غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے پروفیسر گوپی چند نارنگ کی ادبی خدمات کے اعتراف میں استقبالیہ
اردو کے معروف نقادودانشور پروفیسر گوپی چند نارنگ کی ادبی خدمات کے اعتراف میں غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے ایک استقبالیہ تقریب کا انعقاد کیاگیا۔ اس موقع پر پروفیسر گوپی چند نارنگ (مقیم حال امریکہ) نے آن لائن شرکت کی۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے کہا کہ اردو میرے لےے ایک بھید بھرا بستہ ہے میں حیران ہوں کہ مجھے سرائیکی، فارسی، ہندی، سنسکرت اور انگریزی زبانیں آتی ہیں لیکن نہ معلوم اس زبان میں کیا جادو ہے کہ مجھے کسی زبان کی طرف ایسی رغبت نہیں جیسی اردو کی طرف ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ اردو غزل نے ۰۲سے زیادہ ممالک کاسفرکیالیکن کسی دوسرے ملک میں ایک ثقافتی مطہرکے طورپر لوگوں کے ذہن میں اپنی جڑیںاس طرح پیدا نہیں کرسکی جیسا ہندستاں میں کیا۔ میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے تمام اراکین اور جلسے میں موجود تمام حاضرین کا تہ دل سے شکرگزار ہوں کہ آپ نے میری اتنی عزت افزائی فرمائی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر جناب سید شاہد مہدی نے کہاکہ پروفیسر گوپی چند نارنگ اردو کے ایسے دانشور ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ شاید ایسا کوئی طالب علم نہ ہوگاجس نے ان سے استفادہ نہ کیاہواور کوئی ایسا ادیب نہ ہوگاجس نے ان سے تعلق پر فخر نہ کیاہو۔ انہوں نے اردو میں بہت کچھ لکھااور جو کچھ لکھااس میں بڑی تازگی اور بصیرت ہے۔کملیشور صاحب نے کہاتھاکہ ہر ہندستانی زبان کو ایک گوپی چند نارنگ کی ضرورت ہے۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمدنے تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے کہاکہ غالب انسٹی ٹیو کی روایت رہی ہے کہ وہ بزرگ ادیبوں کی خدمات کے اعتراف میں استقبالیہ تقریب کا انعقاد کرتاہے۔ قاضی عبدالودود، آل احمد سرور، مالک رام اور شمس الرحمن فاروقی جیسی علمی شخصیات اس خوبصورت روایت کاحصہ بن چکی ہیں۔ اس مرتبہ ہمیں خوشی ہے کہ ہم یہ جلسہ پروفیسر نارنگ صاحب کی علمی خدمات کے اعتراف میں منعقد کر رہے ہیں،نارنگ صاحب اس دور کے اردو کے ممتاز ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں، انہوں نے جو کچھ لکھا اس میں بڑی بصیرت اور ریاضت شامل ہے، میں اپنی جانب سے اور انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے ان کا اور تمام مقررین اور حاضرین کاشکرگزار ہوں کہ آپ نے اس استقبالیہ میں شرکت منظور فرمائی۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کہاکہ پروفیسر گوپی چند نارنگ سے میرے دیرینہ مراسم ہیںاور میںنے انہیں علمی سفرمیں ہمیشہ تازہ دم دیکھا۔ انہوں نے ہمیشہ ریاضت پر بھروساکیااور شخصی تنقید سے گریزکیا۔ یہی سبب ہے کہ آج پوری دنیا میں جہاںجہاں اردو بولی اور پڑھی جاتی ہے ان کا نام بطور رہنما لیا جاتاہے۔ جناب سیفی سرونجی نے کہاکہ میں زندگی میں ایسا شخص نہیں دیکھاجو اردو سے ٹوٹ کے محبت کرتاہو۔