی ہوگئی۔“

اس کے تیسرے دن ان سے دوبارہ یہ استدعا کی:

          منشی شیونرائن کو سمجھا دینا کہ زنہار عرف نہ لکھیں، نام اور تخلص بس، اجزاے خطابی کا لکھنا نامناسب بلکہ مضر ہے“۔

          ان بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ کتاب (دستنبو)کے سرورق پر صرف نام اور تخلص لکھنے اور عرف نہ لکھنے پر یہ اصرار فی الواقع اس مبیّنہ طورپر ”نالائق عرف“ سے نفرت کا نتیجہ نہیں بلکہ اس احتیاط اور پیش بندی پر مبنی ہے کہ سرکاری کاغذات میں درج ان کے نام کے ساتھ اس عرف کی شمولیت ”وزراکے محکمے اور ملکہ عالیہ کے حضور میں“ کسی غلط فہمی کا سبب نہ بن جائے اور پھر کوئی ایسی صورتِ حال پیش نہ آجائے جیسی ایک بار کلکتے میں پیش آچکی تھی۔ غدر کے بعد کے مخصوص حالات اور انگریز حکّام کی مطلق العنانی کو مدِّ نظر رکھا جائے تو یہ اندیشہ کچھ بے جابھی نہ تھا۔ کلکتے میں انہیں ذاتی طورپر جو تجربہ ہوچکاتھا، ممکن ہے کہ اس قسم کے کچھ اور واقعات بھی ان کے علم میں ہوں۔ کم سے کم ایک واقعے کا ذکر خود ان کے ایک خط میں موجود ہے۔ یہ خط یوسف مرزا کے نام ہے اور قیاساً 1859ء کے وسط میں لکھاگیاہے۔ لکھتے ہیں:

“ایک لطیفہ پرسوں کا سنو:حافظ ممّو بے گناہ ثابت ہوچکے۔ رہائی پاچکے۔ حاکم کے سامنے حاضر ہواکرتے ہیں۔ املاک اپنی مانگتے ہیں۔ قبض و تصرف ان کا ثابت ہوچکا ہے، صرف حکم کی دیر۔ پرسوں وہ حاضر ہیں۔ مسل پیش ہوئی۔ حاکم نے پوچھا:

حافظ محمد بخش کون؟ عرض کیا میں۔ پھر پوچھا کہ حافظ ممّو کون؟ عرض کیا کہ میں۔ اصل نام میرا محمد بخش ہے، ممّوم ممّو مشہور ہوں۔ فرمایا: یہ کچھ بات نہیں، حافظ محمد بخش بھی تم، حافظ ممّو بھی تم، سارا جہان بھی تم، جو کچھ دنیا میں ہے، وہ بھی تم۔ ہم مکان کس کو دیں؟ مسل داخلِ دفتر ہوئی۔ میاں ممّو اپنے گھر چلے آئے۔

          جہاں ایک معمولی سے شبہے کی بنا پر اس طرح ایک جیتا ہوا مقدمہ ہارا جا سکتا ہے، وہاں غالب کا اپنے مفادات کے تحفظ میں ہرممکن احتیاط برتنا مقتضاے حال کے عین مطابق تھا۔ وہ یہ خطرہ مول لینے کے لیے کسی صورت میں بھی تیار نہیں ہوسکتے تھے کہ نام اور عرف کے چکر میں حافظ محمد بخش عرف حافظ ممّو کی طرح ان کی مسل بھی داخلِ دفتر کردی جائے۔ تفتہ کے نام پنے محولّہ بالا دونوں خطوں میں سے پہلے خط میں انہوں نے جس تشویش کا اظہار کیا ہے اور دوسرے خط میں تاکید کی جو صورت اپنائی ہے، وہ بدیہی طورپر اسی قسم کے اندیشہ ہاے دور دراز کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔ اگر وہ واقعی اس ”نالائق عرف“ سے متنفّر ہوتے تو عام حالات میں بھی اپنے نام کے ساتھ اس کے الحاق کے خلاف کبھی نہ کبھی ضرور احتجاج کرتے، لیکن اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حد یہ ہے کہ 1865ء میں جب اسی کتاب (دستنبو) کا دوسرا ایڈیشن ”نسخہ صحیحہ مرسلہ مصنف“ کی بنیاد پر مطبع لٹریری سوسائٹی روہیل کھنڈ، بریلی سے شائع ہواتو اس کے سرورق پر ان کا پورا نام ”نجم الدولہ، دبیر الملک، اسد اللہ خاں بہادر، نظام جنگ، المتخلص بہ غالب عرف مرزانوشہ“ لکھا ہواتھا۔ نام کے ساتھ ”اجزاے خطابی“ اور ”عرف“ کے اس اندراج کو انہوں نے بعد کی کسی تحریر میں نہ تو ”نامناسب بلکہ مضر“ قرار دیا اورنہ اس پر کسی قسم کی ناگواری ظاہر کی۔

          دوسری مہر کے سلسلے میں مالک رام صاحب کا ارشاد ہے کہ ”اس کی بنا حضرت علی کا لقب ہے۔ چوں کہ میرزا کا نام اسد اللہ تھا، اس لیے انہوں نے اس رعایت سے بہ طورِ سجع یہ نام کھدوا لیا۔“ بعد میں جب انہوں نے تخلص تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تو اسی لقب کی رعایت سے اسد کو چھوڑ کر غالب اختیار کرلیا (ص81) غالب نے ایک منقبتی قصیدے میں خود بھی اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ تخلص کے اس انتخاب میں حضرت علی کے ”اسم و رسم“ کے اثرات شامل تھے۔ فرماتے ہیں:

اے کز نوازشِ اثرِ اسم و رسمِ تو

نامم زمانہ غالب معجز بیاں نہاد

          اس کے باوجود مالک رام صاحب کا یہ دعویٰ محتاجِ دلیل ہے کہ مرزا صاحب نے پہلے حضرت علی سے اپنی محبت و عقیدت کے اظہا رکے طورپر یہ مہر کھدوائی،اس کے بعد اپنا تخلص اسد سے بدل کر غالب کیا۔اس کے برخلاف مرحوم اکبر علی خاں عرشی زادہ کا یہ استدلال زیادہ قرینِ صحت معلوم ہوتاہے کہ رجب 1231ھ (جون 1861ع) میں دیوان کے اولین دستیاب نسخے کی ترتیب کے وقت تک مرزا صاحب اسد تخلص کرتے تھے۔ بعد میں اسی سال کی کسی تاریخ کو انہوں نے غالب تخلص اختیار کیاتو یہ نئی باتخلص مہر کندہ کرائی۔ 20

          اگر اس مہر کی وساطت سے صرف ”دلی خیالات و معتقدات“ کا اظہار مقصود ہوتا تو یہ کام اس سے قبل بھی کیا جاسکتا تھاکیوں کہ غالب 1231ھ سے پہلے بارہا اس امر کا اعتراف و اعلان کرچکے تھے کہ

امامِ ظاہر و باطن، امیرِ صورت و معنی

علی، ولی، اسد اللہ، جانشینِ نبی ہے

          ان حالات میں ایک ہی سال کے اندر دو مہروں کی تیاری کی اس کے علاوہ اور کوئی معقول توجیہہ نہیں کی جاسکتی کہ مرزا صاحب نے اسی سال اپنا تخلص تبدیل کیا ہوگا اور اس تبدیلی کی علامت کے طورپر بہ صورت سجع یہ دوسری مہر کندہ کرائی ہوگی۔ لیکن مالک رام صاحب کے نزدیک یہ استدلال قابلِ قبول نہیں، چنانچہ ”گلِ رعنا“ کے مقدمے میں انہو ںنے اس مسئلے کو ایک بار پھر اٹھایا ہے۔ عرشی زادہ کا نام لیے بغیر تحریر فرماتے ہیں:

بعض لوگوں نے استدلال کیاکہ ”اسد اللہ الغالب“ مہر سے ثابت ہوتاہے کہ انہوں نے اس سال (1231 میں) غالب تخلص اختیارکیا، حال آنکہ نہ ان کا نام ”اسد اللہ“ تھا نہ تخلص ”الغالب“۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس مہر میں لفظ ”غالب“ بہ طورِ تخلص استعمال ہی نہیں ہوا بلکہ یہ مہر انہوں نے بہ طورِ سجع تیار کرائی تھی۔ دراصل ”اسداللہ الغالب“ لقب ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا۔ چوں کہ میرزا کا نام ”اسد اللہ خاں“ تھا اور وہ عقیدے کے لحاظ سے شیعی تھے، اس لیے انہوں نے یہ سجع والی مہر بنوا کر گویا حضرت علی سے اپنی عقیدت کا اعلان بھی کردیا۔ غرض اس مہر سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ 1231ھ میں انہوں نے غالب تخلص اختیار کر لیا تھا۔ البتہ یہ درست ہے کہ بعد کو انہوں نے اسد تخلص سے بیزار ہوکر نیا تخلص رکھنے کا فیصلہ کیا تو اسی سجع نے ان کی مشکل حل کردی اور انہوں نے یہ سامنے کا لفظ بہ طورِ تخلص اختیار کرلیا۔“21

