موجودہ دور میں غالب جیسے بڑے شاعر کو یادکرنا بے حد ضروری ہے :ڈاکٹر گرجا ویاس۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام وزارتِ ثقافت ،حکومتِ ہند اور ادبی سنگم، اودے پور کے زیرِ اہتمام اودے پور کا اہم ادبی، ثقافتی مرکز کمبھا سبھا گار میں غالب کا تصورِ نشاط و غم کے عنوان سے۵،۶ مئی کو دودنوں کا قومی سیمنار منعقد کیا گیا ۔اس سمینار کی صدارت کرتے ہوئے سابق مرکزی وزیر ڈاکٹر گرجا ویاس نے فرمایا کہ پوری دنیا میں ہمارے ادیب و شاعر غالب پر لکھ رہے ہیں اور گفتگو بھی کر رہے ہیں مگر آج بھی ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ اب بھی غالب کی شاعری پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ جب میں طالبِ علم تھی تو میں نے دیوانِ غالب کو پڑھنے کے لئے اپنی کلاس تک چھوڑ دیتی تھی ۔ہم جیسے سیاست دانوں کو بھی ہر وقت غالب کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم جب بھی پریشانیوں میں مبتلا ہوتے ہیں تو غالب کو اپنے سے قریب پاتے ہیں ۔غالب نے اپنے عہد ہی میں نئے ہندوستان کی تصویر دیکھ لی تھی جس کا اظہار وہ اپنے خطوط اور شاعری میں برابر کرتے ہیں۔آپ نے مزید کہا کہ جب بھی میں دیوانِ غالب کا مطالعہ کرتی ہوں تو میرا یہ جی چاہتا ہے کہ میں اس دیوان کو پڑھتے پڑھتے ہی اس دنیا سے نکل کر دوسری دنیا میں چلی جاؤں۔ راجستھان کے معروف ماہرِ تعلیم اور سائنس کے پروفیسر جے کے تاء لیہ نے فرمایا کہ غالب کے کلام کو پڑھنا ہم اپنے لئے باعثِ عزت سمجھتے ہیں۔ اپنے ذاتی تجر بات کو بیان کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ جب ہم کالج میں غالب کو پڑھتے تھے تو ہمیں یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ غالب کس مذہب سے تعلق رکھتے تھے بس ہم اتنا جانتے تھے وہ ایک عظیم شاعر تھے اور ہر وقت ہماری زندگی کے قریب تھے ۔آج کی نوجوان نسل موڈرن ٹیکنولوجی سے وابستہ ہے مگر غالب کے اشعار کو پڑھنا اپنے لئے باعثِ فخر سمجھتی ہے۔ سمینارکا کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے الہ آباد یونیورسٹی کے پروفیسر علی احمد فاطمی نے کہا کہ ’’غالب مشکل ، نازک اور پیچیدہ شاعر تھے، اُن کی زندگی تضادات و تصادمات کا شکار رہی اور یہی تضادات اُن کی شاعری میں بھی نظر آتے ہیں۔اُن کے یہاں غم بھی ہے نشاط بھی ، اُن کے یہاں ماضی کا کرب بھی ہے اور مستقبل شناسی بھی ،غالب کے یہاں مسجد بھی ہے اور کلیسا بھی ،مشرق بھی ہے اور مغرب بھی ، غالب کے یہاں انتشار و اضطراب کا ایک سیلاب ہے لیکن وہ اس کو اپنے مخصوص تخلیقی وجدان میں ڈھال کر تصورِ نشاط و جمال میں بدل دیتے ہیں۔
معروف دانشور ریاض تحسین نے فرمایا کہ ’’اودے پور کی سر زمین پر پہلی مرتبہ اتنے بڑے پیمانے پر غالب کو یاد کیا جا رہا ہے اس کے لئے میں غالب انسٹی ٹیوٹ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر رضا حیدر نے اپنے استقبالیہ کلمات میں فرمایا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ کے مقاصد میں یہ بھی ہے کہ ہم ملک کے مختلف شہروں میں غالب کو یاد کریں ،اودے پور میں غالب کو یاد کرنے کا مقصد اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔موجودہ دور میں غالب کو یاد کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ غالب ہماری تہذیب ،ہمارے ادب اور ہماری ثقافت کا ایک بڑا سمبل ہے لہذا ہماری کوشش ہوگی کہ ملک کے ہر شہر میں غالب کو یاد کرکے اس عظیم شاعر کو خراجِ عقیدت پیش کریں۔
