پروفیسرشمس الرحمن فاروقی کا غالب توسیعی خطبہ

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام ۶ مئی کو ’’غالب توسیعی خطبہ‘‘ کے موقع پر ممتازادیب و دانشوراور ماہرِ غالبیات پروفیسر شمس الرحمن فاروقی نے

’’غالب کے غیر متداول دیوان‘‘ کے موضوع پر خطبہ پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ غالب کا غیر متداول دیوان ایک عرصے سے لوگوں کی توجہ کا اس طرح مرکز نہیں ہے جیسے اُسے ہونا چاہئے۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب نے یہ سوالات بھی اٹھائے کہ غیر متداول دیوان میں جو کلام موجود ہے اور جس کے بارے میں غالب نے یہ لکھاہے کہ انہو ں نے اس کلام کو مسترد کردیاتھاوہ مسترد کلام اصلاً کس کا رد کیاہواہے۔ آپ نے مزید فرمایاکہ یہ بات جو کہی جاتی ہے کہ غالب نے اپنی عمرکے آخری حصّے میں مشکل گوئی ترک کردی اور میرکا انداز اختیار کرلیایہ بات بھی سراسر غلط ہے کیونکہ غالب کا تمام معروف اور مشہورکلام اُن کے ابتدائی زمانے کا کہاہوا ہے۔اس سے قبل غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے پروفیسر شمس الرحمن فار وقی کااستقبال کرتے ہوئے کہاکہ آپ اس عہدکے بڑے ماہرِ غالبیات میں سے ہیں۔ غالب پر آپ نے جو کچھ تحریر کیااُسے علمی و ادبی حلقوں میں کافی پسند کیاگیا۔ آپ کی کتاب’’تفہیم غالب‘‘ غالب فہمی میں دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے یہ بھی فرمایاکہ ’’غالب کے غیر متداول دیوان‘‘ پر آپ کی جوبھی گفتگو ہوئی اُس سے یقیناًغالب تحقیق و تنقید میں ایک اہم اضافہ ہوگا۔ جلسے کی صدارت کرتے ہوئے معروف غالب شناس ڈاکٹر خلیق انجم نے پروفیسر شمس الرحمن فاروقی کے عالمانہ خطبے پر انہیں مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں یقین ہے کہ غالب کے غیر متداول دیوان کے تعلق سے اردو اور فارسی کے ادیبوں کے ذہنوں میں شک و شبہات اور غلط فہمیاں ہیں آپ کے اس خطبے کے بعد ختم ہوجائیں گی۔ ڈاکٹر خلیق انجم نے پروفیسر شمس الرحمن فاروقی کے علمی و ادبی مرتبے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ اردو زبان و ادب خصوصاً غالبیات کے حوالے سے آپ کی کاوشوں کو اردو دنیامیں ہمیشہ عزت و احترام کی نظروں سے دیکھاجائے گا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدر نے جلسے کی نظامت کرتے ہوئے غالب توسیعی خطبہ کی تاریخی حیثیت پرروشنی ڈالا اور کہاکہ غالب توسیعی خطبہ غالب انسٹی ٹیوٹ کی ایک اہم پہچان ہے ملک اور بیرون ملک کے کئی بڑے ادیبوں نے غالب توسیعی خطبہ پیش کیاہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ پروفیسر شمس الرحمن فاروقی ایک ایسے موضوع پر خطبہ پیش کر رہے ہیں جس پر کم گفتگو ہوئی ہے ہمیں پوری امید ہے کہ آپ کے اس خطبے سے غالب کے غیر متداول کلام کی اہمیت کوبھی ہم سمجھ سکتے ہیں۔ شاہد ماہلی نے پروفیسر شمس الرحمن فاروقی اور تمام سامعین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ پروفیسر شمس الرحمن فاروقی کے خطبے سے ہمارے علم میں اضافہ ہوااور ادارے کا وقار بھی بڑھا ہے۔اس موقع پر پروفیسر شمس الرحمن فاروقی کی اہم کتاب’’تفہیم غالب‘‘ کے تیسرے ایڈیشن کی رسمِ رونمائی بھی ہوئی۔ جلسے میں امریکہ کے اہم ڈاکٹر اور اردو کے ادیب جناب سیدامجد حسن بھی موجود تھے جنہیں غالب انسٹی ٹیوٹ کی کتابوں کا تحفہ پیش کیاگیا۔ اس کے علاوہ پروفیسر شمیم حنفی، ڈاکٹر اسلم پرویز، پروفیسر وہاج الدین علوی، پروفیسر شمس الحق عثمانی،ڈاکٹر خالد علوی، ڈاکٹر خالد اشرف، ڈاکٹر اخلاق احمد آہن، پروفیسر شریف حسین قاسمی، پروفیسر عراق رضازیدی، ڈاکٹر اطہر فاروقی، اے رحمان، ڈاکٹر اشفاق عارفی، ڈاکٹر شعیب رضا خاں، ڈاکٹر احمد محفوظ، ڈاکٹر نجمہ رحمانی، ڈاکٹر ارجمند، ڈاکٹر نشاں زیدی، ڈاکٹر جاوید رحمانی، ڈاکٹر ادریس احمد، ڈاکٹر سہیل انور، مسعود فاروقی کے علاوہ بڑی تعداد میں اہل علم موجود تھے۔

کتاب’’انیسویں صدی میں، ادب، تاریخ اور تہذیب‘‘ کا اجرا

۲۸ مارچ کو شام چھے بجے پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کی ۸۰ ویں سالگرہ کے موقع پر غالب انسٹی ٹیوٹ میں ایک بڑے جلسے کااہتمام کیاگیا۔ اس تاریخی موقع پر پروفیسر صدیق الرحمن قدوای کے اعزاز میں ترتیب دی گئی کتاب’’انیسویں صدی میں، ادب، تاریخ اور تہذیب‘‘ کا اجرا بہاروہریانہ کے سابق گورنر ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی اور سابق وائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ شاہد مہدی کے دستِ مبارک سے عمل میںآیا۔ اس کتاب کو ڈاکٹراطہر فاروقی، ڈاکٹر رضاحیدراور ڈاکٹر سرورالہدیٰ نے ترتیب دیااو رانجمن ترقی اردو ہند نے شائع کیاہے۔ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی اردو کے اُن ممتاز ادیبوں میں ہیں جن کا انیسویں صدی کی تاریخ، تہذیب، روایت اور ادب پر اہم علمی کام ہے۔ ماسٹر رام چندر پر لکھی ہوئی آپ کی کتاب ادبی دنیامیں دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہیں تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر کتاب کے مرتبین نے پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کی ۸۰ویں سالگرہ کے موقع پر اُن کے اعزاز میں ایک ایسی کتاب ترتیب دی ہے جس میں ۲۲بزرگ ادیبوں اور دانشوروں کے مضامین شامل ہیں۔یہ تمام مضامین ۱۹ویں صدی کی تاریخ، ادب اور تہذیب کا پوری طرح سے احاطہ کرتے ہیں۔ جلسے کی ابتدا میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدر نے کتاب کا تعارف پیش کیااور ڈاکٹر سرورالہدی،شاہد مہدی اور پروفیسر مینجر پانڈے نے پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کی ادبی خدمات پر گفتگو کی۔ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کی ۸۰ویں سالگرہ کے موقع پر انجمن ترقی اردوہند، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، غالب انسٹی ٹیوٹ، دلّی اردو اکادمی ، غالب اکادمی، عالمی اردو ٹرسٹ، ساہتیہ اکادمی، مکتبہ جامعہ، شعبہ اردودلّی یونیورسٹی، شعبہ اردو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ، شعبہ فارسی دلّی یونیورسٹی، شعبہ فارسی جامعہ ملیہ اسلامیہ، ذاکر حسین کالج کے علاوہ دلّی کے دیگر علمی و ادبی اداروں کے سربراہوں کی طرف سے پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کی خدمت میں گلدستہ پیش کیا گیا۔ اس جلسے کی خاص بات یہ تھی کہ دلّی کے سبھی اداروں کے نمائندے موجود تھے اور انہوں نے پروفیر صدیق الرحمن قدوائی کو اظہارِ تہنیت پیش کیا ۔