          اپنی بات پر بے جا اصرار کا رویّہ بعض اوقات بدیہّیات سے بھی چشم پوشی پر مجبور کردیتا ہے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت اس بیان کی بھی ہے۔ سجع کی خوبی یہ خیال کی جاتی ہے کہ اس میں صاحب سجع کا نام بھی آجائے اور کلمہ سجع کی معنوی بھی اپنی جگہ برقرار رہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ حشو و زوائد سے یکسر پاک ہو۔ غالب نے اپنے شاگرد حکیم سید احمد حسن فنا مودودی کی فرمائش پر ان کے نام کے دو سجعے کہے تھے۔ یہ سجعے بھیجتے ہوئے انہوں نے خط میں لکھاتھا:

“بہارِ گلستانِ احمد حسن، یہ سجع کیا برا ہے؟ دلِ حیدر و جانِ احمد حسن، یہ اس سے بھی بہتر ہے۔ انھی دونوں میں سے ایک سجع مہر پر کھدوا لیجیے۔“22

          ان دونوں سجعوں میں ایک لفظ بھی زائد از ضرورت نہیں۔”اسد اللہ الغالب“ کی بھی یہی کیفیت ہے۔ اگر اس وقت مرزا صاحب کا تخلص غالب نہ ہوتاتو یہ سجع کوئی معنی ہی نہ رکھتا، اور اگر اس مہر میں ”اسد اللہ“ کے ساتھ ”الغالب“ کی بجاے صرف ”غالب“ کندہ کیا گیا ہوتا تو یہ سجع نہ ہوتا، صرف نام ہوتا۔ رہ گیا یہ سوال کہ غالب کا اصل نام ”اسد اللہ“ نہیں ”اسد اللہ خاں“ تھا تو یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ میر، میرزا، سید، شیخ، خاں، بیگ، مودودی اور چشتی جیسے سابقے اور لاحقے کسی نام کے اجزاے اصلی نہیں، اجزاے اضافی ہوتے ہیں، علاوہ بریں الفاظ کے اس مخصوص تانے بانے سے بھی کوئی مناسبت نہیں رکھتے جس سے سجع کی تشکیل ہوتی ہے، اس لیے سجع کہتے وقت انہیں نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ چنانچہ غالب نے بھی سید احمد حسن کے نام کے مذکورہ بالا دونوں سجعوں میں ”سید“ کے سابقے سے صرفِ نظر کرکے صرف ”احمد حسن“ نظم کیاہے۔ قطعِ نظر اس سے اگر مالک رام صاحب کے نزدیک غالب کا اصل نام ”اسد اللہ خاں“ اور صرف ”اسد اللہ خاں“ تھاتو چند سال کے بعد ”محمد اسد اللہ خاں“ کے نام سے ایک تازہ مہر کندہ کرانے کا کیا جواز باقی رہتاہے؟

          صحیح بات یہ ہے کہ غالب کا اصل نام صرف ”اسد اللہ“ تھا، باقی تمام سابقے اور لاحقے فروعی یا اضافی حیثیت رکھتے تھے، چنانچہ انہوں نے اپنی بے شمار تحریروں میں، نظم میں بھی اور نثر میں بھی، اپنا نام صرف ”اسد اللہ“ لکھاہے۔ نظم کے چند نمو نے حسبِ ذیل ہیں:

حبسِ بازارِ معاصی، اسد اللہ اسد

کہ سوا تیرے کوئی اس کا خریدار نہیں

غالب نام آورم، نام و نشانم مپرس

ہم اسد اللّٰہم و ہم اسد اللّٰہیم

منصورِ فرقہ علی اللّٰہیاں منم

آوازہ انا اسداللہ درافگنم

فیضِ دمِ انا اسد اللہ بر آورم

منصورِ لا ابالیِ بے دار و بے رسن

‘پنج آہنگ’ کے خطوط میں بھی انہوں نے متعدد جگہ اپنا نام صرف ”اسد اللہ“ ہی لکھا ہے، حتّٰی کہ بعض خطوط کا آغاز ”از اسداللہ نامہ سیاہ“ یا ”نامہ نگار اسد اللہ“ سے ہوتاہے۔ میاں نوروز علی خاں کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:

“اگرنامہ فریسند و بہ عنوان نویسند کہ ایں مکتوب بہ دہلی بہ اسد اللہ رسد، دشوار نیست کہ آں نامہ بدیں روسیاہ برسد۔“23

22 مارچ 1852ء کے ایک خط میں تفتہ کو ہدایت کرتے ہیں:

“خط پر حاجت مکان کے نشان کی نہیں ہے۔ ”در دہلی بہ اسد اللہ برسد“ کافی ہے”

          اس سے بھی اہم تر بات یہ ہے کہ پنشن سے متعلق عرض داشتوں اور درخواستوں کے آخر میں بھی وہ کبھی کبھی اپنا نام صرف ”اسد اللہ“ ہی لکھا کرتے تھے۔ اس سلسلے کے دستاویزات میں ایسی اٹھائیس تحریریں ہماری نطر سے گزر چکی ہیں جن پر ان کے دستخط ثبت ہیں۔ ان میں سے بارہ تحریروں میں انہو ںنے اپنا نام ”اسد اللہ“ لکھاہے۔ ان میں قدیم ترین تحریر 25 نومبر 1831ء کی اور آخری تحریر 25 اکتوبر 1844ء کی ہے۔ نواب کلب علی خاں کے نام کے خطوط میں بھی جہاں انہوں نے بہ طورِ دستخط تخلص کی بجاے نام لکھا ہے، یہی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس سلسلے کا آخری خط 16 نومبر 1898ء کا تحریر کردہ ہے۔

          اس سلسلہ گفتگو کا آخری اور سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ”اسد اللہ“ کی حیثیت اسمی سے متعلق مالک رام صاحب کا زیر بحث بیان خود ان کے سابقہ موقف سے مطابقت نہیں رکھتا۔ گزشتہ سطور میں ان کا یہ قول نقل کیا جاچکاہے کہ”اس (دوسری) مہر کی بناحضرت علیؓ کا لقب ہے۔ چوں کہ میرزا کانام اسد اللہ تھا، اس لےے انہوں نے اس رعایت سے بہ طورِ سجع یہ نام کھدوا لیا۔“ اس طر ح ایک بار یہ کہنا کہ ”میرزا کا نام اسد اللہ تھا“ اور دوسری بار اس سے انکار کردینا ایک ایسی کیفیتِ ذہنی کی غمّازی کرتا ہے جو اعترافِ حق اور اعلانِ حق کی بجاے بہر صورت حریف کے دعووں کو باطل ٹھہرانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔

          غالب نے تیسری مہر 1238ھ میں تیار کرائی تھی۔ اس پر ”محمد اسد اللہ خاں“ کندہ تھا۔ مالک رام صاحب کے مطابق یہ ”معرکہ آرا مہر ایک عظیم الشان داخلی اور ذہنی انقلاب کی آئینہ دار ہے۔“ اس انقلاب کے محرکات میں انہوں نے اس مذہبی مباحثے کا بہ طورِ خاص حوالہ دیاہے جو ان کے بقول انیسویں صدی کے ربعِ اول میں شروع ہواتھااور جس کا موضوع مسئلہ امکان و امتناعِ نظیر تھا۔ اس مباحثے کے ایک فریق مولانا فضلِ حق خیرآبادی تھے۔ ان کی تحریک پر غالب نے بھی اس بحث میں حصّہ لیا تھا اور فارسی میں ایک مثنوی کہہ کر ان کی او ران کے ہم خیال علما کی تائید کی تھی۔ مذہبی معاملات سے غالب کی اس دلچسپی کا اوّلین محرک مالک رام صاحب نے نواب الٰہی بخش خاں معروف سے ان کی عزیز داری کو ٹھہرایاہے۔ نواب صاحب خود صوفی تھے اور اس حیثیت سے متصوفین کے درمیان ”خاصے معروف بھی تھے“۔ غالب کی طبیعت کے ”لاابالیانہ پن“ پر ”علم و عمل کے اس نمونے“ کے اثرات مرتب نہ ہوں، یہ اصولِ فطرت کے خلاف تھا۔اس تمہید کے بعد مالک رام صاحب نے اس سلسلے میں اپنے مجموعی تاثرات ان الفاظ میں قلمبند فرمائے ہیں:

“میرزا کی تحریروں سے ثابت ہے کہ وہ اس سے قبل فسق و فجور اور عیش و عشرت کی دلدل میں پھنس چکے تھے، لیکن اس نئے مذہبی ماحول نے اگر ان کی کایا بالکل پلٹ نہیں دی تو کم از کم اس کی شدت میں ضرور کمی آگئی اور وہ اخلاقی قدروں کے بھی شناسا ہوگئے۔اس سے پہلے انکی مہر پر کندہ تھا: اسد اللہ خاں عرف میرزانوشہ، انہوں نے جو نئی مہر تیار کرائی، اس پر لکھا ہے: محمد اسد اللہ خاں۔ کیا ان کی قلبِ ماہیت کا اس سے زیادہ کوئی اور ثبوت درکارہے۔“ (ص84)

          مسئلہ امکان و امتناعِ نظیر پر بحث کب شروع ہوئی اور اس کا آغاز کس نے کیا، فی الوقت اس موضوع پر گفتگو کا موقع نہیں۔ قابلِ غور مسئلہ یہ ہے کہ غالب اس بحث میں کب شریک ہوئے اور ان کی وہ نظم جو اس مسئلے سے متعلق ہے، کس زمانے میں معرضِ وجود میں آئی؟ مالک رام صاحب نے اس مباحثے کو انیسویں صدی کے ربعِ اوّل کا واقعہ قرار دیاہے۔ نہیں کہا جاسکتاکہ غالب کو اس ابتدائی مرحلے میں اس مسئلے سے کوئی دلچسپی تھی یانہیں۔ شواہد سے معلوم ہوتاہے کہ 1856ءکے اواخر تک اس بحث کا سلسلہ ختم نہیں ہواتھا۔ بعض قرائن کے بموجب یہی وہ زمانہ ہے جب کہ مولانا فضلِ حق نے الور سے رام پور جاتے ہوئے کچھ دنو ںکے لےے دہلی میں قیام کیا تھا اور اس دوران ان کی سرگرم شرکت کی بدولت یہ بحث ایک بار پھر تازہ ہوگئی تھی۔ چنانچہ غالب نے انھی ایام میں مولانا کی فرمائش پر وہ اشعار کہے تھے جو ان کی چھٹی فارسی مثنوی موسوم بہ ”بیانِ نموداریِ شانِ نوبت و ولایت“ میں شامل ہیں۔ سلطان العلما مولانا سید محمد مجتہد کے نام 21 جمادی الاول 1273ھ (17 جنوری 1857ع) کے خط میں اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“دریں ہنگام در شہر دو دانشمند باہم در آویختہ اند۔ یکے می سراید کہ آفریدگار ہمتاے حضرتِ خاتم الانبیا علیہ و آلہ السّلام می تواند آفرید۔ وایں یکے می فرماید کہ ایں ممتنعِ ذاتی و محالِ ذاتی است۔ بندہ چوں ہمیں عقیدہ دارد، نظمے در گیرندہ بدیں مدّعا سرانجام دادہ است۔ ہر آئینہ چشم دارد کہ سواد بہ نورِ نظرِ اصلاح روشن شود۔“ 24

          اس واضح بیان کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ 1273ھ 1856ء میں اس مذہبی مباحثے میں غالب کی شرکت اور اس سے پورے پینتیس (35) برس قبل 1238ھ 1823ء میں تیار شدہ ان کی زیرِ بحث مہرکے درمیان کسی ذہنی و جذباتی رشتے کی موجود گی قطعاً خارج از امکان ہے۔ یہی کیفیت تصوف کے اثرات کی بھی ہے کہ اس سے غالب کا واسطہ ”براے شعر گفتن“ سے زیادہ نہ تھا۔ علاوہ بریں مذہبی طورپر وہ شیعی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے تھے جس میں تصوف کے لیے یوں بھی کوئی گنجائش نہیں۔ البتہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ دوسری مہر کی طرح یہ تیسری مہربھی شیعت میں ان کے گہرے اعتقاد کی توثیق کرتی ہے۔ اس میں ان کے نام کے مختلف اجزا کی نشست میں جو ترتیب قائم کی گئی ہے، اسے محض اتفاق نہیں کہا جا سکتا۔ اس کی صورت یہ ہے کہ سب سے اوپر لفظ ”اللہ“ کندہ ہے، درمیان میں لفظ ”محمد“ نقش ہے اور تیسری اور آخری سطر میں لفظ ”اسد“ اور ”خان“ یعنی:

خدا کے بعد نبی اور نبی کے بعد امام

یہی ہے مذہبِ حق، والسّلام و الاکرام

          غالب کی خودنوشت تحریروں، سرکاری مراسلوں اور عرضداشتوں میںکہیں ان کا نام ”اسد اللہ خاں“، کہیں ”محمد اسد اللہ خاں“، کہیں ”محمد اسد اللہ“ اور کہیں صرف ”اسد اللہ“ لکھا ہوا ملتاہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ اس معاملے میں کسی طے شدہ ضابطے کے پابند نہیں تھے۔ دوسری اور تیسری صورتوں میں اصل نام ”اسد اللہ“ کے ساتھ لفظِ ”محمد کے اضافے کاایک سبب یہ بھی ہوسکتاہے کہ ان کے رشتے کے ایک سالے یعنی امراو بیگم کے عمِ حقیقی نبی بخش خاں کے ایک بیٹے کا نام بھی ”اسد اللہ خاں“ تھااور ان کی مہر پر یہی نام کندہ تھا۔چوں کہ غالب اپنے تشخّص کی نگہداری کے معاملے میں خاصے حسّاس تھے، اس لےے عین ممکن ہے کہ انہو ںنے اپنے اور اپنے ان برادرِ نسبتی کے درمیان امتیاز کی غرض سے اپنی مہر پر ”محمد اسد اللہ خاں“ کندہ کرالیاہو۔

          جیسا کہ گزشتہ سطور میں عرض کیاگیا، غالب اپنے نام کے معاملے میں کسی طے شدہ ضابطے کے پابندنہیں تھے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا غالب رجحان ”اسد اللہ خاں“ کی طرف تھا۔ جب اس نام کو سرکاری سطح پر سندِ اعتبار حاصل ہوگئی تو انہوں نے لفظ ”محمد“ کو ترک کرکے صرف ”اسد اللہ خاں“ لکھنا شروع کردیا۔چنانچہ مرزا ہرگوپال تفتہ کو 17 ستمبر1858ء کے خط میں لکھتے ہیں:

“لفظِ مبارک میم، حا، میم، دال“، اس کے ہر حرف پر میری جاں نثا رہے مگر چو نکہ یہاں سے ولایت تک حکّام کے ہاں سے یہ لفظ یعنی ”محمد اسد اللہ خاں“ نہیں لکھا جاتا، میں نے بھی موقوف کردیاہے۔”

          حکّام کاپاسِ خاطر غالب کو کس قدر عزیز تھا، اس کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتاہے، اس لیے ان کے کسی بھی فیصلے یا طرزِ عمل کو وقت اور حالات کے تقاضوں سے بلند ترہوکر دیکھنے کی کوشش کبھی صحیح سمت میں رہنمائی نہیں کرسکتی۔اسی مصلحت کوشی اور احتیاط پسندی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اپنی خاندانی پنشن اور دیگر امور سے متعلق درخواستوں اور مراسلوں پر کبھی اس مہر کے علاوہ کوئی اور مہر نہیں لگائی۔ چنانچہ اس سلسلے کے جو دستاویزات برصغیر اور یورپ کے مختلف محافظ خانوں میں محفوظ ہیں،ان میں سے سترہ (17) کاغذات پر دستخط کے ساتھ یہ مہر بھی ثبت ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ نام کے ساتھ ”محمد“ کا سابقہ موقوف کردینے کے اعلان کے بعد بھی وہ سرکاری نوعیت کی تمام تحریروں پر یہی مہر لگاتے رہے۔ چنانچہ جن سترہ تحریروں پر اس مہر کے نشانات ہماری نظر سے گزرے ہیں، ان میں اولین تحریر 7جولائی 1830ء کی اور آخری تحریر 7 فروری 1867ء کی ہے۔ اس آخری تحریر کی روشنی میں جناب کالی داس گپتا رضا کایہ ارشاد محلِّ نظر قرار پاتا ہے کہ ”غالب کی یہ مہر تقریباً تیس سال تک استعمال میں رہی25۔“ موجودہ شواہد کی بنیاد پر اس کا کم از کم پیتالیس (45) سال تک (1138ھ 1822-23ء تا 2شوال1283 7 فروری 1867ء استعمال میں رہنا ثابت ہے۔

          ہمارے نزدیک یہ مہر نہ تو مذہبی نقطہ نظر سے کسی ”داخلی اور ذہنی انقلاب“ کی آئینہ دا رہے اور نہ اخلاقی سطح پر کسی ”قلبِ ماہیت“ کی نشان دہی کرتی ہے۔ بہ ظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ بہ طورِ خاص سرکاری کاغذات پر ثبت کرنے کے لیے تیار کرائی گئی تھی، کیوں کہ اس سے پہلے کی دونوں مہریں اس کام کے لیے موزوں نہیں تھیں۔ پہلی مہر کا استعمال نام کے ساتھ عرف کے شمول کی وجہ سے خلافِ احتیاط تھا جب کہ دوسری مہریں اس کام کے لیے موزوں نہیں تھیں۔ پہلی مہر کا استعمال نام کے ساتھ عرف کے شمول کی وجہ سے خلافِ احتیاط تھا جب کہ دوسری مہر خالص مذہبی رنگ کی نمائندگی کرتی تھی۔