وہ بڑے عالم ہی نہیں بڑے انسان بھی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ نارنگ صاحب بولیں تو منھ سے پھول جھڑتے ہیں میں کہتاہوںکہ پھول ہی نہیں پھل بھی جھڑتے ۔ اردو میں پھولوں کی بارش تو بہت ہوتی ہے ایک ایسے شخص کی بھی ضرورت تھی جس کے یہاں پھلوں کی بارش ہواور اب شخص نارنگ صاحب کی صورت میں ہمارے یہاں موجود ہے۔ پروفیسر شافع قدائی نے کہاکہ بڑا آدمی وہی ہوتاہے جوایسی بات کہتاہے جو سب سے ہٹ کر ہواور بصیرت میں جلا پیدا کرے۔ یہ وصف نارنگ صاحب کے یہاں بخوبی موجود ہے۔ مثلاً پریم چند اردو اور ہندی کے سب سے مقبول افسانہ نگار ہیں ان پر شاید ہی کوئی ناقد ہو جس نے مضمون نہ لکھا ہو۔ ان کے افسانے کفن کا بہت ذکر ہوتاہے اور کفن کی الگ الگ تعبیریں کی جاتی ہیں، لیکن نارنگ صاحب نے یہ نکتہ پیداکیاکہ بدھیاکے شکم میں جوبچہ تھاجواصل میں گہوارہ ہوناچاہےے تھالین وہی اس بچے کا کفن بن گیا۔ اسی طرح غالب ایک ایسا موضوع ہے جو سب سے زیادہ عام ہے لیکن نارنگ صاحب نے اس موضوع میں نئے گوشے اور نئے پہلو سے گفتگو کی۔ پروفیسر شہزاد انجم نے کہاکہ مجھے نارنگ صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملاہے اور انہوں نے مجھے کئی سطح پر بہت متاثر کیامثلاً وہ جید عالم ، بہترین مقرر اور اچھے منتظم ہیں۔ انہوں نے جس ادارے کی باگ ڈور سنبھالی اسے بام عروج پر پہنچا دیا۔ مجھے اردو میں تین مقررین نے بہت متاثرکیاجن میں علی سردار جعفری، پروفیسر آل احمد سرور اور گوپی چند نارنگ شامل ہیں۔ اردو میں بے شمار سمینار اور مذاکرے ہوئے ہیں لیکن پروفیسر نارنگ نے جن سمینار کا انعقاد کیاوہ آج بھی بطور حوالہ یاد کےے جاتے ہیں۔ وہ ایک صاحب اسلوب ادیب ہیں اگر ان کی کتاب کا ایک پیراگراف نکال کرالگ سے پڑھاجائے تو اندازہ ہوجائے گاکہ وہ نارنگ صاحب کی نثر ہے۔
اس موقع پر غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے پروفیسر گوپی چند نارنگ کو سپاس نامہ، شال، مومنٹو اور پچاس ہزار روپے کا چیک پیش کیا گیاجس کو ان کی غیر موجودگی میں جناب موسیٰ رضا صاحب نے حاصل کیا۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے سہ ماہی انتساب اور ماہنامہ عالمی زبان کی چیف ایڈیٹر محترمہ استوتی اگروال صاحبہ کو اردو میں نمایاں کارکردگی اور ۰۱ویں کلاس میں اردو مضمون میں ۵۹فیصد نمبر حاصل کرنے کے لےے اردو دنیا کی جانب سے ایک سال اور گلدستہ پیش کیااور انہیں روشن مستقبل کے لےے دعائیں دی۔ اس اجلاس میں اردو کی بڑی نامور شخصیات کے علاوہ دیگر علوم و فنون سے تعلق رکھنے والے افراد اور طلبانے بڑی تعداد میں شرکت فرمائی۔
تصویرمیں ڈائس پربائیں سے سیفی سرونجی،ڈاکٹرادریس احمد، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی،جناب شاہد مہدی،پروفیسر شافع قدوائی اور پروفیسر شہزاد انجم
From left to right are Dr. Dris Ahmed, Mr. Saifi Saronji, Prof. Sadik-ur-Rehman Kidwai, Mr. Shahid Mehdi, Prof. Shafi Qadwai, and Prof. Shehzad Anjum.
تصویرمیں ڈائس پربائیں سے ڈاکٹرادریس احمد،سیفی سرونجی، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی،جناب شاہد مہدی،پروفیسر شافع قدوائی اور پروفیسر شہزاد انجم