غالب انسٹی ٹیوٹ میں پروفیسر گوپی چند نارنگ کی کتاب پر مذاکرہ

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام شامِ شہریاراں کے موقع پرممتاز ادیب و دانشور پروفیسر گوپی چند نارنگ کی اہم کتاب ’’غالب ۔معنی آفرینی، جدلیاتی وضع، شونیتااور شعریات‘‘ پر ایک اہم مذاکرے کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے پروفیسر گوپی چند نارنگ کو اُن کی اس تاریخی کتاب پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ نارنگ صاحب نے اس کتاب میں غالبیات کے تعلق سے ہرصفحے میں نئی بات پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سے قبل بھی غالبیات پر بے شمار تنقیدیں لکھی گئیں لیکن پروفیسر نارنگ کے اس علمی کام کو تحقیق و تنقید کی دنیامیں ہمیشہ عزت و احترام کی نظروں سے دیکھاجائے گا۔ اس جلسے کے مہمانِ خصوصی کینیڈاکے معروف ادیب و دانشور ڈاکٹر تقی عابدی نے فرمایاکہ یہ کتاب بے پناہ خصوصیات کی حامل ہے اس کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کا ہرصفحہ غالب سے مربوط ہے۔ پروفیسر نارنگ نے اس کتاب میں غالب کے سومناتی خیال پر بھی گفتگو کی ہے جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ نارنگ صاحب نے اس کتاب میں ۲۱ ابواب قائم کئے ہیں اور اس کا ہر باب فکر انگیز اور معنی خیز ہے۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے یہ بھی فرمایاکہ اس کتاب کا فارسی میں بھی ترجمہ ہونا چاہئے تاکہ ایرانی حضرات بھی اس علمی تحفے سے مستفید ہوسکیں۔ ممتاز نقاد پروفیسر عتیق اللہ نے فرمایاکہ پروفیسر نارنگ نے اس کتاب میں اپنی روشن دماغی کا ثبوت دیاہے۔ انہو ں نے غالب کے ہرشعر کو چیلنج کی طرح قبول کیاہے اور اُس کی عالمانہ تعبیر پیش کی ہے یہی وجہ ہے کہ ہماری ادبی دنیا میں یہ کتاب ایک دستاویز کی حیثیت سے جانی جارہی ہے۔ الٰہ آباد یونیورسٹی کے پروفیسر علی احمد فاطمی نے فرمایاکہ نارنگ صاحب نے اپنی اس کتاب میں غالب کے اشعار کی نئی توجیحات پیش کی ہے جسے پڑھ کر ہمارا دماغ روشن ہوجاتاہے۔ پروفیسر نارنگ نے شونیتا کے فلسفے کو غالب کی شاعری سے جس طرح مربوط کیاہے اُس سے اس کتاب کی وقعت میں مزید اضافہ ہوگیاہے۔ اس کتاب کو لکھ کر پروفیسر گوپی چندنارنگ نے اپنا شماراہم غالب شناسوں میں کرالیاہے۔ پروفیسر شافع قدوائی نے فرمایاکہ پروفیسر نارنگ نے اس کتاب میں غالب کو نئے طریقے سے دریافت کیا ہے۔ غالب نے اپنے کلام میں جس نئی شعریات کو وضع کیاآپ نے اس کتاب میں اُس کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ فلسفہ شونیتاپربھی جس عالمانہ طریقے سے آپ نے گفتگو کی ہے اس سے پہلے اردو دنیامیں اس انداز سے کسی نے گفتگو نہیں کی تھی۔ نظام صدیقی نے فرمایاکہ کتاب کے ہرباب میں پروفیسر نارنگ نے غالب کے اشعار کی جس عالمانہ اندازمیں شرح پیش کی ہے اس سے یہ کتاب غالبیات کی دنیامیں سنگِ میل کی حیثیت کی حامل ہوگئی ہے۔ عالمی اردو ٹرسٹ کے چیرمین جناب اے رحمان نے کہاکہ ہماری ادبی دنیامیں غالبیات کے تعلق سے اتنی اہم اور معنی خیز کتاب کم ہی لکھی گئی ہیں۔ آپ نے یہ بھی فرمایاکہ پروفیسر نارنگ نے شونیتاکے ساتھ ساتھ جدلیاتی وضع کو مفکرانہ اندازمیں واضح کیاہے۔ ساہتیہ اکادمی کے پروگرام آفیسر ڈاکٹر مشتاق صدر نے فرمایاکہ حالی کی ’’یادگارغالب‘‘ کے بعد اگر کسی کتاب نے ہمارے دل و دماغ کو متاثرکیاہے تو وہ نارنگ صاحب کی موجودہ کتاب ہے۔ یہ کتاب اکیسویں صدی کی اُن شہرہ آفاق کتابوں میں سے ایک ہے جس کاہر صفحہ مصنف کے عالمانہ افکار کی ترجمانی کررہاہے۔نوجوان ناقد ڈاکٹر مولیٰ بخش نے فرمایاکہ پروفیسر نارنگ نے اس کتاب میں ہندستان کی پوری تاریح اور فلسفے کے تناظرمیں غالب کی شاعری کودیکھاہے۔ موجودہ دورمیں اس کتاب کی اس لئے بھی اہمیت ہے کہ جہاں ہر طرف ظلم و تشدد کاماحول گرم ہے وہیں یہ کتاب ہمیں روشنی بھی عطا کررہی ہے۔ ڈاکٹر راشدانورراشد نے کہاکہ پروفیسر نارنگ نے اس کتاب میں غالبیات کے چھپے ہوئے اُن گوشوں پر گفتگو کی ہے جس پر ابھی تک کسی کی نظرنہیں گئی تھی۔جلسے کی نظامت کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدرنے ابتدامیں کتاب کاتعارف پیش کرتے ہوئے کہاکہ اس کتاب کاہر صفحہ اور ہر لفظ غالبیات کی ایک نئی بازیافت ہے اس کتاب کا دلچسپ پہلویہ بھی ہے کہ مصنف نے غالب کے اردو اشعار کے ساتھ ساتھ فارسی اشعار پربھی عالمانہ گفتگو کی ہے اور فارسی کے بڑے شعرا فردوسی، رومی اور بیدل کے کلام کے تناظر میں غالب کے کلام کو دیکھنے کی کوشش کی ہے۔اس مذاکرے کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں پروفیسر گوپی چند نارنگ خود موجود تھے اور انہوں نے اس مذاکرے کے لئے غالب انسٹی ٹیوٹ کاشکریہ اداکرتے ہوئے فرمایاکہ یہ مجھ پر ایک قرض تھاجومیں نے اداکردیا۔ اس لئے کہ غالب کو سمجھنا آسان نہیں ہے، غالب پر لکھتے ہوئے میں ہمیشہ ڈرتاہوں کہ ممکن ہے حق ادا نہ ہوسکے۔ آپ نے یہ بھی کہاکہ غالب پرسب سے زیادہ لکھاگیااور سب سے کم غالب کوسمجھا گیا۔ غالب کی شاعری کو پڑھ کر ہندستان کی تہذیب و تاریخ کا علم ہوتاہے کیونکہ غالب کے کلام کی جڑیں اس ملک کے تمام مذاہب کی جڑوں سے ملی ہوئی تھیں۔ غالب کی شاعری شعریت سے بھرپور ہے جس کو حالی نے بھی نیرنگیِ نظر کہاہے۔ مجلس فروغ اردو ادب دوحہ، قطر کے چیرمین محمد عتیق نے بھی اس موقع پر اپنے خیالات کااظہار کیا۔ جناب شاہد ماہلی نے تمام سامعین اور مقررین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے نارنگ صاحب کو اُن کی معرکۃ الآرا کتاب پر مبارک باد پیش کی۔ چار گھنٹے تک چلنے والے اس تاریخی مذاکرے میں دلی اردو اکادمی کے سکریٹری انیس اعظی، محمد شمیم، ڈاکٹر سرورالہدیٰ، ڈاکٹر ابوظہیر ربّانی، ڈاکٹر سہیل انور، ڈاکٹر ادریس احمد، اقبال مسعودفاروقی، محسن شمسی کے علاوہ بڑی تعداد میں اہل علم موجود تھے۔