          اس سلسلے کی چوتھی مہر وہ ہے جسے مالک رام صاحب نے پانچویں نمبر پر جگہ دی ہے۔ اس پر ”یا اسدَاللہ الغالب“ کندہ ہے اور مالک رام صاحب کے مشاہدے یا تحقیق کے مطابق یہ 1269ھ 1852-53ء میں تیار ہوئی تھی۔ مصیبت یا پریشانی کے وقت حضرت علیؓ کو مدد کے لیے پکارنا شیعہ حضرات کے بنیادی عقائد اور روز مرّہ کے معمولات میں شامل ہے۔ یہ مہر اسی عقیدے کے اظہار کا ایک وسیلہ ہے۔ چنانچہ مالک رام صاحب نے اسے مناسب جواز فراہم کرنے کی غرض سے پہلے تویہ وضاحت فرمائی ہے کہ غالب اس زمانے میں یعنی 1852-53ءکے آس پاس مختلف قسم کی ذہنی و مالی پریشانیوں میں مبتلا تھے، جنہوں نے انہیں ”پراگندہ روزی، پراگندہ دل“ کا مصداق بنادیاتھا۔اس کے بعد 1854ء کے چند واقعات کے حوالے سے ان کی ”خوش اعتقادی اور نیک نیتی“ کے بار آور اور اس استعانت کے مقبول و مستجاب ہونے کے کئی ثبوت پیش کیے ہیں۔ یہ شواہد حسب ذیل ہیں:

(1) ذوق کے انتقال (4 نومبر 1845ع) کے بعد استادِ شاہ کے منصب پر تقرر۔

(2) ولی عہد مرزا غلام فحرالدین رمز کا حلقہ تلامذہ میں شامل ہونا اور چار سو روپے سالانہ وظیفہ مقرر کرنا۔

(3) طفر کے سب سے چھوٹے بیٹے مرزا خضر سلطان کا شاگرد ہونا۔

(4) سلطنتِ اودھ سے رسم و راہ میں استواری اور واجد علی شاہ کی طرف سے پانچ سو روپے سالانہ بہ طورِ وظیفہ مقرر ہونا۔

          یوں تو غالب کی زندگی میں کوئی دور ایسا نہیں گزراجب کہ انہوں نے اپنی خواہشات اور توقعات کے مطابق آسودگی اور مرفّہ الحالی کی زندگی گزاری ہو تاہم 1853ء میں یا اس سے کچھ پہلے آلام و مصائب کی کوئی ایسی غیر معمولی صورتِ حال نظر نہیں آتی جس میں وہ مالک رام صاحب کے بقول ”بہ آوازِ بلند فریاد“ پر مجبور ہوں اور حضرت علیؓ کو ان کی مشکل کشائی کا واسطہ دے کر مدد کے لیے پکاریں۔ اس کے برخلاف یہ وہ زمانہ ہے جب کہ بہادرشاہ ظفر کی سرکار سے ”نجم الدولہ، دبیر الملک، نظام جنگ“ کے خطابات اور پچاس روپے ماہوار کے مشاہرے کے ساتھ سلاطینِ مغلیہ کی تاریخ نویسی کے منصب پر تقررکے بعد ان کی اناکی تسکین اور اسبابِ معیشت کی بہتری کا اچھا خاصا سامان مہیا ہو گیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں مالک رام صاحب کی تمام تاویلات و توجیہات دوراز کار قیاسات پر مبنی ہیں،کیوں کہ یہ مہر 1269ھ میں نہیں، اس سے پورے بیس برس پہلے1269ھ 1833-34ء میں کندہ کرائی گئی تھی۔ اس کے دستیاب نقش میں چار کی دہائی واضح نہیں۔ مالک رام صاحب نے اسے پہلی نظر میں غلطی سے چھ پڑھ لیا، اس کے بعد دوبارہ اس پر غور کرنے اور دوسرے ذرائع سے اس کی تصدیق کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، حال آنکہ یہ زیادہ مشکل کام نہ تھا۔ غالب نے اپنا دیوانِ فارسی ”مے خانہ آرزو سرانجام“ کے نام سے 1250ھ 1834-35ء میں مرتب کیا تھا۔ اس کا دیباچہ ان کے کلیاتِ فارسی کے علاوہ ”کلیاتِ نثرِ غالب“ میں بھی شامل ہے۔ اس دیباچے میں ایک جگہ انہوں نے لکھا ہے

دل بہ شراکِ نعلینِ محمدی آویختن کیش و آئینِ من و طغراے والاے ”یا اسدَاللہ الغالب“ نقشِ نگینِ من۔“26

          اس سے ظاہرہے کہ یہ مہر اس دیوان کی ترتیب سے پہلے تیار ہوچکی تھی۔ 1250ھ سے پہلے اور اس کے بعد لیکن 1260ھ سے بہت پہلے کی غالب کی ایسی کئی تحریریں راقم الحروف کی نطر سے گزر چکی ہیں جن کا آغاز انہو ںنے ”یا اسداللہ الغالب“ سے کیا ہے۔ مثلاً:

(1) مکاتیبِ غالب کے اس مجموعے میں جو پہلے پروفیسر مسعود حسن رضوی کی ملکیت تھااو راب مولانا آزاد لائبریری،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ مخطوطات میں محفوظ ہے، مثنوی ”بادِ مخالف“ کے سرِ عنوان ”یا اسداللہ الغالب“ لکھا ہوا ہے۔ اس مجموعے کی تمام تحریریں غالب کے قیامِ کلکتہ کے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں۔

(2) “مآثرِ غالب” میں شامل فارسی خطوں میں سے ایک خط کا آغاز”یا اسداللہ الغالب“ سے ہواہے۔ یہ خط خواجہ فخراللہ کے نام ہے اور 10 رمضان 1148ھ مطابق 31 جنوری 1833ء کو لکھا گیا ہے۔

(3) خدابخش لائبریری، پٹنہ میں غالب کے کلیاتِ نظم فارسی کاایک قلمی نسخہ محفوظ ہے جسے ان کے دوست راے چھج مل نے لکھ کر 11 ربیع الآخر 1254ھ 4 جولائی 1838ء کو مکمل کیاہے۔ اس کے ایک صفحے کے حاشےے پر ”نامہ منظوم بہ نامِ جوہر“ کی ابتدابھی ”یا اسداللہ الغالب“ ہی سے ہوئی ہے۔

(4) دیوان غالب کے 1257ھ 1841ء میں شائع شدہ پہلے ایڈیشن کا آغاز بھی یا اسداللہ الغالب ہی سے ہوا ہے۔

          حضرت علیؓ سے استعانت کایہ متواتر عمل غالب کی اس زمانے کی ذہنی و مالی پریشانیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

          ان ایام میں وہ جن مسائل و مصائب سے دوچار تھے، ان کا انداز مندرجہ ذیل واقعات سے کیا جا سکتا ہے:

(1) 1826ع کے آس پاس میرزایوسف مرضِ جنون میں مبتلا ہوے اور انہوں نے تقریباً تیس برس اسی حالت میں گزارے۔ چھوٹے بھائی کی یہ علالت غالب کے لیے ہمیشہ سوہانِ روح بنی رہی لیکن شروع میں کئی برس وہ اس کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی پریشان رہے۔

(2) امراو بیگم کو اپنے چچا نواب احمد بخش خاں کی سرکار سے تیس روپے ماہوار وظیفہ ملتا تھا۔ اکتوبر 1827ء میں نواب صاحب کی وفات کے بعد جو حالات رونما ہوئے، ان کے زیرِ اثر ان کے جانشین نواب شمس الدین احمد خاں نے غالباً 1830ء یا 1831ء میں یہ وظیفہ منسوخ کردیا۔ بیوی کی اس مستقل آمدنی کے بند ہوجانے سے گھر کی اقتصادی حالت کا متاثر ہونا ناگزیر تھا۔

(3) معتمد براے گورنر جنرل کے خط مورخہ 27 جنوری 1831ء کے ذریعے اس فیصلے سے آگاہ ہونے کے بعد کہ حضورِ والا(گورنرجنرل)نصراللہ خاں کے متوسلین کی مالی امداد کے ضمن میں فیروزپور کے جاگیردار کے کےے ہوئے انتظام میں مداخلت پسند نہیں فرمائیں گے“غالب اپنے مقدمہ پنشن کی ناکامی پر عرصے تک بے حد افسردہ اور پریشان رہے۔ اس کے بعد اپریل 1844ء تک ان کا بیشتر وقت اس مقدمے کی اپیل کی کامیابی کے لیے تگ ودو میں صرف ہوا۔