سمینار کی کنوینر اور اہم ناول نگار ڈاکٹر ثروت خان نے پورے جلسے میں نظامت اور اظہارِ تشکر کا فریضہ انجام دیتے ہوئے کہا کہ اودے پور جیسے تاریخی اور ثقافتی شہر میں ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کے ذریعے غالب کو خراجِ عقیدت پیش کرنا ہمارے لئے کسی خواب سے کم نہیں ہے جب بھی اودے پور کی ثقافتی تاریخ لکھی جائے گی مورخ اس جلسے کا ذکر ضروری کرے گا جس کے لئے ہم غالب انسٹی ٹیوٹ کے ہمیشہ شکر گزار رہیں گے۔
اس افتتاحی اجلاس کے اختتام سے پہلے ممتاز غزل سنگر پروفیسر پر یم بھنڈاری نے غالب کی خوبصورت غزل گا کر ماحول کو خوش گوار بنایا۔ ۶ مئی کو صبح ۱۰ بجے سے شام ۶ بجے تک سمینار کا ادبی اجلاس منعقد کیا گیا جس میں ڈاکٹر خالد علوی، ڈاکٹر حسین رضا حان، ڈاکٹر محمد حسین،ڈاکٹر تسنیم خانم،ڈاکٹر شاہد پٹھان،ڈاکٹر حسن آرا، ڈاکٹر شبنم خان،ڈاکٹر سعید روشن،ہریش تلریجا،ڈاکٹر شیبا حیدر ،ڈاکٹر شہناز یوسف،ڈاکٹر ثروت خان ، محمد شاہد زیدی، محمد شاکر کے علاوہ مختلف اساتذاہ نے موضوع کے تعلق سے مقالہ خوانی کی۔خصو صاً ڈاکٹر خالد علوی نے جلسے کی صدارت اور مقالہ خوانی میں نہایت ہی پُر مغز اور علمی گفتگو کی ۔اختتامی اجلاس میں جگمال سنگھ ،(مہاراول،بانس واڑا) پروفیسر جے کے تاء لیہ،پریتا بھارگو(ڈی، ائی، جی ) ،پرسنّا کھمیسرا( ڈی، ائی، جی) اور مشتاق چنچل نے اظہارِ خیال کیا ۔ان دو دنوں کے جلسوں میں اودے پور کی اہم سیاسی ،سماجی شخصیات کے علاوہ بڑی تعداد میں اساتذاہ ، صحافی،ڈاکٹرس کے علاوہ مختلف علوم و فنون کے اہلِ علم موجود تھے۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام وزارتِ ثقافت ،حکومتِ ہند اور ادبی سنگم، اودے پور کے زیرِ اہتمام اودے پور کا اہم ادبی، ثقافتی مرکز کمبھا سبھا گار میں غالب کا تصورِ نشاط و غم کے عنوان سے۵،۶ مئی کو دودنوں کا قومی سیمنار منعقد کیا گیا ۔اس سمینار کی صدارت کرتے ہوئے سابق مرکزی وزیر ڈاکٹر گرجا ویاس نے فرمایا کہ پوری دنیا میں ہمارے ادیب و شاعر غالب پر لکھ رہے ہیں اور گفتگو بھی کر رہے ہیں مگر آج بھی ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ اب بھی غالب کی شاعری پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ جب میں طالبِ علم تھی تو میں نے دیوانِ غالب کو پڑھنے کے لئے اپنی کلاس تک چھوڑ دیتی تھی ۔ہم جیسے سیاست دانوں کو بھی ہر وقت غالب کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم جب بھی پریشانیوں میں مبتلا ہوتے ہیں تو غالب کو اپنے سے قریب پاتے ہیں ۔غالب نے اپنے عہد ہی میں نئے ہندوستان کی تصویر دیکھ لی تھی جس کا اظہار وہ اپنے خطوط اور شاعری میں برابر کرتے ہیں۔آپ نے مزید کہا کہ جب بھی میں دیوانِ غالب کا مطالعہ کرتی ہوں تو میرا یہ جی چاہتا ہے کہ میں اس دیوان کو پڑھتے پڑھتے ہی اس دنیا سے نکل کر دوسری دنیا میں چلی جاؤں۔ راجستھان کے معروف ماہرِ تعلیم اور سائنس کے پروفیسر جے کے تاء لیہ نے فرمایا کہ غالب کے کلام کو پڑھنا ہم اپنے لئے باعثِ عزت سمجھتے ہیں۔ اپنے ذاتی تجر بات کو بیان کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ جب ہم کالج میں غالب کو پڑھتے تھے تو ہمیں یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ غالب کس مذہب سے تعلق رکھتے تھے بس ہم اتنا جانتے تھے وہ ایک عظیم شاعر تھے اور ہر وقت ہماری زندگی کے قریب تھے ۔آج کی نوجوان نسل موڈرن ٹیکنولوجی سے وابستہ ہے مگر غالب کے اشعار کو پڑھنا اپنے لئے باعثِ فخر سمجھتی ہے۔ سمینارکا کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے الہ آباد یونیورسٹی کے پروفیسر علی احمد فاطمی نے کہا کہ ’’غالب مشکل ، نازک اور پیچیدہ شاعر تھے، اُن کی زندگی تضادات و تصادمات کا شکار رہی اور یہی تضادات اُن کی شاعری میں بھی نظر آتے ہیں۔اُن کے یہاں غم بھی ہے نشاط بھی ، اُن کے یہاں ماضی کا کرب بھی ہے اور مستقبل شناسی بھی ،غالب کے یہاں مسجد بھی ہے اور کلیسا بھی ،مشرق بھی ہے اور مغرب بھی ، غالب کے یہاں انتشار و اضطراب کا ایک سیلاب ہے لیکن وہ اس کو اپنے مخصوص تخلیقی وجدان میں ڈھال کر تصورِ نشاط و جمال میں بدل دیتے ہیں۔