بین الاقوامی سمینار(یومِ غالب)کا انعقاد

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام ، آغاخان فاؤنڈیشن، انجمن ترقی اردو دلّی و غالب اکیڈیمی کے تعان سے غالب کی یومِ وفات(یومِ غالب) کے موقع پر ’’کلامِ غالب کا تجزیہ‘‘ کے موضوع پرمنعقدبین الاقوامی سمینار کا افتتاح کرتے ہوئے آغاخان فاؤنڈیشن کے چیئرمین پروفیسر آباد احمدنے فرمایاکہ غالب کی غزل کے ساتھ اُن کے خطوط نے بھی ہمیں ردو نثرکاقیمتی سرمایہ دیاہے۔ ہندستان کی تاریخ کو ہم غالب کی نثر کے بغیر نہیں سمجھ سکتے۔ آپ نے اس سمینار کے انعقاد کے لئے غالب انسٹی ٹیوٹ کو مبارک باد پیش کی اور اپنا تعاون پیش کرتے رہنے کاوعدیٰ کیا۔اپنی صدارتی تقریر میں پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی سکریٹری غالب انسٹی ٹیوٹ نے کہاکہ غالب کے اشعارکا کمال ہے کہ اُس کے بے شمار معنی ہم نکال سکتے ہیں۔ غالب کے اشعار کی خوبی ہے کہ ہر محفل میں اُس کے کئی سیاق و سباق سے ہم متعارف ہوتے ہیں۔ آپ نے موضوع کے تعلق سے فرمایاکہ ہمیں اُمید ہے کہ ہمارے اسکالرز اس موضوع کے تعلق سے کلامِ غالب کاتجزیہ مختلف اور نئے انداز میں پیش کریں گے۔ ڈائرکٹر غالب انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹرسید رضاحیدر نے اپنی افتتاحی گفتگو میں کہاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ اور انجمن ترقی اردو دلّی شاخ پچھلے ۴۵برسوں سے غالب کی یومِ وفات کے موقع پر یومِ غالب کا اہتمام کررہاہے۔ اس دفعہ ہم نے اس جلسہ کادائرہ وسیع کردیاہے اور اسے بین الاقوامی سمینار اور عالمی مشاعرہ کی شکل دے دی ہے۔ آپ نے مزید فرمایاکہ غالب کے کلام کااعجاز ہے کہ کلامِ غالب کی آفاقیت یہ ہے کہ دوسوسال کاطویل عرصہ گذرجانے کے بعدبھی غالب کی شاعری ہماری فضاکومعطر کیے ہوئے ہے۔غالب کے کلام کو پڑھ کر یہ احساس ہوتاہے کہ غالب ہماری زندگی سے بے حد قریب ہے۔معروف ادیب و دانشور اور خدابخش لائبریری کے سابق ڈائرکٹرڈاکٹر عابدرضابیدارنے فرمایاکہ غالب کی شاعری کاکمال ہے کہ وہ اپنے اشعار میں ایسا نکتہ پیش کرتے ہیں جو ہماری تہذیب سے بے حد قریب ہے۔ یہ بھی غالب کے کلام کی خوبی ہے کہ اردوپرتو بُراوقت پڑسکتاہے مگر غالب کی شاعری پرنہ کبھی بُراوقت پڑااور نہ پڑے گا۔کینیڈا کے معروف اسکالراور ڈرامہ نگارجاوید دانش نے فرمایاکہ اتنے طویل عرصے کے گذر جانے کے بعدبھی ہم آج بھی غالب یاد کرکے خراجِ عقیدت پیش کررہے ہیں۔ آپ نے یہ بھی فرمایاکہ اس انفارمشین ٹکنالوجی کے د ورمیں بھی غالب فیس بُک اور انٹرنیٹ کی دنیامیں بھی کافی مقبول ہیں۔ غالب امریکہ اورکینڈامیں صرف اردو داں طبقے میں مقبول نہیں ہیں بلکہ ہرپڑھالکھا آدمی غالب کو پڑھتااور سمجھتا ہے۔ اس موقع پر آپ نے غالب کی ایک غزل کاانگریزی ترجمہ بھی پڑھ کر سنایا۔لندن سے تشریف لائے’صددا‘ میگزین کے ایڈیٹر اقبال مرزانے فرمایاکہ انگلینڈ میں رابندرناتھ ٹیگور، اقبال اور غالب بے حد مقبول ہیں اور غالب ان دونوں سے زیادہ مقبول ہیں۔ غالب کے اشعارکی خوبی یہ ہے کہ ہر خاص و عام میں غالب کے اشعار مقبول ہیں۔افتتاہی اجلاس کے اختتام سے پہلے انجمن ترقی اردو دلّی شاخ کے جنرل سکریٹری شاہدماہلی نے تمم مہمانوں کا شکریہ ادا کرکے اس جلسہ کی تاریخی حیثیت پر بھی روشنی ڈالی۔آخر میں الٰہ آباد سے تشریف لائیں معروف غزل سنگر منیرہ خاتون نے غالب کی غزلیں اپنی خوبصورت آواز میں پیش کیں۔اس جلسہ میں علم و ادب کی بے شمار ہستیاں موجود تھیں۔
دو روزہ بین الاقوامی سمینار کے دوسرے دن کے پہلے اجلاس کی صدارت لندن سے تشریف لائے مہمان اسکالراور صدا میگزین کے مدیر ڈاکٹر اقبال مرزا اور انجمن ترقی اردو ہند دہلی شاخ کے جنرل سکریٹری ڈاکٹراطہرفاروقی نے کی اورنظامت کافریضہ ڈاکٹر شعیب رضاخاں نے انجام دیا۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر سہیل انور،ڈاکٹر خالدمبشر، ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب، ڈاکٹر نجمہ رحمانی اور ڈاکٹر مرزاشفیق حسین شفق نے اپنے گراں قدر مقالات پیش کئے۔ ان تمام حضرات نے غالب کی اہم غزلوں کا تجزیہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا۔ اس اجلاس میں کینیڈاکے معروف ادیب و دانشور ڈاکٹر تقی عابدی کامقالہ جے این یو کے ریسرچ اسکالر محمد رکن الدین نے پڑھا۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے اپنے مقالہ میں غالب کی ایک فارسی غزل کا عالمانہ محاکمہ پیش کیا۔ جس کی فاضل مقرر نے خوبصورت قرأت کی۔ سمینارکے دوسرے اجلاس کی صدارت میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، پروفیسر شمیم حنفی اور ازبکستان سے تشریف لائے اسکالر ڈاکٹر سراج الدین نورمتو موجود تھے۔اس اجلاس میں پروفیسر انوارپاشا،ڈاکٹر عشرت ناہید، پروفیسر عتیق اللہ نے اپنا عالمانہ مقالہ پیش کیا۔ اس جلاس کے اہم مقالہ نگار پروفیسر عتیق اللہ غالب کی پہلی غزل کے پہلے شعر پر اپنا پُرمغز مقالہ پیش کیا۔ پروفیسر عتیق اللہ نے اپنے مقالہ میں غالب کے پہلے شعر کاکماحقہ محاکمہ پیش کیا۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر ممتاز عالم نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ سمینار کے آخری اجلاس کی صدارت پروفیسر شریف حسین قاسمی،ڈاکٹر عابد رضابیدار اور کینیڈا کے معروف ڈرامہ نگار ڈاکٹر جاوید دانش نے کی اور اس اجلاس میں پانچ اہم مقالے پیش کئے گئے۔ ڈاکٹر مشتاق صدف ڈاکٹر جمیل اختر، ڈاکٹرکوثر مظہری، ڈاکٹر سراج اجملی اور ڈاکٹر ابوبکر عباد نے اپنے مقالات پیش کئے۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر شگفتہ یاسمین نے نظامت کی۔اس سمینار کی خاص بات یہ تھی کہ تمام مقالہ نگار حضرات نے غالب کی ۲۰ اہم غزلوں کاعالمانہ تجزیہ پیش کیااور اپنے نقطہ نظرکی وضاحت کی۔ اس موقع پر آغاخان فاؤنڈیشن کی امیرخسرو پرلکھی ہوئی خوبصورت کتاب تمام مقالہ نگار حضرات کو تحفتہً پیش کی گئی۔ اس سمینار میں طلبا و طالبات، ریسرچ اسکالرز،اساتذہ اور مختلف علوم و فنون کے ماہرین کثیر تعداد میں موجود تھے۔ سمینارکے بعدایک عالمی مشاعرے کااہتمام کیاگیاجس کی صدارت جناب گلزار دہلوی نے کی۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے دہلی سمبلی کے ایم۔ایل۔اے جناب شعیب اقبال موجود تھے۔ اس مشاعرے میں ملک اور بیرون ملک کے اہم شعرانے شرکت کی۔

یومِ غالب کے موقع پر عالمی مشاعرہ 

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام ، آغاخان فاؤنڈیشن، انجمن ترقی اردو دلّی شاخ و غالب اکیڈیمی کے تعان سے غالب کی یومِ وفات(یومِ غالب) کے موقع پر ’’کلامِ غالب کا تجزیہ‘‘ کے موضوع پرمنعقدبین الاقوامی سمینارکے موقع پر ۱۶؍فروری شام ۶بجے ایوانِ غالب میں عالمی مشاعرہ کابھی انعقاد کیاگیا۔ جس میں ملک اور بیرونِ ملک کے اہم شعرا نے اپنے کلام سے سامعین کومحظوظ کیا۔ اس عالمی مشاعرے کی صدارت عہد حاضر کے بزرگ شاعر جناب گلزار دہلوی نے انجام دی۔ نظامت کا فریضہ جناب معین شاداب نے انجام دیا۔ڈائرکٹر غالب انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹر رضاحیدر نے اس مشاعرے کی تاریخی حیثیت پرروشنی ڈالی۔اس مشاعرہ کا آغاز شاہد ماہلی کی نظم ’’غالب‘‘ سے ہوا۔
رفعتِ فکر و تخیّل کا سراپاکہئے
معنی و ہیئت و اسلوب میں تنہا کہئے
اس مشاعرے میں طلبہ، اساتذہ، اسکالرز، شعراکے علاوہ مختلف علوم و فنون کے افراد بڑی تعداد میں موجود تھے۔ پیش ہیں کچھ شعرا کرام کے منتخب کلام:
تو کہ ہر شخص کا سمجھایا ہوا تُو
کس قدر اور لگا لوٹ کے آیاہوا تو
نسرین،بھٹی (لاہور)
میری پہلو تہی کے بھی نئے پہلو نکل آئے
میں جس در پر بھی دستک دوں وہیں سے تو نکل آئے
زاہد نبی(لاہور)