(4) سقیم مالی حالت اور رئیسانہ طرزِ زندگی کی وجہ سے قرص کا بوجھ برابر بڑھتا جارہاتھا۔ پنشن کے مقدمے میں گورنر جنرل کے فیصلے کے بعد قرض خواہوں کے تقاضوں نے غالب کی زندگی اجیرن کررکھی تھی۔ انجامِ کار فروری 1835ء میں عدالتِ دیوانی سے ان کے خلاف پانچ ہزار کی ڈگری ہوگئی۔

          یہ تھاوہ پس منظر جس میں یہ مہر تیار ہوئی۔ یہ معلوم ہوجانے کے بعد کہ یہ1249ھ میں کندہ کرائی گئی تھی، یہ بات از خود طے ہوجاتی ہے کہ غالب کی اب تک دریافت شدہ مہروں میں اس کا چوتھا نمبر تھا۔

          محمد مشتاق تجاروی کابیان ہے کہ پروفیسرمختارالدین احمد کے خیال میں یہ مہر بدرالدین کے علاوہ کسی اور مہر کن کی کندہ کی ہوئی معلوم ہوتی ہے27۔ ہمیں اس خیال سے اتفاق کی بہ ظاہر کوئی معقول وجہ نظر نہیں و تی کیوں کہ اس کے حروف کی کشش اور نشست میں کوئی ایسا نقص موجود نہیں جو بدرالدین کی شانِ خط کے منافی ہو۔ البتہ اس کا جو نقش دستیاب ہواہے، وہ بہت صاف نہیں۔ یہی سبب ہے کہ مالک رام صاحب کو اس پر درج سنہ کے پڑھنے میں تسامح ہوا۔اس کیفیت کی وجہ سے بعض حروف کی ہیئتِ ظاہری بھی متاثر ہوئی ہے۔ غالباً اسی بناپر مختارالدین احمد صاحب کو یہ شبہ ہواکہ یہ بدرالدین کے علاوہ کسی اور کی بنائی ہوئی ہے۔

          پانچویں، چھٹی اور ساتویں، تینوں مہریں غالب کے شاہی خطاب ”نجم الدولہ، دبیرالملک، نظام جنگ“ سے تعلق رکھتی ہیں۔ مالک رام صاحب نے ان میں سے صرف آخری یعنی ساتویں مہرکا ذکر فرمایاہے اور اپنے حساب کے مطابق اسے چوتھے نمبر پر رکھاہے۔ چو ںکہ یہی مہر اس سلسلے کی باقی دو مہروں تک ہماری رسائی کا وسیلہ بنی ہے، اس لےے مناسب معلوم ہوتاہے کہ گفتگو کا آغاز اسی کے ذکر سے کیا جائے۔ اس ساتویں مہر پر غالب کا نام مع ان کے خطابات کے اس طرح کندہ تھا:

“نجم الدولہ، دبیر الملک، اسد اللہ خاں بہادر، نظام جنگ”

          دائیں طرف کے زیریں گوشے میں لکھے وئے سنہ کے مطابق یہ مہر 1267ھ میں تیار ہوئی تھی۔ غالب کو متذکرہ بالا خطابات بہادرشاہ ظفر نے 23 شعبان 1266ھ مطابق 4 جولائی 1850ء کو عطا کےے تھے اور ”تاریخ نویسی تاجدارانِ تیموریہ“ کی خدمت ان کے سپرد فرمائی تھی۔ مالک رام صاحب نے خود غالب کی ایک فارسی تحریر کے طویل اقتباس، ”اسعد الاخبار“ آگرہ کے 15 جولائی 1850ء کے شمارے میں شائع شدہ مفصل خبر اور مرزاہرگوپال تفتہ کے کہے ہوے قطعہ تاریخ کے حوالے سے اس سلسلے کی تمام تفصیلات اپنے مضمون میںیکجا فرمادی ہیں لیکن ایک پہلو کو بالکل نظرانداز کردیاہے کہ یہ خطابات تو 1266ھ میں ملے تھے پھر یہ مہر 1267ھ میں کیوں تیار ہوئی؟ خود اشتہاری غالب کے مزاج کاایک نمایاں عنصر تھی چنانچہ یہ بات ان کی نفسیات کے بالکل خلاف معلوم ہوتی ہے کہ وہ مہینوں نئی مہر کی تیاری کا انتظار کرتے اور اس اعزاز کے اعلان و اشتہار کے اس سہل الحصول اور موثر وسیلے سے اتنے دنوں تک محروم رہتے۔ اگر فاضل محقق کے ذہن میں یہ خلش پیداہوئی ہوتی اور انہوں نے اسے دور کرنے کے لےے غالب کی اس زمانے کی تحریروں پر بہ نظر غائر توجہ فرمائی ہوتی تو اس انکشاف میں زیادہ دیر نہ لگتی کہ وہ اس مہر سے پہلے ان خطابات پر مشتمل ایک نہیں، دو مہریں 1266ھ ہی میں تیار کراچکے تھے۔ لیکن چوں کہ یہ مہریں ان کے معیا رپر پوری نہیں اتریں اس لےے انہوں نے انہیں رد کرکے جلد ہی ایک اور مہر تیار کرالی جو عرصہ دراز تک ان کے استعمال میں رہی۔ اپنے شاگردِ عزیز منشی جواہر سنگھ جوہر کے نام 23 اکتوبر 1850ء(16 ذی قعدہ 1266ھ) کے خط میں لکھتے ہیں:

“روزے بودکہ نامہ بہ من رسیدکہ نگارش از شمابود و مہر از من۔ گفتم: سبحان اللہ شگرفیِ آثارِ یگانگی و اتحاد کہ ہم نامہ بہ نامِ من است وہم بہ مہرِ من چوں آں ورق بہ من رسید و من دراں وقت تنہا بودم، مشاہدہ نقشِ خاتمِ خویش برمکتوبِ موسومہ خویش مرابہ وجد آورد۔ بالجملہ چشم بہ راہِ نگینِ مہر داشتم، دی روز کہ سہ شنبہ و بست ودومِ اکتوبر بود، رسید۔ ہمانا مہر کن در کشمیر نہ ماند، ع مجلس چو برشکست، تماشا بہ مارسید۔ پس از پزوہش پدید آمد کہ قریبِ صد کس از ہوسناکانِ دہلی نگیں ہافرستادہ در کشمیر کند اندہ اندوہمہ شرمسار و پشیماں شدہ اند۔ حالیا آں سعادت نشاں راباید کہ دردِ سر نہ کشند و مہرِ دیگر بہ کندن نہ دہند۔ امروز دریں فن نظیر بدرالدین بہ گیتی نیست۔ چوں اوبدنوشت، پندارم کہ خوبیِ سرنوشتِ من است۔“28

          اس تحریر سے دوباتیں معلوم ہوتی ہیں، پہلی یہ کہ 4 جولائی اور 22 اکتوبر 1850ء کے درمیان غالب نے دلّی کے مشہور مہر کن بدرالدین سے اس خطاب کی یادگار کے طورپر ایک تازہ مہر تیار کرائی تھی جو انہیں کسی وجہ سے پسند نہیں آئی۔ دوسری یہ کہ اس مہر کو رد کردینے کے بعد انہوں نے اپنے شاگرد منشی جواہر سنگھ جوہر سے جو اس زمانے میں پنجاب میں کسی جگہ برسرِ روزگار تھے، یہ فرمائش کی کہ وہ کشمیر کے کسی مہرساز سے ان کی مہر تیار کرادیں۔ یہ دوسرانگینہ انہیں 22 اکتوبر 1850ء کو موصول ہوا، لیکن اس کی نقاشی سے بھی وہ مطمئن نہیں ہوئے۔ غالباً اس کے بعد ہی 1267ھ میں اس سلسلے کی وہ تیسری مہر تیا رہوئی جسے مالک رام صاحب نے چوتھے اور ہم نے ساتویں نمبر پررکھا ہے۔ احوالِ ظاہری کے اعتبارسے یہ مہر بھی بدرالدین ہی کی تیارکردہ معلوم ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ انہو ںنے پچھلی مہر کے بارے میں غالب کی ناپسندیدگی کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اس کی تیاری پر خصوصی توجہ صرف کی ہو۔

          پروفیسر مختارالدین احمد صاحب کابیان ہے کہ قیامِ آکسفورڈ کے دوران 1956ء میں انہوں نے ایک بار اس مہر کی زیارت کی تھی۔ تقریب یہ ہوئی کہ حیدرآباد سے ڈاکٹر نظام الدین صاحب اور آغا حیدر حسن صاحب کے داماد وہاں تشریف لائے ہوئے تھے۔ ایک روز جب وہ ان دونوں حضرات کو ایشمولین میوزیم کا وہ شوکیس دکھا رہے تھے جس میں مختلف قسم کی انگوٹھیاں اور مہریں رکھی ہوئی تھیں تو ڈاکٹر نظام الدین صاحب نے اپنے ہم سفر کی انگلی کی طرف اشارہ کیااو ران سے پوچھا: اس مہر کو آپ پہچانتے ہیں؟ یہ مرزا غالب کی مشہور مہر تھی۔ عقیق پر نہایت خوبصورت حروف میں ”نجم الدولہ، دبیر الملک، نظام جنگ“کے الفاظ منقوش تھے۔ مختلف کاغدوں پر متعدد بار اس کے نقوش دیکھنے میں آئے تھے۔29