معروف دانشور ریاض تحسین نے فرمایا کہ ’’اودے پور کی سر زمین پر پہلی مرتبہ اتنے بڑے پیمانے پر غالب کو یاد کیا جا رہا ہے اس کے لئے میں غالب انسٹی ٹیوٹ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر رضا حیدر نے اپنے استقبالیہ کلمات میں فرمایا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ کے مقاصد میں یہ بھی ہے کہ ہم ملک کے مختلف شہروں میں غالب کو یاد کریں ،اودے پور میں غالب کو یاد کرنے کا مقصد اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔موجودہ دور میں غالب کو یاد کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ غالب ہماری تہذیب ،ہمارے ادب اور ہماری ثقافت کا ایک بڑا سمبل ہے لہذا ہماری کوشش ہوگی کہ ملک کے ہر شہر میں غالب کو یاد کرکے اس عظیم شاعر کو خراجِ عقیدت پیش کریں۔
سمینار کی کنوینر اور اہم ناول نگار ڈاکٹر ثروت خان نے پورے جلسے میں نظامت اور اظہارِ تشکر کا فریضہ انجام دیتے ہوئے کہا کہ اودے پور جیسے تاریخی اور ثقافتی شہر میں ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کے ذریعے غالب کو خراجِ عقیدت پیش کرنا ہمارے لئے کسی خواب سے کم نہیں ہے جب بھی اودے پور کی ثقافتی تاریخ لکھی جائے گی مورخ اس جلسے کا ذکر ضروری کرے گا جس کے لئے ہم غالب انسٹی ٹیوٹ کے ہمیشہ شکر گزار رہیں گے۔
اس افتتاحی اجلاس کے اختتام سے پہلے ممتاز غزل سنگر پروفیسر پر یم بھنڈاری نے غالب کی خوبصورت غزل گا کر ماحول کو خوش گوار بنایا۔ ۶ مئی کو صبح ۱۰ بجے سے شام ۶ بجے تک سمینار کا ادبی اجلاس منعقد کیا گیا جس میں ڈاکٹر خالد علوی، ڈاکٹر حسین رضا حان، ڈاکٹر محمد حسین،ڈاکٹر تسنیم خانم،ڈاکٹر شاہد پٹھان،ڈاکٹر حسن آرا، ڈاکٹر شبنم خان،ڈاکٹر سعید روشن،ہریش تلریجا،ڈاکٹر شیبا حیدر ،ڈاکٹر شہناز یوسف،ڈاکٹر ثروت خان ، محمد شاہد زیدی، محمد شاکر کے علاوہ مختلف اساتذاہ نے موضوع کے تعلق سے مقالہ خوانی کی۔خصو صاً ڈاکٹر خالد علوی نے جلسے کی صدارت اور مقالہ خوانی میں نہایت ہی پُر مغز اور علمی گفتگو کی ۔اختتامی اجلاس میں جگمال سنگھ ،(مہاراول،بانس واڑا) پروفیسر جے کے تاء لیہ،پریتا بھارگو(ڈی، ائی، جی ) ،پرسنّا کھمیسرا( ڈی، ائی، جی) اور مشتاق چنچل نے اظہارِ خیال کیا ۔ان دو دنوں کے جلسوں میں اودے پور کی اہم سیاسی ،سماجی شخصیات کے علاوہ بڑی تعداد میں اساتذاہ ، صحافی،ڈاکٹرس کے علاوہ مختلف علوم و فنون کے اہلِ علم موجود تھے۔
मिर्जा गालिब पर दो दिवसीय सेमीनार
गालिब इंस्टीट्यूट नई दिल्ली, मिनिस्ट्री ऑफ कल्चर भारत सरकार एवं अदबी संगम उदयपुर के संयुक्त तत्वावधान में गालिब का तसव्वुर ए निशात ओ गम विषयक दो दिवसीय राष्ट्रीय सेमिनार सरदारपुरा स्थित कुंभा भवन में प्रारम्भ हुई। इस अवसर पर इंस्टीट्यूट के निदेशक रज़ा हैदर ने बताया कि गालिब और उनकी शेरो-शायरियों को घर-घर पहुंचाने एवं आज के युवाओं को उनके व्यक्तित्व व कृतित्व से रूबरू करवाने के उद्देश्य से यह इंस्टीट्यूट देश के विभिन्न शहरों में ऐसे आयोजन करता है। उसी कड़ी में उदयपुर में भी आज से यह दो दिवसीय सेमीनार प्रारम्भ हुई है। मौजूदा वक्त मे गालिब को समझना बेहद जरूरी है। इसलिये कि गालिब हमारी सांझी विरासत व मिली-जुली तहज़ीब का सबसे बड़ा सिम्बल है।
https://udaipurtimes.com/hindi/city-news/seminar-on-mirza-ghalib/