ہم ان سے کم ہی امید افادہ رکھتے ہیں
غلط ہیں وہ جو توقع زیادہ رکھتے ہیں
ابرار کرتپوری
ہر مسلک ہر مکتب عشق نہیں ہوتا
سب لوگوں کا مذہب عشق نہیں ہوتا
معین شادب
گلزار آبروئے زباں اب ہمیں سے ہے
دلّی میں اپنے بعد یہ لطف سخن کہاں؟
گلزار زُتشی دہلوی
پوچھئے دل سے عشق میں ایسے قدم اٹھائے کیوں
خود ہے بنائے دردِ دل کرتا ہے ہائے ہائے کیوں
متین امروہوی
دہلی سخنوروں کا ہے مرکز مگر میاں
اردو کے کچھ چراغ تو،پنجاب میں بھی ہیں
جتندر پرواز
پسند آئے خدا باعمل فقیر تجھے
پسند نہ آئے ذرا بے عمل امیر تجھے
عارف دہلوی
بدل سکے نہ شب و روز ان کی فطرت کو
گلوں کے ساتھ تھے لیکن وہ خار خار رہے
اقبال مرزا(لندن)
گھرانے پر اثر پڑنے لگا ہے دور حاضر کا
روایت ختم ہوتی جارہی ہے خاندانوں کی
عظمی اختر
فقیری آج تک فطرت ہے میری
حویلی میں بظاہر رہ رہا ہوں
جاوید دانش(کینیڈا)
ہمیں نصیب ہیں صحرا نوردیاں یارو
نہ اپنے گھر کو نہ دیوار و در کو دیکھتے ہیں
سلیم صدیقی
بہت شدت سے یاد آیا بچھڑ جانے پہ اس کے
وہ لمحہ، یہ سفر آغاز جب ہم نے کیا تھا
سراج اجملی
آکے جو اُس نے بسائی دل کی بستی ایک دن
پھر صدا دینے لگا یہ ساز ہستی ایک دن
نسیم نیازی
ساتھ فرعون لے گیا حسرت
لاکھ چاہا مگر خدا نہ ہوا
ماجد دیوبندی
نظر بھی حال مرے دل کا کہہ نہیں پائی
زباں کی طرح مری آنکھ میں بھی لکنت ہے
پروفیسر غضنفر
اب نہ سمجھوتہ کروں گا کبھی رفتار کے ساتھ
پھٹپھٹی میں نے لگادی ہے تری کا رکے ساتھ
اقبال فردوسی
مہکی مہکی چاندنی، جھلمل ندی کاذائقہ
رُخ پہ زلفوں نے دیا خوش منظری کا ذائقہ
ظفر مراد آبادی
ہتک آمیز نظروں سے کوئی دیکھے جہاں ہم کو
قدم رکھنا بھی اس دہلیز پر اچھا نہیں لگتا
وقار مانوی
انجمن ترقی اردو دلّی شاخ کے جنرل سکریٹری شاہد ماہلی نے تمام سامعین کافرداً فرداً شکریہ ادا کیا۔
۔۔

غالب انسٹی ٹیوٹ میں ثروت خان کی کتاب پر مذاکرہ

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام شامِ شہریاراں کے موقع پر معروف افسانہ نگار ڈاکٹر ثروت خان کی کتاب ’’شورشِ فکر‘‘ پر ایک مذاکرے کااہتمام کیا

گیا۔جس کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے ڈاکٹر ثروت خان کی اس اہم کتاب پر انہیں مبارک باد پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ اس کتاب میں جتنے بھی مضامین ہیں اُن میں آپ نے نئے معنی کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے خصوصاً خواتین کے مسائل پر جتنی سنجیدگی سے آپ نے گفتگو کی ہے اس سے مصنف کے نقطۂ نظر کی صحیح ترجمانی ہوتی ہے۔ اس موقع پر پروفیسر عتیق اللہ نے بھی اپنی صدارتی گفتگو میں ثروت خان کی کتاب کے چند نکا ت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ ثروت کی اچھی تنقید کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ا یک بہترین تخلیق کارہیں،اُن کاناول اندھیرا یُگ اُن کی تخلیقی کاوشوں کاایک شاہکار نمونہ ہے اور موجودہ کتاب ’شورشِ فکر‘‘ اُن کی عمدہ تنقید کی خوبصورت مثال ہے۔ مذاکرے کے مہمانِ خصوصی پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کہاکہ اس کتاب میں غالب کی فارسی شاعری پر جو آپ نے گفتگو کی ہے اُسے پڑھ کراندازہ ہوتاہے کہ اردو کے ساتھ ساتھ فارسی ادب پر بھی آپ کی نظر ہے۔ اخترشیرانی پر لکھا ہوا آپ کا مضمون بھی نئی جہتوں کی طرف اشارہ کررہاہے۔ ڈاکٹر نگار عظیم نے اپنی تقریر میں فرمایاکہ ثروت خان کی اس کتاب میں زیادہ تر مضامین تنقیدی ہیں چونکہ وہ ایک اچھی تخلیق کار ہیں لہٰذا انہو ں نے اپنے تنقیدی مضامین میں بھی اہم تخلیقی گوشے پیدا کئے ہیں جس سے اس کتاب کی انفرادیت میں اضافہ ہواہے۔ ڈاکٹر مرزا شفیق حسین شفق نے اپنی پُرمغز گفتگو میں کہا کہ ثروت خان ہماری اُن تخلیق کاروں میں ہیں جنہوں نے ادبی دنیاکو پچھلے دس برسوں میں ۵اہم کتابیں دیں اور یہ تمام کتاب علمی و ادبی دنیا میں اہمیت کی حامل ہیں۔خصوصاً شورشِ فکر اُن کی تنقیدی فکر کی ایک عمدہ کوشش ہے۔ جناب پیغام آفاقی نے کہاکہ ثروت کی اس کتاب کی خاص بات جوقاری کو متوجہ کرتی ہے وہ اُن کے دلائل ہیں وہ اپنی باتوں کو مضبوط دلائل کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔ آپ نے مزید کہاکہ آپ نے راجستھان کے کلچرکوجس خوبی کے ساتھ پیش کیاوہ انہیں کاحصہ ہے اس لئے کہ وہ خود راجستھان کی تہذیب سے وابستہ ہیں۔ ڈاکٹر مولیٰ بخش نے کہاکہ ثروت خان بنیادی طورپر ایک تخلیق کارہیں جو کہ اُن کی بنیادی پہچان ہے مگر اُن کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے تنقیدی مضامین میں بھی بڑی مضبوطی کے ساتھ اپنے نقطۂ نظر کو پیش کرتی ہیں۔ اس کتاب میں عورتوں کی حریت کے مسئلے کو آپ نے بڑی بے باکی اور جرأت مندی کے ساتھ اٹھایاہے۔ جلسے کی نظامت کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدر نے کتاب کاتعارف پیش کرتے ہوئے کہاکہ اس کتاب میں شامل تمام مضامین میں سے میں دو مضامین جو غالب اور انیس پر لکھے گئے ہیں اُن مضامین میں ثروت خان نے انیس کی شاعری میں انسانی رشتو ں کی عظمتوں کو جس اندازمیں پیش کیا ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔ڈاکٹر ثروت خان نے خود اپنی تخلیق کے بارے میں مختصراً اتناکہاکہ خواتین کاقلم مردوں کے قلم کی برابری کرنے کے لئے نہیں اٹھتاکیونکہ گودں کے پالوں سے بھلا کیا مقابلہ بلکہ عورت کافکری نظام تو انسان کا انسان کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک اور استحصال کے خلاف احتجاج کرتاہے۔ یہ استحصال چاہے مردکاہو یا عورت کا، ملک ہو یاقدرت کا، زمین کا ہو یافضا کا استحصال کرنے والے سے سوال بھی کرتا ہے اور جواب بھی مانگتا ہے۔ جس کے بطن سے فکرکا عنصر جنم لے کر سماج کو بیدا رکرتا ہے۔آخرمیں جناب شاہد ماہلی نے تمام سامعین اور ثروت خان کاشکریہ اداکرتے ہوئے فرمایاکہ ہمیں اُمیدہے کہ یہ ثروت خان کی یہ کتاب علمی و ادبی حلقوں میں کافی مقبول ہوگی۔ 


تصویر میں دائیں سے بائیں:۔ڈاکٹر رضاحیدر، ڈاکٹرثروت خان، پروفیسر عتیق اللہ،پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، پروفیسر شریف حسین قاسمی، جناب شاہد ماہلی

غالب انسٹی ٹیوٹ زیراہتمام بین الاقوامی غالب تقریبات کا انعقاد

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام بین الاقوامی غالب سمینار کی افتتاحی تقریب۲۷ دسمبر کوشام چھ بجے منعقدکی گئی جس میں صدر غالب انسٹی ٹیوٹ، پرویز علی احمد کے دستِ مبارک سے غالب انعامات کی تقسیم عمل میں آئی۔ اس موقع پرعہد حاضر کے معروف نقادپروفیسر ابوالکلام قاسمی کوغالب انعام برائے اردو تحقیق و تنقید،فارسی کے ممتاز اسکالرپروفیسر چندرشیکھر کوفخرالدین علی احمدغالب انعام برائے فارسی تحقیق و تنقید،مشہور افسانہ نگارجناب سلام بن رزّاق کوغالب انعام برائے اردو نثر،معروف شاعرجناب مصحف اقبال توصیفی کوغالب انعام برائے اردو شاعری اورملک کے اہم ڈرامہ نگارجناب اقبال نیازی کوہم سب غالب انعام برائے اردو ڈرامہ سے نوازا گیا۔



غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری ،پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کہا کہ آج علی سردار جعفری کویاد کرنا گویااردو کی روشن خیالی کی روایت سے روبرو ہونا ہے۔ اور یہ روایت ہمارے ملک کی سماجی اور تہذیبی زندگی کی ایک پہچان بھی ہے۔ ان کی تمام تحریروں میں اقدارِ آدم کے احترام کاجذبہ موجود ہے۔ وہ پوری زندگی ایک فکر کے ساتھ سرگرم عمل رہے جسے ہم انسانیت کانام دے سکتے ہیں۔
ممتاز ادیب و دانشورپروفیسر شمیم حنفی نے بین الاقوامی غالب سمینارجو’’ترقی پسند شعری روایت اور علی سردار جعفری‘‘ کے موضوع پر منعقد کیااُس کا افتتاح اپنے کلیدی خطبہ سے کیا۔ پروفیسر شمیم حنفی نے فرمایاکہ علی سردار جعفری اُن چند لوگوں میں ہیں جن کی نگاہ اپنی ادبی اور تہذیبی روایت پربہت گہری تھی۔ اُن کے بارے میں یہ بات پوری ذمہ داری سے کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے روایت کے گہرے مطالعے کے بعداپنے لئے اُن عناصر کاانتخاب کیاجو ترقی پسند فکر کواستحکام عطا کرسکتے تھے۔اُن کی نثرکاایک اپنا جادو ہے وہ لوگ بھی جو ان سے اختلاف رکھتے ہیں اُنہیں بھی سردار جعفری کی نثر کی قوت کااحساس ہے اور مجموعی طورپر پورا ادبی معاشرہ اُن کی خدمات کامعترف ہے۔اس بات کا لحاظ بھی رکھا جانا چاہئے کہ علی سردار جعفری کی کئی حیثیتیں ہیں اوراِن حیثیتوں کے درمیان اشتراک کا پہلو بھی ہوسکتا ہے 
مگرضرورت اس بات کی ہے کہ اُن کی ہر ادبی حیثیت پرالگ الگ گفتگو کی جائے تاکہ اُن کے امتیازات کی نشاندہی ہوسکے۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر سید رضاحیدر نے افتتاحی تقریب کی نظامت کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کی سالانہ کارکردگی و ادبی سرگرمیوں کی تفصیلات اور مہمانان کا تعارف پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ یہ ادارہ اپنے علمی ،ادبی،تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیوں کی وجہ سے نہ صرف ہندستان میں بلکہ پوری دنیامیں جانا جاتا ہے۔آپ نے موضوع کے تعلق سے علی سردار جعفری کوخراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ علی سردار جعفری نے ہمیشہ اپنی شاعری کے ذریعے سے انصاف اور آزادی پر زور دیا۔وہ سرحدوں کے قائل نہیں تھے۔انہوں نے اپنی شاعری میں اس عالمگیر حسن کو پیش کیا ہے جوتمام اختلافات کے باوجود مشترک بھی ہے۔۔ اس سلسلے میں اُن کی ایک نظم ’مشرق اور مغرب‘ دیکھی جاسکتی ہے۔آج کی دنیاکوشایدپہلے سے کہیں زیادہ علی سردار جعفری کے افکاروخیالات کی ضرورت ہے۔

صدر غالب انسٹی ٹیوٹ، پرویز علی احمد کے دستِ مبارک سے غالب انسٹی ٹیوٹ کی شائع کردہ نئی مطبوعات ’’حسرت موہانی ۔حیات و خدمات‘‘، ’’دیوان امدادامام اثر‘‘مرتبہ ڈاکٹر سرورالہدیٰ،’’غالب اور عہدِ غالب‘‘ مرتبہ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی،شاہد ماہلی اورڈاکٹر رضاحیدر اور غالب نامہ کے دو اہم شمارے کی رسمِ اجراء بھی عمل میں آئی۔ 
سمینار کی افتتاحی تقریب کے اختتام پرمشہور و معروف غزل سنگر جناب امریش مشرا(ممبئی ) نے غالب کی غزلیں پیش کیں۔


غالب انسٹی ٹیوٹ زیراہتمام بین الاقوامی غالب تقریبات کا دوسرا دن

28 December 2013 
غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام بین الاقوامی غالب سمینار جو’’ترقی پسند شعری روایت اور علی سردار جعفری‘‘ کے موضوع پر منعقد کیاگیاہے کہ اُس کے دوسرے دن کے پہلے اجلاس میں مشہور شاعر جناب مصحف اقبال توصیفی اور پاکستان کے معروف ادیب و دانشور جناب ڈاکٹر مرزاحامدبیگ نے صدارت کی۔ پہلا پرچہ ڈاکٹرعطاء اللہ سنجری کا تھا۔انہوں نے علی سردارجعفری کی شاعری کا تقابل کیرل کے شاعروں سے کیا۔ان میں موجود مماثلت اور اختلافات کودلائل کے ساتھ اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ دوسرا مقالہ ڈاکٹرصالحہ ذرّین کا تھاانہوں نے سردارجعفری کی غزلیہ شاعری کے اہم پہلوؤں کی جانب اشارہ کیا۔ جس میں زندگی ،عشق،غم اور اجتماعی معاشرتی کی اصطلاحوں کاخوب خوب استعمال کیا۔ تیسرا مقالہ اردو کے معروف نقاد ابوالکلام قاسمی نے پیش کیاانہوں نے سردارجعفری اور مارکسی جمالیات کوایک نئے زاویہ سے دیکھنے کی کوشش کی۔ سردار جعفری کے یہاں جمالیات کاجو تصور رہاہے اُس سے مارکسی جمالیات کتنی مماثلت رکھتاہے اس جانب انہو ں نے کچھ اشارے کیے۔ چوتھامقالہ قاضی عبیدالرحمن ہاشمی کاتھاانہوں نے سردارجعفری کی تنقید نگاری سے بحث کی۔اس جلسہ کی نظامت ڈاکٹر ممتاز عالم نے کی۔اور مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے جناب انیس اعظمی موجود تھے۔
دوسر ااجلاس جناب شاہد مہدی اور ڈاکٹر ضیاء الدین احمد شکیب کی صدارت میں انجام پایا۔ اس جلسہ میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے پاکستان کے مشہور اسکالر ناصر عبّاس نیّر نے شرکت کی۔اس جلسہ میں پانچ مقالے پڑھے گئے۔ پہلا مقالا جاوید رحمانی نے سردار جعفری کی ترقی پسند ادب کے حوالے سے پیش کیا۔انہوں نے سردار جعفری کے یہاں فکری لچک نہ ہونے کی شکایت کی۔کشورناہید نے پاکستان میں ترقی پسند 
تحریک کی تاریخ اور وہاں کی سیاست اور ادبی سرگرمیوں سے بحث کی۔

سیاسی جبرکی داستان اورادب پر سنسربورڈ کی مارکاخاص طورسے ذکر کیا۔ تقی عابدی نے ترقی پسند تحریک کوازکارِ رفتہ قرار دیتے ہوئے کہاکہ تحریک توآج بھی قائم ہے لیکن تنظیم ختم ہوچکی ہے۔انہوں نے فیض اور جوش کے حوالے سے ترقی پسند شاعری کامحاکمہ کیا اور اس ضمن میں سردار جعفری کی انفرادیت کواُن کے مرثیہ کے روشنی میں واضح کیا۔ انورمعظم صاحب نے ترقی پسند تحریک ،ترقی پسند شاعری اور ترقی پسندی کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا۔ جس میں انہوں نے ترقی پسند تحریک کو ایک نئے زاویہ سے دیکھنے کی کوشش کی۔خلیق انجم نے اپنا مقالہ علی سردار جعفری کے خطوط کی روشنی میں تحریر کیاتھا۔ انہو ں نے سردار جعفری سے اپنے ذاتی مراسم اورانجمن ترقی اردو کی کارگزاریوں کاذکرخاص طورسے راج بہادرگوڈ کولکھے گئے خطوط کاذکرکیا۔ اپنے صدارتی خطبہ میں ناصر عبّاس نیّر نے ترقی پسند تحریک اورمارکسی تنقید کوالگ الگ کرکے دیکھنے کی سفارش کی۔انہوں نے ترقی پسند جمالیات اور مارکسی جمالیات سے بھی بحث کی۔ شاہد مہدی نے سردار جعفری کے تعلق سے لیے جانے والے کسی بھی فیصلے کوجلد بازی قرار دیا۔ اس جلسہ میں مرزاحامد بیگ کی کتاب ’اردو افسانہ کی روایت‘ کاہندستانی ایڈیشن کی رونمائی ہوئی۔اس جلسہ کی نظامت ڈاکٹر مشتاق صدف نے کی۔ لنچ کے وقفہ کے بعد تیسرا اجلاس پروفیسر معین الدین جینابڑے اور پروفیسر عتیق اللہ کی صدارت میں شروع ہوا۔ اس جلسہ میں مہمانِ خصوصی کے طورپر ڈاکٹر تقی عابدی نے شرکت کی۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر اشفاق عارفی نے انجام دیئے۔پہلا مقالہ ڈاکٹر وسیم بیگم نے سردارجعفری کی تنقید نگاری کے عنوان سے پیش کیا۔اس میں انہوں نے سردار جعفری کی نظریاتی شدت پسندی کوخاص طورسے نشان زد کرنے کی کوشش کی۔ دوسرا مقالہ ڈاکٹر قمرالہدی فریدی نے سردار جعفری کی کتاب لکھنؤ کی پانچ راتیں کی روشنی میں سردار جعفری کی تخلیقی نثراوراسلوب سے بحث کی۔ڈاکٹر علی جاوید نے اپنا مقالہ پیش کرنے کے بجائے اپنے معروضات زبانی طورپرپیش کیے۔اس میں انہو ں نے سردار جعفری سے اپنے اختلافات اوراتفاقات کوپُرزور طریقے سے پیش کیا۔ڈاکٹر علی جاوید کی تقریر میں نظریاتی جبراورسماجی سروکارخاص طورپر زیربحث رہی۔ اس اجلاس کاآخری مقالہ پروفیسر ارتضیٰ کریم نے مجاز کے شعری مجموعہ آہنگ کے مختلف اشاعتوں کے تعلق سے پیش کیا۔ آہنگ کی مختلف اشاعتوں میں متن کی گڑبڑی کی طرف بھی اشارہ کیا۔ پروفیسر معین الدین جینابڑے نے اپنی صدارتی تقریر میں آہنگ کی مختلف اشاعتوں اور اس کی تدوین کے تعلق سے پڑھے گئے پرچے کوتدوین متن کے سیاق میں اہم قرار دیا۔ انہو ں نے سردار جعفری کی سماجی زندگی اور تخلیقی زندگی کوالگ الگ دیکھنے کی کوشش کی۔ پروفیسر عتیق اللہ نے ترقی پسند تنقید کواردوتنقید کا دماغ قرار دیا۔دوسرے دن کا آخری اجلاس جناب انور معظم اور ڈاکٹر توقیر احمدخاں کی صدارت میں شروع ہوا۔ اس میں جناب آصف اعظمی، ڈاکٹر عمیر منظر،ڈاکٹر احمدمحفوظ، جناب زبیر رضوی اور ڈاکٹر کشمیری لال ذاکرنے مقالے پیش کیے۔ اس جلسہ کی نظامت کے فرائض ڈاکٹراحمدمتیاز نے انجام دیے۔ اجلاس کے آخرمیں شرکاء نے پیش کئے گئے پرچوں پر اپنے خیالات کااظہار کیا۔ چوتھے اجلاس کے اختتام کے بعدایوانِ غالب کے پُرشکوہ آڈیٹوریم میں پاکستان کی مشہور شاعرہ کشورناہیدکی صدارت میں عالمی مشاعرہ کا انعقاد ہوا۔جس میں ملک اور بیرونِ ملک کے معروف شعراء نے شرکت کی۔مشاعرہ کی نظامت کے فرائض معین شاداب نے انجام دیئے۔او رمہمانِ خصوصی کی حیثیت سے جناب اسد رضااور جناب شکیل حسن شمسی موجود تھے۔