          مختارالدین احمد صاحب کے علاوہ ڈاکٹر ضیاءالدین احمد شکیب نے بھی اپنی کتاب ”غالب اور حیدرآباد“ میں اس مہر کا ذکر کیاہے، جس سے اندازہ ہوتاہے کہ یہ 1969ء تک آغا حیدرحسن کے ہاں موجود تھی۔ شکیب صاحب لکھتے ہیں:

“پروفیسرآغاحیدرحسن کے یہاں میرزا غالب کاایک چغہ اور ان کی ایک مہر ہے۔ یہ مہر جگری عقیق پر کندہ ہے۔ اس مہر کی عبارت حسبِ ذیل ہے:

“نجم الدولہ، دبیرالملک، اسد اللہ خاں غالب، نظام جنگ”

1262ھ

آغا حیدرحسن صاحب کے بیان کے مطابق غالب کی یہ مہر شاہی مہر کن بدرالدین نے تیار کی تھی۔“30

          اس مہر سے متعلق یہ دونو ںبیانات تحقیقی اعتبار سے ناقص اور وضاحت طلب ہیں۔ مختارالدین احمد صاحب کے بیان کا نقص یہ ہے کہ انہو ںنے صرف اجزاے خطابی نقل فرمائے ہیں، مہر کے باقی اندراجات کو نظر انداز کردیاہے، جب کہ شکیب صاحب کی نقل کردہ عبارت میں ”اسد اللہ خاں“ اور ”نظام جنگ“ کے درمیان ”غالب“ کا اندراج او رنیچے دیاہوا سنہ مشکوک ہے۔ سنہ کے بارے میں یقین کے ساتھ کہا جاسکتاہے کہ اس کے نقل کرنے میں سہوہواہے، خواہ اس کے ذمّہ دار خود صاحبِ کتاب ہو ںیا ان کا کاتب۔ اسے ہرحال 1266ھ یا 1267ھ ہونا چاہیے۔ اگریہ 1266ھ ہے تویہ مہر یقینا اس مہر سے مختلف ہے جسے مالک رام صاحب نے اپنے مضمون میں متعارف کرایاہے اور اگر 1267ھ ہے تو اس میں نام کے بعد لفظِ ”بہادر“ کی بجاے تخلص یعنی ”غالب“ کا اندراج خلافِ واقعہ ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ دراصل یہ وہی مہر ہے جو منشی جواہر سنگھ جوہر نے کشمیر کے کسی مہرساز سے کندہ کراکے اکتوبر 1850ء میں غالب کو بھیجی تھی۔ اس کے رد کیے جانے کی وجہ بہ ظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس میں نام کے ساتھ ”بہادر“ کالاحقہ موجود نہیں تھا، جس کا شمول از روے قاعدہ بے حد ضروری تھا۔اس سلسلے میں منشی شیونرائن آرام کے نام ستمبر 1858ء کے ایک خط کا یہ اقتباس ملاحظہ طلب ہے:

“سنو، میری جان!نوابی کا مجھ کو خطاب ہے ”نجم الدولہ“ اور اطراف و جوانب کے امرا سب مجھ کو ”نواب“ لکھتے ہیں، بلکہ بعض انگریز بھی یاد رہے”نواب“ کے لفظ کے ساتھ ”میرزا“ یا ”میر“ نہیں لکھتے۔ یہ خلافِ دستور ہے۔ یا ”نواب اسد اللہ خاں“ لکھو یا ”میرزا اسد اللہ خاں“ اور ”بہادر“ کا لفظ تو دونوں حال میں واجب اور لازم ہے۔”

          یہ مہر چوں کہ شکیب صاحب کی نطر سے گزر چکی تھی، اس لیے نومبر 2004ء میں جب وہ لندن سے حیدرآباد تشریف لائے تو میں نے اپنے شبہات کا حوالہ دیتے ہوئے ان سے رجوع کیاکہ وہ صحیح صورتِ حال سے مطلع فرمائیں۔ موصوف نے اس کے جواب میں اپنے مکتوب مورخہ 29 نومبر 2004ء میں جو وضاحت فرمائی ہے وہ حسب ذیل ہے:

غالب کی یا غالب سے منسوخ جس مہر کاذکر ”غالب اور حیدرآباد“ میں ہے،وہ اب ہماری دسترس سے باہر ہے۔ یہ مہر پروفیسر آغا حیدرحسن کی ملکیت تھی۔ انہوں نے جناب محمد اشرف صاحب کو تحفةً دے دی تھی۔ محمد اشرف صاحب وہی ہیں جنہوں نے سالار جنگ میوزیم کے مخطوطات کا کیٹلاگ کئی جلدوں میں شائع کیامیں نے غالب کی یہ مہر محمد اشرف صاحب کے یہاں دیکھی تھی۔ جہاں تک یاد ہے وہ خود اس مہر سے مطمئن نہیں تھے۔ اس کاذکر میں نے پروفیسر آغا حیدر حسن صاحب سے کیا ۔آغا صاحب نے اپنی روایات کے مطابق وثوق سے کہا کہ یہ مرزا غالب کی ہے بلکہ یہ تک وضاحت کی، یہ بدرالدین مہر کن کی کندہ کی ہوئی ہے۔ آغا صاحب قلعہ معلّٰی کی یادگار تھے۔ ان کے گھرانے اور مرزا غالب کے گھرانے کے تعلقات قدیم تھے۔ میں کیاجواب دیتا۔ لہٰذا میں نے تمام اختلافات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ”غالب اور حیدرآباد“ میں اس کا ذکر کردیا۔اب یہ آپ جیسے محققین کا کام ہے کہ اس کے بارے میں کوئی قطعی راے قائم فرمائیں۔

          جہاں تک مجھے یقین ہے”غالب اور حیدرآباد“ میں مہر کا متن جو دیاگیاہے،و ہ درست ہے۔ اس میں سہوِ کتابت کو دخل نہیں۔ ممکن ہے کہ مہر میں تاریخ غلط کندہ ہوگئی ہو، اس لےے اس کو استعمال نہ کیاگیاہو۔ پڑی رہی ہو اور خاندانی تعلقات کی وجہ سے آغا حیدرحسن صاحب تک پہنچی ہو۔

جس وسیلے سے یہ مہر ہم تک پہنچی، اس کی وجہ سے ہم اس کو ‘فیک’ تو نہیں کہ سکتے، لیکن اگر غلط کندہ ہوگئی ہو تو

Discarded

کہہ سکتے ہیں۔

شکیب صاحب کی اس تحریر سے معلوم ہوجانے کے بعد کہ آغا حیدر حسن صاحب نے یہ مہر محمد اشرف صاحب کو تحفةً عنایت فرمادی تھی، یہ مناسب معلوم ہوا کہ آغا صاب کے داماد میرمعظم حسین صاحب سے درخواست کی جائے کہ وہ اس کے بارے میں حصول معلومات میں مدد فرمائیں۔ موصوف نے میرے 4 فروری 2005ء کے خط کے جواب میں 25 فروری 2005ء کو تحریر فرمایا:

“آپ نے خط میں جس مہر کا ذکر کیا ہے،اس کا مجھے علم نہیں ہے، لیکن میری شادی کے موقعہ پر میرے خسر پروفیسر آغا حیدرحسن مرزا نے مجھے ایک انگوٹھی عنایت کی تھی جس کو میں نے پچاس سال سے زائد اپنے ہاتھ پرپہنا۔ اُس انگوٹھی پر اسداللہ خاں غالب کے خطابات کندہ تھے۔ میں اس انگوٹھی کو اب محفوظ کروادیاہوں جس کی وجہ سے اس کا عکس بھیجنے سے قاصر ہوں۔”

          اس مایوس کن جواب کے بعد بہ ظاہر اب اس مہر تک رسائی کی کوئی امید نظر نہیں آتی، اس لےے باقی مہروں کی طرح اسے بھی متاعِ گم گشتہ تصور کرکے طاقِ نسیاں کے کسی گوشے میں ڈال دینا چاہےے۔ راقمِ سطور اپنے اس خیال پر بہر حال قائم ہے کہ غالب نے اسے نام کے بعد لفظِ ”بہادر“ کی عدم موجودگی کی وجہ سے مسترد کردیاہوگا۔شکیبصاحب کی راے کے مطابق سنہ کا غلط کندہ ہوجانا بھی اس کی وجہ ہوسکتی ہے لیکن اس کا امکان بہت کم ہے۔ اس کے برخلاف بے خیالی یا رواروی کے باعث اکائی کے عدد چھ (6) کا دو(2) پڑھ لیا جانا عملی تجربات کی روشنی میں زیادہ قرینِ قیاس معلوم ہوتا ہے۔

          جس طرح ساتویں مہر کے متعلق غوروخوض کے نتیجے میں اس چھٹی مہر کے وجود کا علم ہوا،اسی طرح اس چھٹی مہر کے حوالے سے یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ انہی خطابات پر مشتمل ایک مہر اس سے قبل بھی تیار ہوچکی تھی۔ ”امروز دریں فن نظیر بدرالدین بہ گیتی نیست۔ چوں اوبدنوشت، پندارم کہ خوبیِ سرنوشتِ من است۔“ سے اشارہ ملتاہے کہ یہ مہر بدرالدین نے کندہ کی تھی لیکن غالب اس سے مطمئن نہیں تھے۔ انہو ںنے اپنی اس بے اطمینانی یا ناپسندیدگی کا سبب مہر ساز کی بدنویسی کو ٹھہرایاہے، لیکن یہ بات اس لےے قابلِ قبول نہیں معلوم ہوتی کہ ”بدرالدین“ اور ”بدنویسی“ میں بہ ظاہر لفظِ ”بد“ کے سوا کوئی چیز مشترک نہیں تھی۔ غالب کی اس زمانے کی تحریریں تقریباً نایاب ہیں۔ کافی تلاش و جستجو کے بعد ہمیں صرف ایک خط دستیا ب ہواہے جس پر یہ مہر ثبت تھی، لیکن یہ اصل خط نہیں، اس کی نقل ہے، اس لےے اس کی روشنی میں اس مہر کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ خط مفتی سید احمد خاں بریلوی کے نام ہے اور پنجشنبہ 3 اکتوبر 1850 کو یعنی منشی جواہر سنگھ جوہر کے بھیجے ہوئے نگینے کے دہلی پہنچنے سے صرف انیس (19) دن پہلے لکھا گیاہے۔اسے محمد ابرار علی صدیقی نے اپنی کتاب ”آئینہ دلدار“ میں جو میاں دلدار علی مذاق بدایونی کی سوانح عمری ہے، دوسرے کئی خطوط کے ساتھ نقل کیاہے۔ خط کے آخر میں مہر کی عبارت بھی بہ ظاہر اس کی ہیئتِ اصلی کے مطابق ایک مستطیل کی شکل میں نقل کردی گئی ہے31۔ پانچویں مہر کی یہ دستی نقل ساتویں مہر کے دستیاب نقوش سے صرف اس قدر مختلف ہے کہ یہ سنہ کی قید سے عاری ہے جب کہ آخرالذکر میں اس کی تیاری کا سنہ (1267ھ) بھی موجود ہے۔ لیکن یہ محض اتفاق بھی ہوسکتاہے کیوں کہ ساتویں مہر جو 1267ھ کے بعد برابر زیرِ استعمال رہی، اس کی ایسی کئی نقلیں بھی ہمارے علم میں ہیں جن میں سنہ کا اندراج نہیں۔ ان حالات میں زیرِ بحث پانچویں مہر کی کیفیتِ ظاہری کے بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ کہنا دشوار ہے۔ البتہ مفتی سیّداحمد کے نام کے خط پر اس کے نقش کی موجودگی میں اس کے وجود پر کسی شبہے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

          غالب نے اپنی آخری مہر 1278ھ (1861-62) میں یعنی اپنی وفات سے تقریباً سات سال قبل تیار کرائی تھی۔ اس مہرکی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ ان کی دوسری تمام مہروں کی بہ نسبت کافی مختصر ہے یعنی اس پر صرف ان کا تخلص (غالب) اور تیاری کا سنہ (1278ھ) کندہ ہے۔ اس کا پس منظر بیان کرتے ہوئے مالک رام صاحب لکھتے ہیں:

“جو لوگ نفسیات سے واقف ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ نفسِ انسانی میں ”انا“ کے ارتقا کا انتہائی مقام یہ ہے کہ انسان کسی غیر معمولی کامیابی کے بعد اپنے تعارف کے لیے مختصر ”علَم“ کا استعمال کرنے لگتا ہے۔“(ص88)

          غالب کی اس نفسیاتی کیفیت کو انہوں نے جن دو غیر معمولی کامیابیوں کا نتیجہ قرار دیاہے، ان میں سے پہلی ”قاطعِ برہان“ کی اشاعت ہے جو ان کے بقول ”ہندوستان کے فارسی دانوں کے خلاف ساری عمر کے جہاد“ کا ایک عملی ثبوت بھی تھی اور ”علی الاعلان عام دعوتِ مبارزت بھی“۔ یہ کتاب 20 رمضان المبارک 1278ھ مطابق 22مارچ 1862ء کو اس زمانے کے سب سے مشہور و ممتاز طباعتی ادارے مطبعِ منشی نول کشور، لکھنو میں چھپ کر شائع ہوئی تھی۔ دوسری بڑی کامیابی یہ تھی کہ اسی سال مطبعِ نول کشور میں ان کے کلیاتِ فارسی کی طباعت شروع ہوئی جو اگلے سال یعنی 1863ء میں مکمل ہوگئی۔ اس سلسلے کی تمام ضروری تفصیلات قلمبند کرنے کے بعد محترم محقق اس نتیجے پر پہنچے ہیں:

“1862ع۔ 1863ء میرزا کی زندگی میں نہایت اہم سال ہیں۔ ”قاطعِ برہان“ اگر دوسروں کی شکست کا اعلان تھاتو کلیات ان کی فتح مندی کا ثبوت۔ اسی سال ان کا اپنے نگیں پر ”غالب“ کندہ کرانا اسی حقیقت کا ایک اور پیراے میں اظہارہے۔ اب گویا انہوں نے اس دعوے پر مہر لگادی کہ فارسی علم و زبان کے لحاظ سے میں ”علیٰ کلٍّ غالب“ ہوں۔“(ص90-91)

          کسی بھی معروف طباعتی و اشاعتی ادارے سے بہ یک وقت دو کتابوں کی اشاعت کسی بھی مصنف کے لیے فخر و مباہات کا باعث ہوسکتی ہے۔ غالب کو بھی اس سے مستثنٰی نہیںکیا جاسکتا۔لیکن یہ اتنی بڑی کامیابی یقینا نہیںکہ غالب جیسا یگانہ روزگار فن کار اس کی علامت کے طورپر ایک مہر تیار کراکے اسے یادگار بنادے۔ دنیا میں ہزاروں کام ایسے ہیں جن کی انجام پذیری میں وقت کا تعین کوئی اہمیت نہیں رکھتا، مگرجب وہ انجام پاجاتے ہیں تو وقت کے ساتھ ان کے تعلق کی متعدد توجیہات و تاویلات کی جاسکتی ہیں اور حسبِ اتفاق ان میں سے کوئی توجیہہ یا تاویل واقعے کے عین مطابق بھی ہوسکتی ہے۔ اس مہر کے سلسلے میں مالک رام صاحب قبلہ کے ارشادات بھی اسی ضمن میں آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غالب کو بیس پچیس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے اپنی انفرادیت کا بہ خوبی ادراک و احساس ہوگیاتھا۔ کلکتے میں قیام کے دوران قتیل کی زبان دانی پر ان کے اعتراضات کو بجاطورپر ہندوستانی فارسی دانوں کے خلاف ان کے مبیّنہ جہاد کا نقطہ آغاز کہا جاسکتاہے۔ اس وقت اپنے بیان کردہ سالِ ولادت (1212ھ) کی رو سے وہ عمر کی بتّیسویں منزل میں اور ہماری تحقیق کے مطابق چھتیسویں سال میں تھے۔ اس کے بعد انانیت کی یہ لے متواتر تیز ہوتی رہی۔ حتّی کہ نصف صدی پوری کرتے کرتے انہیں وہ مقام حاصل ہوگیاجہاں شہرت کے پرِ پرواز لگاکر اڑنے والے کسی رسمی تعارف کے محتاج نہیں رہتے۔ چنانچہ 1260ھ 1844ء میں انہوں نے نواب وزیرالدولہ والیِ ٹونک کی خدمت میں جو قصیدہ مدحیہ ارسال کیاتھا، اس کے ایک شعر میں یہ واضح اعلان موجود تھا:

نامم بہ سخن غالب و رشن ترم از روز

بے ہودہ چرا جلوہ دہم اسم و علم را

          تقریباً اسی زمانے میں (پنج آہنگ کی اشاعت سے قبل) انہوں نے میاں نوروز علی خاں کو پہلی بار خط لکھاتو جواب کے لےے پتے میں صرف ”بہ دہلی بہ اسد الہ برسد“ کو کافی قرار دیا۔22 مارچ 1858ء کے خط میں مرزا تفتہ کو بھی اسی مختصر پتے پر اکتفا کی ہدایت کی گئی ہے۔ان دونوں خطوط کے اقتباسات گزشتہ صفحات میں پیش کےے جاچکے ہیں۔ ایک اور خط مرزا حاتم علی مہر کے نام ہے جو 1861ء میں لکھا گیا تھا، اس میں لکھتے ہیں:

“آپ کو معلوم رہے کہ میرے خط کے سرنامے پر محّلے کا نام لکھنا ضروری نہیں۔شہر کا نام اور میرا نام، قصہ تمام”

          اسی ہدایت کا اعادہ چار برس کے بعد مولوی عبدالرزّاق شاکر کے نام کے ایک خط میں بھی کیا گیا ہے۔ یہ خط مرزا صاحب نے ستمبر 1865ء میں رام پور کے سفر پرروانگی سے قبل تحریر فرمایاتھا۔ مکتوب الیہ موصوف کو مطلع فرماتے ہیں:

          “اب کوئی خط آپ بھیجیں تو رام پور بھیجیں۔ مکان کا پتا لکھنا ضروری نہیں۔ شہر کا نام اور میرا نام کافی ہے۔”

          پیش کردہ مثالو ںمیں سے تین مثالیں 1278ھ 1862ء سے قبل کے زمانے سے متعلق ہیں۔ چوتھی اور آخری مثال اگرچہ 1278ھ سے بعد کی ہے لیکن اس اعتبار سے بے حد اہم ہے کہ یہ برونِ دہلی یعنی رام پور کے عارضی قیام کے زمانے سے تعلق رکھتی ہے۔ ان سبھی مثالوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ غالب اپنی شخصیت کی یکتائی سے بہ خوبی واقف تھے اور اپنے وقار کے تحفظ اور انا کی سربلندی کے لیے ہمہ وقت سرگرم و فکرمند رہتے تھے۔ ”ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے“ کسی شہر کی تخصیص کے بغیر ایک ایسا سوال تھاجس کا جواب ان کے تصور کے مطابق ”نہیں“ کے سوا کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ ایک اتفاقی امر ہے کہ ان کی یہ آخری مہر جس پر صرف ان کا تخلص کندہ ہے، 1278ھ میں تیارہوئی، ورنہ اس سے مالک رام صاحب کے بقول جس نفسیاتی کیفیت کا اظہارہوتاہے، وہ اس سے اٹھارہ برس قبل 1260ھ میں کہے ہوے ان کے اس شعر سے بھی ظاہر ہے جس میں ”اسم و علم“ سے بے نیازی اور صرف تخلص کے حوالے سے اَبَین مِنَ الامس(روشن تراز روز) ہونے کادعویٰ کیا گیاہے۔ ہا ںیہ امر بھی قابلِ لحاظ ہے کہ انہو ںنے اپنی بعض تحریروں میں شعروادب کے تناظر میں صرف تخلص کے حوالے سے اور مراسلت و مکاتبت کی حالت میں نام کی مختصر ترین شکل ”اسد اللہ“ کے ذریعے روشناسِ خلق ہونے پر جو اصرار کیاہے،وہ کسی داخلی مغائرت یا تضادکا مظہر نہیں۔ تعارف کی یہ دونوں صورتیں ”ہرسخن وقتے و ہر نکتہ مکانے دارد“ کے بہ مصداق ایک ہی باطنی کیفیت کی نشان دہی کرتی ہیں۔

          غالب کی جن مہروں کے نقوش اہلِ علم کی دسترس میں ہیں،ان میں یہ آخری مہر وہ واحد مہر ہے جس کے خط کی ناپختگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ بدرالدین کی بنائی ہوئی نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ غالب کے کسی دوست یا شاگرد نے یہ سوچ کرکہ شاعر کی حیثیت سے غیر معمولی شہرت و ناموری کے باوجود انہوں نے اپنے تخلص کے ساتھ کوئی مہر کندہ نہیں کرائی، یہ مہر بہ طورِ خود کسی معمولی مہر ساز سے تیار کراکے ان کی خدمت میں پیش کردی ہو اور انہوں نے اس دوست یا شاگرد کے پاسِ خاطر کی بناپر اسے رد کردینا مناسب نہ سمجھا ہو۔ اس سوال کا کہ ان کی نفاست پسندی کیوں کر اس کی متحمل ہوئی، اس کے علاوہ کوئی اور جواب سمجھ میں نہیں آتا۔

          مفصّلہ بالا تجزےے سے ظاہر ہے کہ مالک رام صاحب نے ان مہروں کی تیاری کے سلسلے میں جو تاویلات پیش فرمائیں ہیں، ان میں سے بیشتر قابلِ قبول نہیں۔ لیکن ان کے اس بنیادی موقف سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ ان میں سے ہر مہر اپنا ایک نفسیاتی، مذہبی یا تاریخی پس منطر رکھتی ہے۔ اس اعتبار سے غالب کی پر پیچ شخصیت اور ذہن و مزاج کی تفہیم میں دوسرے خارجی وسائل کے ساتھ ان مہروں کا کردار بھی مناسب توجہ کا مستحق ہے۔ یہی ایک بات ان کے بارے میں تحقیق و تنقید کا جواز فراہم کرتی ہے۔

حواشی:

1۔ غالب شناس مالک رام، از ڈاکٹر گیان چند، غالب اکیڈمی،نئی دہلی، 1996، ص67

2۔ فسانہ غالب، از مالک رام، مکتبہ جامعہ، نئی دہلی، 1977، ص81۔ آئندہ تمام مقامات پر اقتباسات کے آخر میں قوسین کے اندر صفحات کے حوالے دے دےے گئے ہیں۔

3۔ نامہ ہاے فارسیِ غالب، مربتہ سید اکبر علی ترمذی، غالب اکیڈمی، نئی دہلی، 1969، ص117۔ غالب کی خاندانی نشن اور دیگر امور، نیشنل ڈاکومینٹیشن سینٹر، مقتدرہ قومی زبان پاکستان، اسلام آباد، 1997، ص39

4۔ فسانہ غالب،ص115

5۔ نامہ ہاے فارسیِ غالب، ص103

6۔ غالب کی خاندانی پنشن،ص49

7۔ ایضاً،ص53

8۔ متفرقاتِ غالب، مرتبہ پروفیسر مسعود حسن رضوی، طبعِ ثانی، لکھنو1969، ص126

9۔ دیوانِ غالب، مرتبہ نظامی بدایونی، طبعِ ثانی، بدایوں، 1918، صفحہ ماقبلِ متن

10۔ احوالِ غالب، مربتہ پروفیسر مختارالدین احمد، طبعِ ثانی، دہلی، 1968،ص34

11۔ بہ حوالہ غالب نامہ، نئی دہلی، شمارہ جنوری 1989، ص215-16

12۔ گلشنِ بے خار، از نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ، طبعِ اول، دہلی، 1837، ص185

13۔ بہ حوالہ غالب نامہ، نئی دہلی، شمارہ مذکور الصدر، ص173

14۔ فسانہ غالب،ص49

15۔ احوالِ غالب، ص142۔143

16۔ مکاتیبِ غالب، مربتہ مولانا امتیاز علی عرشی، طبعِ دوم، رام پور، 1943، حاشیہ ص41

17۔ یادگارِ غالب(عکسی ایڈیشن)یو۔پی۔اردو اکاڈمی، لکھنو1986، ص9

18۔ نامہ ہائے فارسیِ غالب،ص103

19۔ پنج آہنگ، طبعِ ثانی، دہلی، 1853، ص334

20۔ دیوانِ غالب بہ خطِ غالب، مرتبہ اکبر علی خاں عرشی زادہ، رام پور، 1969،ص16

21۔ گلِ رعنا، مرتبہ مالک رام، دہلی، 1970، ص35

22۔ غالب کے خطوط، مرتبہ خلیق انجم، جلد سوم، دہلی،ص1029۔ 30

23۔ پنج آہنگ، ص389

24۔ تجلیات، از مرزامحمد ہادی عزیز لکھنوی، ص197-98، بہ حوالہ ماہنامہ نیادور، لکھنو شمارہ جولائی 1980، ص12

25۔ غالب درونِ خانہ، از کالی داس گپتا رضا، ساکار پبلشرز، بمبئی، 1989، ص43

26۔ پنج آہنگ، ص113

27۔ غالب نامہ، نئی دہلی، شمارہ جنوری 1996، ص164

28۔ باغِ دو در، مرتبہ سید وزیرالحسن عابدی، لاہور، 1970، ص120

29۔ گنجینہ غالب، پبلی کیشنز ڈویژن، نئی دہلی، 1995،ص168 تا ص170

30۔ غالب اور حیدرآباد، از ڈاکٹر ضیا ءالدین شکیب، نئی دہلی، 1969، ص223

31۔ آئینہ دلدار، از ابرار علی صدیقی، کراچی، 1956، ص93

English Hindi Urdu