غالب انسٹی ٹیوٹ زیراہتمام بین الاقوامی غالب تقریبات کا تیسرا دن

29 December 2013 

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام بین الاقوامی غالب سمینار جو’’ترقی پسند شعری روایت اور علی سردار جعفری‘‘ کے موضوع پر منعقد کیاگیاہے کہ اُس کے تیسرے دن کے پہلے اجلاس میں پانچ مقالے پڑھے گئے۔ ڈاکٹر مولیٰ بخش،ڈاکٹر صغیرافراہیم،پروفیسرعلی احمدفاطمی،مرزاحامد بیگ نے سردار جعفری اورترقی پسند شعری روایت کے تعلق سے اپنے مقالے پیش کیے۔ پہلے جلسہ کی صدارت پروفیسر عبدالحق اور ڈاکٹر ناصر عباس نیّر نے کی،نظامت کے فرائض ڈاکٹر ندیم احمد نے انجام دیے۔ اس جلسہ کے مہمانِ خصوصی ڈاکٹر عقیل نے سردار جعفری کے تعلق سے اپنے خیالات کااظہارکیا۔ چائے کے وقفے کے بعد دوسرا اجلاس شروع ہوااس جلسہ میں سات مقالے پڑھے گئے۔ڈاکٹر سرورالہدیٰ نے سردار جعفری کی کتاب ’ترقی پسند ادب‘ کونئے زاویہ سے پڑھنے کی کوشش کی۔جعفری کی نثرانہیں خاص طورپر متاثر کرتی ہے۔انہوں نے کتاب میں موجود بعض بنیادی پہلوؤں کی طرف اشارہ کیااوراس کتاب کی نثر کوسردار جعفری کاکارنامہ قرار دیا۔ خالد علوی نے سردارجعفری پر ہونے والی اعتراضات کے مثبت اور منفی پہلوؤں کی جانب اشارہ کیے اور ایک حد تک انہیں رفع کرنے کی کوشش کی۔ پروفیسر قاضی جمال حسین نے ترقی پسند ادب کا تصور حسن کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیاانہوں نے حسن کی تفہیم فغانی،حافظ،سودااور مجنوں کے افکار سے کرنے کی کوشش کی۔اور اس سلسلے میں پریم چند کے خطبے کوتصور حسن کی تبدیلی قرار دیا۔ انہو ں نے کہاکہ تصور حسن کی تبدیلی کا مطلب تہذیب کی تبدیلی ہے۔پاکستانی اسکالر ناصر عباس نیّر نے سردار جعفری کی فکری اور تنقیدی رویہ کو نوآبادیاتی تصور میں دیکھنے کی کوشش کی۔اس سلسلے میں انہوں نے سردار جعفری کے تنقیدی جذبے کودوجذبی رجحان کانام دیا۔انہو ں نے یہ بھی کہاکہ سردار جعفری کے یہاں کوئی بنیادی تبدیلی تو نہیں آئی مگر انہوں نے اجتہاد کارویّہ ترک نہیں کیا۔لندن سے آئے اسکالر ضیاء الدین احمد شکیب نے سردار جعفری سے اپنے تعلقات اورملاقاتوں کاخوشگوار انداز میں ذکرکیا،یادداشت اورماضی کی یادوں کے سہارے انہوں نے سردار جعفری کی زندگی ،شاعری اور ترقی پسند فکر کونمایاں کرنے کی کوشش کی۔پروفیسر شمیم حنفی نے اپنے صدارتی کلمات میں چندنکات پیش کیے اور یہ درخواست کی کہ نئے طالب علموں کواِن نکات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔اس جلسہ کی صدارت پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی اور پروفیسر شمیم حنفی نے کی۔ ڈاکٹر وسیم راشد نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔محترمہ کشور ناہیدمہمان خصوصی کی حیثیت سے اس جلسہ میں شریک ہوئیں۔آج کا تیسرا اجلاس پروفیسر وہاج الدین علوی اور کشورناہید کی صدارت میں لنچ کے بعد شروع ہوا۔اس جلسہ کی نظامت شگفتہ یاسمین نے کی۔اور مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے مرزاحامدبیگ شریک ہوئے۔ اس جلسہ میں چار مقالے پڑھے گئے۔ ڈاکٹر عمررضانے سردار جعفری کی فکری ارتقاکوان کی مختلف تحریروں اورکتابوں کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی۔ اورسردارجعفری کوایک ارتقاپذیر شخصیت کا نام دیا۔ ابوظہیر ربانی نے بھی سردار جعفری کی ذہنی اور فکری تناظر کوان کی کتابوں میں تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر کاظم نے سردار جعفری کے ڈراموں میں نسوانی کردار کے عنوان سے اپنا پرچہ پیش کیا۔ سردارجعفری کے دس ڈرامے ملتے ہیں جن میں ریڈیائی اورسات اسٹیج ڈرامے ہیں،انہوں نے اسٹیج ڈراموں میں موجود نسوانی کرداروں سے بحث کی اور سردار جعفری کی کردار نگاری اور زبان و بیان کوخاص طورپرقابل ذکرقرار دیا۔ پروفیسر ابنِ کنول نے مشہور ترقی پسند شاعرمخدوم محی الدین کی شاعری اور شخصیت سے بحث کی اور انہیں ایک قد آوارشاعراور نمائندہ عوامی شاعر قرار دیا۔پروفیسر انیس اشفاق نے سردار جعفری کی مرتبہ دیوان میرکواپنا موضوع بنایااور اس کے دیباچہ پر پُرمغز گفتگو کی۔ سردار کے دیباچہ کومیرشناسی کا اہم وسیلہ قراردیا۔چائے کے وقفے کے بعد اختتامی اجلاس شروع ہوا جس میں بیرونِ ملک سے آئے تمام اسکالروں نے سمینار اور غالب انسٹی ٹیوٹ کی خدمات کااعتراف کیا۔ اور اپنے کچھ مشوروں سے نوازا۔ اس نشست میں پروفیسر خواجہ اکرام،پروفیسر اخترالواسع نے مختصر طورپرسمینار کی کامیابی پرانسٹی ٹیوٹ کومبارک باد پیش کی۔ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے تمام مہمانوں،ریسرچ اسکالروں اور مقالہ نگاروں کاخاص طورپرشکریہ ادا کیا۔انہوں نے انسٹی ٹیوٹ کے کارکنان کی ہمت وحوصلہ کی داد دی اور انہیں قابل مبارک باد قراردیاکہ کسی بھی سمینار کی کامیابی کا انحصار اس کے انتظامی عملہ پر ہوتا ہے۔ اس جلسہ کی نظامت انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹرسیدرضاحیدر نے انجام دی۔اورآخرمیں شاہد ماہلی نے تمام لوگوں کاشکریہ ادا کیا۔اور پروگرام کے اختتام کااعلان کیا۔

اختتامی اجلاس کے بعدایوانِ غالب کے پُرشکوہ آڈیٹوریم میں کرشن چندر کا مشہور ڈرامہ ’ایک قلم سڑک کنارے‘ راجیش سنگھ کی ہدایت میں ہم سب ڈرامہ گروپ اور بہروپ آرٹس گروپ نے اسٹیج کیا۔اس سمینار میں ملک اور بیرون ملک کی معزز ہستیاں موجود تھیں خاص طور پر دہلی یونیورسٹی، جواہر لال نہرویونیورسٹی،جامعہ ملیہ اسلامیہ، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی اور علی گڑھ یونیورسٹی کے طلباء اور ریسرچ اسکالر بڑی تعداد میں موجود تھے۔انسٹی ٹیوٹ نے یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرس کواپنی مطبوعات اور سرٹیفیکیٹ سے سرفراز کیا۔ 


غالب انسٹی ٹیوٹ میں عالمی مشاعرہ کا انعقاد

گذشتہ سال کی طرح امسال بھی ۲۹ دسمبر۲۰۱۳ شام سات بجے بین الاقوامی غالب تقریبات کے موقع غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام عالمی مشاعرہ کاانعقاد ایوانِ غالب میں کیاگیا۔ جس میں ملک اور بیرونِ ملک کے اہم شعرا نے اپنے کلام سے سامعین کو نوازا۔ اس عالمی مشاعرے کی صدارت پاکستان کی ممتاز شاعرہ کشورناہید نے انجام دی۔اور مہمانانِ خصوصی کی حیثیت سے ملک کے دواہم اخبارات کے ایڈیٹرجناب اسد رضا اور جناب شکیل حسن شمسی موجود تھے۔ نظامت کا فریضہ جناب معین شاداب نے انجام دیا۔

غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر سیدرضاحیدرنے اپنی افتتاحی تقریر میں اس مشاعرے کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ کایہ مشاعرہ ہندستان کے تمام مشاعروں سے اس لیے منفرد ہے کہ ہم اس مشاعرے میں اُن ہی شعراکو مدعو کرتے ہیں جن کے کلام ملک کے معیاری رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں اوراِن شعراء کے کلام کو علمی و ادبی دنیا میں عزت کی نظروں سے دیکھا جاتاہے۔ اس مشاعرے میں طلبہ، اساتذہ، اسکالرز، شعراکے علاوہ مختلف علوم و فنون کے افراد بڑی تعداد میں موجود تھے۔ پیش ہیں کچھ شعرا کرام کے منتخب کلام:
دل ایک ہے تو کئی بار کیوں لگایا جائے
بس ایک عشق بہت ہے اگر نبھایا جائے
تم سے مل کر سب سے ناطے توڑ لیے تھے
ہم نے بادل دیکھ کے مٹکے پھوڑ لیے تھے
معین شاداب
یہ رات دن جو ابھی بھی بہت وبال کے ہیں
انہیں گذار لو ایام یہ زوال کے ہیں
شمس تبریزی
میں اُس کی بزم ناز میں ہوکر بھی آگیا!
اُلجھا رہا زمانہ عذاب و ثواب میں
افضل منگلوری
جو میرے شانوں روشن ہے میرا اپنا ہے
یہ چہرہ میں نے کسی اور سے خریدا نہیں
شہباز ندیم ضیائی
پوچھئے دِل سے عشق میں ایسے قدم اُٹھائے کیوں
خود ہے بنائے دردِ دل کرتا ہے ہائے ہائے کیوں
متین امروہوی
فنکار ہم ہیں ذہن کی اونچی اڑان ہے
دنیا یہ جانتی ہے ہماری جو شان ہے
بیگم کہو گی ہم کو کہاں تک بُرا بھلا
بس چپ رہو ہمارے بھی منہ میں زبان ہے
ڈاکٹر اعجاز پاپولر
دل میں جب جستجو کے شرارے چلے
میری اُنگلی پکڑ کر ستارے چلے
میرے آگے نہ تھا راستہ کوئی بھی
میرے پیچھے مگر لوگ سارے چلے
چندربھان خیال
اتنے خود ساختہ دیکھے ہیں خدا دنیا میں
’’ ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے‘‘
اسد رضا
ایک لمحے کو سہی ہم بھی کبھی سیراب ہوتے
یہ جو صحرا ہیں مرے اطراف کچھ شاداب ہوتے
کچھ ہمارے دم سے آسودہ ہوئی ہوتی یہ دنیا
ہم کتابِ زندگی میں عافیت کا باب ہوتے
راشد جمال فاروقی(رشی کیش)
بد دعا اُس نے مجھے دی تھی، دعا دی میں نے
اس نے دیوار کھڑی کی تھی، گرادی میں نے
شہپر رسول
سحر و اعجاز میں لازم ہے ذرا فرق رہے
یعنی معصوم نگاہی کو نہ وحشت سے ملا
سراج اجملی
سارے موسم فریب دیتے ہیں
رت کوئی معتبر نہیں آتی
کوئی پوچھے ٹھٹھرتے لوگوں سے
نیند کیوں رات بھرنہیں آتی
شکیل
وہ دونوں خوب عشق کہانی میں کرچکے
اک چہرہ اُن کے بیچ رقیبانہ چاہیے
زبیر رضوی

کچھ یونہی زرد زرد سی ناہید آج تھی
کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کھِلتا ہوا نہ تھا
کشورناہید

ہمیں تو اپنا فسانہ سُنانا ہوتا ہے
تمہارا ذِکر تو بس اِک بہانہ ہوتا ہے
کشمیری لال ذاکر
اپنا شہکار ابھی اے مرے بت گر نہ بنا
دل دھڑکتا ہے مرا تو مجھے پتھر نہ بنا
مصحف اقبال توصیفی
اب ساکینانِ شیش محل کی نہیں خیر
آئینۂ گرہے ہاتھ میں پتھر لئے ہوئے
قیصراعظمی
کسے بتائیں کہ ہم نے تمام عمر عزیز
گذار دی ہے فقط ایک تیری ہاں کے لئے
مہتاب حیدرنقوی
رہے نادان کے نادان ہشیاری نہیں آئی
اداکاروں میں رہ کر بھی اداکاری نہیں آئی
(راشد انورراشد)


صحرا کے سنگین سفر میں آب رسانی کم نہ پڑے
ساری آنکھیں بھرکر رکھنا دیکھو پانی کم نہ پڑے
فرحت احساس
کسی طرح نہ مری نبھ سکی زمانے سے
تمام عمر رہی بات بات پر اَن بَن
شاہد ماہلی

جناب شاہد ماہلی کے اظہارِ تشکّر کے ساتھ مشاعرہ کااختتام ہوا۔

میر مہدی مجروح کی تصنیف ’’گنج غرائب‘‘ کی رسمِ رونمائی

غالب انسٹی ٹیوٹ اوررضالائبریری، رام پور کے زیرِ اہتمام شامِ شہریاراں کے موقع پر میر مہدی مجروح کی تصنیف’’گنج غرائب‘‘ کی رسمِ اجرا کی تقریب میں صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اردو ادب کے حوالے سے رضا لائبریری رامپورکی خدمات پر خوشی کااظہارکیااور لائبریری کے ڈائرکٹر سید محمد عزیز الدین حسین سے امید ظاہر کی کہ اردو دنیامیں یہ ادارہ اہم کردار ادا کرے گااور یہ کتاب اردو ادب میں گرانقدر اضافہ ہے۔ اس موقع پر ’گنج غرائب‘ کی رونمائی بدست سید شاہد مہدی عمل میں آئی۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر رضاحیدر نے کہاکہ میرمہدی مجروح غالب کے شاگرد تھے، مجروح اور غالب کے تعلقات کا عالم یہ تھاکہ آج بھی غالب کی قبر پر جو کتبہ موجود ہے وہ میرمہدی مجروح کاہی لکھاہواہے۔ پروفیسر شہزاد انجم نے رضا لائبریری کی علمی و فکری کاوشوں کو سراہا۔ پروفیسر سید محمد عزیز الدین حسین نے کہاکہ کتاب میں جو پروف کی خامیاں رہ گئی ہیں اسے درست جلد ازجلد کیا جائے گا۔ کتاب کے مرتب ڈاکٹر ظہیر علی صدیقی نے کہاکہ یہ کتاب اس معنو ں میں اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں مجروح کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ شعبۂ فارسی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے صدر پروفیسر عراق رضا زیدی نے کہا کہ گنج غرائب میں تین مخطوطے شامل ہیں، یہ ادب میں بڑا اضافہ ہے، جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کہاکہ مجروح کا یہ کتاب لکھنے کا بنیادی مقصد اخلاق ہے، انہوں نے اخلاقیات پر گفتگو کی ہے۔ اس کتاب میں دو حصے ہیں۔ ایک داستان ہے ایک حصہ مرتب کا ہے، مرتب کے ذریعہ لکھا گیا تبصرہ بھی قابل توجہ ہے۔ شرکاء میں ڈاکٹر خالد علوی، شہباز ندیم ضیائی، متین امروہوی، پروفیسر آرگوپی ناتھ وغیرہ کے علاوہ بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔

Ghalib Awards 2013

غالب انسٹی ٹیوٹ کے ایوارڈ کا اعلان 
غالب انسٹی ٹیوٹ کے ایوارڈکمیٹی کی ایک اہم میٹنگ ۲۶نومبرکو ایوانِ غالب میں پروفیسر صدیق لرحمن قدوائی، سکریٹری غالب انسٹی ٹیوٹ کی صدارت میں ہوئی، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کے علاوہ پروفیسر اسلم پرویز، پروفیسر شریف حسین قاسمی، جناب شاہد ماہلی اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدرمیٹنگ میں موجود تھے۔ اس اہم موقع پر تمام ممبران نے غالب انسٹی ٹیوٹ کے پُروقارغالب انعامات ۲۰۱۳ کے۵اہم انعامات پر فیصلہ کیا۔ اردو کے ممتاز ناقد ودانشور پروفیسر ابوالکلام قاسمی کو اُن کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں فخرالدین علی احمد غالب انعام برائے اردو تحقیق و تنقید سے سرفراز کیا جائے گا۔ فارسی کے نامور اسکالر اوردلّی یونیورسٹی شعبہ فارسی کے صدر پروفیسر چندرشیکھر کو فخرالدین علی احمد غالب انعام برائے فارسی تحقیق و تنقید کے لئے منتخب کیا گیا۔ معروف افسانہ نگار سلام بن رزّاق کا نام غالب ایوارڈ برائے اردو نثر کے لئے طے کیا گیا۔ عہدِ حاضرکے نامور شاعر مصحف اقبال توصیفی کا نام غالب انعام برائے اردو شاعری کے لئے تجویز کیا گیا اور ہم سب غالب انعام برائے اردو ڈرامہ کے لئے مشہور ڈرامہ نگار اقبال نیازی کے نام پر اتفاق ہوا۔ یہ تمام ایوارڈ بین الاقوامی غالب تقریبات کے افتتاحی اجلاس میں ۲۷دسمبرکو مرکزی وزیر کپل سبّل کے دستِ مبارک سے سرٹیفیکٹ،مومنٹو اور ۷۵ہزار روپیہ نقدکے ساتھ عطا کئے جائیں گے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ پچھلے ۴۰ برسوں سے ۲۰۰ سے زائد انعامات اردو وفارسی، ادب، صحافت، ثقافت ، سائنس، اور مختلف میدان میں کام کرنے والے اہم دانشوروں کو اُن کی گرانقدر خدمات کے لئے نواز چکا ہے۔ غالب ایوارڈ کی ایک اہم خاصیت یہ بھی ہے کہ اردو اور فارسی کے اساتذہ، ادبا، شعرا اور نامور ہستیوں کے مشوروں کو مدِّ نظر رکھ کر ایوارڈ کمیٹی انعامات کافیصلہ کرتی ہے۔

new-director-Ghalib-Institute

ڈاکٹر رضاحیدر ،غالب انسٹی ٹیوٹ کے نئے ڈائرکٹر

غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی اور ادارے کے اہم ممبران نے اتفاق راے سے نوجوان اسکالر ڈاکٹر رضاحیدرکواُن کی محنت، صلاحیت اور لیاقت کو دیکھتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کا نیا ڈائرکٹر منتخب کیاہے۔
دلّی یونیورسٹی سے پی۔ایچ۔ڈی کرنے کے بعد ڈاکٹر رضاحیدر نے غالب انسٹی ٹیوٹ جوائن کیاتھا،وہ ریسرچ آفیسر کے عہدے پر فائز تھے اور اب انہیں ترقی دے کر ڈائرکٹر کااہم منصب سونپا گیاہے۔
ڈاکٹر رضاحیدر کی مرتبہ کئی کتابیں منظرِ عام پر آچکی ہیں۔مختلف رسائل و جرائد میں بھی آپ کے مضامین برابر شائع ہوتے رہے ہیں۔دہلی کے علاوہ ہندستان کے مختلف گوشوں میں بھی آپ ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ تصوف پر اُن کی لکھی ہوئی کتاب کو علمی حلقوں میں کافی پسند کیاگیاہے۔ حال ہی میں اُن کی پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی اور شاہد ماہلی کے ساتھ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے شائع ہوئی کتاب ’’غالب اور عہدِ غالب‘‘ تمام علمی حلقوں میں بے حد پسند کی جارہی ہے۔ اس خبرکو سُن کر علمی اور ادبی حلقوں میں کافی خوشی کااظہارکیا جارہاہے اور امید کی جارہی ہے کہ وہ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے اردو زبان و ادب کے فروغ میں اہم رول ادا کریں گے۔ 
غالب انسٹی ٹیوٹ کے سابق ڈائرکٹر جناب شاہد ماہلی کو ادارے کا مشیرِ خاص مقرر کیاگیاہے۔

Dr. Syed Raza Haider Facebook

غالب اور عہدِ غالب کا اجرا

جناب حامد انصاری کے ہاتھوں غالب اور عہدِ غالب کا اجرا

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام، نائب صدرِ جمہوریہ ہند، عزت مآب جناب حامد انصاری کے دستِ مبارک سے اُن کی رہائش گاہ ۶مولانا آزاد روڈ، نئی دہلی میں، فیسر صدیق الرحمن قدوائی، جناب شاہد ماہلی اور ڈاکٹر رضاحیدر کی شاہکار تصنیف ’’غالب اور عہدِ غالب‘‘ کا اجرا عمل میں آیا۔ اس جلسے میں اتراکھنڈ کے گورنر، جناب عزیز قریشی نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔ نائب صدرِ جمہوریہ جناب حامدانصاری نے’’غالب اور عہدِ غالب‘‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایاکہ یہ کتاب،غالب، عہدِ غالب، معاصرینِ غالب اور ہندستان کی تہذیب و ثقافت کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ اس کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں پہلی جنگ آزادی (۱۸۵۷) کے تعلق سے غالب کے جوخطوط ہیں اس کے تناظرمیں بھی گفتگو کی گئی ہے کیونکہ غالب کی زندگی پر ۱۸۵۷ کی جنگ کے اثرات کافی مرتب ہوئے اور وہ دلّی کی تباہی سے بے حد نالاں تھے۔ اس کتاب کے مصنفین کواس شاندار کتاب پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے آپ نے مزید یہ فرمایاکہ اس کتاب سے ہمیں عہدِ غالب کی تاریخ اور تہذیب و ثقافت کو سمجھنے میں کافی مدد ملے گی۔ اردو زبان و ادب کے فروغ کے بارے میں آپ نے کہاکہ موجودہ دور میں اردو کو ترقی مل رہی ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ آنے والے دنو ں میں حالات اور سازگار ہوں گے۔ اتراکھنڈ کے گورنر جناب عزیز قریشی نے غالب انسٹی ٹیوٹ کی سرگرمیوں کی ستائش کرتے ہوئے فرمایاکہ یہ ادارہ اردو زبان و ادب اور غالبیات کے حوالے سے جو کام کررہاہے وہ قابلِ تعریف ہے۔ آپ نے غالب انسٹی ٹیوٹ سے اپنی پرانی یادوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ اس ادارے سے میرا تعلق اُن دنوں سے ہے جب یہ ترقی کے ابتدائی مرحلے میں تھا۔ اس سے قبل غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن نے اپنی استقبالیہ تقریر میں تمام مہمانوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ اب تک غالب ،ان کے عہد ،ان کے معاصرین اور اردو کے اہم مصنفین پر تقریباً تین سو کتابیں شایع کرچکا ہے۔ مگر ہمیں اب تک غالب سے متعلق کسی ایسی کتاب کی کمی محسوس ہوتی تھی جس میں غالب اور ان کے عہدکی زندگی ایسی تصویروں کے ذریعے ایک بار نظروں میں پھر جائے جنہیں کیمرہ آنے سے پہلے کسی نہ کسی طرح بنایاگیا تھا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ذخیرے میں ایسی بہت سی تصویریں محفوظ ہیں جن میں سے چند کو منتخب کیاگیاہے۔ غالب نے کلکتہ کا سفر کیاتھا،راستے میں ،لکھنؤ،بنارس،باندہ، الٰہ آباد، عظیم آباد ،اور ان شہروں سے باہر سرایوں میں ٹھہرے۔ ہم نے ان مقامات کی تصویرں کو حاصل کیا۔ جن میں سے کچھ اس کتاب میں شامل ہیں۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے وائس چیرمین ڈاکٹر پرویز احمد نے فرمایاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ نے بے شماراردو و فارسی اور انگریزی کتابوں کی بھی اشاعت کی ہے جو ہماری ادبی تاریخ میں دستاویز کی حیثیت رکھتی ہیں۔موجودہ کتاب ’’غالب اور عہدِ غالب‘‘ کو آج آپ کے سامنے پیش کرتے ہوئے ہمیں اس لئے بھی خوشی ہورہی ہے کہ یہ کتاب غالب، عہدِ غالب، معاصرینِ غالب، عہدِ غالب کی عمارتوں اور ۱۸۵۷ء کے واقعات کو تصاویر کی روشنی میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ کتاب صرف اردو داں طبقے تک ہی محدود نہ رہے اس لئے ہم نے اِن تمام تصاویر اور واقعات کو انگریزی زبان میں بھی پیش کیا ہے تاکہ یہ ہر خاص و عام میں مقبول ہوسکے۔
جلسے کی نظامت کرتے ہوئے ڈاکٹر رضاحیدر نے کتاب (’’غالب اور عہدِ غالب‘‘) کا تعارف کراتے ہوئے کہاکہ اس کتاب میں غالب اور عہدِ غالب کے ساتھ ساتھ ۱۸ویں صدی کے ہندستان کو خوبصورت تصاویر کی روشنی میں اردو اور انگریزی دونوں زبانو ں میں پیش کیا گیا ہے۔ جلسے کے آخر میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر جناب شاہد ماہلی نے تمام سامعین کاشکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایاکہ ہماری یہ کوشش رہے گی کہ ہم آنے والے دنو ں میں اس سے بھی بہتر علمی تحفہ آپ کے سامنے پیش کرتے رہیں۔ اس جلسے میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ٹرسٹی اور دلّی ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس جناب بدر دُرریز احمد، محسنہ قدوائی، شاہد مہدی، اے رحمان، گلزار دہلوی، ڈاکٹر اطہر فاروقی، آصف اعظمی، فاروق ارگلی، سلیم امروہوی، مسعود فاروقی، ڈاکٹر ادریس احمد، ڈاکٹر سہیل انور، یاسمین فاطمہ، عبدالتوفیق، عبدالواحد کے علاوہ بڑی تعداد میں اہلِ علم تشریف فرما تھے۔

تصویر میں بائیں سے: پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، جناب عزیز قریشی، جناب محمد حامد انصاری، ڈاکٹر پرویز احمد، جناب شاہد ماہلی، ڈاکٹر رضاحیدر

English Hindi Urdu